WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives September 2022

۔۔۔۔۔ باسمہ تعالیٰ۔۔۔۔۔غلام احمد قادیانی کادعوئ نبوت اور موت۔۔۔پیش کش ۔۔۔سید آل رسول حبیبی ہاشمی خانقاہ قدوسیہ ، بھدرک شریف، اڈیشا


آج کا ایک بہت بڑا فتنہ ، فتنۂ قادیانیت ہے، انگریزوں کے ایماپر مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعوی کیا اور کچھ گنواروں نے اسے نبی مان بھی لیا
افسوس کہ اڈیشا کے بعض خطوں میں بھی یہ فتنہ پایا جاتا ہے
اس لئے آقائی سیدی مفتئ اعظم اڈیشا قدس سرہ موقع بہ موقع اس کے خلاف مؤثر خطاب فرمایا کرتے تھے
چنانچہ ایک بار مسئلۂ ختم نبوت کو شرح و بسط کے ساتھ پیش فرماتے ہوئے حضرت نے ارشاد فرمایا کہ
“ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نبیوں کے خاتم ہیں ، ان کے بعد کوئی نیا نبی نہ آیا ہے اور نہ آسکتا ہے
قرآن پاک ببانگ دھل اعلان کرتا ہے
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ
محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں خاتم
اور آقائے کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں
و أنا خاتم النبیین، لا نبي بعدي (سنن ابی داود: ۴۲۵۲ وسندہ صحیح)
اور میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں”
پھر حضرت نےپورے جوش و امنگ کے ساتھ ارشاد فرمایاکہ
“یہ مسئلہ ہمیشہ ساری امت میں متفق علیہ رہا ہے مگر مرزا غلام احمد قادیانی کا یہ خبث و رفث ہے کہ اس نے دعوئ نبوت کرکے امت میں سورش برپا کی اور اپنے انگریز آقاؤں کو شاد کیا۔
عزیزو! مرزا صاحب کذاب نبیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی خباثت و غلاظت ساری امت پر ظاہر و باہر ہے۔ ایسے غلیظ و خبیث کی موت بھی پائخانہ کے اندر واقع ہوئی ہے۔
اگر وہ واقعی نبی ہوتے تو ان کی موت پائخانہ کی غلاظت میں ہرگز نہ ہوتی اور اگر ان کے ماننے والے ان کو دل سے نبی مانتے تو ان کی قبر ضرور پائخانہ میں بناتے ۔
اس لئے کہ نبی جہاں موت کو لبیک کہتا ہے اس کو وہیں دفن بھی کیا جاتا ہے جیسا کہ آقائے کریم علیہ اکرم التسلیم ارشاد فرماتے ہیں
ما قبض الله نبيا إلا في الموضع الذي يحب ان يدفن فيه (سنن ترمذي:1018)
انبیاء کی وفات وہیں ہوتی ہے جہاں وہ دفن ہونا پسند کرتے ہیں
مگر مرزا صاحب نے موت کو گلے لگایا پائیخانے میں تو دفن بھی انکو وہیں ہونا چاہئے
معاذ اللہ ، معاذ اللہ
یہ کیسی عبرت ناک موت ہے ، افسوس کہ ان کے ماننے والوں کی عقلوں پہ پردہ پڑا ہوا ہے”
۔۔۔۔۔۔پیش کش ۔۔۔۔۔۔۔
سید آل رسول حبیبی ہاشمی
خانقاہ قدوسیہ ، بھدرک شریف، اڈیشا

نعت شہ دیں صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

اس کے لیے رحمت کا نہ کیوں باب کھلا ہو
گل جس سے شہ دین کی مدحت کا کھلا ‌ہو

نظروں میں کسی شخص کی گر غار حرا ہو
کیونکر نہ شجر اس کے تعلم کا ہرا ہو

تم سے ہی ہیں کونین کے سب تارے منور
تم خالق کونین کی یوں خاص ضیا ہو

ناعت ہوں میں مجھ کو دے زباں ایسی مرے رب
جو کوثر و تسنیم کے پانی سے دھلا ہو

اقصی’ کے ستوں پوچھتے ہیں یہ شب اسریٰ
کیسی تھی امامت شہ کونین کی ، شاہو

دل کے در و دیوار پہ ہے اسم محمد
بے ہوش نہ کیوں سامنے ہر ایک وبا ہو

میں فرحت مدح شہ عالم سے ہوں سرشار
کیوں زیست کی دنیا میں کبھی کوءی خلا ہو

عظمت ہم‌ اس انسان کی کیا “عینی “بتاءیں
اک وقت ہی جو صحبت آقا میں رہا ہو
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

انگریزی پڑھنے سے تقدیر سے زیادہ نہیں ملتا..(موجودہ دور میں علم دین کی ضرورت و اہمیت)از قلم: محمد مجتدٰی رضا خان متعلم:جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ضلع:ایٹہ [یوپی]

موجودہ دور میں معاشرے کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آج قوم مسلم صرف مغربیت کو ترجیح دے رہی ہے اور عصری علوم کو حاصل کرنے کے لیے علم دین مصطفیٰ ﷺ سے بیزاری ظاہر کر رہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ آج حق و باطل کے درمیان خط امتیاز مٹتا جا رہا ہے۔ جبکہ اس پر فتن دور میں علم دین کی سخت ضرورت ہے اس لیے کہ آج دین اسلام اور مسلمانوں پر ہر طرف سے حملہ ہو رہا ہے، جہاں ایک طرف اسلام مخالف طاقتیں مسلمانوں کے جان و مال کو نیست و نابود کرنے کی سخت کوشش کر رہی ہیں، تو وہیں دوسری طرف فتنۂ وہابیت اور فتنۂ دیوبندیت ہمارے اعمال اور ہمارے عقائد کو مجروح کر رہے ہیں۔ اور اس پرفتن ماحول میں جو سب سے زیادہ مہلک فتنہ ہے وہ صلح کلیت کا فتنہ ہے جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ہمارے ایمان پہ ڈاکہ ڈال رہا ہے ۔ اسلام کے آستینوں میں چھپ کر سانپ کی طرح ڈس رہا ہے اور اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے اور ہمارے عقائد پر سختی سے وار کر رہا ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج بھی ہماری قوم فتنۂ وہابیت اور فتنۂ صلحِ کلیت و دیوبندیت کو پہچاننے میں ناکام ہے۔ مسلک اعلیٰ حضرت اور فرقۂ باطلہ کے درمیان امتیاز کرنے سے قاصر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج امت مسلمہ علم دین اور علم شرائع سے بہت دور ہو گئی ہے۔
آج ہمارے معاشرے کا ہر فرد یہ سوچتا ہے کہ اگر ہم علم دین حاصل کریں گے تو ہمیشہ غریبی میں زندگی بسر کریں گے، اگر ہم عالم بن جائیں گے تو دنیاوی شان و شوکت اور دولت و سرمایہ ہاتھ سے چلا جائے گا، غرض کہ پوری امت مسلمہ اس قسم کے باطل اوہام و افکار کے دام فریب میں پھنسی ہوئی ہے۔ سبب یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالی کی ذات پر توکل نہیں کیا بلکہ صرف اسباب پر توکل کیا، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بے شمار ایسے علمائے کرام ہیں جن کو اللّٰہ نے بے شمار دولتیں عطا فرمائی ہیں جن کے ذریعہ وہ دین کی نشرواشاعت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ والرضوان لکھتے ہیں کہ: ” انگریزی پڑھنے سے تقدیر سے زیادہ نہیں ملتا، عربی پڑھنے سے آدمی بدنصیب نہیں ہو جاتا، ملے گا وہی جو رزاق نے قسمت میں لکھا ہے بلکہ تجربہ یہ ہے کہ اگر عالم پورا عالم اور صحیح العقیدہ ہو تو بڑے آرام میں رہتا ہے اور جو لوگ اردو کی چند کتابیں دیکھ کر وعظ گوئی کو بھیک کا ذریعہ بنا لیتے ہیں کہ وعظ کہہ کر پیسے مانگنا شروع کر دیا۔ ان کو دیکھ کر عالم دین سے نہ ڈر، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنا بچپن آوارگی میں خراب کر دیا ہے اور اب مہذّب بھکاری ہیں ورنہ علمائے دین کی اب بھی بہت قدر و عزت ہے جب گریجویٹ مارے مارے پھرتے ہیں تو مدرسین علماء کی تلاش ہوتی ہے اور نہیں ملتے “۔

محترم قارئین! جب آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ قادر مطلق اور رزّاق مطلق اللّٰه تعالیٰ کی ذات ہے وہ جسے چاہتا ہے عزت و سربلندی کا تاج اس کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ صوفیاںٔے کرام فرماتے ہیں کہ ” شریعت و طریقت پرکامیابی سے چلنے کے لیے توکّل علی اللّٰه سب سے بڑی عبادت ہے “۔
محترم قارئین! آپ غور فرمائیں کہ ایسی تعلیم سے کیا فائدہ جو آپ کے عقائد و اعمال کی حفاظت نہ کرسکے جو آپ کو شریعت مصطفی ﷺ اور مسلک اعلیٰ حضرت سے دور کر دے۔ ایسی تعلیم لا یعنی ہے جس کے ذریعے آپ اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس کا آلۂ کار بن جائیں، جس تعلیم کے ذریعے آپ فتنۂ وہابیت، دیوبندیت و فتنۂ صلحِ کلیت سے خود اور اپنے گھر والوں اور اپنی سوسائٹی اور امت مسلمہ کا دفاع نہیں کرسکتے، اس لیے ہم عصری تعلیم کو صرف بقدر ضرورت ہی حاصل کریں، باقی ہم اجلّ علوم کو حاصل کریں تاکہ ہم اپنے عقائد و اعمال کو بحسن خوبی محفوظ کر سکیں ممکن ہے کہ جب ہم علم دین حاصل کریں گے تو ہمارے پاس دولت کی فراوانی نہیں ہوگی تو اس کی بالکل بھی فکر نہ کریں اور اللّٰه تعالیٰ کی ذات پر مکمل توکّل کریں اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں وہ بے حساب نوازے گا۔
محترم قارئین! جب ہم اپنے معاشرے اور اپنے قوم کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بے شمار لوگ دنیاوی اعتبار سے ہائی ایجوکیشن تو حاصل کر چکے ہیں لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ وہ لوگ صحیح طور سے کلمۂ طیبہ شریف بھی پڑھنا نہیں جانتےہیں۔ طہارت اور نماز کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتے ہیں قرآن مجید کی چھوٹی چھوٹی سورتیں بھی صحیح اور سلیقے سے نہیں پڑھ پاتے اسلام کے بنیادی عقائد اور وہ ضروریات دین جن پر ایمان کا دارومدار ہے اس کا بھی علم نہیں رکھتے ہیں، حتیٰ کہ حرام و حلال میں تمیز نہیں کر پاتے اور بسا اوقات لاعلمی کی وجہ سے کفریہ کلمات بھی اپنی زبان سے ادا کر دیتے ہیں۔
قارئین کرام! جب ہم وضو اور غسل کرنا صحیح طور سے نہیں سیکھیں گے تو اس وضو اور غسل سے جتنی نمازیں ادا کریں گے سب رائیگاں ہوں گی اور اس کا اعادہ واجب و ضروری ہوگا اور قرآن شریف پڑھنا نہیں سیکھیں گے تو نماز پڑھنا اور ایصال ثواب کرنا بھی نہیں جان پائیں گے تو پھر ایسے علوم کے لئے جدوجہد کرنا لا یعنی ہے جس کے ذریعے ہم حرام و حلال میں تمیز نہ کرسکیں۔ جس کے ذریعے ہم وہ مسائل جو ضروریاتِ دین سے ہیں اور ہمارے روز مرہ کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اس کو حل نہ کر سکیں اور مسلک اعلیٰ حضرت کو فرقۂ باطلہ سے ممتاز نہ کر سکیں۔
قارئین کرام ہم پر ضروری ہے کہ ہم علوم دین کو اعلیٰ لیول پر حاصل کریں اور گھر گھر علم دین کا چراغ روشن کریں تاکہ ہم اسلام مخالف طاقتوں اور فرقۂ باطلہ کا سدّباب کر سکیں۔
چراغ علم نبی ہر طرف جلائیں گے
جہاں سے جہل کی تاریکیاں مٹائیں گے

یاد رکھیں ! دنیا کی زندگی چار دن کی ہے پھر ہمیشہ رہنے والے گھر کی طرف لوٹنا ہے تو ہمیشہ جہاں رہنا ہے وہاں کا انتظام کرو، جہاں مسافرت کے دن کاٹنے آئے ہو وہاں کی فکر چھوڑو بھوکے مر جاؤ مگر ایمان کے ساتھ مرو۔

میرے ہاتھ میں جو قلم ہے ”استاذ“ کی عطا ہے۔✍️آصف جمیل امجدی

ہر دہر میں استاذ کی اہمیت و افادیت کو مسلم الثبوت مانا گیا ہے۔ اللہ عزوجل نے نبی آخرالزماں ﷺ کے صدقے میں، کاٸنات و مافیھا کی خلقت فرماٸی، وہ مقدس نبی اپنی معرفت ایک بہترین معلم [استاد] کی شکل میں فرما رہے ہیں۔
گویا کاٸنات میں رنگ و روغن ایک ماہر تجربہ کار بااخلاق استاذ کے دم قدم اور محنتوں کا مثبت ثمرہ ہے۔ ایک انسان اگر اپنی زندگی کی رعناٸیوں میں گوناگوں نعمتوں سے بحراور ہے، عزت و شرف کے اعلیٰ منسب پر فاٸزالمرام ہے تو یہ سب اساتذہ کی مرہون منت ہے جس کا کسی زباں میں مجال انکار نہیں۔
آج ہی کے تاریخ یعنی 05/ ستمبر کو طلبہ یوم اساتذہ[Teacher,s day] کے حسین موقع پر اپنے جملہ معزز اساتذہ کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو بروۓ کار لانے کی نایاب کوشش کرتے ہیں۔ کیوں کہ طلبہ کو معلوم ہے کہ انہی کی پاکیزہ ٹھوکروں میں ہمارے تخت و تاراج ہیں۔ اگرچہ مہمان رسول کی منور فہرست میں نام درج کرانے کا سہرا والدین کے سر سجتا ہے، لیکن علم مصطفےٰﷺ کا طالب و شاٸق بنانا اساتذہ کرام کی مشفقانہ و اخلاقیانہ کردار کا نتیجہ ہے۔ اگر طلبہ علم دین کی حصولیابی میں مصروف عمل ہیں تو یہ انہی مشفق اساتذہ کی مرہون منت ہے۔ خوف خدا، عشق مصطفےٰ کے شیریں جام سے اسی میکدے نے شرسار کیا ہے۔
انہی کے در سے عزت و شرف، علم و عمل کی ساری بہاریں ہیں۔ ایک شاگرد کو اپنے استاذ کی بارگاہ سے ایسی ایسی نادر و نایاب لازوال دولت ملتی ہے جس کا وہ زندگی میں کبھی تصور تک بھی نہیں کرسکتا۔
ایک استاذ ہی ہے جو طلبہ کو جہل کی تاریک وادیوں سے نکال کر، نور علم سے ان کے سینوں کو منور و مجلیٰ کرتے ہیں۔
جب بھی انسان اپنے آپ کو ترقی یافتہ پاۓ گا تو اس کی زندگی کے رموز و اوقاف کے فریم پر سنہرے حرفوں سے “استاذ” لکھا ہوگا۔ تعلیم قومی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے۔ تعلیم یافتہ افراد ہی سماجی زندگی کے تانے بانے بنتے ہیں۔ وقت کی نبض پر انہی کی نظر ہوتی ہے۔بدلتے حالات کا تجزیہ کرتے ہوۓ منصوبہ بندی بھی انہی کے ذریعہ ممکن ہوتی ہے۔قوموں کے عروج و زوال میں تعلیمی زندگی اور ان کے تقاضوں پر عمل آوری فیصلہ کن کردار نبھاتی ہے۔ حصولِ علم کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رُکن استاذ ہے، تحصیلِ علم میں جس طرح درسگاہ و کتاب کی اہمیت ہے اسی طرح حصولِ علم میں استاذ کا ادب و احترام مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ استاذ کی تعظیم و احترام شاگرد پر لازم ہے کہ استاذ کی تعظیم کرنا بھی علم ہی کی تعظیم ہے اور ادب کے بغیر علم تو شاید حاصل ہو جائے مگر فیضانِ علم سے یقیناً محرومی ہوتی ہے اسے یوں سمجھئے: “با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب”
استاذ کے ادب کے مختلف دینی اور دُنیوی فوائد طالبِ علم کو حاصل ہوتے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:

(1) امام بُرھان الدّین زرنوجی رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں: ایک طالبِ علم اس وقت تک علم حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ علم، اہلِ علم اور اپنے استاذ کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔

(2) امام فخر الدین ارسا بندی رحمۃ اللّٰه علیہ مَرْو شہر میں رئیسُ الائمہ کے مقام پر فائز تھے اور سلطانِ وقت آپ کا بے حد ادب و احترام کیا کرتا تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یہ منصب اپنے استاذ کی خدمت و ادب کرنے کی وجہ سے ملا ہے۔
(راہ علم، ص 35 تا 38 ملتقطاً)

(3) صلاحیتِ فکر و سمجھ میں اضافہ ہونا

(4) ادب کے ذریعے استاذ کے دل کو خوش کر کے ثواب حاصل کرنا، حدیث ِپاک میں ہے: اللّٰه پاک کے فرائض کے بعد سب اعمال سے زیادہ پیارا عمل مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔ (معجم اوسط، 6 / 37، حدیث: 7911)

(5) ادب کرنے والوں کو اساتذۂ کرام دل سے دُعائیں دیتے ہیں اور بزرگوں کی دعا سے انسان کو بڑی اعلیٰ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔
(صراط الجنان، 8 / 281)

(6) ادب کرنے والے کو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور وہ زوالِ نعمت سے بچتا ہے کیونکہ جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کے سبب ہی سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔
(تعلیم المتعلم، ص 35)

(7)استاذ کے ادب سے علم کی راہیں آسان ہو جاتی ہیں۔
(علم و علماء کی اہمیت، ص 108)

والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کو علم و اہلِ علم کا ادب سکھائیں۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللّٰه عنہ نے ایک شخص سے فرمایا: اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ بے شک تم سے تمہارے بیٹے کے بارے میں پوچھا جائے گا اور جو تم نے اسے سکھایا اور تمہاری فرمانبرداری کے بارے میں اس لڑکے سے سوال کیا جائے گا۔
(شعب الایمان، حدیث: 8409)

☜اپنے استاد کی ہمیشہ دل سے قدر کیجیے، وہ چاہے مالی طور پر کم حیثیت کے ہوں، کبھی بھی ان کو مزاق کا نشانہ نہ بنائیۓ۔ یہ خدا کو غضب ناک کرنے والی بات ہے۔
☜استاد روحانی باپ کی طرح ہوتا ہے، سختی کرے یا ترش بولے تو اس کی اِدھر اُدھر شکایت نہیں کرنی چاہیے۔بلکہ اس کا جائز شکوہ اور گلہ دور کرکے اسے خوشی کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔
☜استاد کی خوشیوں اور غموں میں شریک ہونا چاہیے۔
☜استاد کی نظروں میں مقام بنانا مشکل کام نہیں ۔ اس کی پسند اور نگاہوں کو جانیں۔ جس جس خوبی اور کام کو وہ محبوب رکھتے ہیں اسے اختیار کریں۔
☜استاد سے کبھی گستاخی نہ کریں اور نہ ہی اونچے لہجے میں بات کریں۔
☜استاد کے ساتھ کج بحثی سے ہمیشہ گریز کریں۔غیر موجودگی میں ان کے عزت کی حفاظت کریں۔ ناکہ دوسروں کے ساتھ مل کر ان کے الٹے سیدھے نام رکھے جائیں اور ان کا مزاق اڑایا جاۓ۔
☜استاد سے تعلیم کے علاوہ بھی مشورے لینے اور رہنمائی حاصل کرنا کا ماحول بنانا چاہیے۔تاکہ ان کے تجربے اور مشاہدے سے فیض حاصل ہوسکے۔
☜استاد سے تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی رابطہ رکھنا چاہیے اور کبھی کبھی تحائف بھی بھجواتے رہنا چاہیے۔ روحانی ماں باپ کی دعائیں بے حد کارگر ہوتی ہیں۔
یوم اساتذہ[Teachers day] کی مناسبت سے پیاری سی نظم نذر قارئین کی جارہی ہے۔

استاذ محترم کو میرا سلام کہنا
اے دوستو!
ملیں تو بس اک پیام کہنا
کتنی محبتوں سے پہلا سبق پڑھایا
میں کچھ نہ جانتا تھا سب کچھ سکھایا
ان پڑھ تھا اور جاہل، قابل مجھے بنایا
دنیاۓ علم و دانش کا راستہ مجھے دکھایا
مجھ کو دلایا کتنا اچھا مقام
کہنا استاذ محترم کو میرا سلام
مجھ کو خبر نہ تھی آیا ہوں کہاں سے
ماں باپ اس زمیں پر لاۓ تھے آسماں سے
پہنچا دیافلک تلک استاذ نے یہاں سے
واقف نہ تھا ذرا بھی اتنے بڑے جہاں سے
جینے کا فن سکھایا مرنے کا بانکپن بھی
عزت کے گر بتاۓ، رسوائی کے چلن بھی
کانٹے بھی راہ میں ہیں، پھولوں کی انجمن تھی
تم فخر قوم بننا اور نازش وطن بھی
ہے یاد مجھ کو ان کا اک اک کلام
کہنا! استاذ محترم کو میرا سلام کہنا
جو علم کا علم ہے استاذ کی عطا ہے
ہاتھوں میں جو قلم ہے استاد کی عطا ہے
جو فکر تازہ دم ہے استاد کی عطا ہے
جو کچھ کیا رقم ہے استاد کی عطا ہے
ان کی عطا سے چمکا ہے نام
کہنا!
استاذ محترم کو میرا سلام کہنا۔
(منقول)

(مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں)

ایمان سب سے بڑی دولت ونعمت،اس کی حفاظت کی فکرکریں:-سیدنوراللہ شاہ بخاری.. رپورٹ:حبیب اللہ قادری انواری خادم:مدرسہ گلشن غوثیہ ہینڈیا، تحصیل:رامسر،ضلع:باڑمیر(راجستھان)

اسلام کے نقطۂ نگاہ سے ایمان سب بڑی دولت ونعمت ہے اور ایمان ہی ہمارے تمام اعمال کی اساس ہے جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے،اس لیےہمیں سب زیادہ اپنے ایمان کی حفاظت کی فکرکرنی چاہییے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ ساری نعمتوں میں سب سے عظیم اور مہتم بالشان نعمت” ایمان” کی نعمت ہے، روئے زمین پرنہ اس سے بڑھ کر کوئی نعمت  موجود ہے نہ اس کے برابر۔دنیا کی ہرنعمت و لذت ،آسائش وسہولت، آرام وراحت اس مختصر زندگی کے ساتھ ختم ہوجائےگی ؛لیکن وہ نعمت جس کا ثمرہ دنیا میں سعادت واطمینان ہے اور اسکا اثر آخرت تک باقی رہتا ہے وہ اسلام کی ہدایت ہے اور وہی سب سے بڑی نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنےخاص بندوں کو نوازتا ہے۔اسی اہمیت و منزلت کے پیش نظر اس نعمت کو اپنی طرف منسوب کرکے اسے دوسری نعمتوں کے مقابلے میں شرف بخشااور فرمایا : آج میں نے تمہارے لیے تمھارا دین اور اپنی نعمتوں کو مکمل کردیا اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔ (المائدة: 3)اور اسی نعمت پراپنے خصوصی احسان کا ذکر کرتے ہوئے ارشادفرمایا:دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو ۔(الحجرات:)

اس سے بڑی نعمت انسان پر اس منعم حقیقی کی اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے،وقتی تکلیفوں اور عارضی مصیبتوں سے دائمی نعمتوں اور ابدی راحتوں کی طرف بلاتاہے  اور اسے اس دین کی رہنمائی کرتاہے جسے اس نےتمام ادیان ومذاہب کےدرمیان منتخب فرمایاہے-
ایمان کی دولت دین و دنیا کا سب سے بہترین متاع اور سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ایمان ہی درحقیقت بندگی کی بنیاد،فلاح و کامیابی کا سرچشمہ اور آخرت میں کامیابی اور نجات کی بنیاد ہے۔
جیساکہ ارشادِ ربانی ہے:مفہوم:’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے،انہیں ضرور زمین کی (سلطنت) خلافت عطاکرےگا‘‘۔(سورۂ نور)
الحمدللہ،ہم مسلمان ہیں،مسلمان ہونا بڑے فخر کی بات ہے کہ ہم ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں،ایمان کی نعمت جسے مل جائے،وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے، اس نعمت کا حق اگر ہم ادا کرتے رہیں تو یہ نعمت ہمارے دین کے لیے تو نصرت وکامیابی کی دلیل ہے ہی،دنیا میں بھی کامیابی وکامرانی کی علامت ہے۔اہل ایمان کو اس نعمت کی برکت سے ایسا عظیم اعزاز عطا فرمایا گیا کہ اسے بادشاہت کی نوید سناکر روئے زمین کا خلیفہ بنادیا۔
ایمان اس دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے ،یہ دولت جس کے پاس ہوگی، وہ آخرت میں کامیاب ہوگا اور جنت اسے ملے گی،بصورت دیگر بندہ ناکام و نامراد ہوگا اور بدلے میں اسے جہنم کے حوالے کر دیا جائے گا،نبی اکرم ﷺہمیشہ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو شیطان سے بچانے کی فکر کیا کرتے تھےاور انہیں ہمہ وقت اس بات کی نصیحت اور تاکیدکرتے تھے کہ اپنا ایمان باقی رکھو،اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہراؤ،شیطان کی پیروی اور اطاعت سے خود کو بچاؤ۔ایسا صرف اس لئے کیونکہ شرک سے بندے کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے،اللہ ناراض ہوتا ہے اور بنا توبہ کئے اگر شرک ہی پر بندے کا انتقال ہو جائے تو جنت اس پر حرام ہو جاتی ہے اور جہنم اس کا مقدر بن جاتا ہے۔ارشادِ خداوندی ہے:یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے ،اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔(سورۃ المائدہ)
اللہ کے فضل و کرم سے اگر آپ کے پاس ایمان کی دولت ہے تو آپ اس پر رب کا شکر ادا کریں اور اپنے ایمان کو ہر طرح کی غلاظت و گندگی سے بچانے کی فکر کرتے رہیں،بلکہ اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے مسلسل اللہ وحدہ لاشریک سے دعائیں مانگتے رہیں۔
مذکورہ باتیں علاقۂ تھار کی مرکزی اور مغربی راجستھان کی ممتاز ومنفرد دینی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان” کے مہتمم وشیخ الحدیث اور خانقاہ عالیہ بخاریہ کے صاحب سجادہ نورالعلماء شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدّظلہ العالی نے ہینڈیا، باڑمیر میں 8 صفر 1444 ھ/06 ستمبر 2022 عیسوی کو ایک صوفی بزرگ حضرت ہالا فقیر علیہ الرحمہ کے عرس کی تقریب کے موقع پر جلسۂ اصلاح معاشرہ میں خطاب کرتے ہوئے کہیں-
آپ نے اپنے اپنے خطاب کے دوران علاقۂ تھار میں مروجہ کچھ اہم وغلط رسوم کی نشاندہی کرتے ہوئے لوگوں کو ان سے بچنے کی تاکید وتلقین کی، بالخصوص قبر بلا مقبور کی زیارت اور اس کی تعظیم وتوقیر سے سختی سے منع فرمایا،اور کچھ نام نہاد صوفی بلکہ حدتو یہ ہے کہ کچھ عورتیں جو یہ کہہ کر لوگوں کا علاج ومعالجہ [جھاڑ پھونک] کرتی ہیں اور بظاہر ان کے کچھ معاملات حل کرتی ہیں اس دعویٰ کے ساتھ کہ ان کے اوپر فلاں بزرگ کا سایہ آتا ہے اس کے غیر شرعی ہونے اور شیطانی اعمال سے ہونے پر بہت ہی عمدہ، پراثر اور دلائل کے ساتھ اس کی تردید کی اور لوگوں کو اس طرح کے جملہ خرافات سے بچنے کی تاکید وتلقین کی،اور شریعت مطہرہ کے مطابق زندگی گذارنے کی اپیل کی-
آپ کے خطاب سے قبل خطیب ہر دل عزیز حضرت مولاناجمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف نے سندھی زبان میں “اصلاح معاشرہ” کے عنوان پر بہت ہی عمدہ خطاب کیا،جب کہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ کے کچھ ہونہار طلبہ نے بھی نعت ومنقبت اور تقاریر کیں-
صلوٰة وسلام،اجتماعی فاتحہ خوانی اور نورالعلماء حضرت علامہ پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری کی دعا پر یہ جلسہ اختتام پزیر ہوا-
اس جلسہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ علمائے کرام شریک ہوئے-
ادیب شہیرحضرت مولانامحمدشمیم احمدنوری مصباحی،ناظم تعلیمات: دارالعلوم انوارمصطفیٰ،حضرت مولانا دلاورحسین صاحب قادری صدرالمدرسین:دارالعلوم انوارمصطفیٰ،مولاناباقرحسین قادری برکاتی،مولاناحبیب اللہ قادری انواری، مولانا احمدعلی انواری،قاری مہرالدین انواری،مولانا محمد ایوب، قاری ارباب علی قادری انواری، مولانانیاز محمد انواری وغیرہم-

امیر القلم علامہ عبد المبین صاحب نعمانی کی خانقاہ برکاتیہ میں آمد اور طلبہ جامعہ احسن البرکات سے خطاب…از قلم : محمد ہاشم رضا برکاتی. متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف.


جماعت اہل سنت کی مشہور ومعروف شخصیت، متعدد کتب کے مصنف علامہ عبد المبین صاحب نعمانی ہندوستان کی عظیم وقدیم ترین خانقاہ، خانقاہ برکاتیہ میں تشریف لائے اور جامعہ احسن البرکات کے طلبہ کو دو نشستوں میں خطاب و نصیحت فرمایا ۔ پہلی نشست میں خامسہ تا فضیلت کے طلبہ کو بہت ہی قیمتی نصیحتوں سے سرفراز فرمایا، آپ نے فرمایا کہ : آپ میں سے کچھ طلبہ فراغت کے بعد کسی شعبہ میں تخصص کریں گے، چاہے تخصص فی الفقہ ہو یا تخصص فی الحدیث ہو لہٰذا ان طلبہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اچھے اور قابل مفتی بنیں. ہمارے یہاں مفتیوں کی کمی نہیں ہے لیکن اچھے مفتیوں کی ضرور کمی ہے۔ اور جو طلبہ تدریسی فرائض انجام دینے لگیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ لغت ساتھ میں رکھیں.اگرچہ آپ کو کسی لفظ کا معنی معلوم ہو لیکن اس کا معنی لغت میں ضرور دیکھ لیا کریں. تحقیقی ذہن بنائیں اور طلبہ کو بھی تحقیق سے پڑھایا کریں. اور جو طلبہ خطابت کے میدان میں اتریں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خطابت کو اپنا پیشہ ہرگز نہ بنائیں. اور خطابت کی آج کل جو کتابیں بک رہی ہیں ان میں موضوع روایات کی بھرمار ہے اس لئے تقریر پہلے خود لکھیں پھر بولیں. اور حضرت نے بہت ہی زیادہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہماری صفوں میں اچھے قلم کاروں کی افسوس ناک حد تک کمی ہے. اگر آج کے حالات کا مقابلہ کرنا ہے تو ہم میں سے ہر شخص کو اچھا قلم کار ضرور بننا چاہئے. اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ جمعہ اور جمعرات کے اوقات کو کار آمد بنایا جائے اور ہر طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر جمعہ کو کم از کم ایک صفحہ ضرور لکھے اس طرح آپ کا قلم آہستہ آہستہ چلنے لگے گا ایک دن آپ کا نام بھی مشہور قلم کاروں میں شمار کیا جائے گا.

دوسری نشست! کچھ دیر بعد ایک اور اجتماعی نشست منعقد ہوئی جس میں تمام طلبہ جامعہ نے شرکت کی ۔
طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے حضور امیر القلم نے خصوصی طور پر تجویدو قراءت پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ : آج کے حالات کے اعتبار سے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے. آج ہمارے مدارس سے نکتہ رس مدرس اور زبان آور خطیب تو بہت پیدا ہو رہے ہیں لیکن اچھے قاریوں کی بہت کمی ہے. اور مزید فرمایا کہ طالبان علوم نبویہ کو ہمارے اسلاف کی زندگی کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے اور آپ نے حضور مفتئ اعظم ہند اور حضور برہان ملت اور حضور سید العلماء ،حضور مجاہد ملت، رئیس القلم علامہ ارشد القادری رحمہم اللہ کی سوانح پر سیر حاصل گفتگو فرمائی. اور فرمایا کہ مجھ احقر کو ان شخصیات کے ساتھ رہنے کا بھی شرف حاصل ہوا ہے. ان شخصیات کے اندر دین کا کام کرنے کا جزبہ ہمیشہ موجزن رہتا تھا. اور ہر چہار جانب جو سنیت کی ہریالی دکھ رہی ہے وہ انہیں بابرکت نفوس قدسیہ کےدم قدم سے ہے، اس لئے طلبہ کو ان شخصیات کی سوانح کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے، آپ نے علامہ ارشد القادری کی کتابوں کے مطالعہ کرنے کی خصوصی دعوت دی بالخصوص زلزلہ، زیرو زبر، بزبان حکایت، لالہ زار وغیرہ کا ضرور مطالعہ کریں ۔
اور آخر میں حضور امان اہلسنت نے طالبان علوم نبویہ کو اپنے مفید مشوروں سے نوازا اور کہا کہ ہماری ہمیشہ یہی سوچ رہتی ہے کہ آپ لوگ کامیاب ہو جائیں. اس لئے آپ کو سال میں تقریباً چار پانچ مشہور شخصیات سے میٹنگیں کروائی جاتی ہیں. لہذا آپ لوگ محنت کریں اور اپنی تعلیم کی جڑوں کو مضبوط بنائیں ان شاءاللہ آگے چل کے کامیاب ہوں گے اس کے بعد صلوٰۃ وسلام اور علامہ صاحب کی دعا پر میٹنگ اختتام پذیر ہوئی.
دوسری نشست میں حضورامان اہلسنت اور جملہ اساتذہ جامعہ احسن البرکات و قاسم البرکات اور تمام طلبہ نے شرکت کی ۔

जामिआ़ राबिआ़ बसरिया [पीर जो कोट शरीफ]सोभाणी पाड़ा,गरडिया में हज़रत मखदूम दर्स सोहराब फक़ीर अ़लैहिर्रहमा का सालाना उ़र्स अ़क़ीदत व मोहब्बत के साथ मनाया गया! रिपोर्टर:(हाफिज़)मोहम्मद क़मरुद्दीन क़ादरी बरकाती अनवारी

07 सफरुल मुज़फ्फर 1444 हिजरी …मुताबिक़:05 सितम्बर 2022 ईस्वी बरोज़: सेमवार जामिअ़ा राबिआ़ बसरिया के वसीअ़ व अ़रीज़ मैदान में हज़रत मखदूम दर्स सोहराब फक़ीर अ़लैहिर्रहमा का सालाना उ़र्से मुबारक व जामिआ़ राबिआ़ बसरिया का सालाना तअ़लीमी जल्सा इन्तिहाई शान व शौकत और अ़क़ीदत व मोहब्बत के साथ मनाया गया।

बाद नमाज़े फज्र इज्तिमाई क़ुरआन ख्वानी व फातिहा ख्वानी करके दरगाह हज़रत दर्स सोहराब फक़ीर अ़लैहिर्रहमा मे चादरपोशी की गई और सभी ज़ाईरीन समेत मुल्क व मिल्लत की बेहतरी के लिए दुआ़ की गई।

लगभग 08 बजे सुबह जल्से की शुरुआ़त तिलावते कलामे रब्बानी से की गई।

फिर दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ व दारुल उ़लूम की तअ़लीमी शाख मदरसा जामिआ़ राबिआ़ बसरिया के होनहार तल्बा ने अपना दीनी व मज़हबी प्रोग्राम नअ़त,ग़ज़ल [सिंधी नअ़त] व तक़रीर की सूरत में पेश किया जिसे लोगों ने खूब पसंद किया और बच्चों की हौसला अफ्ज़ाई करते हुए इन्आ़म व इकराम से नवाज़ा।

बादहु हज़रत मौलाना इल्मुद्दीन साहब क़ादरी अनवारी मुदर्रिस:दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ ने मौक़े की नज़ाकत को देखते हुए मुख्तसर वक़्त में अच्छी तक़रीर की,और “मज़ारात पर औरतों की आमद पर शरई पाबंदी” के हवाले से लोगों को उ़़म्दा व लाइक़े अ़मल पैग़ाम दिया।

आखिर में सदारती व खुसूसी खिताब शैखे तरीक़त नूरुल उ़़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी सज्जादा नशीन:खानक़ाहे आ़लिया बुखारिया,मुहतमिम व शैखुल हदीष:दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ ने किया।

आप ने “अल्लाह की खशिय्यत और रिज़्क़े हलाल की तरग़ीब व ताकीद” के उ़़न्वान पर खिताब करते हुए फरमाया कि हमारे मुआ़शरे के अंदर जितनी भी बुराइयाँ हैं अगर हम चाहते हैं कि उन का खातमा हो जाए तो इस के लिए हमारे लिए ज़रूरी है कि हम अपने दिलों के अंदर अल्लाह का खौफ पैदा करें और साथ ही साथ रिज़्के हलाल की फिक्र करें, और हराम माल से खुद भी बचें और अपने अहल व अ़याल को भी बचाएं।

आप ने इस मौज़ूअ़ पर तमसीली अंदाज़ में बहुत ही उ़़म्दा व पुर अषर खिताब किया।

निज़ामत के फराइज़ खतीबे हर दिल अ़ज़ीज़ हज़रत मौलाना जमालुद्दीन साहब क़ादरी अनवारी ने बहुस्न व खूबी निभाई।

बादुहु सलात व सलाम, इज्तिमाई फातिहा ख्वानी व हज़रत पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी की दुआ़ पर यह जल्सा इख्तिताम पज़ीर हुवा।

इस दीनी व मज़हबी प्रोग्राम में खुसूसियत के साथ यह हज़रात शरीक हुए।
★हज़रत पीर सय्यद इब्राहीम शाह बुखारी…☆हज़रत पीर सय्यद गुलाम मुहम्मद शाह बुखारी…★हज़रत पीर सय्यद दावन शाह बुखारी…☆हज़रत मौलाना पीर सय्यद सदर अ़ली शाह बुखारी…★सय्यद ज़मन अ़ली शाह बुखारी…☆सय्यद मेहर अ़ली शाह बुखारी…★हज़रत मौलाना दिलावर हुसैन साहब क़ादरी सदर मुदर्रिस: दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा…☆हज़रत मौलाना मुहम्मद शमीम अहमद साहब नूरी मिस्बाही…★मौलाना खैर मुहम्मद क़ादरी अनवारी☆मौलाना अ़ब्दुस्सुब्हान मिस्बाही…★मौलाना बाक़िर हुसैन साहब क़ादरी…☆मौलाना हबीबुल्लाह क़ादरी अनवारी…★मौलाना मुहम्मद हुसैन साहब क़ादरी…☆मौलानाअ़ब्दुर्रऊफ क़ादरी जामई…★मौलाना इस्लामुद्दीन क़ादरी…☆मौलाना अ़ताउर्रहमान साहब क़ादरी…★मौलाना मुहम्मद अ़ली अनवारी…☆हाफिज़ बरकत अ़ली क़ादरी…★क़ारी अ़ब्दुल वाहिद सोहक्वर्दी☆क़ारी फारूक़ अनवारी…★मौलाना हकीम सिकन्दर अ़ली अनवारी…☆मौलाना दोस्त मुहम्मद अनवारी…★क़ारी अरबाब अ़ली साहब अनवारी…★मास्टर जमाल साहब…☆मास्टर मुहम्द हनीफ…★मास्टर अहमद रज़ा साहब वग़ैकहुम……

रिपोर्टर:(हाफिज़)मोहम्मद क़मरुद्दीन क़ादरी बरकाती अनवारी
खादिम:जामिआ़ राबिआ़ बसरिया मुत्तसिल दरगाह मखदूम दर्स सोहराब फक़ीर अ़लैहिर्रहमा… …पीर जो कोट शरीफ,सोभाणी पाड़ा,पो: गरडिया, तह:रामसर, ज़िला:बाड़मेर [राजस्थान]

خانقاہوں کا حقیقی تصور.. از۔۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشیدامجدی اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام والمسلمین و ارشد ملت ،مسکونہ ۔۔ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال 7030786828


نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
اسلام میں خانقاہی نظام کا تصور ہمیں قرون اولیٰ میں ملتا ہے وہ تو در حقیقت تلاوت آیات تزکیہ نفس اور تعلیم کتاب و حکمت پر مبنی ایک تربیتی ادارہ کا تصور ہے ایک ایسا ادارہ جہاں سے گمراہ لوگوں کو نور ہدایت نصیب ہو گنہ گاروں کو توبہ کی توفیق ملے سیہ کاروں کو روشنی کی کرن نظر آئے عصیاں شعاروں کو ذوق عبادت نصیب ہو جبکہ مروجہ نام و نہاد خانقاہوں میں تو چکر ہی الٹا چل رہا ہے یہاں تو جہالت کو فروغ ملتا ہے اِنسانیت کی تذلیل ہوتی ہے شرفاء کی پگڑی اچھالی جاتی ہے غرباء و مساکین کی جیبیں کاٹی جاتی ہیں علم و عمل کا مذاق اڑایا جاتا ہے روحوں کو داغ دار کیا جاتا ہے دلوں کو سیاہ فام کیا جاتا ہے ظلمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے اندھیرو کو سلامی پیش کی جاتی ہے دولت کی پوجا کی جاتی ہے علماء اہل سنّت کی تحقیر کی جاتی ہے بدمعاشوں کی سرپرستی کی جاتی ہے ظلم و تعدی کا بازار گرم کیا جاتا ہے ان کے میلوں ٹھیلوں سے ایسی سڑ انڈاٹھتی ہے کہ کسی سمجھدار آدمی کیلئے وہاں ایک لمحہ ٹھہر جانا بھی محال نظر آتا ہے . ہے کوئی چشم بینا جو ان معاملات کی طرف بھی توجہ کرے ؟ ہے کوئی دل درد مند جو ان خرابیوں کے خاتمہ کیلئے بھی مضطر ہو . آج کے زمانہ میں حقیقی خانقاہیں اہل سنت و الجماعت کے وہ دینی مدارس اسلامیہ ہیں جہاں قوم کے بچوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے انہیں نماز روزہ کا پانبد علم و تحقیق کا خوگر اور نظام مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کیلئے جدو جہد کا پیکر بنایا جاتا ہے یہ ہمارا بنیادی فرض ہے کہ ہم ان میلوں ٹھیلوں کو ملیا میٹ کر کے اپنے دینی مدارس کی سرپرستی کریں علمائے اہل سنت سے رابطہ بحال کریں طلباء مدارس کو ہر طرح کی آسائش مہیا کریں مدرسین کے لئے تنخواہوں کا خاطر خواہ انتظام کریں تاکہ حقیقی خانقاہی نظام کا دوبارہ احیاء ہو سکے ورنہ مروجہ خانقاہوں سے خیر کی توقع رکھنا بیل سے دودھ کی امید رکھنے کے مترادف ہے.
مزارات کے گلّے اور صندوقچے
یہ ایک عجیب ترین بات ہے کہ مزارات اور خانقاہوں کے دروازے پر بڑے بڑے گلے اور صندقچے رکھے ہوتے ہیں جہاں بڑے ہی بد اطوار قسم کے مجاور زائرین کی آمد پر ان گلوں کو کھڑ کھڑا کر نذرانہ طلب کر تے ہیں جس پر جاہل اور احمق قسم کے لوگ ان گلوں میں ہزاروں روپے ڈال جاتے ہیں بعد میں یہ پیسے یا تو محکمہ اوقاف والے اٹھا کر لے جاتے ہیں یا پھر سجادہ نشین صاحبان ان سے گلچھرے اڑاتے ہیں یاد رکھنا ہے کہ ان پیسوں کا مصرف سوائے عیاشی کے اور کچھ نہیں ہوتا یہ تمام اہل اسلام کا فرض ہے کہ وہ جاہل لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ گلوں میں ڈالے ہوئے ان کے پیسے در اصل افسروں اور سجادہ نشینوں کے پیٹوں کا جہنم بھر نے کے کام آتے ہیں ان پیسوں سے جہلاء کو کسی قسم کا کوئی فائدہ ہر گز نہیں ملتا نہ ہی دنیوی نہ ہی اخروی بلکہ الٹا دونوں جہانوں کا خسارہ ہوتا ہے دنیا کا اس لئے کہ وہی پیسے جو انہوں نے گلے میں ڈالے وہ ان کے اہل خانہ یا دیگر امور خیر میں کام آ جاتے جو نہ ہوسکے اخروی اس لحاظ سے کہ یہ پیسے ناجائز کاموں میں صرف ہوتے ہیں اس طرح ناجائز کاموں میں ان کا حصہ بھی شامل ہوجا تا ہے لہذا قیامت کے دن غلط کار افسروں اور سجادہ نشینوں کے ساتھ ان کا بھی مواخذہ ہوگا اس لئے ان گلوں میں پیسے ڈالنے کے بجائے انہیں راہ خدا میں خرچ کیا جائے اور خاص طور پر اہل سنت کے مدارس کو مضبوط کیا جائے فی زمانہ مدارس کا بھی یہی حال ہے

تو زندہ ہے و اللّٰہ،.انبیائےکرام کے اپنی قبروں میں زندہ ہونے پر ایک چشم کشا تحریر ازقلم :- فخر عالم اسماعیلی احسنی بارہ بنکوی متعلم : جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)

اللّٰہ تبارک و تعالی نے اس خاک دان گیتی پر سب سے اشرف و اعلیٰ مخلوق انسان کو پیدا فرما کر اس کے سر پر اَحْسَنِ تَقْوِیمْ کا تاج زریں سجایا۔ اور ذاتِ لَمْ یَزَلْ نے انہی میں سے انبیائے کرام کی شکل میں ایسے ستارے درخشاں کیے جنہوں نے کائنات کو علم و ہدایت کے نور سے منور کر دیا ان میں آخر میں وہ ستارہ طلوع ہوا جس کا وجود ہر شی کی اصل ہے،جس کو قَدْجَاءَكُم مِنْ اْللّٰهِ نُوْرٌ کاپیکر اور اَوَّلُ مَاْخَلَقَ اللّٰهُ نُورِىْ کا جامہ پہناکر مبعوث فرمایا۔ یہ انبیائے کرام کی مقدس جماعت کے آخری فرد فرید ہمارے آقا علیہ السلام ہیں۔ یہ تمام انبیاءاس عالم رنگ و بو میں تشریف لائے اور خدائی پیغام کو بندوں تک پہنچایا اور وقت مقررہ پر اس عالم فانی سے پردہ فرما گئے۔ چونکہ وعدۂِ ”كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْت“ بر حق ہے۔ اس وعدے کے مطابق موت انبیاء کو بھی آئی مگر ایک پل کےلیے۔ پھر اللہ نے انہیں برزخی زندگی عطا فرما دی۔ اسی کو اعلیٰ حضرت کہتے ہیں: ۔
انبیا کو بھی اجل آنی ہے
مگر ایسی کہ فقط آنی ہے

   تمام بنی آدم ذائقۂ موت چکھنے کے بعد پھر انہی اجسام عنصریہ کے ساتھ روز قیامت زندہ کیے جائیں گے۔ اگر آخرت میں یہ جسمانی زندگی محل استبعاد نہیں تو عالم برزخ ہی میں اگر اللہ تعالی بعض نفوس قدسیہ ( انبیاء) کو یہ جسمانی زندگی عطا فرما دے تو اس میں کون سا استبعاد ہے، اگر آپ کی عقل اسے تسلیم نہیں کر سکتی ہے تو عالم آخرت کی زندگی کا ادراک بھی قدرت الٰہیہ کے علاوہ اور کیسے ہو سکتا ہے؟ 

انبیائے کرام علیہم السلام کے لیےموت صرف تصدیق اور وعدۂِ الٰہیہ کےمطابق ایک آن کے لئے آتی ہے، پھر وہ ابد تک حیات حقیقی دنیاوی اور جسمانی کے ساتھ زندہ ہو جاتے ہیں، اور اپنی قبروں میں حصول لذت کے لیے نماز بھی پڑھتے ہیں انہیں یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ جہاں چاہیں تشریف لے جائیں اور ساری کائنات پر حکومت بھی کرتے ہیں، انبیائے کرام کی زندگی کے بارے میں علمائے امت محمدیہ کا کوئی اختلاف نہیں ہے انبیائے کرام دنیاوی و حقیقی زندگی کے ساتھ حیات ہیں اور حیات انبیاء کا انکار کرنے والے لوگ گیارہویں صدی ہجری کے بعد ہی رونما ہوئے ہیں۔
مندرجہ ذیل سطروں میں انبیائے کرام کے اپنی قبروں میں زندہ ہونے پر چند دلائل نقلیہ وعقلیہ ملاحظہ فرمائیں،

نقلی دلائل:
(١) اللٰه تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ! وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِي سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتَ بَلْ اَحْيَاءٌ وَّلٰكِنْ لَا تَشْعُرُوْن،(ترجمہ) اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں،
امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیائے کرام ہر اعتبار سے شہداۓکرام سے افضل و اعلیٰ ہیں، گروہ شہداء کا درجہ انبیاۓ کرام سے کم ہے اور جب شہداء کے لئے اس آیت کریمہ سے حیات ثابت ہے تو انبیاء و مرسلین جو سب سے اعلی و ارفع گروہ ہیں، ان کے لئے تو بدرجۂ اولیٰ حیات ثابت ہوگی، اسی طرح جب قرآن میں شہداء کو مردہ کہنے سے منع فرمایا گیا ہے تو انبیائے کرام کو بھی بدرجۂ اولیٰ مردہ کہنے سے منع ہوگا۔
صحابہ ،تابعین، تبع تابعین، محدثین، فقہاء، علماء ،صالحین، اسلاف، اور تمام عاشقان محبوبِ ذاتِ لم یزل کا یہی عقیدہ ہے کہ انبیاۓ کرام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ، اور اپنی امت کے احوال پر بھی مطلع ہیں،
(٢) اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ! وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃَ لِلْعَالَمِین: اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ آقا ﷺ کو تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے، اور آپ ﷺ کا رحمت ہونا تمام جہانوں کے لئے عام ہے لہٰذا ماننا پڑے گا کہ آپ اپنے ظاہری حیات میں اور بعد وفات بھی رحمت ہیں اور تمام جہانوں کیلئے رحمت ہونا آپ کی حیات کا تقاضہ کرتا ہے۔
(٣) حدیث پاک میں ہے: ”عَنْ اَوْسِ بْنِ اَوْسٍ قالَ قالَ رسولُ اللّٰهِ ﷺ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى اْلاَرْضِ اَنْ تَاكُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِيَاءِ“ (سنن نسائی،کتاب الجمعہ،ص: ۱۸۶/ ۱۸۷۔) رسول کریم ﷺنے فرمایا : بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے زمین پر اجسام انبیاء کھانے کو حرام فرمادیا ہے۔ علامہ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں؛ کہ ” اللہ کے نبی دنیوی زندگی کی حقیقت کے ساتھ زندہ ہیں“ ۔ حضرت ملا علی قاری فرماتےہیں : ” لَا فَرْقَ لَهُمْ فِي الحالَيْنِ وَلِذاقِيْلَ اَوْلِياءُ اللّٰهِ لَا يَمُوْتُوْنَ وَلٰكِنْ يَّنْتَقِلُوْنَ مِنْ دَارٍ اِلىٰ دَارٍ، وَاِنَّ اْلْاَنْبِياءَ فِي قُبُوْرِهِمْ اَحْيَاءٌ“.(انبیائے کرام کی دنیوی اور بعد وصال کی زندگی میں کوئی فرق نہیں۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کی اللّٰہ کے دوست مرتے نہیں ہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں، اور بلاشبہ انبیاء علیہم الصلاۃ والتسلیم اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔
(۴) سب سے بڑی دلیل حدیث پاک ہے ”عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قالَ قَالَ رسولُ اللّٰه ﷺ اَلْاَنْبِيَاءُ اَحْيَاءٌ فِي قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّونَ“(حياة الانبياء فى قبورهم ص:٣) کبار محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ ہمارے نبی ﷺ زندہ ہی نہیں بلکہ ایسے زندہ ہیں کہ وہ اپنی قبر انور سے سنتے بھی ہیں اور لوگوں کی مدد بھی کرتے ہیں، ان کی حیات کا کوئی زوال نہیں ہے جب انبیاۓ کرام کا قبروں میں زندہ ہونا ثابت ہے تو سیدالانبیاء کا قبر انور میں زندہ ہونا بدرجۂ اتم ثابت ہوگا،
اس حیات نبوی میں مجاز کی آمیزش اور تاویل کا وہم بھی نہیں ہے۔ اور امت کے ہر شخص کی نیت واعمال پر حاضر و ناظر بھی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو حضور کی جانب توجہ رکھتے ہیں حضور ان کو فیض بخشنے والے ہیں۔
حضور نور مجسم ﷺ دنیاوی زندگی سے لاکھوں کروڑہا درجہ بہتر اپنی قبر انور میں زندہ ہیں ۔
(۵) شب معراج آقا ﷺ نے بیت المقدس میں تمام انبیاء و مرسلین کی امامت فرمائی تو اس سے یہ بات روز روشن کی طرح منور ہوگئ کہ انبیاۓ کرام بعد وصال بھی زندہ ہیں۔
(٦) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وصیت پر صحابۂ کرام نے حضرت ابوبکرصدیق کے جنازے کو بابِ روضۂ رسول پر رکھ کر حضرت ابوبکر صدیق کے الفاظ دہرائے، ” یَا رَسُولَ اللّٰهِ ه‍َذَا اَبُوبَکْرٍ یَسْتَأذِنُ (اے اللہ کے رسول ! یہ ابوبکر ہے آپ سے اجازت طلب کر رہا ہے) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دروازہ خود بخود کھل گیا اور روضۂ رسول سے یہ آواز آئی کہ حبیب کو حبیب سے ملا دو۔
حضرت ابوبکر صدیق اور صحابۂ کرام رضی اللّٰہ عنہم کے اس عمل سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ حضور ﷺ اپنی قبر انور میں صرف زندہ ہی نہیں بلکہ اپنے غلاموں کی فریاد سنتے بھی ہیں اور ان کو نوازتے بھی ہیں۔
(۷) اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی االلہ عنہا کا روضۂ رسول و ابو بکر پر بغیر پردے کے جانا اور حضرت عمر فاروق اعظم کے مدفون ہونے کے بعد پردے کے ساتھ جانا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضور کے ساتھ ساتھ عمرین بھی زندہ ہیں۔
(۸) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا اپنا چہرہ قبرِ انور پر رکھنا اور مروان بن حکم سے یہ کہنا: کہ میں رسول اللّٰہ ﷺ کے پاس آیا ہوں ، کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔
صحابئ رسول کا یہی نظریہ تھا کہ یہ قبر محض مٹی کا ڈھیر نہیں ہے بلکہ اس میں نبی پاک ﷺ جلوہ گر ہیں ، صحابۂ کرام، تابعین عظام آپ ﷺ کو زندہ سمجھ کر ہی قبر انور پر حاضری دیا کرتے تھے۔

عقلی دلائل:
(۱) اگر آخرت میں یہ جسمانی زندگی محل استبعاد نہیں تو عالم برزخ ہی میں اگر اللّٰہ ﷻ بعض نفوس قدسیہ (انبیاء) کو یہ جسمانی زندگی عطا فرما دے تو اس میں کون سا استبعاد ہے ،
(۲) انبیاۓ کرام کا بعد وصال ترکہ تقسیم نہیں کیا جاتا ہےاور ان کی بیویاں عدت گزارنے کے بعد بھی دوسرے سے نکاح نہیں کرسکتی ہیں۔ کیونکہ زندوں کاترکہ تقسیم نہیں کیا جاتا ہے بلکہ بعد وفات تقسیم کیا جاتا ہے اور انبیاۓ کرام زندہ ہیں اس لیے ان کا ترکہ تقسیم نہیں کیا جائے گا، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک شوہر زندہ ہےعورت دوسرے مرد سے نکاح نہیں کر سکتی ہےاور انبیاۓ کرام کی بیویاں بھی کبھی بھی دوسرے سے نکاح نہیں کر سکتی ہیں اس لئے کہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام اپنی قبروں میں باحیات ہیں۔
(۳) انبیاۓ کرام کا تو الگ ہی مقام ہے ان کے خاص غلام بھی اپنی قبروں میں باحیات ہیں مثلا صحابئ رسول حضرت حذیفہ و حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو تیرہ سو سال بعد قبر سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کرنا اور جسم مبارک کا بلکل صحیح و سالم ہونا، ان کے چہرۂ زیبا کو دیکھ کر ہزاروں لوگوں کا اسلام قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاء و اولیاء مرتے نہیں ہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔
اولیاء و شہداءکی قبورکھلنے پر ہم انہیں حرکت و عمل اور عبادت الٰہیہ کرتے ہوئے نہیں دیکھتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ وہ ذات مدفونہ ہی معطل عن الافعال ہیں،بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری آنکھوں میں وہ قوت ہی نہیں ہے کہ ہم ان کے مصروف بالعبادت ہونے کا ادراک کر سکیں، ہاں! اللہ تعالیٰ جس سے وہ پردہ اٹھا لے وہ تمام عالم کے حالات مشاہدہ کر لیتا ہے۔
رسول کریم ﷺ اپنے جسم و روح کے ساتھ اپنی قبر میں زندہ ہیں اس کو یوں سمجھیں مثلا ” زیدٌ عالمٌ “ کا ترجمہ ہر عربی داں یہی کرے گا کہ زید فی الحال عالم ہے یہ کوئی نہیں کہے گا کہ زید عالم تھا۔ اسی طرح لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہ کا ترجمہ ہر شخص یہی کرے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، یہ کوئی نہیں کہے گا کہ محمد اللہ کے رسول تھے، بلکہ ہر چھوٹا بڑا یہی کہے گا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔
اس کا ملخَّصِ کلام یہ ہے کہ آقا ﷺ ہر زمانے میں حیات ظاہری کے ساتھ جلوہ افروز ہیں اور یہ کلمۂ طیبہ ہمارے نبی کے زندہ ہونے کی بہت بڑی
دلیل ہے لہذا ہر مسلمان کا اس بات پر ایمان ہونا چاہیے کہ انبیاۓ کرام جسم و روح کے ساتھ زندہ ہیں _
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
میرےچشم عالم سےچھپ جانےوالے

حکمتوں سےمعمورمفتئ اعظم اڈیشا کے پر تاثیر کلمات خیر——از سید آل رسول حبیبی ھاشمی سجادہ نشین خانقاہ قدوسیہ ،بھدرک شریف ،اڈیشا

سیدنا مفتئ اعظم اڈیشا قدس سرہ کی ذات اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی ، انکی حق بیانی ،شریں زبانی اور فصاحت لسانی سےایک عالم مستنیر ہے
انکے پاکیزہ جملوں سے علم و حکمت کے سوتے پھوٹتے اور موتی جھڑتے تھے
ایک بار ایک مصیبت زدہ شخص کی مایوس کن باتوں کو سن کر آپ نے ارشاد فرمایا
“مومن بندوں کا مصائب و آلام میں مبتلا ہونا اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار ہونا ہے “
یہ کلمات مبارکہ کتنے مختصر ہیں لیکن اس سے علم و حکمت کے گوہر آبدار چمکتے ہیں –
اس میں مومن کی قید احترازی ہے ، جس سے تمام بے ایمانوں کو خارج کردیا گیا ہے ، کیونکہ
اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار صرف اور صرف مومن ہے ، ہرگز کوئی کافر نہیں ۔
ارشاد ربانی “وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ”
میں ضمیر خطاب مومنوں کے لئے ہے جیسا کہ ما سبق سے ظاہر ہے
یہ حق ہے کہ
دنیا کے مصائب و آلام پر جو بندہ صبر و شکیب کا پیکر بن جاتا ہے اور راضی برضائے الہی رہتا ہے ، وہی حقدار جنت ہوتا ہے اور اسی کو رب کریم نے مژدۂ جنت عطا فرمایاہے ۔
حق فرمایا سیدی مفتئ اعظم اڈیشا قدس سرہ نے
“مومن بندوں کا مصائب و آلام میں مبتلا ہونا اخروی دائمی نعمتوں کا حقدار ہونا ہے “
حکمت و موعظت سے بھر پور اس کلام نور و سرور کو سن کر اس دل شکستہ مایوس بندے کو ایسی کامل تسلی ملی اور ایسا قلبی سکون حاصل ہوا کہ
لاس کے دل پر جو مایوسی کی کائی جم گئی تھی وہ یکسر ہٹ گئی اور وہ عزم و حوصلہ اور نئی امنگ کے ساتھ وہاں سے واپس ہوا فالحمد للہ رب العلمین
ایسی بافیض ذات گرامی کا ۲۸ واں
“عرس قدوسی “
4ربیع النور 1444یکم اکتوبر 2022 کو
خانقاہ قدوسیہ ، بھدرک شریف ، اڈیشا میں شان و شوکت کے ساتھ منایا جارہا ہے
جس میں ہند و بیرون ہند کے درجنوں علما، صلحا اور شعرا کا نورانی قافلہ جلوہ بار ہوکر صاحب عرس کی بارگاہ عالی جاہ میں نظم و نثر کے ڈریعہ عقیدت و محبت کا خراج پیش کریگا
احباب اہل سنت و عزیزان طریقت سے عرس کی نورانی تقریبات میں شرکت کی مخلصانہ اپیل ہے
ملتمس
سید آل رسول حبیبی ھاشمی
سجادہ نشین
خانقاہ قدوسیہ ،بھدرک شریف ،اڈیشا