حسن دنیا میں شریعت کی ادا بھول گیا
شاخ تھا جس کی اسی سے تو وفا بھول گیا
مست دولت میں ہے عقبی کو بھُلا بیٹھا ہے
عشق دولت سے کیا ذکر خدا بھول گیا
ہر اک عنوان پہ چلتی ہے زباں خوب تری
ہائے افسوس کہ تو حق کی سدا بھول گیا
بے حیائی کو تو نے آج حیا سمجھا ہے
حیف صد حیف کہ تو طرز حیا بھول گیا
فکر امروز نہیں بھول گیا فردا کو
کیسی غفلت ہے تری رسم بقا بھول گیا
تیری نظروں میں بسا رنگ شعار اغیار
غیر کے پیچھے چلا اپنا پتہ بھول گیا
تیرے کردار پہ شرمائیں یہود و مشرک
جرم پہ جرم کیا نام خطا بھول گیا
راستے خوب گناہوں کے تجھے ہیں ازبر
نیک راہوں سے ہٹا راہ ہدی بھول گیا
اپنے اعمال سے اسلام کا باغی تو بنا
لذت عیش میں عقبی کی سزا بھول گیا
جنتی بننے کا دل میں ہے ترے شوق مگر
پیار شیطاں سے کیا حکم خدا بھول گیا
بے محل جوش بھی جذبہ بھی تجھے آتا ہے
دین کے واسطے تو ہونا خفا بھول گیا
اہل دنیا کی رضا کے لیے در در بھٹکا
خلق کے ڈر سے تو خالق کی رضا بھول گیا؟
قدرداں اپنا یہاں کوئی نہیں ہے ازہر
ورنہ کس بات پہ وہ میری ندا بھول گیا
Leave a Reply