WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives April 2022

رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی اہمیت وفضیلت از: (مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحی!ناظم تعلیمات: دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،گرڈیا، ضلع:باڑمیر (راجستھان)

رمضان المبارک کی بابرکت ساعتیں تیزی سے گذررہی ہیں،آخری عشرہ جسے حدیث میں”جہنّم سے آزادی وخالصی کاعشرہ”کہا گیا ہے،اس کی چند راتیں اورباقی رہ گئی ہیں-کتنے خوش نصیب ہوں گے اللّٰہ کے وہ بندے جو موجودہ ُپرآشوب حالت میں بھی رمضان المبارک کے ایک ایک لمحہ کی قدر کرکے اپنی آخرت کو بنانے کی فکر میں۔ روزوں، فرض اور نفلی عبادتوں اور دیگر امور خیر میں نمایاں حصہ لئے ہوں گے اور اب وہ آخری عشرہ کی دہلیز پر پہنچ کر اپنے رب کی بارگاہ میں خالصی و مغفرت کے امیدوار ہوں گے۔ یوں تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ عبادت و ریاضت اوراجروثواب کے اعتبار سے دیگر تمام مہینوں سے افضل واعلیٰ ہے اور رمضان شریف کے آخری دس دن کے فضائل، برکات اور خصوصیات اور بھی زیادہ ہیں۔ نبی رحمت صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے تیس شعبان کو رمضان کی آمد پر جو تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا تھا اس میں آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے یہ بھی کہا تھا کہ “یہ وہ مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت ہے، درمیانی عشرہ مغفرت ہے اور آخری عشرہ جہنم کی آگ سے آزادی کے ساتھ خاص ہے۔” اس حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ رمضان المبارک اپنے تینوں عشروں میں کچھ مخصوص کیفیتیں رکھتا ہے لیکن آخری عشرہ کو پہلے دو عشروں کے مقابلے میں زیادہ فضیلت اور اہمیت حاصل ہے-چونکہ آخری عشرے کو حضور نبِئ کریم صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے جہنم کی آگ سے آزادی کاوقفہ قرار دیا ہے،اسی عشرہ میں قرآن مقدّس نازل ہوا، شب قدر کی مبارک گھڑیاں اسی عشرہ میں پائی جاتی ہیں، جس کےمتعلق بتایا گیا ہے کہ یہ رات انتہائی قیمتی اور بے حد بابرکت ہے، اس رات کو ہزار مہینوں سے زیادہ افضل اور باعث خیروبرکت فرمایا گیا ہے، ان راتوں میں حضرت جبرئیل امین سمیت بڑی تعداد میں فرشتے زمین پر اترتے ہیں ،اور انہیں راتوں میں سال بھر کے امور کے فیصلے کئے جاتے ہیں، لوگوں کی رزق، ان کے اعمال اور ان کی موت و حیات کی تعین کی جاتی ہےاس لئے یہ عشرہ علمائے امت کے نزدیک بہت خاص اہمیت و فضیلت رکھتا ہےاور اس میں اظہار عبودیت اور تقرّب الی اللّٰہ کی زیادہ سے زیادہ کوش کرنے کی ترغیب دلائی جاتی ہے! اعتکاف بھی اسی عشرۂ اخیر کی خصوصیت ہے، جس میں بندہ سراسر اپنے رب کے حضور پیش ہو کر پورے دس دن سرگوشیاں کرتا ہے اور ہر وہ طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے بندگی کا اظہار ہو اور اللّٰہ وحد ٗہ لاشریک کی الوہیت، اس کی ربوبیت اور کبریائی کے سامنے وہ اپنے آپ کو بالکل بے قیمت اور بے حقیقت کرکے پیش کر سکے، یہاں تک کہ رمضان کا آخری دن اس کے لئے رحمت ومغفرت اور سب سے بڑھ کر جہنم کی آگ سے آزادی کی بشارت کا دن ہوتا ہے۔ حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم رمضان المبارک کے پورے مہینے میں خوب خوب عبادت و ریاضت کیا کرتے تھے لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں دیگر امور سے اپنی توجہ ہٹا کر خصوصی طور پر عبادت میں لگ جاتے جیسا کہ حضرت عائشہ صدّ یقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں ” کان رسول اللّٰه صلّی اللّٰه تعالیٰ علیه وسلّم یجتھدفی العشر الاواخر مالایجتھدفی غیرھا” نبی کریم صلی اللّٰه علیہ وسلم رمضان المبارک کے عشرۂ اخیرہ میں اتنی محنت فرماتے تھے کہ دوسرے ایّام میں اتنی محنت نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح ایک اور حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی الہ تعالیٰ عنہا سےمروی ہے “کان رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه وسلّم اذادخل العشراالخیرہ شدّ میزرہ و احی لیله وایقظ اھله” جب ماہ رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو حضور اقدس صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لیتے تھے، اور رات بھر عبادت کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی عبادت کے لیے جگاتے تھے-( بخاری جلد /۱، صفحہ ۲۷۱،مشکوٰة صفحہ/۱۸۲ )) جب حضور نبئ کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کا معمول رمضان کے عشرۂ اخیرہ میں یہ تھا کہ آپ عبادت و ریاضت کے معاملے میں اس عشرہ کو بڑی اہمیت دیتے تھے جب کہ آپ معصوم عن الخطاء ہیں تو کیا وجہ ہے کہ حضور کی امت کے دلوں میں اس عشرہ کی اہمیت کم ہو؟ اور اس مبارک مہینے کے اس آخری حصے کو ہر حیثیت سے مہتم بالشان نہ سمجھیں؟ اس آخری عشرے میں نہ صرف یہ کہ حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اس کا اہتمام فرماتے تھے بلکہ اپنے ساتھ اپنےاہل وعیال اور متعلّقین کوبھی اس کار خیر میں شریک فرماتے تھے، اور ان کو شب بیداری اور نوافل و عبادات کے اہتمام کے سلسلے میں راتوں کو جگا دیا کرتے تھے -اس عشرہ کے شروع ہوتے ہی آپ تیار ہو جاتے اور مزید محنت و جانفشانی کا سلسلہ شروع ہوجاتا، پوری پوری رات بیداری میں گزارتے، مناجات و استغفار اور دعا ونوافل کی کثرت فرماتے اور صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو بھی اس کی ترغیب دلاتے۔ لہٰذا ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ ہم حضور نبئ کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے رمضان المبارک کے قیمتی لمحات اور اس کی بیش بہاگھڑیوں کوبےکار ضائع نہ ہونے دیں اور خصوصیت کے ساتھ عشرۂ اخیرہ کی اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی رحمتوں وبرکتوں سے بہرہ ور ہونے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو فیضانِ رمضان سے مالامال فرمائے !…آمین-

مسجد پر بھگوا جھنڈا اور ہاتھوں میں دھار دار ہتھیار-از، حسن نوری گونڈوی

*مسجد پر بھگوا جھنڈا اور ہاتھوں میں دھار دار ہتھیار*

میرے پیارے ملک میں آئے دن کچھ شرپسند عناصر نفرت پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم علاقوں میں ریلی نکالنا، مسلح ہو کر نکلنا، گندی گندی گالیاں دینا، مسجدوں پر بھگوا جھنڈے لگانا، مزارات کو منہدم کرنا، مسلم عورتوں کی عصمت دری کی دھمکی دینا، بھڑکاؤ نعرے لگانا شرپسندوں کا محبوب مشغلہ ہے

سوال یہ ہے کہ مسلم علاقوں کی پرمیشن انہیں کیوں دی جاتی ہے؟

دھار دار ہتھیار لے کر ریلی نکالنے کی اجازت کیا پرشاشن دیتی ہے اگر نہیں تو انہیں گرفتار کیوں نہیں کرتی؟

کیا مسلم علاقوں میں بھڑکاؤ نعرے لگانے کی اجازت انہیں دی جاتی ہے اگر نہیں تو لگانے والوں پر اب تک کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟

جب پولیس ریلی میں ساتھ ہوتی ہے پھر بھی جھڑپ کیوں ہوتی ہے؟

مسجدوں پر بھگوا جھنڈا لہرانے پر اب تک پورے ملک میں سیکولر لوگوں نے آواز کیوں نہیں اٹھائ؟

پولس جھنڈا لہرانے والوں کو کیوں گرفتار نہیں کرتی؟؟

اس وقت پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ یہ سوال اٹھائیں👇

کیا ہندو دھرم دوسروں کی عبادت گاہ پر اپنے مخصوص جھنڈے لہرانے کی اجازت دیتا ہے؟

کیا ہندو دھرم مسلح ہو کر دوسرے دھرم والوں کی گلیوں میں جاکر انہیں ہراساں کرنے کی اجازت دیتا ہے؟

کیا ہندو دھرم اجازت دیتا ہے کہ مسلم بہن بیٹیوں کی عصمت دری کی جائے؟

کیا ہندو دھرم کے مطابق بھڑکاؤ نعرے لگانا درست ہے؟

جو لوگ پورے ملک میں دہشت گردی پھیلائے ہوئے ہیں کیا ہندو دھرم کی بنیادی کتابیں اس کی اجازت دیتی ہیں؟

کیا یہ سب دھرم کے مطابق ہو رہا ہے؟؟

ان *سوالات کو معمولی نہ سمجھیں اس کے “ہاں” اور “نا” میں ہزاروں سوالوں کے جوابات موجود ہیں اہل علم اپنے قلم کا رخ اس طرف کریں

*📝حسن نوری گونڈوی

نظم_•°ماں°•_✍️آصف جمیل امجدی انٹینا تھوک، گونڈہ

مجھے معلوم ہی کیا تھا
میں جب مسکراتا تھا تو تو
دکھ اپنا،بھول جاتی تھی
میرا فدکنا آنگن میں
تجھے
خوب بھاتا تھا

مجھے معلوم ہی کیا تھا
مجھے جو جان سے اپنی،
زیادہ
پیار کرتی تھی
میری ضد میری خواہش پر
سبھی قربان کرتی تھی

مجھے معلوم ہی کیا تھا
کہ بچپن میں میں روتا رہتا تھا
تو تو
بے چین ہو جاتی تھی
میری خاطر
مجھ کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا کر پیار کرتی تھی
میری ماں
مجھے بے حد پیار کرتی تھی
مجھے مسکراتا دیکھ کر
دکھ اپنا بھول جاتی تھی

مجھے معلوم ہی کیا تھا
کہ اس کی چوڑیاں
جب ہاتھ میں آنے لگیں میرے
ہاں!
اس کی زلفیں
بھی
جب ہاتھ میں آنے لگیں میرے
تو میں
اسی میں مدہوش
بہلا پھسلا رہتا تھا
جب وہ اک رہنما کی طرح باتیں سننے اور راہ دکھلانے لگی
تو فلک سے
اچانک
فیصلہ کچھ اور آیا
سہارا ٹوٹ گیا
مجھے تنہا سفر پر
زندگی کے چھوڑ گئ
میں اپنا حال دل کس کو سناؤ
کس کے کاندھے پر رکھوں سر کو
میں رونا چاہتا ہوں
ماں کے مجھ سے روٹھ جانے پر
میں رونا چاہتا ہوں
آج اپنی بے بسی پر
بے مروت اس مقدر پر
ہاں!
میں رونا چاہتا ہوں
اور
خوب
رونا چاہتا ہوں

نتیجۂ فکر
✍️آصف جمیل امجدی
انٹینا تھوک، گونڈہ

رحمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام۔۔تبصرہ۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

ابو الشعرا علامہ سید اولاد رسول قدسی کا کلام بعنوان ماہ صیام تبصرے کی میز پر ہے۔آپ کا یہ کلام بہت ہی دیدہ زیب اور پسندیدہ ہے۔ کلام معنویت، پیکر تراشی ،سرشاری و شیفتگی ،فصاحت و بلاغت ،حلاوت و ملاحت ،جذب و کیف ، سوز و گداز ، سلاست و روانی ، حسن کلام ، طرز ادا کا بانکپن ، تشبیہات و استعارات، صنایع لفظی و معنوی اور سہل ممتنع کا نادر نمونہ ہے۔

کلام کا مطلع یوں ہے:

رحمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام
فرحتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

گویا ردیف لمبی ہے:
لیکے آیا ہے ماہ صیام
لمبی ردیف میں شعر کہنا بہت مشکل امر ہے۔
اس کلام میں ردیف کے علاوہ ہر شعر کے ثانی میں صرف قافیہ رہ جاتا ہے ، کسی دوسرے سبب یا وتد کے لیے جگہ نہیں رہتی۔اس کے باوجود علامہ قدسی نے ہر شعر کو بہت عمدگی سے نبھایا ہے اور کلام میں مقناطیسیت پیدا کردی ہے۔

علم عروض
‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلام جس بحر میں کہا گیا ہے اس کے افاعیل ہیں:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
چونکہ مصرع کے آخر میں لفظ صیام ہے اس لیے آخری رکن فاعلان ہوجاتا ہے۔گویا آپ نے کلام میں زحاف ازالہ کا استعمال کیا ہے۔
جیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت کے مشہور زمانہ کلام سلام میں یہ زحاف پایا جاتا ہے۔

مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

ان کے افاعیل یوں ہوئے:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلان

علم قافیہ
۔۔۔۔۔۔۔
علامہ قدسی کے اس کلام میں قوافی یوں ہیں :
رحمتیں، فرحتیں،وسعتیں،برکتیں،رفعتیں وغیرہ۔
ہر قافیہ کے آخر میں یں زائد ہیں ۔لہذا حرف روی بنا ت ۔
اگر کسی بھی شعر میں قافیہ کے طور پر کاغذیں ، کروٹیں قسم کا لفظ لایا گیا ہوتا تو انحراف حرف روی کا عیب در آتا۔
الحمد لللہ شاعر محترم نے ایسے قوافی کا استعمال نہیں کیا ہے، گویا آپ کا کلام عیب در قافیہ سے پاک ہے۔

بلاغت
۔۔۔۔۔۔۔
ہر شعر جملہء خبریہ ہے اور صدق پر مبنی ہے۔ ہر خبر کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت کیا جاسکتا ہے۔
غرض خبر یہ ہے کہ مسلمانوں کو نصیحت کی جائے اور ان کو ماہ رمضان کے روزے ( جو فرض عظیم ہیں) کی اہمیت و افادیت بتا کر روزے رکھنے پر آمادہ کیا جائے۔

بدیع
۔۔۔۔۔۔۔

صنعت تضاد کا حسن ان اشعار میں پایا جاتا ہے:

نفل پڑھ کر ثواب آپ لیں فرض کا
نعمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

بھوک اور پیاس میں نفس سے جنگ کی
قوتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

صنعت تجنیس تام کی رعنائی اس شعر میں جلوہ گر ہے:

قدر اس کی کریں جس قدر ہوسکے
رفعتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر پڑھ کر مجھے اپنا ایک شعر اس صنعت کے قبیل کا یاد آرہا ہے:

ان کے عدو کا حشر برا ہوگا حشر میں
عاشق وہاں اٹھیگا بڑی آب و تاب سے

صنعت اقتباس سے مزین یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:

مژدہ الصوم لی کا سناتا ہوا
حکمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر ایک حدیث قدسی کی روشنی میں کہا گیا ہے۔وہ حدیث یوں ہے:
الصوم لی وانا اجزی بہ
یعنی روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دونگا ۔

صنعت تلمیح سے مزین یہ دو اشعار ملاحظہ فرمائیں:

نفل پڑھ کر ثواب آپ لیں فرض کا
نعمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

فرض کا اجر ستر گنا لیجیے
کثرتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

ان دو اشعار میں ایک مشہور حدیث رسول کے طرف اشارہ ہے اور ان کا مفہوم حدیث سے مستعار ہے۔

کلام میں بصری و شامی پیکر تراشی کا حسن بھی ملاحظہ فرمائیں:

عشق شاہ دوعالم کے گلزار کی
نکہتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

تفہیم
۔۔۔۔۔۔

قرب رب دوعالم کی تحصیل کی
حسرتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

جب ایک روزہ دار شام کو افطار کرتا ہے تو اس کو دو خوشیاں ملتی ہیں ۔ایک روزہ کھولنے کی اور دوسرا قرب خدا کی۔افطار کے وقت اور افطار کی بڑی فضیلت ہے۔افطار کے وقت روزہ دار کی مغفرت ہوجاتی ہے اور اس وقت روزہ داروں کی دعا خصوصیت کے ساتھ قبول کی جاتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
سحری کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ۔

حضرت عمرو بن العاص کہتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق ہے سحری کا کھانا۔اس لیے علامہ قدسی نے کہا:
صرف پانی سہی پھر بھی سحری کرو
رغبتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

اس میں نازل ہوئی قدسی قرآن پاک
عظمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر قرآن کی آیت کی طرف اشارہ کررہا ہے:
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن
یعنی رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔

اس آیت میں قران کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے۔مکمل قرآن کریم شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا اور یہاں سے وقتاً فوقتاً حکمت کے مطابق حضرت جبریل علیہ السلام ، اللہ کے حکم سے زمین تک لاتے رہے اور یہ نزول تئیس سال کے عرصے میں پورا ہوا۔

گویا ہر شعر قابل تعریف ہے۔
خاص طور پر یہ شعر پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا:

سخت گرمی کے موسم میں روزوں کی یہ
لذتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام۔

ایک قوم ایسی بھی تھی کہ اس قوم پر تیس روزے فرض کئے گئے تھے ، لیکن ان لوگوں نے موسم کے اعتبار سے روزے کے مہینے کو تبدیل کیا ۔یعنی اگر روزہ کا مہینہ سردی میں نمودار ہوا تو پورا مہینہ روزہ رکھا ، لیکن اگر گرمی کے موسم میں آیا تو روزوں کو ملتوی کردیا اس وقت تک جب تک کہ سردی کا موسم نہ آجاتا۔

امت محمدیہ کی یہ خاصیت ہے کہ ماہ رمضان کسی بھی موسم میں آئے اسی مہینے میں مسلمان روزہ رکھتا ہے اور مسلمانوں نے پچاس / پچپن ڈگری تمازت میں بھی روزہ رکھا ہے ۔
الحمد لللہ
تبھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں روزہ دار کو خود اجر دونگا ۔گویا اس اجر کی مقدار کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔

اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے :

صائموں کی افضلیت” عینی” اس سے جان لو
اجر ان کو دیتا ہے خود کبریا ماہ صیام

منقبت در شان حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ۔۔از: سید خادم رسول عینی

حیدر کے بعد کس کی خلافت؟ حسن کی ہے
بعد علی ہے کس کی امامت؟ حسن کی ہے

خوشیاں منا کے زیست کو پرنور کیجیے
چاروں طرف ہے نور ، ولادت حسن کی ہے

شفقت ، عطا تھے منسلک ان کی صفات سے
تاریخ میں رقم یوں سخاوت حسن کی ہے

سرکار دوجہاں نے رکھا نام‌ ان کا خود
کس طرح معتبر یہ سعادت حسن کی ہے

ظاہر ہوا یہ چشم محبت پہ دیکھیے
ہر سمت روشنیء ولایت حسن کی ہے

کرتے ہیں ایک پل میں وہ حل مشکلات کا
کس طرح خوب تر یہ ذہانت حسن کی ہے

صلح مبین آپ نے کی قوم کے لیے
دنیا نے دیکھی، دینی سیاست حسن کی ہے

راضی ہیں اس سے شاہ زمن ، راضی ہے خدا
حاصل اگر کسی کو حمایت حسن کی ہے

اصلاح کر رہے ہیں بہت عمدگی کے ساتھ
کس طرح” عینی “نیک یہ عادت حسن کی ہے
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

نعت شہِ عالمین ﷺاز قلم کلیم َرضوی مصباحی پوکھریروی

نعت شہِ عالمین ﷺ

جس کے دل میں آپ کا کلمہ نہیں

اس کا فطرت سے کوئی ناتا نہیں

جو ترا عاشق نہیں شیدا نہیں

آشنائے لذتِ سجدہ نہیں

خوشبوؤں کی بارشیں ہونے لگیں

لب پہ ان کا نام تو آیا نہیں؟

خواب ہے قوسینِ رفعَت پر قیام

ان کے قدموں تک اگر پہونچا نہیں

وہ جو بولیں تو رواں ہو سلسبیل

ایسا پاکیزہ کوئی لہجہ نہیں

مالکِ کُل نے انہیں مالک کیا

ان کے خالی ہاتھ میں پھر کیا نہیں

ان کی باتوں میں ہے نورِ آگہی

رہنما کوئی چراغ ایسا نہیں

دیکھ لو پہلے مدینہ پھر کہو

کیا زمیں پر خلد کا نقشَہ نہیں

کیوں کہیں آنکھوں کوہم روشن چراغ

آنکھوں میں جب گنبدِ خضریٰ نہی

ںہے تصور میں رخِ بدر الدجیٰ

ظلمتِ شَب کا کوئی کھٹکا نہیں

کیوں ہے ہر شامِ تمنَ٘ا دل فریب

ان کی زلفوں کا اگر صدقہ نہیں

زلفِ جاناں کو کرو عنوانِ نعت

فکر کا گلشن ابھی مہکا نہیں

جن کی چوکھٹ سجدہ گاہِ دل ہوئی

کیا وہ میری روح کا قبلہ نہیں؟

تو ہے بے سَایہ مگر میرے رحیم

آخرش کس پر ترا سَایہ نہیں

سائلو ! جو مانگنا ہو مانگ لو

ان کے لَبْہَاۓ کرم پر لَا نہیں

اس کے حصے میں نہیں بلقیسِ خلد

جو سلیمانِ مدینہ کا نہیں

ذرَ٘ہ کیسے ہو گیا انجم مثال

فیضِ صحبت کا اگر جلوہ نہیں

حلَ٘ت و حرمت ہوئی ان کی عیاں

جن کو آقا نے کہا “اچھا، نہیں”

یہ ہے دربارِ کرم ان کا ، یہاں

کوئی بے گانہ بھی بے گانہ نہیں

ان کے زندانِ محبَ٘ت پر نثار

قید میں بھی قیدی یہ بندہ نہیں

لازمی ہے وہ پڑھے قرآن پاک

آئنہ جس نے ترا دیکھا نہیں

علم سے آرائشیں ممکن ہیں کب

تن پہ جب پیراہنِ تقویٰ نہیں

وہ کرم فرمائیں تو میں بھی کہوں “

میرا حصہ دور کا جلوہ نہیں

رہتی ہے “یوحیٰ” پہ بھی میری نظر

اپنے جیسا ان کو میں کہتا نہیں

پی رہے ہیں ان کے عاشق واہ واہ

ہاتھ میں مینا نہیں بادہ نہیں

جنتِ یاد نبی ہے ! کیوں کہوں

دل مدینہ طیبہ میرا نہیں

تشنگی تیرا نصیبہ نجدیا

زمزمِ مدحت ترا حصہ نہیں

ہےمعجزہ ہے ان کے فضلِ خاص کا

“بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں”

“زندگی، ان کی محبت، ہے کلیم

جو محِب ان کا نہیں ، زندہ نہیں

از قلم کلیم َرضوی مصباحی پوکھریروی

لفظ رمضان کی تحقیق۔۔از: سید خادم رسول عینی

لفظ رمضان کی تحقیق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الحمد للہ ماہ رمضان بحسن و خوبی رواں دواں ہے۔اسی اثنا میں ماہ رمضان کی اہمیت اور روزے کی افادیت پر کئی مقالے نظر نواز ہوئے، جنھیں پڑھ کر ہماری معلومات میں اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ بہت سارے شعرائے کرام کی نظمیں بعنوان ماہ رمضان/ ماہ صیام دستیاب ہوئیں اور ان کے مطالعہ کا شرف حاصل ہوا، روح کو تسکین ملی۔ماہ نامہ فیض الرسول براؤن شریف کے ماہ رمضان خصوصی شمارے میں حضرت علامہ علی احمد رضوی بلرام پوری کی نظم بعنوان” رمضان آگیا ہے” پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔اس کلام کے چند اشعار نذر قارئین ہیں :
ہوئے مشک بو گلستاں رمضان آگیا ہے
کہ مہک رہی ہیں کلیاں رمضان آگیا ہے

چھٹے ظلمتوں کے بادل ہوئی رحمتوں کی بارش
ہوئے خوش سبھی مسلماں رمضان آگیا ہے۔

اس کلام کے افاعیل یوں ہیں:
فعلات فاعلاتن فَعِلات فاعلاتن
مصرع تقطیع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر محترم نے رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے اور یہی درست ہے۔
جب کہ چند شعرا نے رمضان کے میم کو ساکن باندھا ۔
کیا ساکن باندھنا بھی درست ہے ؟اس کا جواب جاننے کے لیے آئیے پہلے لفظ رمضان پر صرفی نگاہ ڈالتے ہیں۔

کسی لفظ کا درست تلفظ جاننے کے لیے پہلے سمجھنا ہے کہ لفظ کا مادہ کیا ہے۔

“عربی زبان میں رمضان کا مادہ رَمَضٌ ہے، جس کا معنی سخت گرمی ہے۔رمضان کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس ماہ میں سورج کی گرمی کے سبب پتھر وغیرہ سخت گرم ہوجاتے ہیں جس سے اونٹوں کے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔چونکہ اس مہینہ میں سورج کی گرمی کی شدت کی وجہ سے ریت اور پتھر وغیرہ اس قدر سخت گرم ہوجاتے تھے کہ ان پر چلنے والوں کے پاؤں جلنے لگتے تھے اس وجہ سے عربوں نے لغت قدیمہ میں اس مہینہ کا نام رمضان رکھ دیا، یعنی پاؤں جلادینے والا مہینہ۔
رمضان کی اک اور وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ مہینہ، اللہ تعالیٰ کی رحمت، بخشش اور مغفرت کی کثرت کی وجہ سے (مسلمانوں کے) گناہوں کو جلا کر ختم کر دیتاہے۔

لفظ “رمضان”بروزن۔ “فَعِلان” رمض کا مصدر ہے اور یہ باب ‘سمع’ کے ثلاثی مجرد سے ماخوذ ہے۔
لفظ “رمضان” گرچہ مصدر ہے تاہم اسم علم کے طور پر مستعمل ہوتا ہے۔

رمضان کے مادہ رَمَضٌ پر غور کریں ۔میم مفتوح ہے یعنی علم عروض کی زبان میں میم متحرک ھے۔اگر رمض کا میم متحرک ہے تو رمضان کا میم بھی متحرک ہونا چاہیے۔

اب آئیے قرآن کی طرف رخ کرتے ہیں ۔
رمضان تنہا وہ مہینہ ہے جس کا نام قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔سورہء بقرہ میں ہے:
“شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ

ترجمہ: ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔
مندرجہ بالا قرآنی آیت میں رمضان کا میم متحرک ہے۔
تو پھر شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے کیوں کہ قرآن صریح طور پر ہماری رہنمائی کررہا ہے کہ رمضان کا میم متحرک ہے۔

اب آئیے کلام رضا میں لفظ رمضان کو ڈھونڈتے ہیں۔ شاید اعلیٰ حضرت نے اپنے کسی شعر میں لفظ رمضان کا استعمال کیا ہو ۔اعلی’ حضرت کے ایک نعتیہ کلام میں مطلع یوں نظر آیا :

شور مہ نو سن کر تجھ تک میں دواں آیا
ساقی میں ترے صدقے مے دے رمضاں آیا

اس کلام کے افاعیل یوں ہیں:
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
مصرع کی تقطیع کرنے پر یہ پتہ چلتا ہے کہ سرکار اعلیٰ حضرت نے بھی رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے۔تو پھر دور حاضر کے شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے۔ اردو شاعری میں سرکار اعلیٰ حضرت سے بڑھ کر استاد کون ہوسکتا ہے؟ حدائق بخشش سے بہتر رہنمائی کون کرسکتا ہے؟

صرف لفظ رمضان نہیں ، بلکہ سرکار اعلیٰ حضرت نے جہاں بھی صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے وہاں قرآن کے الفاظ کو اسی وزن پر باندھا ہے جس وزن پر قرآن میں مرقوم ہے۔مثلا”:
لیلۃالقدر میں مطلع الفجر حق
مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام

فاذا فرغت فانصب یہ ملا ہے تم‌ کو منصب
جو گدا بنا چکے اب‌اٹھو وقت بخشش آیا کرو قسمت عطایا

والی الالہ فارغب کرو عرض سب کے مطلب
کہ تمھی کو تکتے ہیں سب کرو ان پہ اپنا سایہ بنو شافع خطایا

ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا

انت فیہم نے عدو کو بھی لیا دامن‌‌میں
عیش جاوید مبارک تجھے شیدایی دوست

غنچے ما اوحی’ کے جو چٹکے دنی’ کے باغ میں
بلبل سدرہ تک ان کی بو سے بھی محرم نہیں

ایسا امی کس لیے منت کش استاد ہو
کیا کفایت اس کو اقرأ ربک الاکرم نہیں ؟

مجرم بلائے آئے ہیں جاءوک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

مومن‌ ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

ان پر کتاب اتری بیانا لکل شیء
تفصیل جس میں ما عبر و ما غبر کی ہے

ک گیسو ہ دہن ی’ ابرو آنکھیں ع ص
کھیعص ان کا ہے چہرہ نور کا

اب آئیے دیکھتے ہیں اردو کے دیگر اساتذہ نے لفظ رمضان کا کس انداز سے استعمال کیا ہے۔

اسماعیل میرٹھی کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
جمعہء آخر ماہ رمضاں ہے افضل
یوں تو جس وقت میں ہو بذل و نوال اچھا ہے
اس شعر میں اسماعیل میرٹھی نے بھی لفظ رمضان کو میم متحرک باندھا ہے۔

ریاض شفیق کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
اے ہلال رمضاں توڑ غریبوں کی نہ آس
بھوکے پیاسوں کی بجھاتا ہے کوءی بھوک نہ پیاس
اس میں بھی رمضان کا میم متحرک ہے۔

رشک کا شعر دیکھیں:
عید ہر روز مناتے جو بگڑتا ہو فلک
ایک روزے سے ہیں ماہ رمضان میں ہم تم
اس شعر میں بھی رمضان کا میم متحرک ہے۔

اردو شاعری کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ نے بھی رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے۔ان کی مشہور نظم عید رمضان سے ماخوذ یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
خوشی شب رات کی ہور عید رمضاں کا خوش نت نت
اے دونوں عیدا کیاں خوشیاں خدا تج کوں سدا دیتا

اتنے سارے حوالہ جات دیکھ کے بھی کیا آپ کو یہ نہیں لگتا کہ دور حاضر کے شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے؟

اب آئیے لغت کی طرف چلتے ہیں۔فرہنگ آصفیہ میں رمضان کے میم کو مفتوح لکھا ہے۔فیروز اللغات میں بھی رمضان کے میم‌ کو مفتوح لکھا ہے۔پھر بھی آپ کہیں گے کہ رمضان کا میم ساکن درست ہے ؟

اب آئیے علم عروض کی طرف رخ کرتے ہیں۔
لفظ رمضان دو اسباب کا مجموعہ ہے۔رمَ اور ضان۔
رمَ ، سببِ ثقیل ہے ، ضان سبب متوسط ہے ، اور یہ بات جائز نہیں کہ سببِ ثقیل کا کوئی حرف ساکن کردیں۔

بعض لفظوں کے تلفظ میں اساتذہ نے چھوٹ دی ہے جیسا کہ کلمہ کی لام کو ساکن کرنا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ کلمہ کی ہ کو جب ساقط کرتے ہیں تو تین حرف پے در پے متحرک آتے ہیں جسے ثقل سمجھا گیا ہے ، اس لیے کلمہ میں لام کی تسکین روا سمجھی گئی ہے ۔
جبکہ رمضان میں کوئی حرف ساقط نہیں ہوتا کہ جس کے سبب بقیہ کلمہ کو ثقل سمجھا جاے ۔
اس لیے اساتذہ نے رمضان کے م کو ساکن نہیں باندھا۔

مندرجہ بالا پوائنٹس سے یہ نتیجہ نکلا کہ رمضان کا میم متحرک ہی درست ہے۔

کسی کی بات مانیں یا نہ مانیں قرآن کی تو مانیں۔
مثال کے طور پر:
لفظ قرآن کا درست وزن کیا ہے ؟
مفعول۔
کیونکہ یہ قرآن نے سکھایا ہے۔
الرحمان
علم القرآن
لیکن میر تقی میر نے قرآن کو ایک شعر میں فعول کے وزن پر باندھا ، مثلا”:
مت مانیو کہ ہوگا یہ بے درد اہل دیں
گر آوے شیخ پہن کے جامہ قرآن کا

لیکن ہم نے میر کو نہیں مانا ۔
قرآن کو مانا ۔
لفظ قرآن کو مفعول کے وزن پر باندھا ۔

یہی کیفیت لفظ رمضان کے ساتھ ہے۔
ہم قرآن کو مانیں گے۔ کسی اور کی متضاد رائے کو قبول نہیں کریں گے۔

حقوق العباد کی ادائیگی ایک اہم ذمہ داری، ازقلم:مولاناحبیب اللہ قادری انواری ،آفس انچارج:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان

)

انسان کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے حقوق رکھے ہیں ۔ایک تو وہ حقوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے اوپر ہیں جیسے ایمان لانا،نماز پڑھنا،روزہ رکھنا ،حج و زکوٰۃ ادا کرنا وغیرہ اور دوسرے وہ حقوق اور ذمہ داریاں ہیں جو ایک بندے کے دوسرے بندے پر عائد ہوتے ہیں ۔پہلے کو حقوق اللہ اور دوسرے کو حقوق العباد کہاجاتا ہے ان دونوں حقوق میں حقوق العباد کو جو مقام اور اہمیت حاصل ہے وہ کسی با شعور مسلمان پر پوشیدہ نہیں ہے ۔قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں متعدد مقامات پر حقوق العباد کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں غفلت اور کوتاہی برتنے کو اللہ تعالیٰ کے غضب کا موجب و سبب قرار دیا گیا ہے ۔ حقوق العباد ایک بندے پر اللہ کی طرف سے عائد کردہ دوسرے بندے کے جو حقوق ہیں ان کی ادائیگی کا نام ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں دونوں حقوق ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں ایک کی ادائیگی سے دوسرا حق بھی ادا ہوتا ہے کیوں کہ بندوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اللہ کا حکم مان کر ہم حقوق اللہ و حقوق العباد کا خیال کیو ں نہیں رکھتے؟۔جب کہ کامل مسلمان بننے اور اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق بننے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کے حقوق کو صحیح طور پر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کیے جائیں ۔ بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کی جاے ورنہ اندیشہ ہے کہ نماز، روزہ و دیگر فرائض کی پابندی کے با وجود رحمت و مغفرت الہٰئ سے محرومی ہمارا مقدر بن جاے جیسا کہ حضور نبی رحمت ﷺ کی ایک حدیث اس پر شاہد ہے ۔ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام سے پوچھا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابہ نے جواب دیا :اللہ کے رسول !مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس درہم و دینار اور مال و دولت نہ ہو آپ نے فرمایانہیں بلکہ میری امت کا مفلس وہ شخص ہوگا جو قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوگا دنیا میں وہ نماز پڑھتا رہا ہوگا ،روزے رکھتا رہا ہوگا،زکوٰۃ ادا کرتا رہا ہوگا ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی ،کسی پر تہمت لگائی ہوگی ،کسی کا مال کھایا ہوگا ،کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مار ا پیٹا ہوگا{تو یہ سب مظلومین بارگاہ الٰہی میں اس کے خلاف استغاثہ (فریاد)دائر کریں گے چناں چہ اللہ کے حکم سے}اس کی نیکیاں ان میں تقسیم کر دی جائیں گی یہاں تک کہ اس کی ساری نیکیاں ختم ہو جائیں گی ،لیکن اس کے ذمہ ابھی بھی دوسروں کے حقوق باقی ہوں گےتو مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے (یوں اس کا دامن نیکیوں سے خالی ہو جاے گا اور اس کے پاس گناہ ہی گناہ باقی رہ جائیں گے بلکہ دوسروں کے گناہ کا بوجھ بھی اس پر ڈال دیا جاے گا ) پھر سوائے جہنم کا ایندھن بننے کے اس کے لیے کوئی چارۂ کار نہیں رہ جاے گا یعنی وہ جہنم میں ڈال دیا جائیگا (مسلم شریف) –

ایسے بڑے خطرے اور نقصان سے بچنے کے لیے اور اپنا دامن حساب وکتاب سے صاف رکھنے کے لئے ہمیں اپنے معاملات کی صفائی کی بہت ضرورت ہے ۔مذکورہ حدیث رسول کریم سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نماز روزے اور دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی کتنی ضرور ی ہے ان میں کوتاہی سے ہمارای عبادتیں بھی ضائع ہو سکتی ہیں اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کی ہم بندوں کے حقوق کو بھی سمجھیں اور پھر انہیں صحیح طریقے سے ادا کریں ۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں یہ رویہ عام ہے کی کچھ لوگ حقو ق اللہ کا تو اہتمام کرتے ہیں (یعنی نماز ،روزے کے پابند ہیں )مگر وہ معاملات ِزندگی میں کھوٹے ہیں ،اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہیں اور امانت و دیانت سے خالی ہیں ،اسی طرح کچھ وہ لوگ ہیں جو حقوق اللہ پر تو با قاعدہ دھیان نہیں دیتے (یعنی نماز روزے وغیرہ عبادات کا تو اہتمام نہیں کرتے ) لیکن اخلاق و کردار کے اچھے ،معاملات کے کھرے اور امانت و دیانت جیسی خوبیوں سے بہرہ ورتے ہیں ۔جب کہ اسلام کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر ہم کامل مسلمان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی مکمل توجہ دینی ہوگی۔

حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب ،ہر ذات و نسل ،ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق آجاتے ہیں ۔ لہٰذا اگر ہم اپنے عزیزوں ،دوست و احباب اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیروں کے بھی حقوق ادا کریں، غلام اگر مالک کی خدمت کرے تو مالک بھی غلام کا پورا پورا خیال رکھے ،والدین اگر اولاد کے لئے زندگی کی ہر آشائش (آرام)ترک کر دیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کوئی کمی نہ کریں-

جن گناہوں کا تعلق حقوق اللہ (اللہ کے حقوق)سے ہے جیسے نماز ،روزہ،زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی میں کوتاہی، اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ ان گناہوں کو معاف فرمادیے گا (انشاء اللہ ) ۔لیکن جن گناہوں کا تعلق حقوق العباد (بندوں کے حقوق)سے ہے مثلاًکسی شخص کا سامان چرایا ،یا کسی شخص کو کوئی تکلیف دی ،یا کسی شخص کا حق مارا ،کسی کی زمین جائداد پر نا جائز قبضہ کیا تو قرآن و حدیث کی روشنی میں اکثر علما و فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ اس کی معافی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ جس بندے کا ہمارے اوپر حق ہے اس کا حق ادا کریں ،یا اس سے حق معاف کروائیں ۔پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ و استغفار کے لیے رجوع کریں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ”شہید کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں مگر کسی شخص کا قرض “(مسلم شریف ج/۲ص/ ۱۳۵ مجلس برکات)یعنی اگر کسی شخص کا کوئی قرض کسی کے ذمہ ہے تو جب تک ادا نہیں کر دیا جاے گا و ہ ذمہ میں باقی رہے گا ،چاہے جتنا بھی نیک عمل کر لیا جاے مشہور محدث حضرت امام نووی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ قرض سے مراد تمام حقوق العباد ہیں یعنی اللہ کے راستے میں شہید ہونے سے حقوق اللہ تو سب معاف ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے (شرح مسلم)۔

لہٰذا ہمیں حقوق العباد کی ادائیگی کو اپنی اہم ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہمیں اپنے معاملات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہماری طرف سے بھی حقوق العباد ادا کرنے میں کوتاہی تو نہیں ہو رہی ہے ؟کہیں ہم بھی دانستہ (جان بوجھ کر)یا غیر دانستہ (انجانے میں)کسی کا حق تو نہیں مار رہے؟ کہیں اور کبھی کسی سے قرض لیا ہو اور ابھی تک اسے ادا کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہ ہو؟یا کسی کی زمین ہتھیالی ہو؟

ہمیں غیر جانب دارانہ طور پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ،اپنے پچھلے معاملات اور موجودہ حالات دونوں کی جانچ پڑتال کرنا چاہیے،خرید و فروخت میں، تجارت میں آپس کی تجارتی شرکت میں ،اگر کوئی حق کسی کا ہمارے ذمہ باقی رہ گیا تو اس کو فوراً صاف کرلینا چاہیے یا ہمارے ذمہ کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیئےاس گمان میں نہیں رہنا چاہیے کہ اولاد ادا کرے گی ۔ جائداد ہے تو اپنے شرکت داروں کو شریعت کے مقررہ طریقے کے مطابق ان کا حق دینا چاہیے ،یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے بہن بھائی ہیں ،آپس کی بات ہے ،میدان محشر میں نہ کوئی کسی کا بیٹا ہوگا ،نہ بھائی بہن ،ہر شخص اپنی فکر میں پریشان و حیران ہوگا ،اسی طرح اگر کسی پر تہمت (الزام)لگائی ہے ،کسی کو پریشان کیا ہے ،کسی کی غیبت کی ہے ،کسی کو کسی طرح سے نقصان پہنچایا ہے تو اس کو اس کی زندگی میں سب سے اہم کام سمجھ کر معاملا ت کو صاف کر لینا چاہیئے ،معاف کرائے یا اس کا حق اس کو دے-اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ امت مسلمہ کو راہ استقامت عطا فرمائے ،اور حقوق العباد کی ادائیگی پر دھیان دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

عصر حاضر میں خدمت خلق کی ضرورت و اہمیت ازقلم:مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

رضائے الٰہی کے حصول کے لیے جائز امور میں مخلوقِ خدا کی خدمت، اعانت اور مدد کرنے کو خدمتِ خلق کہتے ہیں-خدمت خلق یعنی انسانوں سے پیار ومحبت اور ضرورت مند انسانوں کی مدد کے کاموں کی اہمیت وضروت کو ہردور میں تسلیم کیا گیا اور اس نیک کام کو ہر دین ومذہب میں تحسین کی نظرسے دیکھا جاتا ہےلیکن مذہب اسلام نے تو خدمت خلق پر بہت ہی زور دیا ہے-چنانچہ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو سراپا خیر ورحمت،حسن سلوک اور خیر خواہی سے عبارت ہے،اور مخلوق خدا کی خدمت اس کا طرّۂ امتیازہے،یہی وجہ ہے کہ اس دین کو رحمت، اس کے خدا کو رحمٰن ورحیم اور اس دین کے نبی کو رحمة اللعٰلمین کہا گیاہے- خدمت خلق محبت الٰہی کا تقاضہ ،ایمان کی روح اور دنیا وآخرت کی سرخ روئی کا ذریعہ ہے، صرف مالی اعانت ہی خدمت خلق نہیں ہے بلکہ کسی کی کفالت کرنا ، کسی کو تعلیم دینا ،مفید مشورہ دینا ،کسی کوکوئی ہنر سکھانا، علمی سرپرستی کرنا، تعلیمی ورفاہی ادارہ قائم کرنا، کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان جیسے دوسرے امور خدمت خلق کی مختلف راہیں ہیں۔ اسلام میں احترام انسانیت اور مخلوقِ خدا کے ساتھ ہمدردی وغم خواری کو بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے،چناں چہ قرآن مقدس اور احادیث نبویہ میں جگہ جگہ خدمت انسانیت کو بہترین اخلاق اورعظیم عبادت قراردیا گیا ہےجیسا کہ قرآن مجید میں اللّٰہ وحدہ لاشریک نے اپنے بندوں کو خدمت خلق پر ابھارتے ہوئے ارشاد فرمایا” لیس البرّ ان تولّو وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولٰکنّ البرّ من آمن باللّٰه والیوم الآخر والملٰئکة والکتاب والنّبیّین وآتی المال علیٰ حبّه ذوی القربیٰ والیتٰمیٰ والمسکین وابن السبیل والسائلین وفی الرّقاب الخ…(سورۂ بقرہ:۱۷۷)ترجمہ:اس بات میں کوئی کمال اور نیکی نہیں ہے کہ تم اپنارخ مشرق کی جانب کرو یا مغرب کی جانب،لیکن اصلی کمال اور نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللّٰہ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پراور فرشتوں پر اور کتبِ سماویہ پر اور پیغمبروں پر اور وہ شخص مال دیتاہو اللّٰہ کی محبت میں اپنے حاجتمند رشتہ داروں کواور نادار مومنوں کو اور دوسرے غریب محتاجوں کو بھی اور بےخرچ مسافروں کو اور لاچاری میں سوال کرنے والوں کو اور قیدی اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں بھی مال خرچ کرتا ہو-قرآن مقدّس میں ایک مقام پراس تعلق سے یہ ارشاد ہے”وتعاونوا علی البرّ والتّقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان”(سورۂ مائدہ:۲)۔ترجمہ: اے ایمان والو!نیکی اور پرہیزگاری [کے کاموں] میں ایک دوسرے سے تعاون و مدد کرو اورگناہ اور برائی [کے کاموں] میں ایک دوسرے کا تعاون نہ کرو- اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ خیر و بھلائی اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و امداد کریں اور گناہوں اور برائی کے کاموں میں کسی کی مدد نہ کریں بلکہ گناہ اور برائی سے روکیں کہ یہ بھی خدمت خلق کا حصہ ہے-ایک حدیث شریف میں رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: خیر الناس من ینفع الناس ترجمہ لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو لوگوں کو نفع اور فائدہ پہنچائے(ترمذی)۔ایک اور مقام پر فرمایا: ترجمہ “اگر کوئی شخص راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دے تو یہ بھی صدقہ ہے”(صحیح مسلم) قرآن مقدّس اوررسول کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی تعلیمات وارشادات نے ہمیں یہ درس دیا کہ ہم میں بہترین اور سب سے اچھا اور عمدہ انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اور حسن سلوک کرتا ہو-اوروہ اپنی ذات سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے، اور کسی کو تکلیف نہ دے، غریبوں، مسکینوں اور عام لوگوں کے دلوں میں خوشیاں بھرے، ان کی زندگی کے لمحات کو رنج و غم سے پاک کرنے کی کوشش کرے، چند لمحوں کے لئے ہی سہی، فرحت و مسرت اور شادمانی فراہم کرکے ان کے درد و الم اور حزن و ملال کو ہلکا کرے،انہیں اگر مدد کی ضرورت ہو تو ان کی مدد کرے اور اگر وہ کچھ نہ کرسکتا ہو تو کم از کم ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آکر،ان کی دلجوئی اور میٹھی بات کرکے ان کے تفکرات کو دور کرےدردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کوورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاںالغرض قرآن کی آیات اور احادیث نبویہ کی روشنی میں یہ بات بالکل ظاہر و باہر ہو جاتی ہے کہ اسلام ہمیں احترام انسانیت اور خلق خدا کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کی تعلیم دیتا ہے- بیواؤں، مزدوروں، یتیموں،غریبوں، محتاجوں اور بے کسوں کے ساتھ غمخواری اور اظہار ہمدردی کی ترغیب دیتا ہےخصوصاً آج کے اس ماحول میں جب کہ عالمی وبا سے کئی زندگیاں اجیرن بن چکی ہیں، مزدور، کسان اور بہت سے لوگوں کی زندگی بری طرح متاثر ہو چکی ہے ہمارے ہہت سےعلما و ٹیچرس بھی فاقہ کشی کی نوبت تک پہنچ چکے ہیں-لہٰذا ایسے ماحول میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے محض انسانیت کی بنیاد پر ذات پات، رنگ و نسل کا لحاظ کئے بغیر پریشان حال لوگوں کا تعاون جس طرح سے بھی ہوسکے کرکے آپسی ہمدردی، مساوات اور رواداری کا عملی نمونہ پیش کریں-اس ضمن میں قابل مبارک باد ہیں ہمارے علاقے کی نہایت متحرّک وفعّال رفاہی تنظیم “تحریک پیغام انسانیت” کے ذمہ داران جو مسلسل بلاتفریق مذہب وملّت پریشان حال انسانیت کی اپنے طور پر ہر ممکن تعاون و خدمت میں لگے ہوئے ہیں-اللّٰہ تبارک وتعالیٰ اس تنظیم کو مزید مستحکم اور پائیدار بنائے،تاکہ اس تنظیم کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ خدمت خلق ہو سکےاور ہم سبھی لوگوں کو بھی چاہییے کہ ہم انفرادی یااجتماعی طور پر جس طرح بھی ممکن ہو مفلوک الحال اور پریشاں حال مخلوق خدا کی حتی الامکان خدمت اور تعاون کریں، کیوں کہ مخلوقِ خدا کو تو حدیث شریف میں اللّٰہ کا کنبہ کہاگیا ہے،اوران کے ساتھ بھلائی وہمدردی کو محبّت الٰہی کے حصول کاذریعہ بتایا گیا ہےجیسا کہ ارشاد نبوی ہے” الخلق عیال اللّٰه فاحبّ الخلق الی اللّٰه من احسن الیٰ عیاله”(مشکوٰة)۔ترجمہ : ساری مخلوق اللّٰہ تعالیٰ کاکنبہ ہے اور مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وپسندیدہ اللّٰہ کے نزدیک وہ شخص ہے جو اللّٰہ کے عیال کے ساتھ بھلائی کے ساتھ پیش آئے- انسان ایک سماجی مخلوق ہے اس لئے سماج سے الگ ہٹ کرزندگی نہیں گذارسکتا،اس کے تمام تر مشکلات کا حل سماج میں موجود ہے،مال ودولت کی وسعتوں اور بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہےاس لیے ایک دوسرے کی محتاجی کو دور کرنے کے لئے آپسی تعاون ،ہمدردی ،خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت بھی ہے،مذہب اسلام چونکہ ایک صالح معاشرہ اور پرامن سماج کی تشکیل کا علم بردار ہےاس لیے مذہب اسلام نے ان افراد کی حوصلہ افزائی کی جو خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہوکرسماج کے دوسرے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا درد اپنے دلوں میں سمیٹے ،تنگ دستوں اور تہی دستوں کے مسائل کو حل کرنے کی فکر کرے،اپنے آرام کو قربان کرکے دوسروں کی راحت رسانی میں اپنا وقت صرف کرے۔کمال یہ ہے کہ اسلام نے خدمت خلق کے دائرۂ کارکو صرف مسلمانوں تک محدود رکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انسانی ہمدردی اور حسن سلوک کو ضروری قرار دیا، روایتوں کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ اللّٰہ کے نبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نےجہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا وہیں تمام مخلوق کو اللہ کا کنبہ بھی قرار دیااس سے انسانیت کی تعمیر کے لئے آپسی ہمدردی ،باہمی تعاون اور بھائی چارے کی وسیع ترین بنیادیں فراہم ہوئی ہیں،پڑوسی کے حقوق کی بات ہو یا مریضوں کی تیمارداری کا مسئلہ ،غرباء کی امداد کی بات ہو یا مسافروں کے حقوق کا معاملہ ،اسلام نے رنگ ونسل اور مذہب وملت کی تفریق کے بغیر سب کے ساتھ یکساں سلوک کو ضروری قرار دیا-حیرت ہے ان لوگوں پر جنہوں نے مذہب اسلام کی من گھڑت تصویر پیش کرتے ہوئے یہاں تک کہاکہ اسلام میں خدمت خلق کا کوئی جامع تصور موجود نہیں ہے، جب کہ سچائی اورحقیقت تو یہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ آپس میں [بلا تفریق مذہب وملّت]ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں، بلکہ اسلام نے تو جانوروں کے ساتھ بھی حسن معاملہ کا حکم دیا ہے،اس پر بہت سی روایات وشواہد موجودہیں- مذہب اسلام نے بنیادی عقائد کے بعد خدمت خلق کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے، قرآن مجید کے مطابق تخلیق انسانی کا مقصد بلاشبہ عبادت ہے،لیکن عبادت سے مراد محض نماز ،روزہ ،حج وزکوۃ نہیں ہے بلکہ عبادت کا لفظ عام ہے جو حقوق اللّٰہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی شامل ہے-علامہ رازی نے عبادت کی تفسیر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھاہے کہ پوری عبادت کا خلاصہ صرف دوچیزیں ہیں ایک امر الٰہی کی تعظیم اور دوسرے خلق خداپر شفقت،علامہ رازی کی یہ بات دل کو چھو لینے والی اور بہت صحیح ہے،علم حدیث سے واقفیت رکھنے والے علما جانتے ہیں کہ فرامین نبوی کے ایک بڑے حصہ کا تعلق حقوق العباد اور خدمت خلق سے ہے،طول کلامی سے اجتناب ان روایتوں کے تذکرہ کی اجازت نہیں دیتا ورنہ بہت ساری روایتیں ذکر کی جاسکتی ہیں، تاہم چند مشہوراحادیث کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتاہے-(۱)رحم کرنےوالوں پر رحمٰن رحم فرماتاہے تم زمین والوں پر رحم کرو اللّٰہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائےگا-(۲)تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جس سے لوگوں کو نفع پہونچے-(۳)قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتاہے(۴)اللّٰہ تعالیٰ کے کچھ نیک بندے ایسے ہیں جن کو اس نے اپنی خاص نعمتوں سے نوازا ہے تاکہ وہ اللّٰہ کے بندوں کو اپنے مال سے نفع پہنچائیں اور جب تک وہ اللّٰہ کے بندوں کو نفع پہنچاتے رہیں گے اللّٰہ تعالیٰ بھی انہیں مزید نعمتوں سے نوازتارہےگا اور جب وہ خدا کے بندوں کو محروم کردیں گے تو اللّٰہ بھی ان سے اپنی نعمتیں ختم فر دیتاہے اور ان کی جگہ دوسرے بندوں کو عطا فرما دیتا ہے-(۵)اللّٰہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو انسانوں پررحم نہیں کرتا- (۶)اللّٰہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتارہتاہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتاہے-(۷)جو کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کرے[اسے تسلی دے] اسے اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا مصیبت زدہ کو-مذکورہ روایتوں سے جہاں خدمت خلق کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے وہیں یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ مذہب اسلام خدمت خلق کے دائرہ کار کو کسی ایک فرد یا چند جماعتوں کے بجائے تمام افراد امت پر تقسیم کردیا ہے، غریب ہو ،امیر ہو یا بادشاہِ وقت، ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق خدمت خلق کی انجام دہی کا ذمہ دار ہے-یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ اللّٰہ کے نبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے خدمت خلق کی محض زبانی تعلیم نہیں دی بلکہ آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی عملی زندگی خدمت خلق سے لبریز ہے-سیرت طیبہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بعثت سے قبل سے آپ خدمت خلق میں مشہور تھے، بعثت کے بعد خدمت خلق کے جذبہ میں مزید اضافہ ہوا، مسکینوں کی دادرسی ،مفلوک الحال پر رحم وکرم ،محتاجوں ،بے کسوں اورکمزورں کی مدد آپ کے وہ نمایاں اوصاف تھے جس نے آپ کو خدا اور خلقِ خدا سے جوڑ رکھا تھا،حلف الفضول میں شرکت ،غیر مسلم بڑھیا کی گٹھری اٹھاکر چلنا ،فتح مکہ کے موقع سے عام معافی کا اعلان اور مدینہ منورہ کی باندیوں کا آپ صلّی اللّہ علیہ وسلّم سے کام کروالینا اس کی روشن مثالیں ہیں،آپ صلّی اللّہ علیہ وسلّم کے اصحاب [رضوان اللّٰہ علیہھم اجمعین] بھی خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار تھے-حضرت ابوبکر صدّیق کا تلاش کرکے غلاموں کو آزاد کرانا ،حضرت عمرفاروق اعظم کا راتوں کو لباس بدل کر خلق خدا کی دادرسی کے لئے نکلنا ،حضرت عثمان غنی کا پانی فروخت کرنے والے یہودی سے کنواں خرید کر مسلم وغیر مسلم سب کے لیے وقف کردینا تاریخ کے مشہور واقعات میں سے ہیں،انصار کا مہاجرین کے لیے بے مثال تعاون بھی اسی زمرہ میں آتاہے، خدمت خلق کا یہ جذبہ مذکورہ چند صحابۂ کرام میں ہی منحصر نہیں تھا بلکہ آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کے تمام اصحاب کا یہی حال تھا کہ انہوں نے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم کی اتباع کرتے ہوئے نظام مصطفیٰ کی عملی تصویر دنیا کے سامنے پیش کیں، اپنے کردار سے سماجی فلاح وبہبود اور خدمت خلق کا وہ شاندار نقشہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ کردیا جس کی نظیر دنیا کا کوئی نظام حیات پیش نہیں کرسکتاـیہ تو ملت اسلامیہ کی بدقسمتی ہے کہ اس نے نماز ،روزہ ،زکوۃ اور حج کو عبادات کا حدود اربعہ سمجھ رکھا ہے اور معاشرت ،معاملات اور اخلاقیات کو مذہب سے باہر کردیا ہے، حالانکہ یہ بھی دین کے اٹوٹ حصے ہیں۔فرقہ پرستی اور اخلاقی بحران کے اس دور میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ سماج کے بااثر افراد ،تنظیمیں اور ادارے خدمت خلق کے میدان میں آگے آئیں،دنیا کو اپنے عمل سے انسانیت کا بھولا ہوا سبق یاد دلائیں ،نصاب تعلیم میں اخلاقیات کو بنیادی اہمیت دی جائے، تاکہ نئی نسلوں میں بھی خدمت خلق کا جذبہ پروان چڑھے، خدمت خلق صرف دلوں کے فتح کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اسلام کی اشاعت کا موثر ہتھیار بھی ہے۔کرومہربانی تم اہل زمیں پرخدامہرباں ہوگا عرش بریں پرخلق خدا کی خدمت سے انسان نہ صرف یہ کی لوگوں کے دلوں میں محترم ہو جاتا ہے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کے یہاں بھی بڑی عزت و احترام پاتا ہے-ایساشخص اللّٰہ وحدہ لاشریک کی رضا اور قرب کا حق دار بن جاتا ہےاور مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے والا حضرت شیخ سعدی شیرازی کے اس مصرع کا مصداق بن جاتا ہے “ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد” یعنی جو شخص دوسروں کی خدمت کرتا ہے [ایک وقت ایسا آتا ہے کہ] لوگ اس کی خدمت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں،یعنی وہ خادم سے مخدوم بن جاتا ہے-حاصل کلام یہ ہے کہ خد متِ خلق وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت اور بہت بڑی عبادت بھی ہے، کسی انسان کے دکھ دردکو بانٹنا جہاں اس کےساتھ ایک اخلاقی ذمہ داری وہمدردی ہے وہیں حصولِ جنت کا ذریعہ بھی ہے، کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اللّٰہ کی رضا و خوش نودی کا ذریعہ ہے،کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اللّٰہ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا سبب ہے، کسی بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم بھی ہے، کسی بھوکے کو کھانا کھلانا نیکی اور ایمان کی علامت ہے،کیوں کہ دوسروں کے کام آنا ہی اصل زندگی ہے جیسا کہ کسی دانشور کا کا یہ فکرانگیزقول بہت مشہور ہے کہ “اپنے لیے تو سب جیتے ہیں صحیح معنوں میں انسان تو وہ ہے جو اللّٰہ کے بندوں اور اپنے بھائیوں کے لیے جیتا ہو” شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال کے الفاظ میںہیں لوگ وہی جہاں میں اچھےآتے ہیں جو کام دوسروں کےایک سچے مسلمان بلکہ ایک اچھے انسان کی یہ نشانی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایسا کام کرے جس سے عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے مثلا کوئی رفاہی ادارہ قائم کردے، اسپتال وشفاء خانہ بنوا دے، مدرسہ، اسکول و کالجز تعمیر کرا دے اور راستے میں یا کسی ایسی جگہ جہاں سے لوگ سیرابی حاصل کرسکیں،کنواں و تالاب کھودوادے یا نل وپیاؤ بنوا دےـیہ سب ایسے کام ہیں کہ جن سے مخلوق خدا فیض یاب ہوتی ہے اور ان اداروں کے قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتی رہتی ہے اور یہ ایسے ادارے اورچیزیں ہیں جو صدقۂ جاریہ میں شمار ہوتے ہیں- یعنی ان اداروں سے جو لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں وہ قائم کرنے والوں کے حق میں دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اس کا اجر و ثواب مرنے کے بعد بھی اس شخص کو ملتا ہے اور اس کے نامۂ اعمال میں لکھا جاتا ہے-اس اعتبار سے یقیناً قابل مبارکباد ہیں وہ سبھی حضرات جو خالصاً لوجہ اللّٰہ اس طرح کے ادارے یا تنظیمیں قائم کرکے زمینی سطح پر مخلوقِ خداکی خدمت کرتے ہیں،اس موقع پر ہم مباک باد پیش کرتے ہیں ۔مکارم الاخلاق حضرت علّامہ ومولانا نظام احمد خان مصباحی کو جنہوں نے اپنے رفقا کے معاونت ومشاورت سے اس طرح کےایک رفاہی ادارہ “تنظیم تحریک پیغام انسانیت” کی داغ بیل ڈالی، اور الحمدللّٰہ اس تنظیم کے ذریعہ [اہل خیر سے تعاون حاصل کرکے] ضرورت مندوں کی خوب خوب خدمت کررہے ہیں-اللّٰہ تبارک وتعالیٰ اس طرح کی سبھی تحریکوں وتنظیموں [بالخصوص تحریک پیغام انسانیت] کی غیب سے مدد فرمائے-اور اہل ثروت واہل خیر حضرات کو اس طرح کی تنظیموں کی معاونت کی جانب راغب فرمادے آمین بجاہ سیّدالمرسلین[صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم]۔

”رمضان المبارک “ امت کی غم خواری وہمدردی کا بھی مہینہ ہے۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

(پریس ریلیز)اقوام ملل کی وہ تاریخیں جو مختلف فرائض وواجبات کےآغاز کی شاہد عدل ہیں ان میں ماہ رمضان کے ”روزے“ کےسن آغاز کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔اسے بھی امت مسلمہ کےشعور وآگہی کا حصہ ہونا چاہیۓ۔فرمان خداوندی”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض ہوۓ جیسے اگلوں پر فرض ہوۓ تھے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے“کےنزول کے ساتھ رمضان کے روزے کی فرضیت کا خدائ حکم ١٠دس شعبان المعظم سن ٢دو ہجری کو امت محمدیہ کےلۓ نافذ ہوا۔مذکورہ آیت کریمہ کا اسلوب بھی نہایت دلنشیں و دل پذیر اور جاذب جگر ہےکہ تکلیف دہ اس حکم کو دیگر امم سابقہ کی طرح امت محمدیہ بھی بخوشی انجام دےکر رب کی خوشنودی حاصل کرلے۔کیوں کہ انسانی طبع ومزاج ہمیشہ اسی امر کا خوگر رہا ہے کہ دوسروں کےپر مشقت فعل کو دیکھ کر اپنی تکلیف بھول جاۓاور مصروف عمل رہے۔اب دیکھناہے اس امت سےپہلے کن انبیا ء وامم سابقہ کے روزے تھے اور ان کی کیفیت ونوع کیا تھی؟تفسیر خازن کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام ایام بیض یعنی ہرماہ کے ١٣\١٤\١٥تاریخ کے روزے رکھتے تھے،حضرت نوح علیہ السلام عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے،حضرت موسی علیہ السلام عاشورہ {دسویں}محرم اور ہر ہفتہ کے دن کا روزہ رکھتے تھے،حضرت داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور دوسرے دن افطار کرتے تھے،حضرت سلیمان علیہ السلام ہرماہ کے شروع کے تین ، درمیان کے تین اورآخر کے تین ایام یعنی ہر ماہ کے نو روزے ذکر کردہ ترتیب سےرکھتے تھےاور حضرت عیسی علیہ السلام ہمیشہ با صوم رہتے تھے۔ان تمام روزوں کا انتساب گوکہ انبیا کی طرف ہےتا ہم بمطابق آیت کریمہ یہ مسلم ہےکہ اگلی امتوں پربھی روزے فرض تھے خواہ ان کے فرض روزے وہی رہے ہوں جو ان انبیا کے تھے جن کے یہ امتی تھے۔ یا۔نوع وکیفیت میں قدرے تغیر و اختلاف کے ساتھ مختلف رہے ہوں بہر حال انسانی طبع ومزاج کے مطابق امت محمدیہ کے روزہ رکھنے کی ذہن سازی خلاق کائنات نے یوں فرمائ کہ یہ مشقت کی چیزاگلے لوگوں پر فر ض ہوئ ۔انہوں نےاس کو رکھا تم بھی بخوشی رکھو۔مگر افسوس ان لوگوں پر ہے جو اس فرمان عالی شان سے مستفید ہونے کی بجاۓ روزہ نہ رکھ کر بدباطنی کا ثبوت دیتے ، اور غضب جبار کے شکار بنتے ہیں ،مذکورہ باتیں دار العلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی کے استاذ نے ایک پریس ریلیز میں بتائیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ رمضان شریف غریبوں ،بے سہاروں اور بےکسوں کی غم خواری وہمدردی کا مہینہ بھی ہے۔کیوں کہ آدمی جب بھوکا پیا سا ہوتا ہے تو اس کی شدت وتکلیف کااحساس ہوتاہے جب کہ سال کے اور مہینوں کے دنوں میں کھانے پینے کاعمل جاری رہتاے اس لۓ اس شدت کااندازہ ان دنوں میں نہیں ہوتا اور غربا کی تکلیف یاد نہیں آتی۔ مگر ماہ رمضان میں غم خواری و خیر خواہی امت محمدیہ کے روزہ داروں کے دلوں میں مؤجزن ہوتی ہے ،اور دست تعاون ان کی طرف دراز ہوتا ہوا نظر آتا ہےاور روزہ فرض ہونے کی ایک حکمت علما وحکمانے یہ بھی بیان فرمائ ہے ۔فرمان آقاۓ کریم میں اس کو غم خواری وخیر خواہی کا مہینہ بایں الفاظ کہا گیاہے “ھو شھر المؤاساة“ یعنی یہ رمضان شریف غربا سے غم خواری وہمدردی کا مہینہ ہے۔حضور کاعمل بھی یہی تھا آپ غربا کی مفلوک الحالی دیکھ کر بے چین،بے قرار ہو جاتے تھے اور خود بھی ان کی اعانت فرماتے ، دوسرو ں کو ان کی امداد کی طرف متوجہ فرماتے اور بعد امداد مسرت وشادمانی کےآثار آپ کی جبین اقدس سے ہویدا ہوتے تھے۔چنانچہ ایک بار کچھ لوگ کاشانئہ اقدس پر حاضر ہۓ جو ننگے پاؤں ،ننگے بدن ،ننگے سر اور بوسیدہ حال تھے ،حضور ان کی حالت زار دیکھ کر بے قرار ہو گۓ ،پریشانی کے عالم میں آپ کبھی اندر تشریف لے جاتے اور کبھی باہر آتے ۔بظاہر کچھ نہ رہنے کی وجہ سے آپ انتہائ متفکر تھے ،اسی اثنا میں نماز کا وقت ہوگیا ،آپ نے حضرت بلال کو آذان کہنے کا حکم دیا ،پھر آپ نے نماز پڑھائ نماز کے بعد حاضرین کی توجہ ان کی مفلوک الحالی کی طرف دلائ ،ان کی امداد کے بعد آپ کے جبین اقدس پر طمانیت ومسرت کے آثا نمودا ر ہوۓ ۔اللہ کریم ہم سب کو ماہ رمضان کے روزے اور غربا وپریشان حال کی اعانت کی توفیق، اور ان کی غم خواری وہمدردی کے اظہار کی ہمت عطا فرماۓ ۔آمین