WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives 2022

منقبت در شان: عارف باللہ تارک السلطنت حضور سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کچھوچھہ شریف◇◇مدحت نگارمحمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی یوپی

بزم حسان


ہے منظر آستاں کا کیف آور شاہ سمنانی
بجا ہوگا کہوں رشکِ جناں گر شاہ سمنانی

خوشا دوہری نجابت کا شرف تم کو میسر ہے
“گلستانِ سیادت کے گلِ تر شاہ سمنانی!”

جو دیکھی شانِ استغنا لبِ اظہار پر آیا
ہو بے شک پرتوِ فقرِ ابو ذر شاہ سمنانی

زمامِ اسپِ رفتارِ جہاں ہے تیری مٹھی میں
تو اقلیمِ تصرف کا سکندر، شاہ سمنانی

ترے سروِ تصوف کے علو و حسن کے آگے
نظر آتا ہے شرمندہ صنوبر شاہ سمنانی

بہارِ زندگانی مل گئی معشوقہ مورت کو
لگی جب آپ کے لفظوں کی ٹھوکر شاہ سمنانی

عجب کیا ہے ولی بن کر اٹھے انسان چوکھٹ سے
ولیہ بن گئی جب گربۂ در شاہ سمنانی

کرم فرمائیے جلدی منارِ حاضری پائے
دلِ نوری کا سرگرداں کبوتر شاہ سمنانی
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
مدحت نگار
محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی یوپی

۱/ صفر المظفر ۱۴۴۴ ہجری
۳۰/ اگست ۲۰۲۲ عیسوی

بروز: منگل

نعت سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔از قلم: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

تیرا مقصد ہے اگر زیست کو ذیشاں کرنا
خود کو سرکار کی ناموس پہ قرباں کرنا

صرف دنیا پہ نہیں جان کو قرباں کرنا
عاقبت کا بھی تمھیں چاہیے ساماں کرنا

بو ہریرہ ہو مبارک کرم دست حضور
شاہ کونین کا دور آپ کا نسیاں کرنا

ڈال دو آب دہن، دل کا کنواں ہو شفاف
صاحب معجزہ سرکار یہ احساں کرنا

عشق سرکار دوعالم کی ضیاپاشی سے
صاف و شفاف سدا قلب کا میداں کرنا

جسم کا سارا محل نور سے تابندہ رہے
دل کی دیوار پہ نام ان کا تو چسپاں کرنا

ان کی رنگت سے ہیں رنگین گل ‌باغ سبھی
اس نزاکت کو بھی لازم ہے نمایاں کرنا

ورفعنا لک ذکرک سے ہے ثابت، ان کا
ذکر اونچا ہے بہت یاد تو قرآں کر ، نا

بعد عسر کا تصدق ہو عطا مجھ کو بھی
میری دشواری کو اللہ تو آساں کرنا

شاید آمد ہوئی ہے اس میں شہ خوباں کی
دل کے خانو ، ذرا مل جل کے چراغاں کرنا

ہاتھ وہ پھیر دیں تو چہرہ منور ہوجائے
واہ اس دست مقدس کا چراغاں کرنا

آزو ‌بازو میں کوئی ہے تو رکھو اس کا خیال
سنت سرور کونین ہے احساں کرنا

سنت حضرت حسان و رضا ہے تاباں
اپنے اشعار میں سرکار کو عنواں کرنا

زیست کے چرخ میں ہر رات ہی کیا دن میں بھی
عشق سرکار کے تاروں کو نمایاں کرنا

مسلک حق پہ رضا کے ہوں میں قائم ہر دم
جسم باطل کو مرا کام ہے عریاں کرنا

محور عشق رہے ذات پیمبر ہی فقط
میرے اللہ مجھے ایسا مسلماں کرنا

ہم ہیں اسلام کے داعی کہ جہاں بھی جائیں
کام اپنا ہے بیاباں کو گلستاں کرنا

دونوں عالم میں اگر چاہتے ہو بہبودی
چاہئے تم کو خیال مہ جاناں کرنا

وہم کے خانوں میں لگ جائے تیقن کی آگ
قلب کو آپ سدا خانہء ایقاں کرنا

اس وسیلے کے لیے کوئی بڑی بات نہیں
کرب کی آنکھ کو اک لمحے میں حیراں کرنا

سیرت سرور کونین پہ کہنا اشعار
اس طرح اپنے لیے خلد کا ساماں کرنا

آیت نصر کے صدقے اے مرے رب کریم
زندگی کو تو مری فتح کا ساماں کرنا

دست اقدس وہ لگادیں تو شجر پھل دے دے
ہم پہ لازم ہے یہ برکت کو نمایاں کرنا

نور کے گچھے نکلتے تھے اثر سے جس کے
وہ کشادہ مرے سرکار کا دنداں کرنا

اپنی دھرتی پہ شہ دین جو مبعوث ہوئے
ہم‌ پہ اللہ کا ہے خاص یہ احساں کرنا

فتح خیبر کی خبر وقت سے پہلے دے دی
واہ سرکار کا اصحاب کو شاداں کرنا

فتح مکہ کی معافی یہ سکھاتی ہے سبق
در گزر کرنا ، ادا سنت ذیشاں کرنا

طائر قلب کی تسکین کی خاطر اے نفس
ذکر سرکار دوعالم تو ہر اک آں کرنا

خلد کی نہر شراب آپ ہی مجھ پر کرے رشک
میرے ساقی مجھے مست مءے عرفاں کرنا

عظمت حضرت عثمان ہے اس سے ظاہر
از طرف ان کے شہ دین کا پیماں کرنا

اپنے آقا ہیں کریم اور جواد اے “عینی “
کرنا ہے گر تو ربیعہ سا تم ارماں کرنا
۔۔۔۔
از قلم: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

واقف کہاں زمانہ ہماری اڑان سے… (ہدیۂ تبریک بخدمت: رفیق محترم محمد ہاشم احسنی)از قلم :محمد سلطان رضا احسنی متعلم :جامعہ احسن البرکات مارہرہ مطہرہ

شعر و شاعری اور مضمون نگاری کی طرح اظہار خیال و رائے کا ایک اہم اسلوب اور موثر ذریعہ خطابت ہے، جس کے ذریعےاحساسات وتخیلات کی ترجمانی کی جاتی ہے، اور اس کو مبلغین اسلام نے بھی اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت کے لئے اپنا ہتھیار بنایا ہے-
اگر خطاب اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق ہو تو موثر اور قابل تعریف ہے،بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کار کو انجام دیا ہے ۔ جب حضورﷺ خطاب فرماتے تو مجلس انسانی سروں سے بھر جاتی تھی اور لوگوں کا ایک جم غفیر ہوجاتاتھا ، تاریخ اسلام میں آپ کے خطبات کو ایک خاص مقام و اہمیت حاصل ہے جو آج بھی مبلغین کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
یہ خطابت صرف عہد رسالت تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر دور میں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت سے برتا گیا ہے، خلفا اور سلاطین اسلام کے خطبے تاریخ کے صفحات پہ منقش ہوکر اس دعوے کی دلیل فراہم کر رہے ہیں ۔
اس لیے قوم و ملل کے زعماء کےلئے فصیح اللسان ہونا لازمی امر ہے، تاکہ وہ قیادت و امامت کا حق ادا کرسکیں اور قوم کو صحیح سمت گامزن کریں۔
اس پس منظر میں اگر ہم غور کریں تو بطور تجزیہ یہ امر واضح ہوتا ہے کہ مدارس اسلامیہ میں شروع ہی سے طلبہ کو خطابت کا ذوق رہا ہے، میدان خطابت میں جامعات و مدارس کے لائق وفائق فارغین کا کردار اظہرمن الشمس ہے۔
اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی ہمارے جامعہ کے طلبہ بھی ہیں، چند دن پہلے دارالعلوم مینائیہ گونڈہ میں منعقد ہونے والے آل انڈیا مسابقہ خطاب میں مادر علمی جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف میں ہمارے ہم سبق ساتھی محمد ہاشم نے شرکت کی اور اپنی کدو کاوش سے دوسری پوزیشن حاصل کی،
جب یہ خوشخبری میرے کانوں سے ٹکرائی کہ عزیزم محمد ہاشم نے دوسری پوزیشن حاصل کی ہے تو دل مسرت و شادمانی سے معمور ہو گیا۔ اور میں اسی وقت سے مبارک بادی پیش کرنے کا مشتاق تھا ۔ پھر جب وہ جامعہ تشریف لائے اور ابھی کمرے میں داخل نہ ہوئے تھے کہ مبارکبادیوں کی برسات ہونے لگی، جب وہ اپنی محنتوں اورکوششوں کا ثمرہ ہاتھوں میں لیے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے تو سارے احباب دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھےاور سبھی لوگوں نے مصافحہ و معانقہ کرنے کے بعد ہدیۂ تبریک پیش کی اور اخیر میں میں نے سکون واطمنان کے ساتھ مصافحہ و معانقہ کیا اور صمیم قلب کے ساتھ مبارک بادی پیش کیا۔ پھر مغرب کے بعد عزیزم اپنے پورے انعامات کے ساتھ سب سے پہلے پرنسپل صاحب کے کمرے میں گئے پھر یکے بعد دیگرے سب اساتذۂ کرام کے پاس جا کر ملاقات کی اور سبھی معزز ومکرم اساتذہ نے مبارک بادی کے ساتھ دعاؤں سے بھی نوازا۔
جناب محترم نے سب کا اور جامعہ کا شکریہ ادا کیا.
اور میں پھر سے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں ،اور ساتھ ہی ساتھ ان کے اور تمام طلبہ کیے لئے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعاء گو ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ ہم سبھی طلبہ کو خوب خوب عروج و ارتقاء عطاء فرمائے ۔آمین بجاہ سیدالکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم-

واقف کہاں زمانہ ہماری اڑان سے
وہ اور تھے جو ہار گئے آسمان سے
(فہیم جوگاپوری)

مزارات اولیا اور تعلیمات اعلی حضرت، از: محمد مقصود عالم قادری اتر دیناجپور مغربی بنگال


اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسی ہمہ گیر،نابغئہ روزگار اور عبقری شخصیت کا نام ہے جس نے اپنی 65 سالہ مختصر سی زندگی میں امت مسلمہ کی رہنمائی کے لئے تقریبا 65 علوم و فون پر مشتمل ایک ہزار کتب و رسائل تصنیف فرمائی ،جس وقت چند ایمان فروش مولوی اللہ عزوجل اور اس کے پیارے حبیبﷺ کی شان و عظمت میں گستاخیاں کر کے طرح طرح کے فتنے برپا کرنے لگے اس وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دلائل و براہین کی روشنی میں درست عقائد و نظریات کی رہنمائی بھی فرمائی اور عشق رسالت کی ایسی شمع فروزاں کی کہ جس کی لو قیامت تک نہیں بجھے گی،
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے کنزالایمان اور فتاویٰ رضویہ جیسی عظیم الشان نعمت سے نواز کر امت پر احسان عظیم فرمایا، علاوہ ازیں آپ نے امت کو ایسے ایسے نایاب تحفے عطا کیے کہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جاۓ گا
جب لوگ سنتوں کی روشنی سے دور اور بدعتوں کے اندھیروں میں بھٹکنے لگے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام بدعتوں کو جڑ سے ختم کیا اور ترک شدہ سنتوں کو زندہ کیا یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ الرحمة کو ماحئ بدعت (بدعت کو مٹانے والا ) حامئ سنت (سنت کی حمایت کرنے والا )کے لقب سے موسوم کیا جاتا ہے
جب لوگ اپنی جہالت کی بنا پر مزارات اولیا پرخرافات و منکرات کا بازار گرم کرنے لگے تو اعلی حضرت علیہ الرحمة نے ایسے لوگوں کی انتہائی تردید فرمائی اور تمام تر خرافات کے خلاف قلمی جہاد فرمایا
مزارات اولیا اور اعراس کے متعلق اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی چند گراں قدر تحقیقات ہم قارئین کی نظر نواز کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں
مزارات کے آگے سجدہ کرنا
بعض نادان قسم کے لوگ مزارات اولیا کو چومنے میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں کہ سجدے کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ایسے لوگ اگر اعلی حضرت علیہ الرحمة کی تعلیمات سے آشنا ہوتے تو ہرگز یہ قبیح عمل انجام نہ دیتے ، اعلی حضرت علیہ الرحمة نے اس مسئلے کے متعلق ایک مستقل کتاب تصنیف فرمائی

اس میں فرماتے ہیں:
” مسلمان اے مسلمان! اے شریعت مصطفویﷺ کے تابع فرمان! جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزّ جلالہ کے سوا کسی کے لئے نہیں- اس کے غیر کو سجدۀ عبادت یقیناً اجماعاً شرک مبین اور کفر مبین اور سجدہ تحیت (ادب کے لئے سجدہ کرنا )حرام و گناہ کبیرہ بالیقین”
(الزبدة الزکیہ لتحریم سجود التحیة ص 5 مجلس آئ ٹی ،دعوت اسلامی)
مزارات پر عورتوں کا جانا
آج کل مزاروں میں عورتوں کی تعداد مردوں سے دگنی رہتی ہے، بعض عورتیں تو بےپردہ ہو کر چلی جاتی ہیں،مرد و عور ت کا اختلاط ہوتا ہے اور پھر وہاں کے خدام عورتوں کے سر اور بدن پر ہاتھ اور جھاڑو پھیر تے ہیں ،اور بھی طرح طرح کی برائیاں جنم لیتی ہیں ،
جب اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ علیہ الرحمة نے فرمایا: “عنیہ میں ہے” کہ یہ نہ پوچھ کہ عورتوں کا مزار میں جانا جائز ہے یا نہیں بلکہ یہ پوچھ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے اللہ عزو جل کی طرف سے اور صاحب قبر کی جانب سے -جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اور جب تک وہ واپس آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں ” سواۓ روضہ انورﷺکے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں “(ملفوظات اعلیٰ حضرت2 /315 مکتبة المدینہ)
مزارات میں چراغ وغیرہ جلانا کیسا ہے؟
اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:” کہ خاص قبر پر چراغ رکھنا تو مطلقاً ممنوع ہے اور اولیاۓ کرام کے مزارات میں اور زیادہ ناجائز ہے اس میں بے ادبی اور گستاخی اور حق میت میں تصرف و دست اندازی ہے “(احکام شریعت ۶۸/۱ جسیم بکڈپو جامع مسجد دھلی) اور اگر اس ارادے سے چراغ جلاتے ہیں کہ اس سے میت کو روشنی پہونچے گی ورنہ اندھیرے میں رہے گا تو فرماتے ہیں کہ “اب اسراف کے ساتھ اعتقاد بھی فاسد ہوا” (ایضاً ۶۹)
ایک جائز ہونے کی صورت یوں بیان کرتے ہیں کہ:” تالیان قرآن یا ذاکران رحمٰن کے لئے روشن کریں ،قبر سر راہ ہو اور نیت یہ کی جاۓ کہ گزرنے والے دیکھیں اور سلام و ایصال ثواب سے خود بھی نفع پائیں اور میت کو بھی فائیدہ پہونچائیں -یا وہ مزار ولی یا عالم دین کا ہے روشنی سے نگاہ عوام میں اس کا ادب و اجلال پیدا کرنا مقصود ہے تو ہرگز ممنوع نہیں
نوٹ:چونکہ آج کل مزارات میں روشنی اور لائٹ وغیرہ کا معقول انتظام رہتا ہے تو اب چراغ وغیرہ جلانا بے سود ،اسراف اور فضول خرچی ہے
فرضی مزار کے بارے میں حکم
کچھ لوگ محض ایک خواب کی بنیاد پر فرضی اور مصنوعی مزار بنا لیتے ہیں اور دھوم دھام کے ساتھ اس میں عرس،فاتحہ، نیاز اور چادروغیرہ چڑھانے لگتے ہیں،اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ ایسے مزار کے بارے میں حکم ارشاد فرماتے ہیں:”قبر بلا مقبور(فرضی قبر)کی زیارت کی طرف بلانا اور اس کے لیے وہ افعال( چادریں چڑھانا، نیاز فاتحہ اور عرس وغیرہ )کرنا گناہ ہے، فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے اور خواب کی بات خلاف شرع امور میں مسموع (سننے کے لائق )نہیں ہو سکتی، (امام احمد رضا اور ان کی تعلیمات ص 23)
طواف اور بوسئہ قبر
اس بارے میں جب آپ رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا تو جواب میں ارشاد فرمایا :” بلاشبہ غیر کعبہ معظمہ کا طواف تعظیمی ناجائز ہے اور بوسئہ قبر میں علما کا اختلاف ہے اور احوط (زیادہ احتیاط)منع ہے خصوصاً مزارات طیبہ اولیائے کرام کے ہمارے علماءنے تصریح فرمائی ہے کہ کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے سے کھڑا ہو یہی ادب ہے”(احکام شریعت ۳/ ۲۳۴)
عرس وغیرہ میں مزامیر کے ساتھ قوالی گانا
آج بہت سے مزاروں میں سالانہ عرس وغیرہ کے موقع پر تلاوت قرآن،نعت خوانی اور علمائے کرام کے بیانات کے بجائے ڈھول اور سارنگی کے ساتھ قوالی کا اہتمام کرتے ہیں جس میں حمد، نعت و منقبت براہ نام،گانے کے طرز پر قوالی گاۓ جاتے ہیں بعض جگہوں پر تو لڑکیوں کو بھی قوالی گانے کے لئے بلایا جاتا ہے پھر دونوں فریقین کے درمیان گناہوں بھرا مقابلہ ہوتا ہے،
جب اعلی حضرت علیہ الرحمة سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ ایسے لوگوں کی مذمت کرتے یوۓ فرماتے ہیں کہ:”کہ ایسی قوالی حرام ہے -حاضرین سب گنہگار ہیں اور ان سب کا گناہ ایسا عرس کرنے والوں اور قوالوں پر ہے -اور قوالوں کا بھی گناہ عرس کرنے والے پر بغیر اس کے کہ عرس کرنے والے کے ماتھے قوالوں کا گناہ جانے سے قوالوں پر سے گناہ کی کچھ کمی آئے، یا اس کے اور قوالوں کے ذمہ حاضرین کا وبال پڑنے سے حاضرین کے گناہ میں کچھ تخفیف ہو-نہیں بلکہ حاضرین میں ہر ایک پر اپنا پورا گناہ ،اور قوالوں پر اپنا گناہ الگ،اور سب حاضرین کے برابر جدا ،اور ایسا عرس کرنے والے پر اپنا گناہ الگ اور قوالوں کے برابر جدا ،اور سب حاضرین کے برابرعلٰحیدہ،وجہ یہ ہی کہ حاضرین کو عرس کرنے والے نے بلایا،ان کے لئے اس گناہ کا سامان پھیلایا اور قوالوں نے انہیں سنایا،اگر وہ سامان نہ کرتا ،یہ ڈھول سارنگی نہ سناتے تو حاضرین اس گناہ میں کیوں پڑھتے-اس لئے ان سب کا گناہ ان دونوں پر ہوا -پھر قوالوں کے اس گناہ کا باعث وہ عرس کرنے والا ہوا- وہ نہ کرتا نہ بلاتا تو یہ کیوں کرآتے بجاتے- لہذا قوالوں کا بھی گناہ اس بلانے والے پر ہوا :”(احکام شریعت ۱ / ۲۳۴)
مزارات پر حاضری کا طریقہ
فی زمانہ لوگ تو مزرات میں ڈھیر ساری امیدیں لے کر حاضر ہوتے ہیں لیکن ان کو حاضری کا طریقہ اور آداب معلوم نہیں ہوتے ،یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ صاحب مزار کا روحانی فیضان سے محروم رہتے ہیں ،اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ مسنون طریقہ اور آداب یوں فرماتے ہیں کہ :”مزارات شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی کی طرف سے جائے اور کم از کم چارہاتھ کے فاصلہ پر مُواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسّط آواز بادب سلام عرض کرے:اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا سَیّدِی وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ پھر درودِ غوثیہ تین بار، الحمد شریف ایک بار ، آیۃُ الکرسی ایک بار ، سورۂ اخلاص سات بار ، پھر درودِ غوثیہ سات بار اور وقت فرصت دے تو سورۂ یٰسین اور سورۂ ملک بھی پڑھ کر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا کرے کہ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ! اس قراءت پر مجھے اتناثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے نہ اُتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اُسے میری طرف سے اس بندۂ خدامقبول کو نذر پہنچا پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو اُس کے لئے دعاکرے اور صاحبِ مزار کی روح کو اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قراردے ، پھر اُسی طرح سلام کرکے واپس آئے، مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ۔‘‘ (بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنت۱۰۶تا۱۰۸ مکتبة المدینہ)
یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوگئ کہ اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ مزارات اولیا میں ہونے والے خرافات کے سخت مخالف تھے،اس کے باوجود بھی اگر نادان عوام مزارات میں جاکر ایسے خرافات انجام دیں تو ان کا اعلی حضرت علیہ الرحمةاور ہمارے اکابرین سے کوئی تعلق نہیں ، افسوس صد افسوس !کہ آج کچھ دریدہ دہن اعلی حضرت کی تصنیفات کا مطالعہ کئے بغیر ان کے خلاف بلا کسی تحقیق کے اپنی کتابوں اور جلسوں میں یہ جملہ کہنے سے باز نہیں آتے کہ اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ نے بدعات اور خرافات و منکرات کو فروغ دیا ،،حالانکہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی ان خرافات کو ختم کرنے میں صرف کردی ،یا تو یہ لوگ اعلی حضرت کے فتاویٰ کا علم نہ ہونے یا معاذ اللہ جھوٹ یا بغض و حسد کی وجہ سے یہ جملہ بول کر اعلی حضرت پر الزام عائد کرتے ہیں لہذا ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ سچی توبہ کریں،
مذکورہ تعلیمات ان لوگوں کے لئے بھی درس عبرت ہے جو کہ اعلی حضرت سے خوب عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور مسلک اعلی حضرت کا نعرہ زور و شور سے لگاتے ہیں اور میدان عمل میں بہت پیچھے ہیں
اللہ تعالی ہم سب کو تعلیمات اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ پر مکمل عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت ،از :روشن القادری انواری فاضل :دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف ،باڑمیر(راجستھان)


اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی بڑی اہمیت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ”اے مومنو! تم لوگ اللہ کی رسی کو اکٹھا ہوکر مضبوطی سے پکڑ لو “(مفہوم قرآن)اللہ تعالیٰ نے اس فرمان کے ذریعہ لوگوں کو یہ حکم دیا کہ اے میرے بندو ! جب تم لوگ کوئی نیک کام کرنا چاہو تو اتفاق و اتحاد کے ساتھ کرو،اس فرمان خداوندی سے اتفاق و اتحاد کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے ،اس کے علاوہ اللہ کے رسول ﷺکی بہت سی حدیثیں بھی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں چنانچہ کچھ حدیثیں پیش کی جارہی ہیں جن سے آپسی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کی اہمیت بہ خوبی واضح ہو جائے گی ۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کہ سارے مومنین ایک شخص کی طرح ہیں اگر اس کی ایک آنکھ بیمار ہوئی تو وہ تمام بیمار ہیں (مسلم شریف )
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مومن مومن کے لئے عمارت کی طرح ہے اس کا بعض بعض کو طاقت پہنچاتا ہے پھر حضور نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل فرمائی یعنی یہ جس طرح ملی ہوئی ہیں مسلمانوں کو بھی اسی طرح ہونا چاہیئے (بخاری و مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:قسم ہے اس کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ،بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے (ایضاً)
مندرجہ بالا حدیثوں سے یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ اسلام میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چار گی کی کیا اہمیت ہے؟۔
بڑا مبارک تھا وہ زمانہ جب کہ مسلمانوں میں وحدت اسلامیہ اور اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی کا سچا جذبہ موجود تھا اور وہ آپس میں متحد و متفق اور ایک دوسرے کے مدد گار تھے، ان کی تعداد اگر چہ کم تھی لیکن بڑی بڑی طاقتیں ان کے خوف سے لرزتی تھیں اور کسی کی مجال نہ تھی جو ان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتا ،تاریخ کے اوراق میں اس مقدس عہد ِمحبت کا ذکر موجود ہے جو مدینہ کی پاک زمین پر ہجرت کے پہلے سال میں مسلمانوں میں قائم ہوا ۔رسول ﷺنے جب اپنے وطن کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو بہت سے فرزندان ِاسلام نےحضور ﷺکی سنت پر عمل کیا ،اور اپنے گھر بار ،دوست واحباب اور اپنے رشتہ داروں اور اپنے مال وزر کو چھوڑ کر مدینہ طیبہ کا رُخ کیا ،جب یہ بے سرو سامان جماعت مدینہ پہنچی تو ان میں سے اکثر کی حالت صحیح نہ تھی، نہ ہی کھانے پینے کا کوئی بندو بست تھا ،نہ ہی رہنے سہنے کا کوئی انتظام تھا ۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس عہد محبت کو قائم کیا ،جب اس عہد کی تکمیل ہو گئی تو انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لئے انتہائی ایثار و محبت سے کام لیا ،جس انصاری کےپاس دو مکان تھے اس نے اپنا ایک مکان اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا ،اور جس کے پاس پانچ سو دینار تھے اس نے ڈھائی سو دینار اپنے مہاجر بھائی کو دے دیئے ،اور جس کے پاس دو باغ تھے اس نے ایک باغ دے دیا ،جس کے پاس دو بیویاں تھی اس نے ایک بیوی کو طلاق دے کر اپنے بھائی مہاجر سے کہا کہ تم اس سے نکاح کرلو ۔
ایک انصاری کا نام حضرت عبد الرحمٰن بن عاصم تھا وہ نہایت غریب تھے اور ان کے پاس سوائے ایک چادر کے کچھ نہ تھا لیکن ایمان و ایقان کی دولت ان کے پاس کسی سے کچھ کم نہ تھی انہوں نے اپنی چادر کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ٹکڑا اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا ،اس قسم کے سیکڑوں واقعات تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہیں جن سے پہلے زمانہ کے مسلمانوں کی سچی محبت اور سچی ہمدردی، مخلصانہ دوستی اور آپسی اتفاق و اتحاد ظاہر ہوتا ہے ،اور یہ وہ چیز ہے جس نے مسلمانوں کو دیکھتے ہی دیکھتے ترقی اور کامیابی کی اعلیٰ اور بلند منزل پر پہنچا دیا تھا اور اقوام ِعالم کے دلوں میں ان کا ایک خاص وقار اور رعب قائم کر دیا تھا ،لیکن آہ !آج یہ اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی مسلمانوں میں نہیں ہے ،آج ان کی تعداد دنیا میں کروڑوں ہے لیکن اقوام عالم کے دلوں میں ان کا وقار اور کو ئی احترام نہیں، ہر قوم اور ہر جماعت ان کو حقارت اور نفرت سے دیکھتی ہے اور ان کی کمزوریوں کو محسوس کرکے ان کی ہستی کو مٹا دینا چاہتی ہے۔
اسلام کادعویٰ کرنے والو! تمہیں معلوم ہے ؟کہ آج یہ ذلت و رسوائی کیوں تمہارے لئے مخصوص ہے ؟اس لئےاور صرف اس لئے کہ تم میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی نہیں ہے ،تم نے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کو نہایت بے دردی سے ٹھکرا دیا اور تم نے ان تعلقات کو جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث تھے اپنی نفس پرستیوں کے حوالے کردیا ہے، آج تمہارے اختلاف و انتسار کی کوئی انتہا نہیں ہے، تم اپنے غریب اور محتاج بھائیوں کی امداد و اعانت کو ضروری نہیں سمجھتے ہو ،تم اپنے بھائیوں کو آپس میں دشمنی کی نظر سے دیکھتے ہو، تم ذرا ذرا سی باتوں پر مشتعل اور جھگڑ جاتے ہو، تم اپنے نفس پرستیوں میں مصروف ہو اور تمہیں خبر نہیں ہے کہ دوسری قومیں تمہاری ہستی کو مٹانے کے لئے کس قدر خوف ناک اور جدو جہد سے کوشش کر رہے ہیں،اب بھی وقت ہے کہ تم اپنی غفلتوں و کوتاہیوں کو دور کردو !اسلامی اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی اپنے اندر پیدا کر لو! تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ تجارت و صنعت کا ایک بڑا حصہ تمہارے ہاتھوں میں نہیں ہے، مسلمان ان شعبوں میں بہت کمزور ہیں ،ضرورت ہے کہ تم اپنے مسلم بھائیوں کی امداد و اعانت کرو اور ان کو تجارت و صنعت کے شعبوں میں کامیاب بناؤ ،اگر تمہارے دل میں ملت ِاسلامیہ کا کچھ بھی درد ہے اور تم مسلمانوں کی کچھ بھی تباہی نہیں چاہتے ہو تو خدا کے لئے آج ہی سے اپنے دل میں عہد کر لو کہ تم ہر اعتبار اور ہر حیثیت و نوعیت سے مسلمانوں کی مدد کرو گے ،اتفاق و اتحاد اور آپسی بھائی چارگی اور امدادو اعانت کا معاملہ کروگے ،مساوات و انصاف کا آپس میں برتاؤ کرو گے اگر تم نے ایسا کیا تو تم کامیاب و فائزالمرام ہو جاؤگے ۔
بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ اپنے حبیب ﷺکے صدقے سبھی مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد اور بھائی چارگی پیدا فرمائے ! آمین

شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی ادبی خدمات۔{عرس فقیہ اعظم ہندکے حسین موقع پر خصوصی تحریر}✍️_آصف جمیل امجدی6306397662

[امجدی ڈاٸری]

حضور شارح بخاری فقیہ اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کی ولادت 11/ شعبان 1339ھ/ 20/ اپریل 1921ٕ ء/ میں مشہور و معروف اور مردم خیز خطہ ، قصبہ گھوسی کے محلہ کریم الدین پور اعظم گڑھ حال ضلع مئو میں ہوئی۔
آپ کا نسب نامہ کچھ اس طرح ہے ۔ مفتی محمد شریف الحق امجدی بن عبد الصمد بن ثناء اللہ بن لعل محمد بن مولانا خیرالدین اعظمی۔
مولا نا خیرالدین علیہ الرحمہ اپنے عہد میں پاے کے عالم اور صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے ۔ ان کا یہ روحانی فیض آج تک جاری ہے کہ ان کے عہد سے لے کر اس دور میں پانچویں پشت تک ان کی نسل میں اجلہ علماے کرام موجود ہیں ۔ انہیں میں سے ایک شارح بخاری ، فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی بھی تھے ۔ جو ماضی قریب میں ہندو پاک کے مسلمانان اہل سنت کے صف اول کے مقتدا اور پوری دنیاۓ اہل سنت کے مرجع فتاوی اور مرکز عقیدت تھے ۔ آپ کی کثیر الجہات شخصیت کے متعلق استاذی الکریم حضور محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفى قادری امجدی اطال اللہ عمرہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں : ”حضرت مفتی صاحب قبلہ مدظلہ جماعت کے ممتاز ترین صاحب علم و بصیرت باقیات صالحات میں سے ایک ہیں۔ ذکاوت طبع اور قوت اتقان ، وسعت مطالعہ میں اپنی مثال آپ ہیں تعمق نظر ، قوت فکر ، زور استدلال اور حسن بیان ، زودنویسی میں بھی آپ انفرادی حیثیت رکھتے ہیں ۔ معلومات کی گیرائی و گہرائی میں بھی بلند رتبہ ہیں۔ خطابت ، جدل ومناظرہ میں بھی آپ کو امتیاز حاصل ہے ۔ کئی موضوعات پر آپ کی معلومات افزا تصانیف آپ کی تصنیفی خوبیوں کی مظہر ہیں۔“
مفتی شریف الحق امجدی کی ابتدائی تعلیم قصبہ گھوسی کے مقامی مکتب میں ہوئی ۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے 1934ء میں دار العلوم اشرفیہ مبارک پور میں داخلہ لیا اور حضور حافظ ملت مولانا عبدالعزیز مراد آبادی ( م 1976 ء ) کے زیر سایہ رہ کر آٹھ سال تک تعلیم حاصل کی ۔ 1942 ء میں آپ مدرسہ مظہر اسلام مسجد بی بی جی محلہ بہاری پور ، بریلی شریف پہنچے جہاں ابوالفضل حضرت علامہ سردار احمد گورداس پوری ثم لائل پوری محدث اعظم پاکستان کا خورشیدعلم تمام تر تابانیوں کے ساتھ اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا ۔ محدث اعظم پاکستان سے آپ نے صحاح ستہ حرفاً حرفاً پڑھ کر دورہ حدیث کی تکمیل کی اور 15/ شعبان 1362ھ /1934 ء کو درس نظامی سے آپ کی فراغت ہوئی۔

  اساتذہ و مشائخ کرام میں جن حضرات کی تعلیم وتربیت کا آپ کی زندگی پر گہرا اثر تھا ان میں  *حضور صدر الشریعہ مولا نا امجد علی اعظمی،  حضورمفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خاں ، حضورحافظ ملت مولانا شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی ،  حضور محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قادری رضوی سرفہرست ہیں۔*

خصوصیت کے ساتھ آپ نے حافظ ملت سے سب سے زیادہ فیض پایا ۔ درس نظامی کے علاوہ فتوی نویسی کی تعلیم و تمرین ایک سال سے زائد حضور صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی سے حاصل کی اور حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کی بارگاہ میں گیارہ سال رہ کر فتویٰ نویسی سیکھی اور اس کا عمل جاری رکھا۔
اکتساب علم کے بعد مفتی شریف الحق امجدی نے تقریبا پینتیس (35)سال تک نہایت ذمہ داری کے ساتھ بڑی عرق زیزی و جاں سوزی اور کمال مہارت کے ساتھ ہندوستان کے مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ ہرفن کی مشکل سے مشکل ترین کتابیں پڑھائیں ۔ برسہا برس تک دورۂ حدیث بھی پڑھاتے رہے اور اخیر میں درس و تدریس کا مشغلہ چھوڑ کر جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں شعبہ افتا کی مسند صدارت پر متمکن ہوکر چوبیس برس تک رشد و ہدایت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ جن درس گاہوں کی مسند تدریس و افتا پر جلوہ افروز ہوکر آپ نے علم و حکمت کے گوہ آبداران لٹاۓ ان کے اسما یہ ہیں مدرسہ بحر العلوم مئوناتھ بھنجن ضلع اعظم گڑھ ، مدرس شمس العلوم گھوسی ضلع مٸو ، مدرسہ خیرالعلوم پلامو بہار، مدرسہ حنفیہ مالیگاؤں مہاراشٹر ، مدرسہ فضل رحمانی گونڈہ، مدرسہ عین العلوم گیا بہار، جامعہ عربیہ انوار القرآن بلرام پور ، دارالعلوم ندائے حق فیض آباد، دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف ، الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور۔

آپ کی درسگاہ فیض سے شعور و آگہی کی دولت حاصل کرنے والے طلبہ اتنے کثیر ہیں کہ ان سب کا شمار تقریبا ناممکن ہے ان میں سے چندمشہور حضرات کے نام پیش خدمت ہیں۔ جو اس وقت اہل سنت و جماعت کے نامور علما میں شمار کیے جاتے ہیں ۔
خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی، مولانا مجیب اشرف اعظمی ثم ناگپوری، قاضی عبدالرحیم بستوی ، مولانا رحمت حسین کلیمی پورنیہ، مولانا قمرالدین اشرفی اعظمی، مولانا عزیز الحسن اعظمی ، مولانا رضوان احمد شریفی، مفتی محمد نظام الدین رضوی، مولانا حافظ عبدالحق رضوی، مفتی محمد معراج القادری ، مولانا محمد مرتضی نعیمی، مولانا حفیظ اللہ اعظمی، مولانا سلطان احمد ادروی ، مولانا امام الدین مصطفوی، مولانا محد کوثر خان نعیمی، مولانا افتخاراحمد قادری، مفتی شفیق احمد گونڈہ ، مولانا محمدعمر بہرائچی

تصنیف و تالیف:

مفتی شرایف الحق امجدی کی فکر وقلم تحریر و تصنیف اور زبان و ادب سے گہری وابستگی ابتدائی عمر سے ہی رہی ۔ ان کی تحرو تصنیف نصف صدی پر محیط ہے۔ ابتدا ہی سےآپ نے وسیع مضامین و مقالات لکھے ہیں ۔ مختلف دینی وعلمی موضوعات پر آ پکی قیمتی اور جامع تحریر میں اور وقیع ومؤثر مقالے دبد بہ ٕ سکندری رام پور ، نوری کرن بریلی شریف ، پاسبان الہ آباد ، جام کوثر کلکتہ ، استقامت کانپور ، اشرفیہ مبارک پور، رفاقت پٹنہ، حجاز جد ید دہلی وغیرہ رسالوں میں چھپ کر عوام و خواص کے درمیان مقبول ہوتی رہیں۔ ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور میں التزام وتسلسل کے ساتھ آپ کے منتخب فتاوی شائع ہوتے رہے ۔ جس کی وجہ سے ماہنامہ کا وقار بلند اور قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ مفتی شریف الحق امجدی سے قلم کے مختلف عنوانات پر متعدد کتابیں معرض وجود میں آئیں ۔جن میں چند مشہور کتابوں کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جا تا ہے۔

نزهة القاری شرح صحیح البخاری:
یہ صحیح بخاری کی اردو شرح ہے جو پانچ ہزارصفحات پرمشتمل ہے ۔ یہ اسلامی علوم و معارف اور حدیث وسنت کی تحقیقات و تدقیقات کا دائرۃ المعارف ، علماۓ متقدمین و متاخرین اور سلف صالحین کی عربی و فارسی شروح کا عطر مجموعہ ہے ۔ جو 9 جلدوں پر مشتمل ہے۔

اشرف السير:
اس کتاب میں سیرت نبوی کے بنیادی ستون محمد بن اسحق ( 151ھ / 768 ٕ ) محمد بن عمر الواقدی ( 207ھ / 822ٕ ) محمد بن سعد ( م 320ھ / 844) محب الدین بن جریر طبری ( 301 ھ ) پرفن تاریخ و حدیث اور سیرت کے حوالے سے مخالفین کے اعتراضات کے دندان شکن علمی جوابات ہیں ۔ سیرت پاک سے متعلق مغربی ظالمانہ اور جاہلانہ اورمشرق کے مرعو بانہ اور معذرت خواہانہ طرزعمل پر سیر حاصل تنقیدی وتحقیقی کلام اور ابتدا سے بعثت نبوی تک سرکار دو عالم ﷺ کے احوال وکوائف اور آپ کے آبا واجداد کے تعلق سے جامع پرمغز اور معلوماتی گفتگو کی گئی ہے ۔ یہ کتاب حصہ اول کا نصف ہے، باقی کام دیگر مصروفیات کی وجہ سے انجام نہ پا سکا۔

اشک رواں :

آزادی ہند سے پہلے کا نگریس میں اور مسلم لیگ کی خود غرضی اور مفاد پرستی پر مبنی پر فریب سیاست پر ضرب کاری اور اس کی مخالفت اور مسلمانوں کے لیے اسلامی وشرعی نقطہ نظر سے تیسرے متبادل کی تجویز، تقسیم ہند کے بعد ہونے والی مسلمانوں کی جان و مال ، عزت وآبرو کی تباہی و بربادی اور بعد میں انہیں در پیش سیاسی و سماجی ، مذہبی وملی پریشانیوں اور رسوائیوں کو اپنی دور بین نگاہوں سے بھانپ کر اس پر اپنے قلبی و ذہنی خطرات ، بے کلی اور بے چینی کا اظہار اور پھر اس کے تدراک کے لیے مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل ، یہ سب کچھ اس کتاب میں شامل ہے۔
شارح بخاری نے پچیس برس کی عمر میں اسلامی سیاست کے موضوع پر یہ کتاب تحریر فرامائی ہے ۔ آزادی ہند وتقسیم ہند سے پہلے 1946 ء کے پر آشوب و پرفتن دور میں اس کی اشاعت ہوئی ۔ پھر آج تک اس کا دوسرا ایڈیشن نہ شائع ہوسکا۔

اسلام اور چاند کا سفر :

شرعا انسان کا چاند پر پہنچنا ممکن ہے ۔ اسلامیات اور فلکیات کے اصول وقواعد اور قوانین و مباحث کی روشنی میں اس مدعا پر محققانہ گفتگو کی گئی ہے ۔ جو آپ کے وسعت مطالعہ ، ژرف نگاری ، قوت استدلال اور زور بیان کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ یہ محققانہ و عالمانہ تحقیقات وابحاث کا حسین گلدستہ ہے۔

تحقیقات(دوحصے) :

اس میں وہابیوں ، دیوبندیوں اور معاندین اہل سنت کے کچھ لا یعنی اعتراضات کے مدلل تحقیقی والز امی جوابات ہیں یہ کتاب دوحصوں میں ہے۔

فتنوں کی سرزمین کون ، نجد یا عراق ؟:

اس کتاب میں نجد وعراق کا ایک گراں قدر حقیقت افروز اور ایمان افرا تاریخی ، جغرافیاٸی اور دینی و سیاسی جاٸزہ پیش کیا گیا ہے۔

سنی ، دیو بندی اختلاف کا منصفانہ جائزہ :

یہ سنی و دیو بندی اختلاف کی بنیاد اور اکابر علماے دیو بند کی کفری عبارتوں پر غیر جانب دارانہ فیصلہ کن ابحاث کا خوبصورت علمی گلدستہ ہے ۔ آپ کی یہ کتاب اپنے موضوع پر لا جواب اور بے مثال ہے۔

اثبات ایصال ثواب :

یہ رسالہ ایصال ثواب کے موضوع پر مصنف کی ایک نئے انداز میں بحث ، میلا دو قیام ، نیاز و فاتحہ کے سلسلے میں شکوک وشبہات کی وادیوں میں بھٹکنے والوں کے اطمینان کلی کے لیے ایک بیش قیمت ، زوردارعلمی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔

مقالات شارح بخاری :

یہ دینی و مذہبی علمی وادبی تاریخی وسوانحی فکری و حقیقی گونا گوں عنوانات پر حضرت کے سیکڑوں بوقلموں مضامین کا مجموعہ ہے ۔ یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔

مسئلہ تکفیر اور امام احمد رضا :

اپنے موضوع پر نہایت شاندار گراں قدر اور اچھوتی محققانہ و متکلمانہ تحریر جو موضوع کے تمام زاویوں کو حاوی اور شبہات کے سارے تار و پود بکھیر دینے والی ہے۔

فتاویٰ شریفیہ:

آپ کی زندگی بھر کے علمی تحقیقی فتاوی کا مجموعہ جو ایک انداز کے مطابق پچھتر ہزار سے زائد فتاوی کو محیط ہوگا ۔ جو لوگوں کے عقائد و اعمال میں رہنمائی کرتا ہے اور اہل علم اور ارباب فقہ و فتاویٰ سے خراج تحسین حاصل کر چکا ہے۔

1359ھ میں مفتی شریف الحق امجدی نے صدرالشریعہ مولانا امجد اسمی کے دست حق پر بیعت کیا۔
آپ کا شمار صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کے سابقین اولین مریدوں میں ہوتا ہے ۔ حضرت صدرالشریعہ نے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت و خلافت سے بھی نوازا تھا ۔ حضور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا بریلی اور احسن العلما مولانا مصطفی حسن حیدر مارہرہ نے بھی اجازت و خلافت سے نوزا تھا۔
حضور شارح بخاری متعدد بار حرمین شریفین کی زیارت سے مستفیض ہوۓ 1985 ء میں پہلا حج اور 1997 ء میں دوسرا حج فرمایا 1996 ء اور 1998 ء میں دو مرتبہ سفر عمرہ پر بھی گیے۔
6/ صفرالمظفر 1421ھ/ 11/مٸ 2000 ٕ بروز جمعرات آپ اس دار فانی سے دار جاودانی کی طرف کوچ کر گئے ، اور یہ علم وفن کا راز داں اور استقامت و ثابت قدمی کا کوہ ہمالہ ہمیشہ کے لیے آغوش زمین میں محو خواب ہو گیا۔ آپ کا مزار مبارک گھوسی ضلع مئو میں مرجع خلائق ہے۔(بحوالہ علماۓ اہل سنت کی علمی و ادبی خدمات)

[مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں]

منقبت در شانِ حضرت سید حاجی علی وارث رحمة اللہ علیہ،، راقم الحروف ۔ زاہد رضا فانی بناور ضلع بدایوں شریف یوپی الہند

غموں سے بچاتے ہیں سرکار وارث
خوشی سے ملاتے ہیں سرکار وارث

مقدر کے مارو چلے جاؤ دیوا
مقدر جگاتے ہیں سرکار وارث

مرے سر پہ جب دیکھتے ہیں مصیبت
تو فوراً بھگاتے ہیں سرکار وارث

سدا علم و عرفان و زہد و ورع کے
خزانے لٹاتے ہیں سرکار وارث

نہ گھبرا اے دل قیدِ غم سے چھڑانے
لے وہ دیکھ آتے ہیں سرکار وارث

بھٹکنے نہیں دیتے منزل سے مجھ کو
سدا رہ دکھاتے ہیں سرکار وارث

سنور جاتی ہے عاقبت جن کو سن کر
وہ باتیں بتاتے ہیں سرکار وارث

چلو جھولیاں بھرنے جود و سخا کے
سمندر بہاتے ہیں سرکار وارث

ابھرتا ہے جب دل میں گنبد کا نقشہ
مجھے یاد آتے ہیں سرکار وارث

سنا دے کوئی مژدہ آکر یہ مجھ کو
جا در پر بلاتے ہیں سرکار وارث

برائی سے بچنے کی دیتے ہیں تعلیم
بھلائی سکھاتے ہیں سرکار وارث

اے فانی ثنا تجھ سے اپنی کرا کر
ترا قد بڑھاتے ہیں سرکار وارث

راقم الحروف ۔ زاہد رضا فانی بناور ضلع بدایوں شریف یوپی الہند

تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا،از قلم : شیخ منتصر احسنی متعلم – جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)

صبح کے تقریباً دس بج رہے تھے اور تاریخ تھی 15 اگست کی، پورا ملک آزادی کے جشن میں ڈوبا ہوا تھا ۔ اچانک غیر معروف (unknown) نمبر سے دو تین کالیں (calls) آئیں لیکن آزادی کے جشن میں محو تھا کہ جس کی وجہ سے کال ریسیو نہ کرسکا ۔ اور یوں بھی کال ریسو ( receive) نہ کر پانا معمولی سی بات ہے، لیکن بعد میں جب اس نمبر پہ ریٹرن کال کیا تو پتا چلا کہ وہ دار العلوم مینائیہ سے ہے –
ایک جانب تو دل کی دھڑکنیں اس اندیشے کے زیر اثر بڑھ چکی تھیں کہ خدا جانے کیا خبر آنے والی ہے؟ ریجیکشن کی مایوسی چہرے بگاڑ دے گی یا سلیکشن کا مژدۂ جاں فزا اچھلنے پہ مجبور کردے گا-
مگر ابھی کچھ کنفرم نہ ہوا، کیوں کہ ادھر سے صرف آدھار کارڈ طلب کرنے کے لیے فون آیا تھا ۔ مگر اس طلب پر ہمارے بعض احباب نے یہ امید دلائی کہ آدھار کارڈ کی طلب یہ انتخاب کی دلیل ہے ۔ پھر بھی ابھی دل مکمل مطمئن نہیں تھا-
بالآخر رات گیارہ بجے کے بعد ہاشم بھائی کے واٹس ایپ پر یہ خوشخبری موصول ہوئی کہ آل انڈیا مسابقۂ خطاب میں ساڑھے چھ سو طلبہ میں سے ٹاپ ٹین منتخب شرکاء میں آپ نے پانچویں پوزیشن حاصل کی ہے –
یہ خبر سنتے ہی جماعت فضیلت میں خوشی کی لہر دوڑ پڑی – ہمارے کمرے میں فرحت و شادمانی کی ہوائیں چلنے لگیں حالانکہ اس سے پہلے کچھ طلبہ کی جانب سے قیاس آرائیاں کی جا رہیں تھیں کہ ملکی پیمانے پر ہونے والے تقریری مقابلہ میں نمبر حاصل کرنا محال ہے۔ یہ خبر سنتے ہی ان کے زبان پر قفل لگ گئے اور خوشی کا دیکھاوا کرنے لگے اور کچھ تو ہاشم احسنی کو سپورٹ کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے انشاءاللہ ہو جائے گا- –
پھر 26 / اگست بروز جمعہ برادر محترم نے احباب و اساتذہ کی دعاؤں کا توشہ لیے خانقاہ برکاتیہ سے خانقاہ مینائیہ گونڈہ پہنچے اور وہاں پہنچنے کے بعد آخر کار وہ گھڑی آہی گئ جس کا تمام طلبہ اور اساتذہ کو انتظار تھا یعنی مقابلے کا پروگرام شروع ہوا، مدرسے کے بہت سے طلبہ یوٹیوب کے ذریعے لائیو پروگرام ملاحظہ کر رہے تھے، اور بڑی بے صبری اور اضطراب کے ساتھ ہاشم بھائی کے نمبر کا انتظار کر رہے تھے بالآخر سوا بارہ بجے ان کے نام کا اعلان ہوا اور بھائی نے بہت ہی شاندار اور اچھوتے انداز اور مقررانہ لب و لہجے میں اعتماد سے بھرپور خطاب کیا اور اپنے موضوع کا حق ادا کردیا ۔
اب ایک اور آزمائش تھی رژلٹ کی، ہم تو پر اعتماد تھے کہ ٹرافی تو مارہرہ ہی آئے گی مگر اپنے اس اعتماد کے تارو پود بکھرنے سے ڈر بھی رہے تھے ۔ اگلے دن رزلٹ آوٹ ہونا تھا ۔
جامعہ کے تمام طلبہ اور اساتذہ رزلٹ کا انتظار کر رہے تھے کہ نتیجہ کب برآمد ہو گا؟ اس میں بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں اور کچھ طلبہ کہہ رہے تھے کہ ٹاپ ٣ میں آنا اتنا آسان نہیں ہے۔
آخر کار اگلی صبح کا سورج نوید مسرت لے کر افق عالم پر چمکا ۔ ٨/ بجے رزلٹ آؤٹ ہوا اور ہاشم بھائی کی تقریر نے ان تمام بدگمانیوں اور حوصلہ شکنیوں سے لبریز خیالات کو مسترد کرتے ہوئے دوم پوزیشن حاصل کی – اور پچیس ہزار کی خطیر رقم، توصیفی سند اور خوبصورت ٹرافی سے بطور انعام و اکرام سرفراز کیا گیا ۔
استاذ مکرم مفتی شاداب امجدی صاحب کا حوصلہ افزائی سے لبریز اعلان خوش خبری سوشل میڈیا پہ مبارکبادیاں بٹورنے لگا، استاذ مکرم فرط شادمانی کےساتھ ہشاش بشاش ہوکر جب درسگاہ میں آئے تو ہم نے انہیں بھی مبارکباد دی، کیوں کہ تقریری مواد کی فراہمی انہیں کی طرف سے تھی ۔ حضرت نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے مگر ہاشم کی تقریر سننے کے بعد مجھے ایک نمبر کی امید تھی-
سرپرست جامعہ ابا حضور، پرنسپل صاحب اور تمام اساتذہ و طلبہ کے سینے اس کامیابی سے چوڑے ہورہے ہیں ۔ اس کامیابی کو صرف ایک طالب علم کی کامیابی نہیں قرار دیا گیا بلکہ پورے جامعہ کی کامیابی قرار دیا گیا، کیوں کہ اس سے پورے جامعہ اور خانقاہ کا نام روشن ہوا ہے-
ہاشم بھائی یہ کامیابی حاصل بھی کیوں نہ کرتے جس کو خانقاہ برکاتیہ کے مخدوموں نے اپنی دعاؤں سے نوازا ہو، چاہے وہ سرکار امین ملت ہوں یا رفیق ملت (ابا حضور) ہوں یا شرف ملت –
آج مجھے وہ لمحہ رہ رہ کے یاد آ رہا ہے جب ابا حضور نے 15/ اگست کو ہاشم بھائی کو انعام سے نوازتے وقت فرمایا تھا: بیٹا! اللہ تمہارے زبان و قلم دونوں کو مضبوط کرے –
اور میں یہ کہنے میں باک محسوس نہیں کرتا کہ ہاشم بھائی کو اگر دوم پوزیشن حاصل ہوئی ہے تو ان کی محنت تو مسلم ہے ہی مگر ابا حضور کی اس دعا کی قبولیت کا یہ اعلان بھی ہے اور یہ مخدوموں اور ہمارے مشفق و مہربان اساتذہ کی محنت اور ان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
بالخصوص ہمارے جامعہ کے پرنسپل حضرت مولانا عرفان ازہری صاحب قبلہ کی حوصلہ افزائیاں اور حضرت مولانا شاداب امجدی صاحب قبلہ کی محنت بھری رہنمائیاں بھی پشت پناہی کرتی رہیں –
اللہ رب العزت ہاشم احسنی کو مزید ترقیوں سے نوازے اور حاسدین کے حسد سے محفوظ رکھے اور ان مخدومان گرامی اور اساتذہ کے صدقے ہمیں بھی دنیا و آخرت میں کامیابی عطا فرمائے آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین –
اقبال کے اس شعر پہ اپنی بات سمیٹتا ہوں کہ :
توشاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

کیا ماہ صفر منحوس ہے؟،، از۔۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت خادم۔۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور 7030786828


ماہ صفر المظفر اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے اس مہینے میں شریعت مطہرہ نے نہ تو کوئی خاص عبادت مقرر کی ہے اور نہ ہی اس مہینے کے بارے میں کوئ خاص توہم پرستی کی تعلیم دی ہے مگر بد قسمتی سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مہینہ بدبخت اور منحوس ہے اسی وجہ سے اس مہینے میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے انعقاد سے پرہیز کیا جاتا ہے یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے ماہ صفر المظفر کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یعنی صفر المظفر کے مہینے کو منحوس سمجھنے کی کوئ حقیقت نہیں۔ اسلام میں بد شگونی اور نحوست کا کوئ تصور نہیں اسلام میں اگر کوئی بد شگونی اور نحوست کی چیز ہے تو وہ انسان کے بد اعمالیاں فسق و فجور ناچ گانے فحاشی عریانی اور اللہ و رسول کی نافرمانیاں ہیں جو گھر گھر میں ہو رہی ہیں اگر ہم واقعی نحوست و بد شگونی سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں بد اعمالیاں فسق و فجور ناچ گانے فحش و عریانی سے بچنا پڑے گا
دن اور مہینے اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے ہیں اس لیے کسی خاص وقت، دن یا مہینے کو منحوس قرار دینا سراسر جہالت ہے،علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں دور جاہلیت میں ماہ صفر کے بارے میں لوگ اس قسم کے وہمی خیالات بھی رکھا کرتے تھے کہ اس مہینے میں مصیبتیں اور آفتیں بہت نازل ہوتی ہیں، اسی وجہ سے وہ لوگ ماہ صفر کے آنے کو منحوس خیال کیا کرتے تھے
( عمدۃ القاری ج 7 ص 110)
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باطل خیال کی تردید ان الفاظ میں فرمائی ” لاصفر” یعنی صفر کچھ نہیں ہے۔ (اس میں کوئی مصیبت و آفت نہیں ہے)اس حدیث کی تشریح میں محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں عوام اسے بلاؤں، حادثوں اور آفتوں کے نازل ہونے کا وقت قرار دیتے ہیں، یہ عقیدہ باطل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے
( اشعۃ اللمعات ج ٣ / ص ٦٦٤)۔حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی لکھتے ہیں ماہ صفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں ، خصوصاً ماہ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ نحس مانی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں حدیث میں فرمایا کہ ’’صفر کوئی چیز نہیں یعنی لوگوں کا اسے منحوس سمجھنا غلط ہے( بہار شریعت حصہ ١٦ / ص ٥٦٩) صاحب تفسیر روح البیان علامہ شیخ اسمٰعیل حقی لکھتے ہیں”صفر وغیرہ کسی مہینے یا مخصوص وقت کو منحوس سمجھنا درست نہیں، تمام اوقات اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں اور ان میں انسانوں کے اعمال واقع ہوتے ہیں ۔ جس وقت میں بندۂ مومن اللہ کی اطاعت و بندگی میں مشغول ہو وہ وقت مبارک ہے اور جس وقت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے وہ وقت اس کے لیے منحوس ہے ۔ در حقیقت اصل نحوست تو گناہوں میں ہے ۔ ( تفسیر روح البیان ج ٣ ص ٤٢٨)اخیر میں ان لوگوں کے لیے عرض ہے جو اس مہینے میں شادی کرنے سے منع کرتے ہیں کہ :پہلی ہجری کے اسی مہینے ( صفر المظفر) میں مولائے کائنات سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا خاتون جنت سیدتنا فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا سے عقد نکاح یعنی شادی ہوئی
صفر المظفر یعنی کامیابی کا مہینہ کہا جاتا ہے،اس مقدس اور برکت والے مہینے میں کئی عظیم الشان تاریخی واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ماہ صفر المظفرمیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی خانہ آبادی ہوئی ،صفر کے مہینے میں مسلمانوں کو فتخ خیبر نصیب ہوئی ، صفر کے مہینے میں سیف اللہ حضرت خالد بن ولید ،حضرت عمرو بن عاص اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا ،صفر کے مہینے میں مدائن جس میں کسریٰ کا محل تھا کی فتح ہوئی۔صفر المظفرکے مہینے میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم کے دور خلافت میں 16ھ میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایوان محل کسریٰ میں جمعہ کی نماز ادا کی اور یہ پہلا جمعہ تھا جو عراق کی مملکت میں پڑھا گیا ،صفر المظفر کے مہینے میں 11ھ میں ہی جھوٹی نبوت کے دعویدار اسود عنسی کذاب سے مسلمانوں نے نجات پائی
جس مقدس مہینے میں ایسے ہم اواقعات ہوئے ہوں وہ مہینہ کس طرح منحوس ہوسکتا ہی افسوس علم دین سے دوری اور بری صحبت کے سبب لوگوں کی ایک تعداد صفر المظفر جیسے بارونق اور بابرکت مہینے کو بھی مصیبتوں اور آفتوں کے اترنے کا مہینہ سمجھتی ہے باالخصوص اس کی ابتدائی تیرہ تاریخوں کے بارے میں بہت سی خلاف شریعت باتیں مشہور ہیں
ماہ صفر کے آخری بدھ
ماہِ صفرُالمظفّر کے آخری بدھ کو منحوس سمجھتے ہوئے کئی انداز اختیار کئے جاتے ہیں،مثلا اس دن لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں،سیر و تفریح و شکار کو جاتے ہیں،پوریاں پکتی ہیں نہاتے دھوتے خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے یہ ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس روز غسلِ صحت فرمایا تھا اور بیرونِ مدینہ طیبہ سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں، بلکہ ان دنوں میں حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مرض شِدَّت کے ساتھ تھا، وہ باتیں خلافِ واقع (جھوٹی)ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں سب بے ثبوت ہیں۔ بہارشریعت، حصہ۱۶،۳/۶۵۹
اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ماہِ صفر کے آخری بدھ کے بارے میں سُوال کیا گیا کہ اس دن عورتیں بطورِسفرشہر سے باہر جائیں اور قبروں پر نیاز وغیرہ دلائیں جائز ہے یانہیں؟ تو آپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :(ایسا ) ہر گز نہ ہو( کہ اس میں)سخت فتنہ ہےاور چہار شنبہ(بدھ کا دن منانا ) محض بے اصل۔( فتاوی رضویہ،۲۲/۲۴۰)
حضرت مفتی احمد یار خان نعیمیرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں:بعض لوگ صفر کے آخری چہار شنبہ کو خوشیاں مناتے ہیں کہ مَنحوس شَہْرچل دیا یہ بھی باطل ہے۔

از۔۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری
خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت
خادم۔۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال
مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور
7030786828

منقبت در شان: حضور تاج الاولیا مجذوبِ زمانہ حضرت خواجہ سید تاج الدین اولیا چشتی قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ ناگپور شریف مہاراشٹرا بموقع: عرس صد سالہ ◇◇عقیدت کیش محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی

عام تر ہے آپ کا فیضان تاج الاولیا

شادماں ہے ہر تہی دامان تاج الاولیاء

طالبِ نورِ معارف ہے لہذا کیجیے
سوے دل پرنالۂ عرفان تاج الاولیا

جب ورق گردانیِ طومارِ ہستی میں نے کی
حاضری کا بڑھ چلا ارمان تاج الاولیا

لب پہ آیا بے محابا دیکھ کر شانِ غِنا
آپ پر قرباں ہے میری جان تاج الاولیا

ہے بہت معروف روحانی ضیافت آپ کی
کیجیے اپنا کبھی مہمان ، تاج الاولیا

ہے تمھارا قلزمِ مجذوبیت پر جوش آج
جذب کا بھر دیں بس اک فنجان تاج الاولیا

بندۂ محتاج ہے امید وارِ التفات
ہو رہی ہے زندگی ہلکان تاج الاولیا

دیکھ لو تو خرمنِ آلام جل کر خاک ہو
کہہ رہا ہے یہ مرا وجدان تاج الاولیا

دیکھ کر اک وقت میں دو دو جگہ دو تین بار
فوج کا افسر ہوا حیران تاج الاولیا

کر دیا تم نے دھنی دے کر بہ تعدادِ بنات
برہمن کو مژدۂ ولدان تاج الاولیا

نوریِ دریوزہ گر ہی کیوں ہو محرومِ مراد
پاتے ہیں جب فیض بے ایمان، تاج الاولیا
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
عقیدت کیش
محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی

۲۴/ محرم الحرام ۱۴۴۴ ہجری
۲۳/ اگست ۲۰۲۲ عیسوی

بروز: منگل