WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category شعر و شاعری

لعنت ہے خداوند کی گستاخ‌ نبی پر۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

لعنت ہے خداوند کی گستاخ‌ نبی پر
واضح رہے یہ مشرک و کفار سبھی پر

جاہل ہے جو ، وہ مرتبہ کیا شاہ کا جانے
گیانی کو نہیں شک کبھی معراج نبی پر

گستاخ ! ذرا غار تعصب سے نکل ! دیکھ
غیروں نے بھی اشعار لکھے مدح نبی پر

قرآن میں ہے، ان کو کبھی مردہ نہ کہنا
پھبتی نہ اڑائے کوئی خالق کے ولی پر

کیوں آیت تبت تجھے آئی نہ سمجھ میں
گستاخ ! تجھے ناز ہے کیوں بو لہبی پر

ناموس رسالت کے لیے جان ہے حاضر
قربان ہے ہر لمحہ پیمبر کی خوشی پر

تاریخ اٹھا ! دیکھ شہ دین کی عظمت
کیوں شک ہے زمانے کے جواد اور سخی پر

جس میں ہوئے مبعوث پیمبر ، ہے وہ اعلیٰ
ہے ناز ہمیں” عینی” بہت ایسی صدی پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

جہاں کچھ بھی ہوگا انھیں سب پتہ ہے
ہے قرآں کا کہنا انھیں سب پتہ ہے

یہ ظاہر ہے اخرج حدیث نبی سے
ہے کون ان کا اپنا انھیں سب پتہ ہے

سراقہ نے پہنا جو سونے کا کنگن
تو پھر سب نے مانا انھیں سب پتہ ہے

نہیں لوح محفوظ پنہاں نبی سے
کہاں کیا ہے لکھا انھیں سب پتہ ہے

نبوت کے معنی سے ہم مومنوں پر
ہوا آشکارا انہیں سب پتہ ہے

ہے مالم تکن کا یہ اعلان اب بھی
کرم ہے خدا کا انھیں سب پتہ ہے

انھیں راز کی باتیں رب نے بتائیں
ہے برہان اسریٰ ، انھیں سب پتہ ہے

کرم کے وہ گل سے نوازیں گے اک دن
جو” عینی” پہ گزرا انھیں سب پتہ ہے
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

حضرت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ۔۔از: سید خادم رسول عینی

حاکموں میں سب سے بہتر شاہ عالمگیر ہیں
عاشق حضرت پیمبر شاہ عالمگیر ہیں

گرچہ کرتے ہیں حکومت وہ سکندر کی طرح
پھر بھی اک مثل قلندر شاہ عالمگیر ہیں

رکھتے تھے ساری رعایا کا خیال بے مثال
درد مندی کے یوں مظہر شاہ عالمگیر ہیں

لکھ کے عالم گیری تحفہ دے دیا ہے قوم کو
عالم شرع مطہر شاہ عالمگیر ہیں

سادگی کا لیکے پیکر قبر انور ان کی ہے
شان و عظمت کا مقدر شاہ عالمگیر ہیں

خانقاہوں ، مسجدوں کی خوب تعمیریں ہوئیں
حامیء دین منور شاہ عالمگیر ہیں

ان کی تحریر و فرامیں سے ہے “عینی” واشگاف
کس قدر ماہر سخنور شاہ عالمگیر ہیں
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

کلام قدسی اور صنعت اقتباس۔۔تبصرہ۔۔از قلم : سید خادم رسول عینی

کلام قدسی اور صنعت اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم : سید خادم رسول عینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علماءے بلاغت نے کلام منظوم و منثور میں صنعت اقتباس کے استعمال کو بہت اہمیت دی ہے۔صنعت اقتباس کے استعمال سے کلام میں جاذبیت آجاتی ہے اور اشعار بہت ہی معتبر اور مستند ہوجاتے ہیں ۔۔صنعت اقتباس کیا ہے؟ اہل بلاغت نے صنعت اقتباس کا ڈیفینیشن یوں بیان کیا ھے:

اقتباس یہ ہے کہ کلام منظوم و منثور میں قرآنی الفاظ کو بغیر کسی بڑی تبدیلی کے لایا جایے۔

اقتباس یہ ہے کہ کلام کو قرآن یا حدیث کے کلمات سے مزین کیا جائے۔

اقتباس یہ ہے کہ متکلم اپنے کلام میں قرآن ، حدیث کا کوئی ٹکڑا یا دیگر علوم میں سے کسی علم کے قاعدے کو شامل کرے۔

اقتباس کی مثال میں حدائق بخشش سے حسان الہند سرکار اعلیٰ حضرت علامہ احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے اشعار لاجواب ملاحظہ فرمائیں:
لیلۃالقدر میں مطلع الفجر حق
مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام

فاذا فرغت فانصب یہ ملا ہے تم کو منصب
جو گدا بنا چکے اب اٹھو وقت بخشش آیا کرو قسمت عطایا

والی الالہ فارغب کرو عرض سب کے مطلب
کہ تمھی کو تکتے ہیں سب کروں ان پہ اپنا سایہ بنو شافع خطایا

ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا

انت فیھم نے عدو کو بھی لیا دامن میں
عیش جاوید مبارک تجھے شیداییء دوست

غنچے ما اوحی’ کے جو چٹکے دنی’ کے باغ میں
بلبل سدرہ تک ان کی بو سے بھی محروم ہے

ایسا امی کس لیے منت کش استاد ہو
کیا کفایت اس کو اقرأ ربک الاکرم نہیں؟

مجرم بلائے آئے ہیں جاؤک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

مومن ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

ان پر کتاب اتری بیانا لکل شیء
تفصیل جس میں ما عبر و ماغبر کی ہے

ک گیسو ہ دہن ی ابرو آنکھیں ع ص
کھیعص ان کا ہے چہرہ نور کا

من رانی قد رای الحق جو کہے
کیا بیاں اس کی حقیقت کیجیے

حضرت حجۃالاسلام علامہ حامد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے اشعار میں صنعت اقتباس کی خوبیاں ملاحظہ فرمائیں:
ھوا الاول ھوالآخر ھوالظاھر ھوالباطن
بکل شیء علیم لوح محفوظ خدا تم ہو

انا لھا کہہ کے عاصیوں کو وہ لینگے آغوش مرحمت میں
عزیز اکلوتا جیسے ماں کو انھیں ہر اک یوں غلام ہوگا

مرزا غالب کے مندرجہ ذیل شعر میں صنعت اقتباس کا جلوہ دیکھیں :

دھوپ کی تابش آگ کی گرمی
وقنا ربنا عذاب النار

ڈاکٹر اقبال کے اشعار میں صنعت اقتباس کے مناظر خوشنما دیکھیں:

رنگ او ادنی میں رنگیں ہوکے اے ذوق طلب
کوئی کہتا تھا کہ لطف ما خلقنا اور ہے

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ھو اللہ احد کہتے تھے

صنعت اقتباس کے استعمال سے فائدہ یہ ہے کہ شاعر شعر میں مفہوم، قرآن و حدیث کے حوالے سے پیش کردیتا ہے۔اس لیے شعر زیادہ معتبر و مستند ہوجاتا ہے۔ لیکن صنعت اقتباس کے استعمال کرنے میں احتیاط اور مہارت کی ضرورت پڑتی ہے۔عربی الفاظ کے تلفظ کو شعر میں بعینہٖ پیش کرنا ہے ، اگر حروف میں کمی یا بیشی کی گئی تو معنی میں فرق آجانے کا امکان رہتا ہے۔موجودہ دور میں ہم نے چند شعرا کو دیکھا ہے جو صنعت اقتباس کے استعمال میں احتیاط سے کام نہیں لیتے ، کبھی الف گرادیتے ہیں تو کبھی ی ، کبھی واؤ کو حذف کردیتے ہیں تو کبھی الف ، واو یا ی کو کھینچ دیتے ہیں ۔ایسی غلطی اس وقت سرزد ہوتی ہے جب شاعر کے اندر شعر کہنے کی مہارت نہیں ہوتی یا علم عروض میں شاعر کو پختگی حاصل نہیں ہوتی ۔ ایسی صورت میں شاعر ضرورت شعری کے نام پر بے احتیاطی کربیٹھتا ہے اور قرآنی الفاظ کے تعلق سے غلطی کر بیٹھتا ہے ۔ ایسے شعرا کو ہم نے کئی بار مختلف واٹس ایپ گروپس میں تنبیہ بھی کی ہے۔بہر حال، اب اصل موضوع کی طرف رخ کرتے ہیں ۔

حضرت علامہ سید اولاد رسول قدسی مصباحی کے مجموعہاءے کلام کے مطالعہ سے یہ عیاں ہوتاہے کہ دور حاضر میں صنعت اقتباس پر مبنی سب سے زیادہ اشعار کہنے والے شاعر کا نام ہے علامہ قدسی۔آپ کے تقریباً ہر کلام میں صنعت اقتباس پرمبنی کم سے کم ایک شعر مل ہی جاتا ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ آپ نے اپنے نعتیہ/ تقدیسی کلام کے ہر شعر میں قرآن کی آیت کا حوالہ پیش کیا ہے یعنی صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ آپ‌ نے قرآنی آیات کا استعمال مکمل احتیاط سے کیا ہے، کہیں بھی عروضی خامی نظر نہیں آتی، کسی بھی قرآنی لفظ یا حدیث کے کلمے کا کوئی حرف گرتا ہوا نظر نہیں آتا ، نہ ہی کہیں آپ نے کسی حرف کو بڑھا کر شعر کو آؤٹ آف وے جاکر موزوں کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس سے نہ صرف یہ کہ شعر گوئی میں آپ کی مہارت کا پتہ چلتا ہے ، بلکہ یہ بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ آپ دور حاضر کے ایک جید عالم دین ہیں ، علم قرآن و حدیث سے اپڈیٹیڈ ہیں اور حامل وسعت مطالعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علم قرآن و حدیث اور فن عروض کا بہترین استعمال تقدیسی شاعری میں بحسن و خوبی کرتے ہیں ۔

اب آئیے علامہ قدسی کے کلاموں میں سے چند اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں جن اشعار میں آپ نے صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے۔

حال ہی میں علامہ قدسی کا ایک تازہ ترین نعتیہ کلام نظر سے گزرا جس میں ردیف ہے:
محال است محال۔
اس ردیف میں بہت ساری خوبیاں ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اردو کلام میں آپ نے ایک طویل ردیف کا استعمال کیا ہے جو فارسی کلمات پر مشتمل ہے۔گویا یہ کلام دو زبانوں پر مبنی ہے، اردو اور فارسی۔لہذا اس کلام کو ذوالسانی کلاموں کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنی ردیف میں آپ نے محال کو دوبار استعمال کرکے مفہوم کی اہمیت کو فزوں تر بنادیا ہے اور مضمون کی وقعت کو دوبالا کردیا ہے۔

کسی لفظ یا کسی فقرے کا دوبار استعمال کلام میں حسن تاکید کے لیے کیا جاتا ہے۔مثلا” سرکار اعلیٰ حضرت کا شعر دیکھیں:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے
اس شعر میں اعلیٰ حضرت نے تو زندہ ہے واللہ فقرے کو دوبار استعمال کیا ہے تاکہ بیان میں فورس آجائے ۔ایسی تاکید سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ شاعر مکمل وثوق کے ساتھ مفہوم کو بیان کررہا ہے اور شاعر کے پاس اپنے مفہوم کو ثابت کرنے کے لئے دلائل موجود ہیں ۔تبھی تو علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے

اس قسم کے حسن تاکید سے مزین اعلیٰ حضرت کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
مطلع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ
صرف ان کی رسائی ہے صرف ان کی رسائی ہے
اس شعر میں اعلیٰ حضرت نے واللہ کو دوبار استعمال کیا ہے اور صرف ان کی رسائی ہے کو بھی شعر/ مصرع میں دوبار لایا ہے

علامہ قدسی نے اپنے کلام کے ہر شعر میں مفہوم پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں : محال است محال۔
یعنی کہ آپ نے مکمل وثوق کے ساتھ مفاہیم‌ بیان کیے ہیں جن میں کسی قسم کے تردد کا شائبہ بھی نہیں ہے اور ان مفاہیم کو ثابت کرنے کے لئے آپ کے پاس دلائل بھی موجود ہیں۔
آپ کے اس کلام کے افاعیل ہیں:
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن/ فعلان۔
اور بحر کا نام ہے:
بحر رمل مثمن مزاحف مخبون محذوف مسبغ

اس کلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
شاہ کونین کی تمثیل محال است محال
مثل قرآن ہو تنزیل محال است محال
اس شعر میں آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثیل کونین میں کہیں بھی نہیں ہے اور قرآن جیسی کتاب کا بھی ملنا دنیا میں محال ہے۔ان دونوں دعووں کو ثابت کرنے کے لئے آپ کے پاس نقلی و عقلی دلائل موجود ہیں ، تبھی تو پورے وثوق کے ساتھ کہہ رہے ہیں :
شاہ کونین کی تمثیل محال است محال
مثل قرآن ہو تنزیل محال است محال

اسی کلام میں ایک شعر ہے :
جس کا دل ہے ختم اللہ کا مصدر اس میں
حق کے پیغام کی تقبیل محال است محال
یہ شعر صنعت اقتباس پر مبنی ہے۔اس شعر میں مفہوم بیان کرنے کے لیے علامہ قدسی نے قرآن کی آیت (سورہء بقرہ / آیت ٧) کا حوالہ دیا ہے اور قرآنی آیت کو کووٹ کرکے صنعت اقتباس کا استعمال بہت عمدہ اسلوب سے کیا ہے۔وہ آیت یوں ہے :
ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم غشاوۃ ولھم عذاب عظیم
ترجمہ:
اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کردی اور ان کی آنکھوں پر گھٹا ٹوپ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ۔
(کنز‌ الایمان)

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ان کافروں کا ایمان سے محروم رہنے کا سبب یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے جس کی بنا پر یہ حق سمجھ سکتے ہیں نہ حق سن سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتے ہیں اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ اللہ تعالی’ کی آیات اور اس کی وحدانیت کے دلائل دیکھ نہیں سکتے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔اسی مفہوم کو علامہ قدسی نے ایک شعر کے ذریعہ بہت ہی دلکشی کے ساتھ اور مکمل وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے ، کہتے ہیں:

جس کا دل ہے ختم اللہ کا مصدر اس میں
حق کے پیغام کی تقبیل محال است محال

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا ، شہر میں چرچا تیرا
اس شعر میں جس آیت کریمہ کا حوالہ دیا گیا ہے وہ یہ ہے:
ورفعنا لک ذکرک۔
سورہ الم نشرح ، آیت ٤
ترجمہ: اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کیا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اللہ نے اذان میں ، قیامت میں ، نماز میں ، تشہد میں، خطبے میں اور کثیر مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا ھے۔یہی وجہ ہے کہ شہر شہر میں آپ کا چرچا ھے، نگر نگر آپ کا ذکر ہے۔جلوت میں بھی آپ کا ذکر ہے اور خلوت میں بھی ، عرب میں بھی آپ کا چرچا ہے اور عجم میں بھی ۔ آپ کا ذکر صرف خلیجی ممالک میں نہیں ہوتا بلکہ ہند و پاک اور یوروپ و اسٹریلیا میں بھی آپ کا ذکر جمیل ہوتا ہے ۔ زمین میں بھی آپ کا چرچا ہے اور آسمانوں میں‌ بھی ۔آبادی کے علاقے میں بھی آپ کا چرچا ہے اور غیر آباد‌ علاقوں میں بھی الحمد لللہ۔اسی لیے علامہ قدسی فرماتے ہیں:
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا ، شہر میں چرچا تیرا

صنعت اقتباس پر مبنی ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
صداءے فزت بربی بھلا نہ کیوں گونجے
کٹی زباں ہے رسالت مآب کی خاطر
یہ شعر تلمیحی بھی ہے۔جنگ بدر میں ایک صحابیء رسول کی شہادت ہوئی اور دشمن اسلام نے ان کی زبان کاٹ دی ۔زبان کٹنے کے بعد بھی ان کی زبان سے یہ آواز آرہی تھی :
فزت بربی یعنی میں رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا ، کل قیامت کے دن اگر مجھ سے پوچھا جائےگا کہ تمہاری زبان کہاں گئی تو میں فخر سے کہونگا کہ ناموس اسلام و رسالت کے لیے میں نے اپنی جان قربان کردی اور اپنی زبان بھی نذر کردی۔اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ قدسی فرماتے ہیں:
صداءے فزت بربی بھلا نہ کیوں گونجے
کٹی زباں ہے رسالت مآب کی خاطر

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
آیت من‌ شعاءر کا پیغام ہے
ہم کو کرنا ہے رب کی نشانی پہ ناز
اس شعر میں جس آیت کا حوالہ پیش کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
ذالک ومن یعظم شعاءر اللہ فا نھا من تقوی القلوب۔
سورہء حج، آیت ٣٢
ترجمہ : بات یہ ہے اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیز گاری سے ہے۔

اس آیت سے یہ ہدایت ملی کہ ہم اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کریں ۔مثال کے طور پر مناسک حج پر اگر غور کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم حج کے دوران وہی کرتے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ نے کیا تھا ۔قربانی کرنا، جمرات پر کنکر مارنا، طواف کرنا، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا یہ سب ان کی سنتیں ہیں اور ہم بہت ہی احترام سے عمرہ/ حج کے دوران ان کی سنتوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں ۔
اور ہمیں ناز ہے کہ ہم سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہیں اور ان کی نشانیوں کی تعظیم دل سے کرتے ہیں۔اس لیے علامہ قدسی کہتے ہیں:
آیت من‌ شعائر کا پیغام ہے
ہم کو کرنا ہے رب کی نشانی پہ ناز

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
انصتوا فاستمعوا کا ہے یہی حکم جلی
جب ہو قرآں کی تلاوت تو سماعت ہے فرض

اس شعر میں قرآن کی جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
واذا قری القرآن فاستمعو لہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔
سورہء اعراف ، آیت ٢٠٤
ترجمہ : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ جس وقت قرآن پڑھا جائے خواہ نماز میں ہو یا خارج نماز میں اس وقت سننا اور خاموش رہنا واجب ہے ۔اس مفہوم کو سہل ممتنع کے انداز میں علامہ قدسی نے کس حسین پیرائے سے شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے، کہتے ہیں:
انصتوا فاستمعوا کا ہے یہی حکم جلی
جب ہو قرآں کی تلاوت تو سماعت ہے فرض

صنعت اقتباس پر مبنی ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
زار قبری پہ بصد شوق جو کرتا ہے عمل
ایسے حاجی کے لیے ان کی شفاعت ہے فرض

اس شعر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مشہور حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے اور وہ حدیث ہے:
من زار قبری وجبت لہ شفاعتی ۔
ترجمہ : جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی ۔
یعنی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہء مبارک کی زیارت کے لیے حاضر ہونے والوں کو شفاعت کی بشارت ملی ہے ۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زائرِ روضہء مطہر کا خاتمہ ایمان پر ہوگا ۔اس حدیث مبارکہ کو علامہ قدسی نے بہت ہی دلکش انداز سے شعر کا جامہ پہنایا ہے، کہتے ہیں:
زار قبری پہ بصد شوق جو کرتا ہے عمل
ایسے حاجی کے لیے ان کی شفاعت ہے فرض

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
قدسی الحب فی اللہ کا کل متن
اصل ایماں کی تقیید سے کم نہیں
یہ شعر جس حدیث کی سمت اشارہ کررہا ہے وہ یوں ہے:
افضل الاعمال الحب فی اللہ والبغض فی اللہ ۔
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی سے محبت کرنا اور اللہ تعالیٰ ہی کی خاطر کسی سے نفرت کرنا سب سے زیادہ فضیلت والا عمل ہے۔
اس سے پتہ یہ چلا کہ ایسی محبت جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو ، نفسیاتی خواہشات کی آمیزش نہ ہو افضل اعمال سے ہے۔ نماز ، روزہ ، زکاۃ، حج بھی الحب فی اللہ کی شاخیں ہیں کہ مسلمان صرف اللہ کی رضا کی خاطر ان اعمال سے محبت کرتا ہے اور اللہ کا حکم بجالاتے ہوئے یہ اعمال صالحہ کرتا ہے جو عین ایمان و اصل ایماں کا تقاضہ ھے۔ اس لیے علامہ قدسی کہتے ہیں :
قدسی الحب فی اللہ کا کل متن
اصل ایماں کی تقیید سے کم نہیں

ماہ رمضان کے ایام میں علامہ قدسی کی ایک نظم سوشل میڈیا میں بہت مقبول خاص و عام ہوئی تھی جس کا عنوان ہے: اصحاب بدر ۔
اس نظم میں کل نو اشعار ہیں ۔ان نو اشعار میں سے چار اشعار صنعت اقتباس کا حسن لیے ہوئے ہیں ۔آپ بھی ان اشعار کو ملاحظہ فرماءیے اور علامہ قدسی کے وسعت مطالعہ ، علمی تبحر، عروض دانی اور قادر الکلامی کی داد دیجیے:
اعملوا ہے حدیث شہ دیں گواہ
نور تقریر غفران اصحاب بدر
کہہ رہا ہے لکم آیۃ قول رب
راہ حق کے نگہبان اصحاب بدر
اقتدیتم ہے ارشاد شاہ زمن
ہیں ہدایت کی میزان اصحاب بدر
قدسی انتم اذلہ کا اعلان ہے
مشک اظہار احسان اصحاب بدر

اسی طرح علامہ قدسی کے سیکڑوں اشعار ہیں جس میں قرآن و حدیث کے اقتباسات کو کووٹ کرکے مکمل وضاحت کے ساتھ ایمان افروز مفاہیم پیش کیے گئے ہیں۔ان شا ء اللہ پھر کبھی دیگر اشعار کی تشریح پر مبنی مقالہ پیش کیا جائےگا۔

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ علامہ قدسی دور حاضر میں صنعت اقتباس کے بہت ہی عظیم شاعر ہیں جن کی تمثیل دور دور تک کہیں نظر نہیں آتی۔

نعت سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

ہر حیطہء مکان سے آگے نکل گئے
سرکار آسمان سے آگے نکل گئے

منزل حبیب رب جہاں کی ہے لامکاں
جبریل کے گمان سے آگے نکل گئے

یوں فتح کی صحابہ نے فیض حبیب سے
ایران و اصفہان سے آگے نکل گئے

ان کی فصاحت ایسی کہ تاریخ ہے گواہ
وہ سارے خوش بیان سے آگے نکل گئے

ہر اک سخی کو ان کی سخاوت پہ ناز ہے
وہ سارے مہربان سے آگے نکل گئے

تلک الرسل فضیلت آقا کی ہے گواہ
دنیا کے ہر مہان سے آگے نکل گیے

“عینی ” تصورات میں ایسے وہ بس گیے
ہم خود کسی بھی دھیان سے آگے نکل گیے
۔۔۔‌
از: سید خادم رسول عینی

جھوٹ مت بولو۔۔از: سید خادم رسول عینی

۔۔۔۔۔

ہے یہ ہدایت رحمان ، جھوٹ مت بولو
بناؤ زیست کو آسان ، جھوٹ مت بولو

دیا ہے دین‌ نے ام الخبائث اس کا نام
بچاو اپنا تم ایمان جھوٹ مت بولو

گنہ کبیرہ اسے شرع کہتی ہے، خود کو
بناؤ سچا مسلمان جھوٹ مت بولو

نہ باندھو کذب نہ ہی افترا کبھی رب پر
یہ کہتا ہے تمھیں قرآن ، جھوٹ مت بولو

بناؤ زیست میں اپنی ہمیشہ قصر حق
گرے عمارت شیطان جھوٹ مت بولو

ملیں گے فائدے ہی فائدے تمھیں سچ میں
اگر گھٹانا ہے نقصان ، جھوٹ مت بولو

ذرا سا یاد کرو سیرت جناب غوث
بڑھیگی دہر میں بھی شان ، جھوٹ مت بولو

ہمارے دل میں اے “عینی “خشیت رب ہو
بنایا ہم نے بھی عنوان جھوٹ مت بولو
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

منقبت در شان حضرت ارشد ملت دامت برکاتہم العالیہ۔۔از: سید خادم رسول عینی،ناظم نشر و اشاعت،خانقاہ قدوسیہ بھدرک اڈیشا الہند٥ مئی ٢٠٢٢

رضا کی فکر پہ قربان ارشد ملت
ہیں سنیت کی عظیم آن ارشد ملت

حضور فیض اویسی بھی معترف ان کے
علوم دیں میں ہیں ذیشان ارشد ملت

شفا وہ دیتے ہیں روحانی سب مریضوں کو
ہیں ایسے مظہر لقمان ارشد ملت

وہ وقت کیسا مقدس تھا جب کہ آپ بنے
ابو النعیم کے مہمان ارشد ملت

اسیر ملت و مذہب نہ کیوں کہیں ان کو
عزائموں کے ہیں فاران ارشد ملت

ہیں ماہنامہء ارشدیہ کے وہی بانی
ادب کے یوں ہیں نگہبان ارشد ملت

مبارک آپ کو ! من جانب ابو الانوار
ملی خلافت ذی شان ارشد ملت

در کچھوچھہ و بغداد و نور طیبہ سے
ملا ہے آپ کو فیضان ارشد ملت

عبادت اور ریاضت ہیں آپ پر نازاں
کتاب‌ زہد کے عنوان ارشد ملت

تمھاری صحبت اقدس سے دہر میں لاکھوں
بنے ہیں صاحب عرفان ارشد ملت

ہیں آپ رشد و ہدایت کے مطلع پرنور
عظیم رب کے ثنا خوان ارشد ملت

تمھارے اسم گرامی سے سب مریدوں کا
تھما ہے درد کا طوفان ارشد ملت

وہ اپنے پیر کے “عینی “خلیفہء اعظم
ہیں باغ بخت کے ریحان ارشد ملت
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی،
ناظم نشر و اشاعت،
خانقاہ قدوسیہ بھدرک اڈیشا الہند
٥ مئی ٢٠٢٢

منقبت در شان والد مفتی اعظم اڑیسہ حضرت علامہ سید محمد علی علیہ الرحمہ۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

ولی باکرامت‌ محمد علی ہیں
علی کی عنایت محمد علی ہیں

وقار سیادت محمد علی ہیں
قرار قیادت محمد علی ہیں

امین شریعت یہ کہتے تھے اکثر
بہار شجاعت محمد علی ہیں

خدا نے دیا ہے انھیں حسن ایسا
کہ جان وجاہت محمد علی ہیں

ہیں اقوال ان کے بہت کار آمد
جمال لطافت محمد علی ہیں

سخی ایسے، چرچا ہے ان کا ابھی تک
عروج سخاوت محمد علی ہیں

شہ دریا کے در سے آواز آئی
کہ میری امانت محمد علی ہیں

کتابوں کے انبار کہتے ہیں عینی
امین فصاحت محمد علی ہیں

از: سید خادم رسول عینی

منقبت در شان اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ—از: سید خادم رسول عینی


۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام و سنیت کے اے حامی تجھے سلام
بدعات و منکرات کے ماحی تجھے سلام

مداح مصطفائے گرامی تجھے سلام
حسان ہند ، وقت کے جامی تجھے سلام

علم حدیث و فقہ میں ہے لاجواب تو
اے وقت کے بخاری و شامی تجھے سلام

تجھ کو کہوں‌ مفکر اعظم زمانے کا
اے وقت کے امام غزالی تجھے سلام

تیرے کلام کی ہے زمانے میں دھوم دھام
اے ماہر سلام و رباعی تجھے سلام

تو محو عشق شاہ مدینہ میں تھا سدا
ہے معرفت میں ایسی رسائی ! تجھے سلام

اے شہرہء بسیط کے حامل سخن طراز
کہتے ہیں سب ردیف و قوافی تجھے سلام

“عینی”, کے دل میں ہے یہی ارمان جاگزیں
دے جاکے در پہ تیرے سلامی تجھے سلام
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

حضور سید خادم رسول عینی صاحب قبلہ کا ایک خوبصورت انٹرویو ،، مصاحبہ گو :- جبیں نازاں

🌈 روبرو 🌈
مذہبی گھرانے اور احمدرضا خاں کے معتقد شاعر سید خادم رسول عینی صاحب کی گفتگو ملاحظہ فرمائیں ! ادبی حلقے میں موصوف بنیادی طور پر ثنائے مصطفیٰ صل اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں –

🪶 مصاحبہ گو :- جبیں نازاں

سوال: – سب سے پہلے آپ اپنا مختصر تعارف قارئین کو بتانا پسند کریں گے؟

جواب: – میں سید خادم رسول عینی، سید منزل مرزا پور ‘بھدرک’ (اڈیشا) میں ٢٩ اپریل ١٩٦٨ میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوا۔میرے والد گرامی مفتی سید عبد القدوس علیہ الرحمہ اڑیسہ کے مفتیء اعظم تھے۔ہم لوگ سات بھائی ہیں ان میں سے بیشتر علماء ہیں اور دین و ملت کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔

سوال:- آپ نے ابتدائی تعلیم کہاں ، اور کس زباں میں حاصل کی ؟

جواب:
میں نے ابتدائی تعلیم ‘بھدرک’ (اڑیسہ )میں اڑیا میڈیم میں حاصل کی۔اسکول میں ایک سبجیکٹ اردو کا بھی رہتا تھا، اور ایک فارسی کا بھی ۔

سوال :- آپ نے شاعری کی ابتدا کس عمر سے کی ؟

جواب: – میرے شاعری کی ابتدا اس وقت ہوئی جب میری عمر سترہ سال کی تھی ۔میں نے اپنے پیر و مرشد علامہ شاہ حبیب الرحمان علیہ الرحمہ کی شان میں منقبت کے طور پر پہلا کلام کہا ۔

سوال:- آپ کے خاندان میں آپ سے قبل بھی کوئی شاعر گزرا ہے ؟

جواب:- ہمارے والد گرامی کے نانا حضرت علامہ سید عبد العزیز علیہ الرحمہ ایک نعت گو شاعر تھے۔آپ کے کلاموں کے مسودے کی میں نے زیارت کی ہے۔ہمارے برادر اکبر حضرت علامہ سید اولاد رسول قدسی ایک عظیم صاحبِ دیوان شاعر ہیں ۔

سوال:- آپ نے سب سے پہلا مشاعرہ کب اور کہاں پڑھا ؟؟

جواب :-سب سے پہلا مشاعرہ میں نے دھام نگر ، اڑیسہ کے آل انڈیا مشاعرے میں پڑھا تھا جب میری عمر سترہ سال کی تھی ۔

سوال :- مشاعرہ اردو ادب کی تہذیب اور روایت کہی جاتی ہے -لیکن سنجیدہ طبقہ زوال آمادہ مشاعرہ سے بیزار نظر آتا ہے- مشاعرے کی سیاست اور پھر متشاعرہ /متشاعر کو اولیت دینا اردو ادب کے لیے کتنا سود مند ثابت ہورہا ہے؟

جواب :- مشاعرہ کو متشاعروں سے دور رکھنا چاہئے۔شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ فن عروض کی بنیادی باتوں کا علم ضرور رکھتا ہو ۔

سوال :- بہار کی مساجد میں نوٹ یا نظام الاوقات وغیرہ اردو میں درج مل جاتا ہے – لیکن دہلی کی مساجد میں دیوناگری داخل ہوچکی ہے کیا کہنا چاہتے ہیں آپ ؟

جواب:
دہلی اردو کا مرکز رہا ہے ۔عوام میں اردو کے تعلق سے پھر سے بیداری لانا ضروری ہے۔

سوال : – ایک وقت تھا اردو زباں طبقہ اشرافیہ کی زباں کہی جاتی تھی ، آزادی کے بعد صورت حال بدل گئی مسلمان کی زباں ٹھہرانے کی سیاسی کوششوں کے پس پردہ بہت کچھ ہوا پھر یہ مدرسہ اور خانقاہوں کی زباں بتائی گئی ، اب صورت حال یہ ہے کہ خانقاہوں اور اہل مدرس کے بچے بھی انگریزی میڈیم سے تعلیم پاکر سجادہ بن رہے ہیں گو کہ خانقاہ میں مدرسہ چل رہا ہے لیکن اس میں انتہائی غریب یعنی کی غریبی لائن سے نیچے طبقے کے مریدوں کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں یہ کڑوی حقیقت ہے یعنی کی اردو زباں اب غریبی لائن سے نیچے آگئی ہے ؟

جواب: – درست فرمایا آپ نے ۔اردو پر اردو والے ہی ظلم کررہے ہیں ۔
آپ اپنے بچوں کو کسی بھی میڈیم میں پڑھاءیں ، لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ بچوں کو گھر میں اردو ضرور پڑھاءیں اور اس طرح اپنی مادری زبان کو زندہ و جاوید رکھیں ۔

سوال :- آپ نے کسی استاد سے اصلاح لی؟گر ہاں تو استاد محترم کے نام بتانا پسندکریں گے؟

جواب :- میرے استاد ‌میرے برادر اکبر علامہ سید اولاد رسول قدسی ہیں ، جو امریکہ میں مقیم ہیں اور تقریباً پچیس کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کے کءی دیوان منظر عام پر آچکے ہیں ۔میں نے استاد گرامی پر ایک شعر کہا تھا :

عینی شعر و شاعری سے جو ہے رشتہ استوار
میرے استاد گرامی قدسی کا فیضان ہے

سوال: -آپ کی پسندیدہ کتاب جسے بار بار پڑھنا چاہتے ہوں؟

جواب :_میری پسندیدہ کتاب قرآن مجید ہے۔یہ میرا روز مرہ کا معمول ہے کہ ہر روز نماز فجر کے بعد قرآن مجید ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھتا ہوں ۔قران سب سے زیادہ فصیح و بلیغ کتاب ہے ۔ قرآن پڑھنے سے دونوں دینی و دنیاوی فائدے ہیں ۔اسی لیے ہم نے کہا ہے :

رب کے قرآن مقدس کو پڑھیں ہم بار بار
اس طرح ہم امتیاز خیر و شر پیدا کریں

سوال :- آپ اردو ادب اور عالمی ادب کے ان قلم کاروں کے نام بتائیں ! جنھوں نے آپ کو متاثر کیا ؟؟

جواب :- اردو:
علامہ رضا بریلوی، حسن رضا بریلوی، ڈاکٹر اقبال،امیر میناءی، داغ دہلوی، میر تقی میر ، مرزا غالب۔

غیر اردو: حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبد الرحمان جامی،جان ڈان، ورڈز ورتھ، جان کیٹس۔

سوال :- آج ذرائع ابلاغ کے موثر وسائل ہمیں دستیاب ہیں ، پھر بھی ہم اردو زباں و ادب کے حوا لے سے خاطر خواہ مطمئن کیوں نہیں ؟
جواب: _ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشمولیات کا معیار گرتا جارہا ہے ۔ہمیں معیار پر دھیان دینا چاہیے اور مزید محنت سے کام کرنا چاہیے

سوال:-حالانکہ ہم گلوبل ولیج دور کے پروردہ ہیں ۔اب دوریاں نزدیکیوں میں تبدیل ہوچکی ہے تو ایسے میں وطن سے دور رہنا کوئی خاص معنی نہیں رکھتا ، یہ خیال کہاں تک درست ہے ؟
جواب :- درست فرمایا آپ نے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے دوریاں سمٹ گئی ہیں ، فاصلے مٹ گیے ہیں ۔اب کثرت سے آن لاین مشاعرے ہورہے ہیں جس میں‌ لندن، امریکہ ، آسٹریلیا وغیرہ کے ادیبوں اور شاعروں سے بھی ملاقاتیں ہوتی ہیں اور ان سے تبادلہء خیال بھی بہ آسانی ہوجاتا ہے

سوال :- جاپانی زباں ، چائنز زباں ، فرانسیسی زباں لاطینی زبان ۔فرانسیسی زباں عبرانی زباں پڑھ کر سائنس داں ،انجینئر بن سکتے ہیں ، اردو زباں پڑھ کر کیوں نہیں بن سکیں ۔۔۔؟

جواب: – ۔بالکل ۔اردو میں پڑھ کے بھی ساءینس داں بن سکتے ہیں ۔مرزا غالب کے اشعار دیکھیں ان میں سائینسی مفاہیم کی فراوانی ہے ۔اردو میڈیم کو اہمیت دینی چاہیے اور بچوں کو عصری علوم اردو میں بھی دیے جاسکتے ہیں اور وہ کامیاب بھی ہوسکتے ہیں ۔

سوال :- عالمی زباں میں اردو کاتیسرا مقام تھا کبھی باوجود اس کے اب تک نوبل انعام سے محروم ہے جب کہ بنگالی زباں کا مقام سب جانتے ہیں لیکن نصف صدی قبل نوبل انعام سے بنگالی ادب نوازا جا چکا ہے ، آپ کی نظر میں کیا خاص وجہ رہی ؟؟

جواب: – ۔میرے خیال میں ڈاکٹر اقبال اور ان جیسے کءی اردو شعرا نوبل انعام کے حقدار ہیں ۔
لیکن تعصب کی وجہ سے انھیں نظر انداز کیا گیا۔یا تو ہوسکتا ہے عالمی سطح میں ہم اپنی آواز مؤثر طریقے سے پہنچا نہیں سکے ۔

سوال : -اردو زباں شعر و ادب کے دم پر زندہ رہنے کی طاقت رکھتی ہے ؟

جواب: – بیشک۔شعر و ادب اردو زبان کی جان اور پہچان ہے ۔جو دلکشی اور جاذبیت اردو شاعری میں ہے وہ کسی دوسری زبان میں ناپید ہے ۔

سوال :-آپ اپنی زندگی کے خوشگوار یا یاد گار لمحے قارئین کو بتانا چاہیں گے؟

جواب :- میری ادبی زندگی کی خوشگوار یادیں لکھنؤ سے جڑی ہوئی ہیں جہاں میری شاعری کی نشو نما ہوءی ۔تین سال میں لکھنو میں رہا اور لکھنؤ کے مختلف طرحی مشاعروں میں باضابطہ میری شرکت ہوتی رہی اور میرے کلام لکھنؤ کے اخبار و رساءیل اودھ نامہ ، راشٹریہ سہارا، صحافت ، نیا دور وغیرہ میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔لکھنؤ کے میرے دوست احسن اعظمی مرحوم بھلائے نہیں جاسکتے ۔تقریبا” ہر مشاعرے میں ان کی رفاقت رہتی تھی ۔احسن اعظمی کے ساتھ ہماری ایک خوشگوار ادبی دوستی تھی ۔افسوس کہ گزشتہ سال کورونا سے ان کا انتقال ہوگیا ۔اللہ انھیں غریق رحمت فرمائے۔آمین۔

سوال:-اب تک آپ کی نثری/شاعری پر مبنی کتنی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں؟

جواب: -میرے نعتیہ کلاموں کا مجموعہ رحمت و نور کی برکھا شائع ہو کر مقبول عام بن چکی ہے۔اس کتاب میں میرے تقریباً دو سو کلام ہیں ۔اس کتاب میں علامہ قدسی ، علامہ ہاشمی، ڈاکٹر مشاہد رضوی، علامہ رفیق مصباحی ، احسن اعظمی کی تقاریظ شامل ہیں ۔الحمد للہ ، ان بڑی شخصیات نے میری شاعری کی پذیرائی کی ہے اور میرے زود گوئی اور خوب گوئی کا اعتراف بھی کیا ہے ۔

اس کے علاوہ نظر عمیق (نقد و نظر) اور مناقب مفتیءاعظم ( منقبتوں کا مجموعہ ) کی ترتیب میں نے دی ہے ۔

سوال :-ہر سال انگریزی زباں اپنی لغت میں پانچ نئے الفاظ کا اضافہ کرتی ہے ، ہندی زباں تین الفاظ کا ۔۔اردو والے اضافہ تو دور سابقہ الفاظ متروک کیے جارہے ہیں ہمیں اس پہلو پر غور کرنا چاہئے یا نہیں؟
جواب: -یہ درست ہے کہ اردو کے کچھ الفاظ متروک کیے جارہے ہیں، مگر ساتھ ہی ساتھ نءے الفاظ بھی شامل ہورہے ہیں ۔

سوال:_ ہم روزمرہ اور عام بول چال میں دوسری زباں کے الفاظ اسی صورت میں قبول کرنے کے عادی بن چکے ہیں ،جو اردو زباں کے الفاظ بن چکے ہیں مثلاً، پولیس ، ایف آئی آر ، کمشنر ، جج، کانسٹبل بینک ، اسٹیشن ، پلیٹ فارم ، پولنگ بوتھ، ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش وغیرہ یہ ہماری غفلت ہے یا کچھ اور؟

جواب:
اردو کا دامن اتنا وسیع ہے کو وہ کسی بھی غیر اردو زبان کے لفظ کو بحسن و خوبی اپنے دامن میں سمیٹ سکتی ہے ۔اور یہ زبان کی خوبی ہے ۔

سوال :-اہل اردو کی خاص توجہ صنف شاعری پر مرکوز رہتی ہے غزل پر ساری توانائیاں صرف کردی جاتی ہیں غزل شعرا کی ایک تہائی آبادی گر اصطلاح وغیرہ وضع کرنے میں منہمک ہوتی اردو کا دائرہ کار وسیع نہیں ہوتا کیا خیال ہے آپ کا؟
جواب :- الحمد للہ! آج کل غزل کے علاوہ نظم ، آزاد نظم ، نثری نظم، ہائیکو، دوہا ، رباعی پر توجہ دی جارہی ہے ۔مثال کے طور پر ہمارے استاد گرامی علامہ قدسی کے دیوان رباعی ، دوہا، ہائیکو میں منظر عام پر آچکے ہیں۔
دیگر شعرا کو بھی اس پر مزید توجہ دینی چاہیے۔

سوال :-اردو زباں کی پیشانی سے “یہ شعروادب کی زباں ہے”کی مہر’مٹانے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا ؟

جواب:- شعر و ادب کے علاوہ ہمیں نثر پر بھی توجہ دینی چاہیے۔افسانہ نگاری، انشا پردازی وغیرہ پر بھی کام کرنا چاہیے۔اس کے علاوہ نقد و تبصرہ پر توجہ مرکوز رہے ۔نقد و تبصرہ سے زبان کی بہت ترقی ہوتی ہے ۔
علم عروض ، علم معانی ، علم بلاغت پر بھی مزید کام ہونا چاہیے۔

سوال:-عالمی پیمانے پر گر دس اردوشعراء کے نام کا انتخاب کیا جائے تو آپ کسے منتخب کریں گے؟

جواب :-علامہ رضا بریلوی
ڈاکٹر اقبال
حسن رضا بریلوی
امیر میناءی
میر تقی میر
مرزا غالب
الطاف حسین حالی
مومن خان مومن
میر درد
میر انیس

سوال :- یوں تو اردوشعرا ستاروں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں لیکن میرؔ و غاؔلب اقباؔل فیضؔ و فراقؔ کے بعد نام کے انتخاب میں تنازع شروع ہوجانے کا احتمال ۔۔پھر یہ کہنا عافیت کہ جو ذرہ جہاں ہے وہیں آفتاب ہے ‘کیا خیال ہے؟

جواب:-استاد شعرا کا اپنا اپنا مقام ہے ۔سبھوں کا رنگ جدا ہے ۔کسی میں معانی میں خوبی ہے تو کسی میں سوز و گداز ہے ۔کسی کے کلام میں سہل ممتنع ہے تو کسی میں مشکل پسندی ، کوءی علامت کی دنیا کا سلطان ہے تو کوءی تشبیہات و استعاروں کا بے تاج بادشاہ

سوال:- ایک بار پھر رخ کرتے ہیں نجی سوال کی طرف ادبی اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہوگا اس کی تفصیل قارئین کو بتانا پسند کریں گے؟

جواب: -الحمد اللہ!
ہمیں حسان بن ثابت ایوارڈ اور نسیم ملت ایوارڈ سے نوازا گیا ہے

سوال :- آپ اپنی شاعری سے مطمئن ہیں؟

جواب:
جی نہیں ۔
چونکہ میں سرکاری ملازمت میں ہوں ، اس لیے کماحقہ مطالعہ کا وقت نہیں ملتا۔ مطالعہ سے شاعری میں مزید نکھار آئےگا ۔دعا فرمائیں ۔

سوال:-چونکہ یہ مصا حبہ ” واٹس ایپ ادبی تنظیم ” کی جانب سے کیا جارہا ہے ‘ آپ قرطاس ادب تنظیم ‘کے تعلق سے اردو زباں کے تناظر میں کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب :- بزم قرطاس ادب اردو کی بہت عمدہ انداز سے خدمت انجام دے رہی ہے ۔ہر روز بہت معلومات افزا مضامین اور کلام پڑھنے کو ملتے ہیں ۔
ہمارا پیغام یہ کہ
اردو والوں کو چاہیے کہ اردو اخبار و رساءیل خرید کے پڑھیں ۔شاعر ہو یا ادیب یا محض اردو داں سب اگر اردو اخبار و رسائل خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں تو اردو کی ترقی ضرور ہوگی اور موجودہ بحران سے بچ جائےگی ۔

سوال: -آپ اپنے چند منتخب کلام قارئین کرام کی نذر کرنا چاہیں گے؟
جواب:_ لیجئے!
پانچ غزلیں پیش خدمت ہیں:

غزل
۔۔۔۔۔۔
تو پژمردہ پیڑوں کو یوں باثمر رکھ
توانائی دے شاخ کو بااثر رکھ

نہ کر فخر اجداد کے تو شجر پر
تو شاخوں پہ خود کاوشوں کا ثمر رکھ

ہے انکار کرنا بہت سہل و آساں
تو اقرار کا حوصلہ اے بشر رکھ

زمینی حقائق رہیں تیرے آگے
نظر اپنی چاہے سدا چرخ پر رکھ

نہ ہو جائے مانند آتش سراپا
مرے دل کی اے جان جاناں خبر رکھ

کر احقاق حق اور ابطال باطل
یہ جذبہ ہر ایک موڑ پر بے خطر رکھ

سبھی کی محبت سماجائے دل میں
تو اس میں ہمیشہ محبت کا گھر رکھ

گہر خود ہی آجائےگا پاس “عینی”
نہایت پہ منزل کی گہری نظر رکھ

از: سید خادم رسول عینی

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
درد و غم سے وہ ہ بشر آزاد ہے
قلب میں جس کے خدا کی یاد ہے

حکمران وقت سب خاموش ہیں
بے اثر مظلوم کی فریاد ہے

حق پرستو ! رب کی نصرت آئیگی
جبر باطل کی بھی اک میعاد ہے

آگ نفرت کی بجھے بھی کس طرح
تلخیوں کا اک جہاں آباد ہے

دل ہے چھلنی اس کا سنگ بغض سے
جس کے ہونٹوں پر مبارکباد ہے

دیکھیے موجد کی آنکھوں سے ذرا
خوبصورت کس قدر ایجاد ہے

غالب آئے غم کا لشکر کس طرح
دل میں یاد یار جب آباد ہے

“عینی” رکھنا‌ رب پہ ہر دم‌ اعتماد
ورنہ تیری زندگی ناشاد ہے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

غزل
۔۔۔۔۔۔۔

نخل نخوت کو ہمیشہ بے ثمر رکھا گیا
صبر کے ہر اک شجر کو بارور رکھا گیا

سلسلہ بڑھتا گیا ان کے ستم کا اس قدر
میرے ٹوٹے دل کے آنگن میں حجر رکھا گیا

لگ رہا تھا بھیڑ میں وہ ضوفشاں کچھ اس طرح
درمیان نجم جیسے اک قمر رکھا گیا

شک کی عینک جب اتاروگے تو مانوگے ضرور
منصب عالی پہ مجھ کو جانچ کر رکھا گیا

درد و غم کی آگ اسی سے ایک دن بجھ جائیگی
ان کے سوز عشق میں ایسا اثر رکھا گی

بحر سے دوری ھے مجھ کو کیسے سیرابی ملے
زیست میں میری سراب بے اثر رکھا گیا

روز و شب چوبیس گھنٹے کم پڑے اپنے لیے
اس قدر کیوں وقت “عینی” مختصر رکھا گیا
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
صحن دل کے سبھی پھولوں کو جواں رہنے دو
پر شباب اپنے چمن کا یہ سماں رہنے دو

پھر کبھی سر نہ اٹھا پائیں جہاں کے ظالم
سینہء ظلم پہ سیدھا سا نشاں رہنے دو

ہو نہ جائے کبھی احساس کا بلبل غمگیں
اس کو رکھو نہ نہاں بلکہ عیاں رہنے دو

تم کو رکھنا ہے تقدس کی فضا گر قائم
دل کی مسجد‌ میں محبت کی اذاں رہنے دو

آب عرفاں سے رہیں حق کے مسافر سیراب
اپنے اطراف ہدایت کا کنواں رہنے دو

دل کرو فتح تم‌ اخلاص کی تلواروں سے
نفرت و بغض کے تم تیغ و سناں رہنے دو

درد دروازہء دل پر نہ دے دستک ” عینی “
مدح محبوب سدا ورد زباں رہنے دو
۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

غزل
۔۔۔۔۔

دیکھو جہاں بھی ، ایک ہی خاور ہے ہرطرف
تاروں کے قافلے کا یہ رہبر ہے ہرطرف

بھر آئی دیکھ دیکھ کے امن و اماں کی آنکھ
انسانیت کے خون کا منظر ہے ہرطرف

تنہا لڑینگے خنجر خلق و وفا سے ہم
گرچہ جہاں میں بغض کا لشکر ہے ہر طرف

ہے خوف کیسے زیست کی رہ پائے گی فضا
سانپوں کا سانپ دشت میں اجگر ہے ہرطرف

خالی ملیں گے سیپ سمندر کی گود میں
مت سوچیے کہ سیپ میں گوہر ہے ہر طرف

دریا کے ذہن میں یہ سسکتا سوال ہے
کیوں اس قدر ‌خموش سمندر ہے ہر طرف

دنیا میں اک فقیر سے ملتا گیا قرار
“عینی” اگرچہ شور سکندر ہے ہر طرف
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

سوال:-اردو زباں کا مستقبل آپ کی نظر میں ؟؟

جواب :- ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔
ڈاکٹر اقبال فرماتے ہیں:

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

اردو کا مرکز کبھی دہلی اور لکھنؤ ہوا کرتا تھا ۔اب یہ مرکزیت ممبئی، مہاراشٹرا اور دکن کی جانب منتقل ہورہی ہے ۔نیو یارک اور لندن بھی اردو کے مراکز بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔
اردو زندہ تھی ، زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔
ان شاء اللہ

ختم شد

منجانب:_ قرطاس ادب ( کراچی ، پاکستان)
ناظم اعلیٰ: –سید فرخ جعفری
منتظم: -مہرو لونا ٰ
منتظمہ، مصاحبہ گو:– جبیں نازاں_ نئی دہلی