WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

ہم جشن یوم جمہوریہ کیوں مناتے ہیں؟از:محمّدشمیم احمدنوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان

ہم جشن یوم جمہوریہ کیوں مناتے ہیں؟از:محمّدشمیم احمدنوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان

)

بلاشبہ وطن عزیز [ہندوستان] کی تاریخ میں دو دن بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں, ایک 15اگست [یوم آزادی]جس دن ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی سے آزادہوا, دوسرا 26جنوری[جسے یوم جمہوریہ یا ری پبلک ڈے Republic Day یا گن تنتر دِوس کہا جاتا ہے] جس دن ملک جمہوری ہوا, یعنی اپنےملک میں اپنےلوگوں پراپناقانون لاگو ہوا-
آزادہندوستان کااپنادستور بنانے کیلئےڈاکٹر بهیم راؤ امبیڈکرکی صدارت میں29اگست 1947کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس کوملک کاموجوده دستورمرتب کرنےمیں 2سال 11ماه اور18دن لگے, دستورسازاسمبلی کےمختلف اجلاس میں اس نئےدستورکی ہراک شق پر کهلی بحث وتمحیص ہوئی،پھر 26 نومبر1949کواسےقبول کرلیاگیا, اور24جنوری 1950 کوایک مختصر اجلاس میں تمام ارکان نےنئےدستور پردستخط کیا, اور 26جنوری 1950 کو اس نئےقانون کولاگوکرکے پہلا “یوم جمہوریہ” منایاگیا،[اسی دستور اور آئین کی بنیاد پر اپنے ملک کو جمہوری ملک کہاجاتاہے]اب ہرسال تمام باشندگانِ ہند وبرادرانِ وطن 26جنوری کو “یوم جمہوریہ “کے طور پرپورے جوش وخروش اور دھوم دھام کے ساتھ مناتے ہیں اور15اگست 1947کی طرح یہ تاریخ بهی ملک کا قومی اوریادگاری دن بن گئی-
26جنوری کوجشن کےطور پہ کیوں مناتے ہیں؟ توآئیے تاریخ کےاوراق کامشاہدہ کرتےچلیں, جشن کایہ دن ہندوستانیوں کو یونہی نہیں ملا,اس کیلئےبڑی بڑی قربانیاں دینی پڑیں,لاکھوں جانوں کےنذرانےپیش کرنے پڑے,تب جاکر 26جنوری کو جشن منانے کایہ زریں موقع ہندوستانیوں کو نصیب ہوا, انگریزوں کاپہلاقافلہ1601 میں دورجہانگیری میں ہی ہندوستان آیاتها ,اس حساب سے ہندوستان سےانگریزوں کاانخلاء 1947میں 346سال بعد ہوا, اس دوران ظلم وبربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئ جس کاہرصفحہ ہندوستانیوں کےخون سے لالہ زارہے، جذبۂ آزادی سےسرشار اورسرپرکفن باندھ کروطن عزیز اوراپنی تہذیب وتمدن کی بقاء کیلئے بےخطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں جہاں ہمارے دیگر برادارنِ وطن نے حصہ لیا وہیں مسلمان کسی سے پیچھے نہیں رہے بلکہ مسلمان سب سے پیش پیش تھے,جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں اگر الگ کردی جائیں توہندوستان کی آزادی کی تاریخ کبھی مکمل ہی نہ ہوگی،بہرحال 26جنوری 1950 میں ہندوستان نے اپنے لیے جو دستور مقرر کیا اس کے آغاز میں ہی ایک بہت ہی خوبصورت جملہ لکھا گیا ہے”ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لئے سماجی، معاشی،سیاسی،انصاف،آزادئِ خیال، اظہاررائے،آزادئِ عقیدہ ومذہب وعبادات،مواقع اور معیار کی برابری، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے اور ملک کی سالمیت ویکجہتی کو قائم ودائم رکھا جائے گا”
یقیناً دستور ہند کی سب سے اہم اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں ملک کے تمام مذاہب و نظریات رکھنے والوں کو اس بات کی مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ ملک میں اپنے اپنے مذہب پر عمل کر سکتے ہیں، اپنےجائز افکار و نظریات کی تبلیغ وترسیل کر سکتے ہیں، اپنے تشخصات و روایات کے ساتھ ملک میں اطمینان و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں، اپنی زبان، تہذیب، کلچر و ثقافت پر عمل کرنے میں مکمل آزاد ہیں،کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے مذہب، اس کی تہذیب، زبان اور ثقافت سے چھیڑچھاڑ کرے، اس کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنائے یا اس کے پرسنل لا سے چھیڑچھاڑ کرے،اس اعتبار سے “ھندوستانی جمھوری نظام” ایک بہترین نظام ہے، اس میں مختلف افکار و خیالات اور تہذیب و تمدن کے لوگ بستے ہیں،ہندوستان ایک ایساجمہوری ملک ہے جہاں مختلف زبان، مذاہب،ذات،رنگ ونسل اور رسم ورواج کے چاہنے والے رہتے ہیں،صدیوں سے یہاں گنگا جمنی تہذیب وتمدن کی فضا رچی بسی ہے،دوستی، محبّت،بھائی چارگی، یکجہتی،مساوات واخوت یہاں کی خاص پہچان ہے، 26 جنوری کو اسی دستور و آئین کی تائید میں اور کثیر المذاہب ملک ہونے کے باوجود باہمی یکجہتی اور میل جول کے اس عظیم ملک ہندوستان کی جمہوریت پر ناز کرنے کے لیے “جشن یوم جمہوریہ” مناکر ملک کی آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں اور ملک کے آئین کے بانی و مرتبین کو بہترین خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے،اور اس دن پورے ملک میں ہر جگہ سرکاری چھٹی رہتی ہے اور تعلیم گاہوں اور سرکاری اداروں میں “جشن یوم جمہوریہ” کا پروگرام منعقد کی جاتی ہے،تمام صوبوں میں مرکزی مقامات پر تقاریب کاانعقاد کیاجاتاہے،اور ساتھ ہی ساتھ ثقافتی پروگرام کا بھی اہتمام ہوتاہے،لوگ جوق درجوق گھروں سے باہر آجاتے ہیں،مدارس اسلامیہ،اسکول، کالج،چوراہوں، سرکاری ونجی عمارتوں پرقومی پرچم لہرائے جاتے ہیں،رہائشی علاقوں،ثقافتی اداروں اور معاشرتی انجمنوں کے زیراہتمام تفریحی پروگرام تو انتہائی شاندار طریقے سے منائے جاتے ہیں،مساجد ومدارس میں ملک وقوم کی ترقی وخوشحالی اور آپسی بھائی چارہ، نیز بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہِ راست پر آنے کی توفیق اور سلامتی کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں، حبّ الوطنی پر مشتمل ترانے پڑھےجاتے ہیں، راشٹریہ گیت گایا جاتا ہے،سیکولرازم کے عنوان پر بیانات ہوتے ہیں،اور ہمارے مفکرین ودانشوران اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہندوستان میں جمہوریت کی بقا رہنی چاہیے، ہر ہندوستانی کو اپنے مذہب اور عقیدہ کی مکمل آزادی ہونی چاہئے، سب کو رہنے اور کھانے پینے کا مکمل اختیار ہونا چاہیے، ہر ہندوستانی کو ہندوستان کا ایک شہری ہونے کے ناطے جو سہولیات ملنی چاہیے اسے ان کو حکومتی سطح پر دیاجاناچاہییے،خصوصاً اقلیتوں کے ساتھ انصاف، ہندو مسلم سکھ عیسائی اور ہندوستان کے تمام دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو آپس میں اتحاد و اتفاق اور اخوت و بھائی چارگی کے ساتھ رہنا چاہیے، ملک کی حفاظت اور اِس کی ترقی کے لیے سبھی بردران وطن کو بھرپور کوشش کرنی چاہیے-ہم سبھی لوگوں کو ملک کے آئین ودستور کا پاس ولحاظ رکھنا چاہییے،مگر پچھلے کچھ سالوں سے ملک میں ایک خاص فکر کے حاملین برادران وطن نے جس طرح ملک کے دستور کی دھجیاں اڑائی ہیں، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا ہے، فرقہ پرستی کو فروغ دیا ہے، مذہب اور دھرم کے نام پر جو سیاسی کھیل کھیلا ہے، فرقہ وارانہ فسادات میں جس طرح حکومت کی پشت پناہی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے اور اب مسلمانوں کے مذہبی مسائل اور عائلی قوانین میں جس طرح مداخلت کرتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں اب باقاعدہ جمہوریت ہی باقی نہ رہی، ایک خاص فکر کے حاملین نے ملک کی جمہوریت کو اپنے خونی پنجوں سے جس طرح دبوچ لیا ہے اور آئے دن ملک کے جمہوری تقدس کو پامال کر رہے ہیں اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ ان کے ارادے نیک نہیں، یہ جمہوریت کے دشمن ہیں، آئین کے قاتل ہیں، دستور کے لٹیرے ہیں، یہ لوگ بڑی بے باکی کے ساتھ اپنے منصوبوں کو کامیاب بنانے میں شب و روز تگ و دو کر رہے ہیں، حکومت جو جمہوریت کی محافظ ہے وہ بھی جمہوریت کے ان لٹیروں کا ساتھ دے رہی ہے ایسے میں ضروری ہے کہ تمام برادران وطن مل کر ان چند فرقہ پرستوں کے خلاف اور فرقہ پرستوں کا ساتھ دینے والی حکومت کے خلاف جمہوریت کی بقا اور آئین کی سلامتی کے لیے متحدہوکرانہیں ان کے منصوبوں میں ناکام بنائیں، تاکہ ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ہم دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں رہتے ہیں، اور یوم جمہوریہ مناتے ہوئے خوشی خوب خوب خوشی ومسرت محسوس کریں-
اس بار ہم 73 واں یوم جمہوریہ منارہے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ پورے ملک کے مدارس،کالجز،اسکول ودفاتر میں بھی موجودہ وبائی بیماری کے مدّنظر حفاظتی اقدامات کے ساتھ”جشن یوم جمہوریہ”منایا جائے گا،کاش کہ اس جشن زریں کے موقع پر حکمرانوں کے ذریعہ آئین کے تحفظ اور جمہوری اقدار کی بقا کو مقدم رکھنے کا حلف لیا جاتا اور اس پر عمل بھی کیا جاتا، نفرت بھرے ماحول کو امن وآشتی،اخوت و بھائی چارہ سے بدلنے کی بات کی جاتی، مساویانہ آئینی حقوق کو یقینی بنایا جاتا، ملک دشمن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے میں امتیاز نہیں برتا جاتا، گنگا جمنی تہذیب کی لاج رکھی جاتی، اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف آگ اگلنے والی زبانوں پرلگام لگایا جاتا گئورکچھا کے نام پر بے قصور مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والوں کو طوق سلاسل پہنایا جاتا،لوجہاد اور گھر واپسی کے نام پر آتنک کاراج قائم کرنے والوں کو تختۂ دار تک پہنچایا جاتا، “سب کا ساتھ سب کا وکاس” کے نعرہ کو سب کے لئے عملی جامہ پہنایا جاتا، تو “یوم جمہوریہ” کے معماروں کےلیے یہی سچی خراج عقیدت ہوتی!

صارف

Website:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *