WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

مظلوم شہزادے کی شہادت:ایک عبرت ناک سانحہ : از قلم : خلیل احمد فیضانی

تاریخ عالم کا ورق ورق ہمارے لئے عبرتوں کا مرقع ہے ۔ بالخصوص تاریخ کے بعض واقعات تو انسان کے ہر شعبہ زندگی کے لئے ایسے عبرت ناک ونصیحت آموز ہیں کہ جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی انہیں کبھی بھلایا جاسکتا ۔ انہیں واقعات میں سے ایک واقعہ میدانِ کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کابھی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو وجود بخشا ہے اس وقت سے لے کر آج تک اور شاید قیامت کی صبح تک کوئی ایسا واقعہ رُونما نہ ہوکہ جس پر خود تاریخ کو بھی رونا آگیا ہو ، لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ ایسا درد ناک اور اندوہ ناک واقعہ ہے کہ جس پر ظالم انسانوں کی سنگ دل تاریخ بھی ہچکیاں لے لے کر روتی رہی ہے۔ اس میں ایک طرف ظلم و ستم ، بے وفائی و بے اعتنائی اور محسن کشی و نسل کشی کے ایسے الم ناک اور درد انگیز واقعات ہیں کہ جن کا تصور کرنا بھی آج کل ہم جیسے لوگوں کے لئے ناممکن ہے ۔ اور دوسری طرف اہل بیت اطہار ، رسول پاک ا کے چشم و چراغ اور اُن کے ستر، بہتر متعلقین کی ایک چھوٹی سی جماعت کا باطل کے مقابلہ کے لئے ثابت قدمی اور جان نثاری..یہ ایسے محیر العقول واقعات ہیں کہ جن کی نظیر تمام عالم انسانیت کی تاریخ میں ملنا بہت ہی مشکل ہے..-
آپ کی مظلومانہ شہادت:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کے شدید اصرار پر جب رخت سفر باندھنے کا ارادہ فرمایا حضرت عبداللہ بن عمر ،حضرت عبداللہ بن عباس اور آپ کے بھائی محمد بن حنیفہ رضی اللہ تعالی عنھم نے خیرخواہانہ طور پر آپ کو کوفہ جانے سے روکا۔ مگرچونکہ آپ سفر کا عزم مصمم کرچکے تھے اس لیے یہ مشورہ قبول نہ کیا اور سفرپرروانہ ہوگئے۔ دوران سفر آپ نے اپنے چچازاد برادر مسلم بن عقیل کو قاصد بناکر کوفہ کی طرف بھیجا تاکہ وہاں کے حالات سے آگہی حاصل کریں اور ہمیں مطلع کریں کہ اگر حالات درست ہوں تو ہم یہ سفر اختیار کریں۔ جب مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ کوفہ پہنچے تو بارہ ہزار کوفیوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا اور آپ کے دست حق پر بیعت کی۔ ان حالات کے پیش نظر آپ نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو اطلاع دی کہ حالات سازگار ہیں آپ تشریف لے آئیں۔ حضرت حسین سفر پر ہی تھے کہ آپ کو اطلاع ملی کہ عبیداللہ بن زیاد نے مسلم بن عقیل کو قتل کروادیا ہے۔ یہ خبر سن کر آپ کے رفقاے سفر نے قصاص لئے بغیر جانے سے انکار کردیا۔
چناں چہ قافلہ روانہ ہوا۔ مقام قادسیہ سے کچھ آگے پہنچا تو حر بن یزید ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ نمودار ہوا اور اسے اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ حضرت حسین کو مع ان کے لشکر کے گرفتار کرکے ابن زیاد کے سامنے پیش کیا جائے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یہ منظر دیکھا تو اسے تنبیہ فرمائی کہ تم نے خود ہی خطوط لکھ کر ہمیں بلوایا تھا، اب دغابازی کیوں کرتے ہو؟ پھر آپ نے تمام خطوط اس کو دکھائے تو حربن یزید نے آپ کو دھمکی آمیز لہجہ میں کہا : ’’جنگ سے بازرہو! بصورت دیگر قتل کردیئے جاؤگے۔‘‘ یہ سن کرآپ نے نے فرمایا: (میں روانہ ہوتا ہوں اور نوجوان مرد کیلئے موت کوئی ذلت نہیں ہے، جب کہ اس کی نیت حق ہو اور راہ اسلام میں جہاد کرنے والا ہو) پھر آپ نے دوسرا قاصد روانہ کیا جس کا نام قیس بن مسھر تھا، ابن زیاد نے اس کو بھی قتل کروادیا جب اس بات کی خبر آپ کو ہوئی تو آپ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔ بالآخر آپ بہت طویل مسافت طے کرکے 2محرم 60ھ میں میدان کربلا میں پہنچ گئے۔ ادھر ابن زیاد نے عمر بن سعد کو ایک لشکر کا سپہ سالار بناکر میدان جنگ کی طرف روانہ کردیا۔ جب اس کی آپ سے ملاقات ہوئی تو آمد کا مقصد پوچھا، حضرت حسین نے عمر بن سعد کے سامنے ایک پیشکش کی آپ لوگ میری طرف سے ان تین چیزوں میں سے ایک چیز کواختیار کرلیں:
1: میں اسلام کی سرحدوں میں سے کسی سرحد کی طرف جانا چاہتا ہوں مجھے جانے دیا جائے تاکہ وہاں خود اسلام کی حفاظت کرسکوں۔
2: میں مدینہ منورہ کی طرف چلا جاؤں مجھے واپس جانے دیا جائے۔
3: مجھے موقع دیا جائے کہ میں یزید سے اس معاملہ میں بالمشافہ بات کرسکوں۔
عمر بن سعد نے اس بات کو قبول کیا اور ابن زیاد کو یہ پیش کش لکھ بھیجی جس کے نتیجہ میں ابن زیاد نے حکم بھیجا کہ میں صرف ایک بات قبول کرتا ہوں کہ حسین بن علی اپنے پورے لشکر کے ساتھ ہماری اطاعت کرلیں۔ حضرت حسین کو جب اس بات کی خبر ہوئی تو اپنے متبعین کو نہایت پرجوش انداز میں خطبہ دیا۔ تمام رفقاء نے وفاداری کا بھرپور یقین دلایا۔ رات تمام حضرات نے اپنے رب کے حضورآہ زاری کرتے ہوئے گزاردی۔ دشمن کے مسلح فوجی ساری رات خیموں کے گرد گھومتے رہے۔ آخر دس محرم کو فجر کی نماز کے بعد حضرت حسین نے اپنے اصحاب کی صفیں قائم کیں جن کی کل تعداد 72تھی۔
میدان کربلا میں عمر بن سعد اپنے لشکر کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اس طرح باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی۔ دونوں طرف سے ہلاکتیں اور شہادتیں ہوتی رہیں۔ آخر کار دغابازوں کا لشکر بظاہر حاوی ہوا۔ نتیجتاً حضرت حسین کا خیمہ جلادیا گیا۔ دشمنوں نے انتہائی سفاکی اور بےدردی سے معصوم بچوں کو بھی خون میں نہلانے سے دریغ نہ کیا۔ چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا جب زرعہ بن شریک نے نواسہ رسول کے بائیں کندھے پر تلوار کا وار کیا، کمزوری سے پیچھے کی طرف ہٹے تو سنان بن ابی عمروبن انس نخعی نے نیزہ مارا جس کی وجہ سے آپ زمین پر تشریف لے آۓ۔ پھر آگے بڑھ کر اس نے خاتون جنت کے نورنظر کو ذبح کردیا پھر سر مبارک جو منبع انوار و برکات تھا کو تن مبارک سے جدا کردیا۔ اس خون ریز معرکہ میں حضرت حسین کے 72ساتھی شہید اور کوفیوں کے 88 آدمی قتل ہوئے۔ ظلم بالائے ظلم یہ کہ حضرت حسین کا سر کاٹ کر ابن زیاد کے دربار میں پیش کیا گیا تو اس نے انتہائی گستاخی کرکے چھڑی کے ذریعے نواسہ رسول کے ہونٹوں کو چھیڑ کر جسد خاکی کی توہین کی اور یزید کو لکھ بھیجا کہ میں نے حسین کا سر قلم کردیا ہے۔جنت اپنے سردار کی راہ تک رہی تھی ، دسویں محرم کے ڈھلتے سورج نے انسانیت کی تاریخ کا یہ درناک واقعہ دیکھا جس کو خون سے رنگین دھرتی نے اپنے سینے پر ہمیشہ کیلئے نقش کردیا نوجوانان جنت کے سردار اور خانہ نبوت کے چشم وچراغ نے اپنے خون سے شجر اسلام کو سیراب کرکے انمٹ داستان رقم کی جو آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے

مسلمانوں پرقرآن مقدس کے حقوق اور ہماری ذمہ داریاں،،از:- محمد شمیم احمد نوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر (راجستھان)

قرآن مقدّس اللّٰہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی آخری کتاب ہے، جسے انسانیت کی ہدایت کے لئے حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل کیا گیا،اس کتاب ہدایت سے انسان استفادہ اسی وقت کر سکتا ہے جب وہ اسے پڑھے گا، اس کی تلاوت اور اس کا مطالعہ کرے گا- حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا: “اللّٰہ تعالیٰ اس کتاب [قرآن مجید] کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سرفراز فرمائے گا اور اسی کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل کر دے گا”… (مسلم ج/1 ص/ 272)
سر فراز اللّٰہ کے حکم سے وہی ہوں گے جو قرآن کے احکام کی پیروی کریں چنانچہ ابتدائی چند صدیوں میں مسلمان جب ہر جگہ قرآن کے عامل تھے تو اس پر عمل کی برکت سے وہ دین و دنیا کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوئے، لیکن جب سے مسلمانوں نے قرآن کے احکام پر عمل کرنے کو اپنی زندگی سے خارج کر دیا تب سے ہی ان پر ذلت ورسوائی کا عذاب مسلط ہے- کاش مسلمان دوبارہ قرآن مقدّس سے اپنا رشتہ جوڑتے، تاکہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ واپس ہو جاتی-

قرآن پر ایمان لانا ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے، جو شخص قرآن پر ایمان نہیں رکھتا وہ ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتا- یہ ایک ایسی تنہا آسمانی کتاب ہے جو تقریبا ڈیڑھ ہزار سال سے اب تک اسی اصل عربی زبان میں بغیر کسی تحریف و تبدیل کے محفوظ ہے-اس کی تلاوت باعث برکت و ثواب ہے، اس کا سمجھنا رشد و ہدایت کا سبب اور اس کے مطابق عمل کرنا فلاح اور کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہے-

قرآن دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، دنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جسے کروڑوں انسان روزآنہ کم سے کم پانچ مرتبہ ضرور پڑھتے ہوں، یہ اعجاز صرف اور صرف قرآن مقدّس کو ہی حاصل ہے-
قرآن پر ایمان لانے کا باقاعدہ مطلب یہ ہے کہ اسے اللّٰہ تعالیٰ کا کلام مانا جائے،اسے آخری نازل شدہ الہامی کتاب تسلیم کیا جائے،اس کی تعلیمات اور احکامات کو برحق مانتے ہوئے ان پر عمل کیا جائے-

آئیئے اب ہم دیکھتے ہیں کہ بحیثیت مسلمان ہمارے اوپر قرآن کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں؟ اور ہم ان کی بجاآوری کہاں تک کر رہے ہیں؟

یوں تو ہم مسلمانوں پر اللّٰہ ربّ العزت کے اتنے احسانات ہیں کہ اگر ہم اُنہیں شمار کرنا چاہیں تو شمار نہیں کر سکتے، اور اگر شکرانِ نعمت کے طور پر زندگی بھر اس کا شکر ادا کرتے رہیں تو بھی وہ ان احسانوں کا بدل نہیں ہو سکتے، چنانچہ اللّٰہ کے احسانوں میں سے ایک عظیم ترین احسان یہ ہے کہ اس نے ہم انسانوں بالخصوص مسلمانوں کی ہدایت و رہنمائی کی خاطر اپنا پیارا کلام اپنے محبوب نبی آخر الزماں صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل فرمایا-اب ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہم پر قرآن شریف کے کیا حقوق عائد ہوتے ہیں؟… پھر یہ دیکھیں کہ آیا ہم انہیں ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟ اور اگر یہ معلوم ہو کہ ایسا نہیں ہے تو اس بات پر غور و فکر کریں کہ ان کی ادائیگی کی کیا صورت ممکن ہوسکتی ہے؟ اور پھر بلا تاخیر اس کے لئے لیے سرگرم عمل ہو جائیں- اس لیے کہ اس کا براہ راست تعلق ہماری عاقبت اور نجات سے ہے، اور اس معاملے میں کسی کوتاہی کی تلافی محض قرآن کی شان میں قصیدے پڑھنے سے بہرحال نہیں ہوسکتی-

مسلمانوں پر قرآن مقدّس کے حقوق: جس طرح قرآن مقدّس پر ایمان لانا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ہر مسلمان قرآن مقدّس کے درج ذیل بنیادی پانچ حقوق ادا کرے!
1: قرآن پر سچے دل سے ایمان رکھے- 2: قرآن کی تلاوت کرے-
3:قرآن کو سمجھنے-
4:قرآن کی تعلیمات اور احکامات پر عمل کرے-
5:قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرے-

پہلاحق: قرآن پر ایمان لایا جائے:- قرآن پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اس کا اقرار کیا جائے کہ قرآن اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہے جو حضرت جبرئیل علیہ السّلام کے ذریعہ اللّٰہ کے آخری اور محبوب پیغمبر حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل ہوا- اس اقرار سے انسان دائرۂ اسلام میں داخل تو ہوجاتا ہے لیکن حقیقی ایمان اس وقت نصیب ہوتا ہے جب ان تمام امور پر ایک پختہ یقین اس کے دل میں پیدا ہو جائے-اب یہ بات بھی بظاہر عجیب سی لگ رہی ہے کہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ قرآن مقدّس پر ایمان لایا جائے حالانکہ دیگر ضروریات دین کے ساتھ قرآن پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا-
معاذاللہ اگر کوئی شخص قرآن کے کلام اللّٰہ ہونے کا منکر ہو جائے تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائےگا، مگر اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں کہ ایمان کے دو حصے ہوتے ہیں(1) زبان سے اقرار کرنا-(2)دل سے تصدیق کرنا، اور ایمان تبھی مکمل ہوتا ہے جب زبانی اقرار کے ساتھ دل کا یقین بھی انسان کو حاصل ہو جائے… اس لیے کہ جس چیز پر ہمارا باقاعدہ یقین ہو ہمارا عمل اس کے خلاف نہیں جاتا، جیسے ہر آدمی کو معلوم ہے کہ آگ جلاتی ہے اس لیے کوئی شخص آگ میں اپنی انگلی بھی نہیں ڈالتا،بلکہ انسانوں کا تو عام طور پر طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ جس چیز پر شک بھی ہو جاتا ہے اس سے بھی انسان احتیاط برتتا ہے، جیسے اکثر لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ بہت سے سانپ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اندر زہر نہیں ہوتا اس کے باوجود عموماً کوئی سانپ پکڑنے کو تیار نہیں ہوتا… ہم مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ہمیں قرآن پر کامل یقین اور ایمان ہے لیکن ہمارا طرز عمل اس کے خلاف ہے، اس لیے کہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ نہ تو ہم اس کی باقاعدگی سے تلاوت کرتے ہیں اور نہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ در اصل ہمارا ایمان و یقین کمزور ہے…ہم زبان سے اقرار تو کرتے ہیں کہ یہ اللّٰہ ربّ العزت کا کلام ہے لیکن یقین کی باضابطہ دولت سے محروم ہیں، ورنہ جسے باقاعدہ یقین حاصل ہو جائے تو اس کا اوڑھنا بچھونا ہی قرآن بن جاتا ہے یعنی وہ اکثر و بیشتر قرآن کی تلاوت اور اس کے تدبر و تفکر اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں لگا رہتا ہے… صحابۂ کرام کے احوال میں اس کا تذکرہ ملتا ہے کہ وہ قرآن سے کس قدر محبت کیا کرتے تھے تھے… اگر ہمارے دلوں میں بھی صحابۂ کرام کی طرح قرآن سے محبت ہو جائے اور اس کی تلاوت کریں، انہیں کی طرح باقاعدہ یقین ہوجائے کہ قرآن اللّٰہ کا کلام ہے، اور یہ ہماری ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے تو پھر اس کے ساتھ ہمارے تعلق میں ایک انقلاب آ جائے گا، اور قرآن کی عظمتوں کا نقش دل پر قائم ہوتا جائے گا،اور جوں جوں قرآن پر ایمان و یقین بڑھتا جائے گا اس کی تعظیم وتکریم اور احترام میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا-
قرآن پر ایمان لانے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ زبان و دل سے اقرار و تصدیق کی جائے کہ یہ ہر اعتبار سے من و عن [ہوبہو] جیسا نازل ہوا تھا ہمارے پاس موجود ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی تحریف و تبدیلی اور کمی وزیادتی نہ مدّعا میں واقع ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے متن میں،بلکہ یہ محفوظ و مامون ہے اور قیامت تک اسی وصف کے ساتھ رہے گا-

دوسرا حق: قرآن مقدّس کی تلاوت کی جائے:- مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر قرآن مقدّس کا جو دوسرا حق عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو پڑھیں، اس کی تلاوت کریں، اور اسے باربار اور اس طرح پڑھیں کہ جس طرح اس کے پڑھنے کا حق ہے-

تلاوتِ قرآن پاک ایک بہت بڑی عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان کو تروتازہ رکھنے کا موثر ذریعہ ہے- قرآن صرف ایک بار پڑھ لینے کی چیز نہیں ہے بلکہ بار بار پڑھنے اور ہمیشہ پڑھتے رہنے کی چیز ہے، اس لیے کہ یہ روح کے لئے غذا کے منزل میں ہے-

تلاوت قرآن کے کچھ اہم آداب:-(1) قرآن کی تلاوت ایک اہم عبادت ہے، یہ عبادت پورے ذوق و شوق سے کرنی چاہیے-(2) تلاوت سے پہلے طہارت ضروری ہے، بغیر وضو قرآن کو چھونا بھی نہیں چاہیے- (3)پاک جگہ اور قبلہ رخ ہو کر، اور دوزانو بیٹھ کر تلاوت کرنی چاہیے- (4)تلاوت سے پہلے تعوذ اور پھر تسمیہ پڑھیں،اس کے بعد تلاوت شروع کریں-(5)ٹھہر ٹھہرکر اچھی آواز سے تجوید اور ترتیل کے مطابق تلاوت کرنی چاہیے-(6)تلاوت کرتے وقت آواز نہ زیادہ اونچی ہو اور نہ بالکل آہستہ، بلکہ درمیانی آواز سے تلاوت کرنی چاہیے-(7)تین دن سے کم وقت میں قرآن مجید ختم نہیں کرنا چاہیے، بہتر اور افضل یہ ہے کہ ہفتے میں ایک بار ختم کیا جائے ورنہ کم از کم ایک پارہ یا جتنا بھی میسر ہو بلاناغہ قرآن کی تلاوت کرنی چاہیے- (8) قرآن مجید کی تلاوت ثواب اور ہدایت کی نیت سے کرنی چاہیے-(9) تلاوت کرتے وقت قرآن کے معانی و مطالب پر غور و فکر کرنی چاہئے… اس کے لئے ہمیں چاہئے کہ جو مستند تراجمِ قرآن و کتبِ تفاسیر ہیں علمائے اہلسنت سے رجوع کرکے ان کا انتخاب کرلیں-(10)جہاں عذاب یا دوزخ کی آیت آئے وہاں اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے اور جہاں رحمت اور جنت سے متعلق آیت ہو وہاں پر اللّٰہ سے رحمت اور جنت کے حصول کی دعا کرنی چاہیے-(11)قرآن کی تلاوت اس عزم اور ارادے کے ساتھ کی جائے کہ اس پر عمل کر کے اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنا ہے!
اللّٰہ وحدہ لاشریک ہم سبھی مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کی توفیق سعید بخشے-

تیسرا حق: قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں:- قرآن پر ایمان لانے اور اسے پڑھنے کے بعد تیسرا حق قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہے، اس لیے کہ قرآن کے نزول کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہی یہی ہے کہ اس کو سمجھاجائے کیوں کہ قرآن کے معنیٰ و مطالب، اس کے احکام وغیرہ کو سمجھے بغیر عمل کیسے کیا جائے گا؟ اور ویسے بھی اس پر ایمان لانے کا لازمی تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کو سمجھاجائے، اس کا فہم و ادراک حاصل کیا جائے-

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عجم(غیرعرب) کے زیادہ تر لوگ بغیر سمجھے ہی اسے پڑھتے ہیں، یعنی صرف اس کی تلاوت پر اکتفا کرتے ہیں- ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ خدا نہ خواستہ بغیر سمجھے اس کی تلاوت کا کوئی فائدہ یا ثواب نہیں ہے،کیونکہ ہماری نظروں میں حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا وہ فرمان مبارک بھی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ “قرآن مجید کے ہر حرف پر دس نیکیاں ہیں” پھر آپ نے مثال دے کر فرمایا کہ ” الم(الف لام میم) تین حروف ہیں ان کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں” آپ کے اس فرمان مبارک سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغیر سمجھے تلاوت بھی ثواب سے خالی نہیں، لیکن اگر سمجھ کر پڑھا جائے تو سونے پر سہاگہ، اور قرآن کے حقوق پر ہم صحیح معنوں میں عمل کرنے والے بھی ہوں گے-
اللّٰہ تعالیٰ قوم مسلم کو قرآن کی سمجھ عطا فرمائے-

چوتھا حق: قرآن پر عمل کیا جائے:- قرآن پر ایمان لانے، تلاوت و ترتیل،پڑھنے و سمجھنےکے بعد قرآن مجید کا چوتھا حق ہر مسلمان پر یہ ہے کہ وہ اس پر عمل کرے، کیوں کہ قرآن کو ماننا، پڑھنا اور سمجھنا یہ سب اصل میں عمل ہی کے لیے مطلوب ہیں، اور یہ ساری چیزیں اسی وقت زیادہ مفید و نفع بخش ثابت ہوں گی جب اس پر عمل کیا جائے-
قرآن تو تمام لوگوں کے لئے رہنمائی کی کتاب ہے، اس میں ہمارے لئے ہر ہر معاملے کے لئے ہدایات موجود ہیں- قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کن باتوں پر عمل کرنا چاہیے؟اور کن کاموں سے بچنا چاہیے؟ اس میں انفرادی احکام بھی ہیں اور اجتماعی قوانین بھی- اور اللّٰہ تعالیٰ نے یہ تفصیلی ہدایات اسی لئے ہمیں عطا کی ہے کہ ہم ان کے مطابق زندگی گزاریں، مگر افسوس کہ دورِ حاضر میں بعض لوگوں نے قرآن کے تعلق سے اس کے خلاف اپنا معمول بنا لیا ہے، اور اسے صرف تلاوت، قرآن خوانی اور دعا و تعویذ کا ذریعہ سمجھ لیا ہے، جب کی قرآن مجید نہ تو کوئی جادو یا منتر کی کتاب ہے، جس کاصرف پڑھ لینا ہی دفعِ بلیّات کے لیے کافی ہو، نہ یہ محض حصولِ ثواب و برکت کے لئے نازل ہوا ہے کہ بس اس کی تلاوت سے ثواب کے حصول پر اکتفا کر لی جائے، یا اس کے ذریعہ سے جاں کنی کی تکلیف کو کم کر لیا جائے، اور نہ یہ محض تحقیق و تدقیق کا موضوع ہے کہ اسے صرف ریاضتِ ذہنی کا تختۂ مشق اور نکتہ آفرینیوں اور خیال آرائیوں کی جولانگاہ بنا لیا جائے، بلکہ یہ تو حقیقت میں انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن خود اس پر شاہد ہے فرمان خداوندی کامفہوم ہے” یہ کتاب[قرآن] لوگوں کی ہدایت کے لئے ہے” اور اس کا مقصدِ نزول صرف اس طرح پورا ہو سکتا ہے کہ لوگ اسے حقیقت میں اپنی زندگیوں کا لائحۂ عمل بنائیں-
اللّٰہ تبارک وتعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات و احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے-

پانچواں حق: قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچایا جائے:- قرآن پر ایمان لانے،پڑھنے اور اس کو سمجھنے و عمل کرنے کے بعد مسلمانوں پر قرآن مجید کا پانچواں اور آخری حق یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اس کے پیغامات اور تعلیمات کو دوسروں تک پہنچائے، جس طرح صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے پڑھنے و سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد اللّٰہ کے نبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کے ساتھ اور انفرادی طور پر بھی اس کے پیغامات کو آگے پہنچایا تھا-

ہم مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم تمام لوگوں تک اس ابدی پیغام کو پہنچانے کی کوشش کریں، اس لیے کہ اگر ہم مسلمان اس قرآن اور اس کی تعلیمات کو پوری دنیا تک نہیں پہنچائیں گے تو اورکون پہنچائے گا؟
حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم خاتم النبییین ہیں، اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، لہٰذا جن لوگوں تک اللّٰہ کا پیغام اب تک نہیں پہنچ سکا ان تک اس پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری حسبِ صلاحیت واستطاعت امت محمدیہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر ہے، اور یہ حضور کی امت کے لئے بہت بڑے اعزاز اور شرف کی بات ہے-
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم قرآنی پیغامات اور شریعت اسلامیہ کے احکامات کو لوگوں تک پہنچانے اور انہیں راہ راست پر لانے کی ہر ممکن کوشش کریں-

بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن مقدّس کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے اور خاتمہ بالخیر کی توفیق عنایت فرمائے- آمین بجاہ سیّد المرسلین(صلّی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلّم)

علم دین کی اہمیت و فضیلت: احادیث کی روشنی میں!از:۔(علامہ الحاج پیر)سید نور اللہ شاہ بخاری!مہتمم و شیخ الحدیث)دار العلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف،باڑمیر (راجستھان)

علم دین اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے کہ جس کی اہمیت و فضیلت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔یہ وہ انعام الٰہی ہے جس کی بنیاد پر انسان دوسری مخلوق سے افضل ترین چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر فرشتوں پر برتری ثابت فرمائی ،رسول اللہ ﷺپر جو پہلی وحی نازل فرمائی گئی اس میں “تعلیم ” سے ابتداء کی گئی اور پہلی ہی وحی میں بطور ِاحسان انسان کو دیئے گئے علم کا تذکرہ فرمایا گیا ۔گویا اسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن پاک کی پہلی آیت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی پر نازل فرمائی وہ علم ہی سے متعلق ہے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے “ترجمہ:پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ،آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ،پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ،آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا! “(سورۂ علق آیت /۵،پارہ /۳۰ کنز الایمان)

قرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی ان آیتوں میں علم کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمادیا کہ اسلام تعلیم و تعلم کا مذہب ہے ،اور جو لوگ مسلمان ہوکر بھی علم سے دور رہے وہ اسلامی مقاصد کے خلاف زندگی گزار رہے ہیں۔حالانکہ تعلیم و تعلم کے سب سے زیادہ حقدار ہم ہی ہیں ۔لہٰذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ جہالت کی تاریکیوں کو چھوڑکر اب علم کے اُجالے میں آجائیں ۔

علم دین کی ضرورت و اہمیت اور اس کی فضیلت کے بارے میں نبی کریم ﷺکا صرف یہی فرمان کافی ہے کہ “بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے “جس ذات کے اندر اللہ تبارک و تعالیٰ نے کائنات کی تمام خوبیاں اکٹھا کر دی اس ذات نے خودکومعلم کے طور پر پیش کیا ،اس سے تعلیم و تعلم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور خود اللہ رب العزت قرآن مقدس میں علم اور اہل علم کی شان بیان فرماتا ہے جیسا کہ ارشاد ربی ہے ترجمہ:تم فرمادو :کیا برابرہیں جاننے والے اور انجان؟”(پارہ /۲۳ آیت /۹)

دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ:”اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا،درجے بلند فرمائے گا”۔(پارہ /۲۸ آیت /۱۱ سورۂ مجادلہ ) نیز ارشاد فرما یا :ترجمہ:”اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں “۔(سورۂ فاطر آیت/۲۸)

ان مذکورہ آیات کریمہ سے علم اور اہل علم کی قدر و منزلت معلوم ہوتی ہے اور اس علم سے صرف علم شرعی مراد ہے جس کے حصول پر ثواب اور اہل علم کی عظمت کا وعدہ کیا گیا ہے نہ کہ دنیاوی علم (شرح ریاض الصالحین ج/۴ص۳)

علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺنے علم میں اضافہ کے لئے گویا دعا مانگنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ:”اور تم عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے “۔(پارہ /۱۶ رکوع /۱۴) اگر علم سے زیادہ اہمیت والی کوئی چیز ہوتی تو اس کے بھی مانگنے کا حکم دیا جاتا ،جیسا کہ اس آیت ِکریمہ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت علامہ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ “اس آیت ِکریمہ سے علم کی فضیلت واضح طور پر ثابت ہوتی ہے،اس لئے کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ﷺکو علم کے علاوہ کسی دوسری چیز کی زیادتی کے طلب کرنے کا حکم نہیں فرمایا”۔(فتح الباری شرح بخاری ج/۱ص/۱۳۰)

کتنا علم سیکھنا ضروری ہے؟: حضور نبی اکرم ﷺنے تو علم سیکھنے پر انتہائی زور دیا ہے اور ہر ممکن رغبت دلائی ہے یہاں تک کہ ہر مسلمان کے لئے اسے لازمی فریضہ قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا”علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان مرد و عورت پر فرض ہے (مشکوٰۃ شریف ص/۳۴)

لیکن کتنا اور کون سا علم سیکھنا فرض ہے؟ اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں البتہ معتبر و مستند کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اتنا علم جس سے مسلمان اپنے عقیدے کے بارے میں یقینی و حقیقی معرفت حاصل کر سکے ۔اپنے رب کی عبادت اور حضور نبی کریم کی اطاعت کر سکے اپنے نفس اور دل کا تزکیہ کرسکے ،نجات دلانے والی چیزوں کا علم ہو اور تباہ کن گناہوں کا بھی علم ہو تاکہ ان سے بچاجا سکے ،اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں اور پڑوسیوں کے ساتھ معاملات کو درست کیا جا سکے ،حلال و حرام میں فرق ہو سکے، اس قدر علم بہر حال ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے لازم ہے جو درسگاہوں میں پڑھ کر ،مسجدوں و دینی جلسوں میں سنکر،علماء کی صحبت اختیار کرکے اور مختلف ذریعوں سے حاصل ہوسکتا ہے ۔اب یہ والدین اور سر پرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دینی علم سیکھنے کے لئے مدرسوں میں بھیجیں ۔

علم دین کی فرضیت میں کیا حکمت ہے: ہر مسلمان مرد و عورت پر علم کے فرض کرنے کی حکمت کیا ہے اسے امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ کی اس تحریر سے سمجھیں آپ تحریر فرماتے ہیں (۱) اللہ تعالیٰ نے مجھے فرائض کی ادائیگی کا حکم فرمایا ہے ،اور میں علم کے بغیر ان کی ادائیگی پر قادر نہیں ہو سکتا (۲) خدائے تعالی ٰ نے مجھے گناہوں سے دور رہنے کا حکم دیا اور میں علم کے بغیر اس سے بچ نہیں سکتا (۳) اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا شکر مجھ پر لازم فرمایا ہے اور میں علم کے بغیر ان کا شکر نہیں ادا کر سکتا (۴) خدائے تعالیٰ نے مجھے مخلوق کے ساتھ انصاف کرنے کا حکم دیا ہے اور میں علم کے بغیر انصاف نہیں کر سکتا (۵) اللہ تعالیٰ نے مجھے بلا و مصیبت پر صبر کرنے کا حکم فرمایا ہے اور میں علم کے بغیر اس پر صبر نہیں کر سکتا (۶)خدائے تعالیٰ نے مجھے شیطان سے دشمنی کرنے کا حکم دیا ہے اور میں علم کے بغیر اس سے دشمنی نہیں کرسکتا،(علم اور علماء ص/۴۱،بحوالہ تفسیر کبیر ج/۱ص/۲۷۸)

پھر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہر شخص پر چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے حقوق عائد کیئے ہیں (۱) حقوق اللہ (۲) حقوق العباد ،ان دونوں حقوق کی ادائیگی بغیر علم کے ممکن نہیں ،اس لئے حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا “علم کا حاصل کر نا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے”

حضرت ملاّ علی قاری علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ شارحین حدیث نے فرمایا کہ “علم سے مراد وہ مذہبی علم ہے جس کا حاصل کرنا بندہ پر ضروری ہے ۔جیسے خدائے تعالیٰ کو پہچاننا، اس کی وحدانیت،اس کے رسول کی شناخت اور ضروری مسائل کے ساتھ نماز پڑھنے کے طریقے کو جاننا ،اس لئے کہ ان چیزوں کا علم فرض عین ہے (علم اور علماء ص/۲۲ بحوالہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج/۱ص/۲۳۳)

اور اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ”اس حدیث میں علم سے مراد وہ علم ہے جو مسلمانوں کو وقت پر ضروری ہے ،جیسے جب اسلام میں داخل ہوا تو اس پر خدائے تعالیٰ کی ذات و صفات کو پہچاننا اور سرکار اقدس ﷺکی نبوت کو جاننا واجب ہو گیا ،اور جب نماز کا وقت آگیا تو اس پر نماز کے احکام کا جاننا واجب ہوگیا،اور جب ماہ رمضان آگیا تو روزہ کے احکام کا سیکھنا ضروری ہوگیا ،اور جب مالک نصاب ہوگیا تو زکوٰۃ کے مسائل کا جاننا واجب ہو گیا، اور اگر مالک نصاب ہونے سے پہلے مر گیا اور زکوٰۃ کے مسائل نہ سیکھا تو گناہ گار نہ ہوا ،اور جب عورت سے نکاح کیا تو حیض و نفاس وغیرہ جتنے مسائل کا میاں بیوی سے تعلق ہے مسلمان پر جاننا واجب ہو جاتا ہے ،اور اسی پر باقی مسائل و احکام کو قیاس کرلیں (ایضاص/۲۲/۲۳ بحوالہ اشعۃ اللمعات ج/۱ص/۱۶۱)

علم حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا: علم دین کی تحصیل کی جانب رغبت دلاتے ہوئے حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا :ترجمہ”علم حاصل کرو اگر چہ تمہیں ملک چین جانا پڑے “(کنز العمال ج/۱ص۸۹ ،جامع صغیر ص/۷۲)

یعنی علم حاصل کرنے کے لئے چاہے جس قدر دشوار سفر کرنا پڑے اس سے منہ نہ موڑو اسی حدیث رسول کے پیش نظر صحابۂ کرام نے علم حاصل کرنے کے لئے دور دراز کے ملکوں کا سفر فرمایا اور علم میں کمال پیدا کیا ،بعد میں بزرگوں نے بھی صحابۂ کرام کے نقوش ِقدم پر پوری پوری پیروی کی ،سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحصیل علم کے لئے متعدد مرتبہ مکہ شریف ومدینہ شریف اور بصرہ تشریف لے گئے ۔

سیدنا غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ عین جوانی کے عالم میں تحصیل علم کے لئے جیلان سے بغداد تشریف لے گئے ،طرح طرح کی صعوبتوں کا سامنا کیا،فاقہ کی نوبت بھی آئی مگر تحصیل علم میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں فرمائی، حضور سیدنا خواجہ غریب نواز اپنے شیخ خواجہ عثمان ہارونی کی بارگاہ میں بیس برس تک کسب علم کرتے رہے ۔یہ ہے ہمارے بزرگوں کی تعلیمی تڑپ اور ان کی نگاہ میں تعلیم کی اہمیت مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم بزرگوں کی محبت کا دعویٰ تو ضرور کرتے ہیں ،دامن نہ چھوڑنے کے نعرے بھی لگاتے ہیں مگر باقاعدہ ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش نہیں کرتے، بزرگوں سے اصلی محبت یہ ہے کہ ان کی تعلیمات کو اپنائیں اور اسی ڈگر کو اپنائیں جس پر چل کر انہوں نے زندگی گزاری۔

طالب علم کا مقام و مرتبہ: بلا شبہ عالم کا مقام و مرتبہ تو مسلم ہے ۔مگر طالب علم کی شان یہ ہے کہ وہ زمین پر چلتا پھرتا جنتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :”جوشخص علم دین حاصل کرنے کے لئے سفر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلاتاہے اور طالب علم کی رضا حاصل کرنے کے لئے فرشتے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں (مشکوٰۃ ص/۳۴)

اس بارے میں ایک اور حدیث ملاحظہ کریں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کائنات ﷺنے فرمایا :”جو شخص علم کی تلاش میں راستہ چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے اس پر جنت کے راستہ کو آسان کردیتا ہے ،اور جب کوئی قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں یعنی مسجد، مدرسہ یا خانقاہ میں جمع ہوتی ہے اور قرآن کو پڑھتی اور پڑھاتی ہے تو ان پر خدا کی تسکین نازل ہوتی ہے ،خدا کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالی ٰ ان لوگوں کا ذکر ان میں فرشتوں میں کرتا ہے جو اس کے پاس رہتے ہیں (مشکوٰۃ ص /۳۳)

دیکھیئے یہاں قرآن و سنت کے علم کی تلاش میں نکلنے والے شخص( طالب علم) کی شان کہ وہ طلب علم کے لئے زمین پر چل رہا ہے اُدھر اللہ تعالیٰ اس کے لئے آسمانوں پر جنت میں راستہ بنا رہا ہے ،اور ساتھ ہی ساتھ اللہ رب العزت طلب علم کرنے والوں کو فرشتوں کے درمیان یاد فرماتا ہے اور فرشتے طلبہ کے لئے اپنے پروں کو بچھا دیتے ہیں ،اس سے بڑی فضیلت اورکیا ہوسکتی ہے ؟جب شاگرد یعنی طالب علم کا مقام و مرتبہ یہ ہے تو اسے پڑھانے والے کا کیا مقام ہوگا ۔

علم دین کی فضیلت اور اسکو حاصل کرنے کی ترغیب نیز علمائے کرام کی اہمیت و فضیلت کے سلسلے میں حضور رحمت عالم ﷺکی بہت سی حدیثیں موجود ہیں جن میں سے کچھ اہم حدیثیں بالاختصار درج کر رہے ہیں جن سے علم و علماء کی اہمیت باقاعدہ واضح ہو جائے گی !

علم و علماء کی فضیلت و اہمیت احادیث کی روشنی میں

(۱)حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو قرآن کی تعلیم لیں اور دوسروں کو قرآن کی تعلیم دیں “۔(سنن دارمی ج/۲ص/۴۳۷ بیروت ،بخاری ج/۲ص/ ۷۵۲ مشکوٰۃ ص/۱۸۳)

(۲) حضور اقدس ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کا فقیہ بنا دیتا ہے” (بخاری ج/۱ص/۱۴)

(۳)حضرت ابو عمامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ “نبی رحمت ﷺکے پاس دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا جن میں سے ایک محض عابد تھا اور دوسرا عالم تو رسول مکرم ﷺنے فرمایا کہ عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسی میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ،اور رسول پاک ﷺنے ارشاد فرمایا بے شک اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمان و زمین والے یہاں تک کہ چینوٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں پانی میں ضرور صلوٰۃ (دعائے رحمت)بھیجتی ہیں اس متعلم پر جو لوگوں کو نیک بات بتاتا ہے” (مشکوٰۃ ص/۳۴)

(۴)حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور ﷺنے فرمایاکہ “جو علم کی طلب میں نکلا وہ واپسی تک خدا کی راہ میں ہوتاہے” ۔(ایضا)

(۵)حضور اقدس ﷺنے فرمایا کہ” جو علم حصل کرتاہے تواس کا یہ عمل اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے “(ایضا)

(۶) حضرت واثلہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “جو طلب علم میں چلا پھر علم حاصل کر لیا تو اس کو دوہرا ثواب ہے اور جو ناکام رہا (یعنی نہیں پہنچا یا پہنچ کر تکمیل ِعلم نہ کر سکا )اس کو بھی ایک ثواب ہے” (مشکوٰۃ ص/۳۶ ،دارمی ج/۱ص/۹۷)

(۷)حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺمسجد میں دو مجلسوں پر گزر ے اور فرمایا: ”دونوں بہتر ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے سے افضل ہے ،رہے یہ لوگ جو اللہ سے دعا کر رہے ہیں اور اس کی طرف متوجہ ہیں ۔کہ اگر اللہ چاہے ان کو عطا کرے اور چاہے نہ عطا کرے ،لیکن وہ لوگ جو دین کی بات سیکھ رہےہیں اور (ان میں سے کچھ )جاہلوں کو سکھا رہے ہیں ۔تو یہ افضل ہے اور میں معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں !پھر سرکار انہیں میں تشریف فرما ہو گئے “(مشکوٰۃ ص/۳۶،دارمی ج/۱ص/۹۹)

(۸) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور انور ﷺنے (صحابہ سے )پوچھا :کہ کیا تم جانتے ہو بڑا سخی کون ہے؟صحابہ نے عرض کیا:اللہ اور اس کے رسول جانیں ،حضور نے فرمایا:اللہ بڑا سخی ہے ،پھر آدمیوں میں بڑا سخی میں ہوں اور میرے بعد بڑا سخی وہ ہے جو علم سیکھے پھر اسے پھیلائے ۔وہ قیامت کے دن اکیلا یا فرمایا ایک جماعت ہوکر جائے گا ۔(مشکوٰۃ ص/۳۶)یعنی اس کا مقام مکمل ایک جماعت کے برابر ہوگا ،یا ایک جماعت کے ساتھ آئے گا جن کا یہ پیشوا ہوگا۔

(۹) حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:علم دین سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ، فرائض (فرض احکام یا علم میراث) سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ،قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ ،اس لئے کہ میں رخصت ہونے والا ہوں اور عنقریب علم اٹھتا چلا جائے گا اور کتنے سر چڑھتے جائیں گے ۔یہاں تک کہ دو آدمی ایک فریضہ میں جھگڑیں گے تو ان کا فیصلہ کرنے والا کوئی نہ ملے گا (مشکوٰۃ ص/۳۸)

(۱۰) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ “دین کا علم حاصل کرنا اللہ کے نزدیک نماز ،روزہ،حج اور جہاد سے افضل ہے” (کنز العمال ج/۱۰ ص/۷۵)

(۱۱) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایاکہ “رات میں ایک گھڑی علم کا پڑھنا و پڑھانا پوری رات جاگنے سے بہتر ہے” (مشکوٰۃ ص/۳۶)

(۱۲)حضرت ابو زر و ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ”اگر کسی طالب علم کو طلب علم کی حالت میں موت آجائے تو وہ شہید ہے” (کنز العمال ج/۱۰ص/۷)

(۱۳)حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ” بہترین عبادت علم حاصل کرنا ہے” (ایضا ص/۱۰)

(۱۴)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور احمد مختار ﷺنے فرمایا”عالم دین بنو یا طالب علم بنو ،یا عالم دین کی بات سننے والا بنو ،یا اس سے محبت کرنے والا بنو اور پانچوا مت بنو کہ ہلاک ہو جاؤگے”۔(کنز العمال ج/۱۰ص/۸۲)

(۱۵)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ “رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل کٹ جاتا ہے مگر تین عمل کا ثواب برابر جاری رہتا ہے (۱) صدقۂ جاریہ (۲)وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے(۳)نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے “(مشکوٰۃ ص/۳۲)

صدقۂ جاریہ سے مراد ہے مسجد و مدرسہ بنوانا یا زمین اور کتابیں وغیرہ وقف کرنا اور علم سے مراد ہے دینی کتابیں تصنیف کرنا اور اچھے شاگردوں کو چھوڑ جانا جن سے دینی فیضان جاری رہے ،اور باپ نے اگر اپنی اولاد کو نیک بنایا تو وہ اسکے لئے دعائے خیر کریں یا نہ کریں باپ کو بہر حال ثواب ملے گا ۔

علمائے دین کی تعظیم کرو:۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ عالموں کی عزت و تعظیم کرو اس لئے کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں تو جس نے ان کی عزت کی تحقیق کہ اس نے اللہ و رسول کی عزت کی (کنز العمال ج/۱۰ص/۸۵)

علمائے دین کی پیروی کرو:۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عالم دین کی پیروی کرو اس لئے کہ وہ دنیا اور آخرت کے چراغ ہیں (ایضاًص/۷۷)

علماءکی توہین کرنے والا قیامت میں ذلیل و رسوا ہوگا:۔نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایاکہ “جس نے عالم کی توہین کی تحقیق کہ اس نے نبی کی توہین کی اور جس نے نبی کی توہین کی یقینا اس نے جبرئیل امین کی توہین کی اور جس نے جبرئیل کی توہین کی تحقیق کی اس نے اللہ کی توہین کی اور جس نے اللہ کی توہین کی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو رُسوا کرے گا “۔(تفسیر ِکبیر ج/۱ص/۲۸۱)

حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ سرکاراقدس ﷺنے ارشاد فرمایاکہ” علماء کے حق کو ہلکا نہ سمجھے گا مگر کھُلا ہوا منافق “(فتاویٰ رضویہ ج/۱۰ص/۱۴۰)

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور تاجدار مدینہ ﷺنے فرمایا”جو ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت میں سے نہیں” (ایضا)

اور حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ “جس نے عالم کو حقیر سمجھا اس نے اپنے دین کو ہلاک کیا “(تفسیرِ کبیر ج/۱ص/۲۸۳)

علما ء کی توہین پر کس قدر سخت وعیدیں آئی ہوئی ہیں اس کے باوجود اگر ہم علماء کی تعظیم و تکریم نہ کریں اور ان کی توہین کے در پے (پیچھے پڑے )رہیں تو ہم اپنا انجام خود سوچ لیں ۔مجدددین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ”عالم دین سے بلا وجہ بغض رکھنے میں بھی خوف کفر ہے اگر چہ اہانت نہ کرے “(فتاویٰ رضویہ ج/۱۰ ص/۵۷۱)

دوسری جگہ تحریر فرماتے ہے کہ “اگر عالم دین کو اس لئے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دنیاوی خصومت کے باعث برا کہتا ہے ،گالی دیتا ہے اور تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق و فاجر ہے،اور اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب ،خبیث الباطن ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ ہے” (ایضاص/۱۴۰)

اور فقیہ اعظم ہند صدر الشریعہ علامہ امجد علی ا عظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ” علم دین اور علماء کی توہین بے سبب یعنی محض اس وجہ سے کہ عالم دین ہے کفر ہے” ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو علم دین مصطفیٰ ﷺکی عظمت و اہمیت سمجھنے اور علمائے کرام کی عزت و تکریم کرنے اور ان کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے! آمین۔

حج کی فضیلت،اجر وثواب اور حج نہ کرنے پروعید،از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

حج اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم ترین رکن ہے جو زندگی میں ایک بار ہر اس عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے جو کہ بیت اللہ تک رسائی کی استطاعت رکھتا ہو حج کی فرضیت کے بعد خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جم غفیر کے ساتھ مدینہ طیبہ سے سفر کر کے اس اہم فریضے کو ادا فرمایا، اس مہتم بالشان عبادت کی ادائیگی پر شرع میں بے شمار اجر وثواب کا وعدہ کیا گیا ہے، اور بغیر کسی عذر کے اسے ترک کرنے پر سخت وعید سنائی گئی ہے۔
قابلِ مبارک باد اور خوش نصیب ہیں وہ سعید روحیں جنہیں اللہ عز و جل نے اپنے پاک گھر کی زیارت کا شرف بخشا اور ابر رحمت کی برستی ہوئی رم جھم بارشوں سے سیاہ کا ریوں کی جمی ہوئی پرت در پرت اور تہ بہ تہ کائیوں کو دھل کر کسی نو مولود کی طرح اپنے مقدس گھر سے واپس لوٹایا،اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا﴾ [آل عمران: 97] اور اللہ کے لیے لوگوں کے ذمہ خانۂ کعبہ کا حج کرنا هے ہر اس شخص کے ذمہ جو وہاں تک رسائی کی استطاعت رکھتا ہو ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے :﴿وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ﴾ [البقرة: 196] اور تم حج اور عمرے کو مکمل کرو، اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اے لوگو اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض قرار دیا ہے لھذا تم حج کیا کرو(مسلم شریف کتاب الحج) ایک مرتبہ آپ نے تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر حج کو فرض فرمایا ہے، (نسائی شریف)۔
جمہورعلماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حج کا منکر کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ چونکہ حیات مستعار کے لمحوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، اس لیے جس آدمی پرحج فرض ہواورظاہری کوئی رکاوٹ نہ ہو تو اسے اس مقدس فریضہ کی ادائیگی میں بالکل تاخیرنہیں کرنا چاهئے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جوشخص حج کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ جلدی کرے ( ابو داؤد شریف)۔
اسی طرح ایک جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج کرنے میں جلدی کرو کیوں کہ کچھ نہیں معلوم کہ کیا امر پیش آجائے (کنزالعمال)

حج کی فضیلت: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا،عرض کیاگیاکہ اس کے بعدکیاہے؟ فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد کرنا،عرض کیاگیا پھر کیاہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”حج مبرور”( یعنی وہ حج جس میں گناہ نہ کیے گیے ہوں اور ریاکاری نہ ہو)-[رواہ البخاری ومسلم]
نیز حضرت ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جس نے اللہ کے لیے ٌحج کیا اور اس نے ایسی باتیں نہ کیں جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہیں اور گناہ نہ کیے تو یہ شخص اس طرح ہوگا جیسا اس دن بے گناہ تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا”
اور ایک حدیث میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “الحج المبرور لیس له جزاء الاالجنة” کہ حج مبرور کی جزا جنت ہی ہے-
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “یکے بعد دیگرے حج وعمرہ کو ادا کرو کیونکہ وہ دونوں تنگدستی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح آگ کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے”-[رواہ الترمزی]

حج کا اجر وثواب: اجر وثواب کے اعتبار سےحج کی عبادت اپنی ایک الگ ہی شان رکھتی ہے، چنانچہ طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ دو صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حج کے الگ الگ اعمال کا اجر وثواب پوچھنے کی غرض ونیت سے حاضر ہوئے -حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوال کرنے سے پہلے ہی ان کے سوالات دہرا دییے- اور پھر ہر ایک کاترتیب وار جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:
(1)جب کوئی حاجی اپنے گھر سے مسجدحرام کے ارادے سے چلتا ہے تو اس کی سواری کے ہر قدم پر ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک ایک غلطی معاف کی جاتی ہے-
(2)طواف کے بعد کی دورکعتوں کاثواب خاندان بنی اسماعیل کے کسی غلام کو آزاد کرنے کے برابر ہے-
(3)اور جب حجاج میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ رب العزت آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماکر فرشتوں کے سامنے ان پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ میرے بندے بکھرے ہوئے بالوں کے ساتھ دنیا کے کونے کونے سے میری جنت کی امید لگاکر میرے پاس آئے ہیں لہٰذا ان کے گناہ اگرچہ ریت کے ذرات، بارش کے قطرات اور سمندر کے جھاگ کے برابر بھی ہوں، پھر بھی میں انہیں بخش دوں گا، پس ائے میرے بندو! جاؤ بخشے بخشائے واپس چلے جاؤ تم بھی بخش دییے گیے، اور جس کے لیے تم نے بخشش کی سفارش کی ان کی بھی مغفرت کردی گئی-
(4)اور شیطان کو کنکری مارنے کاثواب یہ ہے کہ ہر کنکری کے بدلہ میں کسی بڑے گناہ کی مغفرت ہوتی ہے-
(5)اور قربانی کرنے کاثواب آخرت کے ذخیرہ میں جمع کردیا جاتا ہے-
(6)اور احرام کے بعد حلق کرایاجاتاہے تو حال یہ ہوتا ہے کہ ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے-اور ایک برائی مٹائی جاتی ہے-
(7)اور جب طواف زیارت کیا جاتا ہے تو حال یہ ہوتا ہے کہ حاجی گناہ سے بالکل پاک اور صاف ہوتا ہے، اور ایک فرشتہ اس کے دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہتا ہے: ” آئندہ کے لیے از سرنو اعمال کرو تمہارے گزشتہ سارے گناہ معاف کردییے گیے ہیں”-[الترغیب والترہیب ۲/۱۱۰]
اور ایک روایت میں ہے کہ حج کے سفر میں ایک روپیہ خرچ کرنے کاثواب دس لاکھ روپیہ خرچ کرنے کے برابر ہے-[کنزالعمال ۵/۵]
حاصل کلام یہ ہے کہ سفر حج میں قدم قدم پر اجر وثواب کے اسباب موجود ہیں-تلبیہ پڑھنا خود ایک ایساعمل ہے کہ آدمی بے اختیار ذکر خداوندی کے روحانی ماحول کے جھرمٹ میں آجاتا ہے اور فرشتوں کی طرف سے اس کو مبارک بادیاں ملنے لگتی ہیں،اس کے بعد بیت اللہ میں حاضر ہوکر دعا مانگنا قبولیت کا اہم موقع ہے نیز حرم شریف کی نیکیوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ گنا کردیا ہے،پھر حجراسود کے استلام کی بھی عجیب خوبی رکھی رکھی گیی ہے کہ یہ قدرتی طور پر استلام کرنے والے کے گناہوں کو جزب کرلیتا ہے،حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رکن یمانی اور حجراسود کو چھونا غلطیوں کو مٹادیتا ہے-[ترمذی شریف]
اور یہ دونوں پتھر قیامت کے دن اس حالت میں اٹھائے جائیں گے کہ ان کی دو زبانیں، دو آنکھیں اوردو ہونٹ ہون گے اور یہ اپنے استلام کرنے والوں کے حق میں گواہی دیں گے اور سفارش کریں گے-[الترغیب والترہیب ۲/۱۲۴]
اسی طرح طواف کرنا بھی ایک انتہائی قابل اجر وثواب عمل ہے -ایک موقوف روایت میں نقل کیا گیا ہے کہ طواف کرنے والے کے ہر ہر قدم پر ستر ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں،اور ستر ہزار برائیاں مٹائی جاتی ہیں، اور ستر ہزار درجے بلند کیے جاتے ہیں- [الترغیب والترہیب ۲/۱۲۴]
علاوہ ازیں ایک خاص بات یہ ہے کہ حج کے ایام میں نہ صرف یہ کہ شطواف کرنا اور دیگر عبادات انجام دینا موجب ثواب ہے،بلکہ یہاں اگر کوئی شخص حرم شریف میں بیٹھ کر نیک نیتی کے ساتھ بیت اللہ کی صرف زیارت سے شرفیاب ہو تو وہ بھی ثواب سے محروم نہیں ہوگا-
الغرض سفرحج کا ہر ہر لمحہ نیکیوں کو سمیٹنے کازمانہ ہے -جوشخص اپنے کو اللہ کی خاص رحمت کا مستحق بنانا چاہتاہے اسے چاہییے کہ وہ اس موقعہ کو غنیمت جانے اور ایک ایک لمحہ کو کار آمد بنانے کی کوشش کرے، اور غفلت وکوتاہی کو پاس بھی نہ آنے دے،ایک ایسے موقعہ پر جبکہ رحمت خداوندی کی برسات ہورہی ہو، اس سے فیضیاب نہ ہونا اور سستی میں پڑ کر اوقات کو ضائع کردینا انتہائی محرومی کی بات ہوگی-
بالخصوص سفر حج کےدوران گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرنا انتہائی ضروری ہے،ایک روایت میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت وارد ہے کہ جو شخص حج کے دوران اپنے کانوں آنکھوں اور زبان کی گناہوں سےحفاظت کرے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے-

حجاج سے دعائیں کرائیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ حج کو آنے والے اور عمرہ ادا کرنے والے اللہ تعالیٰ کے معزز مہمان ہوتے ہیں، اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرماتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی گناہوں کو بخش دے گا-

استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے پر وعید: حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص کو ظاہری ضرورت (سفر خرچ اور سواری کاانتظام وغیرہ) یا ظالم بادشاہ (حکومت) یا مہلک مرض جیسی کوئی مجبوری نہ ہو اور وہ (حج کا نصاب ہونے کے باوجود) حج نہ کرے -تو اس کے لیے یہ بات برابر ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر مرے-[رواہ الدارمی]
اللہ کی پناہ! کس قدر سخت وعید ہے استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے پر،اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں پر حج فرض ہو اور انہوں نے بغیر عذرشرعی کے حج نہیں کیا تو ان کے سوء خاتمہ کااندیشہ ہے-
اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کو زیارت حرمین طیبین کی توفیق عنایت فرمائے-(آمین]

تلاوت قرآن کی اہمیت و فضیلت اور کچھ ضروری آداب, ،از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،ضلع:باڑمیر(راجستھان)mdshamimahmadnoori@gmail.com

قرآن کا لفظ قراءت سے ماخوذ ہے ،جس کے معنیٰ پڑھنے کے ہیں اور چوں کہ اس کو بہت زیادہ پڑھا جاتا ہے اس لیے اس کو قرآن کہتے ہیں، قرآن دینِ اسلام کا سرچشمہ، رشد و ہدایت کا منبع، دعوت وارشادکا مصدر ،علم و عرفان کا خزانہ اور بے شمار کمالات و محاسن کے ساتھ پوری دنیائے باطل کے لیے چیلنج ہے

قرآن مقدس اللّٰہ تعالیٰ کی وہ آخری اور مستند ترین کتاب ہے جسے دین کے معاملے میں انسانیت کی ہدایت کے لیے اللّٰہ عزّوجل نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام کے ذریعہ اپنے آخری اور محبوب پیغمبر حضور نبئِ رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم پر نازل فرمایا

اس اعتبار سے یہ آخری پیغمبر کی طرح آخری آسمانی کتاب ہے ،جس طرح رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں اسی طرح قرآن مقدس کے نزول کے بعد اب کوئی آسمانی وحی کسی پر نازل نہیں ہوگی، اسی لیے قرآن کو اللّٰہ تعالی نے تمام جہانوں کے لیے نصیحت فرمایا

اب یہی قرآن قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے کتابِ ہدایت اور دستور حیات ہے جن لوگوں یا قوموں نے اسے دستور العمل بنایا وہ یقیناً دین و دنیا کی سعادت سے ہمکنار ہوئے، اور اس سے اعراض و روگردانی کرنے والے ذلیل و خوار ہوں گے جیسا کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اللّٰہ اس کتاب کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو بلندی عطا فرماتا ہے اور کچھ دوسروں کو پستی میں ڈھکیل دیتا ہے”( مسلم شریف جلد/۱ صفحہ/۲۷۲،مجلس برکات)۔

حقیقی بلندی وسرفرازی اللّٰہ کے حکم سے اُنہی کو حاصل ہوتی ہے جو قرآن کے احکام کی پیروی کرتے ہیں جیسا کی ابتدائی چند صدیوں میں جب مسلمان ہر جگہ قرآن کے عامل تھے تو اس پر عمل کی برکت سے وہ دین و دنیا کی سعادتوں سے بہرہ ور تھے لیکن مسلمانوں نے جب سے قرآن کے احکام و قوانین پر عمل کرنے کو اپنی زندگی سے الگ کردیا تب سے ہی مسلمانوں پر ذلت ورسوائی کا عذاب مسلّط ہے-اسی لیے تو شاعرمشرق ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب کہا تھا

درس قرآن اگر ہم نے نہ بھلایا ہوتا
یہ زمانہ نہ زمانے نے دکھایا ہوتا
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

کاش : مسلمان دوبارہ اپنا رشتہ قرآن کریم سے جوڑ لیتے تاکہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ واپس آ سکےقرآن پاک کو دوسری کتابوں پر اسی طرح برتری حاصل ہے جیسے اللّٰہ تعالی کو مخلوق پر، اس دنیا میں پائی جانے والی کتابوں میں اگر سب سے زیادہ فضیلت پر فائز کوئی کتاب ہے تو بلاشبہ وہ کلام اللّٰہ {قرآن پاک} ہے جس کا پڑھناثواب، دیکھنا ثواب، سننا ثواب، گھر میں رکھنا ثواب،باعث ِ خیروبرکت،دافعِ آفات و بلیّات اور فلاح دنیا وآخرت ہے
قران کیا ہے؟اس کی خصوصیات وامتیازات کیاہیں؟اس کی تعلیمات وہدایات کیاہیں؟

ان سب پرتفصیل سے روشنی ڈالنے کے لیے ایک طویل دفتر درکار ہے آئیے سرِدست تلاوت قرآن کے فضائل ومناقب، اس کی اہمیت اور آداب ملاحظہ کریں

تلاوت قرآن کی فضیلت

قرآن مقدّس کتاب ہدایت بلکہ سراپا ہدایت و باعثِ خیروبرکت ہے مگر اس بابرکت کتاب سے انسان باقاعدہ اسی وقت فائدہ حاصل کرسکتا ہے جب وہ اسے پڑھے گا، اس کی تلاوت اور اس کا مطالعہ کرے گا

اللّٰہ وحدہ لاشریک نے اپنے اس عظیم ترین کلام کی تلاوت پر اجر جزیل و ثواب عظیم سے نوازا ہے جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نےارشادفرمایا کہ “جو شخص کلام اللّٰہ کا ایک حرف پڑھے گا ربّ العالمین اس کے ہر حرف پر ایک نیکی عنایت کرے گا، جو دس گنا بڑھ کر دس نیکیاں بن جائیں گی، پھر حضور نے فرمایا: میں نہیں کہتا ہوں کہ “الم” ایک حرف ہے بلکہ “الف” ایک حرف ہے، “لام” ایک حرف ہے، اور “میم‘ ایک حرف ہے” (ترمذی جلد/۲ صفحہ/۱۱۹)۔

بلاشبہ قرآن مقدّس کی تلاوت مسلمانوں کے لیے لاجواب نعمت و دولت اور خیر و برکت کی ضمانت ہے، اس کا ایک ایک لفظ دلی سکون، ذہنی ارتقا اور روحانی تازگی کا ذریعہ ہے ،دنیاوی معاملات {روٹی کپڑا اور مکان وغیرہ}کےحصول کا ذریعہ بنانے کے بجائے اگر محض رضائےالٰہی اور جِلاءِ باطن کے لیے اس کی تلاوت کی جائے تو بہت ہی بہتر ہے۔

تلاوت قرآن کو معمولی سمجھنے والے کو تنبیہ: حضرت عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ “جس نے قرآن پڑھا پھر اس نے یہ سمجھا کہ اُس کوجو ثواب ملا ہے اس سے بڑھ کرکسی اور کو ثواب مل سکتا ہے تو اس نے یقیناً اس کو معمولی سمجھا جس کو اللّٰہ تعالیٰ نے عظیم کیا ہے” (طبرانی)۔

اس سے معلوم ہوا کہ تلاوتِ قرآن عظیم ترین عبادت ہے اور اس حدیث شریف میں سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ تلاوت قرآن کے اجر و ثواب کو ہرگز کوئی معمولی نہ سمجھے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا زبردست ثواب مقرر فرمایا ہے

اس کو بھی پڑھیں: قرآن مقدس کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں

تلاوت قرآن سب سے افضل عبادت

قرآن کی تلاوت سب سے افضل عبادت ہے جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبئ کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ ” میری امت کی سب سے افضل اور بہتر عبادت قرآن کی تلاوت ہے” ایک دوسری روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا “لوگوں میں سب سے بڑاعبادت گزار وہ ہےجوسب سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرنے والا ہے

تلاوت قرآن کرنے والوں کو قیامت کے دن اعزاز

قیامت کے دن قرآن پاک کی تلاوت کرنے والوں کو یہ اعزازو مرتبہ حاصل ہوگا کہ قرآن کی سفارش سے ان کو عزت و شرف کے تاج سے آراستہ کیا جائے گا اور انھیں حکم دیا جائے گا کہ جنت کے بلند درجوں میں چڑھتے چلے جائیں جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ تاج دار کا ئنات صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ قرآن کی تلاوت کرنے والا قیامت کے دن آئے گا تو اسے عزت و شرف کا تاج پہنایا جائے گا

پھر قرآن کہے گا: اے پروردگار: اسے اور نواز دے اس کے بعد اسے عزت و شرف کا جوڑا پہنایا جائے گا، پھر وہ قرآن کہے گا: اے رب !اس سے راضی ہوجا، اللّٰہ تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے گا ،پھر قرآن مقدس کی تلاوت کرنے والوں سے کہا جائے گا: تم قرآن پڑھتے جاؤ اور بلندی پر چڑھتے جاؤ یہاں تک کہ وہ ہر آیت کے ساتھ ایک درجہ بڑھتا جائے گا” (ترمذی جلد/۲ صفحہ/۱۱۹)۔

قرآن پڑھنے والے کے والدین کا اعزاز

قرآن پڑھنے والے کے والدین کو نہایت ہی روشن تاج پہنایاجائے گا جیسا کہ حدیث شریف میں ہےکہ حضرت بریدہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ” جو قرآن پڑھے گا اس کی تعلیم حاصل کرے گا اور اس کے مطابق عمل کرے گا اس کے والدین کو قیامت کے دن نور کا ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی کی طرح ہو گی اور اس کے والدین کو دو ایسے جوڑے پہنائے جائیں گے جن کی قیمت ساری دنیا نہ ہوسکے گی تو وہ دونوں کہیں گے کہ ہمیں کیوں پہنایا؟ تو کہا جائے گا: تمہارے بیٹے کے قرآن پڑھنے کی وجہ سے

ایک دوسری روایت کے راوی حضرت معاذ جہنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں آپ کہتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ “جو قرآن پڑھے اور اس کے مطابق عمل کرے قیامت کے دن اس کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی بہتر ہوگی اگر وہ سورج دنیا کے گھروں میں اتر آئے، پھر تمہارا کیا خیال ہے اس شخص کے بارے میں جس نے خود قرآن پڑھ کر اس کے مطابق عمل کیا”( التّرغیب والّترہیب جلد/۲ صفحہ/۵۷۵)۔

کتنے خوش نصیب ہیں وہ والدین کہ جن کی اولاد قرآن مقدس پڑھتی اور اس کے مطابق عمل کرتی ہے جس کی وجہ سے انہیں قیامت کے دن یہ عظیم الشان اعزاز ملے گا
سبحان اللّٰہ ! کیا فیضان ہے تلاوت قرآن کا کہ روزِ قیامت اس کے والدین کو ایسا روشن چمکتا دمکتا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی گھروں کے اندر سورج کی روشنی سے بڑھ کر ہوگی تو جب قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والے کے والدین کو یہ اعزاز نصیب ہوگا تو خود اس کے اعزاز کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے۔

ابھی آپ نے ملاحظہ کیا کہ قرآن پڑھنے والے اور اس کے والدین کو قیامت کے دن کن کن انعامات سے نوازا جائے گا لہذا ہمیں اور آپ کو اور سب مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو کم ازکم ناظرہ قرآن مجید اور دین کے ضروری مسائل کی تعلیم ضرور دلائیں، تاکہ بچہ قرآن پڑھ سکے اور اس پر عمل کر سکے، جس کے باعث قیامت کے دن آپ کو بھی وہ اعزاز نصیب ہوگا، ہر باپ کو چاہیے کہ اپنے بچے کو دین کی اتنی تعلیم ضرور سکھا دے کہ جس سے وہ ارکان اسلام پر عمل کر سکے اور آپ کی نماز جنازہ تو کم ازکم صحیح طور پر ادا کرسکے

آپ کے نام فاتحہ خوانی کر سکے تاکہ دوسروں کا محتاج نہ ہو، کیوں کہ قیامت کے دن ہر باپ سے اس کی اولاد کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا جیساکہ بخاری شریف کی ایک مشہورحدیث کامفہوم ہے تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے اور جن کی ذمہ داری ان کے سر ہے ان کے بارے میں ان سے سوال ہوگا لہٰذا ہرشخص پر اپنی اولاد کی تعلیم واصلاح کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے

جن لوگوں نے اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم اور علوم دینیہ کی طرف متوجہ کیا قیامت کے دن ان کے سروں پر نور کا تاج بھی ہوگا اور وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش بھی ہوجائیں گے اور جن لوگوں نے اپنی اولاد کو غلط راہوں پر لگادیا بظاہر ان کو بہت ساری دولت تو حاصل ہوگئ، دنیاوی اعزازات بھی مل گئے لیکن ان میں اگراسلامی تعلیمات کی روح باقی نہ رہی اوروہ بےراہ روی کے شکار ہوگئے تو اس کا خمیازہ خود اولاد کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی بھگتنا ہوگا

قرآن دیکھ کر پڑھنے کی فضیلت

حضرت عبداللّٰہ بن اوس ثقفی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ”کسی شخص کا قرآن بغیر دیکھے پڑھنا ایک ہزار درجہ رکھتا ہے اور اس کا قرآن دیکھ کر پڑھنا اس سے بڑھ کر دو ہزار تک پہنچ جاتا ہے (مشکوٰۃ ص/۱۸۹)۔
قرآن کو دیکھ کر پڑھنے میں دوگنا ثواب ہو جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ طیّبی علیہ الرّحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ “قرآن کا دیکھنا،اس کا اٹھانا ،اس کا چھونا، قرآن پر غور و فکر کا موقع فراہم ہونا، اور اس کے معنیٰ و مفہوم کا سمجھنا ان سب کی وجہ سے اس کا ثواب دوگنا ہو جاتا ہے”(مرقاة شرح مشکوٰۃ)۔

تلاوت قرآن سے دلوں کا علاج

حضرت عبداللّٰہ ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ “بے شک دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے جب اسے پانی لگ جائے ،عرض کیا گیا: ان کی صفائی کس طرح ہوتی ہے؟ فرمایا: موت کو کثرت سے یاد کرنے اور قرآن کی تلاوت کرنے سے” (مشکوٰۃ ص/۱۸۹)۔

تلاوت قرآن سے سکون و رحمت اور فرشتوں کانزول

حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” جو لوگ اللّٰہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہوکر اللّٰہ کی کتاب [قرآن] کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اس کا تکرار کرتے ہیں [یا درس دیتے ہیں] تو ان پر [ اللّٰہ کی طرف سے ] سکینت [ تسکین و رحمت ] نازل ہوتی ہے، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے ،فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ ان فرشتوں میں ان کا ذکرفرماتا ہےجواس کے پاس ہوتے ہیں”( صحیح مسلم ج/۲،ص/۱۰۸)۔

یقیناً تلاوت قرآن وہ مبارک و پسندیدہ عمل ہے جس کے سننے کے لیے نہ صرف سلیم الطبع جن وانس مضطرب وبے چین رہتے ہیں بلکہ آسمان سے فرشتے بھی اتر آتے ہیں جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک صحابی کا واقعہ نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ “ایک صحابی نماز تہجد میں سورۂ کہف کی تلاوت کر رہے تھے کہ اچانک گھر ہی میں بندھاہوا ایک جانور [گھوڑا] بدکنے لگا

سلام پھیرنے کے بعد نظر دوڑایا تو اوپر بادل جیسا ایک ٹکڑا نظر آیا جس نے انہیں ڈھانپ رکھا تھا[صبح ہونے کے بعد] اس واقعہ کا تذکرہ انہوں نے نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے کیا، جس پر آپ نے فرمایا: اے فلاں! تم اپنی تلاوت جاری رکھو یہ سکینت تھی جو قرآن کی تلاوت کی وجہ سے آسمان سے اتری تھی (صحیح مسلم ج/۱،ص/۲۰۸ مجلس برکات )۔

علّامہ حافظ ابن حجرعلیہ الرّحمہ فرماتے ہیں کہ “سکینہ سے مراد فرشتے ہیں، جو آسمان سے قرآن سننے کے لیے اترتے ہیں-( بخاری ج/۱،ص/۱۳۳-شرح مسلم للنووی ج/۶،ص/۸۲)۔
اس واقعہ سے ملتا جلتا حضرت اسید بن حضیر کا واقعہ بھی ہےکہ وہ رات میں سورۂ بقرہ کی تلاوت فرما رہے تھے کہ ان کا گھوڑا ان کے صاحبزادے یحییٰ کے قریب ہی بندھا ہوا تھا بدکنے لگا، خاموش ہونے پر وہ بھی پرسکون ہو گیا، یہ عمل بار بار ہوا، آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو بادل کی ایک ٹکڑی نظر آئی، جس میں قندیلیں روشن تھیں- نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ فرشتے تھے جو تمہاری تلاوت سننے کے لئے تمہارے قریب آئے تھے، اور اگر تم تلاوت جاری رکھتے تو وہ فرشتے بھی اسی طرح صبح تک ٹھہرےرہتے اور لوگ انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے” (صحیح مسلم ج/۱،ص/۲۶۹)۔

تلاوت قرآن گھر کو شیطان سے پاک کرنے کا علاج: درحقیقت ہمارے سامنے دو آواز ہیں، ہمیں یہ اختیار ہے کہ ہم ان میں سے جس آواز کو بھی چاہیں اپنے گھر کی زینت بنائیں، مگر دونوں کے ظاہری اثرات اس گھر پر ڈائریکٹ بغیر کسی واسطے کے پڑیں گے ،جس میں سے ایک آواز گانا باجا وغیرہ کی ہے، اور دوسری آواز تلاوت قرآن اور نیک باتوں کی ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کہ” اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ بے شک شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے” ترمذی ج/۲ص/۱۱۵، مشکوٰۃ ص/۱۸۴)۔

تلاوت قرآن نور ہے

سیّد عالم، نور مجسم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:” قرآن مقدس کی تلاوت؟ کرو یہ تمہارے لیے دنیا میں نور ہوگا اور آسمان میں تمہارے لئے بےشمار نیکیوں کا ذخیرہ ہوگا”( کنز العمّال ج/۱،ص/۲۶۸)
تلاوت قرآن شفاعت کا سبب: حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلّی اللّہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ فرما رہے تھے کہ “قرآن مجید پڑھو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارش کرے گا (مسلم ج/۱،ص/۲۷۰) ۔

اس طرح کی بہت سی حدیثیں حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، جن میں سے ایک اور حدیث ملاحظہ ہو
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ “رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا: کہ “روزہ اور قرآن دونوں بندہ کے لیے شفاعت کریں گے، روزہ عرض کرے گا: کہ یا اللّٰہ! میں نے اس کو دن میں کھانے پینے اور شہوات سے روکے رکھا میری شفاعت قبول کرلے ،اور قرآن کہے گا: یا اللہ! میں نے رات کو اس کو سونے سے روکا میری شفاعت قبول فرما لے، پس دونوں کی شفاعت قبول کی جائےگی” مشکوٰۃ ج/۱،ص/۱۷۳)۔

قرآن سے خالی دل ویران گھر کی طرح ہے: وہ لوگ جن کے سینے میں قرآن نہیں ہے وہ ویران گھر کی طرح ہیں جیسا کہ ترمذی شریف جلد 2 صفحہ 115 میں ہے کہ حضرت عبداللّٰہ ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سےمروی ہے کہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس کے دل میں قرآن کا کوئی حصہ نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے” یعنی جیسے ویران گھر خیروبرکت اور رہنے والوں سے خالی ہوتا ہے ایسے ہی اس شخص کا دل خیروبرکت اور روحانیت سے خالی ہوتا ہے جسے قرآن مجید کا کوئی بھی حصہ یاد نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان کو قرآن شریف کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور زبانی یاد کرنا اور رکھنا چاہیے تا کہ وہ اس وعید سے محفوظ رہے

تلاوتِ قرآن کرنے والوں کے تین درجے

غیرِعرب [عجمی] مسلمانوں میں قرآن مقدس کو پڑھنے وتلاوت کرنے والے عام طور پر تین طرح کے ہوتے ہیں

۔(۱) وہ جو قرآن کی زبان سے آشنا ہوتے ہیں اور اس کے اصل مطلب کو سمجھ کر تلاوت کرتے ہیں ہیں ،ظاہر ہے کہ یہ تلاوت قرآن کی سب سے بہتر صورت ہے
۔(۲) دوسرے وہ لوگ جو قرآن کی زبان سے تو واقف نہیں ہیں تاہم اس کتابِ ہدایت کو سمجھنے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں چنانچہ وہ اپنی زبان میں موجود تراجم قرآن کی طرف مراجعت کرتے ہیں اور یہ پہلی صورت سے ایک درجہ کم ہے
۔(۳) تیسرے وہ جو نہ قرآن کی زبان کو جانتے ہیں اور نہ ان کے پیش نظر اسے سمجھنا ہی ہوتا ہے،بلکہ طلبِ فہم کے بغیر محض الفاظِ قرآن کو اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں یہ تلاوت قرآن کا تیسرا درجہ ہے
تلاوت قرآن کے آداب: تلاوت قرآن کےکچھ آداب ہیں ، تلاوت کرنے والے کو ان آداب کی رعایت کرنی چاہئیے تا کہ قراءت اللّٰہ کی بارگاہ میں مقبول اور باعثِ ثواب ہو،
مشائخِ کرام نے تلاوت کے چھ آداب ظاہری اور چھ آداب باطنی ارشاد فرمائے ہیں

تلاوت کے ظاہری آداب
۔(۱) قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے
۔(۲) پڑھنے میں جلدی نہ کرے ، ترتیل و تجوید سے پڑھے
۔(۳) رونے کی کوشش کرے ،چاہے بہ تکلّف ہی کیوں نہ ہو

۔(۴) آیاتِ رحمت پر دعائے مغفرت و رحمت مانگے، اور آیت عذاب پر اللّٰہ سے پناہ مانگے
۔(۵) اگر ریا کا احتمال ہو یا کسی دوسرے مسلمان کی تکلیف و حرج کا اندیشہ ہو تو آہستہ آہستہ ،ورنہ آواز سے پڑھے!
۔(۶) خوش الحانی[ اچھی آواز ]سے پڑھے، کیونکہ خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کی بہت سی حدیثوں میں تاکید آئی ہے

تلاوت کے باطنی آداب

۔(۱) قرآن کی عظمت دل میں رکھے کہ کیسا بلندمرتبہ کلام ہے
۔(۲) اللّٰہ تعالیٰ کی علوِّشان اوررفعت وکبریائی کودل میں رکھے کہ جس کا کلام ہے
۔(۳) دل کو وسوسوں اور خطرات سے پاک رکھے
۔(۴) معانی پر غور و خوض کرے اوردلجوئی کے ساتھ پڑھے، حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ پوری رات ایک ہی آیت کو پڑھ کر گزار دی، جس آیت کا ترجمہ یہ ہے “اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انکی مغفرت فرما دے توتو عزت والا ہے”
۔(۵) جن آیتوں کی تلاوت کر رہا ہے دل کو ان کاتابع وفرمانبردار بنادے، جیسے اگر آیتِ رحمت زبان پرہے تو دل سرورِمحض بن جائے،اورآیتِ عذاب اگر آگئی تودِل لرز جائے
۔(۶) کانوں کواس درجہ متوجہ بنا دے گویا خود اللّٰہ تعالیٰ کلام فرما رہا ہے اور یہ سن رہا ہے

اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے مشائخ کے بیان فرمودہ ان آداب کے ساتھ ہمیں تلاوت قرآن زیادہ سے زیادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے- آمین

مسلمانوں کے ساتھ یہ دوہرا معیار کیوں، تحریر:محمد مقصود عالم قادریاتردیناجپور مغربی بنگال


جب بی جے پی پارٹی کے ترجمان نوپورشرما اور انکے نیتا نوین کمار نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کیں اورام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا اور آپ علیہ الصلاة والسلام کے نکاح کے تعلق سے بے ہودہ کلمات ادا کیں تو صرف ہندوستان کے مسلمان کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو قلبی تکلیف پہنچی مسلمانوں کے درمیان بے چینی چھا گئی اور سکون ملتا بھی کیسے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ناموس ایک مسلمان کے لئے مقصود کائنات اور ہر چیز سے اہم ہے پھر اگر اسی ناموس پر آئے دن کوئی ملعون یا ملعونہ حملہ کرے تو کہاں سے دل کو قرار آئے گا ،پھر بھی ہندوستان کے مسلمانوں نے حکومت سے آس لگائی تھی کہ حکومت ایسے شرپسند لوگوں کے خلاف کارروائی کرے گی لیکن حکومت نے بھی مسلمانوں کے امیدوں پر پانی پھیر دیا، جب ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی تب مسلمانوں نے احتجاج کرنا شروع کر دیا تقریبا ہر شہر میں احتجاج ہوا یہ احتجاج صرف اور صرف گستاخان نبیﷺ کو سزا دلانے کے لیے تھا نہ کہ ملک کے امن و سکون کو برباد کرنے کے لیے
رانچی کانپور اور دیگر شہروں میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے لیکن ایک سازش کے تحت اس کو پرتشدد بنا دیا گیا اور احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی گئی،پتھر کن لوگوں نے مارا؟کہاں سے آئے؟ اس سازش کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اور پتھر چلانے والے احتجاج میں شریک تھے بھی کہ نہیں؟ اس کی جانچ پڑتال کیے بغیر پولیس عدالتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خود کاروائی شروع کر دی اور ایسی مذموم کارروائی کہ رانچی میں پولیس نے مظاہرین پر سامنے سے گولی چلا دی جس کی وجہ سے دو پر امن مظاہرین کی موت ہوگئی،
اور نہ جانے کتنے زخمی ہو گئے اور بہت لوگوں کو تو جیل میں ڈال دیا گیا کچھ لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیا گیا،
مسلمان پر امن طریقے سے اپنی بات کہنے کے لیے احتجاج کر ر ہیں تھےتو ان پر ظلم و بربریت کا پہاڑ توڑ دیا گیا
دوسری طرف مرکزی کابینہ نے جب اگنی پتھ یوجنا کا اعلان کیا تو ملک کے مختلف حصوں میں جوانوں نے ملک کے کئی صوبوں میں پرتشدد احتجاج بھی کیا اور کروڑوں کے املاک بھی تباہ کیے،کئ ٹرینوں کو آگ کے حوالے کیا اور کئی سرکاری دفاتر کو نذر آتش کر دی،پتھر بازی بھی ہوئی اورآگ زنی بھی،بی جے پی کے لیڈروں کو دورہ دورہ کر مارا یہاں تک کہ سیکڑوں پولیس زخمی بھی ہوئے اور تو اورخبروں کے مطابق ایک ہزار کروڑ کا نقصان تو صرف ہندوستانی ریل کا ہوا،لیکن ان کے ساتھ پولیس کا وہ رویہ اور برتاؤ نہیں ہوا جو کہ اہانت رسولﷺ کے مسئلہ پر امن مظاہرے کرنے والے جوانوں کے ساتھ ہوا آخر مسلمانوں کے ساتھ اس قدر دوہرا سلوک کیوں؟ جوجوان اگنی پتھ کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں ان کے بارے میں بنارس کے پولیس کمشنر ستیش گنیش نے کہا کہ یہ ہمارے اپنے بچے ہیں ہم انہیں سمجھائیں گے جب یہ جوان آپ کے اپنے بچے ہیں تو پھر اہانت رسول ﷺپر احتجاج کرنے والے جوان وہ کس کے بچے ہیں؟آپ ان جوانوں کو پیار و محبت سے سمجھا رہے ہیں اور مسلم نوجوانوں کو لاٹھی و گولی سے کیا یہی انصاف ہے؟آخر ہم کب تک برداشت کریں گے کیا ہم ہندوستان کے معزز شہری نہیں ہیں؟کیا اس ملک کے لئے ہمارے آباو اجداد نے برابر کے قربانیاں نہیں دی؟ مسلمان اپنی بات کہنے کے لیے پرامن طریقے سے احتجاج کریں تو ملک کے غدار بن جاتے ہیں اور کوئی غنڈاگردی اور آتش زنی کرکے مظاہرہ کریں تو وہ آپ کے اپنے بچے ہیں
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

بچوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی دھیان دیں:پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری

رپورٹ:علی محمدقادری انواری خادم:مدرسہ فیضانِ گل محمد شاہ جیلانی، بھونی کاپار، تحصیل گڈرا روڈ ضلع باڑمیر(راجستھان)

22 ذی القعدہ 1443 ھ مطابق 23 جون 2022 عیسوی بروز جمعرات مغربی راجستھان کی عظیم وممتاز اور علاقۂ تھار کی دینی وعصری، تعلیمی وتدریسی،تربیتی اور مرکزی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف” کی تعلیمی شاخ “مدرسہ فیضانِ گل محمد شاہ جیلانی بھونی کاپار تحصیل گڈرا روڑ ضلع باڑمیر” میں ایک “دینی واصلاحی مجلس مشاورت” دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے مہتمم وشیخ الحدیث وخانقاہ عالیہ بخاریہ سہلاؤشریف کے صاحب سجادہ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کی سرپرستی میں منعقد ہوئی-
واضح رہے کہ یہ مجلس مشاورت دارالعلوم کے ارکان کی تحریک اور دارالعلوم کی تعلیمی شاخ “مدرسہ فیضانِ گل محمد شاہ جیلانی بھونی کاپار” کے ذمہ داران بالخصوص فقیر علی محمدقادری انواری مدرس مدرسہ ہٰذا کی درخواست وگذارش پر دارالعلوم کی مذکورہ تعلیمی شاخ میں تعلیمی وتعمیری میدان میں بہتری لانے اور لوگوں کے دلوں میں دینی تعلیم کی اہمیت وفضیلت اور دینی جزبہ پیداکرنے بالخصوص مسجد ومدرسہ کو باقاعدہ آباد کرنے کی خاطر منعقد کی گئ تھی-
مجلس کی شروعات حضرت مولانا محمددائم صاحب انواری کے ذریعہ تلاوت کلام ربانی سے کی گئی، بعدہ مولوی ابوبکر انواری متعلم درجۂ فضیلت دارالعلوم انوارمصطفیٰ نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نذرانہ پیش کیا،پھر ادیب شہیر حضرت مولانا محمدشمیم احمد صاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف نے لوگوں کے سامنے اس مجلس مشاورت کے اغراض ومقاصد کو بیان کرتے ہوئے لوگوں کو اپنی آبادی کی مسجدومدرسہ کو باقاعدہ آباد کرنے اور اس کی مزید تعمیروترقی کی طرف دھیان دینےکی تاکید وتلقیں کی-
آخر میں سرپرست مجلس نورالعلماء رہبرقوم وملت حضرت علامہ الحاج پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی نے سبھی شرکائے مجلس کو اپنے ناصحانہ خطاب سے نوازا،آپ نے اپنی نصیحتوں کے دوران خصوصیت کے ساتھ ان باتوں پر زور دیا:اپنے بچوں کے دینی وعصری تعلیم پر خصوصی توجہ دیں بالخصوص دینی تعلیم پر، تعلیم کے ساتھ بچپن سے ہی ان کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیں، کیونکہ بچوں کی تربیت پر دھیان دینا انتہائی ضروری ہے،اکثر لوگ یہ کہہ دیاکرتےہیں کہ جب بچہ بڑا ہوگا تو خود ہی ٹھیک ہوجائےگا، جب کہ صحیح اورتجربہ کی بات یہ ہے کہ جو بچہ بچپن میں تمیز نہیں سیکھتا وہ بڑا ہوکر بھی جلدی تمیز نہیں سیکھ پاتا،اگر بچوں کو بچبن سے ہی اچھی تعلیم وتربیت دی جائے تو وہ بڑے ہوکر بھی اچھی زندگی بسر کریں گے اور ایسے بچے سماج وملک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے،ہمیں چاہییے کہ ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی دین کی طرف بالخصوص دینی تعلیم کی طرف راغب اور متوجہ کریں،کیونکہ سبھی والدین اور گارجین کے لیے یہ لازم وضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں،انہیں اچھاانسان بنائیں،ان کی اچھی تعلیم وتربیت کا انتظام کریں خصوصی طور پر انہیں دینی تعلیم وتربیت سے ضرور آراستہ کریں-اس کے لیے الحمدللہ آپ حضرات نے اپنی آبادی میں ایک اچھے مکتب کا قیام کیاہے،ماشاءاللّٰہ اس مکتب میں طلبہ وطالبات کی اچھی تعداد ہے جو اپنے آپ کو تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے میں مصروف ہیں-
آپ نے دوران نصیحت یہ بھی فرمایا کہ آپ حضرات اپنی آبادی کی مسجد ومدرسہ اور ان کے مدرس وامام پر خصوصی دھیان دیں،نماز پنجگانہ کے پابند بنیں،اور دوسرے اسلامی بھائیوں کو بھی نماز ودیگر ارکان اسلام کی حتی الوسع دعوت خیر دیں،اپنے گاؤں میں دینی واسلامی ماحول قائم کریں،اپنے مسجد کے امام اور مدرسہ کے مدرس کی خوب خوب خدمت کریں، ان کی عزت افزائی کریں،ہر طرح سے ان کا بھر پور خیال رکھتے ہوئے برابر مسجد ومدرسہ کی خبرگیری کرتے رہیں،اور مدرسہ کے لیے کم ازکم ایک کشادہ ہال اور اپنے مدرس کی رہائش کے لیے ایک کمرہ ضرور تعمیر کروانے کی کوشش کریں،آپس میں اتفاق واتحاد کا مظاہرہ کریں اور مسجد ومدرسہ کے معاملہ میں کسی طرح کی بھی سیاست سے دور رکھیں،دینی کاموں میں سب لوگوں بھائی بھائی بن کر جوش وجزبہ کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں،مسجد ومدرسہ میں خرچ کیا ہواآپ کا مال صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتاہے اس لیے اپنی آخرت کی بھلائی کے لیے مسجدومدرسہ کی تعمیر وترقی میں حتی الامکان حصہ لیں،دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے حصول پر بھی خوب خوب توجہ دیں،اپنے بچوں کو دنیاوی اعتبار سے بھی عصری تعلیم کے ذریعہ اعلیٰ مناصب پر فائز کرنے کی کوشش کریں،آپ نے اس طرح کی بہت سی مفید باتیں اور مشورے لوگوں کے سامنے رکھیں جس پر لوگوں نے عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی،آخر میں آپ نے لوگوں بالخصوص مدرسہ کے ذمہ داران ومدرسین کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ کی جو پورے علاقۂ تھار میں 80 تعلیمی شاخیں چل رہی ہیں ہم ان شاخوں کی کامیابی اس وقت تصور کرتے ہیں جب ان مکاتب کے مدرس اپنے مکتب سے ناظرہ قرآن اور اردو وغیرہ پڑھا کر سال بہ سال کچھ بچوں کو دارالعلوم میں حفظ وقرات یا عالمیت کا کورس کرنے کے لیے دارالعلوم بھیجتے ہیں اس لیے آپ سے بھی گذارش ہے کہ آپ سالانہ کچھ ہونہار طلبہ کو اس لائق ضرور بنائیں کہ وہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ میں داخلہ لے کر حافظ وقاری یا عالم دین بن سکیں،الحمدللہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف میں جہاں عالم وفاضل تک پڑھائی کا نظم ونسق ہے وہیں ساتھ ہی ساتھ دسویں کلاس [ہائی اسکول] تک عصری تعلیم کا بھی بندوبست ہے،اور ان شاءاللہ العزیز عنقریب بارہویں کلاس[انٹر میڈیت] کی منظوری راجستھان حکومت کی طرف سے مل جائےگی-
الحمدللہ یہ مجلس مشاورت امید سے زیادہ کامیاب اور معنیٰ خیز رہی، گاؤں کے لوگوں نے جوش وجذبہ اور خلوص ومحبت کا خوب خوب اظہار کیا-
اس مجلس میں علمائے کرام کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
جناب محمداحسان صاحب،محمد رمضان ،محمدامین،حاجی عبدالرحیم، ماسٹر عبدالملوک،محمد امین خان،محمدمرید وغیرہم-
صلوٰة وسلام اور قبلہ پیر صاحب کی دعاؤں پر یہ مجلس سعید اختتام پزیر ہوئی-

وقت رہتےحکومت کی شاطرانہ چال کوسمجھے مدارس_اسلامیہ،، از قلم آصف جمیل امجدی انٹینا تھوک

حکومت ہند کی ہمیشہ سے مدارس اسلامیہ پر شاطرانہ نگاہ رہی ہے اس سے کسی ذی فہم کو مجال انکار نہیں، اور اس سے بھی ذی فہم سر منہ نہیں پھیر سکتے کہ جب سے مدارس اسلامیہ سرکاری کوٹے سے استفادہ حاصل کرنا شروع کیا ہے تبھی سے حکومت منظم طور پر رفتہ رفتہ اپنی شاطرانہ چال ڈھال میں تبدیلی لاتی رہی کبھی بظاہر تعلیمی نظم و نسق کو بہتر کرکے تو کبھی سالانہ منعقد ہونے والے امتحانات کے قوانین کو مضبوط اور مزید بہتر سے بہتر بنا کر خاص طور سے تنخواہ میں اضافی کی صورت نکال کر۔
ہر دن مسلمانوں کو خاص طور سے علماءکو ارتدار کی جانب ایک چھڑی سے ہانکتی ہوئی بڑی سرعت کے ساتھ لئے جارہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہم ہیں کہ حکومت کی جانب سے پیش کئے جانے والے زہر ہلاہل کو (کوئی) حلال صورت نکال کر گھونٹ گھونٹ پیئےجارہے ہیں،
مسلکی اختلافات سے باہر نکل کر بڑی معذرت🙏 کے ساتھ آپ کے سامنے دور اندیشی کی ایک حتی قول پیش کر رہا ہوں برا لگے تو پھر معذرت 🙏چاہوں گا “آج آپ(سبھی جماعتوں کے علماء سے مخاطب ہوں) یوگا کئے ہیں (اس کے متعلق ہلکی فلکی آواز اٹھی بھی تو یہ کہہ کر آواز کو کچل دی گئی کہ اگر بطور ورزش کیا جاۓ تو کوئی خرابی نہیں ہم بھی اس کے منکر نہیں، لیکن حکومت کی چال اور نظرۓ کو سمجھیں، علاوہ ازیں روزی روٹی کے ساتھ اپنی غلیظ ناک بچانے کے لیے اس کی حلت کی دگر صورت بھی تجویز کر لی گئ)
کل آپ کی اولاد کالے پتھر کے سامنے ہاتھ جوڑے گھڑی رہے گی( روزی روٹی کے لیے اس کی حلت کے جو سارے طریقے آپ نکال رہے ہیں کل آپ کی اولاد بھی نکالے گی، بے فکر رہیں۔)

✍️__آج

گستاخان نبیﷺ کو سخت سزا ملنی چاہیے، تحریر:محمد مقصود عالم قادری اتردیناجپور مغربی بنگال


آج ملک عزیز ہندوستان میں سید المرسلین رحمة اللعٰلمین، وجہ تخلیق کائنات حضور اقدس ﷺ کی شان میں نازیبا الفاظ اور آپ علیہ السلام پر طرح طرح کے الزامات اور گستاخیاں کرکے ملک کے امن و سکون کو پامال کیا جا رہا ہے آئے دن کوئی نہ کوئی ملعون حضور علیہ السلام کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتا رہتا ہے تقریبا ایک سال پہلے ملعون نرسمہا نند سرسوتی نے حضور علیہ السلام کی شان میں گستاخیاں کی اور اپنے ساتھ حکومت کی حمایت کی وجہ سے ان کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ،اور پھر حال ہی میں بی جے پی پارٹی کی ایک لیڈر ملعونہ نوپور شرما اور نوین کمار نے نبی علیہ السلام کی شان میں ایسے گندے الفاظ ادا کی جسے میں اپنے قلم سے لکھنا بھی مناسب نہیں سمجھتا اس گستاخی سے صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے جذبات کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا ہے
ہم حکومت سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ جہاں بے زبان جانوروں کے لیے بھی قانون بنایا گیا ہے کہ جب انہیں کوئی بلاوجہ تکلیف پہنچاۓ تو اس کے ساتھ سخت کاروائی کی جاتی ہے بہت سے ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ جانوروں کو بلا وجہ تکلیف دینے کی وجہ سے بڑی شخصیتوں کو بھی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا،تو جن اشتعال انگیز بیانات سے تمام مسلمانوں کوقلبی تکلیف پہنچایا جاتا ہے ملک کی فضا کو خراب کیا جاتا ہے ان کے خلاف کیوں نہیں قانونی کاروائی کی جاتی؟ان کو سلاخوں کے پیچھے کیوں نہیں ڈالا جاتا؟لیکن افسوس حکومت ایسے لوگوں کو سزا دینے کے بجائے ان کے ساتھ قانونی کاروائی کے بجاۓ ان کو حکومت حفاظت کے لیے سکوریٹی تعینات کرتی ہے تاکہ وہ اسی طرح بھڑکاؤ بیانات دیتے رہے اور حکومت اپنی سیاست کی روٹی سیکھتی رہے
اب ان لوگوں کیلئے اہانت رسول ﷺ کرکے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا نہایت ہی آسان ہوگیا کیوں کہ بی جے پی حکومت ان کی حفاظت کیلئے تو سکوریٹی مہیا کرہی رہی ہے
نوپور شرما اور نوین کمار کی گستاخی پر جب عرب ممالک قطر،کویت،دبئی،سعودی عربیہ وغیرہ ممالک نے شدت سے احتجاج کیا اور ہندوستان کے پروڈکٹ کا بھی بائیکاٹ کیا تو حکومت نے صرف دل بہلانے کیلئے ان دونوں کو اپنی پارٹی سے نکال دیا
جن کی وجہ سے پورے ہندوستان میں جگہ جگہ دنگے فساد برپا ہوۓ آۓ دن احتجاج ہو رہے ہیں ناجانے کتنے سارے نقصانات ہوئے اتنے بڑے مجرموں کیلئے کیا یہ معمولی سزا کافی ہے؟ ہرگز نہیں،ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نوپور شرما،نوین کمار اور جو بھی نبی علیہ السلام کی شان میں ادنیٰ گستاخی کرے تعزیرات ہند کے تحت ان کو سخت ترین سزا دی جائے تاکہ دوبارہ کوئ آقا علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے کی جرأت نہ کرے
اور مسلم قیادتوں سے بھی یہی اپیل ہے کہ آپ کے پاس سیاسی طاقت ہے تو محض اپنی ذات کیلۓ وہ طاقت استعمال نہ کرے بلکہ اپنے نبی ﷺکی ناموس کی حفاظت کے لئے اپنی طاقت کا استعمال کیجئے کیونکہ حضور علیہ السلام کی ناموس اور محبت تمام اشیاء سے معزز و محترم اور اہم ہے بلکہ ڈاکٹر اقبال کی زبان میں یوں کہیئے
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
ہو اگر خامی اسی میں تو سب کچھ نامکمل ہے

بخدمت اقدس عزیز گرامی عالی مرتبت شہزادہ حضور مُفتی اعظم اڈیشا ، ہمدرد مسلک اعلی حضرت نازش ملّت حضرت مولانا الشّاہ خادم رسول عینی ارشدی مدظلہ العالی

بخدمت اقدس عزیز گرامی عالی مرتبت شہزادہ حضور مُفتی اعظم اڈیشا ، ہمدرد مسلک اعلی حضرت نازش ملّت حضرت مولانا الشّاہ خادم رسول عینی ارشدی مدظلہ العالی
السّلام علیکم و رحمة الله وبرکاتہ
مزاج وہاج ؟
آپ کے برادرِ بزرگوار عظیم عاشق رسول (ﷺ) شہزادہ حضور مُفتی اعظم اُڑیسہ محبوبُ العلمآء والمشآٸخ فضیلةُ الشیخ حضرت الشّاہ پیر سیّد محمّد عطا مُحی الدین حبیبی قُدوسی الحُسینی ارشدی مدظلہ العالی کے اظہارِ محبت اور جذبات خیر اور آپ کی دینی مسلکی خدمات اور بے لوث محبّت اور آپ کے حکم کے پیش نظر فقیر آپ کو سلسلہ عالیہ قادریہ رزاقیہ بغدادیہ ارشدیہ ، سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ قدیمہ و جدیدہ ، سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مُجددیہ دوستیہ عثمانیہ سراجیہ حسنیہ غفوریہ سُبحانیہ ارشدیہ ، سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ ارشدیہ و چشتیہ صابریہ سراجیہ حسنیہ ارشدیہ ، سلسلہ عالیہ سُہروردیہ ارشدیہ ، سلسلہ عالیہ اُویسیہ ارشدیہ مع جمیع سلاسل طریقت کی اجازت و خلافت دیتا ہے –
شراٸط اجازت و خلافت
صحتِ عقیدہ مذہب حق اہلسنّت مسلک اعلی حضرت پر ہمیشہ قاٸم رہیں , تمام بدمذہبوں ، بدعقیدہ لوگوں سے ہمیشہ دُور رہیں ، اتباع شریعت و سنّت ، پنجگانہ نماز باجماعت کی اداٸیگی ، اور جُملہ خلافِ شرع اُمور سے ہمیشہ اجتناب از حد لازم شراٸط ہیں –
(نوٹ)
فقیر کی اجازت وخلافت عقاٸدِ حقّہ اَہلسنّت مسلک اعلی حضرت سواداعظم پرقاٸم رہنے ، شریعت وسنّت مُبارکہ کی اتباع کرنے ، کروانے اور تمام بدمذہبوں سے ہمیشہ بچنے بچانے کی بنیاد پر ہے ، بصورت دیگر فقیر کی دی ہُوٸی اجازت و خلافت منسوخ سمجھی جاٸے گی –
فقط والسّلام خیرختام
مدینے پاک کا بھکاری
خلیفہ ٕمجاز فیض یافتگان خلفاۓ اعلی حضرت
فقیر عبدُالمصطفٰی ابُوالبرکات محمّد ارشد سُبحانی غفرلہ النُّورانی
(بانی و سرپرستِ اعلٰی ماہنامہ ارشدیہ)
خادم تلوکرانوالہ شریف فاضل ضلع بھکر
خاک نشین خانقاہ سراجیہ کُندیاں شریف ضلع میانوالی پنجاب پاکستان
27شوال المکرم /1443 ھ / بمطابق 29 مٸی /2022 ء/ یوم الاحد (اتوار)