WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

جانور کی کھال کے پیسے مسجد کے خاص ذمہ دار کو دیں اگر وہ اس پیسے سے امام یا مؤذن کی کسی ذاتی ضرورت کو پورا کر دیں تو کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب کی بارگاہ میں عرض ہے کہ جانور کی کھال کے پیسے مسجد کے خاص ذمہ دار کو دیں اگر وہ اس پیسے سے امام یا مؤذن کی کسی ذاتی ضرورت کو پورا کر دیں تو کیا یہ طریقہ صحیح ہے کیونکہ لوگ مسجد کے ذمہ دار کو پیسے اس لیے دیتے ہیں کہ یہ مسجد کے اخراجات کو پورا کریں

پوچھنا یہ ہے کیا اس پیسے سے امام یا مؤذن کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں یا نہیں؟
مفتی صاحب جواب عنایت فرما دیں آپکی عین نوازش ہوگی۔(محمد یاسر)
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔واضح رہے کہ امامِ مسجد کو تنخواہ یا وظیفے کے طور پر کھال دینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر تنخواہ یا وظیفہ علیحدہ سے مقرر ہو، اور محض اس کو عالم یا حافظ سمجھ کر کھال ہدیہ کی جائے، تو یہ جائز ہے، بلکہ ایسے علماء اور حفاظ اگر محتاج ہوں، تو ان کی امداد کرنا باعث فضیلت ہے۔جیسا کہ فتاوی فیض الرسول ج دوم 478 ص میں کہ مسجد کے اماموں کو بطور نزرانہ چرم قربانی دینا جائز چاہے امیر ہو یا غریب۔اھ۔
اور صحیح البخاری: (کتاب المناسک، رقم الحدیث: 686)
عن علي رضی اﷲ عنہ أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم: أمرہ أن یقوم علی بدنہ، وأن یقسم بدنہ کلہا لحومہا وجلودہا وجلالہا، ولا یعطي في جزارتہا شیئا۔

اعلاء السنن: (باب التصدق بلحوم الأضاحي، 29/17، ط: دار الکتب العلمیۃ)
ولأن ما یدفعہ إلی الجزار أجرۃ عوض عن عملہ وجزارتہ، ولا تجوز المعاوضۃ بشيء منہا، فأما إن دفع إلیہ لفقرہ أو علی سبیل الہدیۃ، فلا بأس بہ؛ لأنہ مستحق للأخذ۔۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
14/ ذی الحجہ /1443 ھ

قربانی یا عقیقہ کے جانور کا سر، ذبح کرنے والے کو دینا کیسا؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

سوال،کیاامام،صاحب،جو
قربانی،کےجانورکوذبح،کر
تےہیں،اوس،کامونڈایعنی،سر،مانگ،کرلیناکیساہے
براےءکرم،شریعت،کےداءیرےمیں،
جواب،عنایت،فرماءے
محمد رضا ( نویڈا )
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔
ذبح پر اجرت لینے میں حرج نہیں البتہ قربانی کا جانور ذبح کرنے کے بدلے میں اجرت کے طور پر گوشت لینا یا سری وغیرہ لینا یہ جائز نہیں ۔
” لانہ لیس بمعصیۃ ولاواجب متعین علیہ “
ہاں ! یہ ٹھہراناکہ اسے ذبح کرتاہوں اس میں سے اتناگوشت اجرت میں لوں گا یہ ناجائز ہے
(احکام شریعت حصہ اول صفحہ نمبر 152)ہاں اگر کسی کو اجرت کے طور پر کچھ گوشت دیدیا تو اتنے گوشت کی قیمت صدقہ کرے اس لیے کہ اجرت پر دینا گویا بیچ کر اپنے مصرف میں لانا ہے ۔ اگر اپنے مصرف کے لۓ قربانی کا کھال بیچے تو اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے ۔

(ھکذافی فتاوی فیض الرسول جلددوم صفحہ ٤٧٦)
اور اگر اجرت دینے کے بعد محبتا واخلاقا ومروتا ذبح کرنے والے یا دعاء پڑھنے والے کو سرا، پایہ گوشت ، چمڑا وغیرہ کچھ بھی دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں اس میں کوئی کراہت نہیں ۔ اھ۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
11 / ذی الحجہ /1443 ھ

کتنے بیگہےزمین ہو تو قربانی واجب ہے؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

asslamu alaikum wa rahmatullahi wa barakatuh mufti sahab qiblah ap ke bargah me arz ye hai ki zed ke paas itna paisa nahi ki qurbani kar sake lekin zameen hai ghar hai gadi hai sab kuchh hai magar paisa nahi to zed qurbani kare ki na kare aur kitne bigha zameen hai to qurbani wajib hai huzor nazre inayet farmayen badi maher bani hogi asslamu alaikum wa rahmatullahi wa barakatuh
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب
صورت مسؤلہ میں زید پر قربانی واجب ہوگی اور نقد روپے نہ تو قرض لیکر یا کوسامان بیچ کر قربانی کریں جیساکہ میرے آقااعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت مجدددین وملت مولانا شاہ امام احمد رضاخان علیہِ رَحْمۃ الرّحْمٰن سے سُوال کیا گیا کہ ’’ اگر زید کے پاس مکانِ سُکُونت ( یعنی رہائشی مکان ) کے علاوہ دو ایک اور (یعنی مزید) ہوں تو اس پر قربانی واجب ہو گی یا نہیں ؟ ‘‘الجواب:واجب ہے ، جب کہ وہ مکان تنہا یا اس کے اور مال سے حاجتِ اصلِیہ سے زائد ہو ، مل کر چھپَّن روپے (یعنی اتنی مالیَّت کہ جو ساڑھے باوَن تولے چاندی کے برابر ہو ) کی قیمت کو پہنچے ، اگرچِہ ان مکانوں کو کرائے پر چلاتا ہو یا خالی پڑے ہوں یا سادی زمین ہو بلکہ ( اگر ) مکانِ سُکُونت اتنا بڑا ہے کہ اس کا ایک حصّہ اس( شخص ) کے جاڑ ے (یعنی سردی اور) گرمی (دونوں ) کی سُکُونت (رہائش)کے لئے کافی ہو اور دوسرا حصّہ حاجت سے زیادہ ہو اور اس ( دوسرے حصّے ) کی قیمت تنہا یا اِسی قسم کے( حاجتِ اَصلِیَّہ )سے زائد مال سے مل کر نصاب تک پہنچے ، جب بھی قربانی واجب ہے۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۰ ص ۳۶۱)
اور فتاوی رضویہ ج 20 ص 370,میں ہے کہ
جس پر قربانی واجب ہے اور نقد رقم اس کے پاس نہیں تو وہ قرض لیکر قربانی کرے یا اپنا کچھ سامان جیسے چاندی ، سونا وغیرہ بیچ کر حاصل شدہ رقم سے قربانی کرے اسے قربانی معاف نہیں۔اھ
اور حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ ” اگر کسی پر قربانی واجِب ہے اور اُس وقت اس کے پاس روپے نہیں ہیں تو قَرض لے کر یا کوئی چیز فروخت کر کے قربانی کرے “( فتاوی امجدیہ ج 3 ص 315 )

*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
7 / ذی الحجہ /1443 ھ

اگر کسی مقتدی کے دل میں امام صاحب کے لیے کینہ ہے تو امام صاحب کے پیچھے مقتدی کی نماز نہیں ہوتی ہے’اور اگر امام کے دل میں مقتدی کے لیے کینہ ہو تو پھر کیا حکم ہے؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسلہ ذیل میں اگر کسی مقتدی کے دل میں امام صاحب کے لیے کینہ ہے تو امام صاحب کے پیچھے مقتدی کی نماز نہیں ہوتی ہے’اور اگر امام کے دل میں مقتدی کے لیے کینہ ہو تو پھر کیا حکم ہے ، محمد رضا قادری نوءیڈا یو پی
👆👇
وعلیکم السلام
الجـــــــــــــــــــــــــواب بعون الملک الوہاب
سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا زید سے خالد ظاہراً وباطناً کدورت رکھتا ہے حتّی کہ زید جس وقت مسجد میں داخل ہو کر سلام علیک کہتا ہے خالد جواب سلام بھی نہیں دیتا اور خالد ہی امامت کرتا ہے، ایسی حالت میں زید کی نماز خالد کے پیچھے ہوگی یا نہیں اور زید جماعت ترک کرکے قبل یا بعد جماعت علیحدہ نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں جبکہ خالد دل میں کدورت رکھتا ہے، اس کے واسطے کیا حکم ہوتا ہے؟تو آپ جوا ب میں تحریر فرماتے ہیں محض دنیوی کدورت کے سبب اس کے پیچھے نماز میں حرج نہیں اور اس کے واسطے جماعت ترک کرنا حرام، خالد کی زید سے کدورت اور ترک سلام اگر کسی دنیوی سبب سے ہے تو تین دن سے زائد حرم، اور کسی دینی سبب سے ہے اور قصور خالد کا ہے تو سخت تر حرام، اور قصور زید کا ہے تو خالد کے ذمے الزام نہیں زید خود مجرم ہے۔
(فتاوی رضویہ مترجم جلد ۶؍ص ۵۵۹)
اور الفتاوى الهندية (1/ 87):
“رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط”.
لہذا محض دنیوی کدورت چاہۓ مقتدی کو امام سے ہو یاامام کو مقتدی سے نماز ہوجاتی ہے۔جیساکہ ذکر ہوا۔البتہ یہ فعل بہت برا ہے۔اھ۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
6 / ذی الحجہ /1443 ھ

گھر میں سواے شوہر کے کوئی بھی موجود نہیں ایسی صورت میں عورت کلایئاں کھول کر نماز ادا کر سکتی ہے یا نہیں؟ کتبہ احمد رضاقادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

ایک مسئلہ بیان کریں . . . . .
اگر عورت کے گھر میں سواے شوہر کے کوئی بھی موجود نہیں ایسی صورت میں عورت کلایئاں کھول کر نماز ادا کر سکتی ہے یا نہیں . . . . . حوالہ بھی عنایت کریں
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔ صورت مسؤلہ میں عورت کلائیاں کھول کر نماز ادا نہیں کرسکتی چند اعضاء کو مستثنی کرکے آزاد عورت کا پورا بدن عورت ہے ۔یعنی مثلاً نماز میں ان کا چھپانا ضروری ہے  ۔
وہ اعضاء جو مستثنی ہیں درج ذیل ہیں:
(١) : : آزاد عورتوں اورخنثیٰ مشکل کے ليے سارا بدن عورت ہے، سوا مونھ کی ٹکلی اور ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلووں کے، سر کے لٹکتے ہوئے بال اور گردن اور کلائیاں بھی عورت ہیں، ان کا چھپانا بھی فرض ہے۔ (درمختارالدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۹۳،۱۰۷۔جن اعضا کا ستر فرض ہے، ان میں کوئی عضو چوتھائی سے کم کھل گیا، نماز ہوگئی اور اگر چوتھائی عضو کھل گیا اور فوراً چھپا لیا، جب بھی ہوگئی اور اگر بقدر ایک رکن یعنی تین مرتبہ سبحان اﷲ کہنے کے کھلا رہا یا بالقصد کھولا، اگرچہ فوراً چھپا لیا، نماز جاتی رہی۔ ](عالمگیری، ردالمحتار)
اگر نماز شروع کرتے وقت عضو کی چوتھائی کھلی ہے، یعنی اسی حالت پر اﷲ اکبر کہہ لیا، تو نماز منعقد ہی نہ ہوئی۔۔
مزید تفصل کے لۓ فتاوی رضویہ ج 3 ,وبہارے شریعت دیکھیں۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

تجدید نکاح میں مہر کا کیا حکم ہے؟ کتبہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

حضور کی بارگاہ میں ایک سوال
تجدید نکاح میں مہر کا کیا حکم ہے؟
صرف نکاح اول کا دینا ہے یا دونوں کا؟
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔تجدید نکاح اگر بغیر کسی علت (طلا ق یا ردّت )کے ہو تو چو نکہ اس صورت میں حرمت پہلے سے نہیں(کیو نکہ بیوی تو پہلے سےحلال ہے) لہذا اس صورت میں مہر لازم نہیں آئے گا لیکن اگر اضافہ کی غرض سے ہی نکا ح کرے اور پچھلے دس ہزار مہر پر یہ دس ہزار اضا فہ کرنا مقصود ہو تو پھر اس اضا فے کا اعتبار ہے اور بیس ہزار مہر دینا ہو گا۔ اگر اضافہ نہ ہو تو صرف احتیا طا تجدید میں کوئی مہر لا زم نہیں آتاالبتہ تجدید نکاح میں گوا ہوں کا ہو نا ضروری ہے کیو نکہ نکاح میں گوا ہو ں کا ہو نا شرط ہے۔ بغیر گوا ہو ں کے نکاح منعقد نہیں ہوتا لہذا اگر کوئی تجدید نکا ح احتیا طا کرنا چاہتا ہو تو اس صورت میں نیا مہر لا زم نہیں ہو گا بلکہ پہلے والا مہر ہی وا جب ہو گا البتہ گوا ہوں کا ہو نا ضروری ہے ۔
لمافی الدر المختار(۱۱۲/۳) وفي الكافي جدد النكاح بزيادة ألف لزمه ألفان على الظاهر۔
وفی الردّ تحتہ: ثم ذكر أن قاضيخان أفتى بأنه لا يجب بالعقد الثاني شيء ما لم يقصد به الزيادة في المهر۔۔۔أقول بقي ما إذا جدد بمثل المهر الأول ومقتضى ما مر من القول باعتبار تغيير الأول إلى الثاني أنه لا يجب بالثاني شيء هنا إذ لا زيادة فيه وعلى القول الثاني يجب المهران ۔
(تنبيه) في القنية جدد للحلال نكاحا بمهر يلزم إن جدده لأجل الزيادة لا احتياطا اھ أي لو جدده لأجل الاحتياط لا تلزمه الزيادة بلا نزاع كما في البزازية۔
وفی الشا میہ (۲۱/۳):قوله ( وشرط حضور شاهدين ) أي يشهدان على العقد۔)۵۶۲)
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

ہکلے کی امامت کا حکم،، از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکا تہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان شرع عظام کوئی حافظ ھکلے پن کا شکار ھے دوران نماز ہکلاتے ہیں ہکلاہٹ سے ایسا لگتا ھے لمبا سکتہ کیا ھے تلاوت بار بار کرتے ہیں اس طرح بہت مرتبہ پیش أتاھے اس معاملے میں مصلیان میں اختلاف ھو چکا ھے ایسے میں مذکورھ حافظ قران کے پیچھے نماز ھوگی یا نھی لو گو میں اشد اختلاف ھے انکو امامت وہاں کرنا چاہئے یا نھی. جواب عنایت فرمائے کرم ھوگا المستفتی شیخ عبد الجلیل باکھرا پیٹ M p
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔
لا یصح اقتداء غیر الالثغ بہ و حرر
غیر تو تلے کی اقتداء توتلے کے پیچھے درست نہیں

 الحلبی و ابن الشحنۃ انہ بعد بذل جھدہ دائما حتما کالامی فلو یؤم الامثلہ ولا تصح صلوتہ اذاامکنہ الاقتداء بمن یحسنہ او ترك جھدہ او وجد قدرالفرض مما لالثغ فیہ ھذا ھو الصحیح المختار فی حکم الالثغ وکذا من لا یقدر علی التلفظ بحرف من الحروف  ملتقطا

الثغ اس شخص کو کہتے ہیں جس کی زبان سے ایك حرف کی جگہ دوسرا نکلے)حلبی اورابن شحنہ نے لکھا ہے کہ ہمیشہ کی حتمی کوشش کے بعد توتلے کا حکم اُمّی کی طرح ہے پس وُہ اپنے ہم مثل کا امام بن سکتا ہے (یعنی اپنے جیسے توتلے کے سوا دوسرے کی امامت نہ کرے) جب اچھی درست ادائیگی والے کی اقتداء ممکن ہو یا اس نے محنت ترك کردی یا فرض کی مقدار بغیر توتلے پن کے پڑھ سکتا ہے ان صورتوں میں اسکی نماز درست نہ ہوگی توتلے کے متعلق یہی مختار اورصحیح حکم ہے اور اسی طرح اس شخص کا بھی یہی حکم ہےجو حروفِ تہجی میں سے کوئی حرف نہ بول سکے یعنی صحیح تلفظ پر قادر نہ ہو اھ ملخصًا۔

 فتاوٰی محقق علّامہ ابوعبدﷲ محمد بن عبدﷲ غزی تمر تاشی میں ہے 

الراجع المفتی بہ عدم صحۃ امامۃ الالثغ لغیرہ [

راجح اور مفتی بہ قول یہی ہے کہ توتلے کی امامت غیر کے لئے جائز نہیں۔۔مختار یہی ہے کہ اس پر تصحیح زبان کے لئے ہمیشہ کوشش کرنا ضروری ہے اور اس کے ترك پر معذور نہیں سمجھا جائے گا اگرچہ اس کی زبان کا اجراء درست نہ ہو جس کو وُہ اچھی طرح ادا نہیں کرسکتا تو اب اس کی نماز اس آیت سے درست ہوگی البتہ وُہ غیر کی امامت نہ کروائے ، پس وہ صحیح ادائیگی کرنے والے کے حق میں امّی کی طرح ہوگا اس آیۃ میں جس سے عاجز ہے، اور جب مذکورہ شخص کو ایسے آدمی کی اقتدا ممکن ہو جوصحیح ادا کرسکتا ہے، تو اس کی تنہا نماز نہ ہوگی، اور اگر وہ ایسی آیۃ پر قادر ہے جس میں مذکورہ حرف نہیں تو اس حرف والی آیۃ پڑھنے کی وجہ سے نماز نہ ہوگی کیونکہ اس حر ف کا درست پڑھنا نماز کے لئے ضروری تھا جب وہ تقاضا معدوم ہے تو نماز کا وجود بھی نہ ہو گا ۔توتلے اور اس جیسے شخص کے لئے یہی حکم ہے اور یہی صحیح ہے۔(ملخصا فتاوی امجدیہ ج اول ص 87 )
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف۔۔14/صفر۔1444
(نوٹ ) بہتر کہ پہلے کسی ماہر قاری کو انکی قرأت کو سنادیں۔)

حج و عمرہ کے دوران حلق کیوں کرایا جاتا ہے اس میں کیا حکمت ہے؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل میں کہ حج و عمرہ کے دوران حلق کیوں کرایا جاتا ہے اس میں کیا حکمت ہے مفصل جواب دیکر عنداللہ ماجور ہوں
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔صورت مسؤلہ میں اس کی ایک اہم حکمت صفائی و ستھرائی ہے۔حج اور عمرہ کے اعمال ختم ہونے پر  سر منڈانا یا بال کتروانا بھی ایک عبادت ہے، گویا یہ حج اور عمرہ سے فارغ ہونے کی نشانی ہے ، جیسے نماز کے لیے فارغ ہونے کی نشانی “سلام” ہے، اور روزہ سے فارغ ہونے کی نشانی “افطار” ہے۔۔ احرام کی حالت میں پراگندہ اور غبار آلود رہ کر بارگاہِ عالی میں حاضر ہونے کا حکم تھا، اور احرام کے بعد صاف ستھرا رہنا پسندیدہ ہے، تو  بالوں کو کاٹنے میں  ان پراگندہ بالوں سے مکمل صفائی اور ایک حالت سے دوسری حالت کی تبدیلی بدرجہ اتم موجود ہے۔

حجة الله البالغة (2/ 94)
“والسر في الحلق؛ أنه تعيين طريق للخروج من الإحرام بفعل لا ينافي الوقار، فلو تركهم وأنفسهم لذهب كل مذهباً، وأيضاً ففيه تحقيق انقضاء التشعث والتغبر بالوجه الأتم، ومثله كمثل السلام من الصلاة”.اھ۔*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

ہندہ نے زید سے نکاح کیا اور 3 دن بعد بغیر ہمبستری کے زید نے ہندہ کو طلاق دے دیا اب ہندہ دوسری نکاح کرنا چاہتی ہے تو ہندہ کتنے دن بعد نکاح کر سکتی ہے؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام اور مفتیان کرام اس مسلئہ کے بارے میں ہندہ نے زید سے نکاح کیا اور 3 دن بعد بغیر ہمبستری کے زید ہندہ کو طلاق دے دیا اب ہندہ دوسری نکاح کرنا چاہتی ہے تو ہندہ کتنے دن بعد نکاح کر سکتی ہے ( کیا ہندہ کو عدت گزارنا پڑےگا ) قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں

السائل محمــــــــد سلیمان بہرائچ شریف
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔صورتِ مستفسرہ میں اگر زوج وزوجہ تنہائی کے مکان میں یکجا ہولئے ہوں اور اُن میں کوئی مانع حقیقی ایسا نہ ہو جس کی وجہ سے وطی اصلاً نہ ہوسکے اس کے بعد زید نے طلاق د ی تو بیشک ہندہ پر عدت واجب ہے اگرچہ مبا شرت نہ ہوئی۔
خلوۃالصحیحۃ فی النکاح الصحیح مثل الوطی فی ایجاب العدّۃٰ وصحۃ الخلوۃ ھٰھنا العدم المانع الحقیقی وان جد مانع شرعی کالصوم۔
ہاںاگرخلوت بھی نہ ہوئی اور ویسے ہی طلاق دے دی تو ہندہ پر عدت نہیں، اسے اختیار ہے کہ اسی وقت جس سے چاہے نکاح کرلے۔
درمختار باب العدّۃ ( مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۵۵ ) میں ہے
سبب وجوبھا (یعنی العدۃ) عقد النکاح المتأکد بالتسلیم وما جری مجراہ من موت او خلوت الخ
۔یعنی وجوبِ عدت کا سبب وہ نکاح ہے جس میں بیوی سپرد کردی گئی ہو یا وہ جو اس کے قائم مقام ہو مثلاً موت یا خلوت ہو، الخ، لہذا اگرزید نے ہندہ کو خلوت صحیحہ سےبھی قبل طلاق دیا ہے تو اس پر عدت نہیں جیسا کہ مذکور ہوا۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
11/12/2022

مسجد میں اگر ممبر کی وجہ سے اگلی صف میں جگہ خالی رہ جائے تو نماز باجماعت کا کیا حکم ہے؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف یو پی

حضور مفتی صاحب قبلہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ میں بعض ایسی مسجدیں جہاں ممبر تھوڑا آگے ہونے کی وجہ سے پہلی صف میں ممبر کے سامنے 2/ لوگوں کی جگہ رہ جاتی ہے اسی وجہ سے پہلی صف کے بیچ میں 2 لوگوں کی جگہ چھوڑ کر پہلی صف کی تکمیل ہوتی ہے
1 تو کیا ایسی صورت میں صف منقطع ہو جاتی ہے ؟
2 اوراس صورت میں ان لوگوں کی نماز کا حکم کیا ہے ؟اور كس طرح نماز ادا كريں
بيينوا توجروا

محمد صائم رضا
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب۔     صفوں کے بارے میں تین باتوں کی بڑی تاکید ہے، پہلی بات:    تَسوِيه: کہ صف برابر ہو، خم نہ ہو، کج نہ ہو، مقتدی آگے، پیچھے نہ ہوں. دوسری بات:   إتمام: کہ جب تک ایک صف پوری نہ ہو دوسری صف نہ لگائیں. تیسری بات:    تراصّ: یعنی خوب مل کر کھڑا ہونا کہ شانہ شانہ سے چھلے. یہ تینوں امر شرعاً واجب ہیں.
     (فتاوی رضویہ- التقاط و تسہیل کے ساتھ- ج:3،ص:387،386،385، سنی دارالاشاعت، مبارک پور) لہذا  صفوں کے درمیان جگہ خالی چھوڑنا جائز نہیں، جو نمازی خالی جگہ بھرنے پر قادر ہوں اور نہ بھریں تو گنہ گار ہوں گے.
     ہاں کسی وجہ سے انھیں وہ خالی جگہ بھرنے پر قدرت نہ ہو تو معذور ہوں گے، انھیں بقدر میسور پر عمل چاہیے واضح ہو کہ صفوں کے اتمام اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کے احکام واجباتِ نماز سے نہیں، بلکہ واجباتِ صفوف سے ہیں، چناں چہ عمدۃ القاری میں ہے:
“التسوية وَاجبَة بمقْتضى الْأَمر، ولكنها ليست من واجبات الصَّلاَة بِحَيث أَنه إِذا تركهَا فسدتْ صلَاته أَو نقصتها.” (عمدۃ القاری، ج:5، ص:371، دار الکتب العلمیۃ)
ترجمہ: فرمان رسالت کے مطابق صفوں کو سیدھی رکھنا واجب ہے، لیکن یہ واجباتِ نماز سے نہیں کہ چھوڑ دے تو نماز فاسد یا ناقص ہو جائے.
یوں بھی کتبِ فقہ میں فرائض اور واجباتِ نماز میں کہیں اس کا ذکر نہیں جو اس کے واجباتِ نماز سے نہ ہونے کی کھلی دلیل ہے، یہی حال اِتمام اور تراصّ کا بھی ہے کہ یہ بھی واجباتِ نماز سے نہیں، نہ ہی کتب فقہ میں واجباتِ نماز میں کہیں ان کا ذکر ہے.
ایسے واجبات کا ترک قصداً، بلا عذر ہو تو گناہ ہوتا ہے مگر نماز بلا کراہت صحیح ہوتی ہے اور اگر ترک، عذر کی وجہ سے ہو تو قطعِ صف کا گناہ بھی نہیں ہوتا اور نماز صحیح ہوتی ہے. اس کی دلیل حضرت ابو بکرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کو رکوع میں پایا تو صف کے پیچھے ہی تحریمہ کہہ کر رکوع میں چلے گئے تو سرکار علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: “زادك اللّٰه حرصا ولا تعد” اللّٰہ تجھے اور زیادہ نماز کا شوق بخشے، دوبارہ ایسا نہ کرنا. (صحیح البخاری، کتاب الاذان/ باب إذا رکع دون الصّف) ظاہر یہ ہے کہ اگلی صف میں گنجائش تھی تو ان پر اتمام واجب تھا اس لیے سرکار علیہ الصلاۃ والسلام نے لازمی طور پر انھیں دوبارہ ایسا کرنے سے ممانعت فرمادی مگر نماز کے اعادہ کا حکم نہ دیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اتمام صف واجبات نماز سے نہیں. فتاوی رضویہ میں ہے کہ:
“زید نے در میں نماز ناجائز بتائی، یہ زیادت ہے، ناجائز نہیں، ہاں امام کو مکروہ ہے.” (ج:3، ص:43، باب اماکن الصلاۃ، سنی دارالاشاعت، مبارک پور) “نماز ناجائز نہیں” یعنی مکروہ تحریمی نہیں، ہاں امام کا فعل مکروہ ہے.خلاصہ کلام یہ کہ مسجد میں ممبر اس طرح بنانا چاہیے کہ پہلی صف کا کچھ بھی حصہ منبر کی زد میں نہ آئے؛ منبر قبلہ کی دیوار کی طرف بڑھاکر پہلی صف خالی کردینی چاہیے؛ تاکہ نماز کے دوران پہلی صف میں منبر کے سامنے جگہ خالی نہ رکھنی پڑی یا اس جگہ جو شخص نماز پڑھے، اسے سجدہ میں زحمت نہ ہو۔ اور اگر منبر کو قبلہ کی دیوار کی طرف بڑھانا ممکن ہو تو بڑھا دیئں ورنہ لکڑی کا منبر بنالیا جائے جو خطبہ کے وقت رکھا جائے اور اس کے بعد ہٹادیا جائے۔ اور جب تک نظم نہ ہوتو مجبوری میں منبر کے سامنے کی جگہ خالی چھوڑکر نماز پڑھتے رہیں ۔ نماز ہوجاۓ گی جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف