WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives 2022

تکبر ایک مہلک مرض ہے،، :✍🏻 محمد مقصود عالم قادری عفی عنہ اتردیناجپور مغربی بنگال

  اللہ تعالی نے انسان کو جن نعمتوں سے مالامال کیا ہے  ان کے بدلے میں اگر انسان اللہ تعالی کا شکر بجا لائے  اور تحدیث نعمت کے طور پر دوسروں کے سامنے ظاہر کرے تو اللہ تعالی مزید نعمتیں عطا فرماتا ہے

اللہ کریم کا ارشاد ہے
“لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ”
اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا (ابراہیم آیت 7)
لیکن اگر اللہ عزوجل کی دی ہوئی نعمت کو محض اپنی کاوشوں سے حاصل شدہ خیال کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے ظاہر کرے اور اپنے آپ کو اعلی سمجھے اور دوسروں کو حقیر تو یہی تکبر کہلاتا ہے ،تکبر ایک ایسا باطنی مرض ہے جس کو لاحق ہو جائے وہ ہلاک و برباد ہو جاتا ہے جس طرح معلم الملکوت (فرشتوں کے استاد) کامرتبہ پانے والے ابلیس نے تکبر کیا تو اپنے اعلیٰ ترین مقام ومنصب سے محروم ہوکر جہنمی قرار پایا،
حضوراعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے فرمایا:کہ تکبر کا علم سیکھنا اہم فرائض میں سے ہے (فتاویٰ رضویہ ج 23 ص 624 )
ذیل میں تکبر کی مذمت کے حوالے سے چند فرامین مصطفی ﷺ تحریر کیے جاتے ہیں ان کو گہری نگاہ سے پڑھئے اور اپنا محاسبہ کیجئے کہ کہیں یہ مہلک بیماری ہمارے اندر تو نہیں پائ جاتی ہےاگر احساس ہو تو فوری طور پر صدق دل سے توبہ کیجۓ
(1) حضور پاک ﷺنے فرمایا جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا (مسلم شریف کتاب الایمان حدیث نمبر91)
(2) آپ ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے بڑائی میری چادر اور عظمت میرا تہبند ہے جو کوئی ان میں سے کسی کے بارے میں بھی مجھ سے جھگڑے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں (احیاء العلوم ج 3 ص 991 المدینہ العلمیہ دعوت اسلامی )
یعنی عظمت و کبریائی صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے ان دونوں میں اس کا کوئ شریک نہیں
جس طرح کوئ شخص اپنی چادر اور تہبند جو کہ اس کا لباس ہوتا ہے اپنے علاوہ کسی غیر کو شریک نہیں کر سکتا
(3)سرکار مدینہ ﷺنے فرمایا کہ بدتر ہے وہ شخص جو تکبر کرے اور حد سے بڑھے اور سب سے بڑے جبار ﷻ کو بھول جائے ،بدتر ہے وہ شخص جو سرکشی کرے اور سب سے بلند اور بڑائی والی ذات کو بھول جائے،بدتر ہے وہ شخص جو غافل ہو اور کھیل کود میں پڑا رہے اور قبر اور اس میں بوسیدہ ہونے کو بھول جائے (احیاء العلوم ج 3 ص992 العلمیہ المدینہ دعوت اسلامی )
(4)مدینے والے آقا ﷺنے فرمایا ہر سخت مزاج اترا کر چلنے والا، متکبر ،خوب مال جمع کرنے والا اور دوسروں کو نہ دینے والا جہنمی ہے جب کہ اہل جنت کمزور اور کم مال والے ہیں (احیاء العلوم ج 3 ص993 المدینہ العلمیہ دعوت اسلامی )
(5) جو شخص اس فانی دنیا میں اپنی دولت، شہرت، اور عزت پر تکبر کرے گا تو اسے قیامت کے دن ذلیل و خوار کرکے اٹھایا جائے گا چنانچہ ہمارے پیارے آقاﷺ نے فرمایا قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکل والی چیونٹیوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہوگی،انہیں جہنم کے بولَس، نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آجائے گی ،انہیں ،،طینة الخبّال یعنی جہنمیوں کی پیپ ،،پلائی جائے گی (احیاء العلوم ج 3 ص993 المدینہ العلمیہ دعوت اسلامی )
اس کے علاوہ بھی قرآن مجید کی بہت ساری آیتیں اور حدیثیں تکبر کی مذمت پر موجود ہیں جوکہ یہاں لکھنا ممکن نہیں
،اللہ تعالی ہم سب کو تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرماۓ
آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

مزارات پر میلوں ٹھیلوں کا عذاب.. از ۔۔ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت خادم ۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال7030786828


آج کل ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے مزارات مقدسہ پر جس طرح کے ایمان سوز میلے ٹھیلے منعقد کئے جاتے ہیں اور ان میں ہمہ قسم کی دھما چوکڑی مچائ جاتی ہے علماء اہل سنّت کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو ایسے میلوں پر جانے سے سختی سے روکیں یہ میلے ٹھیلے جہاں مزارات کی سخت بے حرمتی کا سبب ہیں انہیں سے اہل سنت کی بھی شدید بدنامی ہو رہی ہے ہمیں حیرت ہے کہ ہمارے علماء و فقہاء اور خطباء و مقررین کے قلم اور زبانیں اس سلسلے میں اپنا اجتماعی کردار ادا کرنے سے کیوں عاجز آگیے ہیں اس میں کوی شق نہیں کہ عرس کی محفل. منعقد کرنا شرعی طور پر ایک جائز کام ہے جس سے بہت سے دینی مصالح اور شرعی فوائد وابستہ ہیں لیکن عرسوں کے آڑ میں فواحش و منکرات کا بازار گرم کرنا جوا کھیلنا شراب پینا سرکسیں منعقد کرنا نیم عریاں عورتوں کا رقص کرنا کان پھاڑ نے والی آوازوں کے ساتھ سارے شہر میں گانوں کا گونجنا بدکاری حرام کاری کی دعوتوں کا عام ہونا کیا یہ بھی کوئ عرس کا حصہ ہیں؟ یا پھر عرس کے دنوں میں یہ گندے اور غلیظ کام جائز ہو جاتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ آج مزارات کے زیر سایہ ان تمام بدکاریوں کو دینی جواز فراہم کر دیا گیا ہے اور جاہل لوگ ان خبیث کاموں کو کار ثواب سمجھ کر کرتے ہیں یہ میلے ٹھیلے جرائم کی آماجگاہ بن چکے ہیں غنڈے لوفر بدمعاش چور اچکے زانی قاتل ڈاکو لوطی مراثی جواری شرابی غرضیکہ دنیا بھر کے ذلیل ترین اور ننگ انسانیت لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں اور ان مقامات مقدسہ پر ہر وہ بدترین کام ڈنکے کی چوٹ پر ہوتا ہے جس سے اِنسانیت منھ چھپائے پھر تی ہے اور اسلام کا سرعام جنازہ اٹھ رہا ہوتا ہے _
مزید برآں ان میلوں ٹھیلوں کا مسلک اہل سنت کے سر تھوپنا بھی ایک جاہلانہ اور شیطانی حرکت ہے کیونکہ علماء اہل سنّت انہیں کل بھی حرام قرار دیتے تھے اور آج بھی حرام قرار دیتے ہیں ہم میلوں کی ان تمام غیر شرعی رسوم و روایات سے کلیتا بے زاری کا اعلان کرتے ہیں _ لیکن ناجائز کاموں کو دیکھ کر جائز کاموں کو بھی ناجائز قرار دے دینا بھلا یہ کہاں کی عقلمندی ہے میلے ٹھیلے منعقد کرنا اگر عملی جہالت ہے تو عرسوں کو ناجائز قرار دینا علمی جہالت ہے لہذا مہر بانی فرما کر ناجائز سے روکیں اور جائز کو جائز رہنے دیجئے
خیر! آمدم برسر مطلب ان میلوں ٹھیلوں کا نہ تو دینی و شرعی جواز ہے اور نہ ہی قانونی و اخلاقی یہ چھوٹے چھوٹے اور بڑے بڑے ہزاروں میلے ظلم ہی ظلم اور جرم ہی جرم ہیں ان سے رکنا اور روکنا ہر مسلمان پر فرض عین ہے خاص طور پر علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ان اسلام کش اور دین دشمن میلوں کا خلاف برسر پیکار ہوجائیں اور اپنی تمام تر علمی و عملی توانائیوں کے ساتھ انہیں رکوا کر ہی دم لیں..
اگر علمائے کرام نے اجتماعی طور پر اپنا یہ فرض ادا نہ کیا تو پھر وہ قیامت کے دن مواخذہ کے لیے تیار ہو جائیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو غلط کام کو دیکھے اور اس سے نہ روکے تو وہ گونگا شیطان ہے ہمارے بہت سے خطباء و مقررین جو علم سے کورے ہوتے ہیں اور فقط سُر گُر کی بنا پر عوام میں اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیتے ہیں میلوں ٹھیلوں کا اس جرم میں وہ بھی برابر شریک ہیں کیونکہ وہی ان میلوں پہ جاکر تقریریں کرتے ہیں اور عوام کی صحیح تربیت کر نے کہ بجائے انہیں لطیفے چٹکلے سناتے ہیں نیز انہیں یہ حق ہی کس نے دیا ہے کہ وہ عوام کو وعظ سنائیں جبکہ ان کا وعظ سنا ہی شریعت میں حرام ہے وعظ کرنے کے لیے آدمی کا مستند عالم ہونا ضروری ہے جو نہ صرف یہ کہ شہاۃ العالمیہ پاس ہو بلکہ اس کے ساتھ علم دین پر کامل عبور بھی رکھتا ہو

ہمیں مرشد کی ضرورت کیوں؟ از:(مولانا) عبدالسبحان مصباحی،استاذ:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

موجودہ دور مادیت کا دور ہے ایک طرف بد عقیدگی کا سیلاب جو کہ مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کو تباہ کر رہا ہےاور دوسری جانب گناہ کا سیلاب ہے جو کہ مسلمانوں کی روحانیت کو تباہ کر رہا ہے۔

اگر ہم موجودہ ماحول اور معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں تزکیۂ نفس و مرتبۂ احسان کا حصول بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ہر طرف بے راہ روی اور گناہوں کی بھرمار نظر آتی ہے ۔آخر ایسا کون سا کام ہے جو ہمارے ایمان کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور ہمارے باطن کو پاک و صاف کردے،جس کی صحبت اور نگاہ کرم گناہوں سے زنگ آلود دل کو آئینہ کی طرح صاف و شفاف کر دے۔ وہ کام کسی نیک ہستی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے ۔ اس کے ہاتھ پر بیعت ہونا ہے۔

صحابۂ کرام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ اقدس پر بیعت کی سعادت حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید میں اس کے متعلق احکامات صادر فرمائے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بہت سی احادیث بھی مرشد کامل کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہ نمائی کے لیے دو ذریعے بنائے ہیں ایک قرآن اور دوسرا حدیث۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دینا یا اپنے پسندیدہ حصے کی پیروی کرنے والا دین سے کچھ حاصل نہ کر پائے گا بلکہ وہ دین و دنیا کے تمام معاملات میں صرف کشمکش اور ناقابلِ حل مسائل کا شکار رہے گا۔

حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ قرآن کی عملی تفسیر اور دین کے تمام احکام کا عملی نمونہ ہے ۔ آپ کا ہر عمل خواہ وہ دین کے ظاہری پہلوؤں کے متعلق ہو یا باطنی پہلوؤں کے متعلق‘ تمام اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

بیعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’بیع‘ سے نکلا ہے، جس کا لفظی معنیٰ سودا کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں کسی مقدس ہستی یا صالح بزرگ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرنے کا نام بیعت ہے۔بیعت بھی اللہ تعالیٰ سے لین دین کے سودے کا نام ہے جس میں بیعت کرنے والا اپنا سب کچھ جو در حقیقت پہلے ہی اللہ تعالیٰ کا ہے، اللہ کے حوالے کرتا ہے اور بدلے میں اللہ کی رضا اوراللہ کی ذات کا طالب بنتا ہے۔

پس جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے اللہ سے سودا ہی نہ کیا اور اُن کے بعد ان کے خلفا یعنی صحابۂ کرام و اولیاے کاملین کے وسیلے سے اللہ سے بیعت ہی نہ کی وہ اللہ سے کیسے اور کیا تعلق جوڑ ے گا، کیا دے گا اور کیا لے گا۔

پیری مریدی کا ثبوت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

ترجمہ: ’’ بے شک جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بیعت کرتے ہیں اور اللہ کا ہاتھ[دست قدرت] ان کے ہاتھوں پر ہے پس جس نے توڑ دیا اس بیعت کو تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی ذات پر ہو گا اور جس نے پورا کیا اس عہد کو جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا تو وہ اس کو اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔(سورہ فتح آیت10)۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے ہاتھ پر بیعت کرنا صحابۂ کرام کی سنت ہے (جلد 9 صفحہ 360 )۔

بیعت اللہ کی رضا اور مومنین کے دل کی تسکین کا ذریعہ بھی ہے کیوں کہ یہ ان کے اللہ سے رشتہ اور تعلق قائم ہونے کی دلیل ہےصحابۂ کرام نے حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے درخت کے نیچے بیعت کی تو اللہ تعالی ان سے راضی ہو ا اور ارشاد فرمایا ۔

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہوچکا جس وقت وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے درخت کے نیچے بیعت کرتے ہیں(سورہ فتح آیت 18 )۔

اور حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت کے وقت نہ تھے،حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا اور دوسرے ہاتھ کو دست قدرت کا نائب بنایا اور فرمایا یہ اللہ کا دست قدرت ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے تو آپ نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور بیعت کی ۔(صحیح بخاری )۔

مذکورہ قرآنی آیات و  احادیث سے جہاں بیعت کا ثبوت ہوا  وہیں ساتھ ہی  ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ بیعت کے لیے سامنے ہونا ضروری نہیں ہے

پیری مریدی کے ثبوت پر مذکورہ اصل کھلی دلیل ہے جس کا انکار آج تک کسی مجتہد نے نہیں کیا اور جو بیعت سے انکار کرے وہ کم عقل اور گمراہ ہے ۔

اللہ تعالی سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرماتا ہے : یوم ندعوا کل اناس بامامھم

ترجمہ : جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے(آیت نمبر 71 )۔

تفسیر نور العرفان میں اس آیت کے تحت مفتی احمد یار خان صاحب نعیمی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں ۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیامیں کسی صالح کو اپنا امام بنالینا چاہیے،شریعت میں تقلید کر کے اور طریقت میں بیعت کر کے تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو ۔

اگر صالح امام نہ ہو گا تو اس کا امام شیطان ہوگا ۔اس آیت میں تقلید ؛بیعت اور پیری مریدی سب کا ثبوت ہے

پیر کے لیے کتنی شرطیں ہونا ضروری ہیں

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے پیر کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں ۔

پہلی شرط : سنی صحیح العقیدہ ہو۔

دوسری شرط : اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔

تیسری شرط : فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو

چوتھی شرط : اس کا سلسلہ نبی کریم ﷺ تک متصل یعنی ملا ہواہو۔ (فتاوٰی رضویہ ، ج ۲۱، ص ۶۰۳)۔

ان چاروں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں ہے اور ایسا شخص پیر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔اگر کسی نے ایسے شخص سے بیعت کی ہے تو اس کی بیعت صحیح نہیں، اسے چاہیے کہ ایسے شخص سے بیعت ہو جس میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہوں ۔

جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے؟

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’جس کا کوئی پیر نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے۔‘‘( عوارف المعارف)۔

امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رسالہ قشیری میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ’’بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کا پیر کوئی نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے (رسالۂ قشیریہ)۔

میر عبد الواحد بلگرامی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب سبع سنابل میں فرماتے ہیں کہ ’’اے جوان تو کب تک چاہے گا کہ بغیر پیر کے رہے اس لیے کہ مہلت دینے اور ٹالتے رہنے میں مصیبت ہی مصیبت ہے ۔اگر تیرا کوئی پیر نہیں ہے توشیطان تیراپیر ہے جو دین کے راستوں میں دھوکا اور چالوں سے ڈاکہ ڈالتا ہے ۔ اور فرماتے ہیں بغیر پیر کے مرجانا مردار موت کے مانند ہے ۔ (سبع سنابل)۔

دیوبندیوں کے پیشوا رشید احمد گنگوہی کہتے ہیں کہ ’’مرید کو یقین کے ساتھ یہ جاننا چاہیے کہ شیخ کی روح کسی خاص مقیدومحدود نہیں پس مریدجہاں بھی ہو گا خواہ قریب ہو یا بعید تو گو شیخ کے جسم سے دور ہے لیکن اس کی روحانیت سے دور نہیں ‘‘ (امداد السلوک ،ص ۶۷ ،مولف رشید گنگوہی ،ادارۂ اسلامیات)۔

ذرا غور کریں ایسے ایسے جید عالموں اور خود دیوبندیوں کے امام کہتے ہیں کہ پیر کے بغیر ہمارا ایمان نہیں بچ سکتا اور اس کی روح سے مرید کو فیض پہنچتا رہتا ہے۔ تو پتہ چلا مرشد کا دست مرید کے سر پر ہونا ضروری ہے۔

کیا بیعت ہونا ضروری ہے

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مرید ہونا کوئی ضروری ہے ؟ بس نماز پڑھو ،روزہ رکھو ،زکاۃ دو اور فرائض و واجبات کی پابندی کرو کامل پیر کی کیا ضرورت ہے ؟

اس کا جواب ہم حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ سے لیتے ہیں ؛آپ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے

ترجمہ: پیر کا دامن تھام لے کہ یہ سفر بغیر پیر کے آفتوں اور خوف سے بھرا ہوا ہے

یہ راستہ وہ ہے جو تونے پہلے کبھی نہیں دیکھا ،خبر دار اس راستہ پر تنہا نہ جانا اور مرشد سے ہر گز منہ نہ موڑ ۔

جو شخص بغیر مرشد کے اس راستہ پر چلتا ہے وہ شیطان کی وجہ سے گمراہ اور ہلاک ہو جاتا ہے ، آگے پھر مولانا روم فرماتے ہیں کہ: اے نادان سمجحھ اگر پیر کا سایہ نہ ہو تو شیطانی وسوسے تجھے بہت پریشان کریں گے-

مرید بننے کے فوائد : علامہ عبد الوہاب شعرانی اپنی کتاب میزان الشریعۃ الکبری میں فرماتے ہیں کہ سب امام اولیا و علما اپنے پیروکاروں اور مریدوں کی شفاعت کرتے ہیں اور اس وقت مدد کرتے ہیں جب ان کے مرید کی روح نکلتی ہے جب منکر نکیر اس سے قبر میں سوال کرتے ہیں ؛ جب حشر میں اس کے نامۂ اعمال کھلتے ہیں جب اس سے حساب لیا جاتا ہے یا جب اس کے اعمال تولے جاتے ہیں اور جب وہ پل صراط پر چلتا ہے ان تمام مراحل میں وہ اس کی نگہبانی کرتے ہیں اور کسی جگہ بھی غافل نہیں ہوتے (جلد 1 صفحہ 53 )۔

کامل مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے ایک فائدہ یہ بھی ملتا ہے کہ مرید تو دن بھر کام کاج میں لگا رہتا ہے اور رات میں سو جاتا ہے مگر کامل مرشداپنی عبادتوں کے بعد مرید کی جان و مال اور ایمان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ اس طرح بیٹھے بیٹھے مرشد کی دعاؤں کا فیضان مرید کو ملتا ہے اور مرید کے ایمان و عقیدہ ،جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہوتی ہے۔

اللہ تعالی ہم سبھی مسلمانوں کو کسی بھی کامل مرشد کی رہ نمائی میں زندگی گذارنے کی توفیق مرحمت فرمائے-آمین

منقبت در شان حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

حسینیت کے طرف دار کم نہیں ہونگے
خدا کے دیں کے مددگار کم نہیں ہونگے

تمہارا وصف نرالا ہے ، خوب سیرت بھی
تمھارے واصف کردار کم نہیں ہونگے

تمھارا عشق ہے پیوست دہر کے دل میں
تمھارے عشق کے عمار کم نہیں ہونگے

تمھارے چاہنے والوں نے یوں سجائے چمن
تمھارے پیار کے اشجار کم نہیں ہونگے

مشن پہ آپ کے چلتے ہیں اہل دیں اب بھی
جہاں میں صاحب کردار کم نہیں ہونگے

پلایا عشق محمد کا جام آپ نے یوں
کبھی بھی عاشق سرکار کم نہیں ہونگے

کہا یہ ابن مظاہر نے ہم بہتر ٧٢ ہیں
کبھی بھی اس سے اے سرکار کم نہیں ہونگے

یزیدی شر کو جلا ڈالا نار ذلت نے
تمھارے خیر کے انوار کم نہیں ہونگے

اے سبط سرور کون و مکاں شہا تم سے
جڑے ہیں قلب کے جو تار کم نہیں ہونگے

ہے شکر “عینی” خداوند کا، عزیمت کے
چراغ ان سے ہیں ضو بار کم نہیں ہونگے
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

सेहलाऊ शरीफ में हर्ष व उल्लास के साथ मनाया गया 76 वाँ स्वतंत्रा दिवस

रिपोर्टर:बाक़िर हुसैन क़ादरी बरकाती अनवारी।खादिम:दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा पच्छमाई नगर,सेहलाऊ शरीफ,पो: गरडिया,तह:रामसर,ज़िला:बाड़मेरराजस्थान

हर वर्ष की तरह इस वर्ष भी इलाक़ा-ए-थार की मरकज़ी दर्सगाह “दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा दरगाह हज़रत पीर सय्यद हाजी आ़ली शाह बुखारी पच्छमाई नगर,सेहलाऊ शरीफ में जश्ने यौमे आज़ादी [स्वतंत्रा दिवस] जोश व जज़्बा के साथ मनाया गया।
सब से पहले “ध्वजारोहण” हज़रत पीर सय्यद दावन शाह बुखारी के हाथों किया गया।
फिर दारुल उ़लूम अनवारे मुस्तफा के बच्चों द्वारा क़ौमी व वतनी तराने पढ़े गए,उस के बाद मुख्य अतिथि नूरुल उ़ल्मा हज़रत अ़ल्लामा पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी व हज़रत मौलाना मोहम्मद शमीम अहमद साहब नूरी मिस्बाही ने बच्चों के ज़रिया पेश किये जाने वाले प्रेड का निरीक्षण किया और दारुल उ़लूम के कई बच्चों ने हिंदी,उर्दू व अंग्रेज़ी भाषा में देश की आज़ादी के लिए अपनी जान की बाज़ी लगाने वाले जाँबाज़ों के बारे में लोगों को संबोधित किया।
प्रोग्राम का संचालन अनवारे मुस्तफा माध्यमिक विद्यालय सेहलाऊ शरीफ के प्रधानाचार्य मास्टर मोहम्मद यूनुस खान साहब व मास्टर अहमद रजा ने कीॆ-
आखिर में हज़रत पीर सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी ने लोगों को मुजाहिदीने आज़ादी और देश से मुहब्बत करने के बारे में खिताब करने के साथ सभी लोगों को 76 वें स्वतंत्रा दिवस की मुहारकबाद पेश की।
फिर अमृत महोत्सव कार्यक्रम के तहत तिरंगे के साथ शांदार रैली निकाली गई।
बच्चों के रंगारंग कार्यक्रम ने सब का मन मोह लिया।
इस जश्ने आज़ादा में शरीक सभी लोगों का शान्दार मिठाइयों से मुंह मीठा किया गया, और लोगों ने एक दोसरे को यौमे आज़ादा की मुबारकबाद पेश की-
दारुल उ़़लूम अनवारे मुस्तफा शिक्षण संस्थान के प्रबंधक पीरे तरीक़त हज़रत अ़ल्लामा सय्यद नूरुल्लाह शाह बुखारी की तरफ से प्रोग्राम में हिस्सा लेने वाले सभी बच्चों को इन्आ़म व इकराम से नवाज़ा गया।
इस प्रोग्राम में विशेष तौर पर यह हज़रात उपस्थित रहे।
हज़रत मौलाना दिलावर हुसैन साहब क़ादरी सदर मुदर्रिस:दारुल उ़लूम हाज़ा,पीर सय्यद ग़ुलाम मोहम्मद शाह बुखारी,सय्यद ज़मन अ़ली शाह बुखारी,मौलाना सय्यद जान मोहम्मद शाह बुखारी,सय्यद मेहर अ़ली शाह बुखारी,हज़रत मौलाना हबीबुल्लाह क़ादरी अनवारी,हज़रत मौलाना खैर मोहम्मद क़ादरी अनवारी,हज़रत मौलाना जमालुद्दीन क़ादरी अनवारी, हज़रत मौलाना अ़ब्दुर्रऊफ जामई, हज़रत मौलाना अ़ब्दुस्सुब्हान मिस्बाही, मौलाना इल्मुद्दीन साहब अनवारी,मौलाना इस्लामुद्दीन साहब अनवारी,मौलाना अ़ब्दुल हलीम क़ादरी अनवारी,हाफिज़ व क़ारी बरकत अ़ली क़ादरी,मौलाना हकीम सिकन्दर अ़ली अनवारी,हाफिज़ क़मरुद्दीन क़ादरी अनवारी,क़ारी अरबाब अ़ली अनवारी,मौलाना मोहम्मद उ़र्स सिकन्दरी अनवारी,मास्टर शेर मोहम्मद खान,मास्टर मोहम्मद इस्हाक़ खान, मास्टर ताहिर साहब सेहता,मास्टर मक़बूल खान,मास्टर मोहम्मद सुलेमान,मास्टर मुरीद साहब वग़ैरहुम…

]

منقبت در شان حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کلام طویل ۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

سرور کونین کے شہکار ہیں میرے حسین
واسطے حق کے سپہ سالار ہیں میرے حسین

آپ کی توصیف میں اشعار ہیں ،میرے حسین
نور سے معمور خوب افکار ہیں ، میرے حسین

کہتا ہے ہر شخص خوش گفتار ہیں میرے حسین
پرتو شہ حیدر کرار ہیں میرے حسین

سر بلندی دائمی حق کو ملی جس کے سبب
حق بیانی کے وہی کہسار ہیں میرے حسین

پیار کا مرہم لگایا ہر دل بیمار پر
پرتو خلق شہ ابرار ہیں میرے حسین

عزم و استقلال میں ہے شان عالی آپ کی
چرخ استحکام کے معمار ہیں میرے حسین

دی شکست فاش باطل کو ، ہوئے گرچہ شہید
آسماں میں سرخیء اخبار ہیں میرے حسین

غم‌ سب آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں کہ جب
ہر حسینی کے لیے غم خوار ہیں میرے حسین

رب نے فرمایا مودۃ آیت قرآن میں
سرور دیں کے قرابت دار ہیں میرے حسین

خیمہء باطل کو چھوڑا ، آگیے حق کی طرف
کہہ دیا حر نے مرے غمخوار ہیں میرے حسین

لے لیا دامن میں اپنے حر کو بھی شبیر نے
مہرباں ، مشفق، بہت دل دار ہیں میرے حسین

مل گئے شبیر تو سمجھو کہ آقا مل گئے
منزل مقصود راہ یار ہیں میرے حسین

منعقد اس واسطے کرتے ہیں محفل آپ کی
وجہ تسکیں آپ کے اذکار ہیں میرے حسین

کامیابی کا ہے باعث فلسفہ شبیر کا
آج کے بھی دور میں درکار ہیں میرے حسین

ہے شباب اہل جنت آپ کا پیارا لقب
خاندان شاہ کے شہکار ہیں میرے حسین

انتہائے ظلم بھی اور منتہائے صبر بھی
کہتے ہیں سب نازش صبار ہیں میرے حسین
۔
جس نے دیکھا آپ کو بے ساختہ وہ کہہ اٹھا
پرتو حسن و جمال یار ہیں میرے حسین

خطبے کو موقوف کردیں مصطفیٰ ان کے لیے
سرور کونین کے یوں پیار ہیں میرے حسین

اپنی جرآت کا انہیں وارث کہا آقا نے خود
اللہ اللہ وارث سرکار ہیں میرے حسین

دیں بشارت جن کی پیدائش کی خود شاہ زمن
خوش نصیب ایسے شبیہ یار ہیں میرے حسین

آپ کی ہے تربیت ایسی، شہادت کے لیے
عابد‌ بیمار بھی تیار ہیں، میرے حسین

راہ رخصت کے عوض قائم عزیمت پر رہے
ظالموں سے برسر پیکار ہیں میرے حسین

استعارہ حق کا ہے ذات مبیں شبیر کی
رہبری کے واسطے مینار ہیں میرے حسین

واسطے دیں کے کیا قربان سارا خاندان
دہر میں یوں حامل ایثار ہیں میرے حسین

کانپتے ہیں سامنے ان کے سبھی فسق و فجور
نور حیدر ، صاحب کردار ہیں میرے حسین

حکم دیں تو آب خود آجائے ان کے سامنے
اے یزیدی مت سمجھ لاچار ہیں میرے حسین

ذوالفقار حیدری کہتے ہیں جس کو دہر میں
ہاں وہی اسلام کی تلوار ہیں میرے حسین

دی اذاں خود سرور عالم نے ان کے کان میں
کس قدر فخر گل گلزار ہیں میرے حسین

دوش پر لے کر کریں تعریف جن کی مصطفیٰ
بہترین ایسے سوار یار ہیں میرے حسین

ابتدائی ہوگئی تعلیم شہہ کی گود میں
کہہ رہا ہے علم خود، سردار ہیں میرے حسین

خود عزیمت کا پرندہ آپ کا مداح ہے
یوں فضائل سے سدا سرشار ہیں میرے حسین

معرفت کا اک محل اونچا بنایا آپ نے
رب کی یوں پہچان کے معیار ہیں میرے حسین

کم سنی کی بھی روایت معتبر ان کی رہی
یوں محدث منفرد سرکار ہیں میرے حسین

تربیت دی ہے انھیں شہزادیء سرکار نے
امتحاں کے واسطے تیار ہیں میرے حسین

کی تھی ہجرت طیبہ سے کوفے کی جانب شاہ نے
سنت ہجرت سے بھی ضوبار ہیں میرے حسین

کردیا مسمار شر کو جب یزیدی سر اٹھا
سب ہیں شاہد ، ماحیء اشرار ہیں میرے حسین

مجھ سے ہیں میرے حسین اور میں بھی ہوں شبیر سے
یہ کہا آقا نے ، یوں ضوبار ہیں میرے حسین

صرف دنیا میں نہیں جنت کے بھی وہ پھول ہیں
خوشبوؤں کے گنبد و مینار ہیں میرے حسین

باقر و موسی’ و جعفر آپ کے شہزادے ہیں
کیوں نہ کہہ دوں مخزن انوار ہیں میرے حسین

سب صحابہ کے دلوں میں آپ کی الفت رہی
آپ کے مداح چاروں یار ہیں ، میرے حسین

دیکھ کر منظر تمھارے چہرہء پرنور کا
تم پہ قرباں پھول کے رخسار ہیں میرے حسین

اس میں آئےگا یزیدی خار کیسے بولیے
زیست کے گلزار کے سردار ہیں میرے حسین

حکم آقا نے دیا جس کی حفاظت کے لئے
شرع کے سر کی وہی دستار ہیں میرے حسین

خواب کے عالم میں بھی کوئ نہ چھیڑے شرع کو
واسطے دیں کے سدا بیدار ہیں میرے حسین

تھے مشابہ سرور پرنور کے وہ ، ہے حدیث
اس لیے اے” عینی” خوشبو دار ہیں میرے حسین
۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتہ مارہرہ مطہرہ میں “جشن یوم آزادی” تزک واحتشام کےساتھ منایا گیا”” محمدہاشم رضابرکاتی متعلم درجۂ فضیلت: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)


غیر منقسم ہندوستان کی عظیم وقدیم ترین خانقاہ”خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتہ مارہرہ شریف” کے تحت چلنے والے ادارہ “جامعہ احسن البرکات” کے وسیع و عریض گراونڈ میں یوم آزادی کی مناسبت سے ایک ثقافتی پروگرام منعقد کیا گیا،جس میں جامعہ کے سرپرست حضور رفیق ملت (ابا حضور) سید شاہ نجیب حیدر نوری برکاتی مد ظلہ النورانی ورعاہ اور جامعہ کے تمام اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی-صاحب سجادہ(جنہیں ہم تمام طلبہ اور اساتذۂ جامعہ پیار کی بولی میں ابا حضور کہتے ہیں) نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پرچم کشائی فرمائی، اور جامعہ کے دو شاہین صفت طلبہ (محمد برکت علی برکاتی راجستھانی درجہ سادسہ اور محمد اکرم علی برکاتی گجراتی درجہ اعدادیہ) نے شاعرمشرق علامہ ڈاکٹر اقبال کا لکھا ہوا مشہور زمانہ ترانۂ ہندی “سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا… ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا” اپنی دل نشیں اور اچھوتے انداز میں پیش کیا- اس کے بعد جامعہ کے سرپرست صاحب سجادہ حضور رفیق ملت نے جنگ آزادی کا مطلب سمجھایا اور تحریک آزادی میں علمائے اہلسنت کی قربانیوں پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں ہمارے علما اور ہمارے آباء و اجداد نے بہت ساری قربانیاں دی ہیں ملک ہندوستان ہمارا ہے اور اس ملک میں ہمارے آباء واجداد اور اولیائے کرام کے مزارات ہیں- الحمدللہ ہم بائی چوائز ہندوستانی ہیں اور اخیر میں صاحب سجادہ (ابا حضور) حضور رفیق ملت نے اپنی گفتگو کے دوران مجھ احقر کو نام لے کر پکارا کہ محمد ہاشم برکاتی سلمہ جہاں بھی ہوں آگے آئیں، جیسے ہی ابا حضور کی زبان مبارک سے اپنا نام سنا دل باغ باغ سا ہوگیا اور فوراً آگے آیا پھر ابا حضور نے مائک میں بتایا کہ ہاشم برکاتی نے ابھی حال ہی میں جو مضمون لکھا تھا اسے میں نے حضور امین ملت،حضور شرف ملت، احمد مجتبیٰ صدیقی اور جناب عتیق برکاتی کانپوری اور اس کے علاوہ بڑے بڑے ادیبوں کے پاس بھیجا جن کو آپ جانتے بھی نہیں ہیں سب نے اس مضمون کی خوب خوب تعریف کی،اور شرف ملت نے خصوصی طور پر دادو تحسین سے نوازا اور کہاکہ ماشاءاللہ بہت خوب اللہ تعالٰی میرے بچے کو سلامت رکھے اور حضور امین ملت مد ظلہ النورانی ورعاہ نے دعائیہ وحوصلہ افزا کلمات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں اس وقت مارہرہ شریف میں نہیں ہوں ورنہ میں خود اس بچہ کو انعام و اکرام سے نوازتا. آپ میری طرف سے اس بچہ کو 1100 دے دینا. آپ نے یہ کلمات ارشاد فرماتے ہوئے 1100 گیارہ سو روپیے اپنی جیب سے نکالے اور مجھے عطا فرمایا. اس کے بعد دوبارہ 1100 نکالا اور جامعہ کے پرنسپل استاذگرامی وقار حضرت مولانا عرفان ازہری صاحب قبلہ کو دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ جامعہ کی طرف سے آپ اپنے ہاتھ سے اس بچے کو بطور انعام دے دیجیے. اس کے بعد جب فقیر انعام حاصل کرکے جانے لگا تو آپ نے اپنے پیارے اور مخصوص لہجے میں ارشاد فرمایا کہ بیٹا ابھی کہاں جا رہے ہو؟ تو فقیر وہیں کھڑا ہو گیا بعدہ ابا حضور نے اپنے گلے سے رومال نکالا اور فرمایا کہ یہ مدینہ شریف کا رومال ہے میں اپنی طرف سے یہ رومال عطا کرتا ہوں یہ کہتے ہوئے اپنے مبارک ہاتھوں سے میرے کندھے پر رومال رکھ دیا اور دعائیہ کلمات سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے قلم اور آپ کی زبان(چونکہ ابا حضور کے سامنے کئی مرتبہ تقریر کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا ہے اور آپ میری تقریر کو کافی پسند بھی فرماتے ہیں) دونوں کو تقویت عطا فرمائے، اور اللہ تعالیٰ آپ کی تمام تر پریشانیوں کو دور فرمائے- ابا حضور کے یہ جملے سن کر فقیر کے دل کا گوشہ گوشہ منور ہو گیا اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ آج کے بعد ان شاءاللہ کبھی بھی فقیر کو کم از کم کوئی بڑی پریشانی لاحق نہیں ہوگی- پھر ابا حضور نے نصیحت فرماتے ہوئے کہا کہ شاگرد چاہے جتنا بھی قابل ہو جائے اپنے استاذ کے سامنے ہمیشہ چھوٹا سا چوزہ ہی رہتا ہے (چونکہ میری اس تمام کامیابی کے پیچھے خصوصی طور پر ہمارے مشفق و مہربان استاد حضرت علامہ مفتی شاداب امجدی صاحب کا بہت بڑا ہاتھ ہے) اس کے بعد ابا حضور نے مفتی صاحب قبلہ کو بھی انعام و اکرام سے نوازا اور مفتی صاحب قبلہ کو بھی مدینہ منورہ کا مصلی عطا فرمایا. اور ارشاد فرمایا کہ آپ اس مصلی پر نماز پڑھ کر اپنے شاگردوں کے لئے دعا فرمایا کریں. اسکے بعد جامعہ کے کانفرنس ہال میں بیت بازی کا مقابلہ ہوا اس میں اول پوزیشن جماعت اعدادیہ نے حاصل کی اور دوم پوزیشن جماعت خامسہ نے حاصل کی. اول اور دوم پوزیشن حاصل کرنے والی ٹیموں کو بھی جامعہ کی طرف سے گراں قدر انعام و اکرام سے نوازا گیا-
صلوٰة و سلام اور دعا پر پروگرام تکمیل کو پہنچا-

محمدہاشم رضابرکاتی متعلم درجۂ فضیلت: جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف،ایٹہ (یوپی)

مدحتِ مصطفی درود شریف، ازقلم زاہد رضا فانی بدایونی

مکمل کلام براۓ بزم کعب بن مالک رضی اللہ عنہ

بندگئ خدا درود شریف
مدحتِ مصطفی درود شریف

سنتِ کبریا درود شریف
مصطفی کی رضا درود شریف

نسخۂ کیمیا درود شریف
“دافعِ ہر بلا درود شریف

ہوگی مقبولِ بارگاہِ رب
پڑھئے قبلِ دعا درود شریف

کام بن جائیں گے سبھی بگڑے
کیجیے مشغلہ درود شریف

اے شہنشاہِ انبیاء و رسل
تم پہ بے انتہا درود شریف

قبر میں خود حضور سنتے ہیں
صدق دل سے پڑھا درود شریف

شیس کو تھی نصیحتِ آدم
بیٹے پڑھنا سدا درود شریف

بخشوا کر خدا سے روزِ حساب
خلد پہنچاۓ گا درود شریف

بالیقیں ہے ہر اک وظیفے کا
قائد و پیشوا درود شریف

تیرگیِ “” لحد “”‘ مٹاۓ گا
نور پھیلاۓ گا درود شریف

بھیجتا ہے ملائکہ کے ساتھ
مصطفی پر خدا درود شریف

ہم نے پایا براۓ کل امراض
نسخۂ کیمیا درود شریف

غم نہیں گردشِ زمانہ کا
ہے مرا ہم نوا درود شریف

خواب میں دیدِ مصطفی ہوگی
پڑھ کے سوئیں سدا درود شریف

پڑھنا ہر دن بنائیے عادت
ایک دو مرتبہ درود شریف

نام سن کر حضور کا فانی
اپنے لب پر سجا درود شریف

تراوشِ قلم ۔ زاہد رضا فانی بناور ضلع بدایوں شریف یوپی الہند

جنگ آزادی کے عظیم ہیرو علامہ فضل حق خیر آبادی،، ۔۔۔۔۔۔پیشکش۔۔۔۔تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین خادم ۔۔ سنی حنفی دارلافتاء زیر اہتمام تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال7030786828


فلسفہ اور منطق کے امام ،عربی اور فارسی کے جید عالم، بلند مرتبت شاعر و ادیب اور آزادی کے سرخیل مولانا فضل حق خیر آبادی کی عظیم شخصیت سے کون واقف نہیں ہوگا۔ ان کا تعلق خیر آباد ضلع سیتا پور کے گہوارہ علم وادب کے خاندان سے تھا۔ جن کا نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے ہندوستانی صوفی و مفتی مجاہد اعظم جنگ آزادی ہند علامہ فضل حق شہید بن مولانا فضل امام خیر آبادی مسلم رہنمائے جنگ علمائے اہل سنت میں سے تھے۔ فضل حق خیر آبادی 1857ء کی جنگ آزادی کے روح رواں تھے۔ وہ ایک فلسفی، ایک شاعر، ایک مذہبی عالم تھے، لیکن ان کے شہرت کی بنیادی وجہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں انگریز قبضہ آوروں کے خلاف جہاد کا فتوٰی بنا۔
ولادتِ باسعادت ۔۔ علامہ فضل حق 1797ء کو خیرآباد کے علاقے میں پیدا ہوئے، اعلیٰ تعلیم حاصل کی ،منطق وفلسفہ کی دنیا میں اتھاریٹی تسلیم کیے گئے،تصانیف چھوڑ یں ،بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہندوستان کو انگریزوں کے آزاد کرانے کی جان توڑ محنت کی، عشق ومحبت رسول پر کتابیں لکھیں ،قوانین سازی کی۔ علامہ فضل حق خیرآبادی بہت بڑے سیاست داں مفکر اور مد بربھی تھے۔ بہادری اور شجاعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ غدر کے بعد نہ جانے کتنے سور ما ایسے تھے جو گوشہ عافیت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے ، لیکن مولانافضل حق خیر آبادی ان لوگوں میں تھے جو اپنے کیے پر نادم اور پشیماں نہیں تھے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر اس میدان میں قدم رکھا تھا اوراپنے اقدام عمل کے نتائج بھگتنے کے لیے وہ حوصلہ مندی اور دلیری کے ساتھ تیار تھے۔ سراسیمگی، دہشت اور خوف جیسی چیزوں سے مولا نا بالکل ناواقف تھے۔،
تحریک آزادی کو فتویٰ “جہاد” سے ملا نیا رخ
مئی ۱۸۵۷ء میں میرٹھ اور دوسری چھاؤنیوں میں کارتوسوں کا معاملہ زور پکڑ چکا تھا ۔ گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے مسلم اور ہندوفوجی بگڑ بیٹھے تھے۔علامہ عبدالشاہد شیروانی لکھتے ہیں:علامہ سے جنرل بخت خاں ملنے پہنچے۔مشورہ کے بعد علامہ نے آخری تیر ترکش سے نکالا۔بعد نماز جمعہ جامع مسجد (دہلی)میں علما کے سامنے تقریر کی۔استفتا پیش کیا ۔مفتی صدرالدین آزردہ،مولوی عبدالقادر،قاضی فیض اللہ دہلوی، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبرآبادی اور سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کیے۔اس فتوی کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔دہلی میں نوے ہزار فوج جمع ہوگئی تھی
فتویٰ “جہاد” مسلمانوں کے لئے کیسی حیثیت رکھتا ہے یہ انگریزوں کو علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کے فتوی جہاد دینے کے بعد محسوس ہوا- دہلی سے علمائے کرام کی جانب سے جاری اس فتوے کے بعد مسلمان جوق در جوق اپنی جانوں کی پروا کئے ہوے بغیر نکل پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان بھر میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی ایک عظیم لہر دوڑگئی اور گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، بستی بستی، شہر شہر وہ لڑائی جھگڑا ہوا کہ انگریزحکومت کی چولہیں ہل گئیں۔ مگر انگریزوں نے کچھ کو ڈرا دھمکا کر اور کچھ کو حکومتی لالچ دیکر اس تحریک آزادی کو کچل دیا-آزادی کی اس تحریک کوکُچل تودیا گیا مگر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے آزادی کا جو سنگ بنیادرکھا تھا تقریبا نوے سال بعد اس پر ہندوستانی جیالوں نے آخری اینٹ رکھ کر تعمیر مکمل کردی.الغرض تاریخی حیثیت سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ علامہ فضلِ حق خیرآبادی انگریزوں کے حامی و مددگار نہ تھے بلکہ ان کے حامیوں اور مددگاروں کو مرتد و بے دین سمجھتے تھے۔ وہ علم و فضل کے بحرِ بےکنار تھے۔انہوں نے اپنی زندگی کا حق ادا کر دیا۔ سنتِ حسین پر عمل پیرا ہوکر اپنی جان قربان کردی لیکن باطل کے سامنے اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہوئے۔
وصال: جزیرہ انڈمان کی جیل میں ایک سال دس ماہ تیرہ دن اسیری میں رہ کر 12/صفرالمظفر 1278ھ، مطابق 20/ اگست 1861ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آج بھی آپ کی قبر “آزادی” کی آذانیں سنا رہی ہے۔

یوم آزادی اور ہماری ذمہ داری،، از:محمدشمیم احمدنوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

ہمارا ملک “ہندوستان” بیش بہا قربانیوں اور ہندوستانیوں کے آپسی اتفاق و اتحاد اور طویل جدوجہد کے بعد 15 اگست 1947 ء کو آزاد ہوا تھا، اس اعتبار سے 15 اگست تاریخ ہند کا ایک انتہائی سنہرا باب ہے، باشندگان ومحبان وطن آج سے 74 سال قبل ہندوستان کو انگریزوں کے قبضہ سے آزاد کروانے میں کامیاب ہوئے تھے، اور 15 اگست 1947 ء کو ہندوستان کے تمام شہریوں کو انگریزوں کی غلامی سےنجات ملی ‘اس لیے 15 اگست ہمارا قومی دن ہے-
یقینا ملک کی آزادی ملک کے ہر شہری کے لئے قابل فخر اور باعث صد افتخار ہے، آزادی کے تعلق سے اپنے والہانہ جذبات کا اظہار اور مجاہدین آزادی کی سرفروشانہ جد وجہد اور ان کی قربانیوں کو یاد رکھنا حب الوطنی اور وطن دوستی کا تقاضا ہے- آزادی کی جدوجہد میں جس طرح مذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر ملک کے سبھی انصاف پسند اور محب وطن شہریوں نے اپنی متحدہ قوت اور جوش و جذبات کی اجتماعیت کا مظاہرہ کیا وہ ملک کا ایک قیمتی سرمایہ ہے اور اس اجتماعیت و یکتائیت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جس طرح مٹھی بھر شر پسند و ملک دشمن عناصر نے انگریزوں کی وفاداری اور چاپلوسی کی مگر وہ مجاہدین آزادی کے آہنی عزم و استقلال کے سامنے ناکام و نامراد رہے آج بھی اسی طرح فرقہ پرست و شر پسند عناصر کو اسی متحدہ قوت اور عزم و استقلال سے ناکام و نامراد بنایا جا سکتا ہے اور ملک کو ٹوٹنے اور برباد ہونے سے بچایا جاسکتا ہے-
ہمارے وطن عزیز میں ہر سال جیسے ہی یوم آزادی کا سورج طلوع ہوتا ہے ہر چہار جانب خوشیوں کے شادیانے بجنے لگتے ہیں اور ہندوستان کا قومی پرچم “ترنگا” آن بان اور شان سے لہرایاجاتا ہے، سرفروشان حریت کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ مجاہدین آزادی کو سلامی دی جاتی ہے، ملک و ملت کے لیے اپنی جان کو نچھاور کرنے والے جیالوں کو یاد کیا جاتا ہے- اور یہ سب کچھ ہونا بھی چاہییے کیونکہ انہیں عظیم سپوتوں کی وجہ سے سامراجیوں وفرنگیوں کا غرور خاک میں ملا، طاغوتی قوتوں کے پرخچے اڑے، تمام تر سکوت و سطوت کی ہوا نکل گئی، ظلم و عدوان کی منہ زور آندھی کا منہ پھر گیا، غلامی کے طوق و سلاسل پرزہ پرزہ ہوگئے، اور ہمارا عظیم ملک ہندوستان آزاد فضا میں سانس لینے لگا- مگر یہ سب کچھ یکبارگی نہیں ہوگیا بلکہ اس کے لیے ہندوستان کے تمام مذاہب کے ماننے والوں نے ایک ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی، ہمارے جاں بازوں نے اپنے پیارے ملک کی آزادی کی خاطر اپنی زندگیوں کو تج دیا، جان و مال بھینٹ چڑھائے، تختۂ دار پر چڑھے، اور پھانسی کےپھندوں کو بخوشی گلے لگایا اور انگریزوں کے خلاف باقاعدہ منظم تحریک چلائی تب کہیں جاکر آزاد ہندوستان کا یہ حسین شیش محل اپنے تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ نکھر کر سامنے آیا- اس تحریک میں ہندو مسلم سکھ وجملہ برادران وطن بالخصوص علمائے کرام سب نے مل کر حصہ لیا اور ہندوستان کو انگریزوں کے دور اقتدار سے آزاد کرایا-
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ 15 اگست جسے ہم یوم آزادی کہتے ہیں یہ ہم سبھی برادران وطن کے لیے انتہائی فرحت وشادمانی کا دن ہے اور اب تو الحمد للہ سبھی باشندگان ہند یہاں تک کہ نئی نسل چاہے وہ مسلمان ہوں یا برادران وطن سبھی یہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ۲۶/جنوری اور ۱۵/اگست ہماری قومی تاریخ میں مسرت کے دنوں میں سے انتہائی عظیم اور یادگار دن ہیں، اس میں شک نہیں کہ واقعی یہ دن فرحت و شادمانی کے دن ہیں، لیکن ان خوشی کے دنوں میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم “یوم آزادی” محض رسماً نہیں بلکہ جوش وخروش سے منائیں اور ایسی تقاریب میں سبھی برداران وطن کے سامنے آزادی کی مستندتاریخ پیش کریں، اپنے اکابر و اسلاف کی قربانیوں کی تاریخ پڑھیں، ان کی حیات و خدمات کا جائزہ لیں، ان کی صفات و خصوصیات اپنے اندر جذب کرکے ان کے نقش قدم پر چلنے کا حوصلہ پیدا کریں اور برادران وطن کو علماء اور مسلمان مجاہدین آزادی کی وطن پرستی،اور وطن کے لیے جذبۂ صادق اور تڑپ سے روشناس کرائیں، انھیں بتائیں کہ اگر آزادی وطن کی تاریخ سے علماء کرام کی خدمات کو نکال دیا جائے تو تاریخ آزادی کی روح ختم ہوجائے گی-