WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

حقوق العباد کی ادائیگی ایک اہم ذمہ داری، ازقلم:مولاناحبیب اللہ قادری انواری ،آفس انچارج:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان

)

انسان کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے حقوق رکھے ہیں ۔ایک تو وہ حقوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے اوپر ہیں جیسے ایمان لانا،نماز پڑھنا،روزہ رکھنا ،حج و زکوٰۃ ادا کرنا وغیرہ اور دوسرے وہ حقوق اور ذمہ داریاں ہیں جو ایک بندے کے دوسرے بندے پر عائد ہوتے ہیں ۔پہلے کو حقوق اللہ اور دوسرے کو حقوق العباد کہاجاتا ہے ان دونوں حقوق میں حقوق العباد کو جو مقام اور اہمیت حاصل ہے وہ کسی با شعور مسلمان پر پوشیدہ نہیں ہے ۔قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں متعدد مقامات پر حقوق العباد کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں غفلت اور کوتاہی برتنے کو اللہ تعالیٰ کے غضب کا موجب و سبب قرار دیا گیا ہے ۔ حقوق العباد ایک بندے پر اللہ کی طرف سے عائد کردہ دوسرے بندے کے جو حقوق ہیں ان کی ادائیگی کا نام ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں دونوں حقوق ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں ایک کی ادائیگی سے دوسرا حق بھی ادا ہوتا ہے کیوں کہ بندوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اللہ کا حکم مان کر ہم حقوق اللہ و حقوق العباد کا خیال کیو ں نہیں رکھتے؟۔جب کہ کامل مسلمان بننے اور اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق بننے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کے حقوق کو صحیح طور پر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کیے جائیں ۔ بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کی جاے ورنہ اندیشہ ہے کہ نماز، روزہ و دیگر فرائض کی پابندی کے با وجود رحمت و مغفرت الہٰئ سے محرومی ہمارا مقدر بن جاے جیسا کہ حضور نبی رحمت ﷺ کی ایک حدیث اس پر شاہد ہے ۔ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام سے پوچھا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ نے جواب دیا :اللہ کے رسول !مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس درہم و دینار اور مال و دولت نہ ہو آپ نے فرمایانہیں بلکہ میری امت کا مفلس وہ شخص ہوگا جو قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوگا دنیا میں وہ نماز پڑھتا رہا ہوگا ،روزے رکھتا رہا ہوگا،زکوٰۃ ادا کرتا رہا ہوگا ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی ،کسی پر تہمت لگائی ہوگی ،کسی کا مال کھایا ہوگا ،کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مار ا پیٹا ہوگا{تو یہ سب مظلومین بارگاہ الٰہی میں اس کے خلاف استغاثہ (فریاد)دائر کریں گے چناں چہ اللہ کے حکم سے}اس کی نیکیاں ان میں تقسیم کر دی جائیں گی یہاں تک کہ اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی ،لیکن اس کے ذمہ ابھی بھی دوسروں کے حقوق باقی ہوں گےتو مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے (یوں اس کا دامن نیکیوں سے خالی ہو جاے گا اور اس کے پاس گناہ ہی گناہ باقی رہ جائیں گے بلکہ دوسروں کے گناہ کا بوجھ بھی اس پر ڈال دیا جاے گا ) پھر سوائے جہنم کا ایندھن بننے کے اس کے لیے کوئی چارۂ کار نہیں رہ جاے گا یعنی وہ جہنم میں ڈال دیا جائیگا (مسلم شریف) –

ایسے بڑے خطرے اور نقصان سے بچنے کے لیے اور اپنا دامن حساب وکتاب سے صاف رکھنے کے لئے ہمیں اپنے معاملات کی صفائی کی بہت ضرورت ہے ۔مذکورہ حدیث رسول کریم سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نماز روزے اور دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی کتنی ضرور ی ہے ان میں کوتاہی سے ہمارای عبادتیں بھی ضائع ہو سکتی ہیں اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کی ہم بندوں کے حقوق کو بھی سمجھیں اور پھر انہیں صحیح طریقے سے ادا کریں ۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں یہ رویہ عام ہے کی کچھ لوگ حقو ق اللہ کا تو اہتمام کرتے ہیں (یعنی نماز ،روزے کے پابند ہیں )مگر وہ معاملات ِزندگی میں کھوٹے ہیں ،اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہیں اور امانت و دیانت سے خالی ہیں ،اسی طرح کچھ وہ لوگ ہیں جو حقوق اللہ پر تو با قاعدہ دھیان نہیں دیتے (یعنی نماز روزے وغیرہ عبادات کا تو اہتمام نہیں کرتے ) لیکن اخلاق و کردار کے اچھے ،معاملات کے کھرے اور امانت و دیانت جیسی خوبیوں سے بہرہ ورتے ہیں ۔جب کہ اسلام کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر ہم کامل مسلمان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی مکمل توجہ دینی ہوگی۔

حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب ،ہر ذات و نسل ،ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق آجاتے ہیں ۔ لہٰذا اگر ہم اپنے عزیزوں ،دوست و احباب اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیروں کے بھی حقوق ادا کریں، غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے ،والدین اگر اولاد کے لئے زندگی کی ہر آشائش (آرام)ترک کر دیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کوئی کمی نہ کریں-

جن گناہوں کا تعلق حقوق اللہ (اللہ کے حقوق)سے ہے جیسے نماز ،روزہ،زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی میں کوتاہی، اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ ان گناہوں کو معاف فرمادیے گا (انشاء اللہ ) ۔لیکن جن گناہوں کا تعلق حقوق العباد (بندوں کے حقوق)سے ہے مثلاًکسی شخص کا سامان چرایا ،یا کسی شخص کو کوئی تکلیف دی ،یا کسی شخص کا حق مارا ،کسی کی زمین جائداد پر نا جائز قبضہ کیا تو قرآن و حدیث کی روشنی میں اکثر علما و فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا ہمارے اوپر حق ہے اس کا حق ادا کریں ،یا اس سے حق معاف کروائیں ۔پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ و استغفار کے لیے رجوع کریں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”شہید کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں مگر کسی شخص کا قرض “(مسلم شریف ج/۲ص/ ۱۳۵ مجلس برکات)یعنی اگر کسی شخص کا کوئی قرض کسی کے ذمہ ہے تو جب تک ادا نہیں کر دیا جاے گا و ہ ذمہ میں باقی رہے گا ،چاہے جتنا بھی نیک عمل کر لیا جاے مشہور محدث حضرت امام نووی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ قرض سے مراد تمام حقوق العباد ہیں یعنی اللہ کے راستے میں شہید ہونے سے حقوق اللہ تو سب معاف ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے (شرح مسلم)۔

لہٰذا ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی کو اپنی اہم ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہمیں اپنے معاملات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہماری طرف سے بھی حقوق العباد ادا کرنے میں کوتاہی تو نہیں ہو رہی ہے ؟کہیں ہم بھی دانستہ (جان بوجھ کر)یا غیر دانستہ (انجانے میں)کسی کا حق تو نہیں مار رہے؟ کہیں اور کبھی کسی سے قرض لیا ہو اور ابھی تک اسے ادا کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہ ہو؟یا کسی کی زمین ہتھیالی ہو؟

ہمیں غیر جانب دارانہ طور پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ،اپنے پچھلے معاملات اور موجودہ حالات دونوں کی جانچ پڑتال کرنا چاہیے،خرید و فروخت میں، تجارت میں آپس کی تجارتی شرکت میں ،اگر کوئی حق کسی کا ہمارے ذمہ باقی رہ گیا تو اس کو فوراً صاف کرلینا چاہیے یا ہمارے ذمہ کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیئےاس گمان میں نہیں رہنا چاہیے کہ اولاد ادا کرے گی ۔ جائداد ہے تو اپنے شرکت داروں کو شریعت کے مقررہ طریقے کے مطابق ان کا حق دینا چاہیے ،یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے بہن بھائی ہیں ،آپس کی بات ہے ،میدان محشر میں نہ کوئی کسی کا بیٹا ہوگا ،نہ بھائی بہن ،ہر شخص اپنی فکر میں پریشان و حیران ہوگا ،اسی طرح اگر کسی پر تہمت (الزام)لگائی ہے ،کسی کو پریشان کیا ہے ،کسی کی غیبت کی ہے ،کسی کو کسی طرح سے نقصان پہنچایا ہے تو اس کو اس کی زندگی میں سب سے اہم کام سمجھ کر معاملا ت کو صاف کر لینا چاہیئے ،معاف کرائے یا اس کا حق اس کو دے-اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ امت مسلمہ کو راہ استقامت عطا فرمائے ،اور حقوق العباد کی ادائیگی پر دھیان دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

عصر حاضر میں خدمت خلق کی ضرورت و اہمیت ازقلم:مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

رضائے الٰہی کے حصول کے لیے جائز امور میں مخلوقِ خدا کی خدمت، اعانت اور مدد کرنے کو خدمتِ خلق کہتے ہیں-خدمت خلق یعنی انسانوں سے پیار ومحبت اور ضرورت مند انسانوں کی مدد کے کاموں کی اہمیت وضروت کو ہردور میں تسلیم کیا گیا اور اس نیک کام کو ہر دین ومذہب میں تحسین کی نظرسے دیکھا جاتا ہےلیکن مذہب اسلام نے تو خدمت خلق پر بہت ہی زور دیا ہے-چنانچہ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو سراپا خیر ورحمت،حسن سلوک اور خیر خواہی سے عبارت ہے،اور مخلوق خدا کی خدمت اس کا طرّۂ امتیازہے،یہی وجہ ہے کہ اس دین کو رحمت، اس کے خدا کو رحمٰن ورحیم اور اس دین کے نبی کو رحمة اللعٰلمین کہا گیاہے- خدمت خلق محبت الٰہی کا تقاضہ ،ایمان کی روح اور دنیا وآخرت کی سرخ روئی کا ذریعہ ہے، صرف مالی اعانت ہی خدمت خلق نہیں ہے بلکہ کسی کی کفالت کرنا ، کسی کو تعلیم دینا ،مفید مشورہ دینا ،کسی کوکوئی ہنر سکھانا، علمی سرپرستی کرنا، تعلیمی ورفاہی ادارہ قائم کرنا، کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان جیسے دوسرے امور خدمت خلق کی مختلف راہیں ہیں۔ اسلام میں احترام انسانیت اور مخلوقِ خدا کے ساتھ ہمدردی وغم خواری کو بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے،چناں چہ قرآن مقدس اور احادیث نبویہ میں جگہ جگہ خدمت انسانیت کو بہترین اخلاق اورعظیم عبادت قراردیا گیا ہےجیسا کہ قرآن مجید میں اللّٰہ وحدہ لاشریک نے اپنے بندوں کو خدمت خلق پر ابھارتے ہوئے ارشاد فرمایا” لیس البرّ ان تولّو وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولٰکنّ البرّ من آمن باللّٰه والیوم الآخر والملٰئکة والکتاب والنّبیّین وآتی المال علیٰ حبّه ذوی القربیٰ والیتٰمیٰ والمسکین وابن السبیل والسائلین وفی الرّقاب الخ…(سورۂ بقرہ:۱۷۷)ترجمہ:اس بات میں کوئی کمال اور نیکی نہیں ہے کہ تم اپنارخ مشرق کی جانب کرو یا مغرب کی جانب،لیکن اصلی کمال اور نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللّٰہ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پراور فرشتوں پر اور کتبِ سماویہ پر اور پیغمبروں پر اور وہ شخص مال دیتاہو اللّٰہ کی محبت میں اپنے حاجتمند رشتہ داروں کواور نادار مومنوں کو اور دوسرے غریب محتاجوں کو بھی اور بےخرچ مسافروں کو اور لاچاری میں سوال کرنے والوں کو اور قیدی اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں بھی مال خرچ کرتا ہو-قرآن مقدّس میں ایک مقام پراس تعلق سے یہ ارشاد ہے”وتعاونوا علی البرّ والتّقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان”(سورۂ مائدہ:۲)۔ترجمہ: اے ایمان والو!نیکی اور پرہیزگاری [کے کاموں] میں ایک دوسرے سے تعاون و مدد کرو اورگناہ اور برائی [کے کاموں] میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو- اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ خیر و بھلائی اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و امداد کریں اور گناہوں اور برائی کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کریں بلکہ گناہ اور برائی سے روکیں کہ یہ بھی خدمت خلق کا حصہ ہے-ایک حدیث شریف میں رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: خیر الناس من ینفع الناس ترجمہ لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچائے(ترمذی)۔ایک اور مقام پر فرمایا: ترجمہ “اگر کوئی شخص راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے”(صحیح مسلم) قرآن مقدّس اوررسول کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی تعلیمات وارشادات نے ہمیں یہ درس دیا کہ ہم میں بہترین اور سب سے اچھا اور عمدہ انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور حسن سلوک کرتا ہو-اوروہ اپنی ذات سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے، اور کسی کو تکلیف نہ دے، غریبوں، مسکینوں اور عام لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھرے، ان کی زندگی کے لمحات کو رنج و غم سے پاک کرنے کی کوشش کرے، چند لمحوں کے لئے ہی سہی، فرحت و مسرت اور شادمانی فراہم کرکے ان کے درد و الم اور حزن و ملال کو ہلکا کرے،انہیں اگر مدد کی ضرورت ہو تو ان کی مدد کرے اور اگر وہ کچھ نہ کرسکتا ہو تو کم از کم ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آکر،ان کی دلجوئی اور میٹھی بات کرکے ان کے تفکرات کو دور کرےدردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کوورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاںالغرض قرآن کی آیات اور احادیث نبویہ کی روشنی میں یہ بات بالکل ظاہر و باہر ہو جاتی ہے کہ اسلام ہمیں احترام انسانیت اور خلق خدا کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کی تعلیم دیتا ہے- بیواؤں، مزدوروں، یتیموں،غریبوں، محتاجوں اور بے کسوں کے ساتھ غمخواری اور اظہار ہمدردی کی ترغیب دیتا ہےخصوصاً آج کے اس ماحول میں جب کہ عالمی وبا سے کئی زندگیاں اجیرن بن چکی ہیں، مزدور، کسان اور بہت سے لوگوں کی زندگی بری طرح متاثر ہو چکی ہے ہمارے ہہت سےعلما و ٹیچرس بھی فاقہ کشی کی نوبت تک پہنچ چکے ہیں-لہٰذا ایسے ماحول میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے محض انسانیت کی بنیاد پر ذات پات، رنگ و نسل کا لحاظ کئے بغیر پریشان حال لوگوں کا تعاون جس طرح سے بھی ہوسکے کرکے آپسی ہمدردی، مساوات اور رواداری کا عملی نمونہ پیش کریں-اس ضمن میں قابل مبارک باد ہیں ہمارے علاقے کی نہایت متحرّک وفعّال رفاہی تنظیم “تحریک پیغام انسانیت” کے ذمہ داران جو مسلسل بلاتفریق مذہب وملّت پریشان حال انسانیت کی اپنے طور پر ہر ممکن تعاون و خدمت میں لگے ہوئے ہیں-اللّٰہ تبارک وتعالیٰ اس تنظیم کو مزید مستحکم اور پائیدار بنائے،تاکہ اس تنظیم کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ خدمت خلق ہو سکےاور ہم سبھی لوگوں کو بھی چاہییے کہ ہم انفرادی یااجتماعی طور پر جس طرح بھی ممکن ہو مفلوک الحال اور پریشاں حال مخلوق خدا کی حتی الامکان خدمت اور تعاون کریں، کیوں کہ مخلوقِ خدا کو تو حدیث شریف میں اللّٰہ کا کنبہ کہاگیا ہے،اوران کے ساتھ بھلائی وہمدردی کو محبّت الٰہی کے حصول کاذریعہ بتایا گیا ہےجیسا کہ ارشاد نبوی ہے” الخلق عیال اللّٰه فاحبّ الخلق الی اللّٰه من احسن الیٰ عیاله”(مشکوٰة)۔ترجمہ : ساری مخلوق اللّٰہ تعالیٰ کاکنبہ ہے اور مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وپسندیدہ اللّٰہ کے نزدیک وہ شخص ہے جو اللّٰہ کے عیال کے ساتھ بھلائی کے ساتھ پیش آئے- انسان ایک سماجی مخلوق ہے اس لئے سماج سے الگ ہٹ کرزندگی نہیں گذارسکتا،اس کے تمام تر مشکلات کا حل سماج میں موجود ہے،مال ودولت کی وسعتوں اور بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہےاس لیے ایک دوسرے کی محتاجی کو دور کرنے کے لئے آپسی تعاون ،ہمدردی ،خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت بھی ہے،مذہب اسلام چونکہ ایک صالح معاشرہ اور پرامن سماج کی تشکیل کا علم بردار ہےاس لیے مذہب اسلام نے ان افراد کی حوصلہ افزائی کی جو خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہوکرسماج کے دوسرے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا درد اپنے دلوں میں سمیٹے ،تنگ دستوں اور تہی دستوں کے مسائل کو حل کرنے کی فکر کرے،اپنے آرام کو قربان کرکے دوسروں کی راحت رسانی میں اپنا وقت صرف کرے۔کمال یہ ہے کہ اسلام نے خدمت خلق کے دائرۂ کارکو صرف مسلمانوں تک محدود رکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انسانی ہمدردی اور حسن سلوک کو ضروری قرار دیا، روایتوں کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ اللّٰہ کے نبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نےجہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا وہیں تمام مخلوق کو اللہ کا کنبہ بھی قرار دیااس سے انسانیت کی تعمیر کے لئے آپسی ہمدردی ،باہمی تعاون اور بھائی چارے کی وسیع ترین بنیادیں فراہم ہوئی ہیں،پڑوسی کے حقوق کی بات ہو یا مریضوں کی تیمارداری کا مسئلہ ،غرباء کی امداد کی بات ہو یا مسافروں کے حقوق کا معاملہ ،اسلام نے رنگ ونسل اور مذہب وملت کی تفریق کے بغیر سب کے ساتھ یکساں سلوک کو ضروری قرار دیا-حیرت ہے ان لوگوں پر جنہوں نے مذہب اسلام کی من گھڑت تصویر پیش کرتے ہوئے یہاں تک کہاکہ اسلام میں خدمت خلق کا کوئی جامع تصور موجود نہیں ہے، جب کہ سچائی اورحقیقت تو یہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ آپس میں [بلا تفریق مذہب وملّت]ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں، بلکہ اسلام نے تو جانوروں کے ساتھ بھی حسن معاملہ کا حکم دیا ہے،اس پر بہت سی روایات وشواہد موجودہیں- مذہب اسلام نے بنیادی عقائد کے بعد خدمت خلق کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے، قرآن مجید کے مطابق تخلیق انسانی کا مقصد بلاشبہ عبادت ہے،لیکن عبادت سے مراد محض نماز ،روزہ ،حج وزکوۃ نہیں ہے بلکہ عبادت کا لفظ عام ہے جو حقوق اللّٰہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی شامل ہے-علامہ رازی نے عبادت کی تفسیر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھاہے کہ پوری عبادت کا خلاصہ صرف دوچیزیں ہیں ایک امر الٰہی کی تعظیم اور دوسرے خلق خداپر شفقت،علامہ رازی کی یہ بات دل کو چھو لینے والی اور بہت صحیح ہے،علم حدیث سے واقفیت رکھنے والے علما جانتے ہیں کہ فرامین نبوی کے ایک بڑے حصہ کا تعلق حقوق العباد اور خدمت خلق سے ہے،طول کلامی سے اجتناب ان روایتوں کے تذکرہ کی اجازت نہیں دیتا ورنہ بہت ساری روایتیں ذکر کی جاسکتی ہیں، تاہم چند مشہوراحادیث کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتاہے-(۱)رحم کرنےوالوں پر رحمٰن رحم فرماتاہے تم زمین والوں پر رحم کرو اللّٰہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائےگا-(۲)تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جس سے لوگوں کو نفع پہونچے-(۳)قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتاہے(۴)اللّٰہ تعالیٰ کے کچھ نیک بندے ایسے ہیں جن کو اس نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے تاکہ وہ اللّٰہ کے بندوں کو اپنے مال سے نفع پہنچائیں اور جب تک وہ اللّٰہ کے بندوں کو نفع پہنچاتے رہیں گے اللّٰہ تعالیٰ بھی انہیں مزید نعمتوں سے نوازتارہےگا اور جب وہ خدا کے بندوں کو محروم کردیں گے تو اللّٰہ بھی ان سے اپنی نعمتیں ختم فر دیتاہے اور ان کی جگہ دوسرے بندوں کو عطا فرما دیتا ہے-(۵)اللّٰہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو انسانوں پررحم نہیں کرتا- (۶)اللّٰہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتارہتاہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتاہے-(۷)جو کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کرے[اسے تسلی دے] اسے اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا مصیبت زدہ کو-مذکورہ روایتوں سے جہاں خدمت خلق کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے وہیں یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ مذہب اسلام خدمت خلق کے دائرہ کار کو کسی ایک فرد یا چند جماعتوں کے بجائے تمام افراد امت پر تقسیم کردیا ہے، غریب ہو ،امیر ہو یا بادشاہِ وقت، ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق خدمت خلق کی انجام دہی کا ذمہ دار ہے-یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اللّٰہ کے نبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے خدمت خلق کی محض زبانی تعلیم نہیں دی بلکہ آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی عملی زندگی خدمت خلق سے لبریز ہے-سیرت طیبہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بعثت سے قبل سے آپ خدمت خلق میں مشہور تھے، بعثت کے بعد خدمت خلق کے جذبہ میں مزید اضافہ ہوا، مسکینوں کی دادرسی ،مفلوک الحال پر رحم وکرم ،محتاجوں ،بے کسوں اورکمزورں کی مدد آپ کے وہ نمایاں اوصاف تھے جس نے آپ کو خدا اور خلقِ خدا سے جوڑ رکھا تھا،حلف الفضول میں شرکت ،غیر مسلم بڑھیا کی گٹھری اٹھاکر چلنا ،فتح مکہ کے موقع سے عام معافی کا اعلان اور مدینہ منورہ کی باندیوں کا آپ صلّی اللّہ علیہ وسلّم سے کام کروالینا اس کی روشن مثالیں ہیں،آپ صلّی اللّہ علیہ وسلّم کے اصحاب [رضوان اللّٰہ علیہھم اجمعین] بھی خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار تھے-حضرت ابوبکر صدّیق کا تلاش کرکے غلاموں کو آزاد کرانا ،حضرت عمرفاروق اعظم کا راتوں کو لباس بدل کر خلق خدا کی دادرسی کے لئے نکلنا ،حضرت عثمان غنی کا پانی فروخت کرنے والے یہودی سے کنواں خرید کر مسلم وغیر مسلم سب کے لیے وقف کردینا تاریخ کے مشہور واقعات میں سے ہیں،انصار کا مہاجرین کے لیے بے مثال تعاون بھی اسی زمرہ میں آتاہے، خدمت خلق کا یہ جذبہ مذکورہ چند صحابۂ کرام میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کے تمام اصحاب کا یہی حال تھا کہ انہوں نے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی اتباع کرتے ہوئے نظام مصطفیٰ کی عملی تصویر دنیا کے سامنے پیش کیں، اپنے کردار سے سماجی فلاح وبہبود اور خدمت خلق کا وہ شاندار نقشہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ کردیا جس کی نظیر دنیا کا کوئی نظام حیات پیش نہیں کرسکتاـیہ تو ملت اسلامیہ کی بدقسمتی ہے کہ اس نے نماز ،روزہ ،زکوۃ اور حج کو عبادات کا حدود اربعہ سمجھ رکھا ہے اور معاشرت ،معاملات اور اخلاقیات کو مذہب سے باہر کردیا ہے، حالانکہ یہ بھی دین کے اٹوٹ حصے ہیں۔فرقہ پرستی اور اخلاقی بحران کے اس دور میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سماج کے بااثر افراد ،تنظیمیں اور ادارے خدمت خلق کے میدان میں آگے آئیں،دنیا کو اپنے عمل سے انسانیت کا بھولا ہوا سبق یاد دلائیں ،نصاب تعلیم میں اخلاقیات کو بنیادی اہمیت دی جائے، تاکہ نئی نسلوں میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھے، خدمت خلق صرف دلوں کے فتح کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اسلام کی اشاعت کا موثر ہتھیار بھی ہے۔کرومہربانی تم اہل زمیں پرخدامہرباں ہوگا عرش بریں پرخلق خدا کی خدمت سے انسان نہ صرف یہ کی لوگوں کے دلوں میں محترم ہو جاتا ہے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کے یہاں بھی بڑی عزت و احترام پاتا ہے-ایساشخص اللّٰہ وحدہ لاشریک کی رضا اور قرب کا حق دار بن جاتا ہےاور مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے والا حضرت شیخ سعدی شیرازی کے اس مصرع کا مصداق بن جاتا ہے “ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد” یعنی جو شخص دوسروں کی خدمت کرتا ہے [ایک وقت ایسا آتا ہے کہ] لوگ اس کی خدمت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں،یعنی وہ خادم سے مخدوم بن جاتا ہے-حاصل کلام یہ ہے کہ خد متِ خلق وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت اور بہت بڑی عبادت بھی ہے، کسی انسان کے دکھ دردکو بانٹنا جہاں اس کےساتھ ایک اخلاقی ذمہ داری وہمدردی ہے وہیں حصولِ جنت کا ذریعہ بھی ہے، کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اللّٰہ کی رضا و خوش نودی کا ذریعہ ہے،کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اللّٰہ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا سبب ہے، کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم بھی ہے، کسی بھوکے کو کھانا کھلانا نیکی اور ایمان کی علامت ہے،کیوں کہ دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے جیسا کہ کسی دانشور کا کا یہ فکرانگیزقول بہت مشہور ہے کہ “اپنے لیے تو سب جیتے ہیں صحیح معنوں میں انسان تو وہ ہے جو اللّٰہ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کے لیے جیتا ہو” شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال کے الفاظ میںہیں لوگ وہی جہاں میں اچھےآتے ہیں جو کام دوسروں کےایک سچے مسلمان بلکہ ایک اچھے انسان کی یہ نشانی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایسا کام کرے جس سے عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے مثلا کوئی رفاہی ادارہ قائم کردے، اسپتال وشفاء خانہ بنوا دے، مدرسہ، اسکول و کالجز تعمیر کرا دے اور راستے میں یا کسی ایسی جگہ جہاں سے لوگ سیرابی حاصل کرسکیں،کنواں و تالاب کھودوادے یا نل وپیاؤ بنوا دےـیہ سب ایسے کام ہیں کہ جن سے مخلوق خدا فیض یاب ہوتی ہے اور ان اداروں کے قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتی رہتی ہے اور یہ ایسے ادارے اورچیزیں ہیں جو صدقۂ جاریہ میں شمار ہوتے ہیں- یعنی ان اداروں سے جو لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں وہ قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اس کا اجر و ثواب مرنے کے بعد بھی اس شخص کو ملتا ہے اور اس کے نامۂ اعمال میں لکھا جاتا ہے-اس اعتبار سے یقیناً قابل مبارکباد ہیں وہ سبھی حضرات جو خالصاً لوجہ اللّٰہ اس طرح کے ادارے یا تنظیمیں قائم کرکے زمینی سطح پر مخلوقِ خداکی خدمت کرتے ہیں،اس موقع پر ہم مباک باد پیش کرتے ہیں ۔مکارم الاخلاق حضرت علّامہ ومولانا نظام احمد خان مصباحی کو جنہوں نے اپنے رفقا کے معاونت ومشاورت سے اس طرح کےایک رفاہی ادارہ “تنظیم تحریک پیغام انسانیت” کی داغ بیل ڈالی، اور الحمدللّٰہ اس تنظیم کے ذریعہ [اہل خیر سے تعاون حاصل کرکے] ضرورت مندوں کی خوب خوب خدمت کررہے ہیں-اللّٰہ تبارک وتعالیٰ اس طرح کی سبھی تحریکوں وتنظیموں [بالخصوص تحریک پیغام انسانیت] کی غیب سے مدد فرمائے-اور اہل ثروت واہل خیر حضرات کو اس طرح کی تنظیموں کی معاونت کی جانب راغب فرمادے آمین بجاہ سیّدالمرسلین[صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم]۔

”رمضان المبارک “ امت کی غم خواری وہمدردی کا بھی مہینہ ہے۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

(پریس ریلیز)اقوام ملل کی وہ تاریخیں جو مختلف فرائض وواجبات کےآغاز کی شاہد عدل ہیں ان میں ماہ رمضان کے ”روزے“ کےسن آغاز کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔اسے بھی امت مسلمہ کےشعور وآگہی کا حصہ ہونا چاہیۓ۔فرمان خداوندی”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض ہوۓ جیسے اگلوں پر فرض ہوۓ تھے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے“کےنزول کے ساتھ رمضان کے روزے کی فرضیت کا خدائ حکم ١٠دس شعبان المعظم سن ٢دو ہجری کو امت محمدیہ کےلۓ نافذ ہوا۔مذکورہ آیت کریمہ کا اسلوب بھی نہایت دلنشیں و دل پذیر اور جاذب جگر ہےکہ تکلیف دہ اس حکم کو دیگر امم سابقہ کی طرح امت محمدیہ بھی بخوشی انجام دےکر رب کی خوشنودی حاصل کرلے۔کیوں کہ انسانی طبع ومزاج ہمیشہ اسی امر کا خوگر رہا ہے کہ دوسروں کےپر مشقت فعل کو دیکھ کر اپنی تکلیف بھول جاۓاور مصروف عمل رہے۔اب دیکھناہے اس امت سےپہلے کن انبیا ء وامم سابقہ کے روزے تھے اور ان کی کیفیت ونوع کیا تھی؟تفسیر خازن کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام ایام بیض یعنی ہرماہ کے ١٣\١٤\١٥تاریخ کے روزے رکھتے تھے،حضرت نوح علیہ السلام عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے،حضرت موسی علیہ السلام عاشورہ {دسویں}محرم اور ہر ہفتہ کے دن کا روزہ رکھتے تھے،حضرت داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور دوسرے دن افطار کرتے تھے،حضرت سلیمان علیہ السلام ہرماہ کے شروع کے تین ، درمیان کے تین اورآخر کے تین ایام یعنی ہر ماہ کے نو روزے ذکر کردہ ترتیب سےرکھتے تھےاور حضرت عیسی علیہ السلام ہمیشہ با صوم رہتے تھے۔ان تمام روزوں کا انتساب گوکہ انبیا کی طرف ہےتا ہم بمطابق آیت کریمہ یہ مسلم ہےکہ اگلی امتوں پربھی روزے فرض تھے خواہ ان کے فرض روزے وہی رہے ہوں جو ان انبیا کے تھے جن کے یہ امتی تھے۔ یا۔نوع وکیفیت میں قدرے تغیر و اختلاف کے ساتھ مختلف رہے ہوں بہر حال انسانی طبع ومزاج کے مطابق امت محمدیہ کے روزہ رکھنے کی ذہن سازی خلاق کائنات نے یوں فرمائ کہ یہ مشقت کی چیزاگلے لوگوں پر فر ض ہوئ ۔انہوں نےاس کو رکھا تم بھی بخوشی رکھو۔مگر افسوس ان لوگوں پر ہے جو اس فرمان عالی شان سے مستفید ہونے کی بجاۓ روزہ نہ رکھ کر بدباطنی کا ثبوت دیتے ، اور غضب جبار کے شکار بنتے ہیں ،مذکورہ باتیں دار العلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی کے استاذ نے ایک پریس ریلیز میں بتائیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ رمضان شریف غریبوں ،بے سہاروں اور بےکسوں کی غم خواری وہمدردی کا مہینہ بھی ہے۔کیوں کہ آدمی جب بھوکا پیا سا ہوتا ہے تو اس کی شدت وتکلیف کااحساس ہوتاہے جب کہ سال کے اور مہینوں کے دنوں میں کھانے پینے کاعمل جاری رہتاے اس لۓ اس شدت کااندازہ ان دنوں میں نہیں ہوتا اور غربا کی تکلیف یاد نہیں آتی۔ مگر ماہ رمضان میں غم خواری و خیر خواہی امت محمدیہ کے روزہ داروں کے دلوں میں مؤجزن ہوتی ہے ،اور دست تعاون ان کی طرف دراز ہوتا ہوا نظر آتا ہےاور روزہ فرض ہونے کی ایک حکمت علما وحکمانے یہ بھی بیان فرمائ ہے ۔فرمان آقاۓ کریم میں اس کو غم خواری وخیر خواہی کا مہینہ بایں الفاظ کہا گیاہے “ھو شھر المؤاساة“ یعنی یہ رمضان شریف غربا سے غم خواری وہمدردی کا مہینہ ہے۔حضور کاعمل بھی یہی تھا آپ غربا کی مفلوک الحالی دیکھ کر بے چین،بے قرار ہو جاتے تھے اور خود بھی ان کی اعانت فرماتے ، دوسرو ں کو ان کی امداد کی طرف متوجہ فرماتے اور بعد امداد مسرت وشادمانی کےآثار آپ کی جبین اقدس سے ہویدا ہوتے تھے۔چنانچہ ایک بار کچھ لوگ کاشانئہ اقدس پر حاضر ہۓ جو ننگے پاؤں ،ننگے بدن ،ننگے سر اور بوسیدہ حال تھے ،حضور ان کی حالت زار دیکھ کر بے قرار ہو گۓ ،پریشانی کے عالم میں آپ کبھی اندر تشریف لے جاتے اور کبھی باہر آتے ۔بظاہر کچھ نہ رہنے کی وجہ سے آپ انتہائ متفکر تھے ،اسی اثنا میں نماز کا وقت ہوگیا ،آپ نے حضرت بلال کو آذان کہنے کا حکم دیا ،پھر آپ نے نماز پڑھائ نماز کے بعد حاضرین کی توجہ ان کی مفلوک الحالی کی طرف دلائ ،ان کی امداد کے بعد آپ کے جبین اقدس پر طمانیت ومسرت کے آثا نمودا ر ہوۓ ۔اللہ کریم ہم سب کو ماہ رمضان کے روزے اور غربا وپریشان حال کی اعانت کی توفیق، اور ان کی غم خواری وہمدردی کے اظہار کی ہمت عطا فرماۓ ۔آمین

قوم مسلم گنگا جمنی تہذیبی ڈھکوسلے سے باہر نکلے۔ ✍️آصف جمیل امجدی۔[انٹیاتھوک،گونڈہ]۔6306397662

ملک عزیز بھارت کا یہ مقدس محاورہ ” گنگا جمنی تہذیب” دگر ملک کے دانشوران قوم و ملت اپنے آبائی وطن کے جملہ باشندگان میں بلاتفریق مذاہب و مسالک کے اخوت و محبت کی روح پھونکنا چاہتے تھے تو فخریہ انداز میں اسے استعمال کرتے تھے۔ یہاں تک کہ قرطاس و قلم میں بھی اسے کشادہ قلبی سے استعمال فرماتے تھے۔ عام بول چال میں ہماری گنگا جمنی تہذیب کی بار بار مثالیں پیش کرتے تھے۔ تاکہ ان کے اندر سے ثقافتی کج فہمی دور ہو۔ اور بلا تفریق مذہب و ملت کے مسرت و شادمانی سے بھری زندگی جی سکیں۔ جس کی وجہ سے ملک کا وقار مزید بلند تر ہوتا چلا جائے گا۔ اور یہ عینی مشاہدہ ہے کہ جنھوں نے ہماری گنگا جمنی تہذیب کو محض محاورہ نہ رکھا بل کہ اسے ملک و حیات کے لیے جزءلاینفک سمجھا آج وہی دیش ترقی کی شاہ راہ پر تیز گام ہے۔ کیوں کہ کوئی ملک اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب اس کے باشندگان میں آپسی اخوت و محبت ہوگی، جو کہ ملک کے لیے مانند ریڑھ کی ہڈی ہے۔ نیز اسی میں سلامتی و بقا ہے۔ آج ہمارے ملک عزیز بھارت کی نہ گفتہ بہ جو حالت بنی ہے وہ گنگا جمنی تہذیب کے بہتے دھارے کو ایک خاص رنگ کے ساتھ خاص سمت میں بذریعۂ باد سیاست بہایا جا رہا ہے۔بلا شبہ یہاں پر بنا تفریق مذہب و ملت صدیوں سے قائم پاکیزہ تہذیب کو سیاسی بھٹی میں ڈال کر پلید کی جارہی ہے۔ اور خاص مذاہب کے لوگوں کی باقاعدہ پلاننگ و ٹریننگ کے ساتھ یہ ذہنیت دی جارہی کہ قوم مسلم کو حراساں کیا جائے۔ ان کو جانی و مالی نقصان پہنچایا جائے۔ ادھر چند سالوں سے جب سے بی جے پی نے زمام حکومت سنبھالی ہے تب سے قوم مسلم کو نشان زد پر لے لیا گیا ہے۔ کبھی گاؤ کشی اور لڑکیوں کے ساتھ چھیڑخانی کے سنگین معاملات میں پھنساکر انہیں جان سے مار دیا گیا۔ توکبھی کچھ اور ہتھ کھنڈے اپنا کر ان کے گھر بار کوپھونک دیا گیا۔ گویا قوم مسلم کا جینا دوبھر کردیاگیا۔ مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کے اشتعال انگیز بیان سوشل میڈیا پر وائرل کئے جارہے ہیں۔ تو کبھی بھگوادھاری خاص قسم کے لوگ لہراتے ہوۓ ننگے ہتھیار کی ویڈیو وائرل کر رہیں۔ کبھی مساجد پر حملہ کرکے بے حرمتی کی جارہی ہے۔ لیکن ان سارے معاملات میں حکومت کچھ کہہ رہی ہے نہ ہی پولیس کوئی کارروائی کررہی ہے۔ کچھ تو بھگوادھاری کی اشتعال انگیز ویڈیو ایسی وایرل ہوئی جس میں باقاعدہ پولیس پرساشن کھڑی ہوئی ہے لیکن بھگوادھاریوں پر کچھ بھی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اس سے قوم مسلم آخر کیا سمجھے؟۔ آج تک کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ کسی مسلمان نے دھاردار ہتھیار نکالی ہو اور اشتعال انگیز بیان کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کیا ہو۔ ہمیشہ سے ہم یہاں کی قدیم ریت رواج کے مطابق بلاتفریق مذہب و ملت کے گنگا جمنی مقدس تہذیب کو باقی رکھے ہوۓ ہیں۔ جب بھی کوئی سنگین مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو سب سے پہلے ہم اپنے لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھاؤ جو بھارت کے لیے بدنماداغ ہو۔ بل کہ ہمیشہ سے قوم مسلم نے اس کی فلاح و بہبود کا سامان فراہم کیا۔ آج جب کہ یہ اعلان سوشل میڈیا و پرنٹ میڈیا کے ذریعہ کیا جارہا ہے کہ کوئی بھی ہندو کسی مسلمان سے کچھ بھی خریدے نہ ہی بیچے، بل کہ یہاں تک بھی کہا گیا ہے کہ جو چیز چاہے وہ زمین ہو یا کچھ اور اگر کسی مسلمان کے ہاتھ پہلے بیچ چکے ہو یا خرید چکے ہو تو اسے واپس کردو/ واپس لے لو گویا مسلمانوں سے ہمارا آج کے بعد سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ کیا یہی گنگا جمنی تہذیب ہے؟؟؟۔ کیا مسلمانوں نے اس ملک کی آزادی اور تحفظ و بقا کے لیے کوئی قربانی نہیں دی ہے؟؟؟۔ چاہئیے تو یہ تھا ایسے غلیظ لوگوں سے ملک کو پاک و صاف رکھا جائے لیکن جب رہبر ہی رہزن ہو جائے تو پھر ملک کا حال کیا ہوگا، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ قوم مسلم اب ہوش کے ناخن لے اور گنگا جمنی تہذیبی ڈھکوسلے سے باہر نکلے۔ بہت ہوگیا اب، بہت برداشت کیا ہم نے، اب مزید سکت باقی نہیں ہے۔ آۓ دن ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں لیکن ان کا کوئی مداوا کرنے والا نہیں ہے۔

زکوٰة احادیث کے آئینے میں- از:(علامہ)پیرسیدنوراللہ شاہ بخاری مہتمم وشیخ الحدیث:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

زکوٰۃ اسلام کا تیسرا رکن اور اہم ترین مالی فریضہ ہے جس کی فرضیت قرآن و سنت سے ثابت ہے، اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے دوسرے سال میں مسلمانوں پر زکوٰة کی فرضیت کا حکم نافذ فرما یا

زکوٰة کے لغوی معنیٰ پاکیزگی اور بڑھوتری کے آتے ہیں ، کیونکہ زکوٰۃ کے ادا کرنے سے مال میں خیر و برکت کی زیادتی اور پاکیزگی ہو جاتی ہے اس لیے ایسا مال جو ظاہر اور باطن کی پاکیزگی کا ذریعہ بنتا ہے اسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے-

شرعی اِعتبار سے زکوٰۃ مال کا وہ حصہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مالداروں پر غریبوں مسکینوں اور ضرورت مندوں کے لیے چند شرطوں کے ساتھ واجب کیا جو سال گزرنے کے بعد مقررہ نصاب کے مطابق محتاجوں کو دیا جاتا ہے-

اسلام میں زکوٰۃ اللہ کی رضا جوئی کی نیت سے کسی مسلمان فقیر کو اپنے مال میں سے مقررہ حصوں کے مالک بنا دینے کا نام ہے، لیکن زکوٰۃ کی رقم ہاشمی کو نہیں دی جا سکتی، نہ شوہر اپنی بیوی کو، نہ بیوی اپنے شوہر کو، نہ کوئی شخص اپنی اولاد یعنی بیٹا بیٹی پوتا پوتی وغیرہ کو دے سکتا ہے، نہ اپنی اصل یعنی ماں باپ دادا دادی وغیرہ کو دے سکتا ہے، بلکہ ان کی مدد و اعانت اپنی ذاتی مال سے کرنی ہوگی- (ردالمحتار ج/ ۲ ص/۶۳)

یہ بات بالکل صحیح ہے کہ قرآن و احادیث میں زکوٰۃ دینے پر بہت زیادہ زور دیا گیا اور زکوۃ کے نہ دینے پر بہت سی وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں، صرف قرآن کے اندر بیسوں آیتوں میں زکوٰۃ کا تذکرہ ہوا ہے، حدیث کی کتابوں میں بھی جا بجا زکوٰۃ کا تذکرہ ہوا ہے جس سے زکوٰۃ کی اہمیت و عظمت اور اس کی فضیلت سمجھ میں آتی ہے-

آئییے زکوٰة کی ادائیگی کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث[فرمودات وارشادات] ملاحظہ کریں جو درج ذیل ہیں!★ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: کہ اپنے مال کی زکوۃ دے کہ پاک کرنے والی ہے ،تجھے پاک کردےگی،اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کر، اور مسکین اور پڑوسی اور سائل کا حق پہچان- (مسند احمد)★ حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے اسلام کا پورا ہونا اور مکمل ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں،اور جو زکوٰة نہ دے اس کی نماز قبول نہیں-(طبرانی) ★ حضرت عمارہ بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام میں چار چیزیں فرض کی ہیں جو ان میں سے تین ادا کرے [استطاعت ہوتے ہوئے] وہ اسے کچھ کام نہ دیں گی جب تک کہ پوری چاروں ادا نہ کریے، وہ چار چیزیں یہ ہیں نماز، زکوٰۃ، ماہ رمضان کا روزہ، اور حج بیت اللہ-(مسند احمد) ★ حاکم مستدرک میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کردی بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس سے شر کو دور فرما دیا-★ ابو داؤد میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زکوٰة ادا کر کے اپنے مالوں کو مضبوط قلعہ میں محفوظ کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو اور مصیبت نازل ہونے پر دعا اور عاجزی سے مدد مانگو-★حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص پانچوں نمازیں پابندی سے پڑھے، ماہ رمضان کے روزے رکھے، زکوٰۃ ادا کرے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے اس کے لئے جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جا- (نسائی شریف)زکوٰة مال کی حفاظت کا ذریعہ ہے: یہ ایک عجیب فلسفہ ہے کہ انسان مال کی زکوٰة دے اور اس کا مال محفوظ ہو جائے یعنی مال چوری ہونے سے بچ جائے،قدرتی آفتوں سے اسے نقصان نہ پہنچے،گویا ہر نقصان ہونے والے ذریعہ سے محفوظ رہے، یقین محکم اور ایمان کی پختگی ہے کہ جب مسلمان اللہ کی راہ میں حلال روزی ہی سے زکوٰۃ دے گا تو اللہ کی رحمت اس کے مال کو ہر آفت و بلا سے بچائے گی، ایک دفعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم خانۂ کعبہ میں تشریف فرما تھے کسی شخص نے کہا کہ فلاں شخص کا بڑا نقصان ہوگیا ہے، سمندر کی طغیانی نے اس کے مال کو ضائع و برباد کر دیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنگل ہو یا دریا، گویا کسی جگہ بھی جو مال ضائع وبرباد ہوتا ہے وہ زکوٰة نہ دینے سے ضائع ہوتا ہے، اپنے مالوں کی زکوۃ ادا کر کے حفاظت کیا کرو اور اپنے بیماروں کی بیماری صدقہ سے دور کرو-زکوٰة نہ دینے والوں کےلیے وعیدیں:اب آئیے دیکھتے ہیں کہ صاحب نصاب [مال دار] ہوتے ہوئے اگر کوئی آدمی زکوۃ ادا نہیں کرتا تو اس کے لیے کیسی کیسی وعیدیں وارد ہوئی ہیں، یوں تو قرآن مقدس میں زکوٰة نہ دینے والوں کے لیے مختلف مقامات پر شدید ترین وعیدیں نازل ہوئی ہیں جنہیں اگر ذکر کیا جائے تو مضمون طویل ہو جائے گی اس لیے صرف حضور کی حدیثوں پر اکتفا کرتے ہیں، زکوۃ نہ دینے والوں کے لیے وعیدوں وسزاؤں پر مشتمل کچھ حدیثیں ملاحظہ فرمائیں! حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کو اللہ نے مال دیا اوراس نے اس کی زکوۃ ادا نہ کی تو اس کا یہ مال اس کے لئے گنجا سانپ بن جائے گا جس کی آنکھوں میں دو سیاہ نقطے ہوں گے اور وہ سانپ قیامت کے دن اس کی گردن میں بطور طوق ڈال دیا جائے گا پھر سانپ منہ کے دونوں کناروں کویعنی باہوں کو پکڑ لے گا پھر کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے “اور وہ لوگ جو بخیلی کرتے ہیں وہ گمان نہ کریں کہ اللہ نے جو انہیں اپنے فضل سے دیا ہے ان کے لیے یہ اچھا ہے بلکہ یہ ان کے لیے بہت بری چیز ہے، عنقریب قیامت کے دن ان کے گلے میں اس مال کا طوق پہنایا جائے گا جو انہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کیا”- (بخاری شریف)★ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو قوم زکوٰۃ ادا نہ کرے گی اللہ تعالیٰ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا- (رواہ الطبرانی فی الاوسط)★ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خشکی اورتری میں جو مال تلف اور ہلاک ہوتا ہے وہ زکوٰة نہ دینے سے ہلاک ہوتا ہے- (طبرانی)★رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دوزخ میں سب سے پہلے تین شخص جائیں گے ان میں سے ایک وہ مال دار ہوگا جو اپنے مال سے اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کرتا تھا یعنی زکوۃ نہیں دیتا تھا- (طبرانی) ★ فرمان نبوی ہے کہ معراج کی رات میں میرا گذر ایک ایسی قوم پر ہوا جنہوں نے آگے پیچھے چتھرے لگائے ہوئے تھے اور جہنم کا تھوہر،ایلوا اور بدبودار گھاس جانوروں کی طرح کھا رہے تھے، پوچھا: جبریل: یہ کون ہیں؟ حضرت جبرائیل نے عرض کی: حضور! یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مال کا صدقہ [زکوٰة] نہیں دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے نہیں بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے آپ پر ظلم کیا ہے-

عبرت کے لئے اوپر ذکر کی گئی حدیثیں ہی کافی ہیں ورنہ! قرآن مقدس وکتب احادیث میں اس کے علاوہ بھی بہت سی وعیدیں وارد ہوئی ہیں جنہیں اگر اکٹھا کیا جائے تو ایک مستقل کتاب تیار ہو سکتی ہے- سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لئے

شیطان کا خط قوم مسلم کے نام!✍️آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ]6306397662📲

اے قوم مسلم! میرے خط کا مضمون دیکھ کر آپ کو پتہ ہوگیا ہوگا کہ اگر یہ خط کس کا ہے۔ آپ قطعی پریشان نہ ہوں ہم آپ کو بہکانے پھسلانے کے لیے یہ خط نہیں لکھ رہے ہیں۔ میں کون ہوں؟ کیا شان تھی میری، میرا مسکن کیا تھا،کیسا تھا، میں کیوں دھتکارا گیا یہ سب کچھ آپ کو پتہ ہے اور یہ بھی پتہ ہے کہ آخر اس مقدس مہینہ رمضان کریم میں میں کہاں ہوں، میری کیفیت کیا ہے، میرے گلے میں کیسا طوق پڑا ہے۔ بروز حشر میری کیا حالت ہوگی اس سے ساری دنیا واقف ہے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔!!!!لیکن میں آپ لوگ کو آگاہ کرنے کے لیے یہ خط لکھا ہوں کہ کبھی کبھی ہم بھی اچھا کام کر جاتے ہیں جیسے کہ یہی میرا نصیحت آمیز خط لے لیجئے۔ رمضان شریف اللہ عزوجل کے نزدیک اس قدر باعظمت و متبرک ہے کہ خدا نے اس ماہ میں پورا قرآن ہی نازل فرما دیا۔ گویا اپنے بندوں کو معصیت سے بچانے کے لیے ان کو راہ نجات کا سائیکلوپیڈیا عطا فرما دیا۔ اور اس ماہ میں اپنی رحمت و برکت نیز مغفرت و بخشش کا بیش بہا خزانہ ہی کھول دیا۔ لوگ خود گناہ کر کے اس نحوست کا مورد الزام جسے ٹھہراتے تھے رب تعالیٰ نے اسے بھی ازسرنو اس ماہ میں ختم فرمادیا یعنی مجھ شیاطین کو مع اہل و عیال قید و بند میں ڈال دیا، تاکہ تم راہ مستقیم سے بھٹک نہ سکو تم سے گناہ سرزد نہ ہو، تم خالص اپنے رب کی رضا جوئی میں مست و مگن رہو۔ تصور گناہ بھی تمہارے قریب پھٹکنے نہ پاۓ۔ اے قوم مسلم! تم معصیت کے بعد مجھے یا تو اپنے نفس کی شامت گردانتے تھے۔ تمہارے رب نے تم پر اپنا اتنا فضل فرمایا کہ روزے کو فرض قرار دے دیا۔ تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ۔ روزہ رکھنے سے آدمی کو سب سے اہم فائدہ ایک یہ بھی ہوتا ہے کہ نفس امارہ اس کا اس قدر پژمردہ ہوجاتا ہے کہ اس کا ایک بھی ہتھکنڈا اپنے مالک پر کارگر نہیں ہوتا۔ گویا رب تعالیٰ اپنے مومن بندے سے تصورگناہ کا زاویہ اور اس کے رموز کا بالکلیہ خاتمہ فرمادیتا ہے۔ اس قید و بند میں رہ کر ہم سبھی شیاطین اتنا غمزدہ نہیں ہیں جتنا کہ میرے بغیر تمہارا شیطانی کام مجھے غمزدہ کر رکھا ہے۔ اس ماہ کی عظمت و برکت خود تمہاری بداعمالیوں کی بدولت روٹھی ہے۔ تمہاری بد اعمالیوں پر کبھی کبھی ہم شیاطین آپس میں خوب ٹھٹھابازی کرتے ہیں اور کبھی کبھی افسوس کے مارے ٹینشن میں ایک دوسرے کو نوچنا شروع کردیتے ہیں کہ آخر قوم مسلم کو ہو کیا گیا ہے، ہم سے بڑے شیطان تو یہ خود بنے بیٹھے ہیں اگر ایک سال ہم لوگ یوں ہی نظر بند رہیں تو ہم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ باوجود اس کے بھی تم اپنی نازیبا حرکتوں اور بداعمالیوں نیز گھناؤنے کرتوتوں سے جہنم کا ایندھن بن جاؤگے۔ دیکھتا ہوں کہ تندرست و توانا صحت مند ہونے کے باوجود بھی مسلمان روزہ نہیں رکھتا، نماز کی پابندی نہیں کرتا۔ اے قوم مسلم! میں اگرچہ شیطان ہوں لیکن آج آپ لوگوں کے نام اس خط کو لکھنے کی غایت یہ ہے کہ یہ مہینہ جس قدر رحمت و برکت سے لبریز اور معطر ہے اسی طرح اس ماہ کے اندر معصیت میں ڈوبے رہنے والے مسلمانوں کے لیے قہر و غضب بھی ہے۔ الے لوگو! یاد رکھنا اس ماہ کا حساب و کتاب بڑا سخت ہوگا، اس وقت نہ مجھے مورد الزام ٹھہرا پاؤگے اور نہ ہی اپنے نفس کو۔ کیوں کہ اس کا شافی حل تمہارے رب نے تمہیں پہلے ہی عطا فرما دیا، مجھے قید کرکے اور روزے سے نفس کو مقید کرکے۔ تو اس وقت جب تم سے رب رمضان المبارک کے متعلق سوال کریگا کبھی اپنی بیش قیمت رحمتوں کو یاد دلا کر، تو کبھی مغفرت و بخشش کی مقدس ساعتوں کو یاد دلاکر اور جہنم سے بالکلیہ آزاد ہو جانے کے لیے ہم نے تمہیں پورے کے پورے دس دن عطا فرماۓ (یہاں تک کہ پورا رمضان اس قدر عظمتوں والا ہے کہ بنی آدم اگر فرمان خدا وندی کا پختہ عامل ہو جائے تو وہ خالص اسی ماہ میں اپنے گناہوں کو بخشوا سکتا ہے اور اپنے رب کو راضی کر سکتا ہے) تو اس وقت رب کی بارگاہ میں تم سے کوئی جواب نہ بن پڑے گا۔ میں بھی تمہاری طرح اپنے رب کا فرمان نہ مانا تھا ہمیشہ اپنے نفس کے بہکاوے میں مست و مگن رہتا تھا جیسا کہ اس وقت آپ لوگ ہیں۔ میرے رب نے میرے ساتھ کیا معاملہ کیا وہ تم سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اتنا سب کچھ جانتے ہوۓ اور دیکھتے ہوۓ کہ خدا اپنے نافرمان بندوں کے ساتھ کیسا غضب ناک معاملہ فرماتا ہے۔ پھر بھی تم لوگ اس پاکیزہ ماہ میں گناہوں میں ملوث ہو۔ میری بات سمجھ میں آگئی ہو تو خدارا ابھی وقت ہے اپنے اعمال کو درست کرلو، گناہوں سے باز آجاؤ تاکہ تمہارا رب تم سے راضی ہوجائے۔ رب اتنا رحیم و کریم ہے کہ مجھے قید میں ڈال کر تم پر مہربانی فرما رہا ہے۔ روزے کی فرضیت سے نفس امارہ کو مقید کرکے تم پر مہربانی فرمارہا۔ اب تو معصیت کو چھوڑ دو، روزہ رکھ کر نمازوں کی پابندی کرکے رمضان کا احترام کرلو۔ اسی میں زندگی کی ساری سعادتیں اور بہاریں مضمر ہیں۔ رب راضی ہوگیا تو دوجہاں کا ذرہ ذرہ آپ سے راضی ہوجائے گا۔ اپنے رسول کے قول و فعل کی توقیر کیا کرو، ان کی تعظیم سے سر منہ نہ پھیرنا، کیوں کہ بارگاہ خدا وندی سے میرے دھتکارے جانے کا ایک سبب یہ بھی رہا کہ پیغمبر خدا (حضرت) آدم (علیہ السلام) کی میں نے تعظیم نہ کی تھی۔

نوٹ: اے لوگو! میرے اس ناصحانہ خط کو اطمنان و سکون سے پڑھنا اور بار بار پڑھنا، عمل میں لانا۔ ہرگز ہرگز یہ تصور کرکے میرا خط پھاڑ(ڈلیڈ) نہ دینا کہ یہ ایک شیطان کا خط ہے۔ فقط مع السلام خدا حافظ

ہم رمضان المبارک کیسے گذاریں؟-از:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر [راجستھان]

اللہ جل شانہ نے انسان کو اس دنیا میں اپنی بندگی کے لئے بھیجا ہے، یہ انسان یہاں چند روز کا مہمان ہے ، اپنی مہلت اور مدت مکمل ہونے کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہو گا ۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جو یاد الٰہی میں اپنا وقت گزارے ، جو اللہ رب العزت کی رضا جوئی کے لئے ہر لمحہ بے قرار رہے ، جس کا ہر عمل سنت نبوی ﷺ کے مطابق ہو، جس کا ہر کام شریعت مطہرہ کے مطابق ہو، ایساانسان فَقَدْ فَازَفَوْزًا عَظِیْمًا کے بمصداق دنیا میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی کامیاب وکامران ہوگا- یقیناً رمضان المبارک بڑی برکتوں اور فضیلتوں کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کی طرف سے انسانوں کو خصوصی سہولیات ملتی ہیں اور اس کے خصوصی انعام دنیائے انسانیت پر ہوتے ہیں۔ اس ماہ مبارک کے فیضان کے کیا کہنے،اس کی تو ہر گھڑی رحمت بھری ہے،اس مبارک مہینے میں اجر وثواب بہت ہی بڑھ جاتا ہے،نفل کاثواب فرض کے برابر اور فرض کاثواب ستر گناکردیاجاتاہے، بلکہ اس مہینے میں تو روزہ دار کا سونا بھی عبادت میں شمار کیا جاتا ہے،عرش کے فرشتے روزہ داروں کی دعا پر آمین کہتے ہیں،اور ایک حدیث پاک کے مطابق “رمضان کے روزہ دار کے لیے دریا کی مچھلیاں افطار تک دعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں” اس ماہ میں اللہ کی رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ آسمانوں کے دروازے بھی کھول دیئے جاتے ہیں اور ان سے انوار و برکات اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں،اس ماہ مبارک میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس ماہ کے آخری عشرے کا اعتکاف مسنون ہے۔ قرآن و احادیث میں تو رمضان المبارک کے فضائل اتنی کثرت سے آئے ہیں کہ اگران سب کو رقم کردیا جائے تو ایک مسقل کتاب تیار ہوسکتی ہے- رمضان المبارک کے فضائل سے متعلق ایک روایت یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں حاضرین سے فرمایا کہ تم لوگ منبر کے قریب آ جاؤ۔ جب لوگ قریب آ گئے تو آپ منبر پر چڑھے۔ جب پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: “آمین”- اس کے بعد دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا کہ “آمین”۔ اس کے بعد تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو بھی فرمایا “آمین”۔ جب آپ منبر سے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! آج ہم نے آپ سے ایک ایسی بات سنی جو کبھی نہیں سنی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے سامنے جبرئیل (علیہ السلام) آ گئے اور انھوں نے کہا کہ برباد ہو جائے وہ شخص جس کو رمضان المبارک کا مہینہ ملا، لیکن وہ اپنی بخشش نہ کروا سکا، تو میں نے کہا آمین۔ یہ ایک طویل روایت ہے۔ متعدد کتب احادیث میں مروی ہے۔ اس حدیث کے دو حصے اور ہیں لیکن اس کا پہلا حصہ خاص رمضان سے متعلق ہے۔ اس لیے یہاں اس کو ذکر کیا۔قابل غور بات یہ ہےکہ رمضان المبارک تو اللہ رب العالمین کا عطیہ ہے لیکن اس عطیہ سے بہرہ مند ہونے کی ذمہ داری خود انسان کی ہے۔ یعنی انسان کو کوشش کرکے اس ماہ مبارک میں اپنی مغفرت کو یقینی بنانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہر شخص کو اپنے طور پر ہر ممکن طریقہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ اس کی مغفرت کی شکل پیدا ہو سکے۔ اس نقطۂ نظر سے رمضان المبارک کی مبارک ساعات کو بہت احتیاط اور پورے دھیان سے گزارنے کی ضرورت ہے۔*ہماری خوش نصیبی:* بلاشبہ ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ رمضان کا با برکت مہینہ ایک دفعہ پھر ہماری زندگیوں میں آیا ہے۔ایسا مہینہ کہ جس کے ایک ایک پل میں اللہ تعالیٰ کی رحمت موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہے۔جو انسان بھی اس ماہ مبارک کا دل میں ادب رکھتا ہے۔ اس کے روزے رکھتا ہے،گناہوں سے بچتا ہے اور عبادات کا اہتمام کرتا ہے۔ اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور جنت کے اعلیٰ درجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ *بزرگی کا معیار:* سلف صالحین کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ جب وہ کسی کی بزرگی کا تذکرہ کرتے تو یوں کہتے کہ فلاں آدمی تو بہت بزرگ آدمی ہے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ اس نے تو اپنی زندگی کے اتنے رمضان گزارے ہیں۔ ان کے نزدیک بزرگی کا یہ پیمانہ تھا۔ بزرگی اور ترقی درجات کا اندازہ لگانے کا یہ معیار تھا کہ فلاں انسان زندگی کے اتنے رمضان المبارک گزار چکا اب اس کے درجے کو تو ہم نہیں پہنچ سکتے ۔ اللہ اکبر۔ *حضور نبی اکرمﷺ کی ترغیب:*ایک مرتبہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے رمضان المبارک کی آمد پر صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ارشاد فرمایا: تمہارے اوپر ایک برکتوں والا مہینہ آیا ہے ، اس میں اللہ رب العزت تمہاری طرف متوجہ ہوتاہے اور تم پر رحمتیں نازل فرماتا ہے ، تمہاری خطاؤں کو معاف کرتاہے ، دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔اور فرمایا کہ یَنْظُرُ اللّٰہُ تَعَالیٰ الیٰ تَنَافُسِکُمْ فِیْہِ (رواہ الطبرانی)(اللہ تعالیٰ اس میں تمہارے تنافس کو دیکھتا ہے)تنافس کہتے ہیں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کو ،کسی بات میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کو۔ تو گویا اللہ کے رسول نے ہمیں اس بات کی ترغیب دی کہ ہم رمضان المبارک کے مہینے میں نیک اعمال اور عبادات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں ۔ اس لئے اس مہینے میں ہر بندہ یہ کوشش کرے کہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے والا بن جاؤں، جیسے کلاس میں امتحان ہو تاہے تو ہر بچے کی کوشش ہوتی ہے کہ میں فرسٹ آجاؤں،اسی طرح رمضان المبارک میں ہماری کوشش یہ ہو کہ ہم زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے والے بن جائیں ۔*رمضان المبارک میں معمولات نبویﷺ:* صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے تھے کہ جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ہم رسول اللہﷺ کے اعمال میں تین باتوں کا اضافہ محسوس کرتے ۔ پہلی بات…آپﷺ عبادت میں بہت زیادہ کوشش اور جستجو فرمایا کرتے تھے، حالانکہ آپ کے عام دنوں کی عبادت بھی ایسی تھی کہ ’’حَتّٰی یَتَوَرَّمَتْ قَدَمَاہُ‘‘ یعنی آپﷺ کے دونوں قدم مبارک متورم ہو جایا کرتے تھے۔ تاہم رمضان المبارک میں آپ کی یہ عبادت پہلے سے بھی زیادہ ہو جایا کرتی تھی-دوسری بات…آپ اللہ رب العزت کے راستے میں خوب خرچ فرماتے تھے۔ اپنے ہاتھوں کو بہت کھول دیتے تھے ۔ یعنی بہت کھلے دل کے ساتھ صدقہ وخیرات فرمایا کرتے تھے ۔ تیسری بات…آپﷺ مناجات میں بہت ہی زیادہ گریہ وزاری فرمایا کرتے تھے۔ ان تین باتوں میں رمضان المبارک کے اندر تبدیلی معلوم ہوا کرتی تھی۔ عبادت کے اندر جستجو زیادہ کرنا، اللہ رب العزت کے راستے میں زیادہ خرچ کرنا اور دعاؤں کے اندر گریہ وزاری زیادہ کرنا۔*ہم رمضان کیسے گزاریں:* اب ہم اگر نیکیوں کے اس سیزن سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں …روٹھے ہوئے رب کو منانا چاہتے ہیں… اپنی بگڑی بنانا چاہتے ہیں توہمیں چاہیے کہ ہم رمضان المبارک میں چند چیزوں کا خاص طور پر اہتمام کریں ۔ ان کی وجہ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کے فیوضات و برکات سے مالامال کر دے گا۔*(۱) روزے کی حفاظت:* ہمیں چاہیے کہ ہم روزہ رکھیں تو پورے آداب و شرائط کے ساتھ رکھیں ۔ روزے میں کھانے پینے اور جماع کی پابندی توہے ہی ۔ اس بات کی بھی پابندی ہو کہ جسم کے کسی عضو سے کوئی گناہ نہ ہو۔ روزے دار آدمی کی آنکھ بھی روزہ دار ہو، زبان بھی روز دار ہو ،کان بھی روزے دار ہوں ، شرمگاہ بھی روزہ دار ہو، دل ودماغ بھی روزہ دار ہوں ۔اس طرح ہم سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک روزہ دار بن جائیں ۔اسی لیے حدیث شریف میں آیا: اَلصِّیَامُ جُنَّة مَا لَمْ یَخْرِقْھَا [روزہ آدمی کیلئے ڈھال ہے جب تک وہ اسے پھاڑ نہ دے]ڈھال سے مراد یہ ہے کہ روزہ انسان کےلیے شیطان سے حفاظت کا کام کرتا ہے۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ روزہ کس چیز سے پھٹ جاتا ہے؟حضورﷺ نے فرمایا: جھوٹ اور غیبت سے۔ اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَه مِنْ صَیَامِهِ اِلَّا الْجُوْعِ وَ الْعَطْشِ[کتنے لوگ ہیں جن کو روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ نہیں ملتا]کیوں ؟ …اس لیے کہ اس نےروزہ بھی رکھا اور فلمی گانے بھی سنے ۔ روزہ بھی رکھا اور بازار میں جاتے ہوئے غیر محرم کا نظارہ بھی کیا، روزہ بھی رکھا اور لوگوں پہ بہتان لگائے، جھوٹ بولا ، دھوکا دیا، تو ایسا روزہ اللہ کے یہاں اجر نہیں پاتا۔یہ تو صرف ریاکاری کر رہا ہے۔ روزے کی حقیقت سے اس کاکوئی واسطہ نہیں ہے۔اسی لیے حدیث پاک میں آیا ہے کہ لَیْسَ الصِّیَامُ مِنَ الْاَکْلِ وَالشُّرْبِ اِنَّمَا الصِّیَامُ مِنَ اللَّغْوِ وَ الرَّفْسِ[ کہ روزہ کھانے اور پینے سے بچنے کا ہی نام نہیں بلکہ روزہ تو لغو اور فحش کاموں سے بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ]اسی طرح ایک اور جگہ پر روزہ داروں کے متعلق فرمایا: منْ لَمْ یَزَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَل بِه فَلَیْسَ له حاجة فی اَنْ یَّضع طعامه وشرابه ۔ [جو بندہ جھوٹ اور اپنے عمل کے کھوٹ کو نہیں چھوڑتا، اللہ تعالیٰ کواس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی پرواه نہیں ]کہ ویسے تو روزہ دار ہیں اور کم تول رہے ہیں ، ملاوٹ کر رہے ہیں ، رشوت لے رہے ہیں ، بہتان لگا رہے ہیں، غیبت کر رہے ہیں ، ایسے بندے کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ کو کیا ضرورت۔ *(۲)عبادت کی کثرت* ہم رمضان المبارک میں فرض نمازوں کو تکبیر اولیٰ کے ساتھ پابندی سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ دیگر مسنون اعمال ،نفلی عبادات، ذکر و اذکار کی کثرت کریں۔ عبادت کے ذریعے اپنے جسم کو تھکائیں۔ہمارے جسم دنیا کے کام کاج کے لئے روز تھکتے ہیں زندگی میں کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ یہ اللہ کی عبادت کے لئے تھک جایا کریں، کوئی ایسا وقت آئے کہ ہماری آنکھیں نیند کو ترس جائیں۔*(۳) دعاؤں کی کثرت:* رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کچھ عطا کرناچاہتا ہے۔ اس لیے اس میں دعاؤں کی کثرت کرنی چاہییے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہوَ اِنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَّ لَیْلَةٍ دَعْوَۃً مُسْتَجَابَةٍ [رمضان المبارک میں ہر مسلمان کی ہرشب و روزمیں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔] اس لیے اللہ کے آگے رو رو کر دعائیں کرنی چاہییے نہ معلوم کون سی گھڑی میں دعا قبول ہو جائے۔تہجد کا وقت قبولیت دعا کا خاص وقت ہے ۔ لہٰذا سحری سے پہلے تہجد کے نوافل پڑھ کر اللہ کے آگے گریہ و زاری کی جائے اوراپنی تمام حاجات اللہ کے سامنے پیش کی جائیں۔ اللہ کو منایا جائے۔احادیث میں افطار کے وقت روزہ دارکی دعائیں قبول ہوتی ہیں فرمایا گیا ہے،جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے’’تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی ایک روزہ دار کی افطار کے وقت ، دوسرے عادل بادشاہ کی دعا، تیسرے مظلوم کی دعا۔‘‘ اس لیے افطار کے وقت دعاؤں کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے ۔ایک بات پر غور کیجئے کہ بالفرض اللہ تعالیٰ کا کوئی بہت ہی نیک اور برگزیدہ بندہ ہو اور وہ آدمی آپ کو کسی وقت بتا دے کہ ابھی مجھے خواب کے ذریعے بشارت ملی ہے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے ، تم جو کچھ مانگ سکتے ہو ، اللہ رب العزت سے مانگ لو ۔ اگر وہ آپ کو بتائے تو آپ کیسے دعا مانگیں گے؟ بڑی عاجزی وانکساری کے ساتھ رو رو کر اللہ رب العزت سے سب کچھ مانگیں گے کیونکہ دل میں یہ استحضار ہو گا کہ اللہ کے ایک ولی نے ہمیں بتادیا ہے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے ۔ جب ایک ولی بتائے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے تو ہم اتنے شوق کے ساتھ دعا مانگیں گے اب ذرا سوچئے کہ ولیوں اور نبیوں کے سردار، اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺنے فرمایا کہ روزہ دار آدمی کی افطار کے وقت اللہ تعالیٰ دعائیں قبول فرماتا ہے تو ہمیں افطار کے وقت کتنے شوق اور لجاجت سے اور پر امید ہو کر اللہ رب العزت سے دعائیں مانگنی چاہییے؟ ہونا یہ چاہیے کہ وہ جو افطاری کاآخری آدھا گھنٹہ ہے اس آدھے گھنٹے میں خوب توجہ الی اللہ کے ساتھ بیٹھیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حاجات بیان کریں اور اپنی دنیا و آخرت کی اور جان و ایمان کی سلامتی کی دعائیں کریں۔ ویسے بھی دستور یہ ہے کہ اگر آپ کسی آدمی کو مزدوری کے لیے اپنے گھر لائیں اور وہ سارا دن پسینہ بہائے اور شام کے وقت گھر جاتے ہوئے آپ سے مزدوری مانگے تو آپ اس کی مزدوری کبھی نہیں روکیں گے ، حالانکہ ہمارے اندر کتنی خامیاں ہیں ۔ بغض ہے، کینہ ہے، حسد ہے ، بخل ہے ، لیکن جو ہمارے اندر تھوڑی سی شرافت نفس ہے وہ اس بات کو گورا نہیں کرتی کہ جس بندے نے سارا دن محنت کی ہے ہم اس کو شام کے وقت مزدوری دیئے بغیر خالی بھیج دیں ۔ اگر ہمارا دل یہ نہیں چاہتا تو جس بندے نے اللہ کے لئے بھوک اور پیاس برداشت کی اور افطاری کے وقت اس کا مزدوری لینے کا وقت آئے تو کیا اللہ تعالیٰ بغیر مزدوری دیئے اس کو چھوڑ دے گا۔ ہرگز نہیں ۔ اس لیے صدق یقین کے ساتھ افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اللہ تعالیٰ قبول فرمائےگا۔حدیث شریف میں اس بات کی ترغیب آئی ہے کہ رمضان شریف میں استغفار کی کثرت کریں ،جنت کو طلب کریں اور جہنم سے پناہ مانگیں۔ لہٰذ اپنی دعاؤں میں ان تینوں چیزوں کو بار بار مانگیں۔ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ بامراد فرمائےگا۔ *(۴) تلاوت قرآن مجید کی کثرت*رمضان المبارک کوقرآن پاک سے خاص نسبت ہی کیونکہ قرآن مجید اسی مہینے میں نازل کیا گیا۔ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنَ (البقرۃ : ۱۸۵)(رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیاگیا)اس سے پہلے بھی جتنی آسمانی کتابیں اورصحیفے آئے وہ بھی اسی مہینے میں نازل ہوئے۔ معلوم ہوا کہ اس مہینے کو کلامِ الٰہی سے خاص نسبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک اس مہینے میں کثرت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی کریمﷺ اس مہینے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ پورے قرآن پاک کا دور کیا کرتے تھے۔ اصحاب رسولﷺ سے لے کر آج تک یہ روایت چلی آرہی ہے کہ اس ماہ قرآن پاک کی تلاوت کثرت سے کی جاتی ہے۔ ہمارے بہت سے اکابر اس ماہ میں ایک دن میں ایک قرآن پاک اور بعض دو قرآن پاک بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے اکابر کی اتباع میں کثرت تلاوت کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ وقت قرآن پاک کی تلاوت کرنی چاہیے۔ *سلف صالحین کے واقعات:* سلف صالحین اس مہینہ کی برکات سے کیسے فائدہ اٹھاتے تھے اس کی چند مثالیں عرض کی جاتی ہیں ۔ تاکہ ہمیں بھی اندازہ ہو جائے کہ ہمارے اسلاف یہ مہینہ کیسے گزارتے تھے ۔*بزرگانِ دِین اور شوقِ تلاوت:* (1)ہمارے امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَة اللّٰہ عَلَیْہ رَمَضانُ الْمُبارَک میں مَع عیدُ الفطر 62 قرآنِ پاک خَتم کرتے(دن کوایک ، رات کوایک ، پورے ماہ کی تراویح میں ایک اور عید کے روز ایک)۔ [الخیرات الحسان ، ص۵۰] (2)حضرت امام شافعی رَحْمَة اللّٰہ عَلَیْہ ماہِ رَمَضان میں 60قرآنِ پاک ختم کرتے تھے اور سب نمازمیں ختم کرتے۔ [حلیۃ الاولیاء ، الامام الشافعی ، ۹ / ۱۴۲ ، رقم : ۱۳۴۲۶] (3) حضرت اسود بن یزید رَحْمَة اللّٰہ عَلَیْہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ہر دو راتوں میں پوراقرآن پڑھتےاورصرف مغرب و عشاء کے درمیان آرام فرماتے تھے اور رَمَضانُ الْمُبارَک کےعلاوہ 6راتوں میں ایک ختمِ قرآن کر لیا کرتے تھے۔ [طبقات ابن سعد ، رقم : ۱۹۷۶ ، اسودبن یزید ، ۶ / ۱۳۶بتغیر قلیل۔ حلیۃ الاولیاء ، اسود بن یزید ، ۲ / ۱۲۰ ، رقم : ۱۶۵۲] (4)حضرت امام مالک اور حضرت سفیان ثوری رحمہمااللّٰہ تعالیٰ علیہما کے بارے میں بھی کتابوں میں یہ درج ہےکہ یہ دونوں حضرات بھی رمضان المبارک میں اپنی دیگر مصروفیات کو ترک کرکے اپنے اکثر اوقات تلاوت قرآن میں گذارتے تھے-تلاش وتحقیق کرنے پر سیکڑوں ایسے واقعات اکابر واسلاف کے ملتے ہیں جن کا رمضان المبارک کے پاک مہینے کا نزول ہوتے ہی عبادت وریاضت میں کثرت ہو جاتی،عام معمولات زندگی کو ترک کر کے اس خاص اور بابرکت مہینے کا پورا پورا لطف اٹھاتے-یہ ہے ہمارے کچھ بزرگوں کےرمضان المبارک میں تلاوت قرآن کا شوق وذوق، ہمیں بھی چاہییے کہ ہم ان بزرگان دین کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے حتی الامکان تلاوت قرآن پاک زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں-یاد رکھنا چاہییے کہ بزرگوں کے یہ واقعات کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت ہیں اور محض کرامت نہیں بلکہ نفس واقعہ ہیں،اکابر کے معمولات اس وجہ سے نہیں لکھے جاتے کہ سرسری نگاہ سے ان کو پڑھ لیا جائے ،یا کوئی تفریحی فقرہ ان کو کہہ دیاجائے،بلکہ اس لئے لکھے اور بتائے جاتےہیں کہ اپنی ہمت کے موافق ان کا اتباع کیا جائے،اور حتی الوسع پوراکرنے کا اہتمام کیا جائے کہ ان حضرات کے افعال واقوال حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جو جامع کمالات کا سچا مصداق ہیں،آپ ﷺ ہی کے مختلف احوال کا پرتو ہیں-*(۵)صدقہ وخیرات کی کثرت:* رمضان المبارک کاایک بڑا اور اہم عمل زیادہ سے زیادہ صدقہ وخیرات کرنا ہے،نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم بھلائی کے کاموں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے،آپ کی سب سے زیادہ سخاوت رمضان کے مہینے میں ہوتی تھی”آپ کی سخاوت ماہ رمضان میں اتنی زیادہ اور عام ہوتی جیسے تیز ہواہوتی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ”(مفہوم حدیث)اس سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں عام دنوں کے مقابلے صدقہ وخیرات کا زیادہ اہتمام کرناچاہییے، صدقہ وخیرات کا مطلب ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے فقراء ومساکین،یتامیٰ وبیوگان اور معاشرے کے معذور اور بے سہارا افراد کی ضروریات پر خرچ کرنا اور ان کی خبر گیری کرنا، بےلباسوں کو لباس پہنانا،بھوکوں کو کھانافراہم کرنا،بیماروں کا علاج ومعالجہ کرنا وکرانا،یتیموں وبیواؤں اور بے سہارالوگوں کی سرپرستی اور دیکھ ریکھ کرنا،معذوروں وکمزوروں کا سہارابننا،مقروضوں کو قرض کے بوجھ سےنجات دلانا اور اس طرح کے دیگر ضرورت مند افراد کےساتھ تعاون وہمدردی کرنا-*(۶)رمضان المبارک کااحترام کریں اور اس کی بےحرمتی سے بچیں:* شعائراسلام، مذہبی ودینی علامات اور نیکی وبھلائی کی قدراور احترام کرنا اور ان کی عظمت وحرمت کو گلے سے لگانا جس طرح نیکی اور سعادت مندی کی علامت ہے اسی طرح ان چیزوں کی ناقدری اور بےحرمتی کرنا انتہائی شقاوت وبدبختی کی بات ہے،رمضان المبارک کی عزت وتوقیر پر جہاں ڈھیروں نیکیاں ملتی ہیں وہیں اس کی بے حرمتی کرنے پر دردناک عذاب کا تذکرہ کیاگیا ہے جیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ “جس نے اس ماہ مبارک میں کوئی نشہ آور چیز پی یا کسی مومن پر بہتان باندھا یا اس میں گناہ کیا تواللّٰہ رب العزت اس کے ایک سال کے اعمال برباد فرمادے گا،پس تم ماہ رمضان میں کوتاہی کرنے سے ڈرو،کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا مہینہ ہے،اللّٰہ عزّوجل نے تمہارے لیے گیارہ مہینے کردییے کہ ان میں نعمتوں سے لطف اندوز ہو اور لذت حاصل کرو اور اپنے لیے ایک مہینہ خاص کرلیا پس تم ماہ رمضان کے معاملہ میں ڈرو-[رمضان کے تیس اسباق ص/۳۱ بحوالہ: المعجم الاوسط ج/۲ ص/۴۱۴]حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “میری امت ذلیل ورسوا نہ ہوگی جب تک رمضان کاحق ادا کرتی رہےگی،عرض کیاگیا:یارسول اللّٰہ!رمضان کے حق کو ضائع کرنے میں ان کا ذلیل ورسوا ہونا کیا ہے؟فرمایا:اس ماہ میں ان کاحرام کاموں کو کرنا،پھرفرمایا جس نے اس ماہ میں زناکیا یاشراب پی تو اگلے رمضان المبارک تک اللہ رب العزت اور جتنے فرشتے ہیں سب اس پر لعنت کرتے ہیں،پس اگر یہ شخص اگلے رمضان کو پانے سے پہلے مرگیا تواس کے پاس کوئی ایسی نیکی نہ ہوگی جو اسے جہنم کی آگ سے بچاسکے گی،پس تم ماہ رمضان کے معاملے میں ڈرو،کیونکہ جس طرح اس ماہ میں اور مہینوں کے اعتبار سے نیکیاں بڑھادی جاتی ہیں اسی طرح گناہوں کامعاملہ بھی ہے-[ایضاً ص/۳۲ بحوالہ:المعجم الصغیر للطبرانی ج/۵ ص/۶۰]حاصل کلام یہ ہے کہ ماہ رمضان المبارک کااحترام ہم سبھی مسلمانوں کے لیے بہت ہی ضروری ہے اور رمضان کے احترام کا مطلب یہ ہےکہ اس میں گناہوں سے بچا جائے، جھوٹ،غیبت وچغلی اور بدکلامی سے اپنے آپ کو بچایاجائے،جملہ منہیات شرعیہ سے بچتے ہوئے اوامر پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے کیونکہ صرف کھاناپینا بند کر دینے کو رمضان کا کامل احترام نہیں کہا جاسکتا،رمضان کے اصل مقصدکو حاصل کرنا ہی اصل میں رمضان کا احترام ہے-اللّٰہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے احترام اور روزوں کی پابندی اور حفاظت کی توفیق بخشے،اور رمضان کے احترام کے ساتھ اس کی بے حرمتی سے بچائے-آمین ثمّ آمین-

ماہ رمضان کی آن بان شان، رحمتوں کی باران۔آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ]

اللہ کریم کے خزانۂ رحمت کے بیش بہا خزانے کا نام ‘رمضان کریم’ ہے۔ اس ماہ مقدس کا اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ سایہ فگن ہوتے ہی مومن بندے اور بندیوں کے چہرے مسرت و شادمانی سے کھل اٹھتے ہیں۔ کیوں کہ اس میں کم عبادت کرنے پر بھی ڈھیروں ثواب ملتا ہے۔ پنج وقتہ نماز میں تراویح کی اضافہ ذات کے ساتھ ثواب بھی بکثرت عطا ہوتا ہے۔ اس میں اور دنوں کے بالمقابل عبادت کا ذوق و شوق مزید بڑھ جاتا ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا لطف نہایت نرالا ہو جاتا ہے۔ اس ماہ کا ہر کام نظام الاوقات کے عین مطابق ہونے لگتا ہے۔ افطاری کرنے کا ایک سنہرا نظم ہوتا ہے کہ اذان مغرب سے قبل مختلف النوع لذیذ پکوان سے پہلے دسترخوان کو سجا کر گھر کے چھوٹے بڑےسبھی افراد ایک ساتھ بارگاہ صمدیت مآب عزوجل میں دست بدعا ہوتے ہیں، ایک دوسرے کی بھلائی و بہتری مغفرت و بخشش کے لیے دعاکرتے ہیں۔ اذان مغرب سنتے ہی ایک دوسرے کا پاس و لحاظ کرتے ہوۓ بادب افطاری کرتے ہیں۔ اور سحری کا ضابطہ بھی بڑا حسین ہوتا ہے۔ گویا ہر کام معمول کے مطابق ہوتا ہے۔ صحت و سلامتی سے بھری ہوئی زندگی ہوتی ہے۔ جہاں نوع بنوع پر مغز شفاف صحت بخش غذا کھانے کو ملتی ہے، وہیں گناہ صغیرہ و کبیرہ سے بچے رہنے کے لیے روزہ جیسی عظیم نعمت رہتی ہے۔ اگر ماہ صیام میں نازل ہونے والی باران رحمت و بخشش کا انکشاف کردیا جاۓ تو بغیر روزے کے رہنا در کنار، لوگ تمنا کریں گے کہ کاش مجھے کبھی موت نہ آئے اور یوں ہی ماہ صیام کی سوغات لوٹتے رہیں۔ اس میں ثواب کا خزانہ ہے، روزہ دار کا سانس لینا بھی ثواب، دیکھنا بھی ثواب، بولنا بھی ثواب، سننا بھی ثواب، سونا بھی ثواب، جاگنا بھی ثواب، چلنا پھرنا بھی ثواب نیز نماز، صدقات، فطرات، عطیات، زکات، افطار کرنا و کرانا ثواب گویا اس کے ہر آن ہر لمحہ ہر ساعت میں ثواب ہی ثواب ہے اور یہی حصول رضاۓ الہی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئیے کہ اس ماہ کی تعظیم و تکریم بجالاۓ۔ احکام خدا وندی کو اپنا سرمایۂ حیات (مستعار) سمجھے۔ اسی میں دونوں جہاں کی بھلائی مضمر ہے۔ یہ کیسے زیبا دے سکتا ہے ایک مسلمان کو کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہے (کہلاۓ) اور ماہ رمضان میں (کھلم کھلا) سر عام اسلام کی توہین و بے حرمتی کرتا ہوا پھرے۔ لیکن دور حاضر کے مسلمان کو اس کیفیت میں بکثرت دیکھا جا سکتا ہے۔ واللہ اگر تم اپنی اس نازیبا حرکتوں سے باز نہ آۓ تو غضب الٰہی کے مستحق ہوگے اور پھر تمہارا ٹھکانہ نار جہنم ہوگا۔ جو قطعی اسے مومن کے لیے نہیں بنایا گیا۔ بل کہ نعیم جنت تمہاری خاطر کب سے اپنی باہیں پھیلائے ہوئے ہے۔ تو اے لوگو! ابھی وقت ہے اپنی سابقہ غلط روش سے منازل کا بعد مت بڑھاؤ۔ بل کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی رضا جوئی کا سامان مہیا کرو، اور وہ بایں وقت سایہ فگن یہی ماہ مقدس رمضان کریم ہے اس کا احترام کرکے اپنی جہاں آباد کرلو۔ اس کی سوغات کو سوہان جان سمجھو۔ اور مکمل انہماک شوق و ذوق کے ساتھ عبادت و ریاضت میں لگ جاؤ۔ یہ رمضان کریم ہے اس کی شان بڑی عظیم ہے، اس کی آن بڑی لطیف ہے، اس کی بان بڑی نرالی ہے۔ گویا اس کی آن بان شان مسلمانوں کے لیے سفینۂ بخشش ہے۔ تو اس سفینے کو نیکیوں کے ذریعہ نہایت مستحکم بناؤ ناکہ آلۂ معصیت سے اس میں سوراخ بناؤ۔

مدارس و مکاتب کی ضرورت و اہمیت، ازقلم:محمدشمیم احمدنوری مصباحی!

مدارس و مکاتب کی ضرورت و اہمیت

ازقلم:محمدشمیم احمدنوری مصباحی!
ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

     الحمدللّٰہ ! پورے ہندوستان میں مدارس و مکاتب کا جال پھیلا ہوا ہے، مشرقی ہندوستان ہو یا مغربی، ہر خطے میں مسلمان بچوں کی زبانوں سے “قال اللّٰه وقال الرّسول” کے نغمے بلند ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہندوستان کی سرزمین پر برسوں سے جاری و ساری ہے، یہ انہی مدارس و مکاتب کا فیضان ہے کہ آج ہم آزادی کی کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں، اگر مدارس کے علما نے اپنی درس گاہوں سے نکل کر رسم شبیری نہ ادا کی ہوتی تو ہندوستان کا حال کچھ اور ہوتا، دینی مدرسوں کے علما و فضلا نے نہ صرف ہندوستان کی کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کیا بلکہ باشندگان ہند کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد بھی فرمائی

اور وہ بچے جو غریبی کی وجہ سے کچھ بھی تعلیم حاصل نہ کر سکتے تھے ان کے لیے بھی تعلیم کا بندوبست کیا، ہندوستان میں غریبی کی زندگی بسر کرنے والوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہی ہے اس لیے یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان مدارس ومکاتب سے غریب مسلم طلبہ نے زیادہ استفادہ کیا جہاں انہیں نہ صرف یہ کہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا گیا بلکہ ان غریب و نادار طلبہ کے لیے کھانے، پینے، رہنے، سہنے اور علاج و معالجہ کا بھی انتظام کیا گیا، اس کی واضح مثال مغربی راجستھان کی عظیم تعلیمی و تربیتی درس گاہ ” دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف” اور اس جیسی دوسری درس گاہیں ہیں-
مسجد اللّٰہ کا گھر ہے اور مدرسہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کا، چناں چہ ہر مومن مسجد میں اپنا سر اپنے رب کی بارگاہ میں جھکا کر بندگی کا حق ادا کرتا ہے اور مدرسہ میں خدا کے گھر جانے اور سر جھکانے کا طریقہ سیکھتا ہے یہ دونوں اسلام کی شان اور اسلام کی عظمت کے نشان ہیں-
دینی مدارس ومکاتب آج کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ تقریبا ساڑھے چودہ سو برس پہلے اسلام کے پیغمبر حضور نبئِ رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے مسجد نبوی کے باہر ایک چبوترہ پر بیٹھ کر اصحاب صفہ دین کی معلومات حاصل کرتے تھے یہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کا پہلا مدرسہ تھا جو آج بھی مسجد نبوی کے اندر چبوترہ کی شکل میں قائم ہے-
مسجد نبوی شریف کے مقدس ننھے سےچبوترہ سے علوم وافکار کا جو سوتا پھوٹا تھا پوری دنیا اب تک اس کے آبشار سے سرشار ہو رہی ہے ہے- یہ مدارس و مکاتب اسی سمندر کے نہر کی بل کھاتی لہریں ہیں، اسی وجہ سے ان کی ایک الگ دنیا ہے، الگ فضا ہے، الگ شان ہے، الگ پہچان ہے،اور الگ تاثیر وتاثّر ہے-
جب بھی انسانی آبادی بے چارگی کا شکار ہوئی ہے تو مدارس اسلامیہ نے تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے اور ایسی ایسی نادرالوجود ہستیاں قوم وملت کے حوالے کی ہیں کہ ان کے دم قدم کی برکتوں سے صحرا میں بھی پھول کھل اٹھے وہ چاہے امام اعظم ابو حنیفہ ہوں یا شیخ عبدالقادر جیلانی، امام شافعی ہوں یا امام مالک وامام حنبل،خواجہ غریب نواز ہوں، یا رومی،سعدی،رازی وغزالی(علیہم الرّحمہ) ۔
امام عشق ومحبت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی ہوں یا حضور صدرالافاضل ،حضور مفتی اعظم ہند ہوں یا حضور صدرالشریعہ، تاج الشریعہ حضرت علامہ اختر رضا ازہری نوراللہ مرقدہ ہوں یا شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں،بحرالعلوم ہوں یا محدّث کبیر،شارح بخاری حضرت مفتی محمّدشریف الحق امجدی ہوں یا حضور فقیہ ملّت علیہما الرّحمہ، حضور مفتئ اعظم راجستھان علّامہ مفتی محمّد اشفاق حسین نعیمی علیہ الرّحمہ ہوں یاخیر الاذکیا علامہ محمد احمد مصباحی،محقّق مسائل جدیدہ حضرت مفتی محمّدنظام الدّین صاحب رضوی مدّظلّہ العالی ہوں یا علاقۂ تھار کی ممتاز وعظیم دینی دانش گاہ “دارالعلوم انوار مصطفی سہلاؤ شریف” کے مہتمم و شیخ الحدیث نورالعلما،شیخ طریقت حضرت علامہ سید نوراللّٰہ شاہ بخاری یہ سبھی حضرات مدارس اسلامیہ کے ہی پروردہ وفیض یافتہ ہیں-
احادیث وتاریخ اورسیرت کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدرسالت میں مسجد نبوی کے چبوترہ کے علاوہ طلبہ کی تعلیم وتربیت کے لیے کوئی مخصوص شکل نہیں تھی بلکہ صحابۂ کرام خود ہی اپنی اولاد کو ضروریاتِ دین سکھلا دیاکرتے تھے عرب کے مختلف قبیلوں سے آنے والے وفود کے ساتھ بچے بھی ہوتے تھے جو خدمت نبوی میں قیام کر کے علم دین حاصل کرتے تھے اور ان کےکھانے پینے کابندوبست مقامی صحابۂ کرام کیا کرتے تھے، جس میں انہوں نے بے مثال ایثار وبے لوثی کا ثبوت دیا- (حیاۃالصحابہ جلد /۱، باب النصرة)۔
پھر عہدِ صحابہ میں حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں سب سے پہلے بچوں کی تعلیم کے لیے مکتب جاری کیے اور معلمین کے لئے ایک رقم بطور وظیفہ کے مقرر کردی- (معلّیٰ ابن حزم جلد/ ۸ صفحہ/۱۹۵)۔
جب اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے لگا تو خلیفۂ ثانی نے مزید اجراءِ مکاتب کا حکم دیا اور اپنے ماتحت عمال وامرا کو یہ فرمان جاری کردیا کہ ” تم لوگوں کو قرآن کی تعلیم پر وظیفہ دو”-( کتاب الاموال،صفحہ/۲۲۱)۔
دینی تعلیم کی ضرورت و اہمیت ہی کے پیش نظر حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ ” تین چیزیں لوگوں کے لیے ضروری ہیں!
{۱}حاکم وامیر: ورنہ لوگ ایک دوسرے سے برسرپیکار ہو جائیں گے- {۲} مصحف: یعنی قرآن کی خریدوفروخت، ورنہ کتاب اللّٰہ کا پڑھنا پڑھانا بند ہوجائے گا-
۔{۳} اور تیسری بات یہ ہے کہ عوام النّاس کی اولاد کو تعلیم دینے کے لیے ایسا معلّم ضروری ہے جو اجرت لے، ورنہ لوگ جاھل رہ جائیں گے- (تربیت الاولاد فی الاسلام ،جلد/۱صفحہ/۲۹۱)۔
بلاشبہ دور حاضر میں مدارس و مکاتب کی سخت ضرورت ہے، یہی مدارس ومکاتب ہیں کہ جہاں کی خاک سے انسان بنائے جاتے ہیں- وہ طلبہ جنہیں صحیح معنوں میں بولنے تک نہ آتاتھا تھا، مدارس نے انہیں بولنے کا شعور بخشا، چلنے پھرنے اوراُٹھنے بیٹھنے کے آداب سکھائے اور برائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے اور اُن کا خاتمہ کرنے کے گر بتائے،اسی لیے توکسی شاعر نے کہا ہے

یہ مدرسہ ہے تیرا میکدہ نہیں ساقی
یہاں کی خاک سےانساں بنائےجاتے ہیں
مذکورہ شعر بلاشبہ مدارس کی اہمیت و افادیت اور مدارس کے مقصد قیام کو اجاگر کر رہا ہے، آج سے کئی صدیاں پہلے مدارس کا قیام عمل میں آیا اور ان خرقہ پوشوں کا مقصد گلشن محمدی کو سرسبز و شاداب رکھنا تھا، دور حاضر میں بھی مدارس کے قیام کا مقصد پیغامِ خداوندی و فرمان نبوی کو فروغ دے کر شجر اسلام کی آبیاری کرنا ہے تاکہ علوم مصطفویہ کے نور سے ہر گھر روشن و منور ہوجائے- انہی مدارس ومکاتب سے انسان سلیقۂ زندگی پاتا ہے -قوم وملّت کے ایمان وعقائد کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگرمدارس و مکاتب نہ ہوں تو کما حقہ جلالِ کبریائی کا غلغلہ نہ ہو، مدارس کا وجود نہ ہو تو حق و باطل میں امتیاز مشکل ہے، یہیں سے انسان تاریکی سے نکل کر روشنی پاتا ہے- جب انسانیت ہلاکت کے گدھے میں گرنے لگتی ہے تو یہ مدارس ہی ہیں جن کے فارغین علما ان گرنے والوں کو ہلاکت سے بچاتے اور وادئیِ ظلمت سے نکال کر نور و ہدایت کی بزم گاہ میں لاکھڑاکرتے ہیں-
مدارسِ اسلامیہ ملک میں دینی و عصری علوم کے رواج اور تعلیم اور پڑھائی کی شرح میں بے پناہ اضافہ کر رہی ہیں، اگر یہ مدارس و مکاتب بند ہو جائیں تو ان لاکھوں نونہالانِ ملّت کی تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری حکومت کے سرآ پڑے گی اور حکومت اربوں روپیہ خرچ کرنے کے بعد بھی اتنےمہذّب،پُرسکون اور مفید ادارے نہیں چلاسکتی گویا یہ مدارس ملک میں تعلیمی شرح کے اضافہ کے ساتھ ہر سال اربوں روپیہ کا مالی فائدہ بھی کر رہے ہیں، سیاست کے کارندوں کو شاید اس کا احساس بھی نہیں ہے-
ان مدارس کا ملک کی اصلاح و ترقی میں ایک نمایاں کردار یہ ہے کہ حکومت ہر سال عوام کی اصلاح کے لیے نہ جانے کتنے قانون بناتی ہے، کتنے لوگوں کو صرف اس مقصد کے لیے تنخواہ دیتی ہے کہ شراب نوشی ختم ہو، نشہ آور اوربری چیزوں کے استعمال کا سلسلہ بند ہو ،قتل و غارت گری کی جگہ امن وآشتی آئے،چوری اوررشوت کا جنازہ نکالا جائے ، زنا کاری اور بدکاری پر کنٹرول ہو، فسادات کا سلسلہ رک جائے، ملک میں تعلیم عام ہو لیکن ہزار کوششوں کے باوجود جوں جوں دوا کی جارہی ہے مرض بڑھتا جارہا ہے، جب کی یہ تمام کام حکومت کے کسی تعاون اور تحریک کے بغیر علمائے کرام ملک بھر میں پورے ذوق و شوق کے ساتھ انجام دے رہے ہیں مسجدوں میں، دینی جلسوں میں ،مدارس کی کانفرنسوں میں عام طور پر علماء کے خطابات کے یہی موضوعات ہوتے ہیں اس کے اثرات مسلم معاشرے میں آسمان کے ستاروں کی طرح دیکھے جاسکتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مدارس کے ارباب نظم و نسق اور مدرسین کو حکومتیں قومی اعزازات دیتیں اور مدارس کے وجود کو اپنے ملک کے لیے قابل افتخار سمجھتیں مگر افسوس صد افسوس! ایسا نہیں ہوسکا بلکہ اس کے برخلاف انہیں ملک و ملت کے لیے خطرہ کا نشان اور دہشت گردی کا اڈّہ سمجھاجانے لگا-(مدارس اسلامیہ تاریخ وحقائق کے اجالے میں صفحہ/۵۴،۵۳)۔
صرف انہی باتوں پر بس نہیں کیا گیا بلکہ مدارس پر اس طرح کے اور بھی بہت سے بے بنیاد الزامات لگائے گئے مثلا یہ کہ —-” مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں”—-” مدارس میں غیر ملکی ایجنٹ تیار کیے جاتے ہیں”—-” مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے”—-” مدارس میں دقیانوسیت کو فروغ دیا جاتا ہے”—-” مدارس میں دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے”—- اور “مدارس کے فارغین سماج کے کسی طبقہ کے لیے موزوں نہیں ہوتے ہیں”—- وغیرہ وغیرہ
جب کی حقیقت میں معاملہ اس کا بالکل ہی برعکس واُلٹا ہے یعنی مدارس میں قتل و غارت گری کے بجائے بلاتفریقِ مذہب وملت انسانوں کے تحفظ اور بقائے انسانیت کی تعلیم دی جاتی ہے مدارس میں دقیانوسیت نہیں بلکہ دین و مذہب پر کاربند ہونے کا درس دیا جاتا ہے مدارس میں بغض و عداوت اور دشمنی نہیں بلکہ الفت و محبت کا سبق سکھایا جاتا ہے مدارس میں غیر ملکی ایجنٹ نہیں بلکہ محب وطن شہری بنایا جاتا ہے-
مدارسِ اسلامیہ پر جو اس طرح کےغلط اور بےبنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں بلاشبہ یہ سب کے سب غلط ہیں ،اس لیے کہ مدارس اسلامیہ سے فارغ ہونے والے علماء ملک و معاشرہ کی اصلاح کو اپنی دینی اور ملی ذمہ داری سمجھتے ہیں، امن و امان کو بحال رکھنا ان کی تربیت کا ایک حصہ ہوتا ہے، وہ اپنی تہذیب و ثقافت اور دینی فکرو بصیرت سے شعوری اور عملی طور پر ملک کے گوشے گوشے میں صلاح و فلاح کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ “مدارس اسلامیہ دہشت گردی کے اڈے نہیں بلکہ فروغ علم کے اہم مراکز اور ملک کی تعمیر وترقی کی تحریک ہیں”……اللّٰہ تعالیٰ مدارس اسلامیہ کی حفاظت وصیانت فرمائے- آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم

فدیہ کی رقم کہاں صرف کی جاۓ؟ کتبـــــــــــــہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری

مفتی صاحب السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ روزہ کے فدیہ کی رقم کہاں صرف کی جاۓ تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
الجواب بعون الملک الوھاب۔
صورت مسؤلہ میں فدیہ  اور زکاۃ الگ الگ چیز ہیں، البتہ ان کے مصارف ایک ہی ہیں، جو زکاۃ کے مصارف ہیں وہی فدیہ کے مصارف ہیں، یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور  اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا مال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچے۔
زکاۃ اور فدیہ دونوں پر صدقہ واجبہ کا اطلاق ہوتاہے، جب کہ مطلقاً صدقے سے مراد عموماً صدقہ نافلہ ہوتاہے، صدقہ نافلہ اور واجبہ کے مصارف میں یہ فرق ہے کہ صدقہ واجبہ مستحقِ زکاۃ کو دینا واجب ہے، جب کہ صدقہ نافلہ مستحق و غیر مستحق یہاں تک کہ مال دار کو بھی دیا جاسکتا ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ومصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزكاة.
[ الفتاویٰ الهندیة، الباب الثامن في صدقة الفطر، 1/194، ط: مکتبة رشیدیة۔والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب


کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس

المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 6/رمضان المبارک 1443