WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category شرعی مسائل

کیا گھر میں بچے کی پیدائش کی وجہ سے گھر ناپاک ہو جاتا ہے؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں
کے گاؤں میں کئی جگہ یہ رواج ہے کہ اگر کسی عورت کو بچا ہو تو وہ جس کمرے میں ہو اس جگہ کو اس کمرے کو ناپاک مانا جاتا ہے اور اس عورت یا بچّے کو چھونا بھی ناپاک مانتے ہیں تو

کیا حکم ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔المستفتی۔حافظ۔محمد وسیم ۔جھاڑکھنڈ۔☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔یہ سب جھالت ہے غیر مسلم کی رسمیں ہیں۔جیساکہ بہارے شریعت حصہ دوم ص ٧٩ پر ہے کہ نفاس میں عورت کو زچہ خانے سے نکلنا جاٸز اسکو ساتھ کھلانے یا اس کا جھوٹا کھانے میں حرج نہیں ۔ہندوستان میں عورتیں جو بعض جگہ ان کے برتن تک الگ کردیتی ہیں بلکہ ان برتنوں کو مثل نجس جانتی ہیں یہ ہندوں کی رسمیں ہیں ایسی بے ہودہ رسموں سے احتیات لازم ۔اھ۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ۔احمدرضا قادری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر۔بہراٸچ شریف۔٢٧\١\١٩۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں
کہ زید کہتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو چاروں خلیفہ میں سب سے اعلیٰ ماننا چاہیے حلانکہ لوگ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو مانتے ہیں اور زید کا کہنا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی شان میں فرمایا من کنت مولاہ فھذا علی ایخ اس حدیث کے تحت زید علی کو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر فوقیت دیتا ہے لہٰذا زید کا کہنا ہے کہ جوحضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو چار نمبر پر بتائے وہ گمراہ ہے اس لئے علمائے کرام سے باادب عرض ہے کہ زید شیعہ عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے اور ان کو حق بتاتا ہے ایسی صورت میں شریعت کا کیا حکم نافذ ہوتا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل محمد سلیمان رضا متعلم مدرسہ المرکزالاسلامی دار الفکر بہرائچ شریف
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : اہلِ سنّت و جماعت نَصَر َہُمُ اللہُ تعالٰی کا اجماع ہے کہ مُرسلین ملائکہ و رُسُل و انبیائے بشر صَلَوَاتُ اللّٰہِ تَعَالٰی وَتَسْلِیْمَاتُہ عَلَیْھِمْ کے بعد حضرات خلفائے اربعہ  رضوان اللہ تعالٰی علیھم تمام مخلوقِ الٰہی سے افضل ہیں ، تمام اُمَمِ عالم اولین وآخرین میں کوئی شخص ان کی بزرگی وعظمت وعزت و وجاہت و قبول و کرامت و قُرب و ولایت کو نہیں پہنچتا ۔

مزید فرمایا : پھر اُن کی باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیقِ اکبر ، پھر فاروقِ اعظم ، پھر عثمانِ غنی ، پھر مولیٰ علی  رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔ (فتاوی رضویہ ,ج ,28ص 478)
نیزامامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (حضرت صدیق و عمر کی افضلیت پر) جب اجماعِ قطعی ہوا تو اس کے مفاد یعنی تفضیلِ شیخین کی قطعیت میں کیا کلام رہا؟ ہمارا اور ہمارے مشائخِ طریقت و شریعت کا یہی مذہب ہے۔ (مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین ,ص81)

مسئلہ افضلیت باب عقائد سے ہے :
 اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بالجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز بابِ فضائل سے نہیں جس میں ضعاف (ضعیف حدیثیں) سُن سکیں بلکہ مواقف و شرح مواقف میں تو تصریح کی کہ بابِ عقائد سے ہے اور اس میں اٰحاد صحاح (صحیح لیکن خبرِ واحد روایتیں) بھی نامسموع۔ (فتاوی رضویہ ج5 ص 581)
اور جلیلُ القدر حنفی محدث حضرت امام ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی  رحمۃ اللہ علیہ (وفات : 321ھ) فرماتے ہیں : وَنُثْبِتُ الْخِلَافَةَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَوَّلًا لِاَبِي بَكْرِ الصِّدِّيق رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَفْضِيلًا لَهُ وَتَقْدِيمًا عَلَى جَمِيعِ الْاُمَّةِ ، ثُمَّ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، ثُمَّ لِعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، ثُمَّ لِعَلِيِّ بْنِ اَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ یعنی ہم رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  کے بعد سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت کرتے ہیں اس وجہ سے کہ آپ کو تمام اُمّت پر افضلیت و سبقت حاصل ہے ، پھر ان کے بعد حضرت عمر فاروق ، پھر حضرت عثمان بن عفان ، پھر حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہم  اجمعین کے لئے خلافت ثابت کرتے ہیں۔ (متن العقیدہ الطحاویۃ ,ص 29)
اور معجم اوسط ,5/18,حدیث :6448)
میں ہے کہایک دن نبیِّ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور پھر توجہ فرمائی تو حضرت ابوبکر صدیق نظر نہ آئے تو آپ نے ان کا نام لے کر دو بار پکارا۔ پھر ارشاد فرمایا : بےشک رُوحُ القُدس جبریل امین   علیہ السَّلام  نے ابھی مجھے خبر دی کہ آپ کے بعد آپ کی اُمّت میں سب سے بہتر ابوبکر صدیق ہیں۔

اور بخاری ج 2,ص 522,حدیث 3671 میں افضلیتِ صدیقِ اکبر بزبانِ مولیٰ علی :سماعت کریں

جگرگوشۂ علیُّ المرتضیٰ حضرت محمد بن حنفیہ  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے اپنے والد حضرت علی  رضی اللہ عنہ سے پوچھا : نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ ارشاد فرمایا : ابوبکر ، میں نے پوچھا : پھر کون؟ ارشاد فرمایا : عمر۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے دوبارہ پوچھا کہ پھر کون؟ تو شاید آپ حضرت عثمان کا نام لے لیں گے ، اس لئے میں نے فورا ً کہا : حضرت عمر کے بعد تو آپ ہی سب سے افضل ہیں؟ ارشاد فرمایا : میں تو ایک عام سا آدمی ہوں۔ نیز صحابۂ کرام حضرت صدیقِ اکبر کی افضلیت کے قائل تھے اسی لئے بڑے بڑے اَئمہ بھی اس عقیدے پر کاربند تھے جیسا کہ حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی ، حضرت امام مالک  رحمۃ اللہ علیہم صدّیقِ اکبر کو افضل مانتے تھے جیسا کہ حضرت امامِ اعظم نعمان بن ثابت  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : انبیائے کرام کے بعد تمام لوگوں سے افضل حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر عمر بن خطاب ، پھرعثمان بن عفان ذوالنورین ، پھر علی ابنِ ابی طالب  رضوان اللہ علیھم اجمعین ہیں۔ (شرح فقہ اکبر۔) اور جیساکہ شارحِ بخاری حضرت علّامہ اِبنِ حجر عسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : اِنَّ الْاِجْمَاعَ اِنْعَقَدَ بَيْنَ اَهْلِ السُّنُّةِ اَنَّ تَرْتِيْبَهُمْ فِيْ الْفَضْلِ كَتَرْتِيْبِهِمْ فِي الْخِلَافَةِ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمْ اَجْمَعِيْن یعنی اہلِ سنّت و جماعت کے درمیان اس بات پر اجماع ہے کہ خلفائے راشدین میں فضیلت اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے خلافت ہے۔ (فتح الباری 7/29) لہذا زید کی بات درست نہیں اللہ تعالی اسے ہدایت دے۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

اینٹ بھٹے پر ایڈوانس رقم جمع کر کے اینٹ لینے کا شرعی حکم،، از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
حضرت ایک مسئلہ پوچھنا تھا کہ
آج سے چھ سال پہلے ایک بھٹے میں پانچ ہزار اینٹوں کیلئے پیسے دیا گیا تھا
اس وقت ایک ہزار اینٹ کی قیمت چھ ہزار تھی تو پورے تیس ہزار ہوئے لیکن انہوں نے اب تک اینٹیں نہیں دی
اب اس اینٹ کی قیمت بڑھ گئی ہے اور اب اگر بھٹے والا پیسے لوٹائے گا تو تیس ہزار لوٹا ئیگا يا جو قیمت اب چل رہی ہے وہ قیمت دیگا ؟ المستفتی۔محمد سباحت رضوی۔متعلم ۔دارالفکر بہرائچ شریف۔
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب۔واضح رہے کہ خرید و فروخت میں جو قیمت معاملہ  کے وقت طے ہوتی ہے وہی اصل قیمت ہوتی ہے، معاملہ طے ہوجانےکے بعد مارکیٹ ریٹ میں کمی یا زیادتی کا اعتبار نہیں ہوتا،  لہٰذا  اس پر وہی قیمت لوٹانا واجب ہے جو معاملہ کے وقت طے کی گئی تھی،  اگر اینٹ دینا چاہے تو اسی قیمت پر دینا اس پر لازم ہے جو معاملہ کے وقت طے ہوئ تھی ۔جیسا کہ
مجلۃالاحکام العدلیہ میں ہے:
“(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي، سواء كان مطابقا للقيمة الحقيقية أو ناقصا عنها أو زائدا عليها.”
(الكتاب الأول في البيوع، ‌‌المقدمة: في بيان الاصطلاحات الفقهية المتعلقة بالبيوع، ص:33، )
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
28/ جمادی الآخرۃ 1444ھ

جب اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور وہ لفظ کن سے ہر چیز کر سکتا ہے تو پھر فرشتوں کو کیوں لگایا؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے مسئلہ ذیل میں کہ جب اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور وہ لفظ کن سے ہر چیز کر سکتا ہے تو پھر فرشتوں کو کیوں لگایا، کسی کو پانی برسانے پر، کسی کو بندوں کے اعمال لکھنے پر اور بھی امور پر بھی فرشتوں کو لگا دیا
ایسا کیوں تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں

سائل محمد الطاف
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے اور وہ لفظ کن سے ہر چیز کرسکتا ہے۔اللہ تعالی ان فرشتوں کے توسط سے کائنات کی تدبیر فرماتا ہے اور فرشتوں کو جو حکم دیتا ہے فرشتے اسی کے مطابق عمل انجام دیتے ہیں اور کسی صورت اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتے۔ اور جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُون‌؛ وہ اللہ کی معصیت و نافرمانی نہیں کرتے اور وہی انجام دیتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔لہذا معلوم ہوا کہ فرشتے جو کام کرتے ہیں وہ لفظ کن میں داخل ہے۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
28/12/22,

گھر میں بچہ پیدا ہو تو کیا پورا گھر ناپاک ہو جاتا ہے؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں
کے گاؤں میں کئی جگہ یہ رواج ہے کہ اگر کسی عورت کو بچا ہو تو وہ جس کمرے میں ہو اس جگہ کو اس کمرے کو ناپاک مانا جاتا ہے اور اس عورت یا بچّے کو چھونا بھی ناپاک مانتے ہیں تو

کیا حکم ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔المستفتی۔حافظ۔محمد وسیم ۔جھاڑکھنڈ۔☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔یہ سب جھالت ہے غیر مسلم کی رسمیں ہیں۔جیساکہ بہارے شریعت حصہ دوم ص ٧٩ پر ہے کہ نفاس میں عورت کو زچہ خانے سے نکلنا جاٸز اسکو ساتھ کھلانے یا اس کا جھوٹا کھانے میں حرج نہیں ۔ہندوستان میں عورتیں جو بعض جگہ ان کے برتن تک الگ کردیتی ہیں بلکہ ان برتنوں کو مثل نجس جانتی ہیں یہ ہندوں کی رسمیں ہیں ایسی بے ہودہ رسموں سے احتیات لازم ۔اھ۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ۔احمدرضا قادری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر۔بہراٸچ شریف۔٢٧\١\١٩۔

دو لوگ ایک ساتھ کھڑے ہو گئے امام با ئیں مقتدی داہنے کیا ان کو مکمّل جماعت کا ثواب ملےگا؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام عليكم و رحمت اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام و مفتیانے کرام مسلہ ذیل کے بارے میں کی دو لوگ ہیں اور نماز کا وقت ہوگیا دونو حضرات نے کہا نماز پڑھ لیا جائے ظہر کا وقت تھا سنّت ادا کیا اور تکبیر کہکے جماعت قائم کی اب بتانا یہ ہے کی دو لوگوں پے ایک ساتھ دونوں کھڑے ہو گئے امام با یں مقتدی دہنے کیا ان کو مکمّل جماعت کا ثواب ملیگا کی نہیں اور نیت کس طرح مقتدی کریگا پیچھے اس امام کے کہیگا کی نہیں مکمّل جواب دیکر عنداللہ مشکور ہوں 🌹 المستفتی🌹 محمّد اسلم قادری حنفی ارکاپور پیاگپور بہرائچ شریف یو پی الھند 🌴بتا ریخ 25 جنوری 2019🌹 مطابق🌷 18 جمادی الا ول 1440ہجری بروز جمعہ 🌴
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔
باجماعت نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے حتی کہ اگر دو آدمی بھی ہو۔ں تو جماعت قائم کی جائے، ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی نیت میں پیچھے امام ہی کے کہے گا؛ جیسا کہ حضرت ابوموسيٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ.
(سنن ابن ماجة، کتاب اِقامة الصلاة والسنة فيها، باب الاثنان جماعة، 1: 522، رقم: 972)
’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے۔‘‘
دو آدمیوں کی جماعت ہو سکتی ہے اس کی صورت یہ ہوگی کہ ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ.

ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب الاثنان جماعة، 1 : 522، رقم : 972

’’دو یا دو سے زیادہ (مردوں) پر جماعت ہے۔‘‘
اس صورت میں امام، مقتدی کو اپنے دائیں جانب کھڑا کرے گا، جیسا کہ حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے :
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھی۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر کو پیچھے کی طرف سے پکڑ کر مجھے دائیں طرف کر دیا۔
بخاری، الصحيح، کتاب الجماعة والإمامة، باب اذ قام الرجل عن يسار الإمام، 1 : 255، رقم : 693۔اھ۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ احمدرضا۔قادری۔دارالفکر۔بہراٸچ۔٢٦۔١۔١٩۔

دورانِ حمل الٹرا ساؤنڈ کروانا درست ہے یا نہیں؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ الٹرا ساونڈ جو بچے کی پیدائش سے پہلے ایک جانچ کی جاتی ہے بچے کی ماں پر تو یہ جانچ کروانا سہی ہے یا نہیں تفصیل کے ساتھ اسکا جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی؟
المستفتی محمد شیر علی قادری
☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔ الٹراساوٴنڈ یا سونو گرافی کرانا کہ جس میں عورت کے ناف کے نیچے کا حصہ کھولنا یا چھونا پڑے، شرعا ناجائز ہے، الٹرا ساوٴنڈ کی اجازت مجبوری میں دی گئی ہے، اس لیے کہ اس میں عورت کے ستر کو کھولنا ہا چھونا لازم آتاہے۔جیساکہ الاشباہ والنظاٸر میں الضرورات تبیح المحظورات۔اھ۔لہذا بلاضرورت شرعیہ حرام ہے۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ۔احمدرضا منظری۔دارالفکر۔بہراٸچ۔

قبر میں عھد نامہ یا شجرہ وغیرہا رکھنا کیسا ہے؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ۔۔ باسمہ تعالی والصلوتہ والسلام علی حبیبہ الاعلی ۔۔۔۔۔۔۔ کیا فرماتے علماء کرام اس مسئلے میں کہ قبر میں عھد نامہ یا شجرہ وغیرہا رکھنا کیسا ہے جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔المستفتی۔محمد سخاوت علی۔راے بریلی۔
☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔جاٸز ہے : ہمارے علماءِ کرام نے فرمایا کہ میت کی پیشانی یا کفن پر عہد نامہ لکھنے سے اس کے لئے امیدِ مغفرت ہے۔
(١) امام ابوالقاسم صفار شاگردامام نصیربن یحیٰی تلمیذ شیخ المذہب سیدنا امام ابویوسف ومحرر المذہب سید امام محمد رحمہم اﷲ تعالٰی نے اس کی تصریح و روایت کی۔
(۲) امام نصیر نے فعلِ امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے اس کی تائید وتقویت کی۔
(۳) امام محمد بزازی نےوجیزکردری(٤) علامہ مدقق علائی نے درمختار میں اُس پر اعتمادفرمایا۔
(۵) امام فقیہ ابن عجیل وغیرہ کا بھی یہی معمول رہا۔
(۶) بلکہ امام اجل طاؤس تابعی شاگرد سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی کہ انہوں نے اپنے کفن میں عہد نامہ لکھے جانے کی وصیّت فرمائی اورحسب وصیّت ان کے کفن میں لکھا گیا۔
(۷) بلکہ حضرت کثیر بن عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے اور صحابی ہیں خود اپنے کفن پر کلمہ شہادت لکھا۔
(٨) بلکہ امام ترمذی حکیم الٰہی سیّدی محمد بن علی معاصرامام بخاری نے نوادرالاصول میں روایت کی کہ خود حضور پُر نور سیّد عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :
من کتب ھذاالدعاء وجعلہ بین صدر المیت وکفنہ فی رقعۃ لم ینلہ عذاب القبر ولایری منکرا و نکیرًا و ھوھذا لاالٰہ الااﷲ واﷲ اکبرلاالٰہ الااﷲ
جو یہ دُعاکسی پرچہ پر لکھ کر میّت کے سینہ پر کفن کے نیچے رکھ دے اُسے عذابِ قبر نہ ہو نہ منکر نکیر نظر آئیں،اور وہ دعا یہ ہے: لا الٰہ الااﷲ واﷲ اکبرلاالٰہ الاﷲ وحدہ،العظیم[1]۔
لاشریك لہ لاالٰہ الااﷲلہ الملك ولہ الحمد لاالٰہ الااﷲ ولاحول ولاقوۃ الّاباﷲالعلی العظیم۔
نیز ترمذی میں سیّدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہر نماز میں سلام کے بعد یہ دُعا پڑھے :
اَللّٰھُمَّ فَاطِرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِم الْغَیْبِ وَ الشَّھَادَۃِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم اِنِّیْ اَعْھَدُ اِلَیْك فَیْ ھٰذِہِ الْحَیَاۃ الدنیابانك انتَ اﷲ الذی لآ اِلٰہَ اِلّا اَنْتَ وَحْدَك لَاشَرِیْك لَك وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُك وَرَسُوْلُك فَلَاتَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ فَاِنَّك اِن تَکِلنِی الٰی نَفسی تُقَرِّبنی مِنَ الشِّر وتُبَاعِدنی من الخیر وَاِنِّیْ لَا اَثِقُ اِلَّا بِرَحْمَتِك فَاجْعَلْ رَحْمَتَك لِیْ عَھْدًا عِنْدَك تُؤَدِّیْہِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ اِنَّك لَاتُخْلِفُ الْمِیْعَادِ[2]۔فرشتہ اسے لکھ کر مُہر لگا کر قیامت کے لئے اُٹھارکھے ، جب اﷲ تعالٰی اُس بندے کو قبر سے اُٹھائے، فرشتہ وہ نوشتہ ساتھ لائے اور ندا کی جائے عہد والے کہاں ہیں، انہیں وُہ عہد نامہ دیا جائے۔ امام نے اسے روایت کرکے فرمایا :
وعن طاؤس انہ امر بھذہ الکلمات فکتبت فی کفنہ[3]۔
امام طاؤس کی وصیّت سے عہد نامہ اُن کے کفن میں لکھا گیا۔
امام فقیہ ابن عجیل نے اسی دعائے عہدنامہ کی نسبت فرمایا:
اذاکتب ھذا الدعاء وجعل مع المیت فی قبرہ وقاہ اﷲ فتنۃ القبر وعذابہ [4]۔
جب یہ لکھ کر میّت کے ساتھ قبر میں رکھ دیں تو اﷲ تعالٰی اُسے سوالِ نکیرین وعذابِ قبر سے امان دے۔
[1] فتاوٰی کبرٰی بحوالہ ترمذی باب الجنائز مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۶
[2] نوادرالاصول اصول الرابع والسبعون والمائۃ مطبوعہ دارصادر بیروت ص٢١٧
[3] الدرالمنثورغنیہ بحوالہ حکیم الترمذی تحت الامن اتخذ عندالرحمٰن عھدا منشورات مکتبہ آیۃ اﷲ قم ایرانغنیہ ٤/٢٨٦
[4] فتاوٰی کبرٰی بحوالہ ابن عجیل باب الجنائز مطبوعہ رالکتب العلمیۃ بیروتغنیہ ٢/٦
مزید تفصیل کے لٸےسرکار اعلی حضرت کا ۔(رسالہ
الحرف الحسن فی الکتابۃ علی الکفن ١٣٠٨ھ(مطالعہ فرماٸں۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ۔احمدرضاقادری منظری۔مدرس المرکزالاسلامی دارلفکر بہراٸچ شریف۔٢٤\١\١٩

فرض کی تیسری اور چوتہی رکعت میں الحمد اور سورت پڑھنا کیسا ہے؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ فرض کی تیسری اور چوتہی رکعت میں الحمد اور سورت پڑھنا کیسا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔کوٸ حرج نہیں ۔جیساکہ فتاوی رضویہ جلد سوم ص ٦٣٧ میں ہے اگر کسی نے فرض نماز کی پچھلی دو رکعت میں سہوا یا قصدا الحمد شریف کے بعد کوٸ ایک سورت ملاٸ تو کچھ مضاٸقہ نہی ۔اسکی نماز میں کچھ خلل نہ آیا اور اسکو سجدہ سہو کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔اھ۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ ۔احمدرضامنظری۔دارلفکر۔بہراٸچ شریف۔۔۔١١ ۔١۔١٩۔

تہجد کی نماز رات کو کتنے بجے ادا کی جائے اور نیت کیسے کریں اور کتنی رکعت ہوتی ہے؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم و رحمة الله و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ تہجد کی نماز رات کو کتنے بجے ادا کی جائے اور نیت کیسے کریں اور کتنی رکعت ہوتی ہے تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی؟
المستفتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد شیر علی قادری
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔عشاء کے فرض پڑھ کر آدمی سورہے پھر اس وقت سے صبح صادق کے قریب جس وقت آنکھ کھلے دورکعت نفل صبح طلوع ہونے سے پہلے پڑھ لے تہجد ہوگیا (وقت فجرسے پہلے)اقل درجہ تہجدکایہ ہے اور سنت سے آٹھ رکعت مروی ہے اور مشائخ کرام سے بارہ اور حضرت سیدالطائفہ جنیدبغدادی رضی اﷲ تعالٰی عنہ دوہی رکعت پڑھتے اور ان میں قرآن عظیم ختم کرتے، غرض اس میں کمی بیشی کااختیارہے اتنی اختیار کرے جو ہمیشہ نبھ سکیں اگرچہ دوہی رکعت ہو کہ حدیث صحیح میں فرمایا:احب الاعمال الی اﷲ ادومھا وان قل۱؎۔اﷲ تعالٰی کو سب سے زیادہ پسند وہ عمل ہے کہ ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑاہو۔
(۱؎ مشکوٰۃ المصابیح باب القصد فی العمل مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی بھارت ص۱۱۰)
قرأت کابھی اختیار ہے چاہے ہررکعت میں تین تین بارسورئہ اخلاص پڑھے کہ اس کا ثواب ایک ختم قرآن کے برابرہے خواہ یوں کہ بارہ رکعتیں ہوں پہلی میں ایک بار، دوسری میں دوبار، یاپہلی میں بارہ دوسری میں گیارہ، اخیرمیں ایک کہ یوں ۲۶ختم قرآن کاثواب ہوگا، اور پہلی صورت میں بیس کا ہوتا۔ اوربہتر یہ ہے کہ جتنا قرآن مجید یادہواس نماز میں پڑھ لیاکرے کہ اس کے یادرہنے کا اس سے بہتر سبب نہیں۔ تہجد پڑھنے والا جسے اپنے اُٹھنے پراطمینان ہو اسے افضل یہ ہے کہ وتر بعد تہجد پڑھے پھر وتر کے بعد نفل نہ پڑھے جتنے نوافل پڑھناہوں وترسے پہلے پڑھ لے کہ وہ سب قیام اللیل میں داخل ہوں گے اور اگرسونے کے بعد ہیں توتہجد میں داخل ہوں گے۔اھ (۔فتاوی رضویہ ج سوم ص ٤٧١ ۔)واللہ تعالی اعلم۔کتبہ ۔احمدرضا قادری منظری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر۔بہراٸچ شریف۔١٢۔١۔١٩۔