WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

سب کو سینے سے لگاؤ دن ہے عیدالفطر کا ہیں،، از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر[راجستھان]

’’ عید الفطر‘‘ کا لفظ دو لفظوں “عید” اور “الفطر” سے مرکب ہے۔ اس کی تشریح اس طرح ہے کہ عید کا مادہ سہ حرفی ہے اور وہ ہے “عود” عاد یعود عوداً وعیاداً کا معنی ہے لوٹنا، پلٹنا، واپس ہونا ، پھر آنا- چونکہ یہ دن ہر سال آتا ہے اور اس کے لوٹ آنے ‘سے اس کی فرحت و مسرت اور برکت و سعادت کی گھڑیاں بھی اس کے ساتھ لوٹ آتی ہیں اس لیے اس روز سعید کو “عید” کہتے ہیں۔
فطر کے معنیٰ کسی کام کو از سرنو یا پہلی بار کرنے کے ہیں:رات بھر کی نیند اور سکون و آرام کے بعد انسان صبح کو اٹھ کرجس مختصر خوراک سے اپنے دن کا آغاز کرتا ہے اسے “فطور” کہتے ہیں۔ اسی طرح ماہ صیام میں سحری سے غروب آفتاب تک بن کھائے پیے رہنے کے بعد روزہ پورا کرکے روزہ دار کی بھوک مٹانے اور پیاس بجھانے کو افطار کہا جاتا ہے- مہینے بھر کے روزوں کا فریضہ مسلمان سر انجام دینے کی خوشی میں یکم شوال المکرم کو حسب حیثیت عمدہ و لذیذ کھانے اور میٹھے پکوان پکاتے ہیں اور اسلامی برادری کے ان افراد کو بھی صدقۂ فطر ادا کرکے اچھے کھانے پکانے کے قابل بناتے اور اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں جو اپنی ناداری و افلاس کے باعث اچھے کھانے پکانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تیس روزوں کے بعد حسب معمول کھانے پینے کا از سرنو آغاز کرنے اور صدقۂ فطر کی ادائیگی کی بنا پر اس عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔
عید کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ۔ تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں جو عید کے تصور سے آشنا نہ ہو،قدیم تاریخی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمدن دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی عید کا بھی آغاز ہو گیا تھا۔
ایک روایت ہے کہ جس روز حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اس روز دنیا میں پہلی بار عید منائی گئی تھی۔ دوسری بار عید اس وقت منائی گئی تھی جس روز ہابیل اور قابیل کی جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے اس روز عید منائی تھی جس روز حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نمرود کی آگ گلزار ہوئی تھی۔ حضرت یونس علیہ السلام کی امت اس روز عید مناتی تھی جس روز حضرت یونس کو مچھلی کی قید سے رہائی ملی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم اس روز عید مناتی تھی، جس روز حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ حضرت عیسیٰ کی امت آج تک اس یوم سعیدکوعید مناتی ہے۔ جس روز حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی۔

دنیا کی تقریباً سبھی قوموں میں تہوار منانے کا رواج ہے اور ہرمذہب کے لوگ اپنی روایت کے مطابق تہوار مناتے ہیں، اسلامی تہوار دوسرے مذاہب کے تہواروں سے بالکل مختلف اور جداگانہ نوعیت کے ہیں،اور ہمارے نبی کریمﷺ جب مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تو وہاں کے لوگ چھوٹے چھوٹے تہواروں کے علاوہ نو روز کا جشن اور کچھ بڑے بڑے بتوں کی پوجا کا تہوار بھی مناتے تھے حضور ﷺ نے ان باتوں کو سخت نا پسند فرمایا اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے اپنی امت کے لئے دعا فرمائی اور دوعیدیں مسلمانوں کے لیے مقرر کر وا لیں، جب پہلی بار مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو تاریخ اسلام کے اس پہلے رمضان المبارک میں حضور ﷺ نے مدینہ کے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہر قوم کے لئے عید ہوتی ہے تم بھی عیدیں مناتے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری عیدوں کو ان دو عیدوں سے بدل دیا ہے۔ اب تم ہر سال شان سے عیدالفطر اور عیدالا ضحیٰ منایا کرو۔
چنانچہ مسلمانوں نے اپنے پیارے رسول ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں یکم شوال دو ہجری کو پہلی بار عید منائی، عید الفطر حقیقت میں مسلمانوں کی خوشی اور مسرت کا وہ محبوب دن ہے، جو سال بھر میں صرف ایک مرتبہ انہیں نصیب ہوتا ہے۔ایک ماہ مسلسل اللہ کی عبادت کا فریضہ ادا کر کے مسلمان اپنے دل میں مسرت اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کے قلب میں ایمان کی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ اور ان کے دل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ روزے رکھ کر انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر لی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ہر سال مسلمان چھوٹا بڑا امیر غریب مرد عورت غرض ہر شخص رمضان المبارک کے اختتام پر بڑے تزک واحتشام سے عید الفطر مناتے ہیں۔

عیدالفطر کے پر مسرت موقع پر جو آپس میں کسی وجہ سے ناراض ہیں ان کو ایک دوسرے سے صلح کر لینی چاہیے اور بروز عید ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا چاہیے۔ عید کے دن دل میں کوئی رنجش نہ رکھیں کیونکہ عید آتی ہے اور خوشیاں دے کر چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے “اور جب انسان اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے سرفراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خوب خوشیاں منائے” عید کے دن مسلمانوں کی مسر ت اور خوشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خدا کے احکامات کی ایک ماہ تک سختی سے تعمیل کی اور اس تعمیل کے بعد خوش و مسرور رہتے ہیں، حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں، کہ عیدالفطر کے دن حضور میدان میں نماز ادا فرماتے نماز کی ادائیگی کے بعد لوگوں سے ملاقات کرتے گلے ملتے پھر واپس گھر آجاتے۔ لہٰذا آپ بھی خوب خوشیاں منائیں نئے کپڑے نئے جوتے خریدیں اور بڑوں سے عیدی بھی لیں اور چھوٹوں کو عیدی بھی دیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بھی نہ بھولیں، حسب توفیق انہیں بھی اپنی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کریں۔عید اصل میں دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا ہی نام ہے یا دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام ہے۔

یہ عید تیرے واسطے خوشیوں کا نگر ہو

کیا خوب ہو ہر روز تیری عید اگر ہو

اسلام کا کوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں اور پھر عموماً رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں زکٰو ۃ نکالی جاتی ہے یعنی امیر لوگ غریبوں کو دینے کے لئے ضرورت مندوں کی مددکرنے کے لیے اپنی جمع پونجی (آمدنی)میں سے اسلامی قوانین کے مطابق کچھ رقم نکالتے ہیں اور غریبوں میں اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ بہت سے غریب گھرانوں اور حاجت مندوں میں کھانے پینے کی چیزیں اور پہننے کے لئے کپڑے خرید لئے جاتے ہیں اور یوں سب عید کی خوشیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی ماہ صدقۂ فطر دیا جاتا ہے-

اگر ہمارے پڑوس میں خاندان میں غربت وافلاس کی وجہ سے کوئی عید کی خوشیوں میں شامل نہیں ہو سکتا تو اس کی مدد کرنے سے ہی عید کی دلی خوشیاں ملیں گی ، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل کر دی ہے ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تا کہ وہ غریب مسلمان بھی مسرتوں اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے بھی ایک غریب مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے۔ اور ایسی مدد کرنے پر خدا اور رسول ﷺ بھی خوش ہوتے ہیں اور اگر ہو سکے تو اوائل رمضان میں ہی ان کی مدد کر دیں تاکہ وہ اپنے بچوں کے لیے کپڑے خرید سکیں ،یہ ہمارا ان پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے ہم پر فرض ہے ۔ اللہ نے اگر ہم کو مال ودولت سے نوازا ہے تو ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہےکہ ہم اللّٰہ کے عطاکردہ مال سے اپنے ان بھائیوں کی بھی ضرورتوں کی تکمیل کرنے کی کوشش کریں جو اس کے مستحق ہیں-

اصل عید کیا ہے؟
رمضان کی ایک مہینے کا روزہ رکھنے کے بعد دو رکعت شکرانہ کے طور پر نماز عید ادا کی جاتی ہے یہ اس بات کی خوشی کا نام ہے کہ ہم نے اللہ کے فریضہ کو ادا کرلیا [ذٰلک فضل اللہ] اللہ تعالی نے جو انعام اس پر عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ہم اس پر خوش ہیں، اللہ کے حکم کی پاسداری پر خوش ہیں، رمضان کا احترام بجا لانے پر خوش ہیں، اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ رمضان میں ہر طرح کے گناہوں سے بچایا، رمضان کے شب و روز کو ذکر و تلاوت، دعا و استغفار، صدقہ و خیرات غرباء پر کرنے اور گناہوں سے اجتناب کی توفیق عطا ہوئی،رمضان درس تقویٰ ہے،حق تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ رمضان اور اس کے اعمال کی برکت سے ظاہر و باطن کا تقویٰ حاصل ہو اور گیارہ مہینے رمضان کے سبق کے ذریعہ اہتمام تقویٰ پر قوت اور توفیق ملتی رہے، اور پھر بار بار ماہ مبارک ملتا رہے تاکہ تقویٰ میں نکھار پیدا ہوتا رہے- ہماری عید تو اللہ کی مرضیات پر قربان ہونے میں ہے، ہماری عید رمضان کے پورے ہونے پر فطرہ کی ادائیگی،غرباء کو عید کے دن خوش رکھنے میں ہے، ہماری خوشی اس میں ہے کہ امیر غریب سب عید اچھے کپڑے میں ادا کریں، ہماری عیداس میں ہے کہ یتیم، بیوہ، غریب،مسکین سب خوشی میں شریک رہیں، سب کے گھر خوشی کے کھانے پکیں اور سب کے گھر خوشی کے گیت گائے جائیں، ہماری خوشی اس میں ہے کہ شب عید میں “عتق من النار” کا فیصلہ سب لوگ سن لیں، ہماری خوشی اس میں ہے کہ ہم میں سے ہر ایک عید گاہ “الله اکبر الله اکبر لا اله الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد” کا ترانہ عید میں اپنے من میں اور آہستہ گنگناتا جائے اور عیدالاضحیٰ میں بآواز بلند گاتا جائے اور ایک راستہ سے جائے اور دوسرے راستہ سے واپس آئے اس میں خوشی میں مچلنا بھی ہے اور دونوں راستوں کو گواہ بنانا بھی ہے- اسی لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ھٰذا عیدنا”
ہماری عید آپے سے باہر ہونے کا نام نہیں ہے- ہماری عید ظلم و ستم کی غماز نہیں ہے، ہماری عید کسی پر کیچڑ اچھالنے کا نام نہیں ہے، ہماری عید تو باربار خوشی کے لانے اور لوگوں کو بار بار خوش کرنے کا نام ہے-آپس میں اگر کچھ دوری بھی رہی ہو تو قرب سے بدل جائے، دشمنی دوستی سے بدل جائے،بےوفائی وفاداری سے بدل جائے-

عید کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑا خوش کن اعلان ہوتا ہے بیہقی شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب لوگوں کی عید یعنی افطار[عیدالفطر] کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے اظہار فخر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو! اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے اپنا کام پورا کر دیا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب! اس کا بدلہ یہ ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو اللہ تعالی فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور میری بندیوں نے میرا فریضہ جو ان کے ذمہ تھا پورا کردیا پھر فریاد کرتے ہوئے دعا کرتے ہوئے نکل پڑے ہیں، میری عزت وجلال اور میرے کرم اور میری علو شان اور میرے مقام کی بلندی کی قسم میں ان کی فریاد اور دعا ضرور سنوں گا اور ان کی دعا ضرور قبول کروں گا، اس کے بعد اللہ تعالی اپنے فرشتوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے “ارجعوا قد غفرتُ لکم وبدّلتُ سیّئاتکم حسنات” لوٹ جاؤ میں نے تم سب کی مغفرت کر دی اور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیا چنانچہ بندے عید کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے ہیں تو ان کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے-

ایک گنہگار بندے کی سب سے بڑی ضرورت اور حاجت اس کی معافی اور مغفرت ہے جس کا اعلان عید کے روز جاتا ہے، اب سنبھلنے کی ضرورت ہے کیوں کہ کسی نعمت کو حاصل کرنے کے بعد اس کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے-

آج ہمارے معاشرے میں کیا چل رہا ہے؟عید کی نماز سے فراغت کے بعد جہاں تقویٰ اور اعمال صالحہ میں روزافزوں ترقی ہونی چاہییے تھی،مسلمان بالخصوص ہمارا نوجوان طبقہ پلٹ کر گناہوں میں ملوث ہونے لگتاہے،شراب،جوا،بدچلنی،بدفعلی،زنا،بدنگاہی،بدزبانی،فسق وفجور،نماز سے لاپرواہی،تلاوت سے غفلت، اضاعتِ حقوق اور مختلف قسم کے معاصی کادروازہ پلٹ کر کھول دیتا ہے اور رمضان وروزہ کا سکھایا ہوا سبق بھول جاتا ہے-

عید الفطر خوشی کا دن: عیدالفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی، دوسری قیام شب ہائے رمضان کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلۃ القدر اور پانچویں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقۂ فطر کہا جاتا ہے، کے ذریعے کرنے کا حکم ہے تاکہ عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شریک ہو جائے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر اسے مومنوں کے لئے ’’خوشی کا دن‘‘ قرار دیا گیا-
اور عیدکے دن روزہ رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے عید کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ جیساکہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:نَهَی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنْ صِيَامِ يَوْمَيُنِ: يَوْمِ الْفِطْرِ وَ يَوْمِ الْاَضْحَی.
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے دو دنوں فطر اور اضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔‘‘(ابو داؤد، السنن، کتاب الصيام، باب فی صوم العيدين، 2: 314، رقم: 2417)

چاندرات کی فضیلت:چاندرات بڑی اہمیت وفضیلت کی حامل رات ہے،اسے “لیلة الجائزہ” بھی کہاجاتا ہے،مسلمانوں نے رمضان کا پورا مہینہ روزہ رکھ کر حکم خداوندی کو سرانجام دیا-ان کا یہ پاکیزہ عمل مکمل ہوگیا تو آج کی رات ان کے انعام کی رات ہے –
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کانام “لیلة الجائزہ” [یعنی انعام حاصل کرنے والی رات] رکھاجاتاہے-(شعب الایمان للبیہقی ج/5 ص/278 رقم الحدیث:3421)
اس لیے اس رات کو فضولیات میں ضائع نہیں کرناچاہییے بلکہ اس کی برکات، رحمتوں اور من جانب اللہ مغفرت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہییے-اس رات کی اہمیت وفضیلت پر چندروایات ملاحظہ کریں!
★حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے عیدین کی راتوں میں اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے قیام کیا[یعنی عبادات کوسرانجام دیا]تو اس کادل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل مردہ ہوجائیں گے-(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث:1772)
★حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں کی جانے والی دعاکو رد نہیں کیا جاتا- 1…جمعہ کی رات،2…رجب کی پہلی رات،3…شعبان کی پندرہویں رات،4…عیدالفطر،5… اور عیدالاضحیٰ کی دو راتیں-
ان روایات اور دیگر کئی روایات کے پیش نظر محدّثین نے اس رات کی عبادت کو خاص طور پر ذکر کیا ہے-لہٰذا اس رات کی اہمیت کے پیش نظر اس رات زیادہ سے زیادہ عبادت،ذکرواذکار اور درود شریف کاورد کرناچاہییے اور اگر زیادہ عبادت وریاضت نہ کرسکیں تو کم ازکم فسق وفجور اور لایعنی کاموں میں تو نہ پڑیں،عشاء کی نماز باجماعت مسجد میں اداکرکے آرام کریں اور صبح جلدی اٹھ کر نمازتہجد اداکریں اور پھر نماز فجر باجماعت اداکریں-اللّٰہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ آپ کو پوری رات عبادت کاثواب عطافرمائےگا،اس طریقے سے گناہوں سے حفاظت بھی رہےگی اور ثواب بھی ملےگا [ان شاء اللہ تعالیٰ]-

اس رات یہ کام کریں:

چاند رات ،عید الفطر کی تیاری اور اسے منانے کے حوالے سے ہمیں اسلامی تعلیمات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔چاند رات دراصل عبادت اور فضیلت کی رات ہے۔اس رات رمضان رخصت ہوجاتا ہے اور اللہ تعالی ’مزدور‘ کو اس کی ’ مزدوری‘ دیتا ہے،ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم نے ایک مہینہ میں کیا کھویااورکیا پایا؟رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں سے خود کواور اپنے اہل و عیال کو جہنم سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی یا نہیں؟اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت کرا ئی یا نہیں؟اس لیے ہمیں اس رات اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور مغفرت اور دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے یا کم از کم ایسے اعمال انجام نہیں دینے چاہیے جو اللہ تعالی کے غضب کو دعوت دیتے ہوں ۔
مگر عموماً معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے-

عید کی رات کو مندرجہ ذیل چندامور انجام دینے کی کوشش کرنی چاہییے!
(1)نوافل پڑھنا…(2)قرآن مقدس کی تلاوت کرنا…(3)صدقہ وخیرات کرنا…(4)دعاؤں کااہتمام کرنا…(5)ذکرواذکار اور درود شریف کا ورد…(6)توبہ واستغفار اور اپنے گناہوں سے بصدق دل معافی مانگنا…(7)امت مسلمہ کی بھلائی وعافیت کی دعا کرنا…(8)رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنا…(9)اگر کسی کی حق تلفی ہوگئی ہو تو اس سے معافی مانگنا…(10)اگر کسی نے ظلم وزیادتی کی ہو تو اسے معاف کرنا…(11)آپسی نااتفاقی کو دور کرکے اتفاق واتحاد اور صلح وآشتی کے فضا کوقائم کرنے کی کوشش کرنا-

چاند رات کی جس قدر اہمیت ہے لوگ اس کا خیال نہیں رکھتے ،اس رات کو عموماً عبادات کے بجائے فضولیات ولغویات میں ضائع کردیتے ہیں،جب کہ ایک مسلمان کی یہ شان ہونی چاہییے کہ وہ نیکیوں کوجمع کرنے میں ہی حتی الامکان مصروف عمل رہے،کچھ بعید نہیں کہ اس رات کی ہماری تھوڑی سی عبادت ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں ہماری قبولیت کاسبب بن جائے،اس لیے شوق اور ثواب کی نیت سے زیادہ سے زیادہ عبادات سرانجام دینی چاہییے-
بعض لوگ اس رات میں آتش بازی اور فائرنگ کرتے ہیں،اس سے یکسر اجتناب کرناچاہییے کہ اس میں جانی نقصان کا خطرہ ہونے کے ساتھ مالی نقصان اور اسراف ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسراف[فضول خرچی]کرنے والوں کو شیطان کابھائی قرار دیا ہے،اس لیے شیطانی کاموں سے بچتے ہوئے نیک امور کی انجام دہی میں مصروف رہنے کی کوشش کریں-
بعض لوگ اس رات کو گلیوں اور بازاوں میں گھوم کر ضائع کردیتے ہیں-اس سے بھی اجتناب ضروری ہے،ہاں!اگر واقعی میں کسی چیز کی ضرورت ہو اور بازار جاناپڑے تو جانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مطلوبہ چیز لے کر فوراًاپنے گھر واپس آناچاہییے،بازاروں میں بلاضرورت گھومنے کے بجائے یہ رات اپنے گھروں یا پھر مساجدوغیرہ میں عبادت وریاضت میں گذارنی چاہییے-

عید کی کچھ سنتیں اور مستحبات:
(1)نمازعید سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا(2)غسل کرنا(3)طہارت ونظافت کا خصوصی اہتمام کرنا(4)حسبِ استطاعت نئے یا صاف ستھرے کپڑے پہنا (5)خوشبو لگانا(6)عدگاہ جانے سے پہلےکھجور یا کوئی میٹھی چیز کھانا،حضرت انس سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ عیدالفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرماتے تھے ۔عموماًان کی تعداد طاق ہوتی تھی(بخاری:9530)
(7)عید گاہ پیدل جانا اور ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ اس سے ہر قدم پر ثواب ملتا ہے اور غیروں کو مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی احساس ہوتا ہے-حضرت ابورافع روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ عید کی نماز کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے ،اس کے علاوہ دوسرے راستے سے واپس آتے تھے(ابنِ ماجہ:1300)
(8) راستے میں تکبیریں (اللہ اکبر اللہ اکبر،لاالہ الا اللہ،واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد)پڑھتے ہوئے جانا ،ہم سب کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے،نوجوان طبقہ عموماً آپس میں ہوہااور دنیا بھر کی بکواس کرتا ہوا جاتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد ہو اور دوسرے محسوس کریں کہ آج کوئی خاص دن ہے ۔اس سے غیروں پر رعب بھی پڑتا ہے۔یہ نہیں کہ مرے مرے انداز میں منہ لٹکائے چلے جا رہے ہیں۔
(9) خطبہ سننا:نمازِ عید الفطر کے بعد امام خطبہ دیتا ہے ،اس کو سن کر جانا چاہیے،اکثر لوگ نماز ختم ہوتے ہی بھاگنے لگتے ہیں۔خطبہ میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے،اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگی جاتی ہے ،عالمِ اسلام اور بنی نوع انسانیت کی بھلائی کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں،جن کو قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔

شوال کے چھ روزے رکھنا:
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے رمضان کے بعد والے مہینہ یعنی شوال میں چھ نفلی روزے رکھے،تاکہ رمضان کے جاتے ہی عبادات و اذکار کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے اور ان کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر رکھا کہ انسان اس کی طرف مائل ہو۔احادیث مبارکہ میں اس کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہیں اور شوال کے ان چھ روزوں کی بڑی فضیلت اور ترغیب آئی ہےحضرت عمر بن ثابت خزرجی سے روایت ہے کہ حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے، پھراس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے( صحیح مسلم رقم الحدیث:1164)
اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے-(مسنداحمد:14302)
پہلی حدیث میں شوال کے چھ روزے رکھنے کو”پورے زمانے کے روزے”اور دوسری حدیث میں “پورے سال کے روزے”رکھنے کی مانند قرار دیاگیا ہے-اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان جب رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھتا ہے تو بقاعدہ “الحسنة بعشر امثالھا” [ایک نیکی کا کم ازکم اجر دس گنا ہے] اس ایک مہینے کے روزے دس مہینوں کے برابر بن جاتے ہیں-اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابربن جاتے ہیں،گویا رمضان اور اس کے بعد چھ روزے شوال میں رکھنے والا پورے سال کے روزوں کا مستحق بن جاتا ہے،اس سے مذکورہ حدیث کا مطلب واضح طور پر سمجھ میں آتا ہےکہ “گویا اس نے پورےسال کے روزے رکھے” نیز اگر مسلمانوں کی زندگی کا یہی معمول بن جائے کہ وہ رمضان کے ساتھ ساتھ شوال کے روزوں کو بھی مستقل رکھتا رہے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گذاری ہو-
اس توجیہ سے حدیث مذکور کا مضمون “یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے” بالکل واضح ہو جاتا ہے-لہٰذاکوشش کرنی چاہییے کہ اس فضیلت کو حاصل کرلیا جائے-
نوٹ:اگر کسی کے ذمہ رمضان کےروزے ہوں تو احتیاطاً پہلے ان روزوں کی قضا کی جائے،بعد میں شوال کے بقیہ دنوں میں ان چھ روزوں کو رکھاجائے-اور شوال کے یہ چھ روزے عید کے فوراً بعد رکھنا ضروری نہیں بلکہ عید کے بعد جب بھی چاہے رکھ سکتے ہیں،بس اس بات کااہتمام کر لیاجائے کہ ان چھ روزوں کی تعداد شوال ہی میں مکمل ہونی چاہییے-
بہتر یہ ہے کہ یہ روزے متفرق رکھے جائیں اور اگر عید کے بعد لگاتار چھ دن میں ایک ساتھ متواتر رکھ لیے جائیں جب بھی کوئی حرج نہیں-
اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کو عید الفطر کی حقیقی خوشیاں نصیب کرے-آمین!

خدا کا انعام اور عید سعید۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

خاتم النبیین ، حبیب خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ کے predecessor تھے روح اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے just پہلے جو نبی تشریف لائے تھے ان کا نام ہے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت نے بھی عید منائی تھی۔ لیکن عید کیوں منائی تھی؟ کچھ تو سبب ہوگا ۔کوئی خاص وجہ تو ہوگی۔ ضرور خوشی کے کچھ اسباب ہونگے۔کیونکہ عید کے معنی ہی خوشی کے ہیں ۔ عید ، عوائد سے مشتق ہے اور عوائد کے معنی ہیں منافع کے۔ گویا انسان عید اس وقت مناتا ہے جب اس کو کوئی اہم نفع ملے یا فائدہ ملے۔
تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کی امت کو کون سے فائدے ملے کہ انھوں نے عید منائی؟

کتابوں میں مذکور واقعہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواریوں نے اپنے رسول عیسیٰ علیہ السلام سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ خدا سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لیے آسمان سے خوان نعمت نازل فرمائے تاکہ ہماری بھوک بھی مٹ جاۓ اور یہ ثابت بھی ہوجائے کہ آپ نبوت اور رسالت کے معاملے میں سچے ہیں اور ہم بنی اسرائیل کے لوگوں کے سامنے دلیل کے ساتھ خدا کی توحید اور آپ کی رسالت کی تبلیغ کر سکیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خدا سے دعا فرمائی:
اے اللہ ، اے ہمارے رب ، ہم پر آسمان سے ایک خوان نعمت اتار جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید ہوجائے۔

قادر مطلق رب تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معجزہ عطا فرمایا کہ جب بھوک لگتی تو زمین کی طرف ہاتھ بڑھادیتے ، اپنے اور اپنے حواریوں کے لئے روٹی نکال لیتے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک بار ایسا بھی ہوا کہ ان حواریوں کے ساتھ پانچ ہزار نوجوان چلے اور سب نے عیسیٰ علیہ السلام سے خوان نعمت کے نزول کی درخواست کی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان سب کی یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر خوان نعمت اتارا ۔سب نے مل کر کھایا یہاں تک کہ سب شکم سیر ہوگیے۔ عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ دیکھ کر سب کے سب ایمان لے آئے۔ اس طرح عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے عید ہوگئی۔ گویا عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے اللہ کی طرف سے خوان نعمت کا اترنا عید / خوشی کا سبب بنا ۔

آنے والا یکم شوال بھی امت محمدی کے لیے عید ہے۔سارے ممالک میں ، سارے بر اعظموں میں بلکہ ساری دنیا میں یکم شوال کو مسلمان عید منائیں گے، نئے کپڑے پہنینگے، عطر لگائینگے، عید گاہ میں اجتماعی طور پر دو رکعات کی نماز پڑھیں گے، گلے مل مل‌ کر ایک دوسرے کو مبارکبادیاں اور تہنیتیں پیش کرینگے۔آخر کون سی خوشی ہے مسلمانوں کے لیے؟ کیا آسمان سے کوئی خوان نعمت اتارا گیا ہے؟ کیا مسلمانوں کو بے بہا دولتیں مل گئی ہیں ؟ کیا مسلمانوں کو کسی جنگ میں کامیابی مل گئی ہے؟ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔اس روز ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔پھر بھی مسلمان عید کیوں منارہے ہیں ؟ اس کا جواب جاننے کے لیے آئیے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کرتے ہیں ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہ رمضان میں روزے رکھے ، عید الفطر کی رات میں پورا پورا اجر عطا فرما دیتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ شب عید الفطر کا نام شب جائزہ / انعام کی رات رکھا گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث مروی ہے کہ حضور نے فرمایا جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے اور لوگ عید گاہ کی طرف جاتے ہیں تو حق تعالیٰ ان پر توجہ فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے اے میرے بندو ! تم نے میرے لیے روزے رکھے ، میرے لیے نمازیں پڑھیں اب تم اپنے گھروں کو اس حال میں جاؤ کہ تم بخش دیے گئے ہو۔

تو اب سوچیے ایک مسلمان کے لئے اس بڑھ کر مسرت و شادمانی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ روزے رکھنے کا پورا اجر عطا فرمائے،رب کریم مسلمانوں کے گناہوں کو بخش دے، بخشش کا پروانہ عطا فرمائے۔مسلمانون کے لیے سب سے بڑی نعمت تو یہی ہے کہ رب خود فرمائے کہ اے میرے بندو ! جاؤ تمھاری بخشش ہوگئی‌ ۔

مسلمانوں کے لیے آسمان سے کوئی خوان نعمت نہیں اترا بلکہ اللہ کی طرف بخشش کا مژدہء جانفزا آیا۔
مسلمانوں کے لیے کوئی materialistic چیز نہیں آئی، بلکہ روحانی سکون کا سامان نعمت لازوال بن کر آیا ۔کسی اور امت کے لیے خوان نعمت ایک بار آیا یا چند بار آیا ہوگا ، لیکن امت محمدی کے لیے شب جائزہ اور عید سعید کا دن ہر سال آتا ہے اور انعام بخشش گناہ لیکے آتا ہے۔اسی لیے اللہ فرماتا ہے:
فبای آلاء ربکما تکذبان
تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاوگے؟
اس سے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیکر رحمت ہیں اور اللہ تعالیٰ بہت بڑا رحمان و رحیم‌ ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے ایک جلیل القدر پیغمبر تشریف لائے تھے جن کا نام ہے کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام۔آپ کا مقابلہ فرعون اور اس کے جادوگر کے ساتھ تھا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو مرعوب کرنے کے لیے فرعون کے ٧٣ ساحروں نے اپنی لاٹھیوں کو بظاھر سانپ بنا دیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ جادو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کی قوم مرعوب ہوجائے اور راہ حق سے بھٹک جائے ، موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنی لاٹھی زمین پر پھینک دی تو لاٹھی کی جگہ ایک اژدہا نمودار ہوا اور اس نے سارے سانپوں کو یکبارگی نگل لیا۔یہ دیکھ کر سارے جادوگر ایمان لے آئے۔موسی’ علیہ السلام کے سانپ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر فرعون کی قوم‌ میں بھگدڑ مچ گئی اور اس بھگدڑ کے نتیجے میں فرعون کی قوم کے پچاس ہزار آدمی مر گیے۔گویا حق کی جیت ہوئی اور باطل کو شکست فاش کا منھ دیکھنا پڑا ۔جس دن‌ یہ واقعہ رونما ہوا وہ دن امت موسیٰ کے لیے یوم زینت ہے، یوم عید ہے ۔

امت محمدی نے ماہ رمضان میں اپنے نفس کا قتل عام کیا ہے۔نفس امارہ کو مار مار کر یہ کہا ہے یا ایھا الذین ء آمنوا کتب علیکم الصیام ، رب کے حکم کے مطابق ، صرف رب کی رضا کے لیے ہمیں روزہ رکھنا ہے ، بھوکا بھی رہنا ہے اور پیاسا بھی رہنا ہے ۔ چاہے دھوپ کی تمازت پچاس یا ساٹھ ڈگری کیوں نہ ہوجائے ہمیں رب کی اطاعت میں صوم کی پابندی کرنی ہے۔ ہمیں نفس کو مار کر، نفس کو شکست فاش دےکر فتح و کامرانی سے سرفراز ہونا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماہ صیام میں مسلمانوں کے ایمان میں تازگی پیدا ہوجاتی ہے۔یوم عید الفطر میں باغ ایمان کو شگفتگی حاصل ہوتی ہے۔کیا ایسے major event میں مسلمان عید نہ منائیں ؟ سرور و انبساط سے سرشار نہ ہوں؟ ایک دوسرے کو مبارک بادیاں پیش نہ کریں ؟ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے عید گاہ میں اجتماعی طور پر دو رکعت نماز نہ پڑھیں ؟ ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ نہ کریں ؟

بیشک۔ رب کے انھی انعامات کی خوشی میں عید کے دن ہم عمدہ اور اچھے لباس پہنیں ، عطر سے خود کو معطر کریں ، عید گاہ میں دو رکعت نماز پڑھیں، خطبہ سنیں، نماز سے فارغ ہونے کے بعد ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ کریں ، ایک دوسرے کو تہنیتیں پیش کریں تاکہ عید مبارک کے کلمے سے فضا گونج اٹھے ۔ نماز سے فارغ ہوکر اجتماعی طور پر دعا مانگیں ، خاص طور پر ملک عزیز میں امن کی بحالی اور پوری دنیا میں مسلم قوم کے جان و مال و ایمان کی حفاظت کے لئے اپنے رب سے دعا کریں ۔خاص طور پر ان مواقع پر اللہ کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا۔ ان شا ء اللہ آپ اپنے گھروں کو مغفور ہوکر لوٹینگے اور خود کو بامراد اور کامیاب و کامران پائینگے۔۔

حامل نور راحت ہے عید سعید
رب عالم کی نعمت ہے عید سعید
“عینی “اعلان کرتے ہیں ہر سو ملک
یوم انعام و رحمت ہے عید سعید
(سید عینی)

باعث کیف و فرحت ہےعید سعید، ازقلم، سید خادم رسول عینی

عید سعید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حامل نور راحت ہے عید سعید
رب عالم کی نعمت ہے عید سعید

عید گاہوں کا کہتا ہے بڑھتا ہجوم
ہر مسلماں کی شوکت ہے عید سعید

ہر مسلماں کے چہرے پہ مسکان ہے
باعث کیف و فرحت ہے عید سعید

دوست ہوں یا کہ دشمن گلے ملتے ہیں
کس قدر وجہ الفت ہے عید سعید

خوب رکھو خیال اپنے احباب کا
روز احسان و نصرت ہے عید سعید

رحمت حق سے ہوتے ہیں ہم مالا مال
یوں ہماری سعادت ہے عید سعید

مغفرت سے نوازے گئے صائمین
بخشش رب کی ساعت ہے عید سعید

“عینی “اعلان کرتے ہیں ہر سو ملک
یوم انعام و رحمت ہے عید سعید
۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

آج کل جومدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ وصول کیاجاتاہےتوکیامدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ دینےسےدینےوالےکازکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟،، از مفتی احمد رضا منظری صاحب

سلامِ مسنون بعدہ مقصدِ گفتگویہ ہےکہ کیافرماتےہیں علماءکرام ومفتیانِ شرع متین ان مسائل کےبارےمیں۔1۔ آج کل جومدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ وصول کیاجاتاہےتوکیامدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ دینےسےدینےوالےکازکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟2۔ جبکہ ہمیں معلوم ہےکہ وصول کرنےوالے%50 پرسینٹ یا%40 پرسینٹ لیتےہیں یااس سےکم زیادہ اس صورت میں زکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟3۔ وصول کرنےوالےظاہرہےوکیل ہیں اوروکیل ہیں تووکیل کی ملکیت نہیں اورجب ملکیت نہیں تووصول کیاہوامال کس کی ملکیت ہےاگرمدرسہ کی ملکیت ہےتوکیامدرسہ کےاندراس کےمالک بننےکی صلاحیت ہےکیااگرہےتوکس معنی کرہے۔؟4۔ حیلہ شرعی کی حقیقت کیاہےاوروکیل جوکہ اس وصول کردہ زکوٰة کےپیسےکامالک نہیں تواسےیہ اختیارکیسےحاصل ہےکہ وہ کسی دوسرےغریب کواس مال کامالک بنادے۔؟5۔ جوآج کےدورمیں حیلہ شرعی ہوتاہےکیاوہ حیلہ شرعی ہوجاتاہےجبکہ جس سےکرواتےہیں اس سےپہلےہی کہدیاجاتاہےکہ تجھےیہ رقم مدرسہ میں ہی دیناہےجبکہ جس سےحیلہ شرعی کروایاجائےاسےاختیارہےوہ چاہےجہاں خرچ کرےاگروہ مدرسہ میں نہ دےتواس پردواؤڈالاجاتاہےکیااس صورت میں حیلہ شرعی ہوجائیگا۔؟نورالحسن اشرفی جامی بریلی شریف👇

👆*الجواب بعون الملک الوھاب*۔صورت مستفسیرہ میں حکم یہ کہ سفیر کا فیصد پر چندہ کرنا اور رقم لینا جاٸز ہے۔فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی قدس سرہ “فتاوی فقیہ ملت میں رقمطراز ہیں کہ اگر سفیر فیصد پر چندہ کریں تواجیرمشترک قرار پاٸیں گے چاہے وہ پچیس یا تیس فیصد پرکریں یا چالیس اورپچاس فیصد پر کہ ان کی اجرت کام پر موقوف رہتی ہے جتناکریں گے اسی حساب سے اجرت کے حقدار ہونگے ۔علامہ حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : الاجرا ٕ علی ضربین مشترک وخاص فالاول من یعمل لالواحد کالخیاط ونحوہ اویعمل لہ عملاغیرموقت کان استجارہ للخیاطة فی بیتہ غیر مقیدة بمدة کان اجیرا مشترکا وان یعمل لغیرہ(درمختارمع شامی ،ج٦،ص٦٤)اور اگر ڈبل تنخواہ پر چندہ کریں تو اجیر خاص کی صورت ہے ۔سیدی سرکار اعلیحضرت امام احمدرضا محقق بریلوی نوراللہ مرقدہ غمزالعیون سے یوں تحریرفرماتے ہیں : استاجرہ لیصیدلہ اولیحطتب جاز ان وقت بان قال ھذالیوم او ھذا الشھر ویجب المسمی لان ھذا اجیر وحد وشرط صحتہ بیان الوقت وقدوجد(فتاوی رضویہ)لہٰذا ڈبل تنخواہ پر چندہ کرنے والوں کو ڈبل تنخواہ اور فیصد پر چندہ کرنے والوں کو جتنا فیصد مقرر ہوا اس اعتبار سے اجرت دینا جاٸز ہے چاہے وہ صدقہ واجبہ ہو یا نافلہ دونوں کی اجرت میں کوٸی فرق نہیں ۔بشرطیکہ خاص چندہ کے روپۓ میں سے اجرت دینا طے نہ کیا جاۓ ۔پھر چاہے اسی روپۓ سے دی جاۓ (بحوالہ فتاوی فقیہ ملت ،ج١،ص،٣٢٣/٣٢٤)اگر قاضی شرع یا اس کا قاٸم مقام زکوة وغیرہ کی رقم وصول کرنے پر مقرر کرے تو خاص مال زکوٰۃ سے بھی انہیں بلاتملیک بقدرضرورت حق المحنت دینا اور لینا جاٸز ہے اگرچہ وہ مالدار ہو۔فتاوی رضویہ شریف میں ہے:عامل زکوة جسے حاکم اسلام نےارباب اموال سے تحصیل زکوة پر مقرر کیا ہو جب وہ تحصیل کرے تو بحالت غنی بھی بقدراپنے عمل کے لےسکتا ہے اگرہاشمی نہ ہو (ج،٤،قدیم،ص٤٦٥،رضااکیڈمی ،ممبٸی)اوراگرمدرسہ والے بھیجیں جونہ قاضی ہوں نہ ہی اس کا قاٸم مقام توحیلہ شرعی کےبعد ہی اجرت دینا جائز ہے (فتاوی فقیہ ملت،ج١،ص ٣٢٤)اور فتای بحرالعلوم ج دوم 212 میں ہے کہ تملیک کی صحیح اور شرعی صورت یہی ہے کہ کسی سمجھ دار غریب کو صورت حال سے آگاہ کردیں کہ ہم تم کو اتنی رقم زکاۃ سے دیتے ہیں اور تم اپنی طرف سے مدرسہ میں دیدو۔اور اس طرح تم کو بھی پورا پورا ثواب ملے گا دین کا کام بھی چلے گا اور وہ روپیہ اسکو دے دیں وہ اپنے ہاتھ میں لیکر اپنی طرف سے مدرسہ میں دے” عالم گیری میں ہے ” من علیہ الزکاۃ اردا صرفھا الی بناۓ المسجد او القنطرۃ ان یتصدق بہ علی الفقرا ء یدفعونہ الی المتولی ثم المتولی الی ذالک “اھ۔لہذا اسطرح کرنے سے حیلہ شرعی ہوجاتا ہے جیسا کہ مذکور ہوا۔اھ۔*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب**کتبـــــــــــــہ**احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری* *مدرس**المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف*,24/رمضان المبارک 1443ھ۔

الوداع اے ماہ فرقاں الوداع، از: سید خادم رسول عینی

الوداع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوداع اے ماہ فرقاں الوداع
تجھ سے ہم رہتے تھے فرحاں الوداع

رحمت باری رہی تیرے سبب
بھولنا تجھ کو نہ آساں الوداع

سحری و افطار کے وہ وقت نور
تھا تو برکت کا گلستاں الوداع

شاعری کرتے تھے ماہ نور پر
کہہ رہے ہیں سب سخن داں الوداع

قدر والی رات تیری خاصیت
تجھ میں تھی تقدیس چسپاں الوداع

عرس حیدر بھی منایا دہر نے
تو ہے پیارا از دل و جاں الوداع

یاد فتح مکہ کی آءی ہمیں
سب مہینوں کا تو سلطاں الوداع

جمعہ تیرا آخری بھی خوب تھا
سید الایام تاباں الوداع

ضابطے کے ساتھ جینا ہے ہمیں
تو نے دی تعلیم خوباں الوداع

تیری ہی اک رات میں اے ماہ نور
ہوگیا نازل تھا قرآں‌ الوداع

تجھ سے صحت مل گءی بیماروں کو
تجھ پہ ہے ہر شخص قرباں الوداع

جلد آنا “عینی” کی تو زیست میں
لیکے پھر رحمت کی باراں الوداع
۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

29 اپریل: سید خادم رسول عینی کا یومِ ولادت،از:_ڈاکٹر شفیق جے ایچ

29 اپریل: سید خادم رسول عینی کا یومِ ولادت 💐💐💐

سید خادم رسول عینی کی ولادت ٢٩ اپریل ١٩٦٨ میں بھدرک اڈیشا میں ہوئی۔ آپ امیر مینائی کے سلسلے کے مشہور شاعر علامہ سید اولاد رسول قدسی کے شاگرد رشید ہیں ۔آپ نعت ، غزل، منقبت، سلام، سہرا ، نظم وغیرہ اصناف میں شاعری کرتے ہیں ۔آپ کا ایک مجموعۂ نعتیہ کلام بنام “رحمت و نور کی برکھا” شائع ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ آپ کی ترتیب شدہ کتابیں نظر عمیق اور مناقب مفتیء اعظم اڑیسہ بھی شائع ہوئی ہیں ۔آپ کے کلام ہند اور بیرون ہند کے مختلف اخبار و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ آپ ہند اور بیرون ہند کے مختلف مشاعروں میں شرکت کر کے مقبول خاص و عام ہوئے ہیں ۔آپ نے اردو زبان کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی شاعری خوب کی ہے۔پیشے کے لحاظ سے آپ بینکر ہیں اور یونین بینک آف انڈیا کے چیف مینیجر کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں ۔کٹک ، اڑیسہ میں سعید رحمانی کی ادارت میں شائع ہونے والا سہ ماہی ادبی محاذ کے سرپرست بھی ہیں۔

آپ کے کلام میں سے چند غزلیں نذر قارئین ہیں :

تو پژمردہ پیڑوں کو یوں باثمر رکھ
توانائی دے شاخ کو بااثر رکھ

نہ کر فخر اجداد کے تو شجر پر
تو شاخوں پہ خود کاوشوں کا ثمر رکھ

ہے انکار کرنا بہت سہل و آساں
تو اقرار کا حوصلہ اے بشر رکھ

زمینی حقائق رہیں تیرے آگے
نظر اپنی چاہے سدا چرخ پر رکھ

نہ ہو جائے مانند آتش سراپا
مرے دل کی اے جان جاناں خبر رکھ

کر احقاق حق اور ابطال باطل
یہ جذبہ ہر ایک موڑ پر بے خطر رکھ

سبھی کی محبت سماجائے دل میں
تو اس میں ہمیشہ محبت کا گھر رکھ

گہر خود ہی آجائےگا پاس عینی ؔ
نہایت پہ منزل کی گہری نظر رکھ

۔۔۔۔۔۔۔۔

درد و غم سے وہ ہ بشر آزاد ہے
قلب میں جس کے خدا کی یاد ہے

حکمران وقت سب خاموش ہیں
بے اثر مظلوم کی فریاد ہے

حق پرستو ! رب کی نصرت آئیگی
جبر باطل کی بھی اک میعاد ہے

آگ نفرت کی بجھے بھی کس طرح
تلخیوں کا اک جہاں آباد ہے

دل ہے چھلنی اس کا سنگ بغض سے
جس کے ہونٹوں پر مبارکباد ہے

دیکھیے موجد کی آنکھوں سے ذرا
خوبصورت کس قدر ایجاد ہے

غالب آئے غم کا لشکر کس طرح
دل میں یاد یار جب آباد ہے

عینی ؔ رکھنا‌ رب پہ ہر دم‌ اعتماد
ورنہ تیری زندگی ناشاد ہے

۔۔۔۔۔۔۔

نخل نخوت کو ہمیشہ بے ثمر رکھا گیا
صبر کے ہر اک شجر کو بارور رکھا گیا

سلسلہ بڑھتا گیا ان کے ستم کا اس قدر
میرے ٹوٹے دل کے آنگن میں حجر رکھا گیا

لگ رہا تھا بھیڑ میں وہ ضوفشاں کچھ اس طرح
درمیان نجم جیسے اک قمر رکھا گیا

شک کی عینک جب اتاروگے تو مانوگے ضرور
منصب عالی پہ مجھ کو جانچ کر رکھا گیا

درد و غم کی آگ اسی سے ایک دن بجھ جائیگی
ان کے سوز عشق میں ایسا اثر رکھا گی

بحر سے دوری ھے مجھ کو کیسے سیرابی ملے
زیست میں میری سراب بے اثر رکھا گیا

روز و شب چوبیس گھنٹے کم پڑے اپنے لیے
اس قدر کیوں وقت عینی ؔ مختصر رکھا گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔
صحن دل کے سبھی پھولوں کو جواں رہنے دو
پر شباب اپنے چمن کا یہ سماں رہنے دو

پھر کبھی سر نہ اٹھا پائیں جہاں کے ظالم
سینہء ظلم پہ سیدھا سا نشاں رہنے دو

ہو نہ جائے کبھی احساس کا بلبل غمگیں
اس کو رکھو نہ نہاں بلکہ عیاں رہنے دو

تم کو رکھنا ہے تقدس کی فضا گر قائم
دل کی مسجد‌ میں محبت کی اذاں رہنے دو

آب عرفاں سے رہیں حق کے مسافر سیراب
اپنے اطراف ہدایت کا کنواں رہنے دو

دل کرو فتح تم‌ اخلاص کی تلواروں سے
نفرت و بغض کے تم تیغ و سناں رہنے دو

درد دروازہء دل پر نہ دے دستک عینی ؔ
مدح محبوب سدا ورد زباں رہنے دو
۔۔۔۔۔۔

دیکھو جہاں بھی ، ایک ہی خاور ہے ہرطرف
تاروں کے قافلے کا یہ رہبر ہے ہرطرف

بھر آئی دیکھ دیکھ کے امن و اماں کی آنکھ
انسانیت کے خون کا منظر ہے ہرطرف

تنہا لڑیں گے خنجر خلق و وفا سے ہم
گرچہ جہاں میں بغض کا لشکر ہے ہر طرف

ہے خوف کیسے زیست کی رہ پائے گی فضا
سانپوں کا سانپ دشت میں اجگر ہے ہرطرف

خالی ملیں گے سیپ سمندر کی گود میں
مت سوچیے کہ سیپ میں گوہر ہے ہر طرف

دریا کے ذہن میں یہ سسکتا سوال ہے
کیوں اس قدر ‌خموش سمندر ہے ہر طرف

دنیا میں اک فقیر سے ملتا گیا قرار
عینی ؔ اگرچہ شور سکندر ہے ہر

پیش کش:

ڈاکٹر شفیق جے ایچ

نعت رسول دوجہاں ﷺشبِ قدر کی عطا، ✒کلیم احمد رضوی مصباحی

نعت رسول دوجہاں ﷺشبِ قدر کی عطا

جب بیاں کرتا ہے آقا کی ثنا مرغِ خیال

کانوں میں رس گھولتا ہے خوش نوا مرغِ خیال

جلوہ گر ہوتی ہے بلقیسِ سخن میرے لیے

غیب سے لاتا ہے مضمونِ سبا مرغِ خیال

ہند سے دو گام ہے اس کے لیے طیبہ کا باغ

ہے مثالِ برق یا نازِ صبا مرغِ خیال

ہے ترا ممدوح، ممدوحِ خداۓ دوجہاں

بلبلِ سدرہ ہے تیرا ہمنوا مرغِ خیال

صاحبِ معراج چاہیں تو ہو معراجِ سخن

تا بہ قوسینِ ثنا پہونچے مرا مرغِ خیال

شانِ قمری جانِ بلبل رشکِ گلشن نازِ فن

سب لقب تیرے ہیں اے مدحت سرا مرغِ خیال

انکی چوکھٹ پرجو پہونچا، چہچہےگم ہوگئے

اللہ اللہ کس قدر ساکت رہا مرغِ خیال

فکر کے دریا میں جب غوطہ لگایا واہ واہ

گوہرِ توصیف لے کر آگیا مرغِ خیال

کس بلندی سے مضامینِ رفعنا لے لیا

آشیانہ ہے کہاں تیرا بتا مرغِ خیال

نغمہ ہاۓ نعت سے شاداب رکھتا ہے ہمیں

باعثِ ابر و بہارِ جاں فزا مرغِ خیال

تیرے لہجے مشکبو عنبر فشاں ہیں اس لیے

ان کی زلفوں پرہے تو دل سے فدا مرغِ خیال

گوش بر آواز ہوں وحش و طیورِ گلستاں

جب زبورِ رخ پڑھے شیریں نوا مرغِ خیال

شاخِ طوبیٰ پر یہ چہکے بلبلِ سدرہ کے ساتھ

ان کی رحمت سے ہو گر رفعت رسا مرغِ خیال

ظلمتِ شَب میں ہویدا ہوتا ہےنورِ سحر

لے کے جب آتا ہے تنویرِ حرا مرغِ خیال

شاخِ مدحت پر نجومِ عشق کھلتے ہیں کلیم

نورِ حق کے گیت گاتا ہے سدا مرغِ خیال

از ✒کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا سیتامڑھی بہار

ہماری روح ہمارا نشان ہے قرآن،،کلام، سید خادم رسول عینی

قرآن
۔۔۔۔۔۔

قرار قلب ہے مومن کی جان ہے قرآن
ہماری روح ہمارا نشان ہے قرآن

ہر ایک شئ کی حقیقت کا ذکر ہے اس میں
نہ سمجھو تم کہ فقط داستان ہے قرآن

ہے کائنات کا ہر علم اس میں ہی پنہاں
خدا کے فضل کا بین نشان ہے قرآن

ہر ایک دور میں ہر قوم کے لیے ہے مفید
ہدایتوں کا مکمل جہان ہے قرآن

عمر نے لایا تھا ایمان سن کے اک‌ آیت
یقین مانیے ایماں کی جان ہے قرآن

اسی کے تحت بناتے ہیں ملک میں قانون
جہاں میں آج بھی یوں حکمران ہے قرآن

تمھارے ذہن میں ترمیم کا نہ آئے خیال
ہے لازوال،‌ خدا کا بیان ہے قرآن

ضعیف ہو نہ سکے گی کبھی کوءی آیت
جواں رہیگا، جواں تھا، جوان ہے قرآن

بڑے‌ ہی شوق سے عثماں غنی نے دی ترتیب
وہ جانتے تھے کہ امت کی جان ہے قرآن

عبادت اس کی تلاوت ہے ، دیکھنا اس کا
یوں نیکیوں کا حسیں گلستان ہے قرآن

حروف ایسے ہیں اس میں کہ ہے شفا ان میں
کلام رب کا، نبی کی زبان ہے قرآن

وہ ہونگے معتزلہ جو کہیں اسے مخلوق
ہمارے واسطے رب کا بیان ہے قرآن

ہمیں ضلال کے خنجر بھی کاٹ سکتے نہیں
یقیں ہے “عینی” کہ حق کا نشان ہے قرآن
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

رحمت عالم اور شب قدر۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

قرآن کریم کی اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں :

            ”وما کان اللہ لیعذبھم و انت فیھم وما کان اللّٰہ لیعذبھم و ھم یستغفرون“(انفال /۳۳)

            ترجمہ :

اور اللہ کا کام نہیں کہ انھیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو اور اللہ انھیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہوں
(کنز الایمان)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے کئی امتیں آئیں ۔ان میں سے اگر کوئی امت برائیوں میں مبتلا ہوئی اور باوجود تنبیہ کے اگر گناہوں سے باز نہ آئی تو اس پر خدائے قہار نے عذاب نازل فرمایا۔
کبھی سیلاب کی صورت میں عذاب نازل ہوا تو کبھی قوم بدکار کو بندر کی صورت میں تبدیل کردیا گیا۔
کبھی انھیں سمندر میں غرق کردیا گیا تو کبھی انھیں خوفناک بیماریوں میں مبتلا کیا گیا ۔
کبھی قحط سالی کا عذاب دیا گیا تو کبھی اموال و پیداوار میں کمی کی گئی۔
کبھی ایک سخت اور ہولناک آواز کے ذریعے پوری قوم کو نیست و نابود کر دیا گیا تو کبھی ان کی بستیوں میں پتھر کی بارش برسائی گئی۔

لیکن سرکار صلی اللہ علیہ کے وجود مقدس کی وہ برکت ہے کہ قرآن فرماتا ہے کہ جب تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم قوم میں موجود ہیں ، خدا عذاب نازل نہیں فرمائےگا۔

اسی لیے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت کا باعث کہا گیا ہے۔قرآن خود فرماتا ہے:
وما ارسلناک الا رحمت اللعالمین
(الانبیاء/١٠٧)
ترجمہ :
اور ہم نے تمھیں نہیں بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔
(کنز الایمان)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سارے عالم کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے۔
یہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا صدقہ ہے کہ ہمارا نیلا سیارہ خوشگوار موسم سے مزین ہے۔
یہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے روز اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف فرمادیا اور سب کو آزاد کر دیا۔
یہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا اثر ہے کہ بغیر تلوار کے زور سے، فقط تبلیغ و ارشاد کے ذریعہ پورے عالم میں خدا کی وحدانیت کا پیغام پہنچ گیا اور لوگ اسلام کے پر سکون دامن میں سماتے گیے۔
یہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت ہے کہ آپ کی امت کو کچھ راتیں ایسی دی گئیں جن کی برکت سے مسلمان خدا کی عبادت کرکے اور توبہ و استغفار کرکے پاک دامن ہوجائیں۔انھی راتوں میں سے ایک رات شب قدر ہے۔

آج سورج غروب ہونے کے بعد جو رات آنے والی ہے اسے شب قدر کہا جاتا ہے۔اس رات کی ہمیں قدر کرنی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کرکے اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنا ہے۔

اس رات کی شروعات کیسے کی جائے۔یہ رات شروع تو نماز مغرب کے وقت سے ہی ہوجاتی ہے ۔حدیث میں ہے کہ جس نے شب قدر کو مغرب کی نماز مسجد میں باجماعت پڑھی اس نے گویا آدھی شب قدر پالی۔پھر اگلا مرحلہ نماز عشا کا ھے ۔حدیث میں یہ بھی ہے کہ جس نے شب قدر میں نماز عشاء مسجد میں باجماعت پڑھی اس نے گویا شب قدر کا نصف حصہ پالیا۔ ویسے بھی ہر نماز فرض باجماعت پڑھنا واجب ہے۔لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ نماز تراویح کے بعد نوافل کا اہتمام کریں ، لیکن اس سے پہلے مغرب اور عشاء کی نمازیں جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھیں ۔مسجدوں کو آباد کریں ۔آج اذان کے لیے لاؤڈ سپیکر پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔ ہم اس پابندی کے خلاف آواز ضرور بلند کریں ، لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ دنیا کے چند ممالک آج بھی ایسے ہیں جہاں برسوں سے لاؤڈ سپیکر میں اذان کی پابندی چلی آرہی ہے، جیسے: آسٹریلیا۔لیکن یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ آسٹریلیا میں اگرچہ اذان لاؤڈ سپیکر سے نہیں ہوتی ، وہاں مسجد میں نمازیوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ہندوستان میں لاؤڈ سپیکر میں اذان دی جارہی ہے ، لیکن مسجد میں آکر نماز باجماعت پڑھنے والوں کی تعداد کتنی ہے ؟ اب بھی وقت ہے مسلمان فرائض اور واجبات کے پابند ہوجائیں۔ پھر دنیا کی کوئی طاقت انھیں زیر نہیں کرسکتی۔

بہر حال ، آئیے پتہ لگاتے ہیں کہ شب قدر اس قدر اہمیت کی حامل کیوں ہے ۔

لیلۃالقدر کا مطلب ہے عظیم رات، عظمت والی رات ۔یہ رات اس لیے بھی عظیم ہے کہ اس رات میں قران مقدس لوح محفوظ سے پہلے آسمان کی بیت العزت میں یک بارگی نازل ہوا، پھر حکمت خداوندی کے مطابق آیتیں زمین میں رفتہ رفتہ اترتی رہیں۔
قرآن فرماتا ہے:
انا انزلناہ فی لیلۃالقدر
بیشک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا۔

لیلۃالقدر کی عظمت کا اندازہ اس آیت سے ہوسکتا ہے:
لیلۃالقدر خیر من الف شھر
شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر
اس کا مفہوم یہ ہے کہ شب قدر میں عمل کرنا ان ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہے جن میں شب قدر نہ ہو ۔
کیا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا اثر نہیں ہے کہ ہم ایک شب ہی عبادت کریں اور ہمیں تقریباً تیاسی سال کا ثواب ملے ؟ بیشک یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا پرنور اثر ہے ، کیونکہ بنی اسرائیل کے ایک شخص بنام شمعون نے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ایک ہزار مہینے تک عبادت کی تھی ۔حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت حزقیل علیہ السلام، حضرت یوشع علیہ السلام نے اسی برس تک اللہ کی عبادت کی۔ یہ اللہ کا بے پایاں احسان ہے کہ امت محمدی کے لیے سورہء قدر نازل فرمائی جس سے ایک مسرت‌ افزا مژدہ ملا کہ شب قدر میں اگر مسلمان اللہ کی عبادت کریں تو انھیں ایک ہزار مہینہ / تقریباً تیاسی سال کی عبادت کا ثواب ملےگا۔ یقینا” ہمیں یہ نعمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ملی ہے۔

شب قدر اس لیے بھی اہم ہے کہ اس رات غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک فرشتے اور حضرت جبریل علیہ السلام زمین پر اترتے رہتے ہیں اور مسلمانوں اور نمازیوں کے لیے سلامتی کی دعا کرتے رہتے ہیں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کون سی رات شب قدر ہے ۔ یہ کہا گیا ہے کہ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں شب قدر کو تلاش کیا جائے۔ اکیسویں ، تیسویں، پچیسویں، ستائیسویں ، انتیسویں راتوں میں سے کوئی بھی رات شب قدر ہوسکتی ہے۔لیکن ان تاریخوں میں سب سے زیادہ مشہور ستائیسویں شب ہے۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ شب قدر ستائیسویں شب کو ہے۔

چونکہ شب قدر بہت متبرک رات ہے ، اس لیے مسلمان اس رات مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں اور رات بھر خدا کی عبادت کرتے ہیں ، توبہ و استغفار کرتے ہیں اور اپنے رب سے اپنی اور اپنے‌ اہل و عیال کی عافیت کے لیے دعا کرتے ہیں ۔

شب قدر کے موضوع پر راقم الحروف کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

خدا کی خوشی کا وسیلہ شب قدر
بڑھاتی ہے نیکی کا جذبہ شب قدر

معاف اس میں ہوتے ہیں سب اپنے عصیاں
ہے فیض و کرم کا ادارہ شب قدر

زمیں پر اتر آتی ہے فوج قدسی
ہے تقدیس کا اک جزیرہ شب قدر

کرو دور آپس کے تم بغض و کینہ
نوازے گی تم کو زیادہ شب قدر

ہوئی عفو کی گونج‌ ہر ایک جانب
بنی موجب کیف عشرہ شب قدر

رہوگے اگر محو حمد و ثنا تم
خدا سے کریگی نہ شکوہ شب قدر

ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے عینی
ہے رب کا گراں قدر تحفہ شب قدر

افسوس کہ آج اپنے ملک عزیز کے ماحول کو پراگندہ کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلائی جارہی ہے۔مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔کبھی حجاب پر پابندی تو کبھی حلال پر۔ کبھی اذان پر پابندی تو کبھی مدرسوں کو بند کرنے کی سازش۔صرف یہی نہیں بلکہ ملک کے سیکولرزم کے ڈھانچے کو ڈھا کر ملک کو کسی مخصوص دھرم کے ساتھ منسلک کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ جب تک سیکولرزم تھا ، درست تھا ۔ جب تک سیکولرزم ہے ، درست ہے۔لیکن جب ملک کو کسی ایک مخصوص دھرم سے جوڑنے کی کوشش کی جائے تو ہمیں بھی جاگ جانا چاہیے، ہمیں بھی یہ دعویٰ کرنا چاہیے کہ اپنے ملک میں اسلامی حکومت ہو ، ہمیں بھی رب سے یہ دعا کرنا چاہیے کہ ملک میں اسلامی شریعت کا راج ہو ۔ آج یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنے کی بات کی جارہی ہے تو ہمیں یہ بھی منظور ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ کوڈ ہمارا ہوگا ، کوڈ شریعت اسلامی کے مطابق ہوگا ۔خدا بہت بڑا کار ساز ہے۔کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئیگی ان شا ء اللہ۔اسلامی حکومت کے لیے راہ ہموار ہوجائےگی ان شاء اللہ۔لیکن شرط ہے کہ ہم خود صاحب عمل اور صاحب کردار ہوجائیں، اپنی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق سنوارلیں۔آج شب قدر ہے جو دعا کی مقبولیت کی رات ہے ۔آئیے ہم سب مل کر رحمت عالمین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے رو رو کر ، خدا کے آگے گڑگڑا کر یہ دعا کریں :
یا اللہ اپنے ملک عزیز سے ظلم و ستم کا خاتمہ فرمادے۔
یا اللہ مسلم قوم کی عزت و آبرو کی حفاظت فرما۔
یا اللہ مسلم قوم کو انسان نما درندوں کی درندگی سے محفوظ فرما ۔
یا اللہ مسلم قوم کے جان و مال اور ایمان کی حفاظت فرما۔
یا اللہ کاش کوئی ایسی راہ ہموار ہوجائے جس سے اپنے ملک میں اسلامی حکومت قائم ہوجائے اور امن و اماں کی فضا پھر سے استوار ہوجائے

امت مسلمہ ہو سدا خیر سے
یا خدا دے جزا لیلۃالقدر میں
پھر سے ہندوستاں میں ہو اسلامی راج
مانگو ‌ایسی دعا لیلۃالقدر میں
(سید عینی)

لیلۃالقدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

برکتوں کا دیا لیلۃالقدر میں

خوب روشن ہوا لیلۃالقدر میں

رحمت عالمیں کا ہے یہ فیض خاص

گل فرحت ملا لیلۃالقدر میں

ہو مبارک مسلمان عالم تمھیں

قول رب آگیا لیلۃالقدر میں

ہوگیا ملک آزاد انگریز سے

رب کی ہے یہ عطا لیلۃالقدر میں

امت مسلمہ ہو سدا خیر سے

یا خدا دے جزا لیلۃالقدر میں

پھر سے ہندوستاں میں ہو اسلامی راج

مانگو ‌ایسی دعا لیلۃالقدر میں

شکر رب، “عینی” بخشش کا مژدہ حسیں

قدسیوں سے ملا لیلۃالقدر میں۔

۔۔۔از: سید خادم رسول عینی