WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

کلام قدسی اور صنعت اقتباس۔۔تبصرہ۔۔از قلم : سید خادم رسول عینی

کلام قدسی اور صنعت اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم : سید خادم رسول عینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علماءے بلاغت نے کلام منظوم و منثور میں صنعت اقتباس کے استعمال کو بہت اہمیت دی ہے۔صنعت اقتباس کے استعمال سے کلام میں جاذبیت آجاتی ہے اور اشعار بہت ہی معتبر اور مستند ہوجاتے ہیں ۔۔صنعت اقتباس کیا ہے؟ اہل بلاغت نے صنعت اقتباس کا ڈیفینیشن یوں بیان کیا ھے:

اقتباس یہ ہے کہ کلام منظوم و منثور میں قرآنی الفاظ کو بغیر کسی بڑی تبدیلی کے لایا جایے۔

اقتباس یہ ہے کہ کلام کو قرآن یا حدیث کے کلمات سے مزین کیا جائے۔

اقتباس یہ ہے کہ متکلم اپنے کلام میں قرآن ، حدیث کا کوئی ٹکڑا یا دیگر علوم میں سے کسی علم کے قاعدے کو شامل کرے۔

اقتباس کی مثال میں حدائق بخشش سے حسان الہند سرکار اعلیٰ حضرت علامہ احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے اشعار لاجواب ملاحظہ فرمائیں:
لیلۃالقدر میں مطلع الفجر حق
مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام

فاذا فرغت فانصب یہ ملا ہے تم کو منصب
جو گدا بنا چکے اب اٹھو وقت بخشش آیا کرو قسمت عطایا

والی الالہ فارغب کرو عرض سب کے مطلب
کہ تمھی کو تکتے ہیں سب کروں ان پہ اپنا سایہ بنو شافع خطایا

ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا

انت فیھم نے عدو کو بھی لیا دامن میں
عیش جاوید مبارک تجھے شیداییء دوست

غنچے ما اوحی’ کے جو چٹکے دنی’ کے باغ میں
بلبل سدرہ تک ان کی بو سے بھی محروم ہے

ایسا امی کس لیے منت کش استاد ہو
کیا کفایت اس کو اقرأ ربک الاکرم نہیں؟

مجرم بلائے آئے ہیں جاؤک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

مومن ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

ان پر کتاب اتری بیانا لکل شیء
تفصیل جس میں ما عبر و ماغبر کی ہے

ک گیسو ہ دہن ی ابرو آنکھیں ع ص
کھیعص ان کا ہے چہرہ نور کا

من رانی قد رای الحق جو کہے
کیا بیاں اس کی حقیقت کیجیے

حضرت حجۃالاسلام علامہ حامد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے اشعار میں صنعت اقتباس کی خوبیاں ملاحظہ فرمائیں:
ھوا الاول ھوالآخر ھوالظاھر ھوالباطن
بکل شیء علیم لوح محفوظ خدا تم ہو

انا لھا کہہ کے عاصیوں کو وہ لینگے آغوش مرحمت میں
عزیز اکلوتا جیسے ماں کو انھیں ہر اک یوں غلام ہوگا

مرزا غالب کے مندرجہ ذیل شعر میں صنعت اقتباس کا جلوہ دیکھیں :

دھوپ کی تابش آگ کی گرمی
وقنا ربنا عذاب النار

ڈاکٹر اقبال کے اشعار میں صنعت اقتباس کے مناظر خوشنما دیکھیں:

رنگ او ادنی میں رنگیں ہوکے اے ذوق طلب
کوئی کہتا تھا کہ لطف ما خلقنا اور ہے

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ھو اللہ احد کہتے تھے

صنعت اقتباس کے استعمال سے فائدہ یہ ہے کہ شاعر شعر میں مفہوم، قرآن و حدیث کے حوالے سے پیش کردیتا ہے۔اس لیے شعر زیادہ معتبر و مستند ہوجاتا ہے۔ لیکن صنعت اقتباس کے استعمال کرنے میں احتیاط اور مہارت کی ضرورت پڑتی ہے۔عربی الفاظ کے تلفظ کو شعر میں بعینہٖ پیش کرنا ہے ، اگر حروف میں کمی یا بیشی کی گئی تو معنی میں فرق آجانے کا امکان رہتا ہے۔موجودہ دور میں ہم نے چند شعرا کو دیکھا ہے جو صنعت اقتباس کے استعمال میں احتیاط سے کام نہیں لیتے ، کبھی الف گرادیتے ہیں تو کبھی ی ، کبھی واؤ کو حذف کردیتے ہیں تو کبھی الف ، واو یا ی کو کھینچ دیتے ہیں ۔ایسی غلطی اس وقت سرزد ہوتی ہے جب شاعر کے اندر شعر کہنے کی مہارت نہیں ہوتی یا علم عروض میں شاعر کو پختگی حاصل نہیں ہوتی ۔ ایسی صورت میں شاعر ضرورت شعری کے نام پر بے احتیاطی کربیٹھتا ہے اور قرآنی الفاظ کے تعلق سے غلطی کر بیٹھتا ہے ۔ ایسے شعرا کو ہم نے کئی بار مختلف واٹس ایپ گروپس میں تنبیہ بھی کی ہے۔بہر حال، اب اصل موضوع کی طرف رخ کرتے ہیں ۔

حضرت علامہ سید اولاد رسول قدسی مصباحی کے مجموعہاءے کلام کے مطالعہ سے یہ عیاں ہوتاہے کہ دور حاضر میں صنعت اقتباس پر مبنی سب سے زیادہ اشعار کہنے والے شاعر کا نام ہے علامہ قدسی۔آپ کے تقریباً ہر کلام میں صنعت اقتباس پرمبنی کم سے کم ایک شعر مل ہی جاتا ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ آپ نے اپنے نعتیہ/ تقدیسی کلام کے ہر شعر میں قرآن کی آیت کا حوالہ پیش کیا ہے یعنی صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ آپ‌ نے قرآنی آیات کا استعمال مکمل احتیاط سے کیا ہے، کہیں بھی عروضی خامی نظر نہیں آتی، کسی بھی قرآنی لفظ یا حدیث کے کلمے کا کوئی حرف گرتا ہوا نظر نہیں آتا ، نہ ہی کہیں آپ نے کسی حرف کو بڑھا کر شعر کو آؤٹ آف وے جاکر موزوں کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس سے نہ صرف یہ کہ شعر گوئی میں آپ کی مہارت کا پتہ چلتا ہے ، بلکہ یہ بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ آپ دور حاضر کے ایک جید عالم دین ہیں ، علم قرآن و حدیث سے اپڈیٹیڈ ہیں اور حامل وسعت مطالعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علم قرآن و حدیث اور فن عروض کا بہترین استعمال تقدیسی شاعری میں بحسن و خوبی کرتے ہیں ۔

اب آئیے علامہ قدسی کے کلاموں میں سے چند اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں جن اشعار میں آپ نے صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے۔

حال ہی میں علامہ قدسی کا ایک تازہ ترین نعتیہ کلام نظر سے گزرا جس میں ردیف ہے:
محال است محال۔
اس ردیف میں بہت ساری خوبیاں ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اردو کلام میں آپ نے ایک طویل ردیف کا استعمال کیا ہے جو فارسی کلمات پر مشتمل ہے۔گویا یہ کلام دو زبانوں پر مبنی ہے، اردو اور فارسی۔لہذا اس کلام کو ذوالسانی کلاموں کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنی ردیف میں آپ نے محال کو دوبار استعمال کرکے مفہوم کی اہمیت کو فزوں تر بنادیا ہے اور مضمون کی وقعت کو دوبالا کردیا ہے۔

کسی لفظ یا کسی فقرے کا دوبار استعمال کلام میں حسن تاکید کے لیے کیا جاتا ہے۔مثلا” سرکار اعلیٰ حضرت کا شعر دیکھیں:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے
اس شعر میں اعلیٰ حضرت نے تو زندہ ہے واللہ فقرے کو دوبار استعمال کیا ہے تاکہ بیان میں فورس آجائے ۔ایسی تاکید سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ شاعر مکمل وثوق کے ساتھ مفہوم کو بیان کررہا ہے اور شاعر کے پاس اپنے مفہوم کو ثابت کرنے کے لئے دلائل موجود ہیں ۔تبھی تو علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے

اس قسم کے حسن تاکید سے مزین اعلیٰ حضرت کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
مطلع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ
صرف ان کی رسائی ہے صرف ان کی رسائی ہے
اس شعر میں اعلیٰ حضرت نے واللہ کو دوبار استعمال کیا ہے اور صرف ان کی رسائی ہے کو بھی شعر/ مصرع میں دوبار لایا ہے

علامہ قدسی نے اپنے کلام کے ہر شعر میں مفہوم پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں : محال است محال۔
یعنی کہ آپ نے مکمل وثوق کے ساتھ مفاہیم‌ بیان کیے ہیں جن میں کسی قسم کے تردد کا شائبہ بھی نہیں ہے اور ان مفاہیم کو ثابت کرنے کے لئے آپ کے پاس دلائل بھی موجود ہیں۔
آپ کے اس کلام کے افاعیل ہیں:
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن/ فعلان۔
اور بحر کا نام ہے:
بحر رمل مثمن مزاحف مخبون محذوف مسبغ

اس کلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
شاہ کونین کی تمثیل محال است محال
مثل قرآن ہو تنزیل محال است محال
اس شعر میں آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثیل کونین میں کہیں بھی نہیں ہے اور قرآن جیسی کتاب کا بھی ملنا دنیا میں محال ہے۔ان دونوں دعووں کو ثابت کرنے کے لئے آپ کے پاس نقلی و عقلی دلائل موجود ہیں ، تبھی تو پورے وثوق کے ساتھ کہہ رہے ہیں :
شاہ کونین کی تمثیل محال است محال
مثل قرآن ہو تنزیل محال است محال

اسی کلام میں ایک شعر ہے :
جس کا دل ہے ختم اللہ کا مصدر اس میں
حق کے پیغام کی تقبیل محال است محال
یہ شعر صنعت اقتباس پر مبنی ہے۔اس شعر میں مفہوم بیان کرنے کے لیے علامہ قدسی نے قرآن کی آیت (سورہء بقرہ / آیت ٧) کا حوالہ دیا ہے اور قرآنی آیت کو کووٹ کرکے صنعت اقتباس کا استعمال بہت عمدہ اسلوب سے کیا ہے۔وہ آیت یوں ہے :
ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم غشاوۃ ولھم عذاب عظیم
ترجمہ:
اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کردی اور ان کی آنکھوں پر گھٹا ٹوپ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ۔
(کنز‌ الایمان)

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ان کافروں کا ایمان سے محروم رہنے کا سبب یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے جس کی بنا پر یہ حق سمجھ سکتے ہیں نہ حق سن سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتے ہیں اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ اللہ تعالی’ کی آیات اور اس کی وحدانیت کے دلائل دیکھ نہیں سکتے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔اسی مفہوم کو علامہ قدسی نے ایک شعر کے ذریعہ بہت ہی دلکشی کے ساتھ اور مکمل وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے ، کہتے ہیں:

جس کا دل ہے ختم اللہ کا مصدر اس میں
حق کے پیغام کی تقبیل محال است محال

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا ، شہر میں چرچا تیرا
اس شعر میں جس آیت کریمہ کا حوالہ دیا گیا ہے وہ یہ ہے:
ورفعنا لک ذکرک۔
سورہ الم نشرح ، آیت ٤
ترجمہ: اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کیا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اللہ نے اذان میں ، قیامت میں ، نماز میں ، تشہد میں، خطبے میں اور کثیر مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا ھے۔یہی وجہ ہے کہ شہر شہر میں آپ کا چرچا ھے، نگر نگر آپ کا ذکر ہے۔جلوت میں بھی آپ کا ذکر ہے اور خلوت میں بھی ، عرب میں بھی آپ کا چرچا ہے اور عجم میں بھی ۔ آپ کا ذکر صرف خلیجی ممالک میں نہیں ہوتا بلکہ ہند و پاک اور یوروپ و اسٹریلیا میں بھی آپ کا ذکر جمیل ہوتا ہے ۔ زمین میں بھی آپ کا چرچا ہے اور آسمانوں میں‌ بھی ۔آبادی کے علاقے میں بھی آپ کا چرچا ہے اور غیر آباد‌ علاقوں میں بھی الحمد لللہ۔اسی لیے علامہ قدسی فرماتے ہیں:
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا ، شہر میں چرچا تیرا

صنعت اقتباس پر مبنی ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
صداءے فزت بربی بھلا نہ کیوں گونجے
کٹی زباں ہے رسالت مآب کی خاطر
یہ شعر تلمیحی بھی ہے۔جنگ بدر میں ایک صحابیء رسول کی شہادت ہوئی اور دشمن اسلام نے ان کی زبان کاٹ دی ۔زبان کٹنے کے بعد بھی ان کی زبان سے یہ آواز آرہی تھی :
فزت بربی یعنی میں رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا ، کل قیامت کے دن اگر مجھ سے پوچھا جائےگا کہ تمہاری زبان کہاں گئی تو میں فخر سے کہونگا کہ ناموس اسلام و رسالت کے لیے میں نے اپنی جان قربان کردی اور اپنی زبان بھی نذر کردی۔اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ قدسی فرماتے ہیں:
صداءے فزت بربی بھلا نہ کیوں گونجے
کٹی زباں ہے رسالت مآب کی خاطر

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
آیت من‌ شعاءر کا پیغام ہے
ہم کو کرنا ہے رب کی نشانی پہ ناز
اس شعر میں جس آیت کا حوالہ پیش کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
ذالک ومن یعظم شعاءر اللہ فا نھا من تقوی القلوب۔
سورہء حج، آیت ٣٢
ترجمہ : بات یہ ہے اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیز گاری سے ہے۔

اس آیت سے یہ ہدایت ملی کہ ہم اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کریں ۔مثال کے طور پر مناسک حج پر اگر غور کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم حج کے دوران وہی کرتے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ نے کیا تھا ۔قربانی کرنا، جمرات پر کنکر مارنا، طواف کرنا، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا یہ سب ان کی سنتیں ہیں اور ہم بہت ہی احترام سے عمرہ/ حج کے دوران ان کی سنتوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں ۔
اور ہمیں ناز ہے کہ ہم سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہیں اور ان کی نشانیوں کی تعظیم دل سے کرتے ہیں۔اس لیے علامہ قدسی کہتے ہیں:
آیت من‌ شعائر کا پیغام ہے
ہم کو کرنا ہے رب کی نشانی پہ ناز

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
انصتوا فاستمعوا کا ہے یہی حکم جلی
جب ہو قرآں کی تلاوت تو سماعت ہے فرض

اس شعر میں قرآن کی جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
واذا قری القرآن فاستمعو لہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔
سورہء اعراف ، آیت ٢٠٤
ترجمہ : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ جس وقت قرآن پڑھا جائے خواہ نماز میں ہو یا خارج نماز میں اس وقت سننا اور خاموش رہنا واجب ہے ۔اس مفہوم کو سہل ممتنع کے انداز میں علامہ قدسی نے کس حسین پیرائے سے شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے، کہتے ہیں:
انصتوا فاستمعوا کا ہے یہی حکم جلی
جب ہو قرآں کی تلاوت تو سماعت ہے فرض

صنعت اقتباس پر مبنی ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
زار قبری پہ بصد شوق جو کرتا ہے عمل
ایسے حاجی کے لیے ان کی شفاعت ہے فرض

اس شعر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مشہور حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے اور وہ حدیث ہے:
من زار قبری وجبت لہ شفاعتی ۔
ترجمہ : جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی ۔
یعنی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہء مبارک کی زیارت کے لیے حاضر ہونے والوں کو شفاعت کی بشارت ملی ہے ۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زائرِ روضہء مطہر کا خاتمہ ایمان پر ہوگا ۔اس حدیث مبارکہ کو علامہ قدسی نے بہت ہی دلکش انداز سے شعر کا جامہ پہنایا ہے، کہتے ہیں:
زار قبری پہ بصد شوق جو کرتا ہے عمل
ایسے حاجی کے لیے ان کی شفاعت ہے فرض

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
قدسی الحب فی اللہ کا کل متن
اصل ایماں کی تقیید سے کم نہیں
یہ شعر جس حدیث کی سمت اشارہ کررہا ہے وہ یوں ہے:
افضل الاعمال الحب فی اللہ والبغض فی اللہ ۔
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی سے محبت کرنا اور اللہ تعالیٰ ہی کی خاطر کسی سے نفرت کرنا سب سے زیادہ فضیلت والا عمل ہے۔
اس سے پتہ یہ چلا کہ ایسی محبت جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو ، نفسیاتی خواہشات کی آمیزش نہ ہو افضل اعمال سے ہے۔ نماز ، روزہ ، زکاۃ، حج بھی الحب فی اللہ کی شاخیں ہیں کہ مسلمان صرف اللہ کی رضا کی خاطر ان اعمال سے محبت کرتا ہے اور اللہ کا حکم بجالاتے ہوئے یہ اعمال صالحہ کرتا ہے جو عین ایمان و اصل ایماں کا تقاضہ ھے۔ اس لیے علامہ قدسی کہتے ہیں :
قدسی الحب فی اللہ کا کل متن
اصل ایماں کی تقیید سے کم نہیں

ماہ رمضان کے ایام میں علامہ قدسی کی ایک نظم سوشل میڈیا میں بہت مقبول خاص و عام ہوئی تھی جس کا عنوان ہے: اصحاب بدر ۔
اس نظم میں کل نو اشعار ہیں ۔ان نو اشعار میں سے چار اشعار صنعت اقتباس کا حسن لیے ہوئے ہیں ۔آپ بھی ان اشعار کو ملاحظہ فرماءیے اور علامہ قدسی کے وسعت مطالعہ ، علمی تبحر، عروض دانی اور قادر الکلامی کی داد دیجیے:
اعملوا ہے حدیث شہ دیں گواہ
نور تقریر غفران اصحاب بدر
کہہ رہا ہے لکم آیۃ قول رب
راہ حق کے نگہبان اصحاب بدر
اقتدیتم ہے ارشاد شاہ زمن
ہیں ہدایت کی میزان اصحاب بدر
قدسی انتم اذلہ کا اعلان ہے
مشک اظہار احسان اصحاب بدر

اسی طرح علامہ قدسی کے سیکڑوں اشعار ہیں جس میں قرآن و حدیث کے اقتباسات کو کووٹ کرکے مکمل وضاحت کے ساتھ ایمان افروز مفاہیم پیش کیے گئے ہیں۔ان شا ء اللہ پھر کبھی دیگر اشعار کی تشریح پر مبنی مقالہ پیش کیا جائےگا۔

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ علامہ قدسی دور حاضر میں صنعت اقتباس کے بہت ہی عظیم شاعر ہیں جن کی تمثیل دور دور تک کہیں نظر نہیں آتی۔

نعت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

ہر حیطہء مکان سے آگے نکل گئے
سرکار آسمان سے آگے نکل گئے

منزل حبیب رب جہاں کی ہے لامکاں
جبریل کے گمان سے آگے نکل گئے

یوں فتح کی صحابہ نے فیض حبیب سے
ایران و اصفہان سے آگے نکل گئے

ان کی فصاحت ایسی کہ تاریخ ہے گواہ
وہ سارے خوش بیان سے آگے نکل گئے

ہر اک سخی کو ان کی سخاوت پہ ناز ہے
وہ سارے مہربان سے آگے نکل گئے

تلک الرسل فضیلت آقا کی ہے گواہ
دنیا کے ہر مہان سے آگے نکل گیے

“عینی ” تصورات میں ایسے وہ بس گیے
ہم خود کسی بھی دھیان سے آگے نکل گیے
۔۔۔‌
از: سید خادم رسول عینی

خالصاً لوجہ اللہ دین کی خدمت کریں،اللّٰہ آپ کو دارین میں سرخ روئی عطا فرمائے گا:سید نوراللہ شاہ بخاری،،، رپورٹ:حبیب اللہ قادری انواری آفس انچارج:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر [راجستھان]

خالصاً لوجہ اللہ دین کی خدمت کریں،اللّٰہ آپ کو دارین میں سرخ روئی عطا فرمائے گا:سید نوراللہ شاہ بخاری

مدارس ومکاتب کے علماء ومدرسین اور مساجد کے ائمہ دینی اعتبار سے بہت ہی اہمیت وفضیلت کے حامل ہیں جس پر آیت کریمہ “قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون” اور قرآن مقدس کی دیگر بہت سی آیات اور رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث طیبہ شاہد ہیں،مگر افسوس کہ خود قوم مسلم بھی علماء وائمہ کو وہ اہمیت نہیں دیتی جس کے وہ حامل ہیں پھر بھی دوسرے پیشہ سے جڑے ہوئے افراد کے اعتبار سے ہمارے علماء وائمہ ہمیشہ شاکر وصابر نظر آتے ہیں،فالحمدلله علیٰ ذٰلک-
مذکورہ خیالات کا اظہارمغربی راجستھان کی عظیم اور علاقۂ تھار کی مرکزی درسگاہ “دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان” کے مہتمم وشیخ الحدیث نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی نے دارالعلوم کی عظیم الشان “غریب نوازمسجد” میں 20 شوال المکرم1443 ہجری مطابق 22 مئی 2022 عیسوی اتوار کو منعقدہ “شاخہائے دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف” کے مدرسین وذمہ داران کے “سالانہ افتتاحی مجلس مشاورت” میں شرکائے مجلس کو خطاب کرتے ہوئے کیا-
آپ نے اپنے ناصحانہ خطاب کے دوران شاخہائے ادارہ کے مدرسین کرام ومساجد کے ائمہ کو مخاطب کر کے یہ بھی فرمایا کہ”آپ سبھی مدارس ومکاتب کے مدرسین واساتذہ اور اراکین وذمہ داران نیز مساجد کے ائمہ اور ٹرسٹیان کو چاہییے کہ آپ حضرات اپنی ذمہ داریوں کو محض ڈیوٹی سمجھ کر نہ کریں بلکہ خلوص وللہیت،نیک نیتی اور اللہ ورسول کی رضا کی خاطر خدمت دین متین سمجھ کرکریں، اگر آپ نے ایساکیا تو اللّٰہ تعالیٰ آپ کو دارین کی سرخ روئی نصیب فرمائےگا-یہ آپ سبھی حضرات کی خوش قسمتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ حضرات کو دین کی خدمت کےلیے چن لیا ہے اور علم دین جیسی لازوال دولت ونعمت سے نوازا ہے-ساتھ ہی ساتھ آپ نے مدارس ومکاتب اور مساجد کے ذمہ داران کو بھی علماء وائمہ کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کااحساس دلاتے ہوئے فرمایا کہ “ہمارے علماء جس بھی بستی میں تعلیم وتعلم اور درس وتدریس یا امامت وخطابت کا فریضہ انجام دے رہے ہوں اس بستی کے لوگوں کو چاہییے کہ وہ اپنے ائمہ ومدرسین کی ہر اعتبار سے خاطر خواہ قدر کریں،اور مدرسین شاخہائے ادارہ سے کہا کہ آپ حضرات کے لیے مرکز”دارالعلوم انوارمصطفیٰ” کی طرف سے جو ہدایات تحریری شکل میں جاری کی گئی ہیں ان پر مکمل طور پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی خدمات انجام دیں کیونکہ اسی میں آپ کی،ادارہ کی اور اہل بستی کی کامیابی مضمر ہے-
اس مجلس مشاورت کی شروعات تلاوت کلام ربانی سے کی گئی پھر دارالعلوم کے کچھ ہونہار طلبہ نے یکے بعد دیگرے بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نعت خوانی کاشرف حاصل کیا-
پھر دارالعلوم کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا محمدشمیم احمد صاحب نوری مصباحی نے اس میٹنگ کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالنے کے ساتھ “مکاتب میں تعلیم وتدریس کے بہتر طریقے”پر بالاختصار عمدہ گفتگو کی اور “من لم یشکرالناس لم یشکراللہ ” پر عمل کرتے ہوئے دارالعلوم کے ارکان واساتذہ کی طرف سے میٹنگ میں تشریف لائے سبھی علمائے کرام وعوام اہلسنت کا شکریہ اداکیا -بعدہ حضرت مولاناخان محمدقادری انواری باگاواس نے نعت رسول مقبول پیش کیا-
پھر تقریباً ۱ گھنٹہ کا وقت لوگوں کے مشورے، شکایات اور اس کے ازالے کے لیے رکھاگیا جس میں لوگوں نے اپنی اپنی باتیں قبلہ سید صاحب کے پاس رکھیں،آپ نے لوگوں کی باتوں کو بغور سن کر ان کے حل نکالے اور لوگوں کو مطمئن کیا-بعض آبادیوں کے لوگوں نے نئی تعلیمی شاخ کے قیام کی درخواستیں بھی پیش کیں جب کہ بعض مدرسین اپنی سابقہ جگہوں سے دوسری جگہوں پر تبادلہ کے خواہاں ہوئے سب کی باتیں وگذارشات کو دارالعلوم کے صدرالمدرسین حضرت مولانادلاور حسین صاحب قادری نے کارروائی رجسٹر میں درج کر لیا اور ان شاءاللّٰہ العزیز جلدہی ساری باتوں پر مناسب کارروائی ہوجائےگی،جن مکاتب میں مدرسین کی ضرورت ہے وہاں مناسب مدرسین کاانتظام کردیاجائےگا،جب کہ نئی تعلیمی شاخوں کے درخواست دہندگان کے یہاں باہمی مشاورت سے تعلیمی شاخوں کی بھی منظوری دے دی جائیں گی-
درمیان میٹنگ شاخہائے دارالعلوم کے مسقل نگراں حضرت مولانا محمد حسین صاحب انواری نے اپنی نگرانی کے دوران دارالعلوم کی تعلیمی شاخوں کے اندر جو خوبیاں وخامیاں محسوس کی ان سب باتوں پر مشتمل تفصیلی روشنی ڈالی اور تجزیہ پیش کرنے کے ساتھ کہاں کس طرح کی خدمات کی ضرورت ہے اس پر روشنی ڈالی-
اس مجلس مشاورت میں خصوصیت کے ساتھ ان حضرات نےاپنے تاثرات پیش کیے-
حضرت مولاناخیر محمدصاحب قادری انواری،حضرت مولاناجمال الدین صاحب قادری انواری،حضرت مولاناعبدالسبحان صاحب مصباحی، حضرت مولاناعلم الدین صاحب قادری انواری-
واضح رہے کہ اس مجلس مشاورت میں شاخہائے دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے تقریباً سبھی مدرسین کرام اور سبھی شاخوں کے کچھ ذمہ داران نے بھی شرکت کی-
صلوٰة وسلام اور نورالعلماء حضرت علامہ پیرسیدنوراللہ شاہ بخاری کی دعا پر یہ مجلس اختتام پزیر ہوئی-
رپورٹ:حبیب اللہ قادری انواری
آفس انچارج:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر [راجستھان]

شاخہائے دارالعلوم انوارمصطفیٰ کی سالانہ افتتاحی مجلس مشاورت 22 مئی کو!

حسب سابق امسال راجستھان کے علاقۂ تھار وگجرات میں مغربی راجستھان کی عظیم ومنفرد دینی وعصری دعوتی وتربیتی اور مرکزی درسگاہ “دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر” کے ماتحت وزیر نگرانی چل رہے سبھی مدارس ومکاتب کی سالانہ افتتاحی مجلس مشاورت 20 شوال المکرم 1443 ہجری مطابق 22 مئی 2022 عیسوی بروز:اتوار بوقت:8 بجے صبح دارالعلوم کے وسیع وعریض گراؤنڈ میں منعقد ہوگی-
اس مجلس مشاورت میں شاخہائے دارالعلوم انوار مصطفیٰ کے سبھی مدرسین کرام کی شرکت لازمی ہوتی ہے-
واضح ہو کہ اس مجلس مشاورت میں شاخہائے دارالعلوم انوارمصطفیٰ کی گذشتہ کارگزاریاں پیش کی جاتی ہیں اور جن تعلیمی شاخوں کے مدرسین کی کارکردگی بہتر وعمدہ ہوتی ہے ان کی تعریف وتحسین اور انعام واکرام کے ساتھ دیگر مدرسین کرام کو شاخہائے ادارہ کو بہتر سے بہترین بنانے کے لیے نصیحت کرنے کے ساتھ کچھ عمدہ ومفید ہدایات جاری کی جاتی ہیں،اور ساتھ ہی ساتھ اس مجلس میں شاخوں کے مدرسین کی جائز شکایات ومطالبات کو سننے کے بعد ان کے ازالے کی بھی ہر ممکن کوشش بھی کی جاتی ہے اور اگر کسی تعلیمی شاخ کا کوئی مدرس اپنی سابقہ جگہ سے مستعفی ہوکر نئی جگہ کا خواہاں ہوتا ہے تو اسے مناسب جگہ پر تبادلہ بھی کیا جاتا ہے،اور از سرنو کچھ مدرسین وائمہ کی تقرری بھی اسی مجلس مشاورت میں عمل میں آتی ہے،اور اگر کسی نئی آبادی،قصبہ یا گاؤں کے ذمہ داران نئی تعلیمی شاخ کی ارکان ادارہ کو درخواست پیش کرتے ہیں تو باہمی مشاورت اور درخواست دہندہ آبادی کا جائزہ لینے کے بعد نئی تعلیمی شاخ بھی قائم کی جاتی ہے اور اس کی مکمل دیکھ ریکھ ارکان ادارہ بحسن وخوبی کرتے ہیں-
فی الحال دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف کے ماتحت 80 مدارس ومکاتب چل رہے ہیں- دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے ماتحت اس قدر کثیر تعداد میں مدارس ومکاتب کا بحسن وخوبی نونہان اسلام کی تعلیم وتربیت کرنا یقیناً یہ بہت بڑی خدمت ہے-اتنے بڑے پیمانہ پر تعلیم وتعلم کے فروغ اور دین وسنیت کی خدمات جہاں امت مسلمہ کے اہل خیر حضرات کے تعاون کانتیجہ ہے وہیں ادارہ کے موجودہ مہتمم وشیخ الحدیث نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سید نوراللّٰہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کی حکمت عملی،جد وجہد اور کوشش وکاوش کاثمرہ ہے-اللّٰہ تعالیٰ قبلہ سید صاحب کے علم وعمل اور عمر واقبال میں خوب خوب برکتیں عطافرمائے اور آپ کی دینی وملّی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے-آمین!
رپورٹ:محمدشمیم احمدنوری مصباحی
خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

بھونیا پور،اسکابازار،سدھارتھ نگر میں “جشن ادائے مصطفیٰ ومحفل میلاد پاک” منایا گیا-رپورٹ:صغیر احمد انصاریساکن:بھوانیا پور،پوسٹ:اسکابازار، ضلع:سدھارتھ نگر(یوپی)

 ’’ایجاب وقبول‘‘کے مخصوص الفاظ کے ذریعہ مرد وعورت کے درمیان ایک خاص قسم کا دائمی تعلق اور رشتہ قائم کرنا نکاح کہلاتا ہے، جو دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کے صرف دو لفظوں کی ادائیگی سے منعقد ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نکاح کو عبادت کا درجہ دیا ہے۔ قرآن مجید میں اور اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جابجا نکاح کے لئے اپنے بندوں کو ترغیب دی ہے۔
اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے۔ اسلام نے نکاح کے ‎تعلق سے جو فکرِ اعتدال اور نظریہ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں، بس اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے، اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی اجازت ہے اور اسلام نے نکاح کو انسانی بقا وتحفظ کے لیے ضروری بتایا ہے۔۔۔
اسلام نے تو نکاح کو احساسِ بندگی اور شعورِ زندگی کے لیے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ! اے لوگو ، اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیئے۔ (سورۂ نسآء)‏‎متعدد احادیث میں بھی نکاح کرنے کا حکم مذکور ہے، ایک حدیث مبارکہ میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے جوانو کی جماعت! تم میں جو شخص خانہ داری (نان ونفقہ) کا بوجھ اٹھانے کی قدرت رکھتا ہو اس کو نکاح کرلینا چاہیے، کیونکہ نکاح کو نگاہ کے پست ہونے اور شرمگاہ کے محفوظ رہنے میں خاص دخل ہے اور جو شخص قدرت نہ رکھتا ہو اس کو روزہ رکھنا چاہیے،(مسلم شریف) دوسری حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ نکاح کرلیتا ہے تو آدھا دین مکمل کر لیتا ہے، اب اس کو چاہیے کہ نصف دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے (ترغیب) اس طرح مختلف احادیث میں شادی نہ کرنے پر وعید آئی ہے، ایک حدیث میں مذکور ہے کہ جو شخص باوجود تقاضائے نفس وقدرت کے نکاح نہ کرے وہ ہمارے طریقہ سے خارج ہے (کیونکہ یہ طریقہ نصاریٰ کا ہے کہ وہ نفس نکاح کو وصول الی اللہ سے مانع سمجھ کر اس کے ترک کو (نکاح نہ کرنے کو) عبادت سمجھتے ہیں-اس لیے سبھی مسلمانوں کو چاہییے کہ جب ان کے بچے بالغ اور شادی کے لائق ہو جائیں تو اوّل فرصت میں ان کے لیے مناسب اور دیندار گھرانا دیکھ کر رشتہ ونکاح کروادیں اس طرح جہاں سنّت رسول کی بجاآوری ہوگی وہیں وہ بہت ساری برائیوں سے بچ بھی جائیں گے اور نکاح خوانی کے صدقے ان شاءاللہ العزیز آپ کے گھروں میں خیروبرکت بھی ہوگی- ساتھ ہی ساتھ ہمیں چاہییے کہ جب کبھی بھی ہم اپنے بچوں کی شادی بیاہ کریں تو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم نکاح میں پائی جانے والی خرابیوں اور رسم و رواج کے خلاف طاقتور آواز بلند کریں اور ہر قسم کے مفاسد اور بری باتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ بیجا رسومات جوڑے گھوڑے اور مروجہ جہیز کی لعنت سے بچتے ہوئے نکاح کو آسان بنائیں، کیوں کہ کم خرچ، ہلکی پھلکی اور آسان شادیوں کے سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ‘وہ نکاح بہت ہی بابرکت ہے جس کا بوجھ کم سے کم ہو’۔(بیہقی)

لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہماری شادیاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بالکل برعکس ہو رہی ہیں جس کے نتیجے میں ہم نت نئے خانگی الجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
ازدواجی زندگی کو خوشگوار، خوش حال اور کامیاب بنانے کے لیے اسلام نے جن باتوں کا ہمیں حکم دیا ہے، آج ہم انہی باتوں کو پس پشت ڈالے ہوئے ہیں جس کے سبب ہم فساد وبگاڑ کی طرف نہایت تیزی سے رواں دواں ہیں۔ شادی کے شرعی معیار کو نظر انداز کر دینے کے سبب ہم مصیبت عظمیٰ میں گرفتار ہو گئے ہیں۔
اسلامی شادیاں جو کبھی سنت نبوی کے مطابق انجام پانے کی وجہ سے مبارک تھیں آج رسومات مروجہ کے مطابق ہونے کی وجہ سے نامبارک ہو گئی ہیں، ہماری شادیاں جو خانہ آبادی اور مسرت و شادمانی کا ذریعہ و وسیلہ تھیں آج شرعی معیار کو نظر انداز کر دینے کی وجہ سے خانہ بربادی کا ذریعہ بن گئی ہے۔ آج شادی کے بعد دو خاندانوں کے درمیان محبت کے بجائے عداوتیں وجود میں آ رہی ہیں۔ اس لیے اگر ان ساری باتوں سے بچنا ہے تو ہمیں شریعت اسلامیہ کی پاسداری کرنی ہوگی-
مذکورہ خیالات کا اظہار مورخہ 14 مئی 2022 عیسوی بروز اتوار بعدنمازعشاء عالی جناب ریاض احمدانصاری ساکن بھونیا پور، پوسٹ:اسکابازار،ضلع سدھارتھ نگر کی صاحبزادی کی شادی خانہ آبادی کے موقع پر منعقدہ “محفل میلاد پاک وجشن ادائے سنّت مصطفیٰ” میں فاضل جلیل حضرت مولانا حافظ وقاری معین الدین صاحب مصباحی استاذ جامعہ شمسیہ تیغیہ برہڑیا، سیوان،بہار اور حضرت مولانا محمد شاہدرضا نوری فیضی صدرالمدرسین دارالعلوم غوثیہ فیض الرسول سمرہنا نے اپنے خطاب کے دوران کیا-
اس محفل میں درج ذیل حضرات نے نعت خوانی کا شرف حاصل کیا-
حضرت مولانا سراج احمدصاحب قادری علیمی،مولوی احمد حسین قادری،مولوی مجاہدرضا،محمداشرف رضا،محمدعارف رضا وغیرہم
اس مجلس میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک رہے-
حضرت مفتی محمدامتیاز احمد صاحب قادری،حضرت مولانا عبیدالرضاصاحب قادری،حضرت مولاناارشاداحمدصاحب مصباحی، حافظ فیروز احمدبرکاتی،حافظ محمدفاروق، جناب مشتاق احمد صاحب انصاری، جناب نثاراحمد صاحب،جناب قمرالدین صاحب انصاری،جناب اسراراحمد انصاری،جناب اشفاق احمد وغیرہم-
صلوٰة وسلام اور حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کی دعا پر یہ مجلس اختتام پزیر ہوئی-

رپورٹ:صغیر احمد انصاری
ساکن:بھوانیا پور،پوسٹ:اسکابازار، ضلع:سدھارتھ نگر(یوپی)

جھوٹ مت بولو۔۔از: سید خادم رسول عینی

۔۔۔۔۔

ہے یہ ہدایت رحمان ، جھوٹ مت بولو
بناؤ زیست کو آسان ، جھوٹ مت بولو

دیا ہے دین‌ نے ام الخبائث اس کا نام
بچاو اپنا تم ایمان جھوٹ مت بولو

گنہ کبیرہ اسے شرع کہتی ہے، خود کو
بناؤ سچا مسلمان جھوٹ مت بولو

نہ باندھو کذب نہ ہی افترا کبھی رب پر
یہ کہتا ہے تمھیں قرآن ، جھوٹ مت بولو

بناؤ زیست میں اپنی ہمیشہ قصر حق
گرے عمارت شیطان جھوٹ مت بولو

ملیں گے فائدے ہی فائدے تمھیں سچ میں
اگر گھٹانا ہے نقصان ، جھوٹ مت بولو

ذرا سا یاد کرو سیرت جناب غوث
بڑھیگی دہر میں بھی شان ، جھوٹ مت بولو

ہمارے دل میں اے “عینی “خشیت رب ہو
بنایا ہم نے بھی عنوان جھوٹ مت بولو
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

ہرپالیہ[باڑمیر،راجستھان] میں اجتماعی شادیوں کی مثالی تقریب،نکاح خوانی 15 مئی کو

ایک ہی دن 92 دولہا دولہن بنیں گے زندگی کے ہم سفر!

باڑمیر ضلع کے سیڑوا تحصیل کے تحت ہرپالیہ نامی گاؤں میں دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کے مجلس منتظمہ کے زیر نگرانی اور دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے مہتمم وشیخ الحدیث نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلّہ العالی کی قیادت وسرپرستی میں 15 مئی 2022 عیسوی بروزاتوار حضرت پیر سید کبیراحمدشاہ بخاری علیہ الرحمہ کے اوطاق میں بہت بڑے پیمانے پر اجتماعی نکاح وشادی کے پروگرام کا اہتمام کیا گیا ہے-
یہ گرام پنچایت ہرپالیہ کے لوگوں کا ایک مثالی وتاریخی اور لائق تعریف وتحسین وتبریک عمل واقدام ہے کہ ایک ہی جگہ اور ایک ہی پنڈال کے نیچے 92 بچوں کی شادی ہوجائےگی-اس لائق تعریف اور نیک عمل سے جہاں قوم کے لوگوں کا وقت برباد ہونے سے بچے گا وہیں شادی بیاہ کے مواقع پر جو فضول خرچی اور بے جا وغیر شرعی رسم ورواج پر عمل کیاجاتاہے اس پر لگام لگ جائے گا اور لوگ بہت ساری پریشانیوں سے بچ جائیں گے-
بلاشبہ ہرپالیہ گاؤں کے زندہ دل لوگوں نے سندھی سماج اور دوسرے برادران وطن کے لیے ایک بہترین عملی نمونہ پیش کیا ہے-
باشندگان ہرپالیہ کے اندر ایسی مثبت اور بہترین واصلاحی سوچ وفکر پیدا کرنے والے شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج پیر سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کو اللہ تعالیٰ عمر خضری عطافرمائے اور آپ کے علم وعمل اور اقبال میں مزید بلندیاں عطافرمائے-

علاقے کے معزز لوگوں کا کہنا ہے کہ “ہمیں باشندگان ہرپالیہ پر ناز ہے کیونکہ اس گاؤں کے لوگوں نے سماج کو مالی نقصان سے بچانے اور وقت جیسی انمول دولت کی بربادی سے بچانے کا اپنے اس عمل و پیش قدمی سے ہماری سماج کو بہت ہی اچھا پیغام دیا ہے”-
اگر یہ اجتماعی شادی کا پروگرام نہ ہوتا تو اتنے سارے لوگوں کی شادیاں کم از کم 2 مہینے میں ہوتیں،جسے صرف ایک دن میں انجام دے دیا جائےگا،اس اجتماعی شادی سے کس قدر وقت اور پیسوں کی بچت ہے یہ کسی ذی شعور پر مخفی نہیں-
امید کی جارہی ہے کہ یہ اچھی رسم اب بتدریج پورے علاقۂ تھار میں رائج ہوگی [ان شاءاللہ تعالیٰ]
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کی فضول چیزوں اور غلط رسم ورواج سے بچائے،سماج ومعاشرے میں پھیلی برائیوں کو ختم کرنے اور قوم وملت کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے والے قائد ولیڈر نصیب کرے جو حالات کی نزاکت کو سمجھنے کا شعور رکھتے ہوں-

हरपालिया [बाड़मेर,राजस्थान] में पहली बार विशाल सामूहिक विवाह समारोह 15 मई को।

62 परिवार के 92 दुल्हा दुल्हन शादी के बंधन में बंधेंगेबाड़मेर जनपद में पहली बार सेड़वा तहसील के अंतर्गत ग्राम पंचायत हरपालिया में दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा शिक्षण संस्था सेहलाऊ शरीफ की देख रेख और संस्था के संस्थापक हजऱत पीर सैयद नूरुल्लाह शाह बुखारी की अध्यक्षता में 15 मई 2022 ईस्वी रविवार को हज़रत पीर सैयद कबीर अहमद शाह बुखारी अ़लैहिर्रहमा के ओताक़ में विशाल सामूहिक विवाह समारोह का आयोजन किया गया है। यह ग्राम पंचायत हरपालिया के लोगों का एक इतिहासिक व बहुत ही सराहनीय कार्य है कि एक ही जाज़म पर 92 बच्चों की शादी हो जाएगी, इस सराहनीय व नेक कार्य से जहाँ क़ौम के लोगों का समय बरबाद होने से बचेगा वहीं शादी विवाह के मौक़े पर जो फुज़ूल खर्ची की जाती है उस पर लगाम लग जाएगा और लोग बहुत सी परेशानियों से बच जाएंगे।बिला शुब्हा हरपालिया गाँव के ज़िंदा दिल लोगों ने सिंधी समाज और दोसरे बिरादराने वतन के लिए एक नमूना पेश किया है!हरपालिया ग्राम वासियों के अंदर एसी सोच व फिक्र पैदा करने वाले हज़रत अ़ल्लामा पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी को अल्लाह तआ़ला लंबी ज़िंदगी अ़ता फरमाए।इलाक़े के लोगों का कहना है कि “हमें हरपालिया वासियों पर नाज़ है क्यों कि इस गाँव के लोगों ने समाज को माली [आर्थिक] नुक़सान से बचाने और वक़्त [समय] जैसी अनमोल दौलत की बरबादी से बचाने का समाज को बहुत अच्छा पैग़ाम व संदेश दिया है।अगर यह सामूहिक विवाह प्रोग्राम न होता तो इतने सारे लोगें की शादियाँ कम से कम लगातार 2 महीने में होतीं जिसे सिर्फ 01 दिन में अंजाम दे दिया जाएगा, इस सामूहिक विवाह समारोह से किस क़दर वक़्त और पैसों की बचत है यह किसी से पोशीदा नहीं।उम्मीद की जा रही है कि यह अच्छी रस्म अब पूरे इलाक़े में राइज [प्रभावी] होगी। [इन शा अल्लाह तआ़ला]अल्लाह तआ़ला हमें हर तरह की फुज़ूल बातों और ग़लत रस्म व रिवाज से बचाए,समाज में व्याप्त बुराइयों को खतम करने और क़ौम को आला मक़ाम पर पहुंचाने वाले मुहसिन व लीडर नसीब करे जो हालात की नज़ाकत को समझने का शऊ़र [सूझ बूझ] रखते हों।

منقبت در شان حضرت ارشد ملت دامت برکاتہم العالیہ۔۔از: سید خادم رسول عینی،ناظم نشر و اشاعت،خانقاہ قدوسیہ بھدرک اڈیشا الہند٥ مئی ٢٠٢٢

رضا کی فکر پہ قربان ارشد ملت
ہیں سنیت کی عظیم آن ارشد ملت

حضور فیض اویسی بھی معترف ان کے
علوم دیں میں ہیں ذیشان ارشد ملت

شفا وہ دیتے ہیں روحانی سب مریضوں کو
ہیں ایسے مظہر لقمان ارشد ملت

وہ وقت کیسا مقدس تھا جب کہ آپ بنے
ابو النعیم کے مہمان ارشد ملت

اسیر ملت و مذہب نہ کیوں کہیں ان کو
عزائموں کے ہیں فاران ارشد ملت

ہیں ماہنامہء ارشدیہ کے وہی بانی
ادب کے یوں ہیں نگہبان ارشد ملت

مبارک آپ کو ! من جانب ابو الانوار
ملی خلافت ذی شان ارشد ملت

در کچھوچھہ و بغداد و نور طیبہ سے
ملا ہے آپ کو فیضان ارشد ملت

عبادت اور ریاضت ہیں آپ پر نازاں
کتاب‌ زہد کے عنوان ارشد ملت

تمھاری صحبت اقدس سے دہر میں لاکھوں
بنے ہیں صاحب عرفان ارشد ملت

ہیں آپ رشد و ہدایت کے مطلع پرنور
عظیم رب کے ثنا خوان ارشد ملت

تمھارے اسم گرامی سے سب مریدوں کا
تھما ہے درد کا طوفان ارشد ملت

وہ اپنے پیر کے “عینی “خلیفہء اعظم
ہیں باغ بخت کے ریحان ارشد ملت
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی،
ناظم نشر و اشاعت،
خانقاہ قدوسیہ بھدرک اڈیشا الہند
٥ مئی ٢٠٢٢

منقبت در شان والد مفتی اعظم اڑیسہ حضرت علامہ سید محمد علی علیہ الرحمہ۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

ولی باکرامت‌ محمد علی ہیں
علی کی عنایت محمد علی ہیں

وقار سیادت محمد علی ہیں
قرار قیادت محمد علی ہیں

امین شریعت یہ کہتے تھے اکثر
بہار شجاعت محمد علی ہیں

خدا نے دیا ہے انھیں حسن ایسا
کہ جان وجاہت محمد علی ہیں

ہیں اقوال ان کے بہت کار آمد
جمال لطافت محمد علی ہیں

سخی ایسے، چرچا ہے ان کا ابھی تک
عروج سخاوت محمد علی ہیں

شہ دریا کے در سے آواز آئی
کہ میری امانت محمد علی ہیں

کتابوں کے انبار کہتے ہیں عینی
امین فصاحت محمد علی ہیں

از: سید خادم رسول عینی