WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

صوفی اور تصوف۔۔از: سید خادم رسول عینی

صوفی اور تصوف۔۔از: سید خادم رسول عینی


صوفی اور تصوف – – – – – – – –

صوفی کی عظمت کا اعتراف زمانہ کرتا ہوا آیا ہے ۔تصوف کے حامل کو صوفی کہتے ہیں ۔تصوف کسے کہا جاتا ہے ؟ اللہ کے ساتھ صدق اور اس کے بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا تصوف ہے۔

صوفی وہ ہے جو نفس کی آفتوں اور اس کی برائیوں سے دور رہتا ہے ۔ صوفی وہ ہے جو ہدایت کے نیک راستے پر چلتا رہتا ہے۔ صوفی وہ ہے جو حقائق کو گرفت میں لیے ہوتا ہے۔صوفی وہ ہے جو راہ سلوک کو طے کر چکا ہے ۔ صوفی وہ ہے جو مقصود حقیقی کو پاچکا ہے۔مسلسل ریاضت کے ذریعہ صوفی کا نفس شکستہ ہوجاتا ہے۔اس کی دنیاوی خواہشات زائل ہوجاتی ہیں ۔اس کی دنیاوی آرزوئیں اور تمنائیں نابود ہو جاتی ہیں۔صوفی اپنے نفس کو مجاہدہ اور ریاضت میں لگادےتا ہے۔صوفی جو کام کرتا ہے وہ آخرت کی غرض سے کرتا ہے۔صوفی نوافل کے ذریعہ قرب حق حاصل کرتا ہے اور وہ خدا کا محبوب بندہ ہوجاتا ہے۔ صوفی اپنی زندگی میں خدمت خلق کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

جب بات صوفیت کی آتی ہے تو ہمارے ذہن میں جن کا نام فوری طور پر یاد آتا ہے وہ ہیں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ۔ آپ ہندوستان عطائے رسول بن کر تشریف لائے اور جہاں بھی تشریف لے گئے آپ نے خلائق کا دل جیت لیا۔ آپ کے کردار، آپ کے حسن اخلاق، آپ کی کرامات سے متاثر ہو کر غیر مسلم نہ صرف آپ کے شیدا ہوگئے بلکہ ایمان سے سرفراز بھی ہوئے۔

جب حاسد حکمرانوں نے خواجہ کے استعمال کے لئے پانی بند کردیا تو آپ نے اپنی کرامت کے ذریعہ سارے دریا کے پانی کو ایک کوزے میں بھر دیا۔پھر جب خیال آیا کہ مخلوق خدا کو پانی کی قلت کی وجہ سے پریشانی ہوگی تو آپ نے کوزے کے پانی کو حکم دیا اور آپ کے حکم سے کوزے کا پانی دریا میں چلاگیا اور دریا پھر سے پانی سے لبالب ہوگیا۔

اسے کہتے ہیں ایک مرد مومن کا کردار، ایک صوفی ء باصفا کا جذبہء خدمت خلق۔

جب کسی جوگی نے خواجہ کو ہوا میں اڑنے کا چیلینج دیا تو آپ نے اپنی کھڑاؤں کو ہوا میں اڑنے کا حکم دیا اور کھڑاؤں حکم خواجہ کی تعمیل کرتے ہوئے آسمان میں اڑی اور اس نے جوگی کو واپس خواجہ کے قدموں پہ لا کھڑا کیا۔یہ کرامت دیکھ کر جب جوگی ایمان لایا تو خواجہ نے اسے اپنے گلے لگا لیا ، اس کی غلطیوں کو معاف کردیا اور اسے اپنی خانقاہ میں جگہ دی۔

اسے کہتے ہیں ایک مرد مومن کی شان ، ایک صوفیء باصفا کا جذبہء ایثار۔

ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں:

نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ کام آتی ہیں شمشیریں

جب مفتیء اعظم اڑیسہ کے جد اعلیٰ ، حضرت سید شاہ دریا علیہ الرحمہ نے اپنے قرب و جوار میں مخلوق خدا کو پانی کی قلت کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اپنے عصا کو زمین پر مارا اور صاف و شفاف پانی کا چشمہ ابلوایا جس سے مخلوق خدا کو پینے کے لیے صاف و شفاف پانی میسر آیا ۔

اسے کہتے ہیں ایک مومن کا کردار اور ایک صوفی ء باصفا کا خدمت خلق کے لیے کرامتوں کا استعمال۔

علامہ قدسی ‌نے کیا خوب فرمایا ہے:

بہر تشنہ لب عصا سے کردیا چشمہ رواں
دہر نے یہ فیض دیکھا سید السادات کا

جب حضرت سید شاہ دریا علیہ الرحمہ نے یہ محسوس کیا کہ مخلوق خدا کو دھوپ میں آرام کے لیے اور ماحولیات کی بہتری کے لیے ایک وسیع و عریض درخت کی ضرورت ہے تو آپ نے اپنی مسواک کو زمین میں پیوست کیا اور اچانک اس سے زمین میں ایک وسیع و عریض درخت نمودار ہوگیا جس سے مخلوق خدا کو دھوپ اور کثافت و آلودگی سے راحت ملی۔

اسے کہتے ہیں ایک مومن کی شان اور ایک صوفیء باصفا کا خدمت خلق کے لیے کرامتوں کا استعمال۔

علامہ قدسی نے کیا خوب شعر کہا ہے :

گاڑ دی مسواک دھرتی پر ، شجر وہ بن گئی
خرق عادت ہے یہ کس کا سید السادات کا

میں نے اپنی آنکھوں سے پیر و مرشد حضرت مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمان علیہ الرحمہ کو دیکھا ہے ، آپ کے روز و شب کا مشاہدہ کیا ہے، آپ کے انسانیت نما کردار کا ملاحظہ کیا ہے ۔مجاہد ملت کا جب انتقال ہوا اس وقت میں اسکول میں ساتویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔
مجاہد ملت کے جنازہ / وصال کے دوسرے دن جب میں اسکول گیا تو کلاس میں ایک عجیب و غریب چیز کا میں نے مشاہدہ کیا۔ ہمارے کلاس ٹیچر ایک غیر مسلم دھام نگری تھے۔ وہ خود مجاہد ملت کی داستان سنانے لگے اور آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ یہ بولنے لگے کہ ان کی پڑھائی کے لیے اخراجات مجاہد ملت برداشت کرتے تھے ۔اور انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ صرف ان کی نہیں بلکہ دھامنگر کے کئی غیر مسلم غرباء کی مالی امداد مجاہد ملت کرتے تھے ۔ افسوس کہ اب مجاہد ملت کا انتقال ہوگیا ! “

یہ ہے ایک مومن کا کردار، ایک صوفیء باصفا کا جذبہء خدمت خلق۔

کسی شاعر نے منقبت در شان حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ میں کیا خوب کہا ہے:

پیار یکساں کیا چھوٹا ہو یا بڑا
اس خلوص و محبت پہ لاکھوں سلام

افسوس کا مقام ہے کہ آج صوفیوں کو دہشت گرد سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ صوفیوں پر دہشت گردی کا الزام لگایا جارہا ہے۔ جب کہ صوفیوں نے ملک عزیز میں اخوت کے پیڑ اگائے، محبتوں کے چراغ روشن کیے۔ خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ نظام الدین اولیاء ، سیدنا شاہ دریا علیہم الرحمہ سے لےکر حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ تک سارے صوفیائے کرام کی تاریخ کے ابواب شاہد ہیں کہ آپ کی زندگی کے لمحات خدمت خلق میں گزرے تھے۔

تو پھر کوئی صوفی ازم کو دہشت گردی سے کیسے جوڑ سکتا ہے ؟

جہاں تک غیر مسلم سے مسلم بننے کا معاملہ ہے تاریخ شاہد ہے کہ غیر مسلم ، مومنوں کے اخلاق و کردار اور اولیاے کرام کی کرامات کے نور کو دیکھ کر ایمان لائے، نہ کہ انہیں زبردستی مسلمان بنایا گیا۔ اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک کو نکال کر درست تاریخ کا مطالعہ کریں۔اڑیسہ کے سابق گورنر ڈاکٹر بشسمبر ناتھ پانڈے نے اپنی کتابوں ( اسلام اینڈ انڈین کلچر ، اورنگ زیب) میں مدلل ثابت کیا ہے کہ مسلم دور حکومت میں غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا گیا ۔ ہم نے خود اپنے کانوں سے بھدرک ، اڈیشا کے ایک فنکشن میں ١٩٨٤ ء میں ڈاکٹر بشمبر ناتھ پانڈے کا اسپیچ سنا تھا ۔انھوں نے اپنی لمبی گفتگو میں یہ ثابت کیا تھا کہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت میں بھی زبردستی تبدیلیء مذہب نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کسی غیر مسلم پلیس آف ورشپ کو مسمار کیا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر بشمبر ناتھ پانڈے نے اورنگ زیب عالمگیر کی تعریف میں پل باندھ دیے تھے اور انہوں نے اورنگ زیب کو ایک سچا مسلمان اور ایک صوفی بزرگ سے تعبیر کیا ۔

پھر بھی صوفی ازم کو دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے ، تعجب ہے۔

٢٠١٦ میں دہلی کے صوفی کانفرنس میں وزیر اعظم ہند
نے شرکت کی تھی۔اس کانفرنس میں اپنے اسپیچ کے دوران انھوں نے کہا تھا:

“تصوف کراہتی انسانیت کو سکون دے سکتا ہے۔
تصوف کے نزدیک خدا کی خدمت کا مطلب انسانیت کی خدمت ہے۔
بلھے شاہ کی تعلیمات آج کے دور میں زیادہ ضروری ہوگئی ہیں اور یہی فطرت کی حقیقت ہے۔تصوف امن ، بقائے باہم ، ہمدردی اور مساوات کی آواز ہے۔
ہمیں تصوف کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانا ہوگا جو اسلام کے اصولوں اور اعلی انسانی اقدار کی بات کرتا ہے۔”

پھر بھی آپ کہیں گے کہ صوفی ازم آتنک باد ہے؟

“صوفی ازم آتنک باد ہے ” یہ جملہ کذب پر مبنی ہے۔

صوفی ازم اسلام کی روحانی اصطلاح ہے ۔
صوفی ازم امن پسند اسلام کا آئینہ دار ہے ۔
صوفی ازم اپنے اندرونی خود کو پاکیزہ کرنے کا نام ہے ۔
صوفی ازم ضبط نفس/تزکیۂ نفس کا نام ہے۔
خالق سے قربت حاصل کرنے کے طریقے کو صوفی ازم کہا جاتا ہے۔
صوفی ازم وہ ہے جس سے سلسلہ قادریہ، سلسلہ نقشبندیہ، سلسلہ سہروردیہ، سلسلہ چشتیہ وغیرہ جڑے ہویے ہیں ۔
صوفی ازم محبت اور اخوت کا پیغام ہے ۔

دہشت گردی سے تصوف جیسی مقدس طریق کا کوئی واسطہ نہیں ۔

صارف

Website:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *