WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

تلاوت قرآن کی اہمیت و فضیلت اور کچھ ضروری آداب, ،از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،ضلع:باڑمیر(راجستھان)mdshamimahmadnoori@gmail.com

قرآن کا لفظ قراءت سے ماخوذ ہے ،جس کے معنیٰ پڑھنے کے ہیں اور چوں کہ اس کو بہت زیادہ پڑھا جاتا ہے اس لیے اس کو قرآن کہتے ہیں، قرآن دینِ اسلام کا سرچشمہ، رشد و ہدایت کا منبع، دعوت وارشادکا مصدر ،علم و عرفان کا خزانہ اور بے شمار کمالات و محاسن کے ساتھ پوری دنیائے باطل کے لیے چیلنج ہے

قرآن مقدس اللّٰہ تعالیٰ کی وہ آخری اور مستند ترین کتاب ہے جسے دین کے معاملے میں انسانیت کی ہدایت کے لیے اللّٰہ عزّوجل نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام کے ذریعہ اپنے آخری اور محبوب پیغمبر حضور نبئِ رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل فرمایا

اس اعتبار سے یہ آخری پیغمبر کی طرح آخری آسمانی کتاب ہے ،جس طرح رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں اسی طرح قرآن مقدس کے نزول کے بعد اب کوئی آسمانی وحی کسی پر نازل نہیں ہوگی، اسی لیے قرآن کو اللّٰہ تعالی نے تمام جہانوں کے لیے نصیحت فرمایا

اب یہی قرآن قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے کتابِ ہدایت اور دستور حیات ہے جن لوگوں یا قوموں نے اسے دستور العمل بنایا وہ یقیناً دین و دنیا کی سعادت سے ہمکنار ہوئے، اور اس سے اعراض و روگردانی کرنے والے ذلیل و خوار ہوں گے جیسا کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اللّٰہ اس کتاب کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو بلندی عطا فرماتا ہے اور کچھ دوسروں کو پستی میں ڈھکیل دیتا ہے”( مسلم شریف جلد/۱ صفحہ/۲۷۲،مجلس برکات)۔

حقیقی بلندی وسرفرازی اللّٰہ کے حکم سے اُنہی کو حاصل ہوتی ہے جو قرآن کے احکام کی پیروی کرتے ہیں جیسا کی ابتدائی چند صدیوں میں جب مسلمان ہر جگہ قرآن کے عامل تھے تو اس پر عمل کی برکت سے وہ دین و دنیا کی سعادتوں سے بہرہ ور تھے لیکن مسلمانوں نے جب سے قرآن کے احکام و قوانین پر عمل کرنے کو اپنی زندگی سے الگ کردیا تب سے ہی مسلمانوں پر ذلت ورسوائی کا عذاب مسلّط ہے-اسی لیے تو شاعرمشرق ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب کہا تھا

درس قرآن اگر ہم نے نہ بھلایا ہوتا
یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

کاش : مسلمان دوبارہ اپنا رشتہ قرآن کریم سے جوڑ لیتے تاکہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ واپس آ سکےقرآن پاک کو دوسری کتابوں پر اسی طرح برتری حاصل ہے جیسے اللّٰہ تعالی کو مخلوق پر، اس دنیا میں پائی جانے والی کتابوں میں اگر سب سے زیادہ فضیلت پر فائز کوئی کتاب ہے تو بلاشبہ وہ کلام اللّٰہ {قرآن پاک} ہے جس کا پڑھناثواب، دیکھنا ثواب، سننا ثواب، گھر میں رکھنا ثواب،باعث ِ خیروبرکت،دافعِ آفات و بلیّات اور فلاح دنیا وآخرت ہے
قران کیا ہے؟اس کی خصوصیات وامتیازات کیاہیں؟اس کی تعلیمات وہدایات کیاہیں؟

ان سب پرتفصیل سے روشنی ڈالنے کے لیے ایک طویل دفتر درکار ہے آئیے سرِدست تلاوت قرآن کے فضائل ومناقب، اس کی اہمیت اور آداب ملاحظہ کریں

تلاوت قرآن کی فضیلت

قرآن مقدّس کتاب ہدایت بلکہ سراپا ہدایت و باعثِ خیروبرکت ہے مگر اس بابرکت کتاب سے انسان باقاعدہ اسی وقت فائدہ حاصل کرسکتا ہے جب وہ اسے پڑھے گا، اس کی تلاوت اور اس کا مطالعہ کرے گا

اللّٰہ وحدہ لاشریک نے اپنے اس عظیم ترین کلام کی تلاوت پر اجر جزیل و ثواب عظیم سے نوازا ہے جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نےارشادفرمایا کہ “جو شخص کلام اللّٰہ کا ایک حرف پڑھے گا ربّ العالمین اس کے ہر حرف پر ایک نیکی عنایت کرے گا، جو دس گنا بڑھ کر دس نیکیاں بن جائیں گی، پھر حضور نے فرمایا: میں نہیں کہتا ہوں کہ “الم” ایک حرف ہے بلکہ “الف” ایک حرف ہے، “لام” ایک حرف ہے، اور “میم‘ ایک حرف ہے” (ترمذی جلد/۲ صفحہ/۱۱۹)۔

بلاشبہ قرآن مقدّس کی تلاوت مسلمانوں کے لیے لاجواب نعمت و دولت اور خیر و برکت کی ضمانت ہے، اس کا ایک ایک لفظ دلی سکون، ذہنی ارتقا اور روحانی تازگی کا ذریعہ ہے ،دنیاوی معاملات {روٹی کپڑا اور مکان وغیرہ}کےحصول کا ذریعہ بنانے کے بجائے اگر محض رضائےالٰہی اور جِلاءِ باطن کے لیے اس کی تلاوت کی جائے تو بہت ہی بہتر ہے۔

تلاوت قرآن کو معمولی سمجھنے والے کو تنبیہ: حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ “جس نے قرآن پڑھا پھر اس نے یہ سمجھا کہ اُس کوجو ثواب ملا ہے اس سے بڑھ کرکسی اور کو ثواب مل سکتا ہے تو اس نے یقیناً اس کو معمولی سمجھا جس کو اللّٰہ تعالیٰ نے عظیم کیا ہے” (طبرانی)۔

اس سے معلوم ہوا کہ تلاوتِ قرآن عظیم ترین عبادت ہے اور اس حدیث شریف میں سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ تلاوت قرآن کے اجر و ثواب کو ہرگز کوئی معمولی نہ سمجھے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا زبردست ثواب مقرر فرمایا ہے

اس کو بھی پڑھیں: قرآن مقدس کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں

تلاوت قرآن سب سے افضل عبادت

قرآن کی تلاوت سب سے افضل عبادت ہے جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبئ کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ ” میری امت کی سب سے افضل اور بہتر عبادت قرآن کی تلاوت ہے” ایک دوسری روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا “لوگوں میں سب سے بڑاعبادت گزار وہ ہےجوسب سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والا ہے

تلاوت قرآن کرنے والوں کو قیامت کے دن اعزاز

قیامت کے دن قرآن پاک کی تلاوت کرنے والوں کو یہ اعزازو مرتبہ حاصل ہوگا کہ قرآن کی سفارش سے ان کو عزت و شرف کے تاج سے آراستہ کیا جائے گا اور انھیں حکم دیا جائے گا کہ جنت کے بلند درجوں میں چڑھتے چلے جائیں جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاج دار کا ئنات صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ قرآن کی تلاوت کرنے والا قیامت کے دن آئے گا تو اسے عزت و شرف کا تاج پہنایا جائے گا

پھر قرآن کہے گا: اے پروردگار: اسے اور نواز دے اس کے بعد اسے عزت و شرف کا جوڑا پہنایا جائے گا، پھر وہ قرآن کہے گا: اے رب !اس سے راضی ہوجا، اللّٰہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے گا ،پھر قرآن مقدس کی تلاوت کرنے والوں سے کہا جائے گا: تم قرآن پڑھتے جاؤ اور بلندی پر چڑھتے جاؤ یہاں تک کہ وہ ہر آیت کے ساتھ ایک درجہ بڑھتا جائے گا” (ترمذی جلد/۲ صفحہ/۱۱۹)۔

قرآن پڑھنے والے کے والدین کا اعزاز

قرآن پڑھنے والے کے والدین کو نہایت ہی روشن تاج پہنایاجائے گا جیسا کہ حدیث شریف میں ہےکہ حضرت بریدہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ” جو قرآن پڑھے گا اس کی تعلیم حاصل کرے گا اور اس کے مطابق عمل کرے گا اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کا ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی کی طرح ہو گی اور اس کے والدین کو دو ایسے جوڑے پہنائے جائیں گے جن کی قیمت ساری دنیا نہ ہوسکے گی تو وہ دونوں کہیں گے کہ ہمیں کیوں پہنایا؟ تو کہا جائے گا: تمہارے بیٹے کے قرآن پڑھنے کی وجہ سے

ایک دوسری روایت کے راوی حضرت معاذ جہنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں آپ کہتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ “جو قرآن پڑھے اور اس کے مطابق عمل کرے قیامت کے دن اس کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی بہتر ہوگی اگر وہ سورج دنیا کے گھروں میں اتر آئے، پھر تمہارا کیا خیال ہے اس شخص کے بارے میں جس نے خود قرآن پڑھ کر اس کے مطابق عمل کیا”( التّرغیب والّترہیب جلد/۲ صفحہ/۵۷۵)۔

کتنے خوش نصیب ہیں وہ والدین کہ جن کی اولاد قرآن مقدس پڑھتی اور اس کے مطابق عمل کرتی ہے جس کی وجہ سے انہیں قیامت کے دن یہ عظیم الشان اعزاز ملے گا
سبحان اللّٰہ ! کیا فیضان ہے تلاوت قرآن کا کہ روزِ قیامت اس کے والدین کو ایسا روشن چمکتا دمکتا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی گھروں کے اندر سورج کی روشنی سے بڑھ کر ہوگی تو جب قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے کے والدین کو یہ اعزاز نصیب ہوگا تو خود اس کے اعزاز کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے۔

ابھی آپ نے ملاحظہ کیا کہ قرآن پڑھنے والے اور اس کے والدین کو قیامت کے دن کن کن انعامات سے نوازا جائے گا لہذا ہمیں اور آپ کو اور سب مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو کم ازکم ناظرہ قرآن مجید اور دین کے ضروری مسائل کی تعلیم ضرور دلائیں، تاکہ بچہ قرآن پڑھ سکے اور اس پر عمل کر سکے، جس کے باعث قیامت کے دن آپ کو بھی وہ اعزاز نصیب ہوگا، ہر باپ کو چاہیے کہ اپنے بچے کو دین کی اتنی تعلیم ضرور سکھا دے کہ جس سے وہ ارکان اسلام پر عمل کر سکے اور آپ کی نماز جنازہ تو کم ازکم صحیح طور پر ادا کرسکے

آپ کے نام فاتحہ خوانی کر سکے تاکہ دوسروں کا محتاج نہ ہو، کیوں کہ قیامت کے دن ہر باپ سے اس کی اولاد کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا جیساکہ بخاری شریف کی ایک مشہورحدیث کامفہوم ہے تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے اور جن کی ذمہ داری ان کے سر ہے ان کے بارے میں ان سے سوال ہوگا لہٰذا ہرشخص پر اپنی اولاد کی تعلیم واصلاح کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے

جن لوگوں نے اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم اور علوم دینیہ کی طرف متوجہ کیا قیامت کے دن ان کے سروں پر نور کا تاج بھی ہوگا اور وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش بھی ہوجائیں گے اور جن لوگوں نے اپنی اولاد کو غلط راہوں پر لگادیا بظاہر ان کو بہت ساری دولت تو حاصل ہوگئ، دنیاوی اعزازات بھی مل گئے لیکن ان میں اگراسلامی تعلیمات کی روح باقی نہ رہی اوروہ بےراہ روی کے شکار ہوگئے تو اس کا خمیازہ خود اولاد کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی بھگتنا ہوگا

قرآن دیکھ کر پڑھنے کی فضیلت

حضرت عبداللّٰہ بن اوس ثقفی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ”کسی شخص کا قرآن بغیر دیکھے پڑھنا ایک ہزار درجہ رکھتا ہے اور اس کا قرآن دیکھ کر پڑھنا اس سے بڑھ کر دو ہزار تک پہنچ جاتا ہے (مشکوٰۃ ص/۱۸۹)۔
قرآن کو دیکھ کر پڑھنے میں دوگنا ثواب ہو جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ طیّبی علیہ الرّحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ “قرآن کا دیکھنا،اس کا اٹھانا ،اس کا چھونا، قرآن پر غور و فکر کا موقع فراہم ہونا، اور اس کے معنیٰ و مفہوم کا سمجھنا ان سب کی وجہ سے اس کا ثواب دوگنا ہو جاتا ہے”(مرقاة شرح مشکوٰۃ)۔

تلاوت قرآن سے دلوں کا علاج

حضرت عبداللّٰہ ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ “بے شک دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے جب اسے پانی لگ جائے ،عرض کیا گیا: ان کی صفائی کس طرح ہوتی ہے؟ فرمایا: موت کو کثرت سے یاد کرنے اور قرآن کی تلاوت کرنے سے” (مشکوٰۃ ص/۱۸۹)۔

تلاوت قرآن سے سکون و رحمت اور فرشتوں کانزول

حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” جو لوگ اللّٰہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوکر اللّٰہ کی کتاب [قرآن] کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اس کا تکرار کرتے ہیں [یا درس دیتے ہیں] تو ان پر [ اللّٰہ کی طرف سے ] سکینت [ تسکین و رحمت ] نازل ہوتی ہے، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ،فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ ان فرشتوں میں ان کا ذکرفرماتا ہےجواس کے پاس ہوتے ہیں”( صحیح مسلم ج/۲،ص/۱۰۸)۔

یقیناً تلاوت قرآن وہ مبارک و پسندیدہ عمل ہے جس کے سننے کے لیے نہ صرف سلیم الطبع جن وانس مضطرب وبے چین رہتے ہیں بلکہ آسمان سے فرشتے بھی اتر آتے ہیں جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک صحابی کا واقعہ نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ “ایک صحابی نماز تہجد میں سورۂ کہف کی تلاوت کر رہے تھے کہ اچانک گھر ہی میں بندھاہوا ایک جانور [گھوڑا] بدکنے لگا

سلام پھیرنے کے بعد نظر دوڑایا تو اوپر بادل جیسا ایک ٹکڑا نظر آیا جس نے انہیں ڈھانپ رکھا تھا[صبح ہونے کے بعد] اس واقعہ کا تذکرہ انہوں نے نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے کیا، جس پر آپ نے فرمایا: اے فلاں! تم اپنی تلاوت جاری رکھو یہ سکینت تھی جو قرآن کی تلاوت کی وجہ سے آسمان سے اتری تھی (صحیح مسلم ج/۱،ص/۲۰۸ مجلس برکات )۔

علّامہ حافظ ابن حجرعلیہ الرّحمہ فرماتے ہیں کہ “سکینہ سے مراد فرشتے ہیں، جو آسمان سے قرآن سننے کے لیے اترتے ہیں-( بخاری ج/۱،ص/۱۳۳-شرح مسلم للنووی ج/۶،ص/۸۲)۔
اس واقعہ سے ملتا جلتا حضرت اسید بن حضیر کا واقعہ بھی ہےکہ وہ رات میں سورۂ بقرہ کی تلاوت فرما رہے تھے کہ ان کا گھوڑا ان کے صاحبزادے یحییٰ کے قریب ہی بندھا ہوا تھا بدکنے لگا، خاموش ہونے پر وہ بھی پرسکون ہو گیا، یہ عمل بار بار ہوا، آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو بادل کی ایک ٹکڑی نظر آئی، جس میں قندیلیں روشن تھیں- نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ فرشتے تھے جو تمہاری تلاوت سننے کے لئے تمہارے قریب آئے تھے، اور اگر تم تلاوت جاری رکھتے تو وہ فرشتے بھی اسی طرح صبح تک ٹھہرےرہتے اور لوگ انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے” (صحیح مسلم ج/۱،ص/۲۶۹)۔

تلاوت قرآن گھر کو شیطان سے پاک کرنے کا علاج: درحقیقت ہمارے سامنے دو آواز ہیں، ہمیں یہ اختیار ہے کہ ہم ان میں سے جس آواز کو بھی چاہیں اپنے گھر کی زینت بنائیں، مگر دونوں کے ظاہری اثرات اس گھر پر ڈائریکٹ بغیر کسی واسطے کے پڑیں گے ،جس میں سے ایک آواز گانا باجا وغیرہ کی ہے، اور دوسری آواز تلاوت قرآن اور نیک باتوں کی ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کہ” اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ بے شک شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے” ترمذی ج/۲ص/۱۱۵، مشکوٰۃ ص/۱۸۴)۔

تلاوت قرآن نور ہے

سیّد عالم، نور مجسم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:” قرآن مقدس کی تلاوت؟ کرو یہ تمہارے لیے دنیا میں نور ہوگا اور آسمان میں تمہارے لئے بےشمار نیکیوں کا ذخیرہ ہوگا”( کنز العمّال ج/۱،ص/۲۶۸)
تلاوت قرآن شفاعت کا سبب: حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلّی اللّہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ فرما رہے تھے کہ “قرآن مجید پڑھو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارش کرے گا (مسلم ج/۱،ص/۲۷۰) ۔

اس طرح کی بہت سی حدیثیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، جن میں سے ایک اور حدیث ملاحظہ ہو
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ “رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا: کہ “روزہ اور قرآن دونوں بندہ کے لیے شفاعت کریں گے، روزہ عرض کرے گا: کہ یا اللّٰہ! میں نے اس کو دن میں کھانے پینے اور شہوات سے روکے رکھا میری شفاعت قبول کرلے ،اور قرآن کہے گا: یا اللہ! میں نے رات کو اس کو سونے سے روکا میری شفاعت قبول فرما لے، پس دونوں کی شفاعت قبول کی جائےگی” مشکوٰۃ ج/۱،ص/۱۷۳)۔

قرآن سے خالی دل ویران گھر کی طرح ہے: وہ لوگ جن کے سینے میں قرآن نہیں ہے وہ ویران گھر کی طرح ہیں جیسا کہ ترمذی شریف جلد 2 صفحہ 115 میں ہے کہ حضرت عبداللّٰہ ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سےمروی ہے کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس کے دل میں قرآن کا کوئی حصہ نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے” یعنی جیسے ویران گھر خیروبرکت اور رہنے والوں سے خالی ہوتا ہے ایسے ہی اس شخص کا دل خیروبرکت اور روحانیت سے خالی ہوتا ہے جسے قرآن مجید کا کوئی بھی حصہ یاد نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان کو قرآن شریف کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور زبانی یاد کرنا اور رکھنا چاہیے تا کہ وہ اس وعید سے محفوظ رہے

تلاوتِ قرآن کرنے والوں کے تین درجے

غیرِعرب [عجمی] مسلمانوں میں قرآن مقدس کو پڑھنے وتلاوت کرنے والے عام طور پر تین طرح کے ہوتے ہیں

۔(۱) وہ جو قرآن کی زبان سے آشنا ہوتے ہیں اور اس کے اصل مطلب کو سمجھ کر تلاوت کرتے ہیں ہیں ،ظاہر ہے کہ یہ تلاوت قرآن کی سب سے بہتر صورت ہے
۔(۲) دوسرے وہ لوگ جو قرآن کی زبان سے تو واقف نہیں ہیں تاہم اس کتابِ ہدایت کو سمجھنے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں چنانچہ وہ اپنی زبان میں موجود تراجم قرآن کی طرف مراجعت کرتے ہیں اور یہ پہلی صورت سے ایک درجہ کم ہے
۔(۳) تیسرے وہ جو نہ قرآن کی زبان کو جانتے ہیں اور نہ ان کے پیش نظر اسے سمجھنا ہی ہوتا ہے،بلکہ طلبِ فہم کے بغیر محض الفاظِ قرآن کو اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں یہ تلاوت قرآن کا تیسرا درجہ ہے
تلاوت قرآن کے آداب: تلاوت قرآن کےکچھ آداب ہیں ، تلاوت کرنے والے کو ان آداب کی رعایت کرنی چاہئیے تا کہ قراءت اللّٰہ کی بارگاہ میں مقبول اور باعثِ ثواب ہو،
مشائخِ کرام نے تلاوت کے چھ آداب ظاہری اور چھ آداب باطنی ارشاد فرمائے ہیں

تلاوت کے ظاہری آداب
۔(۱) قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے
۔(۲) پڑھنے میں جلدی نہ کرے ، ترتیل و تجوید سے پڑھے
۔(۳) رونے کی کوشش کرے ،چاہے بہ تکلّف ہی کیوں نہ ہو

۔(۴) آیاتِ رحمت پر دعائے مغفرت و رحمت مانگے، اور آیت عذاب پر اللّٰہ سے پناہ مانگے
۔(۵) اگر ریا کا احتمال ہو یا کسی دوسرے مسلمان کی تکلیف و حرج کا اندیشہ ہو تو آہستہ آہستہ ،ورنہ آواز سے پڑھے!
۔(۶) خوش الحانی[ اچھی آواز ]سے پڑھے، کیونکہ خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کی بہت سی حدیثوں میں تاکید آئی ہے

تلاوت کے باطنی آداب

۔(۱) قرآن کی عظمت دل میں رکھے کہ کیسا بلندمرتبہ کلام ہے
۔(۲) اللّٰہ تعالیٰ کی علوِّشان اوررفعت وکبریائی کودل میں رکھے کہ جس کا کلام ہے
۔(۳) دل کو وسوسوں اور خطرات سے پاک رکھے
۔(۴) معانی پر غور و خوض کرے اوردلجوئی کے ساتھ پڑھے، حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ پوری رات ایک ہی آیت کو پڑھ کر گزار دی، جس آیت کا ترجمہ یہ ہے “اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انکی مغفرت فرما دے توتو عزت والا ہے”
۔(۵) جن آیتوں کی تلاوت کر رہا ہے دل کو ان کاتابع وفرمانبردار بنادے، جیسے اگر آیتِ رحمت زبان پرہے تو دل سرورِمحض بن جائے،اورآیتِ عذاب اگر آگئی تودِل لرز جائے
۔(۶) کانوں کواس درجہ متوجہ بنا دے گویا خود اللّٰہ تعالیٰ کلام فرما رہا ہے اور یہ سن رہا ہے

اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے مشائخ کے بیان فرمودہ ان آداب کے ساتھ ہمیں تلاوت قرآن زیادہ سے زیادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین

अपने बच्चों की तअ़लीम व तरबियत पर ध्यान दें:अ़ल्लामा पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी

रिपोर्ट:(मौलाना)अ़ली मोहम्मद क़ादरी अनवारी…मुदर्रिस:मदरसा फैज़ाने गुल मोहम्मद शाह जीलानी भूणी का पार,तहसील:गडरा रोड,ज़िला:बाड़मेर [राजस्थान

मदरसा फैज़ाने गुल मोहम्मद शाह जीलानी भूणी का पार,गडरा रोड में एक दीनी व इस्लाही मिटिंग

22 ज़िल क़अ़दा 1443 हिजरी / 23 जून 2022 ؛ दिन: गुरुवार [खमीस] को इलाक़ा-ए-थार की अ़ज़ीम व मुम्ताज़ दीनी व तरबियती दर्सगाह “दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ” की तअ़लीमी शाख “मदरसा फैज़ाने गुल मोहम्मद शाह जीलानी भुणी का पार,तहसील:गडरा रोड,ज़िला:बाड़मेर” में पीरे तरीक़त रहबरे राहे शरीअ़त नूरुल उ़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी मद्द ज़िल्लहुल आ़ली मुहतमिम व शैखुल हदीष दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा व सज्जादा नशीन खानक़ाहे आ़लिया बुखारिया सेहलाऊ शरीफ की सरपरस्ती में मुन्अ़क़िद हुई।

वाज़ेह रहे कि यह मिटिंग दारुल उ़लूम के अरकान की तहरीक और दारुल उ़लूम की तअ़लीमी शाख “मदरसा फैज़ाने गुल मोहम्मद शाह जीलानी भुणी का पार ” के ज़िम्मेदारों बिल खुसूस फक़ीर अ़ली मोहम्मद क़ादरी अनवारी मुदर्रिस मदरसा हाज़ा की दरख्वास्त व गुज़ारिश पर दारुल उ़लूम की मज़कूरा तअ़लीमी शाख में तअ़लीमी व तअ़मीरी मैदान में बेहतरी व सुधार लाने और लोगों के दिलों में दीनी तअ़लीम की अहमियत व फज़ीलत और दीनी जज़्बा पैदा करने खास तौर पर मस्जिद व मदरसा को बा क़ाइदा आबाद करने की खातिर मुन्अ़क़िद की गई थी।

इस मज्लिस की शुरुआ़त हज़रत मौलाना मोहम्मद दाएम साहब अनवारी के ज़रिआ़ तिलावते कलामे रब्बानी से हुई,बादहु मोलवी अबू बकर अनवारी मुतअ़लल्लिम दरजा-ए- फज़ीलत दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा ने बारगाहे नबवी صلی اللہ علیہ وسلم में नअ़त ख्वानी का शर्फ हासिल किया।

फिर दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा के नाज़िमे तअ़लीमात हज़रत मौलाना मोहम्मद शमीम अहमद साहब नूरी मिस्बाही ने लोगों के सामने इस दीनी व इस्लाही मिटींग के अग़्राज़ व मक़ासिद को बयान करते हुए लोगों को अपनी आबादी की मस्जिद व मदरसा को बाज़ाब्ता आबाद करने और उस की मज़ीद तअ़मीर व तरक़्क़ी की तरफ ध्यान देने की ताकीद की,और साथ ही साथ आप ने “इल्मे दीन के हुसूल की अहमियत, फज़ीलत व ज़रूरत” के उ़न्वान पर मुख्तसर खिताब भी किया।

आखिर में सरपरस्ते मज्लिस नूरुल उ़ल्मा रहबरे क़ौम व मिल्लत शैखे तरीक़त हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी मद्द ज़िल्लहुल आ़ली ने सभी शुरका-ए-मज्लिस को अपने नासिहाना खिताब से नवाज़ा,आप ने अपनी नसीहतों के दौरान खुसूसियत के साथ इन बातों पर ज़ोर दिया।
★आप हज़रात ईमान की पुख्तगी के साथ ज़्यादा से ज़्यादा नेक काम करने की कोशिश करें।
★आपस में इत्तिहाद व इत्तिफाक़ और भाई चारा क़ाइम रखें,क्यों की “इत्तिफाक़ ज़िंदगी है और इख्तिलाफ मौत”-
★अपने बच्चों के दीनी व दुनियावी तअ़लीम पर खुसूसी तवज्जोह दें बिल खुसूस दीनी तअ़लीम पर,और तअ़लीम के साथ बचपन से ही उन की अच्छी तरबियत पर भी खुसूसी तवज्जोह दें, क्यों कि बच्चों की तरबियत पर ध्यान देना इन्तिहाई ज़रूरी है, बहुत से लोग यह कह दिया करते हैं कि जब बच्चा बड़ा हो जाएगा तो खुद ही ठीक हो जाएगा,जब कि सहीह और तजरबा की बात यह है कि जो बच्चा बचपन में तमीज़ नही सीखता वह बड़ा हो कर भी जल्दी तमीज़ नही सीख पाता,अगर बच्चों को बचपन से ही अच्छी तअ़लीम व तरबियत दी जाए तो वोह बड़े हो कर अच्छी ज़िंदगी बसर करेंगे और एैसे बच्चे समाज व मुल्क के लिए फाइदा मंद साबित होंगे,इस लिए हमें चाहिए कि हम अपने बच्चों को बचपन से ही दीन की तरफ बिल खुसूस दीनी तअ़लीम की तरफ राग़िब व माइल करें,क्यों कि सभी माँ बाप और गारजियन के लिए यह लाज़िम व ज़रूरी है कि वोह अपने बच्चों की अच्छी तरबियत करें, उन्हें अच्छा इंसान बनाएं,उन की अच्छी तअ़लीम व तरबियत का इंतिज़ाम करें खास तौर पर बुनियादी दीनी तअ़लीम व तरबियत से ज़रूर आरास्ता करें-इस के लिए अल्हम्दुलिल्लाह आप हज़रात ने अपनी आबादी [गाँव] में एक अच्छे मकतब व मदरसा का क़याम किया है,माशाअल्लाह इस मदरसे में तल्बा व तालिबात [पढ़ने वाले बच्चे व बच्चियों] की अच्छी तअ़दाद है जो अपने आप को तअ़लीम व तरबियत से आरास्ता करने में मशग़ूल व मसरुफ हैं-

आप ने दौराने नसीहत यह भी फरमाया कि आप हज़रात अपनी आबादी की मस्जिद व मदरसा और उन के इमाम व मुदर्रिस पर खुसूसी ध्यान दें, नमाज़े पंजगाना के पाबंद बनें और दोसरे इस्लामी भाइयों को भी नमाज़ व दीगर अरकाने इस्लाम की जहाँ तक हो सके अपने हैसियत के मुताबिक़ दावते खैर दें,अपने गाँव में दीनी व इस्लामी माहौल क़ाइम करें,अपने मस्जिद के इमाम व मदरसा के मुदर्रिस की खूब खूब खिदमत करें,उन की इज़्ज़त अफ्ज़ाई करें,हर तरह से उन का भर पूर ख्याल रखते हुए बराबर मस्जिद व मदरसा की खबर गीरी करते रहें,और मदरसा के लिए कम से कम एक कुशादा हाॅल और अपने मुदर्रिस की रिहाइश के लिए एक अच्छे कमरे की तअ़मीर करवाने की ज़रूर कोशिश करें,आपस में इत्तिफाक़ व इत्तिहाद का मुज़ाहरा करें और मस्जिद व मदरसा के मुआ़मले में किसी भी तरह की दुनियावी सियासत से दूर रहें,दीनी कामों में सब लोग भाई भाई बन कर जोश व जज़्बा के साथ बढ़ चढ़ कर हिस्सा लें,मस्जिद व मदरसा में खर्च किया हुवा आप का माल सदक़ा-ए- जारिया की हैसियत रखता है,इस लिए अपनी आखिरत की भलाई के लिए मस्जिद व मदरसा की तअ़मीर व तरक़्क़ी में जिस क़दर ज़्यादा से ज़्यादा हो सके हिस्सा लें,दीनी तअ़लीम के साथ दुनियावी तअ़लीम के हुसूल पर भी खूह खूब तवज्जोह दें,अपने बच्चों को दुनियावी एतबार से भी अ़सरी तअ़लीम के ज़रिआ़ आला पोस्टों पर फाइज़ करने की कोशिश करें, …आप ने इस तरह की बहुत सी मुफीद बातें और बेहतर मशवरे लोगों के सामने रखे……जिस पर लोगों ने अ़मल करने की यक़ीन दहानी कराई…आखिरी कलिमात में आप ने अ़वामे अहले सुन्नत बिल खुसूस मदरसा के ज़िम्मेदारान व मदरसे के मुदर्रिस को मुखातब कर के फरमाया कि दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा की जो पूरे इलाक़ा-ए-थार में 80 तअ़लीमी शाखें चल रही हैं हम उन शाखों की कामियाबी उस वक़्त तसव्वुर करते हैं जब उन मकातिब के मुदर्रिसीन अपने मकतब से नाज़रा क़ुरआन और ज़रूरी उ़र्दू वग़ैरह पढ़ा कर साल ब साल कुछ बच्चों को दारुल उ़लूम में हिफ्ज़ व क़िरात या अ़ालिमिय्यत का कोर्स करने के लिए दारुल में दाखिला करवाते हैं,इस लिए आप से भी गुज़ारिश है कि आप सालाना कुछ होनहार तल्बा को इस लाइक़ ज़रूर बनाएं कि वोह दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा में दाखिला ले कर हाफिज़ व क़ारी या आ़लिमे दीन बन सकें…

अल्हम्दुलिल्लाह!दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ में जहाँ हिफ्ज़ व क़िरात और आ़लिम व फाज़िल तक की बा ज़ाब्ता पढ़ाई का नज़्म व नस्क़ है वहीं साथ ही साथ दसवीं क्लास [हाॅई स्कूल] तक अ़सरी तअ़लीम का भी बंदो बस्त है,और इंशा अल्लाह जल्द ही बारहवीं कल्लास तक की मंज़ूरी राजस्थान हुकूमत की तरफ से मिल जाएगी-

अल्हम्दुलिल्लाह:यह मज्लिसे मुशावरत [इस्लाही मिटिंग] उम्मीद से ज़्यादा कामियाब रही,गाँव के लोगों ने जोश व जज़्बा और खुलूस व मुहब्बत का खूब खूब इज़हार किया।

इस मज्लिस में उ़ल्मा-ए-किराम के इलावा यह हज़रात खुसूसियत के साथ शरीक हुए।
जनाब मोहम्मद एहसान वल्द बचल खान,मोहम्मद रमज़ान वल्द जलालुद्दीन,मोहम्मद अमीन,हाजी अ़ब्दुर्रहीम,मास्टर मोहम्मद यूनुस,मास्टर अ़ब्दुल मलूक,मोहम्मद अमीन वल्द बचल खान,मुरीद खान वल्द अ़ब्दुर्रहीम ,मोहम्मद एसान वल्द अ़:हकीम, व मोहम्मद अमीन वल्द अ़ब्दुल हकीम वग़ैरहुम……

सलातो सलाम और क़िब्ला पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी की दुआ़ पर यह मज्लिसे सईद इख्तिताम पज़ीर हुई।

]

مسلمانوں کے ساتھ یہ دوہرا معیار کیوں، تحریر:محمد مقصود عالم قادریاتردیناجپور مغربی بنگال


جب بی جے پی پارٹی کے ترجمان نوپورشرما اور انکے نیتا نوین کمار نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کیں اورام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اور آپ علیہ الصلاة والسلام کے نکاح کے تعلق سے بے ہودہ کلمات ادا کیں تو صرف ہندوستان کے مسلمان کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو قلبی تکلیف پہنچی مسلمانوں کے درمیان بے چینی چھا گئی اور سکون ملتا بھی کیسے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ناموس ایک مسلمان کے لئے مقصود کائنات اور ہر چیز سے اہم ہے پھر اگر اسی ناموس پر آئے دن کوئی ملعون یا ملعونہ حملہ کرے تو کہاں سے دل کو قرار آئے گا ،پھر بھی ہندوستان کے مسلمانوں نے حکومت سے آس لگائی تھی کہ حکومت ایسے شرپسند لوگوں کے خلاف کارروائی کرے گی لیکن حکومت نے بھی مسلمانوں کے امیدوں پر پانی پھیر دیا، جب ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی تب مسلمانوں نے احتجاج کرنا شروع کر دیا تقریبا ہر شہر میں احتجاج ہوا یہ احتجاج صرف اور صرف گستاخان نبیﷺ کو سزا دلانے کے لیے تھا نہ کہ ملک کے امن و سکون کو برباد کرنے کے لیے
رانچی کانپور اور دیگر شہروں میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے لیکن ایک سازش کے تحت اس کو پرتشدد بنا دیا گیا اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی گئی،پتھر کن لوگوں نے مارا؟کہاں سے آئے؟ اس سازش کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اور پتھر چلانے والے احتجاج میں شریک تھے بھی کہ نہیں؟ اس کی جانچ پڑتال کیے بغیر پولیس عدالتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خود کاروائی شروع کر دی اور ایسی مذموم کارروائی کہ رانچی میں پولیس نے مظاہرین پر سامنے سے گولی چلا دی جس کی وجہ سے دو پر امن مظاہرین کی موت ہوگئی،
اور نہ جانے کتنے زخمی ہو گئے اور بہت لوگوں کو تو جیل میں ڈال دیا گیا کچھ لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیا گیا،
مسلمان پر امن طریقے سے اپنی بات کہنے کے لیے احتجاج کر ر ہیں تھےتو ان پر ظلم و بربریت کا پہاڑ توڑ دیا گیا
دوسری طرف مرکزی کابینہ نے جب اگنی پتھ یوجنا کا اعلان کیا تو ملک کے مختلف حصوں میں جوانوں نے ملک کے کئی صوبوں میں پرتشدد احتجاج بھی کیا اور کروڑوں کے املاک بھی تباہ کیے،کئ ٹرینوں کو آگ کے حوالے کیا اور کئی سرکاری دفاتر کو نذر آتش کر دی،پتھر بازی بھی ہوئی اورآگ زنی بھی،بی جے پی کے لیڈروں کو دورہ دورہ کر مارا یہاں تک کہ سیکڑوں پولیس زخمی بھی ہوئے اور تو اورخبروں کے مطابق ایک ہزار کروڑ کا نقصان تو صرف ہندوستانی ریل کا ہوا،لیکن ان کے ساتھ پولیس کا وہ رویہ اور برتاؤ نہیں ہوا جو کہ اہانت رسولﷺ کے مسئلہ پر امن مظاہرے کرنے والے جوانوں کے ساتھ ہوا آخر مسلمانوں کے ساتھ اس قدر دوہرا سلوک کیوں؟ جوجوان اگنی پتھ کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں ان کے بارے میں بنارس کے پولیس کمشنر ستیش گنیش نے کہا کہ یہ ہمارے اپنے بچے ہیں ہم انہیں سمجھائیں گے جب یہ جوان آپ کے اپنے بچے ہیں تو پھر اہانت رسول ﷺپر احتجاج کرنے والے جوان وہ کس کے بچے ہیں؟آپ ان جوانوں کو پیار و محبت سے سمجھا رہے ہیں اور مسلم نوجوانوں کو لاٹھی و گولی سے کیا یہی انصاف ہے؟آخر ہم کب تک برداشت کریں گے کیا ہم ہندوستان کے معزز شہری نہیں ہیں؟کیا اس ملک کے لئے ہمارے آباو اجداد نے برابر کے قربانیاں نہیں دی؟ مسلمان اپنی بات کہنے کے لیے پرامن طریقے سے احتجاج کریں تو ملک کے غدار بن جاتے ہیں اور کوئی غنڈاگردی اور آتش زنی کرکے مظاہرہ کریں تو وہ آپ کے اپنے بچے ہیں
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

بچوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی دھیان دیں:پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری

رپورٹ:علی محمدقادری انواری خادم:مدرسہ فیضانِ گل محمد شاہ جیلانی، بھونی کاپار، تحصیل گڈرا روڈ ضلع باڑمیر(راجستھان)

22 ذی القعدہ 1443 ھ مطابق 23 جون 2022 عیسوی بروز جمعرات مغربی راجستھان کی عظیم وممتاز اور علاقۂ تھار کی دینی وعصری، تعلیمی وتدریسی،تربیتی اور مرکزی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف” کی تعلیمی شاخ “مدرسہ فیضانِ گل محمد شاہ جیلانی بھونی کاپار تحصیل گڈرا روڑ ضلع باڑمیر” میں ایک “دینی واصلاحی مجلس مشاورت” دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے مہتمم وشیخ الحدیث وخانقاہ عالیہ بخاریہ سہلاؤشریف کے صاحب سجادہ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کی سرپرستی میں منعقد ہوئی-
واضح رہے کہ یہ مجلس مشاورت دارالعلوم کے ارکان کی تحریک اور دارالعلوم کی تعلیمی شاخ “مدرسہ فیضانِ گل محمد شاہ جیلانی بھونی کاپار” کے ذمہ داران بالخصوص فقیر علی محمدقادری انواری مدرس مدرسہ ہٰذا کی درخواست وگذارش پر دارالعلوم کی مذکورہ تعلیمی شاخ میں تعلیمی وتعمیری میدان میں بہتری لانے اور لوگوں کے دلوں میں دینی تعلیم کی اہمیت وفضیلت اور دینی جزبہ پیداکرنے بالخصوص مسجد ومدرسہ کو باقاعدہ آباد کرنے کی خاطر منعقد کی گئ تھی-
مجلس کی شروعات حضرت مولانا محمددائم صاحب انواری کے ذریعہ تلاوت کلام ربانی سے کی گئی، بعدہ مولوی ابوبکر انواری متعلم درجۂ فضیلت دارالعلوم انوارمصطفیٰ نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نذرانہ پیش کیا،پھر ادیب شہیر حضرت مولانا محمدشمیم احمد صاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف نے لوگوں کے سامنے اس مجلس مشاورت کے اغراض ومقاصد کو بیان کرتے ہوئے لوگوں کو اپنی آبادی کی مسجدومدرسہ کو باقاعدہ آباد کرنے اور اس کی مزید تعمیروترقی کی طرف دھیان دینےکی تاکید وتلقیں کی-
آخر میں سرپرست مجلس نورالعلماء رہبرقوم وملت حضرت علامہ الحاج پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی نے سبھی شرکائے مجلس کو اپنے ناصحانہ خطاب سے نوازا،آپ نے اپنی نصیحتوں کے دوران خصوصیت کے ساتھ ان باتوں پر زور دیا:اپنے بچوں کے دینی وعصری تعلیم پر خصوصی توجہ دیں بالخصوص دینی تعلیم پر، تعلیم کے ساتھ بچپن سے ہی ان کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیں، کیونکہ بچوں کی تربیت پر دھیان دینا انتہائی ضروری ہے،اکثر لوگ یہ کہہ دیاکرتےہیں کہ جب بچہ بڑا ہوگا تو خود ہی ٹھیک ہوجائےگا، جب کہ صحیح اورتجربہ کی بات یہ ہے کہ جو بچہ بچپن میں تمیز نہیں سیکھتا وہ بڑا ہوکر بھی جلدی تمیز نہیں سیکھ پاتا،اگر بچوں کو بچبن سے ہی اچھی تعلیم وتربیت دی جائے تو وہ بڑے ہوکر بھی اچھی زندگی بسر کریں گے اور ایسے بچے سماج وملک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے،ہمیں چاہییے کہ ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی دین کی طرف بالخصوص دینی تعلیم کی طرف راغب اور متوجہ کریں،کیونکہ سبھی والدین اور گارجین کے لیے یہ لازم وضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں،انہیں اچھاانسان بنائیں،ان کی اچھی تعلیم وتربیت کا انتظام کریں خصوصی طور پر انہیں دینی تعلیم وتربیت سے ضرور آراستہ کریں-اس کے لیے الحمدللہ آپ حضرات نے اپنی آبادی میں ایک اچھے مکتب کا قیام کیاہے،ماشاءاللّٰہ اس مکتب میں طلبہ وطالبات کی اچھی تعداد ہے جو اپنے آپ کو تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے میں مصروف ہیں-
آپ نے دوران نصیحت یہ بھی فرمایا کہ آپ حضرات اپنی آبادی کی مسجد ومدرسہ اور ان کے مدرس وامام پر خصوصی دھیان دیں،نماز پنجگانہ کے پابند بنیں،اور دوسرے اسلامی بھائیوں کو بھی نماز ودیگر ارکان اسلام کی حتی الوسع دعوت خیر دیں،اپنے گاؤں میں دینی واسلامی ماحول قائم کریں،اپنے مسجد کے امام اور مدرسہ کے مدرس کی خوب خوب خدمت کریں، ان کی عزت افزائی کریں،ہر طرح سے ان کا بھر پور خیال رکھتے ہوئے برابر مسجد ومدرسہ کی خبرگیری کرتے رہیں،اور مدرسہ کے لیے کم ازکم ایک کشادہ ہال اور اپنے مدرس کی رہائش کے لیے ایک کمرہ ضرور تعمیر کروانے کی کوشش کریں،آپس میں اتفاق واتحاد کا مظاہرہ کریں اور مسجد ومدرسہ کے معاملہ میں کسی طرح کی بھی سیاست سے دور رکھیں،دینی کاموں میں سب لوگوں بھائی بھائی بن کر جوش وجزبہ کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں،مسجد ومدرسہ میں خرچ کیا ہواآپ کا مال صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتاہے اس لیے اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے مسجدومدرسہ کی تعمیر وترقی میں حتی الامکان حصہ لیں،دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے حصول پر بھی خوب خوب توجہ دیں،اپنے بچوں کو دنیاوی اعتبار سے بھی عصری تعلیم کے ذریعہ اعلیٰ مناصب پر فائز کرنے کی کوشش کریں،آپ نے اس طرح کی بہت سی مفید باتیں اور مشورے لوگوں کے سامنے رکھیں جس پر لوگوں نے عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی،آخر میں آپ نے لوگوں بالخصوص مدرسہ کے ذمہ داران ومدرسین کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ کی جو پورے علاقۂ تھار میں 80 تعلیمی شاخیں چل رہی ہیں ہم ان شاخوں کی کامیابی اس وقت تصور کرتے ہیں جب ان مکاتب کے مدرس اپنے مکتب سے ناظرہ قرآن اور اردو وغیرہ پڑھا کر سال بہ سال کچھ بچوں کو دارالعلوم میں حفظ وقرات یا عالمیت کا کورس کرنے کے لیے دارالعلوم بھیجتے ہیں اس لیے آپ سے بھی گذارش ہے کہ آپ سالانہ کچھ ہونہار طلبہ کو اس لائق ضرور بنائیں کہ وہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ میں داخلہ لے کر حافظ وقاری یا عالم دین بن سکیں،الحمدللہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف میں جہاں عالم وفاضل تک پڑھائی کا نظم ونسق ہے وہیں ساتھ ہی ساتھ دسویں کلاس [ہائی اسکول] تک عصری تعلیم کا بھی بندوبست ہے،اور ان شاءاللہ العزیز عنقریب بارہویں کلاس[انٹر میڈیت] کی منظوری راجستھان حکومت کی طرف سے مل جائےگی-
الحمدللہ یہ مجلس مشاورت امید سے زیادہ کامیاب اور معنیٰ خیز رہی، گاؤں کے لوگوں نے جوش وجذبہ اور خلوص ومحبت کا خوب خوب اظہار کیا-
اس مجلس میں علمائے کرام کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
جناب محمداحسان صاحب،محمد رمضان ،محمدامین،حاجی عبدالرحیم، ماسٹر عبدالملوک،محمد امین خان،محمدمرید وغیرہم-
صلوٰة وسلام اور قبلہ پیر صاحب کی دعاؤں پر یہ مجلس سعید اختتام پزیر ہوئی-

وقت رہتےحکومت کی شاطرانہ چال کوسمجھے مدارس_اسلامیہ،، از قلم آصف جمیل امجدی انٹینا تھوک

حکومت ہند کی ہمیشہ سے مدارس اسلامیہ پر شاطرانہ نگاہ رہی ہے اس سے کسی ذی فہم کو مجال انکار نہیں، اور اس سے بھی ذی فہم سر منہ نہیں پھیر سکتے کہ جب سے مدارس اسلامیہ سرکاری کوٹے سے استفادہ حاصل کرنا شروع کیا ہے تبھی سے حکومت منظم طور پر رفتہ رفتہ اپنی شاطرانہ چال ڈھال میں تبدیلی لاتی رہی کبھی بظاہر تعلیمی نظم و نسق کو بہتر کرکے تو کبھی سالانہ منعقد ہونے والے امتحانات کے قوانین کو مضبوط اور مزید بہتر سے بہتر بنا کر خاص طور سے تنخواہ میں اضافی کی صورت نکال کر۔
ہر دن مسلمانوں کو خاص طور سے علماءکو ارتدار کی جانب ایک چھڑی سے ہانکتی ہوئی بڑی سرعت کے ساتھ لئے جارہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہم ہیں کہ حکومت کی جانب سے پیش کئے جانے والے زہر ہلاہل کو (کوئی) حلال صورت نکال کر گھونٹ گھونٹ پیئےجارہے ہیں،
مسلکی اختلافات سے باہر نکل کر بڑی معذرت🙏 کے ساتھ آپ کے سامنے دور اندیشی کی ایک حتی قول پیش کر رہا ہوں برا لگے تو پھر معذرت 🙏چاہوں گا “آج آپ(سبھی جماعتوں کے علماء سے مخاطب ہوں) یوگا کئے ہیں (اس کے متعلق ہلکی فلکی آواز اٹھی بھی تو یہ کہہ کر آواز کو کچل دی گئی کہ اگر بطور ورزش کیا جاۓ تو کوئی خرابی نہیں ہم بھی اس کے منکر نہیں، لیکن حکومت کی چال اور نظرۓ کو سمجھیں، علاوہ ازیں روزی روٹی کے ساتھ اپنی غلیظ ناک بچانے کے لیے اس کی حلت کی دگر صورت بھی تجویز کر لی گئ)
کل آپ کی اولاد کالے پتھر کے سامنے ہاتھ جوڑے گھڑی رہے گی( روزی روٹی کے لیے اس کی حلت کے جو سارے طریقے آپ نکال رہے ہیں کل آپ کی اولاد بھی نکالے گی، بے فکر رہیں۔)

✍️__آج

مہمان نوازی امت مسلمہ کی ایک عظیم خوبی, از:(مولانا)علم الدین قادری انواری استاذ:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر[راجستھان]

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ماں کی گود سے لےکر قبر تک کے تمام معاملات ِ زندگی کے ہر پہلو کا بیان دین اسلام میں موجود ہے۔دین اسلام نے مہمان نوازی کے بارے میں جو بہترین قانون بنائے ہیں یا جس خوبصورت انداز سے اسلام نے ہمیں مہمان نوازی کے آداب کا پابند بنایا ہے ۔دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی

حضور ﷺکا فرمان ہے کہ ”جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مہمان کی تعظیم کرے“(ترمذی)

سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مہمان نوازی فرمائی، آپ کی مہمان نوازی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن ِمجید میں یوں فرمایا ہے ترجمہ :اور بے شک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے انہوں نے سلام کہا تو ابراہیم علیہ السلام نے سلام کہا پھر تھوڑی ہی دیر میں ایک بھُنا ہوا بچھڑا لے آئے (سورہ ہود :۶۹ )

تفسیر روح البیان میں اس آیت کے تحت علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ”نوجوانوں کی حسین شکل میں فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری لے کر آئے ،فرشتوں نے سلام کہا ،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جواب میں سلام کہا ،پھر تھوڑی ہی دیر میں حضرت ابراہیم ایک بُھنا ہوا بچھڑا لے کر آئے “(جلد /۶ص/۱۶۱)

مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم اتنے بڑے مہمان نواز تھے کہ بغیر مہمان کے کھانا بھی نہیں کھاتے تھے ،کسی نے آپ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلیل کس وجہ سے بنایا ؟

حضرت ابراہیم نے فرمایا:کچھ وجوہات کی بنا پر ان میں تیسری وجہ یہ تھی کہ میں نے صبح اور شام کا کھانا کبھی بھی مہمان کے بغیر نہیں کھایا ،کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ آپ علیہ السلام ایک ایک میل پیدل چل کر مہمان تلاش کرنے کے لئے تشریف لے جاتے تھے ،لیکن آج ہمارا حال یہ ہے کہ مہمان خود چل کر ہمارے گھر آتا ہے تب بھی ہم ان کی خدمت کرنے سے کتراتے ہیں !

ہمارے آقا و مولیٰ ﷺنےاپنے غلاموں کو مہان نوازی کی تعلیم دی ہے حدیث کی کئی کتابوں میں نبی پاک ﷺکے ارشاد ات موجود ہیں، کچھ حدیثوں کو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں! مہمان نوازی پر جنت کی خوشخبری: حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ بنی پاک ﷺنے فرمایا:جو بندہ نماز قائم کرے ،زکوٰۃ اداکرے ،رمضان کے روزے رکھے ،اور مہمان کی میزبانی کرے وہ جنت میں داخل ہوگا۔(الترغیب و ترھیب )

مہمان نوازی پر رحمت کی برسات:

حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی پاک ﷺنے ارشاد فرمایا :تم میں سے جب کسی کا دستر خوان بچھا رہے (مہمان کھاتے رہیں )تب تک فرشتے اس کے لئے دعا ئے مغفرت کرتے ہیں (ایضا)

مہمان نوازی پر خیرو برکت کا نزول :

حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ِرحمت نے فرمایا:جس گھر میں کھانا کھِلایا جاتا ہے اس گھر میں خیرو برکت اس سے بھی تیز اور جلدی سے آتی ہے جتنی جلدی اور تیز ی سے اونٹ کی کوہان پر چھری چلتی ہے (ایضا)

جو حاضر ہو مہمان کے سامنے پیش کردے : حضور کے کچھ صحابہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر تشریف لائے تو انہوں نے روٹی اور سرکہ پیش کیا ،اس سے معلوم ہوا کہ گھر میں جو کچھ موجود ہو وہ مہمان کو پیش کر دیا جائے ،اگر کوئی اسے اپنی تحقیر سمجھے تو یہ اس کے لیے بربادی ہے

اور مہمان کو چاہیے کہ جو کچھ پیش کیا جائے اسے حقیر خیال نہ کرے ورنہ اس کے لئے بھی بربادی ہے ۔موجودہ دَور میں یہ حال ہے کہ بے چارے میزبان سے جتنا ہو سکا مہمان کی خدمت کی مگر مہمان جب وہاں سے لَوٹتا ہے تو جگہ جگہ میزبان کی برائیاں بیان کرتا ہے اور یہ کہتا پھرتا ہے کہ اس نے تو کوئی ڈھنگ کا کھانا ہمیں نہیں کھِلایا ،اسے میزبانی کہتے ہیں ؟

اس نے تو جان چھُڑائی ہے یہ کہکر میزبان کو بدنام کیا جاتا ہے ،یاد رہے !یہ مہمان کے لئے بربادی ہے ،مہمان کو اس کام سے بچنا چاہئے، اگر کوئی میزبان کی تعریف نہیں کر سکتا تو کم سے کم برائیاں تو نہ کرے ۔

مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا سنت ہے: حدیث شریف میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا: کہ سنت یہ ہے کہ مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے ۔ مہمان کے ہاتھ میزبان دُھلائے:مہمان کے ہاتھ دُھلانا بزرگان دین کی سنت ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ اپنے استاذ امام مالک علیہ الرحمہ کے مہمان بنے تو حضرت امام مالک علیہ الرحمہ نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور ان سے فرمایا یہ دیکھ کر گھبراؤ نہیں بلکہ اس بات کو ذہن میں بسا لو کہ مہمان کی خدمت کرنا میزبان پر لازم ہے ۔

مہمان نوازی کی اہمیت کا اندازہ اس بھی ہوتا ہے کہ محبوب خدا ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی زرہ گروی رکھ کر یہودی سے آٹا قرض لیا !اور مہمان نوازی فرمائی

یہیں تک بس نہیں بلکہ حضور ﷺکی زندگی میں کئی ایسے دن بھی آئے کہ آپ اور آپ ﷺکے گھر والے کئی دنوں تک بھُوکے رہتے لیکن مہمان کو بُھوکا نہیں جانے دیتے ،مہمان نوازی کا یہی جزبہ صحابۂ کرام کے اندر بھی تھا خود پیٹ پر پتھر باندھ کر سو جاتے مگر مہمان کو بُھوکا نہیں جانے دیتے ،اپنے بچے بُھوکے رہ جائیں یہ تو برداست کر لیتے مگر مہمان بُھوکا جائے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔

مسلم شریف کی ایک حدیث کا مفہوم پیش کرتا ہوں کہ سرکار ﷺکی بارگاہ میں ایک مہمان آئے آپ نے گھر سے کھانا منگوایا نہیں ملا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا :کون آج اس شخص کی مہمان نوازی کرے گا ؟اللہ تعالیٰ اس پر رحمت فرمائے گا حضرت ابو طلحہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ میں مہمان نوازی کروں گا

پھر حضرت ابو طلحہ اس شخص کو لے کر اپنے گھر گئے اور اپنی بیوی سے پوچھا :کیا تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے؟بیوی ام سلیم کہنے لگیں صرف بچوں کے حصے کا کھانا ہے

حضرت ابو طلحہ بولے: تم انہیں کسی چیز سے بہلا دینا اور جب مہمان آئے تو چراغ بجھادینا تاکہ مہمان کو پتہ نہ چلے کہ ہم کھانا نہیں کھا رہے ہیں، چنانچہ ان کی زوجہ نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ مہمان نے کھانا کھالیا ،اگلے دن حضور ﷺنے اس صحابی سے فرمایا :کل کی تمہاری مہمان نوازی تمہارے رب کو بہت پسند آئی۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت ام سلیم کے اندر مہمان نوازی کا کیا جزبہ تھا،بچوں کو بُھوکا سُلادیا لیکن مہمان کو پیٹ بھر کِھلایا ،اگر ان کی جگہ آج کی عورتیں ہوتیں تو شوہر سے لڑ لیتیں اور جواب میں کہتیں کہ ہمارے بچے بُھوکے سوئیں اور مہمان کھائے یہ نہیں ہو سکتا۔

اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کرے اور ہماری عورتوں کو حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا جیسا جزبہ نصیب فرمائے ۔ آمین

کہیں ہمارے اندر یہ برائیاں تو نہیں؟از:(حافظ) برکت علی قادری مدرس شعبۂ حفظ:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

آج جس ماحول اور معاشرہ میں ہم اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اس کا اسلامی طرزِ زندگی سے تعلق نہایت ہی کمزور ہو چکا ہے،اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے خیالات،احساسات، اخلاقیات، معاملات، عبادات، غرض کی ہر شعبۂ زندگی میں ابتری و بدحالی نظر آتی ہے، آج ہم کہنے کے تو مسلمان ہیں مگر الا ماشاء اللہ ہماری اکثریت دین اسلام سے بے بہرہ ہے،خاص طور پر عمل کے میدان میں تو ہم انتہائی پیچھے ہیں،کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اسلام سے رشتہ صرف نام کی حدتک رہ گیا ہے- گزشتہ امتوں میں جو برائیاں انفرادی طور پر پائی جاتی تھیں آج بدقسمتی سے وہ تمام برائیاں اجتماعی و انفرادی دونوں طریقے پر موجود ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ زمانہ بھر کے لیے ایک مسلمان کا کردار اسلام کی خوبیوں کا آئینہ ہوتا، لیکن افسوس کے ساتھ آج اس حقیقت کے اعتراف سے نظریں نہیں چرائی جا سکتی کہ ہم مسلمانوں کی بد اعمالیوں کے نتیجہ میں اسلام پر بھی لوگ انگلیاں اٹھانے لگے ہیں حالانکہ کسی بھی مسلمان کی بد اعمالیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسلام تو ہمیں ہر طرح کی برائیوں سے بچنے کی سخت تاکید و تلقین کرتا ہے آئییے ہم آپ کے سامنے کچھ اہم برائیاں پیش کرتے ہیں کہ اگر خدا نہ خواستہ ہم ان برائیوں و بیماریوں میں مبتلا ہوں تو ان سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں-

کہیں ہمارے اندر یہ بیماریوں تو نہیں؟ ★ نماز نہ پڑھنا، نماز میں کوتاہی کرنا، سنت کے خلاف پڑھنا، گانے گانا،گانا سننا-★جھوٹ بولنا یا جھوٹ پر عمل کرنا-★ غیبت کرنا یا غیبت سننا-★دوسروں پر ناحق تہمت لگانا،کسی کو بلا وجہ بدنام کرنا-★اپنے عیبوں کو خوبی سمجھنا اور اپنے عیبوں اور گناہوں کے لئے جواز تلاش کرنا و بہانے بنانا-★ دوسروں کے عیوب تلاش کرنا، دوسروں کے عیبوں کی تاک میں رہنا- ★رزق کے حصول میں بے پرواہی کرنا،حلال و حرام میں تمیز نہ کرنا- ★چغلی کرنا، چغلی سننا، چغلی پر عمل کرنا، ایک دوسرے میں نفرت پیدا کرنا، لوگوں کے درمیان آپس میں پھوٹ ڈالنا- ★ ایک دوسرے پر جادو وسحر کرنا یا کروانا- ★رشوت کو گفٹ کے نام لینا دینا- ★ٹی وی پر فحش پروگرام دیکھنا، ٹی وی دیکھنے والے کو معاشرے کا اعلیٰ فرد تصور کرنا یا معزز سمجھنا- ★سنت سے نفرت کرنا، سنت پر چلنے والوں کو بےوقوف اور کم تر سمجھنا، حقارت سے دیکھنا، خلاف سنت کام کرنے والوں کو معزز سمجھنا، یہود ونصاریٰ کے طریقوں کو اچھا سمجھنا، اس کی قدر کرنا- ★غیروں کے لباس وکلچر کی مشابہت اختیار کرنا، داڑھی نہ رکھنا، داڑھی منڈانے والوں کو معزز اور انہیں خوب صورت سمجھنا-★گناہ کو گناہ نہ سمجھنا، اعلانیہ گناہ کرنا اور اس پر فخر کرنا، سنت پر عمل کرنے سے گھبرانا یا شرمانا-★کسی سے حسد کرنا ،بغض،حسد اور کینہ رکھنا- ★کھڑے ہو کر پانی پینا یا کھاناکھانا-★والدین کی نافرمانی کرنا، والدین کو جاہل و بےوقوف سمجھنا، ان کو حقارت سے دیکھنا، بیوی کا غلام بننا-★بد نظری کرنا، نا محرم عورتوں کو دیکھنا، نا محرم مردوں کو دیکھنا، اپنے بدن کی نمائش کرنا، غیر محرم کا دل لبھانا یا اسے متوجہ کرنا- ★پردہ نہ کرنا، باریک لباس پہننا، تنگ یا چست لباس پہننے والیوں کو معاشرے کی معزز خواتین سمجھنا، با پردہ عورت اور باحیا لباس پہننے والیوں کو بیوقوف، جاہل اور حقیر سمجھنا-★دھوکہ دینا اور دھوکے باز کو عقل مند سمجھنا-★اسلامی تعلیم حاصل کرنے والوں کو بےوقوف اور گھٹیا سمجھنا- ★ڈانس سیکھنے سیکھانے پر فخر کرنا، اپنے کو بڑا اور دوسرے کو حقیر سمجھنا-
جس طرح جسمانی بیماریوں کے علاج اور اچھی صحت کے لیےاچھی غزا اورصاف پانی و ہواضروری ہے اسی طرح روحانی بیماریوں کا علاج بھی نہایت ضروری ہے مثال کے طور پر آپ کے پاس ایک انڈہ ہے اور ان گناہوں کو آپ سوئیاں تصور کریں پھر ان سوئیوں سے انڈے میں سوراخ کریں تو کیا پھر بھی انڈہ صحیح سالم رہے گا؟ ظاہر ہے کی ہرگز نہیں یا کسی آدمی کو کینسر، شوگر،ٹی بی، یرقان، نزلہ زکام اور بخار ہو تو کیا وہ پھر بھی اپنے آپ کو صحت مند تصور کرے گا؟ ہرگز نہیں،اس لیے آج بھی وقت ہے! آئیں ہم سب اپنے گناہوں سے توبہ کر کے نیک کاموں کی انجام دہی میں لگ جائیں تاکہ ہمیں کامیابی نصیب ہو جائے اور یہی حکم ربی بھی ہے، جیسا کہ فرمان خداوندی ہے، اور سب مل کر توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ’ (سورۃ النور)
اس کا بہترین علاج یہ ہے کہ ہم سچی توبہ کریں اور پھر توبہ پر قائم رہیں، اللہ کے خوف کو ہمیشہ پانی جیسا ضروری سمجھیں، استغفار کو اپنا لباس سمجھیں،موت کو حاضر سمجھیں، دنیا کو معمولی، دارالعمل اور مسافر خانہ سمجھیں، اور سنت کو اپنی جان سے بھی زیادہ مقدس سمجھیں، اللہ تعالیٰ کے ذکر اور تلاوت قرآن کو اپنا سانس سمجھیں، زبان سے ذکر کریں اور دل و دماغ سے غور و فکر کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ قرآن وسنت کا خوبصورت گلدستہ ہمارے ہاتھوں سے گر جائے، اپنے گناہوں پر روتے رہیں،معافی مانگتے رہیں اور گناہوں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے رہیں، تعوذ اور لاحول پڑھتے رہیں، استغفار اور مغفرت طلب کرتے رہیں، اور استغفار پر مشتمل ذکر بھی کریں، زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں، تاکہ ہمارے اعمال پر درود شریف کی خوشبو کا چھڑکاؤ ہو جائے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھیں پھر دیکھیں کی ارحم الراحمین دونوں جہانوں کی خوشیاں دیتا ہے کہ نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتا یا تصویر ہو” آپ بتائیں جب ہمارے گھروں میں پہلے سے اللہ تعالیٰ کے قہر و عضب کا بھرا ہوا ٹرک ٹی وی موجود ہے جس میں ہم فحش پروگرام دیکھتے رہتے ہیں تو اللہ کی رحمت کی امید کیسے رکھیں گے؟ کیا آگ اور پانی کی دوستی ممکن ہے؟ اسی گھر میں ٹی وی یا موبائل پر غلط پروگرامات بھی چل رہے ہیں اور اسی گھر میں دعائیں بھی مانگی جا رہی ہیں ہاۓ افسوس! ہر گھر میں کتنی پریشانیاں ہیں پریشانیوں کی وجہ سے ہر آدمی کا دم گھٹ رہا ہے مگر اس کے باوجود بھی ایمان میں بے برکتی کا ڈاکو ٹی وی اور دیگر خرافات کو ہم گھر سے نہیں نکالتے!
آج کے مسلمانوں کو ٹی وی ناچ گانے اور غیر شرعی چیزوں سے محبت ہے’اگر کسی آدمی سے بولو کے رات کو دو بجے اٹھ جاؤ اور دو رکعت نفل پڑھ لو تو شاید ہی اس کے لئے وہ تیار ہو جائے، ماں کو گھر سے نکال دو اس کے لئے تیار ہے مگر کسی کو کہ دو کہ ٹی وی کو گھر سے نکال دو یا جو بھی بداعمالیاں ہے یا غلط باتوں کے ہم مرتکب ہیں ان کو چھوڑ دو اور اس سے توبہ کر لو تو اس کے لئے ہم تیار نہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ شاید ہمیں اور اس دور کے لوگوں کو باقاعدہ اپنی موت کا یقین نہیں-[افسوس صد افسوس]
ہمیں چاہیے کہ ہر طرح کی بداعمالیوں سے خود کو اور اپنے بال بچوں اور رشتے داروں کو بچانے کی کوشش کریں اور یہی اللہ رب العزت کے فرمان کا مطلب بھی ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے”تم لوگ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو (جہنم کی) آگ سے بچاؤ”
اللہ رب العزت ہم سب مسلمانوں کو ہر طرح کی برائیوں سے بچنے اور نیک کاموں کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے! (آمین!)

برادران وطن کا ایک بڑا طبقہ مسلم کمیونٹی کے ساتھ کھڑا ہے، ازقلم: شیرمہاراشٹرا مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاءپوجانگر ، میراروڈ ممبئی

اس وقت ملک میں جو ہورہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ایک خاص نظریہ ہے جسے ملک کے تمام طبقات پر مسلط کرنے کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہے یہ وہ نظریہ ہے جو ملک کو ایک مرتبہ پھر غلامی کی زنجیر میں جکڑ سکتا ہے اس کی سد باب کے لئے ہمیں مسلسل برادران وطن کے رابطے میں رہنے ہوں گے ، انہیں بھیانک مستقبل سے آگاہ کرنا ہوگا کہ اگر ملک میں اسی طرح کا ماحول رہا تو آج ہمارے مکانات منہدم کئے جارہے ہیں تو کل چھوٹی سی غلطی کو بنیاد بناکر آپ کے بھی مکانات تباہ کئے جاسکتے ہیں چونکہ ظالم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ ہمیشہ ظلم میں یقین رکھتا ہے ، اس کی حکومت انسانی خون کو پانی بناکر بنائی جاتی ہے ، وہ نعشوں پر اپنی حکومتی بنیاد مظبوط کرتے ہیں ، ایسی حکومتی نظام کاحصہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کا کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن وہ بڑی خوبصورتی سے مذہب کی آڑ میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کھیل رہے ہوتے ہیں ۔ آج کیا ہورہا ہے یہی نا کہ ایک کمیونٹی کے گنے چنے لوگ جو خود کو ہندوت کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کرنے پر مصر ہے اسے ملک کے لئے اچھی نوید نہیں کہی جاسکتی ہے اس پالیسی کی جتنی مذمت کی جاۓ کم ہے ۔ یوپی ملک کی ایک بڑی ریاست ہے جہاں تمام مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں لیکن وہاں کی حکومت ایک ہی قسم کی غلطی پر ایک کمیونٹی کا آشیانہ بلڈوژر سے تباہ و برباد کردیتی ہے تو دوسری طرف اسی غلطی پر دوسررے کمیونٹی پر مقدمہ بھی درج نہیں کیاجاتا ہے یہ دو رخی پالیسی ملک کے جمہوری آئین کو کھوکھلا کررہی ہے اس لئے بین المذاہب ایک دوسرے سے اچھے تعلقات بہت ضروری ہے تاکہ سیاسی نیتاؤں کی طرف سے اسلام ، مسلمان ، مساجد ، مدارس اور مسلم تنظیموں کے تعلق سے جو زہر برادران وطن کو پلائی جاتی رہی ہے اس کا تریاق ممکن ہو ۔ آپ اخبار ، شوسل میڈیا کا مطالعہ کریں تو بخوبی معلوم ہوجاۓ گا کہ براداران وطن کا ایک بڑا طبقہ پیغمبر اعظم حضرت محمد صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام امن کے معترف ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ جس کسی نے بھی پیغمر اعظم علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی ہے اس کی ہستی ہمیشہ کے لئے معدوم ہوگئی ، روۓ زمین پر اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔
مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعدا تیرے
نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا

ہمارے ان علماء کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے جو آۓ دن ٹیلی ویژن پر ڈیبیٹ میں شامل ہوکر اسلام کی بنیادی اصول کی دھجیاں اڑانے میں لگے ہیں بعض وقت غیروں کی طرف سے ایسی باتیں بھی پوچھی جاتی ہیں جن کا ان کے پاس قرآنی یا منطقی جواب نہیں ہوتا پھر اپنی جہالت پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ حضرات بھی جو مسلمانوں کی طرف سے خود ساختہ ترجمان بن کر ڈیبیٹ کررہے ہوتے ہیں وہ چیخنے چلانے ، بے سروپا کی باتیں کرنے لگتے ہیں جس سے اسلام اور مسلمانوں کی سخت بدنامی ہوتی ہے ۔ اسلام ہمیشہ تبلیغی کوششوں ، حسن کلام ، آفاقی تعلیمات کے ذریعہ ہی فروغ پاتا آرہا ہے ۔
اس وقت ملک کی جو حالت ہے اس پراگندہ ماحول میں اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی سخت ضرورت ہے اوریہ کام جو علماۓ ملت اسلامیہ ہیں ان کے سروں پر ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے افراد تک اسلام کو کس نوعیت سے پیش کرتے ہیں یہ بہت اہم ہے ، کسی جرم پر سزا کا اختیار حاکم وقت کا کام ہے ناگوار باتوں پراحتجاج ہمارا جمہوری حق ہے مگر نعرہ تکبیر کے ساتھ ہاتھوں میں پتھر ، راستوں کے کنارے کھڑی گاڑیوں پر حملہ ، آگ زنی ، سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا یہ اہل اسلام کا شعار نہیں رہاہے ۔ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے جو ہر ایک کے ساتھ مساوات کا درس دیتا ہے یہی وقت ہے کہ ہم ان اہم پیغامات کو عام کرکے دوسروں کے لئے بھی اسلام میں داخلے کو یقینی بنائیں ! دشمنوں کو لئے بھی ہدایت کی دعائیں کرنا یہ ہمارے نبی پاک صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا خاصہ رہاہے ہم انہیں کے لاۓ ہوۓ دین برحق کا داعی ہیں اس کا خیال بہرحال ہمیں رکھنا ہوگا جبھی ہم اسلام کا ایک اچھا مبلغ و داعی کہلانے کا مستحق ہیں ۔
ترسیل فکر: محمد شاھد رضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی
پوجانگر ، میراروڈ ممبئی
19/ جون 2022ء

جمہوری ملک میں یوگی حکومت کا طریقہ جابرانہ اور ملک کو شرمسار کردینے جیسا ہے، ازقلم : شیرمہاراشٹرا مفتی محمد علاؤالدین قادری رضویصدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاءپوجانگر ، میراروڈ ممبئی

ازقلم : شیرمہاراشٹرا مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی
صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء
پوجانگر ، میراروڈ ممبئی

جس ملک کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا نام دیاجاتاہے وہ ملک ہمارا بھارت ہے ، مختلف قبائل و مذاہب کے لوگ مختلف تہذیب و ثقافت ، الگ الگ زبانوں میں گفتتگو کرنے کے باوجود گنگا جمنی تہذیب کے لئے دنیا میں ہمارا ملک ابتک اپنا وقار بحال کیا ہوا تھا ، لیکن جب سے بی ، جے پی پارٹی اقتدار میں آئی ہے جیسے ملک کو کسی کی نظر بد لگ گئی ہو ۔ ملک کا ہر شعبہ تعصب کا شکار ہے ، قانون کی بالادستی جیسے ختم ہوچکی ہو ، جسے مرضی ہوئی ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بناکر شری رام کا نعرہ لگاتے ہوۓ قتل کردیا ، جب جی چاہا تخریبی بیان کے ذریعہ ملک کا امن و امان چھین لیا ، اگر دوسری کمیونٹی کی طرف سے ذرا ردعمل سامنے آیا کہ پولیس گولیوں سے لااینڈ آڈر کو بحال کرنے میں لگ گئی ، ادھر یوگی حکومت ہے کہ بلڈوژر سے نشان زد کرکے اپنے حریف کا آشیانہ تباہ و برباد کردیا ، خود ساختہ بابا کو کیا پتہ کہ آشیانہ بنانے میں برسوں لگ جاتے ہیں جسے آپ چند منٹوں میں زمیں بوس کردیتے ہو ، اللہ سبحانہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرو وہ یقینا بہت قریب ہے ، اس کی گرفت بہت سخت ہے کہیں تمہیں غریبوں کی آہیں جلاکر بھسم نہ کردیں ، حکومت کب اور کس کے ساتھ ہمیشہ رہی ہے ، تخت پر آج تم براجمان ہو تو کل کوئی اور ۔ حکومت کرنے کا جو طریقہ یوگی نے اپنا یا ہے اس کے وہ خود بھی بہت جلد شکار ہوں گے ، بس چند دنوں کی بات ہے ، پارٹی بدلی کہ تمام آڈر بے معنیٰ ہوکر رہ جائیں گے ، یہ ابلیسی احکام اسی وقت تک جاری ہوتے رہیں گے جبتک ملک کے نوجوان فریب میں مبتلا ہیں جہاں فریب کا چشمہ اترا کہ اس جابر حکومت کو پناہ لینا بھی مشکل ہوجاۓ گا ، حکومتیں جبھی رہتی ہیں جب انصاف زندہ ہوتا ہے ، غیر منصف حکومتیں چند دنوں میں ہی خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں ۔
ملک کا ایک بڑا طبقہ یوگی حکومت کی اس جابرانہ پالیسی سے خفا ہے ، جمہوری ملک میں اس طرح کا شاہی فرمان کسی طرح روا نہیں ، کاروائیوں کے نام پر ایک خاص کمیونٹی کو نشانہ بنانا ، ان کے برسوں محنت سے بنائے گئے آشیانہ کو بلڈوژر سے مسمار کردینا ، پولیس کو پرامن احتجاج کرنے والوں پر گولیاں چلانے کا حکم صادر کرنا ، پولیس کی گرفت میں آئے نوجوانوں کو پولیس چوکی میں زدوکوب کرنا یہ سب ایک کمزور حکومت کی پہچان ہے ، ان حرکتوں پر ملک کی عدلیہ کو سخت رخ اختیار کرنا ہوگا ، ورنہ یادرکھیں آنے والی نسلیں ہمیں اور آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گی ۔ آج دنیا میں بی ، جےپی پارٹی کے ورکرژ اور نیتاؤں کے بیان سے ملک جس طرح شرمسار ہوا ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ، اس لئے ملک کے تمام مذاہب کے نوجوانوں ، مذہبی و سیاسی قائدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک جمہوریت سے آمریت کی طرف تو نہیں جارہی ہے ؟ اگر واقعی آمریت کا بول بالا ہورہاہے تو ہمیں ہرحال میں یکجہتی کا نمونہ پیش کرنا ہوگا ، ظالم حکمراں کا خاتمہ ہمارا مذہبی و جمہوری حق ہے ، گورنمنٹ کی ان تمام غلط پالیسیوں کے خلاف ہمیں آواز بلند کرنی ہوگی ورنہ کل اس غلط پالیسی کے شکار ہم بھی ہوسکتے ہیں ۔ ملک کے انصاف پسند وکلاء کو سپریم کورٹ میں بلڈوژر کے غیر آئینی استعمال پر قدغن لگانے کے لئے پٹیشن داخل کرنے ہوں گے۔
بیرون ممالک ملک کی شبیہ بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے ممالک ہمارے نوجوانوں کے لئےاپنے ملک میں انٹری بند کردیں یہ کہہ کر کہ یہ اس ملک کے نوجوان ہیں جہاں مذہبی تشدد کی بنیاد پر انسانی جانیں روا ہے۔ ہمیں اپنے ملک کی اچھی شبیہ کے لئے ہماری مرکزی گورنمنٹ کو چاہئیے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مساویانہ کردار ادا کریں تاکہ ملک میں جو آمریت کا ماحول ہے اس کا خاتمہ یقینی ہو ۔
ترسیل فکر: صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی پپرادادنوی سیتامڑھی بہار
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی
پوجانگر ، میراروڈ ممبئی
بدھ / 14/ذی القعدہ 1443ھ
15/ جون / 2022 ء

بخدمت اقدس عزیز گرامی عالی مرتبت شہزادہ حضور مُفتی اعظم اڈیشا ، ہمدرد مسلک اعلی حضرت نازش ملّت حضرت مولانا الشّاہ خادم رسول عینی ارشدی مدظلہ العالی

بخدمت اقدس عزیز گرامی عالی مرتبت شہزادہ حضور مُفتی اعظم اڈیشا ، ہمدرد مسلک اعلی حضرت نازش ملّت حضرت مولانا الشّاہ خادم رسول عینی ارشدی مدظلہ العالی
السّلام علیکم و رحمة الله وبرکاتہ
مزاج وہاج ؟
آپ کے برادرِ بزرگوار عظیم عاشق رسول (ﷺ) شہزادہ حضور مُفتی اعظم اُڑیسہ محبوبُ العلمآء والمشآٸخ فضیلةُ الشیخ حضرت الشّاہ پیر سیّد محمّد عطا مُحی الدین حبیبی قُدوسی الحُسینی ارشدی مدظلہ العالی کے اظہارِ محبت اور جذبات خیر اور آپ کی دینی مسلکی خدمات اور بے لوث محبّت اور آپ کے حکم کے پیش نظر فقیر آپ کو سلسلہ عالیہ قادریہ رزاقیہ بغدادیہ ارشدیہ ، سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ قدیمہ و جدیدہ ، سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مُجددیہ دوستیہ عثمانیہ سراجیہ حسنیہ غفوریہ سُبحانیہ ارشدیہ ، سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ ارشدیہ و چشتیہ صابریہ سراجیہ حسنیہ ارشدیہ ، سلسلہ عالیہ سُہروردیہ ارشدیہ ، سلسلہ عالیہ اُویسیہ ارشدیہ مع جمیع سلاسل طریقت کی اجازت و خلافت دیتا ہے –
شراٸط اجازت و خلافت
صحتِ عقیدہ مذہب حق اہلسنّت مسلک اعلی حضرت پر ہمیشہ قاٸم رہیں , تمام بدمذہبوں ، بدعقیدہ لوگوں سے ہمیشہ دُور رہیں ، اتباع شریعت و سنّت ، پنجگانہ نماز باجماعت کی اداٸیگی ، اور جُملہ خلافِ شرع اُمور سے ہمیشہ اجتناب از حد لازم شراٸط ہیں –
(نوٹ)
فقیر کی اجازت وخلافت عقاٸدِ حقّہ اَہلسنّت مسلک اعلی حضرت سواداعظم پرقاٸم رہنے ، شریعت وسنّت مُبارکہ کی اتباع کرنے ، کروانے اور تمام بدمذہبوں سے ہمیشہ بچنے بچانے کی بنیاد پر ہے ، بصورت دیگر فقیر کی دی ہُوٸی اجازت و خلافت منسوخ سمجھی جاٸے گی –
فقط والسّلام خیرختام
مدینے پاک کا بھکاری
خلیفہ ٕمجاز فیض یافتگان خلفاۓ اعلی حضرت
فقیر عبدُالمصطفٰی ابُوالبرکات محمّد ارشد سُبحانی غفرلہ النُّورانی
(بانی و سرپرستِ اعلٰی ماہنامہ ارشدیہ)
خادم تلوکرانوالہ شریف فاضل ضلع بھکر
خاک نشین خانقاہ سراجیہ کُندیاں شریف ضلع میانوالی پنجاب پاکستان
27شوال المکرم /1443 ھ / بمطابق 29 مٸی /2022 ء/ یوم الاحد (اتوار)