WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives January 2023

کیا گھر میں بچے کی پیدائش کی وجہ سے گھر ناپاک ہو جاتا ہے؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں
کے گاؤں میں کئی جگہ یہ رواج ہے کہ اگر کسی عورت کو بچا ہو تو وہ جس کمرے میں ہو اس جگہ کو اس کمرے کو ناپاک مانا جاتا ہے اور اس عورت یا بچّے کو چھونا بھی ناپاک مانتے ہیں تو

کیا حکم ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔المستفتی۔حافظ۔محمد وسیم ۔جھاڑکھنڈ۔☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔یہ سب جھالت ہے غیر مسلم کی رسمیں ہیں۔جیساکہ بہارے شریعت حصہ دوم ص ٧٩ پر ہے کہ نفاس میں عورت کو زچہ خانے سے نکلنا جاٸز اسکو ساتھ کھلانے یا اس کا جھوٹا کھانے میں حرج نہیں ۔ہندوستان میں عورتیں جو بعض جگہ ان کے برتن تک الگ کردیتی ہیں بلکہ ان برتنوں کو مثل نجس جانتی ہیں یہ ہندوں کی رسمیں ہیں ایسی بے ہودہ رسموں سے احتیات لازم ۔اھ۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ۔احمدرضا قادری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر۔بہراٸچ شریف۔٢٧\١\١٩۔

Naat in English………By: Sayed khadime Rasul Aini

You are the first creation,you are the last prophet,
For you the world is set you are the last prophet.

Your travelling to non-abode was definitely
Faster than light and jet ,you are the last prophet.

For benefit of ummah you used to cry and cry lot,
Your sacred eyes were wet,you are the last prophet.

You are so praiseworthy,in your glorification
Are full the paper and net,you are the last prophet.

All proves and evidence of your finality
In the Quran we get you are the last prophet.

You are unique my master,nobody is your rival,
Allah only you met,you are the last prophet.

You are the mercy for all ,you are the benevolent,
You did not let Aini fret,you are the last prophet
……
By: Sayed khadime Rasul Aini

بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا: احادیث کی روشنی میں.. ازقلم: سید نور اللہ شاہ بخاری (مہتمم و شیخ الحدیث) دار العلوم انوار مصطفیٰ (سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ) سہلاؤ شریف ، باڑمیر (راجستھان)

نیک اعمال کی لوگوں کو ترغیب دینا اور برائیوں سے منع کرنا، جس کو شرعی اصطلاح میں ”امر بالمعروف اورنہی عن المنکر“ کہا جاتاہے۔یہ دینِ اسلام کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی اور بنیادی اصولوں میں سے ایک ایسا اہم اصول ہے ،کہ جس پر اگر کوئی شخص عمل کرتاہے تو گویا وہ ایک ایسا عمل کر رہا ہے، جو انبیاے کرام کے دنیا میں آنے کا سبب ہے
اور جس کا دوسرا نام تبلیغ ہے، لفظِ تبلیغ کی معنیٰ ’پہنچانا‘ ہے، جس سے مراد نیکی کی دعوت لوگوں تک پہنچانا اور ایسے تمام کاموں سے منع کرنا کہ جس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ ناراض ہوتے ہوں، (یہ مسلمانوں کے لیے ہے اور غیر مسلموں کے لیے پہلے صرف اسلام کی دعوت) لفظ تبلیغ کے معنیٰ میں ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“ سے وسعت ہے۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر جملہ انبیائے کرام کی سنت ہے، اور ہمارے آقا و مولیٰ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی تو پیاری سنت ہے، جس پرصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا عمل کرکے دکھایا جس کی دنیا مثال نہیں پیش کر سکتی-
امربا لمعروف اور نہی عن المنکر اس امتِ مرحومہ کا طرۂ امتیاز ہے، جس کا ذکر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے کلام شریف میں کچھ اس طرح فرمایا: (ترجمہ از کنزالایمان ) تم بہتر ہو اُن سب امتوں میں، جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں، بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو (آل عمران آیت : ۱۱۰ )۔
قرآن شریف میں اور بھی کئی جگہ امربالمعروف و نہی عن المنکر کا ذکر آیا ہے مگر ہم یہاں طوالت سے بچتے ہوئے صرف اسی ایک آیت کریمہ پر اکتفا کرتے ہیں، چوں کہ ہماراعنوان”امربالمعروف اور نہی عن المنکر احادیث کی روشنی میں” ہے
لہذا ان تمہیدی سطور کے بعد ہم نفسِ مضمون کی طرف آتے ہیں- یعنی احادیث نبویہ علیٰ صاحبھا علیہ الصلوٰۃ و السلام کی روشنی میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت-

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کرنے پر قائم ہو اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے، ان کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ لوگ بحری جہاز میں سوار ہوئے اور انہوں نے اس میں رہائش کے لیے قرعہ اندازی کی تو بعض لوگوں کے لیے اوپر کے حصے میں رہائش کے لیے قرعہ نکلا ،اور بعض لوگوں کے لیے نیچے کے حصے میں رہائش کا قرعہ نکلا،سو جولوگ نچلے حصے میں تھے ، وہ پانی لینے کے لیے اوپر کے حصے میں جاتے تو انہوں نے کہا: اگر ہم اپنے رہائشی حصے میں سوراخ کردیں اور سمندر سے پانی لے لیں اور اپنے اوپر والوں کو تنگ نہ کریں(توبہتر ہے)، پس اگر ان لوگوں کو ان کے ارادہ کے ساتھ چھوڑ دیا جائے (تاکہ وہ جہاز کے پیندے میں سوراخ کر دیں) تو سب لوگ ہلاک ہو جائیں گے اور اگر ان کے ہاتھوں کو پکڑ لیا گیا تو وہ بھی نجات پا جائیں گے اور باقی لوگ بھی نجات پا جائیں گے“۔ (بخاری شریف:۲۴۹۳)۔
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو سمجھنے کے لیے ، اس سے اچھی کوئی مثال ہو ہی نہیں سکتی، جس کو اللہ کے رسول ﷺ خود سمجھانے کے لیے ارشاد فرمائیں۔
اگر جہاز میں سوراخ کرنے والوں کو اوپری منزل والوں نے نہ روکا، اور وہ یہ کہہ کر پلہ جھاڑتے رہے : ہمارا کیا نقصان ،ہم کیوں روکیں؟ جو کرے گا وہ بھرے گا۔ تو لازماً جہاز میں سوراخ کرنے والے سُوراخ کردیں گے،اور جہاز کے اندر پانی آجائے گا، پھر اس جہاز کو اور جہاز کے تمام مسافروں کو سمندر میں غرق ہونے سے اللہ کی قدرت کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا۔
برائی کرنے والے بھلے گنتی کے چند افراد ہی کیوں نہ ہوں، مگر برائی کے اثرات پوری قوم اور معاشرے کو جھیلنا پڑتے ہیں۔
اللہ کےحبیب صاحبِ لولاک ﷺ کا فرمان حکمتوں کا خزانہ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے جتنا عشق رسول میں ڈوب کر غور کرتے جائیں گے اُتنے ہی راز کھلتے جائیں گے۔
معاشرے میں برائیاں اکثر نچلے طبق والوں سے ہی ہوتی ہیں، جیسا کہ آقا ﷺ کی مثال سے واضح ہے: کہ جہاز کے مسافروں میں نچلے حصے والے پانی کی ضرورت کے تحت جہاز میں سوراخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اب اوپر والے ان کی ضرورت پوری کرکے ان کا ہاتھ روک لیں تو سبھی لوگ بچ سکتے ہیں۔
اوپر کے طبق والوں سے مراد جولوگ اقتدار میں ہوتے ہیں یا جن کے اختیار میں کچھ ہوتا ہے، ان کی باتوں کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوتا ہے اور وہ جس طرح بھی چاہیں برے لوگوں کا ہاتھ برائی سے روک سکتے ہیں، اور اس طرح پورا معاشرہ برائی کی شامت سے بچ سکتاہے ۔‬
ہمارے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ اوپری طبق والے (حکام، امرا ، اہل ثروت) کوثر و سلسبیل سے دُھلے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر بڑے لوگ امر بالمعروف ونہی عن المنکر پر عمل کریں تو خود بھی برائیوں سے بچ سکتے ہیں اور اپنے ماتحتوں کو بھی برائیوں سے بچا سکتے ہیں۔
اور یہ بھی نہیں :کہ اچھائی کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنا صرف امیروں پر ہی ہے،غریب اور ضعیف لوگوں پر نہیں ہے، بلکہ کمزور اور ضعیف لوگ اگر امیروں، وزیروں، اور حکام کو نیکی کی دعوت دیتے ہیں تو ان کےلیے اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادِ دل شادہے:-
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : ”جابر حاکم کے سامنے کلمۂ حق کہنا بہترین جہاد ہے“ (ترمذی) نیز حضرت ابوعبداللہ طارق بن شہاب بجلی احمسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا اس وقت اس کا پاؤں رکاب میں تھا (یا رسول اللہ) کون ساجہاد افضل ہے؟ تو حضور نبی رحمت ﷺ نے فرمایا : ”جابر حاکم کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا“۔(نسائی)۔

حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عید کے دن نماز سے پہلے جس شخص نے سب سے پہلے خطبہ دینا شروع کیا وہ مروان تھا، ایک شخص نے مروان کو ٹوکا اور کہا کہ نماز، خطبہ سے پہلے ہوتی ہے، مروان نے جواب دیا کہ وہ دستور اب متروک ہوچکا ہے-

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا اس شخص پر شریعت کا جو حق تھا وہ اس نے ادا کردیا، میں نے خود رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد سنا ہے کہ ”تم میں جو شخص خلاف شریعت کام دیکھے تو اپنے ہاتھوں سے اس کی اصلاح کرے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کا رد کرے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو براجانےاوریہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے“۔ (مسلم )۔

حضرت علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر تبیان الفرقان زیر آیت ﴿و لتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر(سورہ آل عمران ۱۰۴)﴾ مذکور ہ بالا حدیث شریف لاکر فرماتے ہیں : میں کہتاہوں
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے تین طبقات کا ذکر فرمایا ہے:(1) امرا اور حکام برائی کو اپنی طاقت سے بدل ڈالیں،کیونکہ وہ صاحبِ اقتدار ہیں تو وہ اپنی قوت اور طاقت سے برائی کو بدل سکتے ہیں (2) دوسرے علما اور خطبا کا فرض ہے کہ وہ اپنے مواعظ اور خطبات میں برائی کا برا ہونا بیان کریں کیونکہ وہ صاحبِ اقتدار تو نہیں ہیں لیکن وہ مسجد کے منبر کے وارث ہیں اور وہاں سے لوگوں کو خطاب کرتے ہیں تو وہ اس کے مکلف ہیں کہ وہ برائی کا برا ہونا اپنی زبان سے بیان کریں ۔
(3) عوام جن کے پاس نہ اقتدار ہے نہ ان کے پاس محراب و منبر ہے جہاں پر وہ خطبہ دیں تو وہ صرف اس کے مکلف ہیں کہ وہ برائی کو دل سے برا جانیں (تفسیر تبیان الفرقان ج ۱، ص۷۳۵)۔

حضرت ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشادِ باری تعالیٰ:﴿تم پر اپنی جانوں کو بچانا لازم ہے، گمراہ ہونے والا تمہیں کوئی نقصان نہیں دے گا جب کہ تم ہدایت پر ہو﴾ کے متعلق فرمایا: خدا کی قسم میں نے اِس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو فرمایا: ”تم نیکی کا حکم کرتے رہو، اور بُرے کاموں سے روکتے رہو ،یہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ بخل کی تابعداری کی جارہی ہے، خواہشات کی پیروی ہورہی ہے، دنیا کو ترجیح دی جارہی ہے، ہر ایک اپنی رائے پر نازاں ہو ۔
اور ایسا معاملہ دیکھو کہ چارۂ کار کوئی نہ ہو، تو تم پر خود کو بچانا لازم ہے ،اور عوام کو چھوڑ دو کیوں کہ پیچھے صبر کے دن ہیں ،جس نے ان دنوں میں صبر کیا تو گویا چنگاری پکڑی۔ ان دنوں میں عمل کرنے والے کو پچاس آدمیوں کے برابر ثواب ہے،جو اسی کی طرح عمل کرتے ہوں، عرض کی گئی کہ یارسول اللہ !ﷺ اُن کے پچاس جتنا؟ فرمایا کہ تمہارے پچاس آدمیوں جتنا ثواب“۔

حضرت ثعلبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دریافت کرنے پر آقا ﷺ کا ارشاد فرمانا کہ ”نیکی کی دعوت لوگوں کو دیتے رہو، یہاں تک کہ ایسا ایسا دور آجائے“۔ یہاں جس دور کی طرف نبی کریم ﷺ کا اشارہ ہے
غالباً وہی آج کا دور ہے ۔ جس طرف نگاہ اُٹھا کر دیکھیے برائی ہی برائی نظر آتی ہے۔ فحاشی ، عریانی، بد عملی اور دنیاوی خواہشات کے پیچھےدیوانہ وار دوڑنا، دینی معاملات کو پسِ پشت ڈال دینا اور بے ہودہ پن آج کے فیشن بن چکے ہیں ۔ ایسے دور میں برائیوں سے لوگوں کو ہاتھ اور زبان سے روکنا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہی-
تو پھر حدیث کے تیسرے اور آخری جزو پر عمل کرنا چاہیے (برائی کو دل سے برا جاننا)اور خود کو بچانا لازم ہے،اور صبر کا دامن پکڑے رکھنا، مگر ایسے دور میں صبر کرنا اتنا ہی مشکل ہوگا جتنا کہ کوئی جلتا کوئلا ہاتھ میں پکڑے۔
ایسے حالات میں بھی اگر کوئی امربالمعروف، نہی عن المنکر پر عمل کرتا ہے۔تو اس کے لیے اللہ کے نبی ﷺ بہت بڑی خوش خبری دیتے ہیں ، اور فرماتے ہیں: ”اس کے لیے پچاس آدمیوں کا ثواب ہے جو اسی طرح عمل کرتے ہوں “ پھر عرض کی گئی اُس دور کے پچاس آدمیوں جتنا ثواب؟ فرمایا: تمہارے(صحابۂ کرام کےزمانے) زمانے کے پچاس آدمیوں جتنا ثواب۔

قربان جائیں اُس زمانے ، یعنی صحابۂ کرام کے زمانے پر ،اگر کسی خوش نصیب کو اُس زمانہ کے، ایک سکنڈ کا کروڑواں حصہ، بھی نیکی کرنے کے لیے مل جائے تو وہ اُس کے بعد والے پورے زمانے والوں پر فخر کر سکتاہے۔ یہ ہے دور حاضر کے اِ س وقت میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر پر عمل کرنے کا اجر۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آخری زمانے میں میری اُمت کو اپنے حکمرانوں سے سخت تکلیفیں پہنچیں گی، اُن سے نجات نہیں پائےگا مگر وہ شخص جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اُس پر اپنی زبان، ہاتھ اور دل کے ساتھ جہاد کیا، یہ وہ شخص ہے جو پوری طرح سبقت لے گیا،دوسرا وہ آدمی جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اس کی تصدیق کی، تیسرا وہ آدمی جس نے اللہ کے دین کو پہچانا اور اُس پر خاموش رہا، اگر کسی کو نیکی کرتے دیکھا تو اُس سے محبت کرنے لگا اور اگر کسی کو غلط کام کرتے دیکھا تو اُس سے نا خوش رہا، یہ سب اپنی اندرونی حالت کے باعث نجات پا جائیں گے (بہیقی)۔
آج اگر پوری دنیا میں قوم مسلم کو دیکھا جائے تو کہیں بھی حالات خیر کے نظر نہیں آتے۔ اگر کہیں کسی کے بچے ناحق ذبح کیے جارہے ہیں تو
وہ مسلمان ہے، اگر کسی قوم کی نابالغ بچیوں کی عزتیں لوٹ کر گٹروں میں پھیکا جا رہاہے تو وہ قوم مسلم کی بچیاں ہیں، اگر کسی کی ماؤں بہنوں کی عصمت سے کھیلا جارہاہے تو وہ قوم مسلم ہے، اگر کسی کو جانور کے نام پر مارا جارہاہے تو وہ قوم مسلم کا فرد ہے-
کہنے کا مطلب یہ ہےکہ جہاں کہیں دیکھو اگر کوئی ظلم کی چکی میں پِس رہاہے تو وہ صرف مسلمان ہے۔

اِن تمام حالات کی اگر کوئی وجہ ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ دور حاضر کے مسلمانوں نے اپنے رحمۃ للعالمین آقا ﷺ کے فرامین پر عمل کرنا چھوڑ دیا، قرآن شریف کے درس کو بُھلادیا، اور خصوصاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنا ترک کردیا۔ اگر کوئی کچھ بھی کرے کسی کو کوئی مطلب نہیں، بُرائی چاہے وہ دہشت گردی کی شکل میں ہو، کرنے والا کر کے نکل جاتا ہے بدنام پوری قوم ہوتی ہے۔

اوردوسری طرف اسلام دشمن طاقتیں ایسے برائے نام مسلمانوں کو اپنا ہتھکنڈا بنا کر پوری قوم پر کیچڑ اُچھالنے کی ناپاک کوشش کرتی رہتی ہیں۔ ایسے حالات میں قوم کی اصل رہنمائی صرف علما ومشائخ ، اور اہل دانش لوگ ہی کر سکتے ہیں اور وہ صرف امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہوکر ۔

دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو حسب حیثیت اس عظیم فریضہ کی بجا آوری کی توفیق سعید مرحمت فرمائے ! آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ!۔

اللہ تعالیٰ کی رضاکی خاطر مسلمان حصول جنت کے لیے کیا کرے؟✒از: محمّد شمیم احمد نوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان)

           اللہ تعالیٰ کی رضا اورجنت حاصل ہونے کی سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے”لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ” یعنی اللہ ورسول اور دیگر بنیادی واہم معتقداتِ ضروریہ دینیہ پر صحیح معنوں میں ایمان لائے پھر بقدر ضرورت دین کے احکام معلوم کرنے اورسیکھنے کی فکر کرے-

پھر کوشش کرے کہ اللہ وحدہ لاشریک کےجملہ فرائض اوربندوں کے حقوق اورآداب واخلاق کے بارے میں اسلام کی جو تعلیمات اوراللہ ورسول کی طرف سے جو احکام ہیں ان کی فرماں برداری کرے اورجب کبھی کوتاہی اورنافرمانی ہوجائے تو سچے دل سے اللہ عزوجل سے توبہ واستغفار کرے اورمعافی مانگے۔
اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کی کوشش کرے اوراگر کسی بندے کا قصور ہوجائے اوراس پر کوئی ظلم و زیادتی ہوجائے تو اس سے معافی چاہے یااس کا بدلہ اورمعاوضہ دے کرحساب بیباق کرے-

     اسی طرح کوشش کرے کہ دنیا کی ہرچیز سے زیادہ محبت اللہ عزّوجل کی،اللہ کے رسولﷺ کی اور اس کے دین کی ہو،اورہرحال میں پوری مضبوطی کے ساتھ دین پر قائم رہے-
 اور دین کی دعوت اورخدمت میں ضرور کچھ حصہ لے یہ بہت بڑی سعادت اورانبیاء علیہم السلام کی خاص وراثت ہے اورخاص طورسے اس زمانہ میں اس کا درجہ دوسرے نفلی عبادتوں سے بدرجہازیادہ ہے اور اس کی برکت سے خود اپنا تعلق بھی دین سے اور اللہ ورسول [جلّ جلالہ/صلی اللہ علیہ وسلم] سے بڑھتا ہے۔

رزق حلال کھانے کااہتمام کرے اور حرام سے بچتارہے-

        نوافل میں اگرہوسکے توتہجد کی عادت ڈالنے کی کوشش کرے اس کی برکتیں بے انتہا ہیں تمام گناہوں سے خاص کر کبیرہ گناہوں سے ہمیشہ بچتارہےجیسے:زنا،چوری،جھوٹ، شراب نوشی،معاملات میں بددیانتی وغیرہ۔

     بیوہ،یتیموں، مسکینوں غریبوں ومحتاجوں اور سبھی ضرورت مندوں کاخاص خیال رکھے،اور جہاں تک ہوسکے ان کی مددکرنے کی کوشش کرے-
     روزانہ کچھ ذکر کا بھی معمول مقرر کرلے، اگرفرصت زیادہ نہیں ہوتی ہو،تو کم سے کم اتنا ہی کرے کہ صبح شام سو سو دفعہ یا جتنی دفعہ یومیہ ہوسکے (مگر طاق عدد ہوتو زیادہ بہتر ہے) کلمۂ تمجید

(سُبْحَانَ اللہ وَالْحَمْدُللّٰہ وَلاَالٰہَ اِلاَّاللہ وَاللہُ اَکْبَر)،یاصرف سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ اوراستغفار(أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيَّ الْقَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ،یا صرف أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ)
اوردرود شریف زیادہ سے زیادہ وردِ زبان رکھا کرے-

        کچھ معمول قرآن شریف کی تلاوت کا بھی مقرر کرلے اور پورے ادب اورعظمت کے ساتھ پڑھا کرے، ہرفرض نماز کے بعد اورسوتے وقت تسبیحات فاطمہ(سبحان اللہ ۳۳دفعہ،الحمدللہ ۳۳ دفعہ، اللہ اکبر ۳۴ دفعہ) پڑھاکرے جو لوگ اس سے زیادہ کرنا چاہیں وہ اللہ کے کسی ایسے بندے سے رجوع کرکے مشورہ کرلیں جواس کا اہل ہو-
      اور آخری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ اللہ کے صالح بندوں سے تعلق اورمحبت اوران کی صحبت اس راہ میں اکسیر ہے اگر یہ نصیب ہوجائے تو باقی چیزیں خود بخود پیدا ہوجاتی ہیں۔

اللہ عزّوجل ہم سبھی مسلمانوں کواوامرِ دینیہ پر عمل پیرا ہونے اور منہیات سے پرہیز کی توفیق سعید بخشے-(آمین)

خوف خدا: اللہ کے قرب کا ایک اہم ذریعہ.. ازقلم:مولاناخیرمحمدقادری انواری مدرس:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤ شریف،گرڈیا،ضلع:باڑمیر (راجستھان)

تقویٰ و خوف ِالٰہی کی خوبی انسان کو اللہ رب العزت کے بہت زیادہ قریب کر دیتی ہےجیسا کہ سورۂ آل عمران میں اللہ رب العزت فرماتا ہے اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ سے ڈروجیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان ،اور سورۂ نسا ء میں فرمایا :کہ ہم تم میں سے پہلےاہل کتاب کو بھی اور تمہں بھی یہی تاکید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو ،ایک اور مقام پر فرمایا:اگر تم اللہ سے ڈروگے تو وہ تمہیں حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی بصیرت عطا فرما دے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا فضل والا ہے،(مفہوم قرآن)۔

ان کے علاوہ اللہ رب العزت نے اور بھی بہت سی آیتوں کے ذریعہ اپنے بندوں کو خوف ِالٰہی و خشیت ِربانی اپنے دلوں میں پیدا کرنے کا تاکیدی حکم فرمایا ہے۔

ہماری عبادتوں میں اگر خشیت الٰہی و خوف خداوندی شامل رہے تو ہم ہر برائی سے دور کر دیئے جاتے ہیں جیسا کہ سورۂ انفال میں ہے کہ “اگر تم اللہ سے ڈروگے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک خاص امتیاز عطا فرمائے گا اور تمہارے گناہ تم سے دور کردےگا اور تمہاری مغفرت فرمائےگا“ ایک اور مقام پر ارشاد خداوندی ہے” مومن تو وہی ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل اس کی عظمت و جلالت اور خشیت سے کانپ اٹھتے ہیں” (مفہوم قرآن )۔

سورۂ آل عمران میں ایک جگہ ارشاد ہے ” یہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تم ان سے نہ ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو تو تم صرف مجھ سے ڈرو “حاصل کلام یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات اور نبوی ہدایات میں متعدد مقامات پر خوف خدا وندی اور خشیت ربانی کی فضیلت و اہمیت کا مضمون ملتا ہے،قرآن کی چند آیتوں کے ترجمہ و مفہوم سے آپ نے خوف خدا وندی کی عظمت و اہمیت کو سمجھ لیا ہوگا آئیے حضور نبی کریم ﷺ کے فرامین و ارشادات کی روشنی میں یہ دیکھیں کہ ہمارے اور آپ کے لئے خوف خدا وندی کس قدر ضروری ہے اور اس کے کیا کیا فائدے ہیں۔

بلا شبہ خوف خدا وہ نیک اور مقبول عمل ہے کہ جس دل میں پیدا ہوجاتا ہے وہ دل نیکی اور تقویٰ کا مرکز بن جاتا ہے اور وہ شخص ہر قسم کے گناہ و برائی سے دور اور محفوظ نظر آنے لگتا ہے، اور یہ خوف خداوندی ہی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جسم کے تمام اعضاء یعنی آنکھ ،کان ،زبان،ہاتھ ،پیر اور دل و دماغ سب کے سب نیک اور اچھے کاموں میں مشغول نظر آتے ہیں،یہ خوف خدا کے برکات و حسنات ہوتے ہیں کہ آنکھ برائی نہیں خوبی اور بھلائی دیکھتی ہے ،دل و دماغ برا اور خراب نہیں بلکہ بھلا اور اچھا سوچتے دیکھائی دیتے ہیں ،ہاتھ اور پیر گناہ و ظلم کے راستے پر چلنے کے بجائے نیک اور حق و سچ کے راستے پر چلتے نظر آتے ہیں،حاصل کلام یہ ہے کہ جب آدمی اپنے دل میں خوف خدا پیدا کرلیتا ہے اور اللہ سے ڈرنے لگتا ہے تو ہر قسم کے گناہ اور برائی سے محفوظ ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب و مقبول بن جاتا ہے، اور خوف خدا کا انعام و اکرام بڑا عظیم ہوتا ہے، ہر نیک کام کا بڑا بہتر اجر اور بدلہ ہے دنیا میں خیرو برکت، آخرت میں عزت و عظمت اور نجات و بخشش اور پھر جنت کی نعمت حاصل ہوتی ہے آئیئے اس سلسلے میں کچھ حدیثیں ملاحظہ کریں-

حدیث شریف: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جو شخص اللہ کے خوف سے روئے وہ دوزخ میں نہیں جائے گا یہاں تک کہ تھنوں میں دودھ واپس نہ چلاجائے (ترمذی ص /292،نسائی ج/2ص54)۔

حدیث شریف : نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب کسی بندے کا دل خوف الٰہی سے کانپتا ہے تو اس کے گنا ہ اس سے ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں (احیاء العلوم ج/4 ص142 ،الترغیب و التر ہیب ج/4ص117)۔

حدیث شریف :حضرت عبد اللہ بن ابو بکر بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ فرمائے گا دوزخ سے ہر ایسے شخص کو نکال لو جس نے ایک دن بھی میرا ذکر کیا تھا یا کسی مقام پر مجھ سے ڈرا تھا(الزہد : 2146)۔

رونے والی آنکھ آگ سے محفوظ ہے:

حدیث شریف : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے آقائے کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی (1)وہ آنکھ جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے روئی (2) وہ آنکھ جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہرہ داری کرکے رات گزاری (ترمذی ج4ص/92)۔

حدیث شریف :حضرت ابو عمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شاہ طیبہ مصطفیٰ کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ کو دو قطروں اور دو نشانوں سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے خوف سے بہنے والے آنسو کا قطرہ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خون کا قطرہ-

حدیث شریف : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ محبوب خدا ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہےکہ مجھے اپنی عزت کی قسم میں اپنے بندوں پر دو خوف اور دو عمل اکٹھے نہیں کروں گا،یعنی اگر وہ مجھ سے دنیا میں خوف رکھے گا تو میں اس کو قیامت کے دن امن میں رکھوں گا اور اگر مجھ سے دنیا میں بے خوف رہا تو میں اس کو قیامت کے دن خوف میں مبتلا کروں گا-

خوف خدا سے رونے والے پر دوزخ کی آگ حرام ہے:

قارئین کرام: بروز قیامت ایک شخص کو لایا جائے گا جب اس کے اعمال تولے جائیں گے تو برائیوں کا پلڑا بھاری ہوجائے گا چنانچہ اسے جہنم میں ڈالنےکا حکم ملے گا اس وقت اس کی پلکوں کا ایک بال اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرے گا:کہ اے رب العزت !تیرے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا تھا:جو شخص اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کی آگ کو حرام کردیتا ہے ،اور میں تیرے خوف سے رویا تھا ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا:اس شخص کو ایک اشکبار بال کے بدلے جہنم سے بچالیا جائے،اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام پکاریں گے: فلاں بن فلاں ایک بال کے بدلے نجات پا گیا- (مکاشفۃ القلوب اردو ص /47)۔

حدیث شریف :مصطفیٰ جان رحمت ﷺ نے فرمایا:کوئی ایسا بندۂ مومن نہیں جس کی آنکھوں سے خوف خدا سے مکھی کے پر کے برابر آنسو بہے تو اس شخص کوکبھی جہنم کی آگ چھوئے- (کنز العمال ج 3ص142،طبرانی کبیر ج/10ص/17،ابن ماجہ ج/2ص/309)۔

اوپر ذکر کی گئی حدیثوں سے اس بات کا آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ایمان کے بعد انسان کی زندگی سنوارنے اور اسے فلاح و کامیابی کی طرف لے جانے میں جو چیز سب سے زیادہ کار گر ہے وہ اللہ تعالیٰ کا خوف، اس کی خشیت، تقویٰ اور آخرت کی فکر ہے،-
خوف خدا وندی اور آخرت کی فکر یہ دونوں ایسی چیزیں ہیں جن کے بغیر نہ تو باقاعدہ ہمارے اعمال بہتر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں اپنی اصل حیثیت اور دنیا میں آنے کے اصل مقصد کا پتہ لگ سکتا ہے، یہ دونوں ایسے اوصاف ہیں کہ انہیں کی وجہ سے انسان کے دل میں بھلائی کے کاموں کے کرنے کا جزبہ اور برائیوں سے رُکنے کا شعور بیدار ہوتا ہے، جب کہ اگر خوف خدا وندی نہ ہو تو انسان بے لگام ہو جا تا ہے-

لہٰذا ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ ہم اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کریں اور شریعت اسلامیہ نے ہمیں جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے ان پر عمل کریں اور جن کاموں سے روکا گیا ہے ان سے رک جائیں-

ہم گناہوں سے کیسے بچیں؟از قلم (مولانا) عبد الحلیم قادری انواری خادم:دارالعلوم انوار مصطفیٰسہلاؤ شریف ضلع :باڑمیر (راجستھان)۔

  آج کے اس پُر فتن دور میں جہاں دنیا حیرت انگیز حد تک ترقی کرتی جارہی ہے وہیں ترقی کے اس دور میں انسان اپنی انسانیت کے لحاظ سے انتہائی پستی اور ذلت کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ جا رہا ہے گنا ہوں کے اس دلدل میں سبھی طبقے کے لوگ شامل ہیں مگر افسوس کہ مسلمان دوسرے طبقات کے لوگوں کو ان گناہوں کے کاموں میں پیچھے چھوڑ رہا ہے-
  بڑے تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلمان جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اللہ  اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہے اور قرآن و حدیث کو مانتا ہے حساب و کتاب پر یقین رکھتا ہے سزا و جزا کو تسلیم کرتا ہے پھر بھی اپنی عاقبت سے غافل انسان پتہ نہیں کیا سے کیا کر گزرتا ہےاور ذلت و پسپائی کے گہرے گڈھے کی طرف جاتا نظر آرہا ہے اور اس ذلت و پستی کی وجہ یہ ہے کہ ایک بالکل چھوٹے طبقے کو چھوڑ کر امت کے زیادہ تر لوگوں میں ایک طرف عبادت الٰہی  اور اطاعت رسول ﷺ میں غفلت و سستی ہےتو دوسری طرف گناہوں کے کاموں میں رغبت اور دل چسپی ہے، اور یہ  ایک کُھلی حقیقت ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ آج لوگوں میں گناہوں کا سلسلہ بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے اور عام سے عام تر ہوتا جا رہا ہے یہاں تک کہ ایسا لگتا ہے کہ گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھا جا رہا ہے -

اور گنا ہ کو گنا ہ سمجھنے والے مٹتے جا رہے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے تعجب کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ گناہوں کو ایک قابل فخر ہنر سمجھنے لگے ہیں، گناہ ایک معمولی بات محسوس کی جاتی ہے جس پر حیرت اور تعجب ہونا ان لوگوں کے نزدیک خود قابل تعجب اور حیرت کی بات ہے-
اور ایسی بھیانک صورت پیدا کرنے میں جہاں دوسرے بہت سے اسباب ہیں وہیں دور حاضر میں ٹی وی انٹر نیٹ اور سیل فون کا بھی بہت بڑا عمل دخل ہے اور ان چیزوں کی وجہ سے گنا ہوں کے سلسلے کو زیادہ وسعت مل گئی ہے-
انہیں کے ذریعہ گانا بجانا ،فحش و عریانی،بے حیائی و بے شرمی وغیرہ برے کام آسمان کی بلندیوں تک پہنچ گئے ہیں جو اصل میں ایک خطرے کی ہی گھنٹی ہے مگر ان برے کامو ں کی طرف لوگوں کی بے حسی اس قدر عام ہوچکی ہے کہ اس طرف توجہ دلائی بھی جاتی ہے پھر بھی لوگ کسی کی نہیں سنتے ہیں-
چناں چہ ہر مسلمان یہ بات بھلی بھانتی جانتا ہے کہ انسان کی دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات اللہ او ر اس کے رسول کی اطاعت اور فرما ں برداری میں ہی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے-
لہٰذ ا ہر مسلمان کو چاہیےکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کرے اور گناہ وبدکاری سے مکمل طور پر پرہیز کرے جیسا کہ ایک حدیث شریف ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ “اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو میری یہ پانچ باتیں لے ان پر خود عمل کرے اور دوسروں کو بھی سکھائے ؟۔
حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں کروں گا تو آقا کریم ﷺ نے میرا ہاتھ لیا اور یہ پانچ باتیں بتائیں اور فرمایا :۔
(1) تو حرام کاموں سے بچ لوگوں میں سب سے بڑا عابد ہو جائے گا-
(2) اللہ کی تقسیم پر راضی ہوجا سب سے بڑا غنی ہوجائے گا-
(3) پڑوسی پر احسان کر مومن بن جائے گا-
(4) اور اپنے لیے جو پسند کرتا ہے وہی لوگوں کے لیے پسند کر (صحیح معنوں میں)مسلمان ہوجائے گا-
(5) اور زیادہ نہ ہنسنا کیوں کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے (ترمذی شریف )

انسان فرشتوں سے افضل یا جانوروں سے بد تر؟: علماء کرام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو عقل بلا شہوت پیدا کیا ہے جانوروں کو شہوت بلا عقل پیدا کیا ہے اور انسان کو عقل و شہوت دونوں کے ساتھ پیدا کیا ہے لہٰذا جو انسان اپنی عقل کو اپنی شہوت پر غالب کر لیتا ہے وہ فرشتوں سے بہتر قرار پاتا ہے اور جو اپنی شہوت کو اپنی عقل پر غالب کر لیتا ہے وہ جانوروں سے بد تر ہوجاتا ہے-
الغرض گناہوں اور شہوتوں سے بچنا ضروری ہے مگر افسوس کہ آج گناہوں سے بچنے کا کوئی اہتمام نہیں، بڑے بڑے لوگوں میں بھی اس کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں ہے، نماز بھی چالو ہے ،روزے بھی چالو ہیں،تعلیم و تعلم بھی جاری ہے،تدریس و تحقیق بھی جاری ہے
مگر بڑی حیرت کی بات ہے کہ اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی گناہ سے بچنے کا کوئی جتن نہیں ہے- اور اس بچنے کا اہتمام اس لیے نہیں ہو رہا ہے کہ ہمیں ہمارا نفس اور شیطان گناہوں کی طرف لے جاتے ہیں،لہٰذا گناہوں کے کئی دروازے اور راستے ہیں نفس اور شیطان لوگوں پر مختلف راستوں اور دروازوں سے حملہ کرتے ہیں،اور اسی کی جانب اس حدیث پاک میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔ ترجمہ: کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح یا خون کی رگوں میں دوڑتا ہے (صحیح بخاری )-
اس حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ شیطان انسان کے اندر اس طرح دوڑتا ہے جس طرح اس کے اندر خون دوڑتا ہے-
الغرض شیطان انسان کو بھٹکانے کے واسطے کئی طرح سے حملہ آور ہوتا ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے گناہوں کے کاموں سے دور رہیں-

مومن گناہ کو پہاڑ اور فاسق مکھی سمجھتا ہے: مومن کی شان یہ ہے کہ وہ گناہ کے کاموں کو ایک پہاڑ سمجھتا ہے کوئی معمولی بات نہیں سمجھتا،گناہوں کو معمولی بات سمجھنا فاسقوں کا نظریہ ہے-
چناں چہ اس کے متعلق حدیث شریف میں آیا ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مومن اپنے گناہوں کو ایسا سمجھتا ہے کہ وہ ایک پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے وہ خوف کھاتا ہے کہ پہاڑ اس پر گر پڑے گا اور فاسق آدمی اپنے گناہ کو ایسے سمجھتا ہے جیسے اس کے ناک پر سے مکھی گزر گئی (بخاری شریف)-

گناہ کے دو راستے ہیں:
علماء کرام نے لکھا ہے کہ شیطان کے انسان پر حملہ کرنے کے دو راستے ہیں ایک شبہات کا راستہ اور دوسرا شہوات کا راستہ ان میں سے دماغ ،آنکھ ،کان ،زبان،ہاتھ اور پیر ہیں جن سے خاص طور پر وہ انسان پر حملہ کرتا ہے یہ تو ہوئے اندرونی راستے ان کے علاوہ بہت سے باہری راستے بھی ہیں جیسے مال و دولت، دنیاوی عہدے و مناصب، ظاہری آن بان وشان شوکت وغیرہ یہاں پر چند برے امور کے بارے میں نشاندھی کی جاتی ہے-

آنکھ: آنکھ شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے جو خطرناک حد تک انسان کے دل کو تباہ و برباد کر کے چھوڑ دیتا ہے اس لیے نظر کو شیطان کا قاصد کہا گیا ہے کیوں کہ اسی کے ذریعہ شیطان انسان کو زنا جیسے بدترین کاموں میں مبتلا کر دیتا ہے،
اسی لیے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے نظر بچانے اور اس کو نیچے رکھنے کا حکم دیا ہے- اور حدیث پاک میں اللہ کے نبی ﷺ ارشاد فرماتے ہیں نظر ابلیس کی زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے پس جو شخص اللہ تعالیٰ سے خوف کی وجہ سے اس کو ترک (چھوڑ)کر دیتا ہے اللہ عز و جل اس کو ایسے ایمان سے اس کا بدلہ عطا فرماتا ہے جس کی لذت وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا-
چناں چہ اس کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت مروی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنکھیں شیطان کی شکار گاہیں ہیں اس سے پتہ چلا کہ نظر شیطان کا بڑا حربہ (ہتھیار)ہے انسان کو برائی میں مبتلا کرنے کا ۔لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے تاکہ دل کی دنیا برباد نہ ہو جائے-

کان: شیطان کا ایک اہم راستہ کان ہے کان کے ذریعہ وہ بہت سی باتوں کو دل میں اتارتا ہے اور دل کی دنیا کو تباہ و برباد کرتا ہے۔مثلاً گانے سننے ،غیبت و چغلی سننے اور اس طرح کی دیگر حرام و گندی چیزوں کو سننے سے انسان کا دل خراب ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ برباد ہو جاتا ہے جیسے گانا سننے سے دل میں نفاق کی بیماری پیدا ہوتی ہے-
اسی لیے رسول کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:گانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے: (ابو داؤد)-
بعض اللہ والوں نے فرمایا ہے کہ گانا سننا بعض لوگوں میں نفاق اور بعض میں عناد بعض میں جھوٹ بعض میں فسق و فجور اور بعض میں تکبر پیدا کرتا ہے، اسی کی وجہ سے بے حیائی کی باتیں بڑھتی ہی جا رہی ہیں، اسی طرح کان سے غیبت، گالی گلوج اورکسی کا مزاق سن کر انسان کے دل میں برے خیالات پیدا ہو جاتے ہیں اور ا س کا دل اس کی وجہ سے گندہ اور ناپاک ہوجاتا ہے-

زبان: شیطان کے راستوں میں سے ایک راستہ زبان بھی ہے اس سے شیطان بڑا کام لیتا ہے اور حملہ کرتا ہے اسی لیے ایک صحابی نے آقائے کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ نجات کیا ہے؟ تو حضور نے زبان نبوت سے اور باتوں کے ساتھ ساتھ ایک بات یہ بھی فرمائی “اپنی زبان قابو میں رکھو” کیوں کہ اس ایک زبان سے بہت سارے گناہ ہوتے ہیں-
جیسے جھوٹ اسی زبان سے بولا جاتا ہے، غیبت اسی زبان سے کی جاتی ہے، چغلی اسی زبان سے ہوتی ہے، فضول وبے ہودہ گوئی بھی اسی سے ہوتی ہے، کسی کو اذیت و تکلیف دینے میں بھی اس کو بڑا دخل ہے جیسے گالی دینا ،توہیں کرنا وغیرہ زبان سے اس طرح کے کئی گنا ہ ہوتے ہیں- لہٰذا زبان کو بہت زیادہ قابو میں رکھنے کی کوشش کرنا چاہیئے ۔

شرم گاہ : یہ ایک بہت بڑا شیطانی راستہ ہے جس سے وہ انسان میں داخل ہوتا ہے اور اس کو برائی میں مبتلا کرتا ہے یہ نہایت ہی خطرناک راستہ ہے جس سے انسان شہوتوں و لذتوں میں پڑ کر خدا و رسول اور آخرت کو بھول جاتا ہے-
اسی لیے رسول عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص مجھے ضمانت دے اس کے دو جبڑوں کے بیچ کی چیز اور اس کے دو پیروں کے بیچ کی چیز تو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں (بخاری شریف )-
پتہ چلا کی زبان کی طرح شرم گاہ کا فساد بھی بڑا خطرناک ہوتا ہے اور جو اس کے شر سے بچ گیا وہ گویا تمام برائیوں سے بچ گیا- لہٰذا اس سے بھی خوب چوکنا رہنے کی ضرورت ہے-

اور گناہ کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے دل کالا ہوجاتا ہے حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول با وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا مومن جب گناہ کرتا ہے تو وہ اس کے دل میں ایک کالا نقطہ بن جاتا ہے پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے اور گناہوں سے الگ ہوجاتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر توبہ کے بجائے اس میں زیادتی کرتا ہے تووہ نقطہ بھی بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ دل اس سے بند ہو جاتا ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد پاک میں کیا ہے ۔ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے ۔(ترمذی شریف) ۔
اس سے معلوم ہوا کہ گنا ہ کا اثر یہ بھی ہے کہ اس سے دل میں ایک کالا نقطہ و داغ لگ جاتا ہے اور گناہ پر اصرار کرے تو یہ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ پورا دل کالا ہوجاتا ہے-
کچھ لوگوں کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ ایک بار گناہ کر لیتے ہیں اس میں قرار آجائے گا اس کے بعد گناہ نہیں کریں گے اس طرح ہم گناہ کر کے گناہ چھوڑ دیں گے یہ صرف خیال ہی ہے حقیقت میں ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا
کیوں کہ یہ تو ایسے ہی ہوا جیسے کوئی کہنے لگے کہ میں بیماری کو بیماری سے دور کروں گا، آپ ہی بتائیں کیا ایک بیماری دوسری بیماری سے دور ہوتی ہے؟ یہ در اصل فاسقوں کا نظریہ ہے-

توبہ: گناہ چھوڑنے کے لیے سب سے پہلا قدم توبۂ نصوح ہے لہٰذا اس کے لیے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اللہ کی بارگا ہ میں توبۂ نصوح یعنی سچی و پکی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے خوب گڑ گڑا کر اپنے گناہوں سے معافی مانگ لے-

توبہ کی فضیلت:
گناہ گار بندہ جب اللہ تعالیٰ سے استغفار(معافی )اور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے سے بہت خوش ہوتاہے اور اس کی بخشش کا پروانہ لکھ دیتا ہے توبۂ نصوح کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے چناں چہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا ہاتھ (دست قدرت)رات میں کھول دیتا ہے تاکہ دن کا گناہ گار توبہ کر لے اور دن اپنا ہاتھ کھول دیتا ہے تاکہ رات کا گناہ گار توبہ کر لے (یہ سلسلہ جاری رہے گا)یہاں تک کہ سورج مغرب سے نکل آئے- (مسلم شریف)۔

الغرض: اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے میں کسی بھی پہلو سے کمی نہیں چھوڑنی چاہیےاور نہ ہی شرم کر کے اللہ رب العزت کے دربار عالی سے دور رہنا چاہیے بلکہ رب کعبہ کے سامنے حاضر ہوکر گِڑ گِڑا ،گِڑگِڑا کر معافی مانگ لینی چاہیے وہ بڑا رحیم و کریم اور معاف کرنے والا ہے-

پاک پروردگار ہم سبھی لوگوں کو ہرطرح کناہ کے کاموں اور شیطان کے وسوسوں سے بچنے اور گناہوں سے سچی توبہ کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے-آمین

حضرت علی رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں
کہ زید کہتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو چاروں خلیفہ میں سب سے اعلیٰ ماننا چاہیے حلانکہ لوگ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو مانتے ہیں اور زید کا کہنا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی شان میں فرمایا من کنت مولاہ فھذا علی ایخ اس حدیث کے تحت زید علی کو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر فوقیت دیتا ہے لہٰذا زید کا کہنا ہے کہ جوحضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو چار نمبر پر بتائے وہ گمراہ ہے اس لئے علمائے کرام سے باادب عرض ہے کہ زید شیعہ عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے اور ان کو حق بتاتا ہے ایسی صورت میں شریعت کا کیا حکم نافذ ہوتا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
سائل محمد سلیمان رضا متعلم مدرسہ المرکزالاسلامی دار الفکر بہرائچ شریف
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : اہلِ سنّت و جماعت نَصَر َہُمُ اللہُ تعالٰی کا اجماع ہے کہ مُرسلین ملائکہ و رُسُل و انبیائے بشر صَلَوَاتُ اللّٰہِ تَعَالٰی وَتَسْلِیْمَاتُہ عَلَیْھِمْ کے بعد حضرات خلفائے اربعہ  رضوان اللہ تعالٰی علیھم تمام مخلوقِ الٰہی سے افضل ہیں ، تمام اُمَمِ عالم اولین وآخرین میں کوئی شخص ان کی بزرگی وعظمت وعزت و وجاہت و قبول و کرامت و قُرب و ولایت کو نہیں پہنچتا ۔

مزید فرمایا : پھر اُن کی باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیقِ اکبر ، پھر فاروقِ اعظم ، پھر عثمانِ غنی ، پھر مولیٰ علی  رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔ (فتاوی رضویہ ,ج ,28ص 478)
نیزامامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (حضرت صدیق و عمر کی افضلیت پر) جب اجماعِ قطعی ہوا تو اس کے مفاد یعنی تفضیلِ شیخین کی قطعیت میں کیا کلام رہا؟ ہمارا اور ہمارے مشائخِ طریقت و شریعت کا یہی مذہب ہے۔ (مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین ,ص81)

مسئلہ افضلیت باب عقائد سے ہے :
 اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بالجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز بابِ فضائل سے نہیں جس میں ضعاف (ضعیف حدیثیں) سُن سکیں بلکہ مواقف و شرح مواقف میں تو تصریح کی کہ بابِ عقائد سے ہے اور اس میں اٰحاد صحاح (صحیح لیکن خبرِ واحد روایتیں) بھی نامسموع۔ (فتاوی رضویہ ج5 ص 581)
اور جلیلُ القدر حنفی محدث حضرت امام ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی  رحمۃ اللہ علیہ (وفات : 321ھ) فرماتے ہیں : وَنُثْبِتُ الْخِلَافَةَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَوَّلًا لِاَبِي بَكْرِ الصِّدِّيق رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَفْضِيلًا لَهُ وَتَقْدِيمًا عَلَى جَمِيعِ الْاُمَّةِ ، ثُمَّ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، ثُمَّ لِعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، ثُمَّ لِعَلِيِّ بْنِ اَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ یعنی ہم رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  کے بعد سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت کرتے ہیں اس وجہ سے کہ آپ کو تمام اُمّت پر افضلیت و سبقت حاصل ہے ، پھر ان کے بعد حضرت عمر فاروق ، پھر حضرت عثمان بن عفان ، پھر حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہم  اجمعین کے لئے خلافت ثابت کرتے ہیں۔ (متن العقیدہ الطحاویۃ ,ص 29)
اور معجم اوسط ,5/18,حدیث :6448)
میں ہے کہایک دن نبیِّ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور پھر توجہ فرمائی تو حضرت ابوبکر صدیق نظر نہ آئے تو آپ نے ان کا نام لے کر دو بار پکارا۔ پھر ارشاد فرمایا : بےشک رُوحُ القُدس جبریل امین   علیہ السَّلام  نے ابھی مجھے خبر دی کہ آپ کے بعد آپ کی اُمّت میں سب سے بہتر ابوبکر صدیق ہیں۔

اور بخاری ج 2,ص 522,حدیث 3671 میں افضلیتِ صدیقِ اکبر بزبانِ مولیٰ علی :سماعت کریں

جگرگوشۂ علیُّ المرتضیٰ حضرت محمد بن حنفیہ  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے اپنے والد حضرت علی  رضی اللہ عنہ سے پوچھا : نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ ارشاد فرمایا : ابوبکر ، میں نے پوچھا : پھر کون؟ ارشاد فرمایا : عمر۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے دوبارہ پوچھا کہ پھر کون؟ تو شاید آپ حضرت عثمان کا نام لے لیں گے ، اس لئے میں نے فورا ً کہا : حضرت عمر کے بعد تو آپ ہی سب سے افضل ہیں؟ ارشاد فرمایا : میں تو ایک عام سا آدمی ہوں۔ نیز صحابۂ کرام حضرت صدیقِ اکبر کی افضلیت کے قائل تھے اسی لئے بڑے بڑے اَئمہ بھی اس عقیدے پر کاربند تھے جیسا کہ حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ ، حضرت امام شافعی ، حضرت امام مالک  رحمۃ اللہ علیہم صدّیقِ اکبر کو افضل مانتے تھے جیسا کہ حضرت امامِ اعظم نعمان بن ثابت  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : انبیائے کرام کے بعد تمام لوگوں سے افضل حضرت ابوبکر صدّیق  رضی اللہ عنہ ہیں ، پھر عمر بن خطاب ، پھرعثمان بن عفان ذوالنورین ، پھر علی ابنِ ابی طالب  رضوان اللہ علیھم اجمعین ہیں۔ (شرح فقہ اکبر۔) اور جیساکہ شارحِ بخاری حضرت علّامہ اِبنِ حجر عسقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : اِنَّ الْاِجْمَاعَ اِنْعَقَدَ بَيْنَ اَهْلِ السُّنُّةِ اَنَّ تَرْتِيْبَهُمْ فِيْ الْفَضْلِ كَتَرْتِيْبِهِمْ فِي الْخِلَافَةِ رَضِيَ اللہُ عَنْهُمْ اَجْمَعِيْن یعنی اہلِ سنّت و جماعت کے درمیان اس بات پر اجماع ہے کہ خلفائے راشدین میں فضیلت اسی ترتیب سے ہے جس ترتیب سے خلافت ہے۔ (فتح الباری 7/29) لہذا زید کی بات درست نہیں اللہ تعالی اسے ہدایت دے۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

اینٹ بھٹے پر ایڈوانس رقم جمع کر کے اینٹ لینے کا شرعی حکم،، از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
حضرت ایک مسئلہ پوچھنا تھا کہ
آج سے چھ سال پہلے ایک بھٹے میں پانچ ہزار اینٹوں کیلئے پیسے دیا گیا تھا
اس وقت ایک ہزار اینٹ کی قیمت چھ ہزار تھی تو پورے تیس ہزار ہوئے لیکن انہوں نے اب تک اینٹیں نہیں دی
اب اس اینٹ کی قیمت بڑھ گئی ہے اور اب اگر بھٹے والا پیسے لوٹائے گا تو تیس ہزار لوٹا ئیگا يا جو قیمت اب چل رہی ہے وہ قیمت دیگا ؟ المستفتی۔محمد سباحت رضوی۔متعلم ۔دارالفکر بہرائچ شریف۔
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب۔واضح رہے کہ خرید و فروخت میں جو قیمت معاملہ  کے وقت طے ہوتی ہے وہی اصل قیمت ہوتی ہے، معاملہ طے ہوجانےکے بعد مارکیٹ ریٹ میں کمی یا زیادتی کا اعتبار نہیں ہوتا،  لہٰذا  اس پر وہی قیمت لوٹانا واجب ہے جو معاملہ کے وقت طے کی گئی تھی،  اگر اینٹ دینا چاہے تو اسی قیمت پر دینا اس پر لازم ہے جو معاملہ کے وقت طے ہوئ تھی ۔جیسا کہ
مجلۃالاحکام العدلیہ میں ہے:
“(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي، سواء كان مطابقا للقيمة الحقيقية أو ناقصا عنها أو زائدا عليها.”
(الكتاب الأول في البيوع، ‌‌المقدمة: في بيان الاصطلاحات الفقهية المتعلقة بالبيوع، ص:33، )
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
28/ جمادی الآخرۃ 1444ھ

جب اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور وہ لفظ کن سے ہر چیز کر سکتا ہے تو پھر فرشتوں کو کیوں لگایا؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے مسئلہ ذیل میں کہ جب اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور وہ لفظ کن سے ہر چیز کر سکتا ہے تو پھر فرشتوں کو کیوں لگایا، کسی کو پانی برسانے پر، کسی کو بندوں کے اعمال لکھنے پر اور بھی امور پر بھی فرشتوں کو لگا دیا
ایسا کیوں تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں

سائل محمد الطاف
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے اور وہ لفظ کن سے ہر چیز کرسکتا ہے۔اللہ تعالی ان فرشتوں کے توسط سے کائنات کی تدبیر فرماتا ہے اور فرشتوں کو جو حکم دیتا ہے فرشتے اسی کے مطابق عمل انجام دیتے ہیں اور کسی صورت اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتے۔ اور جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُون‌؛ وہ اللہ کی معصیت و نافرمانی نہیں کرتے اور وہی انجام دیتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔لہذا معلوم ہوا کہ فرشتے جو کام کرتے ہیں وہ لفظ کن میں داخل ہے۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
28/12/22,

گھر میں بچہ پیدا ہو تو کیا پورا گھر ناپاک ہو جاتا ہے؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں
کے گاؤں میں کئی جگہ یہ رواج ہے کہ اگر کسی عورت کو بچا ہو تو وہ جس کمرے میں ہو اس جگہ کو اس کمرے کو ناپاک مانا جاتا ہے اور اس عورت یا بچّے کو چھونا بھی ناپاک مانتے ہیں تو

کیا حکم ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔المستفتی۔حافظ۔محمد وسیم ۔جھاڑکھنڈ۔☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔یہ سب جھالت ہے غیر مسلم کی رسمیں ہیں۔جیساکہ بہارے شریعت حصہ دوم ص ٧٩ پر ہے کہ نفاس میں عورت کو زچہ خانے سے نکلنا جاٸز اسکو ساتھ کھلانے یا اس کا جھوٹا کھانے میں حرج نہیں ۔ہندوستان میں عورتیں جو بعض جگہ ان کے برتن تک الگ کردیتی ہیں بلکہ ان برتنوں کو مثل نجس جانتی ہیں یہ ہندوں کی رسمیں ہیں ایسی بے ہودہ رسموں سے احتیات لازم ۔اھ۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ۔احمدرضا قادری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر۔بہراٸچ شریف۔٢٧\١\١٩۔