WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

انگریزی پڑھنے سے تقدیر سے زیادہ نہیں ملتا..(موجودہ دور میں علم دین کی ضرورت و اہمیت)از قلم: محمد مجتدٰی رضا خان متعلم:جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ضلع:ایٹہ [یوپی]

موجودہ دور میں معاشرے کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آج قوم مسلم صرف مغربیت کو ترجیح دے رہی ہے اور عصری علوم کو حاصل کرنے کے لیے علم دین مصطفیٰ ﷺ سے بیزاری ظاہر کر رہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ آج حق و باطل کے درمیان خط امتیاز مٹتا جا رہا ہے۔ جبکہ اس پر فتن دور میں علم دین کی سخت ضرورت ہے اس لیے کہ آج دین اسلام اور مسلمانوں پر ہر طرف سے حملہ ہو رہا ہے، جہاں ایک طرف اسلام مخالف طاقتیں مسلمانوں کے جان و مال کو نیست و نابود کرنے کی سخت کوشش کر رہی ہیں، تو وہیں دوسری طرف فتنۂ وہابیت اور فتنۂ دیوبندیت ہمارے اعمال اور ہمارے عقائد کو مجروح کر رہے ہیں۔ اور اس پرفتن ماحول میں جو سب سے زیادہ مہلک فتنہ ہے وہ صلح کلیت کا فتنہ ہے جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے ایمان پہ ڈاکہ ڈال رہا ہے ۔ اسلام کے آستینوں میں چھپ کر سانپ کی طرح ڈس رہا ہے اور اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے اور ہمارے عقائد پر سختی سے وار کر رہا ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج بھی ہماری قوم فتنۂ وہابیت اور فتنۂ صلحِ کلیت و دیوبندیت کو پہچاننے میں ناکام ہے۔ مسلک اعلیٰ حضرت اور فرقۂ باطلہ کے درمیان امتیاز کرنے سے قاصر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج امت مسلمہ علم دین اور علم شرائع سے بہت دور ہو گئی ہے۔
آج ہمارے معاشرے کا ہر فرد یہ سوچتا ہے کہ اگر ہم علم دین حاصل کریں گے تو ہمیشہ غریبی میں زندگی بسر کریں گے، اگر ہم عالم بن جائیں گے تو دنیاوی شان و شوکت اور دولت و سرمایہ ہاتھ سے چلا جائے گا، غرض کہ پوری امت مسلمہ اس قسم کے باطل اوہام و افکار کے دام فریب میں پھنسی ہوئی ہے۔ سبب یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالی کی ذات پر توکل نہیں کیا بلکہ صرف اسباب پر توکل کیا، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بے شمار ایسے علمائے کرام ہیں جن کو اللّٰہ نے بے شمار دولتیں عطا فرمائی ہیں جن کے ذریعہ وہ دین کی نشرواشاعت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ والرضوان لکھتے ہیں کہ: ” انگریزی پڑھنے سے تقدیر سے زیادہ نہیں ملتا، عربی پڑھنے سے آدمی بدنصیب نہیں ہو جاتا، ملے گا وہی جو رزاق نے قسمت میں لکھا ہے بلکہ تجربہ یہ ہے کہ اگر عالم پورا عالم اور صحیح العقیدہ ہو تو بڑے آرام میں رہتا ہے اور جو لوگ اردو کی چند کتابیں دیکھ کر وعظ گوئی کو بھیک کا ذریعہ بنا لیتے ہیں کہ وعظ کہہ کر پیسے مانگنا شروع کر دیا۔ ان کو دیکھ کر عالم دین سے نہ ڈر، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا بچپن آوارگی میں خراب کر دیا ہے اور اب مہذّب بھکاری ہیں ورنہ علمائے دین کی اب بھی بہت قدر و عزت ہے جب گریجویٹ مارے مارے پھرتے ہیں تو مدرسین علماء کی تلاش ہوتی ہے اور نہیں ملتے “۔

محترم قارئین! جب آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ قادر مطلق اور رزّاق مطلق اللّٰه تعالیٰ کی ذات ہے وہ جسے چاہتا ہے عزت و سربلندی کا تاج اس کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ صوفیاںٔے کرام فرماتے ہیں کہ ” شریعت و طریقت پرکامیابی سے چلنے کے لیے توکّل علی اللّٰه سب سے بڑی عبادت ہے “۔
محترم قارئین! آپ غور فرمائیں کہ ایسی تعلیم سے کیا فائدہ جو آپ کے عقائد و اعمال کی حفاظت نہ کرسکے جو آپ کو شریعت مصطفی ﷺ اور مسلک اعلیٰ حضرت سے دور کر دے۔ ایسی تعلیم لا یعنی ہے جس کے ذریعے آپ اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس کا آلۂ کار بن جائیں، جس تعلیم کے ذریعے آپ فتنۂ وہابیت، دیوبندیت و فتنۂ صلحِ کلیت سے خود اور اپنے گھر والوں اور اپنی سوسائٹی اور امت مسلمہ کا دفاع نہیں کرسکتے، اس لیے ہم عصری تعلیم کو صرف بقدر ضرورت ہی حاصل کریں، باقی ہم اجلّ علوم کو حاصل کریں تاکہ ہم اپنے عقائد و اعمال کو بحسن خوبی محفوظ کر سکیں ممکن ہے کہ جب ہم علم دین حاصل کریں گے تو ہمارے پاس دولت کی فراوانی نہیں ہوگی تو اس کی بالکل بھی فکر نہ کریں اور اللّٰه تعالیٰ کی ذات پر مکمل توکّل کریں اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں وہ بے حساب نوازے گا۔
محترم قارئین! جب ہم اپنے معاشرے اور اپنے قوم کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بے شمار لوگ دنیاوی اعتبار سے ہائی ایجوکیشن تو حاصل کر چکے ہیں لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ وہ لوگ صحیح طور سے کلمۂ طیبہ شریف بھی پڑھنا نہیں جانتےہیں۔ طہارت اور نماز کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں قرآن مجید کی چھوٹی چھوٹی سورتیں بھی صحیح اور سلیقے سے نہیں پڑھ پاتے اسلام کے بنیادی عقائد اور وہ ضروریات دین جن پر ایمان کا دارومدار ہے اس کا بھی علم نہیں رکھتے ہیں، حتیٰ کہ حرام و حلال میں تمیز نہیں کر پاتے اور بسا اوقات لاعلمی کی وجہ سے کفریہ کلمات بھی اپنی زبان سے ادا کر دیتے ہیں۔
قارئین کرام! جب ہم وضو اور غسل کرنا صحیح طور سے نہیں سیکھیں گے تو اس وضو اور غسل سے جتنی نمازیں ادا کریں گے سب رائیگاں ہوں گی اور اس کا اعادہ واجب و ضروری ہوگا اور قرآن شریف پڑھنا نہیں سیکھیں گے تو نماز پڑھنا اور ایصال ثواب کرنا بھی نہیں جان پائیں گے تو پھر ایسے علوم کے لئے جدوجہد کرنا لا یعنی ہے جس کے ذریعے ہم حرام و حلال میں تمیز نہ کرسکیں۔ جس کے ذریعے ہم وہ مسائل جو ضروریاتِ دین سے ہیں اور ہمارے روز مرہ کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اس کو حل نہ کر سکیں اور مسلک اعلیٰ حضرت کو فرقۂ باطلہ سے ممتاز نہ کر سکیں۔
قارئین کرام ہم پر ضروری ہے کہ ہم علوم دین کو اعلیٰ لیول پر حاصل کریں اور گھر گھر علم دین کا چراغ روشن کریں تاکہ ہم اسلام مخالف طاقتوں اور فرقۂ باطلہ کا سدّباب کر سکیں۔
چراغ علم نبی ہر طرف جلائیں گے
جہاں سے جہل کی تاریکیاں مٹائیں گے

یاد رکھیں ! دنیا کی زندگی چار دن کی ہے پھر ہمیشہ رہنے والے گھر کی طرف لوٹنا ہے تو ہمیشہ جہاں رہنا ہے وہاں کا انتظام کرو، جہاں مسافرت کے دن کاٹنے آئے ہو وہاں کی فکر چھوڑو بھوکے مر جاؤ مگر ایمان کے ساتھ مرو۔

خانقاہوں کا حقیقی تصور.. از۔۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشیدامجدی اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین و ارشد ملت ،مسکونہ ۔۔ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال 7030786828


نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
اسلام میں خانقاہی نظام کا تصور ہمیں قرون اولیٰ میں ملتا ہے وہ تو در حقیقت تلاوت آیات تزکیہ نفس اور تعلیم کتاب و حکمت پر مبنی ایک تربیتی ادارہ کا تصور ہے ایک ایسا ادارہ جہاں سے گمراہ لوگوں کو نور ہدایت نصیب ہو گنہ گاروں کو توبہ کی توفیق ملے سیہ کاروں کو روشنی کی کرن نظر آئے عصیاں شعاروں کو ذوق عبادت نصیب ہو جبکہ مروجہ نام و نہاد خانقاہوں میں تو چکر ہی الٹا چل رہا ہے یہاں تو جہالت کو فروغ ملتا ہے اِنسانیت کی تذلیل ہوتی ہے شرفاء کی پگڑی اچھالی جاتی ہے غرباء و مساکین کی جیبیں کاٹی جاتی ہیں علم و عمل کا مذاق اڑایا جاتا ہے روحوں کو داغ دار کیا جاتا ہے دلوں کو سیاہ فام کیا جاتا ہے ظلمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے اندھیرو کو سلامی پیش کی جاتی ہے دولت کی پوجا کی جاتی ہے علماء اہل سنّت کی تحقیر کی جاتی ہے بدمعاشوں کی سرپرستی کی جاتی ہے ظلم و تعدی کا بازار گرم کیا جاتا ہے ان کے میلوں ٹھیلوں سے ایسی سڑ انڈاٹھتی ہے کہ کسی سمجھدار آدمی کیلئے وہاں ایک لمحہ ٹھہر جانا بھی محال نظر آتا ہے . ہے کوئی چشم بینا جو ان معاملات کی طرف بھی توجہ کرے ؟ ہے کوئی دل درد مند جو ان خرابیوں کے خاتمہ کیلئے بھی مضطر ہو . آج کے زمانہ میں حقیقی خانقاہیں اہل سنت و الجماعت کے وہ دینی مدارس اسلامیہ ہیں جہاں قوم کے بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے انہیں نماز روزہ کا پانبد علم و تحقیق کا خوگر اور نظام مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کیلئے جدو جہد کا پیکر بنایا جاتا ہے یہ ہمارا بنیادی فرض ہے کہ ہم ان میلوں ٹھیلوں کو ملیا میٹ کر کے اپنے دینی مدارس کی سرپرستی کریں علمائے اہل سنت سے رابطہ بحال کریں طلباء مدارس کو ہر طرح کی آسائش مہیا کریں مدرسین کے لئے تنخواہوں کا خاطر خواہ انتظام کریں تاکہ حقیقی خانقاہی نظام کا دوبارہ احیاء ہو سکے ورنہ مروجہ خانقاہوں سے خیر کی توقع رکھنا بیل سے دودھ کی امید رکھنے کے مترادف ہے.
مزارات کے گلّے اور صندوقچے
یہ ایک عجیب ترین بات ہے کہ مزارات اور خانقاہوں کے دروازے پر بڑے بڑے گلے اور صندقچے رکھے ہوتے ہیں جہاں بڑے ہی بد اطوار قسم کے مجاور زائرین کی آمد پر ان گلوں کو کھڑ کھڑا کر نذرانہ طلب کر تے ہیں جس پر جاہل اور احمق قسم کے لوگ ان گلوں میں ہزاروں روپے ڈال جاتے ہیں بعد میں یہ پیسے یا تو محکمہ اوقاف والے اٹھا کر لے جاتے ہیں یا پھر سجادہ نشین صاحبان ان سے گلچھرے اڑاتے ہیں یاد رکھنا ہے کہ ان پیسوں کا مصرف سوائے عیاشی کے اور کچھ نہیں ہوتا یہ تمام اہل اسلام کا فرض ہے کہ وہ جاہل لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ گلوں میں ڈالے ہوئے ان کے پیسے در اصل افسروں اور سجادہ نشینوں کے پیٹوں کا جہنم بھر نے کے کام آتے ہیں ان پیسوں سے جہلاء کو کسی قسم کا کوئی فائدہ ہر گز نہیں ملتا نہ ہی دنیوی نہ ہی اخروی بلکہ الٹا دونوں جہانوں کا خسارہ ہوتا ہے دنیا کا اس لئے کہ وہی پیسے جو انہوں نے گلے میں ڈالے وہ ان کے اہل خانہ یا دیگر امور خیر میں کام آ جاتے جو نہ ہوسکے اخروی اس لحاظ سے کہ یہ پیسے ناجائز کاموں میں صرف ہوتے ہیں اس طرح ناجائز کاموں میں ان کا حصہ بھی شامل ہوجا تا ہے لہذا قیامت کے دن غلط کار افسروں اور سجادہ نشینوں کے ساتھ ان کا بھی مواخذہ ہوگا اس لئے ان گلوں میں پیسے ڈالنے کے بجائے انہیں راہ خدا میں خرچ کیا جائے اور خاص طور پر اہل سنت کے مدارس کو مضبوط کیا جائے فی زمانہ مدارس کا بھی یہی حال ہے

حکمتوں سےمعمورمفتئ اعظم اڈیشا کے پر تاثیر کلمات خیر——از سید آل رسول حبیبی ھاشمی سجادہ نشین خانقاہ قدوسیہ ،بھدرک شریف ،اڈیشا

سیدنا مفتئ اعظم اڈیشا قدس سرہ کی ذات اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی ، انکی حق بیانی ،شریں زبانی اور فصاحت لسانی سےایک عالم مستنیر ہے
انکے پاکیزہ جملوں سے علم و حکمت کے سوتے پھوٹتے اور موتی جھڑتے تھے
ایک بار ایک مصیبت زدہ شخص کی مایوس کن باتوں کو سن کر آپ نے ارشاد فرمایا
“مومن بندوں کا مصائب و آلام میں مبتلا ہونا اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار ہونا ہے “
یہ کلمات مبارکہ کتنے مختصر ہیں لیکن اس سے علم و حکمت کے گوہر آبدار چمکتے ہیں –
اس میں مومن کی قید احترازی ہے ، جس سے تمام بے ایمانوں کو خارج کردیا گیا ہے ، کیونکہ
اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار صرف اور صرف مومن ہے ، ہرگز کوئی کافر نہیں ۔
ارشاد ربانی “وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ”
میں ضمیر خطاب مومنوں کے لئے ہے جیسا کہ ما سبق سے ظاہر ہے
یہ حق ہے کہ
دنیا کے مصائب و آلام پر جو بندہ صبر و شکیب کا پیکر بن جاتا ہے اور راضی برضائے الہی رہتا ہے ، وہی حقدار جنت ہوتا ہے اور اسی کو رب کریم نے مژدۂ جنت عطا فرمایاہے ۔
حق فرمایا سیدی مفتئ اعظم اڈیشا قدس سرہ نے
“مومن بندوں کا مصائب و آلام میں مبتلا ہونا اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار ہونا ہے “
حکمت و موعظت سے بھر پور اس کلام نور و سرور کو سن کر اس دل شکستہ مایوس بندے کو ایسی کامل تسلی ملی اور ایسا قلبی سکون حاصل ہوا کہ
لاس کے دل پر جو مایوسی کی کائی جم گئی تھی وہ یکسر ہٹ گئی اور وہ عزم و حوصلہ اور نئی امنگ کے ساتھ وہاں سے واپس ہوا فالحمد للہ رب العلمین
ایسی بافیض ذات گرامی کا ۲۸ واں
“عرس قدوسی “
4ربیع النور 1444یکم اکتوبر 2022 کو
خانقاہ قدوسیہ ، بھدرک شریف ، اڈیشا میں شان و شوکت کے ساتھ منایا جارہا ہے
جس میں ہند و بیرون ہند کے درجنوں علما، صلحا اور شعرا کا نورانی قافلہ جلوہ بار ہوکر صاحب عرس کی بارگاہ عالی جاہ میں نظم و نثر کے ڈریعہ عقیدت و محبت کا خراج پیش کریگا
احباب اہل سنت و عزیزان طریقت سے عرس کی نورانی تقریبات میں شرکت کی مخلصانہ اپیل ہے
ملتمس
سید آل رسول حبیبی ھاشمی
سجادہ نشین
خانقاہ قدوسیہ ،بھدرک شریف ،اڈیشا

ہمیں اپنے اساتذۂ کرام کاادب واحترام کس حد تک کرنا چاہیے؟ از:(مولانا) محمد شمیم احمد نوری مصباحی!ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

     اسلام نے معلّم کو بے حد عزت و احترام عطا کیا ہے، چنانچہ اللّٰہ ربّ العزت نے قرآن مقدّس میں نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی شان بحیثیت معلّم بیان کی ہے ،اور خود خاتم النبیین صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا "انما بعثت معلماً” [یعنی مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے] حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا یہ فرمان کہ "مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا” یقیناً اس بات کی بیّن اور واضح دلیل ہے کہ استاذ کا مقام و مرتبہ نہایت ہی بلند و بالا ہے-

     اسلام کی نظر میں انسانیت کا سب سے مقدّس ومعظّم طبقہ پیغمبرانِ اسلام و انبیائے کرام کا ہے- اور پیغمبر ونبی کی حیثیت اپنے امتی کی نسبت سے کیا ہوتی ہے؟ اللّٰہ تعالیٰ نے متعدّد جگہ اس کا ذکر فرمایا ہے، اور وہ یہ کہ نبی انسانیت کا مربی اور معلم ہوتا ہے، وہ تعلیم بھی دیتاہے اور انسانیت کو علم کے سانچے میں ڈھالنے کی بھی کوشش کرتا ہے ارشاد ربانی ہے” یتلو علیھم آیاته و یزکّیھم ویعلّمھم الکتٰب والحکمة” { آل عمران:۱۶۴}… جو کسی کو علم و حکمت کی تعلیم دے، یا جس نے ہم کو کچھ بھی سکھایا یا پڑھایا ہو، یا جس سے ہم نے خود کچھ سیکھا ہو اسی کو استاذکہتے ہیں … اساتذہ کے تعلق سے حضرت علی کرّم اللّٰہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا ایک فرمان بہت ہی مشہور ہے” من علّمنی حرفاً فقد صیّرنی عبداً ان شاء باع وان شاء عتق” [یعنی جس نے مجھے ایک حرف کی بھی تعلیم دی میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے بیچے یا آزاد کرے] {تعلیم المتعلم ص/۲۱}
  بلاشبہ ہر مذہب اور ہر سماج میں اساتذہ کو بڑا احترام حاصل رہا ہے اور ویسے بھی انسان جس سے بھی کچھ سیکھے یا علم حاصل کرے اس کا ادب و احترام اس کے لیے بہت ضروری ہے، کیونکہ اگر سیکھنے والا سِکھانے والے کا ادب و احترام نہیں کرتا تو وہ بد نصیب ہے، علم کسی بھی نوعیت کا ہو اس کا عطا کرنے والا بہرحال قابل عزت ہے، اور خاص طور پر علم دین کا سکھانے والا تو بدرجہ اولیٰ ہمارے لئے قابل احترام ہوتا ہے-
   یقیناً یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے اساتذہ کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو اساتذہ کے بلند مقام و مرتبہ سے آگاہ کیا ہے، اسلام میں اساتذہ کا مقام و مرتبہ بہت ہی ارفع و اعلیٰ ہے، اساتذہ کے معلّم و مربّی ہونے کی وجہ سے اسلام نے انہیں "روحانی باپ” کا درجہ عطا کیا ہے جیسا کہ معلّم انسانیت حضور نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے "انما انا لکم بمنزلۃ الوالد،اعلّمکم”[یعنی میں تمہارے لئے والد کے درجے میں ہوں، کیونکہ میں تمہیں تعلیم دیتا ہوں]

اساتذہ کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے جتنا باپ کا اولاد پر بلکہ ایک اعتبار سے باپ سے بھی زیادہ، کیوں کہ روح کو جسم پر فضیلت حاصل ہے، والد اگر “صلبی وجسمانی باپ” ہے تواساتذہ “روحانی باپ”-

          اب آئیے ہم اساتذہ کے ادب و احترام کے تعلق سے اپنے اکابرین و اسلاف کے معمولات وفرمودات پیش کرتے ہیں جس سے یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ ہمیں اپنے اساتذۂ کرام کی بارگاہوں میں کیسےپیش آنا چاہیے؟ اورکس نوعیت سے ادب و احترام کرنی چاہیے؟

حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ “ہم اپنےاستاد سے اتنا ڈرتے اور ان کا اتنااحترام کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں” اور حضرت یحییٰ بن معین جو بہت بڑے محدّث تھے ،حضرت امام بخاری ان کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ “محدّثین کا جتنا احترام وہ کرتے تھے اتنا احترام کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا” اور حضرت امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ “میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جواستاذ کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا” {ایضاً ص/۲۲}
امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللّٰہ تعالیٰ علیہ اپنےاستاذ کا اتنا ادب و احترام کیا کرتے تھے کہ کبھی استاذ کے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے- حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ”میں حضرت امام مالک کے سامنے ورق بہت آہستہ سے الٹتا تھا کہ اس کی آواز ان کو نہ سنائی دے”- حضرت امام ربیع فرماتے ہیں کہ “حضرت امام شافعی کی نظر کے سامنے مجھے کبھی پانی پینے کی جرأت نہیں ہوئی”… بعض بزرگوں نے تو یہاں تک فرمایاکہ” ہمیں اپنے اساتذہ کی اولاداوران کے متعلّقین کی بھی تعظیم وتکریم کرنی چاہیئے” صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں کہ”بخارا کے ایک بہت بڑے امامِ وقت اپنے حلقۂ درس میں مصروفِ درس تھے مگر اثنائے درس کبھی کبھی کھڑے ہوجاتے تھے، جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے، اور کھیلتے کھیلتے وہ کبھی کبھی مسجد کے دروازے کے پاس آ جا رہا ہے، تو میں اس کے لیے بقصدِ تعظیم کھڑا ہو جاتا ہوں”…… اس طرح کے بہت سارے واقعات تاریخ و سوانح کی کتابوں میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں، جن سے ہمیں یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے کہ تلامذہ کو اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کس حد تک کرنا چاہیے؟…… لیکن بدقسمتی سے دور حاضر میں رفتہ رفتہ اساتذہ کے ادب و احترام میں کمی آتی جارہی ہے غالباً یہی وجہ ہے کہ ہم اخلاقی پستی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، جب کہ اساتذہ کا ادب و احترام اور ان کی عزت و تکریم کیے بغیر ہم معاشرے میں کبھی بھی اعلیٰ مقام حاصل نہیں کر سکتے!

ادب تعلیم کاجوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگردہیں جوخدمتِ استاد کرتےہیں

بارگاہ خداوندی میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کو اپنے اساتذہ کی تعظیم و تکریم کرنے کی توفیق سعید بخشے-
آمین!

عصر حاضر میں اتحاد بین المسلمین: وقت کی اہم ضرورت،، از: حبیب اللہ قادری انواری،، آفس انچارج:دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف،باڑمیر(راجستھان)

کسی بھی قوم وملت کے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے سب سے ضروری اور اہم چیز ان کی صفوں میں اتحاد و اتفاق کا پایا جانا ہے،اتحاد ایک زبر دست طاقت و قوت اور ایسا ہتھیار ہے کہ اگر تمام مسلمان متحد و متفق ہو جائیں تو کوئی دوسری قوم مسلمانوں سے مقابلہ تو دور کی بات آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھ سکتی ،حضور نبی کریم ﷺ،خلفائے راشدین اور صحابۂ کرام کے عہد کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جس کام کو بڑی بڑی قومیں اپنی طاقت کے بَل بوتے پر نہیں کرسکیں،اُس کو مسلمانوں نے باہمی اتحاد و اتفاق ،اخوت وہمدردی آپسی بھائی چارگی اور اجتماعیت سے کر دکھایا۔

آج کے دور میں مسلمان جس قدر ذلیل و خوار اور رسوا ہے شاید اس سے پہلے کسی دور میں رہا ہو، اور جتنا کمزور آج کا مسلمان ہے شاید ہی اتنا کمزور کبھی رہا ہو۔یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں مسلمانوں کی بین الاقوامی طور پر کوئی اہمیت نہیں ہے اور دنیا کی تمام قومیں مسلمانوں پر ہی حملہ آور ہورہی ہیں۔ ہر جگہ انہیں ہراساں کیا جارہا ہے، ان کی عزت و ناموس محفوظ نہیں ہے، ان کے املاک تباہ و برباد کئے جا رہے ہیں، بہت سارے ممالک میں انہیں تہ وتیغ کیا جارہا ہے ،جن میں قابل ذکر فلسطین، افغانستان،عراق، سیریا،حلب اور میانمار ہے۔ وطن عزیز میں بھی مسلمانوں کو مختلف اوقات میں مختلف طریقے سے ہراساں و پریشاں کیا جاتا ہے ،کبھی شریعت میں رد وبدل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،تو کبھی گائے کے نام پر ،معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی اسلامی قلعے مدارس و مساجد کی طرف انگشت نمائی کی جاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہماری ایسی درگت کیوں ہو رہی ہے؟ہمیں ہر طرف سے دبانے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے؟اس کے اسباب و وجوہات کیا ہیں؟جب کی اللہ نے مسلمانوں کو ان کے گناہوں اور معصیتوں کے باوجود بہت ساری نعمتوں سے نواز رکھا ہے ،اور یہ نعمتیں مختلف انواع و اقسام کی ہیں، جیسے اللہ نے مسلمانوں کو زراعتی،حیوانی،آبی، معدنی غرضیکہ ہر قسم کے دولت وثروت سے نوازا ہے، پیٹرول کا ایک وافر مقدار مسلمانوں کے پاس موجود ہے، مسلمانوں کی تعداد بھی ایک عرب سے زائد ہے،ساٹھ کے قریب اسلامی ممالک ہیں اور ان کا محل وقوع بھی بہت اہم ہے، اہم آبی گزر گاہیں مسلمانوں کے پاس ہیں۔ پھر بھی مسلمان اتنا بے بس، مجبور، کمزوراور ذلیل و خوار کیوں ہیں ؟ان کے خون کی قیمت پانی سے بھی ارزاں کیوں ہے ؟ا ن کے متعدد وجوہات ہو سکتے ہیں مگر ان میں سب سے اہم اور اصل وجہ آپسی اختلاف و انتشار اورتفرقہ بازی ہے ،یہی وہ بیماری ہے جس نے آج مسلمانوں کو مفلوج کر رکھا ہے اور جس کی وجہ سے آج اغیار ہم پر غالب ہوتے جارہے ہیں۔ ہمیں اپنے اسلاف سے اتحاد اتفاق اور باہمییکجہتی کی جو میراث ملی تھی ہم نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے اوراس کے بر عکس آج دوسری قومیں متحد و متفق ہو کر اپنے جائز و ناجائز مقاصد کے حصول میں کوشاں نظر آرہی ہیں۔ جیسا کہ اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے ۔

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریاسے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

اور ویسے بھی اسلام نے مسلمانوں کے سامنے آپسی اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کا مثبت تصور پیش کیا ہے اور مسلمانوں کے مضبوط تعلقات پر خاص زور دیا ہے۔آج عالمی سطح پر دعوتِ دین اور غلبۂ دین کے لئے امت مسلمہ میں مضبوط اجتماعیت اور منظم اتحاد کی ضرورت ہے۔قرآن وسنت میں متعدد مقامات پر اجتماعیت اور آپسی اتحاد پر صاف صاف وضاحتیں ملتی ہیں۔جیسا کہ سورۂعمران آیت/ ۱۰۳،میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: “وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا“اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور آپس میں تفرقہ بازی نہ کرو۔ یہاں مفسرین کے نزدیک ’’حبل اللّٰہ ‘‘سے مراد کتاب اللّٰہ اور سنت رسول ہے۔ اسی طرح سورۂانفال آیت/۴۶ میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے: “وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ وَ اصۡبِرُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ”یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور آپس میں جگھڑا و اختلاف نہ کرو، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔” اللہ کے رسول ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر اپنے تمام صحابۂ کرام کے سامنے فرمایا ’’تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ‘‘ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک ان دونوں چیزوں کو تم مضبوطی سے پکڑے رہوگے کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ کتاب اللہ اور رسول کی سنت ہے۔(مسلم)

لہذا مسلمانوں کے پاس کتاب اللّٰہ اور سنت رسول کی شکل میں اتحاد و اتفاق کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔ایک مصرعہ ہم نے اکثر سنا ہوگا “ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے” یہ مشہور مصرعہ شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبال کا ہے،ڈاکٹر اقبال نے بھی اُمت اسلامیہ کو ہمہ گیر سطح پر جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ وہ مسلمانوں کو ہمیشہ یہ مشورہ دیتے ر ہے ہیں کہ قومیت کے بتوں کو توڑ کر ایک ملّت کی شکل میں متحد ہوجائیں۔ کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ایک زندہ قوم کی حیثیت سے ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔لیکن مقام افسوس صد افسوس ہے! کہ آج اس دین کے پیروکار ہی دنیا میں سب سے زیادہ گمراہ اور بھٹکی ہوئی راہ پر گامزن ہیں ، ذلت و رسوائی اور ذہنی محکومی ہمارا مقدر ثابت ہورہی ہے۔ آج دشمنان ِ اسلام عالمی سطح پر ملت کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں پر عرصۂ دراز سے ظلم وزیادتی کا سلسلہ شروع ہے۔ عالم اسلام کے بے شمار قائدین کو پابند سلاسل کردیا گیا ہے ،اور بہت سی شخصیتیں شہید کردی گئیں ہیں۔ اسی طرح اب ہندوستانی مسلمانوں پر بھی خوف کے کچھ بادل منڈلانا شروع ہوچکے ہیں۔یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی کوشیش جاری ہیں۔ جس کے لئے مختلف قانون وضع کئے جارہے ہیں۔اس ملک کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہاں کے اکثر بےقصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد ثابت کرکے ان کے مستقبل کو برباد کیا جاتا رہا۔ انہیں جیلوں کے اندر طرح طرح کی اذیتوں سے گزارا گیا۔ اور اب براہِ راست تمام ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حکومت کی جانب سے این آر سی کے نام پر مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ اسی طرح مآب لیچنگ کے ذریعے مسلمانوں کی نسل کشی ایک منظم پروپگنڈے کا حصّہ ہے۔ خیال رہے کہ اس وقت ملک کی جو موجودہ حکومت ہے وہ فسطائیت پر کھڑی ہوئی ہے۔ ایسے نازک ترین حالات میں ملت اسلامیہ کے اندر آپسی اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آپسی اتحاد و اتفاق کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ یقین بھی رکھنا چاہیے کہ دین اسلام ہی حقیقی دین ہے۔ یہ کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا ،خواہ باطل طاقتیں کتنا ہی زور کیوں نہ لگالیں۔ آج ہمیں اسی یقیں محکم کے ساتھ مسلمانوں کے اندر آپسی اتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔

   لیکن افسوس بالائے افسوس ! آج ایک طرف عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں ہو رہی ہیں تو دوسری جانب ہم مسلمان آپس میں ہی خانہ جنگی کے شکار ہیں ،ہم مختلف گرہوں اور ٹکڑوں و ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں،ذات پات اور قومیت کا الگ مسئلہ ،ہم میں کا ہر ایک فرد وسرے کی مخالفت پر کمر بستہ ہے،معمولی معمولی باتوں کو ایشو بنا کر ہم ایک دوسرے سے بر سر پیکار یا کم از کم بد ظن ضرور ہوجاتے ہیں ،اور بد ظنی اِس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ ایک دوسرے کی بات تک سننا گوارہ نہیں ہوتا،اِس طرح کے اختلافات نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے، اِس سے ہماری داخلی طاقت و قوت کمزور ہوتی  جا رہی ہے ۔ اس اختلاف کی وجہ سے اِسلام کی نشر و اشاعت بھی متاثر ہورہی ہے،غیر مسلموں کے ذہن و دماغ میں اسلام کے خلاف مختلف طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں ،جن لوگوں کے دلوں  میں ملّت ِاسلامیہ کا درد ہے وہ ہمیشہ اِس فکر میں سر گرداں رہتے ہیں کہ کسی طرح مسلمان آپس میں متحد ہو جائیں کیونکہ بقول شاعر مشرق

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی،دین بھی،ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی،قرآن بھی اللہ بھی ایک

کیا بڑی بات تھی،ہوتے جو مسلمان بھی ایک

آج ملتِ اسلامیہ اپنی تاریخ کے انتہائی نازک ترین دَور سے گزر رہی ہے۔ باطل طاقتیں اپنے پورے وسائل کے ساتھ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے لئے صف آراہوچکی ہیں۔ اس وقت گروہی تعصبات کو ہوا دے کر ملّی وحدت کو کمزور کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔رنگ و نسل،حسب و نسب اور قومیت کے نام پر ملت کو تقسیم کرنے کا منصوبہ زور وشور سے جاری ہے۔تاریخ کے اس نازک ترین موڑ پر ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر ہماری اس زبوں حالی اور ذہنی محکومی کی کیا وجوہات ہیں؟ ہم جو کبھی قافلۂ سالار ہوا کرتے تھے اب بھٹکے ہوئے آہو کی طرح مارے مارے کیوں پھر رہے ہیں؟ ایک زمانہ تھا جب ہمارے اسلاف کے ناموں سے قیصر و کسریٰ کے در و دیوار بھی دہل جاتے تھے، پھر آج کیوں ہم خوف و ڈر کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں؟؟ تاریخ گواہ ہے ماضی میں ہماری قوم نے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دئیے اور ساحل پر کشتیاں جلا ڈالی تھیں،پھر اسی قوم کے ماننے والے آج کیوں پست حوصلہ اور کمزور ہوگئے ہیں؟؟؟ ایسے بے شمار سوالات ہیں جن کے جوابات ہمیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیئے کہ جو قومیں آپسی اختلافات کا شکار ہوگئیں، ان کے اتحاد کا سورج ڈوب گیا، محکومی ان کا نصیب بن گیا ،اور زوال ان کا مقدر ٹھہرا۔ اس سے قبل بھی مسلمانوں کے آپسی اتحاد پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے،ہزاروں تقریریں کی جاچکی ہیں، سمینار اور کانفرنسیں کی جاتی رہی ہیں لیکن اب تک کوئی خاص نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔

ہمیں آج اس بات پر اتفاق کرنا ہوگا کہ اس وقت ہماری زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ آپسی انتشار اور گروہ بندی ہے۔ آج ہم نے خود کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ہم حالات کی سنگینی سے کوئی سبق نہیں لے رہے ہیں ۔ ہماری موجودہ پستی اور بے بسی کا سبب یہی ہے کہ ہم اس پیغام کو بھول رہے ہیں جس نے ماضی کے مسلمانوں کو محبت و اخوت کے ابدی رشتوں میں جکڑ دیا تھا اور انہیں ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیوں کی صورت میں پرو دیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ چودہ سو سال قبل سر زمینِ عرب سے ایک”قوم اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃ”ٌ کا پیغام لے کر اُٹھی تھی جو شرک و کفر کے اندھیروں سے نکل کر توحید اور انصاف کی علمبردار بن گئی۔ کچھ ہی عرصے میں کفر وشرک کا زور مٹ گیا۔ فتح و کامرانی اور عزت و توقیر صرف اہل ایمان کو نصیب ہوئی۔لیکن آج جب ہم امت مسلمہ کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔آج ہماری اجتماعیت بکھر چکی ہے ، ہم مغربی تہذیب کو اپنا شعار بناچکے ہیں،اور نظامِ کفر کی غلامی کو اپنی سعادت سمجھ رہے ہیں۔اسی وجہ سے آج ہماری صفوں سے اتحاد و اتفاق کا تصور کمزور ہوتا جارہا ہے۔اخلاقیات کی سطح پر ہماری شناخت مٹ چکی ہے۔ فکری سطح پر ہم اتنے پیچھے ہیں کہ کبھی سنجیدگی سے”واعتصموا بحبل اللہ”کے مفہوم و تقاضے کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی، ہم نے اپنی زندگی کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستوں پر گزارنے کی بجائے اپنی خواہشات نفس پر نچھاور کردی ہے۔ہم نے دینی تعلیمات سے کم اور اپنے نظریات سے زیادہ محبت رکھی۔ اجتماعیت اور “واعتصموا بحبل اللہ “کے سبق کو بالکل ہی پس پشت ڈال دیا ہے۔ کیسا عجیب المیہ ہے کہ دنیا تو ہمیں مسلمان کہتی ہے،ہمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی پر چلنے والی اور “بنیان مرصوص” صفت کی حامل قوم سمجھتی ہے لیکن ہم ہی اپنی علیحدہ شناخت بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔

ہائے افسوس!ہماری عقلوں پر پردے پڑگئے ہیں۔ ہم نے غور و فکر کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔کیا یہ بات غور کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ ہندوستان کے سینکڑوں فسادات میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے متعلق یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ وہ کونسے مکتبۂ فکر سے وابستہ تھے۔ عراق،شام، فلسطین،افغانستان،برما اور کشمیر کے علاقوں میں شہید ہونے والے لاکھوں مسلمانوں سے کبھی ان سے جماعتی پہچان نہیں پوچھی گئیں۔ کاش ہم دشمنانِ اسلام کی ان سازشوں کو سمجھ پاتے۔! اب سوال یہ ہے کہ جب امت مسلمہ کی زبوں حالی اور ذہنی محکومی کی وجہ معلوم ہوچکی ہے تو اس کے حل کی کوششیں کیوں نہیں ہورہی ہیں؟ اور اگر ہورہی ہیں تو وہ کامیاب اور بااثر کیوں نہیں ہیں؟ اس کا آسان سا جواب یہی ہے کہ ہم اپنی صفوں کو مضبوط کرنا ہی نہیں چاہتے۔ آج ہر جماعت کے پاس اپنی ہی پالیساں بنی ہوئیں ہیں۔ آج جماعتوں اور ملی تنظیموں کے پاس اتحاد کا طریقۂ کار بس یہی ہے کہ ہمارے پرچم تلے آجاؤ، ہماری دکان کے خریدار بن جاؤتبھی تم فلاح پاؤگے۔آج ہر جماعت نے دین کے کسی نہ کسی ایک جُز کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے اور ساری توانائیاں اسی ایک جُز کی ترویج و اشاعت میں لگارہی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام کو متبادل نظام زندگی کے طور پر پیش کرنا یا زندگی کے تمام شعبوں پر اسلامی احکام و قوانین کو نافذ کرنا، اس مقصد حقیقی سے آج ملت کی بے شمار جماعتیں اور ادارے ناواقف ہیں۔بے شمار جماعتوں نے اسلام کے کسی ایک ہی جُز کو اپنا مقصد و نصب العین بنادیا ہے۔چند عبادتوں اور فرائض سے آگے سوچنے اور کرنے کی کسی جماعت کے پاس آج مہلت ہی نہیں ہے۔ بعض جماعتوں نے شرک و بدعت کی کمر توڑنے کے لیے لاٹھی اُٹھا رکھی ہے تو کچھ لوگ صرف نماز کے لیے دعوت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کہیں خانقاہوں میں صرف پیر ی مریدی اور اللہ ہُو اللہ ہُو کی صدا تک بات محدود ہے،تو بعض ملی جماعتوں کے نزدیک صرف سیاسی کوشیش ہی دین کی سربلندی کا واحد راستہ ہے۔ کسی گروہ نے صرف خدمتِ خلق کو ہی اپنا حقیقی نصب العین بنالیا ہے۔ آج کئی دینی جماعتیں اور ملی تنظیمیں اپنے اپنے خودساختہ نکاتوں پر کام کررہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ملت اسلامیہ میں انتشار و افتراق پیدا ہورہا ہے۔عوام فروعی معاملات میں الجھ کر اصل دین سے متنفر ہوتے جارہے ہیں۔ ہم غیر شعوری طور پر دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ اخوت اور بھائی چارگی، آپسی رواداری، خلوص،باہمی محبت جیسی اصطلاحوں کی اب کوئی معنویت ہی نہیں رہ گئی ہے۔ہماری صفوں سے اتحاد ختم ہوچکا ہے۔ ہمارے آپس کے معاملات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ کوئی ہم سے متاثر تو دور متنفر ہی ہوسکتا ہے۔مسلمانوں کے درمیان ایثار،قربانی،محبت اور خلوص جیسے الفاظ اب صرف تحریر و تقریر کی ہی زینت بن کر رہ گئے ہیں۔ذہن نشین رہے !کہ مسلمانوں کا آپسی اختلاف اور تفرقہ تمام مشکلات اور مسائل کی جڑ اور بنیاد ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود فرما دیا ہے (جس کا مفہوم یہ ہے ) کہ اگر تم آپس میں اختلاف کرو گے، تفرقہ کرو گے، اتفاق و اتحاد کو پس پشت ڈال دو گے تو پھر کمزور ہوجاؤ گے، تمہاری طاقت وقوت،شان و شوکت سب ختم ہوجائیگی، تمہاری عظمت و عزت خاک میں مل جائیگی،اور تم ذلیل و خوار ہو جاؤ گے۔لہذا اگر ہم اپنی کھوئی ہوئی عزت کو دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوکر حق و باطل کو خلط ملط کرنے سے بچنا ہوگا۔ اسلامی نظامِ زندگی کو نافذ کرنے کا مقصد ہی آج ملت میں آپسی اتحاد و اتفاق کو پیدا کرسکتا ہے۔جب تک ہم اسلامی نظام کو قائم کرنا اپنا مقصد نہیں بنالیں گےتب تک ہمارا آپسی اتحاد کمزور ہی رہے گا۔ امت مسلمہ کی طاقت،قوت،عزت، غلبہ، کامیابی اور کامرانی کا ذریعہ آپسی اتحادو اتفاق ہی ہے۔اور صرف اسی کے ذریعہ ہم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔ ورنہ ہم ایسے ہی ذلت ورسوائی، کمزوری،بے بسی،محکومی اور ذہنی غلامی کی پستی میں گرتے رہیں گے۔

ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں

ورنہ اِن بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

لہٰذا ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے فروعی و جزوی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اسلامی وحدت و اخوت اور بھائی چارگی کے رشتہ کو مضبوط و مستحکم کریں، کیوں کہ موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ مسلمانوں کے اندر ایک ایسی مضبوط اور منظم قیادت اتحاد کی شکل میں ابھرے،جو مستقبل میں اسلامی نظامِ زندگی کے نفاذ کا ذریعہ بن سکے۔

⚠️یہود کی اسلام کے خلاف ایک بڑی سازش ⚠️✍️ محمد حسن رضا (ثانیہ)متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ)

دوران مطالعہ ایک بڑا عجیب اور دل دہلا دینے والا واقعہ نگاہوں کے سامنے سے گزرا۔۔اس کو میں مختصراً اور بلا تمہید ذکر کرتا ہوں

برطانیہ (britain) میں مقیم ایک پاکستانی مسلمان نے برطانوی عیسائی دوست سے کہا۔۔ کہ مجھے کوئی انوکھی جگہ دکھاؤ ۔جہاں ہم پکنک کر سکیں۔انگریز دوست نے ایک جگہ جانے کا پروگرام بنایا اور اپنے مسلمان دوست کے لیے وہاں جانے کا اجازت نامہ بھی حاصل کر لیا۔ اس انگریز نے کہا کہ وہ بہت پر اسرار جگہ پر لے کر جائے گا، دونوں وقت پر اپنی گاڑی سے اس پر اسرار مقام کی طرف روانہ ہو گئے۔۔۔ ایک لمبے سفر کے بعد ایک جنگل پہنچے۔ مسلمان دوست کا بیان ہے کہ جنگل میں فوجی چھاؤنیاں تھیں، جگہ۔جگہ ہماری چیکنگ کی گئی اور اجازت نامہ دیکھا گیا۔۔ ایک جگہ ایسی بھی آئی کہ ہمیں اپنی گاڑی بھی چھوڑنی پڑی ۔ عیسائی دوست نے بتایا کہ اس سے آگے ہمیں فوجی گاڑیوں پر مطلوبہ جگہ جانا ہوگا۔ اور ایک چیز کا خیال رکھنا کہ وہاں کسی سے کوئی سوال نہیں کرنا۔۔۔
انٹری گیٹ سے گزر کر ہمیں گاڑی سے اتار دیا گیا ۔ اندر بہت سی عمارتیں تھیں ۔پیدل چلتے ہوئے ہم ایک عمارت میں داخل ہوئے ۔جہاں کلاس روم بنے ہوئے تھے۔ کلاسوں میں بچے قرآن مجید حفظ کر رہے تھے ۔ کس کلاس میں عربی ، فارسی، تفسیر و حدیث اور فقہی مسائل پڑھائے جا رہے تھے ۔ الغرض ، ان تمام کلاسوں میں اسلامی دینی تعلیم پڑھنے پڑھانے کا انتظام تھا۔
یہ سب دیکھنے کے بعد ہم جنگل سے باہر آئے اور انگریز دوست سے میں نے کہا ۔ یہ کونسا عجوبہ تھا ، ایسے مدارس تو پاکستان میں بہت ہیں۔
تو اس نے جواب دیا کیا تم نے نہیں دیکھا ؟ کہ جگہ ۔جگہ ہماری چیکنگ کی گئی ۔
یہ اس لیے کہ یہاں جو بچے قرآن وحدیث اور اسلامیات پڑھ رہے ہیں ۔ وہ تمام یہودی بچے ہیں ۔ انہیں عرب و عجم کے مسلم ممالک کے لیے تیار کیا جا رہا ہے ۔ (ماہنامہ پیغام شریعت دہلی ، ص 51)

ٹھہریے!!!
اور غور کیجیے کہ اسلام دشمن طاقتیں ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کس قدر سازشی انداز میں اور منصوبہ بند طریقے سے اپنا کام کر رہی ہیں ۔
اور ہم خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں. ۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق لینا چاہیے کہ جب دشمن ہمارے قرآن و حدیث اور فقہ کو ہمارے خلاف استعمال کرنے کی تیاری کر رہا ہے تو اس کے دفاع کا یہی ایک راستہ رہ جاتا ہے کہ ہم بھی اپنی قوم کے نونہالوں کو قرآن و حدیث اور فقہ کا عالم بنائیں تاکہ جب ان مقدسات پہ وہ اعتراضات لے کر آئیں تو ہم جواب دے کر اپنے مذہب کی حقانیت کو ثابت کرسکیں ۔
قارئین کرام! یاد رکھیں اسلام کی حفاظت کا فریضہ سب سے اہم ہے، اور فریضے کی ادائیگی عالم بن کر ہی کی جاسکتی ہے اس لیے خود بھی علم دین حاصل کیجیے اور اپنے متعلقین کو بھی سکھائیے ۔ پھر منظم اور منصوبہ بند طریقے سے اسلام کی حفاظت کے لیے” بنیان مرصوص “ کا پیکر بن جائیے ۔

✍️ محمد حسن رضا (ثانیہ)
متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ)

غوث العالم سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کا آخری نصیحت نامہ،، ۔۔۔۔۔۔پیشکش ۔۔۔۔۔۔۔تلمیذ محدث کبیر عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی مدظلہ العالی خادم ۔۔۔ سنی حنفی دارالافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت بنگال مسکونہ۔‌ ۔۔ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال7030786828


جب حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ کے وصال شریف کا دن قریب آیا ماہ محرم الحرام کا تھا ایک محرم الحرام سے لیکر دس محرم الحرام تک حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ اپنے اصحاب کےساتھ ملکر قرآن پاک کی تلاوت مع قرأت کے کرتے رہے اُنہی ایام میں اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا کہ[میری قبر باغ کے درمیان بناو اور طول وعرض اتنا ہوکہ نماز پڑھی جاسکے]حکم کے مطابق مرقد مبارک تیار کیا گیا پھر حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ خود ہی مرقد کے معاٸنہ کیلٸے تشریف لے گٸے پھر اُنہی ایام میں اپنے جملہ اصحاب اور خصوصا اپنے سجادہ نشین حضرت مخدوم الآفاق سید عبد الرزاق ابن سید عبد الغفور[رضی اللہ عنہما] المعروف حضرت نور العین رضی اللہ عنہ کو صبر و استقامت کی تلقین فرماتے رہے پھر ایک دن حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ چند ورق سادہ کاغذ کا لیکر اس مرقد مبارک پر تشریف لے گٸے جو کہ آپ ہی کے ارشاد کے مطابق آپ ہی کے لیٸے بنایا گیا تھا چنانچہ مکمل ایک رات دن اس بناٸے گٸے مرقد مبارک کے اندر حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ نے وقت گذارے اور وہی بناٸے گٸے مرقد مبارک کے اندر ان سادھے کاغذوں پر یہ نصیحت نامہ تحریر فرماکر تشریف لاٸے جس میں حمد ونعت کے بعد یہ تحریر تھا کہ[میرے برادان احباب اور اصحاب کو معلوم ہو کہ میں اللہ(عزوجل)اور اس کے رسول(ﷺ) پر ایمان رکھتا ہوں اور اسلام کے احکام کا پابند ہوں میرا عقیدہ ہیکہ حضرت مُحَمَّد ﷺ کے سب اصحاب(رضی اللہ عنہم اجمعین)مسلمین و تابعین افضل تھے اور اصحاب (یعنی اصحاب مُحَمَّد ﷺ)میں افضل واعلی ابو بکر(رضی اللہ عنہ)ہیں اُن کے بعد عمر۔پھر۔عثمان۔پھر۔مولی علی۔(رضی اللہ عنہم اجمعین)میرے فرزندوں اور معتقدوں کو معلوم ہوکہ میرا یہی عقیدہ تھا۔یہی ہے۔اور یہی ابد تک رہے گا۔جس شخص کا یہ اعتقاد نہ ہووہ گمراہ اور زندیق ہے میں(یعنی سید اشرف سمنانی) اس سے بیزار ہوں اور خدا اس سے راضی نہیں۔حق سبحانہ کی تجلی ستر ہزار بار اس فقیر پر ہوٸی۔اور اس قدر نوازش اور مرحمت ہوٸی کہ تحریر میں نہیں آسکتی۔عالم ملکوت سے ندا آٸی کہ اشرف ہمارامحبوب ہے۔اس کے سب مریدوں کے گناہ ہم نے معاف کٸے اور اُن کو اشرف کے طفیل میں بخشا۔یہ آخری بشارت میں(سید اشرف سمنانی) سب بھاٸیوں اور دوستوں کو پہنچاتا ہوں](ماخوذ از رسالہ۔پیغام اشرف۔صفحہ نمبر ٧٦ تا ٨٩۔ناشر مخدوم اشرف اکیڈمی کچھوچہ شریف)
بارگاہِ مخدومی کی حاضری اور بشارت
ہر سال کی طرح اس سال بھی عرس مخدومی میں لاکھوں عقیدت مندوں کی حاضری ہوگی ان شاءاللہ سلطان التارکین غوث العالم محبوب یزدانی حضور سید مخدوم اشرف سمنانی چشتی رضی اللہ عنہ نے اپنے زائرین کو بشارت عظمہ سنائی ہے سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہیکہ جو شخص میری قبر پر حاضری دیگا ان شاء اللہ اس کی حاجت پوری ہوگی اس کا انجام اچھا ہوگا وہ بخشا جائے گا اور اور دوزخ کی آگ اس پر حرام ہوگی(بشارت المریدین قلمی-بحوالہ ماہنامہ جام نور کا محدث اعظم ہند نمبر ص ١١؛بابت اپریل سنہ ٢٠١١ء)
ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ
اشرفی تو ناز کر اشرف پر
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﯿﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺳﻤﻨﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﻨﺎﮐﺤﺖ
ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻠﺒﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﯼ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺯﺍﻕ ﻧﻮﺭﺍﻟﻌﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻓﺮﺯﻧﺪ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﻭﻝ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺠﺎﺩﮦ ﻧﺸﯿﻦ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺁﭘﮑﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮨﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮩﻼﺗﯽ ﮨﮯ ۔ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ۔ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺍﺱ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﻭﻗﺘﺎً ﻓﻮﻗﺘﺎً ﺑﮍﯼ ﻋﻠﻤﯽ ﻭ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺟﻠﯿﻞ ﺍﻟﻘﺪﺭ ﮨﺴﺘﯿﺎﮞ ﮔﺬﺭﯼ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺷﺒﮩﯿﮧ ﻏﻮﺙ ﺍﻻﻋﻈﻢ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﻣﯿﺎﮞ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﺪﺙ ﺍﻋﻈﻢ ﮨﻨﺪ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺷﺮﻓﯽ ﮐﭽﮭﻮﭼﮭﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﻗﻄﺐ ﺭﺑﺎﻧﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺷﺎﮦ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪﻃﺎﮨﺮ
ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻻ ﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﺠﯿﻼﻧﯽ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﺸﺎﺋﺦ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﺷﺎﮦ ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻻﺷﺮﻓﯽ ﺍﻟﺠﯿﻼﻧﯽ ﻗﺪﺱ ﺳﺮﮦ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﻗﺎﺑﻞ ﺫﮐﺮ ﮨﯿﮟ ۔ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺍﺷﺮﻓﯿﮧ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻓﺨﺮ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﻭ ﻣﻌﺘﻘﺪﯾﻦ ﺍﺳﻮﻗﺖ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﻭ ﻣﺸﺎﺋﺦ ﺑﮭﯽ ﮐﺜﯿﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ۔

۔۔۔۔۔۔پیشکش ۔۔۔۔۔۔۔
تلمیذ محدث کبیر عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری
خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی مدظلہ العالی
خادم ۔۔۔ سنی حنفی دارالافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت بنگال
مسکونہ۔‌ ۔۔ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال
7030786828

تکبر ایک مہلک مرض ہے،، :✍🏻 محمد مقصود عالم قادری عفی عنہ اتردیناجپور مغربی بنگال

  اللہ تعالی نے انسان کو جن نعمتوں سے مالامال کیا ہے  ان کے بدلے میں اگر انسان اللہ تعالی کا شکر بجا لائے  اور تحدیث نعمت کے طور پر دوسروں کے سامنے ظاہر کرے تو اللہ تعالی مزید نعمتیں عطا فرماتا ہے

اللہ کریم کا ارشاد ہے
“لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ”
اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا (ابراہیم آیت 7)
لیکن اگر اللہ عزوجل کی دی ہوئی نعمت کو محض اپنی کاوشوں سے حاصل شدہ خیال کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے ظاہر کرے اور اپنے آپ کو اعلی سمجھے اور دوسروں کو حقیر تو یہی تکبر کہلاتا ہے ،تکبر ایک ایسا باطنی مرض ہے جس کو لاحق ہو جائے وہ ہلاک و برباد ہو جاتا ہے جس طرح معلم الملکوت (فرشتوں کے استاد) کامرتبہ پانے والے ابلیس نے تکبر کیا تو اپنے اعلیٰ ترین مقام ومنصب سے محروم ہوکر جہنمی قرار پایا،
حضوراعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے فرمایا:کہ تکبر کا علم سیکھنا اہم فرائض میں سے ہے (فتاویٰ رضویہ ج 23 ص 624 )
ذیل میں تکبر کی مذمت کے حوالے سے چند فرامین مصطفی ﷺ تحریر کیے جاتے ہیں ان کو گہری نگاہ سے پڑھئے اور اپنا محاسبہ کیجئے کہ کہیں یہ مہلک بیماری ہمارے اندر تو نہیں پائ جاتی ہےاگر احساس ہو تو فوری طور پر صدق دل سے توبہ کیجۓ
(1) حضور پاک ﷺنے فرمایا جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا (مسلم شریف کتاب الایمان حدیث نمبر91)
(2) آپ ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے بڑائی میری چادر اور عظمت میرا تہبند ہے جو کوئی ان میں سے کسی کے بارے میں بھی مجھ سے جھگڑے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں (احیاء العلوم ج 3 ص 991 المدینہ العلمیہ دعوت اسلامی )
یعنی عظمت و کبریائی صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے ان دونوں میں اس کا کوئ شریک نہیں
جس طرح کوئ شخص اپنی چادر اور تہبند جو کہ اس کا لباس ہوتا ہے اپنے علاوہ کسی غیر کو شریک نہیں کر سکتا
(3)سرکار مدینہ ﷺنے فرمایا کہ بدتر ہے وہ شخص جو تکبر کرے اور حد سے بڑھے اور سب سے بڑے جبار ﷻ کو بھول جائے ،بدتر ہے وہ شخص جو سرکشی کرے اور سب سے بلند اور بڑائی والی ذات کو بھول جائے،بدتر ہے وہ شخص جو غافل ہو اور کھیل کود میں پڑا رہے اور قبر اور اس میں بوسیدہ ہونے کو بھول جائے (احیاء العلوم ج 3 ص992 العلمیہ المدینہ دعوت اسلامی )
(4)مدینے والے آقا ﷺنے فرمایا ہر سخت مزاج اترا کر چلنے والا، متکبر ،خوب مال جمع کرنے والا اور دوسروں کو نہ دینے والا جہنمی ہے جب کہ اہل جنت کمزور اور کم مال والے ہیں (احیاء العلوم ج 3 ص993 المدینہ العلمیہ دعوت اسلامی )
(5) جو شخص اس فانی دنیا میں اپنی دولت، شہرت، اور عزت پر تکبر کرے گا تو اسے قیامت کے دن ذلیل و خوار کرکے اٹھایا جائے گا چنانچہ ہمارے پیارے آقاﷺ نے فرمایا قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکل والی چیونٹیوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی،انہیں جہنم کے بولَس، نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی ،انہیں ،،طینة الخبّال یعنی جہنمیوں کی پیپ ،،پلائی جائے گی (احیاء العلوم ج 3 ص993 المدینہ العلمیہ دعوت اسلامی )
اس کے علاوہ بھی قرآن مجید کی بہت ساری آیتیں اور حدیثیں تکبر کی مذمت پر موجود ہیں جوکہ یہاں لکھنا ممکن نہیں
،اللہ تعالی ہم سب کو تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرماۓ
آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

مزارات پر میلوں ٹھیلوں کا عذاب.. از ۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت خادم ۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال7030786828


آج کل ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مزارات مقدسہ پر جس طرح کے ایمان سوز میلے ٹھیلے منعقد کئے جاتے ہیں اور ان میں ہمہ قسم کی دھما چوکڑی مچائ جاتی ہے علماء اہل سنّت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو ایسے میلوں پر جانے سے سختی سے روکیں یہ میلے ٹھیلے جہاں مزارات کی سخت بے حرمتی کا سبب ہیں انہیں سے اہل سنت کی بھی شدید بدنامی ہو رہی ہے ہمیں حیرت ہے کہ ہمارے علماء و فقہاء اور خطباء و مقررین کے قلم اور زبانیں اس سلسلے میں اپنا اجتماعی کردار ادا کرنے سے کیوں عاجز آگیے ہیں اس میں کوی شق نہیں کہ عرس کی محفل. منعقد کرنا شرعی طور پر ایک جائز کام ہے جس سے بہت سے دینی مصالح اور شرعی فوائد وابستہ ہیں لیکن عرسوں کے آڑ میں فواحش و منکرات کا بازار گرم کرنا جوا کھیلنا شراب پینا سرکسیں منعقد کرنا نیم عریاں عورتوں کا رقص کرنا کان پھاڑ نے والی آوازوں کے ساتھ سارے شہر میں گانوں کا گونجنا بدکاری حرام کاری کی دعوتوں کا عام ہونا کیا یہ بھی کوئ عرس کا حصہ ہیں؟ یا پھر عرس کے دنوں میں یہ گندے اور غلیظ کام جائز ہو جاتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ آج مزارات کے زیر سایہ ان تمام بدکاریوں کو دینی جواز فراہم کر دیا گیا ہے اور جاہل لوگ ان خبیث کاموں کو کار ثواب سمجھ کر کرتے ہیں یہ میلے ٹھیلے جرائم کی آماجگاہ بن چکے ہیں غنڈے لوفر بدمعاش چور اچکے زانی قاتل ڈاکو لوطی مراثی جواری شرابی غرضیکہ دنیا بھر کے ذلیل ترین اور ننگ انسانیت لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں اور ان مقامات مقدسہ پر ہر وہ بدترین کام ڈنکے کی چوٹ پر ہوتا ہے جس سے اِنسانیت منھ چھپائے پھر تی ہے اور اسلام کا سرعام جنازہ اٹھ رہا ہوتا ہے _
مزید برآں ان میلوں ٹھیلوں کا مسلک اہل سنت کے سر تھوپنا بھی ایک جاہلانہ اور شیطانی حرکت ہے کیونکہ علماء اہل سنّت انہیں کل بھی حرام قرار دیتے تھے اور آج بھی حرام قرار دیتے ہیں ہم میلوں کی ان تمام غیر شرعی رسوم و روایات سے کلیتا بے زاری کا اعلان کرتے ہیں _ لیکن ناجائز کاموں کو دیکھ کر جائز کاموں کو بھی ناجائز قرار دے دینا بھلا یہ کہاں کی عقلمندی ہے میلے ٹھیلے منعقد کرنا اگر عملی جہالت ہے تو عرسوں کو ناجائز قرار دینا علمی جہالت ہے لہذا مہر بانی فرما کر ناجائز سے روکیں اور جائز کو جائز رہنے دیجئے
خیر! آمدم برسر مطلب ان میلوں ٹھیلوں کا نہ تو دینی و شرعی جواز ہے اور نہ ہی قانونی و اخلاقی یہ چھوٹے چھوٹے اور بڑے بڑے ہزاروں میلے ظلم ہی ظلم اور جرم ہی جرم ہیں ان سے رکنا اور روکنا ہر مسلمان پر فرض عین ہے خاص طور پر علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ان اسلام کش اور دین دشمن میلوں کا خلاف برسر پیکار ہوجائیں اور اپنی تمام تر علمی و عملی توانائیوں کے ساتھ انہیں رکوا کر ہی دم لیں..
اگر علمائے کرام نے اجتماعی طور پر اپنا یہ فرض ادا نہ کیا تو پھر وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لیے تیار ہو جائیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو غلط کام کو دیکھے اور اس سے نہ روکے تو وہ گونگا شیطان ہے ہمارے بہت سے خطباء و مقررین جو علم سے کورے ہوتے ہیں اور فقط سُر گُر کی بنا پر عوام میں اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیتے ہیں میلوں ٹھیلوں کا اس جرم میں وہ بھی برابر شریک ہیں کیونکہ وہی ان میلوں پہ جاکر تقریریں کرتے ہیں اور عوام کی صحیح تربیت کر نے کہ بجائے انہیں لطیفے چٹکلے سناتے ہیں نیز انہیں یہ حق ہی کس نے دیا ہے کہ وہ عوام کو وعظ سنائیں جبکہ ان کا وعظ سنا ہی شریعت میں حرام ہے وعظ کرنے کے لیے آدمی کا مستند عالم ہونا ضروری ہے جو نہ صرف یہ کہ شہاۃ العالمیہ پاس ہو بلکہ اس کے ساتھ علم دین پر کامل عبور بھی رکھتا ہو

ہمیں مرشد کی ضرورت کیوں؟ از:(مولانا) عبدالسبحان مصباحی،استاذ:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

موجودہ دور مادیت کا دور ہے ایک طرف بد عقیدگی کا سیلاب جو کہ مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کو تباہ کر رہا ہےاور دوسری جانب گناہ کا سیلاب ہے جو کہ مسلمانوں کی روحانیت کو تباہ کر رہا ہے۔

اگر ہم موجودہ ماحول اور معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں تزکیۂ نفس و مرتبۂ احسان کا حصول بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ہر طرف بے راہ روی اور گناہوں کی بھرمار نظر آتی ہے ۔آخر ایسا کون سا کام ہے جو ہمارے ایمان کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور ہمارے باطن کو پاک و صاف کردے،جس کی صحبت اور نگاہ کرم گناہوں سے زنگ آلود دل کو آئینہ کی طرح صاف و شفاف کر دے۔ وہ کام کسی نیک ہستی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے ۔ اس کے ہاتھ پر بیعت ہونا ہے۔

صحابۂ کرام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ اقدس پر بیعت کی سعادت حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید میں اس کے متعلق احکامات صادر فرمائے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بہت سی احادیث بھی مرشد کامل کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہ نمائی کے لیے دو ذریعے بنائے ہیں ایک قرآن اور دوسرا حدیث۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دینا یا اپنے پسندیدہ حصے کی پیروی کرنے والا دین سے کچھ حاصل نہ کر پائے گا بلکہ وہ دین و دنیا کے تمام معاملات میں صرف کشمکش اور ناقابلِ حل مسائل کا شکار رہے گا۔

حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ قرآن کی عملی تفسیر اور دین کے تمام احکام کا عملی نمونہ ہے ۔ آپ کا ہر عمل خواہ وہ دین کے ظاہری پہلوؤں کے متعلق ہو یا باطنی پہلوؤں کے متعلق‘ تمام اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

بیعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’بیع‘ سے نکلا ہے، جس کا لفظی معنیٰ سودا کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں کسی مقدس ہستی یا صالح بزرگ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرنے کا نام بیعت ہے۔بیعت بھی اللہ تعالیٰ سے لین دین کے سودے کا نام ہے جس میں بیعت کرنے والا اپنا سب کچھ جو در حقیقت پہلے ہی اللہ تعالیٰ کا ہے، اللہ کے حوالے کرتا ہے اور بدلے میں اللہ کی رضا اوراللہ کی ذات کا طالب بنتا ہے۔

پس جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے اللہ سے سودا ہی نہ کیا اور اُن کے بعد ان کے خلفا یعنی صحابۂ کرام و اولیاے کاملین کے وسیلے سے اللہ سے بیعت ہی نہ کی وہ اللہ سے کیسے اور کیا تعلق جوڑ ے گا، کیا دے گا اور کیا لے گا۔

پیری مریدی کا ثبوت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

ترجمہ: ’’ بے شک جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بیعت کرتے ہیں اور اللہ کا ہاتھ[دست قدرت] ان کے ہاتھوں پر ہے پس جس نے توڑ دیا اس بیعت کو تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی ذات پر ہو گا اور جس نے پورا کیا اس عہد کو جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا تو وہ اس کو اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔(سورہ فتح آیت10)۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے ہاتھ پر بیعت کرنا صحابۂ کرام کی سنت ہے (جلد 9 صفحہ 360 )۔

بیعت اللہ کی رضا اور مومنین کے دل کی تسکین کا ذریعہ بھی ہے کیوں کہ یہ ان کے اللہ سے رشتہ اور تعلق قائم ہونے کی دلیل ہےصحابۂ کرام نے حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے درخت کے نیچے بیعت کی تو اللہ تعالی ان سے راضی ہو ا اور ارشاد فرمایا ۔

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہوچکا جس وقت وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے درخت کے نیچے بیعت کرتے ہیں(سورہ فتح آیت 18 )۔

اور حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت کے وقت نہ تھے،حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا اور دوسرے ہاتھ کو دست قدرت کا نائب بنایا اور فرمایا یہ اللہ کا دست قدرت ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے تو آپ نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور بیعت کی ۔(صحیح بخاری )۔

مذکورہ قرآنی آیات و  احادیث سے جہاں بیعت کا ثبوت ہوا  وہیں ساتھ ہی  ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ بیعت کے لیے سامنے ہونا ضروری نہیں ہے

پیری مریدی کے ثبوت پر مذکورہ اصل کھلی دلیل ہے جس کا انکار آج تک کسی مجتہد نے نہیں کیا اور جو بیعت سے انکار کرے وہ کم عقل اور گمراہ ہے ۔

اللہ تعالی سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرماتا ہے : یوم ندعوا کل اناس بامامھم

ترجمہ : جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے(آیت نمبر 71 )۔

تفسیر نور العرفان میں اس آیت کے تحت مفتی احمد یار خان صاحب نعیمی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں ۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیامیں کسی صالح کو اپنا امام بنالینا چاہیے،شریعت میں تقلید کر کے اور طریقت میں بیعت کر کے تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو ۔

اگر صالح امام نہ ہو گا تو اس کا امام شیطان ہوگا ۔اس آیت میں تقلید ؛بیعت اور پیری مریدی سب کا ثبوت ہے

پیر کے لیے کتنی شرطیں ہونا ضروری ہیں

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے پیر کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں ۔

پہلی شرط : سنی صحیح العقیدہ ہو۔

دوسری شرط : اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔

تیسری شرط : فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو

چوتھی شرط : اس کا سلسلہ نبی کریم ﷺ تک متصل یعنی ملا ہواہو۔ (فتاوٰی رضویہ ، ج ۲۱، ص ۶۰۳)۔

ان چاروں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں ہے اور ایسا شخص پیر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔اگر کسی نے ایسے شخص سے بیعت کی ہے تو اس کی بیعت صحیح نہیں، اسے چاہیے کہ ایسے شخص سے بیعت ہو جس میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہوں ۔

جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے؟

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’جس کا کوئی پیر نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے۔‘‘( عوارف المعارف)۔

امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رسالہ قشیری میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ’’بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کا پیر کوئی نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے (رسالۂ قشیریہ)۔

میر عبد الواحد بلگرامی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب سبع سنابل میں فرماتے ہیں کہ ’’اے جوان تو کب تک چاہے گا کہ بغیر پیر کے رہے اس لیے کہ مہلت دینے اور ٹالتے رہنے میں مصیبت ہی مصیبت ہے ۔اگر تیرا کوئی پیر نہیں ہے توشیطان تیراپیر ہے جو دین کے راستوں میں دھوکا اور چالوں سے ڈاکہ ڈالتا ہے ۔ اور فرماتے ہیں بغیر پیر کے مرجانا مردار موت کے مانند ہے ۔ (سبع سنابل)۔

دیوبندیوں کے پیشوا رشید احمد گنگوہی کہتے ہیں کہ ’’مرید کو یقین کے ساتھ یہ جاننا چاہیے کہ شیخ کی روح کسی خاص مقیدومحدود نہیں پس مریدجہاں بھی ہو گا خواہ قریب ہو یا بعید تو گو شیخ کے جسم سے دور ہے لیکن اس کی روحانیت سے دور نہیں ‘‘ (امداد السلوک ،ص ۶۷ ،مولف رشید گنگوہی ،ادارۂ اسلامیات)۔

ذرا غور کریں ایسے ایسے جید عالموں اور خود دیوبندیوں کے امام کہتے ہیں کہ پیر کے بغیر ہمارا ایمان نہیں بچ سکتا اور اس کی روح سے مرید کو فیض پہنچتا رہتا ہے۔ تو پتہ چلا مرشد کا دست مرید کے سر پر ہونا ضروری ہے۔

کیا بیعت ہونا ضروری ہے

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مرید ہونا کوئی ضروری ہے ؟ بس نماز پڑھو ،روزہ رکھو ،زکاۃ دو اور فرائض و واجبات کی پابندی کرو کامل پیر کی کیا ضرورت ہے ؟

اس کا جواب ہم حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ سے لیتے ہیں ؛آپ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے

ترجمہ: پیر کا دامن تھام لے کہ یہ سفر بغیر پیر کے آفتوں اور خوف سے بھرا ہوا ہے

یہ راستہ وہ ہے جو تونے پہلے کبھی نہیں دیکھا ،خبر دار اس راستہ پر تنہا نہ جانا اور مرشد سے ہر گز منہ نہ موڑ ۔

جو شخص بغیر مرشد کے اس راستہ پر چلتا ہے وہ شیطان کی وجہ سے گمراہ اور ہلاک ہو جاتا ہے ، آگے پھر مولانا روم فرماتے ہیں کہ: اے نادان سمجحھ اگر پیر کا سایہ نہ ہو تو شیطانی وسوسے تجھے بہت پریشان کریں گے-

مرید بننے کے فوائد : علامہ عبد الوہاب شعرانی اپنی کتاب میزان الشریعۃ الکبری میں فرماتے ہیں کہ سب امام اولیا و علما اپنے پیروکاروں اور مریدوں کی شفاعت کرتے ہیں اور اس وقت مدد کرتے ہیں جب ان کے مرید کی روح نکلتی ہے جب منکر نکیر اس سے قبر میں سوال کرتے ہیں ؛ جب حشر میں اس کے نامۂ اعمال کھلتے ہیں جب اس سے حساب لیا جاتا ہے یا جب اس کے اعمال تولے جاتے ہیں اور جب وہ پل صراط پر چلتا ہے ان تمام مراحل میں وہ اس کی نگہبانی کرتے ہیں اور کسی جگہ بھی غافل نہیں ہوتے (جلد 1 صفحہ 53 )۔

کامل مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے ایک فائدہ یہ بھی ملتا ہے کہ مرید تو دن بھر کام کاج میں لگا رہتا ہے اور رات میں سو جاتا ہے مگر کامل مرشداپنی عبادتوں کے بعد مرید کی جان و مال اور ایمان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ اس طرح بیٹھے بیٹھے مرشد کی دعاؤں کا فیضان مرید کو ملتا ہے اور مرید کے ایمان و عقیدہ ،جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہوتی ہے۔

اللہ تعالی ہم سبھی مسلمانوں کو کسی بھی کامل مرشد کی رہ نمائی میں زندگی گذارنے کی توفیق مرحمت فرمائے-آمین