WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives 2022

اپنے آپ کو علم کے ساتھ عمل کےزیور سے آراستہ کریں……مولاناحافظ اللّٰہ بخش اشرفی.. رپورٹ:باقرحسین قادری برکاتی انواری خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

سہلاؤشریف،باڑمیر [پریس ریلیز]


16 صفر 1444 ھ/14 ستمبر 2022 عیسوی بروز بدھ سنی تبلیغی جماعت باسنی کے جنرل سکریٹری اور نگینہ مسجد کے خطیب وامام مشہورومعروف عالم باعمل حضرت علامہ ومولانا حافظ وقاری اللہ بخش صاحب اشرفی صدرالمدرسین مدرسہ غوثیہ کلاجماعت خانہ باسنی ناگور شریف کی علاقۂ تھار کی مرکزی وراجستھان کی عظیم وممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف میں قبل نماز مغرب آمد ہوئی-اس موقع پر بعد نماز مغرب دارالعلوم کی عظیم الشان غریب نواز مسجد میں طلبہ کو نصیحت کرنے کی خاطر ایک مختصر مجلس رکھی گئی-جس کی شروعات تلاوت کلام ربانی سے کی گئ،بعدہ دارالعلوم کے ایک خوش گلو طالب علم نے نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیا،پھر وقت کی قلت کومدنظر رکھتے ہوئے دارالعلوم کے اساتذہ کی خواہش پر بلا کسی تاخیر کے پیکر اخلاص ومحبت حضرت مولانا حافظ وقاری اللّٰہ بخش صاحب اشرفی دار العلوم انوار مصطفیٰ کے طلبہ کو اپنے قیمتی نصائح سے نوازنے کے لیے تشریف لائے اور طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:آپ حضرات کا دینی تعلیم کےحصول کے لیے یہاں دارالعلوم میں داخلہ لے کر تحصیل علوم میں مصروف رہنا اللہ کی جانب سے ایک عظیم انتخاب ونعمت ہے اور آپ یہ یاد رکھیں کسی بھی دینی ادارے میں آپ کا داخلہ اور آپ کا اس میں تعلیم حاصل کرنا یہ بہت بڑی کامیابی اور سعادت کی دلیل ہے، یعنی یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ نے آپ کے بارے میں خیر کا ارادہ کیا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ’’من یرد اللّٰہ به خیرًا یفقه فی الدین‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اللہ تبارک وتعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین میں فقاہت (سمجھ) عطا فرماتا ہے‘‘۔۔۔۔۔ وحی منقطع ہوچکی ہے، جس کے ذریعہ یقینا من جانب اللہ غیب سے قانون الٰہی اترتا تھا، لیکن آپ کے سامنے قرآن کریم موجود ہے، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے، ان کے ذریعہ آپ اللہ پاک کی رضا معلوم کرسکتے ہیں اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بے شمار مخلوقات میں سے آپ کاانتخاب فرماکرآپ کو ادھر متوجہ کیا ۔ یہ آپ لوگوں کے لیے وہ نعمت ہے کہ اس کے مقابلے میں دنیاکی ہرنعمت ہیچ ہے۔ اس لیے آپ اس دین کوسمجھ کر پڑھیں اور آخرت کا اجر وثواب سامنے رکھ کر محنت کریں۔ اس نعمت کا شکریہ یہ ہے کہ آپ محنت کریں۔تحصل علوم دینیہ کے لیے خوب سعی وکوشش کریں،اوقات کی پابندی کریں۔اپنے ان قیمتی اوقات کی خوب قدر کریں کیونکہ بقول حضول حافظ ملت”تضییع اوقات سب سے بڑی محرومی ہے” اس لیے اپنے اوقات کو منظم کرکے اپنے مکمل اوقات کو تحصیل علم اور اس کے ذرائع ہی میں استعمال کریں، اساتذہ کے سامنے ادب سے بیٹھیں۔ غور سے بات سنیں۔ آپ کی آنکھ، کان اور دماغ پوری طرح استاذ کی طرف متوجہ ہو۔ اور اس سے پہلے جہاں تک ممکن ہو جو آپ دن میں پڑھ رہے ہیں، رات کو اس کا مطالعہ کرلیں۔آپس میں علمی تکرار کریں، کیونکہ اگر آپ متعلقہ سبق پڑھنے سے پہلے کم ازکم ایک مرتبہ اسے مطالعہ کرلیں اور پڑھتے وقت غور سے استاذ کی بات کو سنیں اور پڑھنے کے بعد بھی کم ازکم ایک مرتبہ پھر مطالعہ اور تکرار کرلیں تو ان شاء اللہ! اس طرح کرنے سے پھر کبھی سبق نہیں بھولے گا-اور علم ہرمقام پرادب کامتقاضی ہے جیساکہ آپ کو بار بار کہا جاتا ہے کہ علم ادب چاہتا ہے: اپنے استاذ کا ادب، اپنے ادارے کا ادب اور اپنے سے بڑے کا ادب، یہ ادب بہت کچھ دیتا ہے۔یادرکھو خود حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’من لم یرحم صغیرَنا ولم یوقر کبیرَنا ولم یعرف شرفَ علمائنا فلیس منا۔‘‘ ’’جو ہم میں سے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا، بڑوں کا احترام نہیں کرتا، علماء کی قدر نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ اس لیے آپ حضرات ادب کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں کیونکہ آپ کا یہ ادب دوسرے مسلمانوں پربھی اچھا اثر ڈالے گا۔ لوگ آپ کو دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ دیکھو دین پڑھنے والے طلبہ ایسے ہوتے ہیں-آپ نے اپنی نصحتوں کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا:کہ کوئی طالب علم ہو یا عالم دین ، یا ان کے علاوہ کوئی بھی دینی مشغلہ رکھنے والا شخص ہو، اگر وہ علم دین کے حصول اور اس کی اشاعت میں لگا ہوا ہے تواس کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار بشارتیں ہیں،جیساکہ ایک موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لن یشبع الموٴمن من خیر سمعه حتّٰی یکونَ منتہاہ الجنّة“ مومن کا پیٹ خیر کی بات سننے سے کبھی نہیں بھرتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے، حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے اپنی ساری زندگی طلب علم میں لگادی، اس کو جنت کی بشارت ہے۔ اس حدیث کے پیش نظر بہت سے اولیاء کرام واسلاف ساری زندگی طالب علم ہی بنے رہے،ہمیں اور آپ کو بھی چاہییے کہ ہم ہمیشہ اپنے آپ کو طالب علم ہی سمجھیں، حدیث میں طلب علم کی کوئی خاص شکل متعین نہیں ہے؛ لہٰذا جو شخص بھی مرتے وقت تک کسی طرح کے بھی علمی کام میں مشغول ہے، وہ اس بشارت کا مستحق ہے۔

ایک موقعہ پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے طلب علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”جو شخص طلب علم کےلیےنکلا تو وہ جب تک واپس نہ آجائے اللہ کی راہ میں لڑنے والے مجاہد کی طرح ہے؛ کیونکہ جس طرح مجاہد، اللہ کے دین کو زندہ کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے، اسی طرح طالب علم بھی احیاء دین کے مقصد سے اپنا سب کچھ قربان کرتا ہے؛ لہٰذا فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق طالب علم گھر واپس آنے تک مجاہد کے مانند ہے، یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ طلب علم کے بعد گھر لوٹنے سے طالب علم کے مرتبہ میں کمی نہیں آتی؛ بلکہ اس کے مقام و مرتبہ میں اضافہ ہوجاتا ہے؛ کیونکہ حصول علم کے بعد اب وہ عالم دین ہوگیا، اور عالم دین ہونے کی وجہ سے وہ انبیاء کا وارث بن گیا۔طلب علم کا اس قدر فائدہ ہے کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ کَانَ کفَّارَةً لِمَا قَضٰی“ یعنی طلب علم کی وجہ سے ماضی میں کیے ہوئے گناہ معاف ہوجاتے ہیں گناہوں سے یا تو صغیرہ گناہ مراد ہیں، یا پھر یہ مطلب ہے کہ طلب علم کے ذریعہ سے توبہ کی توفیق ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں سارے گناہ زائل ہوجاتے ہیں،اس سے معلوم ہوا کہ طلب علم کے نتیجہ میں جنت کی بشارت بھی ہے، مجاہدوں جیسا ثواب بھی ہے اور ماضی میں کئے ہوئے گناہوں کی بخشش کا پروانہ بھی ہے۔اتنی ساری فضیلتوں کے باوجود اگر ہم اور آپ علم دین کے حصول میں باقاعدہ کوشاں نہ ہوں تو یہ ہماری اور آپ کی حرماں نصیبی ہی ہوگی،

لہٰذا طلبۂ عزیز سے لجاجت کے ساتھ گذارش ہے کہ اللہ کے واسطے سستی اور غفلت کو پس پشت ڈال کر خوب لگن اور محنت سے تحصیل علم میں لگ جائیں، تاکہ دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل ہوسکے،اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحصیل علم کے ساتھ عمل بہت ہی ضروری ہے کیونکہ بغیر عمل کے علم بے فائدہ ہے جیساکہ حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا فرمان ہے کہ
علم چنداں کہ بیشتر خوانی
چوں عمل درتو نیست نادانی
اور غالباً حضرت علی کرّم اللّٰہ تعالیٰ وجہہ الکریم یا کسی بزرگ کا فرمان ہے”العلم بلاعمل وبال والعمل بلاعلم ضلال والجمع بینھما کمال”…جب کہ بہت سے لوگ صرف علم حاصل کرنے کوہی کافی سمجھتے ہیں حالانکہ اگر کوئی محض علم حاصل کرلے اور اس پر عمل نہ کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسا علم بےکار وبےفائدہ ہے،علم بغیر عمل کے ایسا ہی ہے جیسے انسانی جسم بغیر روح کے ہو،جس طرح روح کے بغیرجسم بے کار ہوتا ہے اسی طرح علم اور عمل کا جوڑ ہے،آپ نے اپنی ناصحانہ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے اور دارالعلوم کے اساتذہ وطلبہ کو مخاطب کر کے فرمایا-
قابل احترام اساتذۂ کرام اور عزیز طلبہ ! ہم سب جانتے ہیں کہ علم کی بڑی فضیلت و اہمیت ہے اور علم پڑھنے اور پڑھانے والوں کے لیے کائنات کی ہر شے بخشش کی دعائیں مانگتی ہےجیساکہ حدیث مبارکہ میں آتاہے وہ مچھلیاں جو پانی کی تہوں میں تیر تی ہیں اور چیونٹیاں جو اپنے بلوں میں رہتی ہیں حتٰی کہ کوئی شے ایسی نہیں جو علم والوں کے لیے دعائیں نہ مانگتی ہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کے راستے میں اپنے پر بچھاتے ہیں۔اس سے زیادہ سعادت وعظمت اور کیا ہوسکتی ہے اس لیے اللہ نے فرمایاہے :
وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ
مگر یہ سعادت یہ درجات اس وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب علم و عمل یکجا ہوجائیں تو پھر درجات کی بلندی شروع ہوجاتی ہے اور اگرصرف علم ہو اور عمل نہ ہوتو ایسے علم کو علم نافع نہیں کہا جاسکتا، اس کی وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺجب دعا مانگتے تو یہ فرماتے:اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا (سنن ابن ماجه (1/ 289)
’’اے اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم کا سوال کرتاہوں‘‘
اور فرماتے:اللَّهُمَّ إِنِّي أعوذبک مِن عِلم لایَنفَعُ
’’اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے‘‘

علم نافع وہ ہے جس کے مطابق عمل بھی ہو اور جس علم پر عمل نہ ہو وہ علم نافع نہیں اور جب علم و عمل جمع ہوجائیں تو نور علی نور ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ علم حاصل کرنا ایک بہت بڑی سعادت ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ جو حاصل کیا جائے اس کے مطابق عمل بھی کیا جائے۔

جب ہم ائمہ اور محدثین کی زندگی و سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ نظر آتاہے کہ وہ جو لکھتے پڑھتے تو اس پر عمل بھی کرتے ۔
اور ذخیرۂ احادیث کی سب سے پہلی کتاب موطاء امام مالک ہے جب وہ جمع ہوئی تو امام مالک رحمہ اللہ بہت خوش تھے پوچھنے والوں نے پوچھا امام صاحب کتاب کےمکمل ہونے پر خوش ہیں؟ جواب میں فرمایا:اس کے جمع ہونے پر تو خوش ہوں لیکن حقیقی خوشی اس بات کی ہے کہ اس کتاب میں کوئی حدیث ایسی نہیں جس پر میں نے عمل نہ کیا ہواور بطور مثال فرمانے لگے کہ جب میں حجامہ (سنگی لگانا) کی حدیث لکھنے لگا میری غیرت ایمانی نے یہ گوارہ نہ کیا کہ یہ حدیث لکھوں جبکہ میں نے حجامہ نہیں لگوایا تھا لیکن حدیث پر عمل کی خاطر باوجود اس بات کے کہ مجھے حاجت نہ تھی لیکن حجامہ والے کو بلاکر حجامہ لگوایا۔

اور امام ابو داؤد رحمہ اللہ کے بارے میں آتاہے کہ وہ ایک دریا کےکنارے احادیث لکھنے بیٹھا کرتے تھے ایک دن وہاں تشریف فرماتھےکہ ایک کشتی کا گذر ہوا اس میں سوار ایک شخص کو چھینک آئی اس نے الحمدللہ کہا امام صاحب نے اس کی چھینک کی آواز بھی سنی اور اس کا الحمدللہ کہنا بھی سنا لیکن خیال نہ رہاکہ جواب میں یرحمک اللہ کہیں اور وہ کشتی گذر گئی، جب خیال آیا تو اپنے آپ سے فرمانے لگے اے داؤد نبی کریم ﷺ کی حدیثیں لکھ رہے ہو اور حدیث پر عمل نہیں کیاکنارےپے ایک کشتی کھڑی تھی اس کشتی والے کو کہا وہ جو کشتی ابھی گزری ہے مجھے اس تک پہنچانے کی کتنی اجرت لوگے اس نے کہا تین دینار،آپ اس میں سوار ہوگئے اور جب وہ کشتی ساتھ آگئی تو جس شخص کو چھینک آئی تھی اس کی طرف منہ کر کے کہا ’’یرحمک اللہ ‘‘یہ بولنے کے بعد کشتی والے کو کہا مجھے واپس کنارے پے لے چلو، جب واپس پلٹے تو آواز غیبی آئی:

یاابا داؤد اشتریت جنتک بثلاثة دنانیر

’’اے ابو داؤد تم نے اپنی جنت تین دیناروں کےعوض خرید لی‘‘
یہ ہے علم و عمل میں مطابقت-

آئیے امام بخاری رحمہ اللہ کو دیکھیئے جو امیر المومنین فی الحدیث ہیں وہ فرماتے ہیں :

’’مجھےاللہ پر سوفیصد یقین ہے کہ اللہ قیامت کےدن مجھ سے اس بات کا حساب نہیں لے گا کیونکہ جب سے میں نے یہ حدیث پڑھی ہے کہ غیبت حرام ہے تو میں نے کسی کی غیبت نہیں کی‘‘

کیاہم میں سے کوئی ایسا دعویٰ کرنے کی جرأت کرسکتاہے؟ اسے کہتے ہیں علم وعمل میں مطابقت کہ جو سیکھا اس پرپہلے خود عمل کیا۔

میری آپ لوگوں سے التجاہے کہ علم میں پختگی حاصل کریں لیکن عمل کی طرف سے بھی غافل نہ ہو ں اس پر بھی پوری توجہ ضروری ہے۔

آج کے اس دور میں علماء کی کمی نہیں ہے کوتاہی اگر ہے تو عملی پہلو مفقود ہوگیا ہے ، کمی اگر ہے تو وہ عملی زندگی میں ہے ،آئییے ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ:
“اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا”
آپ نے اپنے اختتامی جملوں میں اساتذہ وطلبہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یقینا ریت کے ان دھوروں کے درمیان دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف ودیگر سنی اداروں کی تعلیمی وتدریسی، دینی ومذہبی خدمات بہت ہی مستحسن اور وعمدہ ہیں اور ان اداروں کے مدرسین ومعاونین اور ذمہ داران لائق ستائش ہیں کہ اس طرح کے پریشان کن سنگلاخ وریگستانی علاقے میں دین وسنیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں،خصوصیت کے ساتھ آپ نے دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف کے ناظم اعلیٰ نورالعلماء پیرطریقت حضرت علامہ سیدنوراللّٰہ شاہ بخاری کی خدمات کو خوب سراہا-
صلوٰة وسلام اور دارالعلوم کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا محمدشمیم احمد صاحب نوری مصباحی کی دعا پر یہ مجلس سعید اختتام پزیر ہوئی-

औलिया-ए-किराम के उ़र्सों का मुख्य उद्देश्य उन के अनमोल वचन और धार्मिक संदेश को लोगों तक पहुंचाना है… पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी: रिपोर्टर:मुहम्मद क़ाएमुद्दीन अनवारी मुदर्रिस:मदरसा अहले सुन्नत फैज़ाने शाह रुकने आ़लम,मदीना मस्जिद सालारिया,तहसील:सेड़वा,ज़िला:बाड़मेर [राजस्थान]

मदरसा अहले सुन्नत फैजाने शाह रुकने आ़लम मदीना मस्जिद सलारिया में हर्ष व उल्लास और अ़क़ीदत व एहतिराम के साथ जल्सा-ए-ग़ौषिया मनाया गया



पिछले वर्षों के अनुसार, मंगलवार, 15 सफ़रुल-मुज़फ़्फ़र 1444 हिजरी/13 सितंबर 2022 ई. “मदरसा अहले सुन्नत फैज़ाने शाह रुकने आ़लम मदीना मस्जिद सलारिया, सेड़़वा” में ऐक इस्लाही सम्मेलन [जल्सा] “ग़ौषुल आ़लमीन हज़रत ग़ौष बहाउल हक़ बहाउद्दीन ज़करिया मुल्तानी अलैहिर्रहमा” के नाम से बहुत ही अ़क़ीदत और एहतिराम के साथ आयोजित किया गया।
इस धार्मिक सम्मेलन [जल्सा-ए-ग़ौषिया] की शुरुआ़त तिलावते कलामे पाक से हुई।

उस के बाद मदरसा फैज़ाने शाह रुकने आ़लम के छात्रों ने नात, ग़ज़ल [सिंधी नात] और संवाद के रूप में अपना धार्मिक [इस्लामिक ] कार्यक्रम प्रस्तुत किया –

फिर ख़तीबे हर दिल अ़ज़ीज़ हज़रत मौलाना जमालुद्दीन साहब क़ादरी अनवारी,नाएब सदर दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ ने “समाज सुधार में धार्मिक बुजुर्गों की भूमिका” विषय पर एक उत्कृष्ट खिताब [भाषण] किया –

आप के संबोधन [तक़रीर] के बाद शहज़ादा-ए- मुफ्ती-ए-थार हज़रत मौलाना अ़ब्दुल मुस्तफा साहब नईमी सुहरवर्दी नाज़िमे आला दारुल उ़़लूम अनावरे ग़ौषिया सेड़़वा ने “मोहब्बते रसूल व औलिया-ए-किराम” विषय पर बेहतरीन व सराहनीय खिताब किया।

अंत में, पीरे तरीक़त मशहूर धर्मगुरु नूरुल उ़़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा अल्हाज सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी मुहतमिम व शैखुल हदीष:दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा सेहलाऊ शरीफ ने विशेष भाषण दिया। .
आप ने अपने संबोधन [खिताब] में धर्मगुरुओं [बुज़ुर्गों] के नाम पर होने वाली इन सभाओं का वास्तविक उद्देश्य समझाया और कहा कि यदि आप सज्जनों, जो धर्म के नाम पर इन सभाओं को आयोजित करते हो, यदि आप वास्तव में उनकी दुआ़एं और फैज़ प्राप्त करना चाहते हो तो आप को उनके धन्य जीवन का अध्ययन कर के उन्हीं की तरह जीवन जीने की कोशिश करनी चाहिए, उनकी बातों, उपदेशों और शिक्षाओं का पालन करना चाहिए। अगर हम और आप उनसे प्यार करने का दावा करते हैं, तो हमें भी कोशिश करनी चाहिए कि जितना हो सके शरीअ़ते इस्लामिया पर अ़मल करें, नेक कार्य करें,बड़ों को सम्मान दें,छोटों से प्यार और नरमी से पेश आएं,नमाज़,रोज़ा,हज व ज़कात की अदायगी पर विशेष ध्यान दें।

इस दीनी प्रोग्राम में मौलाना मुहम्मद उर्स सिकंदरी अनवारी ने विशेष नात-ख्वानी की और मौलाना मुहम्मद रियाजुद्दीन सिकन्दरी अनवारी ने निजामत के कर्तव्यों को अच्छी तरह से निभाया।

इन सज्जनों ने इस धार्मिक [दीनी व मज़हबी] कार्यक्रम में विशेषता के साथ भाग लिया!
हज़रत पीर सय्यद दावान शाह बुखारी, हज़रत मौलाना मुहम्मद शमीम साहब नूरी मिस्बाही, हज़रत मौलाना मुहम्मद हुसैन साहब क़ादरी अनवारी दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा,, क़ारी अरबाब अ़ली क़ादरी अनवारी, क़ारी मुहम्मद हाशिम अनवारी आदि।

کہانی۔‌۔‌۔‌۔۔۔۔۔۔خدمت کا صلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از قلم : رفعت کنیز، حیدرآباد۔۔۔۔

ایک شہر میں اک نیک ضعیفہ رہتی تھی ۔وہ بہت نیک اور عبادت گزار تھی ۔سارے لوگ اس ضعیفہ سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ وہ ضعیفہ جس کسی کے لیے دعا مانگتی تھی اس کی دعا قبول ہوتی تھی۔ ہر شخص اس ضعیفہ کےپاس آتا اور دعائیں کرواتا تھا۔

اس ضعیفہ کی دعا سے کوئ کلکٹر ، کوئ افسر، کوئ تحصیلدار، کوئ عہدیدار تو کوئ طبیب بن گیا۔ سب اس ضعیفہ کو بہت مانتے تھے آور وہ ضعیفہ بہت نیک ، عبادت گزار اور صاف دل کی مالک تھی۔ وہ ہنستے مسکراتے ہر کسی کے لئے دعائیں مانگتی تھی۔ جس شہر میں وہ رہتی تھی، اس شہر میں کبھی کوئ فساد آفت مشکلیں نہیں آءے، سب سےلوگ اچھے سے رہا کرتے تھے ۔

      کسی  دوسرے شہر میں ایک ندیم نامی شخص رہتا تھا۔ وہ اپنی محنت اور ایمانداری کے لیے بہت مشہور تھا ، لیکن جس دفتر میں وہ کام کرتا تھا وہاں کا افسر ندیم کی قدر نہیں کرتا تھا،  نہ کبھی کوی تعریف کرتا تھا اور نہ ہی اس کو پروموشن دیتا تھا۔

بار بار ندیم پر کام کا بوجھ ڈال دیا کرتا تھا۔ ندیم افسر کے سامنے خاموش رہ جاتا تھا ۔ کچھ سوال نہیں کرتا تھا۔ ندیم کے ایک دوست نے ندیم سے کہا تم اتنی محنت کرتے ہو پھر بھی تمہاری کوئ قدر نہیں تم کہیں اور کام کیوں نہیں کرتے؟ ندیم نے کہا یہ میری آخری جاب ہے اگر یہ چلی گءی تو کہیں اور جاب نہیں ملے گی۔ تو ندیم کے دوست نے کہا ٹھیک ہے پاس کے شہر میں اک ضعیفہ رہتی ہے، سنا ہے وہ جس کے لئے بھی دعا کرتی ہے اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے ،تم اس ضعیفہ سے ملو اور دعا کرو الو.

ایک دن دفتر سے چھٹی لے کر ندیم پاس والے شہر چلا جاتا ہے اور سب لوگوں سے اس ضعیفہ کا پتہ پوچھنا ہے۔ اسی دوران یہ پتہ چلتا ہے ک ضعیفہ بہت بیمار ہے، اب کوئ اس کے پاس نہیں جاتا ،وہ ضعیفہ اب عبادت بھی نہیں کرتی۔ لوگوں نے اس کےپاس جانا بند کردیاہے۔ ندیم نے جب سنا تو واپس لوٹنا چاہا، مگر خیال ایا کہ جب اتنی دور آگیا ہوں تو ضعیفہ سے ملکر ہی جاونگا۔ پھر ندیم کے اصرار پر لوگوں نے ضعیفہ کا پتہ دیا اور ندیم ضعیفہ کے گھر پہونچا۔
دروازہ کھٹکھٹایا مگر کوئ آواز نہیں آءی، دوبارہ کھٹکھٹایا تو دھیمی سی آواز آءی ،
کون ہو بیٹا میں اٹھ نہیں سکتی دروازہ کھول کر اندر آجاؤ، تب ندیم آہستہ سے دروازہ کھولتا ہے اور ضعیفہ کی اجازت سے اندر جاتا ہے۔

اور ضعیفہ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے، امّاں جی آپ کیسی ہیں، کیا ہوا آپ کو ؟ ضعیفہ نے کہا بوڑھی ہو گئ ہوں بیمار ہوں ۔ ندیم نے پوچھا کیا آپ کا کوئ رشتہ دار نہیں ہے؟ ضعیفہ نے کہا جب ٹھیک تھی تو سارے لوگ ملنے آتے تھے، اب بیمار ہوں تو کوئ نہیں آتا ۔

ضعیفہ کی ان
باتوں سے ندیم سوچنے لگتا ہے، کیسے خود غرض لوگ ہیں، صرف اپنے مطلب کے لیے آتے ہیں اور اس بات پر ندیم کو بہت دکھ ہوتا ہے اور ضعیفہ کی اجازت لےکر ضعیفہ کی خدمت میں کئ دن گزار دیتا ہے ۔شہر کے سارے لوگ شرمندہ رہتے ہیں ، لیکن کچھ نہیں کہتے ،
آہستہ آہستہ ضعیفہ ٹھیک ہونے لگتی ہے ۔جب وہ بلکل ٹھیک ہو جاتی ہے تو کہتی ہے بیٹا تم اجنبی ہوکر میری اتنی خدمت کررہے ہو، بتاو تم کو کیا چاہیے؟ ندیم نے کہا امّاں جی مجھےکچھ نہیں چاہیے ، بس آپ ٹھیک ہوجائیں۔ ضعیفہ نے کہا بیٹا میں ٹھیک ہوجاونگی ، تم اپنا گھر چھوڑ کر کب تک یہاں رہوگے ، تم کو اپنے گھر جانا چاہئے، وہ لوگ پریشان ہوتے ہونگے۔ ندیم نے کہا امّاں جی میرا بھی کوئ نہیں ہے، میرے ماں باپ بھی نہیں ہیں، میرے ماں باپ ہوتے تو شاید …..اتنا کہکر ندیم خاموش ہوجاتا ہے۔ اور ضعیفہ سمجھ جاتی ہےکہ یہ کسی پریشانی میں ہے ، پھر ضعیفہ مسکراکر ندیم کو بہت ساری دعائں دیتی ہے۔

اور کہتی ہے تمہاری خدمت کو اللہ تعلیٰ نے قبول کیا ہے، اب لوگ تمہاری عزّت کرینگے، تم اب واپس جاؤ، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ یہ سنکر ندیم ضعیفہ سے اجازت لےکر اپنے گھر واپس لوٹتا ہے اور دوسرے دن دفتر جاتا ہے اور وہاں اس کا افسر ندیم کے انتظار میں رہتا ہے اور اور جب ندیم کو دیکھتا ہے تو ندیم کو گلے لگاتا ہے اور کہتا ہے تم اتنے دن کہاں تھے تمہارے نہ ہونے کی وجہ سے دفتر میں بہت سارا نقصان ہوا ہے، مجھے تمہاری بہت ضرورت ہے ،تمھارے بغیر کوئ کام پورا نہیں ہوتا، آج سے تم میری کرسی پر بیٹھوگے اور سارا کام سنبھالوگے، سب کچھ اب تمہارے کنٹرول میں ہے اور میں معافی چاہتا ہوں کہ میں نےتمھارے ساتھ بہت سختی کی ۔ندیم کو حیرانی ہو رہی تھی ک اک خدمت کے بدلے اسے اتنی عزت اور شہرت مل رہی ہے اور ندیم سمجھ جاتا ہے کہ یہ سب ضعیفہ کی خدمت اور ان کی دعاؤں کا اثر ہے ۔ندیم اپنے دوست سے مل کرسارا واقعہ بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بے شک کامیابی صرف محنت سے نہیں ملتی ، بلکہ بزرگوں کی خدمت اور انکی دعاؤں سے ملتی ہے اور ندیم اس ضعیفہ کو اپنے گھر لے کر آتاہے اور اپنی ماں کی طرح خدمت کرتا ہے۔

بزرگان دین کے اعراس کا اصل مقصد لوگوں تک بزرگوں کی قیمتی باتیں اور دینی پیغام پہنچانا ہے……سیدنوراللہ شاہ بخاری : رپورٹ:قائم الدین انواری خادم:مدرسہ اہلسنت فیضان شاہ رکن عالم متصل مدینہ مسجد سالاریہ، تحصیل:سیڑھوا،ضلع: باڑمیر[راجستھان]

مدرسہ اھل سنت فیضانِ شاہ رکن عالم مدینہ مسجد سالاریہ میں جلسۂ غوث العٰلمین منایاگیا-



حسب سابق امسال بھی 15 صفرالمظفر 1444 ھ/13 ستمبر 2022 عیسوی بروز منگل مدرسہ اہل سنت فیضان شاہ رکن عالم مدینہ مسجد سالاریہ، سیڑھوا میں ایک اصلاحی جلسہ بنام “جلسۂ غوث العالمین حضرت غوث بہاؤالحق المعروف بہاؤالدین زکریا ملتانی علیہ الرّحمہ” عقیدت واحترام کے ساتھ منایا گیا-
تلاوت کلام ربابی سے جلسہ کی شروعات ہوئی، بعدہ مدرسہ فیضان شاہ رکن عالم کے طلبہ وطالبات نے اپنا دینی ومذہبی پروگرام نعت، غزل[سندھی نعت] ومکالمہ کی شکل میں پیش کیا-پھر خطیب ہر دل عزیز حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف نے “اصلاح معاشرہ میں بزرگان دین کا کردار” کے عنوان پر عمدہ خطاب کیا-
آپ کے خطاب کے بعد شہزادۂ مفتئِ تھر حضرت مولاناعبدالمصطفیٰ صاحب نعیمی سہروردی ناظم اعلیٰ دارالعلوم انوارغوثیہ سیڑھوا نے “محبت رسول واولیاءِ کرام” کے عنوان پر بہترین خطاب فرمایا-
آخر میں خصوصی وصدارتی خطاب خانقاہ عالیہ بخاریہ کے صاحب سجاہ نورالعلماء پیرطریقت رہبر راہ شریعت حضرت علامہ الحاج سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی شیخ الحدیث و ناظم اعلیٰ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف نے کیا-
آپ نے اپنے خطاب میں جگہ جگہ جو بزرگان دین کے نام پر جلسے کیے جاتے ہیں ان جلسوں کا اصل مقصد بتاتے ہوئے فرمایا کہ آپ حضرات جن بزرگان دین کے ناموں سے یہ جلسے کرتے ہیں اگر صحیح معنوں میں ان کے فیوض وبرکات حاصل کرنا چاہیں تو آپ حضرات ان کی مبارک زندگیوں کو مطالعہ کرکے انہیں کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کریں، ان کے جو ارشادات ومواعظ اور ملفوظات ہیں ان پر عمل پیرا ہوں،انہوں نے اپنی مکمل زندگی لوگوں تک دینی پیغام پہنچایا اور شریعت اسلامیہ کے وہ مکمل طور پر عامل رہے تو اگر ہم اور آپ ان سے محبت کے دعویٰ دار ہیں تو ہمیں بھی شریعت اسلامیہ کے جملہ احکام پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ منہیات شرعیہ سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کرنی چاہییے-آپ نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے پیری مریدی کے آداب اور اس کی اصلیت پر بھی عمدہ گفتگو کی- اور ساتھ ہی ساتھ سبھی مرشدان طریقت کے مریدین کو مخاطب کرکے اس علاقے میں جملہ سلاسلِ طریقت میں جو ذکر واذکاررائج ہیں ان پر مدوامت کی تاکید کی-
خصوصی نعت خوانی کاشرف مداح رسول مولانامحمدعرس سکندی انواری نے حاصل کیا،اور نظامت کے فرائض مونا محمدریاض الدین سکندری انواری نے بحسن وخوبی نبھایا-
اس دینی ومذہبی پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک رہے!
حضرت پیر سیدداون شاہ بخاری، حضرت مولانامحمدشمیم احمد صاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات دارالعلوم انوارمصطفیٰ، حضرت مولانا محمدحسین صاحب قادری انواری،قاری ارباب علی قادری انواری،قاری محمدہاشم انواری وغیرہم-

کیا طالبِ علم کا حفظ مکمّل ہونے کے بعد ایک نشست میں پورا قرآن سنانا درست ہے؟؟ از قلم مفتی احمد رضا صاحب مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر بہرائچ شریف یو پی

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ
حفظ مکمل ہونے کے بعد طلبا ایک نشست میں پورا قرآن پاک سناتے ہیں تجوید کی رعایت کے ساتھ تو کیا ایک نشست میں پورا قرآن سنانا درست ہے جبکہ بہار شریعت میں ہے کہ
تین دن سے کم میں قرآن مکمل کرنا خلاف اولی ہے
2/بہار شریعت میں ہے کہ مجمع میں سب لوگ بلند آواز سے قرآن مجید پڑھیں یہ حرام ہے
اور حفظ کی درسگاہ میں یا یاد کرنے کے وقت سب بچے بلند آواز سے ہی پڑھتے ہیں تو کیا یہ حرام ہے ؟
مکمل وضاحت کے ساتھ دلائل کی روشنی میں نیز بہار شریعت کے مسئلہ کی بھی کا مل طور پر وضاحت کردیں
سائل عاشق علی مصباحی
بہرائچ
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔مدارس اسلامیہ میں بلند آواز سے بچوں کا قرآن پاک حفظ (یاد)کرنا یا ناظرہ پڑھنا یا نششت میں پورا قرآن سنانا تعلیم قرآن ہے نہ کہ تلاوت قرآن پاک ۔جیسا کہ جا ءالحق میں اسی طرح کے سوال کا جواب ہے ۔فرماتےہیں وہاں تعلیم قرآن ہے تلاوت قرآن نہیں ۔تلاوت کا سننا فرض ہے ۔نہ کہ تعلیم قرآن پاک ‘ اس لئے رب العزت نے اذاقرئ فرمای ,تعلم نہیں اذاقرأت القرآن فاستعذباللہ (سورہ نحل 98)جب قرآن پڑھو تواعوذ باللہ پڑھ لیا کرو۔تلاوت قرآنپر اعوذ پڑھنا چاہیئے ,جب شاگرد استاد کو قرآن سناۓ تو اعوذ نہ پڑھے , یہ تلاوت قرآن نہیں ۔قرآن ہے (شامی)ایسے ہی قرآن کریم تر تیب کے خلاف چھاپنا منع ہے ترتیل وترتیب چاہئیے ,مگر بچوں کی تعلیم کے لیے آخری( 30)پارہ الٹا چھاپتے بھی ہیں اور پڑھاتے بھی ہیں ,تعلیم وقرأۃ کے احکام میں فرق ہوتا ہے ۔قرآن نے بھی تلاوت قرآن وتعلیم میں فرق کیا ۔قال تعالی یتلو علیھم آیۃ یزکیہ ویعلمھم الکتاب والحکمۃ اھ۔(سورہ جمعہ آیت 2 )وہ نبی مسلمانوں پر آیتیں تلاوت کرتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور قرآن وحکمت سکھاتے ہیں ۔اگر تلاوت اور تعلیم میں فرق نہیں ہوتا تو یہاں ان دونوں کا ذکر علیحدہ کیوں ہوا ۔(جا ءالحق دوم ص 395۔ قادری پبلیشرز )
مذکورہ دلائل سے بالکل ظاہر وباہر ہے کہ تلاوت قرآن وتعلیم قرآن میں فرق ہے۔لہذا تلاوت کے احکام کلی طور تعلیم پر نافذ نہیں ہونگے ۔لہذا جو بہارے شریعت میں مسئلہ مذکور ہے وہ تلاوت قرآن کے تعلق سے ہے ۔*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 13/صفر 1444

عرس کمیٹی خانقاہ قدوسیہ کی ہنگامی مٹنگ۔۔۔پیش کش (حافظ و قاری) فیضان احمد صابر قادریناظم نشر و اشاعت خانقاہ قدوسیہ، بھدرک شریف ، اڈیشا


۱۱ ستمبر ۲۰۲۲ء روز یکشنبہ کو بعد نماز عشا صحن عزیز الجامعۃ القدوسیہ ، بھدرک شریف، اڈیشا میں عرس کمیٹی خانقاہ قدوسیہ کی ہنگامی میٹنگ صاحب سجادہ حضرت علامہ سید آل رسول حبیبی ہاشمی کے زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں شہر بھدرک کے مختلف ادوار کے عقیدت مندان مفتئ اعظم اڈیشا نے کثیر تعداد میں شرکت کی
اس میں جو باتیں باتفاق طے ہوئیں وہ یہ ہیں
(۱) سیدی مفتئ اعظم اڈیشا کا سالانہ ۲۸ واں عرس قدوسی 30ستمبر اور یکم اکتوبر ۲۰۲۲ء کو اپنی روایتی شان کے ساتھ منایا جائیگا
(۲) اس میں اڈیشا اور بیرون اڈیشاکے پچاس سے زائد جید علما ، خطبا ، شعرا اور مشائخ کی جلوہ گری ہوگی ان شاء اللہ
بھارت کے علاوہ بغداد معلی اور ملک یمن کے شیوخ کی تشریف آوری بھی ہورہی ہے
ان سب کے پر جوش استقبال کی مکمل تیاری کیجائیگی
(۳)اس موقع پر صاحب سجادہ کی تین کتابیں اور ناظم نشر و اشاعت حضرت عینی کی ایک کتاب کی رسم اجرا ہوگی
(۴) اس موقع پر سرکار اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لحیہ شریف اور سر اقدس کے موئے مبارک اور کعبۂ مقدسہ کے پر نور غلاف کی زیارت کرائی جائیگی
(۵) ۳۰ ستمبر کو بعد نماز جمعہ ۲۸ ویں عرس قدوسی کی پرچم کشائی بدست صاحب سجادہ ہوگی
(۶) دوسرے دن کے بھرے اجلاس میں الجامعۃ القدوسیہ کے خوش نصیب فارغین حفاظ کی دستار بندی ہوگی
اسکا اختتام صلاۃ و سلام اور دعائے خیر پر ہوا
اسی کا ایک دیدہ زیب منظر
پیش کش
(حافظ و قاری)فیضان احمد صابر قادری
ناظم نشر و اشاعت
خانقاہ قدوسیہ، بھدرک شریف ، اڈیشا

“چشم دید” از قلم: محمد حسن رضا (ثانیہ)متعلم: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ)

8/صفر المظفر 1444ھ مطابق 6/ ستمبر 2022 کی صبح “النقش کالحجر ” کی طرح میرے دل میں گھر کر چکی ہے ۔ تقریباً صبح 7 بج کر 45 منٹ پر جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف (ایٹہ) کی اسمبلی میں قبلہ پرنسپل صاحب نے اعلان کیا کہ” آج اہل سنت کے بہت بڑے عالم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المبین صاحب نعمانی تشریف لا رہے ہیں۔ ” یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی، کیونکہ اب سے پہلے حضرت کی چند کتابیں اور مضامین پڑھ چکا تھا ۔(حضرت کی چالیس سے زائد کتب زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں)
آخر وہ گھڑی آ ہی گئی جس کا شدت سے انتظار تھا۔ کہ بڑے بڑے بزرگوں سے فیض حاصل کرنے والا مرد قلندر، اپنے قیمتی نصائح سے سے ہماری جھولیاں بھرنے کے لیئے ،ہمارے درمیان تشریف لے آئے ۔ حضرت نے تقریباً 1 گھنٹہ 10 منٹ تک ہماری تشنگی کو دور کیا ، لیکن یہ تشنگی تو وعظ کے بعد اور زیادہ بڑھ گئی ۔ حضرت نے جو واقعات بیان فرمائے ان کی فہرست بہت طویل ہے ۔ مجھے یاد آتا ہے، کہ آپ نے پورے بیان میں کوئی ایسا واقعہ بیان نہیں فرمایا جس کے آپ “چشم دید” گواہ نہ ہوں ۔سوائے ایک دو کے۔حضرت نعمانی صاحب نے تعلیم پر زور دیتے ہوئے فرمایا۔ “میرا تجربہ ہے کہ طلبہ جمعرات کے دن خوب مستی کرتے ہیں ۔ پورا پورا دن کرکٹ کھیلنے میں گزار دیتے ہیں۔ بلکہ چاہیے تو یہ تھا، کہ جمعرات کو خوب مطالعہ کرتے، درسی کتب یاد کرتے وغیرہ ۔ گفتگو جاری رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔” الحمدللہ! زمانۂ طالب علمی میں میرا طریقہ یہ تھا کہ ذرا سا بھی وقت ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ ایک بات کہوں تو آپ لوگوں کو خراب لگے گی ، کہ “سب طلبہ سوتے تو میں پڑھتا”!۔ آج جو کچھ ہے اپنی محنت ہے ، بزرگوں کا فیض ہے، اساتذہ کا فیص ہے۔”
میرے ایک دوست کہا کرتے تھے کہ “جتنا زیادہ غور کرو گے اتنے زیادہ موتی پاؤ گے ” اگر آپ ان (مفتی صاحب کے) جملوں میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ کامیابی کے لیے دو چیزیں بہت اہم ہیں ۔ نمبر ایک ، محنت ، کہ اس کے بغیر کوئی کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا ، اگر کامیاب ہونا ہے تو راتوں کو جاگنا ہوگا۔ صرف اور صرف مطالعہ کے لیے نہ کہ موبائل کے لیے۔ شاعر کہتا ہے۔
بِقَدرِ الكدِّ تُكتَسَبُ المَعالي
وَمَن طَلبَ العُلا سَهرَ اللَّيالی”
یعنی کوشش کی مقدار ہی سے بلندیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اور جو بلندیاں طلب کرتا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے ۔
اور دوسری چیز ہے۔ اساتذہ کا ادب، آپ کتنے ہی بڑے عالم ہو جائیں اگر اساتذہ کا ادب نہیں کرتے، تو وہ علم آپ کو کوئی نفع نہ دےگا۔ بقول شاعر۔
ما وصلَ مِن وصلٍ الا بالحُرمة
وما سقَط مِن سقطٍ الا بترك الحرمة
يعنی۔ جس نے جو کچھ بھی پایا ادب و احترام کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔
حضور حافظ ملت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ۔ “حضرت جب سفر سے واپس آتے تو آرام گاہ نہ جاتے راستے میں جو طالب علم ملتا،فرماتے،جلد فلاں کلاس کے طلبہ کو بھیج دو !” آپ نے حضور حافظ ملت ، حضور مجاہد ملت ، حضور مفتی اعظم ہند اور علامہ ارشد القادری وغیرہ ، کے آنکھوں دیکھے واقعات بیان فرمائے۔
اگر موقع ملا تو ضرور سب کو ضبط تحریر کرنے کی سعی کروں گا (ان شاءاللہ)
آخر میں آپ نے خصوصی طور پر بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی، فرمایا۔ آپ ہر جمعرات کو ایک صفحہ ضرور لکھیں اور اپنے اساتذہ سے اس کی اصلاح کروائیں ۔ اس طرح آپ کی ایک کاپی تیار ہو جائے گی۔ “اور جتنا قلم گھسے گا اتنا ہی مضبوط اور بہتر ہوگا”۔۔

نعت پاک رسول ﷺ از قلم محمد شاہد رضا برکاتی بہرائچی 7045528867

مکمّل کلام برائے بزمِ غوث الوریٰ

جب سے حاصل ہوئی نصرتِ مصطفیٰ
میں بھی کرنے لگا مدحتِ مصطفی

حشر میں کام کوئی نہ آئے گا جب
کام آئے گی تب نسبتِ مصطفیٰ

میرے اعمال جنت کے لائق کہاں
ہاں مگر دل میں ہے الفتِ مصطفیٰ

ڈوبا سورج پھرا چاند ٹکرے ہوا
دیکھ لے نجدیا قدرتِ مصطفیٰ

قلبِ مضطر سکوں پل میں پا جائے، گر
“دیکھ لوں جا کے میں تربتِ مصطفیٰ”

یا خدا میری نسلیں بھی کرتی رہیں
عمر بھر شوق سے طاعتِ مصطفیٰ

دو جہاں میں وہ شاہد ہوا سرخرو
جس نے اپنا لی ہے سنتِ مصطفیٰ

از قلم
محمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی

قوم مسلم کے اندر تعلیمی بیداری پیداکرنا انتہائی ضروری:سیدنوراللہ شاہ بخاری:- رپورٹ:(مولانا)عطاؤالرحمان قادری انواری![ناظم اعلیٰ]مدرسہ انوارقادریہ فیض جیلانی متصل درگاہ حضرت مخدوم درس قطب علیہ الرحمہ،میکرن والا، تحصیل:رامسر،ضلع:باڑمیر[راجستھان]


مدرسہ انوارقادریہ میکرن والا میں حضرت مخدوم قطب درس علیہ الرحمہ کا سالانہ عرس منایا گیا


علم اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے کہ جس کی اہمیت و فضیلت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔یہ وہ انعام الٰہی ہے جس کی بنیاد پر انسان دوسری مخلوق سے افضل ترین چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر فرشتوں پر برتری ثابت فرمائی ، رسول اللہ ﷺپر جو پہلی وحی نازل  فرمائی گئی اس میں “تعلیم ” سے ابتداء کی گئی اور پہلی ہی وحی میں بطور ِاحسان انسان کو دیئے گئے علم کا تذکرہ فرمایا گیا ۔گویا اسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن پاک کی پہلی آیت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی پر نازل فرمائی وہ علم ہی سے متعلق ہے ،جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے “ترجمہ:پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ،آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ،پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ،آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا! “(سورۂ علق آیت /۵،پارہ /۳۰ کنز الایمان)

قرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی ان آیتوں میں علم کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمادیا کہ اسلام تعلیم و تعلم کا مذہب ہے،
اور خود نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حصول علم پر کافی زور دیا ہے یہی وجہ ہے کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے نامساعد حالات میں بھی دارارقم میں علم کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا پھر ہجرت مدینہ کے بعد مدینہ منورہ میں باضابطہ ایک مدرسہ کا قیام عمل میں لایا جسے “صفہ” کہاجاتا ھے اس درسگاہ نبوی سے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست علوم حاصل کیا اور پھر پوری دنیا میں اس علم کی نشرواشاعت کا فریضہ انجام دیا جس اسلام اور پیغمبر اسلام نے حصول علم پر اتنا زور دیا مگر آج وہی امت مسلمہ تعلیمی میدان میں اقوام عالم سے پیچھے رہ گئی جواس وقت کا سب سے بڑا المیہ ھے آج امت مسلمہ جہاں عصری علوم میں پچھڑی ھوئی ھے وہیں دینی علم کے حصول میں بھی ناکام ھے آج کی صورت حال یہ ھے کہ مسلم نونہالوں کو نہ توحید ورسالت کے بارےمیں واقفیت ھے، نہ طھارت ونماز ،روزہ و زکوٰة، حقوق والدین وحقوق العباد جیسے ضروری مسائل کا علم ھے،حدتو یہ ہے کہ بعض نام نہاد مسلمانوں کو ڈھنگ سے کلمہ پڑھنا بھی نہیں آتا جس سےمعاشرہ پر بہت برے اثرات مرتب ھو رہے ہیں
ان خیالات کااظہار علاقۂ تھار کی مرکزی اور مغربی راجستھان کی ممتاز ومنفرد دینی درسگاہ “دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر، راجستھان” کے شیخ الحدیث وناظم اعلیٰ پیرطریقت نورالعلماء حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی نے میکرن والا، باڑمیر میں حضرت مخدوم قطب درس علیہ الرّحمہ کے سالانہ عرس مبارک ومدرسہ انوارقادریہ فیض جیلانی میکرن والا کے سالانہ تعلیمی اجلاس میں اپنے خصوصی خطاب کے دوران کیا، اورساتھ ہی ساتھ اس بات پر خصوصی زرو دیا کہ آج قوم مسلم میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے،اور اہل ثروت حضرات کو اپنے مال ودولت کو فضولیات سے بچانے اور نیک کاموں میں خرچ کرنےکی جانب پیش رفت کرنے کی از حد ضرورت ھے، خطاب کاسلسلہ جاری رکھتے ھوئے سرپرستوں سے بھی اپیل کی کہ آپ لوگ اپنے بچوں کو ڈاکٹر ،انجنیر ، سائنسداں ضرور بنائیں یہ بھی وقت کا تقاضا ھے کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان علوم کے سیکھنے کی ترغیب دی ھے جس کی کئی مثالیں سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں لیکن ان علوم کے حصول سے پہلے اپنے بچوں کو کتاب وسنت ،عقائد و دینی فرائض کی تعلیم دلائیں اور کم از کم اس قدر دینی علم ضرور پڑھائیں کہ وہ اپنی مفروضہ عبادت اداکرسکے اور تلاوت قرآن کرسکے تاکہ ان کا ایمان مضبوط ھوسکے اور اس دور الحاد میں کوئی ان کے ایمان پر حملہ نہ کرسکے -اور آپ نے فرمایا کہ اس دور میں اگر کوئی علم حاصل کرناچاہتا ہے تو اس کے اسباب بھی ہیں اس کے باوجود جو لوگ مسلمان ہوکر بھی علم سے دور رہیں گویا وہ اسلامی مقاصد کے خلاف زندگی گزار رہے ہیں۔حالانکہ تعلیم و تعلم کے سب سے زیادہ حقدار ہم ہی ہیں ۔لہٰذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ جہالت کی تاریکیوں کو چھوڑکر اب علم کے اُجالے میں آجائیں-
ساتھ ہی ساتھ آپ نے لوگوں کو پابندی کےساتھ نماز پنجگانہ باجماعت اداکرنے،اپنے مالوں کی زکوٰة نکالنے ودیگر ارکان اسلام کی ادائیگی پر زور دیتے ہوئے اپنے والدین کی خدمت،بزرگوں کی تعظیم وتکریم، چھوٹوں پر شفقت،جملہ برائیوں سے اجتناب اور نیک اعمال کے کرنے کی تاکید وتلقین کی،گویا آپ نے جملہ منہیات شرعیہ سے بچنے اور اوامر شرعیہ پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کی-
آپ کے ناصحانہ وصدارتی خطاب سے قبل خطیب ہر دل عزیز حضرت مولانا جمال الدین صاحب قادری انواری نائب صدر دارالعلوم انوارمصطفیٰ نے عمدہ خطاب کیا اور واصف شاہ ہدیٰ، شاہکارترنم حضرت حافظ وقاری عطاؤالرحمان صاحب قادری انواری جودھپور ومدّاح رسول مولانا محمدیونس صاحب انواری نے نعت ومنقبت کے نذرانے پیش کیے- جب کہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف و مدرسہ انوارقادریہ فیض جیلانی میکرن والا کے چند ہونہار طلبہ نے بھی نعت ومنقبت اور تقریر پر مشتمل اپنا دینی و علمی پروگرام پیش کیا-
نظامت کے فرائض طلیق اللسان حضرت مولانا محمدحسین صاحب قادری انواری نے بحسن وخوبی انجام دیا-
صلوٰة وسلام اور قبلہ نورالعلماء حضرت علامہ پیر سید نوراللہ شاہ بخاری مدظلہ العالی کی دعا پر یہ جلسہ اختتام پزیر ہوا-
اس پروگرام میں خصوصیت کے ساتھ یہ حضرات شریک ہوئے-
حضرت پیرسید غلام محمدشاہ بخاری،حضرت پیرسیدداون شاہ بخاری،ادیب شہیر حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی،حضرت مولانادلاورحسین صاحب قادری صدرالمدرسین دارالعلوم انوارمصطفیٰ، مولاناحبیب اللہ قادری انواری،مولانا فخرالدین انواری، مولانااسلام الدین قادری انواری، مولانا شیر محمدانواری،حافظ برکت علی قادری،مولانامحمدعلی انواری، مولانامحمدقاسم انواری،قاری ارباب علی قادری انواری،مولاناروشن دین سہروردی انواری،مولاناشہاب الدین انواری،مولانامحمدعرس سکندری انواری وغیرہم

کیا نماز میں بحالت قیام بائیں ہاتھ سے جماہی روکنے یا بدن کھجانے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؟ از قلم، مفتی احمد رضا صاحب دارالفکر بہراٸچ شریف

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کیا نماز میں بحالت قیام بائیں ہاتھ سے جماہی روکنا یا کوئی اور کام انجام دینے سے مثلاً موبائل-فون بند کرنے یا بدن کے کسی حصے کو کھجانے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں

العارض
محمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔ صورت مسئولہ میں کہ نماز میں خشوع و خضوع اور سکون واطمینان مطلوب ہے، اس لئے پوری کوشش کرنی چاہئے کہ نماز شروع کرنے کے بعد نمازی کا کوئی عضو بلاوجہ حرکت نہ کرے؛ تاہم معمولی حرکت سے نماز نہیں ٹوٹتی؛ بلکہ نماز اس وقت فاسد ہو تی ہے جب کہ یہ حرکت اس قدر کثیر ہو کہ دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے، ایک رُکن میں تین مرتبہ کھجانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، یعنی ایک بار کُھجا کر ہاتھ ہٹایا پھر دوسری بار کُھجا کر ہٹایا اب تیسری بار جیسے ہی کھجائے گا نماز ٹوٹ جائے گی اور اگر ایک بار ہاتھ رکھ کر چند بار حرکت دی تو ایک ہی مرتبہ کُھجانا کہا جائیگا، جیسا کہ بہار شریعت میں ہے: ایک رکن میں تین بار کھجانے سے نماز جاتی رہتی ہے، یعنی یوں کہ کھجا کر ہاتھ ہٹا لیا پھر کھجایا پھر ہاتھ ہٹالیا وعلی ہذا اور اگر ایک بار ہاتھ رکھ کر چند مرتبہ حرکت دی تو ایک ہی مرتبہ کھجانا کہا جائے گا
(بہار شریعت ج1 صفحہ 614،مکتبۃ المدینہ)،
اور فتاوی رضویہ میں اسی طرح کے سوال کہ حالت نماز میں کجھلی ہو تو کھجائے یا نہیں اور کھجاوے تو کتنی مرتبہ ، میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: ضبط کرے اور نہ ہو سکے یا اس کے سبب نماز میں دل پریشان ہو تو کھجالے مگر ایک رکن مثلاً قیام یا قعود یا رکوع یا سجود میں تین مرتبہ نہ کھجائے دو بار تک اجازت ہے،(فتاوی رضویہ قدیم ج3 صفحہ 446)،
تو واضح ہو گیا کہ دائیں ہاتھ سے کھجائے یا بائیں ہاتھ سے دو بار تک اجازت ہے، اور اگر تین بار کھجائے نماز ہی فاسد ہو جائے گی،جیسا کہ مذکورہوا، ہاں قیام کی حالت میں کھجانے کی ضرورت ہو تو دائیں ہاتھ سے کھجائے جیسا کہ نظام شریعت میں جماہی روکنے کے تعلق سے اخیر میں ہے: قیام کی حالت میں داہنے ہاتھ سے ڈھانکے اور دوسرے موقع پر بائیں سے(نظام شریعت صفحہ 140)، اور فتاوی عالمگیری جلداول مطبوعہ مصر صفحہ ٩٧)* 
میں ھے ،، *اذا حک ثلاثا فی رکن واحد تفسد صلاته ھٰذا اذا رفع یدہ فی کل مرة ۔ اما اذا لم یر فع فی کل مرة فلاتفسد کذا فی الخلاصة* ۔
 (فتاوی فیض الرسول جلداول باب ما یفسد الصلاة صفحہ ٣٥٠)* 
یہی حکم فون بند کرنے کا ہے کہ دوران نماز ایک رکن میں ایک بار یا زیادہ سے زیادہ دو بار جیب کے اوپر سے موبائل کی گھنٹی بند کرنے کی اجازت ہے کہ اس عمل قلیل سے نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر ایک رکن میں مثلا صرف قیام میں یا صرف رکوع میں تین بار گھنٹی بند کی تو نماز فاسد ہوجائے گی جس طرح ایک رکن میں تین بار کھجلانے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے؛ (موبائل فون کے ضروری مسائل صفحہ 111 112)خلاصہ : دوران نماز موبائل کی گھنٹی بجے تو ایک رکن میں ایک یا دو مرتبہ موبائل کی گھنٹی بند کر سکتے ہیں اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی ایک رکن میں تین بار گھنٹی بند کرنے سے نماز فاسد ہوجائے گی؛ نمازی کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئیے کہ نماز کے وقت جب موبائل جیب میں تو سوئچ آف کر دینا چاہئیے یا کم سے کم سائلنٹ تو کر ہی دینا چاہئیے تاکہ کہ خود کے نماز میں خلل نہ ہو اور دوسروں کے نماز میں بھی خلل نہ ہو؛۔لہذ ا حالت نماز فون بند کرنا  یا کھجلانا اگر عمل قلیل کے طور پر ہو تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہٗ احمد رضا قادری منظری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 8 /ستمبر 2022