سید خادم رسول عینی کی ولادت ٢٩ اپریل ١٩٦٨ میں بھدرک اڈیشا میں ہوئی۔ آپ امیر میناءی کے سلسلے کے مشہور شاعر علامہ سید اولاد رسول قدسی کے شاگرد رشید ہیں ۔آپ نعت ، غزل، منقبت، سلام، سہرا ، نظم وغیرہ اصناف میں شاعری کرتے ہیں ۔آپ کے دو مجموعہاءے کلام بنام رحمت و نور کی برکھا ، نور مناقب شاءع ہوچکے ہیں ۔اس کے علاوہ آپ کی ترتیب شدہ کتابیں نظر عمیق اور مناقب مفتیء اعظم بھی شاءع ہوءی ہیں ۔آپ کے کلام ہند اور بیرون ہند کے مختلف اخبار و رسائل میں شایع ہوتے رہتے ہیں ۔آپ نے اردو زبان کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی شاعری خوب کی ہے۔پیشے کے لحاظ سے آپ بینکر ہیں اور یونین بینک آف انڈیا کے چیف مینیجر کے اعلیٰ عہدے پر فاءز ہیں ۔کٹک ، اڑیسہ میں سعید رحمانی کی ادارت میں شائع ہونے والا سہ ماہی ادبی محاذ کے سرپرست ہیں۔علاوہ ازیں آپ علم عروض میں مہارت رکھتے ہیں اور اردو کے ایک بہترین نقاد و مقالہ نگار ہیں ۔آپ کے تبصرات و مضامین ملک کے مختلف اخبار و رسائل میں شاءع ہوتے رہتے ہیں ۔
آپ کے کلام میں سے چند غزلیں نذر قارءین ہیں :
تو پژمردہ پیڑوں کو یوں باثمر رکھ
توانائی دے شاخ کو بااثر رکھ
نہ کر فخر اجداد کے تو شجر پر
تو شاخوں پہ خود کاوشوں کا ثمر رکھ
ہے انکار کرنا بہت سہل و آساں
تو اقرار کا حوصلہ اے بشر رکھ
زمینی حقائق رہیں تیرے آگے
نظر اپنی چاہے سدا چرخ پر رکھ
نہ ہو جائے مانند آتش سراپا
مرے دل کی اے جان جاناں خبر رکھ
کر احقاق حق اور ابطال باطل
یہ جذبہ ہر ایک موڑ پر بے خطر رکھ
سبھی کی محبت سماجائے دل میں
تو اس میں ہمیشہ محبت کا گھر رکھ
گہر خود ہی آجائےگا پاس “عینی”
نہایت پہ منزل کی گہری نظر رکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
درد و غم سے وہ ہ بشر آزاد ہے
قلب میں جس کے خدا کی یاد ہے
حکمران وقت سب خاموش ہیں
بے اثر مظلوم کی فریاد ہے
حق پرستو ! رب کی نصرت آئیگی
جبر باطل کی بھی اک میعاد ہے
آگ نفرت کی بجھے بھی کس طرح
تلخیوں کا اک جہاں آباد ہے
دل ہے چھلنی اس کا سنگ بغض سے
جس کے ہونٹوں پر مبارکباد ہے
دیکھیے موجد کی آنکھوں سے ذرا
خوبصورت کس قدر ایجاد ہے
غالب آئے غم کا لشکر کس طرح
دل میں یاد یار جب آباد ہے
“عینی” رکھنا رب پہ ہر دم اعتماد
ورنہ تیری زندگی ناشاد ہے
۔۔۔۔۔۔۔
نخل نخوت کو ہمیشہ بے ثمر رکھا گیا
صبر کے ہر اک شجر کو بارور رکھا گیا
سلسلہ بڑھتا گیا ان کے ستم کا اس قدر
میرے ٹوٹے دل کے آنگن میں حجر رکھا گیا
لگ رہا تھا بھیڑ میں وہ ضوفشاں کچھ اس طرح
درمیان نجم جیسے اک قمر رکھا گیا
شک کی عینک جب اتاروگے تو مانوگے ضرور
منصب عالی پہ مجھ کو جانچ کر رکھا گیا
درد و غم کی آگ اسی سے ایک دن بجھ جائیگی
ان کے سوز عشق میں ایسا اثر رکھا گی
بحر سے دوری ھے مجھ کو کیسے سیرابی ملے
زیست میں میری سراب بے اثر رکھا گیا
روز و شب چوبیس گھنٹے کم پڑے اپنے لیے
اس قدر کیوں وقت “عینی” مختصر رکھا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔
صحن دل کے سبھی پھولوں کو جواں رہنے دو
پر شباب اپنے چمن کا یہ سماں رہنے دو
پھر کبھی سر نہ اٹھا پائیں جہاں کے ظالم
سینہء ظلم پہ سیدھا سا نشاں رہنے دو
ہو نہ جائے کبھی احساس کا بلبل غمگیں
اس کو رکھو نہ نہاں بلکہ عیاں رہنے دو
تم کو رکھنا ہے تقدس کی فضا گر قائم
دل کی مسجد میں محبت کی اذاں رہنے دو
آب عرفاں سے رہیں حق کے مسافر سیراب
اپنے اطراف ہدایت کا کنواں رہنے دو
دل کرو فتح تم اخلاص کی تلواروں سے
نفرت و بغض کے تم تیغ و سناں رہنے دو
درد دروازہء دل پر نہ دے دستک ” عینی “
مدح محبوب سدا ورد زباں رہنے دو
۔۔۔۔۔۔
دیکھو جہاں بھی ، ایک ہی خاور ہے ہرطرف
تاروں کے قافلے کا یہ رہبر ہے ہرطرف
بھر آئی دیکھ دیکھ کے امن و اماں کی آنکھ
انسانیت کے خون کا منظر ہے ہرطرف
تنہا لڑینگے خنجر خلق و وفا سے ہم
گرچہ جہاں میں بغض کا لشکر ہے ہر طرف
ہے خوف کیسے زیست کی رہ پائے گی فضا
سانپوں کا سانپ دشت میں اجگر ہے ہرطرف
خالی ملیں گے سیپ سمندر کی گود میں
مت سوچیے کہ سیپ میں گوہر ہے ہر طرف
دریا کے ذہن میں یہ سسکتا سوال ہے
کیوں اس قدر خموش سمندر ہے ہر طرف
دنیا میں اک فقیر سے ملتا گیا قرار
“عینی” اگرچہ شور سکندر ہے ہر طرف
۔۔۔۔۔۔۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔
شجر وہ سب کو جو اک بے دیار لگتا ہے
وہی کسی کے لیے سایہ دار لگتا ہے
سیاہ زلفوں کی جھرمٹ میں اس کا ہے چہرہ
شب سیہ میں وہ نصف النہار لگتا ہے
وفا کے بحر پہ پلنے لگی جفا کی آگ
صدف کے ذہن میں اب انتشار لگتا ہے
یہ مژدہ امن کا پھیلا ہے سارے جنگل میں
کہ سانپ نیولوں کا اب شکار لگتا ہے
گلوں کے بیج ہے خاروں کی بالادستی عجب
چمن یہ دیکھ کے اب اشکبار لگتا ہے
عبور کرنا تھا دشوار تر خزاں کا پہاڑ
تمھارے ساتھ سفر پر بہار لگتا ہے
چمک رہا ہے امیدوں کا ماہتاب حسیں
کہاں کٹھن ہمیں اب انتظار لگتا ہے
عجب معمہ ہے آلائشوں سے پانی کی
ہوا کے جسم میں عینی بخار لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
پیش کش:
ڈاکٹر شفیق جے ایچ