WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category مہراج گنج اتر پردیش

کاتب ذوالقرنین خان کی نواسی کلثوم نے رکھا مسلسل 28/ روزہ

مہراج گنج پریس ریلیز

رمضان بابرکت و نعمتو ں والا مہینہ ہے۔ اس کے روزے فرض و خوشنودی رب کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ ان فوائد سے آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ کا ذخیرہ و مجموعہ مالا مال ہے۔ تاہم اس سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ روزہ ایک مشقت کی چیز ہے۔ اس گرمی کے موسم میں جواں عمر کی ہمت بھی روزہ رکھنے کے تعلق سے پش و پیش کا شکار ہوجاتی ہے۔ ننھی جانوں کا کیا کہنا؟ مگر اس مشقت میں مبتلا کرنے والی چیز “روزہ ” جیسے فرض کو جس خوش دلی سے دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی بیالیس گاؤں پوسٹ جدو پپرا کے استاذ مولانا کاتب ذوالقرنین خان کی نو سالہ نواسی کلثوم بنت ذبیح اللہ صدیقی نے رکھا۔ مسلسل 28/اٹھائیس روزے رکھ کر اس ننھی سی عمر میں ایک نمایاں مثال پیش کی ہے اور ذہن دیا ہے کہ اگر عزم مستحکم ہو تو مکلفین کو فرائض خداوندی کی ادا سے کوئی مشقت باز نہیں رکھ سکتی۔ جیسے مجھ غیر مکلفہ کو مارچ و اپریل کی تکلیف دہ گرمی روزہ سے باز نہ رکھ سکی۔ باوجودیکہ گھر کے تمام افراد مجھ پر روزہ فرض نہ ہو نے کے سبب اس سے منع کر رہے تھے۔ میرا عزم محکم ہے کہ اس رمضان المبارک کے باقی ایام کے روز ے بھی خوش ظرفی و خلوص قلبی کے ساتھ رکھوں اور اجر عظیم کی مستحق بنوں۔ دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی مہراج گنج یوپی کے پرنسپل مولانا شیر محمد خاں قادری، مفتی قاضی فضل رسول مصباحی ، مولانا توحید احمد برکاتی مصباحی ، مولانا تصور حسین نظامی ، حافظ وقاری توصیف رضا صفوی ، حافظ مسعود عالم سراجی نے کہا “مبارک صد مبارک اللہ تعالی نانا و نواسہ کو درازی عمر کے ساتھ احکام خداوندی کی بجا آوری کا حسین و عمدہ موقع ہمیشہ عطا فرمائے اور خلوص نیت میں استحکام بخشے” ان کے علاوہ درجنوں علماء و فضلاء نے بھی صائمئہ موصوفہ کے حق میں نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔

تلاوت قرآن و سماع قرآن عظیم عبادت اور کار ثواب ہیں۔ مولانا حافظ عبدالحق علیمی علیگ

مہراج گنج (پریس ریلیز)

حافظ قرآن اسلام کا علم بردار ہوتا ہے۔ جس نے اس کی تعظیم کی اللہ تعالی اس کو عزت عطا فرمائے گا۔ قرآن سیکھنے اور سکھانے والا دو کمالات کا حامل ہوتا ہے۔ ایک تو وہ خود قرآن کریم سے نفع حاصل کرتا ہے پھر دوسروں کو اخلاق کے ساتھ نفع تقسیم کرتا ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار دارالعلوم عربیہ عزیزیہ مظہرالعلوم نچلول مہراج گنج کے استاذ حافظ و قاری مولانا حافظ عبدالحق علیمی علیگ نے بودنا مہراج گنج کی نوری جامع مسجد تکمیل قرآن کے موقع پر کیا۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ شب قدر میں اللہ تعالی نے بہت سی نعمتیں رکھی ہیں۔ جنہیں فرزندان توحید کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس بہتریں موقع کو ضائع نہیں کرنی چاہیے۔ بہت افسوس کا مقام ہے کہ اس عظیم رات مین ہم عبادت نہیں کرتے، شب بیداری نہیں کرتے اور اس طرح ایک بڑی محرومی ہمارے ہاتھ آتی ہے۔ مولانا موصوف نے اس سال اسی مسجد میں تراویح سنانے کا شرف حاصل کیا ہے۔
اس سے پیشتر تلاوت قرآن سے محفل کا آغاذ ہوا۔ مسجد کے خطیب و امام حافظ و قاری شفیع الله مظہری نے نعت کے اشعار پیش کیے اور قاری عبدالحق علیمی علیگ کو قرآن سنانے اور مصلیان مسجد کو تیس پارے قرآن سن پر مبارک بادی پیش کی۔ اس موقع پر خورشید احمد، امجد علی، آفتاب عالم، سہم الدین، حافظ شمشیر، ماسٹر معروف، مولانا فیاض نظامی، اشتیاق انصاری، شبیر صدیقی، ماسٹر تبارک انصاری، ماسٹر سبحان الله کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔ اس پروگرام کا انعقاد رمضان مبارک کی ستائیسویں شب مطابق 18 اپریل 2023 بروز منگل بعد نماز عشا عمل میں آیا۔

قربانی کا عمل رضا ٕالٰہی کا سبب ہے۔۔از۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی،استاذ دارالعلوم اہلسنت قادریہ سراج العلوم برگدہی ضلع مہراج گنج یوپی

۔

شریعت کے اعمال کسی نہ کسی واقعہ کی یاد تازہ کرنے کے لۓ مقرر کۓ گۓ ہیں جیسے اللہ کے مقدس نبی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ پہاڑ کے درمیان چکر لگاٸ تو یہ عملِ سعی، رب تعالی کو اتنی پسند آٸ کہ قیامت تک تمام حاجیوں کے لۓ ان دونوں پہاڑیو ں کے درمیان دوڑ لگانا لازم قرا ر دے دیا۔اسی طرح حکم خداوندی کی تعمیل میں حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے پوری خندہ روٸ کے ساتھ اپنے ہونہار ،نور نظر اور لخت جگر کے گلے پر چھری چلادی ،نبی ابن نبی علیہما السلام امتحان میں کامیاب ہوۓاور ذبح ہونے والا جنت سے لایا ہوا دنبہ ثابت ہوا ،تو یہ عمل
اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہوا کہ اس نے ان کی اس سنت کی یاد میں تا قیام قیامت تمام صاحب نصاب ،عاقل ،بالغ مسلمانوں کے لۓ مخصوص جانوروں کی قربانی کو واجب قرار دے دیا۔قربانی کے اس ظاہری مفہوم میں باطنی مفہوم بھی مضمر ہےاور وہ ہے ”قربانی سےمراد ہر وہ عمل ہے جسےاللّٰہ تعالی کی رضا کے حصول اجر و ثواب اور اس کی بار گاہ کاتقرب حاصل کرنے کے لۓ انجام دیا جا ۓ
عید الاضحیٰ ١٠ دس ذی الحجہ کو مناٸ جا تی ہے، اسے عید قرباں یا بقرعید بھی کہا جاتا ہے۔اسلام کی جتنی بھی عبادات،رسوم یا تہوار ہیں ان کے مقاصد دنیا کے تمام دیگر مذاہب اور اقوام سے منفرد اور اعلیٰ وارفع ہیں ۔نماز ہو یاروزہ،زکوٰة ہو یا حج،عید الفطر ہو یاعید قرباں سب کا مقصد رب کی رضااورتقویٰ کا حصول ہے۔
قربانی کرنا اللہ کے خلیل حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لۓ باقی رکھی گٸ ہے۔یہ قربانی اتنی اہم ہے کہ اس کا بیان قرآن مجید کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی آیا ہے ارشاد باری تعالی ہے

”فصلِّ لِرَبِّکَ وَانحَر“

پس آپ اپنے رب کے لۓ نماز پڑھاکریں اور قربانی دیا کریں

الکوثر،١٠٨۔٢

ابن ماجہ نے حضرت سیدنا زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ صحابہ ٕ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی۔۔

یارسول اللہ ما ھٰذہ الاضاحی؟

”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم“

یہ قربانیاں کیا ہیں ؟
فرمایا

”سنة ابیکم ابراھیم“

تمہارےباپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے۔

لوگوں نے عرض کی ۔یارسول اللہ ”صلّی اللہ علیہ وسلم“ ہمارے لۓ اس میں کیا ثواب ہے؟فرمایا ۔

”بکل شعرة حسنة٠٠“

ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔

عرض کیا گیا ٠۔اون کا کیا حکم ہے ؟فرمایا ۔

بکل شعرة من الصوف حسنة ۔

اون کے ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔
”سنن ابن ماجہ“١٣٢٧“

ام المٶ منین حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہےکہ نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،قربانی کے دنوں میں کوٸ عمل اللہ کو خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور یہی قربانی کا جانور قیامت کے میدان میں اپنے سینگوں ،بالوں اور کھروں کے ساتھ آۓ گااورقربانی میں بہایا جانےوالا خون زمین پر گرنے سے پہلےہی اللہ تعالی کے دربارمیں قبولیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے ۔لھٰذاخوش دلی سےقربانی کرلیا کرو۔۔(ترمذی شریف حدیث نمبر١٤٩٣)

بارگاہ الٰہی میں اس فعل کے مقام قبولیت کی وجہ یہ ہےکہ انسان ایک ذی روح اور ذی شعور مخلوق ہے ۔اس کا دوسری ذی روح مخلوق کو اپنے ہاتھ سےذبح کرنازیادہ گراں ہے ۔یہی وجہ ہےقربانی کےایام میں دیگر عبادات کے مقابلہ میں قربانی کا عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہےاور اسی لۓ اللہ تعالی نےاس کی راہ میں اس مال کوقربان کرنے کےباوجود اس سے استفادہ کی اجازت دےدی ہے،انسان ذبح کرنے کےبعد خود اس کا گوشت کھاسکتاہے دوسرے کو کھلا سکتاہے ۔جب کہ دیگرمالی عبادات میں ایسی اجازت نہیں ہے۔
قربانی نہ کرنے پر سخت تنبیہ کرتےہوۓ نبٸ اکرم نے فرمایا کہ،جوشخص قربانی کرسکتاہو پھر بھی قربانی نہ کرے،وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آۓ(رواہ الحاکم ج٢ ص٣٨٩)
اس سے قربانی کی اہمیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔

”قربانی کس پر واجب ہے“

قربانی ہرمسلمان مرد ،عورت،عاقل،بالغ اور مقیم پرواجب ہے۔جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجت اصلیہ سےزاٸد ہو۔یہ مال خواہ سونا،چاندی یا اس کےزیورات ہوں یا مال تجارت
قربانی کے واجب ہونے سلسلہ میں عامر بن رملہ سے روایت ہےکہ حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ نے فرمایا،ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ والہ وسلم کے ساتھ عر فات میں ٹہرے ہوے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےفرمایا،۔

”یاایھا الناس ان علیٰ کل بیت فی کل عام اضحیةوعتیرة اتدرون ماالعتیرة؟ھٰذہ التی یقول الناس الرجیبة۔”

اے لوگو!ہر گھروالوں پرسال میں ایک دفعہ قربانی اور عتیرہ ہے کیا تم جانتے ہوکہ عتیرہ کیا چیز ہے؟عتیرہ وہی ہے جس کو لوگ رجیبہ کہتے ہیں
(سنن ابو داٶد،رقم١٠١٥)

حضرت امام ابن الاثیر نے لکھا ہے کہ حضرت امام خطابی فرماتے ہیں ۔”عتیرہ سےمرادوہ جانور ہےجسے جاہلیت میں لوگ اپنےبتوں کےنام پر ذبح کرتےاور اس کا خون بت کےسر پر بہا دیتے تھے۔

قربانی صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے ۔دوسرے دنوں میں قربانی نہیں ہوتی۔قربانی کےدن ذی الحجہ کی دسویں،گیارھویں اور بارھویں تاریخ ہے ۔ان ایام میں جب چاہے قربانی کر سکتا ہے۔البتہ پہلے دن قربانی افضل ہے۔

   ”قربانی کا وقت“

قربانی نماز عید پڑھ کر کی جانی چاہۓ۔نماز عید سے پہلے قربانی کرنا جاٸز نہیں ۔حضرت جندب رضی اللہ عنہ سےروایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر قربانی کی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

”من ذبح قبل ان یصلی فلیذبح اخری مکا نھاو من لم یذبح فلیذبح باسم اللہ “

جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیاہو تواسے دوسراجانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہۓ۔اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیاہو وہ اللہ کے نام ذبح کرے۔(متفق علیہ)

اسی طرح برا ٕبن عاذب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔نماز عید پڑھنے سے پہلے کوٸ شخص(قربانی کاجانور) ذبح نہ کرے۔فرماتے ہیں میرے ماموں نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔آج کے دن گوشت کھانا پسند ہوتا ہے۔اور میں نے قربانی میں جلدی کی تاکہ اپنے گھروالوں اور ہم سایوں کو کھلاٶں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

”فاعد ذبحک باخر“

دوسرا جانور ذبح کرنے کا اہتمام کرو۔

”جامع ترمذی،ابواب الاضاحی رقم ١٥٥٠“

”کس جانور کی قربانی مستحب ہے“

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےسینگوں والے موٹے تازے نر دُنبے کی قربانی دی،وہ سیاہی میں کھاتا،سیاہی میں چلتا اورسیاہی میں دیکھتا تھا۔

جامع ترمذی،ابواب الاضاحی رقم۔١٥٢٥

اسی طرح عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےسینگوں والے مینڈھےکےلۓ حکم فرمایا۔جس کے سینگ سیاہ ،آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضا ٕسیاہ ہوں پس وہ لایا گیا تو اس کی قر بانی دینے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔اے عاٸشہ رضی اللہ عنہا،چھری تو لاٶ،پھر فرمایا ۔اسے پتھر پر تیز کرلینا ۔پس میں نے ایساہی کیاتو مجھ سے لےلی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایااور ذبح فرمانے لگے تو کہا۔

”بسم اللہ اللھم تقبل من محمد وال محمد وامة محمد ثم ضحیٰ بہ“

 سنن ابو داٶد۔رقم۔١٠١٩

نبٸ کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور ذبح کرتے وقت بھی ال محمد کی جانب منسوب فرما دیا کرتے تھے اور اللہ کا نام لے کر ذبح کرتے ۔معلوم ہوا جو جانور اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جاۓ تو اس ثواب میں شریک کرنے یا ایصال ثواب کی غرض سے اللہ والوں کی جانب منسوب کر دینے سے”ما اھل بہ لغیر اللہ “میں شمار نہیں ہوتا۔جو جانور بزرگوں کی جانب منسوب کیاجاۓ کہ ان کے لۓ ایصال ثواب کرنا ہےاور اسے اللہ کانام لےکر ذبح کیا جاۓ تو اسے حرام اورمردار ٹہرانے والے شریعت مطہرہ پر ظلم کرتے،اور بزرگوں سے دشمنی رکھنے کا ثبوت دیتے ہیں ۔ ”قربانی کرنے کا طریقہ“

بہتر یہ ہے کہ قربانی خود کرے، اگر خود نہ جانتا ہو تو کسی دوسرے مسلمان کو اپنی طرف سے ذبح کرنے کے لئے کہے۔ بوقت ذبح خود بھی موجود ہو۔ قربانی کے جانور کو بائیں پہلو پر قبلہ رخ لٹائیں اور بسم اللہ اللہ اکبر پڑھتے ہوئے تیز چھری سے ذبح کردیں۔ جانور کے سامنے چھری تیز نہ کریں اور نہ ہی ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیا جائے۔ ذبح کرنے والے کیلئے یہ کلمات کہنا مسنون ہے:

إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ. قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ. لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. اللهم لک ومنا بسم الله، الله اکبر.

جب ذبح کرچکے تو یہ دعا پڑھے:

اللهم تقبله منی کما تقبلت من حبيبک محمد صلیٰ الله عليه وآله وسلم وخليلک ابراهيم (عليه السلام)

قربانی اللہ کی رضا کیلئے کی جائے

قرآن مجید میں ہے:

لَنْ يَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.

’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔

(الحج، 22: 37)

یعنی قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور شروط تقویٰ کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں۔

مسائل و احکام قربانی

جس طرح قربانی مرد پر واجب ہے اسی طرح عورت پر بھی واجب ہے۔مسافر پر قربانی واجب نہیں لیکن اگر نفل کے طور پر کرے تو کرسکتا ہے ثواب پائے گا۔قربانی کے دن گزر جانے کے بعد قربانی فوت ہوگئی۔ اب نہیں ہوسکتی۔ لہذا اگر کوئی جانور قربانی کے لئے خرید رکھا ہے تو اس کو صدقہ کرے ورنہ ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے۔اگر میت کی طرف سے قربانی کی تو اس کے گوشت کا بھی یہی حکم ہے۔ البتہ اگر میت نے کہا تھا کہ میری طرف سے قربانی کردینا تو اس صورت میں کل گوشت صدقہ کرے۔قربانی کرنے والا بقر عید کے دن سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھائے یہ مستحب ہے۔آج کل اکثر لوگ کھال دینی مدرسہ میں دیتے ہیں یہ جائز ہے۔ اگر مدرسہ میں دینے کی نیت سے کھال بیچ کر قیمت مدرسہ میں دے دیں تو یہ بھی جائز ہے۔قربانی کا گوشت یا کھال قصاب یا ذبح کرنے والے کو مزدوری میں نہیں دے سکتا۔قربانی کی اور قربانی کے جانور کے پیٹ میں زندہ بچہ ہو تو اسے بھی ذبح کردے اور کام میں لاسکتا ہے اور مرا ہوا ہو تو پھینک دے۔خصی جانور کی قربانی افضل ہے کیونکہ اس کا گوشت اچھا ہوتا ہے۔قربانی کا گوشت تول کر برابر برابر تقسیم کرنا چاہئے۔

(قانون شريعت، حضرت مولانا شمس الدین)

شب عید کی فضیلت

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے دونوں عیدوں کی راتوں کو ثواب کا یقین رکھتے ہوئے زندہ رکھا (یعنی عبادت میں مصروف رہا) اس کا دل اس دن نہ مرے گا، جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے (یعنی قیامت کے دن خوف و گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا)‘‘

(الترغيب والترهيب)

نویں ذی الحج کا روزہ

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بقر عید کی نویں تاریخ کے روزے کے بارے میں فرمایا:

’’میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس (روزہ) کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ کردے گا‘‘

(صحيح مسلم)

یوم عید کی سنتیں

صبح سویرے اٹھنامسواک کرناخوشبو لگاناغسل کرنانئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہنناسرمہ لگاناایک راستہ سے آنا اور دوسرے راستے سے جاناعید کے بعد مصافحہ کرناعید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیرات کہناعیدالاضحی کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا اور نماز کے بعد قربانی کا گوشت کھانا مستحب ہے۔

سید شاہ مصطفیٰ علی سبز پوش علیہ الرحمہ خانقاہ رشیدیہ کے دینی افکار و خیالات کے مظہر۔از۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

پریس ریليز (مہراج گنج)خانقاہ رشیدیہ ہندوستان کی قدیم روحانی اور عملی خانقاہ ہے ۔ یہاں کے مشائخ نے اپنے علمی و دعوتی دونوں حیثیتوں کو ثابت کیا،اور ان دونوں میدانوں میں بےلوث خدمات انجام دیں ۔اس سلسلے کے مشائخ نے اعتقادی’ فقہی اور سوانحی کتابیں بھی لکھی ہیں۔انہیں مشائخ کرام میں ایک نابغئہ روزگار ‘ صاحب تصوف شخصیت سید شاہ مصطفیٰ علی شہید سبز پوش علیہ الرحمہ کی ہے’جو سیدشاہ شاہد علی سبز پوش رحمہ اللہ کے بیٹےو جانشیں اور خانقاہ رشیدیہ کے نویں سجادہ نشیں تھے۔مدرسہ صولتیہ مکئہ معظمہ کےسند یافتہ عالم ‘صوفی گر وعارف ساز بزرگ تھے۔مذکورہ تاریخی خیالات کا اظہار معروف ماہر اسلامیات مفتی قاضی فضل رسول مصباحی نے ایک پریس ریلیز میں کیا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ظاہری وباطنی علوم سے فراغت کے بعد حضرت سید شاہ مصطفیٰ علی سبز پوش نے بہار کے ضلع چمپارن کو اپنی علمی واعتقادی تحریک و تبلیغ کے لئے منتخب فرمایااور غیروں کے زور باطل کا طلسم اپنےزبردست دعوت و تبلیغ سے پاش پاش کردیا ۔جس سےہزاروں بندگان خداکو ہدایات کی لازوال دولت نصیب ہوئ اور خلق خداحضرت کی شرعی رہنمائ سے نہال اور خوش حال ہوگئ۔
بالآخر خانقاہ رشیدیہ کے افکارو خیالات کے یہ مظہر ۱۸ /ذوقعدہ سن ۱۳۷۸ ھجری مطابق ۱۱ /جولائ سن ۱۹۵۸ کو شہر گورکھ پور کےاندر شہادت کی سعادت سے ہمکنار ہوکر واصل بہ حق ہوئے ۔جون پور رشیدآباد میں مدفون ہوئے۔مفتی صاحب نے یہ بھی فرمایا۔ اس سلسلہ کے مشائخ کی علمی اور روحانی حیثیتوں کو ملک العلما ء علامہ ظفرالدین بہاری اور افضل العلما مفتی قاضی سمیر الدین احمد رشیدی علیہما الرحمہ جیسی عبقری شخصیات نے بھی تسلیم کیا، اور ان کے ادبی اورشعری شہ پاروں کو دیکھ کر غالب اور ناسخ جیسے فن کاران شعر و سخن نے رشک کیا ہے۔خود بانئ خانقاہ رشیدیہ شیخ محمد رشید علیہ الرحمہ نےفن مناظرہ کی مشہور کتاب “شریفیہ” کی ”مناظرہ رشیدیہ “کےنام سے جو شرح کی ہےوہ آج تمام مدارس اسلامیہ میں داخل نصاب ہے۔گنج رشیدی’گنج ارشدی ‘گنج فیاضی’کرامات فیاضی ‘ مناقب العارفین ‘سمات الاخیار’ عین المعارف اور دیوان فانی جیسی کتابیں لائق مطالعہ ہیں ۔آج بھی اس سلسلہ کی خانقاہیں اور روحانی مراکز مرجع خلائق ہیں
اللہ سے دعاء ہے کہ حضرت سید شاہ مصطفیٰ علی شہید علیہ الرحمہ کے بتائےہوئے راستے پر ہمیں گامزن رکھے۔ آپ علیہ الرحمہ اور دیگر بزرگان دین کے فیوض وبرکات سے مالامال فرماۓ

ماہ رمضان میں روزوں کے ایام کا تعین روایت ودرایت کے موافق۔۔ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی- استاذ دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی ،مہراج گنج،یوپی

۔ اسلامی اعمال واحکام میں ایام کا تعین چاند سے ،اور اوقات کاتقرر سورج کے اعتبا رسے ہوتا ہے ،ایام وشھور شرعا قمری لحاظ سےمتعین ہوتے ہیں،شب معراج،شب قدر،ایام بیض،یوم عاشورا،ایام عیدین اور ایام حج چاند سے تعین پانے کی صورتیں ہیں،اسی طرح فرض روزے کے دنوں کی تعئین کہ یہ پہلا روزہ،یہ اکیسواں روزہ،یہ ستائیسواں روزہ،یہ انتیسواں روزہ ہے،یہ سب بحساب قمری ماہ ، رمضان کے اعتبار سےہیں،ایام حج کی تقدیر بھی قمری ماہ ذی الحجہ کے حساب سے طے ہوتی ہے ۔اور یوں زباں زد خلائق ہوتے ہیں ،آج یوم الترویہ،آج یوم الحج اورآج یوم الاضحی ہے وغیر ذالک۔۔۔لیکن ۔جب ہمارا ذہن تعئین اوقات کی طرف مبذول ہوتاہےتو ان میں شمس یعنی سورج کا شرعا اعتبار کرتاہے۔ہم نمازوں کےاوقات کا قیام سورج کی گردش سے متعلق کر تے ہیں،فجر ،ظہر ،عصر ،مغرب،عشا اور دیگرنوافل جیسے اوقات سے موسوم کرتے ہوۓ انہیں گردش شمس کا نتیجہ تصور کرتے ہیں،آفتاب کی گردش کا دورانیہ کم ہو جاۓ تو نمازوں کے درمیان وقفہ کم ہو جاتا ہے،چنانچہ ہماری روز مرہ کی نمازیں سورج کے اعتبا ر سے ہیں۔یوں ہی رمضان یا غیر رمضان کے روزوں کا دورانیہ بھی سورج کے حساب سے ہی ہےیہی وجہ ہے کہ طلوع فجر سے آغاز صوم ،اور غروب آفتاب پر اس کا اختتام ہوتا ہے،اسی طرح حج کے اعمال میں بھی اوقات کا علآقہ سورج سے ہے کہ رمی کس وقت کرنی ہے ،مزدلفہ کب جانا ہے،عرفات سے کب لوٹنا ہے وغیرہ؟ عام طور پر یہ خیال فکر انسانی میں رچا بساہےکہ اسلام میں صرف چاند کا اعتبار ہے ،یہ خیال صحیح نہیں،چاند کا اعتبار دنوں کے تعین میں ہے ،مگر عبادات کے اوقات کے سلسلے میں ہماری روش گردش شمس کے مطابق ہے ،اس لحاظ سےہمارے عبادات شمس وقمر دونوں سےیکساں متعلق ہیں۔تاہم قمری سال شمسی سال سے قدرے چھوٹا ہوتا ہے،تقریبا دس دن کا فرق ہے،مفسرین کی بیان کردہ حکمتو ں میں سے ایک یہ ہےکہ قمری مہینہ ہر تینتیس سال میں ایک چکر مکمل کر لیتاہے ،یعنی تینتیس سال میں چار موسم( دنیا میں جہاں بھی چار موسم وقوع پذیرہوتے ہیں)کی گردش پوری کرلیتا ہے ،اگر ایک مسلمان بلوغیت کے مراحل سے گزرکرمزید تیںتیس سال کی اور زندگی پالےتو وہ سال کے ہر موسم کے روزے رکھ کر رضاۓ الہی کا حقدار بن جاۓگا،اسے سردو گرم ،اور چھوٹے،درمیانےولمبےسب ایام کے روزے رکھنےکے مواقع میسر ہو نگے،حج کابھی یہی معاملہ ہے،حج بھی تینتیس سال میں مختلف موسم کی گردش پوری کرتاہے،یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ فقہا فرماتے ہیں” زکوۃ کا حساب قمری سال کے مطابق کرنا چاہئے،اور ایسا کرنا شرعا ضروری ہے،ورنہ اگرہم شمسی سال کےاعتبار سےزکوۃکا حساب کریں گےتوتینتیس سال میں ایک سال کی زکوۃ کم ادا ہوگی ،ہماری زندگی کے عام حسابات شمسی مہینوں(جنوری اورفروری وغیرہ)کے حساب سےچلتے ہیں،اب اگر کوئ اپنی سالانہ زکوۃ بھی اسی حساب سے دیتاہے تو تینتیس شمسی سالوں میں چونتیس قمری سال گزریں گے ،اس حساب سےایک سال زکوۃ ادا ہونے سےرہ جاۓگی۔ آج اگر کوئ شریعت کو طبیعت کے موافق بنانے کی خواہش رکھے اورایک ماہ کے فرض روزے کوقمری سال کے ماہ رمضان کی جگہ شمسی سال کے فروری ماہ میں متعین کرنے کی علما سے گزارش کرے تو علما بیک زبان اس کی اس اپیل کو رد کر دیں گےکہ یہ عقل ونقل اور روایت ودرایت کے خلاف ہے،اس لۓکہ” ماہ رمضان کے روزے فرض قرار دیۓ گۓہیں”جعل اللہ صیامہ فریضۃ، فر ما کر آقاۓ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ” رمضان کے مہینہ کےروزے کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے”لہذا مروی حدیث کے الفاظ سےیہ عیاں ہو گیا کہ رمضان کے روزے فرض ہیں ،خواہ وہ شمسی ماہ کے جون ،جولائ اور اگست میں ہو ،جو نہایت سخت ایام والےماہ ہیں۔یا ۔جنوری وفروری میں جو سرد وراحت رساں ہیں،عقل ودرایت بھی اسی کی رہنمائ کرتی ہے کہ اگر فروری ماہ کا تعین فرض روزو ں کے لۓ کیا جاتا توروزے رکھنے والوں کو سال کے دیگر موسم سے لطف اندوز ہونے موقع نہیں ملتا جو یک گونہ حرما ں نصیبی ہوتی۔مفسرین کی تفسیر کے مطابق بنی اسرائیل میں بھی رمضان ہی کےروزے تھے ان کا رمضان بھی ساراسال گھومتا تھا،ان کے لۓ بھی جولائ اور اگست کے روزے تکلیف دہ تھے،انہوں نے اپنے علما کے سامنے کسی اچھے موسم میں روزے متعین کرنے کی تجویز پیش کی،اس تجویز پر بنی اسرائیلی علما نے فیصلہ کیا کہ ٹھیک ہے لوگوں کو یہ سہولت دے دیتےہیں کہ وہ کسی اچھے موسم میں روزے رکھ لیا کریں۔مگر جب انہوں نے دیکھا کہ یہ ہم روزوں کے اصل نظام میں گڑ بڑ کر رہے ہیں ،اس لۓ تیس روزے تو پورے رکھیں گے،لیکن ساتھ ہی دس روزےکفارے کےبھی رکھیں گے،چنانچہ یہ مذہبی عیسائ چالیس روزے رکھتے ہیں اور ایسٹر ان کی عید الفطر ہوتی ہے جو اپریل ماہ کےپہلے عشرے کے دوران کسی اتوار کو یہ قرار دیتے ہیں گویا مارچ کا مہینہ اور اپریل کا کچھ حصہ،یعنی تیس روزے مکمل اور ساتھ دس روزے کفارے کے بھی۔ تفسیری روایات پر ہماری نظر مرکوز رہے تو یہ امر بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ بنی اسرائیل میں بھی فرض روزے کا مہینہ قمری یعنی رمضان ہی تھا ،وہ بھی سال کے سارے موسم کادور کر لیتا تھا انہوں نے اپنی سہولت کے لۓ اس میں ردو بدل کیا،لیکن اسلام نے سابقہ حیثیت بحال کردی کہ فرض روزے قمری ماہ رمضان ہی میں ادا کۓ جائیں گے اور سارے موسم میں اس کی گردش جاری رہےگی اور روزہ دار تمام موسم کی تکلیف وراحت کا احساس کرتے ہوۓ روزہ رکھ کر رضاۓ خداوندی کے متلاشی بنیں گے،رات میں نیندسے جاگنے کے بعد رات کا باقی حصہ جو ابتداءاسلام میں روزےکاجزو تھا،اب اس کا دورانیہ کم کرکےمکمل رات روزے سے خارج کردی گئ ،اور فر مان خداوندی(روزے کو رات تک پورے کرو)امت محمدیہ کےلۓ سایئہ رحمت بن کر آئ ، رات کو کھانے پینے کی اجازت مرحمت ہوئ،اور فکر انسانی نے یہ باور کرلیا کہ طلوع فجر صادق سے روزہ شروع ہوگااور غروب آفتاب تک رہےگا تا قیام قیامت اس میں کسی قسم تبدیلی اور ردو بدل کی گذارش کی راہیں مسدود رہیں گی،اسلام نے روزے کے نظام میں یہ دوبڑی اصلاحات کی ہیں۔اللہ تعالی ہم سب کو شریعت مصطفویہ کے نظام پر قائم ودائم رکھے اور رمضان کی سعادتوں وبرکتوں سے بہرہ ور فرماۓ۔آمین

اسلام کا مقدس مہینہ ہوا ہم سب پر سایہ فگن ۔۔۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

پریس ریلیز {مہراج گنج}آج ٢ \اپریل سن ٢٠٢٢ء ۔مطابق ٢٩ \شعبان المعظم سن١٤٤٣ ھ کی شام افق غربی پر ہلال رمضا ن کی رویت ہوتے ہی اسلام کا مقدس مہینہ ہم سب پر سایہ فگن ہوگیا۔مسرت وشادمانی کے نور سے ہر دل منور ہوگیا ۔لذت سجود کے پاکیزہ خیال سے جبین نیاز بارگاہ الہی میں خم ہونے لگے،بھوک وپیاس کی شدت برداشت کرنے میں تقوی شعاری،وپرہیز گاری کا ربانی وعدہ ذہن وفکر کے دروازے پر دستک دینے لگا۔یکا یک انتییس شعبان شریف کی وہ حدیث پاک زبا ں زد ہونے لگی جسے آقاۓ نعمت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابئہ کرام کی محفل میں بیان فرمائ اور رمضا ن شریف اور روزے کی مکمل فضیلت واہمیت جاگزین قلب وجگر فرمادی۔راوئ حدیث حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انتیسویں شعبان شریف کو فرمایا ،اے لوگو تم پر ایک ایساعظیم،بابرکت مہینہ سایہ فگن ہورہاہے ،جس میں ایک ایسی مبارک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے،اللہ تعالی نے اس ماہ کے روزے فرض ،اور رات کو تراویح کی نماز نفل{سنت}قرار دیۓ ۔جو اس ماہ میں کوئ نفل عبادت کرے تو وہ ایسی ہے گویا اس نے دوسرے ماہ میں فرض ادا کۓ۔اور جس نے اس ماہ میں فرض ادا کۓ تو وہ دوسرے ماہ کے ستر فرض کے برابر ہے۔ یہ{رمضان} ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق{روزی} بڑھا دیا جاتاہے، یہ صبر کا مہینہ ہے،اور صبر کا ثواب جنت ہے،صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہے ۔اور صبر کرنے والوں کو بے حساب دیا جاۓگا۔جو اس ماہ میں کسی روزے دار کو افطار کراۓتو یہ افطار کرانا ان کےلۓ گناہوں سےبخشش کاسامان اور جہنم سے آزادی کا پروانہ ہوجاۓ گا۔مگر روزہ دار کے ثواب میں کوئ کمی نہ کی جاۓگی۔اور افطار کرانے والے کو اس کے علاوہ ثواب دیا جاۓگا۔صحابئہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ !ہم میں سے ہر شخص اس کی استطاعت{طاقت} نہیں رکھتا ۔بوجہ غربت کسی کو افطار نہیں کراسکتا تو کیاوہ اس ثواب سے محروم رہے گا ،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالی اسے بھی یہ ثواب دےگا جو کسی روزہ دار کو ایک گھونٹ دودھ ۔یا ۔ایک چھوہارہ ۔یا۔پانی سےہی افطار کرادے۔جو اس ماہ میں کسی روزہ دار کو شکم سیر {پیٹ بھر}افطار کراۓ تواللہ تبارک و تعالی اسے میرے حوض سے ایک ایسا شربت پلاۓگا کہ کبھی پیاسانہ ہوگا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجاۓگا۔اس ماہ کا اول عشرہ رحمت ،درمیانی عشرہ مغفرت{بخشش}اورآخری عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے۔جو اس ماہ رمضان میں کسی ماتحت ملاز م پر کام میں تخفیف{نرمی}کرےگا تواللہ اسے بخش دےگااور اسے جہنم سے آزاد کردے گا۔رمضان کی فضیلت واہمیت سے متعلق مذکورہ باتیں دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی کے استاذ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی نے ایک پریس ریلیز میں کہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم سب اس ماہ مبار ک کا احترام بجا لاکر رضاۓ الہی کے طلب گار بنیں ۔اور دارین کی سعادتوں سے بہرہ مند ہوں۔