WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

سچائی کواپنائیں اور جھوٹ سے پرہیز کریں، از:(مولانا)محمّدشمیم احمدنوری مصباحیناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)mdshamimahmadnoori@gmail.com

اللہ وحدہٗ لاشریک کا کا بےپناہ کرم و احسان ہے کہ اس نے دنیا میں صدق یعنی سچائی جیسی عظیم صفت بھی پیدا کی ہے اور انسانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ سچائی کو اپنائیں، اس کو اپنی زندگی میں داخل کریں اوراس کواپناشیوہ اور وطیرہ بنائیں، اسی طرح اللہ ربّ العزّت نے جھوٹ کو بھی پیدا کیا مگر اس سے بیحد ڈرایا،اس سے دوررہنے کی تلقین کی،اس کی مذمت کی اوراس کے برے نتائج سے بھی آگاہ فرمایا-
اگر اللّہ ربّ العزّت کی جانب سے سچائی کو اپنانے اور جھوٹ سے پرہیز کرنے کا حکم نہ ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ،ہر انسان ایک دوسرے سے جھوٹ بولتا، اس لیے کہ جھوٹ بولنا بے حد آسان ہوتا ہے، دل تھوڑا سا جھوٹ کی طرف مائل ہوا اور ہونٹوں میں حرکت ہوئی جھوٹ نکل گیا، جب کہ سچ بولنا بہت مشکل ہے، بہت زیادہ جاں گسل اور کٹھن ہے،عموماًسچ کی طرف دل کو مائل ہونے میں بھی دیر لگتی ہے، اور سچ کے لیے ہونٹ بھی لرزتے ہوئے کھلتے ہیں،… ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ سچ یا جھوٹ کی نوبت ہی اس وقت آتی ہے جب معاملہ پھنستا ہوا نظر آتا ہے، اور عموما اس کے پیچھے کوئی ڈر اور کوئی خوف پوشیدہ ہوتا ہے، کہیں مال کے ضائع ہونے کا ڈر ،کہیں جان جانے کا ڈر ، کہیں لوگوں کی نظروں سے گر جانے کا ڈر، تو کہیں نوکری چلی جانے کا ڈر،اسی طرح کہیں استاذکاڈر، تو کہیں طلبہ کاڈر، کہیں بیوی کا ڈر ،تو کہیں شوہرکاڈر، کہیں ذمہ داروں کاڈر توکہیں کسی اورکا ڈر، اور یہ ڈر اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ انسان سے جانے انجانے میں کوئی ایسا عمل سرزد ہو جاتا ہے جس کا اظہار معیوب ہو، یا اس کی وجہ سے کسی پریشانی کا اندیشہ لاحق ہو،اوروہ اس پریشانی سے بچنے کے لیے کوئی بہانہ تلاشتا ہو، کوئی خوبصورت سا بہانہ بنا کر اپنا دامن بچا لینا چاہتا ہو،ایسا کرنے پر وقتی طور پر تو وہ خود کو کامیاب تصور کرتا ہے، مگرجھوٹ تو جھوٹ ہے، اس کا پردہ کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں ضرورفاش ہو جاتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ “جھوٹ کا انجام برا ہوتا ہے”-جھوٹ انتہائی مبغوض اور ناپسندیدہ صفت ہے،جھوٹ سے اعتماد کاخاتمہ ہوجاتاہے،جھوٹ جہاں بہت ساری برائیوں کاسبب ہے وہیں جھوٹ سےانسان اخلاقی معیارسے بھی گرجاتاہے اورجھوٹ سے آپسی تعلقات بھی کمزور پڑجاتے ہیں،جب کہ سچ سے آپسی اعتماد بحال ہوتاہے اور سچ سے انسان کوبلندی ملتی ہے،سچ ایک اعلیٰ ترین خصلت ہے،جب انسان سچ کو اپناتاہے توفطری طور پر اس کے دل سے اللّٰہ کے سوا تمام لوگوں کا ڈر نکل جاتا ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اللّٰہ تو مجھے دیکھ رہا ہے، مجھےاس کے سامنےیقیناً جوابدہ ہوناہوگا،ممکن ہے اس دنیا میں جھوٹ بول کر نکل جاؤں مگر کل قیامت کے میدان میں جب اللّٰہ کے سامنے میری پیشی ہوگی تو کیا جواب دوں گا؟ نتیجةً ایسا انسان برائیوں سے بچ جاتا ہے، یا کوئی ایسی حرکت کرنے سے گریز کرتا ہے جس کے کرنے کے بعد ندامت ہو- اللّٰہ ربّ العزّت نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: “یا ایہا الذین آمنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین”[سورۂ توبہ:۱۱۸] یعنی اے ایمان والو! اللّٰہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
خود محسن انسانیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا-سچائی ایسی صفت ہے جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یکساں طور پر تسلیم کی گئی ہے، اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی اسی لیے شریعت اسکامیہ میں اس کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے، اور ہر حال میں سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے* نبی اکرم صلّی اللّہ علیہ وسلّم نے ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم بھی دی اور جھوٹ بولنے سے منع بھی فرمایا، آپ ہمیشہ سچ بولتے تھے یہاں تک کہ آپ کو نبی و رسول نہ ماننے والوں نے بھی آپ کی سچائی اور امانتداری سے متاثر ہوکر آپ کو صادق اور امین جیسے القاب سے نوازا تھا، تمام انبیائے کرام نے بھی ہمیشہ سچ بولنے کی تاکید فرمائی –
اسلام میں سچائی کی اتنی اہمیت ہے کہ ہر مسلمان کو سچ بولنے کے علاوہ اس کی بھی تاکید فرمائی گئی ہے کہ ہمیشہ سچوں کے ساتھ رہے اور سچوں کی صحبت میں رہے -حدیث پاک میں ہے کہ نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ایک موقع پر صحابہ سے فرمایا کہ “جو یہ چاہے کہ اللّٰہ اور اس کے رسول سے اس کو محبت ہو، یا اللّٰہ اور اس کے رسول اس سے محبت کریں تو اس کے لئے لازم ہے کہ جب بات کرے تو ہمیشہ سچ بولے” اسی طرح ایک حدیث میں حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے فرمایا: سچائی اختیار کرو اگرچہ تمہیں اس میں بربادی اور موت نظر آئے، دراصل نجات اور زندگی سچائی میں ہے، اور جھوٹ سے پرہیز کرو اگرچہ اس میں بظاہر کامیابی اور نجات نظر آئے کیونکہ جھوٹ کا انجام بربادی اور نامراد ہے-
سچ نجات کی کنجی ہے اور جنت تک پہنچانے والا ایک ایسا عمل ہے جس کی فضیلت فرمان الٰہی اور ارشادات رسالت میں ایک وسیع ذخیرہ ہمارے لئے مہیا ہے، اسلام کی نظر میں قول کی سچائی اسی وقت قابل قبول ہے جب کہ عمل میں بھی اسی کی مطابقت ہو –
ایک روایت میں رسول اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے پوچھا گیا: اہل جنت کی علامت کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا سچ بولنا، اسی کے بالمقابل ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: جھوٹ بولنا منافق کی نشانیوں میں سے ہے،بلاشبہ سچائی ایک مسلّمہ اخلاقی قدر ہے، دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں ہے جس نے سچائی کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین نہ کی ہو، اور دنیا کا کوئی معلّم ایسا نہیں جس نے سچ پرکاربندرہنے کادرس نہ دیاہو، اسلام نے تو خاص طور پر سچائی کو اہمیت دی ہے،سچائی میں بہت سے روحانی اور معاشرتی فوائد بھی مضمر ہیں، سچ بولنے سے انسان کا دل مطمئن رہتا ہے، اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، اور اسے کسی قسم کا کوئی خدشہ نہیں رہتا ،اس کے برعکس جھوٹ بولنے والا ہمیشہ پریشان رہتا ہے اوراسے خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ کہیں اس کے جھوٹ کا پول نہ کھل جائے اور اسے ذلّت و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے-
سچ بولنے سے چہرے پر رونق و تازگی رہتی ہے اور جھوٹے آدمی کا چہرہ اس نور سے محروم ہوتا ہے،اس کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ واقعی سچے کے چہرے پر رونق دکھائی دیتی ہے اور جھوٹے کے چہرے پر لعنت برستی نظر آتی ہے، اور خود قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے “لعنة الله علی الکاذبین” کہ جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے-
یوں تو حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی ذات طیّبہ میں بے شمار صفات موجود تھیں جن کو شمار کرنا تقریباً ناممکن ہے، لیکن حضور کی دو صفتیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ سے اہل مکہ آپ کو یادکیا کرتے تھے،اور وہ “صادق”اور”امین” ہیں-لہٰذاجس شخص کے اندریہ دوصفتیں پائی جائیں تو وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہے، کیونکہ جب انسان سچ بولتا ہے تو سچ کا راستہ اس کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی کا راستہ جنت کی طرف لے جاتا ہے اور بندہ سچ بولتا ہے یہاں تک کہ وہ اللّٰہ کے نزدیک سچّا لکھ دیا جاتا ہے، یہی حدیث شریف کا مفہوم بھی ہے، اس لیے ہمیں سچ بولنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور اپنے ہر قول و فعل میں سچ کواپناناچاہیئے، اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ سچّاشخص صدق کے درجہ سے صدیقین کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے،حدیث شریف میں ہے”التّاجرالصدوق الامین مع النّبیّین والصدّیقین والشھداء”یعنی سچااور امانت دار تاجر انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا- اب اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ چوبیس گھنٹے اس کی نیکی ہی لکھی جائے تواس کوچاہیئے کہ وہ بازار یا دفتر یا کسی جگہ پر بھی بیٹھتا ہو، وہ سچائی اور امانتداری کی نیت کے ساتھ بیٹھے ، تو اللّٰہ کی رحمت سے یہ امّیدہے کہ جواجر مسجدمیں ملتاہے وہی اجر دکان اور دفتر میں بھی ملےگا-
انسان کے تمام اخلاقِ رزیلہ میں سب سے زیادہ بری اور مزموم صفت”جھوٹ”کی ہے، جھوٹ چاہے زبان سے بولاجائےیاعمل سے ظاہر ہوجائے بہرحال یہ تمام قولی اور عملی برائیوں کی جڑ ہے-اور جھوٹے شخص سے محض جھوٹ بولنے کی وجہ سے دوسری کئی برائیاں لازمی طورپر صادر ہوجاتی ہیں-اسی وجہ سے قرآن مقدّس میں اللّٰہ تعالیٰ نے “جھوٹ” کے ساتھ دوسری بھی کئی برائیوں کاذکر فرمایاہے……چنانچہ ایک جگہ ارشادہے”ترجمہ:وہ[شیاطین] ہر ایسے شخص پر اترتے ہیں جو پرلے درجے کا جھوٹا گنہگار ہو”……ایک دوسری مقام پر ارشاد ہے”ترجمہ:بے شک اللّٰہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حدسے گذرنے والا[اور]جھوٹ بولنے کاعادی ہو”…اور حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا ارشاد ہے”جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ میں لے جاتاہے، اورآدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے یہاں جھوٹا لکھ دیا جاتاہے”…… حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یارسول اللہ! دوزخ میں لے جانے والا کام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: جھوٹ بولنا ، جب آدمی جھوٹ بولے گا تو گناہ کے کام کرے گا، اور جب گناہ کے کام کرے گا تو کفر [کفر کے کاموں میں سے کوئی کام] کرےگا،اور جو کفر کرے گا وہ دوزخ میں جائے گا” اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کی برائی کی وسعت اتنی زیادہ ہے کہ کفربھی اس میں آجاتا ہے، جس سے زیادہ بری چیز کوئی دوسری نہیں اور جس کے لیے نجات کا ہر دروازہ بند ہے،……ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضور نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کہ “منافق کی تین نشانیاں ہیں، {۱} جب بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا {۲} جب وعدہ کرے گا تو اس کی خلاف ورزی کرے گا {۳}اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے گی تو وہ اس میں خیانت کرے گا”-
بظاہرتو یہ تین مختلف باتیں ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک ہی کی تین مختلف صورتیں ہیں،جھوٹی باتیں کرناتو جھوٹ ہے ہے ہی، مگر وعدہ کرکے اس کو پورا نہ کرنا ،اور امین بن کر امانت میں خیانت کرنا یہ بھی توایک قسم کے عملی جھوٹ ہی ہیں-
جھوٹ بولنااتنی بری چیز ہے کہ اس سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے،اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے فرمایا:”اذاکذب العبدتباعدعنه الملک میلاًمن نتن ماجاءبه” یعنی جب بندہ جھوٹ بولتاہے تو فرشتے اس سےاس کے جھوٹ کی بو کی وجہ سے ایک میل دور چلےجاتے ہیں”……لہٰذا ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ جھوٹ بولنےاور جھوٹی باتوں کے بیان کرنے سے بچیں،کیونکہ جھوٹ بولنامنافق کی نشانیوں میں سے ہے، اورجھوٹ بولنے والا جہنّم کے سب سے نیچے طبقہ میں رہےگا-
ایک حدیث پاک کامفہوم ہے کہ “حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے کسی نے دریافت کیاکہ یارسول اللّٰہ!کیا مومن بخیل ہوسکتاہے؟توحضورنے فرمایا:ہاں!ہوسکتاہے، پھرسوال کیاگیا:کیامومن بزدل ہوسکتاہے؟تو آپ نے فرمایا:ہاں ہوسکتاہے،پھر سوال کیا گیا کہ کیا جھوٹا ہوسکتاہے؟ توحضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:نہیں ہوسکتا،یعنی جھوٹ کی عادت ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی”……اسی طرح سنی سنائی باتوں کوبغیرتحقیق کےبیان نہیں کرناچاہیئے،کیونکہ اس طرح انسان بعض مرتبہ جھوٹ میں مبتلا ہوجاتاہے،اور حضور سرکار مدینہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا:”کفیٰ بالمرءکذباً یحدث بکل ماسمع”کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی باتوں کو بیان کرتا پھرے-
بہت سےلوگ دنیا میں ایسے بھی پائے جاتے ہیں جوبظاہرسچے معلوم ہوتےہیں مگرحقیقت میں وہ سچے نہیں ہوتے،بات کوگھماپھراکر سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں،مگر سچ کے پردے میں جھوٹ کوچھپانا سخت ترین گناہ ہے-اس کے علاوہ جس بات کے کہنے سے کوئی فتنہ پیداہو،چاہے وہ بات سچ ہی کیوں نہ ہو،اسے کہنابالکل ہی غیرمناسب ہے،اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیشہ سچ بولیں اور جھوٹ کبھی نہ بولیِں تو ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے اندرتقویٰ اور خشیّتِ الٰہی پیدا کریں،اس لئے کہ جس انسان کے بھی دل میں خوفِ خداوندی جاں گزیں ہوجائے،اوروہ صحیح معنوں میں اللّٰہ سے ڈرنے لگے تو وہ جھوٹ ہی کیا کسی بھی برائی کے قریب نہیں جائے گا،اس لئے ہم سبھی مسلمانوں کوچاہیئے کہ ہم خداسے ڈرتے رہیں اورسچائی اور سچے کاموں کی جانب راغب ہوں،جھوٹ،غیبت،چغلی،تکبر وحسد اور اس طرح کی جملہ برائیوں سے اپنے آپ کو بچائیں!
اللّٰہ وحدہ لاشریک ہم سبھی لوگوں کواوامرپر عمل پیرا ہونے اور منہیات سے بچنے کی توفیق سعیدبخشے!
آمین!

دوسری اور آخری قسط، سرکار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔

{عرس امجدی کے موقع پر خصوصی تحریر}

[امجدی ڈائری]
آصف جمیل امجدی
[انٹیاتھوک،گونڈہ]

ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت ہوئی اور کانگریسیوں نے پورے ملک میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا تو جگہ جگہ فجر میں قنوت نازلہ پڑھی جانے لگی۔اس پر 1347؁ھ میں حضرت صدرالشریعہ نے حضرت شارح بخاری سے یہ رسالہ(التحقیق الکامل فی حکم قنوت النوازل) املا کرایا۔
پوری حیات تدریس و تصنیف اور خدمت دین میں صرف کرنے کے باوجود آپ سے بیعت و ارادت کا سلسلہ بھی جاری رہا، ہندو بیرونی ہند آپ کے کثیر تعداد میں خلفاء و مریدین ہوئے۔ آپ کے مریدین میں کثیر تعداد میں علمائے دین اور عمائد ملت تھے۔ حضرت کی یہ خصوصیت تھی کہ کسی غیر عالم کو خلافت نہیں دی، آپ کے خلفا کے اسماء یہ ہیں۔ حضرت حافظ ملت مولانا شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی، محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قادری رضوی پاکستانی، خیر الاذکیاء مولانا غلام یردانی اعظمی، شیخ العلماء مولانا غلام جیلانی اعظمی، مولانا سید شاہ عبدالحق گجہڑوی، مبارک پوری، مولانا قاری مصلح الدین پاکستانی، شارح بخاری علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی، مفتی ظفر علی نعمانی بانی دارالعلوم امجدیہ کراچی پاکستان وغیرھم ہیں۔
صدر الشریعہ نے پہلی بار1337؁ھ/1919؁ء میں فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے حرمین شریفین کا سفر فرمایا اور دوسری بار 1367؁ھ/1948؁ءمیں حرمین طیبین کی زیارت اور حج کے ارادے سے گھر سے بریلی شریف اور وہاں سے مفتی اعظم مولانا محمد مصطفی رضا قادری کے ہمراہ بمبئی تشریف فرما ہوئے۔ طبیعت پہلے ہی سے سخت خراب تھی۔ بحری جہاز کے چھوڑنے کا وقت آیا، تو آپ دوسرے عالم سے لو لگا رہے تھے۔ حضور مفتی اعظم تشریف لائے اور پھر روتے ہوئے تنہا جہاز پر قدم رکھا اور ادھر ان کے رفیق سفر نے رفیق اعلیٰ سے ملاقات فرمائی۔
دوشنبہ ٢/ذیقعدہ 1367؁ھ مطابق 6/ستمبر1948؁ء تاریخ وصال ہے۔ آیت کریمہ ” ان المتقین فی جنت و عیون” سے تاریخ وصال برآمد ہوتی ہے۔ آپ کی مزار مبارک قصبہ گھوسی ضلع مئو میں ہے جو مرجع خلائق ہے۔

صدرالشریعہ کی نثر نگاری

صدرالشریعہ کثیر التصانیف تو نہیں تھے مگر ان کی ایک عظیم کتاب “بہار شریعت” اتنی عظیم ہے کہ جس کی نظیر نہیں۔ یوں تو انہوں نے امام ابو جعفر طحاوی (م321؁ھ) کی معرکۃ الآرا تصنیف “شرح معانی الآثار” پر حاشیہ لکھنے کا کام شروع کیا تھا مگر کام کی زیادتی کی وجہ سے یہ سلسلہ ایک جلد کے نصف تک ہی محدود رہ گیا آگے نہ بڑھ سکا۔

مختصر نگاری
حضرت صدر الشریعہ کی تحریر میں مختصر نگاری کا وصف بدرجہ اتم پایا جاتا ہے آپ کی مختصر عبارت مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہوتی ہے اوریوں لکھنے اور پڑھنے والے دونوں کا وقت بھی بچ جاتا ہے اور مسئلہ تلاش کرنے میں دشواری بھی نہیں ہوتی ہے۔ ذیل میں ایک مختصر مگر جامع فتویٰ کی جھلک پیش کی جاتی ہے۔ بعد نمازِ پنجگانہ جمعہ وعیدین عموما مسلمان مصافحہ کرتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں لیکن بعض لوگ اسے ناجائز اور مذموم بدعت بتاتے ہیں۔ صدرالشریعہ سے بعد نماز جمعہ و عید نصافحہ کے متعلق پوچھا گیا کہ یہ جائز ہے یا ناجائز تو آپ نے ایک جامع اور مختصر جواب یوں ارشاد فرمایا:
“مصافحہ جائز اور حدیث سے اس کاجواز مطلقاً ثابت ہے۔ نماز کے بعد عید کے دن مصافحہ کرنا اسی مطلق میں داخل ہے، اپنی طرف سے مطلق کی تقیید باطل۔”
توجہ فرمائیے اور اس اختصار و جامعیت کی داد دیجیے۔ اس فتویٰ میں اصل حکم بھی مذکور ہیں دلیل بھی، ضابطہ بھی اور مانعین جواز کا رد بھی۔

مفتی غلام یاسین امجدی رقمطراز ہیں کہ:
” حضرت نے اردو زبان پر احسان فرمایا لطف تو یہ ہے کہ شروع سے لے کر 17/ حصص تک (بہارشریعت) دیکھ جائیے کہیں طرز تحریر میں تبدیلی نہ ملے گی۔ مشکل سے مشکل مسائل آسان اور ایسی محیط عبارت میں تحریر فرمائے ہیں کہ اگر عبارت سے کوئی لفظ تبدیل کر دیا جائے تو بسا اوقات مفہوم بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔

سادہ نگاری

صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی تحریر میں ہمیں ایسی نثر ملتی ہے۔ جس میں سادگی کا حسن، بے ساختگی کی جاذبیت اور تسلسل کی لطافت جگہ جگہ ملتی ہے۔ جو سپاٹ پن، بےکیفی اور تھکا دینے والی گنجلک، بے ترتیبی سے شکن آلود نہیں ہوتی۔ ایک مقام پر مصیبتوں اور آفتوں پر صبر کی خوبصورت تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں کی بیماری بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کے منافع بے شمار ہیں اگرچہ آدمی کو بظاہر اس سے تکلیف پہنچتی ہے مگر حقیقتاً راحت و آرام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہاتھ آتا ہے۔ یہ ظاہری بیماری جس کو آدمی بیماری سمجھتا ہے حقیقت میں روحانی بیماریوں کا ایک بڑا زبردست علاج ہے۔ حقیقی بیماری امراض روحانیہ ہیں کہ یہ البتہ بہت خوف کی چیز ہے اور اسی کو مرض مہلک سمجھنا چاہیے۔

منظر نگاری

منظر نگاری بھی تاثراتی نثر کا خاص جز ہیں جس کی قوت تاثیر سے مخاطب خود کو فراموش کرکے اسی ماحول میں پہنچا ہوا محسوس کرتا ہے۔ جس کی تصویر کھینچ دی گئی ہو۔ حضرت نے بھی ہمیں ایسے یادگار جملے عطا کیے ہیں جسے پڑھنے کے بعد یقینی طور پر خود فراموشی کا عالم طاری ہوجاتا ہے جو یقینا آپ ک قوت تحریر کا نادر نمونہ ہے۔ وقوف عرفات کے وقت انسان کی دلی کیفیت کیا ہونی چاہیے اس کی منظر نگاری حضرت کے قلم سے ملاحظہ کریں:
“سب ہمہ تن صدق دل سے اپنے کریم مہربان رب کی طرف متوجہ ہوجائیں اور میدان قیامت میں حساب اعمال کے لیے اس کے حضور حاضری کا تصور کریں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ لرزتے، کانپتے، ڈرتے، امید کرتے، آنکھیں بند کیے گردن جھکائے دست دعا آسمان کی طرف سر سے اونچا پھیلائے، تکبیر و تہلیل و تسبیح و لبیک و حمد وذکر و توبہ و استغفار میں ڈوب جانے کی کوشش کرے کہ ایک قطرہ آنسوؤں کا ٹپکنے کی دلیل اجابت و سعادت ہے۔ورنہ رونے کا سا منہ بنائے کہ اچھوں کی صورت بھی اچھی۔ اثناۓ دعا و ذکر میں لبیک کی بار بار تکرار کرے۔ آج کے دن دعائیں بہت مقبول ہیں۔”
منظر نگاری کی یہ ایک عمدہ مثال ہے۔ بہارشریعت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی عبارت سلیس ہے جس کو ہر طبقہ کا اردو داں سمجھ سکتا ہے۔ یہ اس کی فصاحت کی دلیل ہے اور عبارت کے اندر جو معانی و مطالب پوشیدہ ہیں اس کی اعلی بلاغت پر دلیل ہے۔ اس کی عبارت خشو و زوائد سے پاک ہے۔ اور قاری اسے پڑھتے وقت نہ مزید توضیح کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور نہ ہی الجھن۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے اس کی تصنیف ہوئی ہے آج تک ہر طبقہ میں مقبول رہی ہے۔ اس سے استفادہ عوام بھی کرتے ہیں اور علماء و طلبہ بھی۔ اگر اردو میں کوئی دوسری فقہی تصنیف نہ ہوتی تو ہم دوسرے ادب کے مقابلے میں بہار شریعت کو پیش کر سکتے تھے اور ہمارا مذہبی ادب کسی سے کم درجہ نہ رکھتا ہے۔ (بحوالہ بیسویں صدی میں امام احمد رضا)

(مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں)

پہلی قسط سرکار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔آصف جمیل امجدی[انٹیاتھوک،گونڈہ]6306397662/9161943293

پہلی قسط
سرکار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔

{عرس امجدی کے موقع پر خصوصی تحریر }

   [امجدی ڈائری] 

آصف جمیل امجدی
[انٹیاتھوک،گونڈہ]
6306397662/9161943293

مولانا امجد علی مشرقی یوپی کے ایک مردم خیز قصبہ گھوسی ضلع مئو میں 1300؁ھ مطابق 1882؁ء کو ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد مولانا حکیم جمال الدین کا شمار علاقے کے بڑے حکیموں میں ہوتا تھا۔ طبی مہارت اور ریاست عظمت گڑھ کے راجہ کے طبیب خاص ہونے کی وجہ سے ہر طرف آپ کا شہرہ تھا۔ اس عہد کے اجلہ علماء مولانا امجد علی اعظمی کو “صدر الشریعہ” جیسے گراں قدر لقب سے نوازا۔
آپ کی ابتدائی تعلیم آپ کے وطن گھوسی ہی کے مدرسہ ناصرالعلوم میں ہوئی۔ اعلی تعلیم کے لئے اپنے شیراہ ہند جونپور کا رخ کیا اور 1314؁ء میں مدرسہ حنفیہ جونپور میں داخلہ لیا۔ یہاں علوم شرقیہ وفنون دینیہ کے متلاشی دور دراز سے تشریف لاتے تھے۔ استاذالاساتذہ کی فیض رساں درس گاہ سے اس دور کے ماہرین علوم فارغ ہوئے۔
اس کی بعد صدرالشریعہ حضرت شاہ وصی احمد محدث سورتی کی خدمت میں مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت میں حاضر ہوکر درس حدیث لیا۔ حضرت محدث سورتی نے بھی اپنی فراست ایمانی سے ان کی ذات میں پوشیدہ صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور اس گوہر شب تاب کو قدرتی نگاہ سے دیکھا۔ علوم دینیہ کے چشمۂ فیاض سے خوب سیراب کیا اور 6/ذی الحجہ 1324؁ھ کو حضرت مولانا شاہ سلامت اللہ رامپوری قدس سرہٗ نے آپ کا امتحان لیا جس میں آپ کو نمایاں اور امتیازی کامیابی حاصل ہوئی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ اپنے استاذ محترم محدث سورتی کے مدرسۃ الحدیث میں 1327؁ھ تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد ایک سال تک پٹنہ میں مطب کرتے رہے۔ امام احمد رضا محدث بریلوی کو دارالعلوم منظر اسلام بریلوی کے لیے ایک ذی استعداد استاد کی ضرورت پیش آئی۔ حضرت محدث سورتی نے آپ کا نام پیش کیا اعلی حضرت کے طلب فرمانے پر پٹنہ سے مطب چھوڑ کر دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جلد ہی اپنی استعداد، قابلیت، خدا داد حسن سلیقہ اور سعادت مندی سے امام احمد رضا محدث بریلوی کی نظر میں مقبول اور مورد الطاف خاص بن گئے۔
بریلی شریف میں آپ کا قیام 1329؁ھ مطابق 1911؁ء سے 1343؁ھ مطابق 1925؁ء تک رہا۔ 1343؁ھ مطابق 1925؁ء میں مولانا سید سلیمان اشرف صدر شعبۂ علوم اسلامیہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف میں صدرالمدرسین کے عہدے کا دعوت نامہ لے کر بریلی آۓ۔ یہاں آپ نے 1351؁ھ مطابق 1933؁ء تک فرائض تدریس انجام دئیے پھر 1363؁ھ میں مدرسہ مظہرالعلوم بنارس میں صدرالمدرسین ہوئے۔ لیکن وہاں کی فضا عقائد کے لحاظ سے سازگار نہ تھی اس لیے چند ہی ماہ رہ کر مستعفیٰ ہوگئے۔
آپ کا طرز تدریس نہایت دلنشین، دل آویز اور دل پذیر تھا۔ دوران تدریس مضامین کتاب کی ایسی واضح، شستہ اور جامع تقریر فرماتے کہ مضمون کتاب طلبہ کے ذہن میں اترتا چلا جاتا تھا۔ آپ کے تبحر علمی کا یہ عالم تھا کہ پورا درس نظامی آپ کو مستحضر تھا۔
امام احمد رضا محدث بریلوی کی عشق رسالت میں ڈوبی ہوئی اور ورع وتقوی سے شاداب و درخشندہ زندگی کی مسلسل دید کے بعد آپ نے روحانی رہنمائی کے لیے سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ میں انھیں کے دست حق پرست پر بیعت کی اور جلد ہی تمام سلاسل میں اجازت وخلافت سے نوازے گئے۔ صدرالشریعہ یوں تو سارے علوم و فنون کے ماہر تھے۔ لیکن سب سے خاص لگاؤ آپ کو فقہ سے تھا۔ اللہ زوجل آپ کی ذات گرامی میں تفقہ فی الدین ودیعت فرمایا تھا۔ صدرالشریعہ کو دیگر علوم و فنون کے علاوہ فقہ میں ایسا کمال حاصل تھا کہ فقہ کے جمیع ابواب کے تمام جزئیات مع ان کے تفصیلی دلائل کے مستحضر تھیں۔ انہیں خصوصیات کی بنا پر امام احمد رضا محدث بریلوی نے ایک موقع پر فرمایا:
“آپ کے یہاں موجودین میں تفقہ جس کا نام ہے وہ مولوی امجد علی صاحب میں زیادہ پائیے گا۔ وجہ یہی کی وہ استفتاء سنایا کرتے ہیں اور جو جواب دیتا ہوں لکھتے ہیں طبیعت اخاذ ہے طرز سے واقفیت ہو چلی ہے۔”
امام احمد رضا بریلوی نے حالات اور ضرورت دینی کے پیش نظر بریلی شریف میں پورے ملک ہندوستان کے لیے جس میں موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل تھا شرعی دارالقضا قائم فرمایا تھا۔ اس کے لیے تمام مشاہیر ہندو مفتی عصرمیں سے صدرالشریعہ کو احکام شرعی کے نفاذ اور مقدمات کے فیصلے کے واسطے قاضی شرع مقرر فرمایا تھا۔ امام احمد رضا محدث بریلوی کی بارگاہ میں آپ کو نہایت بلند مقام حاصل تھا یہی وجہ ہے کہ امام احمد رضا محدث بریلوی نے سوائے آپ کے کسی کو بھی حتیٰ کہ اپنے شہزادگان والا کو بھی اپنی بیعت لینے کا وکیل نہیں بنایا تھا۔ (بحوالہ بیسوی صدی میں امام احمد رضا)

[مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں]

अल्लाह के बंदों तक दीन का पैगाम पहुंचाना और उन्हें अल्लाह से जोड़़ना ओलिया-ए-किराम का असल मिशन:अ़ल्लामा पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी


आचाराणियों की ढाणी,उंद्रोड़ में हज़रत मख्दूम नूह सरवर अ़लैहिर्रहमा की याद में “जल्सा-ए-सरवरी” मनाया गया।

(उंद्रोड़,बाड़मेर,राजस्थान) 31/मई 2022 ईस्वी मंगलवार को जुम्ला मुसलमानाने अहले सुन्नत बिलखुसूस “सरवरी जमाअ़त” आचाराणियों की ढाणी,उंद्रोड़ की जानिब से हज़रत मख्दूम शाह लुत्फुल्लाह अल मअ़रूफ हज़रत मख्दूम नूह सरवर हालाई अ़लैहिर्रहमा की याद में “जल्सा-ए- सरवरी” इन्तिहाई अ़क़ीदत व एहतिराम के साथ मनाया गया-
इस जल्से की शुरूआ़त तिलावते कलामे रब्बानी से की गई, बादहू दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा के कुछ होनहार तल्बा ने यके बाद दीगरे लोगों के सामने नअ़त व मन्क़बत और दीनी व इस्लाही मौज़ूअ़ पर तक़ारीर पेश कीं,लोगों ने बच्चों की दाद व दहिश के ज़रिया खूब हौसला अफज़ाई की, जब कि खुसूसी नअ़त ख्वाँ की हैषियत से वासिफे शाहे हुदा हज़रत क़ारी अ़ताउर्रहमान साहब क़ादरी अनवारी जोधपुर ने भी नअ़त व मन्क़बत ख्वानी का शर्फ हासिल किया।

फिर रीवड़ी बाड़मेर से तशरीफ लाए हज़रत मौलाना अल्हाज मुहम्मद पठान साहब सिकन्दरी ने “नमाज़ और औलिया-ए-किराम की तअ़लीमात” के उ़न्वान पर बहुत ही नासिहाना और उ़म्दा खिताब किया।

आखिर में इस जलसे के खुसूसी खतीब व सरपरस्त नूरुल उ़़ल्मा पीरे तरीक़त रहबरे राहे शरीअ़त हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी मुहतमिम व शैखुल हदीष:दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा व सज्जादा नशीन:खानक़ाहे आ़लिया बुखारिया सेहलाऊ शरीफ ने कम वक़्तों मे इन्तिहाई जामेअ़, नसीहतों से पुर और दुआ़ईया कलिमात से नवाज़ा।
आप ने अपने खिताब में फरमाया कि “बिला शुब्हा किसी भी बुज़ुर्ग की याद मनाने और उन की रुह को ईसाले षवाब व बुलंदी-ए-दरजात की दुआ़ करने के लिए उन के मुहिब्बीन [चाहने वालों] व मुरीदीन और मुअ़तक़िदीन वग़ैरह का उन के नाम की जानिब निस्बत करते हुए नेक मज्लिसों का इन्इक़ाद करना व सजाना और एैसी मज्लिसों में ज़िक्रुल्लाह,नअ़्त ख्वानी और क़ुरआने पाक की तिलावत, उ़ल्मा-ए-दीन के ज़रिया वअ़ज़ व नसीहत और अल्लाह व रसूल के अहकाम व फरमूदात और बुज़ुर्गाने दीन के हालात व खिदमात पर मुश्तमिल बयानात और इस के एलावा दोसरे नेक काम कर के उन को जो ईसाले षवाब किया जाता है वोह जाइज़ व मुस्तहसन है…क्यो कि इस तरह से बुज़ुर्गाने दीन की याद गीरी करने का असल मक़्सद उन को ईसाले षवाब करने के साथ एैसी नेक मज्लिसों के ज़रिया लोगों तक अल्लाह व रसूल और बुज़ुर्गाने दीन के पैग़ामात को लोगों तक पहुंचाना और लोगों को दीन व शरीअ़त के क़रीब करना,और लोगों के अंदर दीनी जज़्बा बेदार करना होता है।
आप ने अपने खिताब के दौरान क़ौम को मुखातब कर के इख्तिसार के साथ हज़रत मख्दूम नूह सरवर हालाई अ़लैहिर्रहमा के हालाते ज़िंदगी को भी कुछ इस तरह बयान फरमाया कि “आप हज़रात ने जिस बुज़ुर्ग की याद में इस महफिल का इन्इक़ाद किया है वोह हज़रत मख्दूम नूह सरवर हालाई अ़लैहिर्रहमा हैं,जिन का शुमार बिला शुब्हा सरज़मीने सिंध के मशहूर व मअरूफ और बुज़ुर्ग सूफिया में होता है-
आप का नामे नामी इस्मे ग्रामी शाह लुत्फुल्लाह और लक़ब मख्दूम नूह सरवर और वालिदे ग्रामी का नाम हज़रत नेअ़मतुल्लाह शाह है-आप का सिलसिला-ए-नसब हज़रत अबू बकर सिद्दीक़ रदियल्लाहु तआ़ला अ़न्हु से जा मिलता है-आप के जद्दे आला शैख अबू बकर बूबक ज़िला दादू के मक़ाम पर आबाद हुए-
हज़रत मख्दूम नूह सरवर अ़लैहिर्रहमा की विलादते बा सआ़दत[पैदाइश] 27 रमज़ानुल मुबारक 911 हिजरी बरोज़ जुम्आ़ मुबारका सूबा-ए-सिंध के मौजूदा मटियारी ज़िला के शहर व तअ़ल्लुक़ा [तहसील] हाला में हुई-
अल्लाह तआ़ला ने आप को इल्मे लदुन्नी से मालामाल फरमाया था,आप का शुमार सिंध के सरकरदा औलिया-ए-किराम में होता है-आप हर शख्स से उस के हस्बे हाल गुफ्तगू फरमाते और बर महल व बरजस्ता क़ुरआनी आयतों से इस्तिदलाल फरमाते-क़ुरआन मजीद के मआ़नी व मतालिब [तौज़ीह व तशरीह] इस अंदाज़ से बयान फरमाते कि बड़े बड़े उ़़ल्मा भी दम ब खुद [हैरान] रह जाते-बुज़ुर्गाने दीन के हालात और उन से मुतअ़ल्लिक़ बातों का ज़िक्र एैसे पुर ताषीर अंदाज़ में करते कि सामईन को रुजूअ़ इलल्लाह की दौलत हासिल हो जाती-
आप की करामतैं बचपन से ही ज़ाहिर होने लगीं थीं जिन से आप का मादर ज़ाद [पैदाइशी] वली होना षाबित हो गया था,…बुज़ुर्गों से मन्क़ूल है कि पैदाइश के सातवीं दिन क़रीब की मस्जिद से अज़ान की आवाज़ आई, उस वक्त आप झूले में आराम कर रहे थे, जब अज़ान खतम हुई तो आप ने फसीह व बलीग़ अ़रबी ज़बान में कहा نعم لااله الاالله ولا نعبد الااياه مخلصين له الدين
ऐक मरतबा हुज़ूर ग़ौषे पाक रदियल्लाहु तआ़ला अ़न्हु की औलाद में से ऐक बुज़ुर्ग आप के पास आए और कहा कि मैं आप को इजाज़त व खिलाफत देने और फाइदा पहुंचाने के लिए आया हूं, और मैं इल्मे कीमिया भी जानता हूं अगर आप कहें तो आप को इल्मे कीमिया भी सिखा सकता हूं, जो शायद किसी वक़्त आप के काम आए-आप ने जवाब में फरमाया: कि जिस दिन से मैं बारगाहे नबवी से मुशर्रफ हुवा हूं दुनिया की हविस दिल से निकल गई है,यह कह कर आप ने ऐक दिरहम मंगवाया और उस पर मिट्टी मल दी तो वह बिलकुल खरा सोना बन गया”-
हज़रत मख्दूम नूह सरवर अ़लैहिर्हमा का विसाल 87 साल की उ़म्र में 27 ज़ुलक़अ़दा 988 हिजरी ब मुताबिक़ 02 जनवरी 1581 ईस्वी को हुवा-

अब्रे रहमत उन की मरक़द पर गोहर बारी करे।
हश्र तक शाने करीमी नाज़ बरदारी करे।

आप का मज़ारे पुर अनवार हाला शरीफ में ज़ियारत गाहे आ़म व खास है।
हज़रत मख्दूम नूह सरवर अ़लैहिर्हमा की हयात व खिदमात पर इस तरह बिल इख्तिसार रोशनी डालते हुए आप ने सभी शुरका-ए-जल्सा को मुखातब कर के फरमाया कि “दुनिया में जितने भी अल्लाह के नेक बंदे या औलियाअल्लाह गुज़रे हैं उन का असल मिशन और मक़सद अल्लाह के बंदों को अल्लाह से जोड़ना,दीन और शरीअ़ते इस्लामिया पर लोगों को कारबंद होने की ताकीद व तल्क़ीन करना ही रहा है-इस लिए हम सभी लोगों को चाहिए कि हम बुज़ुर्गाने दीन की तअ़लीमात पर अ़मल पैरा हों,यही बुज़ुर्गाने दीन के नामों से मज्लिसों के इन्इक़ाद का असल मक़्सद व हदफ है”-
इस दीनी प्रोग्राम में खुसूसियत के साथ यह हज़रात शरीक हुए।
★हज़रत मौलाना मुहम्मद शमीम अहमद साहब नूरी मिस्बाही नाज़िमे तअ़लीमात:दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ,☆हज़रत मौलाना बाक़िर हुसैन साहब क़ादरी बरकाती अनवारी,★मौलाना अ़ताउर्हमान साहब क़ादरी अनवारी नाज़िमे आला मदरसा क़ादरिया फैज़े जीलानी मेकरन वाला,★मौलाना फिरोज़ रज़ा साहब रतनपुरी आचारियों की ढाणी,☆मौलाना मुहम्मद हमज़ा क़ादरी अनवारी सोलंकिया,★क़ारी अरबाब अ़ली क़ादरी अनवारी, ☆मौलाना मुहम्मद उ़र्स सिकन्दरी, ★मौलाना फतेह मुहम्मद साहब सरपंच,☆मौलाना निहालुद्दीन साहब अनवारी आसाड़ी,★मास्टर शेर मुहम्मद खान साहब☆जनाब मुहम्मद उ़र्स खान,★जनाब अ:लतीफ खान,☆जनाब मुहम्मद अमीन खान,★जनाब जमाल खान,☆जनाब ग़ुलाम खान,☆जनाब वरियाम खान वग़ैरहुम।

सलातो सलाम और नूरुल उ़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी की दुआ़ पर यह जल्सा समाप्त हुवा।

रिपोर्टर:(मौलाना)हबीबुल्लाह क़ादरी अनवारी।
आफिस इंचार्ज:दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा दरगाह हज़रत पीर सय्यद हाजी आ़ली शाह बुखारी,पच्छमाई नगर,सेहलाऊ शरीफ,पो:गरडिया [तह:रामसर] ज़िला:बाड़मेर [राज:]

ناسازگار حالات میں نیکی :ڈاکٹر محمد رضاء المصطفی قادری کڑیانوالہ گجرات29-05-2022۔اتوار00923444650892واٹس آپ نمبر

نیکی ،خیر اور تقویٰ والے کاموں میں مشغول رہنا بہت ہی سعادت کی بات ہے ۔کچھ افراد کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے نیکی سازگار ماحول عطا فرمایا جاتا ہے ، یہ شرف خصوصی طور پر خاندان اہل بیت اطہار علیھم الرضوان کو حاصل رہا ہے ۔مثلآ سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو نیکی اور تقویٰ والا ماحول بچپن سے ہی میسر آیا ۔اغوش نبوت میں پرورش پائی ۔۔۔۔،وحی الہیٰ کا نزول اپنی آنکھوں سے دیکھا ، اس گھر میں ملائکہ کا نزول ہوتا تھا ،

یہ حضرات حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت و ریاضت اور مجاہدات کے چشم دید گواہ ہیں ۔ان پاک فطرت اور پاک طینت حضرات کے لئے قدرت نے یہ پاکیزہ اور مقدس گہوارہ منتخب فرمایا ۔ سبحان اللہ کیا مقدر پایا ہے، حضرات حسنین کریمین طیبین رضی اللہ تعالی عنھما نے ۔ان قدسی صفت حضرات کی گرد راہ پہ ہماری جانیں قربان ہوں ۔
ان کی شان وراء الوراء ہے ۔درحقیقت یہ روز ازل سے ہی اللہ کریم کی عطائیں اور نوازشات ہیں ، جو اس مقدس گھرانے کا حصہ ہیں ۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کی سیرت کو اس پہلو سے دیکھیں کہ ان کو نیکی اور تقویٰ کا سازگار ماحول میسر نہیں آیا۔قبول اسلام پہ مارا،پیٹا گیا ، اذیتوں،تکالیف ،مصائب و آ لام کا ایک لامتناہی سلسلہ تھا جسے انھوں نے بخوشی قبول کیا ،اپنی جان،مال ،اولاد ،خاندان ،وطن کسی چیز کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا۔چھپ چھپ کر قرآن مجید اور نمازیں پڑھتے تھے،ایک فیز ایسا بھی گزرا ہے کہ کھل کھلا کر نیکی بھی نہیں کر سکتے تھے۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے ناساز گار اور سخت حالات میں نیکی اور تقویٰ والی زندگی گزاری ہے۔ اس لحاظ سے ان کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے “رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ” کا پروانہ ملا ہے۔یعنی اللہ تعالی ان سے ہمیشہ کے لیے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالی سے راضی ہو گئے۔

انسان کی طبعیت و مزاج اور عادات تیس سال کی عمر تک پختہ ہوچکی ہوتی ہیں۔انسان اپنی عادات و اطوار میں پختہ ہوچکا ہوتا ہے ۔عادت بدلنا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔اج دنیا میں ہزاروں موٹیویشنل سپیکر ہیں جو اس نہج پر کام کر رہے ہیں مگر پھر بھی لوگ بری خصلتوں کو ترک نہیں کرپاتے کہ عادت بدلنا بہت ہی مشکل کام ہے ۔مثل مشہور ہے کہ”جبل گردنند جبلت نہ گردنند”

۔صحابہ کرام علیہم الرضوان وہ ہستیاں ہیں کہ جیسے جیسے اللہ تعالی کے احکام آتے گئے، وہ اپنی عادات و اطوار کو ترک کرتے گئے ،حتیٰ کہ اللہ تعالی کے رنگ میں مکمل رنگے گئے ۔کوئی ایک صحابی بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہے۔صِبْغَةَ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً٘-وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ۔

ان حضرات نے اپنی طبعیت و مزاج کو مکمل بدل کر اور ایک آئیڈیل انسان بن کر دنیا کو دکھایا ہے کہ یوں بدلتے ہیں بدلنے والے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل جیسے ایک نوعمر صحابی نے کی ،ویسے ہی ایک بڑی عمر کے صحابی نے بھی کی ۔
اپنی عادات و خصائل کو جیسے چھوٹی عمر کے صحابہ نے بدلا، اسی جذبہ کے ساتھ بڑی عمر کے صحابہ کرام نے بھی اپنے آپ کو بدلا ۔یہ بہت ہی عظیم قربانی ہے ،ان نفوسِ قدسیہ کے اخلاص و للہیت کی برکت ہے کہ چمن اسلام ہرا بھرا ہے ۔

خاندان اہل بیت اطہار علیھم الرضوان کی شان وراء الوراء ہے اسی طرح صحابہ کرام علیہم الرضوان کی عظمت و شان بھی ارفع و اعلیٰ ہے۔ اہلسنت و جماعت کا مزاج دونوں سے سچی محبت و عقیدت کا ہے ۔خدا تعالی ہم کو ان کے نقش قدم کی کامل اتباع نصیب فرمائے ۔

اہلِ سنّت کا ہے بیڑا پار اَصحابِ حضور

نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

ڈاکٹر محمد رضا المصطفی قادری کڑیانوالہ گجرات
29-05-2022۔اتوار
00923444650892واٹس آپ نمبر

ڈاکٹر سید وحید کوثر کرنولی ، منفرد لہجے کا شاعر۔۔۔۔۔۔از قلم: سید خادم رسول عینی

ڈاکٹر سید وحید کوثر دکن کے ایک کہنہ مشق شاعر ہیں ۔آپ کا مجموعہء کلام عکس شفق نظر نواز ہوا۔
عکس شفق کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر کوثر اردو شاعری کی کئی اصناف میں مہارت رکھتے ہیں۔حمد، نعت، غزل، آزاد نظم ، معری’ نظم وغیرہ ۔

تبصرہ کی ابتدا حمد سے کرتے ہیں ۔آپ کے مجموعۂ کلام کے شروع میں دو حمد الہی ہیں ۔پہلی حمد میں ردیف ہے: تیرا اور قوافی ہیں : جلوہ ، قصیدہ دعوی’ وغیرہ ۔
یہ حمدیہ کلام دیکھ کے مجھے حسان الہند حضرت علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کا نعتیہ کلام یاد آگیا :

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

ڈاکٹر کوثر نے یہ حمدیہ کلام جس بحر میں کہا ہے اس بحر کا نام ہے:بحر کامل مثمن مزاحف مخبون محذوف اور اس کے افاعیل یوں ہیں : فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن۔
اس کلام میں ایک مصرع یوں ہے:

بخش دے اپنے کرم سے تو ہے رحمان و رحیم

اس کے افاعیل یوں ہیں :
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلان
گویا شاعر محترم نے اس مصرع میں زحاف تسبیغ کا استعمال کیا ہے۔
مقطع کا ثانی یوں ہے:

ترا کوثر ہے فقط چاہنے والا تیرا
اس کے افاعیل ہیں ۔۔۔فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
اس مصرع میں زحاف خبن کا استعمال ہوا ہے ۔

عکس شفق میں ایک اور حمدیہ کلام ہے جو بحر متقارب میں قلم بند کیا گیا ہے۔اس کلام میں کہیں زحاف قبض کا استعمال کیا گیا ہے تو کہیں زحاف حذف کا۔
مثلاً:

تجھی سے ہیں عالم میں سب رونقیں ۔۔۔فعولن فعولن فعولن فعل۔۔۔۔بحر متقارب مثمن مزاحف محذوف

تو اعلیٰ و ارفع میں ادنی’ صغیر

۔۔۔۔فعولن فعولن فعولن فعول
بحر متقارب مثمن مزاحف مقبوض

ان‌ حمدیہ کلاموں میں مختلف زحافات کے استعمال سے آشکارا ہے کہ شاعر محترم کو علم عروض میں اچھی خاصی مہارت حاصل ہے،کیوں نہ ہو ؟ آپ ایک استاد شاعر ہیں ۔آپ نے شاعری کے سمندر میں نہ جانے کتنے گوہر آبدار بنائے ہیں ۔ان گوہر آبدار میں سے ایک عطا کوثر بھی ہیں جو آپ کے نامور شہزادے ہیں اور اپنے والد اور اپنے اسلاف کی وراثت کو محفوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھانے کی سعیء کامل کر رہے ہیں ۔

خیر، اس حمدیہ کلام کا حاصل کلام شعر مجھے یہ لگا:

تجھ سے مانگیں ترے آگے ہی جھکائیں سر کو
اپنے بندوں سے ہے خاموش تقاضہ تیرا ۔

یہ شعر قرآن مجید کی آیت کا ترجمانی کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
قرآن میں ہے:
ایاک نعبد وایاک نستعین ۔
یعنی اے پرور دگار، ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد طلب کریں ۔
اللہ کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ۔کیونکہ سب اس کے مملوک ہیں اور مملوک ‌مستحق عبادت نہیں ہوسکتا۔
اس شعر میں رد شرک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کسی کے لیے نہیں ہوسکتی۔
استعانت خواہ بالواسطہ ہو یا بے واسطہ ہر طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔حقیقی مستعان وہی ہے۔
بندہ کو چاہیے کہ اس پر نظر رکھے اور ہر چیز میں دست قدرت کارکن دیکھے۔

کس قدر خوب صورتی سے ڈاکٹر کوثر نے قرآن کے ایک مضمون کو شعری سانچے میں ڈھالا ہے ۔ الطاف حسین حالی نے فرمایا تھا کہ شاعر کا بہترین شعر وہ جو قرانی مفہوم پیش کرتا ہو۔ حالی کے قول کے مطابق بھی یہ شعر بہترین اشعار کے زمرے میں آتا ہے۔

عکس شفق میں تقریباً بیس نعتیہ کلام شامل ہیں ۔
ان کلاموں کو پڑھنے کے بعد یہ احساس لطیف ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کوثر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہیں ۔بغیر عشق رسول کے نعت نگاری ممکن نہیں ۔عشق رسول پر مبنی ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

جھاڑوں میں گزرگاہ سرکار یہ پلکوں سے
اشکوں سے قلم دھودوں ارمان نرالا ہے

اک بار آکے خواب میں صورت دکھایئے
آنکھوں کو انتظار مری صبح و شام ہے

جذبہء عشق و محبت کو بڑھاکر دیکھیے
دل کے آءینے میں عکس رویے انور دیکھیے

کوثر کے درد و عشق کا درماں وہی تو ہیں
بیمار مصطفیٰ کو نہ حاجت شفا کی ہے

جذبات مچل اٹھے جب ان کا نگر آیا
سجدے میں گریں نظریں محبوب کا در آیا

ہجر میں ان کے روتی ہیں آنکھیں مری
دل میں طوفاں نہاں ہے خدا کی قسم

عشق میں تپ کے ہوگیا کندن
دل کی بھٹی میں غم محمد کا

سمجھنا جس کا نہیں ہے مشکل کرامتوں کا میں جس کی قائل
جو تجھ کو کوثر ولی بنا دے
وہ جذب عشق رسول ہی ہے

جادہء عشق نبی میں دل مرا مہجور ہے
لمحہ لمحہ ان پہ مٹنا عشق کا دستور

عشق رسول سے لبریز یہ اشعار وہی کہہ سکتا ہے جس کا دل عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور ہے ۔
الحمد لللہ ڈاکٹر کوثر عاشق رسول بھی ہیں اور آل رسول بھی ۔ایک آل رسول جب عشق رسول کے عنوانات کو شعر کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو اس کو پڑھنے کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے

ڈاکٹر کوثر کے نعتیہ کلاموں کو پڑھنے کے بعد یہ ادراک ہوتا ہے کہ سیرت رسول پر آپ کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔جابجا اشعار میں سیرت و کردار و عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں اور شاعر محترم کے علم و فضل کو داد و تحسین سے نوازیں :

دے کے دشمن کو بھی دنیا میں دعائیں آقا
ہم کو انداز محبت کے سکھانے آئے

تا حشر جن کی مل نہ سکے گی مثال بھی
لاریب بے مثال ہیں اطوار مصطفیٰ

حق کے اوصاف سے متصف آپ ہیں
شان حق یوں عیاں ہے خدا کی قسم

ہر سو تھی جہالت کی گھنگور گھٹا چھائی
خورشید عرب لےکر تنویر سحر آیا

استراحت کے لیے جز بوریا کچھ بھی نہیں
مالک کون و مکاں کا آپ بستر دیکہیے

آپ کے کردار اعلیٰ کی ضیا کے سامنے
کس قدر بے نور ہیں یہ ماہ و اختر دیکھیے

کفر غارت ہوگیا اور بجھ گئے آتش کدے
ہوگیا ہر ایک پر فضل خدا سرکار سے

یہ اشعار وہی کہہ سکتا ہے جو مطالعہ میں وسعت رکھتا ہو ۔
الحمد لللہ ڈاکٹر کوثر کے اشعار ان کی وسعت مطالعہ کے آءینہ دار ہیں

ڈاکٹر کوثر یقیناً ایک منفرد لہجے کے شاعر ہیں ۔آپ کا کلام میں لفظی خوبی بھی ہے اور معنوی حسن بھی، فصاحت بھی ہے اور بلاغت بھی، لفظی صنعتوں کا جمال ہے اور معنوی صنعتوں کی رعنائی بھی۔

صنعتوں کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
صنعت تضاد:یہ وہ صنعت ہے جس کے ذریعہ شعر میں ایسے الفاظ لاءے جاءیں جن میں بہ اعتبار معنی ضد پاءی جاءے۔اس کو طباق بھی کہتے ہیں۔ایسی خوبی ڈاکٹر کوثر کے کلاموں کے کءی اشعار میں ملتی ہے۔
جیسے:

اس سے پڑھ کر نہیں پھر کوءی تعارف میرا
تو میرا مولیٰ و آقا میں ہوں بندہ تیرا
اس شعر میں میرا ، تیرا اور آقا، بندہ کے استعمال کی وجہ سے صنعت تضاد کا حسن پیدا ہوگیا ہے ۔

تو حاکم ہے آقا ہے مخلوق کا
تو اعلیٰ و ارفع میں ادنی’ صغیر

اس شعر میں اعلی’ ، ادنی’ اور ارفع ، صغیر حسن صنعت تضاد کے باعث ہیں ۔

کلمہء طیب کو بھی رتبہ ملا سرکار سے
ابتدا سرکار سے اور انتہا سرکار سے

اس شعر میں ابتدا اور انتہا دو متضاد الفاظ کے استعمال سے شعر کے حسن میں‌ اضافہ ہوگیا ہے۔

اک بار آکے خواب میں صورت دکھایءے
آنکھوں کو انتظار مری صبح و شام ہے۔

ایک مصرع میں صبح اور شام کا اجتماع شعر کی خوب صورتی کا باعث ہے۔

کوثر کے درد و عشق کا درماں وہی تو ہیں
بیمار مصطفی’ کو نہ حاجت شفا کی ہے

اس شعر میں بیمار اور شفا ایک دوسرے کی ضد ہیں

ساری مخلوق پر آپ کا ہے کرم
کیا فلک کیا زمیں سید المرسلیں

اس شعر میں زمین اور فلک کی اجتماعیت بہت لطف دے گئی۔

ان کے در سے فاصلوں کو قربتیں حاصل ہوئیں
پھر مدینہ سے بتاؤ عرش کتنا دور ہے

اس شعر میں فاصوں ، قربتیں کے سبب صنعت تضاد کا حسن پیدا ہوا

صنعت تلمیح:
صنعت تلمیح اسے کہتے ہیں کہ مجموعہء الفاظ کے ذریعہ کسی تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کیا جاءے۔صنعت تلمیح کے استعمال سے شعر کے معنوں میں وسعت اور حسن پیدا ہوتا ہے ۔اس صنعت کے ذریعہ کسی مکمل واقعہ کو ایک شعر کے سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے ۔
جیسے:

آپ کا سایہ اور ثانی دونوں یہاں
ہم نے دیکھا نہیں سید المرسلیں

کل کائنات میں نہیں جس کی کوئی مثال
صناع دوجہاں کا وہ صناع ہیں حضور

تخلیق کائنات کا منشا حضور ہیں
عظمت عظیم تر مرے خیر الورا کی ہے

ہاں قربت نبی سے علی کیا سے کیا ہوا
یعنی ابو تراب سے شیر خدا ہوا

عکس شفق میں ڈاکٹر کوثر کا ایک نادر و نایاب کلام ، معنویت سے بھر پور، شعریت کے حسن سے مزین نظر سے گزرا۔
اس کلام کے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں :

حق بھی رطب اللساں ہے خدا کی قسم
تم سا کوئی کہاں ہے خدا کی قسم

حسن یوسف مقید فقط ذات تک
تم سے روشن جہاں ہے خدا کی قسم

حق کے اوصاف سے متصف آپ ہیں
شان حق یوں عیاں ہے خدا کی قسم

ان کے دامن کے سایے میں ڈھونڈو سدا
رحمت بیکراں ہے خدا کی قسم

کوثر بے نوا‌ ، فکر عقبی’ عبث
حامیء بےکساں ہے خدا کی قسم

پورا کلام مطلع سے مقطع تک صنعت تلمیح و صنعت اقتباس سے مزین ہے۔سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مختلف واقعات کو ایک ہی شعر کے اندر مکمل وضاحت کے ساتھ پیش کردینا ڈاکٹر کوثر کی خصوصیت ہے ۔اس کلام میں کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لاثانی ہونے کا ذکر ہے تو کسی شعر میں آپ کے سایہ نہ ہونے کا بیان ،کسی شعر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہا گیا ہے تو کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے اوصاف سے متصف بتایا گیا ہے ۔کسی شعر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت عالمین کہا گیا ہے تو کہیں حامی ء بےکساں ۔

ڈاکٹر کوثر کا یہ کلام فصاحت و بلاغت کا گنجینہ ہے۔آپ کے اس کلام میں صنعتوں کے حسن و جمال کی فراوانی ہے ۔ صنعت اقتباس اور صنعت تلمیح کی جلوہ گری ہے۔

ڈاکٹر کوثر کے‌ اس کلام کا ہر مصرع / شعر جملہء خبریہ پر مبنی ہے ۔آپ نے ہر شعر میں خدا کی قسم کھائی ہے۔آخر خدا کی قسم کھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ آئیے اس موضوع پر کچھ بلاغتی گفتگو کرتے ہیں۔

فائدہ خبر کی تین صورتیں ہیں :

١.خبر ابتدائی
٢.خبر طلبی
٣.خبر انکاری

١.خبر ابتدائی وہ خبر ہے جس میں مضمون کسی بھی قسم کی تاکید کے بغیر پیش کیا جاتا ہے۔ایسی صورت میں اگر تاکید کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہ حشو ہوگا اور اہل تنقید کے نزدیک عیب کلام کا باعث ہوگا ۔جیسے : کل نفس ذاءقۃ الموت یعنی ہر متنفس کے لیے موت ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ۔اس لیے اس جملے کے ساتھ کلمہء تاکید لگانے کی ضرورت نہیں۔

٢.خبر طلبی وہ خبر ہے جس میں مضمون ایک متردد شخص کے سامنے تاکیدی کلمات کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ۔ اردو میں تاکیدی کلمات یہ ہیں: بیشک، ضرور،ہر گز, قسم‌،زنہار،
اصلا” ،بالیقیں وغیرہ

قرآن میں کئی مقامات پر رب کریم نے قسم یاد فرمائی ہے ، جیسے والضحی’ ، والیل اذا سجی’ وغیرہ۔جب ہم ان قسم والی آیتوں کی تفسیر پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جن حالات میں یہ آیتیں نازل ہوئی تھیں ، ان حالات کا تقاضہ تھا کہ کلمہء تاکید کا استعمال کیا جائے۔اس لیے قرآن نے کبھی سرکار کی رہگزر کی قسم کھائی تو کبھی چڑھتے دن کی اور کبھی رات کی جب وہ ڈھانپ دے۔ مثال کے طور پر: سورہء والضحی’ کا شان نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ چند روز وحی نہیں آئی تو کفار نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کے رب نے چھوڑ دیا ہے ۔اس کے جواب میں رب کی آیت نازل ہوئی کہ تمہارے رب نے نہ تمھیں چھوڑا نہ تمہیں ناپسند کیا ۔چونکہ کفار نے چیلنج کیا تھا اس لیے اس جملے سے پہلے کلمہء تاکید آیا؛
والضحی’ والیل اذا سجی’.

قرآن میں کلمہء تاکید کے استعمال کی چند اور مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
انا‌ انزلنہ فی لیلۃالقدر۔۔۔۔۔بیشک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا

لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔۔۔۔بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا

ولسوف یعطیک ربک فترضی۔۔۔۔اور بے شک قریب ہے کہ تمھارا رب تمھیں اتنا ‌دےگا کہ تم راضی ہوجاوگے۔

ان سعیکم لشتی۔۔۔۔بیشک تمھاری کوشش مختلف ہے

قد افلح من ذکھا۔۔۔۔۔بیشک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا

لقد خلقنا الانسان فی کبد۔۔۔۔۔بےشک ہم نے آدمی کو مشقت میں رہتا پیدا کیا

ھل اتک حدیث الغاشیۃ۔۔۔۔۔بیشک تمھارے پاس اس مصیبت کی خبر آئی جو چھا جائےگی

انہ یعلم الجھر وما یخفی۔۔۔۔۔بیشک وہ جانتا ہے ہر کھلے اور چھپے کو

٣.خبر انکاری وہ خبر ہے جس میں مضمون منکر حکم کے سامنے ایک مؤکد وجوبی یا چند موکدات کے ساتھ پیش کیا جائے۔
علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کا مشہور و معروف شعر ہے:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے
اس شعر میں تاکید کے لیے دو بار رب کی قسم کھائی گئی کیونکہ اعلیٰ حضرت کے دور میں حیات نبی کے منکرین پیدا ہوگئے تھے اور اعلیٰ حضرت نے ان منکرین کو جواب نثر میں بھی دیااور نظم میں بھی ۔اس قسم کے جوابوں کی ایک مثال یہ ہے:

تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے

قرآن میں بلاغت کے اس قرینے کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

والسماء والطارق۔۔۔۔آسمان کی قسم اور رات کے آنے والے کی

والفجر ولیال عشر والشفع والوتر والیل اذا یسر۔۔۔۔۔اس صبح کی قسم اور دس راتوں کی اور جفت اور طاق کی اور رات کی جب چل دے

لا اقسم بھذا البلد وانت حل بھذاالبلد ۔۔۔۔۔۔۔مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرماہو

والشمس وضحہا والقمر اذا تلہا والنھار اذا جلھا۔۔۔۔۔سورج اور اس کی روشنی کی قسم اور چاند کی جب اس کے پیچھے آئے اور دن کی جب اسے چمکائے۔

والیل اذا یغشی والنھار اذا تجلی وما خلق الذکر والانثی۔۔۔۔۔اور رات کی قسم جب چھاءے اور دن کی جب چمکے اور اس کی جس نے نر و مادہ بنائے۔

والتین والزیتون وطور سینین وھذاالبلد الا مین۔۔۔۔۔انجیر کی قسم اور زیتون اور طور سینا اور اس امان والے شہر کی

والعصر ۔۔۔۔ اس زمانہ محبوب کی قسم

زیر تبصرہ کلام میں ڈاکٹر کوثر نے جو مضامین پیش کیے ہیں وہ سب اہل سنت کے عقائد پر مبنی ہیں ۔آج کے دور میں ان عقائد حقہ کے منکرین جابجا منڈلا رہے ہیں ۔اور کئی افراد ایسے ہیں جو ان معاملات میں تردد کے شکار ہیں ۔
کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج جسمانی کا انکار کرتا ہے تو کسی کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت عالمیں ہونے پر اعتراض ہے۔کسی کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات پر تردد ہے تو کسی کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے بے مثل ہونے پر شک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان مخالفین کو معقول جواب دینے کی غرض سے ڈاکٹر کوثر نے اپنے اشعار میں اہل سنت کے عقاید کلمہء تاکید ،خدا کی قسم کے ساتھ پیش کیے تاکہ متردد کے تردد کا خاتمہ ہو اور منکر کو کرارا جواب ملے۔جب شاعر خدا کی قسم کھا کر کوئی جملہ باندھتا ہے تو وہ زیادہ پر اثر ہوتا ہے اور اس میں مزید مضبوطی اور مقناطیسیت ہوتی ہے اور شاعر کے پاس اشعار میں پیش کیے دعووں کے دلائل بھی موجود رہتے ہیں ۔تبھی تو رب کی قسم کھائی جارہی ہے:
رب کی قسم کہ آپ سا کوءی نہیں ہے ۔رب کی قسم کہ آپ سے روشن جہاں ہے ۔رب کی قسم کہ آپ نور ہیں ۔رب کی قسم کہ آپ کا سایہ نہیں تھا۔رب کی قسم آپ حق کے اوصاف سے متصف ہیں ۔رب کی قسم آپ رحمت عالمیں ہیں ۔رب کی قسم آپ شافع محشر ہیں ۔

عکس شفق کے ایک نعتیہ کلام میں ڈاکٹر کوثر کا ایک شعر یوں ہے:

نہ رضا ہیں نہ تو حسان ہیں حضرت کوثر
پھر بھی دربار میں اشعار سنانے آئے

اس شعر سے یہ آشکارا ہوا کہ
نعت نگاری میں ڈاکٹر کوثر اعلی’ حضرت علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ سے متاثر ہیں ۔

علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے دیوان حدائق بخشش میں ایک کلام ایسا بھی ہے جس کی ردیف ہے : کی قسم ۔اس کلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

ترے خلق کو حق نے عظیم کیا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن و ادا کی قسم

ترا مسند ناز ہے عرش بریں
ترا محرم راز ہے روح امیں
تو ہی سرور ہر دوجہاں ہے شہا ترا مثل نہیں ہے خدا کی قسم

ان اشعار میں اعلیٰ حضرت نے جن مضامین کو پیش کیا ہے انہیں ثابت کرنے کے لیے آپ نے قلمی جہاد کیا تھا ۔کچھ افراد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جیسا بشر کہا اور آپ کی بے مثلیت پر تردد کا اظہار کیا ۔اس لیے ان افراد کے باطل عقائد کی تردید کرتے ہوئی کلمہء تاکید کے ساتھ اعلی’ حضرت نے کہا:
ترے خلق کو حق نے عظیم کیا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن و ادا کی قسم

ترا مسند ناز ہے عرش بریں
ترا محرم راز ہے روح امیں
تو ہی سرور ہر دوجہاں ہے شہا ترا مثل نہیں ہے خدا کی قسم

مندرجہ بالا تجزیے سے یہ بات روز روشن کی طرح‌ عیاں ہوگئی کہ ڈاکٹر کوثر کے کلاموں میں فصاحت بھی ہے بلاغت بھی ، صنعت طباق بھی ہے اور صنعت ترصیع بھی ، صنعت تلمیح بھی ہے اور صنعت اقتباس بھی ، ندرت خیالی بھی ہے اور الفاظ کے تراکیب کی عمدگی بھی ، علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی پیروی بھی ہے اور سنت الٰہیہ کا اظہاریہ بھی۔

ڈاکٹر کوثر کی غزلوں کا مطالعہ کیا۔ اشعار سے بہت متاثر ہوا۔آپ کی غزلوں میں روایت کی پاسداری بھی ہے اور جدت انگیزی بھی۔غم ذات کا بیان بھی ہے اور غم کائنات کا بھی۔رنگ تغزل بھی ہے اور نعت رنگ بھی۔رومانیت بھی ہے اور رنگ تصوف بھی ۔ رجاءیت کی تلقین بھی ہے اور یاس و امید بھی ۔تشبیہات و استعارات بھی ہیں اور علامات بھی ۔حسن معنویت بھی ہے اور تراکیب الفاظ کی عمدگی بھی ۔

رومانیت پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

غرور حسن کو دینے کیا شکست مگر
ادا پہ ان کی اک اک دل کو ہار آیا ہے

ملا ہے پھر سے دوانے کو عشق کا ساماں
کلی کلی پہ چمن کا نکھار آیا ہے

جو نہ ان سے بتا سکا کوثر
اب بھی دل کی وہ بات باقی ہے

کیا حسیں ہے ان کی یادوں کا سلسلہ بھی
لگتا ہے مجھ کو ایسا دل سے برات نکلی

اس کا خیال دل سے مرے ہے لگا ہوا
کوثر نصیب مجھ کو یہ گلزار ہے تو بس

لیکے دل پھر گئے ہیں وہ ہم سے
سلسلہ آج بھی یہ جاری ہے

اک حسن پسندیدہ کو محبوب کہا ہے
ہر برگ گل تازہ کو مکتوب کہا ہے

رخسار شفق زار کو معتوب کہا ہے
لالے کو ترے حسن کا مغلوب کہا ہے

تمھیں خود پتہ چلے گا کہ تمھارا حسن کیا ہے
ذرا آکے آءینے کے کبھی روبرو تو دیکھو

آپ نے اپنے کلاموں میں اصلاحی مضامین خوب قلم بند کیے ہیں ۔کہیں ذکر ہے عزم و استقلال کا تو کہیں تدابیر کا۔

نمونہ کے طور پر شعر/ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

کبھی منزل نہیں مل پائیگی آسانی سے
عزم کی راہ میں جب ایک بھی پتھر ہوگا

وہ منزل کا پہلے تعین تو کرلیں
سفر یوں خلاؤں کا اچھا نہیں ہے

بدل سکا نہیں کوئی جہاں میں ان کو آج تک
اصول جن کا ٹھوس ہے ارادہ استوار ہے۔

ملک میں پیار کے اخوت کے
آج قحط الرجال آیا ہے

محبت مروت اخوت صداقت
بہت خوشنما ہیں یہ کہنے پرانے

آپ نے اشعار کے ذریعہ غم کائنات کا بھی بیان کیا ہے اور اپنے دل کی بات دل کے باہر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔نمونہ کے طور پر شعر / چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

دھوپ میں نفرتوں کی اے کوثر
پاس کس کے وفا شعاری ہے

رجاءیت اور امید پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

پھر بھی ٹوٹی نہ تری آس ترے در سے حبیب
لاکھ امید کے جھانسوں کو ہے باطل باندھا

خوابوں کو اندھیروں کے سمندر میں نہ پھینکو
سورج نیا پھوٹےگا تمناءے سحر سے

ایک تم سا رقیب کیا چھوٹا
میرے کتنے رقیب جاگے ہیں

ڈاکٹر کوثر کے مجموعہء کلام کو پڑھنے سے اس کا ادراک ہوتا ہے کہ آپ غزل کے روایتی انداز سے کنارہ کشی اختیار کرکے جدت کی راہ پر گامزن ہیں ۔اس انداز کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

جوہر فکر دھنک بن کے نکھر آئیگا
تم روایات غزل گوئی سے ہٹ کر دیکھو

جیسے ہی نشہ اترا شراب کہن کا آج
میں نے نئے نظام کا ساغر اٹھا لیا

ہر نئی بات زمانے کے قلم سے نکلی
تو کہ فرسودہ روایات کی تحریر نہ دیکھ

ڈاکٹر کوثر ایک عاشق رسول ہیں ۔آپ نعت عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دریا میں ڈوب کر نعتیں کہتے ہیں ۔صرف یہی نہیں بلکہ جب آپ غزل کہتے ہیں غزل کے اشعار میں بھی نعت کا رنگ آجاتا ہے۔
نعت رنگ سے مزین غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

نظر ادھر بھی کیجیے حضور پیار سے کبھی
تمھارا کوثر حقیر کب سے اشک بار ہے

مشتاق دید کے لیے لازم ہے تاب دید
بے وجہ کیوں کرے کوئی ہنگامہ طور کا

جب سے ان کی متاع محبت ملی
یوں سمجھنے لگا ہوں حکومت ملی

اس کو کیا ہو ضرورت کسی چیز کی
جس کو دنیا میں اک تیری الفت ملی

جب تصور میں در یار نظر آتا ہے
ہم وہیں اپنا سر عجز جھکا لیتے ہیں

ہے میر کارواں سے وابستگی ضروری
راہوں میں لٹ گئے وہ بچھڑے جو کارواں سے

جب بھی محفل میں ترا نام لیا جاتا ہے
دل مرا اور بھی بے تاب ہوا جاتا ہے

کوثر نہ چھوڑ ان کی محبتوں کا راستہ
آنکھیں اگر چہ تجھ کو دکھلا رہی ہیں دھوپ
یہ ایک علامتی شعر ہے۔ دھوپ سے مراد ہے گمراہی، رکاوٹ، کفر، بد عقیدگی، بد نیتی، بری صحبت وغیرہ۔

غرض یہ کہ ڈاکٹر کوثر کے کلاموں میں خوبیء علامات بھی ہے اور تشبیہات و استعارات کا حسن و جمال بھی۔
روایت کی رعنائی بھی اور جدت کا اجالا بھی ۔

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

حضور سید خادم رسول عینی صاحب قبلہ کا ایک خوبصورت انٹرویو ،، مصاحبہ گو :- جبیں نازاں

🌈 روبرو 🌈
مذہبی گھرانے اور احمدرضا خاں کے معتقد شاعر سید خادم رسول عینی صاحب کی گفتگو ملاحظہ فرمائیں ! ادبی حلقے میں موصوف بنیادی طور پر ثنائے مصطفیٰ صل اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں –

🪶 مصاحبہ گو :- جبیں نازاں

سوال: – سب سے پہلے آپ اپنا مختصر تعارف قارئین کو بتانا پسند کریں گے؟

جواب: – میں سید خادم رسول عینی، سید منزل مرزا پور ‘بھدرک’ (اڈیشا) میں ٢٩ اپریل ١٩٦٨ میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوا۔میرے والد گرامی مفتی سید عبد القدوس علیہ الرحمہ اڑیسہ کے مفتیء اعظم تھے۔ہم لوگ سات بھائی ہیں ان میں سے بیشتر علماء ہیں اور دین و ملت کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔

سوال:- آپ نے ابتدائی تعلیم کہاں ، اور کس زباں میں حاصل کی ؟

جواب:
میں نے ابتدائی تعلیم ‘بھدرک’ (اڑیسہ )میں اڑیا میڈیم میں حاصل کی۔اسکول میں ایک سبجیکٹ اردو کا بھی رہتا تھا، اور ایک فارسی کا بھی ۔

سوال :- آپ نے شاعری کی ابتدا کس عمر سے کی ؟

جواب: – میرے شاعری کی ابتدا اس وقت ہوئی جب میری عمر سترہ سال کی تھی ۔میں نے اپنے پیر و مرشد علامہ شاہ حبیب الرحمان علیہ الرحمہ کی شان میں منقبت کے طور پر پہلا کلام کہا ۔

سوال:- آپ کے خاندان میں آپ سے قبل بھی کوئی شاعر گزرا ہے ؟

جواب:- ہمارے والد گرامی کے نانا حضرت علامہ سید عبد العزیز علیہ الرحمہ ایک نعت گو شاعر تھے۔آپ کے کلاموں کے مسودے کی میں نے زیارت کی ہے۔ہمارے برادر اکبر حضرت علامہ سید اولاد رسول قدسی ایک عظیم صاحبِ دیوان شاعر ہیں ۔

سوال:- آپ نے سب سے پہلا مشاعرہ کب اور کہاں پڑھا ؟؟

جواب :-سب سے پہلا مشاعرہ میں نے دھام نگر ، اڑیسہ کے آل انڈیا مشاعرے میں پڑھا تھا جب میری عمر سترہ سال کی تھی ۔

سوال :- مشاعرہ اردو ادب کی تہذیب اور روایت کہی جاتی ہے -لیکن سنجیدہ طبقہ زوال آمادہ مشاعرہ سے بیزار نظر آتا ہے- مشاعرے کی سیاست اور پھر متشاعرہ /متشاعر کو اولیت دینا اردو ادب کے لیے کتنا سود مند ثابت ہورہا ہے؟

جواب :- مشاعرہ کو متشاعروں سے دور رکھنا چاہئے۔شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ فن عروض کی بنیادی باتوں کا علم ضرور رکھتا ہو ۔

سوال :- بہار کی مساجد میں نوٹ یا نظام الاوقات وغیرہ اردو میں درج مل جاتا ہے – لیکن دہلی کی مساجد میں دیوناگری داخل ہوچکی ہے کیا کہنا چاہتے ہیں آپ ؟

جواب:
دہلی اردو کا مرکز رہا ہے ۔عوام میں اردو کے تعلق سے پھر سے بیداری لانا ضروری ہے۔

سوال : – ایک وقت تھا اردو زباں طبقہ اشرافیہ کی زباں کہی جاتی تھی ، آزادی کے بعد صورت حال بدل گئی مسلمان کی زباں ٹھہرانے کی سیاسی کوششوں کے پس پردہ بہت کچھ ہوا پھر یہ مدرسہ اور خانقاہوں کی زباں بتائی گئی ، اب صورت حال یہ ہے کہ خانقاہوں اور اہل مدرس کے بچے بھی انگریزی میڈیم سے تعلیم پاکر سجادہ بن رہے ہیں گو کہ خانقاہ میں مدرسہ چل رہا ہے لیکن اس میں انتہائی غریب یعنی کی غریبی لائن سے نیچے طبقے کے مریدوں کے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں یہ کڑوی حقیقت ہے یعنی کی اردو زباں اب غریبی لائن سے نیچے آگئی ہے ؟

جواب: – درست فرمایا آپ نے ۔اردو پر اردو والے ہی ظلم کررہے ہیں ۔
آپ اپنے بچوں کو کسی بھی میڈیم میں پڑھاءیں ، لیکن یہ ضروری ہے کہ آپ بچوں کو گھر میں اردو ضرور پڑھاءیں اور اس طرح اپنی مادری زبان کو زندہ و جاوید رکھیں ۔

سوال :- آپ نے کسی استاد سے اصلاح لی؟گر ہاں تو استاد محترم کے نام بتانا پسندکریں گے؟

جواب :- میرے استاد ‌میرے برادر اکبر علامہ سید اولاد رسول قدسی ہیں ، جو امریکہ میں مقیم ہیں اور تقریباً پچیس کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کے کءی دیوان منظر عام پر آچکے ہیں ۔میں نے استاد گرامی پر ایک شعر کہا تھا :

عینی شعر و شاعری سے جو ہے رشتہ استوار
میرے استاد گرامی قدسی کا فیضان ہے

سوال: -آپ کی پسندیدہ کتاب جسے بار بار پڑھنا چاہتے ہوں؟

جواب :_میری پسندیدہ کتاب قرآن مجید ہے۔یہ میرا روز مرہ کا معمول ہے کہ ہر روز نماز فجر کے بعد قرآن مجید ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھتا ہوں ۔قران سب سے زیادہ فصیح و بلیغ کتاب ہے ۔ قرآن پڑھنے سے دونوں دینی و دنیاوی فائدے ہیں ۔اسی لیے ہم نے کہا ہے :

رب کے قرآن مقدس کو پڑھیں ہم بار بار
اس طرح ہم امتیاز خیر و شر پیدا کریں

سوال :- آپ اردو ادب اور عالمی ادب کے ان قلم کاروں کے نام بتائیں ! جنھوں نے آپ کو متاثر کیا ؟؟

جواب :- اردو:
علامہ رضا بریلوی، حسن رضا بریلوی، ڈاکٹر اقبال،امیر میناءی، داغ دہلوی، میر تقی میر ، مرزا غالب۔

غیر اردو: حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبد الرحمان جامی،جان ڈان، ورڈز ورتھ، جان کیٹس۔

سوال :- آج ذرائع ابلاغ کے موثر وسائل ہمیں دستیاب ہیں ، پھر بھی ہم اردو زباں و ادب کے حوا لے سے خاطر خواہ مطمئن کیوں نہیں ؟
جواب: _ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشمولیات کا معیار گرتا جارہا ہے ۔ہمیں معیار پر دھیان دینا چاہیے اور مزید محنت سے کام کرنا چاہیے

سوال:-حالانکہ ہم گلوبل ولیج دور کے پروردہ ہیں ۔اب دوریاں نزدیکیوں میں تبدیل ہوچکی ہے تو ایسے میں وطن سے دور رہنا کوئی خاص معنی نہیں رکھتا ، یہ خیال کہاں تک درست ہے ؟
جواب :- درست فرمایا آپ نے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے دوریاں سمٹ گئی ہیں ، فاصلے مٹ گیے ہیں ۔اب کثرت سے آن لاین مشاعرے ہورہے ہیں جس میں‌ لندن، امریکہ ، آسٹریلیا وغیرہ کے ادیبوں اور شاعروں سے بھی ملاقاتیں ہوتی ہیں اور ان سے تبادلہء خیال بھی بہ آسانی ہوجاتا ہے

سوال :- جاپانی زباں ، چائنز زباں ، فرانسیسی زباں لاطینی زبان ۔فرانسیسی زباں عبرانی زباں پڑھ کر سائنس داں ،انجینئر بن سکتے ہیں ، اردو زباں پڑھ کر کیوں نہیں بن سکیں ۔۔۔؟

جواب: – ۔بالکل ۔اردو میں پڑھ کے بھی ساءینس داں بن سکتے ہیں ۔مرزا غالب کے اشعار دیکھیں ان میں سائینسی مفاہیم کی فراوانی ہے ۔اردو میڈیم کو اہمیت دینی چاہیے اور بچوں کو عصری علوم اردو میں بھی دیے جاسکتے ہیں اور وہ کامیاب بھی ہوسکتے ہیں ۔

سوال :- عالمی زباں میں اردو کاتیسرا مقام تھا کبھی باوجود اس کے اب تک نوبل انعام سے محروم ہے جب کہ بنگالی زباں کا مقام سب جانتے ہیں لیکن نصف صدی قبل نوبل انعام سے بنگالی ادب نوازا جا چکا ہے ، آپ کی نظر میں کیا خاص وجہ رہی ؟؟

جواب: – ۔میرے خیال میں ڈاکٹر اقبال اور ان جیسے کءی اردو شعرا نوبل انعام کے حقدار ہیں ۔
لیکن تعصب کی وجہ سے انھیں نظر انداز کیا گیا۔یا تو ہوسکتا ہے عالمی سطح میں ہم اپنی آواز مؤثر طریقے سے پہنچا نہیں سکے ۔

سوال : -اردو زباں شعر و ادب کے دم پر زندہ رہنے کی طاقت رکھتی ہے ؟

جواب: – بیشک۔شعر و ادب اردو زبان کی جان اور پہچان ہے ۔جو دلکشی اور جاذبیت اردو شاعری میں ہے وہ کسی دوسری زبان میں ناپید ہے ۔

سوال :-آپ اپنی زندگی کے خوشگوار یا یاد گار لمحے قارئین کو بتانا چاہیں گے؟

جواب :- میری ادبی زندگی کی خوشگوار یادیں لکھنؤ سے جڑی ہوئی ہیں جہاں میری شاعری کی نشو نما ہوءی ۔تین سال میں لکھنو میں رہا اور لکھنؤ کے مختلف طرحی مشاعروں میں باضابطہ میری شرکت ہوتی رہی اور میرے کلام لکھنؤ کے اخبار و رساءیل اودھ نامہ ، راشٹریہ سہارا، صحافت ، نیا دور وغیرہ میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتے رہے۔لکھنؤ کے میرے دوست احسن اعظمی مرحوم بھلائے نہیں جاسکتے ۔تقریبا” ہر مشاعرے میں ان کی رفاقت رہتی تھی ۔احسن اعظمی کے ساتھ ہماری ایک خوشگوار ادبی دوستی تھی ۔افسوس کہ گزشتہ سال کورونا سے ان کا انتقال ہوگیا ۔اللہ انھیں غریق رحمت فرمائے۔آمین۔

سوال:-اب تک آپ کی نثری/شاعری پر مبنی کتنی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں؟

جواب: -میرے نعتیہ کلاموں کا مجموعہ رحمت و نور کی برکھا شائع ہو کر مقبول عام بن چکی ہے۔اس کتاب میں میرے تقریباً دو سو کلام ہیں ۔اس کتاب میں علامہ قدسی ، علامہ ہاشمی، ڈاکٹر مشاہد رضوی، علامہ رفیق مصباحی ، احسن اعظمی کی تقاریظ شامل ہیں ۔الحمد للہ ، ان بڑی شخصیات نے میری شاعری کی پذیرائی کی ہے اور میرے زود گوئی اور خوب گوئی کا اعتراف بھی کیا ہے ۔

اس کے علاوہ نظر عمیق (نقد و نظر) اور مناقب مفتیءاعظم ( منقبتوں کا مجموعہ ) کی ترتیب میں نے دی ہے ۔

سوال :-ہر سال انگریزی زباں اپنی لغت میں پانچ نئے الفاظ کا اضافہ کرتی ہے ، ہندی زباں تین الفاظ کا ۔۔اردو والے اضافہ تو دور سابقہ الفاظ متروک کیے جارہے ہیں ہمیں اس پہلو پر غور کرنا چاہئے یا نہیں؟
جواب: -یہ درست ہے کہ اردو کے کچھ الفاظ متروک کیے جارہے ہیں، مگر ساتھ ہی ساتھ نءے الفاظ بھی شامل ہورہے ہیں ۔

سوال:_ ہم روزمرہ اور عام بول چال میں دوسری زباں کے الفاظ اسی صورت میں قبول کرنے کے عادی بن چکے ہیں ،جو اردو زباں کے الفاظ بن چکے ہیں مثلاً، پولیس ، ایف آئی آر ، کمشنر ، جج، کانسٹبل بینک ، اسٹیشن ، پلیٹ فارم ، پولنگ بوتھ، ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش وغیرہ یہ ہماری غفلت ہے یا کچھ اور؟

جواب:
اردو کا دامن اتنا وسیع ہے کو وہ کسی بھی غیر اردو زبان کے لفظ کو بحسن و خوبی اپنے دامن میں سمیٹ سکتی ہے ۔اور یہ زبان کی خوبی ہے ۔

سوال :-اہل اردو کی خاص توجہ صنف شاعری پر مرکوز رہتی ہے غزل پر ساری توانائیاں صرف کردی جاتی ہیں غزل شعرا کی ایک تہائی آبادی گر اصطلاح وغیرہ وضع کرنے میں منہمک ہوتی اردو کا دائرہ کار وسیع نہیں ہوتا کیا خیال ہے آپ کا؟
جواب :- الحمد للہ! آج کل غزل کے علاوہ نظم ، آزاد نظم ، نثری نظم، ہائیکو، دوہا ، رباعی پر توجہ دی جارہی ہے ۔مثال کے طور پر ہمارے استاد گرامی علامہ قدسی کے دیوان رباعی ، دوہا، ہائیکو میں منظر عام پر آچکے ہیں۔
دیگر شعرا کو بھی اس پر مزید توجہ دینی چاہیے۔

سوال :-اردو زباں کی پیشانی سے “یہ شعروادب کی زباں ہے”کی مہر’مٹانے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا ؟

جواب:- شعر و ادب کے علاوہ ہمیں نثر پر بھی توجہ دینی چاہیے۔افسانہ نگاری، انشا پردازی وغیرہ پر بھی کام کرنا چاہیے۔اس کے علاوہ نقد و تبصرہ پر توجہ مرکوز رہے ۔نقد و تبصرہ سے زبان کی بہت ترقی ہوتی ہے ۔
علم عروض ، علم معانی ، علم بلاغت پر بھی مزید کام ہونا چاہیے۔

سوال:-عالمی پیمانے پر گر دس اردوشعراء کے نام کا انتخاب کیا جائے تو آپ کسے منتخب کریں گے؟

جواب :-علامہ رضا بریلوی
ڈاکٹر اقبال
حسن رضا بریلوی
امیر میناءی
میر تقی میر
مرزا غالب
الطاف حسین حالی
مومن خان مومن
میر درد
میر انیس

سوال :- یوں تو اردوشعرا ستاروں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں لیکن میرؔ و غاؔلب اقباؔل فیضؔ و فراقؔ کے بعد نام کے انتخاب میں تنازع شروع ہوجانے کا احتمال ۔۔پھر یہ کہنا عافیت کہ جو ذرہ جہاں ہے وہیں آفتاب ہے ‘کیا خیال ہے؟

جواب:-استاد شعرا کا اپنا اپنا مقام ہے ۔سبھوں کا رنگ جدا ہے ۔کسی میں معانی میں خوبی ہے تو کسی میں سوز و گداز ہے ۔کسی کے کلام میں سہل ممتنع ہے تو کسی میں مشکل پسندی ، کوءی علامت کی دنیا کا سلطان ہے تو کوءی تشبیہات و استعاروں کا بے تاج بادشاہ

سوال:- ایک بار پھر رخ کرتے ہیں نجی سوال کی طرف ادبی اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہوگا اس کی تفصیل قارئین کو بتانا پسند کریں گے؟

جواب: -الحمد اللہ!
ہمیں حسان بن ثابت ایوارڈ اور نسیم ملت ایوارڈ سے نوازا گیا ہے

سوال :- آپ اپنی شاعری سے مطمئن ہیں؟

جواب:
جی نہیں ۔
چونکہ میں سرکاری ملازمت میں ہوں ، اس لیے کماحقہ مطالعہ کا وقت نہیں ملتا۔ مطالعہ سے شاعری میں مزید نکھار آئےگا ۔دعا فرمائیں ۔

سوال:-چونکہ یہ مصا حبہ ” واٹس ایپ ادبی تنظیم ” کی جانب سے کیا جارہا ہے ‘ آپ قرطاس ادب تنظیم ‘کے تعلق سے اردو زباں کے تناظر میں کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟

جواب :- بزم قرطاس ادب اردو کی بہت عمدہ انداز سے خدمت انجام دے رہی ہے ۔ہر روز بہت معلومات افزا مضامین اور کلام پڑھنے کو ملتے ہیں ۔
ہمارا پیغام یہ کہ
اردو والوں کو چاہیے کہ اردو اخبار و رساءیل خرید کے پڑھیں ۔شاعر ہو یا ادیب یا محض اردو داں سب اگر اردو اخبار و رسائل خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں تو اردو کی ترقی ضرور ہوگی اور موجودہ بحران سے بچ جائےگی ۔

سوال: -آپ اپنے چند منتخب کلام قارئین کرام کی نذر کرنا چاہیں گے؟
جواب:_ لیجئے!
پانچ غزلیں پیش خدمت ہیں:

غزل
۔۔۔۔۔۔
تو پژمردہ پیڑوں کو یوں باثمر رکھ
توانائی دے شاخ کو بااثر رکھ

نہ کر فخر اجداد کے تو شجر پر
تو شاخوں پہ خود کاوشوں کا ثمر رکھ

ہے انکار کرنا بہت سہل و آساں
تو اقرار کا حوصلہ اے بشر رکھ

زمینی حقائق رہیں تیرے آگے
نظر اپنی چاہے سدا چرخ پر رکھ

نہ ہو جائے مانند آتش سراپا
مرے دل کی اے جان جاناں خبر رکھ

کر احقاق حق اور ابطال باطل
یہ جذبہ ہر ایک موڑ پر بے خطر رکھ

سبھی کی محبت سماجائے دل میں
تو اس میں ہمیشہ محبت کا گھر رکھ

گہر خود ہی آجائےگا پاس “عینی”
نہایت پہ منزل کی گہری نظر رکھ

از: سید خادم رسول عینی

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
درد و غم سے وہ ہ بشر آزاد ہے
قلب میں جس کے خدا کی یاد ہے

حکمران وقت سب خاموش ہیں
بے اثر مظلوم کی فریاد ہے

حق پرستو ! رب کی نصرت آئیگی
جبر باطل کی بھی اک میعاد ہے

آگ نفرت کی بجھے بھی کس طرح
تلخیوں کا اک جہاں آباد ہے

دل ہے چھلنی اس کا سنگ بغض سے
جس کے ہونٹوں پر مبارکباد ہے

دیکھیے موجد کی آنکھوں سے ذرا
خوبصورت کس قدر ایجاد ہے

غالب آئے غم کا لشکر کس طرح
دل میں یاد یار جب آباد ہے

“عینی” رکھنا‌ رب پہ ہر دم‌ اعتماد
ورنہ تیری زندگی ناشاد ہے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

غزل
۔۔۔۔۔۔۔

نخل نخوت کو ہمیشہ بے ثمر رکھا گیا
صبر کے ہر اک شجر کو بارور رکھا گیا

سلسلہ بڑھتا گیا ان کے ستم کا اس قدر
میرے ٹوٹے دل کے آنگن میں حجر رکھا گیا

لگ رہا تھا بھیڑ میں وہ ضوفشاں کچھ اس طرح
درمیان نجم جیسے اک قمر رکھا گیا

شک کی عینک جب اتاروگے تو مانوگے ضرور
منصب عالی پہ مجھ کو جانچ کر رکھا گیا

درد و غم کی آگ اسی سے ایک دن بجھ جائیگی
ان کے سوز عشق میں ایسا اثر رکھا گی

بحر سے دوری ھے مجھ کو کیسے سیرابی ملے
زیست میں میری سراب بے اثر رکھا گیا

روز و شب چوبیس گھنٹے کم پڑے اپنے لیے
اس قدر کیوں وقت “عینی” مختصر رکھا گیا
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
صحن دل کے سبھی پھولوں کو جواں رہنے دو
پر شباب اپنے چمن کا یہ سماں رہنے دو

پھر کبھی سر نہ اٹھا پائیں جہاں کے ظالم
سینہء ظلم پہ سیدھا سا نشاں رہنے دو

ہو نہ جائے کبھی احساس کا بلبل غمگیں
اس کو رکھو نہ نہاں بلکہ عیاں رہنے دو

تم کو رکھنا ہے تقدس کی فضا گر قائم
دل کی مسجد‌ میں محبت کی اذاں رہنے دو

آب عرفاں سے رہیں حق کے مسافر سیراب
اپنے اطراف ہدایت کا کنواں رہنے دو

دل کرو فتح تم‌ اخلاص کی تلواروں سے
نفرت و بغض کے تم تیغ و سناں رہنے دو

درد دروازہء دل پر نہ دے دستک ” عینی “
مدح محبوب سدا ورد زباں رہنے دو
۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

غزل
۔۔۔۔۔

دیکھو جہاں بھی ، ایک ہی خاور ہے ہرطرف
تاروں کے قافلے کا یہ رہبر ہے ہرطرف

بھر آئی دیکھ دیکھ کے امن و اماں کی آنکھ
انسانیت کے خون کا منظر ہے ہرطرف

تنہا لڑینگے خنجر خلق و وفا سے ہم
گرچہ جہاں میں بغض کا لشکر ہے ہر طرف

ہے خوف کیسے زیست کی رہ پائے گی فضا
سانپوں کا سانپ دشت میں اجگر ہے ہرطرف

خالی ملیں گے سیپ سمندر کی گود میں
مت سوچیے کہ سیپ میں گوہر ہے ہر طرف

دریا کے ذہن میں یہ سسکتا سوال ہے
کیوں اس قدر ‌خموش سمندر ہے ہر طرف

دنیا میں اک فقیر سے ملتا گیا قرار
“عینی” اگرچہ شور سکندر ہے ہر طرف
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

سوال:-اردو زباں کا مستقبل آپ کی نظر میں ؟؟

جواب :- ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔
ڈاکٹر اقبال فرماتے ہیں:

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

اردو کا مرکز کبھی دہلی اور لکھنؤ ہوا کرتا تھا ۔اب یہ مرکزیت ممبئی، مہاراشٹرا اور دکن کی جانب منتقل ہورہی ہے ۔نیو یارک اور لندن بھی اردو کے مراکز بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔
اردو زندہ تھی ، زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔
ان شاء اللہ

ختم شد

منجانب:_ قرطاس ادب ( کراچی ، پاکستان)
ناظم اعلیٰ: –سید فرخ جعفری
منتظم: -مہرو لونا ٰ
منتظمہ، مصاحبہ گو:– جبیں نازاں_ نئی دہلی

اللہ ورسول کی محبت:ایمان کی اولین شرط 📝از:محمّدشمیم احمدنوری مصباحی!ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

اسلام جس طرح ہم کو اللہ ورسولﷺ پر ایمان لانے اورنماز،روزہ اورحج وزکوٰۃ اداکرنے کی تعلیم دیتا ہے اورایمانداری اورپرہیزگاری اورخوش اخلاقی اورنیک اطواری اختیار کرنے کی ہدایت اورتاکید کرتاہے،اس طرح اس کی ایک خاص ہدایت اورتعلیم یہ بھی ہے کہ ہم دنیا کی ہرچیز سے زیادہ،یہاں تک کہ اپنے ماں باپ اوربیوی بچوں اورجان ومال اورعزت وآبرو سے بھی زیادہ،خدااور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کے دین سے محبت کریں۔یعنی اگرکبھی کوئی ایسا نازک اورسخت وقت آجائے کہ دین پر قائم رہنے اور اللہ ورسول [جل جلالہ/صلی اللہ علیہ وسلم] کے حکموں پرچلنے کی وجہ سے ہمیں جان ومال اورعزت وآبروکاخطرہ ہو،تو اسوقت بھی اللہ عزّوجل ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اوردین کو نہ چھوڑیں اور جان ومال یا عزت وآبروپرجوکچھ گزرے،گذرجانے دیں۔قرآن وحدیث میں جابجا فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ اسلام کا دعویٰ کریں اور ان کو اللہ ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ان کے دین کے ساتھ ایسی محبت اور اس درجہ کا تعلق نہ ہو،وہ اصلی مسلمان نہیں ہیں، بلکہ وہ اللہ کی طرف سے سخت سزا اورعذاب کے مستحق ہیں،سورۂ توبہ میں فرمایا گیا ہے:”قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَاؤُکُمْ وَاَبْنَاؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہُ بِاَمْرِo وَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ”۔(التوبہ:۲۴)(اے رسولﷺ )آپ ان لوگوں کو فرمادیں کہ اگرتمہارے ماں باپ، تمہاری اولاد،تمہارے بھائی برادر تمہاری بیویاں اورتمہاراکنبہ قبیلہ اور تمہارامال دولت،جسے تم نے کمایا ہے اور تمہاری تجارت جس کی کساد بازاری سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے رہنے کے مکانات جوتمہیں پسند ہیں(سواگریہ چیزیں)تم کو زیادہ محبوب ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کے دین کے لیے کوشش کرنے سے تو اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو اور(یادرکھو)کہ اللہ ہدایت نہیں دیتاہے فاسقوں [ نافرمانوں ]کو۔اس آیت سے معلوم ہواکہ جواللہ ورسول اور ان کے دین کے مقابلہ میں اپنے ماں باپ یا بیوی بچوں یا مال وجائداد سے زیادہ محبت رکھتے ہوں اور جن کو اللہ ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی اوردین کی خدمت وترقی سے زیادہ فکر ان چیزوں کی ہو ،وہ اللہ کے سخت نافرمان ہیں اور اس کے غضب کے مستحق ہیں،ایک مشہور اورصحیح حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ایمان کی مٹھاس اوردین کا ذائقہ اسی شخص کو نصیب ہوگا جس میں تین باتیں ہوں،اول یہ کہ اللہ ورسول کی محبت اس کو تمام ماسواسے زیادہ ہو،دوسرے یہ کہ جس آدمی سے بھی محبت کرے صرف اللہ کے لیے کرے(گویاذاتی اورحقیقی محبت صرف اللہ ہی سے ہو)اور تیسرے یہ کہ ایمان کے بعد کفر کی طرف لوٹنا اوردین کو چھوڑنا اس کو ایسا ناگوار اورگراں ہو جیسا کہ آگ میں ڈالا جانا”۔(مسلم، بَاب حَلَاوَةِ الْإِيمَان)اس سےمعلوم ہواکہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اصلی اور سچے مسلمان وہی ہیں جن کو اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اوردین اسلام کی محبت دنیا کے تمام آدمیوں اورتمام چیزوں سے زیادہ ہو،یہاں تک کہ اگروہ کسی آدمی سے بھی محبت کریں تو اللہ ہی کے لیے کریں اور دین سے ان کو ایسی الفت ہو کہ اس کو چھوڑکر کفر کا طریقہ اختیار کرنا ان کے لیے اتنا شاق اور ایسا تکلیف دہ ہو جیسا کہ آگ کے الاؤ میں ڈالا جانا،ایک اورحدیث میں ہے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم میں سےکوئی شخص اس وقت تک پورا مومن اوراصلی مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کو میری محبت اپنے ماں باپ سے اوراپنی اولاد سے اوردنیا کے سارے آدمیوں سے زیادہ نہ ہو”۔(بخاری، بَاب حُبُّ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْإِيمَانِ،)کسی بھی چیز کا اللّٰہ ورسول سے زیادہ عزیز ومحبوب ہونے کامطلب یہ ہے کہ جب کسی آدمی کے سامنے دو بالکل متضاد مطالبے آجائیں،ایک طرف اللّٰہ ورسول کامطالبہ ہو تودوسری طرف اوپردرج شدہ آیت کریمہ میں مذکور چیزوں میں سے کسی چیز کی محبّت کامطالبہ، اور آدمی خدااوررسول کے مطالبے کونظراندازکرکےدوسری چیز کے مطالبہ کو ترجیح دےدے تواس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ اللّٰہ اور رسول سے زیادہ اس کو وہ چیز محبوب ہے،اوراگر اس کے برعکس وہ اس چیز کے مطالبہ پر اللّٰہ ورسول کے مطالبہ کو مقدّم رکھے تواس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس نے اللّٰہ ورسول[جل جلالہ/رسول اللّٰہ صلّی اللہ علیہ وسلّم]کی محبت کوترجیح دی-اللّٰہ ورسول سے یہ محبت ایمان کالازمی تقاضاہے-اس کےبغیر کسی کادعوائے ایمان معتبر نہیں ہے اور یہ محبّت الٰہی کےجانچنے کے لئے ایک ایسی کسوٹی ہے جس سے ہرشخص اپنی روزمرّہ کی زندگی میں اپنے ایمان اور اپنی محبّت کوجانچ سکتاہے-قارئینِ کرام: خدااوراس کے رسول سے محبّت دراصل خدااوررسول کے پیغامات سے محبّت ہے اور ایمان دراصل اسی کانام ہے کہ آدمی بالکل اللہ ورسول کا ہوجائے اوراپنے سارے تعلقات اورخواہشات کو ان کے تعلق پر اور ان کے دین کی راہ میں قربان کرسکے،جس طرح کہ صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کردکھایا ،اورآج بھی اللہ کے سچے اور صادق بندوں کا یہی حال ہے،اگرچہ ان کی تعدادبہت کم ہے،اللہ تعالی ہم سب کو بھی انہیں کے ساتھ اور انہیں میں سے کردے!

صدقہ فطر کے فضائل و مسائل

صدقہ فطر کے فضائل و مسائل:

قرآن و حدیث میں اہل اسلام کے لیے فرضیت  صلوۃ و صوم اور حج و زکوۃ کے ساتھ  صدقہ فطر کو بھی واجب قرار دیا ہے، صدقہ فطر مالی انفاق ہے جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوٰۃ سے پہلے اسی سال دیا جس سال رمضان کا روزہ فرض ہوا۔ صدقہ فطر غریبوں اور مسکینوں کو دیا جاتا ہے۔ اس کو فطرانہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا ادا کرنا ہر مالدار شخص کے لئے ضروری ہے تا کہ غریب اور مسکین لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ علاوہ ازیں صدقہ فطر روزے دار کو فضول اور فحش حرکات سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔

اللہ رب العزت جل جلالہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى،وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(سورۃالاعلی  آیت 14/15)
ترجَمہ: بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کرنماز پڑھی۔(کنز الایمان)
اس آیت کریمہ کےتحت حضورصدرالا فاضل
مفسر قرآن حضرت مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمۃ و الرضوان ’’ خزائن العرفان‘‘ میں لکھتے ہیں : اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’ تَزَكّٰى‘‘ سے صدقہ فطر دینا اور رب کا نام لینے سے عید گاہ کے راستے میں تکبیریں کہنااور نماز سے نماز عید مراد ہے۔ (خزائن العرفان ص1064)

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فطرانے کی زکوٰۃ فرض فرمائی ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو ہر غلام اور آزاد مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان کی طرف سے اور حکم فرمایا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ادا کر دیا جائے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
(بخاری شریف، أبواب صدقة الفطر، باب فرض صدقة الفطر، 2/547، الرقم: 1432)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے مقام پر صدقہ فطر کے بارے میں ارشاد فرمایا:
،، بندۂ مومن کا روزہ آسمان و زمین کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک بندہ مومن صدقہ فطر ادا نہ کرے۔(ملخصا۔الفردوس بمأثور الخطاب ج۲ص۳۹۵حدیث۳۷۵۴)

صدقہ فطر واجب اور لغو باتوں کا کفارہ ہے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاکر مکہ مکرمہ  کے گلی کوچوں میں اعلان کر دو،کہ ’’صد قہ فطر واجب ہے۔‘‘ ( تِرمذی ج۲ص۱۵۱حدیث۶۷۴)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر مقرر فرمایا تاکہ فضول اور بیہودہ کلام سے روزوں کی طہارت و صفائی ہوجائے۔ نیز مساکین کی خورش (یعنی خوراک)بھی ہوجائے۔ 
(ابو داؤد، السنن، کتاب الزکاة، باب زکاة الفطر، 2 :  28، رقم :  1609)

صدقہ فطر واجب ہونے کے  16 مسائل:

(1)صدقہ فطر  ان تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو صاحب نصاب ہوں اور ان کا نصاب حاجات اصلیہ (یعنی ضروریات زندگی مثلاً رہنے کا مکان ، خانہ داری کا سامان وغیرہ)‘‘ سے فارغ ہو۔
(فتاوی عالمگیری ج۱ص۱۹۱)
(2)جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم یا اتنی مالیت کا مال تجارت ہو (اور یہ سب حاجات اصلیہ سے فارغ ہوں ) یا اتنی مالیت کا حاجت اصلیہ کے علاوہ سامان ہو اس کو صاحب نصاب کہا جاتا ہے (مزید تفصیل  بہار شریعت ملاحظہ فرمائیں)۔
(3) صدقہ فطر واجب ہونے کیلئے ،’’عاقل وبالغ ‘‘ہونا شرط نہیں ۔بلکہ بچہ یا مجنوون،پاگل بھی اگر صاحب نصاب ہوتو اس کے مال میں سے ان کا ولی، سرپرست صدقہ فطر ادا کرے۔
 (ردالمحتار ۳ص۳۶۵)
’’صدقہ فطر ‘‘ کے لئے مقدار نصاب تو وہی ہے جو زکوٰۃ کا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ صدقہ فطر  کے لئے مال کے نامی (یعنی اس میں زیارتی و بڑھنےکی صلاحیت) ہونے اور سال گزرنے کی شرط نہیں ۔ اسی طرح جو چیزیں ضرورت سے زیادہ ہیں (جیسے عام ضرورت سے زیادہ کپڑے ، بے سلے جوڑے ، گھریلو زینت کی اشیا وغیرہ وغیرہ)اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو تو ان اشیا کی وجہ سے صدقہ فطر واجب ہے۔ (وقار الفتاویٰ ج۲ ص ۳۸۶ملخصا)
(4) مالک نصاب مرد پر اپنی طرف سے ،اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے اور اگر کوئی مجنون (یعنی پاگل )اولاد ہے (چاہے وہ پاگل اولاد بالغ ہی کیوں نہ ہو)تو اُس کی طرف سے بھی صدقہ فطر واجب ہے،ہاں اگر وہ بچہ یا مجنون خود صاحب نصاب ہے تو پھر اس کے مال میں سے فطرہ ادا کردے۔ (فتاوی عالمگیری ج۱ص۱۹۲)
(5) مرد صاحب نصاب پر اپنی بیوی یا ماں باپ یا چھوٹے بھائی بہن اور دیگر رشتے داروں کا فطرہ واجب نہیں ۔
(ایضاً ص۱۹۳ملخصا)
(6)والد نہ ہو تو دادا جان والد صاحب کی جگہ ہیں ۔یعنی اپنے فقیر ویتیم پوتے پوتیوں کی طرف سے ان پہ صدقہ فطر  دینا واجب ہے۔ (درمختار ج۳ص۳۶۸)
(7) ماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صدقہ فطر  دینا واجب نہیں ۔ ( رد المحتار ج ۳ ص ۳۶۸)
(8) باپ پر اپنی عاقل بالغ اولاد کا فطرہ واجب نہیں ۔ (درمختار مع ردالمحتار ج۳ص۳۷۰)
(9) کسی صحیح شرعی مجبوری کے تحت روزے نہ رکھ سکا یا مَعَاذَ اللہ بغیر مجبوری کے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھے اس پر بھی صاحب نصاب ہونے کی صورت میں صدقہ فطر واجب ہے۔ (ردالمُحتار ج ۳ ص ۳۶۷)
(10) بیوی یا بالغ اولاد جن کا نفقہ وغیرہ (یعنی روٹی کپڑے وغیرہ کا خرچ) جس شخص کے ذمے ہے، وہ اگر ان کی اجازت کے بغیر ہی ان کا فطرہ ادا کردے تو ادا ہوجائے گا ۔ہاں اگر نفقہ اس کے ذمے نہیں ہے مثلاً بالغ بیٹے نے شادی کرکے گھر الگ بسالیا اور اپنا گزارہ خودہی کرلیتا ہے تو اب اپنے نان و نفقہ(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ ) کا خود ہی ذمہ دار ہوگیا ہے۔لہٰذا ایسی اولاد کی طرف سے بغیر اجازت فطرہ دے دیا تو ادا نہ ہوگا۔
(11)بیوی نے بغیر حکمِ شوہر اگر شوہر کا فطرہ ادا کردیا تو ادا نہ ہوگا۔ (بہار شریعت ج۱ص۳۹۸)
(12) عید الفطر کی صبح صادق طلوع ہوتے وقت جو صاحب نصاب تھا اسی پر صدقہ فطر واجب ہے ،اگر صبح صادق کے بعد صاحب نصاب ہوا تو اب واجب نہیں ۔ (ماخوذ از فتاویٰ عالمگیری ج۱ص۱۹۲)
(13) صدقہ فطر ادا کرنے کا افضل وقت تو یہی ہے کہ عید کو صبح صادق کے بعد عید کی نمازادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کردیا جائے،اگر چاند رات یا رمضان المبارک کے کسی بھی دن بلکہ رمضان شریف سے پہلے بھی اگر کسی نے ادا کردیا تب بھی فطرہ ادا ہوگیا اور ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔ (ایضاً)
(14)اگر عید کا دن گزر گیا اور فطرہ ادا نہ کیا تھا تب بھی فطرہ ساقط نہ ہوا،بلکہ عمر بھر میں جب بھی ادا کریں ادا ہی ہے ۔ (ایضاً)
(15)صدقہ فطر کے مصا رف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ۔یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں انہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ان کوفطرہ بھی نہیں دے سکتے۔ (ایضاًص۱۹۴ ملخصاً)
(16)سادات کرام کو صدقہ فطر نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ یہ بنی ہاشم سے ہیں ۔ بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ931پر ہے: بنی ہاشم کوزکاۃ(فطرہ) نہیں دے سکتے۔ نہ غیر انھیں دے سکے، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔ بنی ہاشم سے مراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی اولادیں ہیں ۔

صدقہ فطر کی مقدار:

گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع(یعنی دوکلو میں 80 گرام کم ) (یاان کی قیمت)، کھجور یامُنَـقّٰی یا جو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع( یعنی چار کلو میں 160 گرام کم) (یاان کی قیمت) یہ ایک صدقہ فطر کی مقدار ہے۔ 
(عالمگیری ج۱ص۱۹۱،درمختارج۳ص۳۷۲)
 ’’بہار شریعت‘‘ میں ہے : اعلٰی درجہ کی تحقیق اور احتیاط یہ ہے کہ: صاع کا وزن تین سو351/اکاون روپے بھر ہے اور نصف صاع ایک۱۷۵ سو پچھتر روپے اَٹھنی بھر اوپر۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۹۳۹ )
ان چار چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز سے فطرہ ادا کرنا چاہے، مثلاً چاول، جوار، باجرہ یا اور کوئی غلہ یا اور کوئی چیز دینا چاہے تو قیمت کا لحاظ کرنا ہوگا یعنی وہ چیز آدھے صاع گیہوں یا ایک صاع جو کی قیمت کی ہو، یہاں تک کہ روٹی دیں تو اس میں بھی قیمت کا لحاظ کیا جائے گا اگرچہ گیہوں یا جو کی ہو۔ (ایضاً)
حاصل کلام:
قرآن و حدیث سےواضح ہوگیا کہ ہر مسلمان پر صدقہ فطر کا ادا کرنا نماز عید الفطر سے قبل یہ زیادہ افضل ہے ۔

اللہ رب العزت جل جلالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں ہم سب مسلمانان اہل سنت کے صدقہ فطر، صوم و صلوۃ کو قبول فرمائے۔

آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

سب کو سینے سے لگاؤ دن ہے عیدالفطر کا ہیں،، از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر[راجستھان]

’’ عید الفطر‘‘ کا لفظ دو لفظوں “عید” اور “الفطر” سے مرکب ہے۔ اس کی تشریح اس طرح ہے کہ عید کا مادہ سہ حرفی ہے اور وہ ہے “عود” عاد یعود عوداً وعیاداً کا معنی ہے لوٹنا، پلٹنا، واپس ہونا ، پھر آنا- چونکہ یہ دن ہر سال آتا ہے اور اس کے لوٹ آنے ‘سے اس کی فرحت و مسرت اور برکت و سعادت کی گھڑیاں بھی اس کے ساتھ لوٹ آتی ہیں اس لیے اس روز سعید کو “عید” کہتے ہیں۔
فطر کے معنیٰ کسی کام کو از سرنو یا پہلی بار کرنے کے ہیں:رات بھر کی نیند اور سکون و آرام کے بعد انسان صبح کو اٹھ کرجس مختصر خوراک سے اپنے دن کا آغاز کرتا ہے اسے “فطور” کہتے ہیں۔ اسی طرح ماہ صیام میں سحری سے غروب آفتاب تک بن کھائے پیے رہنے کے بعد روزہ پورا کرکے روزہ دار کی بھوک مٹانے اور پیاس بجھانے کو افطار کہا جاتا ہے- مہینے بھر کے روزوں کا فریضہ مسلمان سر انجام دینے کی خوشی میں یکم شوال المکرم کو حسب حیثیت عمدہ و لذیذ کھانے اور میٹھے پکوان پکاتے ہیں اور اسلامی برادری کے ان افراد کو بھی صدقۂ فطر ادا کرکے اچھے کھانے پکانے کے قابل بناتے اور اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں جو اپنی ناداری و افلاس کے باعث اچھے کھانے پکانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تیس روزوں کے بعد حسب معمول کھانے پینے کا از سرنو آغاز کرنے اور صدقۂ فطر کی ادائیگی کی بنا پر اس عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔
عید کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ۔ تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں جو عید کے تصور سے آشنا نہ ہو،قدیم تاریخی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمدن دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی عید کا بھی آغاز ہو گیا تھا۔
ایک روایت ہے کہ جس روز حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اس روز دنیا میں پہلی بار عید منائی گئی تھی۔ دوسری بار عید اس وقت منائی گئی تھی جس روز ہابیل اور قابیل کی جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم نے اس روز عید منائی تھی جس روز حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نمرود کی آگ گلزار ہوئی تھی۔ حضرت یونس علیہ السلام کی امت اس روز عید مناتی تھی جس روز حضرت یونس کو مچھلی کی قید سے رہائی ملی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم اس روز عید مناتی تھی، جس روز حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ حضرت عیسیٰ کی امت آج تک اس یوم سعیدکوعید مناتی ہے۔ جس روز حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی۔

دنیا کی تقریباً سبھی قوموں میں تہوار منانے کا رواج ہے اور ہرمذہب کے لوگ اپنی روایت کے مطابق تہوار مناتے ہیں، اسلامی تہوار دوسرے مذاہب کے تہواروں سے بالکل مختلف اور جداگانہ نوعیت کے ہیں،اور ہمارے نبی کریمﷺ جب مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تو وہاں کے لوگ چھوٹے چھوٹے تہواروں کے علاوہ نو روز کا جشن اور کچھ بڑے بڑے بتوں کی پوجا کا تہوار بھی مناتے تھے حضور ﷺ نے ان باتوں کو سخت نا پسند فرمایا اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے اپنی امت کے لئے دعا فرمائی اور دوعیدیں مسلمانوں کے لیے مقرر کر وا لیں، جب پہلی بار مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو تاریخ اسلام کے اس پہلے رمضان المبارک میں حضور ﷺ نے مدینہ کے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہر قوم کے لئے عید ہوتی ہے تم بھی عیدیں مناتے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری عیدوں کو ان دو عیدوں سے بدل دیا ہے۔ اب تم ہر سال شان سے عیدالفطر اور عیدالا ضحیٰ منایا کرو۔
چنانچہ مسلمانوں نے اپنے پیارے رسول ﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں یکم شوال دو ہجری کو پہلی بار عید منائی، عید الفطر حقیقت میں مسلمانوں کی خوشی اور مسرت کا وہ محبوب دن ہے، جو سال بھر میں صرف ایک مرتبہ انہیں نصیب ہوتا ہے۔ایک ماہ مسلسل اللہ کی عبادت کا فریضہ ادا کر کے مسلمان اپنے دل میں مسرت اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کے قلب میں ایمان کی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ اور ان کے دل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ روزے رکھ کر انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر لی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ہر سال مسلمان چھوٹا بڑا امیر غریب مرد عورت غرض ہر شخص رمضان المبارک کے اختتام پر بڑے تزک واحتشام سے عید الفطر مناتے ہیں۔

عیدالفطر کے پر مسرت موقع پر جو آپس میں کسی وجہ سے ناراض ہیں ان کو ایک دوسرے سے صلح کر لینی چاہیے اور بروز عید ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا چاہیے۔ عید کے دن دل میں کوئی رنجش نہ رکھیں کیونکہ عید آتی ہے اور خوشیاں دے کر چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے “اور جب انسان اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے سرفراز ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خوب خوشیاں منائے” عید کے دن مسلمانوں کی مسر ت اور خوشی کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خدا کے احکامات کی ایک ماہ تک سختی سے تعمیل کی اور اس تعمیل کے بعد خوش و مسرور رہتے ہیں، حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں، کہ عیدالفطر کے دن حضور میدان میں نماز ادا فرماتے نماز کی ادائیگی کے بعد لوگوں سے ملاقات کرتے گلے ملتے پھر واپس گھر آجاتے۔ لہٰذا آپ بھی خوب خوشیاں منائیں نئے کپڑے نئے جوتے خریدیں اور بڑوں سے عیدی بھی لیں اور چھوٹوں کو عیدی بھی دیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بھی نہ بھولیں، حسب توفیق انہیں بھی اپنی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کریں۔عید اصل میں دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا ہی نام ہے یا دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام ہے۔

یہ عید تیرے واسطے خوشیوں کا نگر ہو

کیا خوب ہو ہر روز تیری عید اگر ہو

اسلام کا کوئی حکم بھی حکمت سے خالی نہیں اور پھر عموماً رمضان المبارک کے مبارک مہینے میں زکٰو ۃ نکالی جاتی ہے یعنی امیر لوگ غریبوں کو دینے کے لئے ضرورت مندوں کی مددکرنے کے لیے اپنی جمع پونجی (آمدنی)میں سے اسلامی قوانین کے مطابق کچھ رقم نکالتے ہیں اور غریبوں میں اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ بہت سے غریب گھرانوں اور حاجت مندوں میں کھانے پینے کی چیزیں اور پہننے کے لئے کپڑے خرید لئے جاتے ہیں اور یوں سب عید کی خوشیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی ماہ صدقۂ فطر دیا جاتا ہے-

اگر ہمارے پڑوس میں خاندان میں غربت وافلاس کی وجہ سے کوئی عید کی خوشیوں میں شامل نہیں ہو سکتا تو اس کی مدد کرنے سے ہی عید کی دلی خوشیاں ملیں گی ، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل کر دی ہے ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تا کہ وہ غریب مسلمان بھی مسرتوں اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے بھی ایک غریب مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے۔ اور ایسی مدد کرنے پر خدا اور رسول ﷺ بھی خوش ہوتے ہیں اور اگر ہو سکے تو اوائل رمضان میں ہی ان کی مدد کر دیں تاکہ وہ اپنے بچوں کے لیے کپڑے خرید سکیں ،یہ ہمارا ان پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے ہم پر فرض ہے ۔ اللہ نے اگر ہم کو مال ودولت سے نوازا ہے تو ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہےکہ ہم اللّٰہ کے عطاکردہ مال سے اپنے ان بھائیوں کی بھی ضرورتوں کی تکمیل کرنے کی کوشش کریں جو اس کے مستحق ہیں-

اصل عید کیا ہے؟
رمضان کی ایک مہینے کا روزہ رکھنے کے بعد دو رکعت شکرانہ کے طور پر نماز عید ادا کی جاتی ہے یہ اس بات کی خوشی کا نام ہے کہ ہم نے اللہ کے فریضہ کو ادا کرلیا [ذٰلک فضل اللہ] اللہ تعالی نے جو انعام اس پر عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ہم اس پر خوش ہیں، اللہ کے حکم کی پاسداری پر خوش ہیں، رمضان کا احترام بجا لانے پر خوش ہیں، اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ رمضان میں ہر طرح کے گناہوں سے بچایا، رمضان کے شب و روز کو ذکر و تلاوت، دعا و استغفار، صدقہ و خیرات غرباء پر کرنے اور گناہوں سے اجتناب کی توفیق عطا ہوئی،رمضان درس تقویٰ ہے،حق تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ رمضان اور اس کے اعمال کی برکت سے ظاہر و باطن کا تقویٰ حاصل ہو اور گیارہ مہینے رمضان کے سبق کے ذریعہ اہتمام تقویٰ پر قوت اور توفیق ملتی رہے، اور پھر بار بار ماہ مبارک ملتا رہے تاکہ تقویٰ میں نکھار پیدا ہوتا رہے- ہماری عید تو اللہ کی مرضیات پر قربان ہونے میں ہے، ہماری عید رمضان کے پورے ہونے پر فطرہ کی ادائیگی،غرباء کو عید کے دن خوش رکھنے میں ہے، ہماری خوشی اس میں ہے کہ امیر غریب سب عید اچھے کپڑے میں ادا کریں، ہماری عیداس میں ہے کہ یتیم، بیوہ، غریب،مسکین سب خوشی میں شریک رہیں، سب کے گھر خوشی کے کھانے پکیں اور سب کے گھر خوشی کے گیت گائے جائیں، ہماری خوشی اس میں ہے کہ شب عید میں “عتق من النار” کا فیصلہ سب لوگ سن لیں، ہماری خوشی اس میں ہے کہ ہم میں سے ہر ایک عید گاہ “الله اکبر الله اکبر لا اله الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد” کا ترانہ عید میں اپنے من میں اور آہستہ گنگناتا جائے اور عیدالاضحیٰ میں بآواز بلند گاتا جائے اور ایک راستہ سے جائے اور دوسرے راستہ سے واپس آئے اس میں خوشی میں مچلنا بھی ہے اور دونوں راستوں کو گواہ بنانا بھی ہے- اسی لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ھٰذا عیدنا”
ہماری عید آپے سے باہر ہونے کا نام نہیں ہے- ہماری عید ظلم و ستم کی غماز نہیں ہے، ہماری عید کسی پر کیچڑ اچھالنے کا نام نہیں ہے، ہماری عید تو باربار خوشی کے لانے اور لوگوں کو بار بار خوش کرنے کا نام ہے-آپس میں اگر کچھ دوری بھی رہی ہو تو قرب سے بدل جائے، دشمنی دوستی سے بدل جائے،بےوفائی وفاداری سے بدل جائے-

عید کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑا خوش کن اعلان ہوتا ہے بیہقی شریف کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب لوگوں کی عید یعنی افطار[عیدالفطر] کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے اظہار فخر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو! اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے اپنا کام پورا کر دیا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب! اس کا بدلہ یہ ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو اللہ تعالی فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور میری بندیوں نے میرا فریضہ جو ان کے ذمہ تھا پورا کردیا پھر فریاد کرتے ہوئے دعا کرتے ہوئے نکل پڑے ہیں، میری عزت وجلال اور میرے کرم اور میری علو شان اور میرے مقام کی بلندی کی قسم میں ان کی فریاد اور دعا ضرور سنوں گا اور ان کی دعا ضرور قبول کروں گا، اس کے بعد اللہ تعالی اپنے فرشتوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے “ارجعوا قد غفرتُ لکم وبدّلتُ سیّئاتکم حسنات” لوٹ جاؤ میں نے تم سب کی مغفرت کر دی اور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیا چنانچہ بندے عید کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے ہیں تو ان کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے-

ایک گنہگار بندے کی سب سے بڑی ضرورت اور حاجت اس کی معافی اور مغفرت ہے جس کا اعلان عید کے روز جاتا ہے، اب سنبھلنے کی ضرورت ہے کیوں کہ کسی نعمت کو حاصل کرنے کے بعد اس کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے-

آج ہمارے معاشرے میں کیا چل رہا ہے؟عید کی نماز سے فراغت کے بعد جہاں تقویٰ اور اعمال صالحہ میں روزافزوں ترقی ہونی چاہییے تھی،مسلمان بالخصوص ہمارا نوجوان طبقہ پلٹ کر گناہوں میں ملوث ہونے لگتاہے،شراب،جوا،بدچلنی،بدفعلی،زنا،بدنگاہی،بدزبانی،فسق وفجور،نماز سے لاپرواہی،تلاوت سے غفلت، اضاعتِ حقوق اور مختلف قسم کے معاصی کادروازہ پلٹ کر کھول دیتا ہے اور رمضان وروزہ کا سکھایا ہوا سبق بھول جاتا ہے-

عید الفطر خوشی کا دن: عیدالفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی، دوسری قیام شب ہائے رمضان کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلۃ القدر اور پانچویں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقۂ فطر کہا جاتا ہے، کے ذریعے کرنے کا حکم ہے تاکہ عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شریک ہو جائے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر اسے مومنوں کے لئے ’’خوشی کا دن‘‘ قرار دیا گیا-
اور عیدکے دن روزہ رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے عید کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ جیساکہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:نَهَی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَنْ صِيَامِ يَوْمَيُنِ: يَوْمِ الْفِطْرِ وَ يَوْمِ الْاَضْحَی.
’’حضور نبی اکرم ﷺ نے دو دنوں فطر اور اضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔‘‘(ابو داؤد، السنن، کتاب الصيام، باب فی صوم العيدين، 2: 314، رقم: 2417)

چاندرات کی فضیلت:چاندرات بڑی اہمیت وفضیلت کی حامل رات ہے،اسے “لیلة الجائزہ” بھی کہاجاتا ہے،مسلمانوں نے رمضان کا پورا مہینہ روزہ رکھ کر حکم خداوندی کو سرانجام دیا-ان کا یہ پاکیزہ عمل مکمل ہوگیا تو آج کی رات ان کے انعام کی رات ہے –
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کانام “لیلة الجائزہ” [یعنی انعام حاصل کرنے والی رات] رکھاجاتاہے-(شعب الایمان للبیہقی ج/5 ص/278 رقم الحدیث:3421)
اس لیے اس رات کو فضولیات میں ضائع نہیں کرناچاہییے بلکہ اس کی برکات، رحمتوں اور من جانب اللہ مغفرت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہییے-اس رات کی اہمیت وفضیلت پر چندروایات ملاحظہ کریں!
★حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے عیدین کی راتوں میں اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے قیام کیا[یعنی عبادات کوسرانجام دیا]تو اس کادل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل مردہ ہوجائیں گے-(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث:1772)
★حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں کی جانے والی دعاکو رد نہیں کیا جاتا- 1…جمعہ کی رات،2…رجب کی پہلی رات،3…شعبان کی پندرہویں رات،4…عیدالفطر،5… اور عیدالاضحیٰ کی دو راتیں-
ان روایات اور دیگر کئی روایات کے پیش نظر محدّثین نے اس رات کی عبادت کو خاص طور پر ذکر کیا ہے-لہٰذا اس رات کی اہمیت کے پیش نظر اس رات زیادہ سے زیادہ عبادت،ذکرواذکار اور درود شریف کاورد کرناچاہییے اور اگر زیادہ عبادت وریاضت نہ کرسکیں تو کم ازکم فسق وفجور اور لایعنی کاموں میں تو نہ پڑیں،عشاء کی نماز باجماعت مسجد میں اداکرکے آرام کریں اور صبح جلدی اٹھ کر نمازتہجد اداکریں اور پھر نماز فجر باجماعت اداکریں-اللّٰہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ آپ کو پوری رات عبادت کاثواب عطافرمائےگا،اس طریقے سے گناہوں سے حفاظت بھی رہےگی اور ثواب بھی ملےگا [ان شاء اللہ تعالیٰ]-

اس رات یہ کام کریں:

چاند رات ،عید الفطر کی تیاری اور اسے منانے کے حوالے سے ہمیں اسلامی تعلیمات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔چاند رات دراصل عبادت اور فضیلت کی رات ہے۔اس رات رمضان رخصت ہوجاتا ہے اور اللہ تعالی ’مزدور‘ کو اس کی ’ مزدوری‘ دیتا ہے،ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم نے ایک مہینہ میں کیا کھویااورکیا پایا؟رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں سے خود کواور اپنے اہل و عیال کو جہنم سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی یا نہیں؟اللہ تعالیٰ سے اپنی مغفرت کرا ئی یا نہیں؟اس لیے ہمیں اس رات اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے اور مغفرت اور دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے یا کم از کم ایسے اعمال انجام نہیں دینے چاہیے جو اللہ تعالی کے غضب کو دعوت دیتے ہوں ۔
مگر عموماً معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے-

عید کی رات کو مندرجہ ذیل چندامور انجام دینے کی کوشش کرنی چاہییے!
(1)نوافل پڑھنا…(2)قرآن مقدس کی تلاوت کرنا…(3)صدقہ وخیرات کرنا…(4)دعاؤں کااہتمام کرنا…(5)ذکرواذکار اور درود شریف کا ورد…(6)توبہ واستغفار اور اپنے گناہوں سے بصدق دل معافی مانگنا…(7)امت مسلمہ کی بھلائی وعافیت کی دعا کرنا…(8)رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنا…(9)اگر کسی کی حق تلفی ہوگئی ہو تو اس سے معافی مانگنا…(10)اگر کسی نے ظلم وزیادتی کی ہو تو اسے معاف کرنا…(11)آپسی نااتفاقی کو دور کرکے اتفاق واتحاد اور صلح وآشتی کے فضا کوقائم کرنے کی کوشش کرنا-

چاند رات کی جس قدر اہمیت ہے لوگ اس کا خیال نہیں رکھتے ،اس رات کو عموماً عبادات کے بجائے فضولیات ولغویات میں ضائع کردیتے ہیں،جب کہ ایک مسلمان کی یہ شان ہونی چاہییے کہ وہ نیکیوں کوجمع کرنے میں ہی حتی الامکان مصروف عمل رہے،کچھ بعید نہیں کہ اس رات کی ہماری تھوڑی سی عبادت ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں ہماری قبولیت کاسبب بن جائے،اس لیے شوق اور ثواب کی نیت سے زیادہ سے زیادہ عبادات سرانجام دینی چاہییے-
بعض لوگ اس رات میں آتش بازی اور فائرنگ کرتے ہیں،اس سے یکسر اجتناب کرناچاہییے کہ اس میں جانی نقصان کا خطرہ ہونے کے ساتھ مالی نقصان اور اسراف ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسراف[فضول خرچی]کرنے والوں کو شیطان کابھائی قرار دیا ہے،اس لیے شیطانی کاموں سے بچتے ہوئے نیک امور کی انجام دہی میں مصروف رہنے کی کوشش کریں-
بعض لوگ اس رات کو گلیوں اور بازاوں میں گھوم کر ضائع کردیتے ہیں-اس سے بھی اجتناب ضروری ہے،ہاں!اگر واقعی میں کسی چیز کی ضرورت ہو اور بازار جاناپڑے تو جانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مطلوبہ چیز لے کر فوراًاپنے گھر واپس آناچاہییے،بازاروں میں بلاضرورت گھومنے کے بجائے یہ رات اپنے گھروں یا پھر مساجدوغیرہ میں عبادت وریاضت میں گذارنی چاہییے-

عید کی کچھ سنتیں اور مستحبات:
(1)نمازعید سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا(2)غسل کرنا(3)طہارت ونظافت کا خصوصی اہتمام کرنا(4)حسبِ استطاعت نئے یا صاف ستھرے کپڑے پہنا (5)خوشبو لگانا(6)عدگاہ جانے سے پہلےکھجور یا کوئی میٹھی چیز کھانا،حضرت انس سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ عیدالفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرماتے تھے ۔عموماًان کی تعداد طاق ہوتی تھی(بخاری:9530)
(7)عید گاہ پیدل جانا اور ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ اس سے ہر قدم پر ثواب ملتا ہے اور غیروں کو مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی احساس ہوتا ہے-حضرت ابورافع روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ عید کی نماز کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے ،اس کے علاوہ دوسرے راستے سے واپس آتے تھے(ابنِ ماجہ:1300)
(8) راستے میں تکبیریں (اللہ اکبر اللہ اکبر،لاالہ الا اللہ،واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد)پڑھتے ہوئے جانا ،ہم سب کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے،نوجوان طبقہ عموماً آپس میں ہوہااور دنیا بھر کی بکواس کرتا ہوا جاتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد ہو اور دوسرے محسوس کریں کہ آج کوئی خاص دن ہے ۔اس سے غیروں پر رعب بھی پڑتا ہے۔یہ نہیں کہ مرے مرے انداز میں منہ لٹکائے چلے جا رہے ہیں۔
(9) خطبہ سننا:نمازِ عید الفطر کے بعد امام خطبہ دیتا ہے ،اس کو سن کر جانا چاہیے،اکثر لوگ نماز ختم ہوتے ہی بھاگنے لگتے ہیں۔خطبہ میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے،اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگی جاتی ہے ،عالمِ اسلام اور بنی نوع انسانیت کی بھلائی کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں،جن کو قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔

شوال کے چھ روزے رکھنا:
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے رمضان کے بعد والے مہینہ یعنی شوال میں چھ نفلی روزے رکھے،تاکہ رمضان کے جاتے ہی عبادات و اذکار کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے اور ان کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر رکھا کہ انسان اس کی طرف مائل ہو۔احادیث مبارکہ میں اس کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہیں اور شوال کے ان چھ روزوں کی بڑی فضیلت اور ترغیب آئی ہےحضرت عمر بن ثابت خزرجی سے روایت ہے کہ حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے، پھراس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے( صحیح مسلم رقم الحدیث:1164)
اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:جس نے رمضان کے روزے رکھے اور شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھے-(مسنداحمد:14302)
پہلی حدیث میں شوال کے چھ روزے رکھنے کو”پورے زمانے کے روزے”اور دوسری حدیث میں “پورے سال کے روزے”رکھنے کی مانند قرار دیاگیا ہے-اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان جب رمضان المبارک کے پورے مہینے کے روزے رکھتا ہے تو بقاعدہ “الحسنة بعشر امثالھا” [ایک نیکی کا کم ازکم اجر دس گنا ہے] اس ایک مہینے کے روزے دس مہینوں کے برابر بن جاتے ہیں-اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابربن جاتے ہیں،گویا رمضان اور اس کے بعد چھ روزے شوال میں رکھنے والا پورے سال کے روزوں کا مستحق بن جاتا ہے،اس سے مذکورہ حدیث کا مطلب واضح طور پر سمجھ میں آتا ہےکہ “گویا اس نے پورےسال کے روزے رکھے” نیز اگر مسلمانوں کی زندگی کا یہی معمول بن جائے کہ وہ رمضان کے ساتھ ساتھ شوال کے روزوں کو بھی مستقل رکھتا رہے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے پوری زندگی روزوں کے ساتھ گذاری ہو-
اس توجیہ سے حدیث مذکور کا مضمون “یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی طرح ہے” بالکل واضح ہو جاتا ہے-لہٰذاکوشش کرنی چاہییے کہ اس فضیلت کو حاصل کرلیا جائے-
نوٹ:اگر کسی کے ذمہ رمضان کےروزے ہوں تو احتیاطاً پہلے ان روزوں کی قضا کی جائے،بعد میں شوال کے بقیہ دنوں میں ان چھ روزوں کو رکھاجائے-اور شوال کے یہ چھ روزے عید کے فوراً بعد رکھنا ضروری نہیں بلکہ عید کے بعد جب بھی چاہے رکھ سکتے ہیں،بس اس بات کااہتمام کر لیاجائے کہ ان چھ روزوں کی تعداد شوال ہی میں مکمل ہونی چاہییے-
بہتر یہ ہے کہ یہ روزے متفرق رکھے جائیں اور اگر عید کے بعد لگاتار چھ دن میں ایک ساتھ متواتر رکھ لیے جائیں جب بھی کوئی حرج نہیں-
اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی لوگوں کو عید الفطر کی حقیقی خوشیاں نصیب کرے-آمین!