WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

شب قدر ہے فضل خداوندی کے حصول کی رات از ۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی دارالعلوم اہلسنت قادریہ سراج العلوم برگدھی ضلع مہراج گنج یوپی وسرپرست مرکزی اصلاح رویت ہلال کمیٹی دفتر سالماری ، کٹیہار ،بہار

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اللہ تعالی کا خاص فضل اور احسان ہے کہ اس نے خیر امت،امت محمدیہ کو لیلة القدر جیسی عظيم نعمت سےنوازکر افضل الامم بنا یاروزے تو اللہ تعالی نےپہلی امتوں پر بھی فرض کۓ تھے ،لیکن روزوں میں امتیازی اہميت و فضيلت اور مقام و مرتبہ والی رات ”لیلة القدر“صرف اس امت کوعطا فرماٸ اور حضور کی دعانےایسی جلیل القدر نعمت سے سرفراز فرمایا جس کی اگلی امتوں میں کوٸ نظیر نہیں ملتی۔حضرت ابن عباس فرماتےہیں، ”فاعطاہ اللہ تعالی لیلةَالقَدرِ خیراًمِّن اَلفِ شَھرٍ ،مُدَّةَ حَملِ الاِسرَاٸِیلِی السَّلَاحَ فِی سَبِیلِ الّٰلہِ لَہ،وَلِامتِہ الیٰ یومِ القِیَامَةِ، فھِیَ مِن خَصَاٸِصِ ھٰذِہِ الاُمَّةِ اللہ تعالی نےآپ کو شب قدر عطا فرمائی ،جو ہزار مہینےکی عبادت ،اور اس جہاد سےافضل ہے جو اسراٸیلی مجاہد نے خدا کے راستے میں کیاتھاتو یہ عظیم رات اس امت کے خصاٸص سے ہے۔رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں آنے والی رات کے” لیلةالقدر“کے نام سے موسوم ہونے کی متعدد وجہیں بیان کی جاتی ہیںاول۔۔یہ کہ بندہ ٕمسلم چوںکہ اس رات بکثرت عبادت اور نیک اعمال کرتاہے ،اس لۓوہ اللہ تعالی کے ہاں بڑی قدرو منزلت کا مستحق ٹہر تاہےدوم۔۔یہ کہ اس رات اللہ تعالی نےبڑی ہی قدر و منزلت والی کتاب قرآن مجید کا اپنے بہت ہی محبوب و معزز نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف نزول فرمایاسوم۔۔یہ کہ اس رات اللہ تعالی آٸندہ سال تک کے لۓلوگوں کے بارے میں اہم تقدیریں اور فیصلے تحریر فرماتا ہے ،چنانچہ تقدیر کی مناسبت سے اسے لیلة القدر کہا گیاچہارم۔۔عربی زبان میں ”قدر “کا مطلب تنگی بھی ہوتا ہے،یعنی اس رات آسمان سےزمین کی طرف نازل ہونےوالے فرشتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ زمین ان کے لۓ تنگ پڑ جاتی ہے۔انسان کے بس میں نہیں کہ وہ اس کی عظمت و شان کا صحیح معنوں میں ادراک کر سکے ۔چنانچہ اس مبارک رات کو وہ شان عطا ہوٸ ہے کہ انسانی ذہن و دماغ اس کا اندازہ کرنے سے قاصر ہے ۔اس ایک رات کی جانے والی عبادت ایک ہزار مہینے کی عبادت سے افضل اور بہتر ہے۔۔اس رات حضرت جبرٸیل امین علیہ السلام کی قیادت میں اپنے رب کے خصوصی حکم سے فرشتے زمين پر اترتےہیں اور طلوع فجر تک ہر طرف سلامتی ہی سلامتی ہوتی ہےاس کی اہمیت اس سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ سابقہ امتوں میں لوگوں کی عمریں لمبی ہوتی تھیں جب کہ اس امت میں اللہ تعالی نےبندوں کی عمریں کم کردیں تو بدلے میں انہيں یہ رات عطافرماٸ ،تاکہ یہ امت خیر و برکت اور نیکی کے کاموں میں کسی سےپیچھے نہ رہ جاۓ ۔یہ بھی اللہ تعالی کافضل ہےکہ نیکیوں کا یہ موسم بہار وقتی اور عارضی نہیں ، بلکہ داٸمی اور قیامت تک کے لۓ ہے۔شب قدر کی اہمیت و فضیلت واضح ہو جانے کےبعد اس کےفواٸد نورنظرہیں ۔آقاۓ کاٸنات کے فرمان کے مطابق شب قدر کی عبادت سے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔۔چنانچہ حدیث پاک کےالفاظ یہ ہیںعن ابی ھریرةرضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ،من قام لیلةالقدر ایماناًواحتساباً غفر لہ ماتقدم من ذنبہ”بخاری“ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ٕکریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شب قدرمیں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے قیام کرےگا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاٸیں گے آقاۓ کریم کایہ بھی ارشاد ہے کہ میری امت میں جو یہ خواہش کرے کہ میری قبرروشنی سے منور رہے تو ایسے شخص کو چاہۓ کہ شب قدر میں زیادہ سے زیادہ رب کی عبادت کرے تاکہ پرور دگار عالم ان متبرک راتوں کی عبادت سےاس کےنامہ ٕاعمال سےبراٸیاں ختم کر کےنیکیوں سے پر فر ما دےشب قدر جب اس درجہ با برکت و با فواٸد ہے تو وہ کس تاریخ میں ہے ؟ کہ اس کی برکتوں اور فاٸدوں سے عبادت گزار نفع مند ہو سکیں؟نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتو ں میں سے کسی رات میں ہےعن ابی سلمة قال ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انی اریت لیلة القدر ثم انسیتھااونُسیتھا فالتمسوھا فی العشر الأواخر فی الوتر۔۔صحیح بخاری۔۔ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھےوہ رات دکھاٸ گٸ تھی مگر پھر بھلا دی گٸ لھٰذا اب تم اسے رمضان کی آخری دس کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔اسی مفہوم کی ایک اور حدیث پاک ہےعن عاٸشة رضی اللہ عنہا، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ۔تحروا لیلة القدر فی الوتر من العشرالأواخر من رمضان۔۔بخاری۔۔حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرو۔حضرت عاٸشہ سے اور ایک روایت اس طرح ہےعن عا ٸشة قالت کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یجاور فی العشرالاواخر من رمضان و یقول تحروالیلة القدر فی العشر الأواخر من رمضان ۔۔بخاری۔۔حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا روایت کر تی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کےآخری عشرہ میں اعتکاف میں ہوتے تھےاور کہتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔آج امت مسلمہ کا جس تاریخ پر باعتبار” لیلة“القدر سب سے زیادہ عمل ہے وہ ستاٸیسویں رمضان کی شب ہے اور ایک حدیث پاک میں اس کی صرا حت بھی موجود ہے چنانچہ روایت ہے۔عن ابی ذر قال ۔سمعت ابی ابن کعب یقول واللہ انی لاعلم ای لیلة ھی،ھی اللیلة التی امرنا بھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیامھاھی لیلةصبیحة سبع وعشرین واماراتھا ان تطلع الشمس فی صبیحة یومھا بیضا ٕ لا شعا ع لھا۔۔صحیح مسلم۔۔حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نےابی ابن کعب سے سنا وہ کہر ہے تھے کہ اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ کو نسی رات ہے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کرنے کا حکم دیا ہے؟ یہ ستاٸیسویں رات ہے اس کی نشانی یہ ہے اس دن صبح کو سورج سفید ہوتا ہےاور اس میں شعاٸیں نہیں ہوتی ہیں ۔اور کچھ اہل علم نے یہ نکتہ آفرینی بھی کی ہے کہ ”کلمہ ٕلیلةالقدر“کے اندر نو حروف ہیں اور کلمہ ٕلیلة القدر اس سورہ میں تین بار آیاہے ، جس کا مجموعہ ستاٸیس ہے اس سے شب قدر کے ستاٸیسویں شب میں ہونے کی طرف اشارہ ہے۔۔مگر آپ کا طرز عمل آخری عشرہٕ رمضان میں کثرت عبادت کی شکل میں نظر آتا ۔اس کے متعلق حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے عن عاٸشة رضی اللہ عنھا انھاقالت کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا دخل العشر شد مٸزرہ واحیا لیلہ وایقظ اھلہ۔۔۔بخاری۔۔۔ حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہو تےتو”عبادت “کے لۓ کمر کس لیتے خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والو ں کوبھی جگاتے تھےشب قدر کی دعا ٕ کے متعلق آقاۓکریم کا ارشاد ہےعن عاٸشة انھا قالت یا رسول اللہ أرأیت ان وافقت لیلة القدر ماادعو؟قال ”تقولین اللھم انک عفو فاعف عنی۔۔سنن ابن ماجہ۔۔عا ٸشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر مجھے شب قدر مل جاۓ تو میں کون سی دعا پڑھوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پڑھو ”الّٰلھم انک عفو فاعف عنی اے اللہ تو معافی کو پسند کرتاہے لھٰذا تو ہمییں معاف کردے متذکرہ احادیث کا ما حصل یہ ہے کہ شب قدر کون سی رات ہے اس تعلق سے کوٸ حتمی بات نہیں کہی جا سکتی ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ٢١۔۔٢٣ ٢٥۔۔٢٧۔۔اور ٢٩ ویں رمضان کی تمام راتوں کے بارےمیں حدیثیں ملتی ہیں بایں وجہ محدثین کرام کا فرمان ہے کہ یہ رات ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہے ،ایسے میں کسی ایک رات کو یقینی طورپر اپنی طرف سے شب قدر مان کر بقیہ طاق راتوں کو عبادت سے غافل رہنا بہت بڑی محرومی کاسبب ہے ،کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم جس رات کو شب قدر مان بیٹھے ہوں وہ اس کے علاوہ کسی اور رات میں ہو جب کہ آخری عشرہ کی سبھی راتوں میں تلا ش کرنے میں یہ خطرہ نہیں، اس رات کو پوشیدہ اور مخفی رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ز یادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کر سکے اللہ تعالی ہمیں شب قدر میں عبادت کا موقع نصیب فرما ۓ اٰمین

لیلةالقدر کی فضیلت سے بہرہ ور ہونے والا خوش قسمت ،اور اس کی فضیلت سے محروم ہو نے والا ہر قسم کی بھلا ٸ سے محروم ہےحدیث شریف میں ہے ”دخل رمضان فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ان ھٰذالشھر قد حضرکم و فیہ لیلة خیر من الف شھر منحرمھا فقد حرم الخیر کلہ ولا یحرم خیرھا الا محروم ۔۔۔صحیح ابن ماجہ۔۔۔ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو نبٸ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے ،جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا ،گویا ساری بھلا ٸ سے محروم رہ گیا۔۔اب ہمیں غور کرنا ہے کہ اس محرومی سے نجات کیسے ہو گی؟ تو اس کا حل یہ ہےکہ اس رات عبادت الٰہی سے ہم یہ محرومی ٹالنے میں کامياب ہو سکیں گے، درود پاک کاپڑھنا بھی قبولیت دعا اور محرومی کو ٹالنے کا تیر بہدف سبب ہے ،حدیث شریف میں ہے،”الدعا ُٕ محجوب عن اللہ حتی یصلی علی محمد وَّاھل بیتہ“دعا اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوتی جب تک کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور آپ کے اھل بیت پر درود نہ بھیجا جا ۓ۔اس حدیث کو ابوالشیخ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا۔۔۔۔الجامع الصغیر فی احادیث البشیر النذیر۔۔

کثرت سے نفل نمازیں پڑھےاور ہر رکعت میں زیادہ سےزیادہ قرآن شریف پڑھے ،حدیث شریف میں ہےقرا ٕةُ القرآن فی غیر الصلوٰة افضل من التسبیح والتکبیر ۔۔مشکوٰة شریف۔۔۔۔نماز میں قرآن پاک کی تلاوت نماز سے باہر تلاوت سے افضل ہے چنانچہ اس باب میں جو نمازیں بزرگوں سے منقول ہیں اس میں بکثرت تلاوت قرآن کی تصریح موجود ہے آیۓ ہم بزگوں سے منقول شب قدر کی نماز کا طریقہ تحریر کریں تا کہ قارٸین اس رات کے فیضا ن سے دامن مرا د کو پُر کر سکیں اٰمینشب قدر کے نوافل کے طریقےایک طریقہ۔۔دورکعت بنیت نفل پڑھے۔ہر رکعت میں الحمد شریف ایک بار، انا انزلنا ایک بار سورہ ٕاخلاص تین بار پڑھے تو اس کو شب قدر کا ثواب حاصل ہو گا اور ثواب حضرت ادریس،حضرت شعیب، حضرت داٶد،اورحضرت نوح علیہھم الصلوٰة والسلام جیسا عطا ہوگا اور اس کوایک شہر جنت میں دیا جاۓگا جو مشرق سے مغرب تک لمبا ہوگا۔دوسرا طریقہ جو شخص ستاٸیسویں شب رمضان کو چار رکعت پڑھے ،ہر رکعت میں بعد الحمد شریف ،انا انزلناہ تین بار ،اور قل ھواللہ شریف پچاس مرتبہ پڑھے ،بعد ختم نماز سجدہ میں سر رکھ کر یہ کلمات مقدسہ پڑھے ”سبحان اللہ والحمد للّٰہ ولا الٰہ الَّااللہ واللہ اکبر “ان شا ٕاللہ جو دعامانگے قبول ہو گیاللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے کہ اس شب قدر کو عبا دت و تلاوت میں گزا ریں اور موجودہ مہلک مرض کورونا سے نجات کی بالخصوص اور بالعموم تمام مرض سے حفا ظت وصیانت کی الحاح و زاری کے ساتھ دعا ما نگیں امید ہے کہ ہماری خستہ حالی پر رب کی رحمت متوجہ ہو گی اور ہم ایسی زندگی گزاریں گے جس میں رب کی رضا شامل ہو اللہ ہم سب کا بھلا کرے اٰمین

زکواۃدیتے رہو۔۔از: سید خادم رسول عینی

زکواۃ۔۔۔۔۔۔

کرو سماج کی خدمت زکواۃ دیتے رہو

ہے یہ اصول جماعت زکواۃ دیتے رہو

تمھیں غریب نوازیں گے سب دعاؤں سے

بڑھیگا نفع تجارت زکواۃ دیتے رہو

کتاب رب میں ملا حکم رب کا کتنی بار

ملےگی گھر میں بھی برکت زکواۃ دیتے رہو

جو مستحق ہیں انھیں ڈھونڈو اور مدد بھی کرو

گھٹےگی ملک سے غربت زکواۃ دیتے رہو

خدا نے ذکر کیا اس کا بھی نماز کے ساتھ

ہے ظاہر اس سے فضیلت زکواۃ دیتے رہو

مہ صیام میں نیکی میں ضرب ہوتا ہے

ہے وقت کتنا غنیمت زکواۃ دیتے رہو

نکالنا ہے تمھیں” عینی “ڈھاءی فیصد بس

کرم ہے رب کا نہایت زکواۃ دیتے رہو۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

سلطان اورنگ زیب عالمگیر ، ایک انصاف ور حاکم۔از: سید خادم رسول عینی۔

جب میری پوسٹنگ خاندیش مہاراشٹر میں تھی تو کئی بار اورنگ آباد جانے کا اتفاق ہوا۔میں جب بھی اورنگ آباد گیا میں نے حضرت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کے مزار(جو خلد آباد میں واقع ہے) پر حاضری کا شرف حاصل کیا۔میں نے جب پہلی بار مزار عالمگیر کی زیارت کی تو میری آنکھیں دنگ رہ گئیں۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس نے پچاس سال ہندوستان میں حکومت کی۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس کی سلطنت کی باؤنڈری اکبر ، ہرش وردھن، چندر گپت، وکرما دتو کی سلطنت سے بھی زیادہ وسیع تھی‌۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس کے نام سے ہی مراٹھا و گولکنڈہ تھر تھر کانپتے تھے۔اسی لیے ہمیں حیرت ہوئی کہ ایسے جلیل القدر بادشاہ کی قبر اس قدر سادگی کا پیکر لیے ہوئے کیوں ہے۔جب میں نے وہاں کے ذمہ داروں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ عالم گیر کی یہ وصیت تھی کہ ان کی قبر کو پکی نہ کی جاۓ، ایسے ہی کچی رہنے دی جائے، قبر کے اوپر کوئی گنبد بھی نہ بنایا جائے۔اس وصیت سے عالم گیر کی کمال درجے کی سادگی کا پتہ چلتا ہے۔ہم نے شاہ جہاں ، اکبر اور ہمایوں کے مقبرے دیکھے ہیں جن کی تعمیر اور سجاوٹ میں لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیے گیے ہیں ۔لیکن اورنگ زیب کی سادگی نے یہ گوارا نہیں کیا کہ ان کے مقبرے پر بھی بے تحاشا اخراجات ہوں ۔ ایسی سادگی کے حامل شخص کے بارے میں ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنی حکومت کے دوران رعایا پر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا تھا۔آئیے تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں اور یہ پتہ لگاتے ہیں کہ اورنگ زیب ایک ظالم بادشاہ تھے یا انصاف ور حاکم ۔اورنگ زیب ایک حاکم تھے ۔ایک حاکم ہونے کے سبب ان کا مقصد استحکام سلطنت تھا ۔استحکام سلطنت کے لیے انھوں نے اپنے دور حکومت میں کئی اقدامات کئے۔ہوسکتا ہے ان میں سے چند فیصلوں کے نتائج غلط نکلے ہوں ۔صرف انھی نتائج کے سبب اورنگ زیب کو ظالم و جابر بادشاہ کہنا ناانصافی ہے۔ملک اور قوم کے لیے ان کی خدمات کیا ہیں اس پر بھی نظر رکھنا چاہیے۔ لیکن افسوس کہہمیں لےدے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتناکہ عالم گیر ہندو کش تھا ظالم تھا ستمگر تھاآئیے تاریخ کے اوراق سے پتہ لگاتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ در اصل اورنک زیب ایک صوفی منش اور درویش صفت بادشاہ تھے۔اورنک زیب نے اورنگ آباد میں اپنی زندگی کے تقریباً ٣٨ سال گزارے ہیں۔اورنگ زیب ایک جفاکش، عالی دماغ، بیدار مغز،متحمل مزاج ، علم دوست اور خدا ترس حکمران تھے۔اورنک زیب کے بچپن اور جوانی دونوں دکن کے مذہبی ماحول میں بسر ہویے تھے۔اورنگ آباد کے اسلامی ماحول ، اسلامی حکومتیں ، اسلامی رسم و رواج نے ان کے ذہن کی اچھی خاصی دینی تربیت کی تھی۔ شریعت کی پابندی کرتے ہوے اورنگ زیب نے اکبر اور جہانگیر کی تمام غیر شرعی رسومات کو موقوف کردیا ، ہندو راجاؤں کے لباس اور وضع کو بھی ترک کرایا ، وضع قطع اسلامی بنائی اور سونے کے زیورات اور جواہرات جو بادشاہوں کی شان سمجھے جاتے تھے ان کو پہننا موقوف کردیا ۔آپ ہی کے دور میں اورنگ آباد میں بے شمار خانقاہیں بنیں ۔درگاہوں کے ساتھ مسجدیں بھی بنیں ۔اور اس کے ساتھ ساتھ اورنگ آباد میں ایسے بے شمار مندر بھی ہیں جن کی حفاظت ، مرمت اور توسیع اورنگ زیب کے عہد میں ہوئی۔اس درویش صفت بادشاہ پر یہ سراسر بہتان ہے کہ اس نے بتوں کو توڑا۔اگر ایسا ہوتا تو آج اورنگ آباد میں نہ کوئی مندر ہوتا اور نہ اکناتھ مندر کی بلند عمارت ہوتی۔اورنک زیب نے اپنی صوبہ داری یا شہنشاہیت کے دور میں کسی غیر مسلم کا ناحق خون نہیں بہایا نہ کسی مندر یا مکان کو جبراً مسجد میں تبدیل کیا۔اگر یہ الزام درست ہوتا تو آج اورنگ آباد میں مسلمانوں کا تناسب اتنا کم نہ ہوتا ۔تاریخ شاہد ہے کہ پونا کے پیشوا ، مرہٹوں کے سردار اورنگ زیب کے بد ترین مخالف تھے۔لیکن ان کی کسی بھی تحریر/ڈائری میں اورنگ زیب کے تشدد یا ظلم کے واقعے کا اندراج نہیں ہے۔اورنک زیب حامل شریعت تھے اور کسی بھی قوم کے پلیس آف ورشپ کو مسمار کرنا وہ اسلامی رواداری کے خلاف سمجھتے تھے۔اورنگ زیب نے جبرا” کسی غیر مسلم کو مسلم نہیں بنایا ۔البتہ بہت سارے غیر مسلم ایمان سے سرفراز اس لیے ہوئے کہ انھیں اپنی ملازمت میں ترقی چاہیے تھی یا وہ اعلیٰ منصب پر فائز ہونا چاہتے تھے۔گویا اسلام قبول کرنا ان کا ذاتی فیصلہ تھا اور انھوں نے کسی کے دباؤ پر آکر اسلام قبول نہیں کیا۔اپنے دور شہنشاہی میں اورنگ زیب کے اہم کار ناموں میں کچھ کارنامے مندرجہ ذیل ہیں :١. اورنگ زیب نے معذور افراد کے لیے بلا امتیاز مذہب و ملت ، غریب خانے اور مطب قائم کیے جہاں ان کی رہائش کا مفت انتظام تھا اور ان کا علاج مفت ہوتا تھا ۔٢. اورنگ زیب نے مندروں اور مسجدوں کو خود کفیل بنانے کے لئے اراضی وقف کی۔٣. اورنگ زیب نے ستی کی رسم کی حوصلہ شکنی کی۔٤. اورنگ زیب نے رسم سالگرہ بند کیا کیونکہ اس میں اخراجات بے تحاشہ ہوتے تھے۔٤. اورنگ زیب نے سکہ پر کلمہ لکھنا بند کروایا کیونکہ اس سے کلمہ کی توہین ہوسکتی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ سبھی رعایا کے لیے یکسانیت مقصود تھی۔٥. اورنگ زیب نے شراب بند کیا کیونکہ یہ انسان کی ذات اور سماج کے لیے نقصان دہ ہے۔٦. اورنگ زیب نے طوائف پر پابندی لگادی تاکہ عورت کو سماج میں بہتر مقام ملے۔٧. اورنگ زیب نے ماتم پر پابندی عائد کی کیونکہ یہ کام خلاف شرع ہے۔٨. اورنگ زیب نے قوالی پر پابندی عائد کی کیونکہ درباری علمائے شریعت نے قوالی کو حرام قرار دیا۔٩. اورنگ زیب نے جوا کھیلنے کو سنگین جرم قرار دیا۔١٠. اورنگ زیب نے ہولی اور محرم کے جلوس پر پابندی لگادی۔آج کل ہندوستان میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات زیادہ تر جلوس کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔اگر ان جلوسوں پر آج بھی پابندی لگادی جائے تو فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام ہوسکتی ہے۔مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں دبئی میں برائے ملازمت مقیم تھا ۔ہندوستان اور پاکستان کے مابین کرکٹ میچ جاری تھا۔ون ڈے انٹرنیشنل میچ تھا۔ شروعات میں ہندوستان کی ٹیم نے بہت اچھی کارکردگی کی اور عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔لیکن آخری اوورز میں وسیم اکرم اور وقار یونس کی عمدہ گیند بازی کی وجہ سے ہندوستان ٹیم کی شکست ہو گئی۔جب پاکستان ٹیم کی جیت ہو گئی تو دبئی میں مقیم پاکستانیوں نے جیت کی ریلی نکالی۔اس سے پہلے کہ دبئی کے باشندہ بھارتیوں کا کوئی رد عمل ہو ، دبئی کی پولیس نے ان پاکستانیوں کو گرفتار کرلیا کیونکہ دبئی میں کسی قسم کی ریلی یا کسی طرح کا جلوس نکالنا قانونی جرم ہے۔اس قسم کے قوانین اگر آج بھی ہندوستان میں نافذ کیے جائیں تو ملک کو ، ملک کے شہروں کو، ملک کی بستیوں کو فرقہ وارانہ فسادات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہےاس تناظر سے اگر دیکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دور عالم گیر میں ہولی اور محرم کے جلوس پر پابندی حق بجانب تھی کیونکہ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں کمی ہونے کا امکان رہتا ہے۔بہر حال ، اورنگ زیب نے غلط رسومات کو ہٹاکر حکومت اور رعایا کے اصل مقصد پر توجہ دی۔ ترقی کی راہ پر کام کیا اور رعایا کی بہبودی کو ترجیح دی۔عہد عالم گیری میں ایک سو دس سے زیادہ غیر مسلم راجہ مہاراجہ ایسے تھے جو دس ہزاری اور پنچ ہزاری منصب پر فایز تھے۔مندرجہ بالا پوائنٹس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب ایک انصاف پسند حاکم تھے۔اورنگ زیب پابند شریعت تھے اور اپنے دل میں رسول ، آل رسول اور صوفیا کی بے حد محبت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ وصیت کی تھی:١.مجھے حضرت زین الدین شیرازی علیہ الرحمہ کے قدموں میں دفن کیا جائے تاکہ ان کا قرب باعث برکت ہو۔٢ سادات کا ادب و احترام لازم ہے۔اس میں کوئی کمی نہ کی جائے۔اس سے تمھیں دنیا اور آخرت دونوں مقامات پر فائدے ہونگے۔عالم گیر نماز باجماعت کے بے حد پاند تھے۔جنگ کے دوران بھی وہ نماز باجماعت کا اہتمام کرتے تھے۔بلخ کی جنگ میں ان کے حریف عبد العزیز نے جب دیکھا کہ اورنگ زیب نماز کا وقت ہوتے ہی نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں تو انھوں نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ اپنی تلوار کو روک لو ، کیونکہ ہم اس شخص سے جنگ جیت نہیں سکتے جو شریعت خداوندی کا اس قدر پابند ہے کہ جنگ کی حالت میں بھی نماز باجماعت کا اہتمام کرتا ہے ۔عالم گیر علم اور عمل دونوں جہت سے یکتائے روزگار تھے۔یہی وجہ ہے کہ انھیں لوگ عالم گیر زندہ پیر کہتے تھے۔ایسے خوش دل و خوش عقیدہ شخص کے تئیں غلط نظریہ رکھنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔اورنگ زیب کے خلاف سب سے زیادہ متعصبانہ رویہ انگریزی عہد کے مورخوں نے اپنایا۔خاص طور پر ایلیٹ اور ڈاوسن نے یہ رویہ اپنا کر تاریخ کے ساتھ سخت ناانصافی کی ہے۔آشروادی لال ، شری رام شرما، آر سی مجمدار جیسے مورخوں نے بھی اورنگ زیب پر لکھتے وقت جانب دارانہ رویے کا اظہار کیا جس سے پڑھنے والے نے اورنگ زیب کو ایک ظالم بادشاہ سمجھ لیا۔لیکن ١٩٦٠ کے آس پاس چند غیر جانب دار اور صاف ذہن مورخوں کی لکھی ہوئی تحریریں اور کتابیں ملتی ہیں جنھیں بڑھکر اورنگ زیب کے تئیں ساری غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں اور دل یہ پکار اٹھتا ہے کہ اورنگ زیب ایک انصاف پسند حاکم تھے اور اچھے نسان بھی تھے۔ان حقیقت پسند مورخوں کے چند نام یہ ہیں :عرفان حبیب،ہر بنس مکھیا، ستیش چندر، رومیلا تھاپر، ڈاکٹر بی این پانڈے وغیرہ ان مورخوں کی کتابوں کو پڑھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ١.اورنگ زیب برہمنوں اور مندروں کو دان دیا کرتے تھے۔٢. اپنے دور حکومت میں اورنگ زیب نے اکبر سے بھی زیادہ ہندوؤں کو اعلی’ عہدوں پر تقرری سے نوازا۔٣.جزیہ اکبر سے پہلے بھی تھا اور اورنگ زیب نے اس کو دوبارا نافذ کیا مگر یہ غیر مسلموں کے صرف دس فیصد لوگوں پر نافذ تھا اور اس کی شرح صرف ٢.٢٥ فی صد تھی جب کہ مسلمانوں پر زکاۃ ٢.٥ فی صد فرض تھی اور جزیہ نافذ کرکے دیگر سارے ٹیکس معاف کر دیے گیے۔جزیہ کے سارے پیسے خزانہء جزیہ میں رکھے جاتے تھے جو غریبوں اور بے سہاروں کے کام آتے تھے۔٤.اورنگ زیب نے ہندو مندروں اور مٹھوں کے لیے وظیفے مقرر کیے ۔٥ ۔اورنک زیب نے شمار مندروں اور گرو دواروں کے لیے جاگیریں وقف کیں۔٦. اورنگ زیب نے راجپوتوں کو پنچ ہزاری کا منصب عطا کیا۔٧. اورنگ زیب نے یہ فرمان جاری کیا کہ مسلم اور غیر مسلم کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے اور کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔رومیلا تھاپر کی کتاب مدھیہ کالن بھارت، بپن چندر کی کتاب مدھیہ کالن بھارت ، ڈاکٹر بی این پانڈے کی کتاب خدا بخش خطبات وغیرہ سے ان باتوں کا ثبوت ملتا ہے۔جہاں تک بی این پانڈے کی بات ہے ہم نے خود اپنے کانوں سے بھدرک اڈیشا کے ایک فنکشن میں ١٩٨٤ میں بی این پانڈے کی تقریر سنی تھی اور اپنی طویل تقریر کے دوران ڈاکٹر بی این پانڈے نے تاریخ کی کتابوں کے حوالوں سے ثابت کیا تھا کہ اورنگ زیب عالمگیر انصاف ور حاکم تھے، متعصب نہیں تھے اور ان پر فرقہ واریت کا الزام جھوٹ اور کذب و افتراء پر مبنی ہے۔مندرجہ بالا حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب متعصب نہیں تھے ، بلکہ اپنی رعایا کا یکساں خیال رکھتے تھے اور ایک انصاف ور حاکم تھے۔اورنگ زیب ‌خود عربی، فارسی ، اردو اور ہندی کے عالم و فاضل تھے ۔وہ اپنی نثر و نظم میں محاورات کا استعمال بہت عمدہ انداز سے کرتے تھے۔ان کے مضامین ، نظم، خطوط اور شاہی فرامین سے بھی یہ آشکارا ہوجاتا ہے کہ وہ ایک نیک دل انسان اور انصاف ور حاکم تھے۔ان کے شاہی فرامین اور خطوط ملک کی مختلف لائبریریز میں محفوظ ہیں ، وہاں سے لےکر ان کے شاہی فرامین اور خطوط کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے ہم فراخ دلی کا مظاہرہ کریں ، تاریخ کے حقائق کا مطالعہ کریں اور ایک نیک دل انسان اور انصاف ور حاکم کی شخصیت سے متعلق متعصبانہ رویہ اختیار نہ کر کے غیر جانبدارانہ فیصلہ لیں ۔

ماہ رمضان میں روزوں کے ایام کا تعین روایت ودرایت کے موافق۔۔ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی- استاذ دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی ،مہراج گنج،یوپی

۔ اسلامی اعمال واحکام میں ایام کا تعین چاند سے ،اور اوقات کاتقرر سورج کے اعتبا رسے ہوتا ہے ،ایام وشھور شرعا قمری لحاظ سےمتعین ہوتے ہیں،شب معراج،شب قدر،ایام بیض،یوم عاشورا،ایام عیدین اور ایام حج چاند سے تعین پانے کی صورتیں ہیں،اسی طرح فرض روزے کے دنوں کی تعئین کہ یہ پہلا روزہ،یہ اکیسواں روزہ،یہ ستائیسواں روزہ،یہ انتیسواں روزہ ہے،یہ سب بحساب قمری ماہ ، رمضان کے اعتبار سےہیں،ایام حج کی تقدیر بھی قمری ماہ ذی الحجہ کے حساب سے طے ہوتی ہے ۔اور یوں زباں زد خلائق ہوتے ہیں ،آج یوم الترویہ،آج یوم الحج اورآج یوم الاضحی ہے وغیر ذالک۔۔۔لیکن ۔جب ہمارا ذہن تعئین اوقات کی طرف مبذول ہوتاہےتو ان میں شمس یعنی سورج کا شرعا اعتبار کرتاہے۔ہم نمازوں کےاوقات کا قیام سورج کی گردش سے متعلق کر تے ہیں،فجر ،ظہر ،عصر ،مغرب،عشا اور دیگرنوافل جیسے اوقات سے موسوم کرتے ہوۓ انہیں گردش شمس کا نتیجہ تصور کرتے ہیں،آفتاب کی گردش کا دورانیہ کم ہو جاۓ تو نمازوں کے درمیان وقفہ کم ہو جاتا ہے،چنانچہ ہماری روز مرہ کی نمازیں سورج کے اعتبا ر سے ہیں۔یوں ہی رمضان یا غیر رمضان کے روزوں کا دورانیہ بھی سورج کے حساب سے ہی ہےیہی وجہ ہے کہ طلوع فجر سے آغاز صوم ،اور غروب آفتاب پر اس کا اختتام ہوتا ہے،اسی طرح حج کے اعمال میں بھی اوقات کا علآقہ سورج سے ہے کہ رمی کس وقت کرنی ہے ،مزدلفہ کب جانا ہے،عرفات سے کب لوٹنا ہے وغیرہ؟ عام طور پر یہ خیال فکر انسانی میں رچا بساہےکہ اسلام میں صرف چاند کا اعتبار ہے ،یہ خیال صحیح نہیں،چاند کا اعتبار دنوں کے تعین میں ہے ،مگر عبادات کے اوقات کے سلسلے میں ہماری روش گردش شمس کے مطابق ہے ،اس لحاظ سےہمارے عبادات شمس وقمر دونوں سےیکساں متعلق ہیں۔تاہم قمری سال شمسی سال سے قدرے چھوٹا ہوتا ہے،تقریبا دس دن کا فرق ہے،مفسرین کی بیان کردہ حکمتو ں میں سے ایک یہ ہےکہ قمری مہینہ ہر تینتیس سال میں ایک چکر مکمل کر لیتاہے ،یعنی تینتیس سال میں چار موسم( دنیا میں جہاں بھی چار موسم وقوع پذیرہوتے ہیں)کی گردش پوری کرلیتا ہے ،اگر ایک مسلمان بلوغیت کے مراحل سے گزرکرمزید تیںتیس سال کی اور زندگی پالےتو وہ سال کے ہر موسم کے روزے رکھ کر رضاۓ الہی کا حقدار بن جاۓگا،اسے سردو گرم ،اور چھوٹے،درمیانےولمبےسب ایام کے روزے رکھنےکے مواقع میسر ہو نگے،حج کابھی یہی معاملہ ہے،حج بھی تینتیس سال میں مختلف موسم کی گردش پوری کرتاہے،یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ فقہا فرماتے ہیں” زکوۃ کا حساب قمری سال کے مطابق کرنا چاہئے،اور ایسا کرنا شرعا ضروری ہے،ورنہ اگرہم شمسی سال کےاعتبار سےزکوۃکا حساب کریں گےتوتینتیس سال میں ایک سال کی زکوۃ کم ادا ہوگی ،ہماری زندگی کے عام حسابات شمسی مہینوں(جنوری اورفروری وغیرہ)کے حساب سےچلتے ہیں،اب اگر کوئ اپنی سالانہ زکوۃ بھی اسی حساب سے دیتاہے تو تینتیس شمسی سالوں میں چونتیس قمری سال گزریں گے ،اس حساب سےایک سال زکوۃ ادا ہونے سےرہ جاۓگی۔ آج اگر کوئ شریعت کو طبیعت کے موافق بنانے کی خواہش رکھے اورایک ماہ کے فرض روزے کوقمری سال کے ماہ رمضان کی جگہ شمسی سال کے فروری ماہ میں متعین کرنے کی علما سے گزارش کرے تو علما بیک زبان اس کی اس اپیل کو رد کر دیں گےکہ یہ عقل ونقل اور روایت ودرایت کے خلاف ہے،اس لۓکہ” ماہ رمضان کے روزے فرض قرار دیۓ گۓہیں”جعل اللہ صیامہ فریضۃ، فر ما کر آقاۓ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ” رمضان کے مہینہ کےروزے کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے”لہذا مروی حدیث کے الفاظ سےیہ عیاں ہو گیا کہ رمضان کے روزے فرض ہیں ،خواہ وہ شمسی ماہ کے جون ،جولائ اور اگست میں ہو ،جو نہایت سخت ایام والےماہ ہیں۔یا ۔جنوری وفروری میں جو سرد وراحت رساں ہیں،عقل ودرایت بھی اسی کی رہنمائ کرتی ہے کہ اگر فروری ماہ کا تعین فرض روزو ں کے لۓ کیا جاتا توروزے رکھنے والوں کو سال کے دیگر موسم سے لطف اندوز ہونے موقع نہیں ملتا جو یک گونہ حرما ں نصیبی ہوتی۔مفسرین کی تفسیر کے مطابق بنی اسرائیل میں بھی رمضان ہی کےروزے تھے ان کا رمضان بھی ساراسال گھومتا تھا،ان کے لۓ بھی جولائ اور اگست کے روزے تکلیف دہ تھے،انہوں نے اپنے علما کے سامنے کسی اچھے موسم میں روزے متعین کرنے کی تجویز پیش کی،اس تجویز پر بنی اسرائیلی علما نے فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے لوگوں کو یہ سہولت دے دیتےہیں کہ وہ کسی اچھے موسم میں روزے رکھ لیا کریں۔مگر جب انہوں نے دیکھا کہ یہ ہم روزوں کے اصل نظام میں گڑ بڑ کر رہے ہیں ،اس لۓ تیس روزے تو پورے رکھیں گے،لیکن ساتھ ہی دس روزےکفارے کےبھی رکھیں گے،چنانچہ یہ مذہبی عیسائ چالیس روزے رکھتے ہیں اور ایسٹر ان کی عید الفطر ہوتی ہے جو اپریل ماہ کےپہلے عشرے کے دوران کسی اتوار کو یہ قرار دیتے ہیں گویا مارچ کا مہینہ اور اپریل کا کچھ حصہ،یعنی تیس روزے مکمل اور ساتھ دس روزے کفارے کے بھی۔ تفسیری روایات پر ہماری نظر مرکوز رہے تو یہ امر بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ بنی اسرائیل میں بھی فرض روزے کا مہینہ قمری یعنی رمضان ہی تھا ،وہ بھی سال کے سارے موسم کادور کر لیتا تھا انہوں نے اپنی سہولت کے لۓ اس میں ردو بدل کیا،لیکن اسلام نے سابقہ حیثیت بحال کردی کہ فرض روزے قمری ماہ رمضان ہی میں ادا کۓ جائیں گے اور سارے موسم میں اس کی گردش جاری رہےگی اور روزہ دار تمام موسم کی تکلیف وراحت کا احساس کرتے ہوۓ روزہ رکھ کر رضاۓ خداوندی کے متلاشی بنیں گے،رات میں نیندسے جاگنے کے بعد رات کا باقی حصہ جو ابتداءاسلام میں روزےکاجزو تھا،اب اس کا دورانیہ کم کرکےمکمل رات روزے سے خارج کردی گئ ،اور فر مان خداوندی(روزے کو رات تک پورے کرو)امت محمدیہ کےلۓ سایئہ رحمت بن کر آئ ، رات کو کھانے پینے کی اجازت مرحمت ہوئ،اور فکر انسانی نے یہ باور کرلیا کہ طلوع فجر صادق سے روزہ شروع ہوگااور غروب آفتاب تک رہےگا تا قیام قیامت اس میں کسی قسم تبدیلی اور ردو بدل کی گذارش کی راہیں مسدود رہیں گی،اسلام نے روزے کے نظام میں یہ دوبڑی اصلاحات کی ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو شریعت مصطفویہ کے نظام پر قائم ودائم رکھے اور رمضان کی سعادتوں وبرکتوں سے بہرہ ور فرماۓ۔آمین

کم سن ام حبیبہ خان نے مسلسل 20 واں روزہ رکھا،

سن ام حبیبہ خان نے مسلسل 20 واں روزہ رکھا……گھر کے بزرگوں ورشتہ داروں نے بچی کی لمبی عمر کی دعا کی!ماہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ [جسے “جہنم سے آزادی” کا عشرہ کہا گیا ہے] چل رہا ہے، احادیث کی روشنی میں اس عشرہ کے عبادت وریاضت کی بہت ہی فضیلت ہے- الحمدللّٰہ! القادری کیپ کے مالک حضرت مولانا اعجاز احمد قادری کی کم سن بھتیجی عزیزہ ام حبیبہ خان بنت جناب ریاض احمد خان سینانگر سیوڑی،ویسٹ ممبئ مہاراشٹر [ساکن:دھنوری،بڑھنی،سدھارتھ نگر] جو ابھی صرف 7 سال کی ہے اس نے آج مسلسل 20 واں روزہ مکمل کیا، مزید آخری عشرہ کے مابقیہ مکمل روزے رکھنے اور اس میں خوب خوب عبادت وتلاوت کے لیے پر عزم بھی ہے-اس کم سن بچی کے مسلسل روزہ رکھنے پر اس کے رشتہ داروں، اور آس پاس کے لوگوں نے بچی کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ اس کو دعاؤں سے نوازا-اور اہل خانہ بالخصوص بچی کے والدین کو مبارکباد پیش کی-خصوصیت کے ساتھ ان حضرات نے مبارکباد پیش کی، جناب امراللّٰہ خان،جناب امتیازاحمد خان اور سراج احمد خان- اللّٰہ تعالیٰ اس بچی کو طویل زندگی بخشے اور عمدہ واحسن تعلیم وتربیت کے حصول کی توفیق مرحمت فرمائے اور والدین کےلیے ذریعۂ نجات ومغفرت بنائے-قارئین سے گذارش ہے کہ اس کم سن بچی کی بہترین مستقبل اور عمدہ تعلیم وتربیت کے لیے خصوصی دعا کریں،اور ہمارے وہ مسلمان بھائی جو بلاعذرشرعی روزہ نہیں رکھتے اور کھلم کھلا کھاتے پیتے ہیں اور بلاخوف الٰہی دھڑلے کے ساتھ اسلامی شعار کی دھجیاں اڑاتے ہیں وہ اس کم سن خوش قسمت بچی ام حبیبہ کی روزہ داری سے عبرت حاصل کریں-

اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک یا انکھ میں دوا ڈال لیا تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہے

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک یا انکھ میں دوا ڈال لیا تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہےالمستفتی۔مولانا انیس۔مٹیرا بہرائچ۔👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب۔روزہ کی حالت میں آنکھ میں قطرے ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، اگرچہ روزہ دار اس دوا یا قطروں کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔کان میں دوا ڈالی اور پردے سے اندر چلی گئی تو  روزہ فاسد ہوجاتاہے، فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق کان میں ڈالی ہوئی دوا دماغ میں براہِ راست یا بابواسطہ معدہ میں پہنچ جاتی ہے، جس سے روزہ فاسد ہوجاتاہے۔اسی طرح ناک میں اسپرے کرنے سے اور تردوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتاہے، البتہ اگر اتنی کم مقدار میں دوا لگائی جائے جس سے یقینی طور پر دوا اندر جانے کا خدشہ نہ ہو، بلکہ دوا ناک میں ہی رہ جاتی ہے تو ایسی صورت میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔البتہ کان اور ناک میں دوا ڈالنے کی صورت میں اگر روزہ فاسد ہوجاتاہے تو صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں۔فتاوی تاتارخانیہ میں ہے “وإذا اکتحل أو أقطر بشيءٍ من الدواء في عینیه لایفسد الصوم عندنا”. (فتاویٰ تاتارخانیة، ج:۲، ص:۳۶۶، ط: إدارة القرآن)فتاویٰ شامی ‘‘ میں ہے:”أو احتقن أو استعط في أنفه شیئًا … قضی فقط  …”.اھ۔

والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب

کتبـــــــــــــہ

احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس

المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 20 رمضان المبارک 1443

محمدتوصیف رضا برکاتی نے ۸ سال کی عمر میں روزہ رکھا

رمضان المبارک کا مبارک مہینہ شدید دھوپ اور گرمی کی تپش میں آخری عشرہ میں داخل ہوچکا ہے،گرم ہواؤں کی تمازت،صبح اٹھتے ہی پیاس کا احساس،۱۴،ا۴ گھنٹہ بغیر دانہ پانی کے گذارنا یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ یہ تو توفیق الٰہی کی بات ہے کہ جس طرح بالغ مسلمان مردو وخواتین عبادت کی لذت سے سرشار ذوق وشوق سے اس گرمی و دھوپ کو مات دے کر اپنے ایمانی جذبے کو قائم رکھے ہوئے ہیں،وہیں کچھ ننھے اور کم عمر بچے وبچیاں بھی اپنے جذبۂ ایمانی کے اظہار میں بڑوں سے پیچھے نہیں ہیں اور روزہ فرض نہ ہونے کے باوجود روزہ رکھ رہے ہیں،انہیں خوش نصیب اور باحوصلہ بچوں میں حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (ساکن:بھوانی پور،اسکابازار،ضلع: سدھارتھ نگر) کے صاحبزادے ۸ سالہ محمدتوصیف رضا برکاتی بھی ہیں،جنہوں نے ۸ سال کی مختصر عمر میں روزہ رکھ کر ہمت وحوصلہ اور شوق عبادت کا زبردست ثبوت پیش کیا ہے، جب کہ عزیزہ ترنم پروین [عمر:۹ سال] بنت حضرت مولانا سراج احمد صاحب قادری علیمی نے بھی بھوک وپیاس کی شدت کی پرواہ کیے بغیر اس سال کئی روزے رکھ کر اپنے ایمان ویقین کو جلا بخشا-قابل صد رشک ہیں ایسے والدین اور ان کی اولادیں جن کو دین اور اس سے محبت کی ایسی تعلیم وتربیت مل رہی ہے کہ انشاء اللّٰہ وہ آگے چل کر دین کے مضبوط علمبردار بنیں گے- ان ننھے بچوں کے اس پرعزم عمل پر ان کے بزرگوں ورشتہ داروں نے بچوں اور ان کے والدین کو مبارکباد پیش کر نے کے ساتھ ان بچوں کو دعاؤں سے نوازا اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی -بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس طرح کے سبھی بچوں کو روزہ رکھنے کے صدقے صحت وتندرستی عطا فرمائے،اور ان کے روزے کو شرف قبولیت بخشے اور انہیں دارین میں کامیابی عطا فرمائے،اور نیکی کے جذبے میں اضافہ کرے اور ہرطرح سے ان کو اور ان کے والدین کو اپنے حفظ وامان میں رکھے-آمین

رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی اہمیت وفضیلت از: (مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحی!ناظم تعلیمات: دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،گرڈیا، ضلع:باڑمیر (راجستھان)

رمضان المبارک کی بابرکت ساعتیں تیزی سے گذررہی ہیں،آخری عشرہ جسے حدیث میں”جہنّم سے آزادی وخالصی کاعشرہ”کہا گیا ہے،اس کی چند راتیں اورباقی رہ گئی ہیں-کتنے خوش نصیب ہوں گے اللّٰہ کے وہ بندے جو موجودہ ُپرآشوب حالت میں بھی رمضان المبارک کے ایک ایک لمحہ کی قدر کرکے اپنی آخرت کو بنانے کی فکر میں۔ روزوں، فرض اور نفلی عبادتوں اور دیگر امور خیر میں نمایاں حصہ لئے ہوں گے اور اب وہ آخری عشرہ کی دہلیز پر پہنچ کر اپنے رب کی بارگاہ میں خالصی و مغفرت کے امیدوار ہوں گے۔ یوں تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ عبادت و ریاضت اوراجروثواب کے اعتبار سے دیگر تمام مہینوں سے افضل واعلیٰ ہے اور رمضان شریف کے آخری دس دن کے فضائل، برکات اور خصوصیات اور بھی زیادہ ہیں۔ نبی رحمت صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے تیس شعبان کو رمضان کی آمد پر جو تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا تھا اس میں آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے یہ بھی کہا تھا کہ “یہ وہ مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت ہے، درمیانی عشرہ مغفرت ہے اور آخری عشرہ جہنم کی آگ سے آزادی کے ساتھ خاص ہے۔” اس حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ رمضان المبارک اپنے تینوں عشروں میں کچھ مخصوص کیفیتیں رکھتا ہے لیکن آخری عشرہ کو پہلے دو عشروں کے مقابلے میں زیادہ فضیلت اور اہمیت حاصل ہے-چونکہ آخری عشرے کو حضور نبِئ کریم صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے جہنم کی آگ سے آزادی کاوقفہ قرار دیا ہے،اسی عشرہ میں قرآن مقدّس نازل ہوا، شب قدر کی مبارک گھڑیاں اسی عشرہ میں پائی جاتی ہیں، جس کےمتعلق بتایا گیا ہے کہ یہ رات انتہائی قیمتی اور بے حد بابرکت ہے، اس رات کو ہزار مہینوں سے زیادہ افضل اور باعث خیروبرکت فرمایا گیا ہے، ان راتوں میں حضرت جبرئیل امین سمیت بڑی تعداد میں فرشتے زمین پر اترتے ہیں ،اور انہیں راتوں میں سال بھر کے امور کے فیصلے کئے جاتے ہیں، لوگوں کی رزق، ان کے اعمال اور ان کی موت و حیات کی تعین کی جاتی ہےاس لئے یہ عشرہ علمائے امت کے نزدیک بہت خاص اہمیت و فضیلت رکھتا ہےاور اس میں اظہار عبودیت اور تقرّب الی اللّٰہ کی زیادہ سے زیادہ کوش کرنے کی ترغیب دلائی جاتی ہے! اعتکاف بھی اسی عشرۂ اخیر کی خصوصیت ہے، جس میں بندہ سراسر اپنے رب کے حضور پیش ہو کر پورے دس دن سرگوشیاں کرتا ہے اور ہر وہ طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے بندگی کا اظہار ہو اور اللّٰہ وحد ٗہ لاشریک کی الوہیت، اس کی ربوبیت اور کبریائی کے سامنے وہ اپنے آپ کو بالکل بے قیمت اور بے حقیقت کرکے پیش کر سکے، یہاں تک کہ رمضان کا آخری دن اس کے لئے رحمت ومغفرت اور سب سے بڑھ کر جہنم کی آگ سے آزادی کی بشارت کا دن ہوتا ہے۔ حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم رمضان المبارک کے پورے مہینے میں خوب خوب عبادت و ریاضت کیا کرتے تھے لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں دیگر امور سے اپنی توجہ ہٹا کر خصوصی طور پر عبادت میں لگ جاتے جیسا کہ حضرت عائشہ صدّ یقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں ” کان رسول اللّٰه صلّی اللّٰه تعالیٰ علیه وسلّم یجتھدفی العشر الاواخر مالایجتھدفی غیرھا” نبی کریم صلی اللّٰه علیہ وسلم رمضان المبارک کے عشرۂ اخیرہ میں اتنی محنت فرماتے تھے کہ دوسرے ایّام میں اتنی محنت نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح ایک اور حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی الہ تعالیٰ عنہا سےمروی ہے “کان رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه وسلّم اذادخل العشراالخیرہ شدّ میزرہ و احی لیله وایقظ اھله” جب ماہ رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو حضور اقدس صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لیتے تھے، اور رات بھر عبادت کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی عبادت کے لیے جگاتے تھے-( بخاری جلد /۱، صفحہ ۲۷۱،مشکوٰة صفحہ/۱۸۲ )) جب حضور نبئ کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کا معمول رمضان کے عشرۂ اخیرہ میں یہ تھا کہ آپ عبادت و ریاضت کے معاملے میں اس عشرہ کو بڑی اہمیت دیتے تھے جب کہ آپ معصوم عن الخطاء ہیں تو کیا وجہ ہے کہ حضور کی امت کے دلوں میں اس عشرہ کی اہمیت کم ہو؟ اور اس مبارک مہینے کے اس آخری حصے کو ہر حیثیت سے مہتم بالشان نہ سمجھیں؟ اس آخری عشرے میں نہ صرف یہ کہ حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اس کا اہتمام فرماتے تھے بلکہ اپنے ساتھ اپنےاہل وعیال اور متعلّقین کوبھی اس کار خیر میں شریک فرماتے تھے، اور ان کو شب بیداری اور نوافل و عبادات کے اہتمام کے سلسلے میں راتوں کو جگا دیا کرتے تھے -اس عشرہ کے شروع ہوتے ہی آپ تیار ہو جاتے اور مزید محنت و جانفشانی کا سلسلہ شروع ہوجاتا، پوری پوری رات بیداری میں گزارتے، مناجات و استغفار اور دعا ونوافل کی کثرت فرماتے اور صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو بھی اس کی ترغیب دلاتے۔ لہٰذا ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ ہم حضور نبئ کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے رمضان المبارک کے قیمتی لمحات اور اس کی بیش بہاگھڑیوں کوبےکار ضائع نہ ہونے دیں اور خصوصیت کے ساتھ عشرۂ اخیرہ کی اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی رحمتوں وبرکتوں سے بہرہ ور ہونے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو فیضانِ رمضان سے مالامال فرمائے !…آمین-

مسجد پر بھگوا جھنڈا اور ہاتھوں میں دھار دار ہتھیار-از، حسن نوری گونڈوی

*مسجد پر بھگوا جھنڈا اور ہاتھوں میں دھار دار ہتھیار*

میرے پیارے ملک میں آئے دن کچھ شرپسند عناصر نفرت پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم علاقوں میں ریلی نکالنا، مسلح ہو کر نکلنا، گندی گندی گالیاں دینا، مسجدوں پر بھگوا جھنڈے لگانا، مزارات کو منہدم کرنا، مسلم عورتوں کی عصمت دری کی دھمکی دینا، بھڑکاؤ نعرے لگانا شرپسندوں کا محبوب مشغلہ ہے

سوال یہ ہے کہ مسلم علاقوں کی پرمیشن انہیں کیوں دی جاتی ہے؟

دھار دار ہتھیار لے کر ریلی نکالنے کی اجازت کیا پرشاشن دیتی ہے اگر نہیں تو انہیں گرفتار کیوں نہیں کرتی؟

کیا مسلم علاقوں میں بھڑکاؤ نعرے لگانے کی اجازت انہیں دی جاتی ہے اگر نہیں تو لگانے والوں پر اب تک کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟

جب پولیس ریلی میں ساتھ ہوتی ہے پھر بھی جھڑپ کیوں ہوتی ہے؟

مسجدوں پر بھگوا جھنڈا لہرانے پر اب تک پورے ملک میں سیکولر لوگوں نے آواز کیوں نہیں اٹھائ؟

پولس جھنڈا لہرانے والوں کو کیوں گرفتار نہیں کرتی؟؟

اس وقت پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ یہ سوال اٹھائیں👇

کیا ہندو دھرم دوسروں کی عبادت گاہ پر اپنے مخصوص جھنڈے لہرانے کی اجازت دیتا ہے؟

کیا ہندو دھرم مسلح ہو کر دوسرے دھرم والوں کی گلیوں میں جاکر انہیں ہراساں کرنے کی اجازت دیتا ہے؟

کیا ہندو دھرم اجازت دیتا ہے کہ مسلم بہن بیٹیوں کی عصمت دری کی جائے؟

کیا ہندو دھرم کے مطابق بھڑکاؤ نعرے لگانا درست ہے؟

جو لوگ پورے ملک میں دہشت گردی پھیلائے ہوئے ہیں کیا ہندو دھرم کی بنیادی کتابیں اس کی اجازت دیتی ہیں؟

کیا یہ سب دھرم کے مطابق ہو رہا ہے؟؟

ان *سوالات کو معمولی نہ سمجھیں اس کے “ہاں” اور “نا” میں ہزاروں سوالوں کے جوابات موجود ہیں اہل علم اپنے قلم کا رخ اس طرف کریں

*📝حسن نوری گونڈوی

رحمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام۔۔تبصرہ۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

ابو الشعرا علامہ سید اولاد رسول قدسی کا کلام بعنوان ماہ صیام تبصرے کی میز پر ہے۔آپ کا یہ کلام بہت ہی دیدہ زیب اور پسندیدہ ہے۔ کلام معنویت، پیکر تراشی ،سرشاری و شیفتگی ،فصاحت و بلاغت ،حلاوت و ملاحت ،جذب و کیف ، سوز و گداز ، سلاست و روانی ، حسن کلام ، طرز ادا کا بانکپن ، تشبیہات و استعارات، صنایع لفظی و معنوی اور سہل ممتنع کا نادر نمونہ ہے۔

کلام کا مطلع یوں ہے:

رحمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام
فرحتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

گویا ردیف لمبی ہے:
لیکے آیا ہے ماہ صیام
لمبی ردیف میں شعر کہنا بہت مشکل امر ہے۔
اس کلام میں ردیف کے علاوہ ہر شعر کے ثانی میں صرف قافیہ رہ جاتا ہے ، کسی دوسرے سبب یا وتد کے لیے جگہ نہیں رہتی۔اس کے باوجود علامہ قدسی نے ہر شعر کو بہت عمدگی سے نبھایا ہے اور کلام میں مقناطیسیت پیدا کردی ہے۔

علم عروض
‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلام جس بحر میں کہا گیا ہے اس کے افاعیل ہیں:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
چونکہ مصرع کے آخر میں لفظ صیام ہے اس لیے آخری رکن فاعلان ہوجاتا ہے۔گویا آپ نے کلام میں زحاف ازالہ کا استعمال کیا ہے۔
جیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت کے مشہور زمانہ کلام سلام میں یہ زحاف پایا جاتا ہے۔

مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

ان کے افاعیل یوں ہوئے:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلان

علم قافیہ
۔۔۔۔۔۔۔
علامہ قدسی کے اس کلام میں قوافی یوں ہیں :
رحمتیں، فرحتیں،وسعتیں،برکتیں،رفعتیں وغیرہ۔
ہر قافیہ کے آخر میں یں زائد ہیں ۔لہذا حرف روی بنا ت ۔
اگر کسی بھی شعر میں قافیہ کے طور پر کاغذیں ، کروٹیں قسم کا لفظ لایا گیا ہوتا تو انحراف حرف روی کا عیب در آتا۔
الحمد لللہ شاعر محترم نے ایسے قوافی کا استعمال نہیں کیا ہے، گویا آپ کا کلام عیب در قافیہ سے پاک ہے۔

بلاغت
۔۔۔۔۔۔۔
ہر شعر جملہء خبریہ ہے اور صدق پر مبنی ہے۔ ہر خبر کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت کیا جاسکتا ہے۔
غرض خبر یہ ہے کہ مسلمانوں کو نصیحت کی جائے اور ان کو ماہ رمضان کے روزے ( جو فرض عظیم ہیں) کی اہمیت و افادیت بتا کر روزے رکھنے پر آمادہ کیا جائے۔

بدیع
۔۔۔۔۔۔۔

صنعت تضاد کا حسن ان اشعار میں پایا جاتا ہے:

نفل پڑھ کر ثواب آپ لیں فرض کا
نعمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

بھوک اور پیاس میں نفس سے جنگ کی
قوتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

صنعت تجنیس تام کی رعنائی اس شعر میں جلوہ گر ہے:

قدر اس کی کریں جس قدر ہوسکے
رفعتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر پڑھ کر مجھے اپنا ایک شعر اس صنعت کے قبیل کا یاد آرہا ہے:

ان کے عدو کا حشر برا ہوگا حشر میں
عاشق وہاں اٹھیگا بڑی آب و تاب سے

صنعت اقتباس سے مزین یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:

مژدہ الصوم لی کا سناتا ہوا
حکمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر ایک حدیث قدسی کی روشنی میں کہا گیا ہے۔وہ حدیث یوں ہے:
الصوم لی وانا اجزی بہ
یعنی روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دونگا ۔

صنعت تلمیح سے مزین یہ دو اشعار ملاحظہ فرمائیں:

نفل پڑھ کر ثواب آپ لیں فرض کا
نعمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

فرض کا اجر ستر گنا لیجیے
کثرتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

ان دو اشعار میں ایک مشہور حدیث رسول کے طرف اشارہ ہے اور ان کا مفہوم حدیث سے مستعار ہے۔

کلام میں بصری و شامی پیکر تراشی کا حسن بھی ملاحظہ فرمائیں:

عشق شاہ دوعالم کے گلزار کی
نکہتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

تفہیم
۔۔۔۔۔۔

قرب رب دوعالم کی تحصیل کی
حسرتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

جب ایک روزہ دار شام کو افطار کرتا ہے تو اس کو دو خوشیاں ملتی ہیں ۔ایک روزہ کھولنے کی اور دوسرا قرب خدا کی۔افطار کے وقت اور افطار کی بڑی فضیلت ہے۔افطار کے وقت روزہ دار کی مغفرت ہوجاتی ہے اور اس وقت روزہ داروں کی دعا خصوصیت کے ساتھ قبول کی جاتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
سحری کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ۔

حضرت عمرو بن العاص کہتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق ہے سحری کا کھانا۔اس لیے علامہ قدسی نے کہا:
صرف پانی سہی پھر بھی سحری کرو
رغبتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

اس میں نازل ہوئی قدسی قرآن پاک
عظمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر قرآن کی آیت کی طرف اشارہ کررہا ہے:
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن
یعنی رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔

اس آیت میں قران کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے۔مکمل قرآن کریم شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا اور یہاں سے وقتاً فوقتاً حکمت کے مطابق حضرت جبریل علیہ السلام ، اللہ کے حکم سے زمین تک لاتے رہے اور یہ نزول تئیس سال کے عرصے میں پورا ہوا۔

گویا ہر شعر قابل تعریف ہے۔
خاص طور پر یہ شعر پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا:

سخت گرمی کے موسم میں روزوں کی یہ
لذتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام۔

ایک قوم ایسی بھی تھی کہ اس قوم پر تیس روزے فرض کئے گئے تھے ، لیکن ان لوگوں نے موسم کے اعتبار سے روزے کے مہینے کو تبدیل کیا ۔یعنی اگر روزہ کا مہینہ سردی میں نمودار ہوا تو پورا مہینہ روزہ رکھا ، لیکن اگر گرمی کے موسم میں آیا تو روزوں کو ملتوی کردیا اس وقت تک جب تک کہ سردی کا موسم نہ آجاتا۔

امت محمدیہ کی یہ خاصیت ہے کہ ماہ رمضان کسی بھی موسم میں آئے اسی مہینے میں مسلمان روزہ رکھتا ہے اور مسلمانوں نے پچاس / پچپن ڈگری تمازت میں بھی روزہ رکھا ہے ۔
الحمد لللہ
تبھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں روزہ دار کو خود اجر دونگا ۔گویا اس اجر کی مقدار کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔

اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے :

صائموں کی افضلیت” عینی” اس سے جان لو
اجر ان کو دیتا ہے خود کبریا ماہ صیام