WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

قرآن مقدس کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟از:محمّد شمیم احمد نوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

قرآن مقدس اللہ ربّ العزّت کا کلام ہے، اس کی حفاظت کا ذمّہ خود خالقِ کائنات نے اپنے ذمّۂ کرم پر لے رکھا ہے، یہ وہ کتابِ ہدایت ہے جس میں لوگوں کی رہ نمائی اور دنیا کے تمام علوم کا ذکر موجود ہے-

    حضور نبی رحمت ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ “میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم نے ان کو مضبوطی سے تھامے رکھا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ان میں سے ایک اللہ کی کتاب [قرآن مقدس] اور دوسری اس کے نبی کی سنت ہے-
  پوری دنیا کے مسلمانوں کا ایمان ہے کہ قرآن اللّٰہ عزّوجلّ کا لاریب اور بے مثل کلام ہے ،عرب کے فصحا و بلغا جن کو اپنی زبان دانی پر فخر تھا وہ قرآن کی ایک چھوٹی سی چھوٹی سورت کے مثل بھی کلام پیش کرنے سے قاصر وعاجز رہے، اور یہ صرف عرب کے فصحا و بلغا کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیامت تک کے تمام جناتوں و انسانوں کو قرآن کا یہ چیلنج ہے جیسا کہ خود اللہ رب العزت ارشاد فرماتاہے کہ ترجمہ:”اے محبوب: فرما دیجئے کہ اگر سب انسان اور تمام جن مجتمع[ اکٹھے ]ہو جائیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں اور پھر وہ اس قرآن مجید جیسی کوئی کتاب بنانا چاہیں تو ہرگز ایسا نہ کرسکیں گے!(سورۂ بنی اسرائیل )۔

قرآن کا یہ دعویٰ [ چیلنج ]صدیوں سے قائم ہے، اور اس دعویٰ کی موجودگی میں مخالفینِ اسلام چاہے جتنا زور کیوں نہ لگالیں وہ قرآن کے دعویٰ کے سامنےبے بس ہیں اور رہیں گے-

ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زبان نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

   یہ کتاب جہاں فصاحت و بلاغت میں بے مثال ہے وہیں اس کتاب کو امت کے عروج وزوال کا پیمانہ بھی قرار دیا گیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب پر عمل کے ذریعہ لوگوں کو عروج عطا کرے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ذلت و رسوائی کے کھائی میں ڈھکیل دے گا، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کتاب الہی کے پیغامات و احکامات کو آسان انداز اور پیرائے میں عام کیا جائے، اور اس کی روشنی سے پوری دنیاکو منور کیا جائے، کیوں کہ ایک مسلمان کی زندگی میں قرآن مقدس کی بڑی اہمیت ہے، یہ اس کی امراض روحانی کی شفا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ایمان کے لیے ہدایت و رحمت کا نسخہ اور ہمیشہ باقی رہنے والی ایک ایسی جامع آسمانی والہامی کتاب ہے جو سب کے لیے رہنما اور رہبر اور ایسا نور ہے جس کی روشنی قیامت تک مدھم نہیں ہوسکتی-

    اللّٰہ عزّوجلّ قیامت تک آنے والی نسل انسانی کی رہ نمائی کے لیے قرآن مقدس اور اسوۂ رسول ﷺ کو نمونۂ عمل قرار دیا ہے-

قرآن مجید کو اللّٰہ تعالیٰ نےانسانی زندگی کے لیے اصلاحی نظام کے طور پر نازل فرمایا اور اس کو ایسا جامع و کامل بنایا کہ اس نظام میں اب کسی طرح کے تبدیلی کی ضرورت باقی نہ رہے اور نزول کے وقت سے لے کر قیامت تک خیر و شر کے تمام معاملات میں کتابِ الٰہی اور حدیث نبوی سے رہنمائی حاصل کی جاتی رہے!۔

    حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ قرآن مقدس کی عملی شکل اور اس کا پرتو ہے ،حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم کے اقوال، فرمودات، افعال و اعمال حدیث ہے، اور حدیث قرآن مقدس کے اجمال کی تفصیل ہے، لہٰذا جب تک انسانیت کا تعلق دونوں سرچشموں سے گہرا نہیں ہوگا وہ صراط مستقیم (سیدھی اورحق راستے)پر ہرگز گامزن نہیں ہوسکتی!۔ 

قرآن پر عمل کرنا دونوں جہان میں کام یابی کی ضمانت: قرآن مقدّس دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جس پر عمل کرنا یقیناً دنیا و آخرت کی فلاح اور کامیابی کی ضمانت ہے ہی مگر اس کا پڑھنا [تلاوت کرنا]پڑھانا یہاں تک کہ سننا بھی باعثِ خیر و برکت اور موجبِ ثواب ہے-
اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے” اور پھر ظاہر سی بات ہے کہ قرآن مجید جو جتنا زیادہ پڑھے گا اور اس کی تعلیم حاصل کرے گا وہ اتناہی بڑااور قابل قدر ہوتا چلا جائے گا- مطلب یہ ہے کہ جو قرآن مقدس کے الفاظ کو پڑھے یا پڑھائے وہ دوسرے علوم یا کتابوں کے الفاظ کے پڑھنے یا پڑھانے والے سے بہتر و افضل ہے-
یہ ہمارےجومدارسِ اسلامیہ ہیں یہ دراصل قرآن وحدیث اور ان کے ضمن میں دیگر علوم و فنون پڑھنے اور پڑھانے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں اس لیے ان کا مقام سبھی تعلیمی اداروں میں اعلیٰ و ارفع ہے-

    دنیا کے اندر قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے کلام کا آغاز اس عظیم دعویٰ سے کرتا ہے کہ ” اس کا ایک ایک لفظ شک و شبہ سے پاک ہے اور “لاریب فیه” اس کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جو دنیا کی کسی بھی دوسری کتاب کو حاصل نہیں ہے، اور ایک دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ پوری دنیا میں اس کتاب سے زیادہ کوئی کتاب نہیں پڑھی جاتی, اس بات کا اعتراف و اقرار ہمارے دوسرے برادران وطن بھی کرتے رہتے ہیں-

قرآن کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟: قرآن احکم الحٰکمین کا کلام، مسلمانانِ عالَم کے لیےکام یابی کاسرچشمہ ہے، علم و حکمت،عقل مندی ودانائی کا خزینہ ہے، یہ کسی ایک علم و فن کی کتاب نہیں، بلکہ یہ علم و فن کے تمام شعبوں میں رہ نمائی کرتا ہے، یہ علم و حکمت کے لیے منبع و مآخذ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کے تمام گوشے چاہے تحقیق ہو یا جستجو، علم فلکیات ہو یا ارضیات، سائنس و ٹیکنالوجی ہو یا طب وجراحت، اقتصادیات ہو یامعاشیات، سب کے لیے نورِ بصیرت فراہم کرتاہے-

       قرآن نے ہر موضوع کو اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے، یہ صرف معلومات مہیا کرنے والی کتاب نہیں بلکہ یہ کتاب ہدایت ہے یہ اس حکیم کا کلام ہے جس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا، قرآن بتوں کے سامنے جھکی ہوئی انسانیت کو خدائے واحد کے سامنے جھکانا چاہتا ہے

وہ اخلاقی بیماریوں کاقلع قمع کرکے حسنِ اخلاق کے گلشن کھلانا چاہتاہے وہ انتشار وافتراق[ لڑائی جھگڑا اورآپسی پھوٹ] کی بھٹی میں سلگتی ہوئی نسل آدم [انسانوں] کو وحدت واخوّت[بھائی چارگی]کی لڑی میں پرونا چاہتا ہے یہ عقل کو روشن اور دل کوآزادی کی نعمت عطا کرناچاہتاہے-
وہ امیر و غریب،شاہ وگدا،آقا ومولیٰ اورگورے اور کالے کے امتیازات [فرق/ بھید بھاؤ] کومٹاکر نسلِ آدم میں مساوات [برابری] قائم کرنا چاہتا ہے ،وہ عورتوں کی زبوں حالی اور غلاموں کی بے بسی کو ختم کرکے انہیں دوسرے انسانوں کے برابر مقام عطا کرنا چاہتا ہے-
قرآن مقدس کے سامنے مقاصدکی ایک لمبی فہرست ہے جس قرآن کے مقاصد اتنے اہم اوراعلیٰ ہوں، اگر اس کے احکامات و فرمودات پر مسلمان کماحقہٗ عمل کرے تو کیوں نہ وہ فائز المرام[کام یاب] ہو-
مگر ہائے افسوس : آج کے مسلمانوں نے قرآن کے احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیا، موجودہ دور میں مسلمانوں پر جو افتاد[پریشانیاں و مصیبتیں] واقع ہوئی ہیں اور عالمی سطح پر جو حالات درپیش ہیں وہ کتاب مبین [قرآن] سے دوری کی وجہ سے ہے-

اے کاش: مسلمان قرآن کی جامع احکامات کو اپنے لیے مفید سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرتا ،اور قرآنی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتا،قرآن ہی کو اپنا حقیقی مشیر،خیر خواہ اور مخلص رہنما جانتا!

 اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب ﷺ کے صدقہ و طفیل ہم سبھی مسلمانوں کو قرآن وسنت کا عامل بنائے-آمین

سال نو:دراصل وقت احتساب ہے ہمیں اپنا محاسبہ کرناچاہیے.. از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،ضلع:باڑمیر (راجستھان)

       جنوری سے عیسوی کلینڈر کی شروعات ہوتی ہے جب کہ محرم الحرام سے قمری و ہجری سال کا آغاز ہوتاہے،عموما ماہ جنوری کے آنے سے پہلے ہی نئے سال کی آمد کا لوگوں کو انتظار رہتاہے،دسمبر کی آخری تاریخ اور جنوری کی پہلی تاریخ،دن ورات کو لوگ جشن وطرب کی محفلوں کو سجاکر خوب موج ومستی کرتے ہیں اور نہ جانے کتنے واہیات وخرافات پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور "نیو ایئر" کے نام پر طوفان بدتمیزی برپا کرکے اس کااستقبال کرتے ہیں اور اس موقع پر یہ بالکل ہی بھول جاتے ہیں کہ سال نو کی آمد صرف خوشی  ومسرت ہی نہیں بلکہ دراصل وہ ہمیں فکر واحتساب کی دعوت دیتی ہے،ہم اپنی منزل حقیقی کی طرف رواں دواں ہیں،ہماری بہار عمر خزاں کی طرف تیزی کےساتھ بڑھ رہی ہے،ہم قبر کے قریب ہورہے ہیں اور دنیا سے داغ مقارقت دینے کا وقت نزدیک سے نزدیک تر آرہاہے،فیاض ازل نے ہماری جو متعینہ زندگی لکھی تھی وہ اختتام کوپہنچنے والی ہے اس لیے سال نو کی آمد پر بےجارسوم وخرافات پر عمل کے بجائے ہمیں اپنا محاسبہ کرناچاہیے،بہر حال سالِ نو کے موقع پر لایعنی خرافات اور عیاشی وفحاشی سے پر مجالس کے انعقاد اور ان میں شرکت کے بجائے   خود احتسابی سے انسان کوکام  لینا چاہیے۔کیونکہ حقیقی بات تو یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان مسافر ہے اس کی زندگی مسافرانہ ہے بالکل اسی طرح کہ ہم سب گویا کسی اسٹیشن پر بیٹھے ہوئے ہیں جس کی گاڑی آئی وہ اپنے اگلے سفر کے لیے روانہ ہوگیا اور باقی مسافر اپنی اپنی گاڑی کے انتظار میں ہیں کہ کب گاڑی آ جائے اور تمام اسباب وسامان سمیٹ کر چل دیا جائے-

ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو غفلت اور لاپرواہی میں اپنی عمر کے بیش قیمت لمحات گزار رہے ہیں، اپنی موت کو بھول کر انجام سے بے پرواہ ہوکر اپنے کھانے ،پینے، کھیلنے ،کودنے اور اپنی دھن میں مصروف ہیں حالانکہ سانسوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ہی عمر کی مقدار گھٹ رہی ہے رفتہ رفتہ انسان اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہے۔ اس لیے انسان کو اپنے اعمال وافعال کا جائزہ لینا بہتر ہے نا کہ محض مبارکبادیاں دے کر دل کو تسلی کا سامان مہیاکرنا،ہر گزرا ہوا دن آئندہ کی یاد دلانے والا ہے اور جو وقت گزر گیا وہ واپس آنے والا نہیں، دَراصل سال نو ہمیں یہی پیغام دیتا ہے کہ جس وقت کو گزرنا تھا وہ گزر گیا اب آئندہ کا خیال کرنا ہے اور غفلت ولاپرواہی کے ماحول کو چھوڑ کر اپنا سمتِ سفر متعین کرکے زادِ راہ کا انتظام کرنا ہے-اور ویسے بھی نیاسال صرف وقتی مسرتوں اور خوشیوں کے جذبات لے کر ہی نہیں آتا بلکہ ایک نیے سفر کی شروعات، تازہ دم ہوکر زندگی کو آگے بڑھانے کے شوق کو بیدار بھی کرتاہے،دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ پرعزم اور بلند حوصلہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام گزرے ہیں، جن کی پوری حیات ظاہری مضبوط عزائم اور بادمخالف کے مقابل دیوار آہنی بن کر گزری ہیں، اور انہوں نے اپنے متبعین کو بھی انہیں عزائم سے آراستہ کیا،خود نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی اس کی واضح دلیل ہے،کن حالات میں اور کیسی مخالفتوں میں آپ نے دین حق کی تبلیغ کی اور انسانیت تک اللہ وحدہ لاشریک کے پیغام کو پہنچایا،عزائم اگر سرد ہوجائیں اور ارادوں میں تھکن آجائے تو پھر کامیابی وکامرانی ایک ادھورا خواب بن کر رہ جائےگی-اسی لیے کسی شاعر نے کہا ہے کہ
ٹہرو نہ ارادوں کی تھکن جاگ پڑےگی
ایک لمحہ کو رکنابھی قیامت ہے سفر میں
اس لیے ہر نیا سال خفتہ عزائم کو بیدار کرنے، سوئے ہوئے جذبات کو جگانےکاپیغام دیتا ہے،مضبوط قوت ارادی کے ساتھ کچھ کرنے اور غفلتوں سے دامن جھاڑ کر میدان عمل میں قدم رنجہ ہونے کی دعوت دیتا ہے-

      یوں تو نیا سال ہمیں بہت سی باتوں کی جانب متوجہ کرتا ہے مگر بنیادی طور پر اس موقع پر ہم مسلمانوں کو دو اہم باتوں پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے-

(1) ماضی کا احتساب: نیاسال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کا موقع دیتا ہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہو گیا اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ہمیں عبادات،معاملات، اعمال،حلال و حرام، حقوق اللہ اورحقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کی مکمل تاریخ کی ورق گردانی کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں،کیوں کہ انسان دوسروں کی نظر سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تو چھپا سکتا ہے، لیکن خود کی نظر سے نہیں بچ سکتا۔اسی لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:”حاسبو ا انفسکم قبل ان تحاسبوا“(کنزل العمال:۳۰۴۴)
”تم خود اپنا محاسبہ کرو،قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے“

 اس لیے ہم سب کو ایمانداری سے اپنا اپنا مواخذہ ومحاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔قبل اس کے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے ۔اسی کو قرآن نے سورہ منافقون میں  اپنے مخصوص انداز میں کہا ہے جس کاترجمہ یہ ہے

”اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے(ہماری راہ میں ) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار! مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا؟کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہو جاؤں۔اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے پھراسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالیٰ بخوبی باخبر ہے“

(2)آگے کا لا ئحہ عمل: اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کی روشنی میں ہمیں منصوبہ طے کرنا ہوگا کہ سال گزشتہ ہماری کمزوریاں کیا رہی ہیں اور ان کو کس طرح سے دور کیا جا ئے ؟دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟
انسان خطا کا پتلا ہے ، اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی لیکن کسی غلطی کا مرتکب ہونا اس قدر زیادہ بری بات نہیں ہے۔جتنی بری بات یہ ہے کہ اس سے سبق نہ حاصل کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے اوریہ منصوبہ بندی دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں ہوں۔جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:”اغتنم خمساً قبل خمسٍ:شبابک قبل ھرمک، وصحّتک قبل سقمک، و غناک قبل فقرک،و فراغک قبل شغلک، وحیاتک قبل موتک“(المستدرک الحاکم:۶۴۸۷)

”پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کا فائدہ اٹھا لو : اپنی بڑھاپے سے پہلے اپنی جوانی (کا فائدہ اٹھا لو) ،اوراپنی بیماری سے پہلے اپنی صحت(کا فائدہ اٹھا لو)،اوراپنی غربت سے پہلے اپنی مالداری(کا فائدہ اٹھا لو)،اوراپنی مشغولیت سے پہلے اپنی فراغت(کا فائدہ اٹھا لو) ،اوراپنی موت سے پہلے اپنی زندگی(کا فائدہ اٹھا لو)“۔

اور یہ بھی طے ہے کہ اس دنیا کے اعمال ہی پر ہماری کام یابی اور ناکامی مشروط ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:”و ان لیس للانسان الاّ ما سعیٰ۔و ان سعیہ سوف یریٰ۔ثم یجزٰہ الجزآءالاوفیٰ“(النجم:۹۳،۰۴،۱۴)

”اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔اور یہ کہ بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی ۔پھر اسے پوراپورا بدلہ دیا جائے گا“

    وہ وقت جوگزرگیاوہ ہمیں بہت کچھ سکھاکرگیا،اور وہ وقت جس کاہم نے صحیح استعمال کرلیاوہ توہمارے کام آگیااورہم اس وقت کواستعمال کرنے میں کامیاب ہوگئے،لیکن جووقت ہمارے ہاتھوں سے خالی چلاگیااورہم نے اس وقت میں کچھ حاصل نہیں کیاوہ ہمیں بہت کچھ سکھاکرچلاگیااورمستقبل کے لیے ایک سبق دے گیا،ابھی ہم جس وقت میں کھڑے ہیں یہ ہمارے لیے اپنے گزرے ہوئے لمحات کی روشنی میں مستقبل کالائحۂ عمل طے کرنے کاوقت ہے،ہمیں اپنے گزرے ہوئے اوقات کوسامنے رکھ کراپنی زندگی کامحاسبہ کرنا چاہیے، اور پھراس کی روشنی میں مستقبل کالائحۂ عمل طے کرناچاہیے،ہمیں ماضی کااحتساب کرتے ہوئے آئندہ کاپروگرام طے کرناہوگا،یہ محاسبہ ہمیں ہرپہلوسے کرناہوگا،ہمیں اپنے دنیاوی امورکے بارے میں بھی محاسبہ کرناچاہیے کہ اگرہم تاجرہیں توہم نے ان سالوں میں کیاکھویاکیاپایا؟اگرہم نوکری پیشہ ہیں توہم نے اپنی نوکری میں کوئی ترقی کی یا نہیں؟ اگر ہمیں ان میں ناکامی کامنہ دیکھناپڑاتواس کے کیااسباب ہیں؟ان اسباب پرغوروفکر کرنے کے بعدہم اپناپروگرام تیارکریں کہ آئندہ ان پہلوؤں سے بچ کررہنا ہوگاجس کی وجہ سے ہم ناکام ہوئے۔انسان کا کسی چیز میں ناکام ہونا برانہیں ہے،بر ی بات یہ ہے کہ انسان بے حسی میں مبتلا ہوجائے۔ وہ ناکام ہو اور اپنی ناکامی کے اسباب پر غور نہ کرے اس کے قدم پیچھے ہٹیں ، اور فکر مندی کی کوئی چنگاری اس کے دل ودماغ میں سلگنے نہ پائے ، وہ ٹھوکر کھائے ، لیکن ٹھوکر اس کے لیے مہمیز نہ بنے ۔جو شخص اپنے نقصان کا جائزہ لیتا ہے ، اپنی کتاب زندگی پر نظرڈالتے ہوئے ، اپنی کمیوں اورکوتاہیوں کو محسوس کرتا ہے ، وہی گرکر اٹھتا اور اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے ۔ جس میں اپنے احتساب اور اپنی کمزوریوں کے اعتراف کی صلاحیت ہی نہ ہو وہ کبھی اپنی منزل کو نہیں پاسکتا ۔

           جس طرح دنیاوی امورمیں محاسبہ ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ انسان اپنے دینی امورکے بارے میں محاسبہ کرے، انسان یہ غورکرے کہ اس کے دین واخلاق،اعمال وکردارمیں کہیں کوئی کمی تونہیں آئی ہے،عبادات میں کوئی کوتاہی تونہیں رہ گئی،اپنے معاملات پرغورکرے کہ حلال وحرام اور مستحبات ومکروہات کے جواحکام شریعت نے دییے ہیں ،ان سب میں کہیں کوئی غفلت یالاپرواہی تونہیں برت رہاہے کہ اپنے کھانے اورکمانے میں حلال وحرام کی تمیزنہ کر پارہو،اپنے والدین اورقریبی رشتہ داروں کے حقوق میں کوئی کمی تونہیں کررہاہے،اپنی اولاداوربیوی کے جوفرائض وحقوق ہیں وہ سب برابرسے اداکررہاہے یانہیں؟اگرکہیں کوئی کمی یاکوتاہی ملے تواس کے اسباب پرغوروفکرکرتے ہوئے اس کمی کودورکرنے کی کوشش کرے،غرضیکہ انسان کوہرلحظہ اپنامحاسبہ کرناچاہیے-

       حاصل کلام یہ ہے کہ سال کی تبدیلی،کلینڈر کی شروعات دراصل خوشی ومسرت نہیں بلکہ خوداحتسابی و جائزہ کی دعوت دیتے ہیں،بچا کتنا ہے؟ اور کھویا کیاکیا ہے؟ اس پر نظر دوڑانے کی طرف متوجہ کرتے ہیں،جس طرح ایک دکان دار شام کو جب دکان بندکرتا ہے تو اپنی آمدنی اور دن بھر کی وصولی وغیرہ پر نظر ڈال کر حساب کرتا ہے،مسافرِ دنیا کو بھی سال کے اختتام پر اپنے گزرے ہوئے لیل ونہار پر نظر ڈال کر کمیوں کو دور کرنے اور کوتاہیوں کی تلافی کرنے کی فکر کرنی چاہیے-آج ہم ہیں کل ہماری جگہ کوئی اور ہوگا،اللہ وحدہ لاشریک کو جب تک مقصود ہے کائنات کا نظام چلےگا،انسان بدلتے رہیں گے،کوئی پیدائش کی خوشیاں لے کر آئےگا،کوئی جدائی کاغم دےکر جائےگا،اس میں کامیاب وبامراد وہ ہے جس نے اپنی دین ودنیا کو سنوارنے، بہتر بنانے اور مقصود کو حاصل کرنے میں اپنی زندگی لگائی، وہ دنیا میں نیک نام رہا اور دین میں قابل قدر سمجھا جاتا رہا ہے،اس کارشتہ خالق سے اچھاتھا اور مخلوق سے بہتر، وہ غافلوں،مدہوشوں کی طرح نہیں بلکہ فکرمندوں اور ہوشیاروں کی طرح زندگی گزارتا رہا،اس نے اپنے مقصد تخلیق کو فراموش نہیں کیا-نئے سال کی آمد عبرت ہے،موعظت ہے اور دعوت فکر وعمل ہے-مرزاغالب نے کیا خوب کہا ہے:

رومیں ہے رخش عمر،کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے،نہ پا ہے رکاب میں

جسٹس شری کرشنا کا بیان قابل غور و فکر.. ازقلم : محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی


کسی بھی جمہوری ملک کی جمہوریت کی بقا عدالتی فیصلے پر منحصر ہے ، داخلی اور خارجی امور میں صحافت کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے اگر یہ دونوں تعصب ، تنگ نظری یا مذہب پسندی کے شکار ہوۓ تو ملک کی بنیادیں انتہائی کمزور ہو سکتی ہیں ۔ دانشمند طبقہ کی طرف سے مسلسل اس کی پیشن گوئی کی جارہی ہے کہ موجودہ سرکار کہیں نہ کہیں تمام اہم سرکاری شعبوں میں ایک خاص قسم کا نظریہ رکھنے والے لوگوں کا تقرری کررہی ہے جس سے ملک میں ایک خاص نظریہ کا فروغ ہوگا اس طرح ملک میں چہار جانب بد امنی پھیلنے کا بھی خدشہ ممکن ہے ۔ جسٹس سری کرشنا نے جمعہ کو ممبئی پریس کلب میں ایک تقریب کے دوران صحافیوں اور ججوں کو متنبہ کرتے ہوۓ کہا کہ ” موجودہ حالات ایمرجنسی کی یاد دلارہی ہیں ، جج اور صحافی اپنا فرض نہیں نبھائیں گے تو جمہوریت تباہ ہوجاۓ گی ۔ میڈیا خود کو سمجھیں کہ ان کی ذمہ داری کیا ہے یہ سو فیصد درست ہے کہ عدلیہ ، مقننہ اور عاملہ میں ملی بھگت ہوجاۓ تو انہیں راہ راست پر لانا صحافیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ ” آج ملک میں جس طرح صحافت زوال پزیری کا شکار ہے اس سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ صحافی خود صحافت کی حساسیت سے ناواقف ہے یا ارادتاً عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کے لئے حکومت کے زیر اثر کام کرنے پر مجبور ہے یا تفتیشی ایجنسی کے خوف میں مبتلا ہے اور یہ وہ خوف ہے جو ملک کو غلامی کی طرف دوبار لے جاسکتا ہے اس لئے ہم اہل وطن کو ” جسٹس سری کرشنا ” کی باتوں کو سمجھنا ہوگا ورنہ مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کا قافلہ آپ کے گھر پر بھی پہنچ سکتا ہے اس کی صورت خواہ کوئی بھی ہو ۔ یقین نہ ہو تو آسام ، اترپردیش اور بہار میں غریبوں کے گھروں کا دورہ کرکے دیکھیں کہ وہاں کی حکومت عدالتی فیصلے کے بنا ہی بے خوف و خطر اپنے مخالفین کے گھروں پر بلڈوژر چلادی ہے جبکہ وہاں کی عدلیہ منہ دیکھتے رہ گئی کہ وہ انہیں کا کارندہ جو ہے ۔ ایک رویش کمار کہاں کہاں حکومت کی خامیوں پر نقد و تبصرہ کرتا پھرے ہاں ہزاروں رویش کمار ہوں تو بھی کم ہے ۔ جسٹس سری کرشنا اپنے بیان میں موجودہ حالات کے پیش نظر بہت ہی اہم بیان دیتے نظر آۓ کہ ” ایسے حالات میں ایمانداری ہی سب سے اچھی پالیسی ہوسکتی ہے اور صحافتی ضمیر کا زندہ رہنا ضروری ہے ۔ “
( روز نامہ ، انقلاب ممبئی ، ص : 1 ، 19/ دسمبر 2022 ء )
صحافتی آزادی کسی بھی ملک کی ترقی کا اہم ستون ہے ۔ معروف وکیل اور سابق مرکزی وزیر قانون کپل سبل نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوۓ کہا کہ ” گرچہ کالجیم نظام خامیوں سے پاک نہیں ہے لیکن اس سے بہتر ہے کہ ججوں کی تقرری پر حکومت کا کنٹرول ہو ، انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے عدلیہ پر قبضہ کرنے کی کوششوں کی مزاحمت کی جانی چاہئیے کیونکہ عدلیہ جمہوریت کا آخری قلعہ ہے اور اگر یہ گرتا ہے تو پھر کوئی امید باقی نہیں رہے گی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت کا تمام سرکاری اداروں پر کنٹرول ہے اور اگر عدلیہ پر بھی اس کا قبضہ ہوجاتا ہے تو وہ اپنے ججوں کی تقرری کرے گی اور یہ جمہوریت کے لئے خطرناک ہوگا ۔
( روز نامہ ، انقلاب ممبئی ، ص : 1 ، 19/ دسمبر 2022 ء )
ترسیل: محمد شاھدرضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی
19/ دسمبر 2022ء
24/ جمادی الاول 1444 ھ

علماء کرام و ائمہ مساجد کی زبوں حالی کا زمہ دار کون؟تحریر، جمال اختر صدف گونڈوی

ایک وقت وہ بھی تھا جب اس ملک کا پہلا وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد صاحب کو بنایا گیا تھا ، انقلاب زندہ باد کے نعرے کے ساتھ آزادی ہند کی مشعال ملک کے ہیرو مولانا حسرت موہانی نے سنبھالی تھی، انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیکر علامہ فضل حق خیرآبادی کالا پانی کی سزا کاٹ رہے تھے ، لیکن انکے فتویٰ کا اثر اتنا تھا کہ انگریزوں کی نیند حرام ہو گئ تھی، اٹھارہ ہزار حق گو علماء کو درختوں پر لٹکا دیا گیا تھا،
رہتی دنیا تک یہ سارا کچھ تاریخ کے پنوں میں محفوظ رہیگا،
مگر افسوس کہ موجودہ دور میں علمائے کرام کی علمی بساط و حیثیت دونوں کی قدر نہیں ہے،
اسکے پیچھے کوئ باطل قوت کار فرما نہیں بلکہ بعض علمائے کرام خود ہیں،
انکی صاف دلی اور حد سے زیادہ نرمی نے نا اہلوں کو انکی(علماء) جگہ حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوئ، مسجدوں میں صدر ،سکریٹری ،خزانچی، سب کے سب غاصب و فاسق ہی ہیں اور وہ لوگ اماموں کے سروں پہ غزاب بنے بیٹھے ہیں، ایسے ہی درگاہوں پر بھی غنڈوں کا قبضہ نظر آتا ہے جہاں چادر گاگر کے نام پر زائرین سے زبردستی پیسے وصول کئے جاتے ہیں، وہاں کسی میں ہمت نہیں کہ انکے خلاف آواز بلند کر سکے،
مسلمان یا تو مسجد یا پھر درگاہ ان دونوں جہگوں پر سب سے زیادہ جاتا ہے،
دین کا کام ان دونوں جہگوں سے بہت اچھا ہو سکتا تھا ، جہاں آمدنی بھی ہے اور وسائل بھی،
لیکن کروڑوں روپے درگاہوں پر ہر سال اکٹھے ہوتے ہیں اور ان پیسوں سے سے کچھ خاندان پلتے ہیں ، انکے بچے لگژری گاڑیوں عالیشان بنگلوں اور ملک بیرونی ممالک میں سیر سپاٹا کرتے نظر آتے ہیں،
بڑے شہروں میں بھی مسجد کی آمدنی کم نہیں ہوتی ،
وہاں بھی ٹرسٹی اپنی غنڈہ گردیوں سے اللہ کے گھر کا نظام خراب کئے ہوئے ہیں،
مسجد میں نہ تو لائبریری نظر آئیگی نہ ہی مہمان خانہ بلکہ اگر بھولا بھٹکا مسافر مسجد میں چلا جاتا ہے تو اسکو ایسے بھاگاتے ہیں جیسے کچھوچھہ سے بھوت بھگایا جاتا ہے،
اب مدرسوں کی طرف رخ کرتے ہیں، چند مدارس کو چھوڑ کر بقیہ مدسے تجارت ہی کے لئے کھولے گئے ہیں ، نہ تو طلبہ کی تعلیم کا صحیح انتظام ہے اور نہ ہی دعوت و تبلیغ کے شعبے ،
کسی طرح دستار بندی کرکے فارغین کو ٹائٹل دے دیا جاتا ہے کہ تم آج سے مولانا ،مفتی،حافظ قاری ہو گئے،
یہی لوگ جب مدرسے سے باہر نکلتے ہیں تب انہیں احساس ہوتا ہے کہ دنیا کتنی آگے جا چکی ہے، انکے لئے روزگار کا بڑا مسلہ در پیش ہوتا ہے،
مسجدیں پہلے سے پر ہیں مدرسوں میں جگہ نہیں اب کہاں جائیں کیا کریں،
نہ کوئ ہنر ہے اور نہ ہی کوئ ایسی ڈگری جس سے انہیں انکی حیثیت کے مطابق کام مل سکے،
ذریعہ معاش کے لئے چند مہینوں بھٹکنے کے بعد کوئ سعودی دبئ تو کوئ دیگر شہروں میں وہ کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جسکی اسے توقع نہیں تھی،
انہیں میں کچھ شاعر بن جاتے ہیں تو کچھ خطیب اور کچھ خانقاہوں کے جاروب کش،
ملک میں اب بھی اکثر مساجد خانقاہوں کے کنٹرول میں ہیں ، لیکن وہاں بھی اماموں کو قابل گزارا اجرت نہیں ملتی، خانقاہی مدرسوں کے اساتذہ کا بھی یہی حال ہے ،
جبکہ وہاں کی آمدنی دیگر مدارس سے گئ گنا زیادہ ہوتی ہے ،
لیکن افسوس کہ علمائے کرام کے بارے میں سوچنے والا کوئ نہیں، جبکہ مستری اپنی اجرت مانگنے میں نہیں ڈرتا، گاڑی والا کرایے میں کوئ کمی نہیں کرتا، ڈاکٹر دوا سے پہلے اپنی فیس لے لیتا ہے،
بے چارے ان علماء کو حق بھی نہیں کہ یہ قابل گزارا اجرت کی بات کر سکیں،
فوراً انہیں نکال کر اس سے کم تنخواہ میں امام رکھ لیا جاتا ہے،
اب ذرا ان سادہ دل بندوں کا بھی حال لے لیا جاے جنہیں علمائے کرام کہتے ہیں،
انہیں حضرات میں سے کچھ لوگوں نے مذہبی رہنماؤں کے بارے میں قوم کو عقیدہ دیا کہ انکے بغیر جنت نہیں مل سکتی، انکے چہرے کو دیکھ لینے سے ہزاروں سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، جسکا کوئ پیر نہیں اسکا پیر شیطان ہے، عرس سراپا قدس میں شرکت لازمی و باعث نجات ہے، جس نے اپنے شیخ کو خوش کر لیا گویا اس نے خدا کو خوش کر لیا، اس قسم کی غیر شرعی باتوں سے عوام کا ذہن بنایا گیا،
اب عوام نے سوچا کہ جب سب کچھ میاں ہی کرینگے تو علما کا کیا کام ؟
ان سے وہی کام لو جس میں یہ ماہر ہیں ، لہاذا انکو معمولی اجرت پہ مکتب میں ،مدرسوں میں، مسجدوں میں بطور ملازم رکھ لیا ، ساری عزت ساری نوازشات سب میاں کے لئے مختص ہو گئیں،
سال سال بھر محنت اساتذہ کریں لیکن سالانہ اجلاس میں صرف پگڑی باندھنے کے لئے خطیر رقم خرچ کرکے میاں کو بلایا جاتا ہے اور اسٹیج پر پہنچتے ہی سارا سسٹم چینج کر دیتے ہیں،
خطیب قرآن و حدیث کے لبریز مدلل خطاب کر رہا ہوتا ہے اچانک میاں کی انٹری ہوتے ہی آن واحد میں سارا موضوع تبدیل ہو جاتا ہے ،
اب یہاں سے وہ کام شروع ہوتا ہے جہاں سے انکی بربادی شروع ہوئ تھی،
وہی پرانا گھسا پٹا موضوع، انکا چہرہ دیکھو، انکا ہاتھ چومو، جنت انکی جاگیر ہے، یہ فلاں کی اولاد ہیں انکا شجرہ ہی بخشش کے لئے کافی ہے وغیرہ وغیرہ،
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلدی سے جلسے کو سمیٹ دیا جاتا ہے اور دستار بندی کی رسم شروع کر دی جاتی ہے،
طلبہ جنکو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ یہ ہار پھول چمک دمک صرف ایک رات کے لئے ہیں ،مستقبل بہت ہی تاریک ہے، دستار بندی ختم ہو جاتی ہے لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں،
اب صاحبان دستار باہر نکل کر دین کا کام کریں یا گھر کا خرچ دیکھیں،
کیونکہ انکے پاس کوئ ذریعہ معاش تو ہوتا نہیں، اور نہ ہی وہ ڈگری سماج مانتا ہے، یہ دنیا کی پہلی ڈگری ہوگی جو صرف مسجد مدرسوں میں ہی کام آتی ہے باقی سماج میں اسکی کوئ قیمت نہیں اور نہ ہی اسکے لئے کوئ جگہ ہے،
علماء کی زبوں حالی کو دیکھکر آج پڑھا لکھا طبقہ اپنے بچوں کو مدرسوں میں نہیں پڑھاتا، اور نہ ہی وہ خود جلسہ جلوس میں جانا پسند کرتا ہے،
ایک ننگے پاؤں پیدل آدمی سوار کو کیا نصیحت کر سکتا ہے، اور اسکی نصیحت کتنا اثر انداز ہوگی یہ اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں،
اب تو اکثر دولت مندوں نے ہمارے مدرسوں کو چندہ دینا بھی بند کر دیا ہے ، انکے سوسائٹی میں خود کوئ نہ کوئ چیریٹی تنظیم ہوتی ہے وہ وہیں تعاون کر دیتے ہیں،
اب تو شہروں میں جگہ جگہ عوام نے زکوٰۃ فاؤنڈیشن بنا لیا ہے اللہ جانے وہ لوگ اس رقم کا کہاں اور کیسے استعمال کرتے ہونگے،
ہمیں اپنے مدرسوں میں عصری تقاضوں کے تحت نصاب میں ترمیم کرنی ہوگی، یونیورسٹیوں سے مدرسوں کا تعلق مظبوط ہونا چاہئے تاکہ گاہے بگاہے مدرسوں کے پروگرام میں وہاں کے اسکالرز بچوں کو گائیڈ کرتے رہیں اور بعد فراغت آسانی سے یونیورسٹیوں میں داخلہ بھی ہو جایا کرے،
اسکے لئے بھی مدرسوں کو اضافی رقم کا انتظام کرنا ہوگا،
خانقاہوں سے علمائے کرام کا وفد مطالبہ کرے کہ وہ اس طرز پر مدرسوں کو چلائیں ،
افسوس کہ تعلیم میں وہ قوم ہے پیچھے،
جس قوم کا آغاز ہی اقرا سے ہوا تھا،
ٹرسٹیان مساجد و عمائدین شہر کے ساتھ علمائے کرام میٹنگ کریں اور ائمہ مساجد کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے دباؤ بنائیں،
جلسوں میں لبرل و کمیونل خطیبوں پر پابندی لگائیں، پیشہ وارانہ گویوں کو بھی سختی سے روکا جاے،
سوشل میڈیا پر آپسی اختلاف کو شیئر کرکے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مسلہ حل ہو جائے گا؟
نہیں بلکہ اس سے مزید مسائل کھڑے ہوتے جا رہے ہیں،
یہ سوشل میڈیا کی جنگ ہی کا نتیجہ ہے کہ لوگ سلسلوں میں بٹکر کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں،
اس پر علما کو بولنا چاہئے بلکہ میدانوں میں آکر اس کے لئے کام کرنا چاہئیے،
نہ سمجھوگے تو مِٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانوں،
تمھاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں،
مدرسوں کی کثرت اور تعلیم کی قلت پر بھی اگر بر وقت کچھ نہ کیا گیا تو اس کے بھی بہت خراب نتائج بھگتنے ہونگے،
کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ ہائ رڈار پر مدرسوں کو رکھا گیا ہے،
بنام مدرسہ ہماری گنتی دیکھی جا رہی ہے نہ کہ بنام تعلیم،
اسلئے غیر ضروری مدرسوں پر بھی روک لگانا ضروری ہے،

معاشرے کی اصلاح کیسے ہو؟از:محمد شمیم احمد نوری مصباحی خادم: دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف، باڑمیر (راجستھان)

حدیث شریف میں ہے کہ “لوگوں میں بہتر وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے” اور “دین ہر مسلمان بھائی کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کا نام ہے” لہٰذا ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی نفع رسانی و خیر خواہی کے لیے کمر بستہ اور تیار رہنا چاہییے، معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہییے- اس سلسلے میں ہمارے علمائے کرام، قائدین دین و ملت موثر رول اور کردار ادا کرسکتے ہیں-

ویسے اگر معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کا احساس کرکے خود اوامر پر عمل پیرا اور منہیات سے پرہیز کرنے کے ساتھ لوگوں کی اصلاح کی ذمہ داری باقاعدہ نبھائے تو معاشرہ ہر طرح کی برائیوں سے محفوظ و مامون ہو جائے گا اور اگر ہمارے اور آپ کے اندر احساس ذمہ داری نہیں ہے تو اس بارے میں ہم سے مواخذہ ہوگا جیسا کہ حدیث رسول کا مفہوم ہے اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: “تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا، امام نگراں ہے اور اس سے اس کی رعایا (ماتحت) کے بارے میں باز پرس (پوچھ تاچھ) ہوگی، آدمی اپنے گھر کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا (گھر والوں) کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی اور عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا،خادم اپنے آقا(مالک) کے مال کا نگراں ہے اس سے اس کی نگرانی کے بارے میں پوچھا جائےگا، پس تم میں سے ہر ایک نگراں اور ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا” (متفق علیہ)

اس حدیث پاک میں اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے امت کے ہر شخص کو اپنے اپنے فرائض کی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جو اپنی ذمہ داریوں کے تئیں غفلت و لاپرواہی کرے گا وہ قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں جوابدہ ہوگا… اور جو ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں حساس اور کوشاں ہوں گے انہیں دوسری حدیثوں میں اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے دخولِ جنت اور ابدی سعادت کی بشارت وخوشخبری بھی دی ہے-

مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ایک مکمل دستور حیات عطا کیا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارنے والا مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب و کامران اور دنیا و آخرت کی سعادتوں کا حقدار ہوتا ہے- اسلامی نظام زندگی کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے ہر گوشے اور انسانوں کے ہر طبقے کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں- کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے اور شادی بیاہ،تجارت و معیشت وغیرہ ہر طرح کے معاملات کے لیے دفعات و قوانین متعیّن ہیں- گویا انسانی ضرورتوں کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کے بارے میں اسلام نے کوئی رہنمائی نہ کی ہو، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اسلام سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ آمادہ ہو اور اپنا تعلق اپنے حقیقی خالق و مالک سے جوڑے اور اپنی ہر خواہش رب تبارک و تعالیٰ کے حکم کے سامنے قربان کر دے-

ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسلامی دستور حیات کا عملی نمونہ ہمارے لئے حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی حیات طیبہ اور آپ کا اسوۂ حسنہ ہے، صحابۂ کرام،تابعین عظام اور سلف وخلف نے سرکار دوعالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی سیرت طیبہ کو اپنے لیے آئیڈیل بنایا تو وہ زندگی کے ہر موڑ پر کامیاب و کامران رہے…آج اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمارا معاشرہ اسلامی طرز زندگی سے کوسوں دور نظر آتا ہے، اسلامی احکام و قوانین کا کوئی پاس ولحاظ نہیں، اور نہ ہی اپنے آقا و مولیٰ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی سیرت طیبہ کو زندگی کا نمونہ بنانے میں کوئی دلچسپی ہے، گویا شرمِ نبی اور خوفِ خدا دونوں ہم سے رخصت ہو چکا ہے… آج ہمارے معاشرے کی یہ بدلی ہوئی حالت کیوں ہے؟ ہمارے گھر کا ماحول غیر اسلامی کیوں ہے؟ ہمارے خاندان کا شیرازہ کیوں بکھر رہا ہے؟اور ہمارا معاشرہ اصلاح کی شاہراہ پر کیوں نہیں چل رہا ہے؟ اس کی وجہ صرف اور صرف دین اسلام سے دوری اور اصلاح معاشرہ کے پیغمبرانہ اصولوں سے انحراف اور بیزاری ہے-اصلاح معاشرہ کے لئے ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں اور ان کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کریں-

اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے دو بنیادی اصولوں پر عمل فرمایا ایک تو یہ کہ آپ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس پر آپ خود عمل نہ فرماتے ہوں، آپ کے قول اور فعل میں تضاد نہ تھا، جو فرماتے تھے خود اس پر عمل فرماتے تھے، اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اصلاح معاشرہ کی کوئی بھی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اصلاح کرنے والا خود اس پر عمل نہ کرتا ہو، یہی وجہ ہے کہ حضورنبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے پہلے اور بعد بہت سے فلاسفہ اور حکما ومصلحین ایسے بھی گزرے جو وعظ و نصیحت کرتے رہے اور انہوں نے فلسفہ اور عقل و دانائی کی بنیاد پر اپنا لوہا منوایا، لیکن معاشرے پر ان کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا، ایسا صرف اس لئے ہوا کہ وہ دوسروں کو تو روشنی دیکھاتے رہے لیکن خود تاریکی سے باہر نہیں آئے، وہ لوگوں کو رحم و محبت کا سبق پڑھاتے رہے لیکن خود غریبوں کو ستاتے رہے-
اصلاح معاشرہ میں آپ کا دوسرا بنیادی اصول جھوٹ سے پرہیز کرتے ہوئے سچائی اور حق کے راستہ پر چلنا تھا، آپ ہمیشہ اپنے ماننے والوں کو جھوٹ سے بچنے کی تلقین فرماتے رہے اور خود بھی اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اپنے صحابہ کو بھی اس رزیل ترین فعل سے پرہیز کرنے کی تاکید فرماتے رہے- حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا یہ وصف اس قدر نمایاں تھا کہ کفار و مشرکین بھی آپ کو صادق اور امین مانتے تھے… جھوٹ معاشرے کے بگاڑ کی ایک اہم ترین برائی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں لعنت کے مستحقین میں جھوٹے کو بھی شامل کیا گیا ہے-
اب اصلاح معاشرہ کے تعلق سے ہم کچھ ایسے اہم امور اور اصول کو درج کریں گے کہ اگر ان پر عمل کر لیا گیا تو یقیناً ہمارے معاشرے کی سُدھار ہو جائے گی-

خود اپنی اصلاح کی فکر کرنا:-

اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر شخص پر خود اپنی اصلاح و سدھار کی ذمہ داری ہے، اگر معاشرے کا ہر شخص اس ذمہ داری کو محسوس کر لے اور اس کی ادائیگی کی فکر کرے تو معاشرے کی اصلاح اپنے آپ ہو جائے گی، کسی دوسرے کو تکلیف اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئے گی، اصل خرابی یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کے احساس سے بالکل خالی ہوچکے ہیں اور محض دوسروں کی اصلاح کی فکر میں رہتے ہیں، دوسروں کی اصلاح بھی یقیناً ایک اچھی بات ہے مگر اس سے پہلے خود کی اصلاح ضروری ہے، اس لیے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے انسان سے خود کی ذات کے متعلق سوال ہوگا، کسی دوسرے کے متعلق سوال کا مرحلہ بعد میں آئے گا،… حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کہ قیامت کے دن آدمی کے پاؤں اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ ہٹ سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے گا-

(1) اس کی عمر کے بارے میں کہ زندگی کے ماہ وسال اور اوقات کہاں گزارے؟…

(2) جوانی کے بارے میں کہ جوانی کس چیز میں کھوئی؟…

(3) مال کے سلسلے میں کہ مال کہاں سے کمایا؟…

(4) اور یہ کہ وہ مال کہاں خرچ کیا؟…

(5) اور یہ کہ جو باتیں وہ جانتا تھا ان پر کتنا عمل کیا؟… [ترمذی ج/2 ص/67]

جو لوگ دنیا میں اپنی اس انفرادی ذمہ داری سے سبکدوش ہوں گے ان کے لیے جنت کا وعدہ بھی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ سرکار دوعالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے صحابۂ کرام سےارشاد فرمایا: کہ اگر تم مجھ سے چھ باتوں کا وعدہ کر لو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں…

(1) جب بات کرو تو سچ بولو…

(2) جو وعدہ کرو اسے پورا کرو…

(3) اگر تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کرو…

(4) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو…(5) اپنی نگاہ نیچی رکھو…

(6) اپنے ہاتھوں کو ظلم سے روکو…

اسی طرح ایک روایت میں یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص مجھ سے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے میں اس کے لئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں-

اپنے متعلقین اور اہل و عیال کے اصلاح کی کوشش کرنا:-

اپنی اصلاح کے بعد اب معاملہ اپنے متعلقین اور اہل و عیال کے اصلاح کا آتا ہے- عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مصلحین قوم و ملت اپنے گھر والوں اور اپنے متعلقین کی فکر تو کرتے نہیں اور پوری دنیا کی بد عملی پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں حالانکہ قرآن مقدس میں واضح انداز میں فرمایا گیا ہے [یاایھاالذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا] ترجمہ: ائے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ- (سورۂ تحریم:6) اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی اصلاح کے بعد سب سے پہلے خود اپنے گھر والوں کے اصلاح کی ذمہ داری ہے، جو لوگ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں اور انہیں حسن اخلاق اور اعلیٰ عادات و اطوار سے آراستہ کرتے ہیں احادیث میں ان کی بڑی فضیلتیں آئی ہوئی ہیں-

اپنے ارد گرد،پاس پڑوس کے اصلاح کی فکر کرنا:-

اپنی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح کے بعد اب دوسروں کی اصلاح کا نمبر آتا ہے، سب سے پہلے اپنے پاس پڑوس کو دیکھیں کہ لوگ دین پر چل رہے ہیں یا نہیں؟ ان کے اخلاق و عادات کیسے ہیں؟ ان کے اعمال کس طرح کے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہوں- اس صورت میں ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ان کی صحیح رہنمائی کریں، دین کے اصولوں پر کاربند ہونے کے لیے ہم ان کی مدد کریں، اگر وہ تعلیم سے بے بہرہ اور کورے ہیں تو ہم انہیں تعلیم کی اہمیت بتا کر علم حاصل کرنے کی جانب رغبت دلائیں- اخلاق سے عاری ہوں تو ان کو اچھے اخلاق سکھائیں، ان کے معاملات زندگی خراب ہوں تو انہیں بتائیں کہ معاملات کے سلسلے میں شریعت کے کیا احکام ہیں؟- اور یہ ساری باتیں لعن طعن اور بےجا سختی کے انداز میں نہ کریں بلکہ یہ سارے کام الفت و محبّت اور نرمی و پیار کے میٹھے انداز میں کریں- صحابئ رسول حضرت ابزیٰ خزاعی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ “ایک دن سرکار دو عالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا نہیں کرتے، نہ ان کو علم سیکھاتے ہیں، نہ ان کو نصیحت کرتے ہیں، نہ اچھے کاموں کے لئے کہتے ہیں، اور نہ ہی ان کو برائی سے روکتے ہیں- اور لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے کچھ نہیں سیکھتے، نہ دین کی سوجھ بوجھ حاصل کرتے ہیں اور نہ ان سے عقل کی بات سیکھتے ہیں، اللّٰہ کی قسم لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو علم سیکھائیں، عقل کی باتیں بتائیں، ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں، اور لوگوں کو بھی چاہییے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے علم حاصل کریں اور اپنے اندر دین کی سمجھ پیدا کریں، اگر تم لوگوں نے ایسا نہ کیا تو میں عنقریب ہی تمہیں اس دنیا ہی میں سزا دوں گا”…(کنزالعمّال ج/3 ص/684)

سبھی مسلمانوں کی اصلاح کی کوشش کرنا:-

اپنی ذات، اپنے گھر والوں اور پاس پڑوس کے لوگوں کی اصلاح کے بعد عام مسلمانوں کے اصلاح کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے- اگر آپ مسلمانوں کو منکرات (برائیوں) میں مبتلا دیکھیں تو آپ کا فرض بنتا ہے کہ انہیں ان برائیوں سے(حتّی المقدور) روکیں، پھراس روکنے کے بھی مختلف درجے ہیں جیسا کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص خلافِ شرع کوئی بات دیکھے تو اسے اپنے ہاتھوں سے بدل دے، اگر ہاتھ سے نہ کر سکے تو زبان سے ہی اس امر منکر کے خلاف آواز بلند کرے اور اسے روکنے کی کوشش کرے، اور اگر زبان سے کہنے کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے ہی اس بات کو ناپسندیدہ سمجھے، اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے، گویا اگر دل سے بھی برا نہ سمجھے تو مسلمان یا صاحبِ ایمان کہلانے کا صحیح معنوں میں مستحق ہی نہیں ہے-

اب آئییے حضور سرور کائنات صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی اصلاح معاشرہ کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ایک ایسا اصول ملاحظہ کریں کہ اس جانب اگر ہمارے مصلحین خصوصی دھیان دے کراصلاح کی کوشش کریں تو ان شاء اللّٰہ العزیز ہمارے معاشرے میں بہت حد تک بہتری آجائےگی-

ایمانِ محکم،عملِ صالح،خوفِ الٰہی اور فکر آخرت:-

ہمارے پیارے آقا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے کیسے اپنے معاشرے کی اصلاح فرمائی اور کن بنیادوں پر صحابۂ کرام کو کھڑا کیا کہ وہ زمانے کے مقتدا و پیشوا بن گئے- ایک ایسا معاشرہ جو جہالت اور گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، جہاں قتل و غارت گری کا رواج تھا، وہ لوگ راہِ راست سے اس حد تک بھٹکے ہوئے تھے کہ کوئی ان پر حکمرانی کرنے کے لیے تیار نہ تھا، ہمارے آقا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اس معاشرے کا نقشہ ہی بدل دیا- حضور نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اس معاشرے کو ایمان محکم، عمل صالح، خوف الٰہی اور فکر آخرت کی ایسی بنیادیں فراہم کیں جن کی وجہ سے پورا معاشرہ یکسر بدل گیا، وہ لوگ جو پہلے قاتل اور لٹیرے تھے وہ زمانے کے مقتدا اور پیشوا بن گئے ان کا معاشرہ جنت کا نمونہ بن گیا وہ قیصروکسریٰ جیسے عالمی طاقتوں سے ٹکرا کر فاتح رہے-
آج ہمارے حکمرانوں کا معاملہ ہو یا عوام کا،انفرادی زندگیاں ہوں یا اجتماعی نظم و نسق، یقین محکم کی قوت،کردار وعمل کی طاقت، خوفِ الٰہی کا زاد راہ اور آخرت کی فکر کی دولت سے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر محروم ہوگئے… جب ہمارے پاس ایمان و یقین کی بنیاد اور اخلاص پر مبنی جذبہ ہی نہیں، کردار و عمل کے اعتبار سے ہم کمزور ہوگیے، مرنے کے بعد کی زندگی کو بھول بیٹھے تو یہ وہ پہلی اینٹ ہے جو غلط رکھ دی گئی، اس اینٹ کو جب تک صحیح نہیں کیا جائے گا، اور ان چار بنیادوں پر اپنی اجتماعی و انفرادی زندگی کو لانے کی کوشش نہیں کی جائے گی، اس وقت تک اصلاح معاشرہ کا باضابطہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا- اس لیے ہمارے مصلحین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اصلاح معاشرہ کے وقت ان باتوں پر اپنی خصوصی توجہ رکھیں کہ سب سے پہلے ایمان کی مضبوطی پر دھیان دیں، اس کے ساتھ ہی ساتھ عمل صالح (نیک عمل) کی جانب لوگوں کو راغب کریں، اور لوگوں کے دل و دماغ میں خوف الٰہی و خشیّتِ ربّانی نیز فکرِ آخرت پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں- اس لیے کہ اگر کسی بھی مسلمان کے اندر یہ چیزیں پیدا ہوجائیں تو وہ از خود (اپنے آپ) اوامرِ شرعیہ کا عامل اور منہیات سے پرہیز کرنے کا خوگر ہو جائے گا-
دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے-آمین

جہیز کے بھکاریوں اور بارات کے جوکروں پر لگام لگانا ضروری ہے،از قلم جمال اختر صدف گونڈوی ،


ہندوستان میں سب سے زیادہ پھیلنے والی لعنت جہیز ہے جو کہ غریب باپ کے لئے سب سے زیادہ مشکلیں کھڑی کر رہی ہے،
شمالی ہند میں یہ چلن کچھ زیادہ ہی بڑھ چکی ہے، چھوٹی سی چھوٹی شادیوں میں بھی موٹر سائیکل،فرج،واشنگ مشین،کولر،ڈبل بیڈ،سلائ مشین،سونے کی انگھوٹھی، کچھ نقد روپے، یہ امر لازم کی طرح مسلم کمیونٹی میں رائج ہے، اس پر ستم یہ کہ لڑکے والے اپنے تمام رشتے داروں کو باراتی بناکر چار پانچ سو افراد پر مشتمل لڑکی والوں کے سروں پہ عذاب کی طرح مسلط ہو جاتے ہیں،
اور وہاں پہنچ کر مغلیہ سلطنت کے وارثین کی طرح فرمائشیں کرتے ہیں، مرغے کی صحت مند ٹانگیں کہاں ہیں؟ مجھلی فرائ تو نظر نہیں آ رہی ہے، نل کا پانی کون پئے گا گلا خراب ہو جاے گا منرل واٹر کا بوٹل لائیے ، کولڈرنکس نظر نہیں آ رہی ہے کدھر ہے، بکرے کا سالن فرائ و بھنا ایک ساتھ لائیے ، کباب والا نظر نہیں آ رہا ہے، سلاد میں چکندر کم کیوں ہے؟
یا اللہ ان مفت خوروں پہ عذاب کیوں نہیں بھیج دیتا جو غریب بیٹی کے دروازے پر اپنے سارے شوق پورے کر رہے ہیں،
اب ذرا اس غریب بیچارے باپ کے بارے میں بھی غور کر لیں جو سالوں محنت کرکے ایک ایک پیسہ جمع کیا اور کسی طرح اپنی بیٹی کی شادی کا انتظام کیا اس کے دل سے پوچھئے کیا اس نے کبھی سوچا ہوگا کہ یہ سماج بیٹی کرنے کی اتنی بڑی سزا دیگا،غریب باپ رات رات صرف اس لئے نہیں سو پاتا کہ اسکی بیٹی جوان ہو چکی ہے، لوگ طعنے دے رہے ہیں، کتنی جلدی اسکی رخصتی کر دی جاے ، لڑکی کو دیکھنے کے لئے لڑکے والے آٹھ دس لوگ جاتے ہیں اس میں اسکی بہن،بھابھی، اسکی بوا، اور چند رشتوں کے اسپیشلسٹ ہوتے ہیں جو صرف وہاں کھانے اور لڑکی میں عیب تلاشے جاتے ہیں،
کھانا لگا دیا جاتا ہے ٹھونس ٹھونس کر کھاتے ہیں اسکے بعد ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیاں کرتے ہیں لڑکی ایسی ہے لڑکی ویسی ہے رنگ گاڑھا ہے، پاؤں تیڑھے ہیں، ناک لمبی ہے، انگلی پتلی ہے، آنکھ کتھئ نہیں ہے، صحت ٹھیک نہیں ہے،
ہزار عیب نکال کر آپس میں فیصلہ کرتے ہیں کہ انکو گھر جاکر جواب دیا جائے ، لڑکی کے باپ سے یہ کہتے ہوے وہاں سے نکل جاتے ہیں کہ گھر پر مشورہ کرکے فون کروں گا،
جب کہ سارا خاندان ساتھ میں لیکر آتے ہیں گھر میں کوئ بچا بھی نہیں ہوتا ہے،
اسکے بعد پھر کہیں جاکر دس بیس جگہوں پر ایسے ہی ٹھونس ٹھونس کر کھائنگے تب جاکر کہیں ایک جگہ رشتہ سمجھ میں آئے گا،
پھر یہاں سے پورے خاندان کی اصلیت سامنے آنا شروع ہو جاے گی،
لڑکے کو سونے کی انگوٹھی،بلٹ موٹر سائیکل،سونے کا چین، بوا کو ایک جوڑی کپڑا، لڑے کے بھائیوں کے لئے کوٹ پینٹ، لڑکے کے ماں اور باپ کے لئے انکی پسند کا کپڑا، دو تین شہ بالا کے لئے بھی کپڑے، لڑکی کی پھوپھی،بہن،پھوپھا،خالو، سب کے عمدہ جامہ اسکے کے علاؤہ ہمارے پانچ سو باراتیوں کے لئے عمدہ لذیز کھانے انکے چاے ناشتہ کا انتظام ہونا چاہیے،
منگنی میں ہمارے 100 رشتے دار آئینگے انکے لئے بہترین بند و بست ہونا چاہئے کیونکہ رشتے داروں میں ہماری ناک کٹ گئ تو ہم منھ دکھانے کے قابل نہیں رہینگے،
زمانے کے اعتبار سے ٹی،وی،فرج،کولر،واشنگ مشین،سلائ مشین، دو درجن بڑے اور دو درجن چھوٹے برتن، تو دینا ہی پڑے گا،
الہی کیوں نہیں آتی قیامت ماجرہ کیا ہے،
ذرا سوچیں وہ قوم جس کے لئے بیٹاں رحمت ہیں کس قدر ان بیٹوں کی شادی میں سودے بازیاں ہو رہی ہیں، اس پر ملی تنظیموں،خانقاہوں، کی خاموشیاں کہیں نہ کہیں بھیانک مستقبل کا اندیشہ پیدا کر رہی ہیں،
اگر تمام خانقاہیں اس بات کر متحد ہو جائیں کہ ہمارا کوئ بھی مرید جہیز نہیں لیگا تو انشاء اللہ اسکے بہت بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں،
ایسے ہی تمام مرکز اپنے اپنے کارکنان کو سخت تنبیہ کر دیں کہ کوئ بھی جہیز والی شادی میں شرکت نہیں کرے گا اور نہ ہی نکاح پڑھانے جاے گا ، یقین کیجئے بہت حد تک اس لعنت سے غریبوں کو چھٹکارا مل جاے گا،
ناموس رسالت کے نام پر مرنے مٹنے کا کھوکھلا دعوی کرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر کب عمل کرینگے کہ جسکی بیٹی ہو وہ اسے اچھی پرورش کرکے رخصت کر دے اسکے لئے جنت ہے،
غریب چاہے جتنی اچھی پرورش کر دے لیکن اس بیٹی کی رخصتی آخر انہیں بھیڑیوں کے یہاں ہونی ہے جو اس غریب بیٹی کے باپ کا گوشت نوچ نوچ کر کھانے کے لئے اپنے بیٹوں کو پیدا کئے ہیں،
ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی،
درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے،
افسوس تو تب ہوتا ہے جہاں یہ سارے خرافات ہوتے ہیں انہیں میں کوئ نہ کوئ شیخ، پیر، قاید اعظم کی بھی شرکت ہوتی ہے،
اور وہ تماشبین بنے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں،
خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ سلطانی بھی عیاری ہے اور درویشی بھی عیاری ہے،

اصلاح جلسہ.. ✒️ تلمیذ محدث کبیر خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال خادم ۔۔ تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال 7030786828


تقریر و تحریر سے کوئی نتیجہ یا کامیابی حاصل نہیں ہو سکتا
تقریر و تحریر سے عوام الناس کی اصلاح نا ممکن ہے برسوں سے تقریر و تحریر سے اصلاح کی کوشش کی جا رہی ہیں لیکن کوئی اثر نہیں عوام اہلسنت کی اصلاح کیلئے زمینی سطح پر کام کرنا چاہیے
فی زمانہ عوام اہلسنت تقریر سننا پسند نہیں کرتے اور رہی بات تحریر کی تو تحریر علماء کرام کے مابین ہی رہتی ہے اور عوام الناس اُردو تحریر پڑھنے سے معذور ہیں لہذا کوئی ایسا طریقہ کار عمل میں لایا جائے جس سے عوام الناس کی اصلاح ہو اور بدعات و منکرات خرافات سے بچ سکے اگر سیمانچل اتر دیناجپور بنگال کا جائزہ لیا جائے تو دیگر صوبوں سے کہی زیادہ اہل علم علماء فضلاء حفاظ و فقہاء معلمین مدرسین محققین مفتیان دین اور مفسرین و محدثین ہیں لیکن اس کے باوجود بدعات و خرافات غیر شرعی رسومات میں عوام الناس پھنسے ہوئے ہیں علم و عمل سے کوسوں میل پیچھے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ پیغام سیرت کو عام کیا جائے اور زمینی سطح پر کام کیا جائے صرف اسٹیج پر رات رات چلانے سے کوئی فائدہ نہیں سوائے افسوس کہ فجر کی نماز میں سب غائب یہاں تک کہ بعض جگہوں پر دیکھا گیا کہ فجر کی اذان تک نہیں ہوتی دیر رات تک جلسے کی وجہ سے !
اس کے علمائے سیمانچل کو ایسا قدم اٹھانا ہوگا جس سے عوام الناس کی اصلاح ہو سکیں اہل سنت و الجماعت کے جلسوں میں انھیں مقررین و خطبا کو مدعوں کیا جائے جو صاحب علم ہونے کے ساتھ صاحب عمل بھی ہوں. اور مقامی مسلمانوں کی دینی ضرورت و حاجت کے مطابق تقریریں کریں اپنی تقریر و خطابت کے دوران نہ کوئی غیر مستند بات کہیں نہ کوئی غیر سنجیدہ اور نمائش طریقہ اختیار کریں….نماز عشاء کے بعد جلسے شروع کر دیۓ جائیں اور صلوۃ و سلام و دعا کے ساتھ بارہ بجے سے پہلے یہ جلسے ختم کر دئے جائیں…تقریر و خطابت کے لئے معتقدات و عبادات و معاملات میں سے کسی اہم گوشے کا اختیار کیا جائے.. فضائل و مسائل کے ساتھ مسلمانوں کے معاشرتی امور و معاملات کی طرف خصوصی توجہ دی جائے..مسلمانوں کو تعلیم و تجارت کی طرف مائل کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے اور اس کا بہر حال انتظام کیا جائے کہ مقامی مسلمانوں سے تبادلۂ خیال کے بعد جن باتوں میں ان کی دینی رہنمائی کی ضرورت ہو ان کو ہی موضوع تقریر و خطابت بنایا جائے .. “دیر رات تک جلسے کے نتیجے” نماز فجر کی ادائگی خطرے میں پڑ جاتی ہے بلکہ یہ مشاہدہ کیا بارہا میں نے کہ جلسے کے اختتام پر سب کے سب غائب یہاں تک کہ خطیب صاحب بھی اسٹیج سے غائب اور پورے گاؤں والے سو گئے . اسکول کالج کے اساتذہ و طلبہ اور مختلف شعبوں اور دفاتر وغیرہ سے وابستہ افراد شریک جلسہ نہیں ہو پاتے رات بھر جاگنے کے نتیجے میں دوسرے روز یا تو سوئیں اور اپنا کام نہ کریں یا دن بھر اونگھتے ہوئے کوئ کام کریں جو غیر ذمہ داری کے ساتھ کام کے اندر ہونے والے نقص و خرابی اور غلطی کا پیش خیمہ ہے اس طرح کی مزید خرابیاں اور نقصانات ہیں اہل جلسہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کیا اس طرح کے جلسے اور تقریریں اصلاح طلب نہیں ؟

پی،ایف، آئی پر حکومتی پابندی:ایک مختصر تجزیہ!. از:(مولانا)جمال اختر صدف گونڈوی

پچھلے دنوں(28ستمبر) پاپلر فرنٹ آف انڈیا کو اس لیے بین کر دیا گیا کہ وہ ملک دشمن سیاسی جماعت ہے،
28 ستمبر کو پانچ سال کے لئے یو اے پی ا ے جیسی سخت ترین دفع کے تحت بین کرنے کے بعد سرکاری مشینری الزام کے شواھد جمع کرنے میں مشغول ہو گئی-
سوال اس بات کا نہیں کہ پی،ایف،آئی کیوں بین کی گئ،
سوال اس بات کا ہے کہ پی ایف آئی ہی کیوں بین کی گئ؟
کیا اس طرز پرچلنے والی درجنوں جعفرانی تنظیموں پر کسی نے کاروائی کی؟
جس نے ملک کی سالمیت کے لئے بار بار خطرات پیدا کئے، جس نے مشتعل نعروں سے لوگوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی،بستیاں جلا دی گئیں ،گھر اجاڑ دییے گیے،
دہشت گردی کی تعریف یہ ہے کہ کوئی بھی انسان کسی بھی انسان کو ڈرا دھمکا کر اسکا مال لوٹ لے،اس کے مکان جلا دے، اس پر لاٹھیاں برسائے یہ سب کے سب افعال دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں،
دہشت گرد چاہے ملک کے باہر کا ہو یا ملک کے اندر کا، دونوں سے خطرہ ہے، اور حکومت دونوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو قانون میں طے پایا گیا ہے،
لیکن ایک ہی جرم کی دو الگ الگ سزائیں کہیں نہ کہیں مخصوص لوگوں میں خوف پیدا کرنے کی ایک سازش و پہل ہے،
میں پی،ایف،آئی کے بارے میں اتنا نہیں جانتا جتنا حکومت جانتی ہے،
لیکن صرف پی ایف آئی ہی پر پابندی لگاکر کہیں انتخابی سفر کی تیاری کا ایک حصہ تو نہیں،

پی،ایف،آئی ایک حساس تنظیم تھی،ہمیشہ مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتی تھی،خاص طور پر حکومت سے اپنے مطالبات و حقوق کے لئے احتجاج میں پیش پیش رہتی تھی،
تعلیم کے میدان میں مسلم نوجوانوں کی رہنمائی کرتی تھی،
یہ سب کام چھوڑ کر کب دہشتگردی میں مبتلا ہو گئی مجھے پتہ نہیں،
قصورواروں کو قانون سزا دے ،لیکن قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہییے، چاہے وہ پی،ایف،آئی ہو یا آر،ایس،ایس یا دیگر تنظیمیں، جو قانون کے خلاف کام کر رہی ہیں،یاکریں سب کو بین کرنا چاہئے ،
صرف پی،ایف،آئی ہی پر پابندی کیوں؟
اس طرز پر چلنے والی تمام جعفرانی تنظیموں پر بھی پابندی عائد ہونی چاہییے
دو مراحل کی ملک گیر چھاپہ ماری اور 240 سے زیادہ افراد کی گرفتاری کے بعد مرکز نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) پر 5 سال کے لیے پابندی عائد کر دی۔
اور الزام یہ کہ پی ایف آئی اور اس سے وابستہ تنظیموں یا محاذوں کو دہشتگردی میں شامل ہونے کی وجہ سے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت فوری طور پر ’کالعدم تنظیمیں‘ قرار دیا گیا ہے۔

حکومت نے پی ایف آئی پرسیمی ،جماعت المجاہدین بنگلہ دیش (جے ایم بی) اور اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (آئی ایس آئی ایس) کے ساتھ روابط کا حوالہ دیتے ہوئے پابندی عائد کی ہے۔ آل انڈیا امام کونسل سمیت 8 دیگر تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پی ایف آئی اور اس سے وابستہ ادارے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو کہ ’ملک کی سالمیت، خودمختاری اور سلامتی کے لیے نقصان دہ ہیں‘ اور ان مین نظم و نسق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی صلاحیت ہے۔نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ایف آئی اور اس سے وابستہ ادارے سماجی، اقتصادی، تعلیمی اور سیاسی تنظیم کے طور پر کام کرتے ہیں لیکن وہ معاشرے کے ایک خاص طبقے کو بنیاد پرست بنانے کے خفیہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔خیال رہے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کی تشکیل 17 فروری 2007 کو جنوبی ہندوستان میں تین مسلم تنظیموں کے انضمام سے ہوئی تھی۔ پی ایف آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ 23 ریاستوں میں سرگرم ہے۔
پاپلر فرنٹ آف انڈیا کو اس لئے بین کر دیا گیا کہ وہ ملک دشمن سیاسی جماعت ہے-

مدادِ قلم سے بہار دین میں رعنائی ہے…از قلم:رہبر عالم أويسي احسنی متعلمِ حال الجامعة الإسلامية روناہی فیض آباد یوپی

خالق کائنات (جل جلالہ) نے جن اشیا کونیست سے زیست بخشی ان کی ہست میں قلم کو اولیت کا درجہ عطا فرمایا،اس پر مستزاد یہ کہ اس کے ماسوا کے عدم و وجود،امکان و امتناع،زمان
ومکان،حرکت و سکون،عیش و انتقال اور ما کان
وما یکون کے لکھنے کا حکم اسی کو فرمایا، پھر اس
قلم نے لوح محفوظ پر جو نقوش چھوڑے انہیں کو زمانے نے تقدیر سے تعبیر کیا،حیوانات و جمادات
ونباتات اور تمام مشاہد و غیر مشاہد چیزیں انہیں
نقوش کے عکوس قرار پاۓ جن کے خالق (جل جلالہ)
اورمخبر (علیہ الصلوٰۃ والسلام) پر حاملینِ تاجِ کرامت کو”آمنا”کا اظہار باللسان اور تصدیق بالجَنان ضروری ٹھہرا،

   قلم کا شرف و فضل اسی پر بس نہیں بلکہ خالقِ لوح و قلم  نے اپنے خیر کلام(قرآن) میں اس کی قسم یاد فرما کر اس کی شان کو اَوج کی معراج  عطا فرما دی، اس پر طرہ  یہ کہ جس نوری و خالص روحانی مخلوق  نے اس کا استعمال فرمایا ان کی بھی قسم اٹھائی، اور مالک کائنات ﷺ نےحربی مقیدین کو قلم کی خدمت کے عوض پروانۂ حریت عطا فرما کر اس کی  علّوِشان کا عملی نمونہ پیش فرمایا، اور جن اصحاب و اخیار نے "حدیثِ" قلم میں مضمر افادیت کا فقہ جان لیا پھر  تو انہوں نے اس کی تفسیر سے ایسے گراں قدر علمی احکام کا استنباط کیا کہ وہ حضرات خلق کثیر کے ما بین موجد "اصول" و "کلام" کا درجہ حاصل کر لئے،جہالت کو نوکِ قلم سے حیاتِ "منطق" کا ایسا فلسفہ سمجھایا کہ مارے شرم کے اب تک "نحوِ" حیا "صرفِ" نظر رہی ہے،جلالتِ قلم  سے "بلاغت" "فصاحت" کے ساتھ جامۂ "تصوف" میں ناز کر رہی ہے،

آج کے اس مادہ پرست تمثال پسند دور میں بھی اصحاب علم و فضل کے لیۓ جو مراجع و مصادر کی حیثیت کی حامل ہستیاں ہیں، جن کے ڈنکے کی گونج اکناف عالم میں سنائی دے رہی ہے ان مقدس نفوس کے نقوش قلم ہی سے دل قرطاس میں محفوظ ہیں، اور علم دوست حضرات کے قلوب و اذہان ان ذوات مقدسہ کے بیش بہا قلمی کارناموں سے بہجت و سرور میں مخمور ہیں،اور ہوں بھی کیوں نہ، جہاں سیف و سلاح کے ذریعے شجرِ اسلام کی افزائش میں حاجز، مذاھب باطلہ کے خاردار، غیر سودمند نباتات کی بیخ کنی کی گئی وہیں قرطاس و قلم کے ذریعے اس کے حدود کی پاسداری بھی کی گئی ،جہاں اس کی آبیاری میں شہداء اسلام کا خون شامل ہے وہیں اس کی رعنائی میں اصحاب قرطاس و قلم کی روشنائی کا انکار نہیں کیا جا سکتا ،جہاں نہر فرات میں قتیلان شیوۂ صبر و رضا کے خون کی سرخی دوڑی وہیں عاشقان مداد و قلم کی روشنائی نے دریائے دجلہ کی شفافیت کا غرور توڑا ،ذرا‌ غور و فکر کو زحمتِ توجہ تو دی جاۓ!کہ جہاں ہمیں اصحاب سیف و سلاح میں أسد اللہ ،صیف اللہ ،سید الشہدا،فاتحین قیصر و کسریٰ اور مسخرین یوروپ و ایشیا ملے، وہیں علم و قلم نے ہمیں رأس المفسرین ،حبر الامة،حدیث میں أمیر المؤمنین ،صدر المعلمین ،سید المتکلمین اور خاتم المحققین جیسے بے شمار علوم و فنون کے سمندروں سے روشناس کروایا کہ اکابر زمانہ آج بھی ان سے سیرابی حاصل کر رہے ہیں ،
کانپ تے ہیں اس کی ہیبت سے سلاطین زمن
دبدبہ فرماں رواؤں پہ بٹھاتا ہے قلم
صفحۂ قرطاس پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم
ندرت و افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ میدان سیف و فرس
سمٹ گیا اور بساط علم و قلم کو باقی رکھا گیا
اور آج بھی باقی ہے ،تو پھر مجاہدین نے اپنےقلم
ہی سے سیف کا کام لیا اور اپنے وقت کے طاغوت و فرعون کی سرکوبی کی،قسطنطینی اور یزیدی
قوتوں کے مجسموں کو پاش پاش کر کے رکھ دیا،
حق کے خاطر اٹھے اس قلم نےناجانے کتنے باطل
ایوانوں میں زلزلہ لا دیا،اور اصحاب خیر نے اس سے ایسے کارہائے خیر انجام دۓ جن کو سلاطین زمن اپنی
بے شمار افواج و سیوف سے بھی نہ دے سکے،
تاریخ کے اوراق الٹ کر ذرا دیکھو
ہر دور میں تلوار ہی ہاری ہےقلم سے
یہی وجہ ہے کہ دنیا کا ہر بسنے والا ذی عقل و شعور اجناس و انواع،الوان و اقوام،ممالک و ادیان، مذاھب و مسالک کی بنیاد پر منقسم انسان،نا جانے کتنے بدیہی و غیر بدیہی افکار و نظریات میں آپس میں مختلف ہے، لیکن قلم کی عظمت شان کے اعتراف میں متحد ہے،
اسی لئے تو ارباب علم و معرفت اپنی توجہ وادئ قرطاس و قلم کی طرف مرکوز رکھتے ہیں اور اپنے اصاغر کو اس وادی میں اترنے کا تاکیدی حکم فرماتے رہتے ہیں ،
خوشا نصیب ہیں وہ ذی علم حضرات جو خلوص و پاک نیت سے میدان قلم کی جانب اس جزبہ کے ساتھ سبقت کرتے ہیں،
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
دل پہ جو گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

                      *ہدیۂ تبریک*

ہندوستان کا ایک عظیم الشان مشرب علم و معرفت،
خانقاہ قادریہ برکاتیہ (مارہرہ شریف)کے زیر سایہ رواں دواں روز افزوں ادارے جامعہ احسن البرکات کے فیروز بخت، شاہیں مزاج، فرزندگان کی مجالِ تحریر کی طرف رغبت بھی ایک روشن مستقبل کی جانب غمازی کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے، کیونکہ تحریر و کتابت کی یہ حس
و حرکت وہ بھی طالبان نو خیز سے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ خزاں میں بادلوں کی بہار سے سرگوشی ہے،
خاک کے ڈھیر میں شراروں کی رمق ہے ،
خشک چمن میں خوشبوؤں کی مہک ہے،
ایام تیرگی میں روشنی کی دمک ہے ،
بوستانِ ویراں میں بلبل کی چہک ہے،
بلکہ یوں کہا جائے کہ خواب حسن کی
تعبیر میں تاروں کی چمک ہے،
اور یہ سلسلہ انہیں جزبات کے ساتھ یوں ہی چلتا رہا تو یقیناً آنے والے وقت میں خدمت دین کے حوالے سے ان شاء اللہ بہترین نتائج برآمد ہوں گے،
قابلِ تبریک و تحسین ہیں عزیزان گرامی مرتبت!
محمد حسن رضا احسنی (جماعت ثانیہ) عبدالقادر احسنی نانپاروی،شعیب رضا احسنی (ثانیہ) مولاناہلال رضا احسنی،محمد سلطان رضا احسنی،مولانا منتصر احسنی جن کی ابتدائی معلوماتی و تبصراتی اور تہنیاتی تحریروں سے آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوئی،
مولوی محمد ارقم رضا احسنی کے حضور تاج العلما
(علیہ الرحمہ) کی سوانح کے متعلق مقالہ کو پڑھ کر
بڑی شادمانی ہوئی،اور برادر صغیر مولانا توحید رضا احسنی، کے کتب بینی کے فوائد پر مشتمل عمدہ مضمون سےدل کو بڑی ٹھنڈک پہنچی،خصوصاً محب گرامی عزیزم مولانا محمد ہاشم رضا احسنی،جنہوں نے
مجاہدین جنگ آزادی کے بارے میں سادہ و شستہ،
پر مغز تحریر سے میرے ہی نہیں بلکہ اہل خیر کے دلوں میں بھی اپنی جگہ بنائی بعد ازاں جامعہ میناںٔیہ (گونڈہ) کے زیر اہتمام “آل انڈیا مسابقۂ خطابت” میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے بہتوں کو حیران و ششدر کر دیا،
اور ناقابل فراموش ہیں وہ حضرات بھی جنہوں نے بڑی جاں فشانی سے پے در پے جدارۓ چسپاں کۓ اور تحریر کی اس تازہ مہم میں اپنا حصہ ڈالا،لہذا درونِ خانہ نے اس پر راحت و فرحت،مسرت و شادمانی کے اظہار کو الفاظ کا لباس پہنانے پر ابھارا،
بلاشبہ آپ حضرات کی یہ کو ششیں اور کاوشیں تمام اساتذہ کی محنت اور رئیس الجامعہ حضور رفیق ملت”اب٘ا حضور”(دام ظلہ)کے خلوص و شفقت اور بزرگانِ مارہرہ کے فیضان و محبت کی مرہون منت ہیں،
قادر مطلق کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمارے بزرگوں اور
اساتذہ کو صحت و سلامتی کے ساتھ عمر طویل عطا فرمائے،
ہمارے جامعہ احسن البرکات کو ہر آن ترقی عطا فرمائے،
ہمارےعلم و قلم میں راستبازی و زور اور عمل میں ثابت
قدمی عطا فرمائے،
مسلک اعلی حضرت پر گامزن قلم کا سچا سپاہی بناۓ،
اور ہم سے وہ کام لے جس سے تو اور تیرا محبوب راضی ہو جائے،
ارادہ تھامنےکاہےاب بازوۓ قلم
‌۔ قلم سے بہارِ دین کی رعنائی ہے
انوارِ نوری سے شمعِ شبستاں بنو
تمہارے قلم سے امید روشنائی ہے

     *قلم کو اب تم بھی تھام لو رہبر *اس کی قسم تو رب نے اٹھائ ہے

۔۔۔۔۔ باسمہ تعالیٰ۔۔۔۔۔غلام احمد قادیانی کادعوئ نبوت اور موت۔۔۔پیش کش ۔۔۔سید آل رسول حبیبی ہاشمی خانقاہ قدوسیہ ، بھدرک شریف، اڈیشا


آج کا ایک بہت بڑا فتنہ ، فتنۂ قادیانیت ہے، انگریزوں کے ایماپر مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعوی کیا اور کچھ گنواروں نے اسے نبی مان بھی لیا
افسوس کہ اڈیشا کے بعض خطوں میں بھی یہ فتنہ پایا جاتا ہے
اس لئے آقائی سیدی مفتئ اعظم اڈیشا قدس سرہ موقع بہ موقع اس کے خلاف مؤثر خطاب فرمایا کرتے تھے
چنانچہ ایک بار مسئلۂ ختم نبوت کو شرح و بسط کے ساتھ پیش فرماتے ہوئے حضرت نے ارشاد فرمایا کہ
“ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نبیوں کے خاتم ہیں ، ان کے بعد کوئی نیا نبی نہ آیا ہے اور نہ آسکتا ہے
قرآن پاک ببانگ دھل اعلان کرتا ہے
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ
محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں خاتم
اور آقائے کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں
و أنا خاتم النبیین، لا نبي بعدي (سنن ابی داود: ۴۲۵۲ وسندہ صحیح)
اور میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں”
پھر حضرت نےپورے جوش و امنگ کے ساتھ ارشاد فرمایاکہ
“یہ مسئلہ ہمیشہ ساری امت میں متفق علیہ رہا ہے مگر مرزا غلام احمد قادیانی کا یہ خبث و رفث ہے کہ اس نے دعوئ نبوت کرکے امت میں سورش برپا کی اور اپنے انگریز آقاؤں کو شاد کیا۔
عزیزو! مرزا صاحب کذاب نبیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی خباثت و غلاظت ساری امت پر ظاہر و باہر ہے۔ ایسے غلیظ و خبیث کی موت بھی پائخانہ کے اندر واقع ہوئی ہے۔
اگر وہ واقعی نبی ہوتے تو ان کی موت پائخانہ کی غلاظت میں ہرگز نہ ہوتی اور اگر ان کے ماننے والے ان کو دل سے نبی مانتے تو ان کی قبر ضرور پائخانہ میں بناتے ۔
اس لئے کہ نبی جہاں موت کو لبیک کہتا ہے اس کو وہیں دفن بھی کیا جاتا ہے جیسا کہ آقائے کریم علیہ اکرم التسلیم ارشاد فرماتے ہیں
ما قبض الله نبيا إلا في الموضع الذي يحب ان يدفن فيه (سنن ترمذي:1018)
انبیاء کی وفات وہیں ہوتی ہے جہاں وہ دفن ہونا پسند کرتے ہیں
مگر مرزا صاحب نے موت کو گلے لگایا پائیخانے میں تو دفن بھی انکو وہیں ہونا چاہئے
معاذ اللہ ، معاذ اللہ
یہ کیسی عبرت ناک موت ہے ، افسوس کہ ان کے ماننے والوں کی عقلوں پہ پردہ پڑا ہوا ہے”
۔۔۔۔۔۔پیش کش ۔۔۔۔۔۔۔
سید آل رسول حبیبی ہاشمی
خانقاہ قدوسیہ ، بھدرک شریف، اڈیشا