WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category شعر و شاعری

نعت شہِ عالمینﷺاز ✒کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا سیتامڑھی

نعت شہِ عالمینﷺ

رہے جو نرگسِ سرکار کا خیال بحال
ہمارے باغِ نظر کا رہے جمال بحال

اسی سے منصبِ دیوانگی کی شان سمجھ
ہیں اس پہ سرور کونین کے بلال بحال

ستارےلفظوں کی صورت جوڈھل رہےہیں مدام
مہِ عرب کی ثنا سے ہے یہ کمال بحال

نبی کی یاد میں گزرے ہیں جس کے دن وہ رہا
بہ وصفِ گردشِ ایام سارے سال بحال

خداۓ برتر و بالا سے مانگ ان کے طفیل
یوں ہوگی لمحے میں موقوفیِ نوال بحال

عجیب ہوش ربا حالتوں سے گزرے مگر
نبی کی یاد نے رکھا دمِ وصال بحال

وہ بد مآل ہو کیوں اس کا حال کیوں ہو خراب
جسے حضور نے فرمایا خوش مآل بحال

دئیے ہیں اور صدف نے بھی کیا یوں دُرِ یتیم
ازل سے دیکھی گئی کیا تری مثال بہ حال

تو کون روکے بحالیِ حال سے اے کلیم
مرے حضور اگر کہہ دیں تیرا حال بحال

از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا سیتامڑھی

نعتِ رسولِ اکرم ﷺاز ✒کلیم احمد رضوی مصباحیپوکھریرا سیتامڑھی بہار

شبِ قدر کی عطا

تیری ممکن نہیں مثیل رسول
تیرا عالم ہوا قتیل رسول

تیرے حسنِ خرام پر قربان
ہے منور مری سبیل ، رسول

اور سب آئنے انہی کے ہیں
فضل میں ہیں فقط اصیل رسول

آتشِ غم ہے سرد جن کے لیے
ہیں تمہارے، مرے خلیل رسول

ظلمتوں کا نصیب صرف شکست
شہر تنویر کی فصیل رسول

ایک بھی تشنۂ کرم نہ ملا
ہیں عطاؤں کی سلسبیل رسول

تجھ کو بے عیب نے کیا بے عیب
ہر جہت سے ہے تو جمیل رسول

ذرہ ہے جن کے آگے مہرِ منیر
ایسے ہیں خوبرو شکیل رسول

سب سے اعلیٰ کتاب جن کو ملی
ہیں وہ شبہات کے مزیل رسول

اپنی یکتائی پر کیا یک نے
تیری یکتائی کو دلیل رسول

غالب آۓ کثیر پر اکثر
شان والے ترے قلیل رسول

سہل گزرے گا یہ حساب کا دن
ہیں گنہ گاروں کے وکیل رسول

ہر جلالت ہے جس خدا کے لیے
اسکی رحمت سےہیں جلیل رسول

اب سپیدِ خوشی ہو جلوہ طراز
شام غم کی ہوئی طویل، رسول

ہر غنی سے غنی نہ کیوں ہو کلیم
آخرش اس کے ہیں کفیل رسول

از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا سیتامڑھی بہار

نعتِ پپاکِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم.. از ✒کلیم احمد رضوی مصباحیپوکھریرا سیتامڑھی9430555134

کئی مہینے بعد توفیق کی ارزانی

نذر احباب

بھیگ کر بارشِ انوَار میں جل تھل ہوتا
میں مدینے میں جو ہوتا یہ مسلسل ہوتا

شان میں عید و شبِ قدر سے افضل ہوتا
دن جو میلادِ پیمبر کا یہ منگل ہوتا

حسنِ سرکار نہ پھیکا کبھی پڑتا کہ مدام
آپ کے سر پہ کڑی دھوپ میں بادل ہوتا

ایسی گفتار کہ سیراب ہوں رندانِ وفا
وہ تبسم کہ عنایات کی چھاگل ہوتا

ہم بھی پڑھتے ہوۓ جاتے شہِ عالَم پہ درود
نام پر ان کے جو برپا کہیں مقتل ہوتا

اور محبوبِ نظر ہو یہ عروسِ رفتار
اس کے پاؤں میں ترے پیار کا پایل ہوتا

تاکہ پھر خلد میں دُہرَاؤں کرم سے ان کے
قصۂ زیست مدینے میں مکمل ہوتا

ایک بے رنگ شجر ہوں یہ تمنا ہے مری
ان کی رحمت مجھے چھو لیتی میں صندل ہوتا

گریہ سے گالوں پہ تصویرِ مدینہ ابھرے
کاش کچھ ایسا مری آنکھ کا کاجل ہوتا

قریۂ جان میں آباد مرا دل ہی نہیں
ان کی چوکھٹ پہ میں ہوتا تو یوں بے کل ہوتا

شاہیاں ہوتیں مرے در کی کنیزوں میں کلیم
بس یہ ہوتا، میں گداۓ درِ مرسل ہوتا

از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا سیتامڑھی
9430555134

نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

جہاں کا ہے اجالا نام ان کا
ہے جانب حق کی رستہ نام ان کا

قبول توبہء آدم ہے شاہد
مقدس ہے وسیلہ نام ان کا

محمد ارض میں ، احمد فلک پر
سبھی ناموں میں پیارا نام ان کا

مصیبت سے ملا چھٹکارا ، جب بھی
صحابہ نے لیا تھا نام ان کا

خدا کا کام آقا نے کیا یوں
ہے دنیا میں زیادہ نام ان کا

اسی سے روشنی ہے چاروں جانب
جبین ضو کا غازہ نام ان کا

ہو وہ دن رات یا ہو صبح یا شام
ہمارے لب پہ آیا نام ان کا

اسی کے ساءے میں راحت ہے ہم کو
ہے نوری شامیانہ ‌نام ان کا

چھپے اس میں نہ جانے کتنے اسرار
ہے اسم عارفانہ نام ان کا

لکھا ہے ہر گل جنت پہ عینی
عجب رکھتا ہے جلوہ نام ان کا
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

منقبت در شان حضرت علی کرم اللہ وجہہ۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

لائے کہاں سے دہر بیان ابو تراب
رشک لسانیات ، لسان ابو تراب

کرتا ہے آسمان بھی جھک کر انھیں سلام
اللہ نے بڑھائی ہے شان ابو تراب

قسمت پہ میری رشک کریں مہر و ماہ بھی
دل میں ہے میرے نقش نشان ابو تراب

ملعون ہے یزید ، سبھی کہتے ہیں یہی
حضرت حسین جب کہ ہیں جان ابو تراب

ہے اس کی چاشنی پہ ہر اک ذائقہ نثار
انجیر سے بھی بڑھ کے ہے نان ابو تراب

باقی رہیگی اس سے چمک اور دمک سدا
لعل و گہر سے پر ہے یوں کان ابو تراب

سب کہکشائیں علم کی ہیں عینی آس پاس
کتنا وسیع تر ہے جہان ابو تراب
۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

مصطفی’جان رحمت پہ لاکھوں سلام۔۔۔۔۔از قلم : سید خادم رسول عینی

مصطفی’جان رحمت پہ لاکھوں سلام
۔۔۔۔۔

وضو کے مستحبات کی حکمت پر جب حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا تھا :

کلی کرنے سے پانی کے ذائقے کا پتہ چلتا ہے ، ناک میں پانی ڈالنے سے اس کی بو کا پتہ چلے گا اور ہاتھ میں پانی ڈالنے سے پانی کے رنگ کا پتہ چلتا ہے ۔
اعلیٰ حضرت کی اس عقلی دلیل سے یہ واشگاف ہوا کہ
اسلام کے احکام میں کچھ نہ کچھ حکمت پنہاں رہتی ہے اور سائنٹیفک رزننگ ہوتی ہے۔

سرکار اعلی’حضرت کی سیرت کا اگر مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ آپ کے اقوال و افعال میں بھی حکمت عملی پوشیدہ رہتی تھی ۔مثال کے طور پر حدائق بخشش میں شامل مشہور کلام رضا ہے:

مصطفی’جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

آخر اس سلام کے لکھنے میں کیا حکمت عملی تھی؟ آئیے سب سے پہلے اس کلام کا مختصر عروضی تجزیہ کرتے ہیں:
اس کلام کے افاعیل ہیں :
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن/ فاعلات
اور بحر کا نام ہے:
بحر متدارک مثمن سالم ۔
ضرب/ عروض میں فاعلن کی جگہ فاعلات لاکے زحاف ازالہ کا استعمال کیا گیا ہے۔
جیسا کہ مرزا غالب نے مندرجہ ذیل شعر :

حسن اور اس پہ حسن ظن رہ گئی بو الہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمایے کیوں

کے اولی’میں ازالہ کا استعمال کیا ہے۔

اس کلام کا ایک شعر یوں ہے:

شب اسریٰ کے دولھا پہ دائم درود
نوشہء بزم جنت پہ لاکھوں سلام

اس شعر کے اولی’ کے افاعیل یوں ہیں :
فعلن فاعلن فاعلن فاعلات
اس مصرع کے صدر میں فاعلن کی جگہ فعلن کا استعمال کرکے امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے زحاف خبن کا استعمال فرمایا ہے۔
جیسا کہ مرزا غالب کے مشہور شعر :

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

کے اولی’میں خبن کا استعمال ہوا ہے۔

سرکار اعلی’حضرت کے اس کلام میں عروضی خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت ساری بدیعی خوبیاں بھی ہیں ۔اس کلام میں تشبیہات بھی ہیں استعارات بھی ، اس میں علامات بھی ہیں اور تلمیحات بھی ۔تشبیہ مفصل بھی ہے تشبیہ مجمل بھی ، تشبیہ حسی بھی ھے تشبیہ عقلی بھی ، تشبیہ مفرد بھی ہے تشبیہ مرکب بھی ۔ صنعت متلون بھی ہے اور صنعت تضاد بھی ۔معنویت کی فراوانی بھی ہے اور محاکات کی جلوہ گری بھی ۔صنعت تنسیق الکلمات بھی ہے صنعت تنسیق الصفات بھی ۔انسجام کا حسن بھی ہے اور تفویت کی تجلی بھی ۔تہذیب و تادیب بھی ہے اور حسن نزاکت بھی ۔فرائد کا حسن بھی ہے اور فصاحت و بلاغت کی بہاریں بھی۔اشارہ و کنایہ کا حسن بھی ہے اور سہل ممتنع کا جمال بھی۔صنعت طباق کا حسن بھی ہے اور تقابل تضاد کی رعنائی بھی ۔ سجع مماثلہ بھی ہے اور مجاز مرسل بھی ۔صنعت اشتقاق بھی ہے اور ترصیع کا حسن بھی ۔ صنعت مراعات النظیر کا حسن بھی ہے اور صنعت تکرار بھی ۔
وغیرہ وغیرہ ۔

ایک عرصے سے لوگ یہ سلام پڑھتے آرہے تھے:

یا نبی سلام علیک
یا رسول سلام علیک

اور اس کے ساتھ چار مصرعوں پر مشتمل مختلف بند پڑھے جاتے ہیں ، مثلا”:

قطرہ قطرہ دریا دریا
ذرہ ذرہ تارا تارا
جب ہوءے سرکار پیدا
سارا عالم کہہ رہا تھا

اس بند کے افاعیل مندرجہ ذیل ہیں:
فاعلاتن فاع فعلن
اور اس بحر کا نام ہے :
بحر رمل مسدس مزاعف مدروس مخبون محذوف

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا میزان فاعلاتن فاع فعلن کے مطابق یا نبی سلام علیک موزوں ہوتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔
گویا یہ مصرع ناموزوں ہے۔ثانیا” جب عوام میں سے اکثر لوگ یا نبی سلام علیک پڑھتے ہیں ، وہ ع گرا کے پڑھتے ہیں ، یعنی یا نبی سلاملیک پڑھتے ہیں جس کے سبب یہ ترکیب مہمل بن جاتی ہے۔

جب ہم کسی دوست کو سلام کہتے ہیں تو یوں کہتے ہیں: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ اور کہتے وقت علیکم کے عین کا درست تلفظ ادا کرنا نہیں بھولتے ۔تو پھر جب نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجیں تو یا نبی سلام علیک کی جگہ یانبی سلاملیک پڑھیں ؟ ہر گز نہیں ۔جب کوئی شخص ہم کو السلام علیکم کی جگہ السلاملیکم کہے تو ہم آگ بگولہ ہو جاتے ہیں کہ ہم کو یہ شخص سلام نہیں کہہ رہا ہے ، بلکہ مہمل لفظ استعمال کررہا ہے ۔ تو کیا یہ عجب نہیں لگتا کہ ہم نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سلام پڑھتے وقت مہمل لفظ کا استعمال کریں ؟

شاید یہی وجہ کہ سرکار اعلیٰ حضرت نے مصطفی’جان رحمت پہ لاکھوں سلام جیسا لا جواب کلام لکھا جو موزوں ہے، مہمل نہیں ہے ، عروضی حسن رکھتا ہے اور بدیعی جمال بھی وغیرہ وغیرہ ۔

شاید یہی وہ حکمت عملی ہے جس کی بنیاد پر ایک بہترین نعم البدل عطا فرماتے ہوئے سرکار اعلی’حضرت نے کلام مصطفی’ جان رحمت پہ لاکھوں سلام لکھا تاکہ جامع الکم (حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم) کی بارگاہ میں وہ منظوم ہدیہء سلام پیش کیا جائے جو فصیح بھی ہو اور بلیغ بھی ۔

لہذا جو یہ کہے کہ مصطفی’جان رحمت پہ لاکھوں سلام نہ پڑھ کے یا نبی سلام علیک پڑھو وہ شدید غلطی پر ہے اور علم عروض ، علم بیان ،علم معنی و علم بدیع سے نا واقفیت رکھتا ہے ۔اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:

جس کے دل میں ہے پیوست ذوق سلیم
وہ سلام رضا سے مچل جائےگا

سلام و نعت رضا کوئی تو سنائے ذرا
کہ پھیکی لگتی ہے محفل شہ رضا کے بغیر

از قلم : سید خادم رسول عینی

منقبت در شان حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

حمد باری میں تھا ہر لمحہ معین الدین کا
اس لیے عالم میں ہے شہرہ معین الدین کا

پیار ہر اک دل میں ہے خواجہ معین الدین کا
مرکز عشق و وفا روضہ معین الدین کا

شر سے وہ رخصت ہوا اور خیر کی جانب چلا
جس بشر کو مل گیا صدقہ معین الدین کا

ہند کا راجہ بناکے بھیجا آقا نے انھیں
جان لیجیے اس سے ہی رتبہ معین الدین کا

کوئی دیکھے ان کے مرشد ہرونی کا فیض خاص
ہر جگہ ہوتا رہا چرچا معین الدین کا

ہجرتیں کیں اور مصائب خوب جھیلے زیست میں
دیں کی خاطر دیکھیے جذبہ معین الدین کا

دیکھتا تھا میں تصور میں وہیں سے خلد پاک
سامنے جب تھا مرے روضہ معین الدین کا

دیکھ لو شق کرکے سینہ، اس میں ہے ایماں کا نور
ایسا عاشق میں ہوا پختہ معین الدین کا

کلمہء توحید ، عزم پختہ و عشق نبی
تھا یہی بھارت میں کل دستہ معین الدین کا

وہ عطائے ہادیء کل عالمیں ہیں ، اس لیے
رستہ ہے سرکار کا رستہ معین الدین کا

ہیں بنائے لا الہ سبط امام‌ المرسلیں
یاد رکھیے آپ یہ نکتہ معین الدین کا

ہند کے سلطان کے در پر ہیں حاضر شاہ بھی
ہے بہت موزوں لقب خواجہ معین الدین کا

ہیں نظام الدیں فرید الدیں نصیر الدین گل
کس قدر عالی ہے گلدستہ معین الدین کا

گر گیا غش کھا کے وہ آیا فلک سے ارض کو
دیکھا جب جے پال نے پنجہ معین الدین کا

اس کی برکت سے ہوئے اوراق سب تابندہ تر
ہے کتاب زیست میں صفحہ معین الدین کا

کوئی میخانہ زمانے کا مجھے کیسے لبھائے
پی لیا ہے میں نے جب بادہ معین الدین کا

کیوں نہ مرہون کرم ہوں ہند کے سب مومنین
ہے یہاں ایماں عطا کردہ معین الدین کا

یہ انا ساگر کے قصے سے ہوا ہے واشگاف
مثل دریا ہے ہر اک قطرہ معین الدین کا

پڑھ کے اس کو جان لیجیے عظمت سبط نبی
ہے بہت واضح تریں قطعہ معین الدین کا

سارے قلعے بادشاہوں کے ہوئے اس پر نثار
چھو رہا ہے چرخ کو قلعہ معین الدین کا

نسبت عالی کا ہے گر پاس اے عشاق شہ
آپ بھی اپنائیے اسوہ معین الدین کا

گل ہی کیا خار چمن بھی ان کے گرویدہ ہوئے
کس قدر لہجہ ہے شائستہ معین الدین کا

آپ اجمیر مقدس جاکے دیکھیں ان کا رنگ
کس قدر تابندہ ہے قریہ معین الدین کا

دامن کہسار میں آرام فرما ہیں مگر
ساحل دریا میں ہے سکہ معین الدین کا

ہوگیا ظاہر یہی ھذا حبیب اللہ سے
ہے ولایت میں بڑا رتبہ معین الدین کا

میری آنکھوں کی ہے ٹھنڈک اور قرار قلب ہے
ہے عزیز از جان بھی روضہ معین الدین کا

کتنوں نے زلفیں سنواریں خوبیء کردار کی
ہے بہت شفاف آءینہ معین الدین کا

ہے مقدس تر تصوف کا محل اس کو بچاؤ
قیمتی ہے عینی سرمایہ معین الدین کا

مسلک احمد رضا خاں کا جو حامی بن گیا
عینی ہوگا بس وہی پیارا معین الدین کا
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

شکست ناروا !۔۔۔۔۔۔۔از قلم : سید خادم رسول عینی

۔

بزم غوث الورٰی کے دوسویں (انعامی) مشاعرے میں مصرع طرح دیا گیا تھا:

رسول اکرم حبیب داور کا ہر صحیفے میں تذکرہ ہے ۔

یہ مصرع دیکھ کر ایک صاحب نے ہمیں انباکس کیا کہ اس مصرع میں شکست ناروا کا عیب ہے کیونکہ مصرع کے پہلے نصف حصے میں فقرہ ختم نہیں ہوا اور کا پہلے حصے میں آنا چاہیے تھا ۔

بزم تاج الشریعہ کے گزشتہ مشاعرے میں بھی ایک دوسرے صاحب نے شعرا کے چند اشعار پر ریمارک لکھا کہ اس مصرع میں شکست ناروا ہے کیونکہ مصرع کے پہلے نصف حصے میں فقرہ تمام نہیں ہوا ۔

تو آئیے سمجھتے ہیں شکست ناروا کیا ہے ۔شکست ناروا کسے کہتے ہیں ۔شکست ناروا کا اطلاق کن بحروں میں ہوتا ہے۔

معترضین نے جس ترکیب پر اعتراض کیا اور شکست ناروا کا فتوی’ صادر فرمایا ایسی ترکیب استاد شعرا کے اشعار میں بھی ملتی ہے۔مثال کے طور پر امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا یہ شعر دیکھیں :

نئی دلھن کی پھبن میں کعبہ ، نکھر کے سنورا ، سنور کے نکھرا
حجر کے صدقے، کمر کے اک تل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے

اس شعر کے افاعیل ہیں :
مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن
اولی’ میں پہلے دو ارکان کعبہ پر ختم ہوگئے
لیکن ثانی میں پہلے دو ارکان تل پر ختم ہوئے۔معترضین کا کہنا ہے کہ پہلے دو ارکان تل میں پر ختم ہونے چاہیے تھے اور چونکہ ایسا نہیں ہوا ایسی ترکیب کو شکست ناروا کہتے ہیں ۔
کیا یہ واقعی شکست ناروا ہے ؟ کیا ایسی ترکیب معائب سخن میں شامل ہے؟ ہر گز نہیں ۔

ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
کبھی اے حقیقت منتظر، نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
اس شعر کے افاعیل ہیں:
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
اولی’ میں پہلے دو ارکان منتظر پر ختم ہوگئے
لیکن ثانی میں پہلے دو ارکان رہے پر ختم ہوئے۔
۔معترضین کا کہنا ہے کہ پہلے دو ارکان رہے ہیں پر ختم ہونے چاہیے تھے اور چونکہ ایسا نہیں ہوا ایسی ترکیب کو شکست ناروا کہا جاتا ہے۔
کیا یہ واقعی شکست ناروا ہے؟ کیا ایسی ترکیب معائب سخن میں شامل ہے؟ ہر گز نہیں ۔

تو پھر شکست ناروا کسے کہتے ہیں ؟
شکست ناروا کو سمجھنے کے لیے پہلے دوہا کے ارکان سمجھتے ہیں ، کیونکہ شکست ناروا کا اطلاق دوہا میں ہوتا ہے۔دوہا کے ارکان مندرجہ ذیل ہیں:
فعلن فعلن فاعلن ، فعلن فعلن فاع
استاد گرامی علامہ سید اولاد رسول قدسی کا ایک دوہا ملاحظہ فرمائیں:
اعلیٰ نعمت ہے زباں ، اس کا رکھیے پاس
دیتے ہیں خود کو ضرر ، بے جا قیل و قال
اولی’کی تقطیع یوں ہے:
فعلن۔۔۔۔اعلا
فعلن ۔۔۔۔نعمت
فاعلن ۔۔۔ہے زبا

فعلن۔۔۔اس کا
فعلن ۔۔۔رکیے
فاع۔۔۔۔پاس

اگر اولی’ یوں ہوتا :
اعلیٰ نعمت ہے لب اس کا رکھیے گا پاس
تو اس کی تقطیع یوں ہوتی:
فعلن۔۔۔اعلا
فعلن۔۔۔نعمت
فاعلن ۔۔۔ہے لبس

فعلن۔۔۔کا رک
فعلن ۔۔۔یےگا
فاع ۔۔۔پاس

اس خود ساختہ مصرع میں شکست ناروا ہے کیونکہ بحر کا پہلا نصف حصہ لب اس پر ختم ہورہا ہے ، جب کہ لب پر ختم ہونا چاہیے تھا جیسا کہ علامہ قدسی کے اصل مصرع :
اعلیٰ نعمت ہے زباں ، اس کا رکھیے پاس
میں زباں پر ختم ہورہا ہے اور دوسرے نصف حصے میں ایک مکمل فقرہ اس کا رکھیے پاس آرہا ہے اور دوہا کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے کہ فعلن فعلن فاعلن میں مصرع کا ایک فقرہ ختم ہوجانا چاہیے ،اگر ایسا نہیں ہوا تو ایسے مصرع کو عیبی کہا جائےگا اور اس عیب کو شکست ناروا کہا جاتا ہے ۔

مندرجہ بالا مثال سے یہ مزاج ملا کہ شکست ناروا کا اطلاق دوہا کی بحر پر ہوتا ہے اور دوہا میں کل بارہ ارکان ہوتے ہیں:
فعلن فعلن فاعلن، فعلن فعلن فاع
فعلن فعلن فاعلن ، فعلن فعلن فاع

گویا شکست ناروا کا اطلاق بارہ رکنی یا سولہ رکنی یا اس سے زیادہ ارکان والی بحروں میں ہوتا ہے۔
یعنی کہ شکست ناروا کا اطلاق مسدس اور مثمن بحروں میں نہیں ہوتا ۔ علامہ رضا بریلوی اور ڈاکٹر اقبال کے مذکورہ اشعار مثمن بحروں میں ہیں ۔ لہذا شکست ناروا کا اطلاق ان اشعار میں نہیں ہوگا اور یہ دونوں اشعار شکست ناروا عیب سے پاک ہیں ۔

مندرجہ بالا تجزیے سے یہ پتہ چلا کہ شکست ناروا کا اطلاق ان بحروں میں نہیں ہوگا:
مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن
متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
فعولن فعولن فعولن فعولن
اور اس قسم کی مثمن بحریں ۔

لیکن مسدس یا مثمن بحروں کو اگر مضاعف کردیں یعنی کہ مسدس کو بارہ رکنی اور مثمن کو سولہ رکنی کردیں تو شکست ناروا کا اطلاق ہوگا ۔یعنی ان بحروں پر شکست ناروا کا اطلاق ہوگا:
فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
اور اس قسم کی سولہ رکنی یا بارہ رکنی یا اس سے بھی زیادہ ارکان کی بحریں ۔

علامہ ارشد القادری کا یہ شعر دیکھیں:
سامنے جلوہ گر پیکر نور ہو ، منکروں کا بھی سرکار شک دور ہو
کرکے تبدیل اک دن لباس بشر ، دونوں عالم کے سرکار آجائیے ۔
اس شعر کے افاعیل یہ ہیں :
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
یعنی کہ یہ بحر سولہ رکنی ہے۔
علامہ کے شعر کے اولی’ کا تجزیہ کریں ۔ مصرع کا پہلا فقرہ سامنے جلوہ گر پیکر نور ہو بحر کے پہلے نصف حصے میں ختم ہوگیا اور فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن کے وزن پر آگیا ، دوسرا فقرہ منکروں کا بھی سرکار شک دور ہو کا وزن ہے فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔
لیکن اگر اولی’ یوں ہوتا : سامنے‌ جلوہ گر آپ ہوں ، منکروں کا بھی اے میرے سرکار شک دور ہو
اس خود ساختہ مصرع میں پہلا فقرہ سامنے جلوہ گر آپ ہوں کا وزن ہے فاعلن فاعلن فاعلن اور دوسرے فقرے منکروں کا بھی اے میرے سرکار شک دور ہو کا وزن ہے فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔چونکہ مصرع کا پہلا فقرہ بحر کے نصف حصے تک نہیں پہنچا اور دوسرے فقرے کا ایک لفظ منکروں پہلے نصف حصے میں ہی رہا ، یہ ترکیب شکست ناروا کے زمرے میں داخل ہوجائےگی اور ایسا مصرع عیب دار ہوگا ، کیونکہ جب اس طویل بحر کی قرأت کرینگے تو مصرع کے پہلے نصف حصے میں وقف لازم ہے، دوہا کی طرح ۔

مندرجہ بالا تجزیے سے یہ ثابت ہوا کہ شکست ناروا کا اطلاق مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن بحر پر نہیں ہوگا ۔ لہذا بزم غوث الورٰی میں دیے گیے مصرع رسول اکرم حبیب داور کا ہر صحیفے میں تذکرہ ہے میں شکست ناروا نہیں ہے۔

از قلم : سید خادم رسول عینی

Naat in English………By: Sayed khadime Rasul Aini

You are the first creation,you are the last prophet,
For you the world is set you are the last prophet.

Your travelling to non-abode was definitely
Faster than light and jet ,you are the last prophet.

For benefit of ummah you used to cry and cry lot,
Your sacred eyes were wet,you are the last prophet.

You are so praiseworthy,in your glorification
Are full the paper and net,you are the last prophet.

All proves and evidence of your finality
In the Quran we get you are the last prophet.

You are unique my master,nobody is your rival,
Allah only you met,you are the last prophet.

You are the mercy for all ,you are the benevolent,
You did not let Aini fret,you are the last prophet
……
By: Sayed khadime Rasul Aini

غزل‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

خواہشوں کو وہ مری خوب جگانے آیے
دن‌ ہو یا رات یہی خواب سہانے آئے

بادہ ، دیدار ، جنوں ، حوصلہ و جوش و خروش
“پھر مرے ہاتھ محبت کے خزانے آئے”

ان کی آمد ہے مرے دل میں بہت کار آمد
کعبہء دل کو وہ شفاف بنانے آئے

آئے بادل تو ہے امکان بھی ہمدردی کا
یہ نہ سمجھو کہ فقط بجلی گرانے آئے

سیکھیے گھونسلوں سے آپ پرندوں کے ذرا
اجنبی شہر میں بھی گھر وہ بسانے آئے

پہلے حالات جو تھے اس سے ہیں بد تر حالات
کیسے کہتے ہو کہ پھر اچھے زمانے آئے

زندگی پر جو مری ظلم کے توڑے تھے پہاڑ
بیچ کر قبر مری اب وہ کمانے آئے

ان کا در منبع انوار ہے سورج جیسا
بارش نور میں ہم “عینی” نہانے آئے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی