WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives February 2022

معراج النبی کاپیغام:امت مسلمہ کے نام:از:- مولانا محمدشمیم احمدنوری مصباحی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت اور آپ کی حیاتِ بابرکت میں پیش آنے والے حیرت انگیز واقعات میں اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے عبرت اور نصیحت کے بے شمار پہلو رکھے ہیں، سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی چھوٹا بڑا واقعہ ایسا نہیں ہے جس میں رہتی دنیا تک کے لئے انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کو پیغام و سبق نہ ملتا ہو اللہ تعالی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ کی ذات کو انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا، جس کو دیکھ کر صاف و شفاف آئینہ میں صبح قیامت تک آنے والے لوگ اپنی زندگی کو سنوار سکتے ہیں اور اپنے شب و روز کو سدھار سکتے ہیں، الجنھوں اور پریشانیوں میں راہ عافیت تلاش کرسکتے ہیں، آلام و مصائب کے دشوار گزار حالات میں قرینۂ حیات پاسکتے ہیں، یورشِ زمانہ سے نبرد آزمائی اور فتنہ و فساد کے پر خطر ماحول میں حکمت و تدبر کے ذریعہ منزل تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ غرض یہ کہ سیرت کا کوئی واقعہ اور کوئی پہلو ایسا نہیں کہ جس میں مسلمانوں کے لئے ان گنت نصائح نہ ہوں۔ چنانچہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حیرت انگیز واقعات میں سے واقعۂ معراج بھی ہے،جو بہت ہی مشہور ومعروف ہے ۔اسے علمائے اسلام نے نہایت تفصیل سے تحریر فرمایا ہے اور اکثر واقعہ تفسیرِ قرآن کریم اور صحیح احادیث نبویہ میں موجود ہے۔اس سارے واقعہ سے دورِ حاضر کے مسلمانوں کو کیا سبق ملتا ہے ؟اور اِس واقعہ کو مدنظر رکھ کر آئندہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ،یہ سوالات نہایت اہم ہیں-
عربی لغت میں ’’معراج‘‘ ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جائے اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔ (ابن منظور، لسان العرب، ج2، ص322)یہ واقعہ جو اصطلاحا ’’معراج‘‘ اور ’’اسراء‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں جن کی تعداد 25 تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے مفصل ترین روایت حضرت انس بن مالک، حضرت مالک بن صَعصَعہ، حضرت ابو ذر غفاری اور حضرت ابو ہریرہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابو سعید خدری، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت عائشہ اور متعدد دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں
جو تاریخ انسانی کا نہایت محیرالعقول اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال معجزہ ہے اللہ تعالی نے اپنے نبی سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات ہی کے کچھ حصے میں جسم و روح کے ساتھ، بیداری کی حالت میں عالم بالا کی سیر کرائی اور اپنے قرب کا اعلی ترین مقام عنایت فرمایا، جنت و جہنم کا مشاہدہ کروایا، نیکوں اور بدوں کے سزا و جزا کا معائنہ کروایا، نبیوں سے ملاقات ہوئی، ہر جگہ آپ کی عظمت و رفعت کا چرچہ کروایا، رحمتوں کی بارش فرمائی اور انعامات و الطاف سے خوب نوازا اور امت کے لئے عظیم الشان تحفہ ’’نماز‘‘ کی شکل میں عطا کیا، اور قیامت تک کے لئے انسانوں کو اپنے معبود اور خالق سے رابطہ کرنے اور اپنے مالک سے راز و نیاز کرنے کا سلیقہ بخشا۔ واقعۂ معراج بے شمار سبق آموز پہلوؤں اور عبرت خیز واقعات کا مجموعہ ہے۔
اس واقعۂ معراج کی روشنی میں ہمارے لئے موجودہ عالمی حالات میں بھی کئی ایک نصیحت آموز ہدایات ملتی ہیں جس کے ذریعہ گرد و پیش میں چھائے ہوئے تاریک ماحول اور ظلم و ستم کی اندھیری رات میں ہم چراغ ایمان کو فروزاں کرسکتے ہیں اور مایوسی و ناامیدی کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں امید کی شمع روشن کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں واقعۂ معراج کے پس منظر کو ذہنوں میں تازہ کرنا پڑے گا اور ان حالات کی چیرہ دستیوں کو دیکھنا ہوگا جس کے بعد یہ ایک عظیم الشان سفر کروایا گیا-
ہمیں چاہییے کہ ہم آج جہاں معجزہ معراج النبی کا جشن منائیں وہیں لوگوں کو اس کے جامع پیغام کو اپنانے کی تاکید وتلقین کریں۔کیونکہ جس امت کے رسول معراج کی بلندیوں تک پہنچے اس امت کو پستیوں کا قیدی نہیں بنایا جاسکتا۔معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے سے امت کو بلندیوں کی طرف پرواز کرنے کا سبق ملتا ہے۔امت مصطفیٰ کی معراج اطاعت مصطفیٰ ؐمیں موجودہے۔جو عرش کی بلندیوں سے ساری کائنات کا مشاہدہ کر رہے تھے ان کا دیا ہوا نظام اور ضابطۂ حیات ہی سب سے جامع اور کامل ترین ہوسکتا ہے۔آپ کی وسعتِ نگاہ نے ہر خطے اور ہر صدی کے مسائل کا حل عطا فرمایا ہے۔معراج مصطفی نظام مصطفی کامل ہونے کی دلیل ہے۔معجزۂ معراج سے پتہ چلتا ہے کہ دینی احکام اور دنیاوی امور کے لحاظ سے کوئی شخص بھی علوم مصطفی کے ہم پلہ نہیں۔معراج کا جشن منانا بہت بڑی سعادت مندی ہے۔معجزہ معراج کے مطالعہ سے نسل نو کیلئے انکشافات کی راہیں کھلتی ہیں۔معراج کی رات کے مشاہدات نبوی میں امت کیلئے فکر آخرت کے بہت بڑے بڑے اسباق موجود ہیں۔سفرِ معراج میں دو مسجدوں کا ذکر واضح کر رہا ہے کہ امت کے دل میں مسجد کا شوق کس قدر ہونا چاہیے۔
اور حضور کے معراج سےواپسی پر اللّٰہ وعزوجل کی طرف سے نمازوں کاتحفہ ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس تحفہ کی قدر کرتے ہوئے نمازوں کی پابندی کریں-
مذکورہ باتیں علاقۂ تھار کی مرکزی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)کے ناظم تعلیمات اور معروف قلمکار حضرت مولانا محمدشمیم احمدنوری مصباحی نے ایک پریس ریلیز میں بتائی-

ذکر معراج میں ہے تصور نمازکا۔۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

”رجب المرجب “اسلامی سال کا ساتوا ں مہینہ ہے جس کی حرمت وعظمت اس سے ظاہر ہےکہ یہ” اشھر حرم“ سے ہے اس کی فضیلت واہمیت پر خود شارع اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقدس کلام ،حدیث پاک میں ارشاد فرمایا”رجب شھراللہ ،شعبان شھری ورمضان شھر امتی“ یعنی رجب اللہ کا مہینہ،شعبان میرا مہینہ اور رمضان شریف میری امت کا مہینہ ہے۔اس حدیث پاک میں رجب کی نسبت ذات باری عز اسمہ کی طرف ہونا اس کی رفعت شان کی دلیل ہے اور ایساہونا بتقاضاۓ عقل و فہم ہے کیو ں کہ آقاۓ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے” رجب“کی ستائیسویں شب کے ایک حصے میں مسجد حرام {مکہ مکرمہ}سے مسجد اقصی تک پھر یہاں سے آسمانوں کا سفر مسعود ہوتا ہوا سدرة المنتھی اور ملاء اعلی تک پہونچ کردیدار خداوندی سے مشرف ہونے کا شرف حاصل کیا، دیدار وہم کلامی کے اس تقدس مآب کیفیت کو پوری دنیا ”معراج مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم “کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے ۔اسی کی ترجمانی کرتے ہوۓ حضرت حسن بریلوی نےکیا خوب فرمایا ہے شعر۔بنا آسماں منزل ابن مریمگۓ لا مکاں تاجدار مدینہیہ معراج کس قدر بلند شان ہے کہ محب{اللہ جل شانہ} حبیب کو خود طلب کر دولت دیدار سےمشرف فرماتاہے جب کہ کلیم خود طالب دیدار ہوتے ہیں،اعلی حضرت فرماتے ہیں شعرتبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی۔کہیں تو وہ جوش لن ترانی کہیں تقاضے وصال کے تھے۔معراج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم، علو رتبہ کی وہ تشریح ہےجہاں ساری رفعت اور بلندی ہیچ ہے ،یہ مقام رفیعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کو حاصل ہوا نہ ہوگا،اس زاویہ سےبھی” رجب المرجب“کی اہمیت وافضلیت ظاہرہے کہ واقعئہ معراج اسی کی آغوش بابرکت میں فروکش ہے جس سے رجب کا حسن ملاح فزوں تر ہے۔اس آن میرا مطمح نظر یہ ہے کہ ذکر معراج تصور نماز سے غایت درجہ ملصق ہے گویا تصور نماز ،ذکر معراج کا جزء لا ینفک ہے۔یہی وجہ ہے کہ سفر معراج دو حصوں پر مشتمل ہے ایک مسجد حرام سے مسجد اقصی تک اور دوسرا وہاں سے عرش اعظم تک۔معراج جو ”عروج “ بلندی پر چڑھنے سے عبارت ہے اس کی حقیقی شکل یہی ”مسجد اقصی“ سے عرش اعظم تک کا سفر مسعود ہی ہے، اس سفر کی ابتدا آپ کی امامت نماز اور تمام انبیا علیہم السلام کی اقتدا سے ہوتی ہے اوراختتام بھی من جانب اللہ بتوسل نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بندگان الہیہ کے لۓ تحفئہ نماز پنجگانہ پر ہوتا ہے ۔یہ دونوں واقعات زباں زد خلائق ،خزینئہ اذہان اہل علم ہیں یا محفوظات اوراق کتب ہیں ۔اس لۓ یہ کہا جاسکتاہے کہ” ذکر معراج میں ہے تصور نماز کا“ مذکورہ باتیں دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم کے استاذ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی نے ایک پریس ریلیز میں بتائ ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیگر بابرکت راتوں کی طرح اس رات میں بھی نوافل کااہتمام کریں اور بکثرت عبادات نافلہ سے اپنے دامن مراد کو پر کریں ۔نوافل نمازوں کی زیادتی سے جبیں سائ کے ذریعے رب کی رضا کے حقدار بنیں۔ آمین

سنو بات ازہر کی اے عقل والو! :- (مفتی) کہف الوریٰ صاحب مصباحی بانکے نیپال

نیادور آیا نیا رنگ لایا

نئی فکر آئی نیا ڈھنگ آیا

نیا ہے سفر منزلیں بھی نئی ہیں

انوکھے مسافر کی راہیں نئی ہیں

نہ کوئی مشن ہے نہ منصوبہ کوئی

نئی نسل کھیلوں کی دنیا میں کھوئی

نیا رنگ تہذیب اور یہ تمدن

نئے باب کا یہ نرالا تفنن

کوئی باہنر اب نہیں اپنی حد میں

ہر اک شخص ہے اختلافوں کی زد میں

اماموں کی جھولی میں خیراتی چندے

مدرسوں سے صدروں کے چلتے ہیں دھندے

کسی کو نہیں فکر اسلام ہے اب

شریعت نہ قرآن سے کوئی مطلب

نہ بد عملیوں پہ کبھی ان کو روکو

خلاف طبع ان کو ہرگز نہ ٹوکو

یہ چاہیں تو لمحوں میں کچھ بھی خریدیں

اماموں کو عالم کو گالی بھی دے دیں

بڑے مال ور دکھتے ہیں شادیوں میں

مگر مفلسی دین کی وادیوں میں

طوائف، مزارات، قوالیوں پر

لٹی دولتیں ان کی بدکاریوں پر

سیاست تجارت نہ اسکول ان کے

سکھائےبھلا کون اب رول ان کے

وہ غفلت کی چادر میں سوئے پڑے ہیں

تقاضوں سے رخ اپنا موڑے ہوئے ہیں

تدبرسے بوڑھوں کا خالی ذہن ہے

جوانوں نے بے کاری کو سمجھا فن ہے

خواتین چغلی میں غیبت میں ماہر

فسادات ہیں ان کی باتوں سے ظاہر

جو بچے ہیں ان کو بھلا فکر کیا ہو

وہ بھولیں سبق کیوں جو ماں نے دیا ہو

ہر اک فرد ہے رنگ دنیا کا عادی

کہے بھولا بن کے وہ سب کو فسادی

پڑھائی لکھائی سے کوسوں کی دوری

فقط گیم کو ہے سمجھتا ضروری

نہ فکر معیشت نہ ذوق ریاست

نہ پاس شریعت نہ دیں کی رعایت

نوابی میں ملتا نہیں کوئی ثانی

لکھوں کیا کیا میں ان کی جھوٹی کہانی

لباس ان کا ہے بےحیائی کا درپن

یہ پچپن کے ہو کے دکھاتے ہیں بچپن

سنو بات ازہر کی اے عقل والو

پڑھو اور بڑھو نسل نوکوسنبھالو

شادیوں کو خرافات سے پاک کرکے مجالس خیر کا اہتمام کریں:پیرسیّدنوراللّٰہ شاہ بخاری_______________________________۲۵ فروری ۲۰۲۲ عیسوی بروز جمعہ

حضرت مولانا مبارک حسین قاری اشفاقی کونرا،چوہٹن،باڑمیر کے دولتکدہ پر ان کے برادران کی شادی خانہ آبادی کے موقع پر ایک دینی و اصلاحی پروگرام ہوا-جس میں راجستھان کی ممتاز دینی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ “کے مہتمم وشیخ الحدیث نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری سجادہ نشین: خانقاہ عالیہ بخاریہ سہلاؤشریف نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ “اسلام میں شادی یعنی نکاح بہت آسان اور کم خرچ عمل تھا۔لیکن جہاں آج ہم زندگی کے ہر شعبے میں زوال کا شکار ہوئے، وہیں عیش پرستی بھی ہمارے اندر گھر کرتی گئی۔ ہم نے اپنے ہر عمل کو دکھاوا بنا لیا ہے۔ اسلام جس نے ذات، برادری، حسب و نسب،اعلیٰ و ادنیٰ کے فرق کو ختم کرکے دنیا کو ایک ایسا طرزِ حیات دیا تھا، جس نے معاشرے میں اونچ نیچ کو ختم کر کے مساوات کو فروغ دیا تھا۔پھر ہمارے اسلاف کے عمل نے ایسا تاثر قائم کیا کہ غیر مذاہب کے لوگ، خواہ ایمان نہ لاتے ہوں،مگر اسلام کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔پہلے مسلمان، ایمانداری، دیانت داری، ضمانت، شرافت کا نمونہ ہوا کرتا تھا۔ لوگ آنکھ موند کر یقین کر لیا کرتے تھے۔۔ مساوات کا جو سبق اسلام نے دنیاکو دیا تھا، وہ بے مثل تھا۔ جس کا عملی نمونہ جب مسلمانوں میں عام ہوا تو ساری دنیا نے اسلام کے طرز حیات کو تسلیم کیا۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز شادی بیاہ کی سادگی بھی دنیا کے لیے مثال تھی۔لیکن اِدھر مسلم معاشرے کو لا مذہبیت، فیشن پرستی، ریاکاری، فضول خرچی، عیش و عشرت نے دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر بالکل کھوکھلا کر دیا ہے۔ اب ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ ہمارے اعمال نے ہماری شناخت، ماضی کے برعکس، بے ایمان، غاصب، بدزبان، لڑاکو کے طور پر کرادی ہے۔ شادی بیاہ کا معاملہ تو اس قدر غلط راہ پر چل پڑا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ پھر سب سے خطرناک صورت یہ ہے کہ ہم غلط کو بھی صحیح سمجھ رہے ہیں۔ جو کچھ ہم کرتے ہیں اُسے اچھا جانتے ہیں۔موجودہ دور میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجودشادی بیاہ و دیگر تقریبات کے موقعے پر انتہائی اسراف اور فضول خرچی سے کام لیا جارہا ہے۔ جس کے نتیجے میں معاشرے میں موجود افراد کی ایک کثیر تعداد کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خصوصًا نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے حضرات کے لیے یہ رسومات دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔ شادی بیاہ کا مروجہ نظام غریب لوگوں کی شادی میں ایک رکاوٹ بن چکا ہے،جسے ختم کرنا ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ ان رسومات کی وجہ سے جتنے بھی لوگ متاثر ہونگے ان کا وبال رسم و رواج پر عمل کرنے والوں پر بھی ہوگا۔ان رسموں میں کس قدر مال خرچ کیا جاتا ہے جب کہ قرآنِ کریم میں اسراف وتبذیر کی صراحۃً ممانعت وارد ہے ۔ ارشادِ خداوندی ہے : ﴿وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا  اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ  وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّه کَفُوْرًا﴾ ( بنی اسرائیل : ۲۶-۲۷ ) اور ( اپنے مال کو فضول اور بے موقع ) مت اُڑاؤ ، یقیناً بے جا اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے ۔ اِسی بنا پر حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : “إِنَّ أَعْظَمَ النِّکَاحِ بَرَکَةً أَیْسَرُه مَؤنَةً”. ( مشکوٰة شریف ۲ ؍ ۲۶۸ ) یعنی سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت (کم خرچہ اور تکلف نہ) ہو ۔ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُس نکاح کو برکت والا قرار دیا جس میں فریقین کا خرچ کم ہو چنانچہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بڑی برکت والا وہ نکاح ہے جس میں بوجھ کم ہو۔ (مسند احمد، ج9،ص365، حدیث:24583) حکیم الامّت مفتی احمد یار خان علیہ الرّحمہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: یعنی جس نکاح میں فریقین کا خرچ کم کرایا جائے، مہر بھی معمولی ہو، جہیز بھاری نہ ہو، جانبین میں سے کوئی جانب مقروض نہ ہوجائے، کسی طرف سے شرط سخت نہ ہو، ﷲ (عَزَّوَجَلَّ) کے تَوَکُّل پر لڑکی دی جائے وہ نکاح بڑا ہی بابرکت ہے ایسی شادی خانہ آبادی ہے، آج ہم حرام رسموں، بے ہودہ رواجوں کی وجہ سے شادی کو خانہ بربادی بلکہ خانہا (یعنی بہت سارے گھروں کے لئے باعثِ) بربادی بنالیتے ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی اس حدیثِ پاک پر عمل کی توفیق دے۔(مرأۃ المناجیح، ج5،ص11) اگر ”کُل جہاں کے مالک“ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شہزادی حضرت سیّدتنا فاطمہ زَہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کے مبارک نکاح اور دیگر صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی شادیوں کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ شادی کرنا آسان ہے کیونکہ ہمارے لئے رہبر و رہنما یہی ہستیاں ہیں جن کی اتباع دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔ یاد رکھئے! شادی کے لئے شریعت نے نہ تو کسی شادی ہال کو لازم قرار دیا ہے اور نہ ہی نمود و نمائش، آتش بازی اور فضول خرچیوں کو شادی کا حصہ قرار دیا ہےبلکہ ان میں سے بعض صورتیں تو ناجائز وحرام ہیں۔جب شریعت کا حکم اسراف وتبذیر سے بچنے کا اور نکاح کو آسان بنانے کا ہے ، تو ہمارے یہاں نکاح کی تقریبات جن میں کھل کر فضول خرچیاں ہوتی ہیں اور احکامِ شریعت کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ، اُن سے ہمارے اور آپ کے آقا نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی خوشی کیسے نصیب ہوسکتی ہے ؟ اور جس تقریب سے اللہ اور رسول راضی نہ ہوں ، تو اگر اس سے پوری دنیا بھی خوش ہوجائے ، اس تقریب میں برکت نہیں آسکتی ، اس کے برخلاف جس تقریب سے اللہ اور اس کے پیغمبر خوش ہوں تو وہی بابرکت ہوگی اگرچہ پوری دنیا ناراض ہوجائے۔اس لیے ہمیں چاہییے کہ ہم اپنی شادیوں کو بے جا وغیر شرعی رسومات بالخصوص ناچ گانے سے پاک کر کے ایسے مواقع پر مجالس خیر کا انعقاد کیا کریں جیسے مولانا مبارک حسین صاحب قادری اور ان کے اہل خانہ نے کیا ہے تاکہ ان مجالس کے ذریعہ لوگوں کی اصلاح ہو اور ویسے بھی ایسے مجالس جن میں اللہ ورسول کا ذکر کیا جائے، ذکر واذکار اور درود شریف پڑھاجائے وہ باعث خیر وبرکت ہوا کرتےہیں-مولانا مبارک صاحب نے یہ ایک اچھی پہل کی ہے کیونکہ جو کوئی بھی کسی نیک کام کی شروعات کرکے اسے رواج بخشنے کی کوشش کرے، اس کو دیکھ کر اگر دوسرے لوگ بھی اس نیک کام کو کرنے لگیں تو اس نیک کا م کے کرنے والے کو جس طرح ثواب ملے گا اسی طرح اس کو رواج بخشنے والے کو بھی ،اسی طرح اگر کوئی کسی برائی کو عام کرے تو اس برائی پر عمل کرنے والا تو گنہگارہو گا ہی اس کے ساتھ اس برائی کو عام اور رواج دینے والا بھی گناہوں کامستحق ہوگا-اس لیے ہم سبھی لوگوں کو چاہییے کہ اگر ہم سے نیکی کے کام نہ ہوسکیں تو کم از کم کسی برائی یا بری رسم کی تو شروعات نہ کریں”-اس دینی ومذہبی پروگرام میں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے مولانا مبارک حسین صاحب قادری نے بھی لوگوں کو یہی پیغام دیا کہ “ہم سبھی لوگوں کو چاہییے کہ شادی بیاہ کے مواقع پر ہمارے معاشرے میں جو خرافات در آئے ہیں ان سے حتی الامکان پرہیز کریں”اس پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ مداح رسول حافظ روشن صاحب قادری میٹھے کا تلا نے نعت ومنقبت کے نذرانے پیش کیے-جب کہ اس دینی ومذہبی پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-حضرت مولانا غلام رسول قادری خطیب وامام:جامع مسجد ایٹادہ،حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب خطیب وامام جامع مسجد کونرا،حضرت مولانادلاور حسین قادری صدرالمدرسین:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،حضرت حافظ وقاری کبیر احمدسکندری صدرالمدسین:مدرسہ فیضان حذب اللہ شاہ لاٹھی،جیسلمیر،مولانا محمدشاکر صاحب سہروردی اشفاقی ،قاری محمّد شریف اشفاقی کونرا،مولانادوست محمداشفاقی ایٹادہ، قاری ارباب علی قادری انواری وغیرہم-صلوٰة وسلام اور قبلہ پیرسیدنوراللہ شاہ بخاری کی دعا پر یہ مجلس خیر اختتام پزیر ہوئی-

رپورٹر:محمدعرس سکندری انواری متعلم درجۂ فضیلت:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، پوسٹ:گرڈیا، ضلع:باڑمیر(راجستھان)

अपनी शादी विवाह को खुराफात से पाक कर के नेक मज्लिसों का एहतिमाम करें:अ़ल्लामा सय्यद पीर नूरुल्लाह शाह बुखारी।25 फरवरी 2022 ईस्वी दिन:जुम्आ़ [शुक्रवार]

हज़रत मौलाना मुबारक हुसैन साहब कोनरा,चौहटन,बाड़़मेर के भाइयों की शादी के मुबारक मौक़े पर एक दीनी व इस्लाही प्रोग्राम हुवा।जिस में राजस्थान की मुम्ताज़ दीनी दर्सगाह “दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा ” के मुहतमिम व शैखुल हदीष पीरे तरीक़त नूरुल उ़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाब बुखारी सज्जादा नशीन:खानक़ाहे आ़लिया बुखारिया सेहलाऊ शरीफ ने खिताब करते हुए फरमाया कि ” इस्लाम में शादी यानी निकाह बहुत आसान और कम खर्च वाला अ़मल (काम) था -लेकिन आज हम ज़िंदगी के हर शोअ़्बे में पस्ती का शिकार हुए,वहीं एैश परस्ती भी हमारे अंदर आ गई है-हम ने हर अ़मल व काम को दिखावा बना लिया है-मौजूदा दौर में बढ़ती हुई मंहगाई के बा वजूद शादी विवाह व दोसरे तक़रीबात के मौक़े पर इंतिहाई इसराफ व फुज़ूल खर्ची से काम लिया जा रहा है-जिस के नतीजे में मुआ़शरे में मौजूद अफराद की एक बहुत बड़ी तादाद को काफी मुश्किलों का सामना करना पड़ता है,खास तौर पर निचले तबक़े से तअ़ल्लुक़ रखने वाले हज़रात के लिए यह रुसूमात दर्दे सर बनी हुई हैं,शादी विवाह का मुरव्वजा निज़ाम ग़रीब लोगों की शादी में एक रुकावट बन चुका है,जिसे खतम करना हम में से हर एक की ज़्म्मेदारी है, क्यों कि इन रुसूमात की वजह से जितने भी लोग मतअष्षिर होंगे उन का वबाल रस्म व रिवाज पर अ़मल करने वालों पर भी होगा। इन रस्मों में किस क़दर माल खर्च किया जाता है जब कि कुरआने मुक़द्दस में फुज़ूल खर्ची करने वालों को शैतान का भाई कहा गया है,इसी वजह से हुज़ूर नबी-ए-करीम सल्लल्लाहु अ़लैहि वसल्लम ने इरशाद फरमाया “सब से बा बरकत निकाह वह है जिस में सब से कम मुशक़्क़त [कम खर्च और तकल्लुफ] हो-आज हम हराम रस्मों व बेहूदा रिवाजों की वजह से शादी को खाना आबादी की जगह “खाना बरबादी” बल्कि खानहा बरबादी यानी बहुत सारे घरों के लिए बरबादी का सबब बना लेते हैं।अगर हम अपने आक़ा हुज़ूर नबी-ए-रहमत सल्लल्लाहु अ़लैहि वसल्लम की शहज़ादी खातूने जन्नत हज़रत सय्यदतुना फातमा ज़हरा के मुबारक निकाह और दीगर सहाबा-ए-किराम की शादियों को देखा जाए तो पता चलता है कि शादी करना आसान है क्यों कि हमारे लिए रहबर व रहनुमा यही हस्तियाँ हैं जिन की इत्तिबाअ़ दुनिया व आखिरत में कामियाबी का ज़रिआ़ है -याद रखिए! शादी के लिए शरीअ़त ने बहुत बड़े टेंट व डेकूरेशन को लाज़िम नहीं क़रार दिया है और न ही नाम व नमूद व नुमाइश, और न ही आतिश बाज़ी और फुज़ूल खर्चियों को शादी का हिस्सा क़रार दिया है बल्कि इन में से बहुत सी सूरतैं नाजाइज़ व हराम हैं-जब शरीअ़त का हुक्म इसराफ व फुज़ूल खर्ची से बचने का और निकाह को आसान बनाने का है तो हमारे यहाँ निकाह की तक़रीबात जिन में खुल कर फुज़ूल खर्चीयाँ होती हैं और नाच गाना करवाई जाती हैं और अहकामे शरीअ़त की धज्जियाँ उड़ाई जाती हैं उन से हमारे और आप के आक़ा की खुशी कैसे नसीब हो सकती है? और जिस तक़रीब [प्रोग्राम] से अल्लाह व रसूल राज़ी न हों तो उस से पूरी दुनिया भी अगर खुश हो जाए तो भी उस तक़रीब में बरकत नहीं आ सकती,इस के बर खिलाफ जिस तक़रीब से अल्लाह व रसूल खुश हों तो वही बा बरकत होगी अगरचे पूरी दुनिया नाराज़ हो जाए- इस लिए हमें चाहिए कि हम अपनी शादियों को बेजा व ग़ैर शरई रुसूमात बिल खुसूस नाच गाने से पाक कर के एैसे मौक़ों पर नेक मज्लिसों का इन्इक़ाद व एहतिमाम किया करें जैसे मौलाना मुबारक साहब क़ादरी और इन के घर वालों ने किया है ताकि इन मज्लिसों के ज़रिआ़ लोगों की इस्लाह हो , और वैसे भी एैसी मज्लिसैं जिन में अल्लाह व रसूल का ज़िक्र किया जाए,ज़िक्र व अज़कार और दरूद शरीफ पढ़ा जाए वोह बाइषे खैर व बरकत हुवा करते हैं।मौलाना मुबारक साहब ने यह एक अच्छी पहल की है,अल्लाह तआ़ला इन शादीयों को बाइषे खर व बरकत बनाए।आप ने अपने खिताब में शादी से मतअ़ल्लिक़ और भी बहु सी इस्लाही बातैं कीं।इस दीनी व मज़हबी प्रोग्राम में इफ्तिताह़ी[शुरुआ़ती] तक़रीर करते हुए हज़रत मौलाना मुबारक हुसैन साहब क़ादरी अशफाक़ी ने भी लोगों को यही पैग़ाम दिया कि”हम सभी लोगों को चाहिए कि शादी विहाह के मौक़ों पर हमारे मुआ़शरे में जो खुराफात आ गए हैं उन से हत्तल इम्कान[जहाँ तक हो सके] परहेज़ करें”इस प्रोग्राम में खुसूसियत के साथ मद्दाहे रसूल जनाब हाफिज़ रोशन साहब क़ादरी मिठे का तला ने नअ़त व मन्क़बत के नज़राने पेश किए-जब कि इस पेरोग्राम में यह हज़रात शरीक हुए-★हज़रत मौलाना ग़ुलाम रसूल साहब क़ादरी खतीब व इमाम: जामा मस्जिद ईटादा,☆हज़रत मौलाना अ़ब्दुल हलीम साहब खतीब व इमाम: जामा मस्जिद कोनरा,★हज़रत मौलाना दिलावर हुसैन हुसैन साहब क़ादरी सदर मुदर्रिस:दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ,☆हज़रत हाफिज़ व क़ारी कबीर अहमद साहब सिकन्दरी अशफाक़ी सदर मुदर्रिस:मदरसा फैज़ाने हिज़्बुल्लाह शाह लाठी,जैसलमेर,★मौलाना शाकिर साहब सुहर्वर्दी,☆क़ारी मुहम्मद शरीफ अशफाक़ी कोनरा,★ मौलाना दोस्त मुहम्मद अशफाक़ी ईटादा,☆क़ारी अरबाब अ़ली क़ादरी अनवारी सोभाणी वग़ैरहुम-सलातो सलाम और क़िब्ला पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी की दुआ़ पर यह मज्लिस इख्तिताम पज़ीर हुई।रिपोर्टर:मुहम्मद उ़र्स सिकन्दरी अनवारीमुतअ़ल्लिम दरजा-ए-फज़ीलत:दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा पच्छमाई नगर,सेहलाऊ शरीफ,पो:गरडिया [तह:रामसर]ज़िला:बाड़मेर (राज:)

लालासर बाड़मेर में जश्ने ग़ौषे आज़म…………………………………………………बेजा और ग़ैर शरई रस्म व रिवाज से परहेज़ इन्तिहाई ज़रूरी:अ़ल्लामा पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी

23 फरवरी 2022 ईस्वी दिन:बुध आ़ली जनाब मुहम्मद याक़ूब खान नोहड़ी ने अपने गाँव लालासर में अपने मुर्शिदाने तरीक़त ” मशाइखे सिल्सिला-ए- आ़लिया क़ादरिया साँगरा शरीफ” बिल खुसूस सिलसिला-ए-क़ादरिया के बानी हुज़ूर ग़ौषे आज़म सय्यदुना शैख अ़ब्दुल क़ादिर जीलानी की याद में एक अ़ज़ीमुश्शान जल्सा बनाम “जश्ने ग़ौषे आज़म” का इन्इक़ाद व एहतिमाम किया।इस जल्से की शुरूआ़त तिलावते कलामे रब्बानी से की गई।बादुहू दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ व दारुल उ़लूम फैज़े ग़ौषिया खारची के कई होनहार तुल्बा ने यके बाद दीगरे नअ़त व मनाक़िब और तक़ारीर पेश कीं।फिर उ़ल्मा-ए-किराम में दर्ज ज़ैल उ़ल्मा-ए-ज़विल एहतिराम ने इस्लाहे मुआ़शरा,दीनी व दुनियावी तअ़लीम की ज़रूरत व अहमियत और तअ़लीमाते औलिया-ए-किराम जैसे उ़न्वानात पर उ़म्दा खिताबात किए।★खतीबे ज़ीशान हज़रत मौलाना अल्हाज मुहम्मद आदम साहब क़ादरी,अलजामिअ़तुल इस्हाक़िया [अशफाक़िया हास्टल] जोधपुर, ☆साबिक़ क़ाज़ी-ए- शहर पाली हज़रत मौलाना मुहम्मद अय्यूब साहब अशरफी अ़ली नगर,हाथमा, ★हज़रत मौलाना अ़ली हसन साहब क़ादरी, मुदर्रिस:जामिआ़ इस्हाक़िया जोधपुर, ☆हज़रत मौलाना वली मुहम्मद साहब सदर मुदर्रिस:दारुल उ़लूम फैज़े ग़ौषिया खारची,★हज़रत मौलाना कमालुद्दीन साहब ग़ौषवी, सूड़ियार,☆मौलाना मुहम्मद रियाज़ुद्दीन सिकन्दरी अनवारी, ★मौलाना दिलदार हुसैन अनवारी वग़ैरहुम……आखिर में खुसूसी तक़रीर राजस्थान की अ़जीम व मुम्ताज़ दीनी दर्सगाह “दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ” के मुहतमिम व शैखुल हदीष पीरे तरीक़त रहबरे राहे शरीअ़त नूरुल उ़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी मद्द ज़्ल्लहुल आ़ली की हुई।आप ने इन्तिहाई नासिहाना तक़रीर की जिसे उ़ल्मा व अ़वाम ने बहुत पसंद किया और उन नसीहतों पर अ़मल की यक़ीन दहानी की। आप ने अपने खिताब के दौरान यह भी फरमाया की “हम सभी मुसलमानों को चाहिए कि अपने दिलों में अल्लाह का खौफ और अल्लाह व रसूल की मुहब्बत,सहाबा-ए-किराम, अहले बैते अतहार नीज़ औलिया-ए-किराम की मुहब्बत और अपने मुर्शिदाने तरीक़त की तअ़ज़ीम व तकरीम और उन से उल्फत व मुहब्बत करें, और मुहब्बत दिल से और सही़ह मानों में करें, और सही़ह मुहब्बत यह है कि मुहब्बत के तक़ाज़ों पर ग़ौर व फिक्र कर के उस पर अमल पैरा हो जाएं, वरना सिर्फ ज़बान से मुहब्बत का दावा किसी काम का नहीं,और मुहब्बत का तक़ाज़ा यह है कि उन के फरमूदात व इरशादात पर अ़मल करें और उन के बताए हुए मार्ग[रास्ते]पर चलें।आप ने अपने आखिरी जुम्लों मे इन चीज़ों के बारे में बहुत ही उ़म्दा नसीहत किया।(1):अपने बच्चों की दीनी व दुनियावी तअ़लीम पर खूब तवज्जोह दें, क्यों कि तअ़लीम रोशनी है और जहालत तारीकी-(2):आपसी इत्तिफाक़ व इत्तिहाद और भाईचारा हर हाल में बर क़रार रखें, क्यों कि “इत्तिफाक़ ज़िंदगी है और इख्तिलाफ मौत”-(3):अपने खालिक़ व मालिक [अल्लाह तआ़ला] की खूब इबादत करें,खास तौर पर नमाज़े पंजगाना की पाबंदी करें,जुम्ला अवामिरे शरइय्या पर अ़मल और मन्हिय्यात से परहेज़ करें-अपने से बड़ों की तअ़ज़ीम और छोटों पर रहम व शफक़त और अपने माँ बाप की खिदमत करने के साथ उ़ल्मा-ए-किराम का अदब व एहतिराम करें-(4):अपने बच्चों की शादी वक़्त पर करें, यानी जब वोह शादी के लाएक़ हो जाएं तो बिला वजह ताखीर न करें और सुन्नते रसूल पर अ़मल करते हुए शादीयों में नाम व नमूद के लिए बिल्कुल फुज़ूल खर्ची न करें।(5):अपने अ़ज़ीज़ व अक़ारिब में किसी की मौत के बाद बिला वजह और ग़ैर शरई रस्म व रिवाज व खुराफात से परहेज़ करें और हरगिज़ हरगिज़ एैसे मौक़ों पर फुज़ूल खर्ची कर के अपने मालों को बरबाद न करें,और अगर अल्लाह तआ़ला ने आप को माल व दौलत से नवाज़ा है और आप खर्च करना चाहते हैं तो उसे अपने मरहूमीन के ईसाले षवाब के लिए नेक मसारिफ व कामों मे खर्च कर के खुद भी षवाबे दारैन के मुस्तहिक़ हों,जैसे मस्जिद, मदरसा की तअ़मीर या किसी ज़रूरत में हिस्सा लें या किसी ग़रीब तालिबे इल्म की किफालत की ज़िम्मेदारी क़बूल कर लें या किसी भी मुहताज, फक़ीर, व ज़रूरत मंद की ज़रूरत पूरी कर दें।निज़ामत के फ्राइज़ हज़रत मौलाना मुहम्मद हुसैन साहब क़ादरी अनवारी निगराँ शाखहा-ए-दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ व हज़रत मौलाना मुहम्मद यूसुफ साहब क़ादरी देरासर ने मुश्तरका तौर पर ब हुस्न व खूबी अंजाम दिया।इस दीनी प्रोग्राम में यह हज़रात खुसूसियत के साथ शरीक हुए।★हज़रत सय्यद सोहबत अ़ली शाह मटारी आ़लमसर,☆हज़रत मौलाना अल्हाज सखी मुहम्मद साहब क़ादरी बीसासर,★हज़रत मौलाना मुहम्मद शमीम अहमद साहब नूरी मिस्बाही सेहलाऊ शरीफ,हज़रत मौलाना अल्हाज मुहम्मद रमज़ान साहब क़ादरी,☆मौलाना अ़ब्दुल हकीम क़ादरी झेलून,★मौलाना मुहम्मद हाकम क़ादरी,☆क़ारी मुहम्मद यामीन क़ादरी अनवारी देतानी,★क़ारी अरबाब अ़ली क़ादरी अनवारी, ☆मौलाना मुराद अली क़ादरी अनवारी,★मौलाना अ़ब्दुल वकील क़ादरी अनवारी लालासर,☆मौलाना अ़ब्दुल मजीद क़ादरी करीम का पार★मौलाना मुहम्मद उर्स सिकन्दरी अनवारी, ☆अल्हाज खलीफा रोशन खान खलीफे की बावड़ी,★जनाब मुहम्मद सलमान साहब प्रधान,☆हाजी कबीर खान तोगा जैसलमेर व जनाब खलीफा मुहम्मद सिद्दीक़ धोबली वग़ैरहुम।सलातो सलाम और क़िब्ला पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी की दुआ़ पर यह जल्सा इख्तिताम पज़ीर हुवा।

रिपोर्टर:मुम्मद नसीर अनवारीS/O: मुहम्मद आदम [तालसर]मुतअ़ल्लिम दरजा-ए-फज़ीलत: दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ,पो:गरडिया[तह:रामसर]ज़िला:बाड़मेर(पाज:)

कामियाबी के लिए आपसी इत्तिफाक़ और दीनी व अ़सरी तअ़लीम की ज़रूरत:अ़ल्लामा पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी!

नेगरड़ा,शिव,बाड़मेर:20 फरवरी 2022 ईस्वी दिन:रविवार हज़रत मौलाना सूफी अ़ब्दुल करीम साहब के बच्चों की शादी खाना आबादी के मुबारक मौक़े पर जश्ने ईद मीलादुन्नबी व सुन्नते रसूल सल्लाल्लाहु अ़लैहि वसल्लम मनाया गया।इस जश्न की शुरुआ़त तिलावते कलामे पाक से की गई।फिर यके बाद दीगरे हज़रत पीर सय्यद मुहम्मद अशरफ साहब जमाली जामसर,बीकानेर व मद्दाहे रसूल जनाब क़ारी मुहम्मद अमीरुद्दीन सिकन्दरी ने बारगाहे रसूल में नअ़ते रसूल के नज़राने पेश किए।बादहु हज़रत मौलाना शाहमीर साहब सिकन्दरी सदर मुदर्रिस:दारुल उ़लूम क़ादरिया फैज़े सिकन्दरिया जैसलमेर ने बहुत ही इस्लाही खिताब किया।फिर दारुल उ़लूम फैज़े राशिदिया सम के साबिक़ सदर मुदर्रिस पैकरे इख्लास व मुहब्बत हज़रत मौलाना अल्हाज मुहम्मद पठान साहब सिकन्दरी सरबराहे आला: मदरसा अहले सुन्नत फैज़े गुल्शने सिकन्दरी लाखाणियों की बस्ती,रीवड़ी,फतेहगढ़,जैसलमेर ने ज़िक्रे इलाही की अहमियत व फज़ीलत को बयान करते हुए कहा कि “बेशक अल्लाह का ज़िक्र ही एक एैसा अ़मल है कि जिस से दिलों को चैन व सुकून नसीब होता है,और यही क़ुरआन का फैसला भी है,लिहाज़ा हम सिकन्दरियों के पीराने तरीक़त ने हमें जो ज़िक्र की तअ़लीम व ताकीद की है हमें चाहिए कि हम नमाज़ें की पाबंदी करते हुए बराबर ज़िक्र करते रहें “आखिर में दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा के मुहतमिम व शैखुल हदीष व खानक़ाहे आ़लिया बुखारिया सेहलाऊ शरीफ के साहिबे सज्जादा नूरुल उ़ल्मा पीरे तरीक़त हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी मद्द ज़िल्लहुल आ़ली ने खुसूसी व सदारती खिताब फरमाया।आप ने अपने खिताब में आपसी इत्तिफाक़ व इत्तिहाद और अपने बच्चों को दीनी व अ़सरी तअ़लीम दिलाने पर ज़ोर देते हुए फरमाया कि ” किसी भी काम में कामियाबी व कामरानी हासिल करने का उम्दा और बेहतर तरीक़ा इत्तिफाक़ व इत्तिहाद है,जिस क़ौम या जमाअ़त में इत्तिफाक़ व इत्तिहाद नहीं वोह कमज़ोर है, इत्तिफाक़ व इत्तिहाद की बरकत से हम हर एक मंज़िल पर कामियाबी हासिल कर सकते हैं,इत्तिफाक़ व इत्तिहाद में वह ताक़त है जो कभी खतम नहीं होती, इत्तिफाक़ हर जगह ज़रूरी है,इस लिए हम सभी लोगों को चाहिए कि आपसी इत्तिफाक व इत्तिहाद और भाई चारा के साथ अपनी ज़िन्दगी ग़ुज़ारें और जहाँ तक हो सके अपने बच्चों को दीनी व दुनियावी तअ़लीम से ज़्यादा से ज़्यादा आरास्ता करें,क्यों कि इल्म चाहे दीनी हो या दुन्यवी इंसान को बुलंदियों पर पहुंचा देता है।सलातो सलाम

और दुआ़ पर यह मज्लिसे सईद इख्तिताम पज़ीर हुई

रिपोर्टर:मुहम्मद नसीर अनवारी S/O मुहम्मद आदम[तालसर]

मुतअ़ल्लिम :दर्ज ए फज़ीलत :दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ (राजस्थान)

کامیابی وکامرانی کےلیے آپسی اتفاق واتحاد اور دینی وعصری تعلیم کی ضرورت:مولاناعبدالکریم بن مولانا عبداللطیف کی بستی،نیگرڑا میں “جشن سنّت رسول”علّامہ پیرسید نوراللہ شاہ بخاری

20 فروری 2022 عیسوی بروز اتوار مولانا صوفی عبدالکریم صاحب نیگرڑا کے بچوں کی شادی خانہ آبادی کے مبارک موقع پر “وامّابنعمة ربک فحدّث”پر عمل کرتے ہوئے بعد نماز مغرب فوراً ایک شاندار “جشن عید میلادالنّبی وسنّت رسول” کا انعقاد کیا گیا-اس جشن کی شروعات تلاوت کلام ربانی سے کی گئی،بعدہ یکے بعد دیگرے حضرت پیر سیّد محمداشرف جمالی صاحب جام سر،بیکانیر وقاری محمدحمیر صاحب بریاڑا نے بارگاہ رسول انام صلی اللّٰہ علیہ وسلّم میں نعتہائے رسول کے نذرانے پیش کئے-پھر حضرت مولانا شاہ میر صاحب سکندری صدرالمدرسین:دارالعلوم قادریہ فیض سکندریہ جیسلمیر نے “انّ اکرمکم عندالله اتقٰکم” کو موضوع سخن بناتے ہوئے اسلاف کرام کے تقویٰ وطہارت اور ان کی عبادتوں بالخصوص نماز کی پابندی کے کچھ واقعات بیان کرتے ہوئے لوگوں کو نماز کی پابندی کی تاکید وتلقین کی-بعدہ پیکر اخلاص ومحبت حضرت مولانا الحاج محمدپٹھان صاحب سکندری [سابق صدرالمدرسین: دارالعلوم فیض راشدیہ، سم،جیسلمیر] سربراہ اعلیٰ:مدرسہ اہلسنّت فیض گلشنِ سکندری لاکھانیوں کی بستی،ریوڑی،فتح گڑھ،نے ذکر الٰہی کی اہمیت وفضیلت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ “بیشک اللّٰہ کا ذکر ہی ایک ایسا عمل ہے کہ جس سے دلوں کو چین وسکون میسر آتا ہے اور یہی قرآن کا فیصلہ بھی ہے،لہٰذا ہم سکندریوں کے پیران طریقت نے ہمیں جوذکر کی تعلیم وتاکید کی ہے ہمیں نمازوں کی پابندی کے ساتھ اس پر مواظبت کرنی چاہییے”…آخر میں اس بزم کے خصوصی خطیب نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیّدنوراللّٰہ شاہ بخاری مدّظلّہ العالی مہتمم وشیخ الحدیث:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر نے خصوص اورصدارتی خطاب فرمایا-آپ نے اپنے خطاب کے دوران قوم مسلم کے آپسی اتفاق واتحاد اور کتاب و سنت پر کار بند رہنے کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اس کی فضیلت اور نتائج واضح کئے اور یہ بھی بتلایا کہ اس طرح پوری امت فتنوں سے محفوظ ہو جائے گی، نیز انہوں نے اختلافات، آپسی رسہ کشی اور تنازعات سے خبردار بھی کیا؛ کیونکہ ان کی وجہ سے مسلمانوں میں مشکلات اور آزمائشیں آتی ہیں اور مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔مزید آپ نے فرمایا کہ کسی بھی کام میں کامیابی وکامرانی حاصل کرنے کا واحد اور عمدہ طریقہ اتفاق واتحاد ہے،جس قوم یا جماعت میں اتفاق واتحاد نہیں وہ کمزور ہے،اتفاق واتحاد کی برکت سے ہم ہرایک منزل پر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اور دوسروں کے لیے مثال بن سکتے ہیں،اتفاق واتحاد میں وہ طاقت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، اتفاق ہر جگہ ضروری ہے،اس لیے کہ گھر کے افراد میں اگر اتفاق نہ ہو تو گھر خراب ہو جاتا ہے،خاندان میں اتفاق واتحاد نہ ہو تو خاندان تباہ وبرباد ہوجاتا ہے،ملک یا ریاست میں اتفاق نہ ہوتو امن وامان نہیں رہتا اور ہر طرف خطرہ پیدا ہوجاتا ہے جب کہ اتفاق سے یہ دنیا جنت بن جاتی ہے اور اگر اتفاق نہ ہو تو جہنم میں تبدیل ہوجاتی ہے،تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں اکثر وبیشتر کامیابیاں اتفاق کی برکت سے حاصل ہوئی ہیں،اتفاق سے قوموں کی قسمت بدل جاتی ہے-اس لیے ہم سبھی لوگوں کو چاہییے کہ آپسی اتفاق واتحاد پر زور دیتے ہوئے ہم آپس میں کبھی نا اتفاقی نہ کریں”ساتھ ہی ساتھ آپ نے دینی وعصری تعلیم کے حصول پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ “ہم سبھی لوگوں کو چاہییے کہ اپنے بچوں کے دینی وعصری تعلیم پر خصوصی دھیان دیں کیونکہ علم خواہ دینی ہو یا دنیوی انسان کو عالی مرتبت بناتا ہے، علم کی اہمیت وحی الہی کے آغاز سے مسلّم ہے،علیم و حکیم پروردگار نے انبیاء و رسل کو علم کی شمع جلانے،نور ہدایت کو عام کرنے،اور جہالت کی ظلمت کو کافور کرنے کے لیے معلمین انسانیت بناکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا،علم کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:”العم نور والجھل ظلمة” علم ایک نور ہے اور جہالت ایک تاریکی،علم وہ شئ ہے جسے نہ چرایا جاسکتا ہے،نہ چھینا جا سکتا ہے،اور نہ ہی آگ علم کو جلا سکتی ہے،نہ دریا ڈبو سکتا ہے نہ سمندر غرق کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے کیڑے کھا سکتے ہیں، علم ہی کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے العلم باق لا یزال (علم باقی رہنے والا جوہر ہے جو کبھی فنا اور ختم نہیں ہوگا) کیونکہ یہ انبیاء کی میراث ہے ارشاد گرامی ہے:إنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبياءِ، وإنَّ الأنبياءَ، لم يُوَرِّثوا دينارًا، ولا درهمًا، إنما وَرّثوا العلمَ، فمن أخذه أخذ بحظٍّ وافرٍ (رواه أبو داود (3641)، والترمذي (2682)رہی بات خاص علم دین کی تواس کی اہمیت و فضیلت تو مسلّم ہے قرآن و حدیث کے صفحات علم دین کی فضیلت سے بھرے پڑے ہیں، علم جہاں نعمت خداوندی ہے وہیں رحمت ربانی بھی ہے، جہاں ذریعۂ برکت ہے تو وہیں باعث نجات اور وجہِ سربلندی ہے، اصل علم تو علمِ دین ہے،یہی علم دین انسان کو گمراہی سے ہدایت تک پہنچاتا ہے، تاریکی کے قعر مذلت سے نکال کر نور ہدایت سے روشناس کرتا ہے،اسی علم دین سے وابستگی نے قومِ مسلم کو ہرمحاذ پر کامیاب کیا،اسی علم دین سے جُڑے رہنے کی بنیاد پر اسلامی شوکت کا علَم بنجر وادیوں کی سربلند چوٹیوں پر لہرایا،اسی علم دین سے رشتہ و تعلق نے امت مسلمہ کو عظیم مناصب اور کامیابی کی بلند منازل پر فائز کیا،اسی علم دین سے وابستگی کی بنیاد پر کبھی ساری دنیا میں تہذیبِ اسلامی کا سویرا تھا،مغرب کی گمراہ کن تہذیب وادیِ ضلالت میں غرقاب تھی۔ان سب فضائل کے باوجود بھی آج ہمارا معاشرہ علم دین سے کوسوں دور ہوتا جارہا ہے اور دن بہ دن دینی علوم سے دوری میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے کہ ایک بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود صحیح کلمہ پڑھنا نہیں جانتا ہے، طہارت اور نماز کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتا ہے، قرآن مجید کی چھوٹی چھوٹی سورتیں بھی صحیح ڈھنگ سے نہیں پڑھ پاتا، اسلام کے بنیادی عقائد، اور وہ ضروریات دین جن پر ایمان کا دارومدار ہے اس کا بھی علم نہیں رکھتا، کیا شہر، کیا گاؤں اور دیہات ہر جگہ بقدر ضرورت دینی تعلیم کا فقدان ہے ،اور افسوس صد افسوس یہ ہے کہ مسلم معاشرہ دینی تعلیم کی اہمیت اور ضرورت ہی کو سرے سے نظر انداز کررہا ہے اور سارا زور صرف اور صرف عصری علوم کو حاصل کرنے پر لگا رہا ہے،اعلیٰ نوکری اور عمدہ جاب کے چکر میں دین و شریعت کی پاسداری کا لحاظ بھلا بیٹھا ہے، دنیوی تعلیم کا حصول شریعت میں منع نہیں ہے بلکہ ہر علم نافع کا حصول بیحد ضروری ہے لیکن شریعت کو پس پشت ڈال دینا اور دینی تعلیم سے یکسر غافل ہوکر زندگی گذارنا دنیا میں بھی نقصان دہ اور آخرت میں بھی موجب عقاب ہے،حالانکہ دین کا اتنا علم سیکھنا کہ جس کے ذریعہ انسان شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے، ہر کلمہ گو پر فرض ہے، خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے، معاملات سے ہو یا معاشرت سے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے:طلب العلم فريضة على كل مسلم.(رواه ابن ماجة)یہ حقیقت ہے کہ جب تک انسان کو احکام خداوندی اور تعلیماتِ نبوی کا علم نہیں ہوگا اس وقت تک یقینا ان پر عمل پیرا ہونا بھی ناممکن اور مشکل ہوگا اور جب دین سے ناواقفیت کی وبا عام ہوگی تو امت طرح طرح کی پریشانیوں اور دشواریوں کا شکار ہو جائے گی۔چنانچہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے :عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ وَلَکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاء ِ حَتَّی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُء ُوسًا جُہَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فضلوا وأضلوا”.(متفق علیہ، مشکوٰة المصابیح:33)ترجمہ:حضرت عبدالله بن عمرو رضی الله عنہ سے نبی کریم علیہ السلام کا یہ فرمان مروی ہے کہ الله رب العزت علم دین کو اچانک (بندوں کے سینوں سے) نہیں ختم کرے گا، لیکن وہ علماء کرام کو وفات دے کر علم دین کو ختم فرمائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم ( دین کا ضروری علم رکھنے والا) باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا راہنما اور راہبر بنالیں گے اور ان ہی سے مسائل پوچھیں گے ، وہ لوگوں کو بغیر جان کاری کے فتویٰ دیں گے اور مسائل بتائیں گے، جس کی وجہ سے خود بھی گم راہ ہوں گے اور عوام کو بھی گم راہ کریں گے۔ذرا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس جامع فرمان پر غور کیجئے!! اور دیکھیے کہ علم دین کے سلسلے میں معاشرہ کی کیا صورت حال ہے؟در حقیقت حدیث شریف میں جو صورت حال بتائی گئی ہے اس وقت من وعن اسی صورت حال سے ہمارا معاشرہ گذر رہا ہے، علوم دینیہ سے بے رغبتی عام ہوگئی ہے لوگوں کو دین اور علم دین سے کوئی رغبت نہیں رہی اور عام لوگ جاہلوں کو ہی اپنا سردار اورراہ نما بناچکے ہیں،ان ہی سے مشورے کرتے ہیں حد تو یہ ہوگئی کہ اب ان ہی سے مسائل بھی پوچھ رہے ہیں، بے دینی کے عام ہونے اور علم دین سے بے رغبتی اور علماء دین کی تحقیر کی بنا پر آج عوام خود بھی گمراہی کے شکار ہیں اور اوروں کو بھی اس گمراہی میں گھسیٹ رہے ہیں، جس کے نتیجہ میں آج مسلمان عقائد و احکام میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں،عبادات و معاملات کی ادائیگی میں غافل ہیں،معاشرت و معیشت کے اسلامی اصول سے بالکلیہ ناواقف ہیں،حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد دونوں کی ادائیگی پر کوئی توجہ باقی نہیں ہے، ذہنوں میں صبح وشام،رات ودن حرام اور حلال کی تمیز کے بغیر صرف دولت جمع کرنے کی فکر سوارہے-اللّٰہ تعالیٰ قوم مسلم کو صراط مستقیم پر گامزن فرمائے،اور انہیں اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کی فکر کے ساتھ آپس میں اتفاق واتحاد اور محبت ومودت کی زندگی بسر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے-صلوٰة وسلام اور دعا پر یہ مجلس خیر اختتام پزیر ہوئی

-رپورٹ

:محمد نصیر انواری بن محمدآدم متعلم درجۂ فضیلت:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

حجاب چھوڑئیے صاحب! یہاں تو پستان چھپانا بھی جرم عظیم تھا۔{موج فکر}از✍️آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ

آر یس یس کے زہریلے خمیر سے نکلے والی بی جے پی اپنی شرم ناک حرکتوں کے ذریعہ جب زمام حکومت سنبھالی تھی، اسی وقت ظاہر ہو چکا تھا کہ ہندو مسلم میں نفرتوں کی آبیاری کرنے والی یہ پارٹی مذہبی عداوتوں کی فصل اک دن ضرور کاٹے گی۔ لیکن وہ اس میں اتنی جلد بازی کرے گی اس کا اندازہ ہرگز نہیں تھا۔ مذہب و شریعت میں دخل اندازی کرکے مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کر رکھی ہے۔ شب و روز بے چینی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دی ہے۔ خصوصی طور پر جب اسمبلی انتخابات قریب آتا ہے تو ہندو مسلم کے مابین نفرت کی کوئی نا کوئی بیج ضرور ڈالی جاتی ہے۔ زعفرانی پلے (पिल्ले) ابھی حالیہ اسلامی قانون حجاب کے خلاف واویلا مچاۓ ہوۓ تھے۔ جس پر میری قوم کی غیرت مند ننھی شہزادی “مسکان خان “نے اپنی ہمت و بہادری کا جوہر دکھاتے ہوۓ زعفرانی گیدڑ بھبکیوں کو آن واحد میں ان کی اوقات یاد دلا دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان آتنکیوں کے خانۂ فکر میں مسلسل بھونچال برپا ہے۔ 2022؁ء کا حجابی سانحہ تاریخ ہند میں جلی حرفوں سے رقم کردیا گیا ہے۔ تاکہ نسل نو یہ جان سکے کہ ظالم حکمراں نے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کیسا جانب رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ کاش آر یس یس کے زہریلے زعفرانی خمیر اسلام پر شب خوں مارنے کی بجائے تاریخ ہند کا مطالعہ کئے ہوتے تو شاید دانتوں تلے انگلی داب لیتے اور ایسی نازیبا حرکتوں سے آئین ہند کو داغ دار نہ کرتے۔ 1729؁ء کی بات ہے کہ بھارت کے نقشے میں ٹراونکوڑ کی سرزمین پر دل سوز آنکھوں کو نمناک کر دینے والا درد ناک ناقابل بیان سانحہ تاریخ ہند میں بادشاہ وقت مرتھنڈ ورما کے دور حکومت میں ملتا ہے۔ کہ بادشاہ مرتھنڈ ورما زمام حکومت کے ساتھ تخت شاہی پر بیٹھتے ہی قدیم بادشاہوں کی ریت رواج کے مطابق اپنا حکم نامہ نافذ کرتا ہے۔ کہ فلاں فلاں اشیاء پر آپ لوگوں کو ٹیکس دینا ہوگا فہرست ضوابط میں ایک ایسے ٹیکس کا ذکر تھا جسے انسانی کان کبھی سنا تھا اور نہ ہی ذہن انسانی نے اسے بھول کر بھی کبھی سوچا ہوگا۔ “پستان ٹیکس/ بریسٹ ٹیکس” کے حوالے سے قانون لکھا ہوا تھا ، جو نچلی قوم (دلت، او بی سی وغیرہ وغیرہ) کی خواتین پر خصوصی نافذ کیا گیا تھا۔ کہ ان کے لیے اپنا پستان چھپانا سب سے بڑا جرم ہوگا، خلاف ورزی کی صورت میں ٹیکس (تاوان) دینا ہوگا۔ ظلم کی انتہا اسی پر بس نہ ہوئی بل کہ بادشاہ کا حکم نامہ رعایا کو سنایا گیا کہ میری حدود سلطنت میں رہنے والے مرد و عورت کو حیات مستعار گزارنے کےلیے بادشاہ کےقانون پرعمل پیرا ہونا لازم و ضروری ہوگا۔(نچلی قوم اسلامی حکمرانوں کے علاوہ بل کہ ہر دور حکمرانی میں کچلی گئیں ذلیل و رسوا کی گئیں) ظالم بادشاہ مرتھنڈ ورما کا خود ساختہ گھناؤنا قانون یہ تھا کہ نچلی ذات کی خواتین خالص کمر سے لےکر پیر تک کے اعضاء کو چھپا سکتی ہیں۔ پستان کو چھپانے کی انہیں قطعی کوئی اجازت نہیں ہے۔ اسی کھلے سینےکے ساتھ ضرورت پڑنے پر خواتین کوٹ کچہری کا چکر بھی لگاتی تھیں۔ عظیم عہدے دار اور اعلیٰ افسران کی آمد پر عورتوں کو اپنا پستان کھول کر بات کرنی پڑتی تھی‌۔ اس قانون سے باہر نکل کر زندگی گزارنے کا گویا تصور ہی مفقود ہو چکا تھا، کیوں کہ بادشاہ کے ڈر سے عام صورت حال میں بھی اسی طرح عورتیں رہنے لگی تھیں۔ شرم و حیا اس وقت دم بخود ہوکر رہ گئی جب کوئی خاتون غیرت کے مارے اپنا کھلا پستان چھپاتی اور وہ بڑا ہوتا تو اس جرم میں زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا۔ اور اگر پستان چھوٹا ہوتا تو ٹیکس کم دینا پڑتا۔(یہ بادشاہ وقت کا فرمان تھا کہ جس کا پستان بڑا ہوگا اس کو زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا، باقاعدہ پستان کو ناپا جاتا تھا) ٹیکس افسران (Tex officer)کی ٹیم بلاناغہ ہر ہفتے ناڈر (nadar) و ایزوا (ezhava) قوم کے پاس ٹیکس لینے آتی تھی۔ ٹیکس کو کیلے کے پتے پر رکھ کر دینا ہوتا تھا۔ آخر بادشاہ مرتھنڈا ورما کا یہ ظالمانہ کالا قانون کب تک چلتا ایک نہ ایک دن تو بھسم ہونا ہی تھا 1803؁ء میں ایزوا (ezhava) ذات(ایزوا نیچے ذات کو کہتے ہیں ) میں نانگیلی نامی ایک بہادر خاتون کی تاریخی سوانح حیات ملتی ہے کہ اس خاتون نے تنے تنہا نہایت ڈھٹائی سے بادشاہ وقت کے غلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ نانگیلی اپنے پستان کو ڈھک کر چلنے لگی تھی اور اس کا کہنا تھا کہ اب میں اسی طرح رہوں گی اور بریسٹ ٹیکس بھی نہیں دوں گی ۔سماج میں یہ بات بڑی تیزی سے پھیلنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے کچھ لمحوں میں یہ بات ٹراونڈ راجہ تک پہنچ جاتی ہے۔ راجہ یہ سن کر آگ بگولہ ہوجاتا ہے کہ کون ہے میری رعایا میں جس کی اتنی بڑی جرأت ہوئی کہ وہ میرے فرمان کے خلاف من مانی کرنے لگی۔ اور فورا ٹیکس اصولی کرنے والے اعلیٰ افسران کو طلب کرکے ہدایت کرتا ہے کہ جاؤ اور اس سے ہر حال میں ٹیکس لے کر آؤ۔ دوپہر کے وقت ٹیکس افسران ٹراونکوڑ میں نانگیلی کے گھر پہنتے ہیں اور ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن نانگیلی اور ان کے شوہر چرکنڈن دونوں با یک زبان ٹیکس دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ لہذا افسران اور نانگیلی کے بیچ کافی بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور نانگیلی کو نچلی ذات ہونے کی وجہ سے افسران نے بہت ٹارچر بھی کیا۔ بلآخر یہ کہہ کر کہ “لا رہی ہوں ٹیکس” نانگیلی گھر کے اندر جاتی ہے اور پھر اپنا “ایک پستان کاٹ کر کیلے کے پتے پر رکھ کر افسران کے سامنے پیش کردیتی”۔ یہ دیکھ کر موجودہ افسران کے ساتھ ٹراونکوڑ کی جنتا حواس باختہ ہوجاتی ہے۔ اور نانگیلی کے جسم سے برابر خون جاری تھا جس سے موقع پر اس کی موت ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ٹراونکوڑ کے راجہ مرتھنڈ ورما پر جگہ جگہ سے بہت پریشر پڑتا ہے کہ بریسٹ ٹیکس کو ہٹایا جاۓ۔ احتجاج اتنا شدیدتھا کہ بادشاہ کےکنٹرول سے باہر ہو چکا تھا۔ لہذا بادشاہ کو اعلان کرنا پڑا کہ آج سے ایزوا ذات کی خواتین سے بریسٹ ٹیکس ہٹایا جارہا ہے اور اب وہ اپنے بدن کو ڈھک کر رہ سکتی ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ 1729؁ء میں مرتھنڈ ورما راجہ نے یہ بریسٹ ٹیکس جیسا کالا قانون لگایا تھا جو کہ 1803؁ء تک چلا۔ اور نانگیلی کی بے مثال قربانی کی وجہ سے ایزوا ذات کی خواتین کو 1803؁ء میں بریسٹ ٹیکس دینے سے نجات ملی۔ اور انہیں پستان ڈھک کر چلنے کی اجازت دے دی گئی۔(آج بھی نانگیلی کی پوجا ٹراونکوڑ میں کی جاتی ہے۔) لیکن ٹراونکوڑ میں ابھی نادر (nadar) کمیونٹی کی خواتین سے بریسٹ ٹیکس کا قانون ہٹایا نہیں گیا تھا۔ ناڈر قوم کی تاریخ بھی بہت تاریک تھی (اختصار سے پیش کر رہاہوں) ناڈرکمیونٹی نے جب دیکھا کہ ایزوا کمیونٹی سے بریسٹ ٹیکس کو ہٹالیا گیا۔ تو پوری ناڈرکمیونٹی نے اپنے حق کے لیے اس کالے قانون کے خلاف ایسا احتجاج کیا جو ایک تاریخی احتجاج بن گیا اور یہ کئی دن تک لگاتار چلتا رہا۔ 1859؁ء میں برٹش حکومت اور ٹراونکوڑ کے راجہ کے بیچ نادر قوم کے احتجاج کو لے کر کافی بات چیت ہوئی۔ اس وقت مدراس کے گورنر “چارلس ٹویلئن” (Charles trevelyan) تھے آپ نے ورتھنڈ ورما پر کافی پریشر ڈالا تو بادشاہ نے ناڈرکمیونٹی سے بھی بریسٹ ٹیکس کو ہٹایا پھر بھی خفیہ طور پر ٹیکس لیا جاتا رہا۔ 1924؁ء میں جب آزادئ ہند کی لڑائی پورے چرم سیما پر تھی تب اس وقت اس کالے قانون (بریسٹ ٹیکس) سے نجات ملی تھی۔

! सुबह का बेहतरीन नाश्ता✍️ आसिफ जमील अमजदी

#अगर आप सेहत मंद रहना चाहते हैं तो सुबह का नाश्ता जितना बेहतर लेंगें दिन भर उतना ही चाक चौबंद रहेंगे,घर में बनने वाले ट्रेडिशनल नाश्ते को छोड़ें और अंकुरित दालें खाना शुरू करें कुछ दिन में ही इसका असर नज़र आने लगेगा,इसमें,चना,मूंग,मोमफली, मेथी,को भिगो कर अंकुरित कर लें इस से दालों की ताक़त कई गुना बढ़ जाती है।अब जो लोग चाहें इसमें *बादाम,किशमिश,कद्दू,खीरा, खरबूज,और तरबूज के मगज़ भी शामिल कर लें,इस अंकुरित दालों में कोई ऐसा विटामिन और मिनरल नहीं जो न पाया जाता हो,यह आप के जिस्म में नया खून बनाएगा,कैल्शियम की कमी दूर होगी,जिस्म को तारो ताज़ा रखेगा,मर्दों के लिए बेहतरीन है टेस्टोस्टेरोन के लेवल को बढ़ाता है।बच्चों और औरतों के लिए भी शानदार नाश्ता साबित होगा,फाइबर से भरपूर होने की वजह से क़ब्ज़,गैस,एसिडिटी को दूर करेगा,टेस्ट के लिए आप सेंधा नमक,प्याज़,अदरक,टमाटर डाल सकते हैं,औरतें बच्चे नीबू भी डाल कर खा सकते हैं अगर मुमकिन हो तो इसी में एक चमची वर्जिन ओलिव आयल भी डाल सकते हैं।मर्दों को नीबू से बचना चाहिए,यह नाश्ता आप को डॉक्टरों से बचाएगा,यह बात याद रखें आप का खाना और नाश्ता जितना हाइजेनिक और नैचरल होगा आप उतना ही सेहतमंद रहेंगे।