WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category شرعی مسائل

ماہ رمضان میں روزوں کے ایام کا تعین روایت ودرایت کے موافق۔۔ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی- استاذ دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی ،مہراج گنج،یوپی

۔ اسلامی اعمال واحکام میں ایام کا تعین چاند سے ،اور اوقات کاتقرر سورج کے اعتبا رسے ہوتا ہے ،ایام وشھور شرعا قمری لحاظ سےمتعین ہوتے ہیں،شب معراج،شب قدر،ایام بیض،یوم عاشورا،ایام عیدین اور ایام حج چاند سے تعین پانے کی صورتیں ہیں،اسی طرح فرض روزے کے دنوں کی تعئین کہ یہ پہلا روزہ،یہ اکیسواں روزہ،یہ ستائیسواں روزہ،یہ انتیسواں روزہ ہے،یہ سب بحساب قمری ماہ ، رمضان کے اعتبار سےہیں،ایام حج کی تقدیر بھی قمری ماہ ذی الحجہ کے حساب سے طے ہوتی ہے ۔اور یوں زباں زد خلائق ہوتے ہیں ،آج یوم الترویہ،آج یوم الحج اورآج یوم الاضحی ہے وغیر ذالک۔۔۔لیکن ۔جب ہمارا ذہن تعئین اوقات کی طرف مبذول ہوتاہےتو ان میں شمس یعنی سورج کا شرعا اعتبار کرتاہے۔ہم نمازوں کےاوقات کا قیام سورج کی گردش سے متعلق کر تے ہیں،فجر ،ظہر ،عصر ،مغرب،عشا اور دیگرنوافل جیسے اوقات سے موسوم کرتے ہوۓ انہیں گردش شمس کا نتیجہ تصور کرتے ہیں،آفتاب کی گردش کا دورانیہ کم ہو جاۓ تو نمازوں کے درمیان وقفہ کم ہو جاتا ہے،چنانچہ ہماری روز مرہ کی نمازیں سورج کے اعتبا ر سے ہیں۔یوں ہی رمضان یا غیر رمضان کے روزوں کا دورانیہ بھی سورج کے حساب سے ہی ہےیہی وجہ ہے کہ طلوع فجر سے آغاز صوم ،اور غروب آفتاب پر اس کا اختتام ہوتا ہے،اسی طرح حج کے اعمال میں بھی اوقات کا علآقہ سورج سے ہے کہ رمی کس وقت کرنی ہے ،مزدلفہ کب جانا ہے،عرفات سے کب لوٹنا ہے وغیرہ؟ عام طور پر یہ خیال فکر انسانی میں رچا بساہےکہ اسلام میں صرف چاند کا اعتبار ہے ،یہ خیال صحیح نہیں،چاند کا اعتبار دنوں کے تعین میں ہے ،مگر عبادات کے اوقات کے سلسلے میں ہماری روش گردش شمس کے مطابق ہے ،اس لحاظ سےہمارے عبادات شمس وقمر دونوں سےیکساں متعلق ہیں۔تاہم قمری سال شمسی سال سے قدرے چھوٹا ہوتا ہے،تقریبا دس دن کا فرق ہے،مفسرین کی بیان کردہ حکمتو ں میں سے ایک یہ ہےکہ قمری مہینہ ہر تینتیس سال میں ایک چکر مکمل کر لیتاہے ،یعنی تینتیس سال میں چار موسم( دنیا میں جہاں بھی چار موسم وقوع پذیرہوتے ہیں)کی گردش پوری کرلیتا ہے ،اگر ایک مسلمان بلوغیت کے مراحل سے گزرکرمزید تیںتیس سال کی اور زندگی پالےتو وہ سال کے ہر موسم کے روزے رکھ کر رضاۓ الہی کا حقدار بن جاۓگا،اسے سردو گرم ،اور چھوٹے،درمیانےولمبےسب ایام کے روزے رکھنےکے مواقع میسر ہو نگے،حج کابھی یہی معاملہ ہے،حج بھی تینتیس سال میں مختلف موسم کی گردش پوری کرتاہے،یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ فقہا فرماتے ہیں” زکوۃ کا حساب قمری سال کے مطابق کرنا چاہئے،اور ایسا کرنا شرعا ضروری ہے،ورنہ اگرہم شمسی سال کےاعتبار سےزکوۃکا حساب کریں گےتوتینتیس سال میں ایک سال کی زکوۃ کم ادا ہوگی ،ہماری زندگی کے عام حسابات شمسی مہینوں(جنوری اورفروری وغیرہ)کے حساب سےچلتے ہیں،اب اگر کوئ اپنی سالانہ زکوۃ بھی اسی حساب سے دیتاہے تو تینتیس شمسی سالوں میں چونتیس قمری سال گزریں گے ،اس حساب سےایک سال زکوۃ ادا ہونے سےرہ جاۓگی۔ آج اگر کوئ شریعت کو طبیعت کے موافق بنانے کی خواہش رکھے اورایک ماہ کے فرض روزے کوقمری سال کے ماہ رمضان کی جگہ شمسی سال کے فروری ماہ میں متعین کرنے کی علما سے گزارش کرے تو علما بیک زبان اس کی اس اپیل کو رد کر دیں گےکہ یہ عقل ونقل اور روایت ودرایت کے خلاف ہے،اس لۓکہ” ماہ رمضان کے روزے فرض قرار دیۓ گۓہیں”جعل اللہ صیامہ فریضۃ، فر ما کر آقاۓ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ” رمضان کے مہینہ کےروزے کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے”لہذا مروی حدیث کے الفاظ سےیہ عیاں ہو گیا کہ رمضان کے روزے فرض ہیں ،خواہ وہ شمسی ماہ کے جون ،جولائ اور اگست میں ہو ،جو نہایت سخت ایام والےماہ ہیں۔یا ۔جنوری وفروری میں جو سرد وراحت رساں ہیں،عقل ودرایت بھی اسی کی رہنمائ کرتی ہے کہ اگر فروری ماہ کا تعین فرض روزو ں کے لۓ کیا جاتا توروزے رکھنے والوں کو سال کے دیگر موسم سے لطف اندوز ہونے موقع نہیں ملتا جو یک گونہ حرما ں نصیبی ہوتی۔مفسرین کی تفسیر کے مطابق بنی اسرائیل میں بھی رمضان ہی کےروزے تھے ان کا رمضان بھی ساراسال گھومتا تھا،ان کے لۓ بھی جولائ اور اگست کے روزے تکلیف دہ تھے،انہوں نے اپنے علما کے سامنے کسی اچھے موسم میں روزے متعین کرنے کی تجویز پیش کی،اس تجویز پر بنی اسرائیلی علما نے فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے لوگوں کو یہ سہولت دے دیتےہیں کہ وہ کسی اچھے موسم میں روزے رکھ لیا کریں۔مگر جب انہوں نے دیکھا کہ یہ ہم روزوں کے اصل نظام میں گڑ بڑ کر رہے ہیں ،اس لۓ تیس روزے تو پورے رکھیں گے،لیکن ساتھ ہی دس روزےکفارے کےبھی رکھیں گے،چنانچہ یہ مذہبی عیسائ چالیس روزے رکھتے ہیں اور ایسٹر ان کی عید الفطر ہوتی ہے جو اپریل ماہ کےپہلے عشرے کے دوران کسی اتوار کو یہ قرار دیتے ہیں گویا مارچ کا مہینہ اور اپریل کا کچھ حصہ،یعنی تیس روزے مکمل اور ساتھ دس روزے کفارے کے بھی۔ تفسیری روایات پر ہماری نظر مرکوز رہے تو یہ امر بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ بنی اسرائیل میں بھی فرض روزے کا مہینہ قمری یعنی رمضان ہی تھا ،وہ بھی سال کے سارے موسم کادور کر لیتا تھا انہوں نے اپنی سہولت کے لۓ اس میں ردو بدل کیا،لیکن اسلام نے سابقہ حیثیت بحال کردی کہ فرض روزے قمری ماہ رمضان ہی میں ادا کۓ جائیں گے اور سارے موسم میں اس کی گردش جاری رہےگی اور روزہ دار تمام موسم کی تکلیف وراحت کا احساس کرتے ہوۓ روزہ رکھ کر رضاۓ خداوندی کے متلاشی بنیں گے،رات میں نیندسے جاگنے کے بعد رات کا باقی حصہ جو ابتداءاسلام میں روزےکاجزو تھا،اب اس کا دورانیہ کم کرکےمکمل رات روزے سے خارج کردی گئ ،اور فر مان خداوندی(روزے کو رات تک پورے کرو)امت محمدیہ کےلۓ سایئہ رحمت بن کر آئ ، رات کو کھانے پینے کی اجازت مرحمت ہوئ،اور فکر انسانی نے یہ باور کرلیا کہ طلوع فجر صادق سے روزہ شروع ہوگااور غروب آفتاب تک رہےگا تا قیام قیامت اس میں کسی قسم تبدیلی اور ردو بدل کی گذارش کی راہیں مسدود رہیں گی،اسلام نے روزے کے نظام میں یہ دوبڑی اصلاحات کی ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو شریعت مصطفویہ کے نظام پر قائم ودائم رکھے اور رمضان کی سعادتوں وبرکتوں سے بہرہ ور فرماۓ۔آمین

اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک یا انکھ میں دوا ڈال لیا تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہے

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک یا انکھ میں دوا ڈال لیا تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہےالمستفتی۔مولانا انیس۔مٹیرا بہرائچ۔👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب۔روزہ کی حالت میں آنکھ میں قطرے ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، اگرچہ روزہ دار اس دوا یا قطروں کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔کان میں دوا ڈالی اور پردے سے اندر چلی گئی تو  روزہ فاسد ہوجاتاہے، فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق کان میں ڈالی ہوئی دوا دماغ میں براہِ راست یا بابواسطہ معدہ میں پہنچ جاتی ہے، جس سے روزہ فاسد ہوجاتاہے۔اسی طرح ناک میں اسپرے کرنے سے اور تردوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتاہے، البتہ اگر اتنی کم مقدار میں دوا لگائی جائے جس سے یقینی طور پر دوا اندر جانے کا خدشہ نہ ہو، بلکہ دوا ناک میں ہی رہ جاتی ہے تو ایسی صورت میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔البتہ کان اور ناک میں دوا ڈالنے کی صورت میں اگر روزہ فاسد ہوجاتاہے تو صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں۔فتاوی تاتارخانیہ میں ہے “وإذا اکتحل أو أقطر بشيءٍ من الدواء في عینیه لایفسد الصوم عندنا”. (فتاویٰ تاتارخانیة، ج:۲، ص:۳۶۶، ط: إدارة القرآن)فتاویٰ شامی ‘‘ میں ہے:”أو احتقن أو استعط في أنفه شیئًا … قضی فقط  …”.اھ۔

والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب

کتبـــــــــــــہ

احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس

المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 20 رمضان المبارک 1443

زکوٰة احادیث کے آئینے میں- از:(علامہ)پیرسیدنوراللہ شاہ بخاری مہتمم وشیخ الحدیث:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

زکوٰۃ اسلام کا تیسرا رکن اور اہم ترین مالی فریضہ ہے جس کی فرضیت قرآن و سنت سے ثابت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے دوسرے سال میں مسلمانوں پر زکوٰة کی فرضیت کا حکم نافذ فرما یا

زکوٰة کے لغوی معنیٰ پاکیزگی اور بڑھوتری کے آتے ہیں ، کیونکہ زکوٰۃ کے ادا کرنے سے مال میں خیر و برکت کی زیادتی اور پاکیزگی ہو جاتی ہے اس لیے ایسا مال جو ظاہر اور باطن کی پاکیزگی کا ذریعہ بنتا ہے اسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے-

شرعی اِعتبار سے زکوٰۃ مال کا وہ حصہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مالداروں پر غریبوں مسکینوں اور ضرورت مندوں کے لیے چند شرطوں کے ساتھ واجب کیا جو سال گزرنے کے بعد مقررہ نصاب کے مطابق محتاجوں کو دیا جاتا ہے-

اسلام میں زکوٰۃ اللہ کی رضا جوئی کی نیت سے کسی مسلمان فقیر کو اپنے مال میں سے مقررہ حصوں کے مالک بنا دینے کا نام ہے، لیکن زکوٰۃ کی رقم ہاشمی کو نہیں دی جا سکتی، نہ شوہر اپنی بیوی کو، نہ بیوی اپنے شوہر کو، نہ کوئی شخص اپنی اولاد یعنی بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کو دے سکتا ہے، نہ اپنی اصل یعنی ماں باپ دادا دادی وغیرہ کو دے سکتا ہے، بلکہ ان کی مدد و اعانت اپنی ذاتی مال سے کرنی ہوگی- (ردالمحتار ج/ ۲ ص/۶۳)

یہ بات بالکل صحیح ہے کہ قرآن و احادیث میں زکوٰۃ دینے پر بہت زیادہ زور دیا گیا اور زکوۃ کے نہ دینے پر بہت سی وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں، صرف قرآن کے اندر بیسوں آیتوں میں زکوٰۃ کا تذکرہ ہوا ہے، حدیث کی کتابوں میں بھی جا بجا زکوٰۃ کا تذکرہ ہوا ہے جس سے زکوٰۃ کی اہمیت و عظمت اور اس کی فضیلت سمجھ میں آتی ہے-

آئییے زکوٰة کی ادائیگی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث[فرمودات وارشادات] ملاحظہ کریں جو درج ذیل ہیں!★ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: کہ اپنے مال کی زکوۃ دے کہ پاک کرنے والی ہے ،تجھے پاک کردےگی،اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کر، اور مسکین اور پڑوسی اور سائل کا حق پہچان- (مسند احمد)★ حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے اسلام کا پورا ہونا اور مکمل ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں،اور جو زکوٰة نہ دے اس کی نماز قبول نہیں-(طبرانی) ★ حضرت عمارہ بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں چار چیزیں فرض کی ہیں جو ان میں سے تین ادا کرے [استطاعت ہوتے ہوئے] وہ اسے کچھ کام نہ دیں گی جب تک کہ پوری چاروں ادا نہ کریے، وہ چار چیزیں یہ ہیں نماز، زکوٰۃ، ماہ رمضان کا روزہ، اور حج بیت اللہ-(مسند احمد) ★ حاکم مستدرک میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کردی بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس سے شر کو دور فرما دیا-★ ابو داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زکوٰة ادا کر کے اپنے مالوں کو مضبوط قلعہ میں محفوظ کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو اور مصیبت نازل ہونے پر دعا اور عاجزی سے مدد مانگو-★حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص پانچوں نمازیں پابندی سے پڑھے، ماہ رمضان کے روزے رکھے، زکوٰۃ ادا کرے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے اس کے لئے جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جا- (نسائی شریف)زکوٰة مال کی حفاظت کا ذریعہ ہے: یہ ایک عجیب فلسفہ ہے کہ انسان مال کی زکوٰة دے اور اس کا مال محفوظ ہو جائے یعنی مال چوری ہونے سے بچ جائے،قدرتی آفتوں سے اسے نقصان نہ پہنچے،گویا ہر نقصان ہونے والے ذریعہ سے محفوظ رہے، یقین محکم اور ایمان کی پختگی ہے کہ جب مسلمان اللہ کی راہ میں حلال روزی ہی سے زکوٰۃ دے گا تو اللہ کی رحمت اس کے مال کو ہر آفت و بلا سے بچائے گی، ایک دفعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم خانۂ کعبہ میں تشریف فرما تھے کسی شخص نے کہا کہ فلاں شخص کا بڑا نقصان ہوگیا ہے، سمندر کی طغیانی نے اس کے مال کو ضائع و برباد کر دیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنگل ہو یا دریا، گویا کسی جگہ بھی جو مال ضائع وبرباد ہوتا ہے وہ زکوٰة نہ دینے سے ضائع ہوتا ہے، اپنے مالوں کی زکوۃ ادا کر کے حفاظت کیا کرو اور اپنے بیماروں کی بیماری صدقہ سے دور کرو-زکوٰة نہ دینے والوں کےلیے وعیدیں:اب آئیے دیکھتے ہیں کہ صاحب نصاب [مال دار] ہوتے ہوئے اگر کوئی آدمی زکوۃ ادا نہیں کرتا تو اس کے لیے کیسی کیسی وعیدیں وارد ہوئی ہیں، یوں تو قرآن مقدس میں زکوٰة نہ دینے والوں کے لیے مختلف مقامات پر شدید ترین وعیدیں نازل ہوئی ہیں جنہیں اگر ذکر کیا جائے تو مضمون طویل ہو جائے گی اس لیے صرف حضور کی حدیثوں پر اکتفا کرتے ہیں، زکوۃ نہ دینے والوں کے لیے وعیدوں وسزاؤں پر مشتمل کچھ حدیثیں ملاحظہ فرمائیں! حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کو اللہ نے مال دیا اوراس نے اس کی زکوۃ ادا نہ کی تو اس کا یہ مال اس کے لئے گنجا سانپ بن جائے گا جس کی آنکھوں میں دو سیاہ نقطے ہوں گے اور وہ سانپ قیامت کے دن اس کی گردن میں بطور طوق ڈال دیا جائے گا پھر سانپ منہ کے دونوں کناروں کویعنی باہوں کو پکڑ لے گا پھر کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے “اور وہ لوگ جو بخیلی کرتے ہیں وہ گمان نہ کریں کہ اللہ نے جو انہیں اپنے فضل سے دیا ہے ان کے لیے یہ اچھا ہے بلکہ یہ ان کے لیے بہت بری چیز ہے، عنقریب قیامت کے دن ان کے گلے میں اس مال کا طوق پہنایا جائے گا جو انہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کیا”- (بخاری شریف)★ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو قوم زکوٰۃ ادا نہ کرے گی اللہ تعالیٰ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا- (رواہ الطبرانی فی الاوسط)★ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خشکی اورتری میں جو مال تلف اور ہلاک ہوتا ہے وہ زکوٰة نہ دینے سے ہلاک ہوتا ہے- (طبرانی)★رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ میں سب سے پہلے تین شخص جائیں گے ان میں سے ایک وہ مال دار ہوگا جو اپنے مال سے اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کرتا تھا یعنی زکوۃ نہیں دیتا تھا- (طبرانی) ★ فرمان نبوی ہے کہ معراج کی رات میں میرا گذر ایک ایسی قوم پر ہوا جنہوں نے آگے پیچھے چتھرے لگائے ہوئے تھے اور جہنم کا تھوہر،ایلوا اور بدبودار گھاس جانوروں کی طرح کھا رہے تھے، پوچھا: جبریل: یہ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل نے عرض کی: حضور! یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کا صدقہ [زکوٰة] نہیں دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے نہیں بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے آپ پر ظلم کیا ہے-

عبرت کے لئے اوپر ذکر کی گئی حدیثیں ہی کافی ہیں ورنہ! قرآن مقدس وکتب احادیث میں اس کے علاوہ بھی بہت سی وعیدیں وارد ہوئی ہیں جنہیں اگر اکٹھا کیا جائے تو ایک مستقل کتاب تیار ہو سکتی ہے- سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لئے

اگر ددورانِ حمل بچہ پیٹ میں مرجائے، تو کیا صفائی کرانے کے بعد آنے والا خون نفاس کا ہوگا؟

السلام علیکم
کسی بہن کا 5 مہینے کا حمل ضائع ہو گیا ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ بچہ کافی دن پہلے ہی مرچکا تھا
عورت کو اس کی خبر نہیں ہوئی
جب سونوگرافی(sonography) کرایا تو پتہ چلا
ڈاکٹر نے فوراً صفائی کی، اب سوال یہ ہے کہ صفائی کے بعد عورت آ رہا ہے تو وہ کب تک ناپاک رہے گی؟
یعنی اس خون کو حیض کا سمجھے یا نفاس کا؟
9 دن خون جاری رہا بیچ میں تین دن بند ہوا پھر شروع ہو گیا بس قطرہ ہی ہے،
مہربانی کر کے رہنمائی فرمائیں،
(f,z.noori
👆👇

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الجواب بعون الملک الوھاب۔حاملہ عورت کا حمل ضائع ہونے کی صورت میں نفاس کا حکم یہ ہے کہ اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر ،انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو تو یہ عورت نفاس والی ہوجائے گی، اس حمل کے ساقط ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا خون کہلائے گا، لیکن اگر بچے کے اعضاء میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی عورت نفاس والی نہیں بنے گی اور  اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس بھی نہیں کہلائے گا۔

بچے کے  اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے  لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے  پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے  تو اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس ہوگا، رد المحتار میں ہے: نعم نقل بعضہم أنہ اتفق العلماء علی أن نفخ الروح لا یکون إلاّ بعد أربعة أشہر أي عقبہا کما صرّح بہ جماعة․․․ ولا ینافي ذلک ظہور الخلق قبل ذلک؛ لأن نفخ الروح إنّما یکون بعد الخلق، وتمام الکلام في ذلک مبسوط في شرح الحدیث الرابع من الأربعین النوویة (۱/۵۰۱، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ، ط: زکریا)․․․ والسقط إن ظہر بعضہ فہو ولد تصیر بہ نفساء والأمة أم الولد․․․؛ لأنہ ولد لکنہ ناقص الخلقة ونقصان الخلقة لا یمنع أحکام الولادة، وفي قولِ صاحب التبیین: لا یستبین خلقہ إلا في مأة وعشرین یومًا، نظر، تأمل․ (مجمع الأنہر مع ملتقی الأبحر، ۱/ ۸۴، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت۔لہذ ا جب جب پانچ ماہ ہونے کے بعد یہ منظر پیش آیا ہے تو وہ خون نفاس ہے,
۔والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف, 6 /رمضان المبار بروز جمعہ ۔1443

فدیہ کی رقم کہاں صرف کی جاۓ؟ کتبـــــــــــــہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری

مفتی صاحب السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ روزہ کے فدیہ کی رقم کہاں صرف کی جاۓ تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الجواب بعون الملک الوھاب۔
صورت مسؤلہ میں فدیہ  اور زکاۃ الگ الگ چیز ہیں، البتہ ان کے مصارف ایک ہی ہیں، جو زکاۃ کے مصارف ہیں وہی فدیہ کے مصارف ہیں، یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور  اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا مال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچے۔
زکاۃ اور فدیہ دونوں پر صدقہ واجبہ کا اطلاق ہوتاہے، جب کہ مطلقاً صدقے سے مراد عموماً صدقہ نافلہ ہوتاہے، صدقہ نافلہ اور واجبہ کے مصارف میں یہ فرق ہے کہ صدقہ واجبہ مستحقِ زکاۃ کو دینا واجب ہے، جب کہ صدقہ نافلہ مستحق و غیر مستحق یہاں تک کہ مال دار کو بھی دیا جاسکتا ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ومصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزكاة.
[ الفتاویٰ الهندیة، الباب الثامن في صدقة الفطر، 1/194، ط: مکتبة رشیدیة۔والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب


کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس

المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 6/رمضان المبارک 1443

کیا زکوٰۃ کے پیسے سے غریب بچیوں کی شادی کر سکتے؟

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہایک مسلہ ہے کہ کیا زکوٰۃ کے پیسے سے غریب بچیوں کی شادی کر سکتے ہیں

محمد شمیم قادری

👆👇

الجواب بعون الملک الوھاب۔واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مستحق کو مالک بنا کر رقم یا چیز حوالہ کی جائے، لہذا اگر لڑکی مستحقِ زکوۃ ہے، تو اسے زکوۃ کی رقم کا  مالک بنا کر دے دیا جائے یا اگر اس کے والدین زکوۃ کے مستحق ہیں، تو انہیں زکوۃ کی رقم مالک بنا کر دے دی جائے، پھر وہ اپنی بیٹی کی شادی کے اخراجات پورا کرلیں یا کسی اور مصرف میں خرچ کر لیں۔شادی کے وہ اخراجات جن میں کسی مستحق کو مالک بنانا نہ پایا جائے، (مثلاً: ہال وغیرہ کی یا کھانے کے اخراجات کی ادائیگی) ان مدات میں از خود رقم صرف کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی، بلکہ لڑکی یا اس کی طرف سے بنائے گے وکیل کو قبضہ دینا ضروری ہوگا۔کما فی الھندیۃ:أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله – تعالى – هذا في الشرع كذا في التبيين(الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج: 1، ص: 170، ط: دار الفکر)وفی الشامیۃ:ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر(ج: 2، ص: 244، ط: دار الفکر)وفی بدائع الصنائع:وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع: منها أن يكون فقيرا فلا يجوز صرف الزكاة إلى الغني إلا أن يكون عاملا عليها لقوله تعالى {إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل} [التوبة: ٦٠] جعل الله تعالى الصدقات للأصناف المذكورين بحرف اللام وأنه للاختصاص فيقتضي اختصاصهم باستحقاقها(ج: 2، ص: 43، ط: دار الکتب العلمیہ)

والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب کتبـــــــــــــہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 6/ رمضان المبارک 1443

حلال اور حجاب۔۔از: سید خادم رسول عینی

سورہء بقرہ کی ایک آیت کا اقتباس یوں ہے:
انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ

ترجمہ:
اس نے یہی تم پر حرام کیے ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا ۔

اس آیت میں چار چیزوں کی حرمت کا حکم ہے:
١.مردار
٢.خون
٣.خنزیر کا گوشت
٤.وو جانور جو غیر خدا کا نام لےکر ذبح کیا گیا ۔

خدا کے حکم میں حکمت کار فرما رہتی ہے۔ خنزیر بھی گائے ،بیل، بکرے کے ایسا ایک چوپایہ جانور ہے ۔گائے ، بیل، بکرے کا گوشت کھانا جائز ہے ، تو پھر خنزیر کا گوشت حرام کیوں ؟ کچھ تو حکمت خداوندی کار فرما ہوگی۔

قرآن میں جو احکام بیان کیے گیے ہیں وہ کسی بندے کی جانب سے نہیں ہیں ۔ایک بندہ جب کوئی حکم جاری کرتا ہے تو اس میں کچھ ذاتی منفعت بھی رہ سکتی ہے۔لیکن خدا بے نیاز ہے ۔ قرآن فرماتا ہے :
اللہ الصمد
یعنی اللہ بے نیاز ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ نہ کھائے نہ پیئے ،ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہیگا۔کسی کام میں کسی کا حاجت مند نہیں۔

خدا جو احکام جاری کرتاہے وہ خالص اس کے بندوں کی منفعت کے لیے ہوتے ہیں ۔

جب میں اڑیسہ کی یونیورسٹی میں اگریکلچرل سائنس میں گریجویشن کررہا تھا تو ہر سیمسٹر میں ایک سبجکٹ ویٹرنری سائنس کا بھی ہوا کرتا تھا جسے ویٹرنری سائنس داں پڑھایا کرتے تھے۔ ایسی ہی اک کلاس میں پڑھاتے ہوئے ایک ماہر ویٹرنری سائنس( جو غیر مسلم تھے ) نے کہا:

“شریعت اسلامیہ نے خنزیر کے گوشت کو حرام کہا ہے اور اس حکم کو سائنس کی حمایت بھی حاصل ہے”۔انھوں نے سائنسی وجوہات یوں بیان کی تھیں :

“١.خنزیر کا نظام انہضام گائے کے نظام انہضام سے جدا گانہ ہے۔گائے کے پیٹ کے اندر جب عمل انہضام ہوتا ہے تو جراثیمی زہر جسم سے باہر نکل جاتے ہیں ۔لیکن خنزیر کے جسم سے یہ جراثیمی زہر باہر نہیں نکلتے ، بلکہ یہ خنزیر کے فیٹی ٹیسوز میں جمع ہوکے رہتے ہیں ۔اس لیے خنزیر کا گوشت نقصان دہ ہے۔

٢. خنزیر میں سویٹ گلانڈ / مسام عرقی نہیں ہوتا ،
جس کے سبب وہ پسینہ نہیں چھوڑتا۔کسی جانور سے جب پسینہ چھوٹتا ہے تو اس کے بدن سے جراثیمی زہر نکل جاتے ہیں ۔چونکہ خنزیر کے بدن سے جراثیمی زہر نہیں نکلتے ، وہ بدن میں جمع ہوکے رہتے ہیں ۔اس لیے خنزیر کا گوشت نقصان دہ ہے۔

٣.خنزیر کا گوشت سرطان زا ہوتا ہے۔ ٥٠٠ گرام گوشت کھانے سے سرطان کا امکان اٹھارا فی صد بڑھ جاتا ہے۔اس لیے بھی خنزیر کا گوشت نہیں کھانا چاہیے۔”

ماہر ویٹرنری سائنس نے یہ بھی کہا کہ” اسلامی شریعت نے جس انداز سے جانور یا پرندے کو ذبح کرنے کے لئے کہا ہے وہ بھی سائنسی اعتبار سے درست ہے۔یعنی حلال شدہ گوشت کھانا چاہیے کیونکہ بغیر حلال کیے گوشت صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے “۔اس کی وجوہات انھوں نے یوں بیان کیں:

“١.اسلامی طریقے سے جب ذبح کیا جاتا ہے تو شریان سے پورا خون باہر نکل جاتا ہے جس کے سبب گوشت میں جراثیمی زہر باقی نہیں رہتے۔

٢.حلال شدہ گوشت میں خون باقی نہیں رہتا ۔قرآن کی آیت میں ویسے بھی خون کو حرام کہا گیا ہے۔اگر حلال شدہ نہیں ہے تو گوشت میں خون کے کچھ حصے باقی رہ جاتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں ۔اس لیے حلال شدہ گوشت ہی کھانا چاہیے۔”

تین چار سال پہلے ایک فیس بک سٹار نے اپنے فیس بک وال میں پوسٹ کیا تھا :

“اسٹریلیا میں خنزیروں کی پرورش فارم میں اور صاف ستھرے ماحول میں ہوتی ہے اور وہ گندی چیزیں نہیں کھاتے ، لہذا ان خنزیروں کا گوشت مسلمانوں کو کھانا چاہیے”

میں نے اس‌ پوسٹ کا رد کیا ۔افسوس کہ اس پوسٹ کی تائید میں اسٹریلیا اور امریکہ کے کچھ نام نہاد مسلم بھی کمنٹ لکھ رہے تھے اور بڑی بے حیائی کے ساتھ علی الاعلان یہ اظہار کر رہے تھے کہ خنزیر کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے اور وہ مسلمان ہونے کے باوجود بڑے ہی شوق سے کھاتے ہیں ۔
میں نے اس پوسٹ کے خلاف بحث کی اور یہ بحث تقریباً چار روز تک چلتی رہی۔میں نے اپنے کالج کے لکچرر سے جو سیکھا تھا اسی کی روشنی میں بحث کی اور یہ ثابت کیا کہ خنزیر کا گوشت صرف اس لیے حرام نہیں ہے کہ خنزیر گندی چیزیں کھاتا ہے، بلکہ اس لیے بھی حرام ہے کہ خنزیر کا نظام انہضام اور استحالہ ایسا ہے کہ اس کے گوشت میں جراثیمی زہر فطری طور پر موجود رہتے ہیں اور وہ صحت کے لیے بےحد نقصان دہ ہے۔ فارم کی پرورش ماحولیات تو بدل سکتی ہے لیکن جانور کے جینیٹک کیریکٹر / جینیاتی کردار کو بدل نہیں سکتی ، جانور کے استحالہ کو بدل نہیں سکتی۔چار دن کی مسلسل بحث کے بعد اس فیس بک اسٹار نے ہماری بات تسلیم کرلی اور اپنے پوسٹ کو فیس بک سے ہمیشہ کے لیے ہٹادیا۔

پتہ یہ چلا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو سمجھایا جاسکتا ہے۔
افسوس کہ آج کل اپنے ملک میں جہالت پروان چڑھ رہی ہے۔تبھی تو کبھی حجاب کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے تو کبھی اذان کے خلاف ، کبھی مدرسوں کی تعلیم کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے تو کبھی حلال ذبیحہ کے خلاف۔

حجاب سماج کی بہتری کے لیے ضروری ہے۔حجاب صرف اسلام کی تہذیب نہیں ہے بلکہ ملک عزیز ہندوستان کی بھی تہذیب ہے۔
راقم الحروف کے دو اشعار اس ضمن میں ملاحظہ فرمائیں:

شرم و حیاءے جسم کی ترکیب ہے حجاب
اچھے سماج کے لیے ترتیب ہے حجاب
جو شخص ہے مخالف پردہ وہ جان لے
ہندوستان ملک کی تہذیب ہے حجاب

اذان فضا کے تقدس کے لیے لازم ہے۔نماز کے لیے مسلمانوں کو جب پکارا جاۓ تو کیسے پکارا جاۓ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بہت سارے آپشنز رکھے گئے۔سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے کلمات کو سب پر ترجیح دی ، گویا اذان کے کلمات سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے انتخاب ہیں۔ جو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب ہو اس کے تقدس کا کیا کہنا ۔

اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:
:
خدا کا نام ہے اس میں رسول کا بھی نام
ہیں کلمے خوب معظم اذان دی جائے
نبی نے اس کو دی ناقوس ، سینگ پر ترجیح
ہے برکتوں سے مجسم اذان دی جائے

مدرسوں کی تعلیم سماج میں امن و اماں کی بحالی کے لیے ضروری ہے کیونکہ مدرسے سے فارغ ہوکر علماء وعظ کرتے ہیں ، اچھے کام کرنے کی ہدایت دیتے ہیں اور برائی سے باز آنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔اس سے سماج اور ملک میں اچھے باشندوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

حلال ذبیحہ بہتر صحت اور تندرستی کے لیے لازم ہے۔اگر بغیر حلال کے گوشت استعمال کیا جائے تو بدن امراض کا شکار ہوگا اور بیماریاں بڑھتی چلی جائینگی۔ان باتوں کا اعتراف سائنس نے بھی کیا ہے۔

مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن کے اسباق کو منظر عام پر لائیں اور قرآنی احکام اور ان کی منفعت کو غیر مسلموں تک پہنچائیں ۔ہم اپنا قیمتی وقت اپنوں کے خلاف پرچہ بازی میں صرف کررہے ہیں، فروعی مسائل میں اختلافات کو بڑھاوا دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم داعیء اسلام ہیں ؟ کاش یہی وقت ہم ترسیل و ابلاغ اور تبلیغ اسلام میں صرف کرتے!

جو لوگ حلال اور حجاب کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ، وہ ایک دن ضرور پشیماں ہونگے اور اعتراف کرینگے کہ حجاب سماج کے لیے کس قدر ضروری ہے اور حلال ذبیحہ صحت کے لیے کیوں لازم ہے ۔
خدا رب العالمین ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمت عالمیں ہیں۔
شریعت اسلامیہ نے جو احکام جاری کئے ہیں ، جینے کے طریقے جو سکھائے ہیں وہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ سارے بنی آدم کے لیے مفید ہیں ۔
حلال اور حجاب پر اگر ملک میں پابندی لگی تو ملک کے باشندے خود خسارے میں رہیں گے۔

زکات کے کچھ اہم مساٸل ،قسط پنجم-منجانب۔شرعی عدالت گروپ دارالفکر بہراٸچ شریف۔از ۔احمدرضا قادری منظری۔مدرس .المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ ۔ 3\رمضان المبارک۔1443ھ

زکات کے کچھ اہم مساٸل

==============

مسٸلہ👈🏻۔ سال بھر خیرات کرنے کے بعد اسے زکوٰۃمیں شمار نہیں کرسکتاکیونکہ زکوٰۃ دیتے وقت یا زکوٰۃ کے لیے مال علیحدہ کرتے وقت نیت زکوٰۃ شرط ہے ۔ (ماخوذ از بہارِ شریعت ، ج۱، حصہ ۵ ، مسئلہ نمبر ۵۴، ص۸۸۶)ہاں ! اگر خیرات کردہ مال فقیر کے پاس موجود ہو ، ہلاک نہ ہوا ہو تو زکوٰۃکی نیت کرسکتا ہے ۔(ماخوذاز فتاویٰ ضویہ مُخَرَّجَہ، ج۱۰، ص۱۶۱)

================

زکوٰۃ لینے والے کو اس کا علم ہونا

مسٸلہ👈🏻 اگرزکوٰۃ لینے والے کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ زکوٰۃ ہے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی کیونکہ زکوٰۃلینے والے کا یہ جاننا ضروری نہیں کہ یہ زکوٰۃ ہے بلکہ دینے والے کی نیتکا اعتبار ہو گا ۔ غمزالعیون میں ہے : ’’دینے والے کی نیت کا اعتبار ہے نہ کہ اس کے جاننے کا جسے زکوٰۃدی جارہی ہے ۔‘‘اھ۔(غمزالعیون البصائر، شرح الاشباہ والنظائر، کتاب الزکوٰۃ ، الفن الثانی، ج۱، ص۴۴۷)

============

زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے مقدارِ زکوٰۃ کا معلوم ہونا

مسٸلہ👈🏻۔ادائے زکوٰۃ میں مقدارِ واجب کا صحیح معلوم ہونا شرائطِ صحت سے نہیں لہٰذا زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔(فتاوٰی رضویہ ، ج۱۰، ص۱۲۶)

===========

قرض کہہ کر زکوٰۃ دینے والا

مسٸلہ👈🏻۔قرض کہہ کر کسی کو زکوٰۃ دی ، ادا ہوگئی ۔پھرکچھ عرصے بعد وہی شخص اس زکوٰۃ کو حقیقۃً قرض سمجھ کر واپس کرنے آیا تودینے والا اسے واپس نہیں لے سکتا ہے اگرچہ اس وقت وہ خود بھی محتاج ہو کیونکہ زکوٰۃ دینے کے بعد واپس نہیں لی جاسکتی ، اللہ عَزوَجلّ کے مَحبوب، دانائے غیوب، مُنَزّہ عنِ الْعیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظمت نشان ہے : ’’صدقہ دے کر واپس مت لو ۔‘‘(صحیح البخاری ، کتاب الزکوٰۃ ، باب ھل یشتری صدقتہ ، الحدیث، ۱۴۸۹، ج۱، ص۵۰۲)(فتاویٰ امجدیہ ، حصہ اول ، ص۳۸۹)

============

چھوٹے بچے کو زکوٰۃ دینا

مسٸلہ👈🏻۔ مالک بنانے میں یہ شرط ہے کہ لینے والا اتنی عقل رکھتا ہو کہ قبضے کو جانے دھوکہ نہ کھائے ۔چنانچہ چھوٹے بچے کو زکوٰۃ دی اور وہ قبضے کو جانتا ہے پھینک نہیں دیتا تو زکوٰۃادا ہوجائے گی ورنہ نہیں یا پھر اس کی طرف سے اس کا باپ یا ولی یا کوئی عزیز وغیرہ ہو جو اس کے ساتھ ہو ، قبضہ کرے تو بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی اور اس کا مالک وہ بچہ ہوگا ۔(الدر المختاروردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ، ج۳، ص۲۰۴ملخصاً)

===========

زکوٰۃ کی نیت سے مکان کا کرایہ معاف کرنا

مسٸلہ👈🏻۔اگر رہنے کے لئے مکان دیا اور کرایہ معاف کردیا تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی کیونکہ ادائیگیٔ زکوٰۃ کے لئے مالِ زکوٰۃ کا مالک بناناشرط ہے جبکہ یہاں محض رہائش کے نفع کا مالک بنایا گیا ہے ، مال کا نہیں۔ ہاں ! اگر کرائے دار زکوٰۃ کا مستحق ہے تو اسے زکوٰۃ کی رقم بہ نیت ِ زکوٰۃ دے کر اسے مالک بنا دے پھر کرائے میں وصول کرلے ، زکوٰۃادا ہوجائے گی۔(ماخوذ از بحرالرائق، کتاب الزکوٰۃ ، ج۲، ص۳۵۳)

==========

قرض معاف کردیا تو؟

مسٸلہ👈🏻۔ کسی کو قرض معاف کیا اور زکوٰۃ کی نیت کر لی تو زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی۔(ردالمحتار، کتاب الزکوٰۃ ، مطلب فی زکوٰۃ ثمن المبیع ، ج۳، ص۲۲۶)

=========

معاف کردہ قرض کا شاملِ زکوٰۃ ہونا

مسٸلہ 👈🏻۔ کسی کو قرض معاف کردیا تو معاف کردہ رقم بھی شامل ِ نصاب ہوگی یا نہیں ؟ اس کی 2صورتیں ہیں ، (1)اگر قرض غنی کو معاف کیا تواس(معاف شدہ )حصے کی بھی زکوة دینا ہوگی۔اور (2)اگر شرعی فقیر کو قرض معاف کیا تو اس حصے کی زکوة ساقط ہوجاۓ گی۔اھ۔(ردالمحتار؛کتاب الزکوة ؛مطلب زکوة ثمن المبیع۔ج۔٣۔٢٢٦۔ملخصا۔)

========

زکوٰۃ کی رقم سے اناج خرید کردینا

مسٸلہ 👈🏻اگر کھانا پکا کر یا اناج خرید کر غریبوں میں تقسیم کیا اوردیتے وقت انہیں مالک بنا دیا تو زکوٰۃادا ہوجائے گی مگر کھانا پکانے پر آنے والا خرچ شامل ِ زکوٰۃ نہیں ہوگا بلکہ پکے ہوئے کھانے کے بازاری دام (یعنی قیمت) زکوٰۃ میں شمار ہوں گے اور اگر محض دعوت کے انداز میں بٹھا کر کھلا دیا تو مالک نہ بنانے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔(ماخوذازفتاویٰ رضویہ مخَرَّجہ ، ج۱۰، ص۲۶۲)۔

واللہ تعالی اعلم۔

کسی کو بھی ظل اِلٰہ بولنا کیسا ہے؟ کتبہ احمدرضا قادری مظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل میں کہ کسی کو بھی ظل الہ بولنا کیسا ہے

سائل محمد ابوالحسن قادری نیپال👆

👇الجواب بعون اللہ الوھاب اس طرح کسی کو نہیں کہہ سکتے اس لئے کہ اسکا مفھوم ومعنی ہوتاہے خدا کا سایہ، (مجازاً: بادشاہ، بادشاہوں کا لقب اور اللہ تعالی ان چیزوں سے پاک ہے۔واللہ تعالی اعلم ۔

کتبہ احمدرضا قادری مظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف۔28 /مارچ 2022

نمازِ تراویح میں سجدۂ سہو کب واجب ہے؟ کتبہ ۔احمدرضا قادری منظری

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ

بعدہٗ مفتیان کرام کی بارگاہ میں عریضہ ہے کہ اگر تراویح کی نماز میں پہلی رکعت میں امام قعدہ کے لئے بیٹھ گیا پھر مقتدی کے لقمہ دینے پر کھڑا ہو کر دوسری رکعت پوری کیتو کیاآخر میں امام کو سجدۂ سہو کرنا پڑے گا(2) نیز جو تراویح میں دورانِ قرات امام کو بھولنے کی وجہ سے لقمہ ملتا ہے اس کے لئے بھی سجدۂ سہو ہے یا نہیںرہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں

عرض گزارمحمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب

صورت مسؤلہ میں  اگر امام ابھی بیٹھا ہی تھا کہ مقتدی نے لقمہ دے دیا تو سجدہ سہو واجب نہیں اور اگر تین بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار تک بیٹھ کر اٹھے تو سجدہ سہو واجب ہوگیاجیسا کہ کتب فقہ میں ہے کہ کوئی شخص بھول کر پہلی یا تیسری رکعت میں بیٹھ گیا  اور تین بار سبحان الله  کہنے کے مقدار سے کم بیٹھ کر اٹھا  تو سجدہ سہو واجب نہیں ہے اور تین بار سبحان الله کہنے کی مقدار تاخیر کر  کے اٹھا تو سجدہ سہو واجب ہے؛فتاوی عالمگیری جلد 1صفحہ  65ایسا ہی مسائل سجدہ سہو صفحہ 86 پر ہے ۔۔واللہ تعالی اعلم۔(2) سجدہ سہو واجب نہیں ہاں اگر بھولا اور اور تین مرتبہ سبحان الله کہنے کی مقدار چپ رہا تو سجدہ سہو واجب ہے، جیسا کہ سرکار اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں :امام جب نماز میں یا قرآت میں غلطی کرے تو اسے بتانا لقمہ دینا مطلقاً جائز ہے خواہ نمازِ فرض ہو یا واجب یا تراویح یا نفل اور اس میں سجدہ سہو کی بھی کچھ حاجت نہیں ہاں اگر بھولا اور تین بار سبحان الله کہنے کی دیر چپ کھڑا رہا تو سجدہ سہو آئے گا، {فتاویٰ رضویہ جلد ۷ صفحہ ۲۸۹ / رضا فاؤنڈیشن لاہور } واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ ۔احمدرضا قادری منظری ۔مدرس المر کزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہرائچ شریف۔ 2/ رمضان المبارک 1443