WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives December 2022

سید خادم رسول عینی اور نور مناقب۔۔۔۔۔۔۔از قلم : احسن امام احسن، بھوبنیشور اڈیشا

خادم رسول عینی کو ادبی گروپوں میں پڑھتا رہا ہوں ۔ پھر اس کے بعد رسالوں میں ان کی چیزیں نظروں سے گزرنے لگیں ۔ موصوف اپنی تخلیقات سے اہل ادب کو متاثر کرتے رہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں موصوف خاکسار کے غریب خانے میں تشریف لائے اور نور مناقب جو منقبتی کلام کا مجموعہ ہے بہت ہی خلوص و محبت کے ساتھ موصوف نے میرے ہاتھوں پر رکھ دیا ۔

خادم رسول عینی نے اپنے تجربات اور احساسات کو لفظوں کا جامہ پہنایا ہے اور منقبتی شاعری میں ایک الگ مقام بنایا ہے۔ خادم رسول عینی خالص مذہبی آدمی ہیں۔
خانقاہ قدوسیہ سے تعلق ہے تو صوفیاے طریقت کے طور طریقے ان کے اندر مل جائینگے۔ سلجھے ہوئے ذہن کے مالک ہیں ۔ موصوف نعتیہ شاعری میں اتنے عمدہ اشعار نکالتے ہیں جس سے عقیدت کے پھول جھڑتے ہیں ۔ ان کی پوری شاعری عشق رسول سے سرشار نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری کے مطالعے سے یہ محسوس ہوگا کہ موصوف مرشد برحق کے چشم کرم سے مستفیض ہونے لگے اور ان کے فیضان سے مالا مال ہیں جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں نعتیہ و منقبتی شاعری کے سوتے پھوٹتے نظر آتے ہیں ۔ ذکر الٰہی میں مشغول ہونے کے باوجود دنیاوی کاموں کو بھی بخوبی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ذکر الٰہی تو ضروری ہے ہر حال میں ، ذکر الٰہی کرنا چاہیے ، اس کے علاوہ پاس انفاس کی تربیت ان کی شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

خادم رسول کی نعتیہ شاعری جس سے منقبتی شاعری کی ایک لکیر نکلتی ہے جو ان کی شاعری کے کمالات کو قاری کے آگے اس طرح پیش کرکے انھیں منقبتی شاعری کا شہنشاہ بناتا ہے ۔ابو البرکات محمد ارشد سبحانی صاحب کے چند کلمات کو آپ دعائیہ پھول بھی کہہ سکتے ہیں ۔ حضرت رقم طراز ہیں :

” حضرت عینی نے اردو کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی نعت و منقبت نگاری کی ہے ۔ عشق و ادب رسول اعظم میں ڈوب کر لکھی ہوئی نعتیں پڑھنے سے مجھے یہ محسوس ہوا کہ وہ ایک اچھے ، پکے اور سچے عاشق رسول شاعر ہیں اور بہترین ذوق شاعری کے مالک ہیں ۔صحابہء کرام ، اہل بیت اطہار ، ازواج مطہرات، ائمہ کرام ، اولیاے کرام ، صوفیائے طریقت ، علمائے شریعت کی شان میں بے شمار مناقب تحریر فرمائے ہیں “.

خادم رسول عینی کے یہاں جو اضطرابی کیفیت ہے وہ عشق رسول اور علمائے شریعت و اہل بیت کی مدح کے اظہار کے لیے ہے اور اس کا اظہار اپنے اشعار میں خادم رسول خوب صورتی سے کرتے ہیں ۔ دو اشعار شان اہل بیت پر دیکھئے :

ہوگیا تیار اک روشن قصیدہ دیکھیے
میرے فکر و فن میں ایسے جگمگائے اہل بیت

دین و دنیا میں مقام ان کا ہے اونچا کس قدر
حضرت سلمان فارس تھے فدائے اہل بیت

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں بہت سارے مناقب لکھے ہیں ۔سب سے ایک دو شعر دیکھیے:

احادیث میں ہیں مناقب علی کی
بہت خوب درجہ ہے شیر خدا کا

فضیلت مرتضیٰ کی دین میں کیا کیا میں گنواؤں
شہادت کا مہینہ بھی مقدس ماہ فرقاں ہے

جب مدینہ چھوڑ کر کوفہ گیے تو روپڑے
ایسی ہے آقا سے الفت حیدر کرار کی‌

اسی کے دم سے منور ہدی’ کے سیارے
ہدایتوں کا وہ سورج ہے نقش پائے علی

اسلام کی بقا کی علامت علی سے ہے
دین مبیں کا نور بصیرت علی سے ہے

پانی کے بلبلوں سے بھی پیدا ہو روشنی
اس فلسفے کا نور حقیقت علی سے ہے

خادم رسول عینی کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ اولیائے کرام کی محبت ، صوفیائے کرام سے دینی رغبت انہیں نعتیہ اور منقبتی شاعری کرنے پر مجبور کرتی ہے۔آج کل زیادہ تر لوگ غزل کی طرف ہی رہتے ہیں ۔ موصوف نے اعلیٰ حضرت ، مجاہد ملت ، غوث اعظم ، وارث پاک ، خواجہ بندہ نواز ، سرکار مخدوم اشرف ،خواجہ معین الدین چشتی علیہم الرحمہ گویا کہ کسی بھی اولیا ، بزرگان دین کو نہیں چھوڑا ، سبھی کی شان میں نذرانہء عقیدت پیش کیا ہے۔ ان سب سے اندازہ ہوتا ہے کہ خادم رسول ایک زود گو شاعر ہیں ، جو بھی کہتے ہیں مفکرانہ انداز اور اسلامی طریقے سے کہتے ہیں ، اس میں عقیدت کی لہریں بھی شامل ہوتی ہیں ، جو نذرانہء عقیدت کی عمدہ مثال ہے ۔کلیم احمد رضوی مصباحی یوں رقم طراز ہیں :

“شاعر خوش خیال و خوش اسلوب حضرت سید خادم رسول عینی میاں مد ظلہ العالی عہد حاضر کے سرفہرست شعرا میں سے ایک ہیں ۔ نپی تلی اور معیاری شاعری آپ کی شناخت ہے ۔آپ کا لہجہء سخن بحمد اللہ
سب سے جدا اور سب سے منفرد ہے ۔زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے ۔”

حمد ، نعت ، مناجات ، منقبت ایک ایسا گلدستہ ہے جسے عینی صاحب نے تھام لیا ہے ۔ غزلیں بھی عمدہ کہتے ہیں جس پر الگ سے کبھی بات ہوگی ۔ان سب سے ان کی فنی صلاحیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ان کا اپنا اسلوب جو نور مناقب میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ کتنے ہی دلوں کو منور و معطر کرتا نظر آتا ہے ۔اب چونکہ خادم رسول کی تقدیسی شاعری سنجیدہ مطالعہ چاہتی ہے ۔

خادم رسول عینی کے یہاں الفاظ پر عمدہ گرفت ہے۔ساتھ ہی زبان کا احترام بھی نظر آتا ہے۔ مضامین عمدہ باندھتے ہیں ۔ ساتھ ہی اسلامی نقطہء نظر کی عکاسی کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔ خادم رسول عینی جس طرح لفظوں کے چراغ جلاتے ہیں جس کی روشنی تقدیسی شاعری میں چمکتی ہے، سعید رحمانی صاحب نور مناقب پر اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“اس کے مطالعے سے صاف ظاہر ہے کہ عینی صاحب اولیائے کرام اور بزرگان دین سے گہری عقیدت و محبت رکھتے ہیں جس کا برملا اظہار ان کے منقبتوں میں ہوا ہے۔ عینی صاحب کے اشعار بلا شبہ ان کے جذب عقیدہ کے آئینہ دار ہیں ۔ غزل کے فارم میں ان کے رقم کردہ سبھی مناقب اہل بیت ، اولیائے کرام اور بزرگان دین سے ان کی گہری نسبت کا پتہ چلتا ہے”۔

سید خادم رسول عینی کا تعلق روحانی اور ادبی خانوادہ سے ہے۔ لہذا ان کے اندر تینوں چیزیں علمی ، روحانی اور ادبی یہ مل کر ایک معجون کی طرح ان کی زندگی میں شامل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت ادب میں اعلیٰ و ارفع نظر آتی ہے ۔ نور مناقب میں جناب تنویر پھول (امریکہ) یہ کہتے نظر آئے
:
“جناب خادم رسول عینی تقدیسی شاعری میں معتبر مقام کے حامل ہیں ۔ انھوں نے سترہ سال کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا اور ان کا پہلا کلام مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمان علیہ الرحمہ کی منقبت کے طور پر سامنے آیا ۔وہ خود کو بنیادی طور پر منقبت کا شاعر کہتے ہیں ۔
نعت رسول کے ساتھ ساتھ وہ محبان رسول یعنی اہل بیت و صحابہ کرام اور اولیائے عظام کی شان میں مناقب کہتے رہتے ہیں ۔”

عینی صاحب کی ادبی زندگی کے سفر کا آغاز منقبت کے اشعار سے ہوا ۔ ان کی بلندی کا اندازہ ان کے کلام سے ہوتا ہے ۔ موصوف نے ایک اہم کام یہ کیا ہے کہ انگریزی میں بھی نعتیہ شاعری کی ہے اور اچھی شاعری کی ہے ۔ “کچھ اپنی باتیں ” کے عنوان کے تحت خادم رسول عینی نے اپنی باتیں قاری کے گوش گزار کی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں:

“جب میں نے شاعری باقاعدہ شروع کی تو نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ محبان رسول کی شان میں بھی منقبتیں لکھتا رہا ۔ مختلف مواقع پر بزرگان دین کے اعراس کے حوالے سے یا آپ کے یوم ولادت کے حوالے سے میں نے منقبتیں کہیں ۔ میں نے منقبت جب بھی کہی اشعار بزرگوں کی سیرت کی روشنی میں کہے۔
منقبت کا مقصد یہ رہا کہ بزرگان دین کی زندگی ، ان کی سیرت اور قوم و ملت کے لیے ان کی قربانیوں کو یاد کیا جائے اور دور حاضرہ کے انسان کو یہ ذہن دیا جائے کہ بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے سے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔”

سید خادم رسول عینی کے لہجے کی تازگی ، توانائی تقدیسی شاعری میں یہ بتاتی ہے کہ ان کے اندر منقبتی شاعری کرنے کا مادہ ہے ۔ افکار و خیالات کا دریا ان کے یہاں بہتا رہتا ہے۔ آپ شاعری کس معیار کی کرتے ہیں اس کا اندازہ آپ کو نور مناقب کے مطالعہ کے بعد ہی پتہ چلے گا ۔

سید خادم رسول عینی کی شاعری متاثر کرنے والی ہے ۔
جس میں ان کے محسوسات اور تجربات کو اشعار کے آئینے میں دیکھ سکتے ہیں ۔ خادم رسول صاحب جس ماحول میں پلے بڑھے ہیں وہ مذہب اور طریقت کا ماحول ہے۔ جن حالات سے ان کا سابقہ پڑا ہے اس میں مذہبی خیالات شاعری میں آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔
مگر جس انداز سے خادم رسول حمد ، نعت اور منقبت میں ادبی شعور کا استعمال کرتے ہیں وہ قابل قدر ،
قابل دید اور قابل مطالعہ ہے۔

احسن امام احسن ،
بھوبنیشور ،

٥ دسمبر ٢٠٢٢

شوہر کے انتقال کے بعد عورت عمرہ کے لئے اپنے دیور کے ساتھ جا سکتی ہے یا نہیں؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ ذیل میں
شوہر کے انتقال کے بعد عورت عمرہ کے لئے اپنے دیور کے ساتھ جا سکتی ہے یا نہیں

قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں

عین نوازش ھوگی
ممتاز رضا
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔صورت مسئولہ میں دیور کے ساتھ حج یا عمرہ کرنے لئے سفر کرنا حرام ہےکیونکہ جب تک عورت کے ساتھ شوہر یا محرم بالغ قابل اطمینان نہ ہو جس سے نکاح ہمیشہ حرام ہے سفر حرام ہےاوردیورمحرمات ابدیہ سے نہیں ہے اس لئے اس ساتھ حج کے لئے سفر کرنا حرام ہے اگر کرے گی حج ہوجائے گا مگر ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ ” حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر ان تسافر مسيرة يوم و ليلة إلا مع ذى محرم عليها ” اھ ( نصب الرایہ لتخریج احادیث الھدایہ ج 3 ص 11 ) اور علامہ برہان الدین مرغینانی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ ” يعتبر فى المرأة ان يكون لها محرم تحج به او زوج ولا يجوز لها ان تحج بغيرهما اذا كان بينهما و بين مكة ثلاثة أيام ” اھ ( ھدایہ ج 1 ص 213 ) اور علامہ ابن نجیم مصری قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ ” يشترط محرم أو زوج لامرأة فى سفر لما فى الصحيحين لا تسافر امراة ثلاثا و معها محرم ” اھ ( البحر الرائق ج 2 ص 314 ) اور سیدی اعلی حضرت احمد رضا خان قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ عورت کے ساتھ جب تک شوہر یا محرم بالغ قابل اطمینان نہ ہو جس سے نکاح ہمیشہ حرام ہے سفر حرام ہے اور اگر کرے گی حج ہوجائے گا مگر ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا “اھ ( انور البشارة فی مسائل الحج و الزیارة ص 3 )ان تمام تفصیلات سے واضح ہوا کہ عورت کو شوہر یا محرم کے بغیر حج و عمرہ کو جانا ناجائز اور گناہ ہے اگر چلی گئی جائے تو حج ہوجائے گا مگر گنہ گار ہوگی ۔ *والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
19/ربیع الغوث /144 ھ

لڑکیوں کی ولادت باعث رحمت ہے، اسے زحمت نہ سمجھیں: مولانا شاہد رضانوری فیضی.. [سدھارتھ نگر،پریس ریلیز]


بھوانیاپور[سمرہنا]اسکابازار میں محفل میلاد کاانعقاد


معروف عالم دین ادیب شہیر حضرت مولانا محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف(ساکن: بھوانیاپور، اسکابازار،سدھارتھ نگر) کی دختر نیک اختر عزیزہ اقرأ فاطمہ کی ولادت کی خوشی میں بموقع عقیقہ مسنونہ 5 دسمبر 2022عیسوی بروز دوشنبہ محفل میلادپاک کا انعقاد کیا گیا-
محفل کی شروعات حضرت حافظ وقاری عبداللّٰہ صاحب نظامی استاذ دارالعلوم اہل سنت غوثیہ فیض الرسول سمرہنا کے ذریعہ تلاوت کلام ربانی سے کی گئی،بعدہ مداح رسول مولوی مجاہدرضا صاحب نے بہترین انداز میں نعت رسول مقبول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پیش کیا،پھر حضرت مولاناافضل حسین نظامی صاحب استاذ مدرسہ فیض العلوم بھٹیا بازار،امام پور نے اسلام کی حقانیت اور سیرت رسول پر عمدہ خطاب کیا،آپ کے بعد واصف شاہ ہدیٰ حضرت مولاناسراج احمد صاحب قادری علیمی نے بارگاہ رسالت مآب میں گلہائے عقیدت پیش کیا-
آخر میں خصوصی خطاب حضرت مولاناشاہدرضا صاحب نوری فیضی صدرالمدرسین دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول سمرہنا نے کیا-
آپ نے اپنے خطاب کے دوران فرمایا کہ “بلاشبہ اولاد اللّٰہ عزوجل کی ایک عظیم نعمت ہے، لڑکا ہو یا لڑکی وہ اللّٰہ کی عطا اور رحمت ہے، بلکہ لڑکوں کے بالمقابل لڑکیاں اپنے والدین کازیادہ خیال رکھتی ہیں،اس لیے والدین کو چاہییے کہ وہ بھی ان کا خصوصی خیال رکھیں-
دورِ حاضر میں ہم اور آپ اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ لڑکیوں کی پیدائش پر اظہار تاسف و مایوسی اور بیزارگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ،یہ سب نادانی اور ناسمجھی کی علامتیں ہیں،اس لئے کہ لڑکیوں کی صحیح تعلیم و تربیت کرنے والے، اچھے اخلاق وعادات سکھانے والے، سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد ان کا نکاح کرنے والے باپ کو حضور نبئِ کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے جنت کی بشارت دی ہے جیسا کہ حدیث شریف ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا: “جس کے پاس کوئی لڑکی ہو اور وہ اس کو نہ تو زندہ دفن کریے،نہ اس کو برے حال میں پڑا رہنے دے، اور نہ اپنے بیٹوں کو اس سے بڑھا چڑھا کر پیش کرے،اللّٰہ تعالیٰ اُسے جنت میں داخل کرے گا”۔
اس حدیث شریف میں اس بات پر توجہ دلائی گئی ہے کہ لڑکیوں کو وبال جان نہ سمجھا جائے- ان کی پیدائش پر رنج و ملال کا اظہار نہ کیا جائے -ان کی صحیح نگرانی اور خبر گیری پر جنت کی بشارت دی گئی ہے، لہٰذا اس حدیث مبارکہ سے ہمیں اور آپ کو سبق حاصل کرنی چاہیے -لڑکی کو ذلیل و خوار نہ سمجھ کر اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کریں،صحیح تعلیم و تربیت دیں، اچھے اخلاق وعادات سکھائیں، دین کی باتیں بتائیں ، امورخانہ داری سے واقف کرائیں اور سنی بلوغت کو پہنچنے کے بعد کسی نیک وصالح نوجوان سے اس کا عقد کرادیں، تو ایسا شخص جنت کا حقدار بنے گا۔
قابل مبارکبادہیں حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری جنہوں نے اپنی دختر نیک اختر کی ولادت کے موقع پر عقیقہ و محفل میلادپاک کا انعقاد کرکے “وامابنعمة ربك فحدث” پر عمل کیا،اللہ تعالیٰ نوزائیدہ بچی کو جملہ آفات وبلیات سے محفوظ فرمائےاور اس بچی کوان کےوالدین کےلیے ذریعۂ نجات بنائے-
واضح ہوکہ مسلسل تین بچوں کی ولادت کے بعد بچی کی ولادت سے اہل خانہ بہت خوش ہیں اور اس موقع پر مولانا موصوف کے بہت سے کرم فرما واحباب نے موصوف کو مبارکباد پیش کرنے کےساتھ دعاؤں سے نوازا،بالخصوص نورالعلماء پیرطریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی، حضرت مولاناباقرحسین صاحب قادری انواری وجملہ اسٹاف وابنائےقدیم وجدید دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف وغیرہم-
صلوٰة وسلام اور دعا پر یہ مجلس سعید اختتام پزیر ہوئی-

دارالعلوم رضائےمصطفیٰ چاندنگرکوسہ ممبرا کے ایک طالب علم نے ایک نشست میں مکمل قرآن سنانے کاشرف حاصل کیا-[ممبرا،ممبئ،پریس ریلیز]

مہاراشٹر میں واقع دارالعلوم رضاٸے مصطفیٰ چاند نگر کوسہ ممبرا کے شعبہ حفظ کے ایک ہونہار طالب علم عزیزم حافظ مجیب احمد بن ادریس علی ساکن مِصرَن پوروہ بہراٸچ شریف یوپی نے دارالعلوم کے سربراہ حضرت حافظ وقاری باب السلام صاحب قادری کی سرپرستی اور اپنے استاذ خاص استاذ الحفاظ حضرت حافظ وقاری محمد شریف القادری اشفاقی بہراٸچی و حضرت مولانا محمد ضمیر خان سبحانی و مولانا معراج احمد علیمی وقاری معروف صاحبان کی نگرانی اور دارالعلوم کے دیگر اساتذہ وطلبہ کی موجودگی میں
ایک ہی نشست میں مکمل قرآن پاک سناکر اپنے اساتذہ اور والدین کا سر فخر سے اونچا کردیا-فالحمدللہ علی ذلک-
اللہ تعالیٰ عزیزم حافظ مجیب احمد سلمہ کو مزید تحصیل علوم دینیہ کی توفیق سعید بخشے-
حافظ مجیب احمد نے صبح سات بجے سے پورا قرآن پاک ایک نشست میں سنانا شروع کیا اور بحمد اللہ شام سات بجے تک پورا قرآن پاک مکمل کردیا-
اس موقع پر دارالعلوم میں فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا گیا-
جس میں دارالعلوم کے اساتذہ و طلبہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوٸے حافظ مجیب احمد کو مبارکباد پیش کی اور ان کے تابناک مستقبل کے لٸے دعاٶں سے نوازا-
ازیں قبل دارالعلوم رضاٸے مصطفیٰ کے تین اور طالب حافظ محمد ، حافظ محمد عثمان ،حافظ عبدالحمید بھی ایک نشست میں مکمل قرآن سنانے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں،جب کہ ان شاء اللہ العزیز دارالعلوم کے دو اور خوش نصیب وہونہار طالب علم 24 اور 25 دسمبر کو ایک ہی نشست میں مکمل قرآن پاک سنانے کا شرف حاصل کریں گے-
یقینا قرآن پاک کا حافظ ہونا بہت ہی اکرام واعزاز کی بات ہے،کل قیامت کے روز حافظ قرآن اور حافظ قرآن کے والدین کو امتیازی مقام ومرتبہ عطا کیا جاٸے گا اور اعزاز واکرام سے نوازا جاٸے گا-
اس مجلس کے اختتام پر امت مسلمہ کے لٸے دعاٸے خیر اور ملک وملت کے فلاح وبہبود کی دعا کی گٸی-
مذکورہ خبر حافظ وقاری محمد شریف القادری اشفاقی بہراٸچی صدرالمدرسین دارالعلوم ہٰذا نے نماٸندہ کو دیا-

بنے دو جہاں تمہارے لئےازقلم : محمد علاؤ الدین قادری رضوی صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتا والقضا میراروڈ ممبئی

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عطا سے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو شان و عظمت ہے ا س کامکمل بیا ن خلق خدا کی زبان سے ممکن نہیں سرکار علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی مدح و ثنا صاحب قرآن کو ہی زیب ہے کہ وہ خالق حقیقی ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے حضرت سیدنا آدم علیہ السلام اور ساری مخلوق کو آپ ہی کے لئے پیدا کیا ہے ۔            (مواھب لدنیہ ،۲؍۲۷۱؍سیر ت حلبیہ ، ۳؍۴۲۲) 

    اے رضا خو د صاحب قرآں ہے مداح حضور 
    تجھ سے کب ممکن ہے  پھرمد حت رسول اللہ کی 
امام شر ف الدین محمد بن سعید بو صیری ر حمتہ اللہ علیہ اپنے مشہو ر زما نہ قصیدہ بر دہ شر یف میں فر ما تے ہیں :
        وکیف تدعوا لیٰ الد نیا ضرورۃ من 
        لو لا ہ لم تخرج  الد نیا من     العدم 

اور دنیا کی ضرورت اس مبا رک ہستی کو اپنی طر ف کیسے بلا سکتی ہیں کہ اگر وہ نہ وہو تے تو دنیا عد م سے وجود میں آتی ہی نہیں ۔
احناف کے جید عالم دین حضرت علامہ سید عمر بن احمد آفندی حنفی علیہ الر حمہ مذکورہ شعر کی شر ح میں لکھتے ہیں :کہ شعر میں اس حد یث قدسی کی طر ف اشارہ ہے :لو لا ک لما خلقت الافلاک ۔یعنی اگر آپ نہ ہو تے تو میں آسمانو ں کو پید ا نہ فر ما تا ۔ یہا ں آسمانو ں سے مراد دنیا کی ہر وہ چیز ہے جو دنیا میں مو جو د ہے یہا ں جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے ۔ محدثین میں سے بعض نے رواۃ حد یث کو ضعف سے تعبیر کیا ہے لیکن اس کے معنی کو صحیح قرار دیتے ہیں یعنی مذکورہ حد یث معنا صحیح ہے ۔ شب معراج جب سر کا ر دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر پہنچے تو اللہ سبحا نہ وتعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے اس وقت محبوب ومحب میں جو با ت ہو ئی وہ گفتگو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے ملا حظہ فر ما ئیں ارشاد رب ہوا :انا وانت وما سویٰ ذالک خلقتہ لاجلک ۔ یعنی اے میرے محبوب !میں ہو ں اور تم ہو ،  اس کے سواجو کچھ ہے وہ سب میں نے تمہا رے لئے پیدا کیا ہے ۔جواب میں اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خالق کی بارگاہ میں عرض کیا :انا وانت وما سویٰ ذالک ترکتہ لاجلک ۔یعنی اے میرے مالک ! میں ہوں اور تیری ذات پاک ہے ، اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ سب میں نے تیرے لئے چھوڑ دیا ۔
امام بو صیری ر حمتہ اللہ علیہ کے اس شعر سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ دنیا ر حمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تا بع ہے ،یہ دنیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب ر ضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے لئے بنا ئی گئی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ مبا رک ہستیاں دنیا کے مطیع ہو جا ئیں یا دنیاوی خواہشات ان پر غا لب آجا ئیں ۔    
                            (عصیدۃالشہدۃ شر ح قصیدۃ البر دۃ ، ۱۱۸)
مذکورہ بالا حد یث لولاک کی مختصر تو ضیح اور محد ثین عظام کی روایت کر نے میں جو الفا ظ کے فر ق آئے ہیں وہ یہا ں در ج کئے جا رہے ہیں تا کہ آپ ان تمام مر ویا ت کو بآسانی سمجھ سکیں ،حدیث لو لاک کے اصلی الفا ظ ملا حظہ ہو ں !
حد یث آدم علیہ السلام کے الفا ظ یو ں ہیں :لولا محمد ما خلقتک ۔
تر جمہ :اے آدم ! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہ کر تا تو میں تمہیں پیدا نہ کر تا ۔
حد یث عیسیٰ علیہ السلام کے الفا ظ یو ں ہیں :لو لا محمد ما خلقت الجنۃ ولا لنار۔
تر جمہ :اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہ کر تا تو میں جنت و دوزخ کو پیدا نہ کر تا۔
حد یث جبر ئیل علیہ السلام کے الفا ظ یو ں ہیں : لو لا ک ما خلقت الدنیا ۔
تر جمہ :اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اگر آپ کو پیدا کر نا مقصود نہ ہو تا تو میں دنیا کو پیدا نہ کر تا ۔
حد یث ابن عبا س ر ضی اللہ عنہ کے الفاظ یو ں ہیں :لو لا ک ما خلقت الجنۃ ولولاک ما خلقت الدنیا والنار ۔
تر جمہ : اے محبوب ! اگر آپ کو پیدا نہ کر تا تو میں جنت کو پید نہ کر تا اور اگر آپ کو پیدا کر نا مقصود نہ ہو تا تو میں دنیا اور دوزخ کو پیدا نہ کر تا ۔
حدیث علی رضی اللہ عنہ کے الفا ظ یو ں ہیں :لولا ک ما خلقت ارضی ولا سمائی ، ولا رفعت ھذہ الخضراء ،بسطت ھذہ الغبراء ۔
تر جمہ: اے محبوب ! اگر آپ کو پیدا کر نا مقصود نہ ہو تا تو میں اپنی زمین وآسمان کوپیدا نہ کر تا اور نہ میں آسمان کو بلند کر تا اور نہ زمین کو پھیلا تا ۔
و ضا حت : متن حدیث میں کہیں بھی افلاک کا لفظ نہیں ہے اسی لئے بعض محد ثین نے اسے مو ضو ع کہا ہے لیکن محد ثین کی ایک بڑی جما عت نے اس حد یث کے معانی کو صحیح قرار دیا ہے گو معلوم ہوا کہ حد یث کا مفہو م ومقصود اپنے صحیح معنیٰ پر ہے ۔
ذیل میں حد یث لو لاک کے قائلین محد ثین اور علما کے نو ر اعلی نور اقوال نقل کئے جا رہے ہیں جسے پڑ ھ کر آپ شاد کام ضرور ہوں گے ۔
امام اعظم سیدنا ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمتہ اللہ علیہ اپنے قصیدہ نعتیہ میں حضور کی مدح سرائی ان الفاظ میں کرتے ہیں :
    انت الذی لولاک ماخلق امرء   
کلا ولا خلق الوریٰ لو لاک 

ترجمہ : اے محبوب !آپ کی ذات وہ ذات ہے کہ اگر آپ نہ ہو تے کو ئی شخص پیدا نہ کیا جاتا ،ہاں ہاں ! اگر آپ نہ ہو تے تو تمام مخلوق پیدا نہ ہوتی ۔ (شعر نمبر:۴ )
امام ابن جوزی اپنی کتا ب مولدالعروس میں لکھتے ہیں :فقال اللہ تعالیٰ :تأدب یا قلم او عزتی وجلالی لا لو محمد ما خلقت احدا من خلقی
تر جمہ : اللہ تعالیٰ نے فر ما یا :اے قلم ! ادب کر ، مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نہ ہو تے تو میں اپنی مخلوق سے کسی کو پیدا نہ کر تا ۔
(مولد العروس ،ص۱۶)
مو لا نا روم علیہ الرحمۃ حدیث لو لاک کی تشریح میں لکھتے ہیں :
با محمد بودعشق پاک جفت
بہر عشق اورا خدا لولاک گفت
منتہی در عشق چوں اوبود فرد
پس مراوراازانبیا تخصیص کرد
گر نبود ے بہر عشق پاک را
کے وجود ے دادمے افلاک را
تر جمہ :یہ محمد سے مقدس عشق ہی ہے کہ اللہ نے آپ کے بار ے میں لولاک فر مایا ۔
آپ منتہائے عشق اور یکتہ تھے تو جماعت انبیا میں سے آپ کو خا ص کر لیا گیا۔
اگر آپ پاک عشق کے لئے نہ ہو تے تو میں آسمان کو وجود کب عطا کر تا ۔
(مثنوی شریف ، دفتر پنجم ، ص ۲۷۷)
امام ربا نی مجدد الف ثانی حضر ت شیخ احمد سر ہندی رحمتہ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :
لو لا ہ لما خلق اللہ سبحا نہ الخلق ولما اظہر الر بوبیۃ ۔
تر جمہ :اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نہ ہو تی تو حق سبحانہ وتعالیٰ خلقت کو کبھی پیدا نہ فر ما تا اور اپنی ربو بیت کو ظاہر نہ فر ما تا ۔ (مکتوب ،۴۴:دفتر اول )
شیخ اکمل بہقی وقت قاضی محمد ثنا ء اللہ عثمانی حنفی لکھتے ہیں :
لو لا ک لما خلقت الافلاک ولما اظہر ت الربوبیۃ خص النبی صلی اللہ علیہ وسلم
تر جمہ : حد یث قد سی میں ہے کہ اے محبوب ! اگر تم کو پیدا کر نا نہ ہو تا تو میں افلاک کو پیدا نہ کر تا اپنے ربوبیت کا اظہار نہ کر تا ۔
(التفسیر المظہری ، ج ۱۰، ۳۰۳)
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
تو اصل وجود آمدی از نہ نخست
دیگر ہر چہ مو جو د شد فر ع تست
ندانم کدا مے سخن گویمت
کہ والا تری زانچہ من گویمت
ترا عز لولاک تمکین بس است
نثائے تو طہٰ و یسین بس است
ترجمہ : تو سب سے پہلے مخلوق کی جڑ تھی ، اور دوسرا جو کچھ موجود ہے وہ تیری شاخ ہے ،میں نہیں جانتا کہ آپ کی شان میں کیا کہوں،کیونکہ جو کچھ میں کہوں آپ اس سے بالا تر ہیں ، آپ کے واسطے لولاک کی عزت و قعت ، اور آپ کی تعریف طہٰ و یاسین کافی ہے ۔ (بوستا ن، در نعت سر کا ر علیہ افضل الصلوٰۃ ، ص۷)
حضرت شاہ محد ث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ حدیث لولاک کے بارے میں تئیسواں مشاہدہ میں فرماتے ہیں :
میں دیکھا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طر ف اللہ تعالیٰ کی ایک خا ص نظر ہے ، اور گو یا یہی وہ نظر جو حاصل مقصود ہے ، آپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کا فرمانا ’’لو لاک لما خلقت الافلاک ‘‘ (اگر آپ نہ ہو تے تو میں افلاک کو پید اہی نہ کر تا )یہ معلوم کر نے کے لئے میر ے دل میں اس نظر کے لئے بڑا شتیاق پیدا ہوا ، اور مجھے اس نظر سے محبت ہو گئی ، چنا نچہ اس سے یہ ہوا کہ میں آپ کی ذات اقدس سے متصل ہوا ، اور آپ کا اس طرح سے طفیلی بن گیا جیسے جو ہر کا عرض طفیلی ہو تا ہے ، غر ضیکہ میں اس نظر کی طرف متو جہ ہوا ، اور میں نے اس کی حقیقت معلوم کرنی چاہی ، اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں خو د اس نظر کا محل توجہ اور مرکز بن گیا ، اس کے بعد میں نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نظر خا ص اس کے ارادۂ ظہور سے عبارت ہے ، اور اس سلسلے میں ہو تا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی شان کو ظاہر کر نے کا ارادہ کر تا ہے وہ اس شان کو پسند کر تا ہے اور اس پر اپنی نظر ڈالتا ہے ۔ اب صورت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ایک فر د واحد کی شان نہیں ، بلکہ آپ کی شان عبارت ہے ایک عام مبد أ ظہور سے جو عام بنی نوع انسان کے قوالب پر پھیلا ہوا ہے، اور اس طر ح بنی نوع کی حیثیت ایک اور مبدأ ظہور کی ہے جو تمام موجودات پر حاوی ہے ، اس سے ثا بت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کل مو جودات کی غا یت الغایت اور ظہور وجود کے نقاط کا آخری نقطہ ہیں ، چنا نچہ سمند رکی ہر مو ج کی حر کت اسی لئے ہے کہ آپ تک پہنچے ، اور ہر سیلا ب کو یہی شو ق سمایا ہوا ہے کہ آپ تک اس کی رسائی ہو ، تمہیں چا ہئے کہ اس مسئلہ میں خو ب غورو تدبر کرو ، واقعہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ بڑا ہی دقیق ہے ۔
(فیوض الحرمین اردو ، تئیسواں مشاہدہ ، ص ۱۸۷؍۱۸۸)
قا طع شر ک وبد عت رئیس الاسلام والمسلمین اما م اہل سنت اعلیٰ حضرت الحا ج الشاہ مفتی احمد ر ضا خا ں فا ضل بر یلو ی ر حمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :یہ ضرور صحیح ہے کہ اللہ عز وجل نے تما م جہا ن حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے بنا یا اگر حضور نہ ہو تے تو کچھ نہ ہو تا ۔یہ مضمون احا دیث کثیر ہ سے ثا بت ہے جن کا بیا ن ہما رے رسالہ ’’ تلأ لؤالافلاک بجلال احادیث لو لاک ‘‘ میں ہے ۔خدائی (یعنی مخلوق)کی پیدا ئش بطفیل حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ہے ۔حضور نہ ہو تے تو کچھ نہ ہو تا ، حضور تخم وجو د و اصل مو جو د ہیں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ۔حضرت حق عزجلالہ نے تمام جہا ن کو حضور پر نو ر محبوب اکر م صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے واسطے ، حضور کے صدقے ، حضور کے طفیل میں ہا ں ہا ں لا واللہ ثم باللہ ایک دفع بلا و حصول عطا کیا تما م جہا ن اور اس کا قیا م سب انہیں کے دم قدم سے ہے ۔عالم جس طر ح ابتدائے آفرینش میں ان کا محتا ج تھا ، یو نہی بقا میں بھی ان کا محتا ج ہے ۔آج اگر ان کاقدم درمیان سے نکال لے ابھی ابھی فنا ئے مطلق ہو جا ئے ۔
اس میں اہل ایما ن کو ہر گز ہر گز ترددنہیں کہ حضور نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وجہہ تخلیق کا ئنا ت ہیں جن لو گو ں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ’’قلم‘‘ کو تخلیق اول قرار دیتے ہیں اور حدیث قلم و عر ش پر صحیح اسناد کو دلیل بناتے ہیں انہیں محد ثین سے اگر پو چھ لیا جا ئے کہ خلق خدا میں سب سے افضل و اعلیٰ ذات کو ن ہے ۔؟تو یقین جا نے وہ بغلیں جھانکنا شر وع کر دیں گے ۔وہ بعض علما جو قلم اور عر ش کو خلق خدا میں اول مانتے ہیں وہ شاید اس با ت کو بھو ل جا تے ہیں کہ’’ انوار‘‘ میں سب سے پہلے اگر کسی کے نو ر کا ظہور ہوا ہے تو وہ نو ر محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے یہ با ت ہر کس و ناکس پر واضح ہے کہ جسماً نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام انبیا ئے کرام علیہم السلام کے بعد عالم فانی میں حضرت عبد اللہ کے گھر پید ا ہو ئے لیکن نو ر محمدی کا ظہور تما م خلق سے پہلے ہے ۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولیت پر اگر سب سے زیادہ کسی کے پیٹ میں درد ہو تا ہے تو وہ علما ئے اہل حد یث (غیر مقلد ین)کی جما عت ہے اور وہ اس مسئلہ میں تنہا نہیں ہے بلکہ ان کے ہم نوا علما ئے دیوبند بھی کم نہیں کہ ان حضرات کا منشا ہی یہ ہو تا ہے کہ کسی طر ح نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی کما لا ت و صفات میں تنقیص کا کو ئی پہلو ڈھو نڈ نکالا جا ئے اور وہ اس کو شش میں کبھی تو فرنگیو ں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن میں یہا ں انہیں کے علما کی کتا بو ں سے ثا بت
کروں گا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق خلق میں سب سے پہلے اور مقدم ہے ۔
غیر مقلد کے بڑے عالم مو لوی سید ممتاز علی ولد سید محمد اعجاز علی صا حب بھو پالی سر رشتدار محکمہ مجسٹریٹی ر یاست بھو پا ل لکھتے ہیں :
زمین و زما ں ، میکن و مکا ں شمس وقمر و اختر و شام و سحر ،کو ہ کاہ از ما ہی تاماہ بطفیل وجود با وجود حضور طہٰ و یس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظہور میں آئے ۔وللہ الحمد
(معجزۂ راز تحفہ ممتاز ، ص ۱۶)
یہی صا حب نظم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلقت اول کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وہ ہے کون، یعنی رسول کریم
اشارے سے جس کے ہوامہ دونیم
اگر اس کو پیدا نہ کرتا خدا
نہ ہوتا وجود زمین وسما
اس کے لئے ہے نزول قرآن
اسی کے سبب خلقت انس و جان
(معجزۂ راز تحفہ ممتاز ، ص ۱۴)
غیر مقلد کے مشہور مولوی جناب وحیدالزماں صاحب کے بھی چند اشعار یہاں نقل کئے دیتا ہوں کہ آپ قارئین غیر مقلدوں کے بیان و تحریر میں کس طرح تضاد ہے اس سے بخوبی واقف ہو جائیں کہ ان کے اسناد کے امام اعظم مولوی ناصر الدین البانی ’’حد یث لو لا ک ‘‘کو ضعیف قرار دیتے ہیں لیکن ان کے متبع حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’شہ لولاک ‘‘سے یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
رات دن یہ التجا ہے اس دل غمناک کی
دے مجھے اپنی محبت اور شہ لو لاک کی
یا الہٰی مجھ کو پہنچادے مدینہ پاک میں
خاک ہوکے جاپڑوں کوئے شہ لولاک میں
(وظیفہ نبی با ورادالوحید ، ص ۹۴؍۹۵)
غیر مقلد کے بہت ہی مشہور عالم جسے دنیا نواب صدیق حسن خان بھو پالی کے نا م سے جانتی ہے انہیں بھی یہ اعتراف ہے کہ یوم میثاق سب سے پہلے ’’الست بربکم ‘‘کے جواب میں بلیٰ کہنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جمیع مخلوقات کی تخلیق آپ ہی کے لئے ہو ئی عر ش پر آپ ہی کانام کندہ ہے آسمان اور جنت میں جتنے ملائکہ ہیں وہ ہر ساعت آپ ہی کا ذکر کرتے ہیں مگر یہی وہ تمام با تیں مسلمانو ں کی عام مجلسوں میں بتاتے ہو ئے غیر مقلد کے مولویو ں کو شر م آتی ہے یہا ں ان کی ہی کتاب سے یہ عبا رت نقل کی جارہی ہے پڑ ھیں اور حضورکی اولیت کا نو ر ہر سو عام کریں ! وہ لکھتے ہیں :
سب سے پہلے آپ ہی سے میثا ق لیا گیا اور سب سے پہلے آپ ہی نے الست بر بکم کے جواب میں بلیٰ کہا اور آدم وہ جمیع مخلو قات آپ کے لئے پیداہوئے اور آپ کا نام عر ش پر لکھا گیا اور ہر آسمان و جنت میں بلکہ سائرے ملکوت میں اور ملا ئکہ ہر ساعت آپ کا ذکر کرتے ہیں ۔ (الشما مۃ العنبریہ ، ص ۴۰)
سلفی گروہ کے ایک بڑے اور نامور شاعرو ادیب مو لوی ظفر علی خان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے تما م مخلوقات کی تخلیق کا قائل ہیں جن کے یہا ں آج بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگنا شر ک اعظم ہے اب قارئین ہی فیصلہ کر یں کہ ’’واسطے اور وسیلے ‘‘میں کیا فر ق ہے جنا ب نے اپنے حواریو ں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔وہ لکھتے ہیں :
سب کچھ تمہا رے واسطے پیدا کیا گیا
سب غائتوں کی غائت اولیٰ تم ہی تو ہو
(کلیا ت ، حسیات ، ص ۱۰)
عقیدتاًسلفیو ں کے بڑے بھا ئی علما ئے دیوبند کے آرا بھی جا نتے ہیں کہ انہو ں نے ہما رے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مقصود کا ئنا ت اور خلق خد ا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق ہو نے میں اولیت کے قائل ہیں یا نہیں تو دیوبند کے کچھ علما حضور نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کو اول ، آخر ، ظاہر و با طن تسلیم کر تے ہیں بلکہ آپ کی اولیت کو تمام مخلوقات کی تخلیق سے پہلے لکھتے ہیں یہی نہیں لو ح و قلم کا وجود بھی تخلیق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہی مانتے ہیں دیوبند کے مشہو ر خطیب مو لوی منیر احمد معاویہ لکھتے ہیں :
ہما رے نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سید ولد آدم فخر رسل افضل الرسل امام الانبیا خا تم الانبیا حضر ت محمد ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقصود کا ئنا ت ہیں ۔ کیو ں ؟ لو لاک لما خلقت الافلاک ۔اس حد یث کا معنی صحیح ہے ۔(خیر الفتاویٰ)
اگر آپ کو پیدا کر نا مقصود نہ ہو تا تو کا ئنا ت کی کو ئی چیز نہ ہوتی ، نہ زمین ہو تی ، نہ آسما ن ہو تے ، نہ ستارے ہو تے ، ،نہ چاند ہو تا، نہ سورج ہو تا ، نہ ہوا ہو تی ، نہ فضا ہو تی ، نہ دریا ہو تے ، نہ سمندر ہو تے ، نہ پہاڑ ہو تے ، نہ پرندے ہو تے ، نہ چر ند ے ہو تے ، نہ درندے ہو تے ،نہ ذر ے ہوتے ، نہ قطر ے ہو تے ، نہ نبا تا ت ہو تے ، نہ جمادات ہو تے ، نہ عر ش ہو تا ، نہ کر سی ہو تی ،نہ لو ح ہو تا ، نہ قلم ہو تا ، نہ آدم ہو تے ، نہ شیش ہو تے ، نہ نو ح ہو تے ، نہ ہو د ہو تے ، نہ صالح ہو تے ، نہ یو نس ہو تے ، نہ ایوب ہو تے ، نہ یعقوب ہو تے ، نہ یو سف ہو تے ، نہ ادریس ہو تے ، نہ ابراہیم ہو تے ، نہ اسمعیل ہو تے ، نہ اسحا ق ہو تے ، نہ موسیٰ ہو تے ، اور نہ زمین و آسمان کی کوئی چیز ہو تی۔
کتاب فطرت کے سر ورق پر جو نا م احمد رقم نہ ہو تا
تو نقش ہستی ابھر نہ سکتا وجود لو ح و قلم نہ ہو تا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات : ھوالاول والآخر والظاہر والباطن ۔(سورۃ الحدید ، ۳ )
جس طر ح اول ، آخر ، ظاہر و باطن ، یہ اللہ تعالیٰ کی صفتیں ہیں اسی طر ح اول آخر ظاہر ، با طن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی صفتیں ہیںاس لئے کہ حضور اول ہیں اور بعثت میں آخر ہیں ، حضور ظاہر ہیں کہ ہر چیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتی ہے ، حضور با طن ہیں کہ باطن میں کمالات رکھنے والے ہیں ۔ (مدراج النبوۃ )
(خطبات منیر ،ص۱۳۷؍۱۳۸)
کراچی پاکستان کے مشہو ر دیوبندی عالم مفتی محمد شفیع کے بیٹے جناب محمد زکی کیفی حدیث لولاک کا ذکر واقعہ معراج کے اشعار میں یوں کر تے ہیں :
سانس لینے کی فر شتوں کو جہاں تاب نہیں
کون یہ محو تکلم ہے وہاں آج کی رات
آج ہے مثردۂ لولاک لما کی تفسیر
قربت خاص میں ہیں سرور جہاں آج کی رات
(کیفیات ، ص ، ۴۷؍از محمد زکی کیفی، مطبوعہ ، ادارۂ اسلامیات نار کلی لاہور )
دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم قاری محمد طیب صاحب دیوبندی لکھتے ہیں :
طبعی طور پر آفتاب کے سلسلہ میں سب سے پہلے اس کا وجود اور خلقت ہے جس سے اسے اپنے سے متعلقہ مقاصد کی تکمیل کا موقع ملتا ہے ۔ اگر وہ پیدا نہ کیا جا تا تو عالم میں چاندنی اور روشنی کا وجود ہی نہ ہو تا اور کو ئی بھی دنیا کو نہ پہچانتا ، گو یا اس کے نہ آنے کی صورت میں نہ صرف یہی کہ وہ خو د ہی نہ پہچا نا جا تا بلکہ دنیا کی کو ئی چیز بھی نہ پہچانی جا تی ۔ ٹھیک اسی طر ح اس روحا نی آفتا ب (آفتاب نبو ت )کے سلسلہ میں بھی اولاً حضور کی پیدائش ہے اور آپ کا اس نا سوتی عالم میں تشریف لانا ہے ۔اس کو ہم اصطلاحاً ولادت با سعادت یا میلاد شر یف کہتے ہیں ۔اگر آپ دنیا میں تشریف نہ لا تے تو صرف یہی کہ آپ نہ پہچانے جا تے بلکہ عالم کی کو ئی چیز بھی اپنی غر ض و غایت کے لحا ظ سے نہ پہچانی جا تی ۔ محمد نہ ہو تے تو کچھ بھی نہ ہو تا ۔ پس جو در جہ علوی آفتا ب میں خلقت کہلاتا ہے اسی کو ہم نے رو حانی آفتاب میں ولادت کہا ہے ۔
(آفتاب نبوت ، ص ۴ ۱۲؍۱۲۵)
یہاں قاری محمد طیب صاحب اپنی بات کہنے میں تھوڑی لچک ، تردد اور خوف سے کام لیا ہے اور حدیث لو لاک کی توضیح و تشریح کر نے میں وہ تیزی نہ لاسکے جو ان کے بڑوں نے حد یث لولاک کی تشریح کر گئے کہا ں آفتا ب سماوی اور کہا ں آفتا ب نبوی ان دونو ں میں تمثیل کی گنجائش کہا ں گو دو نو ں نو ری ہیں لیکن آفتا ب سما وی کا جو نو ر ہے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے واسطے سے ہے ۔دیوبند کے ہی نا شر و مبلغ جناب حمید صدیقی لکھنوی حد یث لولاک پر معنی خیز شعر کہتے ہیں کہ :
شاہ لولاک و خواجہ کونین
محترم محتشم سلام علیک
(نعت نمبر :ص ۷۳۲، حصہ اول ، ماہنامہ الرشید لاہور )
فر قہ دیوبند کے بہت بڑے محد ث و مفتی مو لانا سید حسین احمد مدنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جملہ کمالات عالم عالمیان ، حدیث لولاک اور اول ما خلق اللہ نوری کا اعتراف ان الفاظ میں کر تے ہیں :
ہمارے حضرات اکابر کے اقوال عقائد کو ملاحظہ فر ما ئیے ۔ یہ جملہ حضرات ذات حضور پر نور علیہ السلام کو ہمیشہ سے اور ہمیشہ تک واسطہ فیو ضات الٰہیہ و میزاب ر حمت غیر متنا ہیہ اعتقاد کئے ہو ئے بیٹھے ہیں ، ان کا عقیدہ یہ ہے ازل سے ابد تک جو جورحمتیں عالم پر ہو ئی ہیں اور ہو ں گی عام ہے کہ وہ نعمت وجو د کی ہو یا اور کسی قسم کی ان سب میں آپ کی ذات پاک ایسی طر ح پر واقع ہو ئی ہے کہ جسیے آفتاب سے نو ر چاند میںآیا ہو اور چاند سے نو ر ہزاروں آئینوں میں ، غر ض کہ حقیقت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام والتحیتہ واسطہ جملہ کمالات عالم و عالمیان ہیں ۔ یہی معنی لولاک لما خلقت الافلاک اور اول ما خلق اللہ نوری اور انا نبی الانبیاء وغیرہ کے ہیں ۔ (الشہاب الثاقب ، ص ۲۳۶)
حدیث لولاک کی صحت پر سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں :
لولا ک ذرہ زجہاں محمد است
سبحان من یرا ہ چہ شا ن محمد است
سیپا رۂ کلا م الٰہی خدا گواہ !
آں ہم عبارتے ز زبان محمد است
تر جمہ : یہ حدیث ’’لولاک ‘‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جہا ن کا ایک ذرہ ہے ،اللہ ہی کی وہ ذات پا ک ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو جانتی ہے ،کہ آپ کی شان کیا ہے ۔
خدا گواہ ہے کہ کلام الٰہی کے تیسوں سپا رے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نطق اقدس سے ہی ظاہر ہر نے والی عبا رت ہیں ۔
(نعت نمبر : حصہ اول ، ص ۴۱۳، ماہنامہ الرشید لاہور )
دارالعلوم دیوبند کے بانی مو لا نا قاسم نا ناتوی لکھتے ہیں :
جو تو اسے نہ بناتا تو سارے عالم کو
نصیب ہو تی نہ دولت وجود کی زنہار
طفیل آپ کے ہیں کا ئنا ت کی ہستی
بجا ہے کہیے اگر تم کو مبد أ الآثا ر
لگاتا ہاتھ نہ پتلا کو ابو البشر کے خدا
اگر ظہور نہ ہوتا تمہارا آخر کار
(قصیدۂ بہاریہ ، ص ۱۲)
دوسری جگہ قصائد قاسمی میں مولانا محمد قاسم ناناتوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو’’ نور خدا ‘‘ لکھتے ہیں :
رہا جمال پہ تیرے حجاب بشریت
نجانا کو ن ہے کچھ بھی کسی نے بجز ستار
کہا ں وہ رتبہ کہا ں عقل نارسااپنی
کہا ں وہ نور خدا اور کہاں یہ دیدہ زار
(قصائد قاسمی ، بحوالہ تبلیغی نصاب ، فضائل درود شر یف ،ص۱۲۴)
آخرمیں اس پرنور موضوع پر دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ بھی ملاحظہ کرلیں !
یہ بات قر آن میں نہیں ہے ، البتہ حدیث قدسی میں اس طرح کی بات ملتی ہے کہ آپ نہ ہو تے تو زمین و آسمان کو اور اس پوری کائنات کو پیدا نہ کرتا ، ساری کائنات آپ ہی کی وجہ سے اللہ نے پیدا فرمائی ہے ، ظاہری الفاظ کے متعلق بعض حضرات نے حد یث کو موضوع بتایا ہے مگر بالمعنی یہ حدیث صحیح ہے ۔ (فتویٰ دارالعلوم دیوبند ،جواب نمبر :۱۵۹۸۰۸)
حضرت ابو ہریرہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فیصلہ کن خبر :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کنت اول النبیین فی الخق وآخرھم فی البعث
میں پیدا ئش کے اعتبار سے تمام نبیوں میں اول ہوں اور بعثت کے لحاظ سے تمام نبیوں میں آخر ہوں ۔
(ابن کثیر ، جلد ۸ ، ص، ۴۸)
اسی مفہوم کی ایک روایت حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرسلا مر وی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا:
انما بعثت فاتحا خا تما ۔یقینا میں دریا ئے رحمت واکر نے اور سلسلہ نبو ت و ر سالت کو ختم کر نے کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں ۔ (وروی احمد فی مسندہ ، ج ۳، ص ۳۸۷)
جہاں آپ خلقت و نبو ت کے اعتبار سے اول ہیں اسی طر ح سلسلہ نبوت و رسالت کے خاتم بھی ہیں مفصل بیان آگے آئے گا ۔
نبوت ختم ہے تجھ پر ، رسالت ختم ہے تجھ پر
تیرادیں ارفع و اعلیٰ ، شر یعت ختم ہے تجھ پر
(ارشاد عر شی)
ترسیل: صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی پپرادادنوی
رکن : افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی

مجاہد ملت کون ؟از قلم۔ خلیفٸہ حضرت سید تفہیم الاسلام قادری شیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا مفتی منیر رضا جامعی قادری چشتی مجیدی مِدناپوری

بندوں کی ہدایت و رہنماٸ کے لۓ ہر زمانے میں انبیاۓ کرام مبعوث ہوتے رہے ، اسی سلسلۂ نور کی آخری کڑی بنکے ہمارے نبی سیدنا مُحَمَّد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تشریف لائے ان کے بعد اب کوئی نیا نبی نہیں آسکتا تولوگوں کی ہدایت ورہنماٸ کی عظیم ذمہ داری دو گرہوں کے سپرد کر دی گٸ ان میں سے ایک تو علماۓ کرام کی مقدس جماعت ہے اور ایک اولیاۓ کرام کا نورانی قافلہ ہے انہیں اولیاۓ کرام میں سے ایک مشہور و معروف نام حضرت مجاھد ملت کا ہے۔
اولیاۓ کرام کے تعلق سےاللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمادیا ہے کہ ” سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ ہی غم”۔(پ،11،سورہ یونس)
حضور مجاہد ملت کی ولادت 8/ محرم الحرام 1322ھ بمطابق 22/مارچ 1904ء میں ہوئی۔اور وصال مبارک 6/جمادی الاول 1401ھ بمطابق 13/مارچ 1981ء میں ہوا۔ آپ کی 78 سالہ زندگی میں سے 28/سالہ زندگی تعلیم و تربیت کے لیے نکال دیۓ جائیں تو 50/سال بچ جاتے ہیں۔یعنی آپ پورے پچاس سال تک پورے آب و تاب کے ساتھ مذہب و مسلک کی ترویج و اشاعت اور قوم وملت کی فلاح کامیابی کے لئے نمایاں خدمات انجام دیتے رہے، جب جہاں جیسی ضرورت پیش آئی آپ نے ملک وملت کے لئے خود کو پیش کیا۔ آپ کے وجود کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو دینی، ملی، علمی اور سیاسی خدمات کے تابندہ نقوش سے خالی ہو۔ آپ کے دینی ملی اور جماعتی درد کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے آپ جس شہر میں جاتے تھے قیام کے لیے کسی مسجد کا انتخاب فرماتے۔ عقیدتمندوں کی جماعت یہ چاہتی کہ حضور کسی کے گھر پرقیام کریں ۔ عقیدتمندوں کو آپ جواب دیتے کہ گھر کے دروازے عموماً دس بجے رات میں بند ہوجاتے ہیں لیکن خدا کے گھر کے دروازہ ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ ہماری ضرورت قوم کو نہ جانے کس وقت پیش آجائے۔گھر میں قیام کرنے سے صاحب خانہ کو ہمارے لئے پوری پوری رات بیدار رہنا ہوگا اوریہ دقت طلب کام ہے۔ مسجد میں نہ آنے کی پابندی ،نہ جانے کی پابندی، مصلحین امت کی تاریخ میں ایسی مثال بہت کم ملے گی آپ کی اس طرزِ زندگی پر جس قدر غور کیجئے حیرانیاں بڑھتی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔آپ نے اپنی دینی، ملی، علمی اور سیاسی خدمات سےایک عالم کو متاثر کیا ہے
بلا شبہ آج عہدکے مصلحین امت کے لیے آپکی زندگی کا ہر لمحہ مشعل راہ ہے،
حضور مجاہد ملت علم و عمل،عشق وعرفان اور ایمان وایقان کی اس منزل رفیع پر فائز تھے جہاں تک رسائی کے لئے بڑے بڑے صاحبان فضل و کمال منتظر کرم ایستادہ رہتے ہیں
علوم و فنون کی کوئی ایسی شاخ نہیں،عشق وعرفان کی کوئی ایسی سرحد نہیں،جرات وہمت کی کوئی فصیل نہیں اور زہد و پارسائی کی کوئی ایسی منزل نہیں جہاں آپ نے اپنے وجود مسعود کا احساس نہ دلایا ہو۔اگر آپکی حیات کے سنہرے اوراق الٹے جائیں،تاریخ کے دفاتر کھنگالے جائیں اور زمین کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے ‌آپ کے نقوش یکجا کیے جائیں تو حکمت ودانائی کے درجنوں ابواب مرتب ہوسکتے ہیں، آپکی کتاب حیات کا ہر ورق چاند کی چاندنی سے زیادہ صاف وشفاف اور سورج کی طرح درخشاں و تابندہ ہے، حضورمجاہد ملت یقین محکم، عمل پیہم ،محبت فاتح عالم کی عملی تفسیر تھے، حوادث سے الجھتے ہوۓ مقاصد تک پہنچنا انکی فطرت تھی، انکی ذات معمار سنیت بھی تھی اور شعار سنیت بھی۔ زمین پر بیٹھ کر افلاک کی وسعتوں میں ٹہلنا آپ کے معمولات میں داخل تھا۔ آپ کی ذات جماعت اہلسنت کے لیے انعام الہی بھی تھی اوراسرار الہی بھی، آپ کو آپکے عہد نے نہیں سمجھا، آپکو آپکا عہد سمجھ لیتا تو بر صغیر میں آج مسلمانوں کی تاریخ مختلف ہوتی، جس طرح ماضی میں آپ کے نقوش پا مینارہ نور تھے،اسی طرح آج بھی ہیں اور انشاءاللہ قیامت تک مینارہ نور بنے رہیں گے، آج کی قیادت آپکے نقوش حیات کو رہنما بناکر جماعتی مسائل کی بہت ساری پیچیدہ گتھیاں سلجھا سکتی ہے۔آپکی زندگی کے تمام تر نقوش روشن ہیں لیکن ان نقوش کو اپنی حیات کا حصّہ بنانے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ آپکی ذات تاحیات فانوس عشق وعرفان کی صورت میں روشن رہی۔ آپ نے جماعت اہلسنت کو وقار و اعتبار بخشا ہے اسکی کوئی دوسری مثال پیش کرنا بہت مشکل ہے، باطل قوتیں آپ کے وجود سے ہراساں رہا کرتی تھیں۔ بلا ضرورت شرعیہ کسی بھی باطل قوت سے اشتراک کے آپ سخت مخالف تھے۔
مجاہد ملت کی بیشمار خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ نے مسند درس و تدریس پر بیٹھ کر نہایت قیمتی اور باصلاحیت علماء کی جماعت تیار کی۔ فرقہ باطلہ اور دوسرے مذاہب کے درمیان دین اسلام کی شوکتوں کو اجاگر کیا۔آپکی زندگی کے بیشتر لمحات حمایت حق اور اماتت باطل میں گزرے۔آپ نے قدم قدم پر قوم وملت کو بالغ شعور کا اجالا اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں زندگی گزارنے کا ہنر عطاکیا۔آپکی ذات میں درد ملت کو مجسم دیکھا جاسکتا ہے۔
گود سے گور تک کا کوئی لمحہ آپکا خدمت دین متین سے خالی نہیں ملتا۔آپکی زندگی کی ہر سانس سے اتباع شریعت کی خوشبو پھوٹتی ہے۔جبھی تو ڈاکٹر علامہ اقبال فرماتے ہیں؀
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کو ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
حضور مجاھد ملت نے کبھی ظلم کے خلاف مصلحت سے کام نہ لیا بلکہ حق کی اواز بن کر ہمیشہ گرجتے اور برستے رہے یہی وجہ ہے کہ آپ اکثر جیل میں ہوتے۔آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسی لئے اپنے حق کی آواز بلند کرنے کے لئے اور ظلم کا سر کچلنے کے لئے باضابطہ طور پر ایک محاذ کھڑا کررکھا تھا جسے وہ خاکساران حق کا نام دیا تھا
جو نہایت منظم طریقے سے اپنا کام انجام دے رہا تھا
سرکار مجاھد ملت تنہا یہ بوجھ قوم وملت کی سربلندی کے لئے اٹھاتے تھے اور اپنے جیب خاص سے اس صرفے کو انجام دیتے تھے۔
مجاہد ملت جس دور میں اپنے مجاھدانہ کردار وعمل سے ملک وملت کی عظیم خدمات انجام دے رہے تھے اس دور میں سواد اعظم اہلسنت وجماعت کے بڑے بڑے علماء وفضلاء صاحبان شریعت وطریقت موجود تھے مگر مجاہد ملت پیرانہ سالی کے باوجود نوجوانوں کی طرح ہر مسئلے کے حل کے لئے تن تنہا میدان میں پہاڑ بنکر کھڑے ہوجاتے۔
مجاھد ملت کے ہم عصر علماء وصاحبان بصیرت منھ بھر بھر کے دعائیں دیتے
اور من ہی من میں اعلیٰ حضرت کا شعر گنگنا اٹھتے۔
کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا
شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کتا تیرا

منقبت در شان رئیس اڈیشا حضرت مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمان علیہ الرحمۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

حق کی وہ تبلیغ کرتا ہے بہت آرام سے
خوف کھاتا ہے مجاہد کب کہاں انجام سے

جس بشر کو قلب سے ہے انسیت اسلام سے
سرفراز اس کو کیا ہے آپ نے انعام سے

نائب اپنا حضرت صدر افاضل نے کیا
دنگ دشمن ہوگیا ہے تیرے استفہام سے

تو نے رخصت پر عزیمت کو سدا دی فوقیت
ہوگیا ثابت مجاہد ! تیرے استحکام سے

پیار سے پیش آتے تھے ہر شخص سے حضرت مرے
سنتے آیا ہوں ہمیشہ میں یہ خاص و عام سے

وصل کی خوشبو مجھے محسوس ہوتی ہے سدا
دور رہتا ہوں کہاں میں اپنے گل اندام سے

ان کے کردار و عمل سے سب پہ یہ ظاہر ہوا
کردیا ہے عام عشق مصطفیٰ پیغام سے

اک ولی کو اک ولی ہی جانتا ہے اصل میں
پوچھیے ان کی حقیقت حجۃ الاسلام سے

مفتیء اعظم اڑیسہ ، عبد رب ، حضرت نظام
آپ کے گلزار کے یہ پھول ہیں گلفام سے

اور کسی کے جام کی جانب نگہ اٹھتی نہیں
میں ہوں سیراب اس طرح تیری نگہ کے جام سے

آپ کے خدام بھی اہل سنن کے شیر ہیں
کوئی ٹکر لیکے دیکھے آپ کے خدام سے

تھا خلوص دیں پہ مبنی آپ کا ہر ایک کام
فائدہ دیں کو ہوا ہے آپ کے اقدام سے

مدرسے ، تبلیغ سیرت کے ہو بانی تم شہا
مسلک احمد رضا ہے خوش تمھارے کام سے

جو ہے حضرت کے مشن کا خون کرنے پر مصر
ہم کو مطلب ہی نہیں ہے ایسے خوں آشام سے

بیعت و ارشاد سے تم نے نوازا عینی کو
ہوگیا در سے تمھارے مالا مال اکرام سے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی