WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

شب قدر کی اہمیت و فضیلت از:مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی!

از:مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی!
ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

یہ بات شریعت اسلامیہ کے مسلمات میں سے ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک نے ماہ و سال کا نظام بنایا اور کائنات میں مختلف اشیاء کو ایک دوسرے کے مقابلے میں شرف و فضیلت سے بہرہ ور کیا پھر عالم دنیا کے ہر ایک شعبہ کو آیت کریمہ ” فضلنا بعضھم علیٰ بعض ” کا مصداق بنایا- چنانچہ بعض مہینوں کو بعض پر اور بعض ایام کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اسی طرح بعض راتوں کو بعض راتوں پر فضیلت اور برتری حاصل ہے جس سے کسی کو بھی انکار ممکن نہیں، بقول حضرت امام غزالی “سال میں 15 راتیں خیر کی تجارت گاہیں ہیں اور طالب آخرت تاجر ہے، اس لیے آخرت کے طالبین کو ان راتوں میں غافل نہیں رہنا چاہئے ورنہ نقصان ہوگا” انہیں 15 راتوں میں سے ایک مبارک و مسعود رات “شب قدر” بھی ہے جو اللہ رب العزت کی رحمتوں کا خزانہ اور برکتوں کا گنجینہ ہے اور کم از کم ایسی 30 ‘ہزار راتوں سے بہتر ہے جن میں شب قدر نہ ہو-
شب قدرست طےشدہ نامہ ہجر
سلام فیه حتی مطلع الفجر

اور تو اور اس رات کو تقدیر ساز رات بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اسی رات میں قرآن مجید جیسی تقدیر ساز کتاب نازل ہوئی بقول شاعر

کتاب ہدیٰ کی یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہوئی قوموں کی تقدیر دیکھی

شب قدر کی اہمیت: رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے،جو بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل رات ہے۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں،جس شخص کی یہ ایک رات عبادت میں گذری گویا اس نےتراسی برس چار ماہ کا زمانہ عبادت میں گزار دیا اور تراسی برس کا زمانہ کم از کم ہے کیونکہ ’’خیر من الف شھر‘‘ کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زائد اجر عطا فرمانا چاہے گا،عطا فرما دے گا۔ اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔
اگر دنیا کے کسی سوداگر کو یہ پتہ چل جائے کہ ہمارے قریبی شہر میں فلاں مہینہ اور تاریخ کو ایک ایسا میلہ لگنے والا ہے جس میں اتنی آمدنی ہوگی کہ ایک روپیہ کی قیمت ہزار گنا بڑھ جائے گی اور تجارت میں غیر معمولی نفع ہوگا تو کون احمق ہوگا جو اس زریں موقع کو ہاتھ سے جانے دےگا؟ اور اس سے فائدہ اٹھائے بغیر یوں ہی ضائع کردےگا؟ بلکہ عقلمند شخص وہی ہوگا جو اس اسکیم سے بھرپور نفع اٹھائے اور مستقبل کے لیے ذخیرہ اندوزی کی فکر کرے،بلکہ بتانے والے نے اگر تاریخ نہ بھی بتائی ہو تو کسی نہ کسی طرح وہ تاریخ کاپتہ لگانے کی ہر ممکن کوشش کرےگا اور اگر تاریخ میں کچھ شبہ رہ جائے تواحتیاطاً کئی دن پہلے اس جگہ پہنچ کر پڑاؤ ڈال دےگا-ٹھیک یہی حال اخیر عشرے کی طاق راتوں اور بالخصوص شب قدر کا ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ کی رحمتیں اور مغفرتیں اپنے عروج پرہوتی ہیں،کوشش کرنے والے اپنی عبادت وریاضت اور اخلاص وطاعت کے ذریعہ حتی المقدور دامن مراد کو بھرلیتے ہیں، جب کہ غافل ولاپرواہ لوگ اس بے پایاں فضل وانعام کے باوجود محروم ونامراد ہوجاتے ہیں،غرض شب قدر بڑی برکتوں اور رحمتوں کی رات ہے،یہ آسمانوں پر فرشتوں کے لیے عید کی رات ہے اور زمین پر انسانیت کے لیے معراج کمال کے حصول کی رات ہے،اس میں اللّٰہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے اتھاہ سمندر پُرجوش ہوتے ہیں، پوری رات میں رحمت الٰہی کی برسات اور خیرو مغفرت کا نزول ہوتا رہتاہے، اطمینان وسکون کی خنک ہواؤں کے جھونکے مشام جاں کو معطر کرتے ہیں،اس رات میں مردہ دلوں کو زندگی عطاکی جاتی ہے اور روحوں کی تاریک دنیا کو انوار وتجلیات سے جگمگادیا جاتا ہےاور جبرئیل امین فرشتوں کے جھرمٹ میں نازل ہوتے ہیں پھر شب بیداروں کو ان کاسلام ملتا ہےاور شیطانی القاء کی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں اور شیاطین کے ہرقسم کے داؤ پیچ اور تگ ودو پر پابندی لگا دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں شب بھر غیر معمولی روحانی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے،پھر کسی بھی صاحب خیر کو محروم نہیں کیا جاتا ہے-اس لیے اگر کوئی بندہ شب قدر کی جستجو میں کامیاب ہوجائے تو اس ایک رات میں اللّٰہ تعالیٰ کے قرب کی وہ اتنی منزلیں طے کرسکتا ہے جتنی ہزاروں راتوں میں نہیں کرسکتا ہے-
شب قدر کو شب قدر کہنے کی وجہ:
1:امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قدر کا معنیٰ مرتبہ کے ہیں،چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے‘ اس لئے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ یعنی “شب قدر” کہا جاتا ہے۔(القرطبی‘ 20: 130)

2:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو تمام فیصلے فرما لیتا ہے اور چونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر و فیصلے کا قلمدان فرشتوں کو سونپا جاتا ہے،اس وجہ سے یہ ’’لیلۃ القدر‘‘ کہلاتی ہے۔(تفسیر القرطبی‘ 20: 130)

  1. اس رات کو قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ “اس رات میں اللہ تعالی نے اپنی قابل قدر کتاب،قابل قدر امت کے لئے صاحبِ قدر رسول کی معرفت نازل فرمائی،یہی وجہ ہے کہ اس سورہ میں لفظ قدر تین دفعہ آیا ہے”۔(تفسیر کبیر‘ 32: 28)

4:قدر کا معنیٰ تنگی کا بھی آتا ہے۔ اس معنیٰ کے لحاظ سے اسے قدر والی رات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔(تفسیر الخازن‘ 4: 395)

5:امام ابوبکر الوراق قدر کہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ رات عبادت کرنے والے کو صاحب قدر بنا دیتی ہے، اگرچہ وہ پہلے اس لائق نہیں تھا۔(تفسیر القرطبی‘ 20: 131)

یہ مبارک رات کیوں عطا ہوئی؟
اس کے حصول کا سب سے اہم سبب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس امت پر شفقت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غم خواری ہے۔ موطا امام مالک میں ہے کہ:جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سابقہ لوگوں کی عمروں پر آگاہ فرمایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟(پس) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرما دی،جو ہزار مہینے سے افضل ہے۔(موطا امام مالک، 1: 319‘ کتاب الصیام،باب ماجاء فی لیلة القدر،رقم حدیث: 15)

اس کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا، جس نے ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کیا تھا۔

فعجب رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم لذلک و تمنی ذالک لامته فقال یا رب جعلت امتی أقصر الامم الاعمارا و أقلها أعمالا فاعطاه ﷲ تبارک و تعالیٰ لیلة القدر.(تفسیر الخازن‘ 4: 397)

تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر تعجب کا اظہار فرمایا اور اپنی امت کے لئے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا کی کہ اے میرے رب میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے تو اس پر اللہ تعالی نے شب قدر عنایت فرمائی۔

ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے سامنے مختلف انبیائے کرام حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام،حضرت حزقیل علیہ السلام، حضرت یوشع علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حضرات نے اسی اسی سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ان برگزیدہ ہستیوں پر رشک آیا۔

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
یا محمد عجبت امتک من عبادة هولاء النفر ثمانین سنة ‘ فقد انزل ﷲ علیک خیراً من ذلک ثم مقرأنا اَنْزَلْنَاهُ فِی لَیْلَة القَدْرِ فسر بذلک رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم.
اے نبی محترم! آپ کی امت کے لوگ ان سابقہ لوگوں کی اسی اسی سالہ عبادت پر رشک کر رہے ہیں تو آپ کے رب نے آپ کو اس سے بہتر عطا فرما دیا ہے اور پھر سورۃ القدر کی تلاوت کی، اس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس فرطِ مسرت سے چمک اٹھا۔(تفسیر القرطبی‘ 20: 132)

چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طفیل یہ کرم فرمایا کہ اس امت کو لیلۃ القدر عنایت فرما دی اور اس کی عبادت کو اسی نہیں بلکہ 83 سال چار ماہ سے بڑھ کر قرار دیا-

امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیت:لیلۃ القدر فقط حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان ﷲ وهب لامتی لیلة القدر لم یعطها من کان قبلهم.(الدر المنثور‘ 6: 371)
یہ مقدس رات اللہ تعالی نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا۔

پہلی امتوں میں عابد کسے کہا جاتا تھا؟:مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ پہلی امتوں میں عابد اسے قرار دیا جاتا تھا ،جو ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ میں اس امت کو یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ ایک رات کی عبادت سے اس سے بہتر مقام حاصل کر لیتی ہے۔

قیل ان العابد کان فیما مضی یسمی عابداً حتی یعبد ﷲ الف شهر عبادة، فجعل ﷲ تعالی لامة محمد صلی الله علیه وآله وسلم عبادة لیلة خیر من الف شهر کانوا یعبدونها.
سابقہ امتوں کا عابد وہ شخص ہوتا جو ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا، لیکن اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اس امت کے افراد کو یہ شبِ قدر عطا کر دی،جس کی عبادت اس ہزار ماہ سے بہتر قرار دی گئی۔(فتح القدیر‘ 5: 472)

گویا یہ عظیم نعمت بھی سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کے صدقہ میں امت محمدیہ کو نصیب ہوئی ہے۔

فضیلتِ شب قدر:احادیث کی روشنی میں:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا:جوشخص شبِ قدر میں ایمان و اخلاص کے ساتھ عبادت کرے تو اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(بخاری،ج1ص626، حدیث:1901)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرّحمہ اِس حدیثِ پاک کی وضاحت میں لکھتے ہیں: رمضان میں روزوں کی برکت سے گناہ ِصغیرہ معاف ہوجاتے ہیں اور تراویح کی برکت سے گناہِ کبیرہ ہلکے پڑ جاتے ہیں اور شبِ قدر کی عبادت کی برکت سے درجے بڑھ جاتے ہیں۔(مراٰۃ المناجیح،ج3ص134)

علامہ عبد الرءوف مُناوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اِس حدیث کی وضاحت میں نقل کرتے ہیں کہ رمضان کے روزوں اور قیام کےذریعے  ہونے والی  مغفرت  تو ماہِ رمضان کے آخر میں ہوتی ہے جبکہ شب قدر میں قیام کے سبب  ہونے والی بخشش کومہینے کے اِختتام تک مؤخر نہیں کیا جاتا۔(فیض القدیر،ج6ص248،تحت الحدیث:8902ماخوذاً)
مذکورہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جہاں لیلۃ القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر، عبادت و طاعت کی تلقین کی گئی ہے، وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو، ریاکاری یا بدنیتی نہ ہو اور آئندہ عہد کرے کہ میں برائی کا ارتکاب نہیں کروں گا، چنانچہ اس شان کے ساتھ عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژِدۂ مغفرت بن کر آتی ہے۔

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان هذا الشهر قد حضرکم و فیه لیلة خیر من الف شهر من حرمها فقد حرم الخیر کله ولا یحرم خیرها الا حرم الخیر.

یہ جو ماہ تم پر آیا ہے، اس میں ایک ایسی رات ہے،جو ہزار ماہ سے افضل ہے،جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا وہ سارے خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعةً محروم ہو۔(سنن ابن ماجه: 20‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 1644)

ایسے شخص کی محرومی میں کیا شک ہو سکتاہے جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر بسر کر لیتا ہے تو اسی سال کی عبادت سے افضل عبادت کے لئے دس راتیں کیوں نہیں جاگ سکتا؟-

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اذا کان لیلة القدر نزل جبرائیل علیه السلام فی کبکة من الملئکة یصلون علی کل عبد قائم او قاعد یذکر ﷲ عزوجل.

شب قدر کو جبرائیل امین علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں اور ہر شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے، بیٹھے (یعنی کسی حال میں) اللہ کو یاد کر رہا ہو۔(شعب الایمان، 3: 343)

شبِ قدرکب ہوتی ہے؟
قارئین کرام: اللہ وحدہ لاشریک نے اپنی مَشِیَّت (مرضی)کے تَحت شَبِ قَدر کوپوشیدہ رکھا ہے۔ لہٰذا ہمیں یقین کےساتھ نہیں معلوم کہ شَبِ قَدر کون سی رات ہوتی ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: ”شَبِِ قَدْر کو رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔“ (بخاری،ج1ص661 ، حدیث: 2017) ”فیضانِ رمضان“ صفحہ199 پر ہے:اگرچہ بُزُرگانِ دین اور مُفَسِّرین و مُحدِّثین رَحِمَھُمُ اللہُ تعالیٰ علیہم اجمعین کا شبِ قَدْر کے تَعَیُّن میں اِختِلاف ہے، تاہَم بھاری اکثریَّت [اکثرصحابۂ کرام اور جمہور علماءِ کرام] کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستّائیسویں شَب ہی شَبِِ قَدْرہے۔ سیّدالْقُرَّاء حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک ستّائیسویں شبِ رَمَضان ہی ”شَبِِ قَدْر“ ہے۔ (مسلم،ص383،حدیث:762)
سیدالمفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی نظریہ ہے آپ نے اپنے اس نظریہ پر کئی دلائل پیش کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ “تنزل الملٰئکة والرّوح فیھا” میں “فیھا” (مراد:شب قدر ) سورۂ قدر کا ستائیسواں کلمہ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ شب قدر ستائیسویں رات ہے- اور بعض علماء نے ستائیسویں شب میں شب قدر ہونے پر علم حساب سے بھی استدلال کیا ہے وہ اس طرح کہ لیلة القدر میں کل نو حروف ہیں اور سورۂ قدر میں لیلة القدر کا تذکرہ تین مرتبہ ہوا ہے، اب اگر ۹/ کو ۳/ میں ضرب دے دیا جائے تو نتیجہ ۲۷/ نکلے گا-

شب قدر کو مخفی کیوں رکھا گیا؟
اتنی اہم اور بابرکت رات کے مخفی ہونے کی متعدد حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

دیگر اہم مخفی امور مثلاً اسمِ اعظم‘ جمعہ کے روز قبولیت دعا کی گھڑی کی طرح اس رات کو بھی مخفی رکھا گیا۔
اگر اسے مخفی نہ رکھا جاتا تو عمل کی راہ مسدود ہو جاتی اور اسی رات کے عمل پر اکتفا کر لیا جاتا،ذوقِ عبادت میں دوام کی خاطر اس کو آشکار نہیں کیا گیا۔
اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کسی انسان کی وہ رات رہ جاتی تو شاید اس کے صدمے کا ازالہ ممکن نہ ہوتا۔
اللہ تعالیٰ کو چونکہ اپنے بندوں کا رات کے اوقات میں جاگنا اور بیدار رہنا محبوب ہے،اس لئے رات تعین نہ فرمائی،تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادت میں گزریں۔
عدمِ تعین کی وجہ سے گنہگاروں پر شفقت بھی ہے،کیونکہ اگر علم کے باوجود اس رات میں گناہ سرزد ہوتا تو اس سے لیلۃ القدر کی عظمت مجروح کرنے کا جرم بھی لکھا جاتا۔ (التفسیر الکبیر‘ 32: 28)

ایک جھگڑا علمِ شبِ قدر سے محرومی کا سبب بنا: ایک نہایت اہم وجہ اس کے مخفی کر دینے کی جھگڑا بھی ہے، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیاکہ آپ اس رات کی تعین کی بارے میں اپنی امت کو آگاہ فرما دیں کہ یہ فلاں رات ہے، لیکن دو آدمیوں کے جھگڑے کی وجہ سے بتلانے سے منع فرما دیا، روایت کے الفاظ یوں ہیں:خرج النبی صلی الله علیه وآله وسلم لیخبر بلیلة القدر، فتلاحی رجلان من المسلمین،فقال: خرجت لأخبرکم بلیلة القدر،فتلاحی فلاں و فلاں فرفعت-
ایک مرتبہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شب قدر کی تعین کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے، لیکن راستہ میں دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں شب قدر کے بارے میں اطلاع دینے آیا تھا،مگر فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے اس کی تعین اٹھا لی گئی۔(صحیح البخاری، 1: 271‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: 1919)

اس روایت نے یہ بھی واضح کر دیا کہ لڑائی جھگڑے کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امت برکتوں اور سعادتوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ مذکورہ روایت سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ شاید اس کے بعد تعین شب قدر کا آپ کو علم نہ رہا۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں کیونکہ شارحین حدیث نے تصریح کر دی ہے کہ تعین کا علم جو اٹھا لیا گیا تھا تو صرف اسی ایک سال کی بات تھی، ہمیشہ کے لئے نہیں۔

امام بدر الدین عینی شرح بخاری میں رقمطراز ہیں:

فان قلت لما تقرر ان الذی ارتفع علم تعینها فی تلک السنة فهل اعلم النبی صلی الله علیه وآله وسلم بعد ذلک بتعینها؟ قلت روی عن ابن عینیه انه اعلم بعد ذلک بتعینیها.

اس سال تعین شب قدر کا علم اٹھا لیا گیا اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی تعین کا علم رہا یا نہ؟میں کہتا ہوں کہ حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ آپ کو اس کے تعین کا علم تھا-(عمدة القاری‘ 11: 138)

ہمارے نزدیک آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ صرف تعین کا علم ہے،بلکہ آپ بعض غلاموں کو اس پر آگاہ بھی فرماتے ہیں۔

شبِ قدر کے نوافل: فقیہ ابواللّیث رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: شبِ قد ر کی کم سے کم دو ، زیادہ سے زیادہ ہزار اور درمیانی تعداد 100رکعتیں ہیں،جن میں قراءت کی درميانی مقدار یہ ہے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورهٔ قدر پھر تین بار سورۂ اخلاص  پڑھےاورہر دو رکعت پر سلام پھیر کر نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  پر دورد ِ پاک پڑھے۔(روح البیان،ج10ص483)

شبِ قدر کی دعا اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا،کرم کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں کو بھی معاف فرما دے۔( ترمذی،ج5ص306، حدیث:3524)

شبِ قدرِ مبیں کا نور دیکھے نوری بھی یارب
یہ حسرت لے کے تیرے در پہ یہ نوری غلام آیا

اللہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو شبِ قدر کی برکتیں عطا فرمائے۔
آمین-

کتاب ہدیٰ کی یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہوئی قوموں کی تقدیر دیکھی

شب قدر کی اہمیت: رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے،جو بہت

ایک دیوانی لڑکی کی سچی کہانی، مدینہ کی لگن اور ماں کی دعا🥰

اس کے گھر والے اسے دیوانی
کہتے تھے۔
وہ واقعی دیوانی تھی۔۔۔۔مدینے کی دیوانی
اسے بچپن سے ہی مدینےﷺ والے کا شہر دیکھنے کی تمنا تھی۔
اس کی خواہش تھی کہ وہ مسجد نبویﷺ میں ایک بار صفائی کی سعادت حاصل کرتی۔
گھر میں وہ جب بھی جھاڑو دیتی اس کے تصور میں مدینے کی گلیاں آجاتی تھیں۔
کبھی وہ کعبہ کے صحن میں بیٹھی ہوتی تھی تو کبھی گنبد خضرٰی کے سامنے ۔۔۔
اس کو یہ لگن یہ تڑپ بچپن سے ہی عطاہوگئی تھی۔
یہ تڑپ بھی ایک سعادت ہے جس کو نصیب ہوجاۓ وہ خوش نصیبوں میں آجاتاہے۔
یہ ایسی تڑپ ہے ہے جس میں سکون ہی سکون ہے۔۔۔۔
اسی لیے چھ سات سال کی عمر سے ہی اس نے اپنا جیب خرچ ایک ٹین میں جمع کرنا شروع کردیاتھا۔
گھر والوں کی طرف سے اسے جو پیسہ بھی ملتا۔۔۔۔وہ اسے ٹین میں ڈال دیتی۔
وہ ایک متوسط گھرانے سے تھی۔
اس لیے جیب خرچ کچھ خاص نہیں ملتاتھا۔
نور نام تھا اس کا۔۔۔۔
نور کے گھر والوں کو ایک چھ ماہ بعد پتہ چلا ۔۔۔کہہ
وہ عمرے کے لیے پیسے جمع کررہی ہے۔
اس نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی تھی۔
ایک دن وہ اپنے جمع کیے پیسوں کو گن رہی تھی تو اس کی امی نے دیکھ لیا۔
بچی کے ہاتھ میں اتنے پیسے دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔

یہ پیسے کہاں سے لیے تم نے۔۔۔۔نور کی والدہ نے اس کے ہاتھ سے پیسے چھینتے ہوۓ سختی سے پوچھا۔
نور کو اپنی چھ ماہ کی محنت پہ پانی پھرتانظر آیا۔

امی ۔۔۔یہ مدینے کے ہیں ۔۔۔۔یہ نہ لیں آپ۔۔
نور نے اپنی والدہ سے التجاکی۔
مدینے کے ہیں۔۔۔؟؟؟ نور کی والدہ کو کچھ سمجھ نہ آیا۔
یہ کس نے دیے تمہیں۔؟؟؟چوری تونہیں کی۔؟؟؟ اس کی والدہ نے نور کے قریب بیٹھتے ہوۓ اس بار زرا نرمی سے پوچھا۔

نہیں امی ۔۔۔۔۔یہ میں نے جمع کیے ہیں ۔۔۔
نور نے فخر سے کہا۔
اس کے لہجے میں اب خوشی جھلک رہی تھی۔
نور نے اپنی والدہ کو ساری بات سمجھادی۔
ساری بات جان کر اس کی والدہ حیران رہ گئی۔
اسے فخر ہوا ۔۔۔کہہ
اس نے نور جیسی بیٹی کوجنم دیاہے۔
اتنی چھوٹی عمر میں اتنی تڑپ؟اتنی لگن کہ ملنے والے چند روپے بھی جمع کرنے شروع کردیے۔
بچوں کو کھانے پینے کالالچ ہوتاہے۔۔۔مگر
اس کو مدینہ دیکھنےکالالچ تھا۔
لالچ بری بلاہے۔۔۔مگر
ایسا لالچ سعادت ہوتاہے۔
نور کی والدہ نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور دل سے دعادی۔

بیٹی تیرے نصیب میں ہمیشہ مدینہ ہو۔

وقت گزرتارہا نور کی عمر کے ساتھ ساتھ اس کی جمع پونجی بھی بڑھتی رہی۔
بہت کچھ بدل گیا۔مگر
نور کا شوق نہ بدلا۔اس کی تڑپ اور محبت نہ بدلی۔
اس کا آج بھی وہی معمول تھا۔
گھر سے جو بھی ملتا ٹین میں ڈال دیتی۔
اس کے گھر والے بھی کبھی کبھار اس ڈبے میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتے تھے۔
نور کو منزل قریب آتی نظر آرہی تھی۔

یہ دوہزار پانچ کی بات ہے۔۔۔۔۔
ایک رات نور نے ٹین سے وہ سارے پیسے نکال کر گنے تو خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
بےاختیار اس نے نوٹوں کوچوم لیا اور اللہ کا شکرادا کیا۔
وہ اتنے ہوگئے تھے کہ
نور آسانی سے عمرہ کرسکتی تھی۔
وہ خود کو مکہ مدینے کی گلیوں میں چلتاپھرتادیکھ رہی تھی۔
اس کی آنکھوں کے سامنے بیت اللہ اور سبز گنبد آنے لگے۔
اس نے اپنے ابو سے بات کی اور ان کو اس بات پر آمادہ کیا۔کہہ
کسی بھی طرح کچھ پیسے بچاکروہ اس کے ساتھ عمرہ کرنے چلیں۔
اس کے والد نے نور سے وعدہ کیا کہ وہ دوچار ماہ تک بندوبست کرلینگے۔
نور کے لیے یہ دوچار ماہ دو چار صدیاں بن گئے۔
اس نے اپنا پاسپورٹ بنوالیا تھا۔
تین ماہ گزرگئے تھے۔
نور کے والد نے ساری تیاریاں مکمل کرلی تھیں۔
عین ممکن تھا پندرہ بیس دنوں تک باپ بیٹی عمرہ کے لیے روانہ ہوجاتے۔۔۔مگر
قسمت کو شاید یہ منظور نہیں تھا۔
اللہﷻ نے غفلت میں سوۓ ہوۓ ہم خطاکار انسانوں کو جگانے کے لیے زمین کو ہلادیا۔
دوہزار پانچ میں آنے والے زلزلے نے ہرطرف تباہی مچادی ۔
جس میں کشمیر کے کئی گاؤں شہروں کاتو نام ونشان ہی مٹ گیا۔
لوگ بےیارومددگار ہوگئے۔
نہ رہنے کو چھت رہی نہ کھانے کو کوئی سامان۔۔۔
بےشمار لوگ اپنوں سے بچھڑ گئے۔
امدادی کاروائیاں شروع ہوگئیں جس میں حکومت اور عوام نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔
پورے پاکستان سے لوگ اپنے ہم وطنوں کے دکھ کا مدوا کرنے امڈ پڑے۔
کھانے پینے کے سامان سمیعت پہننے اوڑھنے کو جو بھی میسر ہوا لیکر پہنچے۔

نور کو بھی اس حادثے کا علم ہوا تو اپنے ہم وطنوں کے دکھ پر وہ روپڑی۔
مدینے اور مدینے والے کی دیوانی ہو اور درد دل نہ ہو۔؟؟؟ یہ کیسے ہوسکتاتھا۔؟؟؟
نور نے اپنی تمام جمع پونجی زلزلہ زدگان کو عطیہ کردی۔
اس نے کہا تھا ۔۔۔۔کہہ
اس وقت ان پیسوں کی میرے لوگوں کوزیادہ ضرورت ہے عمرہ میں پھر کرلونگی۔
میرے ارد گرد لوگ بھوکے مررہے ہیں اور میں عمرہ کرنے چلی جاؤں تو بروز قیامت کہیں مجھ سے مدینے والےﷺ نے یہ کہ دیا۔۔۔کہہ
میری امت کھانے پانی کوترس رہی تھی توتم نے کیا کیا۔؟؟؟تو میرے پاس کیاجواب ہوگا۔؟؟؟
ٹھیک چھ ماہ بعد نور کا رشتہ آگیا۔
لڑکا سعودیہ میں اپنابزنس کرتاتھا ۔
چھان پھٹک کے بعد ہاں کردی گئی۔
لڑکے والے ایک ماہ بعد نکاح مانگ رہے تھے۔
نور کے گھر والوں کی اگرچہ کوئی خاص تیاری نہیں تھی مگر انہوں نے انکار نہیں کیا اور ایک ماہ بعد دن مقرر کردیا۔
شادی ہوگئی نور دلہن بن کر اپنے سسرال چلی گئی۔
شادی کے پندرہ دن بعد لڑکا واپس سعودیہ چلاگیا۔
اس نے نور سے کہاتھا۔کہہ
وہ اسے جلد اپنے پاس بلالےگا۔اور
دوماہ بعد نور سعودیہ جانے کے لیے جہاز میں بیٹھی تھی۔
یہ پاکستان سے ڈائریکٹ مدینے کی فلائٹ تھی۔
نور کا شوہر مستقل مدینے میں ہی رہتاتھا۔۔۔
وہیں اس کا کاروبار تھا ۔
ائیرپورٹ پہ نور کا شوہر اس کا انتظار کررہاتھا۔
نور نم آنکھوں سے مدینے کی پاک زمین پر کھڑی سوچ رہی تھی کہ کہیں یہ خواب تونہیں ۔؟؟؟
وہ جو مدینے کودیکھنے کی منتظر تھی۔
اسے مدینے کا مکین بنادیاگیاتھا۔
اپنی قسمت پررشک کرتی وہ گاڑی میں بیٹھی اور گھرجانے کی بجاۓ سیدھی مسجدنبویﷺ میں گئی۔
مسجد نبویﷺ پرنظرپڑتے ہی اس کی آنکھوں سے اشکوں کا سمندر بہہ نکلا۔
اس نے اپنے جوتے گاڑی میں ہی چھوڑدیے اور گنبد خضرٰی کے سامنے جاپہنچی۔
نور کے اس وقت کیا جذبات تھے وہی سمجھ سکتی تھی بس ۔۔۔۔
نماز اور شکرانے کے نفل پڑھ کر وہ گھر چلی گئی۔
اگلے ہی دن وہ اپنے شوہر کے ساتھ عمرہ کے لیے مکہ کی طرف رواں دواں تھی۔
پہاڑوں کو دیکھ کر وہ سوچ رہی تھی۔کہہ
یہ چودہ سوسال سے یہاں کھڑے ہیں ۔اور
کتنے خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے میرے نبیﷺ کو دیکھا ہوگا۔
کعبہ پرنظر پڑتے ہی اس کے ایک بار پھر وہی جذبات تھے ۔
وہ آنسوؤں اور سجدے کے زریعے اپنے رب کا شکر ادا کررہی تھی۔
جس نے اس کی لگن تڑپ اور محبت کو منزل بخشی تھی۔
سچ ہے۔۔۔۔۔
لگن سچی ہو تو منزل خود چل کر آپ کے پاس آتی ہے۔
مدینے کو دیکھنے کی خواہش مند وہاں کی مکین بن گئی تھی۔
اسے یاد ہی نہیں تھا کہ اس نے کتنے عمرے کیے ہیں۔
اس کا ہرخواب پورا ہوگیاتھا۔
وہ دیوانی تھی اور مدینے کی پاک گلیاں۔
اسے ماں نے دعا دی تھی۔۔۔
بیٹی تیرے نصیب میں ہمیشہ مدینہ ہو۔اور
وہ مدینے کی ہوکررہ گئی تھی۔
عمرے کے لیے بچپن سے جوڑے گئے پیسے مشکل وقت میں خلق خداﷻ کو دینے والی کو اللہﷻ کیسے مایوس کرسکتاتھا بھلا۔؟؟؟
اللہﷻ پاک ہم سب کو ایسی لگن اور محبت نصیب فرماۓ بار بار اپنے اور اپنے پیارے حبیبﷺ کے در کی حاضری نصیب کرے ۔۔۔آمین🙏🤲🏻 کاپی پیسٹ

اپلوڈ بحکم استاذ الشعراء حضرت قاری آفتاب عالم صفدر کیموری صاحب قبلہ

و

ماہرِ فکر و فن نازشِ علم و ادب حضرت علامہ مولانا آصف جمیل امجدی صاحب انٹیاتھوک

جامعہ اشرفیہ میں بنا نوٹس دئیے کیے گیے تشدد کا ہم سخت مذمت کرتے ہیں – ۔آصف جمیل امجدی

برصغیر ہندو پاک کے اہل سنت کا مرکزی ادارہ جامعہ اشرفیہ جو کہ مبارک پور کی سرزمین پر واقع ہے اور پچھلے کئی دہائیوں سے دین و سنیت کا بے لوث خدمت انجام دے رہا ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل علماء دنیا بھر میں دین و سنیت کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ کئ ہزار کی تعداد میں بیرونی و غیر بیرونی ملکی طلبہ قیام و طعام کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن رمضان شریف کے چلتے سارے طلبہ اور مدرسین نیز دگر ذمہ داران چھٹی میں گھر پر ہیں۔ ایسی صورت حال میں یوگی حکومت نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بنا کوئی نوٹس دئیے اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ منہدم کرنے والا بلڈوزر بھیج دیا۔ حکومت کے اس روئیے سے ہم بے حد مخالف ہیں اور سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ حکومت کا یہ ناپاک رویہ اس بار اسمبلی الیکشن جیتے ہی شروع ہوگیا ہے۔ مسلم دشمنی کا کھیل تو آزادئ ہند سے ہی کھیلا جارہا ہے لیکن مودی اور یوگی راج میں اس کی لپٹ مزید تیز دکھائی دے رہی ہے۔حکومت کا دوغلاپن دیکھو، کہنے کو تو ویسے ہم جمہوری ملک میں بسے ہیں جہاں بھارت کی آزادی کے فوراً بعد ملک کے تعلیم یافتہ دانشوران نے بلا تفریق مذہب و ملت کے سر جوڑ کر جمہوری قانون بنایا گیا تھا جس میں سر فہرست اس قانون کا بڑے شد و مد کے ساتھ بیان کیا گیا کہ کان کھول کر سن لو یہاں پر ہر دھرم و مذہب کے لوگ جیسے پہلے سے رہتے چلے آۓ ہیں ویسے رہیں گے اور سب لوگ اپنے اپنے مذہب کے قانون کو فالو کریں گے اس معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی تشدد نہیں کیا جاۓ گا اور نہ ہی کسی مذہبی عمارت جیسے مسجد، مندر، گرجا گھر، گرودوارہ اور کلیسا وغیرہ وغیرہ کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچایا جائے گا کیوں کہ اس ملک کی آزادی میں سب کا خون شامل ہے سبھی مذاہب کے لوگوں نے اس کی آزادی میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کیا ہے۔ لہذا اب جب ملک آزاد ہوگیا ہے تو سب لوگ اپنے اپنے مذہب پر رہتے ہوے بھائی چارہ بنا کر رہو کسی قسم کی آپسی بھید و بھاؤ نہیں رکھنا ہے۔ تاکہ ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک میں ایک نمایاں مقام بنا سکے نیزسیلوکر اور جمہوری ملک بن کر دنیا کے نقشے پر ممتاز شان و شوکت کے ساتھ ابھرے۔ اب اگر تم لوگ آپس میں لڑوگے تو ملک تباہ و بربادی کی عمیق کھائی میں چلا جاۓ گا۔المختصر: پچھلے 70/سال قبل اس ملک کی تباہ و بربادی کے رموز بتاۓ گیےتھے کہ اگر تم آپس میں لڑے یا تم سب لوگ مل کر کسی ایک قوم و کمیونٹی کو تشدد کا نشانہ بناۓ تو ملک قطعی ترقی نہیں کرپاۓ گا۔ سواۓ تباہ و بربادی کے بدنما داغ لگنے کے اور کچھ ہاتھ نہ آۓ گا۔ اور آج وہی ہو رہا ہے ایک خاص کمیونٹی کوتشدد کا نشانہ بنا جارہا ہے، مذہبی عمارتوں پر بنا کسی اصول و ضوابط کے بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے۔ غریب مسلمانوں کے گھر بار کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔تو ظاہر سی بات ہے ملک برباد ہونے کے سوا ترقی تھوڑی کرے گا۔

سلطان اورنگ زیب عالمگیر ، ایک انصاف ور حاکم۔از: سید خادم رسول عینی۔

جب میری پوسٹنگ خاندیش مہاراشٹر میں تھی تو کئی بار اورنگ آباد جانے کا اتفاق ہوا۔میں جب بھی اورنگ آباد گیا میں نے حضرت اورنگ زیب عالمگیر علیہ الرحمہ کے مزار(جو خلد آباد میں واقع ہے) پر حاضری کا شرف حاصل کیا۔میں نے جب پہلی بار مزار عالمگیر کی زیارت کی تو میری آنکھیں دنگ رہ گئیں۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس نے پچاس سال ہندوستان میں حکومت کی۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس کی سلطنت کی باؤنڈری اکبر ، ہرش وردھن، چندر گپت، وکرما دتو کی سلطنت سے بھی زیادہ وسیع تھی‌۔اورنگ زیب وہ بادشاہ ہے جس کے نام سے ہی مراٹھا و گولکنڈہ تھر تھر کانپتے تھے۔اسی لیے ہمیں حیرت ہوئی کہ ایسے جلیل القدر بادشاہ کی قبر اس قدر سادگی کا پیکر لیے ہوئے کیوں ہے۔جب میں نے وہاں کے ذمہ داروں سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ عالم گیر کی یہ وصیت تھی کہ ان کی قبر کو پکی نہ کی جاۓ، ایسے ہی کچی رہنے دی جائے، قبر کے اوپر کوئی گنبد بھی نہ بنایا جائے۔اس وصیت سے عالم گیر کی کمال درجے کی سادگی کا پتہ چلتا ہے۔ہم نے شاہ جہاں ، اکبر اور ہمایوں کے مقبرے دیکھے ہیں جن کی تعمیر اور سجاوٹ میں لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیے گیے ہیں ۔لیکن اورنگ زیب کی سادگی نے یہ گوارا نہیں کیا کہ ان کے مقبرے پر بھی بے تحاشا اخراجات ہوں ۔ ایسی سادگی کے حامل شخص کے بارے میں ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنی حکومت کے دوران رعایا پر ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا تھا۔آئیے تاریخ کے صفحات پلٹتے ہیں اور یہ پتہ لگاتے ہیں کہ اورنگ زیب ایک ظالم بادشاہ تھے یا انصاف ور حاکم ۔اورنگ زیب ایک حاکم تھے ۔ایک حاکم ہونے کے سبب ان کا مقصد استحکام سلطنت تھا ۔استحکام سلطنت کے لیے انھوں نے اپنے دور حکومت میں کئی اقدامات کئے۔ہوسکتا ہے ان میں سے چند فیصلوں کے نتائج غلط نکلے ہوں ۔صرف انھی نتائج کے سبب اورنگ زیب کو ظالم و جابر بادشاہ کہنا ناانصافی ہے۔ملک اور قوم کے لیے ان کی خدمات کیا ہیں اس پر بھی نظر رکھنا چاہیے۔ لیکن افسوس کہہمیں لےدے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتناکہ عالم گیر ہندو کش تھا ظالم تھا ستمگر تھاآئیے تاریخ کے اوراق سے پتہ لگاتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ در اصل اورنک زیب ایک صوفی منش اور درویش صفت بادشاہ تھے۔اورنک زیب نے اورنگ آباد میں اپنی زندگی کے تقریباً ٣٨ سال گزارے ہیں۔اورنگ زیب ایک جفاکش، عالی دماغ، بیدار مغز،متحمل مزاج ، علم دوست اور خدا ترس حکمران تھے۔اورنک زیب کے بچپن اور جوانی دونوں دکن کے مذہبی ماحول میں بسر ہویے تھے۔اورنگ آباد کے اسلامی ماحول ، اسلامی حکومتیں ، اسلامی رسم و رواج نے ان کے ذہن کی اچھی خاصی دینی تربیت کی تھی۔ شریعت کی پابندی کرتے ہوے اورنگ زیب نے اکبر اور جہانگیر کی تمام غیر شرعی رسومات کو موقوف کردیا ، ہندو راجاؤں کے لباس اور وضع کو بھی ترک کرایا ، وضع قطع اسلامی بنائی اور سونے کے زیورات اور جواہرات جو بادشاہوں کی شان سمجھے جاتے تھے ان کو پہننا موقوف کردیا ۔آپ ہی کے دور میں اورنگ آباد میں بے شمار خانقاہیں بنیں ۔درگاہوں کے ساتھ مسجدیں بھی بنیں ۔اور اس کے ساتھ ساتھ اورنگ آباد میں ایسے بے شمار مندر بھی ہیں جن کی حفاظت ، مرمت اور توسیع اورنگ زیب کے عہد میں ہوئی۔اس درویش صفت بادشاہ پر یہ سراسر بہتان ہے کہ اس نے بتوں کو توڑا۔اگر ایسا ہوتا تو آج اورنگ آباد میں نہ کوئی مندر ہوتا اور نہ اکناتھ مندر کی بلند عمارت ہوتی۔اورنک زیب نے اپنی صوبہ داری یا شہنشاہیت کے دور میں کسی غیر مسلم کا ناحق خون نہیں بہایا نہ کسی مندر یا مکان کو جبراً مسجد میں تبدیل کیا۔اگر یہ الزام درست ہوتا تو آج اورنگ آباد میں مسلمانوں کا تناسب اتنا کم نہ ہوتا ۔تاریخ شاہد ہے کہ پونا کے پیشوا ، مرہٹوں کے سردار اورنگ زیب کے بد ترین مخالف تھے۔لیکن ان کی کسی بھی تحریر/ڈائری میں اورنگ زیب کے تشدد یا ظلم کے واقعے کا اندراج نہیں ہے۔اورنک زیب حامل شریعت تھے اور کسی بھی قوم کے پلیس آف ورشپ کو مسمار کرنا وہ اسلامی رواداری کے خلاف سمجھتے تھے۔اورنگ زیب نے جبرا” کسی غیر مسلم کو مسلم نہیں بنایا ۔البتہ بہت سارے غیر مسلم ایمان سے سرفراز اس لیے ہوئے کہ انھیں اپنی ملازمت میں ترقی چاہیے تھی یا وہ اعلیٰ منصب پر فائز ہونا چاہتے تھے۔گویا اسلام قبول کرنا ان کا ذاتی فیصلہ تھا اور انھوں نے کسی کے دباؤ پر آکر اسلام قبول نہیں کیا۔اپنے دور شہنشاہی میں اورنگ زیب کے اہم کار ناموں میں کچھ کارنامے مندرجہ ذیل ہیں :١. اورنگ زیب نے معذور افراد کے لیے بلا امتیاز مذہب و ملت ، غریب خانے اور مطب قائم کیے جہاں ان کی رہائش کا مفت انتظام تھا اور ان کا علاج مفت ہوتا تھا ۔٢. اورنگ زیب نے مندروں اور مسجدوں کو خود کفیل بنانے کے لئے اراضی وقف کی۔٣. اورنگ زیب نے ستی کی رسم کی حوصلہ شکنی کی۔٤. اورنگ زیب نے رسم سالگرہ بند کیا کیونکہ اس میں اخراجات بے تحاشہ ہوتے تھے۔٤. اورنگ زیب نے سکہ پر کلمہ لکھنا بند کروایا کیونکہ اس سے کلمہ کی توہین ہوسکتی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ سبھی رعایا کے لیے یکسانیت مقصود تھی۔٥. اورنگ زیب نے شراب بند کیا کیونکہ یہ انسان کی ذات اور سماج کے لیے نقصان دہ ہے۔٦. اورنگ زیب نے طوائف پر پابندی لگادی تاکہ عورت کو سماج میں بہتر مقام ملے۔٧. اورنگ زیب نے ماتم پر پابندی عائد کی کیونکہ یہ کام خلاف شرع ہے۔٨. اورنگ زیب نے قوالی پر پابندی عائد کی کیونکہ درباری علمائے شریعت نے قوالی کو حرام قرار دیا۔٩. اورنگ زیب نے جوا کھیلنے کو سنگین جرم قرار دیا۔١٠. اورنگ زیب نے ہولی اور محرم کے جلوس پر پابندی لگادی۔آج کل ہندوستان میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات زیادہ تر جلوس کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔اگر ان جلوسوں پر آج بھی پابندی لگادی جائے تو فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام ہوسکتی ہے۔مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں دبئی میں برائے ملازمت مقیم تھا ۔ہندوستان اور پاکستان کے مابین کرکٹ میچ جاری تھا۔ون ڈے انٹرنیشنل میچ تھا۔ شروعات میں ہندوستان کی ٹیم نے بہت اچھی کارکردگی کی اور عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔لیکن آخری اوورز میں وسیم اکرم اور وقار یونس کی عمدہ گیند بازی کی وجہ سے ہندوستان ٹیم کی شکست ہو گئی۔جب پاکستان ٹیم کی جیت ہو گئی تو دبئی میں مقیم پاکستانیوں نے جیت کی ریلی نکالی۔اس سے پہلے کہ دبئی کے باشندہ بھارتیوں کا کوئی رد عمل ہو ، دبئی کی پولیس نے ان پاکستانیوں کو گرفتار کرلیا کیونکہ دبئی میں کسی قسم کی ریلی یا کسی طرح کا جلوس نکالنا قانونی جرم ہے۔اس قسم کے قوانین اگر آج بھی ہندوستان میں نافذ کیے جائیں تو ملک کو ، ملک کے شہروں کو، ملک کی بستیوں کو فرقہ وارانہ فسادات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہےاس تناظر سے اگر دیکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دور عالم گیر میں ہولی اور محرم کے جلوس پر پابندی حق بجانب تھی کیونکہ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں کمی ہونے کا امکان رہتا ہے۔بہر حال ، اورنگ زیب نے غلط رسومات کو ہٹاکر حکومت اور رعایا کے اصل مقصد پر توجہ دی۔ ترقی کی راہ پر کام کیا اور رعایا کی بہبودی کو ترجیح دی۔عہد عالم گیری میں ایک سو دس سے زیادہ غیر مسلم راجہ مہاراجہ ایسے تھے جو دس ہزاری اور پنچ ہزاری منصب پر فایز تھے۔مندرجہ بالا پوائنٹس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب ایک انصاف پسند حاکم تھے۔اورنگ زیب پابند شریعت تھے اور اپنے دل میں رسول ، آل رسول اور صوفیا کی بے حد محبت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے یہ وصیت کی تھی:١.مجھے حضرت زین الدین شیرازی علیہ الرحمہ کے قدموں میں دفن کیا جائے تاکہ ان کا قرب باعث برکت ہو۔٢ سادات کا ادب و احترام لازم ہے۔اس میں کوئی کمی نہ کی جائے۔اس سے تمھیں دنیا اور آخرت دونوں مقامات پر فائدے ہونگے۔عالم گیر نماز باجماعت کے بے حد پاند تھے۔جنگ کے دوران بھی وہ نماز باجماعت کا اہتمام کرتے تھے۔بلخ کی جنگ میں ان کے حریف عبد العزیز نے جب دیکھا کہ اورنگ زیب نماز کا وقت ہوتے ہی نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں تو انھوں نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ اپنی تلوار کو روک لو ، کیونکہ ہم اس شخص سے جنگ جیت نہیں سکتے جو شریعت خداوندی کا اس قدر پابند ہے کہ جنگ کی حالت میں بھی نماز باجماعت کا اہتمام کرتا ہے ۔عالم گیر علم اور عمل دونوں جہت سے یکتائے روزگار تھے۔یہی وجہ ہے کہ انھیں لوگ عالم گیر زندہ پیر کہتے تھے۔ایسے خوش دل و خوش عقیدہ شخص کے تئیں غلط نظریہ رکھنا انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہے۔اورنگ زیب کے خلاف سب سے زیادہ متعصبانہ رویہ انگریزی عہد کے مورخوں نے اپنایا۔خاص طور پر ایلیٹ اور ڈاوسن نے یہ رویہ اپنا کر تاریخ کے ساتھ سخت ناانصافی کی ہے۔آشروادی لال ، شری رام شرما، آر سی مجمدار جیسے مورخوں نے بھی اورنگ زیب پر لکھتے وقت جانب دارانہ رویے کا اظہار کیا جس سے پڑھنے والے نے اورنگ زیب کو ایک ظالم بادشاہ سمجھ لیا۔لیکن ١٩٦٠ کے آس پاس چند غیر جانب دار اور صاف ذہن مورخوں کی لکھی ہوئی تحریریں اور کتابیں ملتی ہیں جنھیں بڑھکر اورنگ زیب کے تئیں ساری غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں اور دل یہ پکار اٹھتا ہے کہ اورنگ زیب ایک انصاف پسند حاکم تھے اور اچھے نسان بھی تھے۔ان حقیقت پسند مورخوں کے چند نام یہ ہیں :عرفان حبیب،ہر بنس مکھیا، ستیش چندر، رومیلا تھاپر، ڈاکٹر بی این پانڈے وغیرہ ان مورخوں کی کتابوں کو پڑھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ١.اورنگ زیب برہمنوں اور مندروں کو دان دیا کرتے تھے۔٢. اپنے دور حکومت میں اورنگ زیب نے اکبر سے بھی زیادہ ہندوؤں کو اعلی’ عہدوں پر تقرری سے نوازا۔٣.جزیہ اکبر سے پہلے بھی تھا اور اورنگ زیب نے اس کو دوبارا نافذ کیا مگر یہ غیر مسلموں کے صرف دس فیصد لوگوں پر نافذ تھا اور اس کی شرح صرف ٢.٢٥ فی صد تھی جب کہ مسلمانوں پر زکاۃ ٢.٥ فی صد فرض تھی اور جزیہ نافذ کرکے دیگر سارے ٹیکس معاف کر دیے گیے۔جزیہ کے سارے پیسے خزانہء جزیہ میں رکھے جاتے تھے جو غریبوں اور بے سہاروں کے کام آتے تھے۔٤.اورنگ زیب نے ہندو مندروں اور مٹھوں کے لیے وظیفے مقرر کیے ۔٥ ۔اورنک زیب نے شمار مندروں اور گرو دواروں کے لیے جاگیریں وقف کیں۔٦. اورنگ زیب نے راجپوتوں کو پنچ ہزاری کا منصب عطا کیا۔٧. اورنگ زیب نے یہ فرمان جاری کیا کہ مسلم اور غیر مسلم کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے اور کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔رومیلا تھاپر کی کتاب مدھیہ کالن بھارت، بپن چندر کی کتاب مدھیہ کالن بھارت ، ڈاکٹر بی این پانڈے کی کتاب خدا بخش خطبات وغیرہ سے ان باتوں کا ثبوت ملتا ہے۔جہاں تک بی این پانڈے کی بات ہے ہم نے خود اپنے کانوں سے بھدرک اڈیشا کے ایک فنکشن میں ١٩٨٤ میں بی این پانڈے کی تقریر سنی تھی اور اپنی طویل تقریر کے دوران ڈاکٹر بی این پانڈے نے تاریخ کی کتابوں کے حوالوں سے ثابت کیا تھا کہ اورنگ زیب عالمگیر انصاف ور حاکم تھے، متعصب نہیں تھے اور ان پر فرقہ واریت کا الزام جھوٹ اور کذب و افتراء پر مبنی ہے۔مندرجہ بالا حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اورنگ زیب متعصب نہیں تھے ، بلکہ اپنی رعایا کا یکساں خیال رکھتے تھے اور ایک انصاف ور حاکم تھے۔اورنگ زیب ‌خود عربی، فارسی ، اردو اور ہندی کے عالم و فاضل تھے ۔وہ اپنی نثر و نظم میں محاورات کا استعمال بہت عمدہ انداز سے کرتے تھے۔ان کے مضامین ، نظم، خطوط اور شاہی فرامین سے بھی یہ آشکارا ہوجاتا ہے کہ وہ ایک نیک دل انسان اور انصاف ور حاکم تھے۔ان کے شاہی فرامین اور خطوط ملک کی مختلف لائبریریز میں محفوظ ہیں ، وہاں سے لےکر ان کے شاہی فرامین اور خطوط کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے ہم فراخ دلی کا مظاہرہ کریں ، تاریخ کے حقائق کا مطالعہ کریں اور ایک نیک دل انسان اور انصاف ور حاکم کی شخصیت سے متعلق متعصبانہ رویہ اختیار نہ کر کے غیر جانبدارانہ فیصلہ لیں ۔

مسجد پر بھگوا جھنڈا اور ہاتھوں میں دھار دار ہتھیار-از، حسن نوری گونڈوی

*مسجد پر بھگوا جھنڈا اور ہاتھوں میں دھار دار ہتھیار*

میرے پیارے ملک میں آئے دن کچھ شرپسند عناصر نفرت پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم علاقوں میں ریلی نکالنا، مسلح ہو کر نکلنا، گندی گندی گالیاں دینا، مسجدوں پر بھگوا جھنڈے لگانا، مزارات کو منہدم کرنا، مسلم عورتوں کی عصمت دری کی دھمکی دینا، بھڑکاؤ نعرے لگانا شرپسندوں کا محبوب مشغلہ ہے

سوال یہ ہے کہ مسلم علاقوں کی پرمیشن انہیں کیوں دی جاتی ہے؟

دھار دار ہتھیار لے کر ریلی نکالنے کی اجازت کیا پرشاشن دیتی ہے اگر نہیں تو انہیں گرفتار کیوں نہیں کرتی؟

کیا مسلم علاقوں میں بھڑکاؤ نعرے لگانے کی اجازت انہیں دی جاتی ہے اگر نہیں تو لگانے والوں پر اب تک کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟

جب پولیس ریلی میں ساتھ ہوتی ہے پھر بھی جھڑپ کیوں ہوتی ہے؟

مسجدوں پر بھگوا جھنڈا لہرانے پر اب تک پورے ملک میں سیکولر لوگوں نے آواز کیوں نہیں اٹھائ؟

پولس جھنڈا لہرانے والوں کو کیوں گرفتار نہیں کرتی؟؟

اس وقت پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ یہ سوال اٹھائیں👇

کیا ہندو دھرم دوسروں کی عبادت گاہ پر اپنے مخصوص جھنڈے لہرانے کی اجازت دیتا ہے؟

کیا ہندو دھرم مسلح ہو کر دوسرے دھرم والوں کی گلیوں میں جاکر انہیں ہراساں کرنے کی اجازت دیتا ہے؟

کیا ہندو دھرم اجازت دیتا ہے کہ مسلم بہن بیٹیوں کی عصمت دری کی جائے؟

کیا ہندو دھرم کے مطابق بھڑکاؤ نعرے لگانا درست ہے؟

جو لوگ پورے ملک میں دہشت گردی پھیلائے ہوئے ہیں کیا ہندو دھرم کی بنیادی کتابیں اس کی اجازت دیتی ہیں؟

کیا یہ سب دھرم کے مطابق ہو رہا ہے؟؟

ان *سوالات کو معمولی نہ سمجھیں اس کے “ہاں” اور “نا” میں ہزاروں سوالوں کے جوابات موجود ہیں اہل علم اپنے قلم کا رخ اس طرف کریں

*📝حسن نوری گونڈوی

لفظ رمضان کی تحقیق۔۔از: سید خادم رسول عینی

لفظ رمضان کی تحقیق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الحمد للہ ماہ رمضان بحسن و خوبی رواں دواں ہے۔اسی اثنا میں ماہ رمضان کی اہمیت اور روزے کی افادیت پر کئی مقالے نظر نواز ہوئے، جنھیں پڑھ کر ہماری معلومات میں اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ بہت سارے شعرائے کرام کی نظمیں بعنوان ماہ رمضان/ ماہ صیام دستیاب ہوئیں اور ان کے مطالعہ کا شرف حاصل ہوا، روح کو تسکین ملی۔ماہ نامہ فیض الرسول براؤن شریف کے ماہ رمضان خصوصی شمارے میں حضرت علامہ علی احمد رضوی بلرام پوری کی نظم بعنوان” رمضان آگیا ہے” پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔اس کلام کے چند اشعار نذر قارئین ہیں :
ہوئے مشک بو گلستاں رمضان آگیا ہے
کہ مہک رہی ہیں کلیاں رمضان آگیا ہے

چھٹے ظلمتوں کے بادل ہوئی رحمتوں کی بارش
ہوئے خوش سبھی مسلماں رمضان آگیا ہے۔

اس کلام کے افاعیل یوں ہیں:
فعلات فاعلاتن فَعِلات فاعلاتن
مصرع تقطیع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر محترم نے رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے اور یہی درست ہے۔
جب کہ چند شعرا نے رمضان کے میم کو ساکن باندھا ۔
کیا ساکن باندھنا بھی درست ہے ؟اس کا جواب جاننے کے لیے آئیے پہلے لفظ رمضان پر صرفی نگاہ ڈالتے ہیں۔

کسی لفظ کا درست تلفظ جاننے کے لیے پہلے سمجھنا ہے کہ لفظ کا مادہ کیا ہے۔

“عربی زبان میں رمضان کا مادہ رَمَضٌ ہے، جس کا معنی سخت گرمی ہے۔رمضان کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس ماہ میں سورج کی گرمی کے سبب پتھر وغیرہ سخت گرم ہوجاتے ہیں جس سے اونٹوں کے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔چونکہ اس مہینہ میں سورج کی گرمی کی شدت کی وجہ سے ریت اور پتھر وغیرہ اس قدر سخت گرم ہوجاتے تھے کہ ان پر چلنے والوں کے پاؤں جلنے لگتے تھے اس وجہ سے عربوں نے لغت قدیمہ میں اس مہینہ کا نام رمضان رکھ دیا، یعنی پاؤں جلادینے والا مہینہ۔
رمضان کی اک اور وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ مہینہ، اللہ تعالیٰ کی رحمت، بخشش اور مغفرت کی کثرت کی وجہ سے (مسلمانوں کے) گناہوں کو جلا کر ختم کر دیتاہے۔

لفظ “رمضان”بروزن۔ “فَعِلان” رمض کا مصدر ہے اور یہ باب ‘سمع’ کے ثلاثی مجرد سے ماخوذ ہے۔
لفظ “رمضان” گرچہ مصدر ہے تاہم اسم علم کے طور پر مستعمل ہوتا ہے۔

رمضان کے مادہ رَمَضٌ پر غور کریں ۔میم مفتوح ہے یعنی علم عروض کی زبان میں میم متحرک ھے۔اگر رمض کا میم متحرک ہے تو رمضان کا میم بھی متحرک ہونا چاہیے۔

اب آئیے قرآن کی طرف رخ کرتے ہیں ۔
رمضان تنہا وہ مہینہ ہے جس کا نام قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔سورہء بقرہ میں ہے:
“شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ

ترجمہ: ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔
مندرجہ بالا قرآنی آیت میں رمضان کا میم متحرک ہے۔
تو پھر شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے کیوں کہ قرآن صریح طور پر ہماری رہنمائی کررہا ہے کہ رمضان کا میم متحرک ہے۔

اب آئیے کلام رضا میں لفظ رمضان کو ڈھونڈتے ہیں۔ شاید اعلیٰ حضرت نے اپنے کسی شعر میں لفظ رمضان کا استعمال کیا ہو ۔اعلی’ حضرت کے ایک نعتیہ کلام میں مطلع یوں نظر آیا :

شور مہ نو سن کر تجھ تک میں دواں آیا
ساقی میں ترے صدقے مے دے رمضاں آیا

اس کلام کے افاعیل یوں ہیں:
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
مصرع کی تقطیع کرنے پر یہ پتہ چلتا ہے کہ سرکار اعلیٰ حضرت نے بھی رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے۔تو پھر دور حاضر کے شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے۔ اردو شاعری میں سرکار اعلیٰ حضرت سے بڑھ کر استاد کون ہوسکتا ہے؟ حدائق بخشش سے بہتر رہنمائی کون کرسکتا ہے؟

صرف لفظ رمضان نہیں ، بلکہ سرکار اعلیٰ حضرت نے جہاں بھی صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے وہاں قرآن کے الفاظ کو اسی وزن پر باندھا ہے جس وزن پر قرآن میں مرقوم ہے۔مثلا”:
لیلۃالقدر میں مطلع الفجر حق
مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام

فاذا فرغت فانصب یہ ملا ہے تم‌ کو منصب
جو گدا بنا چکے اب‌اٹھو وقت بخشش آیا کرو قسمت عطایا

والی الالہ فارغب کرو عرض سب کے مطلب
کہ تمھی کو تکتے ہیں سب کرو ان پہ اپنا سایہ بنو شافع خطایا

ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا

انت فیہم نے عدو کو بھی لیا دامن‌‌میں
عیش جاوید مبارک تجھے شیدایی دوست

غنچے ما اوحی’ کے جو چٹکے دنی’ کے باغ میں
بلبل سدرہ تک ان کی بو سے بھی محرم نہیں

ایسا امی کس لیے منت کش استاد ہو
کیا کفایت اس کو اقرأ ربک الاکرم نہیں ؟

مجرم بلائے آئے ہیں جاءوک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

مومن‌ ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

ان پر کتاب اتری بیانا لکل شیء
تفصیل جس میں ما عبر و ما غبر کی ہے

ک گیسو ہ دہن ی’ ابرو آنکھیں ع ص
کھیعص ان کا ہے چہرہ نور کا

اب آئیے دیکھتے ہیں اردو کے دیگر اساتذہ نے لفظ رمضان کا کس انداز سے استعمال کیا ہے۔

اسماعیل میرٹھی کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
جمعہء آخر ماہ رمضاں ہے افضل
یوں تو جس وقت میں ہو بذل و نوال اچھا ہے
اس شعر میں اسماعیل میرٹھی نے بھی لفظ رمضان کو میم متحرک باندھا ہے۔

ریاض شفیق کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
اے ہلال رمضاں توڑ غریبوں کی نہ آس
بھوکے پیاسوں کی بجھاتا ہے کوءی بھوک نہ پیاس
اس میں بھی رمضان کا میم متحرک ہے۔

رشک کا شعر دیکھیں:
عید ہر روز مناتے جو بگڑتا ہو فلک
ایک روزے سے ہیں ماہ رمضان میں ہم تم
اس شعر میں بھی رمضان کا میم متحرک ہے۔

اردو شاعری کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ نے بھی رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے۔ان کی مشہور نظم عید رمضان سے ماخوذ یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
خوشی شب رات کی ہور عید رمضاں کا خوش نت نت
اے دونوں عیدا کیاں خوشیاں خدا تج کوں سدا دیتا

اتنے سارے حوالہ جات دیکھ کے بھی کیا آپ کو یہ نہیں لگتا کہ دور حاضر کے شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے؟

اب آئیے لغت کی طرف چلتے ہیں۔فرہنگ آصفیہ میں رمضان کے میم کو مفتوح لکھا ہے۔فیروز اللغات میں بھی رمضان کے میم‌ کو مفتوح لکھا ہے۔پھر بھی آپ کہیں گے کہ رمضان کا میم ساکن درست ہے ؟

اب آئیے علم عروض کی طرف رخ کرتے ہیں۔
لفظ رمضان دو اسباب کا مجموعہ ہے۔رمَ اور ضان۔
رمَ ، سببِ ثقیل ہے ، ضان سبب متوسط ہے ، اور یہ بات جائز نہیں کہ سببِ ثقیل کا کوئی حرف ساکن کردیں۔

بعض لفظوں کے تلفظ میں اساتذہ نے چھوٹ دی ہے جیسا کہ کلمہ کی لام کو ساکن کرنا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ کلمہ کی ہ کو جب ساقط کرتے ہیں تو تین حرف پے در پے متحرک آتے ہیں جسے ثقل سمجھا گیا ہے ، اس لیے کلمہ میں لام کی تسکین روا سمجھی گئی ہے ۔
جبکہ رمضان میں کوئی حرف ساقط نہیں ہوتا کہ جس کے سبب بقیہ کلمہ کو ثقل سمجھا جاے ۔
اس لیے اساتذہ نے رمضان کے م کو ساکن نہیں باندھا۔

مندرجہ بالا پوائنٹس سے یہ نتیجہ نکلا کہ رمضان کا میم متحرک ہی درست ہے۔

کسی کی بات مانیں یا نہ مانیں قرآن کی تو مانیں۔
مثال کے طور پر:
لفظ قرآن کا درست وزن کیا ہے ؟
مفعول۔
کیونکہ یہ قرآن نے سکھایا ہے۔
الرحمان
علم القرآن
لیکن میر تقی میر نے قرآن کو ایک شعر میں فعول کے وزن پر باندھا ، مثلا”:
مت مانیو کہ ہوگا یہ بے درد اہل دیں
گر آوے شیخ پہن کے جامہ قرآن کا

لیکن ہم نے میر کو نہیں مانا ۔
قرآن کو مانا ۔
لفظ قرآن کو مفعول کے وزن پر باندھا ۔

یہی کیفیت لفظ رمضان کے ساتھ ہے۔
ہم قرآن کو مانیں گے۔ کسی اور کی متضاد رائے کو قبول نہیں کریں گے۔

حقوق العباد کی ادائیگی ایک اہم ذمہ داری، ازقلم:مولاناحبیب اللہ قادری انواری ،آفس انچارج:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان

)

انسان کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے حقوق رکھے ہیں ۔ایک تو وہ حقوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے اوپر ہیں جیسے ایمان لانا،نماز پڑھنا،روزہ رکھنا ،حج و زکوٰۃ ادا کرنا وغیرہ اور دوسرے وہ حقوق اور ذمہ داریاں ہیں جو ایک بندے کے دوسرے بندے پر عائد ہوتے ہیں ۔پہلے کو حقوق اللہ اور دوسرے کو حقوق العباد کہاجاتا ہے ان دونوں حقوق میں حقوق العباد کو جو مقام اور اہمیت حاصل ہے وہ کسی با شعور مسلمان پر پوشیدہ نہیں ہے ۔قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں متعدد مقامات پر حقوق العباد کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں غفلت اور کوتاہی برتنے کو اللہ تعالیٰ کے غضب کا موجب و سبب قرار دیا گیا ہے ۔ حقوق العباد ایک بندے پر اللہ کی طرف سے عائد کردہ دوسرے بندے کے جو حقوق ہیں ان کی ادائیگی کا نام ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں دونوں حقوق ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں ایک کی ادائیگی سے دوسرا حق بھی ادا ہوتا ہے کیوں کہ بندوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اللہ کا حکم مان کر ہم حقوق اللہ و حقوق العباد کا خیال کیو ں نہیں رکھتے؟۔جب کہ کامل مسلمان بننے اور اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق بننے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کے حقوق کو صحیح طور پر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کیے جائیں ۔ بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کی جاے ورنہ اندیشہ ہے کہ نماز، روزہ و دیگر فرائض کی پابندی کے با وجود رحمت و مغفرت الہٰئ سے محرومی ہمارا مقدر بن جاے جیسا کہ حضور نبی رحمت ﷺ کی ایک حدیث اس پر شاہد ہے ۔ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام سے پوچھا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ نے جواب دیا :اللہ کے رسول !مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس درہم و دینار اور مال و دولت نہ ہو آپ نے فرمایانہیں بلکہ میری امت کا مفلس وہ شخص ہوگا جو قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوگا دنیا میں وہ نماز پڑھتا رہا ہوگا ،روزے رکھتا رہا ہوگا،زکوٰۃ ادا کرتا رہا ہوگا ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی ،کسی پر تہمت لگائی ہوگی ،کسی کا مال کھایا ہوگا ،کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مار ا پیٹا ہوگا{تو یہ سب مظلومین بارگاہ الٰہی میں اس کے خلاف استغاثہ (فریاد)دائر کریں گے چناں چہ اللہ کے حکم سے}اس کی نیکیاں ان میں تقسیم کر دی جائیں گی یہاں تک کہ اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی ،لیکن اس کے ذمہ ابھی بھی دوسروں کے حقوق باقی ہوں گےتو مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے (یوں اس کا دامن نیکیوں سے خالی ہو جاے گا اور اس کے پاس گناہ ہی گناہ باقی رہ جائیں گے بلکہ دوسروں کے گناہ کا بوجھ بھی اس پر ڈال دیا جاے گا ) پھر سوائے جہنم کا ایندھن بننے کے اس کے لیے کوئی چارۂ کار نہیں رہ جاے گا یعنی وہ جہنم میں ڈال دیا جائیگا (مسلم شریف) –

ایسے بڑے خطرے اور نقصان سے بچنے کے لیے اور اپنا دامن حساب وکتاب سے صاف رکھنے کے لئے ہمیں اپنے معاملات کی صفائی کی بہت ضرورت ہے ۔مذکورہ حدیث رسول کریم سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نماز روزے اور دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی کتنی ضرور ی ہے ان میں کوتاہی سے ہمارای عبادتیں بھی ضائع ہو سکتی ہیں اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کی ہم بندوں کے حقوق کو بھی سمجھیں اور پھر انہیں صحیح طریقے سے ادا کریں ۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں یہ رویہ عام ہے کی کچھ لوگ حقو ق اللہ کا تو اہتمام کرتے ہیں (یعنی نماز ،روزے کے پابند ہیں )مگر وہ معاملات ِزندگی میں کھوٹے ہیں ،اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہیں اور امانت و دیانت سے خالی ہیں ،اسی طرح کچھ وہ لوگ ہیں جو حقوق اللہ پر تو با قاعدہ دھیان نہیں دیتے (یعنی نماز روزے وغیرہ عبادات کا تو اہتمام نہیں کرتے ) لیکن اخلاق و کردار کے اچھے ،معاملات کے کھرے اور امانت و دیانت جیسی خوبیوں سے بہرہ ورتے ہیں ۔جب کہ اسلام کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر ہم کامل مسلمان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی مکمل توجہ دینی ہوگی۔

حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب ،ہر ذات و نسل ،ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق آجاتے ہیں ۔ لہٰذا اگر ہم اپنے عزیزوں ،دوست و احباب اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیروں کے بھی حقوق ادا کریں، غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے ،والدین اگر اولاد کے لئے زندگی کی ہر آشائش (آرام)ترک کر دیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کوئی کمی نہ کریں-

جن گناہوں کا تعلق حقوق اللہ (اللہ کے حقوق)سے ہے جیسے نماز ،روزہ،زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی میں کوتاہی، اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ ان گناہوں کو معاف فرمادیے گا (انشاء اللہ ) ۔لیکن جن گناہوں کا تعلق حقوق العباد (بندوں کے حقوق)سے ہے مثلاًکسی شخص کا سامان چرایا ،یا کسی شخص کو کوئی تکلیف دی ،یا کسی شخص کا حق مارا ،کسی کی زمین جائداد پر نا جائز قبضہ کیا تو قرآن و حدیث کی روشنی میں اکثر علما و فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا ہمارے اوپر حق ہے اس کا حق ادا کریں ،یا اس سے حق معاف کروائیں ۔پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ و استغفار کے لیے رجوع کریں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”شہید کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں مگر کسی شخص کا قرض “(مسلم شریف ج/۲ص/ ۱۳۵ مجلس برکات)یعنی اگر کسی شخص کا کوئی قرض کسی کے ذمہ ہے تو جب تک ادا نہیں کر دیا جاے گا و ہ ذمہ میں باقی رہے گا ،چاہے جتنا بھی نیک عمل کر لیا جاے مشہور محدث حضرت امام نووی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ قرض سے مراد تمام حقوق العباد ہیں یعنی اللہ کے راستے میں شہید ہونے سے حقوق اللہ تو سب معاف ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے (شرح مسلم)۔

لہٰذا ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی کو اپنی اہم ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہمیں اپنے معاملات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہماری طرف سے بھی حقوق العباد ادا کرنے میں کوتاہی تو نہیں ہو رہی ہے ؟کہیں ہم بھی دانستہ (جان بوجھ کر)یا غیر دانستہ (انجانے میں)کسی کا حق تو نہیں مار رہے؟ کہیں اور کبھی کسی سے قرض لیا ہو اور ابھی تک اسے ادا کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہ ہو؟یا کسی کی زمین ہتھیالی ہو؟

ہمیں غیر جانب دارانہ طور پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ،اپنے پچھلے معاملات اور موجودہ حالات دونوں کی جانچ پڑتال کرنا چاہیے،خرید و فروخت میں، تجارت میں آپس کی تجارتی شرکت میں ،اگر کوئی حق کسی کا ہمارے ذمہ باقی رہ گیا تو اس کو فوراً صاف کرلینا چاہیے یا ہمارے ذمہ کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیئےاس گمان میں نہیں رہنا چاہیے کہ اولاد ادا کرے گی ۔ جائداد ہے تو اپنے شرکت داروں کو شریعت کے مقررہ طریقے کے مطابق ان کا حق دینا چاہیے ،یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے بہن بھائی ہیں ،آپس کی بات ہے ،میدان محشر میں نہ کوئی کسی کا بیٹا ہوگا ،نہ بھائی بہن ،ہر شخص اپنی فکر میں پریشان و حیران ہوگا ،اسی طرح اگر کسی پر تہمت (الزام)لگائی ہے ،کسی کو پریشان کیا ہے ،کسی کی غیبت کی ہے ،کسی کو کسی طرح سے نقصان پہنچایا ہے تو اس کو اس کی زندگی میں سب سے اہم کام سمجھ کر معاملا ت کو صاف کر لینا چاہیئے ،معاف کرائے یا اس کا حق اس کو دے-اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ امت مسلمہ کو راہ استقامت عطا فرمائے ،اور حقوق العباد کی ادائیگی پر دھیان دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

قوم مسلم گنگا جمنی تہذیبی ڈھکوسلے سے باہر نکلے۔ ✍️آصف جمیل امجدی۔[انٹیاتھوک،گونڈہ]۔6306397662

ملک عزیز بھارت کا یہ مقدس محاورہ ” گنگا جمنی تہذیب” دگر ملک کے دانشوران قوم و ملت اپنے آبائی وطن کے جملہ باشندگان میں بلاتفریق مذاہب و مسالک کے اخوت و محبت کی روح پھونکنا چاہتے تھے تو فخریہ انداز میں اسے استعمال کرتے تھے۔ یہاں تک کہ قرطاس و قلم میں بھی اسے کشادہ قلبی سے استعمال فرماتے تھے۔ عام بول چال میں ہماری گنگا جمنی تہذیب کی بار بار مثالیں پیش کرتے تھے۔ تاکہ ان کے اندر سے ثقافتی کج فہمی دور ہو۔ اور بلا تفریق مذہب و ملت کے مسرت و شادمانی سے بھری زندگی جی سکیں۔ جس کی وجہ سے ملک کا وقار مزید بلند تر ہوتا چلا جائے گا۔ اور یہ عینی مشاہدہ ہے کہ جنھوں نے ہماری گنگا جمنی تہذیب کو محض محاورہ نہ رکھا بل کہ اسے ملک و حیات کے لیے جزءلاینفک سمجھا آج وہی دیش ترقی کی شاہ راہ پر تیز گام ہے۔ کیوں کہ کوئی ملک اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب اس کے باشندگان میں آپسی اخوت و محبت ہوگی، جو کہ ملک کے لیے مانند ریڑھ کی ہڈی ہے۔ نیز اسی میں سلامتی و بقا ہے۔ آج ہمارے ملک عزیز بھارت کی نہ گفتہ بہ جو حالت بنی ہے وہ گنگا جمنی تہذیب کے بہتے دھارے کو ایک خاص رنگ کے ساتھ خاص سمت میں بذریعۂ باد سیاست بہایا جا رہا ہے۔بلا شبہ یہاں پر بنا تفریق مذہب و ملت صدیوں سے قائم پاکیزہ تہذیب کو سیاسی بھٹی میں ڈال کر پلید کی جارہی ہے۔ اور خاص مذاہب کے لوگوں کی باقاعدہ پلاننگ و ٹریننگ کے ساتھ یہ ذہنیت دی جارہی کہ قوم مسلم کو حراساں کیا جائے۔ ان کو جانی و مالی نقصان پہنچایا جائے۔ ادھر چند سالوں سے جب سے بی جے پی نے زمام حکومت سنبھالی ہے تب سے قوم مسلم کو نشان زد پر لے لیا گیا ہے۔ کبھی گاؤ کشی اور لڑکیوں کے ساتھ چھیڑخانی کے سنگین معاملات میں پھنساکر انہیں جان سے مار دیا گیا۔ توکبھی کچھ اور ہتھ کھنڈے اپنا کر ان کے گھر بار کوپھونک دیا گیا۔ گویا قوم مسلم کا جینا دوبھر کردیاگیا۔ مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کے اشتعال انگیز بیان سوشل میڈیا پر وائرل کئے جارہے ہیں۔ تو کبھی بھگوادھاری خاص قسم کے لوگ لہراتے ہوۓ ننگے ہتھیار کی ویڈیو وائرل کر رہیں۔ کبھی مساجد پر حملہ کرکے بے حرمتی کی جارہی ہے۔ لیکن ان سارے معاملات میں حکومت کچھ کہہ رہی ہے نہ ہی پولیس کوئی کارروائی کررہی ہے۔ کچھ تو بھگوادھاری کی اشتعال انگیز ویڈیو ایسی وایرل ہوئی جس میں باقاعدہ پولیس پرساشن کھڑی ہوئی ہے لیکن بھگوادھاریوں پر کچھ بھی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اس سے قوم مسلم آخر کیا سمجھے؟۔ آج تک کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ کسی مسلمان نے دھاردار ہتھیار نکالی ہو اور اشتعال انگیز بیان کی ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کیا ہو۔ ہمیشہ سے ہم یہاں کی قدیم ریت رواج کے مطابق بلاتفریق مذہب و ملت کے گنگا جمنی مقدس تہذیب کو باقی رکھے ہوۓ ہیں۔ جب بھی کوئی سنگین مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو سب سے پہلے ہم اپنے لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھاؤ جو بھارت کے لیے بدنماداغ ہو۔ بل کہ ہمیشہ سے قوم مسلم نے اس کی فلاح و بہبود کا سامان فراہم کیا۔ آج جب کہ یہ اعلان سوشل میڈیا و پرنٹ میڈیا کے ذریعہ کیا جارہا ہے کہ کوئی بھی ہندو کسی مسلمان سے کچھ بھی خریدے نہ ہی بیچے، بل کہ یہاں تک بھی کہا گیا ہے کہ جو چیز چاہے وہ زمین ہو یا کچھ اور اگر کسی مسلمان کے ہاتھ پہلے بیچ چکے ہو یا خرید چکے ہو تو اسے واپس کردو/ واپس لے لو گویا مسلمانوں سے ہمارا آج کے بعد سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ کیا یہی گنگا جمنی تہذیب ہے؟؟؟۔ کیا مسلمانوں نے اس ملک کی آزادی اور تحفظ و بقا کے لیے کوئی قربانی نہیں دی ہے؟؟؟۔ چاہئیے تو یہ تھا ایسے غلیظ لوگوں سے ملک کو پاک و صاف رکھا جائے لیکن جب رہبر ہی رہزن ہو جائے تو پھر ملک کا حال کیا ہوگا، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ قوم مسلم اب ہوش کے ناخن لے اور گنگا جمنی تہذیبی ڈھکوسلے سے باہر نکلے۔ بہت ہوگیا اب، بہت برداشت کیا ہم نے، اب مزید سکت باقی نہیں ہے۔ آۓ دن ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں لیکن ان کا کوئی مداوا کرنے والا نہیں ہے۔

ہم رمضان المبارک کیسے گذاریں؟-از:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر [راجستھان]

اللہ جل شانہ نے انسان کو اس دنیا میں اپنی بندگی کے لئے بھیجا ہے، یہ انسان یہاں چند روز کا مہمان ہے ، اپنی مہلت اور مدت مکمل ہونے کے بعد اگلے سفر پر روانہ ہو گا ۔ خوش نصیب ہے وہ انسان جو یاد الٰہی میں اپنا وقت گزارے ، جو اللہ رب العزت کی رضا جوئی کے لئے ہر لمحہ بے قرار رہے ، جس کا ہر عمل سنت نبوی ﷺ کے مطابق ہو، جس کا ہر کام شریعت مطہرہ کے مطابق ہو، ایساانسان فَقَدْ فَازَفَوْزًا عَظِیْمًا کے بمصداق دنیا میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی کامیاب وکامران ہوگا- یقیناً رمضان المبارک بڑی برکتوں اور فضیلتوں کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کی طرف سے انسانوں کو خصوصی سہولیات ملتی ہیں اور اس کے خصوصی انعام دنیائے انسانیت پر ہوتے ہیں۔ اس ماہ مبارک کے فیضان کے کیا کہنے،اس کی تو ہر گھڑی رحمت بھری ہے،اس مبارک مہینے میں اجر وثواب بہت ہی بڑھ جاتا ہے،نفل کاثواب فرض کے برابر اور فرض کاثواب ستر گناکردیاجاتاہے، بلکہ اس مہینے میں تو روزہ دار کا سونا بھی عبادت میں شمار کیا جاتا ہے،عرش کے فرشتے روزہ داروں کی دعا پر آمین کہتے ہیں،اور ایک حدیث پاک کے مطابق “رمضان کے روزہ دار کے لیے دریا کی مچھلیاں افطار تک دعائے مغفرت کرتی رہتی ہیں” اس ماہ میں اللہ کی رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ آسمانوں کے دروازے بھی کھول دیئے جاتے ہیں اور ان سے انوار و برکات اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں،اس ماہ مبارک میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس ماہ کے آخری عشرے کا اعتکاف مسنون ہے۔ قرآن و احادیث میں تو رمضان المبارک کے فضائل اتنی کثرت سے آئے ہیں کہ اگران سب کو رقم کردیا جائے تو ایک مسقل کتاب تیار ہوسکتی ہے- رمضان المبارک کے فضائل سے متعلق ایک روایت یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں حاضرین سے فرمایا کہ تم لوگ منبر کے قریب آ جاؤ۔ جب لوگ قریب آ گئے تو آپ منبر پر چڑھے۔ جب پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: “آمین”- اس کے بعد دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا کہ “آمین”۔ اس کے بعد تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو بھی فرمایا “آمین”۔ جب آپ منبر سے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! آج ہم نے آپ سے ایک ایسی بات سنی جو کبھی نہیں سنی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے سامنے جبرئیل (علیہ السلام) آ گئے اور انھوں نے کہا کہ برباد ہو جائے وہ شخص جس کو رمضان المبارک کا مہینہ ملا، لیکن وہ اپنی بخشش نہ کروا سکا، تو میں نے کہا آمین۔ یہ ایک طویل روایت ہے۔ متعدد کتب احادیث میں مروی ہے۔ اس حدیث کے دو حصے اور ہیں لیکن اس کا پہلا حصہ خاص رمضان سے متعلق ہے۔ اس لیے یہاں اس کو ذکر کیا۔قابل غور بات یہ ہےکہ رمضان المبارک تو اللہ رب العالمین کا عطیہ ہے لیکن اس عطیہ سے بہرہ مند ہونے کی ذمہ داری خود انسان کی ہے۔ یعنی انسان کو کوشش کرکے اس ماہ مبارک میں اپنی مغفرت کو یقینی بنانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہر شخص کو اپنے طور پر ہر ممکن طریقہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ اس کی مغفرت کی شکل پیدا ہو سکے۔ اس نقطۂ نظر سے رمضان المبارک کی مبارک ساعات کو بہت احتیاط اور پورے دھیان سے گزارنے کی ضرورت ہے۔*ہماری خوش نصیبی:* بلاشبہ ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ رمضان کا با برکت مہینہ ایک دفعہ پھر ہماری زندگیوں میں آیا ہے۔ایسا مہینہ کہ جس کے ایک ایک پل میں اللہ تعالیٰ کی رحمت موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہے۔جو انسان بھی اس ماہ مبارک کا دل میں ادب رکھتا ہے۔ اس کے روزے رکھتا ہے،گناہوں سے بچتا ہے اور عبادات کا اہتمام کرتا ہے۔ اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور جنت کے اعلیٰ درجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ *بزرگی کا معیار:* سلف صالحین کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ جب وہ کسی کی بزرگی کا تذکرہ کرتے تو یوں کہتے کہ فلاں آدمی تو بہت بزرگ آدمی ہے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ اس نے تو اپنی زندگی کے اتنے رمضان گزارے ہیں۔ ان کے نزدیک بزرگی کا یہ پیمانہ تھا۔ بزرگی اور ترقی درجات کا اندازہ لگانے کا یہ معیار تھا کہ فلاں انسان زندگی کے اتنے رمضان المبارک گزار چکا اب اس کے درجے کو تو ہم نہیں پہنچ سکتے ۔ اللہ اکبر۔ *حضور نبی اکرمﷺ کی ترغیب:*ایک مرتبہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے رمضان المبارک کی آمد پر صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ارشاد فرمایا: تمہارے اوپر ایک برکتوں والا مہینہ آیا ہے ، اس میں اللہ رب العزت تمہاری طرف متوجہ ہوتاہے اور تم پر رحمتیں نازل فرماتا ہے ، تمہاری خطاؤں کو معاف کرتاہے ، دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔اور فرمایا کہ یَنْظُرُ اللّٰہُ تَعَالیٰ الیٰ تَنَافُسِکُمْ فِیْہِ (رواہ الطبرانی)(اللہ تعالیٰ اس میں تمہارے تنافس کو دیکھتا ہے)تنافس کہتے ہیں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کو ،کسی بات میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کو۔ تو گویا اللہ کے رسول نے ہمیں اس بات کی ترغیب دی کہ ہم رمضان المبارک کے مہینے میں نیک اعمال اور عبادات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں ۔ اس لئے اس مہینے میں ہر بندہ یہ کوشش کرے کہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے والا بن جاؤں، جیسے کلاس میں امتحان ہو تاہے تو ہر بچے کی کوشش ہوتی ہے کہ میں فرسٹ آجاؤں،اسی طرح رمضان المبارک میں ہماری کوشش یہ ہو کہ ہم زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے والے بن جائیں ۔*رمضان المبارک میں معمولات نبویﷺ:* صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے تھے کہ جب بھی رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو ہم رسول اللہﷺ کے اعمال میں تین باتوں کا اضافہ محسوس کرتے ۔ پہلی بات…آپﷺ عبادت میں بہت زیادہ کوشش اور جستجو فرمایا کرتے تھے، حالانکہ آپ کے عام دنوں کی عبادت بھی ایسی تھی کہ ’’حَتّٰی یَتَوَرَّمَتْ قَدَمَاہُ‘‘ یعنی آپﷺ کے دونوں قدم مبارک متورم ہو جایا کرتے تھے۔ تاہم رمضان المبارک میں آپ کی یہ عبادت پہلے سے بھی زیادہ ہو جایا کرتی تھی-دوسری بات…آپ اللہ رب العزت کے راستے میں خوب خرچ فرماتے تھے۔ اپنے ہاتھوں کو بہت کھول دیتے تھے ۔ یعنی بہت کھلے دل کے ساتھ صدقہ وخیرات فرمایا کرتے تھے ۔ تیسری بات…آپﷺ مناجات میں بہت ہی زیادہ گریہ وزاری فرمایا کرتے تھے۔ ان تین باتوں میں رمضان المبارک کے اندر تبدیلی معلوم ہوا کرتی تھی۔ عبادت کے اندر جستجو زیادہ کرنا، اللہ رب العزت کے راستے میں زیادہ خرچ کرنا اور دعاؤں کے اندر گریہ وزاری زیادہ کرنا۔*ہم رمضان کیسے گزاریں:* اب ہم اگر نیکیوں کے اس سیزن سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں …روٹھے ہوئے رب کو منانا چاہتے ہیں… اپنی بگڑی بنانا چاہتے ہیں توہمیں چاہیے کہ ہم رمضان المبارک میں چند چیزوں کا خاص طور پر اہتمام کریں ۔ ان کی وجہ سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کے فیوضات و برکات سے مالامال کر دے گا۔*(۱) روزے کی حفاظت:* ہمیں چاہیے کہ ہم روزہ رکھیں تو پورے آداب و شرائط کے ساتھ رکھیں ۔ روزے میں کھانے پینے اور جماع کی پابندی توہے ہی ۔ اس بات کی بھی پابندی ہو کہ جسم کے کسی عضو سے کوئی گناہ نہ ہو۔ روزے دار آدمی کی آنکھ بھی روزہ دار ہو، زبان بھی روز دار ہو ،کان بھی روزے دار ہوں ، شرمگاہ بھی روزہ دار ہو، دل ودماغ بھی روزہ دار ہوں ۔اس طرح ہم سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک روزہ دار بن جائیں ۔اسی لیے حدیث شریف میں آیا: اَلصِّیَامُ جُنَّة مَا لَمْ یَخْرِقْھَا [روزہ آدمی کیلئے ڈھال ہے جب تک وہ اسے پھاڑ نہ دے]ڈھال سے مراد یہ ہے کہ روزہ انسان کےلیے شیطان سے حفاظت کا کام کرتا ہے۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ روزہ کس چیز سے پھٹ جاتا ہے؟حضورﷺ نے فرمایا: جھوٹ اور غیبت سے۔ اسی طرح ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَه مِنْ صَیَامِهِ اِلَّا الْجُوْعِ وَ الْعَطْشِ[کتنے لوگ ہیں جن کو روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ نہیں ملتا]کیوں ؟ …اس لیے کہ اس نےروزہ بھی رکھا اور فلمی گانے بھی سنے ۔ روزہ بھی رکھا اور بازار میں جاتے ہوئے غیر محرم کا نظارہ بھی کیا، روزہ بھی رکھا اور لوگوں پہ بہتان لگائے، جھوٹ بولا ، دھوکا دیا، تو ایسا روزہ اللہ کے یہاں اجر نہیں پاتا۔یہ تو صرف ریاکاری کر رہا ہے۔ روزے کی حقیقت سے اس کاکوئی واسطہ نہیں ہے۔اسی لیے حدیث پاک میں آیا ہے کہ لَیْسَ الصِّیَامُ مِنَ الْاَکْلِ وَالشُّرْبِ اِنَّمَا الصِّیَامُ مِنَ اللَّغْوِ وَ الرَّفْسِ[ کہ روزہ کھانے اور پینے سے بچنے کا ہی نام نہیں بلکہ روزہ تو لغو اور فحش کاموں سے بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ]اسی طرح ایک اور جگہ پر روزہ داروں کے متعلق فرمایا: منْ لَمْ یَزَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَل بِه فَلَیْسَ له حاجة فی اَنْ یَّضع طعامه وشرابه ۔ [جو بندہ جھوٹ اور اپنے عمل کے کھوٹ کو نہیں چھوڑتا، اللہ تعالیٰ کواس کے بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی پرواه نہیں ]کہ ویسے تو روزہ دار ہیں اور کم تول رہے ہیں ، ملاوٹ کر رہے ہیں ، رشوت لے رہے ہیں ، بہتان لگا رہے ہیں، غیبت کر رہے ہیں ، ایسے بندے کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ کو کیا ضرورت۔ *(۲)عبادت کی کثرت* ہم رمضان المبارک میں فرض نمازوں کو تکبیر اولیٰ کے ساتھ پابندی سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ دیگر مسنون اعمال ،نفلی عبادات، ذکر و اذکار کی کثرت کریں۔ عبادت کے ذریعے اپنے جسم کو تھکائیں۔ہمارے جسم دنیا کے کام کاج کے لئے روز تھکتے ہیں زندگی میں کوئی ایسا وقت بھی آئے کہ یہ اللہ کی عبادت کے لئے تھک جایا کریں، کوئی ایسا وقت آئے کہ ہماری آنکھیں نیند کو ترس جائیں۔*(۳) دعاؤں کی کثرت:* رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کچھ عطا کرناچاہتا ہے۔ اس لیے اس میں دعاؤں کی کثرت کرنی چاہییے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہوَ اِنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَّ لَیْلَةٍ دَعْوَۃً مُسْتَجَابَةٍ [رمضان المبارک میں ہر مسلمان کی ہرشب و روزمیں ایک دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔] اس لیے اللہ کے آگے رو رو کر دعائیں کرنی چاہییے نہ معلوم کون سی گھڑی میں دعا قبول ہو جائے۔تہجد کا وقت قبولیت دعا کا خاص وقت ہے ۔ لہٰذا سحری سے پہلے تہجد کے نوافل پڑھ کر اللہ کے آگے گریہ و زاری کی جائے اوراپنی تمام حاجات اللہ کے سامنے پیش کی جائیں۔ اللہ کو منایا جائے۔احادیث میں افطار کے وقت روزہ دارکی دعائیں قبول ہوتی ہیں فرمایا گیا ہے،جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے’’تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی ایک روزہ دار کی افطار کے وقت ، دوسرے عادل بادشاہ کی دعا، تیسرے مظلوم کی دعا۔‘‘ اس لیے افطار کے وقت دعاؤں کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے ۔ایک بات پر غور کیجئے کہ بالفرض اللہ تعالیٰ کا کوئی بہت ہی نیک اور برگزیدہ بندہ ہو اور وہ آدمی آپ کو کسی وقت بتا دے کہ ابھی مجھے خواب کے ذریعے بشارت ملی ہے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے ، تم جو کچھ مانگ سکتے ہو ، اللہ رب العزت سے مانگ لو ۔ اگر وہ آپ کو بتائے تو آپ کیسے دعا مانگیں گے؟ بڑی عاجزی وانکساری کے ساتھ رو رو کر اللہ رب العزت سے سب کچھ مانگیں گے کیونکہ دل میں یہ استحضار ہو گا کہ اللہ کے ایک ولی نے ہمیں بتادیا ہے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے ۔ جب ایک ولی بتائے کہ یہ قبولیت دعا کا وقت ہے تو ہم اتنے شوق کے ساتھ دعا مانگیں گے اب ذرا سوچئے کہ ولیوں اور نبیوں کے سردار، اللہ تعالیٰ کے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺنے فرمایا کہ روزہ دار آدمی کی افطار کے وقت اللہ تعالیٰ دعائیں قبول فرماتا ہے تو ہمیں افطار کے وقت کتنے شوق اور لجاجت سے اور پر امید ہو کر اللہ رب العزت سے دعائیں مانگنی چاہییے؟ ہونا یہ چاہیے کہ وہ جو افطاری کاآخری آدھا گھنٹہ ہے اس آدھے گھنٹے میں خوب توجہ الی اللہ کے ساتھ بیٹھیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حاجات بیان کریں اور اپنی دنیا و آخرت کی اور جان و ایمان کی سلامتی کی دعائیں کریں۔ ویسے بھی دستور یہ ہے کہ اگر آپ کسی آدمی کو مزدوری کے لیے اپنے گھر لائیں اور وہ سارا دن پسینہ بہائے اور شام کے وقت گھر جاتے ہوئے آپ سے مزدوری مانگے تو آپ اس کی مزدوری کبھی نہیں روکیں گے ، حالانکہ ہمارے اندر کتنی خامیاں ہیں ۔ بغض ہے، کینہ ہے، حسد ہے ، بخل ہے ، لیکن جو ہمارے اندر تھوڑی سی شرافت نفس ہے وہ اس بات کو گورا نہیں کرتی کہ جس بندے نے سارا دن محنت کی ہے ہم اس کو شام کے وقت مزدوری دیئے بغیر خالی بھیج دیں ۔ اگر ہمارا دل یہ نہیں چاہتا تو جس بندے نے اللہ کے لئے بھوک اور پیاس برداشت کی اور افطاری کے وقت اس کا مزدوری لینے کا وقت آئے تو کیا اللہ تعالیٰ بغیر مزدوری دیئے اس کو چھوڑ دے گا۔ ہرگز نہیں ۔ اس لیے صدق یقین کے ساتھ افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کریں اللہ تعالیٰ قبول فرمائےگا۔حدیث شریف میں اس بات کی ترغیب آئی ہے کہ رمضان شریف میں استغفار کی کثرت کریں ،جنت کو طلب کریں اور جہنم سے پناہ مانگیں۔ لہٰذ اپنی دعاؤں میں ان تینوں چیزوں کو بار بار مانگیں۔ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ بامراد فرمائےگا۔ *(۴) تلاوت قرآن مجید کی کثرت*رمضان المبارک کوقرآن پاک سے خاص نسبت ہی کیونکہ قرآن مجید اسی مہینے میں نازل کیا گیا۔ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنَ (البقرۃ : ۱۸۵)(رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیاگیا)اس سے پہلے بھی جتنی آسمانی کتابیں اورصحیفے آئے وہ بھی اسی مہینے میں نازل ہوئے۔ معلوم ہوا کہ اس مہینے کو کلامِ الٰہی سے خاص نسبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک اس مہینے میں کثرت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ نبی کریمﷺ اس مہینے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ پورے قرآن پاک کا دور کیا کرتے تھے۔ اصحاب رسولﷺ سے لے کر آج تک یہ روایت چلی آرہی ہے کہ اس ماہ قرآن پاک کی تلاوت کثرت سے کی جاتی ہے۔ ہمارے بہت سے اکابر اس ماہ میں ایک دن میں ایک قرآن پاک اور بعض دو قرآن پاک بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے اکابر کی اتباع میں کثرت تلاوت کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ وقت قرآن پاک کی تلاوت کرنی چاہیے۔ *سلف صالحین کے واقعات:* سلف صالحین اس مہینہ کی برکات سے کیسے فائدہ اٹھاتے تھے اس کی چند مثالیں عرض کی جاتی ہیں ۔ تاکہ ہمیں بھی اندازہ ہو جائے کہ ہمارے اسلاف یہ مہینہ کیسے گزارتے تھے ۔*بزرگانِ دِین اور شوقِ تلاوت:* (1)ہمارے امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَة اللّٰہ عَلَیْہ رَمَضانُ الْمُبارَک میں مَع عیدُ الفطر 62 قرآنِ پاک خَتم کرتے(دن کوایک ، رات کوایک ، پورے ماہ کی تراویح میں ایک اور عید کے روز ایک)۔ [الخیرات الحسان ، ص۵۰] (2)حضرت امام شافعی رَحْمَة اللّٰہ عَلَیْہ ماہِ رَمَضان میں 60قرآنِ پاک ختم کرتے تھے اور سب نمازمیں ختم کرتے۔ [حلیۃ الاولیاء ، الامام الشافعی ، ۹ / ۱۴۲ ، رقم : ۱۳۴۲۶] (3) حضرت اسود بن یزید رَحْمَة اللّٰہ عَلَیْہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ہر دو راتوں میں پوراقرآن پڑھتےاورصرف مغرب و عشاء کے درمیان آرام فرماتے تھے اور رَمَضانُ الْمُبارَک کےعلاوہ 6راتوں میں ایک ختمِ قرآن کر لیا کرتے تھے۔ [طبقات ابن سعد ، رقم : ۱۹۷۶ ، اسودبن یزید ، ۶ / ۱۳۶بتغیر قلیل۔ حلیۃ الاولیاء ، اسود بن یزید ، ۲ / ۱۲۰ ، رقم : ۱۶۵۲] (4)حضرت امام مالک اور حضرت سفیان ثوری رحمہمااللّٰہ تعالیٰ علیہما کے بارے میں بھی کتابوں میں یہ درج ہےکہ یہ دونوں حضرات بھی رمضان المبارک میں اپنی دیگر مصروفیات کو ترک کرکے اپنے اکثر اوقات تلاوت قرآن میں گذارتے تھے-تلاش وتحقیق کرنے پر سیکڑوں ایسے واقعات اکابر واسلاف کے ملتے ہیں جن کا رمضان المبارک کے پاک مہینے کا نزول ہوتے ہی عبادت وریاضت میں کثرت ہو جاتی،عام معمولات زندگی کو ترک کر کے اس خاص اور بابرکت مہینے کا پورا پورا لطف اٹھاتے-یہ ہے ہمارے کچھ بزرگوں کےرمضان المبارک میں تلاوت قرآن کا شوق وذوق، ہمیں بھی چاہییے کہ ہم ان بزرگان دین کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے حتی الامکان تلاوت قرآن پاک زیادہ سے زیادہ کرنے کی کوشش کریں-یاد رکھنا چاہییے کہ بزرگوں کے یہ واقعات کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت ہیں اور محض کرامت نہیں بلکہ نفس واقعہ ہیں،اکابر کے معمولات اس وجہ سے نہیں لکھے جاتے کہ سرسری نگاہ سے ان کو پڑھ لیا جائے ،یا کوئی تفریحی فقرہ ان کو کہہ دیاجائے،بلکہ اس لئے لکھے اور بتائے جاتےہیں کہ اپنی ہمت کے موافق ان کا اتباع کیا جائے،اور حتی الوسع پوراکرنے کا اہتمام کیا جائے کہ ان حضرات کے افعال واقوال حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جو جامع کمالات کا سچا مصداق ہیں،آپ ﷺ ہی کے مختلف احوال کا پرتو ہیں-*(۵)صدقہ وخیرات کی کثرت:* رمضان المبارک کاایک بڑا اور اہم عمل زیادہ سے زیادہ صدقہ وخیرات کرنا ہے،نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم بھلائی کے کاموں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے،آپ کی سب سے زیادہ سخاوت رمضان کے مہینے میں ہوتی تھی”آپ کی سخاوت ماہ رمضان میں اتنی زیادہ اور عام ہوتی جیسے تیز ہواہوتی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ”(مفہوم حدیث)اس سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں عام دنوں کے مقابلے صدقہ وخیرات کا زیادہ اہتمام کرناچاہییے، صدقہ وخیرات کا مطلب ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے فقراء ومساکین،یتامیٰ وبیوگان اور معاشرے کے معذور اور بے سہارا افراد کی ضروریات پر خرچ کرنا اور ان کی خبر گیری کرنا، بےلباسوں کو لباس پہنانا،بھوکوں کو کھانافراہم کرنا،بیماروں کا علاج ومعالجہ کرنا وکرانا،یتیموں وبیواؤں اور بے سہارالوگوں کی سرپرستی اور دیکھ ریکھ کرنا،معذوروں وکمزوروں کا سہارابننا،مقروضوں کو قرض کے بوجھ سےنجات دلانا اور اس طرح کے دیگر ضرورت مند افراد کےساتھ تعاون وہمدردی کرنا-*(۶)رمضان المبارک کااحترام کریں اور اس کی بےحرمتی سے بچیں:* شعائراسلام، مذہبی ودینی علامات اور نیکی وبھلائی کی قدراور احترام کرنا اور ان کی عظمت وحرمت کو گلے سے لگانا جس طرح نیکی اور سعادت مندی کی علامت ہے اسی طرح ان چیزوں کی ناقدری اور بےحرمتی کرنا انتہائی شقاوت وبدبختی کی بات ہے،رمضان المبارک کی عزت وتوقیر پر جہاں ڈھیروں نیکیاں ملتی ہیں وہیں اس کی بے حرمتی کرنے پر دردناک عذاب کا تذکرہ کیاگیا ہے جیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ “جس نے اس ماہ مبارک میں کوئی نشہ آور چیز پی یا کسی مومن پر بہتان باندھا یا اس میں گناہ کیا تواللّٰہ رب العزت اس کے ایک سال کے اعمال برباد فرمادے گا،پس تم ماہ رمضان میں کوتاہی کرنے سے ڈرو،کیونکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا مہینہ ہے،اللّٰہ عزّوجل نے تمہارے لیے گیارہ مہینے کردییے کہ ان میں نعمتوں سے لطف اندوز ہو اور لذت حاصل کرو اور اپنے لیے ایک مہینہ خاص کرلیا پس تم ماہ رمضان کے معاملہ میں ڈرو-[رمضان کے تیس اسباق ص/۳۱ بحوالہ: المعجم الاوسط ج/۲ ص/۴۱۴]حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “میری امت ذلیل ورسوا نہ ہوگی جب تک رمضان کاحق ادا کرتی رہےگی،عرض کیاگیا:یارسول اللّٰہ!رمضان کے حق کو ضائع کرنے میں ان کا ذلیل ورسوا ہونا کیا ہے؟فرمایا:اس ماہ میں ان کاحرام کاموں کو کرنا،پھرفرمایا جس نے اس ماہ میں زناکیا یاشراب پی تو اگلے رمضان المبارک تک اللہ رب العزت اور جتنے فرشتے ہیں سب اس پر لعنت کرتے ہیں،پس اگر یہ شخص اگلے رمضان کو پانے سے پہلے مرگیا تواس کے پاس کوئی ایسی نیکی نہ ہوگی جو اسے جہنم کی آگ سے بچاسکے گی،پس تم ماہ رمضان کے معاملے میں ڈرو،کیونکہ جس طرح اس ماہ میں اور مہینوں کے اعتبار سے نیکیاں بڑھادی جاتی ہیں اسی طرح گناہوں کامعاملہ بھی ہے-[ایضاً ص/۳۲ بحوالہ:المعجم الصغیر للطبرانی ج/۵ ص/۶۰]حاصل کلام یہ ہے کہ ماہ رمضان المبارک کااحترام ہم سبھی مسلمانوں کے لیے بہت ہی ضروری ہے اور رمضان کے احترام کا مطلب یہ ہےکہ اس میں گناہوں سے بچا جائے، جھوٹ،غیبت وچغلی اور بدکلامی سے اپنے آپ کو بچایاجائے،جملہ منہیات شرعیہ سے بچتے ہوئے اوامر پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی جائے کیونکہ صرف کھاناپینا بند کر دینے کو رمضان کا کامل احترام نہیں کہا جاسکتا،رمضان کے اصل مقصدکو حاصل کرنا ہی اصل میں رمضان کا احترام ہے-اللّٰہ تعالیٰ ہمیں رمضان کے احترام اور روزوں کی پابندی اور حفاظت کی توفیق بخشے،اور رمضان کے احترام کے ساتھ اس کی بے حرمتی سے بچائے-آمین ثمّ آمین-

مدارس و مکاتب کی ضرورت و اہمیت، ازقلم:محمدشمیم احمدنوری مصباحی!

مدارس و مکاتب کی ضرورت و اہمیت

ازقلم:محمدشمیم احمدنوری مصباحی!
ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

     الحمدللّٰہ ! پورے ہندوستان میں مدارس و مکاتب کا جال پھیلا ہوا ہے، مشرقی ہندوستان ہو یا مغربی، ہر خطے میں مسلمان بچوں کی زبانوں سے “قال اللّٰه وقال الرّسول” کے نغمے بلند ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہندوستان کی سرزمین پر برسوں سے جاری و ساری ہے، یہ انہی مدارس و مکاتب کا فیضان ہے کہ آج ہم آزادی کی کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں، اگر مدارس کے علما نے اپنی درس گاہوں سے نکل کر رسم شبیری نہ ادا کی ہوتی تو ہندوستان کا حال کچھ اور ہوتا، دینی مدرسوں کے علما و فضلا نے نہ صرف ہندوستان کی کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع فراہم کیا بلکہ باشندگان ہند کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد بھی فرمائی

اور وہ بچے جو غریبی کی وجہ سے کچھ بھی تعلیم حاصل نہ کر سکتے تھے ان کے لیے بھی تعلیم کا بندوبست کیا، ہندوستان میں غریبی کی زندگی بسر کرنے والوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہی ہے اس لیے یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان مدارس ومکاتب سے غریب مسلم طلبہ نے زیادہ استفادہ کیا جہاں انہیں نہ صرف یہ کہ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا گیا بلکہ ان غریب و نادار طلبہ کے لیے کھانے، پینے، رہنے، سہنے اور علاج و معالجہ کا بھی انتظام کیا گیا، اس کی واضح مثال مغربی راجستھان کی عظیم تعلیمی و تربیتی درس گاہ ” دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف” اور اس جیسی دوسری درس گاہیں ہیں-
مسجد اللّٰہ کا گھر ہے اور مدرسہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کا، چناں چہ ہر مومن مسجد میں اپنا سر اپنے رب کی بارگاہ میں جھکا کر بندگی کا حق ادا کرتا ہے اور مدرسہ میں خدا کے گھر جانے اور سر جھکانے کا طریقہ سیکھتا ہے یہ دونوں اسلام کی شان اور اسلام کی عظمت کے نشان ہیں-
دینی مدارس ومکاتب آج کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ تقریبا ساڑھے چودہ سو برس پہلے اسلام کے پیغمبر حضور نبئِ رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے مسجد نبوی کے باہر ایک چبوترہ پر بیٹھ کر اصحاب صفہ دین کی معلومات حاصل کرتے تھے یہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کا پہلا مدرسہ تھا جو آج بھی مسجد نبوی کے اندر چبوترہ کی شکل میں قائم ہے-
مسجد نبوی شریف کے مقدس ننھے سےچبوترہ سے علوم وافکار کا جو سوتا پھوٹا تھا پوری دنیا اب تک اس کے آبشار سے سرشار ہو رہی ہے ہے- یہ مدارس و مکاتب اسی سمندر کے نہر کی بل کھاتی لہریں ہیں، اسی وجہ سے ان کی ایک الگ دنیا ہے، الگ فضا ہے، الگ شان ہے، الگ پہچان ہے،اور الگ تاثیر وتاثّر ہے-
جب بھی انسانی آبادی بے چارگی کا شکار ہوئی ہے تو مدارس اسلامیہ نے تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے اور ایسی ایسی نادرالوجود ہستیاں قوم وملت کے حوالے کی ہیں کہ ان کے دم قدم کی برکتوں سے صحرا میں بھی پھول کھل اٹھے وہ چاہے امام اعظم ابو حنیفہ ہوں یا شیخ عبدالقادر جیلانی، امام شافعی ہوں یا امام مالک وامام حنبل،خواجہ غریب نواز ہوں، یا رومی،سعدی،رازی وغزالی(علیہم الرّحمہ) ۔
امام عشق ومحبت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی ہوں یا حضور صدرالافاضل ،حضور مفتی اعظم ہند ہوں یا حضور صدرالشریعہ، تاج الشریعہ حضرت علامہ اختر رضا ازہری نوراللہ مرقدہ ہوں یا شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں،بحرالعلوم ہوں یا محدّث کبیر،شارح بخاری حضرت مفتی محمّدشریف الحق امجدی ہوں یا حضور فقیہ ملّت علیہما الرّحمہ، حضور مفتئ اعظم راجستھان علّامہ مفتی محمّد اشفاق حسین نعیمی علیہ الرّحمہ ہوں یاخیر الاذکیا علامہ محمد احمد مصباحی،محقّق مسائل جدیدہ حضرت مفتی محمّدنظام الدّین صاحب رضوی مدّظلّہ العالی ہوں یا علاقۂ تھار کی ممتاز وعظیم دینی دانش گاہ “دارالعلوم انوار مصطفی سہلاؤ شریف” کے مہتمم و شیخ الحدیث نورالعلما،شیخ طریقت حضرت علامہ سید نوراللّٰہ شاہ بخاری یہ سبھی حضرات مدارس اسلامیہ کے ہی پروردہ وفیض یافتہ ہیں-
احادیث وتاریخ اورسیرت کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدرسالت میں مسجد نبوی کے چبوترہ کے علاوہ طلبہ کی تعلیم وتربیت کے لیے کوئی مخصوص شکل نہیں تھی بلکہ صحابۂ کرام خود ہی اپنی اولاد کو ضروریاتِ دین سکھلا دیاکرتے تھے عرب کے مختلف قبیلوں سے آنے والے وفود کے ساتھ بچے بھی ہوتے تھے جو خدمت نبوی میں قیام کر کے علم دین حاصل کرتے تھے اور ان کےکھانے پینے کابندوبست مقامی صحابۂ کرام کیا کرتے تھے، جس میں انہوں نے بے مثال ایثار وبے لوثی کا ثبوت دیا- (حیاۃالصحابہ جلد /۱، باب النصرة)۔
پھر عہدِ صحابہ میں حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں سب سے پہلے بچوں کی تعلیم کے لیے مکتب جاری کیے اور معلمین کے لئے ایک رقم بطور وظیفہ کے مقرر کردی- (معلّیٰ ابن حزم جلد/ ۸ صفحہ/۱۹۵)۔
جب اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے لگا تو خلیفۂ ثانی نے مزید اجراءِ مکاتب کا حکم دیا اور اپنے ماتحت عمال وامرا کو یہ فرمان جاری کردیا کہ ” تم لوگوں کو قرآن کی تعلیم پر وظیفہ دو”-( کتاب الاموال،صفحہ/۲۲۱)۔
دینی تعلیم کی ضرورت و اہمیت ہی کے پیش نظر حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ ” تین چیزیں لوگوں کے لیے ضروری ہیں!
{۱}حاکم وامیر: ورنہ لوگ ایک دوسرے سے برسرپیکار ہو جائیں گے- {۲} مصحف: یعنی قرآن کی خریدوفروخت، ورنہ کتاب اللّٰہ کا پڑھنا پڑھانا بند ہوجائے گا-
۔{۳} اور تیسری بات یہ ہے کہ عوام النّاس کی اولاد کو تعلیم دینے کے لیے ایسا معلّم ضروری ہے جو اجرت لے، ورنہ لوگ جاھل رہ جائیں گے- (تربیت الاولاد فی الاسلام ،جلد/۱صفحہ/۲۹۱)۔
بلاشبہ دور حاضر میں مدارس و مکاتب کی سخت ضرورت ہے، یہی مدارس ومکاتب ہیں کہ جہاں کی خاک سے انسان بنائے جاتے ہیں- وہ طلبہ جنہیں صحیح معنوں میں بولنے تک نہ آتاتھا تھا، مدارس نے انہیں بولنے کا شعور بخشا، چلنے پھرنے اوراُٹھنے بیٹھنے کے آداب سکھائے اور برائیوں کے خلاف آواز بلند کرنے اور اُن کا خاتمہ کرنے کے گر بتائے،اسی لیے توکسی شاعر نے کہا ہے

یہ مدرسہ ہے تیرا میکدہ نہیں ساقی
یہاں کی خاک سےانساں بنائےجاتے ہیں
مذکورہ شعر بلاشبہ مدارس کی اہمیت و افادیت اور مدارس کے مقصد قیام کو اجاگر کر رہا ہے، آج سے کئی صدیاں پہلے مدارس کا قیام عمل میں آیا اور ان خرقہ پوشوں کا مقصد گلشن محمدی کو سرسبز و شاداب رکھنا تھا، دور حاضر میں بھی مدارس کے قیام کا مقصد پیغامِ خداوندی و فرمان نبوی کو فروغ دے کر شجر اسلام کی آبیاری کرنا ہے تاکہ علوم مصطفویہ کے نور سے ہر گھر روشن و منور ہوجائے- انہی مدارس ومکاتب سے انسان سلیقۂ زندگی پاتا ہے -قوم وملّت کے ایمان وعقائد کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگرمدارس و مکاتب نہ ہوں تو کما حقہ جلالِ کبریائی کا غلغلہ نہ ہو، مدارس کا وجود نہ ہو تو حق و باطل میں امتیاز مشکل ہے، یہیں سے انسان تاریکی سے نکل کر روشنی پاتا ہے- جب انسانیت ہلاکت کے گدھے میں گرنے لگتی ہے تو یہ مدارس ہی ہیں جن کے فارغین علما ان گرنے والوں کو ہلاکت سے بچاتے اور وادئیِ ظلمت سے نکال کر نور و ہدایت کی بزم گاہ میں لاکھڑاکرتے ہیں-
مدارسِ اسلامیہ ملک میں دینی و عصری علوم کے رواج اور تعلیم اور پڑھائی کی شرح میں بے پناہ اضافہ کر رہی ہیں، اگر یہ مدارس و مکاتب بند ہو جائیں تو ان لاکھوں نونہالانِ ملّت کی تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری حکومت کے سرآ پڑے گی اور حکومت اربوں روپیہ خرچ کرنے کے بعد بھی اتنےمہذّب،پُرسکون اور مفید ادارے نہیں چلاسکتی گویا یہ مدارس ملک میں تعلیمی شرح کے اضافہ کے ساتھ ہر سال اربوں روپیہ کا مالی فائدہ بھی کر رہے ہیں، سیاست کے کارندوں کو شاید اس کا احساس بھی نہیں ہے-
ان مدارس کا ملک کی اصلاح و ترقی میں ایک نمایاں کردار یہ ہے کہ حکومت ہر سال عوام کی اصلاح کے لیے نہ جانے کتنے قانون بناتی ہے، کتنے لوگوں کو صرف اس مقصد کے لیے تنخواہ دیتی ہے کہ شراب نوشی ختم ہو، نشہ آور اوربری چیزوں کے استعمال کا سلسلہ بند ہو ،قتل و غارت گری کی جگہ امن وآشتی آئے،چوری اوررشوت کا جنازہ نکالا جائے ، زنا کاری اور بدکاری پر کنٹرول ہو، فسادات کا سلسلہ رک جائے، ملک میں تعلیم عام ہو لیکن ہزار کوششوں کے باوجود جوں جوں دوا کی جارہی ہے مرض بڑھتا جارہا ہے، جب کی یہ تمام کام حکومت کے کسی تعاون اور تحریک کے بغیر علمائے کرام ملک بھر میں پورے ذوق و شوق کے ساتھ انجام دے رہے ہیں مسجدوں میں، دینی جلسوں میں ،مدارس کی کانفرنسوں میں عام طور پر علماء کے خطابات کے یہی موضوعات ہوتے ہیں اس کے اثرات مسلم معاشرے میں آسمان کے ستاروں کی طرح دیکھے جاسکتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مدارس کے ارباب نظم و نسق اور مدرسین کو حکومتیں قومی اعزازات دیتیں اور مدارس کے وجود کو اپنے ملک کے لیے قابل افتخار سمجھتیں مگر افسوس صد افسوس! ایسا نہیں ہوسکا بلکہ اس کے برخلاف انہیں ملک و ملت کے لیے خطرہ کا نشان اور دہشت گردی کا اڈّہ سمجھاجانے لگا-(مدارس اسلامیہ تاریخ وحقائق کے اجالے میں صفحہ/۵۴،۵۳)۔
صرف انہی باتوں پر بس نہیں کیا گیا بلکہ مدارس پر اس طرح کے اور بھی بہت سے بے بنیاد الزامات لگائے گئے مثلا یہ کہ —-” مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں”—-” مدارس میں غیر ملکی ایجنٹ تیار کیے جاتے ہیں”—-” مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے”—-” مدارس میں دقیانوسیت کو فروغ دیا جاتا ہے”—-” مدارس میں دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے”—- اور “مدارس کے فارغین سماج کے کسی طبقہ کے لیے موزوں نہیں ہوتے ہیں”—- وغیرہ وغیرہ
جب کی حقیقت میں معاملہ اس کا بالکل ہی برعکس واُلٹا ہے یعنی مدارس میں قتل و غارت گری کے بجائے بلاتفریقِ مذہب وملت انسانوں کے تحفظ اور بقائے انسانیت کی تعلیم دی جاتی ہے مدارس میں دقیانوسیت نہیں بلکہ دین و مذہب پر کاربند ہونے کا درس دیا جاتا ہے مدارس میں بغض و عداوت اور دشمنی نہیں بلکہ الفت و محبت کا سبق سکھایا جاتا ہے مدارس میں غیر ملکی ایجنٹ نہیں بلکہ محب وطن شہری بنایا جاتا ہے-
مدارسِ اسلامیہ پر جو اس طرح کےغلط اور بےبنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں بلاشبہ یہ سب کے سب غلط ہیں ،اس لیے کہ مدارس اسلامیہ سے فارغ ہونے والے علماء ملک و معاشرہ کی اصلاح کو اپنی دینی اور ملی ذمہ داری سمجھتے ہیں، امن و امان کو بحال رکھنا ان کی تربیت کا ایک حصہ ہوتا ہے، وہ اپنی تہذیب و ثقافت اور دینی فکرو بصیرت سے شعوری اور عملی طور پر ملک کے گوشے گوشے میں صلاح و فلاح کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ “مدارس اسلامیہ دہشت گردی کے اڈے نہیں بلکہ فروغ علم کے اہم مراکز اور ملک کی تعمیر وترقی کی تحریک ہیں”……اللّٰہ تعالیٰ مدارس اسلامیہ کی حفاظت وصیانت فرمائے- آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم