WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا-تبصرہ – از قلم : سید خادم رسول عینی

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم : سید خادم رسول عینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علامہ سید اولاد رسول قدسی مصباحی راقم الحروف کے نعتیہ مجموعہء کلام” رحمت و نور کی برکھا ” کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں :

” اگر صحیح معنوں میں نعت گوئی کا سلیقہ و قرینہ چاہیے تو سیدی اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کے مجموعہء کلام حدائق بخشش کا مطالعہ کرنا بے حد مفید و سود مند ثابت ہوگا۔میں نے جب نعت گوئی کا آغاز کیا تو مجھے ایسا کوئی مخلص استاد نہیں ملا کہ جس کی رہنمائی میں اپنا نعتیہ فکری سفر جاری رکھ سکوں ۔ تو ایک دن‌ ابی الشفیق والمحترم حضور مفتیِ اعظم‌ اڑیسہ علامہ سید شاہ عبد القدوس علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں اپنے تردد کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ تمھاری نعت گوئی کی مکمل رہنمائی کے لیے سیدی اعلیٰ حضرت کا نعتیہ دیوان حد ایق بخشش کافی ہے۔لہذا تم اس کے مطالعے کو اپنا معمول بنالو۔آپ‌ نے مزید فرمایا کہ حدائق بخشش تمھیں شاعری کے رموز و اسرار بتائیگی اور شاعری کے قواعد و ضوابط بھی سکھائے گی۔شریعت کی پاسداری کے موثر طریقوں سے آشنا کرائیگی۔ عقائد و اعمال کی اصلاح کا سبق بھی پڑھائیگی، بد‌ مذہبوں اور بد عقیدوں سے دور و نفور رہنے کی ترغیب عطا کریگی اور احقاق حق و ابطال باطل کا جذبہ بھی اجاگر کریگی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہی کتاب تمھیں آداب نعت گوئی کے ساتھ ساتھ عشق رسول اور نور ایماں کی لازوال نعمت سے ہم کنار بھی کرےگی” ۔

جب ہم حدائقِ بخشش کا مطالعہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے جس نعتیہ گلدستے کی زیارت ہوتی ہے اس کا مطلع یوں ہے :

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

اس سے پہلے کہ ہم شعر کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں آئیے عروضی ضاویے سے شعر پر تبصرہ کرتے ہیں :

عروض
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے اس کلام کے افاعیل یوں ہیں :
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
مطلع کے دوسرے مصرع میں افاعیل یوں ہے:
فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن
گویا اعلیٰ حضرت نے اپنے نعتیہ دیوان کے پہلے شعر میں ہی زحاف(خبن) کا استعمال کیا ہے۔
اس سے علم عروض پر آپ کی استادانہ مہارت کا پتہ چلتا ہے

اعلیٰ حضرت کے دوسرے کلاموں کے اشعار میں بھی زحاف خبن کا استعمال ملتا ہے ، جیسے:
شب اسریٰ کے دولھا پہ دایم درود
اس مصرع کے افاعیل ہیں :
فعلن فاعلن فاعلن فاعلان
جب کہ مطلع کے مصرعوں کے افاعیل ہیں :
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلان۔

اگر علم عروض کے زاویے سے حدائق بخشش کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اعلیٰ حضرت نے اپنے کلاموں میں کئی مقامات پر مختلف زحافات کا استعمال فرماکر اشعار کے حسن کو دوبالا کردیا ہے۔
مثال کے طور پر:
کعبے کے بدر الدجیٰ تم پہ کروڑوں درود۔
اس کلام کے کئی اشعار میں آپ نے زحاف ازالہ کا استعمال فرمایا ہے، ضرب و عروض میں بھی اور حشو میں بھی۔مثلا”
کیا ہیں جو بےحد ہیں لوث تم تو ہو غیث اور غوث

تم ہو حفیظ و مغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث

وہ شب معراج راج وہ صف محشر کا تاج

لحت فلاح الفلاح رحت فراح المراح

جان و جہان مسیح داد کہ دل ہے جریح

اف وہ رہ سنگلاخ آہ یہ پا شاخ شاخ

تم سے کھلا باب جود تم سے ہے سب کا وجود

خستہ ہوں اور تم معاذ بستہ ہوں اور تم ملاذ

مندرجہ بالا مصرعوں کے افاعیل یوں ہیں:
مفتعلن فاعلان مفتعلن فاعلان
جب کہ مطلع
کعبے کے بدر الدجیٰ تم پہ کروڑوں درود
کے افاعیل یوں ہیں :
مفتعلن فاعلن مفتعلن فاعلان
گویا اعلیٰ حضرت نے مندرجہ بالا مصرعوں کے حشو میں زحاف ازالہ کا استعمال فرمایا ہے‌۔
اور اعلی’حضرت کا ایسا استعمال دلیل ہے کہ حشو میں زحاف ازالہ کا استعمال درست ہے۔

بلاغت
۔۔۔۔۔۔۔۔

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

اعلیٰ حضرت کے اس شعر میں بلاغی حسن ہے۔
شعر کئی صنعتوں کے جمال سے مزین ہے:

صنعت تلمیح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعر میں ایک مشہور واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ ایک سائل سرکار سے طلب کرتا رہا اور سرکار عطا فرماتے رہے اور آپ نے کبھی لا نہیں فرمایا۔

صنعت تکریر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں کا دوبار آنا شعر کے حسن کو دوبالا کررہا ہے

صنعت تجنیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے نہیں کا مطلب ہے No
,دوسرے نہیں کا مطلب ہے not، لہذا شعر تجنیس تام‌ کے category میں آیا۔

جملہء خبریہ vs جملہء انشاءیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شعر میں ایک اور خوبی یہ ہے کہ اولی’ انشاءیہ جملہ ہے اور ثانی جملہء خبریہ۔ جملہء خبریہ کے ساتھ ساتھ انشاءیہ جملہ کے استعمال نے شعر میں مقناطیسیت پیدا کی ہے اور اثر انگیزی بھی ۔

دعویٰ vs دلیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شعر میں مزید خوبی یہ ہے کہ پہلے جملے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم صاحب جود و کرم ہیں اور ثانی میں ایک واقعے کو بیان کرکے دعوے کی دلیل بھی پیش کردی گئی۔

لفظ تیرا کی افادیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمھارا / آپ کا کے عوض تیرا استعمال کیا گیا ہے کیونکہ لفظ تو / تیرا میں زیادہ محبت اور اپنائیت ہے اور تو / تیرا کے استعمال میں اقرار بے مثلیت ذات محمدی بھی ہے ۔صلی اللہ علیہ وسلم

تفہیم
۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ شعر ایک حدیث کی طرف اشارہ کررہا ہے ۔وہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اور اس کا مفہوم یوں ہے:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ سخی ہیں ۔آپ کی سخاوت تیز آندھی سے بھی زیادہ جاری ہے۔آپ نے کبھی کسی سوالی کو خالی واپس نہیں لوٹایا یعنی لا نہیں فرمایا۔

اسی لیے عرب کے ایک شاعر نے کیا خوب فرمایا تھا :

ما قال لا قط الا فی تشھدہ
لولا التشھد کانت لا وہ نعم‌

سخاوت مصطفی’ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسلک کئی واقعات مشہور ہیں ۔
صحابیء رسول حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کبھی سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں نہ نہیں کہا ۔

تبھی تو ‌اعلی’ حضرت فرماتے ہیں:
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

جود vs کرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرم کے ساتھ جود کا لفظ بھی لایا گیا ہے کیونکہ جود ، کرم سے اعلیٰ ہے ، higher category کے کرم کو جود کہا جاتاہے ۔ کرم مانگنے پر عطا کرنے کو کہتے ہیں اور جود بے مانگے دینے کو کہتے ہیں ۔آپ کی شان اجود الناس بالخیر اور اکرم الناس بالخیر ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق سخاوت لوگوں کے اسلام قبول کرنے کا باعث بن گیا ۔ مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بخالت کا مظاہرہ نہ کریں ، بلکہ اسوہء حسنہ پہ عمل کرتے ہوئے سخاوت اور فراخ دلی کا مظاہرہ کریں ۔مال سے محبت نہ کریں بلکہ جس نے مال دیا ہے اس سے محبت کریں ، یعنی خداوند قدوس سے محبت کریں اور خدا کے بندوں کے حقوق ادا کرتے رہیں

ماہ رمضان کی آن بان شان، رحمتوں کی باران۔آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ]

اللہ کریم کے خزانۂ رحمت کے بیش بہا خزانے کا نام ‘رمضان کریم’ ہے۔ اس ماہ مقدس کا اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ سایہ فگن ہوتے ہی مومن بندے اور بندیوں کے چہرے مسرت و شادمانی سے کھل اٹھتے ہیں۔ کیوں کہ اس میں کم عبادت کرنے پر بھی ڈھیروں ثواب ملتا ہے۔ پنج وقتہ نماز میں تراویح کی اضافہ ذات کے ساتھ ثواب بھی بکثرت عطا ہوتا ہے۔ اس میں اور دنوں کے بالمقابل عبادت کا ذوق و شوق مزید بڑھ جاتا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا لطف نہایت نرالا ہو جاتا ہے۔ اس ماہ کا ہر کام نظام الاوقات کے عین مطابق ہونے لگتا ہے۔ افطاری کرنے کا ایک سنہرا نظم ہوتا ہے کہ اذان مغرب سے قبل مختلف النوع لذیذ پکوان سے پہلے دسترخوان کو سجا کر گھر کے چھوٹے بڑےسبھی افراد ایک ساتھ بارگاہ صمدیت مآب عزوجل میں دست بدعا ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی بھلائی و بہتری مغفرت و بخشش کے لیے دعاکرتے ہیں۔ اذان مغرب سنتے ہی ایک دوسرے کا پاس و لحاظ کرتے ہوۓ بادب افطاری کرتے ہیں۔ اور سحری کا ضابطہ بھی بڑا حسین ہوتا ہے۔ گویا ہر کام معمول کے مطابق ہوتا ہے۔ صحت و سلامتی سے بھری ہوئی زندگی ہوتی ہے۔ جہاں نوع بنوع پر مغز شفاف صحت بخش غذا کھانے کو ملتی ہے، وہیں گناہ صغیرہ و کبیرہ سے بچے رہنے کے لیے روزہ جیسی عظیم نعمت رہتی ہے۔ اگر ماہ صیام میں نازل ہونے والی باران رحمت و بخشش کا انکشاف کردیا جاۓ تو بغیر روزے کے رہنا در کنار، لوگ تمنا کریں گے کہ کاش مجھے کبھی موت نہ آئے اور یوں ہی ماہ صیام کی سوغات لوٹتے رہیں۔ اس میں ثواب کا خزانہ ہے، روزہ دار کا سانس لینا بھی ثواب، دیکھنا بھی ثواب، بولنا بھی ثواب، سننا بھی ثواب، سونا بھی ثواب، جاگنا بھی ثواب، چلنا پھرنا بھی ثواب نیز نماز، صدقات، فطرات، عطیات، زکات، افطار کرنا و کرانا ثواب گویا اس کے ہر آن ہر لمحہ ہر ساعت میں ثواب ہی ثواب ہے اور یہی حصول رضاۓ الہی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئیے کہ اس ماہ کی تعظیم و تکریم بجالاۓ۔ احکام خدا وندی کو اپنا سرمایۂ حیات (مستعار) سمجھے۔ اسی میں دونوں جہاں کی بھلائی مضمر ہے۔ یہ کیسے زیبا دے سکتا ہے ایک مسلمان کو کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہے (کہلاۓ) اور ماہ رمضان میں (کھلم کھلا) سر عام اسلام کی توہین و بے حرمتی کرتا ہوا پھرے۔ لیکن دور حاضر کے مسلمان کو اس کیفیت میں بکثرت دیکھا جا سکتا ہے۔ واللہ اگر تم اپنی اس نازیبا حرکتوں سے باز نہ آۓ تو غضب الٰہی کے مستحق ہوگے اور پھر تمہارا ٹھکانہ نار جہنم ہوگا۔ جو قطعی اسے مومن کے لیے نہیں بنایا گیا۔ بل کہ نعیم جنت تمہاری خاطر کب سے اپنی باہیں پھیلائے ہوئے ہے۔ تو اے لوگو! ابھی وقت ہے اپنی سابقہ غلط روش سے منازل کا بعد مت بڑھاؤ۔ بل کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی رضا جوئی کا سامان مہیا کرو، اور وہ بایں وقت سایہ فگن یہی ماہ مقدس رمضان کریم ہے اس کا احترام کرکے اپنی جہاں آباد کرلو۔ اس کی سوغات کو سوہان جان سمجھو۔ اور مکمل انہماک شوق و ذوق کے ساتھ عبادت و ریاضت میں لگ جاؤ۔ یہ رمضان کریم ہے اس کی شان بڑی عظیم ہے، اس کی آن بڑی لطیف ہے، اس کی بان بڑی نرالی ہے۔ گویا اس کی آن بان شان مسلمانوں کے لیے سفینۂ بخشش ہے۔ تو اس سفینے کو نیکیوں کے ذریعہ نہایت مستحکم بناؤ ناکہ آلۂ معصیت سے اس میں سوراخ بناؤ۔

مدارس و مکاتب کی ضرورت و اہمیت، ازقلم:محمدشمیم احمدنوری مصباحی!

مدارس و مکاتب کی ضرورت و اہمیت

ازقلم:محمدشمیم احمدنوری مصباحی!
ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

     الحمدللّٰہ ! پورے ہندوستان میں مدارس و مکاتب کا جال پھیلا ہوا ہے، مشرقی ہندوستان ہو یا مغربی، ہر خطے میں مسلمان بچوں کی زبانوں سے “قال اللّٰه وقال الرّسول” کے نغمے بلند ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہندوستان کی سرزمین پر برسوں سے جاری و ساری ہے، یہ انہی مدارس و مکاتب کا فیضان ہے کہ آج ہم آزادی کی کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں، اگر مدارس کے علما نے اپنی درس گاہوں سے نکل کر رسم شبیری نہ ادا کی ہوتی تو ہندوستان کا حال کچھ اور ہوتا، دینی مدرسوں کے علما و فضلا نے نہ صرف ہندوستان کی کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کیا بلکہ باشندگان ہند کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد بھی فرمائی

اور وہ بچے جو غریبی کی وجہ سے کچھ بھی تعلیم حاصل نہ کر سکتے تھے ان کے لیے بھی تعلیم کا بندوبست کیا، ہندوستان میں غریبی کی زندگی بسر کرنے والوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہی ہے اس لیے یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان مدارس ومکاتب سے غریب مسلم طلبہ نے زیادہ استفادہ کیا جہاں انہیں نہ صرف یہ کہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا گیا بلکہ ان غریب و نادار طلبہ کے لیے کھانے، پینے، رہنے، سہنے اور علاج و معالجہ کا بھی انتظام کیا گیا، اس کی واضح مثال مغربی راجستھان کی عظیم تعلیمی و تربیتی درس گاہ ” دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف” اور اس جیسی دوسری درس گاہیں ہیں-
مسجد اللّٰہ کا گھر ہے اور مدرسہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کا، چناں چہ ہر مومن مسجد میں اپنا سر اپنے رب کی بارگاہ میں جھکا کر بندگی کا حق ادا کرتا ہے اور مدرسہ میں خدا کے گھر جانے اور سر جھکانے کا طریقہ سیکھتا ہے یہ دونوں اسلام کی شان اور اسلام کی عظمت کے نشان ہیں-
دینی مدارس ومکاتب آج کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ تقریبا ساڑھے چودہ سو برس پہلے اسلام کے پیغمبر حضور نبئِ رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے مسجد نبوی کے باہر ایک چبوترہ پر بیٹھ کر اصحاب صفہ دین کی معلومات حاصل کرتے تھے یہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کا پہلا مدرسہ تھا جو آج بھی مسجد نبوی کے اندر چبوترہ کی شکل میں قائم ہے-
مسجد نبوی شریف کے مقدس ننھے سےچبوترہ سے علوم وافکار کا جو سوتا پھوٹا تھا پوری دنیا اب تک اس کے آبشار سے سرشار ہو رہی ہے ہے- یہ مدارس و مکاتب اسی سمندر کے نہر کی بل کھاتی لہریں ہیں، اسی وجہ سے ان کی ایک الگ دنیا ہے، الگ فضا ہے، الگ شان ہے، الگ پہچان ہے،اور الگ تاثیر وتاثّر ہے-
جب بھی انسانی آبادی بے چارگی کا شکار ہوئی ہے تو مدارس اسلامیہ نے تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے اور ایسی ایسی نادرالوجود ہستیاں قوم وملت کے حوالے کی ہیں کہ ان کے دم قدم کی برکتوں سے صحرا میں بھی پھول کھل اٹھے وہ چاہے امام اعظم ابو حنیفہ ہوں یا شیخ عبدالقادر جیلانی، امام شافعی ہوں یا امام مالک وامام حنبل،خواجہ غریب نواز ہوں، یا رومی،سعدی،رازی وغزالی(علیہم الرّحمہ) ۔
امام عشق ومحبت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی ہوں یا حضور صدرالافاضل ،حضور مفتی اعظم ہند ہوں یا حضور صدرالشریعہ، تاج الشریعہ حضرت علامہ اختر رضا ازہری نوراللہ مرقدہ ہوں یا شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں،بحرالعلوم ہوں یا محدّث کبیر،شارح بخاری حضرت مفتی محمّدشریف الحق امجدی ہوں یا حضور فقیہ ملّت علیہما الرّحمہ، حضور مفتئ اعظم راجستھان علّامہ مفتی محمّد اشفاق حسین نعیمی علیہ الرّحمہ ہوں یاخیر الاذکیا علامہ محمد احمد مصباحی،محقّق مسائل جدیدہ حضرت مفتی محمّدنظام الدّین صاحب رضوی مدّظلّہ العالی ہوں یا علاقۂ تھار کی ممتاز وعظیم دینی دانش گاہ “دارالعلوم انوار مصطفی سہلاؤ شریف” کے مہتمم و شیخ الحدیث نورالعلما،شیخ طریقت حضرت علامہ سید نوراللّٰہ شاہ بخاری یہ سبھی حضرات مدارس اسلامیہ کے ہی پروردہ وفیض یافتہ ہیں-
احادیث وتاریخ اورسیرت کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدرسالت میں مسجد نبوی کے چبوترہ کے علاوہ طلبہ کی تعلیم وتربیت کے لیے کوئی مخصوص شکل نہیں تھی بلکہ صحابۂ کرام خود ہی اپنی اولاد کو ضروریاتِ دین سکھلا دیاکرتے تھے عرب کے مختلف قبیلوں سے آنے والے وفود کے ساتھ بچے بھی ہوتے تھے جو خدمت نبوی میں قیام کر کے علم دین حاصل کرتے تھے اور ان کےکھانے پینے کابندوبست مقامی صحابۂ کرام کیا کرتے تھے، جس میں انہوں نے بے مثال ایثار وبے لوثی کا ثبوت دیا- (حیاۃالصحابہ جلد /۱، باب النصرة)۔
پھر عہدِ صحابہ میں حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں سب سے پہلے بچوں کی تعلیم کے لیے مکتب جاری کیے اور معلمین کے لئے ایک رقم بطور وظیفہ کے مقرر کردی- (معلّیٰ ابن حزم جلد/ ۸ صفحہ/۱۹۵)۔
جب اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے لگا تو خلیفۂ ثانی نے مزید اجراءِ مکاتب کا حکم دیا اور اپنے ماتحت عمال وامرا کو یہ فرمان جاری کردیا کہ ” تم لوگوں کو قرآن کی تعلیم پر وظیفہ دو”-( کتاب الاموال،صفحہ/۲۲۱)۔
دینی تعلیم کی ضرورت و اہمیت ہی کے پیش نظر حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ ” تین چیزیں لوگوں کے لیے ضروری ہیں!
{۱}حاکم وامیر: ورنہ لوگ ایک دوسرے سے برسرپیکار ہو جائیں گے- {۲} مصحف: یعنی قرآن کی خریدوفروخت، ورنہ کتاب اللّٰہ کا پڑھنا پڑھانا بند ہوجائے گا-
۔{۳} اور تیسری بات یہ ہے کہ عوام النّاس کی اولاد کو تعلیم دینے کے لیے ایسا معلّم ضروری ہے جو اجرت لے، ورنہ لوگ جاھل رہ جائیں گے- (تربیت الاولاد فی الاسلام ،جلد/۱صفحہ/۲۹۱)۔
بلاشبہ دور حاضر میں مدارس و مکاتب کی سخت ضرورت ہے، یہی مدارس ومکاتب ہیں کہ جہاں کی خاک سے انسان بنائے جاتے ہیں- وہ طلبہ جنہیں صحیح معنوں میں بولنے تک نہ آتاتھا تھا، مدارس نے انہیں بولنے کا شعور بخشا، چلنے پھرنے اوراُٹھنے بیٹھنے کے آداب سکھائے اور برائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے اور اُن کا خاتمہ کرنے کے گر بتائے،اسی لیے توکسی شاعر نے کہا ہے

یہ مدرسہ ہے تیرا میکدہ نہیں ساقی
یہاں کی خاک سےانساں بنائےجاتے ہیں
مذکورہ شعر بلاشبہ مدارس کی اہمیت و افادیت اور مدارس کے مقصد قیام کو اجاگر کر رہا ہے، آج سے کئی صدیاں پہلے مدارس کا قیام عمل میں آیا اور ان خرقہ پوشوں کا مقصد گلشن محمدی کو سرسبز و شاداب رکھنا تھا، دور حاضر میں بھی مدارس کے قیام کا مقصد پیغامِ خداوندی و فرمان نبوی کو فروغ دے کر شجر اسلام کی آبیاری کرنا ہے تاکہ علوم مصطفویہ کے نور سے ہر گھر روشن و منور ہوجائے- انہی مدارس ومکاتب سے انسان سلیقۂ زندگی پاتا ہے -قوم وملّت کے ایمان وعقائد کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگرمدارس و مکاتب نہ ہوں تو کما حقہ جلالِ کبریائی کا غلغلہ نہ ہو، مدارس کا وجود نہ ہو تو حق و باطل میں امتیاز مشکل ہے، یہیں سے انسان تاریکی سے نکل کر روشنی پاتا ہے- جب انسانیت ہلاکت کے گدھے میں گرنے لگتی ہے تو یہ مدارس ہی ہیں جن کے فارغین علما ان گرنے والوں کو ہلاکت سے بچاتے اور وادئیِ ظلمت سے نکال کر نور و ہدایت کی بزم گاہ میں لاکھڑاکرتے ہیں-
مدارسِ اسلامیہ ملک میں دینی و عصری علوم کے رواج اور تعلیم اور پڑھائی کی شرح میں بے پناہ اضافہ کر رہی ہیں، اگر یہ مدارس و مکاتب بند ہو جائیں تو ان لاکھوں نونہالانِ ملّت کی تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری حکومت کے سرآ پڑے گی اور حکومت اربوں روپیہ خرچ کرنے کے بعد بھی اتنےمہذّب،پُرسکون اور مفید ادارے نہیں چلاسکتی گویا یہ مدارس ملک میں تعلیمی شرح کے اضافہ کے ساتھ ہر سال اربوں روپیہ کا مالی فائدہ بھی کر رہے ہیں، سیاست کے کارندوں کو شاید اس کا احساس بھی نہیں ہے-
ان مدارس کا ملک کی اصلاح و ترقی میں ایک نمایاں کردار یہ ہے کہ حکومت ہر سال عوام کی اصلاح کے لیے نہ جانے کتنے قانون بناتی ہے، کتنے لوگوں کو صرف اس مقصد کے لیے تنخواہ دیتی ہے کہ شراب نوشی ختم ہو، نشہ آور اوربری چیزوں کے استعمال کا سلسلہ بند ہو ،قتل و غارت گری کی جگہ امن وآشتی آئے،چوری اوررشوت کا جنازہ نکالا جائے ، زنا کاری اور بدکاری پر کنٹرول ہو، فسادات کا سلسلہ رک جائے، ملک میں تعلیم عام ہو لیکن ہزار کوششوں کے باوجود جوں جوں دوا کی جارہی ہے مرض بڑھتا جارہا ہے، جب کی یہ تمام کام حکومت کے کسی تعاون اور تحریک کے بغیر علمائے کرام ملک بھر میں پورے ذوق و شوق کے ساتھ انجام دے رہے ہیں مسجدوں میں، دینی جلسوں میں ،مدارس کی کانفرنسوں میں عام طور پر علماء کے خطابات کے یہی موضوعات ہوتے ہیں اس کے اثرات مسلم معاشرے میں آسمان کے ستاروں کی طرح دیکھے جاسکتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مدارس کے ارباب نظم و نسق اور مدرسین کو حکومتیں قومی اعزازات دیتیں اور مدارس کے وجود کو اپنے ملک کے لیے قابل افتخار سمجھتیں مگر افسوس صد افسوس! ایسا نہیں ہوسکا بلکہ اس کے برخلاف انہیں ملک و ملت کے لیے خطرہ کا نشان اور دہشت گردی کا اڈّہ سمجھاجانے لگا-(مدارس اسلامیہ تاریخ وحقائق کے اجالے میں صفحہ/۵۴،۵۳)۔
صرف انہی باتوں پر بس نہیں کیا گیا بلکہ مدارس پر اس طرح کے اور بھی بہت سے بے بنیاد الزامات لگائے گئے مثلا یہ کہ —-” مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں”—-” مدارس میں غیر ملکی ایجنٹ تیار کیے جاتے ہیں”—-” مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے”—-” مدارس میں دقیانوسیت کو فروغ دیا جاتا ہے”—-” مدارس میں دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے”—- اور “مدارس کے فارغین سماج کے کسی طبقہ کے لیے موزوں نہیں ہوتے ہیں”—- وغیرہ وغیرہ
جب کی حقیقت میں معاملہ اس کا بالکل ہی برعکس واُلٹا ہے یعنی مدارس میں قتل و غارت گری کے بجائے بلاتفریقِ مذہب وملت انسانوں کے تحفظ اور بقائے انسانیت کی تعلیم دی جاتی ہے مدارس میں دقیانوسیت نہیں بلکہ دین و مذہب پر کاربند ہونے کا درس دیا جاتا ہے مدارس میں بغض و عداوت اور دشمنی نہیں بلکہ الفت و محبت کا سبق سکھایا جاتا ہے مدارس میں غیر ملکی ایجنٹ نہیں بلکہ محب وطن شہری بنایا جاتا ہے-
مدارسِ اسلامیہ پر جو اس طرح کےغلط اور بےبنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں بلاشبہ یہ سب کے سب غلط ہیں ،اس لیے کہ مدارس اسلامیہ سے فارغ ہونے والے علماء ملک و معاشرہ کی اصلاح کو اپنی دینی اور ملی ذمہ داری سمجھتے ہیں، امن و امان کو بحال رکھنا ان کی تربیت کا ایک حصہ ہوتا ہے، وہ اپنی تہذیب و ثقافت اور دینی فکرو بصیرت سے شعوری اور عملی طور پر ملک کے گوشے گوشے میں صلاح و فلاح کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ “مدارس اسلامیہ دہشت گردی کے اڈے نہیں بلکہ فروغ علم کے اہم مراکز اور ملک کی تعمیر وترقی کی تحریک ہیں”……اللّٰہ تعالیٰ مدارس اسلامیہ کی حفاظت وصیانت فرمائے- آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم

اگر ددورانِ حمل بچہ پیٹ میں مرجائے، تو کیا صفائی کرانے کے بعد آنے والا خون نفاس کا ہوگا؟

السلام علیکم
کسی بہن کا 5 مہینے کا حمل ضائع ہو گیا ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ بچہ کافی دن پہلے ہی مرچکا تھا
عورت کو اس کی خبر نہیں ہوئی
جب سونوگرافی(sonography) کرایا تو پتہ چلا
ڈاکٹر نے فوراً صفائی کی، اب سوال یہ ہے کہ صفائی کے بعد عورت آ رہا ہے تو وہ کب تک ناپاک رہے گی؟
یعنی اس خون کو حیض کا سمجھے یا نفاس کا؟
9 دن خون جاری رہا بیچ میں تین دن بند ہوا پھر شروع ہو گیا بس قطرہ ہی ہے،
مہربانی کر کے رہنمائی فرمائیں،
(f,z.noori
👆👇

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الجواب بعون الملک الوھاب۔حاملہ عورت کا حمل ضائع ہونے کی صورت میں نفاس کا حکم یہ ہے کہ اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر ،انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تو یہ عورت نفاس والی ہوجائے گی، اس حمل کے ساقط ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا خون کہلائے گا، لیکن اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی عورت نفاس والی نہیں بنے گی اور  اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس بھی نہیں کہلائے گا۔

بچے کے  اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے  لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے  پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے  تو اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس ہوگا، رد المحتار میں ہے: نعم نقل بعضہم أنہ اتفق العلماء علی أن نفخ الروح لا یکون إلاّ بعد أربعة أشہر أي عقبہا کما صرّح بہ جماعة․․․ ولا ینافي ذلک ظہور الخلق قبل ذلک؛ لأن نفخ الروح إنّما یکون بعد الخلق، وتمام الکلام في ذلک مبسوط في شرح الحدیث الرابع من الأربعین النوویة (۱/۵۰۱، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ، ط: زکریا)․․․ والسقط إن ظہر بعضہ فہو ولد تصیر بہ نفساء والأمة أم الولد․․․؛ لأنہ ولد لکنہ ناقص الخلقة ونقصان الخلقة لا یمنع أحکام الولادة، وفي قولِ صاحب التبیین: لا یستبین خلقہ إلا في مأة وعشرین یومًا، نظر، تأمل․ (مجمع الأنہر مع ملتقی الأبحر، ۱/ ۸۴، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت۔لہذ ا جب جب پانچ ماہ ہونے کے بعد یہ منظر پیش آیا ہے تو وہ خون نفاس ہے,
۔والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف, 6 /رمضان المبار بروز جمعہ ۔1443

فدیہ کی رقم کہاں صرف کی جاۓ؟ کتبـــــــــــــہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری

مفتی صاحب السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ روزہ کے فدیہ کی رقم کہاں صرف کی جاۓ تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الجواب بعون الملک الوھاب۔
صورت مسؤلہ میں فدیہ  اور زکاۃ الگ الگ چیز ہیں، البتہ ان کے مصارف ایک ہی ہیں، جو زکاۃ کے مصارف ہیں وہی فدیہ کے مصارف ہیں، یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور  اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا مال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچے۔
زکاۃ اور فدیہ دونوں پر صدقہ واجبہ کا اطلاق ہوتاہے، جب کہ مطلقاً صدقے سے مراد عموماً صدقہ نافلہ ہوتاہے، صدقہ نافلہ اور واجبہ کے مصارف میں یہ فرق ہے کہ صدقہ واجبہ مستحقِ زکاۃ کو دینا واجب ہے، جب کہ صدقہ نافلہ مستحق و غیر مستحق یہاں تک کہ مال دار کو بھی دیا جاسکتا ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ومصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزكاة.
[ الفتاویٰ الهندیة، الباب الثامن في صدقة الفطر، 1/194، ط: مکتبة رشیدیة۔والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب


کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس

المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 6/رمضان المبارک 1443

کیا زکوٰۃ کے پیسے سے غریب بچیوں کی شادی کر سکتے؟

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہایک مسلہ ہے کہ کیا زکوٰۃ کے پیسے سے غریب بچیوں کی شادی کر سکتے ہیں

محمد شمیم قادری

👆👇

الجواب بعون الملک الوھاب۔واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مستحق کو مالک بنا کر رقم یا چیز حوالہ کی جائے، لہذا اگر لڑکی مستحقِ زکوۃ ہے، تو اسے زکوۃ کی رقم کا  مالک بنا کر دے دیا جائے یا اگر اس کے والدین زکوۃ کے مستحق ہیں، تو انہیں زکوۃ کی رقم مالک بنا کر دے دی جائے، پھر وہ اپنی بیٹی کی شادی کے اخراجات پورا کرلیں یا کسی اور مصرف میں خرچ کر لیں۔شادی کے وہ اخراجات جن میں کسی مستحق کو مالک بنانا نہ پایا جائے، (مثلاً: ہال وغیرہ کی یا کھانے کے اخراجات کی ادائیگی) ان مدات میں از خود رقم صرف کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی، بلکہ لڑکی یا اس کی طرف سے بنائے گے وکیل کو قبضہ دینا ضروری ہوگا۔کما فی الھندیۃ:أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله – تعالى – هذا في الشرع كذا في التبيين(الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج: 1، ص: 170، ط: دار الفکر)وفی الشامیۃ:ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر(ج: 2، ص: 244، ط: دار الفکر)وفی بدائع الصنائع:وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع: منها أن يكون فقيرا فلا يجوز صرف الزكاة إلى الغني إلا أن يكون عاملا عليها لقوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل} [التوبة: ٦٠] جعل الله تعالى الصدقات للأصناف المذكورين بحرف اللام وأنه للاختصاص فيقتضي اختصاصهم باستحقاقها(ج: 2، ص: 43، ط: دار الکتب العلمیہ)

والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب کتبـــــــــــــہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 6/ رمضان المبارک 1443

حلال اور حجاب۔۔از: سید خادم رسول عینی

سورہء بقرہ کی ایک آیت کا اقتباس یوں ہے:
انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ

ترجمہ:
اس نے یہی تم پر حرام کیے ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا ۔

اس آیت میں چار چیزوں کی حرمت کا حکم ہے:
١.مردار
٢.خون
٣.خنزیر کا گوشت
٤.وو جانور جو غیر خدا کا نام لےکر ذبح کیا گیا ۔

خدا کے حکم میں حکمت کار فرما رہتی ہے۔ خنزیر بھی گائے ،بیل، بکرے کے ایسا ایک چوپایہ جانور ہے ۔گائے ، بیل، بکرے کا گوشت کھانا جائز ہے ، تو پھر خنزیر کا گوشت حرام کیوں ؟ کچھ تو حکمت خداوندی کار فرما ہوگی۔

قرآن میں جو احکام بیان کیے گیے ہیں وہ کسی بندے کی جانب سے نہیں ہیں ۔ایک بندہ جب کوئی حکم جاری کرتا ہے تو اس میں کچھ ذاتی منفعت بھی رہ سکتی ہے۔لیکن خدا بے نیاز ہے ۔ قرآن فرماتا ہے :
اللہ الصمد
یعنی اللہ بے نیاز ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ نہ کھائے نہ پیئے ،ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا۔کسی کام میں کسی کا حاجت مند نہیں۔

خدا جو احکام جاری کرتاہے وہ خالص اس کے بندوں کی منفعت کے لیے ہوتے ہیں ۔

جب میں اڑیسہ کی یونیورسٹی میں اگریکلچرل سائنس میں گریجویشن کررہا تھا تو ہر سیمسٹر میں ایک سبجکٹ ویٹرنری سائنس کا بھی ہوا کرتا تھا جسے ویٹرنری سائنس داں پڑھایا کرتے تھے۔ ایسی ہی اک کلاس میں پڑھاتے ہوئے ایک ماہر ویٹرنری سائنس( جو غیر مسلم تھے ) نے کہا:

“شریعت اسلامیہ نے خنزیر کے گوشت کو حرام کہا ہے اور اس حکم کو سائنس کی حمایت بھی حاصل ہے”۔انھوں نے سائنسی وجوہات یوں بیان کی تھیں :

“١.خنزیر کا نظام انہضام گائے کے نظام انہضام سے جدا گانہ ہے۔گائے کے پیٹ کے اندر جب عمل انہضام ہوتا ہے تو جراثیمی زہر جسم سے باہر نکل جاتے ہیں ۔لیکن خنزیر کے جسم سے یہ جراثیمی زہر باہر نہیں نکلتے ، بلکہ یہ خنزیر کے فیٹی ٹیسوز میں جمع ہوکے رہتے ہیں ۔اس لیے خنزیر کا گوشت نقصان دہ ہے۔

٢. خنزیر میں سویٹ گلانڈ / مسام عرقی نہیں ہوتا ،
جس کے سبب وہ پسینہ نہیں چھوڑتا۔کسی جانور سے جب پسینہ چھوٹتا ہے تو اس کے بدن سے جراثیمی زہر نکل جاتے ہیں ۔چونکہ خنزیر کے بدن سے جراثیمی زہر نہیں نکلتے ، وہ بدن میں جمع ہوکے رہتے ہیں ۔اس لیے خنزیر کا گوشت نقصان دہ ہے۔

٣.خنزیر کا گوشت سرطان زا ہوتا ہے۔ ٥٠٠ گرام گوشت کھانے سے سرطان کا امکان اٹھارا فی صد بڑھ جاتا ہے۔اس لیے بھی خنزیر کا گوشت نہیں کھانا چاہیے۔”

ماہر ویٹرنری سائنس نے یہ بھی کہا کہ” اسلامی شریعت نے جس انداز سے جانور یا پرندے کو ذبح کرنے کے لئے کہا ہے وہ بھی سائنسی اعتبار سے درست ہے۔یعنی حلال شدہ گوشت کھانا چاہیے کیونکہ بغیر حلال کیے گوشت صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے “۔اس کی وجوہات انھوں نے یوں بیان کیں:

“١.اسلامی طریقے سے جب ذبح کیا جاتا ہے تو شریان سے پورا خون باہر نکل جاتا ہے جس کے سبب گوشت میں جراثیمی زہر باقی نہیں رہتے۔

٢.حلال شدہ گوشت میں خون باقی نہیں رہتا ۔قرآن کی آیت میں ویسے بھی خون کو حرام کہا گیا ہے۔اگر حلال شدہ نہیں ہے تو گوشت میں خون کے کچھ حصے باقی رہ جاتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں ۔اس لیے حلال شدہ گوشت ہی کھانا چاہیے۔”

تین چار سال پہلے ایک فیس بک سٹار نے اپنے فیس بک وال میں پوسٹ کیا تھا :

“اسٹریلیا میں خنزیروں کی پرورش فارم میں اور صاف ستھرے ماحول میں ہوتی ہے اور وہ گندی چیزیں نہیں کھاتے ، لہذا ان خنزیروں کا گوشت مسلمانوں کو کھانا چاہیے”

میں نے اس‌ پوسٹ کا رد کیا ۔افسوس کہ اس پوسٹ کی تائید میں اسٹریلیا اور امریکہ کے کچھ نام نہاد مسلم بھی کمنٹ لکھ رہے تھے اور بڑی بے حیائی کے ساتھ علی الاعلان یہ اظہار کر رہے تھے کہ خنزیر کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے اور وہ مسلمان ہونے کے باوجود بڑے ہی شوق سے کھاتے ہیں ۔
میں نے اس پوسٹ کے خلاف بحث کی اور یہ بحث تقریباً چار روز تک چلتی رہی۔میں نے اپنے کالج کے لکچرر سے جو سیکھا تھا اسی کی روشنی میں بحث کی اور یہ ثابت کیا کہ خنزیر کا گوشت صرف اس لیے حرام نہیں ہے کہ خنزیر گندی چیزیں کھاتا ہے، بلکہ اس لیے بھی حرام ہے کہ خنزیر کا نظام انہضام اور استحالہ ایسا ہے کہ اس کے گوشت میں جراثیمی زہر فطری طور پر موجود رہتے ہیں اور وہ صحت کے لیے بےحد نقصان دہ ہے۔ فارم کی پرورش ماحولیات تو بدل سکتی ہے لیکن جانور کے جینیٹک کیریکٹر / جینیاتی کردار کو بدل نہیں سکتی ، جانور کے استحالہ کو بدل نہیں سکتی۔چار دن کی مسلسل بحث کے بعد اس فیس بک اسٹار نے ہماری بات تسلیم کرلی اور اپنے پوسٹ کو فیس بک سے ہمیشہ کے لیے ہٹادیا۔

پتہ یہ چلا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو سمجھایا جاسکتا ہے۔
افسوس کہ آج کل اپنے ملک میں جہالت پروان چڑھ رہی ہے۔تبھی تو کبھی حجاب کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے تو کبھی اذان کے خلاف ، کبھی مدرسوں کی تعلیم کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے تو کبھی حلال ذبیحہ کے خلاف۔

حجاب سماج کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔حجاب صرف اسلام کی تہذیب نہیں ہے بلکہ ملک عزیز ہندوستان کی بھی تہذیب ہے۔
راقم الحروف کے دو اشعار اس ضمن میں ملاحظہ فرمائیں:

شرم و حیاءے جسم کی ترکیب ہے حجاب
اچھے سماج کے لیے ترتیب ہے حجاب
جو شخص ہے مخالف پردہ وہ جان لے
ہندوستان ملک کی تہذیب ہے حجاب

اذان فضا کے تقدس کے لیے لازم ہے۔نماز کے لیے مسلمانوں کو جب پکارا جاۓ تو کیسے پکارا جاۓ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بہت سارے آپشنز رکھے گئے۔سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے کلمات کو سب پر ترجیح دی ، گویا اذان کے کلمات سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے انتخاب ہیں۔ جو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب ہو اس کے تقدس کا کیا کہنا ۔

اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:
:
خدا کا نام ہے اس میں رسول کا بھی نام
ہیں کلمے خوب معظم اذان دی جائے
نبی نے اس کو دی ناقوس ، سینگ پر ترجیح
ہے برکتوں سے مجسم اذان دی جائے

مدرسوں کی تعلیم سماج میں امن و اماں کی بحالی کے لیے ضروری ہے کیونکہ مدرسے سے فارغ ہوکر علماء وعظ کرتے ہیں ، اچھے کام کرنے کی ہدایت دیتے ہیں اور برائی سے باز آنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔اس سے سماج اور ملک میں اچھے باشندوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

حلال ذبیحہ بہتر صحت اور تندرستی کے لیے لازم ہے۔اگر بغیر حلال کے گوشت استعمال کیا جائے تو بدن امراض کا شکار ہوگا اور بیماریاں بڑھتی چلی جائینگی۔ان باتوں کا اعتراف سائنس نے بھی کیا ہے۔

مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن کے اسباق کو منظر عام پر لائیں اور قرآنی احکام اور ان کی منفعت کو غیر مسلموں تک پہنچائیں ۔ہم اپنا قیمتی وقت اپنوں کے خلاف پرچہ بازی میں صرف کررہے ہیں، فروعی مسائل میں اختلافات کو بڑھاوا دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم داعیء اسلام ہیں ؟ کاش یہی وقت ہم ترسیل و ابلاغ اور تبلیغ اسلام میں صرف کرتے!

جو لوگ حلال اور حجاب کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ، وہ ایک دن ضرور پشیماں ہونگے اور اعتراف کرینگے کہ حجاب سماج کے لیے کس قدر ضروری ہے اور حلال ذبیحہ صحت کے لیے کیوں لازم ہے ۔
خدا رب العالمین ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمت عالمیں ہیں۔
شریعت اسلامیہ نے جو احکام جاری کئے ہیں ، جینے کے طریقے جو سکھائے ہیں وہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ سارے بنی آدم کے لیے مفید ہیں ۔
حلال اور حجاب پر اگر ملک میں پابندی لگی تو ملک کے باشندے خود خسارے میں رہیں گے۔

چمنستان بخاریہ کا ایک مہکتا پھول:سیدنوراللّٰہ شاہ بخاری!ازقلم:[قاری] نورمحمدقادری رضوی مہتمم:دارالعلوم رضائےمصطفیٰ جیٹھوائی روڈ،جیسلمیر [راجستھان]

محترم قارئین:

تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ جب جب باطل وناحق نے اپنا ناپاک سر بلند کرنے کی سعئِ ناتمام کی ہے تب تب ربّ لم یزل نے حق کو بلند وبالا رکھنے کے لیے اپنے کسی نیک بندۂ مومن کو پیدا فرما کر حق کی بلندی کا سہرا اس نیک بندے کے سر رکھا،حق وباطل کی یہ جنگ ماضی میں بھی تھی اور حال میں بھی ہے مگر ماضی میں باطل ہمیشہ کفر وشرک کے لبادے میں آیا ہے اور چودہویں صدی ہجری میں باطل اپنا اصلی لبادہ اتارکر اہل حق کا لباس وکردار قرآن وحدیث، جبہ ودستار، تسبیح ومصلّیٰ،کلمہ ونماز،تقریر وتبلیغ،ذکر وفکر کی صورت دیکھاکر عوام اہلسنت خصوصاً علاقۂ تھار کے بھولے بھالے خوش عقیدہ سنّی مسلمانوں کے ایمان پر حملہ کرنے کی ایک نئی چال چل کر سامنے آیااور کئی خوش عقیدہ سنّی مسلمانوں کے ایمان کو چُرا کر باطل کے ناپاک و تاریک گڈھے میں گرانے میں کچھ حدتک کامیاب ہوتے نظر آیا- ایسے ماحول میں ضرورت تھی ایک ایسے مرد مومن کی جس کا ایمان اتنا مضبوط ہو کہ جو نگاہ ایمانی جس مومن پر ڈال دے تو اس کے ایمان کو بھی مضبوط بنا دے، ضرورت تھی ایک ایسے ہادی کی جو ہدایت کا پیکر بن کر آئے، ضرورت تھی ایک ایسے مبلغ کی جو تبلیغ کے فرائض بحسن وخوبی انجام دے سکے، ضرورت تھی ایک ایسے مفکر کی جس کا دل و دماغ ہمیشہ مومنوں کے ایمان کے تحفظ و بقا میں فکر مند رہتا ہو، ضرورت تھی ایک ایسے مصلح کی جس کی پاکیزہ تگ و دو سے علاقے کی اصلاح ہو جائے، ضرورت تھی ایک ایسے خطیب و واعظ کی جس کی خطابت و اصلاحی مواعظ معاشرے کے سدھار کا سبب بن جائے، ضرورت تھی ایک ایسے پیر کامل کی جن کی نگاہ کیمیا صرف مریدوں کی جیبوں پر نہیں بلکہ دلوں پر ہو، ضرورت تھی ایک ایسے ملاح کی جو مسلمانوں کے عقیدہ و عمل کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو منزل مقصود تک پہنچانے میں ناخدا ثابت ہو ، ضرورت تھی ایک ایسے بندۂ خدا کی جو جملہ خصائص حمیدہ کا حامل ہو یعنی جو ہر فن مولیٰ ہو……!اللہ رب العزت نے بوسیلۂ سرکار اعظم اس ضرورت کوپورا فرمایا اور علاقۂ تھار کے ولی کامل قطب تھار حضرت پیر سید حاجی عالی شاہ بخاری علیہ الرحمہ کے نواسے نمونۂ سلف،عمدة الخلف حضرت پیر سید کبیر احمد شاہ بخاری نوّراللہ مرقدہٗ کے مقدس گھر میں 22 دسمبر 1976ء بروز بدھ ایک بچے کی ولادت باسعادت ہوتی ہے، بظاہر وہ بچہ تھا مگر نگاہ عشاق میں اس بچے کی حقیقت وہی تھی جو برسوں پہلے امام عشق و محبت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی نے بریلی کی ٹوٹی چٹائی پر بیٹھ کر ہم خوش عقیدہ سنی مسلمانوں کو اہل بیت کے ان مقدس بچوں کا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا-تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کاجب موصوف نے ابتدائی تعلیم حاصل کرلی تو والد بزرگوار نے علم ظاہری کی تکمیل کے لیے علاقۂ تھار کی مشہور علمی شخصیت استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی صوفی ولی محمد صاحب نعیمی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں پیش کردیا علامہ موصوف کی عالمانہ صلاحیت اور صوفیانہ نگاہ کیمیا نے سید زادے کو چند ہی سالوں میں ایک باصلاحیت عالم باعمل بنا دیا اور ایسا کیوں نہ ہو کہ خاندان ہے تو کس کا؟… ایک گاؤں کے دارالعلوم میں پڑھنے والا اتنی صلاحیتوں کا حامل بن جائے بظاہر سمجھ میں نہیں آتا مگر بزرگوں کا وہ مقولہ فوراً ذہن میں آتا ہے کہ “مچھلی کے بچے کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا” یقینا یہ موصوف کے آباء واجداد کا فیضان ہے جس نے انہیں ایک تحریک ثابت کردیا-*قائین کرام:* آپ جانتے ہیں وہ بچہ کون تھا؟ ہاں ہاں! یہ وہی بچہ تھا جسے آج ہم اور آپ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج پیرسید نوراللہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں، پھر کیا تھا جب موصوف *العلماء ورثة الانبیاء* کا تاج زریِں اپنے سر پر سجا کر علاقۂ تھار میں جلوہ گر ہوئے تو علاقے کے علاقے فتح فرما دیئے، آپ نے اپنی پیہم کوششوں اور بزرگوں کے فیضان سے علاقۂ تھار کے قریب قریب ہر گاؤں میں مکاتب و مدارس کے جال بچھا دییے-

مزید تعلیم و تعلم کی نشر و اشاعت اور پورے ملک بالخصوص علاقۂ تھار کی صلاح و فلاح اور امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے آپ کی فرمائش اور اکابر علماء و سادات کرام کی تحریک پر آپ کے والد بزرگوار قبلہ الحاج پیر سید کبیر احمد شاہ بخاری علیہ الرحمہ نے خانقاہ عالیہ بخاریہ کے زیر سایہ “دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف” کا قیام فرما کر اس کی باگ ڈور آپ کے کندھے پر رکھ کر قوم و ملت پر احسان عظیم فرمایا- آپ کی مستحکم قیادت، مسلسل جدوجہد اور پیہم کوشش وکاوش کا نتیجہ ہے کہ آج دارالعلوم انوار مصطفیٰ راجستھان بلکہ ملک کی اہم مدارس کی فہرست میں شامل ہو کر اپنے تمام تر منصوبوں کو بروئے کار لا رہا ہے-

الحمداللہ اس ادارہ نے آپ کی پیہم کوششوں سے اپنی کم عمری کے باوجود اب تک سینکڑوں علماء، فضلاء،حفّاظ اور قرّاء کو سند و دستار سے نواز کر قوم وملت کے سامنے دین متین کی نشر و اشاعت اور سنیت کے فروغ کے لیے پیش کر چکا ہے، جو اس ادارہ کی نمایاں کارکردگی کو واضح کر رہا ہے، آپ دارالعلوم انوار مصطفی کے ماتحت تقریبا 80 مکاتب بھی اپنی نگرانی میں منظّم طورپر چلا رہے ہیں جبکہ کسی ایک مہتمم کو ایک ادارہ چلانے کے لیے لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں اور نہ جانے کتنی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے اس کے باوجود دارالعلوم انوار مصطفی کی قیادت و نظامت کے ساتھ ایسے پریشان کن علاقے میں ۸۰ مکاتب کو چلانا،وہ بھی انتہائی سادگی،عجز وانکسار اور خلوص و محبت کے ساتھ، یقیناً یہ بزرگوں کا فیضان اور نصرت خداوندی ہی ہے-ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ نیز گاؤں گاؤں،ڈھانی ڈھانی دعوت وتبلیغ اور سنیت کی نشروشاعت اور تحریک صلوٰة و تحریک جمعہ کے لئے ایک ایک انجمن بنام “محبان جہانیاں کمیٹی” اور “تحریک انواری” کا قیام بھی بڑا نیک فال ثابت ہوا،…اور دارالعلوم کے چنندہ و ہونہار طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر کے بڑے بڑے اداروں میں اپنے خرچ سے داخلہ دلانا اور مکمل تعلیم تک جن کا خرچ اپنے ذمہ لینا یہ وہ موصوف کے شب و روز کے کام ہیں جنہیں دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ نورالعلماء حضرت – علامہ الحاج پیر سید نوراللہ شاہ بخاری- کسی فرد واحد کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تحریک کا نام ہے، ایک انجمن کا نام ہے، ایک مینارۂ نور کا نام ہے، جن کی نورانیت سے علاقۂ تھار کے مسلمان جہالت و بدعقیدگی کے اندھیرے سے نکل کر علم و عمل اور پاکیزہ عقیدہ کی روشنی میں داخل ہو رہے ہیں- بارگاہ ایزدی تعالیٰ میں دست بدعا ہوں کہ مولائے کریم علامہ موصوف کو نظر بد سے بچائے اور صحت و سلامتی کے ساتھ عمر خضر نصیب فرمائے اور آپ کو مزید دین وسنّیت اور ملک وملّت کی خدمات کی توفیق بخشے-آمین ثمّ آمین!

رمضان المبارک کا پیغام:امت مسلمہ کے ناماز:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحیناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

رمضان المبارک اسلام کا موسم خیر و برکت ہے اس میں رحمت الہی کی گھٹائیں جھوم جھوم کر برستی ہیں،یہ وہ مبارک ومسعود مہینہ ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ کادریائےکرم جوش پر ہوتاہے،اس کی رحمت کی گھٹائیں لہرالہراکے اٹھتی اور جھوم جھوم کر برستی ہیں،اس مہینہ میں اس کی بندہ نوازیوں کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ روز اپنی جنت کو آراستہ کرتاہے اور کہتا ہے:میرے فرماں بردار بندے جلد ہی آکر تیرے اندر بسیرا کریں گے،اور تیری رونق کو دوبالا کریں گے- اس مقدس مہینہ کی برکتوں سے دلوں کو تقویٰ، دماغوں کو روشنی وتازگی، نگاہوں کو شرم و حیا اور خیالوں کو پاکیزگی نصیب ہوتی ہے اور یہی روزے کا فلسفۂ الٰہی بھی ہے- رمضان کے مہینہ کو اللہ تعالیٰ نے تمام مہینوں میں سب سے افضل قرار دیا ہے،یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیغمبر آخر الزماں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے خصوصی انعام ہے ، جس میں ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار انوار و تجلیات اور رحمتوں وبرکتوں کا نزول و ظہور ہوتا رہتا ہے اور انعام و اکرام کی خاص بارش اللہ کے نیک بندوں پر ہوتی ہے،جنت کے دروازے کھول دییے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردییے جاتے ہیں،ایک نیکی کے بدلے ستر[۷۰]نیکی کا ثواب ملتا ہے، یعنی اگر کوئی شخص اس مبارک مہینہ میں ایک روپیہ اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرے تو اسے دوسرے مہینوں کےاعتبار سےستر[۷۰] روپیے خرچ کرنے کےبرابر ثواب ملےگا،نفل عبادتوں کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھادیا جاتا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ،باب فضائل شھر رمضان إن صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷۔۳؍۱۹۱،بیروت)دوسری جگہ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اس مہینہ کا پہلا عشرہ [شروع کے دس دن] رحمت کا، دوسرا عشرہ [یعنی بیچ کے ۱۰ دن] مغفرت کا، اور تیسرا عشرہ [یعنی آخر کے ۱۰ دن] جہنم سے آزادی کا ہے”… ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا کہ “جنت چار لوگوں کے لئے خود مشتاق ہے-(۱)زبان کی حفاظت کرنے والے کے لئے-(۲) قرآن کی تلاوت کرنے والے کے لئے- (۳) بھوکوں کو کھانا کھلانے والوں کے لیے- (۴)رمضان کے مہینے کا روزہ رکھنے والے کے لئے”… اس لئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ نیکی اور قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے- اور اللہ تعالی کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا چاہیے اس لیے کہ انسان کی سب سے پیاری چیزوں میں مال ہے اور قرآن کا فرمان ہے کہ “تم ہر گز بھلائی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اپنی پیاری چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو” یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنی خاص اور پسندیدہ عبادت روزہ کو فرض کیا،جس کا مقصد ایمان والوں کو تقویٰ و پرہیز گاری کا پیغام دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا :{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون}(سورۃ البقرۃ:۱۸۳)(ہم نے تمہارے اوپر روزے کو فرض کیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی اس کو فرض کیا تھا ، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔)یہ پرہیزگاری بڑی اہم شئے ہے اور اللہ کو سب سے زیادہ مطلوب ومحبوب ہے ، قرآن کریم میں اللہ نے فرمایا کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو زیادہ پرہیزگا ر ہے ۔ یہ پرہیزگاری اور تقویٰ کیاہے ؟ خلیفۃ المسلمین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ حضرت تقویٰ؛یعنی پرہیزگاری کیاہے؟ آپ نے پوچھنے والے سے سوال کیا کہ کیا کسی ایسی جگہ سے گذرے ہو ، جہاں کانٹے دار جھاڑیاں ہو تی ہیں ، انہوں نے کہا ، جی، گذرا ہوں،پوچھا کیسے گذرتے ہو؟ جواب دیا:حضرت! اپنے دامن کو اپنے ہاتھو ں سے سمیٹ لیتا ہوں اور پوری کوشش کرتا ہوں کہ کہیں کوئی کانٹا دامن میں نہ لگ جائے۔ آپ نے جواب دیا:یہی مثال تقویٰ اور پرہیزگاری کی ہے کہ انسان اس طرح گناہوں سے بچ کر زندگی گذارے کہ اس کا دامن گناہ سے آلودہ نہ ہونے پائے ۔ (تفسیرالقرآن العظیم لابن کثیر،سورۃ البقرۃ: ۱؍۷۵، دارالکتب العلمیۃ بیروت)اسی تقویٰ اور پرہیزگاری کی عملی مشق کا مہینہ یہ رمضان ہے ، کہ بندہ اس میں اللہ کے حکم سے ایسی چیزوں سے بھی دور رہتا ہے ، جو اس کے لیے عام دنوں میں حلال ہیں، کھانے، پینے اورخواہشات نفس کو پورا کرنے سے بچتا ہے ، کیوں کہ اللہ نے روزے میں ان چیزوں سے منع کیا ہے ، توجب یہ چیز اس کے قلب میں راسخ ہو جائے گی تو وہ عام دنوں میں بھی ایسی چیزوں سے بچے گا جن سے اللہ نے منع کیا ہے اور رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ اس عملی مشق کے لیے ایک خاص بابرکت اورنورانی ماحول فراہم کر دیتاہے، سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں ، جنت کے سب دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، نیکی کی توفیق میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ، روزے اور عبادات میں مشغولیت کی برکت سے گناہوں کی طرف میلان میں کمی آجاتی ہے غرضیکہ قدرتی طور پر ظاہری اور باطنی سپورٹ اس مشق کے لیے ہو تی ہے ۔ اسی لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “روزہ صرف بھوکے رہنے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے ، بلکہ بدن کے ہر حصہ کے لیے روزہ ہے” زبان کا روزہ یہ ہے کہ زبان سے نا پسندیدہ بات نہ نکالے، جھوٹ نہ بولے ، چغلی نہ کرے، غیبت نہ کرے، کسی پر بہتان تراشی نہ کرے، گالی گلوج نہ کرے ،کسی کونہ جھڑکے،کسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہ پہونچائے، نگاہ کا روزہ یہ ہے کہ نامناسب چیزوں کی طرف نظر نہ کرے، ہاتھ کا روزہ یہ ہے کہ ہاتھ سے کوئی گناہ کا کام نہ کرے ، کسی کو پریشان نہ کرے ، اپنے ہاتھ کے ذریعہ بندگان خدا کی تکلیف کاسبب نہ بنے،پیروں کا روزہ یہ ہے کہ ناپسندیدہ جگہ پر قدم نہ رکھے۔حاصل کلام یہ کہ جس طرح بندہ کھانے پینے سے، شہوت کو پورا کرنے سے رکتا ہے ، اسی طرح دیگر منہیات سے بھی رکے، اپنے آپ کو گناہ کے کاموں سے باز رکھے ، خیر کے کاموں میں ، نماز و تلاوت، ذکر و تراویح ، تہجد ، اعتکاف،صدقات و خیرات، ضرورت مندوں کی مدد، حاجت مندوں کی حاجت روائی میں اپنے آپ کو مشغول رکھے ، تب جا کر روزہ کا اصلی حق ادا ہو گا؛ورنہ صرف کھانے پینے سے رکا رہا، مگر اپنے ہاتھ کو ، زبان و نگاہ کو منکرات سے دور نہیں رکھا تو ایساروزہ اللہ تعالیٰ کاپسندیدہ روزہ نہیں ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اگر انسان رمضان میں گناہ سے باز نہ آئے تو اللہ کو اس کے بھوکے اور پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے”۔(صحیح البخاری،باب من لم یدع قول الزوروالعمل بہ ،رقم الحدیث:۱۹۰۳۔۶۰۵۷؍سنن أبی داؤد،باب الغیبۃ للصائم،رقم الحدیث:۲۳۶۲)اس لیے روزے کو اس کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے رکھنا چاہئے ، قرآن و حدیث میں روزے کی بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ !إن ربکم یقول:کل حسنۃ بعشر أمثالہا إلی سبع مائۃ ضعف والصوم لی و أنا أجزی بہ، الصوم جُنۃ من النار ولخلوف فم الصائم أطیب عند اللّٰہ من ریح المسک و إن جہل علی أحدکم جاہل و ہو صائم فلیقل إنی صائم۔(سنن الترمذی،باب ماجاء فی فضل الصوم،رقم الحدیث:۷۶۴)(بے شک آپ کے رب کا فرمان ہے کہ ہر نیکی کا بدلہ (کم ازکم) دس گنا سے سات سو گنا تک ہے، اور روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، اور روزہ دوزخ سے ڈھال ہے، اور روزہ دار کے منھ کی بو (جو معدے کے خالی ہونے سے پیدا ہوتی ہے) اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ (اور پسندیدہ) ہے اور اگر تم میں سے کسی روزہ دار کے ساتھ کوئی جاہل الجھ پڑے تو وہ جواب میں کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔)اگرچہ تمام عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں؛لیکن روزے کو اللہ نے اپنے لیے خاص اس لیے فرمایا کہ دیگر عبادتوں میں تو دکھاوے کی گنجائش ہے ، مگر روزہ ایسی عبادت ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان ایک راز ہے ، کئی ایسے مواقع ہیں جہاں وہ چھپ کر اس طریقہ سے منہیات صوم کا ارتکاب کر سکتا ہے کہ کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلے ؛مگر وہ نہیں کرتا کہ اس کے پروردگار نے منع کر رکھا ہے ، اس لیے اس کو اللہ نے اپنے لیے خاص کیا اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ میں خود اس کا بدلہ ہوں،(مسلم،باب فضل الصیام،رقم الحدیث:۱۱۵۱)یعنی رضائے الٰہی اور معرفت خدا وندی کا حصول جو ہر مومن کو مطلوب و مقصود ہے۔اس ماہ کی ایک اور سب سے خاص بات یہ ہے کہ اسی مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل کیا جو سارے عالم کے لیے ہدایت اور رہنمائی کی کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہ۔‘‘۔(سورۃ البقرۃ:۱۶۵)(رمضان کا مہینہ ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے، اور جس میں روشن دلائل ہیں ہدایت پانے اور حق و باطل میں امتیاز کرنے کے لیے، اس لیے جو شخص بھی اس مہینے کو پائے اس کو اس (مہینے) میں ضرور روزہ رکھنا چاہیے۔)قرآن وہ کتاب ہے ، جس کو اس کے ساتھ نسبت ہو گئی،ا س کے اندر بلندی پیدا ہوجاتی ہے،گویااس مبارک مہینہ کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اسی میں قرآن نازل ہوا، قرآن کریم کے ہم پر کچھ حقوق و فرائض ہیں، یوں تو ہمیشہ ان کی ادائیگی ضروری ہے، مگر اس مبارک مہینے میں اسکاخاص خیال رکھنا ضروری ہے ، اس لیے اس مبارک اور مقبول مہینے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے، قرآن کریم کی تلاوت کی فضیلت، اہمیت اور اس کے اجرو ثواب کو بہت ساری احادیث میں بیان کیا گیاہے ، اور رمضان میں تو تلاوت کا اجر کئی گنا زیاد بڑھ جاتا ہے۔ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھنے سے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے ، اگر کسی نے الـم کہا تو الف ایک حرف ہے ، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔(سنن الترمذی،باب ماجاء فیمن قرأ حرفاً من القرآن،رقم الحدیث:۲۹۱۰؍)ایک حدیث میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو؛کیوںکہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔(الصحیح لمسلم،باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ،رقم الحدیث:۸۰۴)اس لیے اس مہینہ میں تلاوت کلام پاک کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، تراویح میں قرآن سننے اور سنانے کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی تلاوت کا معمول بنانا چاہیے، اسلاف کا عمل ہمیشہ سے رمضان کے مہینہ میں کئی کئی قرآن ختم کرنے کا رہا ہے۔تراویح کی نماز کا بھی خصوصی اہتمام ہو نا چاہیے، اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ تراویح کی نماز پورے مہینے ادا کی جائے،رمضان کا چاند دیکھ کر تراویح شروع ہوتی ہے اور عید کا چاند دکھنے پر ہی مکمل ہوتی ہے ، بعض لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ تین دن ، ایک ہفتہ یا دس دنوں میں قرآن مکمل ہونے کے بعدتراویح کی سنت ادا ہو گئی اور اب بقیہ دنوں تراویح پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے،یہ غلط خیال ہے، یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ تراویح میں قرآن مکمل سنناالگ چیزہے اور تراویح پورے مہینہ ادا کرنا الگ سنت ہے ؛ اس لیے اگر، ہفتہ یا عشرہ میں قرآن مکمل ہو گیا ، مگر پورے مہینے تراویح ادا کرناسنت ہے،تراویح میں ایک اور چیز کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنے والاٹھہر ٹھہر کر اس کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے تلاوت کرے؛تاکہ مقتدی صاف سن سکیں کہ کیا پڑھا جا رہا ہے ۔تراویح کے علاوہ دیگر نوافل ، تہجد وغیرہ کا اہتمام بھی ہونا چاہئے ، اس لیے کہ اس مہینے میں نفل نمازوں کا ثواب فرض نماز کے برابر ہو جا تا ہے اور ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر ہو تا ہے۔(صحیح ابن خزیمہ،باب فضائل شھر رمضان إن صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷۔۳؍۱۹۱،المکتب الإسلامی بیروت)اس ماہ کو حاجت روائی اور غم خواری کا مہینہ بھی قرار دیا گیا ہے ، ضرورت مندوں کی مدد، غریبوں اور مجبوروں کی غم خواری کرنے کی بڑی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماہ رمضان میں جو شخص اپنے اہل و عیال پر روزی کو کشادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ سال بھر اس کے رزق میں برکت عطا فرمائےگا ،جو اس مہینہ میں اپنے خادموں اور ملازموں کے کاموں کا بوجھ کم کر دے گا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہوں کا بوجھ ہلکا کر دےگا ۔روزہ داروں کو افطار کرانے کی بھی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ، اس لیے اس کا بھی اہتمام ہو نا چاہئے؛ لیکن افطار کرانے میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ نام و نمود کے لیے اور سیاسی نمائش کے لیے نہ ہو؛بلکہ رضائے الٰہی کے لیے ہو، اور اس میں روزے داروں کو بلا کر افطار کرایا جائے،خاص طور پر ایسے روزے داروں کو جو ضرورت مندہیں اور افطار کے اسباب انہیں میسر نہیں ہیں ، ایسے لوگوں کو افطار کرانے میں زیادہ ثواب ہے،ایسی دعوتوں پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے ، جس میں امیروں کا استقبال کیا جائے اور غریبوں کے لیے دروازے بند کر دییے جائیں۔(صحیح البخاری،باب من ترک الدعوۃ فقد عصی اللّٰہ ورسولہ،رقم الحدیث:۵۱۷۷)روزہ دار وں کو افطار کرانے کے علاوہ دیگر خیر کے راستوں میں بھی خرچ کرنا چاہئے ، اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا بھی بڑا ثواب ہے ،جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض ہے، وہ اپنے مال کا حساب کر کے زکوٰۃ نکالیں اور ضرورت مندوں تک پہونچائیں،عام سائلین کو بھی محروم نہ کریں ، مدارس اسلامیہ، یتیم خانوں اور دینی اداروں کی مدد بھی کریں ، اپنے غریب رشتے داروں ،دوستوں اور پڑوسیوں کا خاص خیال رکھیں ، ایسے لوگوں کو ڈھونڈھ کر مدد کر یں؛جو واقعتاً ضرورت مندہیں،مگر شرم کی وجہ سے کسی کے سامنے زبان نہیں کھولتے اور نہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کی مدد کرنے کی بڑی فضیلت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ اگر رشتہ داروں میں کوئی غریب ہو اور زکوٰۃ و صدقہ کے نام پر اس کو لینے میں شرم اور جھجھک محسوس ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے لوگوں کو زکوٰۃ کہہ کر نہ دے اور دل میں زکوٰۃ کی نیت کر لے تو بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔یوں تو نصاب کے بقدر مال پر جس دن سال پورا ہو جائے زکوٰۃ تبھی فرض ہے؛ لیکن رمضان کے مہینے میں زکوٰۃ ادا کرنے کا معمول بہت سے لوگوں کا رہتا ہے اور بہتر بھی ہے ، اس لیے کہ جس طرح دیگر عبادتوں کا ثواب رمضان میں بڑھتا ہے ، اسی طرح زکوٰۃ کے ثواب میں بھی عام دنوں میں ادا کرنے کے مقابلہ میں ماہ رمضان میں اضافہ ہو گا ۔جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے، ان کو بھی چاہئے کہ اپنے مال کا کچھ حصہ ضرورت مندوں کی مدد میں خرچ کریں اور آخرت کے خزانے میں جمع کریں ۔حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رمضان کے مہینے میں بہت زیادہ صدقہ کرنے کا تھا ، حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں رمضان کے مہینہ میں مال ٹھہرتا ہی نہیں تھا، ادھر آتا اور ادھر آپ اسے صدقہ کر دیتے تھے ۔(الطبقات الکبرٰی لابن سعد،ذکرحسن خلقہ وعشرتہ صلی اللہ علیہ وسلم:۱؍۲۸۵،دارالکتب العلمیۃ بیروت)یوں تو رمضان کا پورا مہینہ ہی خصوصی خیر و برکت کا حامل ہے؛لیکن اس کے آخری عشرے کی فضیلت بہت ہی زیادہ ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عشرے کو جہنم سے نجات کا عشرہ قرار دیا ہے۔(صحیح ابن خزیمۃ،باب فضائل شھررمضان ان صح الخبر،رقم الحدیث:۱۸۸۷)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے ، اعتکاف بھی بہت ہی اہم عبادت ہے ، اعتکاف کا مطلب ہے اعتکاف کی نیت کے ساتھ مسجد میں قیام کرنا ، ہر محلہ کی مسجد میں کچھ لوگوں کو اعتکاف ضرور کرنا چاہئے ، اگر پورے محلہ میں کوئی شخص بھی اعتکاف نہیں کرے گا تو بستی کے سب لوگ اعتکاف کو ترک کرنے کے مرتکب ہو ں گے ۔ اسی عشرہ میں ایک عظیم الشان رات ہے، اس کو لیلۃ القدر کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کو ہزارمہینوں سے بہترقراردیاہے۔قرآن میں ہے:{ إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرِ، وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ، لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ، تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ، سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ }(سورۃ القدر:۱۔۵)(بے شک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیسی چیز ہے، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور روح القدس (جبرئیل علیہ السلام) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر اترتے ہیں، سراپا سلام و امان ہے، وہ رات طلوع فجر (یعنی صبح صادق) تک رہتی ہے۔)حدیث میں آیا ہے کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی رات شب قدر ہے ، اس رات میں عبادت کی بڑی فضیلت ہے ، اس لیے اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہئے ، اگر آخری عشرے میں اعتکاف کرے گا تو شب قدر کی عبادت کے اہتمام کا موقع زیادہ میسر آئے گا۔اس رات میں کثرت سے نماز و تلاوت اور ذکر واذکار کے علاوہ تو بہ و استغفار کا اہتما م کرے ، گناہوں پر ندامت کے ساتھ اللہ سے معافی اور مغفرت کا طلب گار ہو اور خوب دعائیں کرے؛کیوں کہ وہ رات دعاؤں کی قبولیت کی رات ہے۔رمضان المبارک کی مناسبت سے علماء کرام اور ائمہ مساجد سے یہ بات بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے علاقہ اور اپنے حلقہ میں جمعہ و عیدین کے خطبہ میں شریعت اسلامی کی اہمیت اور مسلم پرسنل لاسے متعلق مسائل و ضروریات عوام کے سامنے بیان کریں، اصلاح معاشرہ پر خصوصی توجہ دلائیں ، معاشرہ میں پھیل رہی برائیوں سے خبر دار کریں ،تاکہ ہمارا معاشرہ صالح اسلامی معاشرہ بن سکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کو متحد ومنظم رہنے کی مسلسل جد و جہد کرتے رہیں کیونکہ اسلام کے نظام عبادت کی روح وحدت و اجتماعیت ہے۔پانچ وقت کی نمازباجماعت، جمعہ وعیدین، میدان عرفات میں سارے عالم کے مسلمانوں کا اجتماع ا ور پوری دنیا میں ایک ہی ماہ رمضان میں روزوں کاحکم یہ اتحاد امت کا عظیم پیغام ہے تاکہ مسلمان مختلف حصوں میں تقسیم ہونے کے بجائے ایک امت اور ایک جماعت بن کر’’کونوا عباد اللّٰہ إخوانا‘‘ کے مصداق بن جائیں۔اللّٰہ تعالیٰ ہماری حالت زار پررحم فرمائےاور ہم سبھی مسلمانوں کو اس ماہ مبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب فرمائے، ہماری لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف کرکے اوراپنی مرضیات سے نوازے۔اوراس مبارک مہینے کو ہمارے لیے عزت وشوکت کا مہینہ بنادے-۔ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔وتب علینا انک انت التواب الرحیم۔

منقبت۔۔قلب شاہ امم سیدہ فاطمہ-از-سید خادم رسول عینی –

قلب شاہ امم سیدہ فاطمہ

بنت جان حرم سیدہ فاطمہ

عورتوں کی ہیں سردار وہ خلد میں

خود‌ ہیں شان ارم سیدہ فاطمہ

تیرے حسنین نے کتنا اونچا رکھا

نور حق کا علم سیدہ فاطمہ

برکتیں آئیں میرے قلم کی طرف

جب کیا ہے رقم سیدہ فاطمہ

فاتح خیبر و شیر حق ہیں ، ترے

شوہر محترم سیدہ فاطمہ

سب رسولوں سے افضل تریں ہیں ،ترے

والد ذی حشم سیدہ فاطمہ

تیرے علم و کمالات کے سامنے

فضل کے سر ہیں خم سیدہ فاطمہ

مشعل راہ ہے مومنوں کے لۓ

تیرا نقش قدم سیدہ فاطمہ

کرلو بند اپنی آنکھوں کو ، آئینگی اب

شہ کی ناز و نعم سیدہ فاطمہ

جب لیا نام اقدس ترا، مٹ گیے

“عینی “کے سب الم‌ سیدہ فاطمہ۔

از: سید خادم رسول عینی