WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category شعر و شاعری

خدا کا انعام اور عید سعید۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

خاتم النبیین ، حبیب خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ کے predecessor تھے روح اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے just پہلے جو نبی تشریف لائے تھے ان کا نام ہے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت نے بھی عید منائی تھی۔ لیکن عید کیوں منائی تھی؟ کچھ تو سبب ہوگا ۔کوئی خاص وجہ تو ہوگی۔ ضرور خوشی کے کچھ اسباب ہونگے۔کیونکہ عید کے معنی ہی خوشی کے ہیں ۔ عید ، عوائد سے مشتق ہے اور عوائد کے معنی ہیں منافع کے۔ گویا انسان عید اس وقت مناتا ہے جب اس کو کوئی اہم نفع ملے یا فائدہ ملے۔
تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کی امت کو کون سے فائدے ملے کہ انھوں نے عید منائی؟

کتابوں میں مذکور واقعہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواریوں نے اپنے رسول عیسیٰ علیہ السلام سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ خدا سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لیے آسمان سے خوان نعمت نازل فرمائے تاکہ ہماری بھوک بھی مٹ جاۓ اور یہ ثابت بھی ہوجائے کہ آپ نبوت اور رسالت کے معاملے میں سچے ہیں اور ہم بنی اسرائیل کے لوگوں کے سامنے دلیل کے ساتھ خدا کی توحید اور آپ کی رسالت کی تبلیغ کر سکیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خدا سے دعا فرمائی:
اے اللہ ، اے ہمارے رب ، ہم پر آسمان سے ایک خوان نعمت اتار جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید ہوجائے۔

قادر مطلق رب تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معجزہ عطا فرمایا کہ جب بھوک لگتی تو زمین کی طرف ہاتھ بڑھادیتے ، اپنے اور اپنے حواریوں کے لئے روٹی نکال لیتے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک بار ایسا بھی ہوا کہ ان حواریوں کے ساتھ پانچ ہزار نوجوان چلے اور سب نے عیسیٰ علیہ السلام سے خوان نعمت کے نزول کی درخواست کی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان سب کی یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر خوان نعمت اتارا ۔سب نے مل کر کھایا یہاں تک کہ سب شکم سیر ہوگیے۔ عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ دیکھ کر سب کے سب ایمان لے آئے۔ اس طرح عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے عید ہوگئی۔ گویا عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے اللہ کی طرف سے خوان نعمت کا اترنا عید / خوشی کا سبب بنا ۔

آنے والا یکم شوال بھی امت محمدی کے لیے عید ہے۔سارے ممالک میں ، سارے بر اعظموں میں بلکہ ساری دنیا میں یکم شوال کو مسلمان عید منائیں گے، نئے کپڑے پہنینگے، عطر لگائینگے، عید گاہ میں اجتماعی طور پر دو رکعات کی نماز پڑھیں گے، گلے مل مل‌ کر ایک دوسرے کو مبارکبادیاں اور تہنیتیں پیش کرینگے۔آخر کون سی خوشی ہے مسلمانوں کے لیے؟ کیا آسمان سے کوئی خوان نعمت اتارا گیا ہے؟ کیا مسلمانوں کو بے بہا دولتیں مل گئی ہیں ؟ کیا مسلمانوں کو کسی جنگ میں کامیابی مل گئی ہے؟ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔اس روز ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔پھر بھی مسلمان عید کیوں منارہے ہیں ؟ اس کا جواب جاننے کے لیے آئیے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کرتے ہیں ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہ رمضان میں روزے رکھے ، عید الفطر کی رات میں پورا پورا اجر عطا فرما دیتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ شب عید الفطر کا نام شب جائزہ / انعام کی رات رکھا گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث مروی ہے کہ حضور نے فرمایا جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے اور لوگ عید گاہ کی طرف جاتے ہیں تو حق تعالیٰ ان پر توجہ فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے اے میرے بندو ! تم نے میرے لیے روزے رکھے ، میرے لیے نمازیں پڑھیں اب تم اپنے گھروں کو اس حال میں جاؤ کہ تم بخش دیے گئے ہو۔

تو اب سوچیے ایک مسلمان کے لئے اس بڑھ کر مسرت و شادمانی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ روزے رکھنے کا پورا اجر عطا فرمائے،رب کریم مسلمانوں کے گناہوں کو بخش دے، بخشش کا پروانہ عطا فرمائے۔مسلمانون کے لیے سب سے بڑی نعمت تو یہی ہے کہ رب خود فرمائے کہ اے میرے بندو ! جاؤ تمھاری بخشش ہوگئی‌ ۔

مسلمانوں کے لیے آسمان سے کوئی خوان نعمت نہیں اترا بلکہ اللہ کی طرف بخشش کا مژدہء جانفزا آیا۔
مسلمانوں کے لیے کوئی materialistic چیز نہیں آئی، بلکہ روحانی سکون کا سامان نعمت لازوال بن کر آیا ۔کسی اور امت کے لیے خوان نعمت ایک بار آیا یا چند بار آیا ہوگا ، لیکن امت محمدی کے لیے شب جائزہ اور عید سعید کا دن ہر سال آتا ہے اور انعام بخشش گناہ لیکے آتا ہے۔اسی لیے اللہ فرماتا ہے:
فبای آلاء ربکما تکذبان
تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاوگے؟
اس سے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیکر رحمت ہیں اور اللہ تعالیٰ بہت بڑا رحمان و رحیم‌ ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے ایک جلیل القدر پیغمبر تشریف لائے تھے جن کا نام ہے کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام۔آپ کا مقابلہ فرعون اور اس کے جادوگر کے ساتھ تھا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو مرعوب کرنے کے لیے فرعون کے ٧٣ ساحروں نے اپنی لاٹھیوں کو بظاھر سانپ بنا دیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ جادو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کی قوم مرعوب ہوجائے اور راہ حق سے بھٹک جائے ، موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنی لاٹھی زمین پر پھینک دی تو لاٹھی کی جگہ ایک اژدہا نمودار ہوا اور اس نے سارے سانپوں کو یکبارگی نگل لیا۔یہ دیکھ کر سارے جادوگر ایمان لے آئے۔موسی’ علیہ السلام کے سانپ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر فرعون کی قوم‌ میں بھگدڑ مچ گئی اور اس بھگدڑ کے نتیجے میں فرعون کی قوم کے پچاس ہزار آدمی مر گیے۔گویا حق کی جیت ہوئی اور باطل کو شکست فاش کا منھ دیکھنا پڑا ۔جس دن‌ یہ واقعہ رونما ہوا وہ دن امت موسیٰ کے لیے یوم زینت ہے، یوم عید ہے ۔

امت محمدی نے ماہ رمضان میں اپنے نفس کا قتل عام کیا ہے۔نفس امارہ کو مار مار کر یہ کہا ہے یا ایھا الذین ء آمنوا کتب علیکم الصیام ، رب کے حکم کے مطابق ، صرف رب کی رضا کے لیے ہمیں روزہ رکھنا ہے ، بھوکا بھی رہنا ہے اور پیاسا بھی رہنا ہے ۔ چاہے دھوپ کی تمازت پچاس یا ساٹھ ڈگری کیوں نہ ہوجائے ہمیں رب کی اطاعت میں صوم کی پابندی کرنی ہے۔ ہمیں نفس کو مار کر، نفس کو شکست فاش دےکر فتح و کامرانی سے سرفراز ہونا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماہ صیام میں مسلمانوں کے ایمان میں تازگی پیدا ہوجاتی ہے۔یوم عید الفطر میں باغ ایمان کو شگفتگی حاصل ہوتی ہے۔کیا ایسے major event میں مسلمان عید نہ منائیں ؟ سرور و انبساط سے سرشار نہ ہوں؟ ایک دوسرے کو مبارک بادیاں پیش نہ کریں ؟ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے عید گاہ میں اجتماعی طور پر دو رکعت نماز نہ پڑھیں ؟ ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ نہ کریں ؟

بیشک۔ رب کے انھی انعامات کی خوشی میں عید کے دن ہم عمدہ اور اچھے لباس پہنیں ، عطر سے خود کو معطر کریں ، عید گاہ میں دو رکعت نماز پڑھیں، خطبہ سنیں، نماز سے فارغ ہونے کے بعد ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ کریں ، ایک دوسرے کو تہنیتیں پیش کریں تاکہ عید مبارک کے کلمے سے فضا گونج اٹھے ۔ نماز سے فارغ ہوکر اجتماعی طور پر دعا مانگیں ، خاص طور پر ملک عزیز میں امن کی بحالی اور پوری دنیا میں مسلم قوم کے جان و مال و ایمان کی حفاظت کے لئے اپنے رب سے دعا کریں ۔خاص طور پر ان مواقع پر اللہ کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا۔ ان شا ء اللہ آپ اپنے گھروں کو مغفور ہوکر لوٹینگے اور خود کو بامراد اور کامیاب و کامران پائینگے۔۔

حامل نور راحت ہے عید سعید
رب عالم کی نعمت ہے عید سعید
“عینی “اعلان کرتے ہیں ہر سو ملک
یوم انعام و رحمت ہے عید سعید
(سید عینی)

باعث کیف و فرحت ہےعید سعید، ازقلم، سید خادم رسول عینی

عید سعید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حامل نور راحت ہے عید سعید
رب عالم کی نعمت ہے عید سعید

عید گاہوں کا کہتا ہے بڑھتا ہجوم
ہر مسلماں کی شوکت ہے عید سعید

ہر مسلماں کے چہرے پہ مسکان ہے
باعث کیف و فرحت ہے عید سعید

دوست ہوں یا کہ دشمن گلے ملتے ہیں
کس قدر وجہ الفت ہے عید سعید

خوب رکھو خیال اپنے احباب کا
روز احسان و نصرت ہے عید سعید

رحمت حق سے ہوتے ہیں ہم مالا مال
یوں ہماری سعادت ہے عید سعید

مغفرت سے نوازے گئے صائمین
بخشش رب کی ساعت ہے عید سعید

“عینی “اعلان کرتے ہیں ہر سو ملک
یوم انعام و رحمت ہے عید سعید
۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

الوداع اے ماہ فرقاں الوداع، از: سید خادم رسول عینی

الوداع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوداع اے ماہ فرقاں الوداع
تجھ سے ہم رہتے تھے فرحاں الوداع

رحمت باری رہی تیرے سبب
بھولنا تجھ کو نہ آساں الوداع

سحری و افطار کے وہ وقت نور
تھا تو برکت کا گلستاں الوداع

شاعری کرتے تھے ماہ نور پر
کہہ رہے ہیں سب سخن داں الوداع

قدر والی رات تیری خاصیت
تجھ میں تھی تقدیس چسپاں الوداع

عرس حیدر بھی منایا دہر نے
تو ہے پیارا از دل و جاں الوداع

یاد فتح مکہ کی آءی ہمیں
سب مہینوں کا تو سلطاں الوداع

جمعہ تیرا آخری بھی خوب تھا
سید الایام تاباں الوداع

ضابطے کے ساتھ جینا ہے ہمیں
تو نے دی تعلیم خوباں الوداع

تیری ہی اک رات میں اے ماہ نور
ہوگیا نازل تھا قرآں‌ الوداع

تجھ سے صحت مل گءی بیماروں کو
تجھ پہ ہے ہر شخص قرباں الوداع

جلد آنا “عینی” کی تو زیست میں
لیکے پھر رحمت کی باراں الوداع
۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

29 اپریل: سید خادم رسول عینی کا یومِ ولادت،از:_ڈاکٹر شفیق جے ایچ

29 اپریل: سید خادم رسول عینی کا یومِ ولادت 💐💐💐

سید خادم رسول عینی کی ولادت ٢٩ اپریل ١٩٦٨ میں بھدرک اڈیشا میں ہوئی۔ آپ امیر مینائی کے سلسلے کے مشہور شاعر علامہ سید اولاد رسول قدسی کے شاگرد رشید ہیں ۔آپ نعت ، غزل، منقبت، سلام، سہرا ، نظم وغیرہ اصناف میں شاعری کرتے ہیں ۔آپ کا ایک مجموعۂ نعتیہ کلام بنام “رحمت و نور کی برکھا” شائع ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ آپ کی ترتیب شدہ کتابیں نظر عمیق اور مناقب مفتیء اعظم اڑیسہ بھی شائع ہوئی ہیں ۔آپ کے کلام ہند اور بیرون ہند کے مختلف اخبار و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ آپ ہند اور بیرون ہند کے مختلف مشاعروں میں شرکت کر کے مقبول خاص و عام ہوئے ہیں ۔آپ نے اردو زبان کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی شاعری خوب کی ہے۔پیشے کے لحاظ سے آپ بینکر ہیں اور یونین بینک آف انڈیا کے چیف مینیجر کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں ۔کٹک ، اڑیسہ میں سعید رحمانی کی ادارت میں شائع ہونے والا سہ ماہی ادبی محاذ کے سرپرست بھی ہیں۔

آپ کے کلام میں سے چند غزلیں نذر قارئین ہیں :

تو پژمردہ پیڑوں کو یوں باثمر رکھ
توانائی دے شاخ کو بااثر رکھ

نہ کر فخر اجداد کے تو شجر پر
تو شاخوں پہ خود کاوشوں کا ثمر رکھ

ہے انکار کرنا بہت سہل و آساں
تو اقرار کا حوصلہ اے بشر رکھ

زمینی حقائق رہیں تیرے آگے
نظر اپنی چاہے سدا چرخ پر رکھ

نہ ہو جائے مانند آتش سراپا
مرے دل کی اے جان جاناں خبر رکھ

کر احقاق حق اور ابطال باطل
یہ جذبہ ہر ایک موڑ پر بے خطر رکھ

سبھی کی محبت سماجائے دل میں
تو اس میں ہمیشہ محبت کا گھر رکھ

گہر خود ہی آجائےگا پاس عینی ؔ
نہایت پہ منزل کی گہری نظر رکھ

۔۔۔۔۔۔۔۔

درد و غم سے وہ ہ بشر آزاد ہے
قلب میں جس کے خدا کی یاد ہے

حکمران وقت سب خاموش ہیں
بے اثر مظلوم کی فریاد ہے

حق پرستو ! رب کی نصرت آئیگی
جبر باطل کی بھی اک میعاد ہے

آگ نفرت کی بجھے بھی کس طرح
تلخیوں کا اک جہاں آباد ہے

دل ہے چھلنی اس کا سنگ بغض سے
جس کے ہونٹوں پر مبارکباد ہے

دیکھیے موجد کی آنکھوں سے ذرا
خوبصورت کس قدر ایجاد ہے

غالب آئے غم کا لشکر کس طرح
دل میں یاد یار جب آباد ہے

عینی ؔ رکھنا‌ رب پہ ہر دم‌ اعتماد
ورنہ تیری زندگی ناشاد ہے

۔۔۔۔۔۔۔

نخل نخوت کو ہمیشہ بے ثمر رکھا گیا
صبر کے ہر اک شجر کو بارور رکھا گیا

سلسلہ بڑھتا گیا ان کے ستم کا اس قدر
میرے ٹوٹے دل کے آنگن میں حجر رکھا گیا

لگ رہا تھا بھیڑ میں وہ ضوفشاں کچھ اس طرح
درمیان نجم جیسے اک قمر رکھا گیا

شک کی عینک جب اتاروگے تو مانوگے ضرور
منصب عالی پہ مجھ کو جانچ کر رکھا گیا

درد و غم کی آگ اسی سے ایک دن بجھ جائیگی
ان کے سوز عشق میں ایسا اثر رکھا گی

بحر سے دوری ھے مجھ کو کیسے سیرابی ملے
زیست میں میری سراب بے اثر رکھا گیا

روز و شب چوبیس گھنٹے کم پڑے اپنے لیے
اس قدر کیوں وقت عینی ؔ مختصر رکھا گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔
صحن دل کے سبھی پھولوں کو جواں رہنے دو
پر شباب اپنے چمن کا یہ سماں رہنے دو

پھر کبھی سر نہ اٹھا پائیں جہاں کے ظالم
سینہء ظلم پہ سیدھا سا نشاں رہنے دو

ہو نہ جائے کبھی احساس کا بلبل غمگیں
اس کو رکھو نہ نہاں بلکہ عیاں رہنے دو

تم کو رکھنا ہے تقدس کی فضا گر قائم
دل کی مسجد‌ میں محبت کی اذاں رہنے دو

آب عرفاں سے رہیں حق کے مسافر سیراب
اپنے اطراف ہدایت کا کنواں رہنے دو

دل کرو فتح تم‌ اخلاص کی تلواروں سے
نفرت و بغض کے تم تیغ و سناں رہنے دو

درد دروازہء دل پر نہ دے دستک عینی ؔ
مدح محبوب سدا ورد زباں رہنے دو
۔۔۔۔۔۔

دیکھو جہاں بھی ، ایک ہی خاور ہے ہرطرف
تاروں کے قافلے کا یہ رہبر ہے ہرطرف

بھر آئی دیکھ دیکھ کے امن و اماں کی آنکھ
انسانیت کے خون کا منظر ہے ہرطرف

تنہا لڑیں گے خنجر خلق و وفا سے ہم
گرچہ جہاں میں بغض کا لشکر ہے ہر طرف

ہے خوف کیسے زیست کی رہ پائے گی فضا
سانپوں کا سانپ دشت میں اجگر ہے ہرطرف

خالی ملیں گے سیپ سمندر کی گود میں
مت سوچیے کہ سیپ میں گوہر ہے ہر طرف

دریا کے ذہن میں یہ سسکتا سوال ہے
کیوں اس قدر ‌خموش سمندر ہے ہر طرف

دنیا میں اک فقیر سے ملتا گیا قرار
عینی ؔ اگرچہ شور سکندر ہے ہر

پیش کش:

ڈاکٹر شفیق جے ایچ

نعت رسول دوجہاں ﷺشبِ قدر کی عطا، ✒کلیم احمد رضوی مصباحی

نعت رسول دوجہاں ﷺشبِ قدر کی عطا

جب بیاں کرتا ہے آقا کی ثنا مرغِ خیال

کانوں میں رس گھولتا ہے خوش نوا مرغِ خیال

جلوہ گر ہوتی ہے بلقیسِ سخن میرے لیے

غیب سے لاتا ہے مضمونِ سبا مرغِ خیال

ہند سے دو گام ہے اس کے لیے طیبہ کا باغ

ہے مثالِ برق یا نازِ صبا مرغِ خیال

ہے ترا ممدوح، ممدوحِ خداۓ دوجہاں

بلبلِ سدرہ ہے تیرا ہمنوا مرغِ خیال

صاحبِ معراج چاہیں تو ہو معراجِ سخن

تا بہ قوسینِ ثنا پہونچے مرا مرغِ خیال

شانِ قمری جانِ بلبل رشکِ گلشن نازِ فن

سب لقب تیرے ہیں اے مدحت سرا مرغِ خیال

انکی چوکھٹ پرجو پہونچا، چہچہےگم ہوگئے

اللہ اللہ کس قدر ساکت رہا مرغِ خیال

فکر کے دریا میں جب غوطہ لگایا واہ واہ

گوہرِ توصیف لے کر آگیا مرغِ خیال

کس بلندی سے مضامینِ رفعنا لے لیا

آشیانہ ہے کہاں تیرا بتا مرغِ خیال

نغمہ ہاۓ نعت سے شاداب رکھتا ہے ہمیں

باعثِ ابر و بہارِ جاں فزا مرغِ خیال

تیرے لہجے مشکبو عنبر فشاں ہیں اس لیے

ان کی زلفوں پرہے تو دل سے فدا مرغِ خیال

گوش بر آواز ہوں وحش و طیورِ گلستاں

جب زبورِ رخ پڑھے شیریں نوا مرغِ خیال

شاخِ طوبیٰ پر یہ چہکے بلبلِ سدرہ کے ساتھ

ان کی رحمت سے ہو گر رفعت رسا مرغِ خیال

ظلمتِ شَب میں ہویدا ہوتا ہےنورِ سحر

لے کے جب آتا ہے تنویرِ حرا مرغِ خیال

شاخِ مدحت پر نجومِ عشق کھلتے ہیں کلیم

نورِ حق کے گیت گاتا ہے سدا مرغِ خیال

از ✒کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا سیتامڑھی بہار

ہماری روح ہمارا نشان ہے قرآن،،کلام، سید خادم رسول عینی

قرآن
۔۔۔۔۔۔

قرار قلب ہے مومن کی جان ہے قرآن
ہماری روح ہمارا نشان ہے قرآن

ہر ایک شئ کی حقیقت کا ذکر ہے اس میں
نہ سمجھو تم کہ فقط داستان ہے قرآن

ہے کائنات کا ہر علم اس میں ہی پنہاں
خدا کے فضل کا بین نشان ہے قرآن

ہر ایک دور میں ہر قوم کے لیے ہے مفید
ہدایتوں کا مکمل جہان ہے قرآن

عمر نے لایا تھا ایمان سن کے اک‌ آیت
یقین مانیے ایماں کی جان ہے قرآن

اسی کے تحت بناتے ہیں ملک میں قانون
جہاں میں آج بھی یوں حکمران ہے قرآن

تمھارے ذہن میں ترمیم کا نہ آئے خیال
ہے لازوال،‌ خدا کا بیان ہے قرآن

ضعیف ہو نہ سکے گی کبھی کوءی آیت
جواں رہیگا، جواں تھا، جوان ہے قرآن

بڑے‌ ہی شوق سے عثماں غنی نے دی ترتیب
وہ جانتے تھے کہ امت کی جان ہے قرآن

عبادت اس کی تلاوت ہے ، دیکھنا اس کا
یوں نیکیوں کا حسیں گلستان ہے قرآن

حروف ایسے ہیں اس میں کہ ہے شفا ان میں
کلام رب کا، نبی کی زبان ہے قرآن

وہ ہونگے معتزلہ جو کہیں اسے مخلوق
ہمارے واسطے رب کا بیان ہے قرآن

ہمیں ضلال کے خنجر بھی کاٹ سکتے نہیں
یقیں ہے “عینی” کہ حق کا نشان ہے قرآن
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

لیلۃالقدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

برکتوں کا دیا لیلۃالقدر میں

خوب روشن ہوا لیلۃالقدر میں

رحمت عالمیں کا ہے یہ فیض خاص

گل فرحت ملا لیلۃالقدر میں

ہو مبارک مسلمان عالم تمھیں

قول رب آگیا لیلۃالقدر میں

ہوگیا ملک آزاد انگریز سے

رب کی ہے یہ عطا لیلۃالقدر میں

امت مسلمہ ہو سدا خیر سے

یا خدا دے جزا لیلۃالقدر میں

پھر سے ہندوستاں میں ہو اسلامی راج

مانگو ‌ایسی دعا لیلۃالقدر میں

شکر رب، “عینی” بخشش کا مژدہ حسیں

قدسیوں سے ملا لیلۃالقدر میں۔

۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

شبِ قدر.. از: سید خادم رسول عینی

شب قدر۔۔۔۔۔۔

براءے مسلماں ہے نعمت شب قدر

رضاءے خدا کی بشارت شب قدر

مسلمان کرتے ہیں مل کر عبادت

بڑھاتی ہے آپس میں ملت شب قدر

نزول کرم صبح تک ہورہا ہے

ہے اعلان امن و صیانت شب قدر

بڑے فخر اور ناز سے قدسیوں کو

دکھاتی ہے عابد کی عظمت شب قدر

کئی درجہ نیکی کا ہے اجر اس ‌رات

عبادت کو دیتی ہے برکت شب قدر

تری منزلت پر مکمل ہے سورہ

نہ کیوں پھر ہو تجھ سے عقیدت شب قدر

ہیں حامل تشکر کے احمد ضیاءی

کیا خوب قراں تلاوت شب قدر

اراکین مسجد کو بھی تہنیت ہو

کیا اہتمام جماعت شب قدر

کریں جستجو قدر کی رات “عینی “

ہے شان کریمی کی حکمت شب قدر۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

ماہ رمضان پر انگریزی نظم از: سید خادم رسول عینیMonth of Ramadan……

ماہ رمضان پر انگریزی نظم از: سید خادم رسول عینیMonth of Ramadan………………………….

For all of us benevolent month of Ramadan

, Full of divinity quotient month of Ramadan

Believer’s happiness and delight know no bounds

, To behold your moon the crescent month of Ramadan

This is one of the five pillars of great Islam,

To observe your fast incumbent month of Ramadan

The Spiritual rewards are getting multiplied,

In you sanctity is present month of Ramadan

The Quran was revealed on the day of Power,

In you this sacred day present month of Ramadan

You inculcate the discipline and self control,

You are truly an excellent month of Ramadan

The paradise is opened on your arrival,

“Aini” is also your adherent month of Ramadan…..

.By: Sayed khadime Rasul Aini

زکواۃدیتے رہو۔۔از: سید خادم رسول عینی

زکواۃ۔۔۔۔۔۔

کرو سماج کی خدمت زکواۃ دیتے رہو

ہے یہ اصول جماعت زکواۃ دیتے رہو

تمھیں غریب نوازیں گے سب دعاؤں سے

بڑھیگا نفع تجارت زکواۃ دیتے رہو

کتاب رب میں ملا حکم رب کا کتنی بار

ملےگی گھر میں بھی برکت زکواۃ دیتے رہو

جو مستحق ہیں انھیں ڈھونڈو اور مدد بھی کرو

گھٹےگی ملک سے غربت زکواۃ دیتے رہو

خدا نے ذکر کیا اس کا بھی نماز کے ساتھ

ہے ظاہر اس سے فضیلت زکواۃ دیتے رہو

مہ صیام میں نیکی میں ضرب ہوتا ہے

ہے وقت کتنا غنیمت زکواۃ دیتے رہو

نکالنا ہے تمھیں” عینی “ڈھاءی فیصد بس

کرم ہے رب کا نہایت زکواۃ دیتے رہو۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی