WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives August 2022

نعتِ پاکِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم،،ازقلم ،محمد شاہد رضا برکاتی بہرائچی

شہِ لولاک سے رشتہ اگر ہے
تو باغِ خلد کا پکّا سفر ہے

نہیں ہے کوئی ثانی مصطفیٰ کا
عقیدہ سنیوں کا معتبر ہے

تمہاری دید سے آرام ہوگا
“یہ دردِ دل نہیں دردِ جگر ہے”

عطا کر دیجئیے بارانِ رحمت
زمیں پیاسی اے شاہِ بحر و بر ہے

ملَک آتے جہاں پر روز و شب ہیں
شہِ دیں آپ کا وہ نوری در ہے

تمہارے حسن کی خیرات پا کر
فلک پر آج بھی روشن قمر ہے

نبی کی نعت میں ہی عمر گزرے
یہی رب سے دعا شام و سحر ہے

کسی دن خواب میں سرکار کہہ دیں
تری قسمت میں بھی طیبہ نگر ہے

زمانہ لاکھ بدلے رنگ شاہد
نڈر تھا ان کا عاشق اور نڈر ہے

نتیجۂ فکر
محمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی
ساکن سالارپور لچھمن پور متصل باباگنج تحصیل نانپارہ ضلع بہرائچ شریف یو پی

ناظم شعبۂ نشر و اشاعت جامعہ امام المرسلین نانپارہ ضلع بہرائچ شریف یو پی

خطیب و امام فیضانِ رضا مسجد گلشن نگر گاندھی واڑی عمر گاؤں گجرات

7045528867

شہدائے اسلام قرآن و احادیث کی روشنی میں،از۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملتمسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال7030786828


مسلمان کا مقصدِ حقیقی اللہ کی رضا حاصل کرنا ہے اور جس کو اللہ کی رضا حاصل ہو جائے، اس کا دارین میں بیڑا پار ہے، اللہ کی رضا حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ شہادت ہے، احادیث میں اس کے فضائل بکثرت وارد ہیں، شہادت صرف اسی کا نام نہیں کہ جہاد میں قتل کیا جائے، بلکہ اس کے سوا شہادت کی بہت ساری صورتیں ہیں:مثلاً سواری سے گر کر یا مِرگی سے مرا، کسی درندے نے پھاڑ کھایا، وغیرہ
شہید کی تین قسمیں ہیں
شہید حقیقی،شہید فقہی،اور شہید حکمی جواللہ کی راہ میں قتل کیا جاۓ وہ شہیدی حقیقی ہے۔ اور شہید فقہی اسے کہتے ہيں کہ عاقل بالغ مسلمان جس پر غسل فرض نہ ہو وہ تلوار و بندوق وغیرہ آلٸہ جارحہ سے ظلماً قتل کیا جاۓ اور قتل کے سبب مال نہ واجب ہوا ہو۔ اور نہ زخمی ہونے کے بعد کوئی فاٸدہ دنیا سے حاصل کیاہو۔ اور نہ زندوں کے احکام میں سے کوئی حکم اس پر ثابت ہواہو ۔ یعنی اگر پاگل ، نابالغ یا حیض و نفاس والی عورتیں اور جنب شہید کئے جایٸں تو وہ شہید فقہی نہیں۔ اور اگر قتل سے مال واجب ہوا ہو جیسے لاٹھی سے مارا گیا یا قتل خطا کہ مار رہا تھا شکار کو اور لگ گیا کسی مسلمان کو ۔ یا زخمی ہونے کے بعد کھایا، پیا، علاج کیا، نماز کا پورا وقت ہوش میں گزرا اور وہ نماز پر قادر تھا یا کسی بات کی وصیت کی تو وہ شہید فقہی نہیں اور شہید حکمی وہ ہے کہ ظلماً نہیں قتل کیا گیا مگر قیامت کے دن وہ شہیدوں کے گروہ میں اٹھایا جائے گا، حدیث شریف میں ہے سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدائے تعالی کی راہ میں شہید کئے جانے کے علاوہ سات شہادتیں اور ہیں۔جو طاعون میں مرے شہید ہے۔ جو ڈوب کر مرجاۓ شہید ہے ۔ جو ذات الجنب نمونیہ میں مرجاۓ شہید ہے۔جو پیٹ کی بیماری میں مرجاۓ شہید ہے۔ جو آگ میں جل جاۓ شہید ہے۔ جو عمارت کے نیچے دب کر مرجاۓ وہ شہید ہے۔ اور جو عورت بچہ کی پیداٸش کے وقت مرجاۓ وہ بھی شہید ہے
(مشکواة شریف صفحہ 136)
اس حدیثِ پاک میں بیان کیا گیا کہ شہادت جو کہ ایک عظیمُ الشّان منصب ہے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہوئے جان دینے کے علاوہ بھی بعض صورتوں میں حاصل ہوتا ہے ، یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہوئے جان دینے کو شہادتِ حقیقیہ سے مَوسُوم کیا جاتا ہے جبکہ اس کے علاوہ کو شہادتِ حُکمیہ کہا جاتا ہے۔
شہداء کرام زندہ ہیں
اللہ تعالی کا فرمان ہے :اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تمھیں خبر نہیں۔
دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے :جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اپنے پروردگار کے مقرب ہیں کھاتے پیتے ہیں وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے عطاء فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتےہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ تعالی ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتے ۔
٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شہداء جنت کے دروازے پر دریا کے کنارے ایک محل میں رہتے ہیں اور ان کے لیے صبح شام جنت سے رزق لایا جاتا ہے ۔ ( مسنداحمد )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب بندے قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی تلواریں گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئیں گے ان سے خون بہہ رہا ہوگا وہ جنت کے دروازوں پر چڑھ دوڑیں گے پوچھا جائے گا یہ کون ہیں ۔ جواب ملے گا یہ شہداء ہیں جو زندہ تھے اور انہیں روزی ملتی تھی ۔ ( الطبرانی)
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اہل جنت میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا تو اللہ پاک اس سے فرمائے گا اے ابن آدم! تو نے اپنی منزل و مقام کو کیسا پایا۔ وہ عرض کرے گااے میرے رب! بہت اچھی منزل ہے۔ اللہ پاک فرمائے گا تو مانگ اور کوئی تمنا کر۔ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اتنا سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے دنیا کی طرف لوٹا دے اور میں دس مرتبہ تیری راہ میں شہید کیا جاؤں۔ (وہ یہ سوال اس لئے کرے گا ) کہ اس نے شہادت کی فضیلت ملاحظہ کر لی ہو گی۔ (سنن نسائی ، کتاب الجہاد،)
مکمل تفصیل کیلئے بہارِ شریعت حصہ چہارم میں شہید کا بیان ملاحظہ فرمائیں۔

معرکہ کربلا مسلمانوں کے لئے درس عبرت ہے،،، تحریر: محمد مقصود عالم قادری اتردیناجپور،مغربی بنگال

         ہر دور میں حق وباطل کے درمیان بڑی بڑی جنگیں واقع ہوئ ہیں اور تاریخ شاہد  ہے کہ ہر جنگ میں کامیابی و کامرانی حق کو ہی حاصل ہوئی ہے اور باطل ہر زمانے میں ذلیل و خوار ہوا ہے جیسا کہ ابلیس، فرعون اور نمرود وغیرہ پر آج بھی لعنتیں بھیجی جاتی ہیں،ان ہی معرکوں میں سے  ایک‌ عظیم معرکہ میدانِ کربلا  ہے جہاں حق و باطل اور خیر و شر کی ایک ایسی لڑائی ہوئی کہ آج بھی باطل کو یزیدیت اور حق کو حسینیت کے نام سے پہچانا جاتا ہے ،جنگِ کربلا مسلمانوں کے لئے درسِ عبرت ہے محض محرّم کے مہینے میں محفل امام حسین کا انعقاد کرنا ،سبیل ،شربت، نیاز ،غریبوں اور مسکینوں  کے لئے لنگر کا اہتمام کرنا، اگرچہ کار ثواب ہے لیکن محبت کی اصل دلیل نہیں ہے  بلکہ امام حسین اور شہدائے کربلا کے تعلیمات پر عمل پیرا ہونا یہ محبت کی اصل دلیل ہے ،امام عالی مقام  حسین ابن  علی رضی اللہ عنہما  نے جو دین اسلام کے لیے اپنے گھر والوں اور دوست و احباب کی قربانی دے دی اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے 

(1) دین اسلام اور شریعت پر جب بھی کوئی حملہ کرے تو ہاتھوں میں چوڑیاں پہن کر نہ بیٹھنا بلکہ دین کے نام پر چل پڑنا اور دین کی سربلندی کے لئے ہر جائز کوشش کرنا
(2) جب دین کی حفاظت کے لیے اپنے گھر والوں دوست و احباب بلکہ اپنی جان کو بھی راہ خدا میں قربان کرنا پڑے تو الٹے قدم نہ آنا ،کیونکہ امام حسین نے تو اپنے چھ ماہ بچے حضرت علی اصغر کو بھی راہ خدا میں پیش کر دیا ۔
(3) اگر اس مختصر سی دنیا میں اپنے اوپر ہزاروں مصائب و آلام اور تکالیف آ پڑے تب بھی احکام شریعت کو ترک نہ کرنا بلکہ ان پر عمل کر کے خدا کا شکر بجالانا، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مشکل گھڑی میں بھی نماز تو نماز جماعت کو بھی بلکہ سنن و مستحبات کو بھی ترک نہ کیا بلکہ آخری وقت میں جب کہ آپ کا جسم اطہر خون سے تر بتر تھا اس وقت بھی آپ نے اپنے رب کے حضور سجدہ کیا،اور آج وہ لوگ جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرتے اور ان کا نعرہ لگاتے ہیں ہفتہ مہینہ بلکہ سال گزر جاتا ہے اللہ کے حضور سجدہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں،اللہ ایسے مسلمانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے ،آمین
(4) جب بھی شریعت مصطفوی پر حملہ ہو تو یہ کہہ کر احساس کمتری کا شکار مت ہونا کہ ہماری تعداد مٹھی بھر ہے ہم کیا کر سکتے ہیں ؟بلکہ اللہ تعالی کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھنا،کیونکہ میدان کربلا میں جہاں دشمنوں کی تعداد ہزاروں کی تھی وہیں ایمان والے صرف بہتر تھے ،یہ حضرات دشمنوں کی بھاری تعداد کو دیکھ کر رمق برابر بھی پیچھے نہ ہٹیں اور نہ خوفزدہ ہوئیں بلکہ اللہ تعالی کی ذات پر مکمل یقین کر کے آخری سانس تک لڑیں،اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ،”بارہا چھوٹی جماعتیں غالب آئ ہیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے اذن سے”
(سورة البقرہ الآیت 249)
(5) یہ سب سے اہم درس ہے کہ کبھی بھی اقتدار، مال ودولت اور شہرت کے لیے اپنے ایمان کو مت بیچنا، جب یزید پلید نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اقتدار، مال و دولت اور شہرت کی لالچ دینے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا تھا کہ اپنا ہاتھ ہمارے ہاتھ میں دے دو تو آپ نے کہا تھا کہ حسین سر تو دے سکتا ہے لیکن اپنا ہاتھ کبھی نہیں دے سکتا،

سر داد، نداد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

یہی وجہ ہے کہ آپ نے جب دنیاوی بادشاہت کو ٹھوکر ماری تو اللہ تعالی نے آپ کو ایسی دائمی بادشاہت عطا کردی کہ قیامت تک ہر مسلمان یہی کہے گا جو بات ہند کے بادشاہ میرے خواجہ علیہ رحمۃ نے کہی تھی :

شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دیں است حسین، دیں پناہ است حسین

“یوم عاشورہ کے فضائل و مسائل”✒️تلمیذ محدث کبیر عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری


اسلامی سال کا پہلا مہینہ مُحرّمُ الْحَرَام ہے جو نہایت عظمتوں اوربرکتوں والا ہےبِالخصوص اس ماہ کی دس تاریخ یعنی عاشورہ کےدن کو دینِ اسلام میں غیرمعمولی حیثیت حاصل ہے چنانچہ نبیِّّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود اس دن روزہ رکھا اورصحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو بھی اس دن روزہ رکھنے کاحکم ارشاد فرمایا۔ بلکہ اسلام سے قبل بھی لوگ اس دن کا اَدب و اِحترام کرتے اور اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔
ہمیں بھی چاہئے کہ عاشورا (10مُحَرَّمُ الْحَرَام) کا روزہ رکھیں اورخوب عبادات کریں،
“یوم عاشورا کا روزہ”
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:قریش زمانۂ جاہلیت میں عاشورا کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے، (تو یومِ عاشورا کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (اب) جس کا جی چاہے یومِ عاشورا کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔ (بخاری، مسلم)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا،تو انھوں نے بتایا کہ یہ ایک نیک اور اچھا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن یعنی فرعون سے نجات دی تھی، اسی لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا(اور اسی لیے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پھر ہم موسیٰ علیہ السلام سے تمھاری بنسبت زیادہ قریب ہیں اور اس کے تم سے زیادہ مستحق ہیں، چناں چہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابۂ کرامؓ کو بھی اس کا حکم دیا۔ (بخاری، مسلم)
عاشورا کا روزہ گُناہ مِٹاتاہے:نبیِّ رَحْمت، شفیعِ اُمّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے:مجھے اللہ پاک کے کرم سے اُمّید ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال قبل کے گُناہ مِٹا دیتا ‘مسلم، ص454،
ماہ محرم الحرام کے مہینے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ رمضان المبارک کے بعد اگر کوئی روزہ سب سے افضل ہے تو وہ اس مہینے کا روزہ ہے
“شب عاشورہ کی نفل نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے”
ایک نیت وسلام سے چار رکعت نفل اداکریں، ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد آیةالکرسی ایک بار اور سورہ اخلاص (قل ھوالله احد) تین تین بارپڑھے ۔ اور نماز سے فارغ ہو کر ایک سو مرتبہ قل ھوالله احد کی سورہ پڑھے ۔
گناہوں سے پاک ہوگا ۔ اور بہشت میں بے انتہا نعمتیں ملیں گی! (جنتی زیور صفحہ 157)
لیکن یاد رہےقضا نمازیں نوافل سے اہم ہیں یعنی جس وقت نفل پڑھتا ہے انھیں چھوڑ کر ان کے بدلے قضائیں پڑھے کہ بری الذمہ ہو جائے
(حوالہ بہار شریعت ج 4)
شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔کہ دسویں محرم الحرام کو جو کوئی دعائے عاشوراء پڑھے گا اس کی برکت سے عمر میں خیر (بھلائی) و برکت ہوگی اور زندگی میں فلاح (کامیابی) اور نعمت حاصل ہوگی ان شاءاللہ عزوجل.
(جنتی زیور،ص157ب)
“رِزْق میں فراخی کانسخہ” فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو دس محرم کو اپنے بچّوں کے خرچ میں فَراخی (یعنی کشادگی) کرےگا تو ﷲ پاک سارا سال اس کو فراخی دےگا۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ہم نے اس حدیث کا تجربہ کیا تو ایسے ہی پایا۔(مشکوۃ المصابیح،ج١)
“عاشورہ کے دن غسل”
محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو غسل کرنے سے آدمی پورے سال امراض سے محفوظ رہتا ہے کیونکہ اس دن آب زم زم تمام پانیوں میں پہنچتا ہے اور اس میں وقت کی کوئی قید نہیں اور جو شخص اس دن اپنے بال بچوں کے لئے اچھے اچھے کھانا پکائے اور ان پر جائز طریقے سے خوب خرچ کرے ان شاءاللہ سال بھر تک گھر میں برکت رہے گی جیسا کہ تفسیر روح البیان میں ہے کہ “و ذکر ان الله عز و جل یخرق لیلة عاشوراء زمزم الی سائر المیاہ فمن اغتسل یومئیذ أمن المرض فی جمیع السنة کما فی الروض الفائق و من وسع فیه علی عیاله فی النفقة وسع اللہ له سائر سنته قال ابن سیرین جربناہ و وجدناہ کذالک کما فی الاسرار المحمدیه “
(تفسیر روح البیان ج 4ص 142)
اور اسلامی زندگی میں ہے کہ محرم کی نویں اور دسویں کو روزہ رکھے تو بہت ثواب پائے گا ، بال بچوں کے لیے دسویں محرم الحرام کو خوب اچھے اچھے کھانے پکائے تو ان شاء اللہ عز وجل ! سال بھر تک گھر میں برکت رہے گی بہتر ہے کہ حلیم ( کھچڑا ) پکا کر حضرت شہید کربلا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ کرے بہت مجرب ہے اسی تاریخ کو غسل کرے تو تمام سال ان شاء اللہ عز وجل بیماریوں سے امن میں رہے گا کیونکہ اس دن آب زم زم تمام پانیوں میں پہنچتا ہے “
(اسلامی زندگی ص 66)
“یوم عاشور کے اہم واقعات”
یوم عاشورہ بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں؛ چناں چہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ:(۱)یوم عاشورہ میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا۔
(۲)اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔(۳) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔(۴) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔(۵) اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔
(۶)اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
(۷) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔(۸) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔
(۹)اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔(۱۰) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔(۱۱) اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔(۱۲) اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔(۱۳) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔(۱۴) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔(۱۵)اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔(۱۶) اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔(۱۷)اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔
(۱۸) اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔
(۱۹) اسی دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔
(۲۰) اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جگر گوشہٴ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔
(۲۱) اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ نزہة المجالس ۱/۳۴۷، ۳۴۸،عاشورا کے دن ان اعمال کو عُلَما کرام نے مستحب لکھا ہے:(1)روزہ رکھنا(2)صدقہ کرنا (3) نفل نماز پڑھنا (4)ایک ہزارمرتبہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ پڑھنا (5)عُلَما کی زیارت کرنا (6)یتیم کے سَر پر ہاتھ پھیرنا (7)اپنے اہل و عِیال کے رِزْق میں وُسْعت کرنا (8)غسل کرنا (9) سُرمہ لگانا (10)ناخن تراشنا (11)مریضوں کی بیمار پُرسی کرنا (12)دشمنوں سے مِلاپ (یعنی صلح صفائی ) کرنا۔(جنتی زیور، ص158)
شہدا ئے کربلا کو ایصالِ ثواب کیجئے:عاشورا کے دن نواسۂ رسول،جگر گوشۂ بتول،امامِ عالی مقام،حضرت سیِّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ نےاپنے رُفَقا (ساتھیوں) کے ہمراہ گلشنِ اسلام کی آبیاری کی خاطراپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، لہٰذا ہمیں اس دن شہدائے کربلا کے ایصالِ ثواب کے لئے قراٰن خوانی، ذِکْر و دُرُوْد اور نذر ونیاز کا بھی اہتمام کرنا چاہئے۔
✒️تلمیذ محدث کبیر عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری

نعت‌ رسول ﷺ ۔۔شہداءے کربلا کی تعداد کی مناسبت سے ٧٢ بہتر اشعار پر مشتمل کلام،، از: سید خادم رسول عینی

نہ ذہن و فہم نہ محنت نے کامیاب کیا
مجھے نبی کی عنایت نے کامیاب کیا

کسی کو لہجہء جدت نے کامیاب کیا
کسی کو حسن روایت نے کامیاب کیا

نبی نے اپنی دعاؤں سے خور کو ٹھہرایا
انھیں خدا کی عنایت نے کامیاب کیا

وہ جاں نثار جو اسلام کے بہتر تھے
انھیں نبی کی محبت نے کامیاب کیا

ہے جس کی زیست اطیعوا الرسول کی تفسیر
اسے نبی کی اطاعت نے کامیاب کیا

جو مومنون کے سورے پہ ہیں عمل پیرا
انہیں ادائے امانت نے کامیاب کیا

زباں نے فزۃ بربی کہا تھا کٹ کر بھی
صحابی کو اسی الفت نے کامیاب کیا

اثر سے جس کے گناہوں کے پیڑ گرتے گئے
اسی ہوائے ہدایت نے کامیاب کیا

یہ کنکری کے لب شکر سے صدا آءی
مجھے تو کلمہء وحدت نے کامیاب

بتوں سے پاک کیا کس نے کعبہء جاں کو
اسے وجود نبوت نے کامیاب کیا

ہر ایک غزوے کے ماتھے پہ لکھا دیکھا ہے
صحابہ آپ کو ہمت نے کامیاب کیا

قبائے فکر کو نعتوں سے سیتا رہتا ہوں
شہ انام کی مدحت نے کامیاب کیا

یہ تاج فتح کا کہتا ہے ، حضرت خالد !
تمھیں تو موءے نبوت نے کامیاب کیا

وظیفہ میں نے اغثنی کا پڑھ لیا ، مجھ کو
نداءے شاہ کی برکت نے کامیاب کیا

اسی سے زیست کے لمحات ہیں بہت شاداب
نبی کے عشق کے شربت نے کامیاب کیا

خزیمہ ہوگءے اعلیٰ تریں ، انھیں ان کی
نبی کے حق میں شہادت نے کامیاب کیا

تمام شعلے عداوت کے بجھ گیے ، ہم کو
نبی کے ابر عنایت نے کامیاب کیا

اگر خدا ہے تو خور کو نکال مغرب سے
خلیل کو اسی حجت نے کامیاب کیا

بتارہی ہے آیت خدا کی “فوز العظیم “
کہ اہل حق کو صداقت نے کامیاب کیا

بتارہی ہے یہ سیرت صحابہء شہ کی
انھیں نبی کی محبت نے کامیاب کیا

حنین و بدر کے غزوے بھی اس کے ہیں شاہد
نبی کو رب کی حمایت نے کامیاب

نبی کی ہجرت طیبہ کا راز کیا جانو
ہمارے دین کو ہجرت نے کامیاب کیا

بھٹک رہے تھے بیابان میں سبھی انسان
انھیں نبی کی شریعت نے کامیاب کیا

خدا کی آءی تھی تاءید، قوم مسلم کو
اک ایسی صلح نبوت نے‌کامیاب کیا

ہمارا دیں سبھی انصار کا رہا مرہون
مدینے والوں کی نصرت نے کامیاب کیا

جو بدعتیں ہیں وہ ناکامیوں کی ہیں باعث
ہمیں رسول کی سنت نے کامیاب کیا

گلاب پھولوں کا راجہ ہے تو ، مگر تجھ کو
عرق کی شاہ کے نکہت نے کامیاب کیا

زمانہ شرک کے طوفان سے پریشاں تھا
نبی کے کلمہء وحدت نے کامیاب کیا

زیارت ایسی کہ واجب شفاعت ان پہ ہوءی
در نبی کی زیارت نے کامیاب کیا

صحابہ بول اٹھے بعد بیعت رضواں
ہمیں رسول کی بیعت نے کامیاب کیا

ہے قول حضرت صدیق قول حق ہر دم
انھیں رسول کی قربت نے کامیاب کیا

تمام دہر میں انسانیت کی خوبی کو
شہ انام‌ کی سیرت نے کامیاب کیا

خدا کے نام پہ پڑھنا ہے ، کہتی ہے اقرأ
کہاں کسی کو جہالت نے کامیاب کیا ؟

خدا نے حضرت آدم کی توبہ کرلی قبول
نبی کے ‌اسم کی برکت نے کامیاب کیا

پہنچ گیا در محبوب پر میں بالآخر
یوں مجھ کو قلب کی حسرت نے کامیاب کیا

خدا کے فضل سے دامن نہ صبر کا چھوٹا
ہمیں تو صبر کی آیت نے کامیاب کیا

حرا و ثور ہیں افضل تمام غاروں میں
انھیں تو جلوہء رحمت نے کامیاب کیا

کنوے میں حضرت یوسف تھے سالم و محفوظ
انھیں خلیل کی برکت نے کامیاب کیا

برائیوں سے جو بچتے ہیں کام کرتے ہیں نیک
انھیں خدا کی عنایت نے کامیاب کیا

ملےگا ثمرہ ہمیں نیکیوں کا دونوں جگہ
یوں مومنین کو قدرت نے کامیاب کیا

نہیں ہوئے کبھی مایوس زیست میں اپنی
ہمیں توکل قدرت نے کامیاب کیا

تھا شعر کعب کا باطل پہ مار تیروں کی
انھیں کمال فصاحت نے کامیاب کیا

جناب ابن رواحہ تھے سید الشعراء
انھیں جمال مدیحت نے کامیاب کیا

یزیدیو نہ یوں اتراو ، ہیں یہ ابن علی
انھیں تو ان کی شہادت نے کامیاب کیا

ہے سچ ، ہیں حضرت عثمان شاہ ذوالنورین
انھیں دو نور کی نسبت نے کامیاب کیا

رضا و صدق و وفا ہیں عتیق کی عادت
عتیق کو اسی عادت نے کامیاب کیا

براءے رشد و ہدایت نبی کی عترت ہے
ہمیں محبت عترت نے کامیاب کیا

قریب شاہ رہوں ، تھی عتیق کی خواہش
انھیں نبی کی اجازت نے کامیاب کیا

شریک دین کی تبلیغ میں ہمیشہ رہیں
خدیجہ آپ کی دولت نے کامیاب کیا

عتیق اور عمر کے مشیر تھے حیدر
انھیں علی کی رفاقت نے کامیاب کیا

سمجھ سکو تو سمجھ لو کہ قوم مسلم کو
علی کی غزووں میں شرکت نے کامیاب کیا

وہ دور رہ کے بھی دیتے ہیں ساریہ کو ندا
عمر کی ایسی کرامت نے کامیاب کیا

وہ رات دن رہا کرتے تھے شہ کی خدمت میں
انس کو شاہ کی خدمت نے کامیاب کیا

جناب عاءشہ کی عظمتوں پہ سب ہیں نثار
کہ ان کو آیت عصمت نے کامیاب کیا

زبیر کو شہ کونین نے حواری کہا
انھیں حضور سے الفت نے کامیاب کیا

بنایا شاہ نے صدیق کو امیر الحج
انھیں نبی کی عنایت نے کامیاب کیا

رضا کے جیسا کوءی نعت گو نہیں ملتا
رضا کو حسن بلاغت نے کامیاب کیا

نگاہ ایک ہے کافی حبیب رحماں کی
ہمیں حبیب کی صحبت نے کامیاب کیا

ولی کو معرفت رب نہیں ملی یونہی
خدا کے ذکر کی کثرت نے کامیاب کیا

رضا کے مسلک حق میں ہی کامیابی ہے
رضا کے حسن وصیت نے کامیاب کی

مجدد ایسے کہ مانا ہے ان کو دنیا نے
رضا کو علمی جلالت نے کامیاب کیا

مجاہد ایسے کہ دشمن کے چھکے چھوٹ گءے
حبیب کو یوں عزیمت نے کامیاب کیا

بتایا راز طریقت کا لیکے دامن میں
ہمیں مجاہد ملت نے کامیاب کیا

حواس باختہ جادو ہے ، قوم مسلم کو
معین دیں کی کرامت نے کامیاب کیا

سبھوں سے کہتا ہے جنت نشیں یہی قطمیر
مجھے ولیوں کی الفت نے کامیاب کیا

حضور عالم رویا میں آپ آءے تھے
حبیب آپ کی رویت نے کامیاب کیا

وہ آنا عالم رویا میں ، کرنا بیعت بھی
حبیب آپ سے بیعت نے کامیاب کیا

ہمیں ملی ہے خلافت سبھی سلاسل کی
حضور ارشد ملت نے کامیاب کیا

یہ زودگوءی ، تخیل یہ شعر کی ندرت
کسی کی خوبیء صحبت نے کامیاب کیا

ملی خلافت پر نور فیض سے اس کے
ہمیں تو نعت رسالت نے کامیاب کیا

ضرورت اپنی تو ہوتی ہے مادر ایجاد
ہمیں ہماری ضرورت نے کامیاب ک

ہوائے بدعت دنیا سے “عینی” ہے محفوظ
اسے ردائے شریعت نے کامیاب کیا
۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

یوم عاشوراء کی دینی وتاریخی اہمیت،، (مولانا)محمّدشمیم احمدنوری مصباحی دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر(راجستھان)

تقویم اسلامی کے سب سے پہلے مہینے”محرّم الحرام” کا دسواں دن”یوم عاشوراء” کہلاتاہے، یوم عاشوراء بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں؛ چناں چہ موٴرخین نے لکھا ہے کہ:

(۱) یوم عاشوراء میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیاگیا۔

(۲) اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کی توبہ قبول ہوئی۔

(۳) اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔

(۴) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔

(۵) اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ،،خلیل اللہ“ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔

(۶) اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

(۷) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔

(۸) اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔

(۹) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔

(۱۰) اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔

(۱۱) اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔

(۱۲) اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا یابی حاصل ہوئی۔

(۱۳) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے۔

(۱۴) اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔

(۱۵) اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

(۱۶) اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔

(۱۷) اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔

(۱۸) اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔

(۱۹) اسی دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا۔

(۲۰) اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جگر گوشہٴ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔

(۲۱) اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ (نزہة المجالس ج/۱ص/۳۴۷،۳۴۸ )

یومِ عاشوراء کی فضیلت

مذکورہ بالا واقعات سے تو یوم عاشورہ کی خصوصی اہمیت کا پتہ چلتا ہی ہے، علاوہ ازیں اس دن کی اہمیت وفضیلت کےبارےمیں متعدد روایات رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم اور آپ کے صحابہ سے منقول ہیں؛ چنانچہ: (۱) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما رأیتُ النبیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ہذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وہذا الشہرَ یعنی شہرَ رَمَضَان (بخاری و مسلم) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔ (۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَیْسَ لِیَوْمٍ فَضْلٌ عَلٰی یومٍ فِي الصِّیَامِ الاَّ شَہْرَ رَمَضَانَ وَیَوْمَ عَاشُوْرَاءَ․ (رواہ الطبرانی والبیہقی، الترغیب والترہیب ج/۲ص/۱۱۵) روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشورہ کو (کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل ہے)۔ (۳) عن أبی قتادة رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: انّي أحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أنْ یُکفِّر السنةَ التي قَبْلَہ․ (مسلم شریف ج/۱ص/۳۶۷ابن ماجہ ص/ ۱۲۵) حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (ابن ماجہ کی ایک روایت میں ”السنة التی بعدہا“ کے الفاظ ہیں) کذا فی الترغیب ج/۲ص/۱۱۵) ان احادیث سے ظاہر ہے کہ یوم عاشوراء بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے؛ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔

ماہِ محرم کی فضیلت اوراس کی وجوہات

یوم عاشوراء کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ میں محرم کے پورے ہی مہینے کو خصوصی عظمت حاصل ہے؛ چنانچہ چار وجوہ سے اس ماہ کو تقدس حاصل ہے: (۱) پہلی وجہ تو یہ ہے کہ احادیث شریفہ میں اس ماہ کی فضیلت وارد ہوئی ہے؛ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی شخص نے سوال کیا کہ ماہ رمضان المبارک کے بعد کون سے مہینہ کے میں روزے رکھوں؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہی سوال ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا تھا، اور میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، تو آپ نے جواب دیا تھا کہ: انْ کُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ فَصُمِ الْمُحَرَّمَ فانَّہ شَہْرُ اللّٰہِ فِیْہِ یَوْمٌ تَابَ اللّٰہُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ وَیَتُوْبُ فِیْہِ عَلٰی قَوْمٍ آخَرِیْنَ ․ (ترمذی ج/۱ص/۱۵۷) یعنی ماہ رمضان کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو ماہِ محرم میں رکھو؛ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ (کی خاص رحمت) کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ اس دن قبول فرمائے گا۔ نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ صِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ شَہْرُ اللّٰہِ الْمُحَرَّمُ․ (ترمذی ج/۱ ص/۱۵۷) یعنی ماہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم الحرام کا ہے۔ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ صَامَ یَوْمًا مِنَ الْمُحَرَّمِ فَلَہ بِکُلِّ یَوْمٍ ثَلاَثُوْنَ یَوْمًا․ (الترغیب والترہیب ج/۲ ص/۱۱۴) یعنی جو شخص محرم کے ایک دن میں روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلہ تیس دن روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔ (۲) مندرجہ بالا احادیث شریفہ سے دوسری وجہ یہ معلوم ہوئی کہ یہ ”شہرُ اللّٰہ“ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا مہینہ ہے تو اس ماہ کی اضافت اللہ کی طرف کرنے سے اس کی خصوصی عظمت وفضیلت ثابت ہوئی۔ (۳) تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ مہینہ ”اشہر حرم“ یعنی ان چار مہینوں میں سے ہے کہ جن کو دوسرے مہینوں پر ایک خاص مقام حاصل ہے، وہ چار مہینے یہ ہیں: (۱) ذی قعدہ (۲) ذی الحجہ (۳) محرم الحرام (۴) رجب (بخاری شریف ج۱ ص/۲۳۴- مسلم ج/۲ ص/۶۰) (۴) چوتھی وجہ یہ کہ اسلامی سال کی ابتداء اسی مہینے سے ہے؛ چنانچہ امام غزالی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں کہ ”ماہِ محرم میں روزوں کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے سے سال کا آغاز ہوتا ہے؛ اس لیے اسے نیکیوں سے معمور کرنا چاہیے، اور خداوند قدوس سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ ان روزوں کی برکت پورے سال رکھے گا۔ (احیاء العلوم اردو ج/۱ ص/۶۰۱)

یوم عاشوراء میں کرنے کے کام

یومِ عاشوراء میں جن امور پرہمیں عمل کرناچاہییے ان میں سے کچھ یہ ہیں: (۱) روزہ: جیساکہ اس سلسلے میں روایات گزرچکی ہیں؛ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ومشرکین کی مشابہت اور یہود ونصاریٰ کی بود وباش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اس حکم کے تحت چونکہ تنہا یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا یہودیوں کے ساتھ اشتراک اور تشابہ تھا، دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا؛ اس لیے اللہ تعالیٰ کے مقدس پیغمبرحضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ یوم عاشوراء کے ساتھ ایک دن کا روزہ اور ملالو، بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ کھو، اور اگر کسی وجہ سے نویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لو؛ تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشابہ نہ رہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس دن کو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں(تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فَاذَا کَانَ العامُ المُقْبِلُ ان شاءَ اللّٰہ ضُمْنَا الیومَ التاسعَ قال فَلَمْ یَأْتِ الْعَامُّ الْمُقْبِلُ حَتّٰی تَوَفّٰی رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسلم شریف ۱/۳۵۹) یعنی جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے، ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاوصال ہوگیا۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے ہی ایک دوسری روایت یوں ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا”صُومُوا یَومَ عَاشُوراءَ وَ خَالِفُوا الیَھُودَ،صُومُوا قَبلَهُ یوماً،اَو بَعدَہُ یَوماً(صحیح ابن خزیمہ ج/۳ص/۲۹۰)

(۲) اہل وعیال پر رزق میں فراخی: شریعتِ اسلامیہ نے اس دن کے لیے دوسری تعلیم دی ہے کہ اس دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت اورفراخی کرنا اچھا ہے؛ کیونکہ اس عمل کی برکت سے تمام سال اللہ تعالیٰ فراخیِ رزق کے دروازے کھول دیتا ہے؛ چنانچہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ أوْسَعَ عَلٰی عِیَالِہ وَأہْلِہ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ أوْسَعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَتِہ․ (رواہ البیہقی، الترغیب والترہیب ۲/۱۱۵) یعنی جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائےگا۔

ان کے علاوہ کچھ اور مستحسن امور ہیں جنہیں ہمیں بجالانا چاہیئے!
اس مبارک موقع اوردن پانی یاشربت کی سبیل لگانا،غریب ومسکین کوکھاناکھلانااور شہدائےکربلا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی یادمیں محافلِ خیر کا انعقادکرناچاہییے، اوران محافل میں شہیدان کربلاکی مبارک زندگی کے روشن اورتابناک پہلواورشہادت کے اسباب اورشہداء کے پیغامات کوبیان کرناچاہییے، اورلوگوں کوان کے نقوش قدم پر چلنے کی تلقین کی جانی چاہییے، عبادت وریاضت بالخصوص تلاوت قرآن کی کثرت اور روزہ رکھناچاہییے اورہروہ کام جو شریعت میں مستحسن ہوں انہیں بجالاناچاہییے،
اللہ تبارک وتعالیٰ شہدائے کربلا کے صدقے ہم سبھی مسلمانوں کو نیکیوں کے کرنے اوربری باتوں سے توبہ کی توفیق سعید عطافرمائے-

اوپر کی تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ماہ محرم اور یوم عاشوراء بہت ہی بابرکت مہینہ اور مقدس دن ہے؛ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس باعظمت مہینہ میں زیادہ سے زیادہ عبادات میں مشغول ہوکر خدائے تعالیٰ کی خاص الخاص رحمت کا اپنے آپ کو مستحق بنائیں؛ مگر ہم نے اس مبارک مہینہ کو خصوصاً یوم عاشوراء کو طرح طرح کی خود تراشیدہ رسومات کا مجموعہ بناکر اس کے تقدس کو اس طرح پامال کیا کہ الامان والحفیظ، اس ماہ میں ہم نے اپنے کو چنددر چند خرافات کا پابند بناکر بجائے ثواب حاصل کرنے کے الٹا معصیت اور گناہ میں مبتلا ہونے کا سامان کرلیا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح اس ماہ میں عبادت کا ثواب زیادہ ہوجاتا ہے، اسی طرح اس ماہ کے اندر معصیات کے وبال وعقاب کے بڑھ جانے کا بھی اندیشہ ہے؛ اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس محترم مہینہ میں ہر قسم کی خرافات اور غیرشرعی رسومات سے احتراز کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کا صحیح فہم عطا فرمائے، اور ہر قسم کے گناہوں اور معصیتوں سے محفوظ فرمائے اور اپنی اور اپنے حبیبِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت واطاعت کی دولتِ عظمیٰ سے نوازے۔ آمین ثم آمین

اہل بیت سے محبت مسلمانوں کی سعادت مندی، از : (مولانا) جمال الدین قادری انواری،استاذ :دارالعوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف ،پوسٹ گرڈیا،تحصیل :رامسر ضلع:باڑمیر(راجستھان)۔

     حضور نبی کریم ﷺ کےاہل قرابت اور اہل بیت اطہار سے محبت و مؤدت اور عقیدت و احترام سعادت مندی اور خوش نصیبی کی پہچان ہے،تمام امت مسلمہ پر ان پاکیزہ حضرات کی محبت و تعظیم ضروری ہے اور ان سے بغض و عداوت، نفرت و عناد اور ان کی توہین و تنقیص بد نصیبی اور دنیا و آخرت میں خسارہ  و نقصان کا سبب اور اللہ کے غضب و قہر کے نازل ہونے کا باعث ہے اس لئے ہمیں چاہیئے کہ جس رسول پاک نے ہمیں ایمان جیسی دولت سرمدی، خدا وند ِقدوس کی معرفت اور دوسری تمام نعمتوں کو پانے کی راہیں بتائی ان کے اہل بیت سے خوب پیار و محبت اور حسنِ سلو ک سے پیش آئیں،ان کی محبت کا چراغ اپنے دلوں میں جلائیں ،کہ رسول پاک ﷺ ان حضرات سے بے حد محبت فرماتے اور بارگاہ الٰہی میں یوں عرض کرتے ”مولیٰ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی انہیں اپنا محبوب بنا اور ان سے بھی محبت فرما جو ان سے محبت رکھے “۔

     حضرت زید بن عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور  نبی کریم ﷺ نے فرمایا” میں تم میں دو چیز چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہوگے تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہو گے ان میں سے ایک دوسری سے زیادہ عظمت والی ہے ،پہلی  کتاب اللہ،اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف لٹکائی گئی ہے اور دوسری چیز میرے اہل بیت و میری عترت ہیں اور یہ دونوں ہر گز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے تم غور کرو میرے بعد تم کس طرح ان  میں میری نیابت کرتےہو “۔(ترمذی ج/۲ ص/۲۲۰ )۔

  حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو اس کی نعمتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ،مجھ سے محبت کرو اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر اور میرے اہل بیت سے محبت کرو میری وجہ سے “(ترمذی ج/۲ ص/ ۲۲۰ ،در منثور ج/۵ص/ ۷۰۲)۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اپنی امت میں سب سے پہلے میں جس کی شفاعت کروں گا وہ میرے اہل بیت ہیں” (المعجم الکبیر ج/۱۲ ص/ ۳۲۱)۔

  حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری شفاعت میرے امتیوں کے لئے جو میرے اہل بیت سے محبت کرتے ہیں (تاریخ بغداد ج/۲ ص/ ۱۴۶)۔

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “میرے اہل بیت کی مثال تم میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا ہلاک ہو گیا ”( الصوائق المحرقہ ص /۲۸۲)۔

      حضرت عمران بن حسین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “میں نے اپنے رب سے عرض کی کہ میرے اہل بیت میں سے کسی کو دوزخ میں داخل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا ”(ایضا    ص /۲۸۳)۔

    حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا “اپنی اولاد کو تین چیزوں پر ادب سکھاؤ (۱) نبی کی محبت (۲) اہل ِبیتِ نبی کی محبت (۳) تلاوت ِقرآن پر  ،کیونکہ حافظ قرآن اللہ کے سایۂ رحمت میں ہوں گے جس دن اس کے سایۂ رحمت کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا ”(کنز العمال  ج/۱۶ ص /۴۵۶ ،کشف الخفا  ء   ج/۱ ص/ ۷۴) ۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “سب سے پہلے جو میرے پاس حوض کوثر پر آئے گا وہ میرے اہل بیت ہیں” (کنز العمال ج/۱۲ ص /۱۰۰)۔

   حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا “تم میں پل صراط  پر سب سے زیادہ ثابت قدم رہنے والا وہی ہوگا جو سب سے زیادہ  محبت میرے اہل بیت اور میرے صحابہ سے کرنے والا ہوگا ”(کنز العمال ج/۱۲ ص/۹۶)۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا “جو شخص میرے اہل بیت میں سے کسی کے ساتھ احسان کرے گا تو میں قیامت کے دن اسے اس احسان کا بدلہ دوں گا ”(کنز العمال ج/۱۲ ص/۶۳۰ )۔

        امام بیہقی  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں، اور میری اولاد اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے، اور میری ذات اس کی ذات سے محبوب تر نہ ہوجائے ”(صواعق محرقہ  ص /۳۴۴ )۔

    قارئین کرام :اب تک جو اہل بیت کی فضیلت و  شان میں احادیث مذکور ہوئیں و ہ تمام اہل بیت کو عام ہیں ،ان میں سے کسی کا نام صراحت کے ساتھ مذکور نہیں ہوا ،اب ہم ان احادیث کو تحریر کرتے ہیں جن میں حضرت علی ،فاطمہ اور امام حسن و حسین رضی اللہ عنہم کا ذکر ہے پھر وہ احادیث لکھی جائیں گی جن میں الگ الگ ان مقدس حضرات کے فضائل وکرامات اور خصو صیات مذکور ہو ں گی!۔

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ،فاطمہ اور حسنین کریمین کے متعلق فرمایا “جو ان سے جنگ کرے گا میں ان سے جنگ کروں گا اور جو ان سے صلح کرے گا میں اس سے صلح رکھوں گا- “(ترمذی  ،مستدرک  ج/۳ ص/۱۴۹)۔

 امام احمد نے روایت کیا کہ  حضور اقد س ﷺ نے حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا  ”جو شخص مجھ سے ،ان دونوں سے ،اور ان کے والدین سے محبت رکھے گا وہ قیامت کے دن (جنت میں )میرے درجے میں ہوگا “(صواعق محرقہ  ص /۲۳۵ ،کنز العمال ج/۱۳ ص/۲۷۵)۔

نوٹ :اس حدیث میں بیان ہوا کہ محبان اہل بیت سرکار کے ساتھ جنت میں آپ کے درجے میں ہوں گے تو اس سے مراد یہ ہے کہ جنت میں آپ ﷺ جس درجہ اور منزل میں تشریف فرماہوں گے محبان اہل بیت کا درجہ آپ کے درجے کے قریب ہوگا۔

 ابن سعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا ”جنت میں جو سب سے پہلے داخل ہوگا وہ میں ہوں گا اور فاطمہ اور حسن و حسین ہوں گے، میں نے عرض کی یا رسول اللہ :اور ہم سے محبت کرنے والے ؟ تو آپ نے فرمایا تمہارے بعد“۔ 

تنبیہ : شیعہ حضرات اس حدیث سے اس غلط فہمی اور خوش فہمی میں نہ رہیں کہ وہ تو حضرات ِ اہل بیت سے خوب عقیدت و محبت رکھتے ہیں لہٰذا وہ جنتی ہیں ،کیونکہ ان جاہلوں اور بے وقوفوں نے حضرات اہل بیت کی محبت میں کس قدر غلو اور زیادتی کی کہ حد شرع کا پاس و لحاظ نہ رہا ،یہاں تک کہ ان لوگوں نے صحابہ کی تکفیر کی اور امت کو گمراہ کیا ،حضرات شیخین (حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ) کو غاصب و باغی کہا ،ان کی شان میں توہین و تنقیص کی

لہٰذا ان کی محبت ان کے لئے تباہی و ہلاکت اور دوذخ میں جانے کا سبب بنے گی ،خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ” مجھ سے حد سے زیادہ محبت کرنے والا جو مجھے میرے مرتبے سے بڑھائے گا وہ ہلاک ہوگا” (صواعق محرقہ ص /۲۳۵)۔

اورایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا “میری محبت اور حضرت ابو بکر و عمر فاروق سے دشمنی و عداوت ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی ،کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ،جو ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں (ایضا ص /۲۳۸)۔

 بلکہ اہل بیت کرام سے حقیقی معنوں میں محبت کرنے والا گروہ اہل سنت و جماعت ہے جو انبیاء کرام ،صحابۂ عظام  ،ابو بکر و عمرفاروق، عثمان و حیدر اور حضرت فاطمہ و حضرات حسنین کریمین سے شریعت کے دائرے میں رہ کر محبت کرتے ہیں ان کے قول وکردار ،سیرت و اخلاق کو اپنے لئے نمونۂ عمل اور مشعل ہدایت سمجھتے ہیں۔ 

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ،حضرت فاطمہ اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور بارگاہ خداوندی میں عرض گزار ہوئے اے اللہ یہ میری اہل ہیں (ایضا ص /۱۸۷)۔

  حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جنت میں ایک درجہ جسے وسیلہ  کہا جاتا ہے ،جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو میرے لیے وسیلہ مانگو، صحابہ نے عرض کیا :یا رسول اللہ:آپ کے ساتھ اس درجے میں کون رہے گا ؟ آپ نے فرمایا :علی ،فاطمہ اور حسن و حسین (کنز العمال  ج/۱۳ ص/۲۷۵)۔

بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو حضور نبی کریم ﷺ اور آپ کے اہل بیت اطہار سے محبت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین[صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم]