WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category جیسلمیر (راجستھان)

چمنستان بخاریہ کا ایک مہکتا پھول:سیدنوراللّٰہ شاہ بخاری!ازقلم:[قاری] نورمحمدقادری رضوی مہتمم:دارالعلوم رضائےمصطفیٰ جیٹھوائی روڈ،جیسلمیر [راجستھان]

محترم قارئین:

تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ جب جب باطل وناحق نے اپنا ناپاک سر بلند کرنے کی سعئِ ناتمام کی ہے تب تب ربّ لم یزل نے حق کو بلند وبالا رکھنے کے لیے اپنے کسی نیک بندۂ مومن کو پیدا فرما کر حق کی بلندی کا سہرا اس نیک بندے کے سر رکھا،حق وباطل کی یہ جنگ ماضی میں بھی تھی اور حال میں بھی ہے مگر ماضی میں باطل ہمیشہ کفر وشرک کے لبادے میں آیا ہے اور چودہویں صدی ہجری میں باطل اپنا اصلی لبادہ اتارکر اہل حق کا لباس وکردار قرآن وحدیث، جبہ ودستار، تسبیح ومصلّیٰ،کلمہ ونماز،تقریر وتبلیغ،ذکر وفکر کی صورت دیکھاکر عوام اہلسنت خصوصاً علاقۂ تھار کے بھولے بھالے خوش عقیدہ سنّی مسلمانوں کے ایمان پر حملہ کرنے کی ایک نئی چال چل کر سامنے آیااور کئی خوش عقیدہ سنّی مسلمانوں کے ایمان کو چُرا کر باطل کے ناپاک و تاریک گڈھے میں گرانے میں کچھ حدتک کامیاب ہوتے نظر آیا- ایسے ماحول میں ضرورت تھی ایک ایسے مرد مومن کی جس کا ایمان اتنا مضبوط ہو کہ جو نگاہ ایمانی جس مومن پر ڈال دے تو اس کے ایمان کو بھی مضبوط بنا دے، ضرورت تھی ایک ایسے ہادی کی جو ہدایت کا پیکر بن کر آئے، ضرورت تھی ایک ایسے مبلغ کی جو تبلیغ کے فرائض بحسن وخوبی انجام دے سکے، ضرورت تھی ایک ایسے مفکر کی جس کا دل و دماغ ہمیشہ مومنوں کے ایمان کے تحفظ و بقا میں فکر مند رہتا ہو، ضرورت تھی ایک ایسے مصلح کی جس کی پاکیزہ تگ و دو سے علاقے کی اصلاح ہو جائے، ضرورت تھی ایک ایسے خطیب و واعظ کی جس کی خطابت و اصلاحی مواعظ معاشرے کے سدھار کا سبب بن جائے، ضرورت تھی ایک ایسے پیر کامل کی جن کی نگاہ کیمیا صرف مریدوں کی جیبوں پر نہیں بلکہ دلوں پر ہو، ضرورت تھی ایک ایسے ملاح کی جو مسلمانوں کے عقیدہ و عمل کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو منزل مقصود تک پہنچانے میں ناخدا ثابت ہو ، ضرورت تھی ایک ایسے بندۂ خدا کی جو جملہ خصائص حمیدہ کا حامل ہو یعنی جو ہر فن مولیٰ ہو……!اللہ رب العزت نے بوسیلۂ سرکار اعظم اس ضرورت کوپورا فرمایا اور علاقۂ تھار کے ولی کامل قطب تھار حضرت پیر سید حاجی عالی شاہ بخاری علیہ الرحمہ کے نواسے نمونۂ سلف،عمدة الخلف حضرت پیر سید کبیر احمد شاہ بخاری نوّراللہ مرقدہٗ کے مقدس گھر میں 22 دسمبر 1976ء بروز بدھ ایک بچے کی ولادت باسعادت ہوتی ہے، بظاہر وہ بچہ تھا مگر نگاہ عشاق میں اس بچے کی حقیقت وہی تھی جو برسوں پہلے امام عشق و محبت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی نے بریلی کی ٹوٹی چٹائی پر بیٹھ کر ہم خوش عقیدہ سنی مسلمانوں کو اہل بیت کے ان مقدس بچوں کا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا-تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کاجب موصوف نے ابتدائی تعلیم حاصل کرلی تو والد بزرگوار نے علم ظاہری کی تکمیل کے لیے علاقۂ تھار کی مشہور علمی شخصیت استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی صوفی ولی محمد صاحب نعیمی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں پیش کردیا علامہ موصوف کی عالمانہ صلاحیت اور صوفیانہ نگاہ کیمیا نے سید زادے کو چند ہی سالوں میں ایک باصلاحیت عالم باعمل بنا دیا اور ایسا کیوں نہ ہو کہ خاندان ہے تو کس کا؟… ایک گاؤں کے دارالعلوم میں پڑھنے والا اتنی صلاحیتوں کا حامل بن جائے بظاہر سمجھ میں نہیں آتا مگر بزرگوں کا وہ مقولہ فوراً ذہن میں آتا ہے کہ “مچھلی کے بچے کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا” یقینا یہ موصوف کے آباء واجداد کا فیضان ہے جس نے انہیں ایک تحریک ثابت کردیا-*قائین کرام:* آپ جانتے ہیں وہ بچہ کون تھا؟ ہاں ہاں! یہ وہی بچہ تھا جسے آج ہم اور آپ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج پیرسید نوراللہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں، پھر کیا تھا جب موصوف *العلماء ورثة الانبیاء* کا تاج زریِں اپنے سر پر سجا کر علاقۂ تھار میں جلوہ گر ہوئے تو علاقے کے علاقے فتح فرما دیئے، آپ نے اپنی پیہم کوششوں اور بزرگوں کے فیضان سے علاقۂ تھار کے قریب قریب ہر گاؤں میں مکاتب و مدارس کے جال بچھا دییے-

مزید تعلیم و تعلم کی نشر و اشاعت اور پورے ملک بالخصوص علاقۂ تھار کی صلاح و فلاح اور امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے آپ کی فرمائش اور اکابر علماء و سادات کرام کی تحریک پر آپ کے والد بزرگوار قبلہ الحاج پیر سید کبیر احمد شاہ بخاری علیہ الرحمہ نے خانقاہ عالیہ بخاریہ کے زیر سایہ “دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف” کا قیام فرما کر اس کی باگ ڈور آپ کے کندھے پر رکھ کر قوم و ملت پر احسان عظیم فرمایا- آپ کی مستحکم قیادت، مسلسل جدوجہد اور پیہم کوشش وکاوش کا نتیجہ ہے کہ آج دارالعلوم انوار مصطفیٰ راجستھان بلکہ ملک کی اہم مدارس کی فہرست میں شامل ہو کر اپنے تمام تر منصوبوں کو بروئے کار لا رہا ہے-

الحمداللہ اس ادارہ نے آپ کی پیہم کوششوں سے اپنی کم عمری کے باوجود اب تک سینکڑوں علماء، فضلاء،حفّاظ اور قرّاء کو سند و دستار سے نواز کر قوم وملت کے سامنے دین متین کی نشر و اشاعت اور سنیت کے فروغ کے لیے پیش کر چکا ہے، جو اس ادارہ کی نمایاں کارکردگی کو واضح کر رہا ہے، آپ دارالعلوم انوار مصطفی کے ماتحت تقریبا 80 مکاتب بھی اپنی نگرانی میں منظّم طورپر چلا رہے ہیں جبکہ کسی ایک مہتمم کو ایک ادارہ چلانے کے لیے لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں اور نہ جانے کتنی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے اس کے باوجود دارالعلوم انوار مصطفی کی قیادت و نظامت کے ساتھ ایسے پریشان کن علاقے میں ۸۰ مکاتب کو چلانا،وہ بھی انتہائی سادگی،عجز وانکسار اور خلوص و محبت کے ساتھ، یقیناً یہ بزرگوں کا فیضان اور نصرت خداوندی ہی ہے-ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ نیز گاؤں گاؤں،ڈھانی ڈھانی دعوت وتبلیغ اور سنیت کی نشروشاعت اور تحریک صلوٰة و تحریک جمعہ کے لئے ایک ایک انجمن بنام “محبان جہانیاں کمیٹی” اور “تحریک انواری” کا قیام بھی بڑا نیک فال ثابت ہوا،…اور دارالعلوم کے چنندہ و ہونہار طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے باہر کے بڑے بڑے اداروں میں اپنے خرچ سے داخلہ دلانا اور مکمل تعلیم تک جن کا خرچ اپنے ذمہ لینا یہ وہ موصوف کے شب و روز کے کام ہیں جنہیں دیکھ کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ نورالعلماء حضرت – علامہ الحاج پیر سید نوراللہ شاہ بخاری- کسی فرد واحد کا نام نہیں بلکہ یہ ایک تحریک کا نام ہے، ایک انجمن کا نام ہے، ایک مینارۂ نور کا نام ہے، جن کی نورانیت سے علاقۂ تھار کے مسلمان جہالت و بدعقیدگی کے اندھیرے سے نکل کر علم و عمل اور پاکیزہ عقیدہ کی روشنی میں داخل ہو رہے ہیں- بارگاہ ایزدی تعالیٰ میں دست بدعا ہوں کہ مولائے کریم علامہ موصوف کو نظر بد سے بچائے اور صحت و سلامتی کے ساتھ عمر خضر نصیب فرمائے اور آپ کو مزید دین وسنّیت اور ملک وملّت کی خدمات کی توفیق بخشے-آمین ثمّ آمین!

کامیابی وکامرانی کےلیے آپسی اتفاق واتحاد اور دینی وعصری تعلیم کی ضرورت:مولاناعبدالکریم بن مولانا عبداللطیف کی بستی،نیگرڑا میں “جشن سنّت رسول”علّامہ پیرسید نوراللہ شاہ بخاری

20 فروری 2022 عیسوی بروز اتوار مولانا صوفی عبدالکریم صاحب نیگرڑا کے بچوں کی شادی خانہ آبادی کے مبارک موقع پر “وامّابنعمة ربک فحدّث”پر عمل کرتے ہوئے بعد نماز مغرب فوراً ایک شاندار “جشن عید میلادالنّبی وسنّت رسول” کا انعقاد کیا گیا-اس جشن کی شروعات تلاوت کلام ربانی سے کی گئی،بعدہ یکے بعد دیگرے حضرت پیر سیّد محمداشرف جمالی صاحب جام سر،بیکانیر وقاری محمدحمیر صاحب بریاڑا نے بارگاہ رسول انام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم میں نعتہائے رسول کے نذرانے پیش کئے-پھر حضرت مولانا شاہ میر صاحب سکندری صدرالمدرسین:دارالعلوم قادریہ فیض سکندریہ جیسلمیر نے “انّ اکرمکم عندالله اتقٰکم” کو موضوع سخن بناتے ہوئے اسلاف کرام کے تقویٰ وطہارت اور ان کی عبادتوں بالخصوص نماز کی پابندی کے کچھ واقعات بیان کرتے ہوئے لوگوں کو نماز کی پابندی کی تاکید وتلقین کی-بعدہ پیکر اخلاص ومحبت حضرت مولانا الحاج محمدپٹھان صاحب سکندری [سابق صدرالمدرسین: دارالعلوم فیض راشدیہ، سم،جیسلمیر] سربراہ اعلیٰ:مدرسہ اہلسنّت فیض گلشنِ سکندری لاکھانیوں کی بستی،ریوڑی،فتح گڑھ،نے ذکر الٰہی کی اہمیت وفضیلت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ “بیشک اللّٰہ کا ذکر ہی ایک ایسا عمل ہے کہ جس سے دلوں کو چین وسکون میسر آتا ہے اور یہی قرآن کا فیصلہ بھی ہے،لہٰذا ہم سکندریوں کے پیران طریقت نے ہمیں جوذکر کی تعلیم وتاکید کی ہے ہمیں نمازوں کی پابندی کے ساتھ اس پر مواظبت کرنی چاہییے”…آخر میں اس بزم کے خصوصی خطیب نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیّدنوراللّٰہ شاہ بخاری مدّظلّہ العالی مہتمم وشیخ الحدیث:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر نے خصوص اورصدارتی خطاب فرمایا-آپ نے اپنے خطاب کے دوران قوم مسلم کے آپسی اتفاق واتحاد اور کتاب و سنت پر کار بند رہنے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اس کی فضیلت اور نتائج واضح کئے اور یہ بھی بتلایا کہ اس طرح پوری امت فتنوں سے محفوظ ہو جائے گی، نیز انہوں نے اختلافات، آپسی رسہ کشی اور تنازعات سے خبردار بھی کیا؛ کیونکہ ان کی وجہ سے مسلمانوں میں مشکلات اور آزمائشیں آتی ہیں اور مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔مزید آپ نے فرمایا کہ کسی بھی کام میں کامیابی وکامرانی حاصل کرنے کا واحد اور عمدہ طریقہ اتفاق واتحاد ہے،جس قوم یا جماعت میں اتفاق واتحاد نہیں وہ کمزور ہے،اتفاق واتحاد کی برکت سے ہم ہرایک منزل پر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اور دوسروں کے لیے مثال بن سکتے ہیں،اتفاق واتحاد میں وہ طاقت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، اتفاق ہر جگہ ضروری ہے،اس لیے کہ گھر کے افراد میں اگر اتفاق نہ ہو تو گھر خراب ہو جاتا ہے،خاندان میں اتفاق واتحاد نہ ہو تو خاندان تباہ وبرباد ہوجاتا ہے،ملک یا ریاست میں اتفاق نہ ہوتو امن وامان نہیں رہتا اور ہر طرف خطرہ پیدا ہوجاتا ہے جب کہ اتفاق سے یہ دنیا جنت بن جاتی ہے اور اگر اتفاق نہ ہو تو جہنم میں تبدیل ہوجاتی ہے،تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں اکثر وبیشتر کامیابیاں اتفاق کی برکت سے حاصل ہوئی ہیں،اتفاق سے قوموں کی قسمت بدل جاتی ہے-اس لیے ہم سبھی لوگوں کو چاہییے کہ آپسی اتفاق واتحاد پر زور دیتے ہوئے ہم آپس میں کبھی نا اتفاقی نہ کریں”ساتھ ہی ساتھ آپ نے دینی وعصری تعلیم کے حصول پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ “ہم سبھی لوگوں کو چاہییے کہ اپنے بچوں کے دینی وعصری تعلیم پر خصوصی دھیان دیں کیونکہ علم خواہ دینی ہو یا دنیوی انسان کو عالی مرتبت بناتا ہے، علم کی اہمیت وحی الہی کے آغاز سے مسلّم ہے،علیم و حکیم پروردگار نے انبیاء و رسل کو علم کی شمع جلانے،نور ہدایت کو عام کرنے،اور جہالت کی ظلمت کو کافور کرنے کے لیے معلمین انسانیت بناکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا،علم کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:”العم نور والجھل ظلمة” علم ایک نور ہے اور جہالت ایک تاریکی،علم وہ شئ ہے جسے نہ چرایا جاسکتا ہے،نہ چھینا جا سکتا ہے،اور نہ ہی آگ علم کو جلا سکتی ہے،نہ دریا ڈبو سکتا ہے نہ سمندر غرق کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے کیڑے کھا سکتے ہیں، علم ہی کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے العلم باق لا یزال (علم باقی رہنے والا جوہر ہے جو کبھی فنا اور ختم نہیں ہوگا) کیونکہ یہ انبیاء کی میراث ہے ارشاد گرامی ہے:إنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبياءِ، وإنَّ الأنبياءَ، لم يُوَرِّثوا دينارًا، ولا درهمًا، إنما وَرّثوا العلمَ، فمن أخذه أخذ بحظٍّ وافرٍ (رواه أبو داود (3641)، والترمذي (2682)رہی بات خاص علم دین کی تواس کی اہمیت و فضیلت تو مسلّم ہے قرآن و حدیث کے صفحات علم دین کی فضیلت سے بھرے پڑے ہیں، علم جہاں نعمت خداوندی ہے وہیں رحمت ربانی بھی ہے، جہاں ذریعۂ برکت ہے تو وہیں باعث نجات اور وجہِ سربلندی ہے، اصل علم تو علمِ دین ہے،یہی علم دین انسان کو گمراہی سے ہدایت تک پہنچاتا ہے، تاریکی کے قعر مذلت سے نکال کر نور ہدایت سے روشناس کرتا ہے،اسی علم دین سے وابستگی نے قومِ مسلم کو ہرمحاذ پر کامیاب کیا،اسی علم دین سے جُڑے رہنے کی بنیاد پر اسلامی شوکت کا علَم بنجر وادیوں کی سربلند چوٹیوں پر لہرایا،اسی علم دین سے رشتہ و تعلق نے امت مسلمہ کو عظیم مناصب اور کامیابی کی بلند منازل پر فائز کیا،اسی علم دین سے وابستگی کی بنیاد پر کبھی ساری دنیا میں تہذیبِ اسلامی کا سویرا تھا،مغرب کی گمراہ کن تہذیب وادیِ ضلالت میں غرقاب تھی۔ان سب فضائل کے باوجود بھی آج ہمارا معاشرہ علم دین سے کوسوں دور ہوتا جارہا ہے اور دن بہ دن دینی علوم سے دوری میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے کہ ایک بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود صحیح کلمہ پڑھنا نہیں جانتا ہے، طہارت اور نماز کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتا ہے، قرآن مجید کی چھوٹی چھوٹی سورتیں بھی صحیح ڈھنگ سے نہیں پڑھ پاتا، اسلام کے بنیادی عقائد، اور وہ ضروریات دین جن پر ایمان کا دارومدار ہے اس کا بھی علم نہیں رکھتا، کیا شہر، کیا گاؤں اور دیہات ہر جگہ بقدر ضرورت دینی تعلیم کا فقدان ہے ،اور افسوس صد افسوس یہ ہے کہ مسلم معاشرہ دینی تعلیم کی اہمیت اور ضرورت ہی کو سرے سے نظر انداز کررہا ہے اور سارا زور صرف اور صرف عصری علوم کو حاصل کرنے پر لگا رہا ہے،اعلیٰ نوکری اور عمدہ جاب کے چکر میں دین و شریعت کی پاسداری کا لحاظ بھلا بیٹھا ہے، دنیوی تعلیم کا حصول شریعت میں منع نہیں ہے بلکہ ہر علم نافع کا حصول بیحد ضروری ہے لیکن شریعت کو پس پشت ڈال دینا اور دینی تعلیم سے یکسر غافل ہوکر زندگی گذارنا دنیا میں بھی نقصان دہ اور آخرت میں بھی موجب عقاب ہے،حالانکہ دین کا اتنا علم سیکھنا کہ جس کے ذریعہ انسان شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے، ہر کلمہ گو پر فرض ہے، خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے، معاملات سے ہو یا معاشرت سے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے:طلب العلم فريضة على كل مسلم.(رواه ابن ماجة)یہ حقیقت ہے کہ جب تک انسان کو احکام خداوندی اور تعلیماتِ نبوی کا علم نہیں ہوگا اس وقت تک یقینا ان پر عمل پیرا ہونا بھی ناممکن اور مشکل ہوگا اور جب دین سے ناواقفیت کی وبا عام ہوگی تو امت طرح طرح کی پریشانیوں اور دشواریوں کا شکار ہو جائے گی۔چنانچہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے :عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ وَلَکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاء ِ حَتَّی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُء ُوسًا جُہَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فضلوا وأضلوا”.(متفق علیہ، مشکوٰة المصابیح:33)ترجمہ:حضرت عبدالله بن عمرو رضی الله عنہ سے نبی کریم علیہ السلام کا یہ فرمان مروی ہے کہ الله رب العزت علم دین کو اچانک (بندوں کے سینوں سے) نہیں ختم کرے گا، لیکن وہ علماء کرام کو وفات دے کر علم دین کو ختم فرمائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم ( دین کا ضروری علم رکھنے والا) باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا راہنما اور راہبر بنالیں گے اور ان ہی سے مسائل پوچھیں گے ، وہ لوگوں کو بغیر جان کاری کے فتویٰ دیں گے اور مسائل بتائیں گے، جس کی وجہ سے خود بھی گم راہ ہوں گے اور عوام کو بھی گم راہ کریں گے۔ذرا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس جامع فرمان پر غور کیجئے!! اور دیکھیے کہ علم دین کے سلسلے میں معاشرہ کی کیا صورت حال ہے؟در حقیقت حدیث شریف میں جو صورت حال بتائی گئی ہے اس وقت من وعن اسی صورت حال سے ہمارا معاشرہ گذر رہا ہے، علوم دینیہ سے بے رغبتی عام ہوگئی ہے لوگوں کو دین اور علم دین سے کوئی رغبت نہیں رہی اور عام لوگ جاہلوں کو ہی اپنا سردار اورراہ نما بناچکے ہیں،ان ہی سے مشورے کرتے ہیں حد تو یہ ہوگئی کہ اب ان ہی سے مسائل بھی پوچھ رہے ہیں، بے دینی کے عام ہونے اور علم دین سے بے رغبتی اور علماء دین کی تحقیر کی بنا پر آج عوام خود بھی گمراہی کے شکار ہیں اور اوروں کو بھی اس گمراہی میں گھسیٹ رہے ہیں، جس کے نتیجہ میں آج مسلمان عقائد و احکام میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں،عبادات و معاملات کی ادائیگی میں غافل ہیں،معاشرت و معیشت کے اسلامی اصول سے بالکلیہ ناواقف ہیں،حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد دونوں کی ادائیگی پر کوئی توجہ باقی نہیں ہے، ذہنوں میں صبح وشام،رات ودن حرام اور حلال کی تمیز کے بغیر صرف دولت جمع کرنے کی فکر سوارہے-اللّٰہ تعالیٰ قوم مسلم کو صراط مستقیم پر گامزن فرمائے،اور انہیں اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کی فکر کے ساتھ آپس میں اتفاق واتحاد اور محبت ومودت کی زندگی بسر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے-صلوٰة وسلام اور دعا پر یہ مجلس خیر اختتام پزیر ہوئی

-رپورٹ

:محمد نصیر انواری بن محمدآدم متعلم درجۂ فضیلت:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

रीवड़ी,जैसलमेर में जल्सा-ए- ईसाले षवाब। मौत एक अटल हक़ीक़त।लिहाज़ा आखिरत की तय्यारी करें!…अ़ल्लामा सय्यद पीर नूरुल्लाह शाह बुखारी!17 फरवरी 2022 ईस्वी बरोज़:जुमेरात

रीवड़ी जैसलमेर के साबिक़ सरपंच मरहूम फोटे खान के ईसाले षवाब के लिए एक अ़ज़ीमुश्शान “जल्सा-ए-सिकन्दरी व इस्लाहे मुआ़शरा” का इन्इक़ाद किया गया,जिस में इलाक़े के बहुत से उ़ल्मा-ए-किराम व तालिबाने उ़लूमे नबविया ने शिरकत कर के इज्तिमाई क़ुरआन ख्वावी कर के मरहूम के लिए दुआ़-ए-मग़्फिरत व ईसाले षवाब किया।फिर बाद नमाज़े ज़ुहर तिलावते कलामे रब्बानी से जल्से की शुरूआ़त की गई!दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ और कुछ दीगर इदारों के बच्चों ने नअ़तहा-ए-रसूल सल्लल्लाहु अ़लैहि वसल्लम पेश किया।जब की खुसूसी नअ़त ख्वाँ की हैषियत से क़ारी अमीरुद्दीन साहब सिकन्दरी ने खुसूसी नअ़त ख्वानी का शर्फ हासिल किया।फिर रीवड़ी के क़ाज़ी मौलाना सूफी अ़ब्दुल करीम साहब सिकन्दरी ने इफ्तिताही खिताब किया…आप के बाद दारुल उ़लूम क़ादरिया फैज़े सिकन्दरिया जैलमेर के सदरुलमुदर्रिसीन हज़रत मौलाना शाहमीर साहब सिकन्दरी ने “इस्लाहे मुआशरा” के उ़न्वान पर बहुत ही शान्दार बयान किया…फिर खतीबे हर दिल अ़ज़ीज़ हज़रत मौलाना जमालुद्दीन साहब क़ादरी अनवारी ने सिंधी ज़बान में क़ौम को खिताब किया…बादहु दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ के नाज़िमे तअ़लीमात हज़रत मौलाना मुहम्मद शमीम अहमद साहब नूरी मिस्बाही ने अरकाने इस्लाम बिलखुसूस नमाज़ की अहमियत व फज़ील और नमाज़ न पढ़ने वालों के सिल्सिले में वईदों के बारें में मुख्तसर मगर जामेअ़ खिताब किया।निज़ामत के फराइज़ हज़रत मौलाना अल्हाज पठान साहब सिन्दरी साबिक़ सदर मुदर्रिस:दारुल उ़लूम फैज़े राशिदिया सम,जैलमेर ने बहुस्न व खूबी निभाते हुए आखिरी और खुसूसी खिताब के लिए नूल उ़ल्मा शैखे तरीक़त हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी मद्द ज़िल्लहुल आ़ली मुहतमिम व शैखुल हदीष:दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ को दावते खिताब दिया-क़िब्ला सय्यद साहब ने अपने खिताब के दौरान फरमाया कि “जब मौत एक अटल हक़ीक़त है,और यह एक एैसी चीज़ है कि इस का ज़एक़ा हर एक नफ्स को चखना है जैसा कि यही क़ुरआन का फैसला भी है और इस बाबत किसी को कोई इन्कार भी नही है तो एैसी सूरत मे हम सभी लोगों को चाहिए कि जब हमें इस दुनिया-फानी को खैराबाद कहना है तो इस के लिए यानी आखिरत के लिए हमेशा तय्यारी में मसरूफ रहें,ज़्यादा से ज़्यादा नेक कामों के करने की कोशिश करें, नमाज़ व दीगर अरकाने इस्लाम के अदाइगी की हर मुम्मकिन कोशिश करें,अपने माँ बाप की खूब खूब खिदमत करें,अपने पीराने तरीक़त से अ़क़ीदत व मुहब्बत रखें,उ़ल्मा-ए-किराम की तअ़ज़ीम व तकरीम करें,जुम्ला अवामिरे शरइय्या पर अमल और मन्हिय्यात से बचने की कोशिश करें “आप के नासिहाना खिताब के बाद मरहूम फोटे खान के ईसाले षवाब के लिए इज्तिमाई फातिहा ख्वानी करके दुआ़-ए-मग़फिरत की गई।सलातो सलाम व दुआ़ पर यह जल्सा इख्तिताम पज़ीर हुवा।इस प्रोग्राम में खुसूसियत के साथ यह हज़रात शरीक हुए।हज़रत सय्यद इस्माईल शाह बुखारी कच्छ,भुज(गुज:),हज़रत मौलाना बाक़िर हुसैन क़ादरी अनवारी,क़ारी मुहम्मद अ़ब्बास सिकन्दरी,क़ारी अरबाब अ़ली क़ादरी अनवारी,क़ारी अ़ब्दुस्सुब्हान साहब सिकन्दरी खतीब व इमाम:जामा मस्जिद रीवड़ी,मौलाना अ़ब्दुल करीम गुल्ज़ारी खतीब व इमाम जामा मस्जिद मतुओं की ढाणी,क़ारी मुहम्द उ़र्स सिकन्दरी अनवारी,मास्टर मुहम्मद यूनुस साहब वग़ैरहुम-जब कि हज़ारों की तअ़दाद में अ़वामे अहले सुन्नत बिलखुसूस सिकन्दरी जमाअ़त के लोगों न् शिरकत कर के मरहूम के लिए दुआ़-ए- मग़्फिरत की।रिपोर्ट:मुहम्मद अनवर अ़ली सिकन्दरी S/O अ़ब्दुल मलूक मुतअ़ल्लिम:दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ,पो: गरडिया,ज़िला:बाड़मेर(राजस्थान)

ریوڑی جیسلمیر میں جلسۂ ایصال ثواب::-موت ایک اٹل حقیقت:لہٰذا آخرت کی تیاری کریں:علّامہ پیر سید نوراللّٰہ شاہ بخاری گذشتہ روز [17 فروری 2022 عیسوی بروز؛جمعرات]

ریوڑی جیسلمیر کے سابق سرپنچ مرحوم فوٹے خان کے ایصال ثواب کے لیے ایک عظیم الشان “جلسۂ سکندری واصلاح معاشرہ”کا انعقاد کیا گیا،جس میں خصوصی خطاب کرتے ہوئے علاقۂ تھار کی عظیم وممتاز دینی درسگاہ”دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر” کے مہتمم وشیخ الحدیث وخانقاہ عالیہ بخاریہ کے صاحب سجادہ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علّامہ الحاج سیدنوراللّٰہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی نے فرمایا کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اس لیے ہم سبھی لوگوں کو چاہییے کہ ہم آخرت کی زیادہ سے زیادہ تیاری کریں، کیونکہ موت ایک ایسی چیز ہے کہ اس کا ذائقہ چکھنے کے بعد آنکھ دیکھ نہیں سکتی، زبان بول نہیں سکتی، کان سن نہیں سکتے، ہاتھ پیر کام نہیں کرسکتے۔ موت نام ہے روح کا بدن سے تعلق ختم ہونے کا اور انسان کا دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے کا۔ موت پر انسان کے اعمال کا رجسٹر بند کردیا جاتا ہے، اور موت پر توبہ کا دروازہ بند اور جزا وسزا کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم  نے ارشاد فرمایا کہ “اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ قبول کرتا ہے یہاں تک کہ اُس کا آخری وقت آجائے”
    ہم ہر روز، ہر گھنٹہ، بلکہ ہر لمحہ اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ سال، مہینے اور دن گزرنے پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری عمر اتنی ہوگئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایام ہماری زندگی سے کم ہوگئے-مزید آپ نے اپنے خطاب کے دوران موت کے تعلق سے آیت کریمہ “کل نفس ذائقة الموت” کے تحت فرمایا کہ “اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہر جاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے ۔ موت اور زندگی دونوں کو اللہ نے خلق فرمایا۔ موت برحق ہےجو ہر ایک کو آنی ہیں۔ دنیا میں اگر دیکھا جائے تو لوگ ہر چیز کے منکر ہوگیے حدتو یہ کہ اللہ کے وحدانیت وربوبیت اور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلّم کی نبوت اور رسالت کے بھی منکر ہوگئے ۔لیکن آج تک کوئی بھی موت کا منکر نہیں ہوا کیونکہ ایسا کوئی طبیب ہی نہیں جو موت کاعلاج کرکے زندگی دلاسکے ۔ موت ایسی شی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص خواہ وہ کافر ہو یا فاسق و فاجر حتیٰ کہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو، موت کو یقینی مانتا ہے۔ اگر کوئی موت پر شک وشبہ بھی کرے تو اسے بے وقوفوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ بڑی بڑی مادی طاقتیں اور مشرق سے مغرب تک قائم ساری حکومتیں موت کے سامنے عاجز وبے بس ہوجاتی ہیں موت کے بعد ہی انسان کی اصلی اور ابدی زندگی کا سفر شروع ہوجاتا ہے ۔انسان اس دنیا سے چلا جائے تو انتقال کر جاتا ہے جسکا معنی ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا۔ دنیا میں ما سوائے اللہ کوئی چیز باقی رہنے والی نہیں،باقی سب کچھ فنا ہونے والا ہے۔
دنیا میں انسان وقت ِ متعینہ کےلئے ترتیب سے آتا ہے، پہلے دادا پھر باپ پھر بیٹا، لیکن دنیا سے جاتے وقت مالک الموت ترتیب نہیں بلکہ وقت متعین دیکھتا ہے۔ موت چھوٹے اور بڑے کو نہیں دیکھتی ہے ۔وہ دودھ پیتے ہوئے بچے کو اسکی ماں چھین لیتی ہے ۔ موت نہ رنگ و نسل دیکھتی ہے ، نہ ذات اور مرتبے کو۔موت نہ نیک و صالح لوگوں پر رحم کرتی ہے اور نہ ہی ظالموں کو بخش دیتی ہے ۔ ہر ایک کو اپنے گلے سے لگا کر رہتی ہے، پھر چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہو وہاں پہنچ جاتی ہے۔یہاں تک کہ خود کو اللہ کہنے والا فرعون بھی موت سے نہیں بچ پایا ۔ اس لیےانسان کو ہر حال میں ہوشیاررہنا چاہییے اور ہمیشہ احتیاط سے کام لینا چاہییے اور اس بات پہ کامل یقین رکھنا چاہییےکہ یہ دنیا فانی ہے،جو مومن کیلئے قید خانہ ہے ۔ جس طرح ایک قیدی کو قید خانے کے اصول و ضوابط کے ماتحت رہنا پڑتا ہے، اُسی طرح دنیاوی زندگی میں بھی رہنا پڑتا ہے۔ ہر قیدی کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ قیدخانہ اُس کے لئے ایک عارضی گھر ہے اوربالآخر اُسے اپنے اصلی گھر میں ہی منتقل ہونا ہے۔گویا ہر کسی کا اپنا اصلی اور ابدی گھر ہے ،اور وہ ہے موت کے بعد آخرت کا گھر ۔ظاہر ہےہر انسان کو آخرکاراپنے مالک کے دربار میں حاضر ہونا ہے ،جہاں اُس کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ابن آدم کے قدم تب تک آگے نہیں بڑھ سکتے، جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے۔ پہلا:عمر کہاں گزاری؟دوسرا :جوانی کہاں گزاری؟تیسرا:مال کہاں سے کمایا؟چوتھا:مال جو کمایا کہاں پہ صرف کیا؟ اورپانچواں : جو علم حاصل کیا اس پر عمل کتنا کیا؟
لہٰذا ایک انسان کو پہلے سے ہی ان سوالات کی تیاری کرنی چاہے تاکہ وہ اس وقت مجرم نہ ٹھہرایا جائے۔ دنیا میں کوئی بھی نفس ایسا نہیں ہوگا، جس پر کوئی نہ کوئی مصیبت نہ آئی ہوگی۔چنانچہ انسان پر جو بھی آزمائش ڈال دی جاتی ہے اُس پر انسان کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے ۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ “میں نے موت اور زندگی کو اس لئے پیدا کیا تاکہ ہم تم کو آزمائیں کہ تم میں سے کون اچھا اور کون بُرا۔” چونکہ اللہ کی طرف سے ہی سب کچھ ہوتا ہے، اسکی اجازت کے بغیر مچھر کاپَر بھی نہیں کٹ سکتا۔لہٰذا شکوے شکایتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ زندگی اور موت سب اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اللہ تعالی نے جب آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی تو پہلے ان کو چیزوں کےنام سکھائے گئے اور اللہ نے انسان کے اندر یہ صلاحیت بھی رکھی کہ وہ نیکی اور برائی میں تمیز کر سکے ۔انسان کی زندگی بامقصد ہے اور اس کی موت بھی بامقصد اور یقینی ہے ۔ایک انسان کو زندگی کا مقررہ وقت اس لئے دیا گیا تاکہ اس کا امتحان لیا جائےاور موت اس لیے آتی ہے کیونکہ امتحان میں پرچے کا وقت ختم ہوتاہے اور پھر موت کے فرشتے کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اس بندے کو اپنا پرچے سمیت اللہ کے دربار میں لے آئے تاکہ اسکی ابدی اور اصلی زندگی کا فیصلہ طے کرلیا جائےکہ کیا یہ جنت کا حقدار ہے یا جہنم کا ۔اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ جس نے جیسا کیا ہوگا ،اسکو اُسی کے مطابق جزا و سزا دی جائے گی۔اللہ عادل ہے اور عدل کو پسند فرماتاہے ۔چونکہ اُس نے انسان کو اختیار دے رکھا ہے، وہ چاہے تو سیدھے راستے اختیار کرلے، چاہے تو غلط راستے چن لے ۔ایک انسان کو غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ میرے لیے کیا بہتر ہے ۔انسان کو پہلے ہی یہ دیکھنا چاہئے کہ مجھے کس لیے پیدا کیا گیا اور میری آخری منزل کہاں ہے؟۔جس انسان کو یہ حقیقتِ زندگی سمجھ میں آجائے تو اس کے لیے کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ اپنی کتاب زندگی کو نیک کاموں سے سجا کراپنےاعمال نامہ کا تحفہ دائیں ہاتھ میں لے لے۔انسان کا اعمال نامہ جیسا ہوگا، اُسی کے مطابق جزا و سزا ہو گی ۔کیونکہ جزا و سزا ضروری ہے ،اگر یہ نہ ہوتا تو پھر نہ ہی زندگی کا کوئی مقصد ہوتا اور نہ امتحان کا کوئی فائدہ ۔اللہ تعالیٰ جس کو بھی زندگی دیتا ہے اس کے لئےامتحان بھی رکھتا ہے تاکہ انسان کی اصلیت پتہ چل جائے، خواہ وہ نیک ہو یا بد ۔اور اگر بندہ اللہ کی پسند کے مطابق زندگی گزار رہا ہو تو وہ فرمانبردار بندوں میں سے ہے اور اگر اللہ کے احکام وفرامین کو چھوڑ کر اپنے نفس کا غلام بن کے اس کی پیروی کرنے لگا تو بے شک اللہ کا باغی ، سرکش اور نافرمان بندوں میں شمار کیا جائے گا ۔انسان کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اِس زندگی کے بعد اللہ تعالیٰ ایک ایسے دن کو بھی لائے گا، جس دن ہم سب کو ازسرِ نو زندہ کیا جائے گا اور ہمارا اعمال نامہ دیکھ کر ہمارے ٹھکانے کا فیصلہ کیا جائے گا کہ اس کی جائے پناہ کہاں ہے ؟ وہ دن ایسا ہے جہاں کوئی بچ نہیں سکتا۔ ۔ نفسی نفسی کا عالم ہوگا کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ہوگا وہاں آپ کے نیک اعمال کام آئیں گے ۔
یقیناً موت سب سے بڑی حقیقت ہے جسے ہر شخص بھلا بیٹھا ہے اور زندگی سب سے بڑا دھوکا ہے جس کے پیچھے ہر کوئی بھاگ رہا ہے۔
موت یقینی اور اکیلا سفر ہے جو ہر انسان کو اکیلے طے کرنا ہے ۔اس کے ساتھ نامۂ اعمال کے سوا کچھ نہیں جائے گا، نہ ہی اس کے ماں باپ نہ ہی احباب و اقارب ۔ موت انسان کا محافظ اور وفادار دوست ہے جو اپنے مقررہ وقت پر آکر اس کی روح قبض کر لیتی ہے ، لہٰذا موت کی تیاری لازمی ہے ۔ انسان کو ہر سانس لیتے وقت یہ دل میں رکھنا چاہئے کہ ابھی موت آئے گی ،تب جاکے انسان دنیا کی لذتوں کو چھوڑکر آخرت کا فکر مند رہے گا ۔ حضرت ابو ہریرہ سے روا یت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “لذتوں کو توڑنے والی چیز (موت) کو کثرت سے یاد کرو” یعنی موت یاد کرنے سے دنیا کی اِن لذتوں کو بدمزہ کردو تاکہ ان کی طرف طبیعت مائل نہ ہو اور تم صرف اللہ کی طرف متوجہ ہوجاؤ۔ اللہ اپنے بندوں کو مختلف مرحلوں اور حالات سے گزاتا ہے کبھی غم اور خوشی دے کر، کبھی بڑھاپا اور کبھی جوانی دے کر تاکہ وہ دیکھے کہ میرا شاکر بندہ کون ہے اور ناشکری کرنے والا کون ہے؟ اور کون مجھے یاد کرتا ہے اور کون بھلا بیٹھا ہے؟ کون مصیبتوں پر صبر کرتا ہے،کون نہیں؟ اور وہ لوگ نادان اور احمق ہیں جو مصیبتوں کے آنے پر ہی اللہ کو یاد کرتے ہیں اور عقلمند انسان کبھی ایسا احمقانہ کام نہیں کرے گا کہ اُس پر مصیبت آئےتو وہ خود کو اللہ کے سامنے رگڑنا شروع کر دے اور جب مصیبت ٹل جائےتو اللہ کو بالکل ہی بھول جائے۔ ایک انسان کی زندگی چاہے کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو، آخرکار ختم ہوہی جاتی ہے اور جو ابدی زندگی ہے، وہ آخرت ہے ۔ لہٰذا انسان کو اس زندگی کیلئےسامان تیار کرنا چاہیے جو اصلی ہے ۔ انسان کی روح جب نکالی جاتی ہے تو اس پر اسی وقت قیامت آتی ہے اور اصلی گھر کا سفر شروع ہوتا ہے ۔ کسی کے بس میں بھی نہیں ہے کہ وہ اس میں تبدیلی لائے ۔لہٰذا انسان کےلیے ضروری ہے کہ وہ زندگی کے ہر لمحے کو بھلائی اور نیک کاموں میں گزارے تاکہ جنت اس کو حاصل ہوجائے اور عذاب الہٰی سے بچ سکے ۔
آپ کے خطاب سے قبل ان حضرات نے بھی اصلاح معاشرہ،اصلاح عقائد واعمال اور جملہ ارکان اسلام بالخصوص نمازپنجگانہ کی پابندی اور اس کی اہمیت وفضیلت پر مشتمل تقاریر کیں!
ادیب شہیرحضرت مولانا محمدشمیم احمدنوری مصباحی،ناظم تعلیمات: دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، حضرت مولاناشاہ میر صاحب سکندری صدرالمدرسین:دارالعلوم قادریہ فیض سکندریہ جیسلمیر،حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری،
نائب صدر:دارالعلوم انوارمصطفی سہلاؤشریف-
قاضیِ ریوڑی حضرت مولانا صوفی عبدالکریم صاحب سکندری نیگرڑا-

نظامت کے فرائض حضرت مولاناالحاج محمدپٹھان صاحب سکندری سابق صدرالمدرسین: دارالعلوم فیض راشدیہ سَم، جسلمیر نے بحسن وخوبی نبھائی-
جب کہ خصوصی نعت خوان کی حیثیت سے قاری امیرالدین صاحب سکندری نے شرکت کی-

اس پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
مولاناباقرحسین صاحب قادری انواری،قاری محمدعباس صاحب سکندری،قاری ارباب علی قادری انواری،مولاناریاض الدین سکندری انواری،قاری عبدالسبحان صاحب سکندری خطیب وامام: جامع مسجد ریوڑی،مولاناعبدالکریم گلزاری خطیب وامام:جامع مسجد متؤں کی ڈھانی،قاری محمد عرس سکندری انواری،ماسٹر محمدیونس صاحب جبکہ ہزاروں کی تعداد میں عوام اہل سنّت بالخصوص سکندری جماعت کے لوگوں نے شرکت کر کے مرحوم کے لیے دعائے مغفرت وایصال ثواب کیا-
۔
آخر میں مرحوم کے حق میں اجتماعی فاتحہ خوانی ہوئی،اور صلوٰة وسلام ودعا پر یہ مجلس اختتام پزیر ہوئی!

رپورٹر:محمدانور علی سکندری انواری بن عبدالملوک
متعلم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)