عرب کا قدیم دور تھا۔ اس وقت جہالت عروج پر تھی جہاں بت پرستی بہت عام تھی۔ قدیم دور میں بہت سے قبیلے ہوا کرتے تھے ۔اک بہت ہی معزز شخص قبیلہ کا سردار تھا حس کا نام قصیٰ تھا حس پر کعبہ کی ذمّہ داری تھی۔ جب قصیٰ ضعیفی کو پہنچا تو اس نے سوچا کہ اپنے بیٹے مناف کو کعبہ کی ذمّہ داری دے مگر قصیٰ کے بھائ عبد الدار پر بھی کعبہ کی ذمّہ داری تھی لیکن کعبہ کے مکمل اقتدار کے لیے ان دونوں فریقین میں جھگڑا ہونے لگا یہاں تک کہ جنگ کی نوبت آگئی ۔ پھر دونوں فریقین میں صلح ہو گئی اور قصیٰ کے بیٹے عبد مناف کے ہاتھ کچھ عہدے آئے جس کے تحت وہ حاجیوں کے آنے جانے کھانے پینے اور ان کے ٹھہرنے کے سارے انتظامات دیکھا کرتے تھے اور عبد مناف کے بیٹے ہاشم تھے آگے چل کر سارے انتظامات وہی دیکھتے رہے ہیں ۔ ہاشم ایک رحم دل انسان دردمند انسان تھے۔ انھونے مکّہ کی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کی ۔
ہاشم رومی بادشاہ سے اجازت لیکر تجارت کے لئے نکلے ہاشم اپنی دیانتداری ایمانداری کے لئے بہت مشہور تھے اور تجارت کی غرض سے ملک شام کا سفر کیا ۔وہاں انکی ملاقات سلمیٰ بنت عمرو سے ہوئی ۔سلمیٰ بہت ذہین ،خوبصورت اور معزز خاتون تھیں۔ ہاشم انکی ذہنی قوت پر اور صداقت پر قربان ہوگئے اور سلمیٰ سے شادی کا خیال ظاہر کیا .ہاشم کی بہادری اور دیانتداری کے قصّے سلمی’ نے بھی سن رکھے تھے فوراً ہاں کردیا اور دونوں کا نکاح ہو گیا۔ اس وقت رواج کے مطابق سلمی’ میکہ میں ہی رہی سلمی’ کو ایک لڑکا پیدا ہوا جو عبدالمطلب کے نام سے مشہور ہوئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے جو مکّہ کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔ عبدالمطلب نے حاجیوں کی سہولت کے لئے زمزم کا کنواں کھدوایا۔ عبدالمطلب کے دس بیٹے تھے عبدالمطلب نے منّت مانگی تھی کہ اگر انھیں دس بیٹے ہونگے تو وہ کسی ایک کو قربان کرینگے اس منّت کے مطابق عبدالمطلب نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے چہیتے بیٹے کو قربان کر رہے ہیں پھر تمام بیٹوں کو خواب سنایا تو تمام بیٹے قربان ہونے کے لئے راضی ہوے مگر عزیز تو عبداللہ ہی تھے اور عبداللہ کو سارے قبیلہ اور خاندان بہت محبّت کرتے تھے ان لوگوں نے عبداللہ کے بدلے اونٹنی کو فدیہ دینا چاہا اور اس کے لئے قرعہ ڈالا گیا اور اس طرح اللہ تبارک وتعالی نے سو اونٹنیوں کی قربانی کو قبول فرمایا عبداللہ کے عوض۔
پھر عبداللہ کی شادی قریش کے خاندان کی ایک نیک معزز پاک خاتون حضرت آمنہ سے ہوئی ۔ آمنہ کچھ دن میکہ میں ہی رہیں کچھ دنوں بعد عبداللہ کی حالت بگڑگئ اور وہ مدینہ میں ہی انتقال کر گئے تمام قبیلہ اور خاندان والوں کے لئے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا اور عبداللہ کی موت کا غم آمنہ اور عبدالمطلب پر پہاڑ کی طرح ٹوٹ پڑا۔
جب عبداللہ کا انتقال ہوا تو آمنہ امید سے تھیں۔حضرت محمّد صلہ اللہ علیہ وسلّم آپ کے پیٹ میں پل رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دن اگیا
ک ہر طرف موسم بدلا ہوا تھا
صبح صادق کا وقت تھا سورج کی پرنور کرنیں ہر طرف پھیلی ہوی تھی سارے نظارے آپ صلہ اللہ علیہ وسلم کی آمدآمد کے لئے بکھرے ہوے تھے خوش گوار ماحول تھا جیسا کہ کائنات کا ہر ذرہ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہا ہو آسماں سے لیکر زمیں تک نور کی لڑیاں نظر آرہی تھیں ۔ہر کوئی بے چین اور بے تاب تھا ۔ ہر کوئی ایک دوسرے پر مہربان تھا بس کچھ ہی پل وہ سماں آگیا ،
صبح صادق کا وقت ہے دوشنبہ کا دن ہے ماہ ربیع النور ہے اور آسمان کا چاند زمین پر اترنے والا ہے پھر دیکھتے ہی دیکھتے آمنہ کی گود میں وہ نو نہال آگیا
آپ وہ حسین نو نہال ہیں کہ آمنہ کے لال ہیں
چاند جس سے شرماگیا ان کا وہ کف پا بے مثال ہیں
جسے سب نے سوچ رکھا تھا وہ خیال آگیا
بن کے عبداللہ و آمنہ کا لال آگیا
تھا رب کا ارادہ جو وہ پورا ہوگیا
محمّد کی آمد سے جہاں پر نور ہو گیا
عبدالمطلب کو ولادت کی خبر دی گئ عبدالمطلب دوڑے دوڑے آئے اور اپنے پوتے کو گود میں اٹھایا . سینہ سے لگایا. ماتھا چوما کعبہ پہونچے اور محمّد نام رکھا.
اس وقت رواج تھا کہ بچّوں کو دائیاں دودھ پلایا کرتی تھیں اور محمّد صلہ اللہ علیہ و سلم دائی حلیمہ کے حصّہ میں آئے دائی حلیمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا اور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر لے آئیں محمّد صلہ اللہ علیہ وسلم کے قدم سے حلیمہ کے گھر میں خیروبرکت ہونے لگے پانچ سال تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم دائی حلیمہ کے گھر میں ہی رہے.پانچ سال بعد محمّد ﷺ آمنہ کے گھر پہنچا دیے گے ۔ آمنہ اپنے بیٹے کو دیکھکر بہت خوش ہوئیں اور دوسری طرف حلیمہ بہت دکھی تھیں۔ محمّد ﷺ کی جدائی پر پھر آمنہ اپنےبیٹے کو لیکر مدینہ آئیں اور وہ جگہ دکھایا جہاں عبداللہ پیاری نیند سو رہے تھے ۔
واپسی کے وقت آمنہ بیمار پڑ گئیں اور انکا انتقال ہوگیا۔ محمّد ﷺ پھر سے یتیم ہو گئے۔ ایک غم پہلے ہی تھا کہ دوسرا غم آپڑا آپ کو یتیمی کا ملال ہونے لگا آمنہ کی ایک کنیز تھیں “امّہ یمن “آپ نے محمّد ﷺ کو اپنی حفاظت میں رکھا اور محمّدﷺ دادا کے گھر مکّہ واپس بھیجادئیے گئے۔ آپ اپنے داداجان سے ملکر بلک بلک کر رونے لگے۔ عبدالمطلب کے دل میں باپ کی شفقّت ابل پڑی عبدالمطلب نے محمّد ﷺ کا پورا خیال رکھا .مگر جب محمّد ﷺ 8 سال کے تھے تو آپ کے داداجان کا بھی انتقال ہوگیا اور محمّد ﷺ اپنےچچا ابوطالب کی سرپرستی میں آگئے انھوں نے محمّد ﷺ کا پورا پورا خیال رکھا آپ جب بارہ سال کے ہوئے تو بکریاں چرانے لگے .بکریاں چرانا آپ کا محبوب مشغلہ تھا ادھر بکریاں چرتی رہتیں ادھر آپ کائنات کے پر نور نظاروں میں کھوئے رہتے تھے. آپ کے اندر متانت اور سنجیدگی تھی پاکیزگی اور پاکبازی تھی آپ شرم وحیا کے پیکر تھے ایمانداری اور دیانت داری کے لئے پوری قوم میں مشہور تھے۔
آپ نے تیر اندازی سیکھی .فن سپہ گری میں مہارت حاصل کی کئ جنگوں میں آپ نے حصّہ لیا .آپ کھلی فضا میں مگن رہتے تھے انکھیں بکریوں کی حفاظت کرتی تھیں اور آپ کی روح قدرت کے کائنات کی وسعتوں میں پرواز کرتی تھی ۔
اس طرح آپ کے شب وروز گزرتے تھے جب آپ چوبیس سال کے ہوئے تو تجارت کی طرف دھیان دینے لگے. ابو طالب کے کہنے پر آپ نے حضرت خدیجہ کی تجارت میں حصّہ داری کی
حضرت خدیجہ اونچے اور رئیس گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں آپ نے محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں تجارت کا مال دے دیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تجارت کے لئے ملک شام اور قصریٰ کا سفر کیا اور تجارت میں بہت زیادہ منافع حاصل کیا محمّد صلی اللہ علیہ و سلم تجارت کے لئے جہاں بھی جاتے وہاں سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ عجیب وغریب واقعات ہوتے رہتے تھے۔ اس تجارت میں محمّد ﷺ کے ساتھ حضرت خدیجہ کا ایک غلام “میسرہ” تھا جو ہمیشہ آپ صلہ اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہی رہتا تھا. جب آپ تجارتی سفر سے واپس آگئے تو میسرہ نے حضرت خدیجہ کو تمام واقعات اورحالات تفصیل سے سناۓ ۔ حضرت خدیجہ تجارت میں منافع اور محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کی ایمانداری سے بہت خوشی ہوئیں اور محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کے خیالوں میں ہی رہنے لگیں ۔ہر کسی سے محمّد ﷺ کا ذکر کرتی تھیں پھر حضرت خدیجہ کی خواہش پر محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کی شادی حضرت خدیجہ سے ہوگئی اس وقت محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر 25 پچیس سال تھی اور حضرت خدیجہ کی عمر 40 سال تھی۔
اس کے کچھ سالوں بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آنے لگی محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کو دین کے کام کے لئے اللہ تعلیٰ کی طرف سے پیغام آنے لگا آپ پر آسمان سے وحی آنے کا سلسلہ شروع ہونے لگا آسمان سے جبرئیل نامی فرشتہ آتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نیا پیغام سناتا۔ وحی کے ذریعہ سے قراَنی ایت اترتی رہتی تھی . ان آیتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی تعلیم دی جاتی تھی ۔کفر اور شرک کو مٹانے کی تاکید کی جاتی تھی .قوم کو راہ راست پر لانے کی تلقین کی جاتی تھی ۔محمّد صلہ اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو ہر فرمان کو اپنی قوم تک پہنچانا شروع کر دیا .جو لوگ آپ سے محبت کرتے تھے وہ اللہ تعلیٰ پر ایمان لاتے تھے اور آپ کے ہر فرمان کو مانتے تھے اور جو آپ کے مخالف تھے وہ کئ طریقوں سے آپ صلہ اللہ علیہ و سلم کو پریشان کرتے تھے آپ کے اس دینی مشن میں آپ کو کئ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت خدیجہ نے اس کام میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بہت مدد کی اور کچھ معزز اشخاص جن کو ہم صحابہ کہتے ہیں انھوں نے بھی بہت مدد کی ۔کئ جنگیں بھی ہوئیں ، قبیلوں میں نااتفاقی اور ناراضگی بڑھتی گئ .محمّد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے فرمان کو لوگوں تک برابر پہنچاتے رہے .حق کی صدا دیتے رہے .یہ تو حالات زندگی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حقیقت اور بھی بیان ہوتی ہے. آپ دونوں عالم کے لئے رحمت ہیں .بےکسوں، بےبسوں کا سہارا ہیں ، آپ کے اشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوتا ہے سورج پلٹ آتا ہے پتھر ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔آپ کی انگلیوں سے چشمۂ آب جاری ہوجاتے ہیں آپ کے دہن مبارک سے بیمار کو شفاء ملتی ہے ہر کوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم میں محفوظ ہونے لگتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی ملتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر فدا ہو جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس امانتیں محفوظ رہتی ہیں
دونوں عالم میں چرچا ہے محمّد کا. اُدھر اسماں میں ادھر زمیں. ازل سے ابد تک آپ ہیں دونوں عالم کے وجود میں آپ ہیں آپ رحمت عالم ہیں آپ ہیں محبوب خدا وند۔ ہر جگہ آپ ہی کا نظارا ہے. آپ ساری مخلوق کا سہارا ہیں ۔ یہ تو قرآن کا بھی اشارا ہے ہم عاصیوں نے بھی آپ کو پکارا ہے زمین پر رہ کر عرش تک رسائ ہے یہ وہ راز ہے جو آج تک کوئ سمجھ نہیں پایا.آپ دونوں عالم میں موجود ہیں کیا بتائیں اس جہاں کو کہ کتنی عظمت ہے آپ کی ہر دور میں آپ کے ہی چاہنے والے ہیں آپ احد و طائف کے میدان میں ہیں ۔ آپکا فضل ہر طرف ہے حوض کوثر پر بھی اور میزان پر بھی ۔آپ ہیں ہر دل کے قرار ۔آپ امیروں کے آقا ہیں غریبوں کے داتا ہیں۔ صرف یہی نہی بلکہ آپ جس شہر میں رہتے ہیں وہاں برکتیں ہی برکتیں ہیں۔ دونوں جہاں کے خزانے وہاں موجود ہیں آج بھی وہاں جہاں آپ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں جاری وساری ہیں ۔
آپ مزمّل ہیں آپ مدثّر ہیں آپ مبشّر ہیں آپ یسین ہیں آپ طٰہٰ ہیں۔ آپ سے بڑھ کر کوئی نہیں .آپ جیسا حسن کسی کو نہیں ملا اور نہ ملے گا کوئی خلیل ہیں کوئ حسن کے پیکر ہیں کوئی ذبیح ہے تو کوئی مسیح ہے پر آپ احمد ہیں اور احمد سے پیارا کوئی نہیں آپ کی گفتار شیریں ہے آپ من کے سچّے ہیں آپ کا جسم انور لطف پیکر ہے۔ آپ سے سارا جہاں روشن ہیں اور اپ کے وسیلہ سے جہاں میں نعمتیں جاری و ساری ہیں
جس کسی کو مرے نبی سے محبت ہے اس کو حاصل ایمان ہے غلاموں میں خاص اس کی پہچان ہے آپ سیّد کونین ہیں آپ محبوب حق ہیں آپ کی عظیم شان ہیں
یہ مرے رب کا ایک راز ہے
مرے رب کی ہی آواز ہے
آپ ہیں جہاں وہیں اٹھتے ہیں سبھی ۔
آپ سے ہی زندگی کا آغاز ہے
سب کی انکھوں کا تارا ہیں .عظمت مصطفیٰ ہر طرف سایہ کئے ہوئے ہے۔ تمام صحابہ آپ کے سفیر رفیق ہیں۔
زندگی ملے گر تو مصطفیٰ کے نام پر
تھا منشا حضور کا یہ کائنات کی تخلیق تھا صدقہ رسول کا
آپ جو آئے تو اتر آیا صحیفہ رسول کا
اصل میں قرآن کا ہے قصیدہ رسول کا
میں تو ہوں مدح خواں رسول کا
آپ نور منزّہ ہیں بشر کے لباس میں
اور لقب مدثر وطٰہٰ رسول کا
اب کسی عاصی کو دھوپ کیا جلا ئیگی
ہر ایک نے پایا ہے وسیلہ رسول کا
لکھی ہے میں بے نعت تو حیراں کیوں
ازل سے عام ہے جاری چرچہ رسول کا
یہ تو حق ہے میرے رسول کی حقیقت ہے بیاں ہر ایک زمانے میں اب ہر کسی کو پتہ ملتا ہے رسول کا۔
از قلم :رفعت کنیز حنہ