WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

قوم بے حس ترے کردار پہ رونا آیا—از:- محمد کہف الوری مصباحی

فضول باتیں کرو نہ ہم سے ہمارا بھیجا پکا ہوا ہے

سوال بے جا کی سوزشوں سے دماغ میرا تپا ہوا ہے

جہالتوں کی ہے مارا ماری علوم سے اب کسے ہے یاری

جدھر بھی دیکھو گلی گلی میں فتن کا میلہ لگا ہوا ہے

مخالفت کے شرارے دل میں موافقت کے ڈھکوسلے ہیں

لباس رہبر میں آج رہزن سماج سیوک بنا ہوا ہے

بہار تنقید کی جوانی پہ بوکھلوں نے ہے پھیرا پانی

پڑھا تھا جن سے’الف’ ‘با’ ‘عم’ انہیں کا ابا بنا ہوا ہے

بڑا مہذب خلیق اعظم سخن چیں یوں کہ فدا ہو عالم

زباں پہ اللہ چھری بغل میں کسے خبر یہ بکا ہوا ہے

زبانی دعوائے اعتدالی لبوں پہ ان کے حسین گالی

کسے بتائیں ہم ان کے نخرے گلے پہ چاقو دھرا ہوا ہے

بتائے سب کو بڑا فسادی کسی کو حاسد کھلا عنادی

صلاح دیتا ہے سب کو علمی جہل کا امرت پیا ہوا ہے

زنانی زلفیں گھنیراسرمہ ولی کی صف میں کھڑا بے دھرما

دھرم کو سنکٹ ہوا ہے جس سے وہی تو اگوا بنا ہوا ہے

شرافتوں کے ہیں جبے قبے زباں پہ سیٹھوں کے لمبے خطبے

شرارتوں کا وہ ہے مجسم شریف لیبل لگا ہوا ہے

ملی جو پیری جناب والا خزانوں کا کھل گیا ہے تالا

بنا کے چیلہ امیروں کو خود مرید ان کا بنا ہوا ہے

موالی غنڈوں کا بھی ہے دادا مرید کم ہیں مریدہ زیادہ

کسی نے مانگا نہ منہ سے پانی مرا جو اس کا ڈسا ہوا ہے

خلافت ان کی سراپا آفت سراپا ان کا سراپا زحمت

فریب کو وہ کہے کرامت خرافتوں میں گھرا ہوا ہے

بنا مدرسوں کا ناظم الہڑ نظام گھٹیا پڑھائی گڑ بڑ

خبر نہیں ہے مدرسوں کی صدر مدرس بنا ہوا ہے

حکیم ہے حکمتوں سے خالی دوائیں اس کی بڑی نرالی

کھرل میں کوٹے وہ گھاس بھوساکہے یہ نسخہ جچا ہوا ہے

ہمہ کارہا کے حوصلے ہیں فقط دکھاوے کے چونچلے ہیں

ترقی ان کی ثری میں پہنچی بلند پرچم کیا ہوا ہے

ہر ایک شعبے میں ہے ملاوٹ اندھیر نگری ہے راج چوپٹ

ہر ایک ٹیچر پھٹیچروں کے ستم کا دھندا بنا ہوا ہے

بہت نا ہانکو تعلی ازہر کہانی تیری ہے سب کو ازبر

ذرا سا تاکو تم اپنے اندر گریباں تیرا پھٹا ہوا ہے

محمد کہف الوری مصباحی

نائب صدر: لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل، نیپال نگران اعلی: فروغ اردو زبان، تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، وارڈ نمبر 2، ضلع بانکے نیپال

موبائل نمبر:-9779814516787+

گر چاہیے حکومت ہے لازمی سیاست:- نتیجۂ فکر:- محمد کہف الوری مصباحی

گر چاہیے حکومت ہے لازمی سیاست

بے شک برائے عظمت ہے لازمی سیاست

مکر و فریب سے گر ہے قوم کو بچانا

بہر دفاع امت ہے لازمی سیاست

تعلیم و معیشت کا بحران دور ہوگا

کرنی ہے گر تجارت ہے لازمی سیاست

اب اس جہاں میں کوئی نہ کام تیرا ہوگا

گر ہے عمل سے رغبت ہے لازمی سیاست

فرش زمیں پہ ظالم کی حکمرانی کیوں ہے؟

کرنے کو اب بغاوت ہے لازمی سیاست

رہبر کی کرسیوں پر قبضہ ہے رہزنوں کا

کرنی ہے گر حفاظت ہے لازمی سیاست

تیرا وقار و شہرہ ہے مٹ گیا جہاں سے

بہر حصول شہرت ہے لازمی سیاست

یوں قوم کیوں جہاں سے ہے خوف زدہ ازہر

بہر بحال سطوت ہے لازمی سیاست

نتیجۂ فکر:- محمد کہف الوری مصباحی

نائب صدر: لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل، نیپالنگران اعلی: فروغ اردو زبان، تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، وارڈ نمبر 2، ضلع بانکے نیپالموبائل نمبر+9779814516787

Shabe baraat……By: Sayed khadime Rasul Aini

A night of making fortune is shabe baraat,

The cause of celebration is shabe baraat.

This night was revealed the ayah of the darood,

The time of salutation is shabe baraat.

Prophet was given power of recommendation,

Time of rejuvenation is shabe baraat.

Beg before The Almighty whatever you want,

Night of great invitation is shabe baraat.

Let us go to the masjid and pray together,

A night of congregation is shabe baraat.

Let us meet the people and rebuild the friendship,

Time of reconciliation is shabe baraat.

The Prophet termed this month O Aini as His month,

Great beyond imagination is shabe baraat.

شب برأت۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

مسرتوں میں مسلمان آج کی شب ہے

اہم تریں شب شعبان آج کی شب ہے

جزا کے باغ کا ریحان آج کی شب ہے

یہ نفس دیکھ کے حیران آج کی شب ہے

حسد ، عناد کو بالائے طاق رکھیں آپ

نزول رحمت رحمان آج کی شب ہے

درود پاک کی آیت کا ہوگیا ہے نزول

نہ کیوں میں کہہ دوں کہ ذیشان آج کی شب ہے

گنہ معاف ہوئے اور مل گیا مژدہ

سبھی کے ہونٹ پہ مسکان آج کی شب ہے

شفاعتوں کا ملا اختیار آقا کو

خدا کا خوب یہ فیضان آج کی شب ہے

اے بندے مانگ ، تجھے جو بھی مانگنا ہے اب

خدائے پاک کا اعلان آج کی شب ہے

خدا کریگا نمازی کی حاجتیں پوری

نماز خیر کا اعلان آج کی شب ہے

ملک کے واسطے ہے عید “عینی ” آج کی رات

زمین کا بھی خوش انسان آج کی شب ہے

شب برات۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

میرے خدا کی خوب ہے نعمت شب برات

دیتی ہے سب کو راہ ہدایت شب برات

کرتے رہو عبادت رب اجتماعی بھی

مومن کو دے رہی ہے یہ دعوت شب برات

تشریف لے گئے تھے نبی جنت البقیع

ہم کو دکھاتی ہے رہ سنت شب برات

اے میرے بندے مانگ تو کیا مانگتا ہے آج

کہتا ہے رب بطور عنایت شب برات

بچنا ہے تم کو بغض و حسد اور عناد سے

تم پر کرے گی ہر گھڑی نصرت شب برات

تقدیس والی راتوں میں ہے ایک رات یہ

رب کی قسم ہے حامل عظمت شب برات

یارب بنادے زندگی تابندہ “عینی” کی

نوری ہے تیری شب مہ نکہت شب برات

شب برأت°°°°°°از فریدی صدیقی مصباحی باره بنکوی مسقط عمان0096899633908

(1) بندےکی التجائیں

یارب ترے کرم کی دُہائی شبِ برات
بَھر دے مرا بھی دستِ گدائی شبِ برات

سوکھا ہوا ہے باغِ عمل اے مرے کریم
اس کو ملے بَہارِ عطائی شبِ برات

مجھ کو بھی اپنی چادرِ رحمت میں ڈهانپ لے
کتنوں کی لاج تو نے بچائی شب برات

شرمندہ ہوں گناہوں کی آلودگی سے میں
عِصیاں کی ہو جگر سے صفائ ، شب برات

ہموار ہوں مرے لیے نیکی کے راستے
پَٹ جائے ہر گناه کی “کھائی” شب برات

ٹوٹا ہے بارِ غم سے مرا پیکرِ وجود
یارب تو کردے رنج کُشائی شب برات

سارے فریب ، نفس پرستی کے دور ہوں
دل سے دُهلے ، ہر ایک بُرائی شب برات

ہوں سارے خوش عقیده مسلمان متّحد
مل جائے ہر ” اِکائی دَہائی ” شب برات

تو اپنی رحمتوں سے ، بنادے اِنھیں گُہر
ہم نے جو بزمِ اشک سجائی شب برات

تیرے کرم سے پایا ہے نیکوں نے جو مقام
اُس درپہ ہو مری بھی رَسائی شب برات
°°°°°°°°
(2) رب کی عطائیں

فرمایا رب نے ، اے مرے بندے بغور سُن !
مقبول ہوگی، عرض نوائی شب برات

اپنی خطا پہ نادم و شرمنده ہو کے آ
تائب کو نار سے ہے رِہائی شب برات

ظاہر کو تو نے خوب سجایا سنوارا ہے
باطن کی کر رَنگائ پُتائ ، شب برات

جو سچّی توبہ کرتے ہیں، اُن سب کے واسطے
پیغام مغفرت کا ہے لائی شب برات

سب سے “کَہے سُنے” کی معافی طلب کریں
غصہ رہے نہ بھائی سے بھائی شب برات

ہستی کے آئینے میں کرم جگمگائے گا
زخمِ گناه کی ہے دوائی شب برات

ہوں گے نصیب ، اس کو اُجالے بہشت کے
جس نے بھی شمعِ توبہ جلائی شب برات

دنیا بھلے ہی دے کہ نہ دے اُن کو اہمیت
ہے بھاؤ خاکساروں کا “ہائی” شب برات

رو رو کے ، گِڑگڑا کے جو مجھ کو مناتے ہیں
پاتے ہیں خلد کی وه بَدهائی شب برات

تو بھی فریدی ! اپنی جبینِ نیاز رکھ
کر نیکیوں کی خوب کمائی شب برات

رنگائ پُتائ ، رنگنا، کَلَرکرنا

مرے لبوں پہ مقالہ شب برأت کا ہے:- از قلم قسمت سکندرپوری یو پی انڈیا

مرے لبوں پہ مقالہ شب برأت کا ہے

نگاہ و دل میں اجالا شب برأت کا ہے

درودپاک پڑھوں اور شب گزر جائے

یہ سب سےقیمتی تحفہ شب برأت کاہے

کریں گناہوں سےتوبہ پڑھیں درودوسلام

یہی صحیح طریقہ شب برأت کا ہے

خدا کرے کہ وہ مشہورِ عام ہو جائے

جوخاص خاص وظیفہ شب برأت کا ہے

دھلیں گے فردِ خطا ,روکے آب ِتوبہ سے

بڑا مفید یہ نسخہ شب برأت کا ہے

یہ خود بتانے نبی جنت البقیع گئے

اٹوٹ قبروں سے رشتہ شب ِبرأت کا ہے

شب ِبرأت لحاظ ان کاکم نہیں رکھتی

خیال جن کو زیادہ شب برأت کا ہے

غبار, دل میں نہ آئے فساد ِ نیت کا

یہ پاک صاف ارادہ شب برأت کا ہے

خدائےپاک کےلطف وکرم کی شبنم سے

ہر ایک گل تر و تازہ شب ِبرأت کا ہے

پلک جھپکنے نہ پائے,نجات کیلئےخاص

نہ جانے کون سا لمحہ شب ِبرأت کا ہے

,رجب,خدا کا تو,روزہ,نبی کی امت کا

حضور والا مہینہ شب ِ برأت کا ہے

خداکےگھر میں بلاؤ خدا کے بندوں کو

یہ کہہ ان سےکہ جلسہ شب برأت کاہے

پکائیں,کھائیں,پٹاخےجلائیں,سوجائیں

ہمارےدل میں یہ خاکہ شب برأت کاہے

وہابیوں کو قسمت,بچا کھچا دے دو

تمہارے پاس تو حلوہ شب برأت کاہے

لذت عیش میں عقبی کی سزا بھول گیا:- نتیجہ فکر:-محمد کہف الوری مصباحی، نائب صدر: لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل، نیپال، نگران اعلی: فروغ اردو زبان تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، ضلع بانکے، موبائل نمبر:-9779814516787+

حسن دنیا میں شریعت کی ادا بھول گیا

شاخ تھا جس کی اسی سے تو وفا بھول گیا

مست دولت میں ہے عقبی کو بھُلا بیٹھا ہے

عشق دولت سے کیا ذکر خدا بھول گیا

ہر اک عنوان پہ چلتی ہے زباں خوب تری

ہائے افسوس کہ تو حق کی سدا بھول گیا

بے حیائی کو تو نے آج حیا سمجھا ہے

حیف صد حیف کہ تو طرز حیا بھول گیا

فکر امروز نہیں بھول گیا فردا کو

کیسی غفلت ہے تری رسم بقا بھول گیا

تیری نظروں میں بسا رنگ شعار اغیار

غیر کے پیچھے چلا اپنا پتہ بھول گیا

تیرے کردار پہ شرمائیں یہود و مشرک

جرم پہ جرم کیا نام خطا بھول گیا

راستے خوب گناہوں کے تجھے ہیں ازبر

نیک راہوں سے ہٹا راہ ہدی بھول گیا

اپنے اعمال سے اسلام کا باغی تو بنا

لذت عیش میں عقبی کی سزا بھول گیا

جنتی بننے کا دل میں ہے ترے شوق مگر

پیار شیطاں سے کیا حکم خدا بھول گیا

بے محل جوش بھی جذبہ بھی تجھے آتا ہے

دین کے واسطے تو ہونا خفا بھول گیا

اہل دنیا کی رضا کے لیے در در بھٹکا

خلق کے ڈر سے تو خالق کی رضا بھول گیا؟

قدرداں اپنا یہاں کوئی نہیں ہے ازہر

ورنہ کس بات پہ وہ میری ندا بھول گیا

سنو بات ازہر کی اے عقل والو! :- (مفتی) کہف الوریٰ صاحب مصباحی بانکے نیپال

نیادور آیا نیا رنگ لایا

نئی فکر آئی نیا ڈھنگ آیا

نیا ہے سفر منزلیں بھی نئی ہیں

انوکھے مسافر کی راہیں نئی ہیں

نہ کوئی مشن ہے نہ منصوبہ کوئی

نئی نسل کھیلوں کی دنیا میں کھوئی

نیا رنگ تہذیب اور یہ تمدن

نئے باب کا یہ نرالا تفنن

کوئی باہنر اب نہیں اپنی حد میں

ہر اک شخص ہے اختلافوں کی زد میں

اماموں کی جھولی میں خیراتی چندے

مدرسوں سے صدروں کے چلتے ہیں دھندے

کسی کو نہیں فکر اسلام ہے اب

شریعت نہ قرآن سے کوئی مطلب

نہ بد عملیوں پہ کبھی ان کو روکو

خلاف طبع ان کو ہرگز نہ ٹوکو

یہ چاہیں تو لمحوں میں کچھ بھی خریدیں

اماموں کو عالم کو گالی بھی دے دیں

بڑے مال ور دکھتے ہیں شادیوں میں

مگر مفلسی دین کی وادیوں میں

طوائف، مزارات، قوالیوں پر

لٹی دولتیں ان کی بدکاریوں پر

سیاست تجارت نہ اسکول ان کے

سکھائےبھلا کون اب رول ان کے

وہ غفلت کی چادر میں سوئے پڑے ہیں

تقاضوں سے رخ اپنا موڑے ہوئے ہیں

تدبرسے بوڑھوں کا خالی ذہن ہے

جوانوں نے بے کاری کو سمجھا فن ہے

خواتین چغلی میں غیبت میں ماہر

فسادات ہیں ان کی باتوں سے ظاہر

جو بچے ہیں ان کو بھلا فکر کیا ہو

وہ بھولیں سبق کیوں جو ماں نے دیا ہو

ہر اک فرد ہے رنگ دنیا کا عادی

کہے بھولا بن کے وہ سب کو فسادی

پڑھائی لکھائی سے کوسوں کی دوری

فقط گیم کو ہے سمجھتا ضروری

نہ فکر معیشت نہ ذوق ریاست

نہ پاس شریعت نہ دیں کی رعایت

نوابی میں ملتا نہیں کوئی ثانی

لکھوں کیا کیا میں ان کی جھوٹی کہانی

لباس ان کا ہے بےحیائی کا درپن

یہ پچپن کے ہو کے دکھاتے ہیں بچپن

سنو بات ازہر کی اے عقل والو

پڑھو اور بڑھو نسل نوکوسنبھالو