WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

پہلی قسط سرکار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔آصف جمیل امجدی[انٹیاتھوک،گونڈہ]6306397662/9161943293

پہلی قسط سرکار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔آصف جمیل امجدی[انٹیاتھوک،گونڈہ]6306397662/9161943293

پہلی قسط
سرکار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔

{عرس امجدی کے موقع پر خصوصی تحریر }

   [امجدی ڈائری] 

آصف جمیل امجدی
[انٹیاتھوک،گونڈہ]
6306397662/9161943293

مولانا امجد علی مشرقی یوپی کے ایک مردم خیز قصبہ گھوسی ضلع مئو میں 1300؁ھ مطابق 1882؁ء کو ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد مولانا حکیم جمال الدین کا شمار علاقے کے بڑے حکیموں میں ہوتا تھا۔ طبی مہارت اور ریاست عظمت گڑھ کے راجہ کے طبیب خاص ہونے کی وجہ سے ہر طرف آپ کا شہرہ تھا۔ اس عہد کے اجلہ علماء مولانا امجد علی اعظمی کو “صدر الشریعہ” جیسے گراں قدر لقب سے نوازا۔
آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کے وطن گھوسی ہی کے مدرسہ ناصرالعلوم میں ہوئی۔ اعلی تعلیم کے لئے اپنے شیراہ ہند جونپور کا رخ کیا اور 1314؁ء میں مدرسہ حنفیہ جونپور میں داخلہ لیا۔ یہاں علوم شرقیہ وفنون دینیہ کے متلاشی دور دراز سے تشریف لاتے تھے۔ استاذالاساتذہ کی فیض رساں درس گاہ سے اس دور کے ماہرین علوم فارغ ہوئے۔
اس کی بعد صدرالشریعہ حضرت شاہ وصی احمد محدث سورتی کی خدمت میں مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت میں حاضر ہوکر درس حدیث لیا۔ حضرت محدث سورتی نے بھی اپنی فراست ایمانی سے ان کی ذات میں پوشیدہ صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور اس گوہر شب تاب کو قدرتی نگاہ سے دیکھا۔ علوم دینیہ کے چشمۂ فیاض سے خوب سیراب کیا اور 6/ذی الحجہ 1324؁ھ کو حضرت مولانا شاہ سلامت اللہ رامپوری قدس سرہٗ نے آپ کا امتحان لیا جس میں آپ کو نمایاں اور امتیازی کامیابی حاصل ہوئی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ اپنے استاذ محترم محدث سورتی کے مدرسۃ الحدیث میں 1327؁ھ تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد ایک سال تک پٹنہ میں مطب کرتے رہے۔ امام احمد رضا محدث بریلوی کو دارالعلوم منظر اسلام بریلوی کے لیے ایک ذی استعداد استاد کی ضرورت پیش آئی۔ حضرت محدث سورتی نے آپ کا نام پیش کیا اعلی حضرت کے طلب فرمانے پر پٹنہ سے مطب چھوڑ کر دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جلد ہی اپنی استعداد، قابلیت، خدا داد حسن سلیقہ اور سعادت مندی سے امام احمد رضا محدث بریلوی کی نظر میں مقبول اور مورد الطاف خاص بن گئے۔
بریلی شریف میں آپ کا قیام 1329؁ھ مطابق 1911؁ء سے 1343؁ھ مطابق 1925؁ء تک رہا۔ 1343؁ھ مطابق 1925؁ء میں مولانا سید سلیمان اشرف صدر شعبۂ علوم اسلامیہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف میں صدرالمدرسین کے عہدے کا دعوت نامہ لے کر بریلی آۓ۔ یہاں آپ نے 1351؁ھ مطابق 1933؁ء تک فرائض تدریس انجام دئیے پھر 1363؁ھ میں مدرسہ مظہرالعلوم بنارس میں صدرالمدرسین ہوئے۔ لیکن وہاں کی فضا عقائد کے لحاظ سے سازگار نہ تھی اس لیے چند ہی ماہ رہ کر مستعفیٰ ہوگئے۔
آپ کا طرز تدریس نہایت دلنشین، دل آویز اور دل پذیر تھا۔ دوران تدریس مضامین کتاب کی ایسی واضح، شستہ اور جامع تقریر فرماتے کہ مضمون کتاب طلبہ کے ذہن میں اترتا چلا جاتا تھا۔ آپ کے تبحر علمی کا یہ عالم تھا کہ پورا درس نظامی آپ کو مستحضر تھا۔
امام احمد رضا محدث بریلوی کی عشق رسالت میں ڈوبی ہوئی اور ورع وتقوی سے شاداب و درخشندہ زندگی کی مسلسل دید کے بعد آپ نے روحانی رہنمائی کے لیے سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ میں انھیں کے دست حق پرست پر بیعت کی اور جلد ہی تمام سلاسل میں اجازت وخلافت سے نوازے گئے۔ صدرالشریعہ یوں تو سارے علوم و فنون کے ماہر تھے۔ لیکن سب سے خاص لگاؤ آپ کو فقہ سے تھا۔ اللہ زوجل آپ کی ذات گرامی میں تفقہ فی الدین ودیعت فرمایا تھا۔ صدرالشریعہ کو دیگر علوم و فنون کے علاوہ فقہ میں ایسا کمال حاصل تھا کہ فقہ کے جمیع ابواب کے تمام جزئیات مع ان کے تفصیلی دلائل کے مستحضر تھیں۔ انہیں خصوصیات کی بنا پر امام احمد رضا محدث بریلوی نے ایک موقع پر فرمایا:
“آپ کے یہاں موجودین میں تفقہ جس کا نام ہے وہ مولوی امجد علی صاحب میں زیادہ پائیے گا۔ وجہ یہی کی وہ استفتاء سنایا کرتے ہیں اور جو جواب دیتا ہوں لکھتے ہیں طبیعت اخاذ ہے طرز سے واقفیت ہو چلی ہے۔”
امام احمد رضا بریلوی نے حالات اور ضرورت دینی کے پیش نظر بریلی شریف میں پورے ملک ہندوستان کے لیے جس میں موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل تھا شرعی دارالقضا قائم فرمایا تھا۔ اس کے لیے تمام مشاہیر ہندو مفتی عصرمیں سے صدرالشریعہ کو احکام شرعی کے نفاذ اور مقدمات کے فیصلے کے واسطے قاضی شرع مقرر فرمایا تھا۔ امام احمد رضا محدث بریلوی کی بارگاہ میں آپ کو نہایت بلند مقام حاصل تھا یہی وجہ ہے کہ امام احمد رضا محدث بریلوی نے سوائے آپ کے کسی کو بھی حتیٰ کہ اپنے شہزادگان والا کو بھی اپنی بیعت لینے کا وکیل نہیں بنایا تھا۔ (بحوالہ بیسوی صدی میں امام احمد رضا)

[مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں]

صارف

Website:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *