WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

خدا کا انعام اور عید سعید۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

خاتم النبیین ، حبیب خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ کے predecessor تھے روح اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے just پہلے جو نبی تشریف لائے تھے ان کا نام ہے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت نے بھی عید منائی تھی۔ لیکن عید کیوں منائی تھی؟ کچھ تو سبب ہوگا ۔کوئی خاص وجہ تو ہوگی۔ ضرور خوشی کے کچھ اسباب ہونگے۔کیونکہ عید کے معنی ہی خوشی کے ہیں ۔ عید ، عوائد سے مشتق ہے اور عوائد کے معنی ہیں منافع کے۔ گویا انسان عید اس وقت مناتا ہے جب اس کو کوئی اہم نفع ملے یا فائدہ ملے۔
تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کی امت کو کون سے فائدے ملے کہ انھوں نے عید منائی؟

کتابوں میں مذکور واقعہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواریوں نے اپنے رسول عیسیٰ علیہ السلام سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ خدا سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لیے آسمان سے خوان نعمت نازل فرمائے تاکہ ہماری بھوک بھی مٹ جاۓ اور یہ ثابت بھی ہوجائے کہ آپ نبوت اور رسالت کے معاملے میں سچے ہیں اور ہم بنی اسرائیل کے لوگوں کے سامنے دلیل کے ساتھ خدا کی توحید اور آپ کی رسالت کی تبلیغ کر سکیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خدا سے دعا فرمائی:
اے اللہ ، اے ہمارے رب ، ہم پر آسمان سے ایک خوان نعمت اتار جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید ہوجائے۔

قادر مطلق رب تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معجزہ عطا فرمایا کہ جب بھوک لگتی تو زمین کی طرف ہاتھ بڑھادیتے ، اپنے اور اپنے حواریوں کے لئے روٹی نکال لیتے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک بار ایسا بھی ہوا کہ ان حواریوں کے ساتھ پانچ ہزار نوجوان چلے اور سب نے عیسیٰ علیہ السلام سے خوان نعمت کے نزول کی درخواست کی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان سب کی یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر خوان نعمت اتارا ۔سب نے مل کر کھایا یہاں تک کہ سب شکم سیر ہوگیے۔ عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ دیکھ کر سب کے سب ایمان لے آئے۔ اس طرح عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے عید ہوگئی۔ گویا عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے اللہ کی طرف سے خوان نعمت کا اترنا عید / خوشی کا سبب بنا ۔

آنے والا یکم شوال بھی امت محمدی کے لیے عید ہے۔سارے ممالک میں ، سارے بر اعظموں میں بلکہ ساری دنیا میں یکم شوال کو مسلمان عید منائیں گے، نئے کپڑے پہنینگے، عطر لگائینگے، عید گاہ میں اجتماعی طور پر دو رکعات کی نماز پڑھیں گے، گلے مل مل‌ کر ایک دوسرے کو مبارکبادیاں اور تہنیتیں پیش کرینگے۔آخر کون سی خوشی ہے مسلمانوں کے لیے؟ کیا آسمان سے کوئی خوان نعمت اتارا گیا ہے؟ کیا مسلمانوں کو بے بہا دولتیں مل گئی ہیں ؟ کیا مسلمانوں کو کسی جنگ میں کامیابی مل گئی ہے؟ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔اس روز ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔پھر بھی مسلمان عید کیوں منارہے ہیں ؟ اس کا جواب جاننے کے لیے آئیے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کرتے ہیں ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہ رمضان میں روزے رکھے ، عید الفطر کی رات میں پورا پورا اجر عطا فرما دیتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ شب عید الفطر کا نام شب جائزہ / انعام کی رات رکھا گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث مروی ہے کہ حضور نے فرمایا جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے اور لوگ عید گاہ کی طرف جاتے ہیں تو حق تعالیٰ ان پر توجہ فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے اے میرے بندو ! تم نے میرے لیے روزے رکھے ، میرے لیے نمازیں پڑھیں اب تم اپنے گھروں کو اس حال میں جاؤ کہ تم بخش دیے گئے ہو۔

تو اب سوچیے ایک مسلمان کے لئے اس بڑھ کر مسرت و شادمانی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ روزے رکھنے کا پورا اجر عطا فرمائے،رب کریم مسلمانوں کے گناہوں کو بخش دے، بخشش کا پروانہ عطا فرمائے۔مسلمانون کے لیے سب سے بڑی نعمت تو یہی ہے کہ رب خود فرمائے کہ اے میرے بندو ! جاؤ تمھاری بخشش ہوگئی‌ ۔

مسلمانوں کے لیے آسمان سے کوئی خوان نعمت نہیں اترا بلکہ اللہ کی طرف بخشش کا مژدہء جانفزا آیا۔
مسلمانوں کے لیے کوئی materialistic چیز نہیں آئی، بلکہ روحانی سکون کا سامان نعمت لازوال بن کر آیا ۔کسی اور امت کے لیے خوان نعمت ایک بار آیا یا چند بار آیا ہوگا ، لیکن امت محمدی کے لیے شب جائزہ اور عید سعید کا دن ہر سال آتا ہے اور انعام بخشش گناہ لیکے آتا ہے۔اسی لیے اللہ فرماتا ہے:
فبای آلاء ربکما تکذبان
تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاوگے؟
اس سے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیکر رحمت ہیں اور اللہ تعالیٰ بہت بڑا رحمان و رحیم‌ ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے ایک جلیل القدر پیغمبر تشریف لائے تھے جن کا نام ہے کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام۔آپ کا مقابلہ فرعون اور اس کے جادوگر کے ساتھ تھا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو مرعوب کرنے کے لیے فرعون کے ٧٣ ساحروں نے اپنی لاٹھیوں کو بظاھر سانپ بنا دیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ جادو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کی قوم مرعوب ہوجائے اور راہ حق سے بھٹک جائے ، موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنی لاٹھی زمین پر پھینک دی تو لاٹھی کی جگہ ایک اژدہا نمودار ہوا اور اس نے سارے سانپوں کو یکبارگی نگل لیا۔یہ دیکھ کر سارے جادوگر ایمان لے آئے۔موسی’ علیہ السلام کے سانپ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر فرعون کی قوم‌ میں بھگدڑ مچ گئی اور اس بھگدڑ کے نتیجے میں فرعون کی قوم کے پچاس ہزار آدمی مر گیے۔گویا حق کی جیت ہوئی اور باطل کو شکست فاش کا منھ دیکھنا پڑا ۔جس دن‌ یہ واقعہ رونما ہوا وہ دن امت موسیٰ کے لیے یوم زینت ہے، یوم عید ہے ۔

امت محمدی نے ماہ رمضان میں اپنے نفس کا قتل عام کیا ہے۔نفس امارہ کو مار مار کر یہ کہا ہے یا ایھا الذین ء آمنوا کتب علیکم الصیام ، رب کے حکم کے مطابق ، صرف رب کی رضا کے لیے ہمیں روزہ رکھنا ہے ، بھوکا بھی رہنا ہے اور پیاسا بھی رہنا ہے ۔ چاہے دھوپ کی تمازت پچاس یا ساٹھ ڈگری کیوں نہ ہوجائے ہمیں رب کی اطاعت میں صوم کی پابندی کرنی ہے۔ ہمیں نفس کو مار کر، نفس کو شکست فاش دےکر فتح و کامرانی سے سرفراز ہونا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماہ صیام میں مسلمانوں کے ایمان میں تازگی پیدا ہوجاتی ہے۔یوم عید الفطر میں باغ ایمان کو شگفتگی حاصل ہوتی ہے۔کیا ایسے major event میں مسلمان عید نہ منائیں ؟ سرور و انبساط سے سرشار نہ ہوں؟ ایک دوسرے کو مبارک بادیاں پیش نہ کریں ؟ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے عید گاہ میں اجتماعی طور پر دو رکعت نماز نہ پڑھیں ؟ ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ نہ کریں ؟

بیشک۔ رب کے انھی انعامات کی خوشی میں عید کے دن ہم عمدہ اور اچھے لباس پہنیں ، عطر سے خود کو معطر کریں ، عید گاہ میں دو رکعت نماز پڑھیں، خطبہ سنیں، نماز سے فارغ ہونے کے بعد ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ کریں ، ایک دوسرے کو تہنیتیں پیش کریں تاکہ عید مبارک کے کلمے سے فضا گونج اٹھے ۔ نماز سے فارغ ہوکر اجتماعی طور پر دعا مانگیں ، خاص طور پر ملک عزیز میں امن کی بحالی اور پوری دنیا میں مسلم قوم کے جان و مال و ایمان کی حفاظت کے لئے اپنے رب سے دعا کریں ۔خاص طور پر ان مواقع پر اللہ کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا۔ ان شا ء اللہ آپ اپنے گھروں کو مغفور ہوکر لوٹینگے اور خود کو بامراد اور کامیاب و کامران پائینگے۔۔

حامل نور راحت ہے عید سعید
رب عالم کی نعمت ہے عید سعید
“عینی “اعلان کرتے ہیں ہر سو ملک
یوم انعام و رحمت ہے عید سعید
(سید عینی)

باعث کیف و فرحت ہےعید سعید، ازقلم، سید خادم رسول عینی

عید سعید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حامل نور راحت ہے عید سعید
رب عالم کی نعمت ہے عید سعید

عید گاہوں کا کہتا ہے بڑھتا ہجوم
ہر مسلماں کی شوکت ہے عید سعید

ہر مسلماں کے چہرے پہ مسکان ہے
باعث کیف و فرحت ہے عید سعید

دوست ہوں یا کہ دشمن گلے ملتے ہیں
کس قدر وجہ الفت ہے عید سعید

خوب رکھو خیال اپنے احباب کا
روز احسان و نصرت ہے عید سعید

رحمت حق سے ہوتے ہیں ہم مالا مال
یوں ہماری سعادت ہے عید سعید

مغفرت سے نوازے گئے صائمین
بخشش رب کی ساعت ہے عید سعید

“عینی “اعلان کرتے ہیں ہر سو ملک
یوم انعام و رحمت ہے عید سعید
۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

آج کل جومدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ وصول کیاجاتاہےتوکیامدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ دینےسےدینےوالےکازکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟،، از مفتی احمد رضا منظری صاحب

سلامِ مسنون بعدہ مقصدِ گفتگویہ ہےکہ کیافرماتےہیں علماءکرام ومفتیانِ شرع متین ان مسائل کےبارےمیں۔1۔ آج کل جومدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ وصول کیاجاتاہےتوکیامدرسہ کےنام پرزکوٰة فطرہ دینےسےدینےوالےکازکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟2۔ جبکہ ہمیں معلوم ہےکہ وصول کرنےوالے%50 پرسینٹ یا%40 پرسینٹ لیتےہیں یااس سےکم زیادہ اس صورت میں زکوٰة فطرہ اداہوجائیگا۔؟3۔ وصول کرنےوالےظاہرہےوکیل ہیں اوروکیل ہیں تووکیل کی ملکیت نہیں اورجب ملکیت نہیں تووصول کیاہوامال کس کی ملکیت ہےاگرمدرسہ کی ملکیت ہےتوکیامدرسہ کےاندراس کےمالک بننےکی صلاحیت ہےکیااگرہےتوکس معنی کرہے۔؟4۔ حیلہ شرعی کی حقیقت کیاہےاوروکیل جوکہ اس وصول کردہ زکوٰة کےپیسےکامالک نہیں تواسےیہ اختیارکیسےحاصل ہےکہ وہ کسی دوسرےغریب کواس مال کامالک بنادے۔؟5۔ جوآج کےدورمیں حیلہ شرعی ہوتاہےکیاوہ حیلہ شرعی ہوجاتاہےجبکہ جس سےکرواتےہیں اس سےپہلےہی کہدیاجاتاہےکہ تجھےیہ رقم مدرسہ میں ہی دیناہےجبکہ جس سےحیلہ شرعی کروایاجائےاسےاختیارہےوہ چاہےجہاں خرچ کرےاگروہ مدرسہ میں نہ دےتواس پردواؤڈالاجاتاہےکیااس صورت میں حیلہ شرعی ہوجائیگا۔؟نورالحسن اشرفی جامی بریلی شریف👇

👆*الجواب بعون الملک الوھاب*۔صورت مستفسیرہ میں حکم یہ کہ سفیر کا فیصد پر چندہ کرنا اور رقم لینا جاٸز ہے۔فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی قدس سرہ “فتاوی فقیہ ملت میں رقمطراز ہیں کہ اگر سفیر فیصد پر چندہ کریں تواجیرمشترک قرار پاٸیں گے چاہے وہ پچیس یا تیس فیصد پرکریں یا چالیس اورپچاس فیصد پر کہ ان کی اجرت کام پر موقوف رہتی ہے جتناکریں گے اسی حساب سے اجرت کے حقدار ہونگے ۔علامہ حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : الاجرا ٕ علی ضربین مشترک وخاص فالاول من یعمل لالواحد کالخیاط ونحوہ اویعمل لہ عملاغیرموقت کان استجارہ للخیاطة فی بیتہ غیر مقیدة بمدة کان اجیرا مشترکا وان یعمل لغیرہ(درمختارمع شامی ،ج٦،ص٦٤)اور اگر ڈبل تنخواہ پر چندہ کریں تو اجیر خاص کی صورت ہے ۔سیدی سرکار اعلیحضرت امام احمدرضا محقق بریلوی نوراللہ مرقدہ غمزالعیون سے یوں تحریرفرماتے ہیں : استاجرہ لیصیدلہ اولیحطتب جاز ان وقت بان قال ھذالیوم او ھذا الشھر ویجب المسمی لان ھذا اجیر وحد وشرط صحتہ بیان الوقت وقدوجد(فتاوی رضویہ)لہٰذا ڈبل تنخواہ پر چندہ کرنے والوں کو ڈبل تنخواہ اور فیصد پر چندہ کرنے والوں کو جتنا فیصد مقرر ہوا اس اعتبار سے اجرت دینا جاٸز ہے چاہے وہ صدقہ واجبہ ہو یا نافلہ دونوں کی اجرت میں کوٸی فرق نہیں ۔بشرطیکہ خاص چندہ کے روپۓ میں سے اجرت دینا طے نہ کیا جاۓ ۔پھر چاہے اسی روپۓ سے دی جاۓ (بحوالہ فتاوی فقیہ ملت ،ج١،ص،٣٢٣/٣٢٤)اگر قاضی شرع یا اس کا قاٸم مقام زکوة وغیرہ کی رقم وصول کرنے پر مقرر کرے تو خاص مال زکوٰۃ سے بھی انہیں بلاتملیک بقدرضرورت حق المحنت دینا اور لینا جاٸز ہے اگرچہ وہ مالدار ہو۔فتاوی رضویہ شریف میں ہے:عامل زکوة جسے حاکم اسلام نےارباب اموال سے تحصیل زکوة پر مقرر کیا ہو جب وہ تحصیل کرے تو بحالت غنی بھی بقدراپنے عمل کے لےسکتا ہے اگرہاشمی نہ ہو (ج،٤،قدیم،ص٤٦٥،رضااکیڈمی ،ممبٸی)اوراگرمدرسہ والے بھیجیں جونہ قاضی ہوں نہ ہی اس کا قاٸم مقام توحیلہ شرعی کےبعد ہی اجرت دینا جائز ہے (فتاوی فقیہ ملت،ج١،ص ٣٢٤)اور فتای بحرالعلوم ج دوم 212 میں ہے کہ تملیک کی صحیح اور شرعی صورت یہی ہے کہ کسی سمجھ دار غریب کو صورت حال سے آگاہ کردیں کہ ہم تم کو اتنی رقم زکاۃ سے دیتے ہیں اور تم اپنی طرف سے مدرسہ میں دیدو۔اور اس طرح تم کو بھی پورا پورا ثواب ملے گا دین کا کام بھی چلے گا اور وہ روپیہ اسکو دے دیں وہ اپنے ہاتھ میں لیکر اپنی طرف سے مدرسہ میں دے” عالم گیری میں ہے ” من علیہ الزکاۃ اردا صرفھا الی بناۓ المسجد او القنطرۃ ان یتصدق بہ علی الفقرا ء یدفعونہ الی المتولی ثم المتولی الی ذالک “اھ۔لہذا اسطرح کرنے سے حیلہ شرعی ہوجاتا ہے جیسا کہ مذکور ہوا۔اھ۔*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب**کتبـــــــــــــہ**احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری* *مدرس**المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف*,24/رمضان المبارک 1443ھ۔

الوداع اے ماہ فرقاں الوداع، از: سید خادم رسول عینی

الوداع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوداع اے ماہ فرقاں الوداع
تجھ سے ہم رہتے تھے فرحاں الوداع

رحمت باری رہی تیرے سبب
بھولنا تجھ کو نہ آساں الوداع

سحری و افطار کے وہ وقت نور
تھا تو برکت کا گلستاں الوداع

شاعری کرتے تھے ماہ نور پر
کہہ رہے ہیں سب سخن داں الوداع

قدر والی رات تیری خاصیت
تجھ میں تھی تقدیس چسپاں الوداع

عرس حیدر بھی منایا دہر نے
تو ہے پیارا از دل و جاں الوداع

یاد فتح مکہ کی آءی ہمیں
سب مہینوں کا تو سلطاں الوداع

جمعہ تیرا آخری بھی خوب تھا
سید الایام تاباں الوداع

ضابطے کے ساتھ جینا ہے ہمیں
تو نے دی تعلیم خوباں الوداع

تیری ہی اک رات میں اے ماہ نور
ہوگیا نازل تھا قرآں‌ الوداع

تجھ سے صحت مل گءی بیماروں کو
تجھ پہ ہے ہر شخص قرباں الوداع

جلد آنا “عینی” کی تو زیست میں
لیکے پھر رحمت کی باراں الوداع
۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

لیلۃالقدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

برکتوں کا دیا لیلۃالقدر میں

خوب روشن ہوا لیلۃالقدر میں

رحمت عالمیں کا ہے یہ فیض خاص

گل فرحت ملا لیلۃالقدر میں

ہو مبارک مسلمان عالم تمھیں

قول رب آگیا لیلۃالقدر میں

ہوگیا ملک آزاد انگریز سے

رب کی ہے یہ عطا لیلۃالقدر میں

امت مسلمہ ہو سدا خیر سے

یا خدا دے جزا لیلۃالقدر میں

پھر سے ہندوستاں میں ہو اسلامی راج

مانگو ‌ایسی دعا لیلۃالقدر میں

شکر رب، “عینی” بخشش کا مژدہ حسیں

قدسیوں سے ملا لیلۃالقدر میں۔

۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

شبِ قدر.. از: سید خادم رسول عینی

شب قدر۔۔۔۔۔۔

براءے مسلماں ہے نعمت شب قدر

رضاءے خدا کی بشارت شب قدر

مسلمان کرتے ہیں مل کر عبادت

بڑھاتی ہے آپس میں ملت شب قدر

نزول کرم صبح تک ہورہا ہے

ہے اعلان امن و صیانت شب قدر

بڑے فخر اور ناز سے قدسیوں کو

دکھاتی ہے عابد کی عظمت شب قدر

کئی درجہ نیکی کا ہے اجر اس ‌رات

عبادت کو دیتی ہے برکت شب قدر

تری منزلت پر مکمل ہے سورہ

نہ کیوں پھر ہو تجھ سے عقیدت شب قدر

ہیں حامل تشکر کے احمد ضیاءی

کیا خوب قراں تلاوت شب قدر

اراکین مسجد کو بھی تہنیت ہو

کیا اہتمام جماعت شب قدر

کریں جستجو قدر کی رات “عینی “

ہے شان کریمی کی حکمت شب قدر۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

ماہ رمضان پر انگریزی نظم از: سید خادم رسول عینیMonth of Ramadan……

ماہ رمضان پر انگریزی نظم از: سید خادم رسول عینیMonth of Ramadan………………………….

For all of us benevolent month of Ramadan

, Full of divinity quotient month of Ramadan

Believer’s happiness and delight know no bounds

, To behold your moon the crescent month of Ramadan

This is one of the five pillars of great Islam,

To observe your fast incumbent month of Ramadan

The Spiritual rewards are getting multiplied,

In you sanctity is present month of Ramadan

The Quran was revealed on the day of Power,

In you this sacred day present month of Ramadan

You inculcate the discipline and self control,

You are truly an excellent month of Ramadan

The paradise is opened on your arrival,

“Aini” is also your adherent month of Ramadan…..

.By: Sayed khadime Rasul Aini

شب قدر کی اہمیت و فضیلت از:مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی!

از:مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی!
ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

یہ بات شریعت اسلامیہ کے مسلمات میں سے ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک نے ماہ و سال کا نظام بنایا اور کائنات میں مختلف اشیاء کو ایک دوسرے کے مقابلے میں شرف و فضیلت سے بہرہ ور کیا پھر عالم دنیا کے ہر ایک شعبہ کو آیت کریمہ ” فضلنا بعضھم علیٰ بعض ” کا مصداق بنایا- چنانچہ بعض مہینوں کو بعض پر اور بعض ایام کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اسی طرح بعض راتوں کو بعض راتوں پر فضیلت اور برتری حاصل ہے جس سے کسی کو بھی انکار ممکن نہیں، بقول حضرت امام غزالی “سال میں 15 راتیں خیر کی تجارت گاہیں ہیں اور طالب آخرت تاجر ہے، اس لیے آخرت کے طالبین کو ان راتوں میں غافل نہیں رہنا چاہئے ورنہ نقصان ہوگا” انہیں 15 راتوں میں سے ایک مبارک و مسعود رات “شب قدر” بھی ہے جو اللہ رب العزت کی رحمتوں کا خزانہ اور برکتوں کا گنجینہ ہے اور کم از کم ایسی 30 ‘ہزار راتوں سے بہتر ہے جن میں شب قدر نہ ہو-
شب قدرست طےشدہ نامہ ہجر
سلام فیه حتی مطلع الفجر

اور تو اور اس رات کو تقدیر ساز رات بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اسی رات میں قرآن مجید جیسی تقدیر ساز کتاب نازل ہوئی بقول شاعر

کتاب ہدیٰ کی یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہوئی قوموں کی تقدیر دیکھی

شب قدر کی اہمیت: رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے،جو بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل رات ہے۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں،جس شخص کی یہ ایک رات عبادت میں گذری گویا اس نےتراسی برس چار ماہ کا زمانہ عبادت میں گزار دیا اور تراسی برس کا زمانہ کم از کم ہے کیونکہ ’’خیر من الف شھر‘‘ کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زائد اجر عطا فرمانا چاہے گا،عطا فرما دے گا۔ اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔
اگر دنیا کے کسی سوداگر کو یہ پتہ چل جائے کہ ہمارے قریبی شہر میں فلاں مہینہ اور تاریخ کو ایک ایسا میلہ لگنے والا ہے جس میں اتنی آمدنی ہوگی کہ ایک روپیہ کی قیمت ہزار گنا بڑھ جائے گی اور تجارت میں غیر معمولی نفع ہوگا تو کون احمق ہوگا جو اس زریں موقع کو ہاتھ سے جانے دےگا؟ اور اس سے فائدہ اٹھائے بغیر یوں ہی ضائع کردےگا؟ بلکہ عقلمند شخص وہی ہوگا جو اس اسکیم سے بھرپور نفع اٹھائے اور مستقبل کے لیے ذخیرہ اندوزی کی فکر کرے،بلکہ بتانے والے نے اگر تاریخ نہ بھی بتائی ہو تو کسی نہ کسی طرح وہ تاریخ کاپتہ لگانے کی ہر ممکن کوشش کرےگا اور اگر تاریخ میں کچھ شبہ رہ جائے تواحتیاطاً کئی دن پہلے اس جگہ پہنچ کر پڑاؤ ڈال دےگا-ٹھیک یہی حال اخیر عشرے کی طاق راتوں اور بالخصوص شب قدر کا ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ کی رحمتیں اور مغفرتیں اپنے عروج پرہوتی ہیں،کوشش کرنے والے اپنی عبادت وریاضت اور اخلاص وطاعت کے ذریعہ حتی المقدور دامن مراد کو بھرلیتے ہیں، جب کہ غافل ولاپرواہ لوگ اس بے پایاں فضل وانعام کے باوجود محروم ونامراد ہوجاتے ہیں،غرض شب قدر بڑی برکتوں اور رحمتوں کی رات ہے،یہ آسمانوں پر فرشتوں کے لیے عید کی رات ہے اور زمین پر انسانیت کے لیے معراج کمال کے حصول کی رات ہے،اس میں اللّٰہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے اتھاہ سمندر پُرجوش ہوتے ہیں، پوری رات میں رحمت الٰہی کی برسات اور خیرو مغفرت کا نزول ہوتا رہتاہے، اطمینان وسکون کی خنک ہواؤں کے جھونکے مشام جاں کو معطر کرتے ہیں،اس رات میں مردہ دلوں کو زندگی عطاکی جاتی ہے اور روحوں کی تاریک دنیا کو انوار وتجلیات سے جگمگادیا جاتا ہےاور جبرئیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں نازل ہوتے ہیں پھر شب بیداروں کو ان کاسلام ملتا ہےاور شیطانی القاء کی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں اور شیاطین کے ہرقسم کے داؤ پیچ اور تگ ودو پر پابندی لگا دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں شب بھر غیر معمولی روحانی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے،پھر کسی بھی صاحب خیر کو محروم نہیں کیا جاتا ہے-اس لیے اگر کوئی بندہ شب قدر کی جستجو میں کامیاب ہوجائے تو اس ایک رات میں اللّٰہ تعالیٰ کے قرب کی وہ اتنی منزلیں طے کرسکتا ہے جتنی ہزاروں راتوں میں نہیں کرسکتا ہے-
شب قدر کو شب قدر کہنے کی وجہ:
1:امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قدر کا معنیٰ مرتبہ کے ہیں،چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے‘ اس لئے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ یعنی “شب قدر” کہا جاتا ہے۔(القرطبی‘ 20: 130)

2:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو تمام فیصلے فرما لیتا ہے اور چونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر و فیصلے کا قلمدان فرشتوں کو سونپا جاتا ہے،اس وجہ سے یہ ’’لیلۃ القدر‘‘ کہلاتی ہے۔(تفسیر القرطبی‘ 20: 130)

  1. اس رات کو قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ “اس رات میں اللہ تعالی نے اپنی قابل قدر کتاب،قابل قدر امت کے لئے صاحبِ قدر رسول کی معرفت نازل فرمائی،یہی وجہ ہے کہ اس سورہ میں لفظ قدر تین دفعہ آیا ہے”۔(تفسیر کبیر‘ 32: 28)

4:قدر کا معنیٰ تنگی کا بھی آتا ہے۔ اس معنیٰ کے لحاظ سے اسے قدر والی رات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔(تفسیر الخازن‘ 4: 395)

5:امام ابوبکر الوراق قدر کہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ رات عبادت کرنے والے کو صاحب قدر بنا دیتی ہے، اگرچہ وہ پہلے اس لائق نہیں تھا۔(تفسیر القرطبی‘ 20: 131)

یہ مبارک رات کیوں عطا ہوئی؟
اس کے حصول کا سب سے اہم سبب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس امت پر شفقت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غم خواری ہے۔ موطا امام مالک میں ہے کہ:جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ لوگوں کی عمروں پر آگاہ فرمایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟(پس) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرما دی،جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔(موطا امام مالک، 1: 319‘ کتاب الصیام،باب ماجاء فی لیلة القدر،رقم حدیث: 15)

اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا، جس نے ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کیا تھا۔

فعجب رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم لذلک و تمنی ذالک لامته فقال یا رب جعلت امتی أقصر الامم الاعمارا و أقلها أعمالا فاعطاه ﷲ تبارک و تعالیٰ لیلة القدر.(تفسیر الخازن‘ 4: 397)

تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر تعجب کا اظہار فرمایا اور اپنی امت کے لئے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا کی کہ اے میرے رب میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے تو اس پر اللہ تعالی نے شب قدر عنایت فرمائی۔

ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے سامنے مختلف انبیائے کرام حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام،حضرت حزقیل علیہ السلام، حضرت یوشع علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حضرات نے اسی اسی سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ان برگزیدہ ہستیوں پر رشک آیا۔

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
یا محمد عجبت امتک من عبادة هولاء النفر ثمانین سنة ‘ فقد انزل ﷲ علیک خیراً من ذلک ثم مقرأنا اَنْزَلْنَاهُ فِی لَیْلَة القَدْرِ فسر بذلک رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم.
اے نبی محترم! آپ کی امت کے لوگ ان سابقہ لوگوں کی اسی اسی سالہ عبادت پر رشک کر رہے ہیں تو آپ کے رب نے آپ کو اس سے بہتر عطا فرما دیا ہے اور پھر سورۃ القدر کی تلاوت کی، اس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس فرطِ مسرت سے چمک اٹھا۔(تفسیر القرطبی‘ 20: 132)

چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طفیل یہ کرم فرمایا کہ اس امت کو لیلۃ القدر عنایت فرما دی اور اس کی عبادت کو اسی نہیں بلکہ 83 سال چار ماہ سے بڑھ کر قرار دیا-

امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت:لیلۃ القدر فقط حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان ﷲ وهب لامتی لیلة القدر لم یعطها من کان قبلهم.(الدر المنثور‘ 6: 371)
یہ مقدس رات اللہ تعالی نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا۔

پہلی امتوں میں عابد کسے کہا جاتا تھا؟:مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ پہلی امتوں میں عابد اسے قرار دیا جاتا تھا ،جو ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ میں اس امت کو یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ ایک رات کی عبادت سے اس سے بہتر مقام حاصل کر لیتی ہے۔

قیل ان العابد کان فیما مضی یسمی عابداً حتی یعبد ﷲ الف شهر عبادة، فجعل ﷲ تعالی لامة محمد صلی الله علیه وآله وسلم عبادة لیلة خیر من الف شهر کانوا یعبدونها.
سابقہ امتوں کا عابد وہ شخص ہوتا جو ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا، لیکن اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اس امت کے افراد کو یہ شبِ قدر عطا کر دی،جس کی عبادت اس ہزار ماہ سے بہتر قرار دی گئی۔(فتح القدیر‘ 5: 472)

گویا یہ عظیم نعمت بھی سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کے صدقہ میں امت محمدیہ کو نصیب ہوئی ہے۔

فضیلتِ شب قدر:احادیث کی روشنی میں:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:جوشخص شبِ قدر میں ایمان و اخلاص کے ساتھ عبادت کرے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(بخاری،ج1ص626، حدیث:1901)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرّحمہ اِس حدیثِ پاک کی وضاحت میں لکھتے ہیں: رمضان میں روزوں کی برکت سے گناہ ِصغیرہ معاف ہوجاتے ہیں اور تراویح کی برکت سے گناہِ کبیرہ ہلکے پڑ جاتے ہیں اور شبِ قدر کی عبادت کی برکت سے درجے بڑھ جاتے ہیں۔(مراٰۃ المناجیح،ج3ص134)

علامہ عبد الرءوف مُناوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اِس حدیث کی وضاحت میں نقل کرتے ہیں کہ رمضان کے روزوں اور قیام کےذریعے  ہونے والی  مغفرت  تو ماہِ رمضان کے آخر میں ہوتی ہے جبکہ شب قدر میں قیام کے سبب  ہونے والی بخشش کومہینے کے اِختتام تک مؤخر نہیں کیا جاتا۔(فیض القدیر،ج6ص248،تحت الحدیث:8902ماخوذاً)
مذکورہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جہاں لیلۃ القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر، عبادت و طاعت کی تلقین کی گئی ہے، وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو، ریاکاری یا بدنیتی نہ ہو اور آئندہ عہد کرے کہ میں برائی کا ارتکاب نہیں کروں گا، چنانچہ اس شان کے ساتھ عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژِدۂ مغفرت بن کر آتی ہے۔

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان هذا الشهر قد حضرکم و فیه لیلة خیر من الف شهر من حرمها فقد حرم الخیر کله ولا یحرم خیرها الا حرم الخیر.

یہ جو ماہ تم پر آیا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے،جو ہزار ماہ سے افضل ہے،جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا وہ سارے خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعةً محروم ہو۔(سنن ابن ماجه: 20‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 1644)

ایسے شخص کی محرومی میں کیا شک ہو سکتاہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر بسر کر لیتا ہے تو اسی سال کی عبادت سے افضل عبادت کے لئے دس راتیں کیوں نہیں جاگ سکتا؟-

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اذا کان لیلة القدر نزل جبرائیل علیه السلام فی کبکة من الملئکة یصلون علی کل عبد قائم او قاعد یذکر ﷲ عزوجل.

شب قدر کو جبرائیل امین علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں اور ہر شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے، بیٹھے (یعنی کسی حال میں) اللہ کو یاد کر رہا ہو۔(شعب الایمان، 3: 343)

شبِ قدرکب ہوتی ہے؟
قارئین کرام: اللہ وحدہ لاشریک نے اپنی مَشِیَّت (مرضی)کے تَحت شَبِ قَدر کوپوشیدہ رکھا ہے۔ لہٰذا ہمیں یقین کےساتھ نہیں معلوم کہ شَبِ قَدر کون سی رات ہوتی ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: ”شَبِِ قَدْر کو رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔“ (بخاری،ج1ص661 ، حدیث: 2017) ”فیضانِ رمضان“ صفحہ199 پر ہے:اگرچہ بُزُرگانِ دین اور مُفَسِّرین و مُحدِّثین رَحِمَھُمُ اللہُ تعالیٰ علیہم اجمعین کا شبِ قَدْر کے تَعَیُّن میں اِختِلاف ہے، تاہَم بھاری اکثریَّت [اکثرصحابۂ کرام اور جمہور علماءِ کرام] کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستّائیسویں شَب ہی شَبِِ قَدْرہے۔ سیّدالْقُرَّاء حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک ستّائیسویں شبِ رَمَضان ہی ”شَبِِ قَدْر“ ہے۔ (مسلم،ص383،حدیث:762)
سیدالمفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی نظریہ ہے آپ نے اپنے اس نظریہ پر کئی دلائل پیش کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ “تنزل الملٰئکة والرّوح فیھا” میں “فیھا” (مراد:شب قدر ) سورۂ قدر کا ستائیسواں کلمہ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے- اور بعض علماء نے ستائیسویں شب میں شب قدر ہونے پر علم حساب سے بھی استدلال کیا ہے وہ اس طرح کہ لیلة القدر میں کل نو حروف ہیں اور سورۂ قدر میں لیلة القدر کا تذکرہ تین مرتبہ ہوا ہے، اب اگر ۹/ کو ۳/ میں ضرب دے دیا جائے تو نتیجہ ۲۷/ نکلے گا-

شب قدر کو مخفی کیوں رکھا گیا؟
اتنی اہم اور بابرکت رات کے مخفی ہونے کی متعدد حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

دیگر اہم مخفی امور مثلاً اسمِ اعظم‘ جمعہ کے روز قبولیت دعا کی گھڑی کی طرح اس رات کو بھی مخفی رکھا گیا۔
اگر اسے مخفی نہ رکھا جاتا تو عمل کی راہ مسدود ہو جاتی اور اسی رات کے عمل پر اکتفا کر لیا جاتا،ذوقِ عبادت میں دوام کی خاطر اس کو آشکار نہیں کیا گیا۔
اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کسی انسان کی وہ رات رہ جاتی تو شاید اس کے صدمے کا ازالہ ممکن نہ ہوتا۔
اللہ تعالیٰ کو چونکہ اپنے بندوں کا رات کے اوقات میں جاگنا اور بیدار رہنا محبوب ہے،اس لئے رات تعین نہ فرمائی،تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادت میں گزریں۔
عدمِ تعین کی وجہ سے گنہگاروں پر شفقت بھی ہے،کیونکہ اگر علم کے باوجود اس رات میں گناہ سرزد ہوتا تو اس سے لیلۃ القدر کی عظمت مجروح کرنے کا جرم بھی لکھا جاتا۔ (التفسیر الکبیر‘ 32: 28)

ایک جھگڑا علمِ شبِ قدر سے محرومی کا سبب بنا: ایک نہایت اہم وجہ اس کے مخفی کر دینے کی جھگڑا بھی ہے، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیاکہ آپ اس رات کی تعین کی بارے میں اپنی امت کو آگاہ فرما دیں کہ یہ فلاں رات ہے، لیکن دو آدمیوں کے جھگڑے کی وجہ سے بتلانے سے منع فرما دیا، روایت کے الفاظ یوں ہیں:خرج النبی صلی الله علیه وآله وسلم لیخبر بلیلة القدر، فتلاحی رجلان من المسلمین،فقال: خرجت لأخبرکم بلیلة القدر،فتلاحی فلاں و فلاں فرفعت-
ایک مرتبہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شب قدر کی تعین کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے، لیکن راستہ میں دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں شب قدر کے بارے میں اطلاع دینے آیا تھا،مگر فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے اس کی تعین اٹھا لی گئی۔(صحیح البخاری، 1: 271‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 1919)

اس روایت نے یہ بھی واضح کر دیا کہ لڑائی جھگڑے کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امت برکتوں اور سعادتوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ مذکورہ روایت سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ شاید اس کے بعد تعین شب قدر کا آپ کو علم نہ رہا۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں کیونکہ شارحین حدیث نے تصریح کر دی ہے کہ تعین کا علم جو اٹھا لیا گیا تھا تو صرف اسی ایک سال کی بات تھی، ہمیشہ کے لئے نہیں۔

امام بدر الدین عینی شرح بخاری میں رقمطراز ہیں:

فان قلت لما تقرر ان الذی ارتفع علم تعینها فی تلک السنة فهل اعلم النبی صلی الله علیه وآله وسلم بعد ذلک بتعینها؟ قلت روی عن ابن عینیه انه اعلم بعد ذلک بتعینیها.

اس سال تعین شب قدر کا علم اٹھا لیا گیا اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی تعین کا علم رہا یا نہ؟میں کہتا ہوں کہ حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ آپ کو اس کے تعین کا علم تھا-(عمدة القاری‘ 11: 138)

ہمارے نزدیک آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ صرف تعین کا علم ہے،بلکہ آپ بعض غلاموں کو اس پر آگاہ بھی فرماتے ہیں۔

شبِ قدر کے نوافل: فقیہ ابواللّیث رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: شبِ قد ر کی کم سے کم دو ، زیادہ سے زیادہ ہزار اور درمیانی تعداد 100رکعتیں ہیں،جن میں قراءت کی درميانی مقدار یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورهٔ قدر پھر تین بار سورۂ اخلاص  پڑھےاورہر دو رکعت پر سلام پھیر کر نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر دورد ِ پاک پڑھے۔(روح البیان،ج10ص483)

شبِ قدر کی دعا اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا،کرم کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں کو بھی معاف فرما دے۔( ترمذی،ج5ص306، حدیث:3524)

شبِ قدرِ مبیں کا نور دیکھے نوری بھی یارب
یہ حسرت لے کے تیرے در پہ یہ نوری غلام آیا

اللہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو شبِ قدر کی برکتیں عطا فرمائے۔
آمین-

کتاب ہدیٰ کی یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہوئی قوموں کی تقدیر دیکھی

شب قدر کی اہمیت: رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے،جو بہت

ایک دیوانی لڑکی کی سچی کہانی، مدینہ کی لگن اور ماں کی دعا🥰

اس کے گھر والے اسے دیوانی
کہتے تھے۔
وہ واقعی دیوانی تھی۔۔۔۔مدینے کی دیوانی
اسے بچپن سے ہی مدینےﷺ والے کا شہر دیکھنے کی تمنا تھی۔
اس کی خواہش تھی کہ وہ مسجد نبویﷺ میں ایک بار صفائی کی سعادت حاصل کرتی۔
گھر میں وہ جب بھی جھاڑو دیتی اس کے تصور میں مدینے کی گلیاں آجاتی تھیں۔
کبھی وہ کعبہ کے صحن میں بیٹھی ہوتی تھی تو کبھی گنبد خضرٰی کے سامنے ۔۔۔
اس کو یہ لگن یہ تڑپ بچپن سے ہی عطاہوگئی تھی۔
یہ تڑپ بھی ایک سعادت ہے جس کو نصیب ہوجاۓ وہ خوش نصیبوں میں آجاتاہے۔
یہ ایسی تڑپ ہے ہے جس میں سکون ہی سکون ہے۔۔۔۔
اسی لیے چھ سات سال کی عمر سے ہی اس نے اپنا جیب خرچ ایک ٹین میں جمع کرنا شروع کردیاتھا۔
گھر والوں کی طرف سے اسے جو پیسہ بھی ملتا۔۔۔۔وہ اسے ٹین میں ڈال دیتی۔
وہ ایک متوسط گھرانے سے تھی۔
اس لیے جیب خرچ کچھ خاص نہیں ملتاتھا۔
نور نام تھا اس کا۔۔۔۔
نور کے گھر والوں کو ایک چھ ماہ بعد پتہ چلا ۔۔۔کہہ
وہ عمرے کے لیے پیسے جمع کررہی ہے۔
اس نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی۔
ایک دن وہ اپنے جمع کیے پیسوں کو گن رہی تھی تو اس کی امی نے دیکھ لیا۔
بچی کے ہاتھ میں اتنے پیسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔

یہ پیسے کہاں سے لیے تم نے۔۔۔۔نور کی والدہ نے اس کے ہاتھ سے پیسے چھینتے ہوۓ سختی سے پوچھا۔
نور کو اپنی چھ ماہ کی محنت پہ پانی پھرتانظر آیا۔

امی ۔۔۔یہ مدینے کے ہیں ۔۔۔۔یہ نہ لیں آپ۔۔
نور نے اپنی والدہ سے التجاکی۔
مدینے کے ہیں۔۔۔؟؟؟ نور کی والدہ کو کچھ سمجھ نہ آیا۔
یہ کس نے دیے تمہیں۔؟؟؟چوری تونہیں کی۔؟؟؟ اس کی والدہ نے نور کے قریب بیٹھتے ہوۓ اس بار زرا نرمی سے پوچھا۔

نہیں امی ۔۔۔۔۔یہ میں نے جمع کیے ہیں ۔۔۔
نور نے فخر سے کہا۔
اس کے لہجے میں اب خوشی جھلک رہی تھی۔
نور نے اپنی والدہ کو ساری بات سمجھادی۔
ساری بات جان کر اس کی والدہ حیران رہ گئی۔
اسے فخر ہوا ۔۔۔کہہ
اس نے نور جیسی بیٹی کوجنم دیاہے۔
اتنی چھوٹی عمر میں اتنی تڑپ؟اتنی لگن کہ ملنے والے چند روپے بھی جمع کرنے شروع کردیے۔
بچوں کو کھانے پینے کالالچ ہوتاہے۔۔۔مگر
اس کو مدینہ دیکھنےکالالچ تھا۔
لالچ بری بلاہے۔۔۔مگر
ایسا لالچ سعادت ہوتاہے۔
نور کی والدہ نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور دل سے دعادی۔

بیٹی تیرے نصیب میں ہمیشہ مدینہ ہو۔

وقت گزرتارہا نور کی عمر کے ساتھ ساتھ اس کی جمع پونجی بھی بڑھتی رہی۔
بہت کچھ بدل گیا۔مگر
نور کا شوق نہ بدلا۔اس کی تڑپ اور محبت نہ بدلی۔
اس کا آج بھی وہی معمول تھا۔
گھر سے جو بھی ملتا ٹین میں ڈال دیتی۔
اس کے گھر والے بھی کبھی کبھار اس ڈبے میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتے تھے۔
نور کو منزل قریب آتی نظر آرہی تھی۔

یہ دوہزار پانچ کی بات ہے۔۔۔۔۔
ایک رات نور نے ٹین سے وہ سارے پیسے نکال کر گنے تو خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
بےاختیار اس نے نوٹوں کوچوم لیا اور اللہ کا شکرادا کیا۔
وہ اتنے ہوگئے تھے کہ
نور آسانی سے عمرہ کرسکتی تھی۔
وہ خود کو مکہ مدینے کی گلیوں میں چلتاپھرتادیکھ رہی تھی۔
اس کی آنکھوں کے سامنے بیت اللہ اور سبز گنبد آنے لگے۔
اس نے اپنے ابو سے بات کی اور ان کو اس بات پر آمادہ کیا۔کہہ
کسی بھی طرح کچھ پیسے بچاکروہ اس کے ساتھ عمرہ کرنے چلیں۔
اس کے والد نے نور سے وعدہ کیا کہ وہ دوچار ماہ تک بندوبست کرلینگے۔
نور کے لیے یہ دوچار ماہ دو چار صدیاں بن گئے۔
اس نے اپنا پاسپورٹ بنوالیا تھا۔
تین ماہ گزرگئے تھے۔
نور کے والد نے ساری تیاریاں مکمل کرلی تھیں۔
عین ممکن تھا پندرہ بیس دنوں تک باپ بیٹی عمرہ کے لیے روانہ ہوجاتے۔۔۔مگر
قسمت کو شاید یہ منظور نہیں تھا۔
اللہﷻ نے غفلت میں سوۓ ہوۓ ہم خطاکار انسانوں کو جگانے کے لیے زمین کو ہلادیا۔
دوہزار پانچ میں آنے والے زلزلے نے ہرطرف تباہی مچادی ۔
جس میں کشمیر کے کئی گاؤں شہروں کاتو نام ونشان ہی مٹ گیا۔
لوگ بےیارومددگار ہوگئے۔
نہ رہنے کو چھت رہی نہ کھانے کو کوئی سامان۔۔۔
بےشمار لوگ اپنوں سے بچھڑ گئے۔
امدادی کاروائیاں شروع ہوگئیں جس میں حکومت اور عوام نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔
پورے پاکستان سے لوگ اپنے ہم وطنوں کے دکھ کا مدوا کرنے امڈ پڑے۔
کھانے پینے کے سامان سمیعت پہننے اوڑھنے کو جو بھی میسر ہوا لیکر پہنچے۔

نور کو بھی اس حادثے کا علم ہوا تو اپنے ہم وطنوں کے دکھ پر وہ روپڑی۔
مدینے اور مدینے والے کی دیوانی ہو اور درد دل نہ ہو۔؟؟؟ یہ کیسے ہوسکتاتھا۔؟؟؟
نور نے اپنی تمام جمع پونجی زلزلہ زدگان کو عطیہ کردی۔
اس نے کہا تھا ۔۔۔۔کہہ
اس وقت ان پیسوں کی میرے لوگوں کوزیادہ ضرورت ہے عمرہ میں پھر کرلونگی۔
میرے ارد گرد لوگ بھوکے مررہے ہیں اور میں عمرہ کرنے چلی جاؤں تو بروز قیامت کہیں مجھ سے مدینے والےﷺ نے یہ کہ دیا۔۔۔کہہ
میری امت کھانے پانی کوترس رہی تھی توتم نے کیا کیا۔؟؟؟تو میرے پاس کیاجواب ہوگا۔؟؟؟
ٹھیک چھ ماہ بعد نور کا رشتہ آگیا۔
لڑکا سعودیہ میں اپنابزنس کرتاتھا ۔
چھان پھٹک کے بعد ہاں کردی گئی۔
لڑکے والے ایک ماہ بعد نکاح مانگ رہے تھے۔
نور کے گھر والوں کی اگرچہ کوئی خاص تیاری نہیں تھی مگر انہوں نے انکار نہیں کیا اور ایک ماہ بعد دن مقرر کردیا۔
شادی ہوگئی نور دلہن بن کر اپنے سسرال چلی گئی۔
شادی کے پندرہ دن بعد لڑکا واپس سعودیہ چلاگیا۔
اس نے نور سے کہاتھا۔کہہ
وہ اسے جلد اپنے پاس بلالےگا۔اور
دوماہ بعد نور سعودیہ جانے کے لیے جہاز میں بیٹھی تھی۔
یہ پاکستان سے ڈائریکٹ مدینے کی فلائٹ تھی۔
نور کا شوہر مستقل مدینے میں ہی رہتاتھا۔۔۔
وہیں اس کا کاروبار تھا ۔
ائیرپورٹ پہ نور کا شوہر اس کا انتظار کررہاتھا۔
نور نم آنکھوں سے مدینے کی پاک زمین پر کھڑی سوچ رہی تھی کہ کہیں یہ خواب تونہیں ۔؟؟؟
وہ جو مدینے کودیکھنے کی منتظر تھی۔
اسے مدینے کا مکین بنادیاگیاتھا۔
اپنی قسمت پررشک کرتی وہ گاڑی میں بیٹھی اور گھرجانے کی بجاۓ سیدھی مسجدنبویﷺ میں گئی۔
مسجد نبویﷺ پرنظرپڑتے ہی اس کی آنکھوں سے اشکوں کا سمندر بہہ نکلا۔
اس نے اپنے جوتے گاڑی میں ہی چھوڑدیے اور گنبد خضرٰی کے سامنے جاپہنچی۔
نور کے اس وقت کیا جذبات تھے وہی سمجھ سکتی تھی بس ۔۔۔۔
نماز اور شکرانے کے نفل پڑھ کر وہ گھر چلی گئی۔
اگلے ہی دن وہ اپنے شوہر کے ساتھ عمرہ کے لیے مکہ کی طرف رواں دواں تھی۔
پہاڑوں کو دیکھ کر وہ سوچ رہی تھی۔کہہ
یہ چودہ سوسال سے یہاں کھڑے ہیں ۔اور
کتنے خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے میرے نبیﷺ کو دیکھا ہوگا۔
کعبہ پرنظر پڑتے ہی اس کے ایک بار پھر وہی جذبات تھے ۔
وہ آنسوؤں اور سجدے کے زریعے اپنے رب کا شکر ادا کررہی تھی۔
جس نے اس کی لگن تڑپ اور محبت کو منزل بخشی تھی۔
سچ ہے۔۔۔۔۔
لگن سچی ہو تو منزل خود چل کر آپ کے پاس آتی ہے۔
مدینے کو دیکھنے کی خواہش مند وہاں کی مکین بن گئی تھی۔
اسے یاد ہی نہیں تھا کہ اس نے کتنے عمرے کیے ہیں۔
اس کا ہرخواب پورا ہوگیاتھا۔
وہ دیوانی تھی اور مدینے کی پاک گلیاں۔
اسے ماں نے دعا دی تھی۔۔۔
بیٹی تیرے نصیب میں ہمیشہ مدینہ ہو۔اور
وہ مدینے کی ہوکررہ گئی تھی۔
عمرے کے لیے بچپن سے جوڑے گئے پیسے مشکل وقت میں خلق خداﷻ کو دینے والی کو اللہﷻ کیسے مایوس کرسکتاتھا بھلا۔؟؟؟
اللہﷻ پاک ہم سب کو ایسی لگن اور محبت نصیب فرماۓ بار بار اپنے اور اپنے پیارے حبیبﷺ کے در کی حاضری نصیب کرے ۔۔۔آمین🙏🤲🏻 کاپی پیسٹ

اپلوڈ بحکم استاذ الشعراء حضرت قاری آفتاب عالم صفدر کیموری صاحب قبلہ

و

ماہرِ فکر و فن نازشِ علم و ادب حضرت علامہ مولانا آصف جمیل امجدی صاحب انٹیاتھوک

فضائل شب قدر اور نزول قرآن مجید، تحریر:محمد مقصود عالم قادری اتردیناج پور مغربی بنگال

فضائل شب قدر اور نزول قرآن مجید
تحریر:محمد مقصود عالم قادری اتردیناج پور مغربی بنگال

         ‏لیلۃ القدر وہ اعلی ترین اور مقدس رات ہے جس میں اللہ تعالی کے بے شمار رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے جس کے گوناگوں فضائل و مراتب قرآن و احادیث میں وارد ہوئے ہیں اس رات میں اللہ تعالی اپنے بندوں کی طرف خاص نظر کرم فرماتا ہے،اس رات میں وہ لوگ جو بیٹھ کر اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول ومصروف رہتے ہیں ان کے لیے حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور رحمت بھیجتے اور بخشش کی دعا کرتے ہیں،اس مبارک رات کی فضیلت کا اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس کی عظمت و فضیلت پر اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں پوری سورت نازل فرمادی فرمایا،

ترجمہ کنزالعرفان:
بیشک ہم نے اس قرآن کو شب ِقدر میں نازل کیا۔اور تجھے کیا معلوم کہ شب ِ قدرکیا ہے؟شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں ۔یہ رات صبح طلوع ہونے تک سلامتی ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور ﷺنے فرمایا جس نے لیلۃالقدر بیدار ہوکر گزاری اور اس میں دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالی سے بخشش طلب کی تو اللہ تعالی نے اسے بخش دیا، اسے اپنی رحمت میں جگہ دیتا ہے اور جبرئیل علیہ السلام نے اس پر اپنے پرپھیرے اور جس پر جبرئیل علیہ السلام نے اپنے پر پھیرے وہ جنت میں داخل ہوا (مکاشفۃ القلوب)
شب قدر نام رکھنے اور ہم کو کیوں عطا کی گئ،وجہ تسمیہ
شب قدر کو شب قدر اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس رات کو سال بھر کے احکام نافذ کئے جاتے ہیں اور ملائکہ کو سال بھر کے وظائف و خدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رات کی شرافت و قدر کے باعث اس کو شب قدر کہتے ہیں، اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں اعمال صالحہ مقبول ہوتے ہیں اور بارگاہ الہی میں ان کی قدر کی جاتی ہے، ان تمام وجوہات کی بنا پر اس کو شب قدر کہتے ہیں
(تفسیر خزائن العرفان)

       *کیوں عطاکی گئ*
    یہ مقدس رات امت محمدیہ ﷺکو خاص طور پر عطا کی گئی ہے باقی امتوں کو عطا نہیں کی گئی تھی 

اور اسلئے عطا کی گئ کہ نبی کریمﷺ نے امم گذشتہ کے ایک شخص کا ذکر فرمایا جو تمام رات عبادت کرتا اور پورا دن جہاد میں مصروف رہتا تھا اس طرح اس نے ہزار مہینے گزارے تھے مسلمانوں کو اس پر تعجب ہوا تو اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو یہ مبارک رات عطا فرمائ (تفسیر خزائن العرفان)
بنی اسرائل کے لوگوں کی عمریں بہت ہی زیادہ طویل ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے وہ زیادہ عبادت کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کو ایک ایسی رات عطا کی جو کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے تاکہ آپ کی امت بھی ان کے مقام و مرتبہ کو پہنچ سکے
اب اگر کوئ شخص اس مقدس ترین رات کو بھی بسترپر ،مبائل چلانے میں اور لہو لعب میں گزارے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کی بےشمار نعمتوں سے محروم رہے گا
نزول قرآن مجید
اللہ تعالی نے قرآن مجید کو شب قدر میں نازل کیا جس کی وجہ سے شب قدر کو ایک نمایاں مقام حاصل ہوا چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے بے (بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا)قرآن مجید کو تیس سال میں وقتا فوقتا نازل کیا گیا لیکن شب قدر میں قرآن مجید کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف یکبارگی اتارا گیا ،آج لوگ شب قدر کو پانے کے لیے انتظار کر رہے ہوتے ہیں لیکن صد افسوس جس کی وجہ سےشب قدر کو بےشمارفضیلتیں ملی اس قرآن کو چھوڑ رہے ہیں آج لوگ قرآن کی جگہ ناول کی کتابوں کو پڑھنا اور موبائل چلانا زیادہ پسند کرتے ہیں آج مسلمان قرآن کے حقوق کو پامال کررہے ہیں قرآن مجید کے حقوق یہ ہیں، (1)قرآن مجید پر ایمان رکھنا (2)اس کو سمجھنا (3)اس پر عمل کرنا(4) اس کی تلاوت کرنا(5) اس کی تبلیغ کرنا


 اللہ تعالی ہمیں قرآن مجید کے حقوق ادا کرنے کی  اور شب قدر میں خوب خوب عبادت کرنے کی توفیق عطافرماۓ 

آمین بجاہ النبی الامینﷺ