WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives August 2022

قومی ترانہ۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

خاک وطن ہے پیاری ہم سب کو اپنی جاں سے
کرتے ہیں پیار جیسے افراد اپنی ماں سے

ہندوستاں سے مجھ کو کیونکر نہ ہو محبت
میر عرب کو آءی ٹھنڈی ہوا جہاں سے

ہے مادر وطن کے قدموں کی خوشبو ایسی
آتی ہے اس کی خوشبو ہر قلب کے مکاں سے

پودے نرالے اس کے اور گل بھی ہیں نرالے
مجھ کو لگا ہے بھارت نیارا ہر اک جہاں سے

ٹیگور ہو کہ بنکم، بیکل ہو یا وہ اجمل
ہم کو ہے پیار ہر اک بھارت کے مدح خواں سے

پیدا ہوءے ہیں اس میں ، اس میں ہی دفن ہونگے
مت پوچھنا اے ظالم ، آءے ہو تم کہاں سے

صدیوں سے اس وطن میں ہے بود و باش اپنی
پڑھ کے تو دیکھو تاریخ اور پوچھو نکتہ داں سے

آپس میں کررہے ہیں سرگوشیاں ستارے
دیکھو زمین بھارت اونچی ہے آسماں سے

حق کی حصول یابی کے واسطے لڑیں گے
اور فرض بھی نبھاءینگے دل‌سے اور جاں سے

حب وطن کو جزو ایماں بتایا شہ نے
کرتا ہوں خوب توصیف اس واسطے زباں سے

یہ کہہ کے رکھ دیا ہے ہم نے قلم بھی عینی
تعریف کیا کروں میں ، باہر ہے یہ بیاں سے

۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

جنگ آزادی میں علماۓ کرام کی قربانیاں{ موجِ فکر }✍ آصفــ جمیل امجدی

………..75/ویں یوم آزادی کا سورج اپنی پوری آب و تاب کیساتھ افق ہند پر جلوہ پاشی کررہاہےـ
ہر سال ہم 15/ اگست کو یوم آزادی اور 26/ جنوری کو یوم جمہوریہ مناتے ہیں ـ اس دن ہم اپنے ان رہنماؤں کو یاد کرتے ہیں جنھوں نے عظیم قربانیاں دے کر ہمیں انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا دلایا تھاـ آزادی حاصل ھوۓ 75/ برس ھوگئے جسے ہم بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں یہ ہمارا فریضہ ہے اور نصب العین بھی.

  74/سال قبل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  • جب ساون اور بھادوں کے مہینے میں آسمان پر بدلیاں چھائی تھیں۔
  • جب گھٹائیں ہندوستان کے دامن سے غلامی کی نجاستوں کو پاک کررہی تھیں۔
  • جب ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیوں پر ہماری آزادی کا سورج جلوہ فگن ہورہاتھا۔
  • جب غلامی کی بیڑیاں کٹ رہی تھیں۔ اس وقت ملک کے لوگ یہ فیصلہ کررہے تھے کہ یہ ملک کسی ایک فرقے کا نہ ہوگا، یہاں ہر مذہب و ملت کا احترام ہوگا اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔

آج پھر گھنگور گھٹائیں چھائی ہیں اور پانی کی بوندیں تازہ ترانا گنگنارہی ہیں اور ہم اس ملک کی یوم آزادی کی 75/ ویں سال گرہ منارہے ہیں۔
لیکن یہ عجیب و غریب المیہ ہے کہ آزادی کے بعد مسلمان کو نظر انداز کردیاگیا تاریخ کی کتابوں سے لے کر عجائب خانوں تک ان کے نام و نشاں مٹا دیئے گئے…..
اب ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ بیان کی جاتی ہے یا لکھی جاتی ہے اس سے مسلم اور غیر مسلم نوجوان طلباء یہی تأثر لے رہے ہیں کہ انگریزی سامراج کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑنے والوں میں “مولانا عبد الکلام آزاد اور شہید اشفاق اللہ خاں” کے علاوہ بس ایک دو مسلم اورتھے۔ ایسے تاثر لینے پر نئی نسل مجبور ہے کسی اور مسلمان کا نام آتا ہی نہیں جس نے انگریزی سامراج کے خلاف سخت جد و جہد کی ہے۔ مصیبتیں جھیلیں ہیں اور جان کی بازیاں لگائی ہیں پھانسی کے پھندوں کو چوما ہے انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی ہے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔
مگر حقیقت تو یہ ہے کہ انگریزی سامراج کے خلاف جنگ چھیڑنے والے مسلمان، مصیبتیں اٹھانے والے مسلمان ، قید کی زندگی کاٹنے والے مسلمان اور جان پر کھیلے جانے والے مسلمان رہے ہیں۔
بھارت کے بٹوارے کے وقت ہمیں حق تھا پاکستان جانے کا آپ کونہیں تھا۔ ہمیں حق تھا، لیکن ہمارے اسلاف نے یہ طے کیا تھا کہ یہ وطن ہمارا ہے، ہمارے اجداد کی قبریں ہیں یہاں، ہمارے بزرگوں کے مزارات ہیں یہاں۔ جامع مسجد ہے دلی کی، تاج محل ہے، قلعیں ہیں بزرگوں کی یادیں ہیں یہاں اور یہ سب بھارت کی شان ہیں آج انہیں مسلمانوں کو غدار ٹھہرایا جارہا ہے۔ انہی کا نام لے کر سڑکوں پر مارا جارہا ہے ۔ ہم اپنی مرضی سے رکے تھے، ہمیں کسی نے زبردستی نہیں روکا تھا، جو اپنی مرضی سے رکے ان کے لیے آج یہ کہا جارہاہے کہ جو “وندے ماترم” نہیں کہے گا اسے بھارت میں رہنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ حالانکہ سپرم کورٹ کہہ رہا ہے کہ “وندے ماترم” کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جاۓ گا سب سے بڑی عدالت تو وہ بھی ہے ۔

بھارت کو آزاد کرانے کےلیے ”ریشمی رومال تحریک“ میں لاتعداد علماۓ کرام نے پھانسی کے پھندے کو چوما تھا آج بھی اس بھارت ملک کی مٹی میں نہ جانے کتنے آزادی کے متوالے مسلم شہداء کی لاشیں دفن ہیں ۔
حضرت مولانا ہدایت رسول قادری برکاتی رحمتہ اللہ لکھنوی متوفی 1915ع نے لکھنؤ میں انگریزوں کے خلاف زبردست تحریک چلائی تھی اور “لکھنؤ بند” کا اعلان عام کیا تھا۔ لکھنؤ بند کے دن ساری دکانیں بند تھیں پورے شہر میں کسی طرح کی خرید و فروخت نہیں ہوتی تھی ۔ کسی انگریز نے ایک بوڑھیا خاتون سے (جو سبزی بیچا کرتی تھی) کہا کہ مجھے سبزی کی سخت ضرورت ہے اس لیے میں تمہارے پاس آیا ہوں ۔ بوڑھیا نے برجستہ اور بلاخوف و خطر انگریز کو جواب دیا ”نہیں! آج کچھ نہیں مل سکتا ہے“ ہمارے مولانا نے آج لکھنؤ والوں کو منع کیا ہے کہ کوئی بھی دوکان نہیں کھول سکتا ہے اور نہ ہی خرید و فروخت کرسکتا ہے؎
شیر میسور ٹیپو سلطان (شہادت 1799ع) پورے متحدہ ہندوستان کا یکلوتا بادشاہ جنھوں نے انگریزوں سے لڑتے ہوۓ میدان جنگ کے اندر عین حالت جنگ میں شہادت پائی۔ اور انگریز کمانڈر نے سلطان ٹیپو کی لاش پر کھڑے ہوکر بڑے فخر کے ساتھ کہا تھا “آج سے ہندوستان ہمارا ہے” اسی شیرِ دل نے للکار کر دہاڑا تھا کہ ” شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے“
16/رمضان المبارک 1274ھ مطابق 30/ اپریل 1858ع کو مفتی کفایت اللہ کافی رحمتہ اللہ علیہ کو انگریزوں نے گرفتار کرلیا 4/مئ
1858ٕٕع کو آپ کا مقدمہ پیش ہوا اور سر سری سماعت کے بعد 5….6/مئ کو آپ کے پھانسی کا فیصلہ سنایا گیا۔
نہایت صبر و استقلال اور خندہ پیشانی کے ساتھ آپ نے یہ ظالمانہ فیصلہ سنا۔ مفتی کفایت اللہ کافی جب پھانسی کے پھندے کی طرف قدم بقدم بڑھ رہے تھے تو یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔

؏ ۔۔۔۔
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جاۓ گا
پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جاۓ گا۔

سن 1942ء میں جب ہندو مسلم نے ایک برتن میں کھانا کھایا تھا تب انگریزوں کو لگا تھا کہ اب ہم ہندوستان میں راج نہیں کرپائیں گے۔اور سن 1942ء سے ہی انگریز اپنا بستر باندھنا شروع کردیئے تھے ۔
سن 1947ء میں ہندوستان آزاد ہو گیا تھا۔

(ناچیز زخمی قلب و جگر کیساتھ آگے کی منظر کشی کررہا ہے۔)

سن 1870ع کی تحریک میں تنہا مسلمان انگریزوں سے آزادی کیلئے لڑتے رہے ـ جس میں علمائے اہلِ سنت کی مقدس جماعت پیش پیش تھی.
(1) جلیاں والا باغ میں مسلمانوں نے سینوں پر گولیاں کھاکر یہ بتایا کہ مسلمان ملک کا کیسا وفادرا ہے۔

(2) نمک تحریک میں 78 ہزار مسلمان گرفتار ہوۓ، گرفتاری بھی مسلمانوں کی وفاداری کی عکاسی ہے۔

(3) سن1920 سے 1922ع تک کی تحریک آزادی میں 20ہزار مسلمان گرفتار ھوئے۔

ان گنت مسلمانوں کو کالا پانی کی قید میں ڈالا گیا. بے شمار علما کی لاشوں کو درختوں سے لٹکایا گیا.
اس طرح بے شمار قربانیاں جو مسلمانوں نے انجام دیں وہ سب مٹانے کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہیں.
ہماری یہ قربانیاں شاید آج لوگوں کو نظر نہیں آرہی ہیں یا پھر چشم پوشی سے کام لیا جارہا ہے.

دہلی میں چار ہزار دینی مدرسےقائم تھے۔
تحریک آزادئِ ھند 1857ء کی لہر اٹھی تو نہ صرف یہ سارے مدرسے گرا دیئے گئے بلکہ پورے دلی شہر میں ایک بھی طالب علم زندہ نہ بچ سکا
انگریز مورخ لکھتاہےکہ
میں نے دلی شہر اور مضافات میں 50 کلومٹر فاصلے کا چکر لگایا ایسا کوٸی درخت اور شاخ نظر نہ آیا جس پر ایک عالم دین اور تحریک آزادی کے جانثار کی لاش نہ لٹکی ہوئی ہو۔

نادان! پوچھتے ہیں تحریک آزادی میں علما کا کیا کردار رہا۔

مسلمانو! اٹھو اور اپنی قربانیوں کی داستانیں بچے بچے تک پہنچادو تاکہ دوبارہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اس ملک کے لیے مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا. نسل نو پھر سے محبت کا پیغام لیکر اٹھے, جو ہمارے ملک کو عظمت کی بلندیوں تک لے جائے۔

{مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں}
jamilasif265@gmail.com
9161943293/6306397662

جنگ آزادی میں علمائے اہلسنت کی قربانیاں، از قلم ،محمدہاشم رضا متعلم :جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف


ملک ہندوستان جہاں اپنی زرخیزی ،صنعت وحرفت کی وجہ سے ہمیشہ ایک خاص شہرت کا مالک رہا ہے ۔ وہیں اہل فضل و کمال کا گہوارہ بھی رہا ہے ۔ مغلیہ دور حکومت میں بھی ہندوستان پوری دنیا کے لئے قابل رشک بنا ہوا تھا ، دنیا کے بیش قیمتی سامان ہندوستان میں تیار ہوا کرتے تھے ، کھیتوں میں بھی طرح طرح کے اناج اور غلے ہوا کرتے تھے ، جب ہندوستان کی اس حیثیت کو دوسرممالک کے لوگوں نے دیکھا تو انکی بھی رال ہندوستان پر ٹپکنے لگی کہ ہمیں بھی ہندوستان سے کچھ ملنا چاہیے ۔ کیونکہ ہندوستان کو اس زمانے میں سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا ۔اور پوری دنیا کے تاجروںکی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا ، پندرہویںصدی سے غیرملکی تاجروں نے یہاں تجارت کا آغاز کیا ۔۱۶۰۰میں انگریزبھی بغرض تجارت ہندوستان پہنچے اور ساحلی علاقوں میں تجارت شروع کردی مگر ٹیکس کی واجبی ادائیگی کی وجہ سے انہیں خاص نفع حاصل نہ ہوا کہ انہیں دنوں شاہجہاں کی شہزادی کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوئی جسکا ہندوستانی طبیبوں سے علاج ممکن نہ ہو سکا ، اور ایک انگریز طبیب نے کامیاب علاج کیا جسکی خوشی میں بادشاہ نے بنگال میں انگریزوں کو کمپنی شروع کرنے کی اجازت دی ۔ اور ٹیکس بھی معاف کر دیا ۔ بنگال میں انہوںنے ایسٹ انڈیا کمپنی کی داغ بیل ڈالی ، یہ انگریزوں کے ہندوستان میں عروج کی خشت اولین تھی ، کمپنی میں انہوںنے ملازمین کو جنگی تربیت بھی دی ۔ اور ۱۷۵۷ء؁ میں بنگال کے نواب سراج الدولہ پہ الزام لگا کر اعلان جنگ کر دیا اور نواب کے وزیر کو اپنے ساتھ ملا لیا اور اس طرح سازشی انداز میں نواب کو پلاسی کے میدان میں شکست دیکر انگریزبنگال میں قابض ہو گئے ۔ پھر اس وقت کے مغل بادشاہ شاہ عالم کے پاس جاکر جبرا یہ فرمان جاری کروادیا کہ بنگال ،بہار ،اڑیسہ ،اور الہ آباد پر انگریزوں کی حکومت رہے گی ۔ ان شہروں پرقبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے اپنی پرانی چا ل (لڑاؤ اور حکومت کرو) کے پیش نظر دوسرے نوابوں اور راجاوں میں پھوٹ ڈالنا شروع کردی ۔ انگریزوں نے اپنی پالیسی پر عمل کرکے ۱۸۵۶ء؁ میں پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ پورے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں نے جو ظلم و بربریت کی داستان مسلمانوں کے خون سے لکھی ہے وہ یقینا بھلائی نہں جا سکتی ۔ پھر ۱۸۵۷ء؁ میں جنگ آزادی لڑی گئی ۔ ہندوستان کی آزادی کے لئے ملک کی ہر قوم اپنی بساط کے مطابق جدو جہد میں لگ گئی ۔ مگر ہندوستانی عوام اس کشمکش میں تھی کہ پہل کرے اس وقت ہمارے علمائے اہلسنت نے جنگ آزادی میں نہ صرف اپنا قائدانہ کردار ادا کیا ہے بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے ۔ ملک کی آزادی میں جن مایہ نازہستیوں نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔ان میں سے چند علماکی قربانیوں کو آنے والی سطروں میں ملاحظہ فرمائیں ۔ (۱)علامہ فضل حق خیر آبادی : آپ کو اللہ تعالی نے جس ذہانت وفطانت کی وافر دولت سے مالا مال کیا تھا وہ آاب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔ آپ علوم عقلیہ میں امامت واجتہاد کے منصب پر فائز تھے ۔ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں آپ کے علم و فضل کا ڈنکا بج رہا تھا ۔ جس وقت انگریزہندوستان میں مسلمانوں کے خو ن کے ساتھ ہولی کھیل رہے تھے اسوقت سب سے پہلے دہلی کی جامع مسجد سے انگریزوں کے خلاف جسنے جہاد کی آواز بلند کی وہ علامہ فضل حق خیر آبادی ہی کی ذات تھی ۔ جیسے ہی یہ خبر شائع ہوئی پورے ہندوستان میں شورش بڑ گئی ۔ ۹۰ ہزار سپاہی دہلی کی جامع مسجد میں ہو گئے ۔علامہ صاحب دل و جان سے انگریزی استعمار کے خلاف ڈتے رہے انکی اشتعال انگیزیوں سے متأثر ہوکر شہزادے بھی میدان میں نکل آئے ۔ لیکن حالت یہ تھی کہ اپنوں میں کئی دغاباز تھے علامہ صاحب نے جو فتوی دیا تھا اسکی خبر انگریزوں تک پہنچا دی گئی ۔ علامہ فضل حق خیر آبادی کی بڑے زوروں سے تلاشی کی جا رہی تھی۔ اسی حالت میں وہ اپنے خاندان کو لیکر دہلی نکل گئے ،اور علی گڑھ کے نواب کے یہاں پناہ لی ۔ وہاں اٹھارہ دن رہنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ بدایوں تشریف لے گئے ۔ علامہ صاحب تقریبا ۲سال تک ادھر ادھر خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے رہے۔پھر کچھ دنوں بعد گرفتار کر لئے گئے ۔ مقدمہ چلایا گیا ْ ْ ۔اتفاق سے جج علامہ صاحب کا شاگرد تھا ۔اس نے چاہاکہ علامہ صاحب جھوٹ بول دیں اور انکو چھوڑ دیا جائے ۔ لیکن آپ نے جھوٹ بولنے سے انکارکر دیا ۔جج نے آپ کے لئے انڈمان میں کالے پانی کی سزا تجویز کی ۔۱۸۶۱ء؁میں وہیں علامہ صاحب کا انتقال ہو گیا ۔
خطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی فرماتے ہیں کہ علامہ فضل حق خیرآبادی کی زندگی کے دو پہلو ہیں ۔آپ کی علمی و ادبی زندگی دیکھ کر بو علی سینا ، غزالی ، رازی ، ابو حنیفہ کی یاد تازہ ہوتی ہے ۔ اور آپکے مجاہدانہ کردار سے حسین ابن علی کی مظلومیت کی خونی داستان آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے(۲)مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی صاحب قبلہ :آپکی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ صرف عالم ہی نہیں بلکہ شیخ طریقت بھی تھے ۔ جب آپ نے دیکھا کہ انگریز ہندوستانی باشندوں کے خاندانی وقار اور عزت و ناموس کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں تو آپ اپنے مریدوں کے ساتھ میدان کارزار میں تشریف لے آئے ۔ اور آپنے آزادی کے متوالوں کی ٹیم تیار کی ۔ اور انگریزوں کے خلاف جہاد کیا ۔ جہاد کرتے کرتے آدھے لکھنؤ پر قبضہ کر لیا تھا ۔ لیکن یہاں بھی وہی معاملہ پیش آیا کہ ایک نا اہل شخص انگریزوں کے ساتھ مل گیا۔ اور آپ شہید کر دیے گئے ۔ مولانا مدراسی کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے آزادی کا صور پھونکنے کے لئے صرف مسلمانوں ہی کو نہیں بلکہ ہندوؤں کو بھی منتخب کیا تھا ۔ انگریزوں کے لئے آپکی شخصیت قہر ذوالجلال بنی ہوئی تھی ۔ ہزاروں انگریزوں کو آپنے کیفر کردار تک پہچایا تھا (۳)سید کفایت علی کافی مرادآبادی :مجاہد آزادی ،چشم و چراغ خاندان رسالت حضرت علامہ مولانا سید کفایت علی کافی مراد آبادی ایک جیداور ممتازعالم دین تھے ۔ جس وقت آپنے آنکھیں کھولی وہ انگریزوں کے ظلم وبربریت کے عروج کا دور تھا ۔انگریز پورے ملک میں اپنی مکاری کا جال پھیلا چکے تھے ۔ ایسے پر آشوب دور میں آپنے جب اپنے ارد گرد نظر دوڑائی تو آپکی وطنی اور مذہبی غیرت نے آ پ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ پھر اسکے بعد آپنے انگریزوں کے ناپاک وجود سے مادر وطن کو پاک کرنے کا جو عزم مصمم کیا تھا آخری دم تک اس پر دٹے رہے ۔ ہزاروں آندھیاں چلیں ۔لاکھوں طوفان آئے ۔ مگر آپکے ارادہ میں ذرہ برابر بھی جنبش نہ آئی ۔آخر کار انگریزوں نے آپ کو گرفتار کرکے قید خانہ میں بڑی درد ناک اذیتیں دیں ۔آپکو مراد آباد کے بیچ چوراہے پر پھانسی دے دی مگر آپکے چہرے پر ذرہ برابرا خوف کے آثار ظاہر نہ ہوئے بلکہ راضی برضائے الٰہی یہ کہتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا ۔
کو ئی گل با قی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا پررسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
ہندوستان کی جنگ آزادی میں ایسے سورماؤں کی مثال دوسری قوموں میں نہیں ملتی مگر اسکے باوجود جب بھی آزادی کا جشن منایا جاتاہے تو برادران وطن انکی قربانیوںکو خراج عقیدت پیش نہیں کرتے ۔لہذا ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے علما کی ان قربانیوں کو جانیں اور عام کریں ۔

حسن اخلاق کے فضائل و برکات، ،✍🏻 محمد مقصود عالم قادری عفی عنہ،اتردیناجپور مغربی بنگال

       ’’حسن‘‘ اچھائی اور خوبصورتی کو کہتے ہیں، ’’اَخلاق‘‘ جمع ہے ’’خلق‘‘ کی جس کا معنی ہے ’’پسندیدہ عادتیں،اچھی خصلتیں،اچھابرتاؤ،اور ملنساری وغیرہ(فیروز اللغت) ‘۔یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے یا اچھے برتاؤ یا اچھی عادات کو حسن اَخلاق کہا جاتا ہے۔ 
           حسن اخلاق ایک ایسی پیاری اور اعلی خصلت ہے جس کی وجہ سے صاحب خصلت کو ہر معاشرے میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے آج کے اس نفرت آمیز فضا میں حسن اخلاق کی ضرورت واہمیت اور بھی اشد ہوجاتی ہے، 
        ہر مسلمان کو حسن اخلاق کی دولت سے آراستہ ہونا نہایت ہی ضروری ہے خصوصاً علمائے دین اور مبلغین حضرات کے لیے تو اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ باخلاق بن کر ہی دین کو پھیلانا ممکن ہے بداخلاقی ہمیشہ تبلیغ دین میں مضر ثابت ہوتی ہے 
    مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے بل بوتے پر نہیں بلکہ حسن اخلاق اور نرمی کی بدولت پھیلا ہے آج پوری دنیا میں جو ہمیں اسلام کا حسین گلشن لہلہاتا نظر آرہا ہے اس میں نبی اکرم نور مجسم ﷺکے اخلاق کریمہ اور آپ کی تربیت سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور اولیاء عظام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے حسن اخلاق اور خوش گفتاری کا بہت بڑا عمل دخل ہے 
*حسن اخلاق کے فضائل احادیث کی روشنی میں*
           احادیث کریمہ میں حسن اخلاق کے فضائل کے متعلق بے شمار روایات پائے جاتے ہیں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کریں   
  حضرت سیدنا ابو داؤد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی پاک صاحب لولاک ﷺنے ارشاد فرمایا:میزان عمل میں حسن اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہیں ہوگی (سنن ابی داؤد باب فی حسن الاخلاق الحدیث 4799)
        بندہ حسن اخلاق کے ذریعے اعلی مقام مرتبہ حاصل  کر سکتا ہے چنانچہ ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا بندہ حسن اخلاق کی وجہ سے تہجد گزار اور سخت گرمی میں روزے کے سبب پیاسا رہنے والے کے درجہ کو پا لیتا ہے (مکارم الاخلاق صفحہ۱۶ لامام ابو قاسم سلیمان بن احمد طبرانی رحمۃ اللہ علیہ المتوفّٰی 360ھ) 

اسی صفحہ میں ایک اور روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حضور نبی رحمت شفیع امتﷺ نے ارشاد فرمایا:کیا میں تمہیں تم میں سب سے بہتر شخص کے بارے میں خبر نہ دوں،ہم نے عرض کی:کیوں نہیں_ فرمایا:وہ جو تم میں سے اچھے اخلاق والا ہے
بااخلاق لوگوں کے درمیان صرف بہتر شخص ہی نہیں بلکہ افضل مومن بھی ہے
چنانچہ بارگاہ رسالت ﷺمیں عرض کی گئی:کہ یا رسول اللہ ﷺ أیّ المؤمنين افضل إيماناً یعنی باعتبار ایمان سب سے افضل مومن کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا أحسنهم خلقاً،یعنی جس کے اخلاق سب سے زیادہ اچھے ہیں
(سنن ابن ماجہ باب ذکر الموت الحدیث 4259)
حسن اخلاق کے دنیاوی اور اخروی فوائد
حسن اخلاق کے گوناگوں دنیاوی اور اخروی فوائد ہیں دنیاوی فوائد تو یہ ہیں کہ حسن اخلاق سے ہی لوگوں کے درمیان عزت مل سکتی ہے بداخلاق شخص کو لوگوں کے درمیان عزت ملنا ناممکن ہے،حسن اخلاق ہو تو دنیا عزت کی نظر سے دیکھتی ہے، اور تو اور بااخلاق آدمی اپنے کاروبار میں بھی بآسانی ترقی کر لیتا ہے مثلاً جب کوئ دکاندار اہنے گاہکوں (customers) سے خوش گفتاری اور خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے تو لوگوں کے دل اس کے اچھے اخلاق کی وجہ سے اس کی دکان کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں اور اسی طرح اس باخلاق شخص کی کاروبار ترقی ہوجاتی ہے
حسن اخلاق کے اخروی فوائد ملاحظہ کریں
آقاۓ کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ بروز قیامت تم میں سے مجھے زیادہ محبوب اور میری مجلس میں زیادہ قریب اچھے اخلاق والے ہونگے (احیاء العلوم ج 3ص 157)
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم بارگاہ رسالت میں حاضر تھے کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا: میں نے گزشتہ رات ایک عجیب بات دیکھی، میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے گھٹنوں پر جھکا ہوا ہے اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان ایک حجاب حائل ہے اس کا حسن اخلاق آیا اور اس نے اسے اللہ کے بارگاہ میں پہنچا دیا (احیاء العلوم ج 3ص 159)

اچھے اخلاق کس سے سیکھیں؟

   اس کا جواب اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں صاف لفظوں میں ارشاد فرمادیا 

   لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب 21)

 ترجمۂ کنز العرفان:
بیشک تمہارے لئےاللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے
تاجدار رسالت ﷺ کے اخلاق کریمہ ہمارے لئے اعلیٰ نمونہ ہے اگر ہم آپ ﷺ کے اخلاق مبارکہ پر مکمل طور پر گامزن ہوجائیں تو یقیناً ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں گے
آئیےحضور علیہ الصلوۃ والسلام کے کچھ اخلاق حسنہ کے بارے میں جانتے ہیں تاکہ ہم ان پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی کو کامل بنا کر ایک مکمل مسلمان بن جائیں
حضرت اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام اپنے گھر میں کیا کرتے تھے ؟آپ نے کہا کہ اپنے گھر کے کام کاج میں مشغول رہتے تھے یعنی گھر والوں کا کام کرتے تھے پھر جب نماز آجاتی تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے(مشکٰوۃ المصابح باب فی اخلاقہ و شمائلہ ص519 الحدیث5816)
اس حدیث کی شرح میں مفسر شہیر علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ”معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات حضور انورﷺ کی بیرونی اور اندرونی زندگی کے حافظ ہونا چاہتے تھے اور امت تک پہنچانا چاہتے تھے اس لیے بیرونی زندگی شریف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھتے تھے اور اندرونی زندگی ازواج پاک سے خصوصاً ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے (مراٰۃ المناجیح جلد ہفتم ص 71)
معلوم ہوا اپنے گھر کا کام کاج کرنا اور اپنی بیوی کے کاموں میں ہاتھ بٹانا ہمارے پیارے نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی سنت مبارکہ ہے،لیکن صد افسوس آج جب کوئی شخص اس سنت کو ادا کرتا ہے تو محلے کے لوگ اسے بیوی کا غلام یا مرید کہتے ہیں اللہ تعالی ایسے لوگوں کو عقل سلیم عطا فرمائے آمین
حضورﷺ کا اپنے خادموں کے ساتھ حسن سلوک
ایک حدیث پاک میں حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے نبئ کریم رؤف الرحیم ﷺکی دس سال تک خدمت کی کبھی مجھ سے تف نہ فرمایا اور نہ یہ کہ تم نے یہ کیوں کیا اور نہ یہ کہ کیوں نہ کیا (مشکٰوۃ المصابح باب فی اخلاقہ و شمائلہ ص 518 الحدیث 5801)
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے خاص خادم تھے آپ رضی اللہ عنہ کی عمر آٹھ سال تھی اس وقت ان کے والد حضور انور ﷺکی خدمت میں لاۓ اور بولے ہم نے انہیں آپ کی خدمت میں وقف کر دیا،(مراۃالمناجح جلد ہفتم ص 62)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی کم عمراور کم سمجھ کی وجہ سے قصور ہوتے تھے اور کبھی نقصان بھی ہو جاتا تھا مگر اس سراپا رحم و کرم نے ان کو کبھی جھڑکا نہیں اور ملامت کے طور پر یہ نہ فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کر دیا یہ کیوں چھوڑ دیا
مال داروں اور اہل ثروت کے لیے یہ سبق آموز حدیث شریف ہے انہیں بھی چاہیے کہ اپنے نوکروں اور خادموں کے ساتھ سختی اور غصے سے پیش آنے کے بجائے نرمی سے پیش آئے اور حسن سلوک کا معاملہ کرے
حضورﷺنے اپنے تمام دشمنوں کو معاف فرما دیا
کفار مکہ جو آپ علیہ السلام کے بہت بڑے دشمن تھے اور اتنے بڑے دشمن تھے کہ شاید کوئی ایسی تکلیف اور ظالمانہ برتاؤ باقی ہوگا جو آپ علیہ السلام کے ساتھ نہ کیا ہو لیکن فتح مکہ کے دن جب انصار و مہاجرین تمام ظالموں کافروں کا محاصرہ کر لیا تو سب کے سب حرم کعبہ میں خوف و دہشت سے کانپ رہے تھے اور انتقام کے ڈر سے سب کے جسم لرزہ بر اندام ہو رہے تھے اس وقت رحمت دو عالمﷺ نے ان تمام مجرموں کو چھوڑ دیا اور معاف فرما دیا اور سب کو آزاد کردیا
یہ تھا حضور علیہ الصلاة والسلام کا اپنے گھر والوں، خادموں اور دشمنوں کے ساتھ حسن اخلاق،اللہ تعالی ہم سب کو اپنے حبیب ﷺ کے حسن اخلاق کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

       

منقبت در شان حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ۔۔۔از حضرت سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی صاحب قبلہ

حیراں ہیں سب حسین کے تیور کو دیکھ کر
ہوتے تھے جیسے فاتح خیبر کو دیکھ کر

سب سر جھکے تھے نائب حیدر کو دیکھ کر
سبط رسول ، نور کے پیکر کو دیکھ کر

گوہر ملے ہیں کرب و بلا کی ہی ریت پر
ہم کیا کریں گے گہرے سمندر کو دیکھ کر

آتی ہے یاد خوشبوئے سبط رسول کی
باغات میں گلاب و صنوبر کو دیکھ کر

شبیر خیر کے ہیں مبلغ جہان میں
بیعت وہ کیسے کرتے اس اک شر کو دیکھ کر

کرتا گیا وہ جذب لہو ، بن گیا شفق
حیراں فلک تھا خون کے منظر کو دیکھ کر

رکھتے ہیں بغض جو مرے آقا کی آل سے
پچھتائینگے وہ حشر میں کوثر کو دیکھ کر

سب خور سلامی دینے چلے آئے چرخ سے
سبط رسول کے رخ انور کو دیکھ کر

کرنے لگی ہے رشک ہر اک بلبل چمن
“عینی “حسین شہ کے ثناگر کو دیکھ کر
۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

حضور مفتٸ اعظم ہند علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔[عرس مفتی اعظم ہند پر خصوصی تحریر] ✍️آصف جمیل امجدی،

(پہلی قسط)

۔

مفتی اعظم مولانا مصطفی رضاخاں 22/ ذی الحجہ 1310 ھ / 7 / جولائی 1893ع میں بریلی شریف کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوۓ۔ آپ کا نام ”محمد“ رکھا گیا اور عرفی نام’’مصطفی رضا“ تجویز کیا گیا ۔ نوری تخلص تھا اور آپ ”مفتٸ اعظم ہند“ کے لقب سے مشہور ہوۓ۔ سلسلۂ نسب یوں ہے ۔محمد مصطفی رضا ابن امام احمد رضا بن نقی علی بن رضا علی بن کاظم علی بن محمد اعظم بن سعادت یارخاں بن سعید اللہ خاں رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
مفتی اعظم مولا نامصطفی رضا خاں کی تقریب بسم اللہ خوانی چار سال چار ماہ چار دن کی عمر میں ہوٸی۔ برادرا کبر مولانا حامد رضاخاں نے ناظرہ مکمل کرایا۔ مولانا شاہ رحم الہی صاحب، مولانا بشیراحمدعلی گڑھی ومولانا ظہور الحسین رامپوری وغیرہم سے درسیات کی تکمیل فرمائی ۔ اس کے بعد جملہ علوم وفنون والد ماجد امام احمد رضا محدث بریلوی کی آغوش تربیت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا ، تفسیر ، حدیث ، فقہ ، اصول فقہ صرف ونحو ، تجوید ، ادب ، فلسفه ، این طریق منطق ، ریاضی علم جفر وتکسیر، علم توقیت وغیرہ جملہ علوم معقولات ومنقولات میں آپ یکتاے روز گار تھے۔

مفتی اعظم مولانا مصطفی رضاخاں کی عمرابھی چھ ماہ کی تھی کہ مرشد کامل حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی سے والد ماجد نے بیعت کرادیا ۔ مرشد کامل نے بیعت کرنے کے بعد جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا ۔ والد ماجد امام احمد رضا محدث بریلوی سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔

آپ نے ایک طویل عرصے تک بیت وارادت کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ہندو پاک کے علاوہ حجاز مقدس ، مصر ، عراق ، برطانیہ ، افریقہ ، امریکہ ، ترکستان ، افغانستان وغیرہ کے بڑے بڑے علما مشاٸخ بھی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھے ۔ ایک اندازے کے مطابق آپ کے مریدوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی متجاوز تھی۔
درسیات سے فراغت کے بعد جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف میں مند درس و تدریس کو آپ نے رونق بخشی اور تقریبا 30/سال تک علم و حکمت کے دریا بہائے۔ برصغیر ہند و پاک کی درسگاہیں آپ کے تلامذہ و مستفیدین سے مالامال ہیں جن کی ایک طویل فہرست ہے۔
مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں نے 1365 ھ / 1946ء میں پہلا اور 1367ھ / 1948ء میں دوسرا ج کیا۔ 1391ھ / 1971 ء میں آپ نے تیسراحج کیا۔اس وقت حج کے لیے فوٹولازمی قرار پا چکا تھا ۔ آپ نے فوٹونہیں بنوایا ۔ حکومت ہند نے ان کے پاسپورٹ کو بغیر فوٹو کے جاری کردیا۔ اور یہ حج آپ نے بغیر فوٹو کے ادا کیا جو ایک تاریخی حج ہے۔
مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں علم ظاہر و باطن کے دریاے ذخار تھے۔ آپ شریعت وطریقت کی روشن کتاب تھے۔ ولایت و کرامت کے ماہتاب اور علم وفضلیت ، طریقت و معرفت کا نیر درخشاں تھے۔ ان کے تبحر علمی اور فقہی مہارت کا تذکرہ کرتے ہوۓ حضرت علامہ شاہ اختر رضا خاں قادری ازہری رقم طراز ہیں:
”مفتی اعظم علم وفضل کے دریاے ذخار تھے۔ جزیات حافظے سے بتا دیتے تھے ۔ فتاوی قلم برداشتہ لکھا کرتے تھے ۔ ان کا عمل ان کے علم کا آئینہ دارتھا ۔ ان کے عمل کو دیکھنے کے بعد اگر کتاب دیکھی جاتی تو اس میں وہی ملتا جو حضرت کا عمل ہوتا ۔ ہر معاملے میں حضرت کی راۓ اول اور مقدم ہوتی تھی اور جس علمی اشکال میں لوگ الجھ کر رہ جایا کرتے تھے وہ حضرت چٹکیوں میں حل فرمایا کرتے تھے۔“
حضرت مولانا عبدالحکیم شرف قادری کے یہ تاثرات بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں:
” علم وفضل ، زہد وتقوی حق گوئی و بےبا کی ، فقاہت وعلمیت اور معرفت و کرامت میں اس وقت پوری دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا اہل سنت کے لیے مفتی اعظم کی ذات مقدسہ سایۂ رحمت تھی ۔۔۔ مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں علیہ الرحمہ کے علم وفضل زہد وتقوی اورفقہی بصیرت کا کوئی ثانی نہیں۔“
حضور مفتی اعظم ہند جہاں درس نظامی کے ماہر تھے ۔ وہیں قراءت وتجوید ، ادب وفلسفہ منطق و ریاضی اور دیگر علوم وفنون میں بھی یدطولی رکھتے تھے ۔ علم جفر و تکسیر، علم توقیت اور فن تاریخ گوئی میں بھی کمال حاصل تھا۔
1328ھ/ 1910 ء میں جب حضرت مولا نا مصطفی رضا خاں کی عمر مبارک 18/سال تھی آپ کسی کام سے رضوی دارالافتاء میں پہنچے تو وہاں ملک العلما مولانا ظفر الدین رضوی بہاری اور مولانا سید عبدالرشید عظیم آبادی فتوی لکھنے کے لیے رضاعت کے کسی مسئلہ پر تبادلہ خیال کر رہے تھے ۔ بات کچھ الجھی تو ملک العلما مولانا ظفر الدین بہاری اٹھے تا کہ الماری سے فتاوی رضویہ نکال کر اس سے روشنی حاصل کریں ۔ حضرت مفتی اعظم نےفرمایا:
”نوعمری کا زمانہ تھا ۔ میں نے کہا ! فتاوی رضویہ دیکھ کر جواب لکھتے ہو ؟ مولانا نے فرمایا ! ”اچھا تم بغیر دیکھے لکھ دوتو جانوں“ میں نے فوراً لکھ دیا ۔ وہ رضاعت کا مسئلہ تھا۔“(حوالہ علماۓ اہل سنت کی علمٕ و ادبی خدمات)۔
{مضمون نگار روزنامہ ”شان سدھارتھ“ کے صحافی ہیں}
jamilasif265@gmail.com
6306397662

مختصر سوانح حیات تاجدار اہل سنت مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ–از تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت ،،خادم ۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال7030786828


متقی بن کر دکھائے اس زمانے میں کوئی
ایک میرے مفتی اعظم کا تقویٰ چھوڑ
“اسمِ گرامی” تاجدار اہل سنت شہزادہ اعلیٰ حضرت سیدی سرکار مفتی اعظم ہند قدس سرہ کا پیدائشی اور اصلی نام محمد ہے۔ والد ماجد نے عرفی نام مصطفٰی رضا رکھا۔فنِ شاعری میں آپ اپنا تخلص”نوری” فرماتے تھے۔
القاب۔ مفتیِ اعظم ہند ہے۔
آپ امامِ اہلسنت مجددین وملت شیخ الاسلام امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔
:تاریخِ ولادت: حضور مفتی اعظم قدس سرہ 22/ذی الحجہ 1310ھ 7/جولائی 1893ء بروز جمعہ بوقتِ صبح صادق دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کی جائے ولادت محلہ رضا نگر، سوداگران شہر بریلی شریف ، یوپی انڈیا ہے۔ :تحصیلِ علم: حضرت مفتی اعظم قدس سرہٗ نے اصل تربیت تو اپنے والد ماجد امام احمد رضا قدس سرہٗ سے پائی۔ علوم دینیہ کی تکمیل بھی اپنے والد ماجد اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ سے کی۔
“تصنیف وتالیف” اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ قلمی قوت سے نوازا تھا آپ کی تحریروں میں آپ کے والد ماجد مجدد اعظم امام احمد رضا قد سرہ کے اسلوب کی جھلک اور ژرف نگاہی نظر آتی ہے تحقیق کا کمال بھی نظر آتا ہے اور تدقیق کا جمال بھی ۔فقہی جزئیات پر عبور کا جلوہ بھی نظر آتا ہے اور علامہ شامی کے تفقہ کا انداز بھی۔امام غزالی کی نکتہ سنجی ،امام رازی کی دقت نظر اور امام سیوطی کی وسعت مطالعہ کی جلوہ گری بھی ہوتی ہے آپ نے اپنی گونا گوں مصروفیات اور ہمہ جہت مشاغل کے باوجود مختلف موضوعات پر تصنیفات و تالیفات کا ایک گراں قدر ذخیرہ چھوڑا۔ ان میں سے بعض کے اسماء یہ ہیں۔
(۱)فتاویٰ مصطفویہ اول ودوم(۲)وقعات السنان (۳)ادخال السنان (۴)الموت الاحمر(۵)ملفوظات اعلیٰحضرت (۶)الطاری الداری لھفوات عبد الباری (۷)القول العجیب فی جواب التثویب(۸)سامان بخشش(۹)تنویر الحجۃ بالتواء الحجۃ (۱۰)ہشتاد بید وبند(۱۱)طرق الھدیٰ والارشاد (۱۲)وقایہ اہل السنۃ وغیرہ
“علوم وفنون” بر صغیر میں معقول ومنقول علوم وفنون کی جتنی مشہور اسناد ہیں ان میں سے سلسلہ تلمذ بریلوی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ ہر فن اور ہر علم کی سند عالی ہے ۔اور پھر اسی ایک سلسلے سے تمام معقول ومنقول کی سند حاصل ہو جاتی ہے ۔ گویا سلسلہ تلمذ بریلوی جمیع علوم وفنون کا جامع ہے ۔ذیل میں ان علوم کا ذکر کیا جاتا ہے جو حضرت مفتی اعظم قدس سرہ نے بریلوی سلسلہ تلمذ کے واسطے سے نہ صرف حاصل کئے بلکہ ان میں درجہ اختصاص حاصل کیا ۔اور تقریباً چالیس علوم و فنون میں مہارت بہم پہنچائی جو درج ذیل ہیں ۔
(١)علم القرآن(٢)علم الحدیث(٣)اصول الحدیث (٤)فقہ حنفی (٥)جملہ کتب فقہ متداولہ مذاہب اربعہ(٦) اصول فقہ(٧)علم تفسیر (٨) علم العقائد والکلام (٩)علم النحو(١٠)علم صرف(١١)علم معانی(١٢)علم بیان (١٣)علم بدیع(١٤)علم منطق(١٥)علم مناظرہ(١٦)علم فلسفہ(١٧)علم حساب (١٨)علم ہندسہ(١٩)علم سیر(٢٠)علم تاریخ(٢١)علم لغت(٢٢) ادب(٢٣)اسماء الرجال(٢٤)نظم عربی(٢٥)نظم فارسی(٢٦)نظم ہندسہ (٢٧)نثر عربی(٢٨)نثر فارسی(٢٩)نثر ہندی(٣٠)خط نستعلیق(٣١)تلاوت مع تجوید(٣٢)علم الفرائض (٣٣)علم عروض(٣٤)علم قوانی(٣٥)علم تکسیر(٣٦)علم التوقیت(٣٧)زیجات(٣٨)ہیات کی والد ماجد سے تحصیل کی(٣٩)علم تصوف اور سلوک کی تعلیم حضرت ابو الحسین احمد نوری میاں اور والد ماجد سے لی۔ دیگرعلوم و فنو ن کی تحصیل اساتذہ سے کی۔
“بیعت و خلافت” 25 جمادی الثانی 1311ھ چھ ماہ تین یوم کی عمر شریف میں سید المشائخ حضرت شاہ ابو الحسین نوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے داخلِ سلسلہ فرمایا اور تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔
:مرشد کامل کی بشارت: سید المشائخ نے حضرت مفتیِ اعظم کو بیعت کرتے وقت ارشاد فرمایا:”یہ بچہ دین و ملت کی بڑی خدمت کرے گا۔ اور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہنچے گا۔ یہ بچہ ولی ہے۔ اس کی نگاہوں سے لاکھوں گمراہ انسان دین حق پر قائم ہوں گے ۔ یہ فیض کا دریا بہائےگا”۔
“پابند شریعت” حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ شریعت پر اتباع کا خاص اہتمام فرماتے ۔ نمازوں کے ساتھ ساتھ دیگر شرعی احکام پر عمل کی تنبیہ فرماتے بایں وجہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو نے والا احکام شرع کا پابند ہوجاتا اور نمازوں کا اہتمام بھی کرنے لگتا۔حسن اخلاق مومن کا جوہر ہے حضور مفتی اعظم قدس سرہ اس سے متصف تھے اور فرائض و واجبات و سنن پر عمل میں منفرد المثال تھے اور اپنی حیات طیبہ سے اسی کا درس بھی دیا۔ مولانا قاضی عبدالرحیم بستوی تحریر فرماتے ہیں :’’حضور مفتی اعظم نور اللہ مرقدہ کے عالی کردار ، بلند اخلاق ، علمی بصیرت ، جودت طبع ، حسن حافظہ، خدمت دینی کے واقعات کثرت سے ہیں اور ان امور میں آپ یگانۂ روز گار تھے فرائض و واجبات، سنن و مستحبات کی محافظت میں نمایاں خصوصیت کے حامل تھے، اتباع سنت کا خاص اہتمام فرماتے تھے، خدمت خلق آپ کا عظیم کارنامہ ہے ۔ ‘‘( ماہنامہ استقامت ڈائجسٹ کا نپور ، مفتی اعظم نمبر مئی ۱۹۸۳ء ، ص۱۶۷)
“سیرتِ مبارکہ” اسلام کا وہ بطل جلیل اور استقامت کا جبل عظیم جس کے جہاد بالقلم نے دینِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی آبیاری فرمائی۔ جس کی نگاہ کیمیا اثر نے لاکھوں گم گشتگان راہ کو جادۂ حق سے ہم کنار کیا۔ جس کے درکی جبیں سائی وقت کے بڑے بڑے مسند نشینوں نے کی۔جس کے ناخن ِادراک میں لا ینحل مسائل کا حل تھا۔ جو بیک وقت علم ظاہر و باطن کا ایسا سنگم تھا جہاں ہر تشنہ لب کو سیرابی و آسودگی کی دولتِ گراں مایہ ملتی تھی۔ جو رسول پاک ﷺ کا سچا نائب، تصدیق حق میں صدیقِ اکبر کا پرتو، باطل کو چھانٹنے میں فاروق اعظم کا مظہر، رحم و کرم میں ذوالنورین کی تصویر، باطل شکنی میں حیدری شمشیر۔ جس میں امام اعظم ابوحنیفہ کی فکر، امام رازی کی حکمت، امام غزالی کا تصوف اور مولائے روم کا سوز و گداز تھا۔
جو علم و فضل میں شہرۂ آفاق، معقولات میں بحر ذخار، منقولات میں دریاے ناپیدار کنار، فقہ روایت میں امیر المومنین اور سلطنت قرآن و حدیث کا مسلم الثبوت وزیر المجتہدین، اعلم العلما عند العلماء، افقہ الفقہا عند الفقہا، قطب عالم علی لسان الاولیاء، فانی فی اللہ، باقی باللہ عاشقِ کاملِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مولانا الشاہ الحاج محمد ابو البرکات محی الدین جیلانی محمد مصطفی رضا قادری قدس سرہ جسے دنیا تاجدار اہل سنت حضور مفتی اعظم کے نام نامی اسمِ گرامی سے یاد کرتی ہے۔
“وصال باکمال” اکانوے سال اکیس دن کی عمر میں مختصر علالت کے بعد 14/محرم الحرام 1402ھ، بمطابق 12 نومبر 1981ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

جنگ آزادی میں علمائے اہل سنت کا نمایاں کردار،،، از :(مولانا) حبیب اللہ قادری انواری،، آفس انچارج :- دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف باڑمیر راجستھان

ہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس پر تقریباً آٹھ سو سال اسلامی حکومت اپنی شان و شوکت کے ساتھ جگمگاتی رہی ،اس عرصۂ دراز میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک مسلمانوں کے جھنڈے فضائے بسیط میں لہراتے رہے ،اس طویل مدّت میں ملک نے جو عروج و ارتقاء کے منازل طے کیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں، کیونکہ ملک کی محبت و عظمت کو مسلمانوں نے اپنےدل کی دھڑکنوں میں رچایا بسایا ،اور اس کی محبت پر مر مٹنے کا جزبۂ صادقہ پیدا کیا۔

       مسلمانوں نے جہاں صنعت و حرفت کی بدولت ملک کو خوشحال اور زرخیز بنایا وہیں اپنی علمی اور فنی لیاقت کو بروئے کار لاکر ملک کو علم و فن کا میکدہ بنایا ،چنانچہ اس وقت عالمی سطح پر  ہندوستان  نے جو شہرت و مقبولیت اور عروج و ارتقا ء حاصل کی  اس شہرت و مقبولیت  اور تعمیر و ترقی نے پوری دنیا پر گہرا  اثر ڈالا ،اہل کمال اور اربابِ علم و فن حضرات نے ملک ہند کی طرف اپنا رخ کیا ،ہندوستان میں یکتائی اور بے نظیری کا غلغلہ  اور شور بلند ہوا  ،اس خاکِ ہند کو افلاک  کی سی بلندی نصیب ہوئی ،اطرافِ ہند میں خوشحالی اور آسودگی کی لہر دوڑ گئی ، باشندگان ِ ہند امن و سکون،چین و راحت کے گہوارے میں جھولنے لگے اور ہندوستان کی دولت و ثروت اکنافِ عالم میں گشت کرنے لگی۔ہندوستان کی بد نصیبی کہ ۱۸۵۷ ؁ءمیں اس چمکتے دمکتے آفتاب کو گہن لگ  گیا اور  سلطنت مغلیہ کے آخری چشم و چراغ  بہادر شاہ ظفر کو تختِ ہند سے اتار دیا گیا،سلطان بہادر شاہ ظفر کے سلطنت سے معزولی کے بعد  انتشار و خلفشار کے دروازے کھل گئے ،پھر دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں حریصانہ نگاہوں سے وطن عزیز کی جانب دیکھنے لگیں چنانچہ تن کے گورے اور من کے کالے انگریزوں نے بھی اپنی شاطرانہ چال "ایسٹ انڈیا کمپنی "کے ذریعہ تجارت کے بہانے سونے کی چڑیا کہے جانے والے بھارت کو لوٹنا شروع کیا ،دھیرے دھیرے  ؁۱۸۵۷ء تک حکومت کا مغز نکال کر کھوکھلا کر ڈالا ،ان کم ظرفوں نے  صرف اسی پر بس نہیں کیا  بلکہ ہند کی  حکومت پر ظالمانہ و جابرانہ  طور پر قبضہ کر لیا اس طرح وطن عزیز تن کے گورے من کے  کالوں (انگریزوں )کے قبضے میں چلی گئی،اور  پھر ملک میں تباہی و بربادی کا تہلکا مچ گیا ، چاروں جانب ظلم کے شعلے آسمانوں سے باتیں کرنے لگے  ،جبروتشدد اور وحشت و بربریت  کا حولناک و دہشت انگیز مظاہرہ کیا جانے  لگا ، پورے ملک میں قبرستان  جیسا سنّاٹا چھا گیا ، حد تو یہ ہے کہ  مسلمانوں کو سور کی کھال میں لپیٹ کر موت کے گھاٹ اتارا جانے لگا (العیاذ باللہ )فتح پوری مسجد سے لال قلعہ کے دروازے تک انسانی لاشیں درختوں پر نظر آنے لگیں ،اور پورے ملک میں سنّاٹاچھا گیا  اس خوف و ہراس بھرے وقت میں ضرورت پیش آئی ایک ایسی تحریک کی جو تحریک انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کرے اور ملک کو انگریزوں کے شکنجے سے آزاد کرا سکے ،ملک کے باشی امن اور شانتی کے ماحول میں زندگی بسرکر سکیں ، انسانوں کے خون و مال، عزت و آبرو اور جائیداد وغیرہ  کی حفاظت و صیانت  ہو سکے ۔بالآخر مظلوم انسانوں کی آہ و بکا اور فریاد اللہ عز و جل کی بارگاہ میں پہنچ ہی گئی اور علمائے  ربا نیین کو اس کی توفیق حاصل  ہوئی چنانچہ بطل حریت  علامہ فضل حق خیرا بادی نے فتویٰ لکھا کہ” انگریزوں سے اپنے مذہب ،ملک اور عزت کی حفاظت کی خاطر جہاد کرنا واجب ہو گیا "اس فتویٰ پر وقت کے  اکابر علمائے کرام  و مشائخ ذوی  الاحترام نے دستخط فرمائے، علامہ فضل حق خیرابادی  اور ان کے ہمنواؤں کے اس فتویٰ سے پورے ملک میں آزادی کی با قاعدہ لہر دوڑ گئی ۔علمائے کرام کے ساتھ  عام مسلمانوں نے بھی  اس جنگ آزادی میں دل و جان سے حصہ لیا ۔     اور حد درجہ اذیتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ،اور ہزاروں علمائے کرام کو انگریزوں نے جوشِ انتقام میں پھانسی پر لٹکا دیا ،اس وقت کے ان تمام جاں باز علماء نے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو قبول کر لیا تب جاکر کہیں ۱۵  اگست ؁۱۹۴۷ءکو ہند وستان کو آزادی ملی ۔ ان میں سے اکثر وہ حضرات ہیں جو مسندِ درس پر بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے اور اپنی تحریری و تقریری تبلیغ سے اسلام کے چراغ کو روشن کیا کرتے تھے ،جب ضرورت پیش آئی ملک کے لیے لڑنے کی تو اپنے ملک کی محبت کی خاطر درسگاہوں کو چھوڑ کر ننگی تلوار کے ساتھ شاملی کے  میدان میں نکل آئے ،انگریزوں سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے مجاہدین آزادی کے دوش بدوش ہوکر میدان کارزار میں صف آرا ہوئے بہت سے علمائے کرام وطن سے محبت اور فتوائے جہاد کی حمایت کی وجہ سے جزیرۂ انڈومان کے کالا پانی میں زندگی کے باقی دن گذارنے پر مجبور کیے گئے، نہ جانے کتنے علمائے کرام کو پھانسی کے پھندے کو چومنا پڑا  ،لاکھوں کی تعداد کا وجود ختم ہو گیا ،اور نہ معلوم کتنے علمائے کرام رو پوش  کردیئے گئے ۔

اس جنگ میں علمائے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ملک کی حفاظت و صیانت کے لیے شہادت پیش کیا، جنگِ آزادی میں جن علمائے کرام نے نمایاں کردار پیش کیا ان میں حضرت علامہ فضلِ حق خیرابادی رحمة اللہ علیہ ،حضرت مولانا مفتی عنایت احمد کاکوروی،حضرت مفتی صدر الدین آزردہ ،مولانا لیاقت اللہ الہ ٰ بادی ،مولانا احمد اللہ مدراسی وغیرہم کے اسمائے گرامی سرِ فہرست ہے

علّامہ فضلِ حق خیرا بادی کی وہ ذات ہے جس نے تحریک آزادی کی فکری دور کا آغاز اس وقت کیاجب آپ لکھنؤ میں تحصیل دار کے مہتمم اور صدر الصدور مقرر کئے گئے ،ابھی آپ ٹھیک سے جائزہ بھی نہ لے پائے تھے کہ ہنومان گڈھی میں انگریزوں نے خفیہ طور پر دو فریق (ہندو مسلم) کے درمیان خونی جنگ کرا دی جسے سیدھے سادھے لوگ سمجھ نہ سکے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے، جب علّامہ صاحب نے ایسا ماحول دیکھا تو اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر پوری طرح سے لوگوں کو انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیئے ابھارنا شروع کر دیا اور آخری حربہ کے طور پر دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد میں مدلّل و مفصل خطاب فرمایا جس سے پوری قوم کا سویا ہوا مزاج جاگ اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے نوّے ہزار کی تعداد میں لوگ انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے جمع ہو گئے جس سے انگریزوں کو اپنا اقتدار ختم ہوتا نظر آیا تو انگریزوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے آپ کو خریدنا چاہامگر ان کو اس میں سخت ناکامی حاصل ہوئی ،اسی طرح علّامہ کی آخری سانس تڑپتی ہوئی نکلی آخر کار ۱۸۷۸؁ھ مطابق ؁۱۸۶۱ء میں یہ علم و فضل کا شمع ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا

فنا کے بعد بھی باقی ہے،شان رہبری تیری

خدا کی رحمتیں ہوں اے امیرِ کارواں تجھ پر

خوش ترے کردار سے سارے یزیدی ہو گیے،،ازقلم مفتی کہف الوریٰ صاحب مصباحی بانکے نیپال

داستان کربلا کا یہ سبق ہرگز نہیں
ہر جگہ تیارکر لیں فرضی کربل کی زمیں


کربلا کا واقعہ تھا دیں پہ چلنے کے لیے
پر تماشا بن گیا خون علی ان کے لیے


غور سے دیکھو ذرا اس کربلے کی نقل کو
دیں سمجھ بیٹھا اس کو کیا ہوا ہے عقل کو؟


عدل ہے انصاف ہے شبیر کا ہر ہر قدم
ظلم ہے ہفوات ہے، نقالی کربل ستم


لب پہ ہے نعرہ حسینی کا ترے جاری مگر
کر رہا ہے کام سارے تو یزیدی سر بسر


ڈھول تاشہ، آتش بازی اور ماتم کا جنوں
میں بھلا ان کو شہیدوں کی ادا کیوں کر کہوں


کربلا فرضی بنا کر دفن کرتے ہو جنہیں
اک دفعہ تو غیر نے ہر سال مارو تم انہیں


آہ کتنا سستا ہے خون شہید کربلا
ہر حسینی صف میں ہی قاتل کھڑا ان کا ملا


خوش ترے کردار سے سارے یزیدی ہو گیے
اور تو اس بھول میں کہ ہم حسینی ہو گیے


بانس کا ڈھانچہ بنایا اور بابا گڑھ لیا
یہ عقیدت کا سبق جانے کہاں سے پڑھ لیا


ہوش میں آجاؤ سن لو ازہر ناصح کی بات
ورنہ ان کے روبرو محشر میں ہوگی اب یہ بات

محمد کہف الوری مصباحی

منقبت در شان حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

واسطے حق کے سپہ سالار ہیں میرے حسین
نور حق کے اس طرح شہکار ہیں میرے حسین

آپ کی توصیف میں اشعار ہیں ،میرے حسین
نور سے معمور یوں افکار ہیں ، میرے حسین

خواب کے عالم میں بھی کوئی نہ چھیڑے شرع کو
واسطے دیں کے سدا بیدار ہیں میرے حسین

سر بلندی دائمی حق کو ملی جس کے سبب
حق بیانی کے وہی کہسار ہیں میرے حسین

پیار کا مرہم لگایا ہر دل بیمار پر
پرتو خلق شہ ابرار ہیں میرے حسین

عزم و استقلال میں ہے شان عالی آپ کی
چرخ استحکام کے معمار ہیں میرے حسین

دی شکست فاش باطل کو ہوئے گرچہ شہید
آسماں میں سرخیء اخبار ہیں میرے حسین

سب صحابہ کے دلوں میں آپ کی الفت رہی
آپ کے مداح چاروں یار ہیں ، میرے حسین

دیکھ کر منظر تمھارے چہرہء پرنور کا
تم پہ قرباں پھول کے رخسار ہیں میرے حسین

اس میں آئےگا یزیدی خار کیسے بولیے
زیست کے گلزار کے سردار ہیں میرے حسین

غم‌ سب آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں کہ جب
ہر حسینی کے لیے غم خوار ہیں میرے حسین

رب نے فرمایا مودۃ آیت قرآن میں
سرور دیں کے قرابت دار ہیں میرے حسین

صرف دنیا میں نہیں جنت کے بھی وہ پھول ہیں
خوشبوؤں کے گنبد و مینار ہیں میرے حسین

باقر و موسی’ و جعفر آپ کے شہزادے ہیں
کیوں نہ کہہ دوں مخزن انوار ہیں میرے حسین

تربیت دی ہے انھیں شہزادیء سرکار نے
امتحاں کے واسطے تیار ہیں میرے حسین

کی تھی ہجرت طیبہ سے کوفے کی جانب شاہ نے
سنت ہجرت سے بھی ضوبار ہیں میرے حسین

کردیا مسمار شر کو جب یزیدی سر اٹھا
سب ہیں شاہد ، ماحیء اشرار ہیں میرے حسین

خود عزیمت کا پرندہ آپ کا مداح ہے
یوں فضائل سے سدا سرشار ہیں میرے حسین

معرفت کا اک محل اونچا بنایا آپ نے
رب کی یوں پہچان کے معیار ہیں میرے حسین

کم سنی کی بھی روایت معتبر ان کی رہی
یوں محدث منفرد سرکار ہیں میرے حسین

تھے مشابہ سرور پرنور کے وہ ، ہے حدیث
اس لیے اے” عینی “خوشبو دار ہیں میرے حسین
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی