تقویٰ و خوف ِالٰہی کی خوبی انسان کو اللہ رب العزت کے بہت زیادہ قریب کر دیتی ہےجیسا کہ سورۂ آل عمران میں اللہ رب العزت فرماتا ہے اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ سے ڈروجیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان ،اور سورۂ نسا ء میں فرمایا :کہ ہم تم میں سے پہلےاہل کتاب کو بھی اور تمہں بھی یہی تاکید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو ،ایک اور مقام پر فرمایا:اگر تم اللہ سے ڈروگے تو وہ تمہیں حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی بصیرت عطا فرما دے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا فضل والا ہے،(مفہوم قرآن)۔
ان کے علاوہ اللہ رب العزت نے اور بھی بہت سی آیتوں کے ذریعہ اپنے بندوں کو خوف ِالٰہی و خشیت ِربانی اپنے دلوں میں پیدا کرنے کا تاکیدی حکم فرمایا ہے۔
ہماری عبادتوں میں اگر خشیت الٰہی و خوف خداوندی شامل رہے تو ہم ہر برائی سے دور کر دیئے جاتے ہیں جیسا کہ سورۂ انفال میں ہے کہ “اگر تم اللہ سے ڈروگے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک خاص امتیاز عطا فرمائے گا اور تمہارے گناہ تم سے دور کردےگا اور تمہاری مغفرت فرمائےگا“ ایک اور مقام پر ارشاد خداوندی ہے” مومن تو وہی ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل اس کی عظمت و جلالت اور خشیت سے کانپ اٹھتے ہیں” (مفہوم قرآن )۔
سورۂ آل عمران میں ایک جگہ ارشاد ہے ” یہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تم ان سے نہ ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو تو تم صرف مجھ سے ڈرو “حاصل کلام یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات اور نبوی ہدایات میں متعدد مقامات پر خوف خدا وندی اور خشیت ربانی کی فضیلت و اہمیت کا مضمون ملتا ہے،قرآن کی چند آیتوں کے ترجمہ و مفہوم سے آپ نے خوف خدا وندی کی عظمت و اہمیت کو سمجھ لیا ہوگا آئیے حضور نبی کریم ﷺ کے فرامین و ارشادات کی روشنی میں یہ دیکھیں کہ ہمارے اور آپ کے لئے خوف خدا وندی کس قدر ضروری ہے اور اس کے کیا کیا فائدے ہیں۔
بلا شبہ خوف خدا وہ نیک اور مقبول عمل ہے کہ جس دل میں پیدا ہوجاتا ہے وہ دل نیکی اور تقویٰ کا مرکز بن جاتا ہے اور وہ شخص ہر قسم کے گناہ و برائی سے دور اور محفوظ نظر آنے لگتا ہے، اور یہ خوف خداوندی ہی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جسم کے تمام اعضاء یعنی آنکھ ،کان ،زبان،ہاتھ ،پیر اور دل و دماغ سب کے سب نیک اور اچھے کاموں میں مشغول نظر آتے ہیں،یہ خوف خدا کے برکات و حسنات ہوتے ہیں کہ آنکھ برائی نہیں خوبی اور بھلائی دیکھتی ہے ،دل و دماغ برا اور خراب نہیں بلکہ بھلا اور اچھا سوچتے دیکھائی دیتے ہیں ،ہاتھ اور پیر گناہ و ظلم کے راستے پر چلنے کے بجائے نیک اور حق و سچ کے راستے پر چلتے نظر آتے ہیں،حاصل کلام یہ ہے کہ جب آدمی اپنے دل میں خوف خدا پیدا کرلیتا ہے اور اللہ سے ڈرنے لگتا ہے تو ہر قسم کے گناہ اور برائی سے محفوظ ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب و مقبول بن جاتا ہے، اور خوف خدا کا انعام و اکرام بڑا عظیم ہوتا ہے، ہر نیک کام کا بڑا بہتر اجر اور بدلہ ہے دنیا میں خیرو برکت، آخرت میں عزت و عظمت اور نجات و بخشش اور پھر جنت کی نعمت حاصل ہوتی ہے آئیئے اس سلسلے میں کچھ حدیثیں ملاحظہ کریں-
حدیث شریف: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جو شخص اللہ کے خوف سے روئے وہ دوزخ میں نہیں جائے گا یہاں تک کہ تھنوں میں دودھ واپس نہ چلاجائے (ترمذی ص /292،نسائی ج/2ص54)۔
حدیث شریف : نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب کسی بندے کا دل خوف الٰہی سے کانپتا ہے تو اس کے گنا ہ اس سے ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں (احیاء العلوم ج/4 ص142 ،الترغیب و التر ہیب ج/4ص117)۔
حدیث شریف :حضرت عبد اللہ بن ابو بکر بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ فرمائے گا دوزخ سے ہر ایسے شخص کو نکال لو جس نے ایک دن بھی میرا ذکر کیا تھا یا کسی مقام پر مجھ سے ڈرا تھا(الزہد : 2146)۔
رونے والی آنکھ آگ سے محفوظ ہے:
حدیث شریف : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے آقائے کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی (1)وہ آنکھ جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے روئی (2) وہ آنکھ جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہرہ داری کرکے رات گزاری (ترمذی ج4ص/92)۔
حدیث شریف :حضرت ابو عمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شاہ طیبہ مصطفیٰ کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ کو دو قطروں اور دو نشانوں سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے خوف سے بہنے والے آنسو کا قطرہ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خون کا قطرہ-
حدیث شریف : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ محبوب خدا ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہےکہ مجھے اپنی عزت کی قسم میں اپنے بندوں پر دو خوف اور دو عمل اکٹھے نہیں کروں گا،یعنی اگر وہ مجھ سے دنیا میں خوف رکھے گا تو میں اس کو قیامت کے دن امن میں رکھوں گا اور اگر مجھ سے دنیا میں بے خوف رہا تو میں اس کو قیامت کے دن خوف میں مبتلا کروں گا-
خوف خدا سے رونے والے پر دوزخ کی آگ حرام ہے:
قارئین کرام: بروز قیامت ایک شخص کو لایا جائے گا جب اس کے اعمال تولے جائیں گے تو برائیوں کا پلڑا بھاری ہوجائے گا چنانچہ اسے جہنم میں ڈالنےکا حکم ملے گا اس وقت اس کی پلکوں کا ایک بال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرے گا:کہ اے رب العزت !تیرے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا تھا:جو شخص اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ کو حرام کردیتا ہے ،اور میں تیرے خوف سے رویا تھا ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا:اس شخص کو ایک اشکبار بال کے بدلے جہنم سے بچالیا جائے،اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام پکاریں گے: فلاں بن فلاں ایک بال کے بدلے نجات پا گیا- (مکاشفۃ القلوب اردو ص /47)۔
حدیث شریف :مصطفیٰ جان رحمت ﷺ نے فرمایا:کوئی ایسا بندۂ مومن نہیں جس کی آنکھوں سے خوف خدا سے مکھی کے پر کے برابر آنسو بہے تو اس شخص کوکبھی جہنم کی آگ چھوئے- (کنز العمال ج 3ص142،طبرانی کبیر ج/10ص/17،ابن ماجہ ج/2ص/309)۔
اوپر ذکر کی گئی حدیثوں سے اس بات کا آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ایمان کے بعد انسان کی زندگی سنوارنے اور اسے فلاح و کامیابی کی طرف لے جانے میں جو چیز سب سے زیادہ کار گر ہے وہ اللہ تعالیٰ کا خوف، اس کی خشیت، تقویٰ اور آخرت کی فکر ہے،-
خوف خدا وندی اور آخرت کی فکر یہ دونوں ایسی چیزیں ہیں جن کے بغیر نہ تو باقاعدہ ہمارے اعمال بہتر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں اپنی اصل حیثیت اور دنیا میں آنے کے اصل مقصد کا پتہ لگ سکتا ہے، یہ دونوں ایسے اوصاف ہیں کہ انہیں کی وجہ سے انسان کے دل میں بھلائی کے کاموں کے کرنے کا جزبہ اور برائیوں سے رُکنے کا شعور بیدار ہوتا ہے، جب کہ اگر خوف خدا وندی نہ ہو تو انسان بے لگام ہو جا تا ہے-
لہٰذا ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ ہم اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کریں اور شریعت اسلامیہ نے ہمیں جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے ان پر عمل کریں اور جن کاموں سے روکا گیا ہے ان سے رک جائیں-