WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives October 2022

نعتِ ررسولِ پاک ﷺ از قلم (مفتی) محمد کہف الوریٰ ازہر مصباحی نائب امیر راشٹریہ علما کونسل لمبنی پردیس بانکے نیپال

بہار آ گئی ہے نکھار آ گیا ہے
دل غم زدہ کو قرار آ گیا ہے

زمیں پر مسرت فلک پر تبسم
فضا میں عجب سا خمار آ گیا ہے

مبارک ہو میلاد سرور جہاں کو
جہاں میں امیں پر وقار آ گیا ہے

ندامرحباکی فرشتوں میں
گونجی
شہنشاہ روز شمار آ گیا ہے

ولادت کی صبح بہاراں جو آئی
جناں میں بھی رنگ بہار آ گیا ہے

رسول گرامی کی آمد سے ازہر
خوشا بندگی کا شعار آ گیا ہے

از قلم (مفتی) محمد کہف الوریٰ ازہر مصباحی نائب امیر راشٹریہ علما کونسل لمبنی پردیس بانکے نیپال

قلم نعت نبی لکھ دے قلم نعت نبی لکھ دے: از قلم (مفتی) محمد کہف الوریٰ ازہر مصباحی نائب امیر راشٹریہ علما کونسل لمبنی پردیس بانکے نیپال

قلم نعت نبی لکھ دے قلم نعت نبی لکھ دے
جو شان مصطفائی ہے وہی ہاں بس وہی لکھ دے
قلم نعت نبی لکھ دے قلم نعت نبی لکھ دے

مرے راقم جمال مصطفی سے آشنائی کر
وضو کر پہلے زمزم سے قلم! پھر لب کشائی کر
ثنائے مصطفی میں مصطفی کی خسروی لکھ دے
قلم نعت نبی لکھ دے قلم نعتِ نبی لکھ دے

نظیر ان کا نہیں اب تک کسی ناظر نے دیکھا ہے
حسیں ان سا نہیں اب تک کسی طائر نے دیکھا ہے
شعاع والضحی کی روح افزا رہبری لکھ دے
قلم نعت نبی لکھ دے قلم نعت نبی لکھ دے

وحی ہے نطق لا ثانی سفر معراج جسمانی
لعاب مصطفی سے کھارا میٹھا ہو گیا پانی
نگہ مازاغ ہے ان کی نظر کی پختگی لکھ دے
قلم نعت نبی لکھ دے قلم نعت نبی لکھ دے

زباں کا پر اثر خطبہ جو بخشے جنتی رتبہ
وہ انگلی جن سے ظاہر ہے خدا کی شان کا جلوہ
قدم کی رفرفی رفتار کی وہ دل کشی لکھ دے
قلم نعت نبی لکھ دے قلم نعت نبی لکھ دے

شہ کونین کی توصیف میں کیا کیا لکھے ازہر
سجایا ذکر کی رفعت کا سہرا ہے انہیں کے سر
فدائے نقش نعلینت کنم جاں کی خوشی لکھ دے
قلم نعت نبی لکھ دے قلم نعت نبی لکھ دے

از قلم (مفتی) محمد کہف الوریٰ مصباحی ازہر نائب امیر راشٹریہ علما کونسل لمبنی پردیس بانکے نیپال

حضرت محمّد عربی صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔
از: رفعت کنیز، حیدر آباد
۔۔۔۔

عرب کا قدیم دور تھا۔ اس وقت جہالت عروج پر تھی جہاں بت پرستی بہت عام تھی۔ قدیم دور میں بہت سے قبیلے ہوا کرتے تھے ۔اک بہت ہی معزز شخص قبیلہ کا سردار تھا حس کا نام قصیٰ تھا حس پر کعبہ کی ذمّہ داری تھی۔ جب قصیٰ ضعیفی کو پہنچا تو اس نے سوچا کہ اپنے بیٹے مناف کو کعبہ کی ذمّہ داری دے مگر قصیٰ کے بھائ عبد الدار پر بھی کعبہ کی ذمّہ داری تھی لیکن کعبہ کے مکمل اقتدار کے لیے ان دونوں فریقین میں جھگڑا ہونے لگا یہاں تک کہ جنگ کی نوبت آگئی ۔ پھر دونوں فریقین میں صلح ہو گئی اور قصیٰ کے بیٹے عبد مناف کے ہاتھ کچھ عہدے آئے جس کے تحت وہ حاجیوں کے آنے جانے کھانے پینے اور ان کے ٹھہرنے کے سارے انتظامات دیکھا کرتے تھے اور عبد مناف کے بیٹے ہاشم تھے آگے چل کر سارے انتظامات وہی دیکھتے رہے ہیں ۔ ہاشم ایک رحم دل انسان دردمند انسان تھے۔ انھونے مکّہ کی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کی ۔
ہاشم رومی بادشاہ سے اجازت لیکر تجارت کے لئے نکلے ہاشم اپنی دیانتداری ایمانداری کے لئے بہت مشہور تھے اور تجارت کی غرض سے ملک شام کا سفر کیا ۔وہاں انکی ملاقات سلمیٰ بنت عمرو سے ہوئی ۔سلمیٰ بہت ذہین ،خوبصورت اور معزز خاتون تھیں۔ ہاشم انکی ذہنی قوت پر اور صداقت پر قربان ہوگئے اور سلمیٰ سے شادی کا خیال ظاہر کیا .ہاشم کی بہادری اور دیانتداری کے قصّے سلمی’ نے بھی سن رکھے تھے فوراً ہاں کردیا اور دونوں کا نکاح ہو گیا۔ اس وقت رواج کے مطابق سلمی’ میکہ میں ہی رہی سلمی’ کو ایک لڑکا پیدا ہوا جو عبدالمطلب کے نام سے مشہور ہوئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے جو مکّہ کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے۔ عبدالمطلب نے حاجیوں کی سہولت کے لئے زمزم کا کنواں کھدوایا۔ عبدالمطلب کے دس بیٹے تھے عبدالمطلب نے منّت مانگی تھی کہ اگر انھیں دس بیٹے ہونگے تو وہ کسی ایک کو قربان کرینگے اس منّت کے مطابق عبدالمطلب نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے چہیتے بیٹے کو قربان کر رہے ہیں پھر تمام بیٹوں کو خواب سنایا تو تمام بیٹے قربان ہونے کے لئے راضی ہوے مگر عزیز تو عبداللہ ہی تھے اور عبداللہ کو سارے قبیلہ اور خاندان بہت محبّت کرتے تھے ان لوگوں نے عبداللہ کے بدلے اونٹنی کو فدیہ دینا چاہا اور اس کے لئے قرعہ ڈالا گیا اور اس طرح اللہ تبارک وتعالی نے سو اونٹنیوں کی قربانی کو قبول فرمایا عبداللہ کے عوض۔
پھر عبداللہ کی شادی قریش کے خاندان کی ایک نیک معزز پاک خاتون حضرت آمنہ سے ہوئی ۔ آمنہ کچھ دن میکہ میں ہی رہیں کچھ دنوں بعد عبداللہ کی حالت بگڑگئ اور وہ مدینہ میں ہی انتقال کر گئے تمام قبیلہ اور خاندان والوں کے لئے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا اور عبداللہ کی موت کا غم آمنہ اور عبدالمطلب پر پہاڑ کی طرح ٹوٹ پڑا۔
جب عبداللہ کا انتقال ہوا تو آمنہ امید سے تھیں۔حضرت محمّد صلہ اللہ علیہ وسلّم آپ کے پیٹ میں پل رہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دن اگیا
ک ہر طرف موسم بدلا ہوا تھا
صبح صادق کا وقت تھا سورج کی پرنور کرنیں ہر طرف پھیلی ہوی تھی سارے نظارے آپ صلہ اللہ علیہ وسلم کی آمدآمد کے لئے بکھرے ہوے تھے خوش گوار ماحول تھا جیسا کہ کائنات کا ہر ذرہ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہا ہو آسماں سے لیکر زمیں تک نور کی لڑیاں نظر آرہی تھیں ۔ہر کوئی بے چین اور بے تاب تھا ۔ ہر کوئی ایک دوسرے پر مہربان تھا بس کچھ ہی پل وہ سماں آگیا ،
صبح صادق کا وقت ہے دوشنبہ کا دن ہے ماہ ربیع النور ہے اور آسمان کا چاند زمین پر اترنے والا ہے پھر دیکھتے ہی دیکھتے آمنہ کی گود میں وہ نو نہال آگیا
آپ وہ حسین نو نہال ہیں کہ آمنہ کے لال ہیں
چاند جس سے شرماگیا ان کا وہ کف پا بے مثال ہیں

جسے سب نے سوچ رکھا تھا وہ خیال آگیا
بن کے عبداللہ و آمنہ کا لال آگیا

تھا رب کا ارادہ جو وہ پورا ہوگیا
محمّد کی آمد سے جہاں پر نور ہو گیا

عبدالمطلب کو ولادت کی خبر دی گئ عبدالمطلب دوڑے دوڑے آئے اور اپنے پوتے کو گود میں اٹھایا . سینہ سے لگایا. ماتھا چوما کعبہ پہونچے اور محمّد نام رکھا.
اس وقت رواج تھا کہ بچّوں کو دائیاں دودھ پلایا کرتی تھیں اور محمّد صلہ اللہ علیہ و سلم دائی حلیمہ کے حصّہ میں آئے دائی حلیمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا اور محمّد صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر لے آئیں محمّد صلہ اللہ علیہ وسلم کے قدم سے حلیمہ کے گھر میں خیروبرکت ہونے لگے پانچ سال تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم دائی حلیمہ کے گھر میں ہی رہے.پانچ سال بعد محمّد ﷺ آمنہ کے گھر پہنچا دیے گے ۔ آمنہ اپنے بیٹے کو دیکھکر بہت خوش ہوئیں اور دوسری طرف حلیمہ بہت دکھی تھیں۔ محمّد ﷺ کی جدائی پر پھر آمنہ اپنےبیٹے کو لیکر مدینہ آئیں اور وہ جگہ دکھایا جہاں عبداللہ پیاری نیند سو رہے تھے ۔
واپسی کے وقت آمنہ بیمار پڑ گئیں اور انکا انتقال ہوگیا۔ محمّد ﷺ پھر سے یتیم ہو گئے۔ ایک غم پہلے ہی تھا کہ دوسرا غم آپڑا آپ کو یتیمی کا ملال ہونے لگا آمنہ کی ایک کنیز تھیں “امّہ یمن “آپ نے محمّد ﷺ کو اپنی حفاظت میں رکھا اور محمّدﷺ دادا کے گھر مکّہ واپس بھیجادئیے گئے۔ آپ اپنے داداجان سے ملکر بلک بلک کر رونے لگے۔ عبدالمطلب کے دل میں باپ کی شفقّت ابل پڑی عبدالمطلب نے محمّد ﷺ کا پورا خیال رکھا .مگر جب محمّد ﷺ 8 سال کے تھے تو آپ کے داداجان کا بھی انتقال ہوگیا اور محمّد ﷺ اپنےچچا ابوطالب کی سرپرستی میں آگئے انھوں نے محمّد ﷺ کا پورا پورا خیال رکھا آپ جب بارہ سال کے ہوئے تو بکریاں چرانے لگے .بکریاں چرانا آپ کا محبوب مشغلہ تھا ادھر بکریاں چرتی رہتیں ادھر آپ کائنات کے پر نور نظاروں میں کھوئے رہتے تھے. آپ کے اندر متانت اور سنجیدگی تھی پاکیزگی اور پاکبازی تھی آپ شرم وحیا کے پیکر تھے ایمانداری اور دیانت داری کے لئے پوری قوم میں مشہور تھے۔

آپ نے تیر اندازی سیکھی .فن سپہ گری میں مہارت حاصل کی کئ جنگوں میں آپ نے حصّہ لیا .آپ کھلی فضا میں مگن رہتے تھے انکھیں بکریوں کی حفاظت کرتی تھیں اور آپ کی روح قدرت کے کائنات کی وسعتوں میں پرواز کرتی تھی ۔
اس طرح آپ کے شب وروز گزرتے تھے جب آپ چوبیس سال کے ہوئے تو تجارت کی طرف دھیان دینے لگے. ابو طالب کے کہنے پر آپ نے حضرت خدیجہ کی تجارت میں حصّہ داری کی
حضرت خدیجہ اونچے اور رئیس گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں آپ نے محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں تجارت کا مال دے دیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تجارت کے لئے ملک شام اور قصریٰ کا سفر کیا اور تجارت میں بہت زیادہ منافع حاصل کیا محمّد صلی اللہ علیہ و سلم تجارت کے لئے جہاں بھی جاتے وہاں سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ عجیب وغریب واقعات ہوتے رہتے تھے۔ اس تجارت میں محمّد ﷺ کے ساتھ حضرت خدیجہ کا ایک غلام “میسرہ” تھا جو ہمیشہ آپ صلہ اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہی رہتا تھا. جب آپ تجارتی سفر سے واپس آگئے تو میسرہ نے حضرت خدیجہ کو تمام واقعات اورحالات تفصیل سے سناۓ ۔ حضرت خدیجہ تجارت میں منافع اور محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کی ایمانداری سے بہت خوشی ہوئیں اور محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کے خیالوں میں ہی رہنے لگیں ۔ہر کسی سے محمّد ﷺ کا ذکر کرتی تھیں پھر حضرت خدیجہ کی خواہش پر محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کی شادی حضرت خدیجہ سے ہوگئی اس وقت محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر 25 پچیس سال تھی اور حضرت خدیجہ کی عمر 40 سال تھی۔

اس کے کچھ سالوں بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آنے لگی محمّد صلی اللہ علیہ و سلم کو دین کے کام کے لئے اللہ تعلیٰ کی طرف سے پیغام آنے لگا آپ پر آسمان سے وحی آنے کا سلسلہ شروع ہونے لگا آسمان سے جبرئیل نامی فرشتہ آتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نیا پیغام سناتا۔ وحی کے ذریعہ سے قراَنی  ایت اترتی رہتی تھی . ان آیتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی تعلیم دی جاتی تھی ۔کفر اور شرک کو مٹانے کی تاکید کی جاتی تھی .قوم کو راہ راست پر لانے کی تلقین کی جاتی تھی ۔محمّد صلہ اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو ہر فرمان کو اپنی قوم تک پہنچانا شروع کر دیا  .جو لوگ آپ سے محبت کرتے تھے وہ اللہ تعلیٰ پر ایمان لاتے تھے اور  آپ کے ہر فرمان کو مانتے تھے  اور جو آپ کے مخالف تھے وہ کئ طریقوں سے آپ صلہ اللہ علیہ و سلم کو پریشان کرتے تھے آپ کے اس دینی مشن میں آپ کو کئ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت خدیجہ نے اس کام میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بہت مدد کی  اور کچھ معزز اشخاص جن کو ہم صحابہ کہتے ہیں انھوں نے بھی بہت مدد کی ‌۔کئ جنگیں بھی ہوئیں ، قبیلوں میں نااتفاقی اور ناراضگی بڑھتی گئ .محمّد صلی اللہ علیہ و سلم  اللہ تعالیٰ کے فرمان کو لوگوں تک برابر پہنچاتے رہے .حق کی صدا دیتے رہے .یہ تو حالات زندگی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حقیقت اور بھی بیان ہوتی ہے. آپ دونوں عالم کے لئے رحمت ہیں .بےکسوں، بےبسوں کا سہارا ہیں ،  آپ کے اشارے پر  چاند دو ٹکڑے ہوتا ہے سورج پلٹ آتا ہے پتھر ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔آپ کی انگلیوں سے چشمۂ آب جاری ہوجاتے ہیں آپ کے دہن مبارک سے بیمار کو شفاء ملتی ہے ہر کوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم میں محفوظ ہونے لگتا ہے آپ صلی  اللہ علیہ وسلم سے جو بھی ملتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر فدا ہو جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس امانتیں محفوظ رہتی ہیں

دونوں عالم میں چرچا ہے محمّد کا. اُدھر اسماں میں ادھر زمیں. ازل سے ابد تک آپ ہیں دونوں عالم کے وجود میں آپ ہیں آپ رحمت عالم ہیں آپ ہیں محبوب خدا وند۔ ہر جگہ آپ ہی کا نظارا ہے. آپ ساری مخلوق کا سہارا ہیں ۔ یہ تو قرآن کا بھی اشارا ہے ہم عاصیوں نے بھی آپ کو پکارا ہے زمین پر رہ کر عرش تک رسائ ہے یہ وہ راز ہے جو آج تک کوئ سمجھ نہیں پایا.آپ دونوں عالم میں موجود ہیں کیا بتائیں اس جہاں کو کہ کتنی عظمت ہے آپ کی ہر دور میں آپ کے ہی چاہنے والے ہیں آپ احد و طائف کے میدان میں ہیں ۔ آپکا فضل ہر طرف ہے حوض کوثر پر بھی اور میزان پر بھی ۔آپ ہیں ہر دل کے قرار ۔آپ امیروں کے آقا ہیں غریبوں کے داتا ہیں۔ صرف یہی نہی بلکہ آپ جس شہر میں رہتے ہیں وہاں برکتیں ہی برکتیں ہیں۔ دونوں جہاں کے خزانے وہاں موجود ہیں آج بھی وہاں جہاں آپ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں جاری وساری ہیں ۔
آپ مزمّل ہیں آپ مدثّر ہیں آپ مبشّر ہیں آپ یسین ہیں آپ طٰہٰ ہیں۔ آپ سے بڑھ کر کوئی نہیں .آپ جیسا حسن کسی کو نہیں ملا اور نہ ملے گا کوئی خلیل ہیں کوئ حسن کے پیکر ہیں کوئی ذبیح ہے تو کوئی مسیح ہے پر آپ احمد ہیں اور احمد سے پیارا کوئی نہیں آپ کی گفتار شیریں ہے آپ من کے سچّے ہیں آپ کا جسم انور لطف پیکر ہے۔ آپ سے سارا جہاں روشن ہیں اور اپ کے وسیلہ سے جہاں میں نعمتیں جاری و ساری ہیں
جس کسی کو مرے نبی سے محبت ہے اس کو حاصل ایمان ہے غلاموں میں خاص اس کی پہچان ہے آپ سیّد کونین ہیں آپ محبوب حق ہیں آپ کی عظیم شان ہیں
یہ مرے رب کا ایک راز ہے
مرے رب کی ہی آواز ہے
آپ ہیں جہاں وہیں اٹھتے ہیں سبھی ۔
آپ سے ہی زندگی کا آغاز ہے
سب کی انکھوں کا تارا ہیں .عظمت مصطفیٰ ہر طرف سایہ کئے ہوئے ہے۔ تمام صحابہ آپ کے سفیر رفیق ہیں۔

زندگی ملے گر تو مصطفیٰ کے نام پر
تھا منشا حضور کا یہ کائنات کی تخلیق تھا صدقہ رسول کا
آپ جو آئے تو اتر آیا صحیفہ رسول کا
اصل میں قرآن کا ہے قصیدہ رسول کا
میں تو ہوں مدح خواں رسول کا
آپ نور منزّہ ہیں بشر کے لباس میں
اور لقب مدثر وطٰہٰ رسول کا

اب کسی عاصی کو دھوپ کیا جلا ئیگی 

ہر ایک نے پایا ہے وسیلہ رسول کا
لکھی ہے میں بے نعت تو حیراں کیوں
ازل سے عام ہے جاری چرچہ رسول کا
یہ تو حق ہے میرے رسول کی حقیقت ہے بیاں ہر ایک زمانے میں اب ہر کسی کو پتہ ملتا ہے رسول کا۔

      از قلم :رفعت کنیز حنہ

” تحصیل گجرات کے خانقاہی نظام کے اثرات ” مختصر جائزہ : تحریر و تبصرہ : شیخ عبدالرشید

             کہتے ہیں کہ کسی بزرگ کے پاس  سے ایک جنازہ گذر رہا تھا ، بزرگ اس مرنے والے پر بہت افسوس کرکے رونے لگے کسی نے ان سے رونے کا سبب پو چھا تو انہوں نے ایک سرد آہ کھینچی اور فرمانے لگے کہ افسوس جیسا آیا تھا ویسا ہی چلا گیا ،مرنے والا اپنے اندر ایک بڑا خزانہ لایا تھا مگر زندگی میں اس کو کبھی کھول کر  نہ دیکھ سکا کہ اس میں کیا کچھ پوشیدہ رکھا ہوا ہے. یونہی اس پُرے کو کھولے بغیر جوں کا توں اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہے ۔اسکی حالت پر افسوس کر کے رورہا ہوں کہ خود شناسی کے بغیر ہی چلا گیا. اس کے برعکس  سالک ( خدا کی تلاش میں نکلا ہوا) کے لیے دل کی بند کلی کھِل کر پھول بن جاتی ہے اس کا دل ہی اس کے حق میں سدا بہار گلزار بن جاتا ہے اسی قدر بصارت نورِ فراست سے مشرف ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسم فرشی ہے اور خاک سے پیدا ہوا ہے اور خاک کے ذروں سے اس کی پرورش اور تندرستی کا انتظام ہے لیکن قلب عرشی ہے اس کی غذا بھی عرش ہی سے مل سکتی ہے اور وہ تعلق مع اللہ ( اللہ تعالیٰ کے ساتھ گہرا تعلق) اور ذکر وفکر سے ایک نور پیدا ہوتا ہے جس کو معرفتِ خداوندی کہتے ہیں۔اس نور کے چمکنے کا نام شرحِ صدر ہے یہ شیخ کی صحیح رہنمائی  و تربیت سے حاصل ہوتا ہے. اس تربیت گاہ کو خانقاہ کہتے ہیں کیونکہ یہ شیخ کی جائے قیام ہوتی ہے . 
         جس طرح تعلیم کیلئے مدرسہ ضروری ہے ،عمل کیلئے مسجد ضروری ہے اور اسی طرح باطنی تربیت کیلئے خانقاہ ضروری ہے  ۔اہل اللہ کی تربیت سے لوگوں کے پاس قلب قلبِ سلیم بنتا ہے ۔ مولانا رومؒ  نے فرمایا تھا کہ

قطرہ نوری سراپا نور با ش بگذار کود ائما مسرور باش

یعنی نور کا قطرہ ہے سراپا نور بن جا, اپنی ہستی کو مٹادے اور غیر اللہ کے وجود کا موہوم شائبہ تک نہ ہو اور ہمیشہ خوش رہ ۔
طریقت نام ہی ان طریقوں کا ہے جو شریعت کے ذریعے بندے کو خالق سے جوڑ دیں ۔بزرگوں نے شریعت ، طریقت اور حقیقت کی مثال یوں بیان کی ہے کہ بادام کے اندر تین چیزیں ہوتی ہیں پوست، مغز اور روغن یہ تینوں ایک دوسرے سے جدا نہیں بلکہ ایک دوسرے کا خلاصہ ہیں پوست کا خلاصہ مغز ہے اور مغز کا خلاصہ روغن اسی طرح شریعت کا خلاصہ طریقت اور طریقت کا خلاصہ حقیقت ہے ۔مولانا روم فرماتے ہیں ۔
آئینہ ہستی چہ باشد نیستی نیستی بگزیں گر ابلہ نیستی

    ایک آئینہ ہستی کا ہو تا ہے اور وہ کیا ہے نیستی۔ اگر تو بے وقوف نہیں ہے تو نیستی کو اختیار کر کہ مراد اس سے فنا ہے جب اپنے کو فنا کر ے تواپنی ہستی کو مٹا کر بقا حاصل کر نے کا درس صرف بزرگوں سے ہی حاصل ہو تا ہے ۔اگر مرض شدیدہو تا ہے تو شفا خانے میں داخل ہو نا پڑتا ہے ۔یہی حال روحانی امراض کا بھی ہے کہ اس کے لئے بھی شفا خانے ہیں اور وہ یہی بزرگوں کی خانقاہ ہے۔ خانقاہی نظام مسلمانوں کی تاریخ کا شاندار باب رہا  ہے. مولانا محمد ادریس کاندھلوی اپنی کتاب  ”سیرۃ المصطفیٰ“ میں لکھتے ہیں کہ  صفہ اصل میں سائبان اور سایہ دار جگہ کو کہتے ہیں۔ وہ ضعفاء مسلمین فقراء شاکرین جو اپنے فقر پر فقط صابر ہی نہ تھے بلکہ امراء و اغنیاء سے زیادہ شاکر و مسرور تھے جب احادیث قدسیہ اور کلمات نبویہ سننے کی غرض سے بارگاہ نبوت و رسالت میں حاضر ہوتے تو یہاں پڑے رہتے تھے ، لوگ ان حضرات کو اصحاب صفہ کے نام سے یاد کرتے تھے ۔ گویا یہ اس بشیر و نذیر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ”خانقاہ “تھی جس نے باہزار رضاء و رغبت فقر کو دنیا کی سلطنت پر ترجیح دی" اور پھر  خواجہ عبیداللہ احرار رحمہ اللہ ”طبقات صوفیاء“ میں لکھتے ہیں : دوسری صدی ہجری زمانہ تابعین میں حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کے ہم عصر شیخ ابو ہاشم رحمہ اللہ کےلیے ذکر و شغل اور تعلیم و تزکیہ و سلوک کے واسطے باقاعدہ ”خانقاہ “کے نام سے مکان کی بنیاد رکھی گئی۔" تاریخ سے عیاں ہے کہ خلفائے راشدین کے عہد میں مدارس کی تدریس تعلیم و تربیت دونوں پر مشتمل رہی لیکن آہستہ آہستہ یہ سلسلہ معدوم ہونے لگا تو صوفیاء نے خانقاہوں کے ذریعے باطنی تعلیم و تربیت دینا شروع کر دی . 
   برصغیر پاک و ہند میں بھی خانقاہی نظام نےیہاں کی تہذیبی ، سماجی ، سیاسی ،معاشی اور اخلاقی اقدار پر گہرے اثرات مرتب کیے.اپنی اصل صورت میں یہ نظام یہاں خوب پھلا پھولا۔ پھر وقت گذرنے کے ساتھ یہ نظامِ تعلیم و تربیت تنزل کا شکار ہوا بلکہ تاحال اس زوال کا شکار ہے. اندرونی خرافات سے شروع ہونے والی تباہی میں شدت انگریزوں نے اپنے عہد میں  خانقاہ کی سربراہی کو وراثت کے قانون سے جوڑ کر پیدا کی. انگریزوں نے کمال عیاری کے ساتھ وراثت کے قانون کے تحت خانقاہ کی سربراہی کو ولی اللہ کے وصال کے بعد اس کے اصل روحانی وارث  کسی اہل و کامل کی بجائے اس کے فرزند کے سپرد کر دیا خواہ و اس کا اہل ہو یا نہ ہو . اس موروثی سجادہ نشینی نے گدی نشینی کے جھگڑوں کو جنم دیا اور پھر روحانیت کاروبار میں بدلنے لگی ، جاہل مریدوں نے شخصیت پرستی اور اندھی تقلید سے موروثی طور پر مسلط  گدی نشینوں کے ہر فعل کو اپنے لیے ولی کی ایمانی ادا سمجھنا شروع کر دیا. چڑھاوے اور نذرانے غالب آئے تو خانقاہ سے وابستہ معاشی مفادات نے کاروباری حرکیات سے مستفید ہونا شروع کر دیا اور پھر روح سے محروم ہوتے  اس خانقاہی نظام پر سوال اور انگلیاں اٹھنے لگیں جنہوں  نے اس کے خلاف محآذ قائم کر لیا اور مبالغات و خرافات کی مذمت کی بجائے خانقاہی نظام کو ہی  غیر اسلامی ،غیر اخلاقی اور غیر انسانی قرار دیا جانے لگآ. قبر پرست عقیدتمندوں اور ناقدین میں کشمکش بڑھتی جا رہی ہے. حتیٰ کہ امن کے مبلغین کی خانقاہیں بھی شدت پسندوں کے نشانے پر آگئ ہیں ۔ 

وقت اور مناقشوں نے نئے تقاضوں کو جنم دیا تو مذکورہ بالا بدلتے تناظر میں دردمند دل رکھنے والے کئ مصلح مزاج علمائے دین نے خانقاہی نظام کی مٹتی حقیقتوں کا ناقدانہ جائزہ لینا شروع کیا. ایسے ہی اصلاحی مقاصد سے اس نظام کے مستقبل کے لیے تجاویز پیش کر کے بریلوی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے علامہ ڈاکٹر محمد رضا المصطفیٰ نے روحِ عصر کی ترجمانی کی اور خلوص نیت سے خانقاہی نظام کے اثرات کو اپنی تحقیق و تحریر کا موضوع بنایا اور اس طرح قلمی محاذ پر خانقاہی نظام کے عقیدے کے تحفظ بلکہ نشاۃِثانیہ کے لیے سرگرم ہوئے. خانقاہی نظام کے وسیع موضوع کے تحصیل گجرات کے دائرے کو محور تحقیق بنایا اس پر ایم فل کی ڈگری حاصل کی اور اب اس مقالے کو مفاد عامہ کے لیے کتابی صورت میں
” تحصیل گجرات کے خانقاہی نظام کے اثرات : (اایک تحقیقی ،تنقیدی و شماریاتی جائزہ” کے نام سے تزکیہ پبلی کیشنز کڑیانوالہ کی جانب سے شائع کیا ہے.
میری خوش بختی کہ مصنف نے کتاب کی تقریب رونمائ میں مجھے شریک کیا اور محبت سے کتاب پیش کی . ڈاکٹر محمد رضا المصطفیٰ متوازن خیال کے درویش منش مذہبی عالم ہیں اور درس و تدریس سے وابستہ ہیں. ایک مؤثر مقرر کی حیثیت سے ان کے بیان کا محور اصلاح معاشرہ اور حُسن معاشرت ہوتا ہے. انکی پہلی کتاب بھی اس فکر اور تاثر کی حامل ہے.
ان کی کتاب 260 صفحات پر محیط ہے جس کا انتساب انہوں نے اپنے والد مکرم ممتاز عالم دین علامہ حافظ مشتاق احمد جلالی اور والدہ محترمہ کے نام کیا ہے. ابتداء میں اظہار تشکر میں انہوں نے اپنے علمی و تحقیقی سفر میں اپنی رفیقہ حیات امِ طلحہ کے مالی ایثار کی روشن اور قابل تحسین مثال کا ذکر بڑے کھلے دل اور اعلیٰ ظرفی سے کر کے اپنی وسعت نظری و قلبی کا اظہار کیا ہے.پہلے 19 صفحات 11 اصحاب الرائے قلمکاروں کی تقاریظ و تاثرات پر مبنی ہیں. اس کے بعد کتاب کے موضوع کے تعارف ، تحقیقی اصولوں اور ناقدانہ جائزے کے اجمالی خاکے کی وضاحت و مقاصد کے لیے 6 صفحات پر مشتمل مقدمہ رقم کیا گیا ہے. صفحہ 36 سے شروع ہو کر صفحہ 151 تک پھیلے باب اوّل میں خانقاہی نظام کی لغوی و لسانی معنویت ، تاریخی ارتقاء اور خانقاہی نظام کی سرگرمیوں کا جامع تذکرہ ہے ، اسی باب کے آخری حصے میں بڑی مہارت سے امام احمد رضا خان بریلوی اور اصلاح خانقاہی نظام کے عنوان سے خانقاہی نظام میں پائ جانے والی خرافات کا ایکسرے پیش کیا ہے. ان سطور میں مصنف نے مدعائے تحقیق کو بین السطور پیش کر دیا ہے. باب دوئم جو صفحہ 152 سے 229 تک ہے جس میں مصنف نے تحصیل گجرات کی 46 خانقاہوں پر کیے جانے والے تحقیقی سروے کا ماحصل خانقاہی نظام کے روحانی ،تبلیغی ، علمی ، سماجی ، معاشی اور سیاسی اثرات کا شماریاتی تجزیہ پیش کیا ہے. اہم بات یہ ہے کہ سوالنامہ کے جوابوں پر مبنی سروے رپورٹ کو شمارتی جدول بنا کر واضح کیا گیا . قاری کی سہولت کے لیے اگلے 20 صفحات میں کتاب کا خلاصہ نتائج بحث کے عنوان سے بیان کیا ہے. جس میں اس نظام کے محاسن اور اصلاح طلب پہلووں پر روشنی ڈالی گئ ہے.آخر میں تجاویز و سفارشات کے عنوان کے تحت اقرار کیا گیا ہے کہ یہ خانقاہیں آج تربیت کے نصب العین سے دور نظر آتی ہیں جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے. مزارات پر لائبریوں کے قیام ، خانقاہوں پر موجود شیوخ کے قلمی نسخے اور مخظوطے پڑے ہیں جو وقت کے جبر کی وجہ سے خراب ہو کر معدوم ہوتے جا رہے ہیں ان مخطوطوں پر کام کرنے کی ترغیب دینے کی تجویز ہے.خانقاہوں کے بانیوں کی سیرت و ملفوظات پر کتب کی اشاعت کی کمی کو دور کرنے کی سعی کرنا ہو گی .مزارات اور گنبدوں کی جدید تعمیر پر اسراف کی بجائے خانقاہی نظام کی بقا کے لیے علمی و تحقیقی کام کی سرپرستی کی مثبت تجویز دی گئ ہے..ایسی بہت سی قابل عمل تجاویز پیش کی گئ ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر خانقاہی نظام کی برکات و فیوض کو عام کیا جا سکتا ہے. آخر میں تحقیق کے مصادر و مراجع کی فہرست بھی دی گئ ہے .
ڈاکٹر محمد رضا المصطفیٰ نے خانقاہی نظام کو تحقیق و تنقید کی سان پر چڑھا کر اس کی اصلاح و بہتری کے لیے کارِ خیر انجام دیا جس پر وہ مبارکباد اور تحسین کے مستحق ہیں. ان کی کتاب کی ورق گردانی شاہد ہے کہ صوفیاء کی خانقاہیں ہمیشہ سے ﷲ کے بندوں کی داد رسی ، تربیت ، تعلیم اور ذکر و فکر کا مرکز رہی ہیں جہاں سے لاتعداد تشنگان معرفت فیض یاب ہوئے اور بہت سے گم گشتہ راہیوں کو محبت الہٰی کی منزل کا سراغ ملا ، بدقسمتی یہ رہی کہ خانقاہیت قبر پرستی ، شخصیت پرستی اور موروثیت کی بھینٹ چڑھ گئ اور فیض رساں نظام خرافات کی بدولت دین و دانش سے وابستہ افراد کی تنقید کی نذر ہونے لگا ہے. اس نظام کو اصلاحات کی توانائ سے ہی پھر سے روحانی تربیت کا منبع بنایا جا سکتا .یہ کتاب اس حوالے سے جراتمندانہ تحیقیق اور خیال افروز تحریر کا قابل تحسین امتزاج ہے .

28 ویں دو روزہ عــــرس قـــــدوســــی کی بہـــــاریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیش کش۔۔۔۔۔۔سید خادم رسول قدوسی عینی۔۔۔۔۔ناظم نشر و اشاعت۔۔۔۔خانقاہ قدوسیہ ، بھدرک شریف ، اڈیشا


۔۔۔۔۔۔۔پہلا دن ۔۔۔۔۔۔۔
گل گلزار سید السادات ، خلیفۂ اجل مجاہد ملت ، امین شریعت ، کثیر الدروس حضرت العلام سید عبد القدوس المعروف بہ مفتی اعظم اڈیشا علیہم الرحمہ کا ۲۸ واں سالانہ
۔۔۔۔“عرس قدوسی” ۔۔۔۔
حسب اعلان 3و4 ربیع النور1444 ھج مطابق 30 اور یکم اکتوبر 2022 کو 28 واں عرس قدوسی انتہائی تزک و احتشام اور عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا۔
جس میں ملک کے متعدد صوبوں کے ہزاروں عقیدت مندوں نے شرکت کی اور صاحب عرس کے روحانی فیوض و برکات سے مالامال ہوئے۔
حسب پروگرام 30 ویں ستمبر کو بعد نماز جمعہ
۔۔۔۔۔قدوسی پرچم کشائی ۔۔۔۔۔
کی رسم صاحب سجادہ شیر اہل سنت حضرت علامہ مفتی سید آل رسول حبیبی ہاشمی کے ہاتھوں ادا کی گئی۔ مگر حضرت نے بغداد شریف کے جید عالم دین حضرت شیخ خالد ناجی حسینی صاحب قبلہ اور ملک یمن کے بزرگ علامہ ڈاکٹر حمید بن مسعد وغیرہ کو اپنے ہمراہ لیکر نعروں کی جھنکار میں پرچم کشائی فرمائی ، جس سے حاضرین میں نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا ۔
پھر حضور شیر اہل سنت کی ہمراہی میں علما اور عوام کا کثیر التعداد قافلہ “بیت القدس” کے دوسرے منزلے کے ” قــــدوســـی وضـــو خــــانہ” کا افتتاح کے لئے چل پڑا ، اور وضو خانہ پہنچا ، وضو خانے کے زیب و زینت کو دیکھ کر نشاط و طرب سے لوگوں کے دل جھوم اٹھے اس کے بعد حضور شیر اہل سنت ، حضرت خالد ناجی حسینی بغداد شریف ، حضرت علامہ ڈاکٹر حمید بن مسعد یمن شریف ، ناصر ملت الحاج سید عطا محی الدین قدوسی حبیبی بھدرک شریف ، عزیز العلما حضرت علامہ سید عرف رسول قدوسی ازہری ، حضرت مولانا حافظ وقاری فیضان احمد قادری خطیب و امام بیت القدس ، حضرت مولانا حافظ محمد ندیم قدوسی (مٹیا برج کولکاتا) نے وضو کرکے اس کا افتتاح فرمایا –
پھر یہ نورانی قافلہ روضہائے مفتی اعظم اڈیشا ومحمودۂ اہل سنت میں حاضر ہوا کہ ان دونوں قبروں کی درمیانی جگہ کو گوشۂ درود قرار دیا گیاہے اسی کا افتتاح کرنا ہے
وہاں پہنچنے کے حضور شیر اہل سنت نے بلند آواز میں آیت درود تلاوت کی پھر سب سے پہلے درود قدوسیہ کا ورد فضیلۃ الشیخ نقیب الاشراف حضرت علامہ شیخ خالد ناجی ( بغداد شریف )نے کیا اور دعا فضیلۃ الشیخ علامہ ڈاکٹر حمید بن مسعد یمنی نے فرمائی
اس کا عمدہ تر اہتمام عزیز العلما حضرت علامہ سید عرف رسول قدوسی ازہری نے کیا فجزاھم خیر الجزا
پھر بعد نماز عصر فاتحۂ توشہ شریف ہوئی جس میں اراکین عرس کمیٹی خانقاہ قدوسیہ ،الجامعة القدوسیہ کے اساتذہ و طلبا اور بیرونی زائرین نے خصوصیت کے ساتھ شرکت کی اور غوث اعظم کے نام کا بیش قیمت حلوہ تناول فرمایا
فاتحہ سے پہلے حضرت مولانا حافظ و قاری فیضان احمد قادری نے مختصر خطاب فرمایا جس میں فاتحۂ توشہ کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
یہ توشہ مقبول و محبوب ہے ، جس نیت سے اس کا اہتمام ہوگا اسی میں اسے ضرور کامیابی ہوگی ان شاء اللہ انہوں نے مزید
فرمایا کہ
اس کے حلوے میں ڈالی جانے والی اشیا کی مقدار اور متعدد وظائف کی تعداد ہی متعین نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ اس حلوے کو سب سے پہلے ہاشمی سادات میں سے کوئی تناول کرے پھر اس کا جھوٹا سب لوگ استعمال کریں کہ ایسا کرنے پر اس کی مقبولیت پکی ہو جاتی ہے۔
پھر بعد نماز مغرب یمن شریف سے آئے ہوئے بزرگ حضرت علامہ ڈاکٹر حمیدبن مسعد نے یمنی طرز پر لا إله إلا اللہ کی ضرب لگائی ،مجمع نے آپ کا بھر پور ساتھ دیا ، رب اکبر کا اسم مبارک جب ایک ساتھ گونجتا تھا تو اس کی کیفیت بڑی روحانی ہوجاتی تھی
اس کا نورانی دور تقریبا چالیس منٹ جاری رہا، ٹھیک سوا سات بجے حضرت محمودۂ اہل سنت والدۂ شیر اہل سنت قدس سرہ کا قل شریف ہوا،
بعدہ عزیز العلما حضرت علامہ حافظ سید عرف رسول قدوسی ازہری نے تلاوت قرآن پاک سے جلسے کا آغاز فرمایا پھر مشہور شاعر و نعت خواں حضرت مولانا حافظ عمران مظہر برکاتی، ملک گیر شہرت یافتہ شاعر و نعت خواں ندیم رضا فیضی اور درباری شاعر حضرت پیر محمد قدوسی شیدا بھدرکی نے گلہائے نعت ومنقبت پیش کئے
حضرت علامہ شاہنواز ازہری (پر تاب گڈھ)نے مختصر مگر جامع خطاب فرمایا بعدہ حضور شیر اہل سنت نےپر جوش لہجے میں تعارفی خطبہ پیش کیا بعدہ شہزادۂ رئیس ملت حضرت علامہ سید جامی اشرف اشرفی نے عمدہ تقریر سے سرفراز کیا
پھر فقیہ النفس حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمن مضطر نے تاثراتی خطبہ ارشاد فرمایا
آپ نے خانقاہ کے دار الإفتا اور دار القضا کے زیب و زینت کو دیکھ کر فرمایا کہ
“جدید انداز تعمیر ، کتابوں کی نرالی سج دھج اور اس کا حسن انتظام جاذب نظر اور مؤثر کن ہے ، شاید پورے صوبہ اڈیشا میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا دار الإفتا ہے”
اجلاس کا اختتام تقریبا بارہ بجے شب حضرت نقیب الاشراف بغدادی کی دعاؤں پر ہوا –
شہزادۂ فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی ازہار احمد امجدی ، نبیرۂ رئیس القلم حضرت علامہ محمود غازی ازھری (دہلی )حضرت مولینا حافظ ندیم قدوسی کولکاتا نے اپنی شرکت سے زینت بخشی –
حضرت مولانا مظہر برکاتی بریلوی نے نقابت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیئے بعد جلسہ تمام شرکا نے لنگر قدوسیہ سے عشائیہ تناول فرمایا۔
پہلے روز کا پروگرام تمام ہوا
۔۔۔۔۔۔ پیش کش۔۔۔۔۔۔
سید خادم رسول قدوسی عینی
۔۔۔۔۔ناظم نشر و اشاعت۔۔۔۔
خانقاہ قدوسیہ ، بھدرک شریف ، اڈیشا

پی،ایف، آئی پر حکومتی پابندی:ایک مختصر تجزیہ!. از:(مولانا)جمال اختر صدف گونڈوی

پچھلے دنوں(28ستمبر) پاپلر فرنٹ آف انڈیا کو اس لیے بین کر دیا گیا کہ وہ ملک دشمن سیاسی جماعت ہے،
28 ستمبر کو پانچ سال کے لئے یو اے پی ا ے جیسی سخت ترین دفع کے تحت بین کرنے کے بعد سرکاری مشینری الزام کے شواھد جمع کرنے میں مشغول ہو گئی-
سوال اس بات کا نہیں کہ پی،ایف،آئی کیوں بین کی گئ،
سوال اس بات کا ہے کہ پی ایف آئی ہی کیوں بین کی گئ؟
کیا اس طرز پرچلنے والی درجنوں جعفرانی تنظیموں پر کسی نے کاروائی کی؟
جس نے ملک کی سالمیت کے لئے بار بار خطرات پیدا کئے، جس نے مشتعل نعروں سے لوگوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کی،بستیاں جلا دی گئیں ،گھر اجاڑ دییے گیے،
دہشت گردی کی تعریف یہ ہے کہ کوئی بھی انسان کسی بھی انسان کو ڈرا دھمکا کر اسکا مال لوٹ لے،اس کے مکان جلا دے، اس پر لاٹھیاں برسائے یہ سب کے سب افعال دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں،
دہشت گرد چاہے ملک کے باہر کا ہو یا ملک کے اندر کا، دونوں سے خطرہ ہے، اور حکومت دونوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو قانون میں طے پایا گیا ہے،
لیکن ایک ہی جرم کی دو الگ الگ سزائیں کہیں نہ کہیں مخصوص لوگوں میں خوف پیدا کرنے کی ایک سازش و پہل ہے،
میں پی،ایف،آئی کے بارے میں اتنا نہیں جانتا جتنا حکومت جانتی ہے،
لیکن صرف پی ایف آئی ہی پر پابندی لگاکر کہیں انتخابی سفر کی تیاری کا ایک حصہ تو نہیں،

پی،ایف،آئی ایک حساس تنظیم تھی،ہمیشہ مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتی تھی،خاص طور پر حکومت سے اپنے مطالبات و حقوق کے لئے احتجاج میں پیش پیش رہتی تھی،
تعلیم کے میدان میں مسلم نوجوانوں کی رہنمائی کرتی تھی،
یہ سب کام چھوڑ کر کب دہشتگردی میں مبتلا ہو گئی مجھے پتہ نہیں،
قصورواروں کو قانون سزا دے ،لیکن قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہییے، چاہے وہ پی،ایف،آئی ہو یا آر،ایس،ایس یا دیگر تنظیمیں، جو قانون کے خلاف کام کر رہی ہیں،یاکریں سب کو بین کرنا چاہئے ،
صرف پی،ایف،آئی ہی پر پابندی کیوں؟
اس طرز پر چلنے والی تمام جعفرانی تنظیموں پر بھی پابندی عائد ہونی چاہییے
دو مراحل کی ملک گیر چھاپہ ماری اور 240 سے زیادہ افراد کی گرفتاری کے بعد مرکز نے پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) پر 5 سال کے لیے پابندی عائد کر دی۔
اور الزام یہ کہ پی ایف آئی اور اس سے وابستہ تنظیموں یا محاذوں کو دہشتگردی میں شامل ہونے کی وجہ سے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت فوری طور پر ’کالعدم تنظیمیں‘ قرار دیا گیا ہے۔

حکومت نے پی ایف آئی پرسیمی ،جماعت المجاہدین بنگلہ دیش (جے ایم بی) اور اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا (آئی ایس آئی ایس) کے ساتھ روابط کا حوالہ دیتے ہوئے پابندی عائد کی ہے۔ آل انڈیا امام کونسل سمیت 8 دیگر تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی کی گئی نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پی ایف آئی اور اس سے وابستہ ادارے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں جو کہ ’ملک کی سالمیت، خودمختاری اور سلامتی کے لیے نقصان دہ ہیں‘ اور ان مین نظم و نسق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی صلاحیت ہے۔نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ایف آئی اور اس سے وابستہ ادارے سماجی، اقتصادی، تعلیمی اور سیاسی تنظیم کے طور پر کام کرتے ہیں لیکن وہ معاشرے کے ایک خاص طبقے کو بنیاد پرست بنانے کے خفیہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔خیال رہے کہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کی تشکیل 17 فروری 2007 کو جنوبی ہندوستان میں تین مسلم تنظیموں کے انضمام سے ہوئی تھی۔ پی ایف آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ 23 ریاستوں میں سرگرم ہے۔
پاپلر فرنٹ آف انڈیا کو اس لئے بین کر دیا گیا کہ وہ ملک دشمن سیاسی جماعت ہے-

“میلاد مصطفی کتب سماوی کی روشنی میں”✒️ تلمیذ محدث کبیر خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خادم ۔۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال..7030786828


یجدونہ مکتوباً عندھم فی التوراۃ والانجیل (سورہ اعراف) اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کو سید المرسلین و رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا آپ کی خاطر تمام کائنات منصہ وجود پر آئے آپ کی وساطت بابرکت سے تمام انبیاء کرام خلعت نبوت سے سرفراز ہوئے تمام انبیاء کرام سے آپ پر ایمان لانے اور مدد کرنے کا میثاق لیا گیا و اذ اخذ اللہ میثاق(سورہ آل عمران) اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت تمام انبیاء کرام کی مسلم و تصدیق شدہ حقیقت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سردار انبیاء اور نبئ آخر الزماں ہیں اور آپ کی سیادت اور خاتم النبیین کی نبوت کا سکہ تمام انبیاء کرام
کے مقدس گروہ پر چلتا ہے حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وسیلہ سے دربار الہی میں اپنی خطا کی معافی مانگی اور ان کا توبہ قبول ہوا
۔۔قرآن مجید برھان رشید–
( 1) حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی دعا
ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یا اللہ ! میری اولاد میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو لوگوں کو تیری آتیں پڑھ کر سنائے ان کے نفس کا تزکیہ کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے.. یہ تھی دعائے خلیل جو رسول اللہ صلی اللہ کی بعثت کی صورت پوری ہوئ نیز اس میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی بھی شرکت تھی حدیث نبوی میں اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسی علیہ السلام کی بشارت ہوں (المستدرک للحاکم جلد 2)
۔۔تورات شریف۔۔
(2) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بشارت : – حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے مخاطب ہیں خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر آشکارا ہوا اور کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا دس ہزار قدسیوں کے ساتھ اس داہنے ہاتھ میں ان کیلئے آتش شریعت تھی وہ بیشک اپنی قوم سے محبت رکھتا ہے.. اس میں موسی علیہ السلام نے تین انبیاء کرام کی پیشن گوئی فرمائ آن میں سے ایک خود جنہیں حق کا جلوہ
سینا نظر آیا دوسرے حضرت عیسٰی علیہ السلام جنہیں یہ شرف سعیر کے قرب و جوار میں حاصل ہوا تیسرے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سید المرسلین جو فاران سے جلوہ افروز ہوا اور اس کے جگمانے سے مراد قرآن کریم کا نزول ہے
اور دس ہزار قدسیوں سے مراد دس ہزار مقدس صحابہ کرام ہیں جو اس فاران سے آنے والے نورانی پیکر کے ساتھ شہر خلیل میں داخل ہوئے اور آتشین شریعت سے مراد اشدآء علی الکفار اور محبت سے مراد رحمآء بینھم ہے اس طرح سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بشارت پوری ہوئ
۔۔زبور شریف۔۔
( 3) حضرت عیسٰی علیہ السلام کی بشارت :- حضرت عیسٰی علیہ السلام نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بشارت نہایت صاف اور صریح لفظوں میں دی ہے ترجمہ اور جب عیسی علیہ السلام نے کہا کہ بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں اور جو مجھ سے پہلے جو تورات آئ ہے اسکی تصدیق کرتا ہوں اور اپنے بعد احمد نام کا ایک پیغمبر کی خوش خبری لے کر آیا ہوں
۔۔انجیل شریف۔۔
( 4) حضرت داؤد علیہ السلام کی بشارت
حضرت داؤد علیہ السلام کی بشارت اس طرح ہے فرماتے ہیں مبارک ہیں وہ جو تیرے گھر میں رہتے ہیں وہ سدا تیری تعریف کریں نگے مبارک ہیں وہ آدمی جس کی قوت تجھ سے ہیں وہ وادئ بکا سے گزر کر اسے چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں پہلی بارش اسے طاقت کر دیتی ہے وہ طاقت پر طاقت پاتے ہیں ظاہر ہے کہ وادئ بکا سے مراد مکہ ہے قرآن کریم میں بھی مکہ کو بکہ کہا گیا ہے بارش سے مراد غزوۂ بدر ہے امت محمدیہ کی طاقت دن بدن بڑھتی ہے وہ ہمیشہ خدا کی تعریف میں سرگرم ہیں اور دیگر انبیاء کرام نے بشارتوں کا تذکرہ کیا ہے صحابہ کرام اور تابعین میں جن لوگوں کو تورات سے واقفیت تھی یا علمائے یہود میں سے جو لوگ گزشتہ صحف انبیاء میں مذکور ہے. قیصر روم نے بھرے دربار میں کہا تھا کہ ختنہ والے رسول کی پیدائش کا زمانہ قریب ہے شاہ مصر کے دربار میں جو قاصد نبوی خط لے گیا تھا وہ بھی یہ جواب لایا کہ ہاں ہم بھی یقین تھا کہ ایک پیغمبر آنے والے ہیں