WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives September 2022

نعت پاک رسول ﷺ از قلم محمد شاہد رضا برکاتی بہرائچی 7045528867

مکمّل کلام برائے بزمِ غوث الوریٰ

جب سے حاصل ہوئی نصرتِ مصطفیٰ
میں بھی کرنے لگا مدحتِ مصطفی

حشر میں کام کوئی نہ آئے گا جب
کام آئے گی تب نسبتِ مصطفیٰ

میرے اعمال جنت کے لائق کہاں
ہاں مگر دل میں ہے الفتِ مصطفیٰ

ڈوبا سورج پھرا چاند ٹکرے ہوا
دیکھ لے نجدیا قدرتِ مصطفیٰ

قلبِ مضطر سکوں پل میں پا جائے، گر
“دیکھ لوں جا کے میں تربتِ مصطفیٰ”

یا خدا میری نسلیں بھی کرتی رہیں
عمر بھر شوق سے طاعتِ مصطفیٰ

دو جہاں میں وہ شاہد ہوا سرخرو
جس نے اپنا لی ہے سنتِ مصطفیٰ

از قلم
محمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی

قوم مسلم کے اندر تعلیمی بیداری پیداکرنا انتہائی ضروری:سیدنوراللہ شاہ بخاری:- رپورٹ:(مولانا)عطاؤالرحمان قادری انواری![ناظم اعلیٰ]مدرسہ انوارقادریہ فیض جیلانی متصل درگاہ حضرت مخدوم درس قطب علیہ الرحمہ،میکرن والا، تحصیل:رامسر،ضلع:باڑمیر[راجستھان]


مدرسہ انوارقادریہ میکرن والا میں حضرت مخدوم قطب درس علیہ الرحمہ کا سالانہ عرس منایا گیا


علم اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے کہ جس کی اہمیت و فضیلت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔یہ وہ انعام الٰہی ہے جس کی بنیاد پر انسان دوسری مخلوق سے افضل ترین چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر فرشتوں پر برتری ثابت فرمائی ، رسول اللہ ﷺپر جو پہلی وحی نازل  فرمائی گئی اس میں “تعلیم ” سے ابتداء کی گئی اور پہلی ہی وحی میں بطور ِاحسان انسان کو دیئے گئے علم کا تذکرہ فرمایا گیا ۔گویا اسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن پاک کی پہلی آیت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی پر نازل فرمائی وہ علم ہی سے متعلق ہے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے “ترجمہ:پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ،آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ،پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ،آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا! “(سورۂ علق آیت /۵،پارہ /۳۰ کنز الایمان)

قرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی ان آیتوں میں علم کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمادیا کہ اسلام تعلیم و تعلم کا مذہب ہے،
اور خود نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حصول علم پر کافی زور دیا ہے یہی وجہ ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے نامساعد حالات میں بھی دارارقم میں علم کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا پھر ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ منورہ میں باضابطہ ایک مدرسہ کا قیام عمل میں لایا جسے “صفہ” کہاجاتا ھے اس درسگاہ نبوی سے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست علوم حاصل کیا اور پھر پوری دنیا میں اس علم کی نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیا جس اسلام اور پیغمبر اسلام نے حصول علم پر اتنا زور دیا مگر آج وہی امت مسلمہ تعلیمی میدان میں اقوام عالم سے پیچھے رہ گئی جواس وقت کا سب سے بڑا المیہ ھے آج امت مسلمہ جہاں عصری علوم میں پچھڑی ھوئی ھے وہیں دینی علم کے حصول میں بھی ناکام ھے آج کی صورت حال یہ ھے کہ مسلم نونہالوں کو نہ توحید ورسالت کے بارےمیں واقفیت ھے، نہ طھارت ونماز ،روزہ و زکوٰة، حقوق والدین وحقوق العباد جیسے ضروری مسائل کا علم ھے،حدتو یہ ہے کہ بعض نام نہاد مسلمانوں کو ڈھنگ سے کلمہ پڑھنا بھی نہیں آتا جس سےمعاشرہ پر بہت برے اثرات مرتب ھو رہے ہیں
ان خیالات کااظہار علاقۂ تھار کی مرکزی اور مغربی راجستھان کی ممتاز ومنفرد دینی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان” کے شیخ الحدیث وناظم اعلیٰ پیرطریقت نورالعلماء حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی نے میکرن والا، باڑمیر میں حضرت مخدوم قطب درس علیہ الرّحمہ کے سالانہ عرس مبارک ومدرسہ انوارقادریہ فیض جیلانی میکرن والا کے سالانہ تعلیمی اجلاس میں اپنے خصوصی خطاب کے دوران کیا، اورساتھ ہی ساتھ اس بات پر خصوصی زرو دیا کہ آج قوم مسلم میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے،اور اہل ثروت حضرات کو اپنے مال ودولت کو فضولیات سے بچانے اور نیک کاموں میں خرچ کرنےکی جانب پیش رفت کرنے کی از حد ضرورت ھے، خطاب کاسلسلہ جاری رکھتے ھوئے سرپرستوں سے بھی اپیل کی کہ آپ لوگ اپنے بچوں کو ڈاکٹر ،انجنیر ، سائنسداں ضرور بنائیں یہ بھی وقت کا تقاضا ھے کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علوم کے سیکھنے کی ترغیب دی ھے جس کی کئی مثالیں سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں لیکن ان علوم کے حصول سے پہلے اپنے بچوں کو کتاب وسنت ،عقائد و دینی فرائض کی تعلیم دلائیں اور کم از کم اس قدر دینی علم ضرور پڑھائیں کہ وہ اپنی مفروضہ عبادت اداکرسکے اور تلاوت قرآن کرسکے تاکہ ان کا ایمان مضبوط ھوسکے اور اس دور الحاد میں کوئی ان کے ایمان پر حملہ نہ کرسکے -اور آپ نے فرمایا کہ اس دور میں اگر کوئی علم حاصل کرناچاہتا ہے تو اس کے اسباب بھی ہیں اس کے باوجود جو لوگ مسلمان ہوکر بھی علم سے دور رہیں گویا وہ اسلامی مقاصد کے خلاف زندگی گزار رہے ہیں۔حالانکہ تعلیم و تعلم کے سب سے زیادہ حقدار ہم ہی ہیں ۔لہٰذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ جہالت کی تاریکیوں کو چھوڑکر اب علم کے اُجالے میں آجائیں-
ساتھ ہی ساتھ آپ نے لوگوں کو پابندی کےساتھ نماز پنجگانہ باجماعت اداکرنے،اپنے مالوں کی زکوٰة نکالنے ودیگر ارکان اسلام کی ادائیگی پر زور دیتے ہوئے اپنے والدین کی خدمت،بزرگوں کی تعظیم وتکریم، چھوٹوں پر شفقت،جملہ برائیوں سے اجتناب اور نیک اعمال کے کرنے کی تاکید وتلقین کی،گویا آپ نے جملہ منہیات شرعیہ سے بچنے اور اوامر شرعیہ پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کی-
آپ کے ناصحانہ وصدارتی خطاب سے قبل خطیب ہر دل عزیز حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوارمصطفیٰ نے عمدہ خطاب کیا اور واصف شاہ ہدیٰ، شاہکارترنم حضرت حافظ وقاری عطاؤالرحمان صاحب قادری انواری جودھپور ومدّاح رسول مولانا محمدیونس صاحب انواری نے نعت ومنقبت کے نذرانے پیش کیے- جب کہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف و مدرسہ انوارقادریہ فیض جیلانی میکرن والا کے چند ہونہار طلبہ نے بھی نعت ومنقبت اور تقریر پر مشتمل اپنا دینی و علمی پروگرام پیش کیا-
نظامت کے فرائض طلیق اللسان حضرت مولانا محمدحسین صاحب قادری انواری نے بحسن وخوبی انجام دیا-
صلوٰة وسلام اور قبلہ نورالعلماء حضرت علامہ پیر سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کی دعا پر یہ جلسہ اختتام پزیر ہوا-
اس پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
حضرت پیرسید غلام محمدشاہ بخاری،حضرت پیرسیدداون شاہ بخاری،ادیب شہیر حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی،حضرت مولانادلاورحسین صاحب قادری صدرالمدرسین دارالعلوم انوارمصطفیٰ، مولاناحبیب اللہ قادری انواری،مولانا فخرالدین انواری، مولانااسلام الدین قادری انواری، مولانا شیر محمدانواری،حافظ برکت علی قادری،مولانامحمدعلی انواری، مولانامحمدقاسم انواری،قاری ارباب علی قادری انواری،مولاناروشن دین سہروردی انواری،مولاناشہاب الدین انواری،مولانامحمدعرس سکندری انواری وغیرہم

کیا نماز میں بحالت قیام بائیں ہاتھ سے جماہی روکنے یا بدن کھجانے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؟ از قلم، مفتی احمد رضا صاحب دارالفکر بہراٸچ شریف

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کیا نماز میں بحالت قیام بائیں ہاتھ سے جماہی روکنا یا کوئی اور کام انجام دینے سے مثلاً موبائل-فون بند کرنے یا بدن کے کسی حصے کو کھجانے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں

العارض
محمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔ صورت مسئولہ میں کہ نماز میں خشوع و خضوع اور سکون واطمینان مطلوب ہے، اس لئے پوری کوشش کرنی چاہئے کہ نماز شروع کرنے کے بعد نمازی کا کوئی عضو بلاوجہ حرکت نہ کرے؛ تاہم معمولی حرکت سے نماز نہیں ٹوٹتی؛ بلکہ نماز اس وقت فاسد ہو تی ہے جب کہ یہ حرکت اس قدر کثیر ہو کہ دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے، ایک رُکن میں تین مرتبہ کھجانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، یعنی ایک بار کُھجا کر ہاتھ ہٹایا پھر دوسری بار کُھجا کر ہٹایا اب تیسری بار جیسے ہی کھجائے گا نماز ٹوٹ جائے گی اور اگر ایک بار ہاتھ رکھ کر چند بار حرکت دی تو ایک ہی مرتبہ کُھجانا کہا جائیگا، جیسا کہ بہار شریعت میں ہے: ایک رکن میں تین بار کھجانے سے نماز جاتی رہتی ہے، یعنی یوں کہ کھجا کر ہاتھ ہٹا لیا پھر کھجایا پھر ہاتھ ہٹالیا وعلی ہذا اور اگر ایک بار ہاتھ رکھ کر چند مرتبہ حرکت دی تو ایک ہی مرتبہ کھجانا کہا جائے گا
(بہار شریعت ج1 صفحہ 614،مکتبۃ المدینہ)،
اور فتاوی رضویہ میں اسی طرح کے سوال کہ حالت نماز میں کجھلی ہو تو کھجائے یا نہیں اور کھجاوے تو کتنی مرتبہ ، میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: ضبط کرے اور نہ ہو سکے یا اس کے سبب نماز میں دل پریشان ہو تو کھجالے مگر ایک رکن مثلاً قیام یا قعود یا رکوع یا سجود میں تین مرتبہ نہ کھجائے دو بار تک اجازت ہے،(فتاوی رضویہ قدیم ج3 صفحہ 446)،
تو واضح ہو گیا کہ دائیں ہاتھ سے کھجائے یا بائیں ہاتھ سے دو بار تک اجازت ہے، اور اگر تین بار کھجائے نماز ہی فاسد ہو جائے گی،جیسا کہ مذکورہوا، ہاں قیام کی حالت میں کھجانے کی ضرورت ہو تو دائیں ہاتھ سے کھجائے جیسا کہ نظام شریعت میں جماہی روکنے کے تعلق سے اخیر میں ہے: قیام کی حالت میں داہنے ہاتھ سے ڈھانکے اور دوسرے موقع پر بائیں سے(نظام شریعت صفحہ 140)، اور فتاوی عالمگیری جلداول مطبوعہ مصر صفحہ ٩٧)* 
میں ھے ،، *اذا حک ثلاثا فی رکن واحد تفسد صلاته ھٰذا اذا رفع یدہ فی کل مرة ۔ اما اذا لم یر فع فی کل مرة فلاتفسد کذا فی الخلاصة* ۔
 (فتاوی فیض الرسول جلداول باب ما یفسد الصلاة صفحہ ٣٥٠)* 
یہی حکم فون بند کرنے کا ہے کہ دوران نماز ایک رکن میں ایک بار یا زیادہ سے زیادہ دو بار جیب کے اوپر سے موبائل کی گھنٹی بند کرنے کی اجازت ہے کہ اس عمل قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر ایک رکن میں مثلا صرف قیام میں یا صرف رکوع میں تین بار گھنٹی بند کی تو نماز فاسد ہوجائے گی جس طرح ایک رکن میں تین بار کھجلانے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے؛ (موبائل فون کے ضروری مسائل صفحہ 111 112)خلاصہ : دوران نماز موبائل کی گھنٹی بجے تو ایک رکن میں ایک یا دو مرتبہ موبائل کی گھنٹی بند کر سکتے ہیں اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی ایک رکن میں تین بار گھنٹی بند کرنے سے نماز فاسد ہوجائے گی؛ نمازی کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئیے کہ نماز کے وقت جب موبائل جیب میں تو سوئچ آف کر دینا چاہئیے یا کم سے کم سائلنٹ تو کر ہی دینا چاہئیے تاکہ کہ خود کے نماز میں خلل نہ ہو اور دوسروں کے نماز میں بھی خلل نہ ہو؛۔لہذ ا حالت نماز فون بند کرنا  یا کھجلانا اگر عمل قلیل کے طور پر ہو تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہٗ احمد رضا قادری منظری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 8 /ستمبر 2022

مدادِ قلم سے بہار دین میں رعنائی ہے…از قلم:رہبر عالم أويسي احسنی متعلمِ حال الجامعة الإسلامية روناہی فیض آباد یوپی

خالق کائنات (جل جلالہ) نے جن اشیا کونیست سے زیست بخشی ان کی ہست میں قلم کو اولیت کا درجہ عطا فرمایا،اس پر مستزاد یہ کہ اس کے ماسوا کے عدم و وجود،امکان و امتناع،زمان
ومکان،حرکت و سکون،عیش و انتقال اور ما کان
وما یکون کے لکھنے کا حکم اسی کو فرمایا، پھر اس
قلم نے لوح محفوظ پر جو نقوش چھوڑے انہیں کو زمانے نے تقدیر سے تعبیر کیا،حیوانات و جمادات
ونباتات اور تمام مشاہد و غیر مشاہد چیزیں انہیں
نقوش کے عکوس قرار پاۓ جن کے خالق (جل جلالہ)
اورمخبر (علیہ الصلوٰۃ والسلام) پر حاملینِ تاجِ کرامت کو”آمنا”کا اظہار باللسان اور تصدیق بالجَنان ضروری ٹھہرا،

   قلم کا شرف و فضل اسی پر بس نہیں بلکہ خالقِ لوح و قلم  نے اپنے خیر کلام(قرآن) میں اس کی قسم یاد فرما کر اس کی شان کو اَوج کی معراج  عطا فرما دی، اس پر طرہ  یہ کہ جس نوری و خالص روحانی مخلوق  نے اس کا استعمال فرمایا ان کی بھی قسم اٹھائی، اور مالک کائنات ﷺ نےحربی مقیدین کو قلم کی خدمت کے عوض پروانۂ حریت عطا فرما کر اس کی  علّوِشان کا عملی نمونہ پیش فرمایا، اور جن اصحاب و اخیار نے "حدیثِ" قلم میں مضمر افادیت کا فقہ جان لیا پھر  تو انہوں نے اس کی تفسیر سے ایسے گراں قدر علمی احکام کا استنباط کیا کہ وہ حضرات خلق کثیر کے ما بین موجد "اصول" و "کلام" کا درجہ حاصل کر لئے،جہالت کو نوکِ قلم سے حیاتِ "منطق" کا ایسا فلسفہ سمجھایا کہ مارے شرم کے اب تک "نحوِ" حیا "صرفِ" نظر رہی ہے،جلالتِ قلم  سے "بلاغت" "فصاحت" کے ساتھ جامۂ "تصوف" میں ناز کر رہی ہے،

آج کے اس مادہ پرست تمثال پسند دور میں بھی اصحاب علم و فضل کے لیۓ جو مراجع و مصادر کی حیثیت کی حامل ہستیاں ہیں، جن کے ڈنکے کی گونج اکناف عالم میں سنائی دے رہی ہے ان مقدس نفوس کے نقوش قلم ہی سے دل قرطاس میں محفوظ ہیں، اور علم دوست حضرات کے قلوب و اذہان ان ذوات مقدسہ کے بیش بہا قلمی کارناموں سے بہجت و سرور میں مخمور ہیں،اور ہوں بھی کیوں نہ، جہاں سیف و سلاح کے ذریعے شجرِ اسلام کی افزائش میں حاجز، مذاھب باطلہ کے خاردار، غیر سودمند نباتات کی بیخ کنی کی گئی وہیں قرطاس و قلم کے ذریعے اس کے حدود کی پاسداری بھی کی گئی ،جہاں اس کی آبیاری میں شہداء اسلام کا خون شامل ہے وہیں اس کی رعنائی میں اصحاب قرطاس و قلم کی روشنائی کا انکار نہیں کیا جا سکتا ،جہاں نہر فرات میں قتیلان شیوۂ صبر و رضا کے خون کی سرخی دوڑی وہیں عاشقان مداد و قلم کی روشنائی نے دریائے دجلہ کی شفافیت کا غرور توڑا ،ذرا‌ غور و فکر کو زحمتِ توجہ تو دی جاۓ!کہ جہاں ہمیں اصحاب سیف و سلاح میں أسد اللہ ،صیف اللہ ،سید الشہدا،فاتحین قیصر و کسریٰ اور مسخرین یوروپ و ایشیا ملے، وہیں علم و قلم نے ہمیں رأس المفسرین ،حبر الامة،حدیث میں أمیر المؤمنین ،صدر المعلمین ،سید المتکلمین اور خاتم المحققین جیسے بے شمار علوم و فنون کے سمندروں سے روشناس کروایا کہ اکابر زمانہ آج بھی ان سے سیرابی حاصل کر رہے ہیں ،
کانپ تے ہیں اس کی ہیبت سے سلاطین زمن
دبدبہ فرماں رواؤں پہ بٹھاتا ہے قلم
صفحۂ قرطاس پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم
ندرت و افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم
پھر ایک وقت ایسا آیا کہ میدان سیف و فرس
سمٹ گیا اور بساط علم و قلم کو باقی رکھا گیا
اور آج بھی باقی ہے ،تو پھر مجاہدین نے اپنےقلم
ہی سے سیف کا کام لیا اور اپنے وقت کے طاغوت و فرعون کی سرکوبی کی،قسطنطینی اور یزیدی
قوتوں کے مجسموں کو پاش پاش کر کے رکھ دیا،
حق کے خاطر اٹھے اس قلم نےناجانے کتنے باطل
ایوانوں میں زلزلہ لا دیا،اور اصحاب خیر نے اس سے ایسے کارہائے خیر انجام دۓ جن کو سلاطین زمن اپنی
بے شمار افواج و سیوف سے بھی نہ دے سکے،
تاریخ کے اوراق الٹ کر ذرا دیکھو
ہر دور میں تلوار ہی ہاری ہےقلم سے
یہی وجہ ہے کہ دنیا کا ہر بسنے والا ذی عقل و شعور اجناس و انواع،الوان و اقوام،ممالک و ادیان، مذاھب و مسالک کی بنیاد پر منقسم انسان،نا جانے کتنے بدیہی و غیر بدیہی افکار و نظریات میں آپس میں مختلف ہے، لیکن قلم کی عظمت شان کے اعتراف میں متحد ہے،
اسی لئے تو ارباب علم و معرفت اپنی توجہ وادئ قرطاس و قلم کی طرف مرکوز رکھتے ہیں اور اپنے اصاغر کو اس وادی میں اترنے کا تاکیدی حکم فرماتے رہتے ہیں ،
خوشا نصیب ہیں وہ ذی علم حضرات جو خلوص و پاک نیت سے میدان قلم کی جانب اس جزبہ کے ساتھ سبقت کرتے ہیں،
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
دل پہ جو گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

                      *ہدیۂ تبریک*

ہندوستان کا ایک عظیم الشان مشرب علم و معرفت،
خانقاہ قادریہ برکاتیہ (مارہرہ شریف)کے زیر سایہ رواں دواں روز افزوں ادارے جامعہ احسن البرکات کے فیروز بخت، شاہیں مزاج، فرزندگان کی مجالِ تحریر کی طرف رغبت بھی ایک روشن مستقبل کی جانب غمازی کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے، کیونکہ تحریر و کتابت کی یہ حس
و حرکت وہ بھی طالبان نو خیز سے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ خزاں میں بادلوں کی بہار سے سرگوشی ہے،
خاک کے ڈھیر میں شراروں کی رمق ہے ،
خشک چمن میں خوشبوؤں کی مہک ہے،
ایام تیرگی میں روشنی کی دمک ہے ،
بوستانِ ویراں میں بلبل کی چہک ہے،
بلکہ یوں کہا جائے کہ خواب حسن کی
تعبیر میں تاروں کی چمک ہے،
اور یہ سلسلہ انہیں جزبات کے ساتھ یوں ہی چلتا رہا تو یقیناً آنے والے وقت میں خدمت دین کے حوالے سے ان شاء اللہ بہترین نتائج برآمد ہوں گے،
قابلِ تبریک و تحسین ہیں عزیزان گرامی مرتبت!
محمد حسن رضا احسنی (جماعت ثانیہ) عبدالقادر احسنی نانپاروی،شعیب رضا احسنی (ثانیہ) مولاناہلال رضا احسنی،محمد سلطان رضا احسنی،مولانا منتصر احسنی جن کی ابتدائی معلوماتی و تبصراتی اور تہنیاتی تحریروں سے آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوئی،
مولوی محمد ارقم رضا احسنی کے حضور تاج العلما
(علیہ الرحمہ) کی سوانح کے متعلق مقالہ کو پڑھ کر
بڑی شادمانی ہوئی،اور برادر صغیر مولانا توحید رضا احسنی، کے کتب بینی کے فوائد پر مشتمل عمدہ مضمون سےدل کو بڑی ٹھنڈک پہنچی،خصوصاً محب گرامی عزیزم مولانا محمد ہاشم رضا احسنی،جنہوں نے
مجاہدین جنگ آزادی کے بارے میں سادہ و شستہ،
پر مغز تحریر سے میرے ہی نہیں بلکہ اہل خیر کے دلوں میں بھی اپنی جگہ بنائی بعد ازاں جامعہ میناںٔیہ (گونڈہ) کے زیر اہتمام “آل انڈیا مسابقۂ خطابت” میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے بہتوں کو حیران و ششدر کر دیا،
اور ناقابل فراموش ہیں وہ حضرات بھی جنہوں نے بڑی جاں فشانی سے پے در پے جدارۓ چسپاں کۓ اور تحریر کی اس تازہ مہم میں اپنا حصہ ڈالا،لہذا درونِ خانہ نے اس پر راحت و فرحت،مسرت و شادمانی کے اظہار کو الفاظ کا لباس پہنانے پر ابھارا،
بلاشبہ آپ حضرات کی یہ کو ششیں اور کاوشیں تمام اساتذہ کی محنت اور رئیس الجامعہ حضور رفیق ملت”اب٘ا حضور”(دام ظلہ)کے خلوص و شفقت اور بزرگانِ مارہرہ کے فیضان و محبت کی مرہون منت ہیں،
قادر مطلق کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمارے بزرگوں اور
اساتذہ کو صحت و سلامتی کے ساتھ عمر طویل عطا فرمائے،
ہمارے جامعہ احسن البرکات کو ہر آن ترقی عطا فرمائے،
ہمارےعلم و قلم میں راستبازی و زور اور عمل میں ثابت
قدمی عطا فرمائے،
مسلک اعلی حضرت پر گامزن قلم کا سچا سپاہی بناۓ،
اور ہم سے وہ کام لے جس سے تو اور تیرا محبوب راضی ہو جائے،
ارادہ تھامنےکاہےاب بازوۓ قلم
‌۔ قلم سے بہارِ دین کی رعنائی ہے
انوارِ نوری سے شمعِ شبستاں بنو
تمہارے قلم سے امید روشنائی ہے

     *قلم کو اب تم بھی تھام لو رہبر *اس کی قسم تو رب نے اٹھائ ہے

تمباکو نوشی کے مضر اثرات.. از: عبدالقادر [بہرائچ شریف] متعلم:جامعہ احسن البرکات مارہرہ مقدسہ،ایٹہ[یوپی]

تمباکو نوشی کو بھی نشہ آور اشیاء میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے باقاعدہ استعمال سے عادت پڑ جاتی ہے اور نشہ آور اشیاء اور ادویات کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کی عادت چھڑانے سے نہیں چھوٹتی اور اگر زبردستی چھڑایا جاے تو وہ فرد اچھا خاصا مریض بن جاتا ہے لیکِن اطمینان بخش بات یہ ہے کہ یہ حالت ہمیشہ نہیں رہتی اگر ثابت قدمی اور حوصلہ مندی سے کام لیا جائے تو اس لعنت سے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔اگرچہ ساری دنیا تمباکو نوشی کے مضر اثرات کومانتی ہے مگر پھر بھی ساری دنیا میں اس کااستعمال دن بدن بڑھ رہا ہے اور استعمال کے طریقے بھی نۓ نۓ آرہے ہیں : سگریٹ نوشی۔ سگار۔گٹکہ۔اورکچھ عرصہ پہلے سے متعارف شیشہ سموکنگ شامل ہے
تمباکو نوشی کے بعد شیشہ سموکنگ کا نشہ ہماری نوجوان نسل میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے جس نے ناصرف ہماری نوجوان نسل کو بلکہ ملک کو بھی تباہی وبربادی کی طرف ڈھکیل دیا ہےWHOورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہمارے ملک میں شیشہ سموکنگ کے استعمال میں اضافہ ہورہاہے پرانے زمانے میں اسے حقہ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا اور اس کو پینے کی روایت تقریباً تین ہزار سال پرانی ہے اس بات سے تو آپ سب اچھی طرح واقف ہیں کہ حقہ بنانے کے لئے تمباکو نوشی نگوٹین اور ٹارکو استعمال کیا جاتا ہے لیکِن اب اس کی جدید شکل شیشہ میں تمباکو کی بو یعنی Smellزائل کرنےکے لیے سویٹ فلیورزبھی شامل کردیا گیاہے
اگر چہ ہندوستانی قانون کے مطابق 18سال سے کم عمر نوجوانوں کو سگریٹ بیچنا قانوناً جرم ہےمگر اس قانون کا اطلاق آج تک کما حقہ نظر نہیں آیا کم عمر لڑکے اور لڑکیاں ہوٹلوں تفریحی پارکوں کالجوں یونیورسٹیوں اور سڑکوں پر کھلے عام سموکنگ کرتے نظر آتے ہیں اور اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نےاس کو بطور فیشن اختیار کر رکھا ہے کیونکہ وہ اس کے خطرناک نتائج سے لاعلم ہیں یوں تو ہر دور میں تمباکو نوشی کے نقصانات کے بارے حکما اور طبیبوں نے خوب لکھا ہے مگر امام غزالی علیہ الرحمہ نے فرمایا ہے کہ تمباکو نوشی سے ستر(70) سے زیادہ امراض پیدا ہوتے ہیں جن میں دل کی بیماریاں۔سانس سے جڑی تکالیف۔دمہ۔خوراک کی نالی کاکینسر۔نمونیہ۔نومولودبچوں میں سانس کی بیماریاں ۔حاملہ خواتین میں وقت سے پہلے بچے کی پیدائش ۔پھیپھڑؤں کاکینسر۔
جنسی کمزوری ۔اعصابی کمزوری ۔خواتین میں بڑھتا ہوا بانجھ پن ۔اور معدے کے امراض وغیرہ شامل ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ ہم تمام کونشہ آور اشیاء اور ادویات کے استعمال سے محفوظ فرمائے آمین یارب العالمین ۔

بزم اردو اساتذہ کے زیر اہتمام عرس مخدوم سمناں کے موقع پر خصوصی انعامی مقابلہ میں پیش کیا گیا کلام…عقیدت کیش محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی یوپی

مصرع طرح “عکسِ بدر الدجی ظلِ شمس الضحی مظہرِ مصطفی تارک السلطنت”

◇◇◇~~◇◇◇~~◇◇◇
غیرتِ آسماں ہے علوے نسب بالیقیں آپ کا تارک السلطنت
خرقۂ ذات میں کیسا اعزاز ہے مرحبا مرحبا تارک السلطنت

پرچمِ تمکنت بامِ تقدیر پر اور چرخِ کبودِ شرف گیر پر
خوب شانِ تجدُّد سے لہرائے گا تا بہ روزِ جزا تارک السلطنت

حُلّہ پوشِ کرامات لا ریب ہے، صد عروسِ تصوف کا پازیب ہے
نیز تنویرِ حجلہ گہِ زہد ہے جوہرِ خو ترا تارک السلطنت

حسنِ اخلاق و کردار و گفتار میں صبر و شکر و تحمل میں ایثار میں
“عکسِ بدر الدجی ظلِ شمس الضحی مظہرِ مصطفی تارک السلطنت”

ماہ و خورشید کی جلوہ سامانیاں لعل و یاقوت کی آئنہ بندیاں
ہیچ در ہیچ ہیں گویا بے نور ہیں روکشِ خاکِ پا، تارک السلطنت

جب بڑھا آپ کا نشّۂ بے خودی تَج کے آسائشِ تخت و تاجِ شہی
زیب تن جامۂ بے نیازی کیا بہرِ قربِ خدا تارک السلطنت

حسنِ طاعت سے ہے خوشنما زندگی اور کمالِ تورُّع سے پُر بندگی
تیرے طومارِ سیرت کی ہر سطر ہے حق نما آئنہ تارک السلطنت

پاک ماحول میں پائی ہے پرورش اس لیے ہے نظر میں سلف کی روش
قلبِ نوری میں ہے موج زن ہر گھڑی تیرا بحرِ ولا تارک السلطنت
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
عقیدت کیش

محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی یوپی

۴/ صفر المظفر ۱۴۴۴ ہجری
۲/ ستمبر ۲۰۲۲ عیسوی

بروز : جمعہ

سید خادم رسول عینی ، ایک عاشق رسول شاعر۔۔۔۔۔۔۔از قلم: رفعت کنیز، حیدر آباد

قربان جائیں عاشقان رسول پر
جو بہت ہی خوبصورت اور بہترین کلام کے ذریعہ اپنے شاعرانہ انداز میں عقیدت کے ساتھ اپنی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے ہیں۔ بے شک آج بھی اس گلشان جہاں میں حب رسول کے پھول کھلتے رہتے ہیں،
نبی کی محبت میں، آپ کی شان میں گیت گنگناتے رہتے ہیں، آپ کی محبت کا اظہار دلکش انداز میں بیان کرتے ہیں ۔محبت بے انتہا ہوتی ہے جس کی کوئ حد نہیں، ایک عام امّتی اگر رسول سے عشق کر بیٹھے تو پھر دونوں جہاں میں اسکا مقام بڑھ جاتا ہے۔

 جب صحابہء کرام  آپ سے محبت کرتے تھے تو آپ پر جان قربان کیا کرتے تھے۔ تمام صحابہ نے اپنے عشق کا اظہار اس انداز میں کیا کہ آپ کی خاطر ، اسلام کی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔جو  شخص آپ کے خلاف جاتا تو اس سے جنگ کا اعلان کیا کرتے تھے۔ اس دور میں تمام صحابہ آپ کی محبت میں دل وجان فدا کرتے تھے، اپنا سب کچھ قربان کیا کرتے تھے اور اج کے اس دور میں صحابہ تو نہیں ہیں لیکن ایسے عاشقان  رسول ہیں جو آپ کی محبت میں، آپ کی عظمت میں، آپ کی مدح میں اپنے جذبہء عشق سے کئ لوگوں کے دلوں کو فتح کرتے ہیں اور اپنی اس محبت کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں ک جو پڑھنے اور سننے لگے گا وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کر بیٹھے گا ۔جس دل میں آپ کی محبت ہوگی وہ دل  پاک ہوتا ہے اور وہ دل خوبصورت کے ساتھ ساتھ بہت خاص ہوتا ہے۔

  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنی امت سے بہت محبت تھی ہر وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے رویا کرتے تھے ،امت کی بہت فکر کرتے تھے اور بہت دعائیں کیا کرتے  تھے اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا جس امت کے حق میں قبول ہوئ ہو وہ امّتی بہت خاص ہوتا ہے اور ایسے ہی ایک  خاص امتی "نازش ملت , سلطان الشعرا , معلم الشعرا سیّدخادم رسول عینی " ہیں جو اپنے جذبات کو ، اپنے احساسات کو ،اپنی محبت رسول کو  اپنے خوب صورت شاعرانہ انداز میں بیان کرتے ہیں ۔ان کے اس جذبہء عشق نے  لاکھوں دلوں کو  فتح کیا ہے۔ عینی نے اپنے کلام میں نہ صرف اپنے عشق کا اظہار کیاہے  بلکہ نبی کی عظمت ،نبی کا مقام، نبی کی حقیقت، نبی کی صداقت نبی کی سیرت  کو بھی  بیان کیا ہے۔

خادم رسول عینی صاحب کے بہت سارے کلام ایسے ہیں جو عشق رسول کے جذبہ سے سرشار ہیں ، جن میں آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو بہترین انداز میں بیان کیا ہے۔
آپ کا ایک شعر یوں ہے:
حق راستہ دکھانے کو تشریف لائے وہ
گمراہیوں کے آگئے اب بے بسی کے دن
واقعی “سیّد خادم رسول عینی” نے درست فرمایا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ دنیا میں تشریف لاے حق جیت گیا اور باطل ہار گیا اور جو گمراہ تھے ان کا کوئ بس نہ چلا .جب آپ نے مکّہ کو فتح کیا سارے بتوں کو گرا دیا گیا جن کو خدا تصور کیا جاتا تھا اور ان بتوں کے پوجنے والوں کو دعوت اسلام کی طرف بلایا ، خداکی وحدانیت کی تعلیم دی اور اس کام میں صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت ساتھ دیا ۔ تمام صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ہمیشہ پیش رو تھے۔
الحمد لللہ آپ کی محبت میں صحابہ نے جو قربانیاں دی ہیں اسی کی وجہ سے آج ہمارا اسلام زندہ ہے اور ہمارا دین سلامت ہے۔ آج صحابہ کادور نہیں ہے لیکن اس دور کا عکس، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا احساس آج بھی بہت سارے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے ۔ جو اشخاص آپ سے محبت کرتے ہیں وہ اج کےدور کے چمکتے ستارے ہیں ، جو عشق رسول کے ساتھ ساتھ نبی کی عظمت کو ساری دنیا میں روشن کروانا چاہتے ہیں ۔آج کے اس دور میں صحابہ تو نہیں ہیں
اور نہ انکی تلوار ہے اور نہ کوئ تیر ہے لیکن آج کے دور میں وہ امتی ہیں جن کا دل عشق رسول کے جذبہ سے معمور ہے، وہ اپنے عشق کو شاعرانہ انداز میں کلام کے ذریعہ اپنی محبت اور وفا کا اظہار کرتے ہیں ،اپنے دین اور اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں ۔

خادم رسول عینی کا ایک اور شعر جس میں انھوں نے اپنی محبت نبی کا اظہار کرتے ہیں یوں ہے:
طیبہ کی سرزمیں پہ میری حاضری کے دن
سب سے حسین ترین تھے وہ دل کشی کے دن
اس شعر سے انکا عشق عیاں اور نمایاں ہے ۔

  خادم رسول عینی  نے صرف اشعار  نہیں کہے بلکہ آپ نے عشق رسول کے ساتھ ساتھ خادم رسول  ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش کی .آپ نے لاکھوں دلوں کو جیت کر ان کے دلوں میں عشق رسول کو فزوں تر کیا  ہے ۔اس لئے "خادم رسول عینی" کو چرخ عشق رسول کا روشن ستارہ کا لقب دینا‌  چاہئے۔ عینی تقدیسی محفلوں‌ کی شان بڑھاتے ہیں ، عینی پر اللہ کا خاص کرم ہے ۔

خادم رسول عینی کی کتاب ” رحمت نور کی برکھا”کو ہم پڑھیں تو ہمیں علم ہو ہوجائےگا کہ عینی کس قدر نبی کے عشق میں ڈوب کر اپنی محبت اور عقیدت کو بیان کررہے ہیں۔
اور ساتھ ساتھ انکی پاکیزہ سوچ اورنفاست کا اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ک خادم رسول عینی کی طرح ہم سب کے دلوں میں عشق رسول کا جذبہ ہو
اور عاشقان رسول میں ہمارا بھی نام ہو۔

کیسے شکر ادا کروں خادم رسول عینی کا کہ ہم سبھوں کے لیےایک ادنیٰ سی کنیز تھے مگر “خادم رسول عینی” نے ہمیں وہ مقام دیا ہے جو بڑی سی بڑی ہستیوں کو بھی نہیں ملا ، ہمیں اپنے دائرہء حلقہ میں لیکر غؤث العظم دستگیر علیہ الرحمہ سے وابسطہ کر کے ہمارے لیے ان راہوں کو ہموار کیا ہے کہ جن پر چل کر ہم اپنی آخرت بہتر بنا سکیں ۔

اج کے اس دور میں ہر انسان تنہا ہے، سب کے ہوتے ہوے بھی اکیلا ہے، گمراہیوں کا شکار ہے، اس کی رہنمائ کرنے والا کوئ نہیں ہے۔ لیکن خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں “خادم رسول عینی” بہترین شخص شامل ہیں ان سب پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم ہے.

   خادم رسول عینی جو  ایک عظیم شاعر ہیں ہزاروں نعتین آپ نے لکھی ہیں آپ کے اخلاق ،آپ کے حسن سلوک، آپ کی سادگی نے ہزاروں دلوں کو جیت لیا ہے۔ کاش میرے پاس مزید الفاظ ہوتے جو ہم عینی  کے لیے کہہ سکتے ، ہاں اتنا ضرور کہینگے ک آپ وہ مشعل ہیں جس نے  ہزاروں زندگیوں کو روشن کیا ہے ، ہزاروں دلوں میں ایمان اور اسلام کی محبت کو بڑھایا ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں عینی نے جو کلام کہے ہیں اور نعتیں لکھی ہیں ، ان سب نے  ہزاروں کی سوچ اور ہزاروں کے  دلوں کو بہتر بنا  دیا ہے ۔آپ آج  کے دور کے عظیم شاعر ہیں اور ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے رہنما بھی ہیں اور ہم خود کو خوش نصیب سمجھتے ہیں ک ہم آپ سے وابسطہ ہیں ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ک ہمارے روحانی رشتہ کو سلامت رکھے اور مجھے راہ حق پر شریعت اسلام کا پابند بناے اور خادم رسول عینی کے عزیزوں میں مجھے بھی رکھے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

کمال یہ ہے کہ مجھ میں کوئی کمال نہیں… ( آل انڈیا مسابقۂ خطاب میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے پر ایک تاثراتی اور تشکراتی تحریر)از قلم: محمد ہاشم برکاتی متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ مقدسہ،ضلع:ایٹہ(یوپی)

آج سے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل، جامعہ امیر العلوم مینائیہ گونڈہ سے آل انڈیا مقابلۂ قرأت اور مسابقۂ خطاب کا ایک اشتہار شائع ہوا، جس کو میرے ہم جماعت اور عزیز دوست فخر عالم بھائی نے ہماری جماعت کے واٹس ایپ گروپ میں ارسال کیا اور خصوصاً مجھ احقر کی توجہ اس کی طرف مبذول کرائی اور اپنے مخصوص لہجے میں کہا کہ : “ہاشم حصہ لے لو”۔
چونکہ اس وقت ہم تمام طالبان علوم نبویہ عید قرباں کی تعطیل کی وجہ سے اپنے اپنےگھروں پہ سکونت پذیر تھے، مدرسہ میں نہ ہونے اور ساتھیوں کے ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے میں نے ان کی بات کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی، مگر موصوف نے دل سے کہا تھا، اس لیے میری کاہلی کو جب دیکھا تو اگلے ہی دن کال کی اور پوچھا کہ : مسابقۂ خطاب میں حصہ لینے کے متعلق کیا سوچا؟ میں نے کہا کہ: بھائی! وہ آل انڈیا مسابقہ خطاب ہے، میں اس میں کیسے حصہ لے سکتا ہوں؟ کس شمار و قطار میں آؤں گا میں؟۔ میرا یہ جواب سن کر انہوں نے مجھے سمجھایا، موٹیویٹ کیا اور حوصلہ دیا کہ تم سے امید ہے اس لیے صرف تمہیں کہہ رہا ہوں ۔ ان کے ان پرخلوص کلمات کی میں نے لاج رکھ لی اور کہا کہ ٹھیک ہے بھائی! میں حصہ لے لوں گا۔ لیکن میرا دل حصہ لینے کے لیے بالکل بھی آمادہ نہیں تھا۔

🔸 کچھ دنوں بعد عید قرباں کی تعطیل ختم ہوئی اور ہم تمام طلبہ مادر علمی “جامعہ احسن البرکات” پہنچے، فخر عالم بھائی نے پہلی ہی ملاقات میں پوچھ لیا کہ کیا ہوا بھائی! حصہ لیے کہ نہیں؟ میں نے کہا: نہیں۔ میرا جواب سن کر انہوں نے خوب رنج و ملال کا اظہار کیا اور خواہش ظاہر کی کہ تم کو توحصہ لینا چاہیے-
رجسٹریشن کی تاریخ ابھی باقی تھی میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، حصہ لے لوں گا، گزرتے دن کے ساتھ ان کے سوالات جاری رہے اور جواباََ میرا ٹال مٹول چلتا رہا بالآخر رجسٹریشن کی آخری تاریخ یکم محرم الحرام آ گئی۔ بلکہ اس نئے سال کے پہلے دن کا سورج رجسٹریشن کے آخری لمحات بھی لے کر ڈوبنے کے قریب آچکا تھا، تمام طلبہ نماز مغرب کی تیاری میں مصروف تھے اور وضو کرکے یکے بعد دیگرے روم میں داخل ہو رہے تھے۔ اس وقت تمام ساتھیوں نے بیک زبان مسابقۂ خطاب میں شرکت کرنے کے لیے مجھے ابھارا اور بالآخر بالکل آخری لمحے میں اپنا نام رجسٹریشن کروا ہی لیا۔
نام کا اندراج تو ہوگیا مگر تقریر کہاں سے بولوں، وہ بھی اس شخصیت کو عنوان بنا کر جن کا صرف تصور بوجهٍ مَّا مجھے حاصل تھا، اسی ٹینشن کے ساتھ جامعہ کے ایک لائق وفائق استاد حضرت مفتی شاداب احمد امجدی صاحب کے پاس گیا اور حقیقت حال سے آگاہ کیا۔ تو انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا، اور فرمایا کہ یہ ہمارے لئے بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے شاگرد آل انڈیا مقابلہ میں شرکت کر رہے ہیں. پھر میں نے اپنا عریضہ پیش کیا کہ حضرت! اس مقابلہ میں آپ میری رہنمائی فرمائیں۔ تو حضرت نے کہا کہ : کیوں نہیں انشاءاللہ ضرور جو مجھ سے ہو سکے گا کروں گا ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریر ریکارڈ کرکے بھیجنے میں صرف پانچ دن باقی تھے. ان پانچ دنوں میں حضرت کو تقریری مواد بھی فراہم کرناتھا اور مجھے تقریر یاد بھی کرنی تھی۔
حضرت اس وقت جداریوں کی اشاعت اور تدریسی خدمات میں بہت مصروف تھے اس لیے آخری وقت پر میرے لیے گئے اس فیصلے پر زجر و توبیخ بھی کی کہ اور پہلے بتانا چاہیے تھا تاکہ ڈھنگ سے کچھ لکھ سکوں ۔
پھر بھی موصوف نے ایک طالب علم کی حوصلہ شکنی نہ ہو بس اس لیے اس کم وقت میں اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود تیار ہوگئے اور بالآخر حضرت نے ایک دن پہلے تقریر دی اور اس فقیر نے حضرت کی دعاؤں کا توشہ لیتے ہوئے یاد بھی کرلی اور دوسرے دن ریکارڈ کرکے بھیج بھی دی۔

مقابلے کا انعقاد کرنے والوں نے یہ طریقہ اپنایا تھا کہ جتنے طلبہ بھی ریکارڈنگ بھیجیں گے ان میں سے ہم دس کا انتخاب اپنی صواب دید پر کریں گے اس لیے اب دس منتخب طلبہ کی لسٹ جاری ہونے کا انتظار تھا. بالآخر منتخب طلبہ کی لسٹ جاری ہو گئی اور اس میں اپنا نام دیکھ کر خوشی کی انتہا نہ رہی، کیوں کہ معلوم ہوا تھا کہ کثیر تعداد میں طلبہ نے شرکت کی ہے (بعد میں معلوم ہوا کہ ایک ہزار کے قریب طلبہ نے ریکارڈنگ ارسال کی تھی) اور ان میں میرا نام آنا صرف فضل الٰہی سے ہی ممکن ہوا، لسٹ میں اپنا نام دیکھا اور یہ خوشخبری جب میں نے اپنے ساتھیوں کو دی تو پورے کمرے میں فرحت و شادمانی کی ہوائیں چلنے لگیں۔ اور سبحان اللہ. ماشاءاللہ کے ساتھ مبارکبادیوں کی صدائیں گونجنے لگیں. اپنے ساتھیوں سے مبارکبادیاں حاصل کرنے کے بعد استاد مکرم مفتی شاداب امجدی کے پاس خوشخبری سنانے کے لئے گیا تو دیکھا کہ حضرت سونے کی تیاریاں کر رہے تھے جیسے ہی میں نے حضرت کو یہ خوشخبری سنائی تو حضرت خوشی سے جھوم گئے اور فرمایا کہ بابو! تم نے تو میری نیند ہی غائب کردی۔ دوسرے دن صبح فجر کے وقت جامعہ احسن البرکات کے پرنسپل حضرت علامہ عرفان ازہری صاحب کو جب یہ خوشکن خبر دی تو انہوں نے بھی بہت خوشی کا اظہار کیا اور دعاؤں سے نوازا اور پرنسپل صاحب نے اساتذۂ جامعہ کے گروپ میں یہ بات شیئر کی تو ابا حضور اور تمام اساتذہ نے دعاؤں سے نوازا ۔ 26/ اگست بروز جمعہ مسابقۂ خطاب میں شرکت کرنے کے لئے روانہ ہوتے وقت ابا حضور سے دعائیں بٹورنے کے لئے گیا تو ابا حضور نے اپنی عادت کے مطابق اپنی جیب سے کچھ رقم نکالی اور فقیر کو دیتے ہوئے کہا کہ : جاؤ اللہ تعالٰی آپ کو کامیابی عطا فرمائے۔ اس کے بعد پرنسپل صاحب اور تمام اساتذہ و احباب سے دعاؤں کی سوغات لئے ہوئے جامعہ سے نکلا اور خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ میں فاتحہ پڑھ کر خانقاہ عالیہ مینائیہ مسابقۂ خطاب میں شرکت کرنے کے لئے روانہ ہوا۔
اگلے دن سفر طے کرکے جامعہ امیر العلوم مینائیہ گونڈہ پہنچا، جامعہ کی فلک بوس عمارتیں دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا اور پھر وہاں کے انتظام وانصرام کا عالم یہ تھا کہ وہاں کے خدام چپل تک کو ترتیب سے رکھ رہے تھے اور مسابقہ کی شفافیت کا عالم یہ تھا کہ جیسے ہی ہم وہاں پہنچے ہم کو نگرانی میں لے لیا گیا تاکہ کسی سے مل نہ سکیں اور ایک خادم ہمارے ساتھ کر دیا گیا تاکہ وہ ہماری ضرورت پوری کرے۔ بالآخر وہ گھڑی آ گئی جس کا مجھے شدت سے انتظار تھا یعنی مسابقۂ خطاب شروع ہونے والا تھا کہ اچانک استاذ معظم حضرت مولانا تنویر احمد علیمی صاحب کا فون آیا اور کہنے لگے کہ ابھی ابا حضور کا فون آیا تھا اور وہ پوچھ رہے تھے کہ ہاشم کیسے ہیں؟ انکا کیا حال ہے؟ ان سے کہ دینا کہ بے فکر ہوکر تقریر کریں، میں دعائیں کر رہا ہوں۔ جیسے ہی میں نے یہ جملہ سنا میرے دل سے خوف وہراس ختم ہو گیا. اور مجلس میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا اور جب باری آئی تو چونکہ ابا حضور کا جملہ رہ رہ کر مجھے یاد آ رہا تھا اس لیے بلا خوف وخطر پوری دل جمعی اور مکمل اعتماد کے ساتھ خطاب کیا۔ جیسے ہی خطاب سے فارغ ہوا مفتی شاداب صاحب کا میسیج آیا ( چونکہ حضرت لائیو پروگرام دیکھ رہے تھے ) کہ بیٹا ایک نمبر تمہارا ہی ہے۔
اس کے بعد ہم سبق ساتھیوں کا فون آیا اور وہ بھی یہی جملے ادا کر رہے تھے جو حضرت نے فرمائے تھے۔ لیکن ابھی رژلٹ آنا باقی تھا، دوسرے دن جیسے ہی 7:50 پر بیدار ہوا تو دیکھا کہ حضرت کی دعاؤں سے لبریز میسیج اسکرین کی زینت بنے ہوئے ہیں، پڑھ کر دل تو مطمئن تھا ہی لیکن بہرحال رژلٹ کا انتظار تھا۔ وقت مقررہ پہ رژلٹ آوٹ ہوا دیکھ کر رب کی بارگاہ میں شکرانہ پیش کیا، پہلے پہل مجھے اپنی بصارت پہ یقین نہیں ہورہا تھا کہ میں نے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے، پھر دل میں خیال آیا کہ کامیاب کیوں نہ ہوتا جب کہ ابھی کچھ دن پہلے عرس حضور صاحب البرکات کے مبارک موقع پر جب میں نے حضور صاحب البرکات کی حیات و خدمات پر تقریر کی تھی، اس وقت حضور امین ملت نے خوب خوب دعاؤں سے نوازا تھا اور حضور شرف ملت نے کہا تھا کہ “ایسی مختصر اور جامع تقریریں میں نے بہت کم سنی ہے” اور جنگ آزادی کے موقع پر اس فقیر نے ایک مضمون لکھا تھا اس وقت ابا حضور نے انعام و اکرام اور دعاؤں سے نوازتے ہوئے کہا کہ “اللہ تعالیٰ آپ کی زبان اور قلم دونوں کو مضبوط بنائے” ۔ میرے سرکاروں اور میرے اساتذہ کی دعاؤں کا سہرا میرے سر تھا تو پھر ناکام کیوں کر ہوتا ۔
سب سے پہلے قبلہ پرنسپل صاحب کو خوشخبری سنائی تو وہ بے ساختہ پکار اٹھے : ارے! ماشاءاللہ بیٹا! تم نے تو دل خوش کر دیا مبارک ہو بیٹا! ۔ پھر مفتی شاداب صاحب کے پاس فون کیا وہ بھی خوشخبری سننے کا انتظار ہی کر رہے تھے، جب میں نے ان کو بتایا تو وہ بھی بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ “بابو! تم نے ہمارا سر فخر سے اونچا کر دیا اور ہمارے جامعہ کا نام روشن کر دیا” ۔ پھر ابا حضور کو فون کیا تو ابا حضور نے فون اٹھاتے ہی فوراً کہا کہ “بیٹا! مبارک ہو”- اور خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے دعاؤں سے نوازا۔
شام کے وقت جماعت اہل سنت کی مشہور ومعروف شخصیت، مناظر اہل سنت تاج الفقہاء حضرت علامہ مفتی اختر حسین صاحب علیمی دار العلوم علیمیہ جمدا شاہی اور خانقاہ عالیہ مینائیہ کے سجادہ نشین سرکار شاہ جمال مینا صاحب کے ہاتھوں خوبصورت ٹرافی اور فتاویٰ فقیہ ملت اور پچیس ہزار روپیے [25000] نقد انعام و اکرام سے نوازا گیا-[فالحمدلله علیٰ ذالک] اگلے دن جیسے ہی خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مقدسہ پہنچا اساتذہ و طلبہ اور خانقاہ کے تمام خدام کے چہرے کھل اٹھے، پرجوش استقبال کیا اور مبارکبادیوں سے نوازا- ابا حضور سے ملاقات کی تو ابا حضور کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور خوب خوب دعاؤں سے نوازا- میں اپنی اس نمایاں کامیابی پر تمام شہزادگان وآقایانِ خاندان برکات اورجملہ اساتذۂ کرام اور علاقۂ تھار کی بہت ہی عظیم شخصیت اور مغربی راجستھان کی ممتاز و منفرد دینی درسگاہ دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف کے مہتمم وشیخ الحدیث اور میرے اوپر خصوصی طور پر ماں باپ سی شفقت فرمانے والے مفکر قوم وملت نورالعلماء والمشائخ حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری کا ( جو وقتاً فوقتاً اپنی دعاؤں سے نوازتے رہتے ہیں، جن کی دعاؤں کا صدقہ مجھے یہ ملتا ہے کہ میں جس میدان میں بھی قدم رکھتا ہوں ان کی دعاؤں سے کامیاب ہوتا ہوں) اور دارالعلوم انوار مصطفیٰ کے ناظم تعلیمات اور لائق و فائق استاد اور ہندوستان کے مشہور ومعروف قلم کار حضرت مولانا شمیم احمد نوری مصباحی کہ جن کے مشوروں نے کئی جگہوں پر مجھے کامیاب کروایا. اللہ تعالٰی میرے تمام اساتذہ اور کرم فرماؤں کو سلامت رکھے اور عمر خضر عطا فرمائے-
ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین آباد

تازہ کاوش نعت رسول اللہ ﷺ از ✒کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا سیتامڑھی

میرا شافع سرِ میزَان ہے سبحان الله
وجد میں مُژدۂ غُفرَان ہے سبحان الله


رفعَتِ ذکر کی محفِل ہے گُلِسْتَانِ جہاں
بُلبُلِ عشق غزل خوان ہے سبحان الله


جوہرِ حُسنِ جہاں ہے رُخِ وَالش٘مس ترا
تیرا جلوہ مہِ کنعَان ہے سبحان الله


سُنبُلِستَان ہے جو کِشتِ تَخَیُّل شاہا
مدحتِ زلف کا فیضان ہے سبحان الله


واہ کیا حُسنِ تبسُ٘م ہے کہ چاروں جانب
بارشِ لؤلؤ و مَرجَان ہے سبحان الله


آپ بہتے چلے جاتے ہیں الم کے خاشاک
یمِ رحمَت کا وہ سیلَان ہے سبحان الله


کان حِکمَت ہیں حضور آپ کے سارے فرمان
حرف حرف آپ کا لقمان ہے سبحان الله


واہ کیا شانِ سلیمانِ عرب ہے جن کی
مَملکَت عالمِ امکَان ہے سبحان الله


ہاتھ میں جسکےنہیں کچھ بھی بظاہر،وہ نبی
ملکِ تکوین کا سلطان ہے سبحان الله


مُنشیِ رحمتِ باری ہیں نبی کے تابع
عام یوں فیضِ قلمدان ہے سبحان الله


حسنِ سرکار کی تفہیم ہے مقصد اس کا
چاند بھی آپ کا حسَ٘ان ہے سبحان الله


واہ کیا تابشِ رخ تیری ہے اے بدرِ مُنِیر
دیدۂ آئنہ حیران ہے سبحان الله


تیرے الفاظ معلم ہیں اے امی لقبی
تیرا ہر قول دَبِستَان ہے سبحان الله


قاب قوسین ترا طورِ رفعنا ہے شہا
اور ادنیٰ ترا ایوان ہے سبحان الله


مہبطِ وَحْیِ خدا جلوہ گَہِ حسنِ جناں
یانبی آپ کا دیوان ہے سبحان الله


پاک رکھا ہے جسے لوثِ خزَاں سے رب نے
وہ شَہِ دیں کا گُلِسْتَان ہے سبحان الله


جس کے صدقے میں ہے تزئینِ جہانِ انوَار
وصف اس حسن کا قرآن ہے سبحان الله


ماطَغیٰ حسنِ نگاہی کی گواہی ہے کلیم
چشمِ مَا زَاغ کی کیا شان ہے سبحان الله


از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا سیتامڑھی

نعت رسالتﷺ از ✒کلیم احمد رضوی پوکھریرا شریف


بزم تاج الشریعہ مشاعرہ نمبر 101

نقوشِ پاۓ نبوت نے کامیاب کیا
ہمیں نجوم ہدایت نے کامیاب کیا

کھلے جو غنچۂ امید تو کہا کہ ہمیں
نبی کی چشمِ عنایت نے کامیاب کیا

غموں کی دھوپ بھی اک امتحان تھی گویا
پھر ان کے سایۂ رحمت نے کامیاب کیا

یہ زہر عصیاں شعاری تھا کس قدر مہلک
نبی کے شہدِ شفاعت نے کامیاب کیا

مقابلہ جو مرا لشکرِ بلا سے ہوا
نبی کے راجلِ نصرت نے کامیاب کیا

بہ رزمِ زیست مجھے زہرِ یاس بخشے گئے
کرم ہے ان کا شریعت نے کامیاب کیا

مصیبتوں کی گرہ ناخنِ کرم سے کھلی
ہلالِ مطلعِ نسبت نے کامیاب کیا

یہ زہر عصیاں شعاری تھا کس قدر مہلک
ہمیں تو شہد شفاعت نے کامیاب کیا

ہرایک لفظ مہک اٹھامشک وگل کی مثال
غزل کو زلف کی مدحت نے کامیاب کیا

قرن قرینِ مدینہ ہوا بہ شوقِ وصال
اویسیت کو محبت نے کامیاب کیا

کبھی جو کام نہ آیا مرا چراغِ بصر
کرم سے ان کے بصیرت نے کامیاب کیا

کیاجودعویٰ کہ ہیں دوزخی عدوۓ رسول
مجھے حوالۂ تبَّت نے کامیاب کیا

جو نَفْس ذکر نبی سے نفیس ہے اس کو
نفَس نَفَس کی نفاسَت نے کامیاب کیا

نظر کو کاسۂ حسرت بنا کے دیکھ لیا
بتاؤ ! کیا زرِ رؤیت نے کامیاب کیا ؟

یہ خلد اور یہ اس کے حسیں نظارے کلیم
“ہمیں تو نعتِ رسالت نے کامیاب کیا”

از ✒
کلیم احمد رضوی
پوکھریرا شریف