WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Archives April 2023

سید خادم رسول عینی ایک عظیم شاعر .. پیش کش :ڈاکٹر شفیق جے ایچ

سید خادم رسول عینی کی ولادت ٢٩ اپریل ١٩٦٨ میں بھدرک اڈیشا میں ہوئی۔ آپ امیر میناءی کے سلسلے کے مشہور شاعر علامہ سید اولاد رسول قدسی کے شاگرد رشید ہیں ۔آپ نعت ، غزل، منقبت، سلام، سہرا ، نظم وغیرہ اصناف میں شاعری کرتے ہیں ۔آپ کے دو مجموعہاءے کلام بنام رحمت و نور کی برکھا ، نور مناقب شاءع ہوچکے ہیں ۔اس کے علاوہ آپ کی ترتیب شدہ کتابیں نظر عمیق اور مناقب مفتیء اعظم بھی شاءع ہوءی ہیں ۔آپ کے کلام ہند اور بیرون ہند کے مختلف اخبار و رسائل میں شایع ہوتے رہتے ہیں ۔آپ نے اردو زبان کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی شاعری خوب کی ہے۔پیشے کے لحاظ سے آپ بینکر ہیں اور یونین بینک آف انڈیا کے چیف مینیجر کے اعلیٰ عہدے پر فاءز ہیں ۔کٹک ، اڑیسہ میں سعید رحمانی کی ادارت میں شائع ہونے والا سہ ماہی ادبی محاذ کے سرپرست ہیں۔علاوہ ازیں آپ علم عروض میں مہارت رکھتے ہیں اور اردو کے ایک بہترین نقاد و مقالہ نگار ہیں ۔آپ کے تبصرات و مضامین ملک کے مختلف اخبار و رسائل میں شاءع ہوتے رہتے ہیں ۔

آپ کے کلام میں سے چند غزلیں نذر قارءین ہیں :

تو پژمردہ پیڑوں کو یوں باثمر رکھ
توانائی دے شاخ کو بااثر رکھ

نہ کر فخر اجداد کے تو شجر پر
تو شاخوں پہ خود کاوشوں کا ثمر رکھ

ہے انکار کرنا بہت سہل و آساں
تو اقرار کا حوصلہ اے بشر رکھ

زمینی حقائق رہیں تیرے آگے
نظر اپنی چاہے سدا چرخ پر رکھ

نہ ہو جائے مانند آتش سراپا
مرے دل کی اے جان جاناں خبر رکھ

کر احقاق حق اور ابطال باطل
یہ جذبہ ہر ایک موڑ پر بے خطر رکھ

سبھی کی محبت سماجائے دل میں
تو اس میں ہمیشہ محبت کا گھر رکھ

گہر خود ہی آجائےگا پاس “عینی”
نہایت پہ منزل کی گہری نظر رکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
درد و غم سے وہ ہ بشر آزاد ہے
قلب میں جس کے خدا کی یاد ہے

حکمران وقت سب خاموش ہیں
بے اثر مظلوم کی فریاد ہے

حق پرستو ! رب کی نصرت آئیگی
جبر باطل کی بھی اک میعاد ہے

آگ نفرت کی بجھے بھی کس طرح
تلخیوں کا اک جہاں آباد ہے

دل ہے چھلنی اس کا سنگ بغض سے
جس کے ہونٹوں پر مبارکباد ہے

دیکھیے موجد کی آنکھوں سے ذرا
خوبصورت کس قدر ایجاد ہے

غالب آئے غم کا لشکر کس طرح
دل میں یاد یار جب آباد ہے

“عینی” رکھنا‌ رب پہ ہر دم‌ اعتماد
ورنہ تیری زندگی ناشاد ہے

۔۔۔۔۔۔۔

نخل نخوت کو ہمیشہ بے ثمر رکھا گیا
صبر کے ہر اک شجر کو بارور رکھا گیا

سلسلہ بڑھتا گیا ان کے ستم کا اس قدر
میرے ٹوٹے دل کے آنگن میں حجر رکھا گیا

لگ رہا تھا بھیڑ میں وہ ضوفشاں کچھ اس طرح
درمیان نجم جیسے اک قمر رکھا گیا

شک کی عینک جب اتاروگے تو مانوگے ضرور
منصب عالی پہ مجھ کو جانچ کر رکھا گیا

درد و غم کی آگ اسی سے ایک دن بجھ جائیگی
ان کے سوز عشق میں ایسا اثر رکھا گی

بحر سے دوری ھے مجھ کو کیسے سیرابی ملے
زیست میں میری سراب بے اثر رکھا گیا

روز و شب چوبیس گھنٹے کم پڑے اپنے لیے
اس قدر کیوں وقت “عینی” مختصر رکھا گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔
صحن دل کے سبھی پھولوں کو جواں رہنے دو
پر شباب اپنے چمن کا یہ سماں رہنے دو

پھر کبھی سر نہ اٹھا پائیں جہاں کے ظالم
سینہء ظلم پہ سیدھا سا نشاں رہنے دو

ہو نہ جائے کبھی احساس کا بلبل غمگیں
اس کو رکھو نہ نہاں بلکہ عیاں رہنے دو

تم کو رکھنا ہے تقدس کی فضا گر قائم
دل کی مسجد‌ میں محبت کی اذاں رہنے دو

آب عرفاں سے رہیں حق کے مسافر سیراب
اپنے اطراف ہدایت کا کنواں رہنے دو

دل کرو فتح تم‌ اخلاص کی تلواروں سے
نفرت و بغض کے تم تیغ و سناں رہنے دو

درد دروازہء دل پر نہ دے دستک ” عینی “
مدح محبوب سدا ورد زباں رہنے دو
۔۔۔۔۔۔

دیکھو جہاں بھی ، ایک ہی خاور ہے ہرطرف
تاروں کے قافلے کا یہ رہبر ہے ہرطرف

بھر آئی دیکھ دیکھ کے امن و اماں کی آنکھ
انسانیت کے خون کا منظر ہے ہرطرف

تنہا لڑینگے خنجر خلق و وفا سے ہم
گرچہ جہاں میں بغض کا لشکر ہے ہر طرف

ہے خوف کیسے زیست کی رہ پائے گی فضا
سانپوں کا سانپ دشت میں اجگر ہے ہرطرف

خالی ملیں گے سیپ سمندر کی گود میں
مت سوچیے کہ سیپ میں گوہر ہے ہر طرف

دریا کے ذہن میں یہ سسکتا سوال ہے
کیوں اس قدر ‌خموش سمندر ہے ہر طرف

دنیا میں اک فقیر سے ملتا گیا قرار
“عینی” اگرچہ شور سکندر ہے ہر طرف
۔۔۔۔۔۔۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔

شجر وہ سب کو جو اک بے دیار لگتا ہے
وہی کسی کے لیے سایہ دار لگتا ہے

سیاہ زلفوں کی جھرمٹ میں اس کا ہے چہرہ
شب سیہ میں وہ نصف النہار لگتا ہے

وفا کے بحر پہ پلنے لگی جفا کی آگ
صدف کے ذہن میں اب انتشار لگتا ہے

یہ مژدہ امن کا پھیلا ہے سارے جنگل میں
کہ سانپ نیولوں کا اب شکار لگتا ہے

گلوں کے بیج ہے خاروں کی بالادستی عجب
چمن یہ دیکھ کے اب اشکبار لگتا ہے

عبور کرنا تھا دشوار تر خزاں کا پہاڑ
تمھارے ساتھ سفر پر بہار لگتا ہے

چمک رہا ہے امیدوں کا ماہتاب حسیں
کہاں کٹھن ہمیں اب انتظار لگتا ہے

عجب معمہ ہے آلائشوں سے پانی کی
ہوا کے جسم میں عینی بخار لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
پیش کش:
ڈاکٹر شفیق جے ایچ

سہلاؤشریف میں عیدالفطرکاتہوار پرامن وخوشگوار ماحول میں منایاگیا.. رپورٹ:باقر حسین قادری برکاتی انواری خادم:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

سہلاؤشریف میں عیدالفطرکاتہوار پرامن وخوشگوار ماحول میں منایاگیا


ہزاروں فرزندان توحید نے عیدالفطر کی نماز اداکرکے ملک وملت کی خوشحالی اور آپسی اتفاق واتحاد کے لیے دعا مانگی

سہلاؤشریف،باڑمیر/پریس ریلیز
رمضان المبارک کے پاکیزہ مہینہ کے مکمل ہوتے ہی شوال المکرم کی پہلی تاریخ کو جہاں دنیا بھر میں کروڑوں مسلمانوں نے سنیچر کو انتہائی عقیدت ومحبت اور جوش وخروش کے ساتھ دورکعت نماز عیدالفطر اداکی وہیں علاقۂ تھارکی مرکزی دینی درسگاہ دارالعلوم انوارمصطفیٰ درگاہ حضرت پیرسیدحاجی عالی شاہ بخاری علیہ الرحمہ کے احاطہ میں واقع عظیم الشان غریب نواز مسجد میں ہزاروں مسلمانوں نے امن وآشتی،خشوع وخضوع اور محبت وبھائی چارگی کے ساتھ وقت مقررہ پر عیدالفطر کی نماز ادا کی-
عیدالفطر کی نماز نورالعلماء پیرطریقت حضرت علامہ الحاج سیدنوراللہ شاہ بخاری نے پڑھائی-
نمازعیدالفطر سے قبل آپ نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عیدالفطر ہم مسلمانوں کابہت ہی بڑا تہوار ہے اور یہ انتہائی رونق بخش دن ہے،دنیا کے کونے کونے میں جہاں کہیں بھی مسلمان آباد ہیں اس دن عید مبارک…عیدمبارک کی صدائیں سنائی دیتی ہیں،ایک دوسرے سے بغلگیر اور مصافحہ ومعانقہ کرتے ہوتے ہوئے لوگ نظر آتے ہیں،جو آپسی اتفاق واتحاد کی بہترین نظیر ہے-یہ کوئی معمولی دن نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ ایک عظیم تحفہ ہے جو عبادت وریاضت کے مہینے رمضان المبارک کے اختتام پر حاصل ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس دن کو یوم الانعام یعنی انعام کا دن بھی کہاجاتا ہے،اس تہوارکی رونق اور خوشی کے کیا کہنے-
عیدکانام آتے ہی کیابچہ کیاجوان کیا بوڑھا سب کے چہرے کھل اٹھتے ہیں،کیونکہ سب کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ خوشی ایک ماہ کی عبادت کے بعد میسر ہوتی ہے-
دنیابھر میں عید کاایک ہی پیغام ہے اور وہ پیغام خوشی ومسرت اور امن ومحبت کا پیغام ہے-
آپ نے ان باتوں کے علاوہ مزید اور بھی کچھ اہم ومفید ناصحانہ باتیں کیں-
نمازعیدالفطر کے بعد حضرت قبلہ پیر سیدنوراللہ شاہ بخاری نے عبادت وریاضت کی قبولیت اور ملک وملت کی بہتری کے لیے خصوصی دعا کی، بعدہ لوگوں نے آپس میں مصافحہ ومعانقہ کرکےایک دوسرے کو عیدالفطرکی مبارکبادی پیش کی-

نعت شہِ عالمینﷺاز ✒کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا سیتامڑھی

نعت شہِ عالمینﷺ

رہے جو نرگسِ سرکار کا خیال بحال
ہمارے باغِ نظر کا رہے جمال بحال

اسی سے منصبِ دیوانگی کی شان سمجھ
ہیں اس پہ سرور کونین کے بلال بحال

ستارےلفظوں کی صورت جوڈھل رہےہیں مدام
مہِ عرب کی ثنا سے ہے یہ کمال بحال

نبی کی یاد میں گزرے ہیں جس کے دن وہ رہا
بہ وصفِ گردشِ ایام سارے سال بحال

خداۓ برتر و بالا سے مانگ ان کے طفیل
یوں ہوگی لمحے میں موقوفیِ نوال بحال

عجیب ہوش ربا حالتوں سے گزرے مگر
نبی کی یاد نے رکھا دمِ وصال بحال

وہ بد مآل ہو کیوں اس کا حال کیوں ہو خراب
جسے حضور نے فرمایا خوش مآل بحال

دئیے ہیں اور صدف نے بھی کیا یوں دُرِ یتیم
ازل سے دیکھی گئی کیا تری مثال بہ حال

تو کون روکے بحالیِ حال سے اے کلیم
مرے حضور اگر کہہ دیں تیرا حال بحال

از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا سیتامڑھی

نعتِ رسولِ اکرم ﷺاز ✒کلیم احمد رضوی مصباحیپوکھریرا سیتامڑھی بہار

شبِ قدر کی عطا

تیری ممکن نہیں مثیل رسول
تیرا عالم ہوا قتیل رسول

تیرے حسنِ خرام پر قربان
ہے منور مری سبیل ، رسول

اور سب آئنے انہی کے ہیں
فضل میں ہیں فقط اصیل رسول

آتشِ غم ہے سرد جن کے لیے
ہیں تمہارے، مرے خلیل رسول

ظلمتوں کا نصیب صرف شکست
شہر تنویر کی فصیل رسول

ایک بھی تشنۂ کرم نہ ملا
ہیں عطاؤں کی سلسبیل رسول

تجھ کو بے عیب نے کیا بے عیب
ہر جہت سے ہے تو جمیل رسول

ذرہ ہے جن کے آگے مہرِ منیر
ایسے ہیں خوبرو شکیل رسول

سب سے اعلیٰ کتاب جن کو ملی
ہیں وہ شبہات کے مزیل رسول

اپنی یکتائی پر کیا یک نے
تیری یکتائی کو دلیل رسول

غالب آۓ کثیر پر اکثر
شان والے ترے قلیل رسول

سہل گزرے گا یہ حساب کا دن
ہیں گنہ گاروں کے وکیل رسول

ہر جلالت ہے جس خدا کے لیے
اسکی رحمت سےہیں جلیل رسول

اب سپیدِ خوشی ہو جلوہ طراز
شام غم کی ہوئی طویل، رسول

ہر غنی سے غنی نہ کیوں ہو کلیم
آخرش اس کے ہیں کفیل رسول

از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا سیتامڑھی بہار

نعتِ پپاکِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم.. از ✒کلیم احمد رضوی مصباحیپوکھریرا سیتامڑھی9430555134

کئی مہینے بعد توفیق کی ارزانی

نذر احباب

بھیگ کر بارشِ انوَار میں جل تھل ہوتا
میں مدینے میں جو ہوتا یہ مسلسل ہوتا

شان میں عید و شبِ قدر سے افضل ہوتا
دن جو میلادِ پیمبر کا یہ منگل ہوتا

حسنِ سرکار نہ پھیکا کبھی پڑتا کہ مدام
آپ کے سر پہ کڑی دھوپ میں بادل ہوتا

ایسی گفتار کہ سیراب ہوں رندانِ وفا
وہ تبسم کہ عنایات کی چھاگل ہوتا

ہم بھی پڑھتے ہوۓ جاتے شہِ عالَم پہ درود
نام پر ان کے جو برپا کہیں مقتل ہوتا

اور محبوبِ نظر ہو یہ عروسِ رفتار
اس کے پاؤں میں ترے پیار کا پایل ہوتا

تاکہ پھر خلد میں دُہرَاؤں کرم سے ان کے
قصۂ زیست مدینے میں مکمل ہوتا

ایک بے رنگ شجر ہوں یہ تمنا ہے مری
ان کی رحمت مجھے چھو لیتی میں صندل ہوتا

گریہ سے گالوں پہ تصویرِ مدینہ ابھرے
کاش کچھ ایسا مری آنکھ کا کاجل ہوتا

قریۂ جان میں آباد مرا دل ہی نہیں
ان کی چوکھٹ پہ میں ہوتا تو یوں بے کل ہوتا

شاہیاں ہوتیں مرے در کی کنیزوں میں کلیم
بس یہ ہوتا، میں گداۓ درِ مرسل ہوتا

از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا سیتامڑھی
9430555134

تہذیبِ ہند پر اسلام کے انمٹ نقوش۔آصف جمیل امجدی [انٹیاتھوک،گونڈہ]صحافی:- روزنامہ شانِ سدھارتھ

ہندوستان مختلف تہذیب و ثقافت کا گہوارا ہے برسہا برس سے مختلف اقوام کے لوگ بنا کسی بھید و بھاؤ کے آپسی اخوت و محبت سے سکونت اختیار کئے ہوۓ تھے۔ ہمہ وقت یہاں گنگا جمنی تہذیب کی ندیاں بہتی تھیں۔ شادی بیاہ سے لے کر ایک دوسرے کی تہوار نیز مذہبی و غیر مذہبی تقریبات میں خلوص و محبت کے ساتھ شامل ہوتے تھے یہاں تک کہ خوشی و غم میں برابر کے شریک ہوتے۔لیکن رفتہ رفتہ یہاں کی بے مثال گنگا جمنی تہذیب پر جاہل قسم کے غیر مسلموں نے کٹر پنتھی دکھانا شروع کردیا اور جگہ جگہ مسلمانوں کو نشان زد پر لینے لگے۔ مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی تنظیم و تحریک تشکیل کرلی گئی جس سے کہ قوم مسلم کو حراساں و ظلم و جبر کرنے میں آسانی پیدا ہو اور وقتاً فوقتاً تنظیم سےمدد بھی ملتی رہے۔ آزادئ ہند کے بعد سے کچھ سال تک یہاں کے حالات کافی حد تک بہتر تھے۔ لیکن آر یس یس کے زہریلے خمیر سے نکلنے والی بی جے پی جب سے اقتدار میں آئی ہے مسلم دشمنی کھل کر سامنے آگئ دن بدن اس کی لو تیز ہوتی جاری ہے یہاں تک کہ حالات یہ بن گئے کہ مسلمانوں کی مذہبی عمارت نہ ہی ان کی ذاتی جائیداد (دوکان و مکان وغیرہ) محفوظ ہے۔ غیرمسلموں کے چھوٹے سے چھوٹے تہوارمیں بھی مسلمانوں کے جان و مال کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مآب لینچنگ میں ہزاروں مسلمانوں کو بنا کسی وجہ کے بے دردی سے قتل کرڈالا گیا، گئوکشی کے بےوجہ جرم میں سیکڑوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
یہاں کے سماجی عدل و انصاف کا توازن بالکل مسخ کردیا گیا۔ جمہوریت کا جنازہ نکال دیا، صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کو ملیا میٹ کرڈالا بھارتی مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کسی سے مخفی نہیں اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ مسلمانوں کی مساجد اور مدارس بھی محفوظ نہیں ۔ یہ کس جمہوری ملک کی تہذیب و تمدن ہے کہ تہوار و جلوس میں ننگی تلواریں دھار دار آلہ لے کر نکلا جاۓ اور ایک مخصوص مذہب کے خلاف بھڑکاؤ نعرے بازی کی جاۓ ان کی عبادت گاہوں میں توڑ پھوٹ مچایا جاۓ اور پھر اس پر اپنے مذہبی جھنڈے نصب کئے جائیں۔ حد تو اس وقت ہوگئ جب یہ ننگا ناچ حکومت ہند کی کھلی آنکھوں کے سامنے ناچا جارہا تھا پھر بھی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔لیکن اسی سرزمین پر مختلف مذاہب کے مابین ایک بڑا ہی صاف و شفاف پاکیزہ مذہب ‘اسلام’ ہے جس کا پیغام ہرآن امن و امان کا ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس کے پیغام کو عمل میں لاتے ہیں۔
دنیا کا ہرگوشہ خاص کر بھارت ملک کا ہر ہر ذرہ گواہ ہے کہ یہاں پر صدیوں سے نکلنے والے اسلامی جلوس[ربیع الاول،محرم نیز دگر جلسے جلوس] میں مسلمانوں نے کسی خاص مذہب و کمیونٹی کو نشانہ بنایا ہو یا اپنے مذہب سے ہٹ کر نعرے بازی کیا ہو یا کسی دگر مذہب کی عبادت گاہوں کو ٹھیس پہنچایا ہو۔ یہ تو کجا مسلمان اپنے جلوس میں ایک چینٹی جیسی مخلوق کو ایزا دینے کی بجائے اسے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے اگر اس سرزمین پر کوئی سچا سپوت بن کر بودوباش اختیار کئے ہوئے ہے تو وہ یقیناً قوم مسلم ہے۔ ہرسال عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقعے پر دنیا بھر میں اربوں کھربوں کی تعداد میں ایک ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے اکٹھا ہوتے ہیں یہ نظم صرف مذہب اسلام میں ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں مسلمان اکٹھا ہونے کے باوجود کبھی کسی مذہب، کسی خاص کمیونٹی یا کسی کی عبادت گاؤں کو کوئی ٹھیس پہنچایا ہو۔ اسی عیدالفطر کی نماز کو مثال کے طور پر لے لیجئے جو ٢٢/اپریل ٢٠٢٣ ٕ بروز سنیچر کو ادا کی گئ ایک اندازے کے مطابق خالص بھارت میں بیس کروڑ سے زاٸد مسلمانوں نے مساجد،عیدگاہ اور سڑکوں پر نماز عیدالفطر ادافرمائی بغیر کسی نعرہ بازی کے بغیر کسی مندر کی طرف آنکھ اٹھاۓ اور بغیر کوئی دھار دار آلہ لئے امن و امان، چین و سکون کے ساتھ سچے وفادار بھارتی بن کر اپنے اپنے گھروں پر واپس آگئے۔

[مضمون نگار روزنامہ شان سدھارتھ کے صحافی ہیں۔]

محب گرامی وقار محترم اقبال خان صاحب کے صاحبزادے عزیزم شاداب خان سلمہٗ نے ماہِ رمضان کے مکمّل روزے رکھے,، ازقلم محمد شاہد رضا برکاتی بہرائچی 7045528867

ماہِ رمضان المبارک یقیناً بڑی برکتوں والا مہینہ ہے اس کی آمد ہوتے ہی تمام عاشقانِ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے چہروں پر خوشیوں کے نمایاں آثار نظر آتے ہیں
ہر بندۂ مومن اس ماہِ مبارک کی تمام برکات و حسنات اپنے دامن میں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضاکی خاطر روزہ رکھ کر اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی کوشش کرتا ہے
اور کیوں نہ ہو
کہ

صحیحین و سنن و ترمذی و نسائی ابنِ خزیمہ میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں، جنت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں ایک دروازے کا نام ریان ہے اس دروازے سے وہی جائیں گے جو روزہ رکھتے ہیں

نیز
ابو یعلی بیہقی سلمہ بن قیس اور احمد و بزاز ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے راوی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، جس نے اللہ عزوجل کی رضا کے لیے ایک دن کا روزہ رکھا، اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے اتنا دور کر دے گا جیسے کوا کہ جب بچہ تھا اس وقت سے اڑتا رہا یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر مرا،

اس کے علاوہ بھی قرآن و احادیث میں روزہ کے بے حساب فضائل وارد ہیں

یقیناً جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ اس کی لذتیں اور برکتیں حاصل کرتے ہیں
لیکن اس گرمی کے ایام میں جہاں بڑے بڑے طاقتور نوجوان بے دریغ روزہ سے بے پرواہ نظر آتے ہیں وہیں اہلِ محبت کے گھروں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی روزہ رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں

انہیں ایک نام محب گرامی وقار محترم اقبال خان صاحب (گاندھی واڑی عمر گاؤں گجرات انڈیا) کے صاحبزادے، محمد شاداب خان سلمہٗ کا ہے کہ جنہوں نے محض 9 سال کی عمر میں مارچ اپریل کے مہینے میں بھوک و پیاس کی شدت پر صبر کرتے ہوئے اللہ عزوجل کی رضا کی خاطر اس ماہِ رمضان المبارک کے تمام روزے مکمّل رکھ کر اپنے والدین کی بہتر تربیت کا نتیجہ پیش کیا

جس کے لئے ہم انہیں اور ان کے والدین کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللّٰـــہ عزوجل آپ کو دین اسلام پر استقامت عطا فرمائے اور آئندہ بھی ماہِ رمضان المبارک کے تمام روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور دین و دنیا کی تمام نعمتوں برکتوں سے مالا مال فرمائے

آمین اللھم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم

دعا گو
محمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی
ایڈیٹر جامعہ امام المرسلین ویب سائٹ
خطیب و امام فیضانِ رضا مسجد گلشن نگر گاندھی واڑی عمر گاؤں گجرات انڈیا
7045528867

کاتب ذوالقرنین خان کی نواسی کلثوم نے رکھا مسلسل 28/ روزہ

مہراج گنج پریس ریلیز

رمضان بابرکت و نعمتو ں والا مہینہ ہے۔ اس کے روزے فرض و خوشنودی رب کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ ان فوائد سے آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ کا ذخیرہ و مجموعہ مالا مال ہے۔ تاہم اس سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ روزہ ایک مشقت کی چیز ہے۔ اس گرمی کے موسم میں جواں عمر کی ہمت بھی روزہ رکھنے کے تعلق سے پش و پیش کا شکار ہوجاتی ہے۔ ننھی جانوں کا کیا کہنا؟ مگر اس مشقت میں مبتلا کرنے والی چیز “روزہ ” جیسے فرض کو جس خوش دلی سے دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی بیالیس گاؤں پوسٹ جدو پپرا کے استاذ مولانا کاتب ذوالقرنین خان کی نو سالہ نواسی کلثوم بنت ذبیح اللہ صدیقی نے رکھا۔ مسلسل 28/اٹھائیس روزے رکھ کر اس ننھی سی عمر میں ایک نمایاں مثال پیش کی ہے اور ذہن دیا ہے کہ اگر عزم مستحکم ہو تو مکلفین کو فرائض خداوندی کی ادا سے کوئی مشقت باز نہیں رکھ سکتی۔ جیسے مجھ غیر مکلفہ کو مارچ و اپریل کی تکلیف دہ گرمی روزہ سے باز نہ رکھ سکی۔ باوجودیکہ گھر کے تمام افراد مجھ پر روزہ فرض نہ ہو نے کے سبب اس سے منع کر رہے تھے۔ میرا عزم محکم ہے کہ اس رمضان المبارک کے باقی ایام کے روز ے بھی خوش ظرفی و خلوص قلبی کے ساتھ رکھوں اور اجر عظیم کی مستحق بنوں۔ دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی مہراج گنج یوپی کے پرنسپل مولانا شیر محمد خاں قادری، مفتی قاضی فضل رسول مصباحی ، مولانا توحید احمد برکاتی مصباحی ، مولانا تصور حسین نظامی ، حافظ وقاری توصیف رضا صفوی ، حافظ مسعود عالم سراجی نے کہا “مبارک صد مبارک اللہ تعالی نانا و نواسہ کو درازی عمر کے ساتھ احکام خداوندی کی بجا آوری کا حسین و عمدہ موقع ہمیشہ عطا فرمائے اور خلوص نیت میں استحکام بخشے” ان کے علاوہ درجنوں علماء و فضلاء نے بھی صائمئہ موصوفہ کے حق میں نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔

تلاوت قرآن و سماع قرآن عظیم عبادت اور کار ثواب ہیں۔ مولانا حافظ عبدالحق علیمی علیگ

مہراج گنج (پریس ریلیز)

حافظ قرآن اسلام کا علم بردار ہوتا ہے۔ جس نے اس کی تعظیم کی اللہ تعالی اس کو عزت عطا فرمائے گا۔ قرآن سیکھنے اور سکھانے والا دو کمالات کا حامل ہوتا ہے۔ ایک تو وہ خود قرآن کریم سے نفع حاصل کرتا ہے پھر دوسروں کو اخلاق کے ساتھ نفع تقسیم کرتا ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار دارالعلوم عربیہ عزیزیہ مظہرالعلوم نچلول مہراج گنج کے استاذ حافظ و قاری مولانا حافظ عبدالحق علیمی علیگ نے بودنا مہراج گنج کی نوری جامع مسجد تکمیل قرآن کے موقع پر کیا۔
انہوں نے مزید فرمایا کہ شب قدر میں اللہ تعالی نے بہت سی نعمتیں رکھی ہیں۔ جنہیں فرزندان توحید کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس بہتریں موقع کو ضائع نہیں کرنی چاہیے۔ بہت افسوس کا مقام ہے کہ اس عظیم رات مین ہم عبادت نہیں کرتے، شب بیداری نہیں کرتے اور اس طرح ایک بڑی محرومی ہمارے ہاتھ آتی ہے۔ مولانا موصوف نے اس سال اسی مسجد میں تراویح سنانے کا شرف حاصل کیا ہے۔
اس سے پیشتر تلاوت قرآن سے محفل کا آغاذ ہوا۔ مسجد کے خطیب و امام حافظ و قاری شفیع الله مظہری نے نعت کے اشعار پیش کیے اور قاری عبدالحق علیمی علیگ کو قرآن سنانے اور مصلیان مسجد کو تیس پارے قرآن سن پر مبارک بادی پیش کی۔ اس موقع پر خورشید احمد، امجد علی، آفتاب عالم، سہم الدین، حافظ شمشیر، ماسٹر معروف، مولانا فیاض نظامی، اشتیاق انصاری، شبیر صدیقی، ماسٹر تبارک انصاری، ماسٹر سبحان الله کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔ اس پروگرام کا انعقاد رمضان مبارک کی ستائیسویں شب مطابق 18 اپریل 2023 بروز منگل بعد نماز عشا عمل میں آیا۔

تواضع:قرب الٰہی،عزت وعظمت اور بلندی کے حصول کا اہم ذریعہ.. ازقلم:(علامہ)سید نور اللہ شاہ بخاری..(مہتمم و شیخ الحدیث) دار العلوم انوار مصطفیٰ(سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)سہلاؤ شریف، باڑمیر (راجستھان)

تواضع کا مطلب عاجزی اور انکساری ہے، اپنی ذات اور حیثیت کو دوسروں سے کم درجہ سمجھتے ہوئے ان کی عزت اور تعظیم و تکریم کرنا اور اپنی ذات پر دوسرے کو ترجیح دینا تواضع و انکساری کہلاتا ہے،تواضع اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا وصف ہےکیوں کہ اللہ عاجز اور متواضع طبیعت والے لوگوں کو پسند فرماتا ہے-
تواضع اخلاقی لحاظ سے بھی بہت اچھی خوبی ہے اس لئے کہ جو آدمی اپنی حیثیت کو دوسرے سے کم سمجھے گا وہ ہمیشہ تکبر ،غرور، فخراور گھمنڈسے بچا رہے گا ،اور عاجزی کی وجہ سے اسے عظمت و عزت حاصل ہوگی۔

تواضع کے پیکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم:

حضور اکرم ﷺ دین و دنیا کے بادشاہ ہونے کے با وجود نہایت متواضع اور سادہ مزاج تھے،مجلس میں کبھی پیر پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے ،چھوٹا ہویا بڑا سلام کرنے میں پہل کرتے تھے ،غلاموں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے،بازار سے خود سودا خرید کر لاتے ،اپنے جانوروں کو خود چارہ ڈالتے ،اور گھر کے دوسرے کام بھی اپنے ہاتھ سے کرنے میں خوشی محسوس فرماتے، ایک مرتبہ دوران سفر حضورنبی کریم ﷺ کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا آپ خود درست کرنے لگے تو ایک صحابی نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ لا ئیے میں ٹانک دوں اس پر حضور ﷺ نے فرمایا: تشخص پسندی مجھے پسند نہیں چناں چہ خود ہی تِسمہ ٹانک دیا –
ایک مرتبہ حضورنبی رحمت ﷺ مسجدِ نبوی میں تشریف لے گیے دیکھا کہ کسی نے مسجد میں ناک صاف کی ہے تو آپ نے ایک کنکری لے کر خود اپنے مبارک ہاتھ سے کھروچ ڈالا ،پھر لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :مسجد خداکا گھر ہے اس میں غلاظت پھینکنے سے بچو-
یہ اور اس طرح کے بہت سے واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ حد درجہ تواضع و انکساری کے ساتھ زندگی گزار کر اور عاجزی و انکساری کے فضائل بیا ن فرماکر گویا اپنے امتیوں کو یہ درس دے دیا کہ وہ بھی عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔
آئیے تواضع و انکساری کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں!

تواضع بلندی کا ذریعہ:

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:کہ جس شخص نے اللہ کی خاطرتواضع و انکساری اختیار کی اللہ نے اس کو بلند کر دیا اور جس نے تکبر کیا اس کو اللہ نے پست (ذلیل و خوار)کردیا اور جس نے میانہ روی (درمیانی چال)اختیار کی اللہ نے اس کو غنی (مال دار)کر دیا اور جس نے فضول خرچی کی اللہ نے اس کو محتاج کردیا ،اور جس نے اللہ کا ذکر کیا اللہ نے اس کو اپنا محبوب بنا لیا ۔(رواہ احمد ،ابو یعلیٰ،بزار)۔

:تواضع کی بنیاد:

حضرت شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :کہ تواضع کی بنیاد یہ ہے کہ جس سے ملو اس سے پہلے سلام کرو ،اور جو تمہیں سلام کرے اس کا جواب دو،محفل میں کم درجہ کی نششت کو پسند کرو اور یہ نہ چاہو کہ کوئی تمہاری تعریف و توصیف کرے یا تم پر احسان کرے اور فرمایا:وہ شخص کیا ہی اچھا ہے جو اپنی کوتاہی یا برائی کے بغیر تواضع اختیار کرے اور محتاجی کے بغیر اپنے آپ کو عاجز سمجھے۔

تواضع کی توفیق:

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو اسلام کی ہدایت عطا فرماتا ہے تو اس کی صورت اچھی بناتا ہے اور اس کو ایسے مقام پر رکھتا ہے جو اس کے لیے نازیبا نہیں ہوتی اور سب چیزوں کے ساتھ اس کو تواضع (فروتنی و انکساری )کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے تو وہ شخص اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے ہوجاتا ہے (طبرانی)۔

تواضع و انکساری کا اجر:

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ میں اس شخص کی نماز قبول فرماتا ہوں جو میری عظمت کے سامنے انکساری کرتاہے ،میری مخلوق پر تکبر نہیں کرتا ،اور اس کا دل مجھ سے خوف زدہ رہتا ہے (احیاء العلوم )۔
اسی طرح ایک حدیث شریف ہے حضرت ابو سعید کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کے لیے ایک درجہ تواضع اختیار کرے گا اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور جو ایک درجہ تکبر کرے گا اللہ اس کو ایک درجہ گرائیگا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین (سب سے نچلے درجے )میں پہنچا دے گا (ابن ماجہ )۔

حضور نبی کریم کی شان ِتواضع:

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو بہت ہی اعلیٰ و ارفع (بلند)مقام پر فائز کیا اس کے با وجود حضور ﷺ میں غرورو تکبر کا شائبہ تک نہ تھا ،بلکہ حضور ﷺ اپنے قول و فعل ،رہن سہن ،اور معمولات زندگی میں ہمیشہ عجزو انکسار کا اظہار فرمایا کرتے تھےجیسا کہ حضر ت انس حضور کی شان تواضع کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ زمین پر بیٹھ جایا کرتے، اس پر کھانا تناول فرماتے، اگر کوئی غلام دعوت دیتا تو قبول فرماتے ،مریض کی عیادت کرتے ،جناز ہ میں شمولیت فرماتے،بکری کا دودھ دوہتے ،جب کوئی آدمی ملاقات کرتا تو سب سے پہلے آپ اسے سلام کرتے-
اور امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ جب گھر تشریف لاتے تو بیکار نہ بیٹھتے، اگر کوئی کپڑا پھٹا ہوتا تو اسے سیتے،اپنے جوتے کی مرمت فرماتے، کنواں سے ڈول نکالتے اور اس کی مرمت کرتے، اپنی بکری خود دوہتے ،اپنا ذاتی کام خود انجام دیتے ،کبھی کاشانۂ اقدس کی صفائی بھی فرماتے،اپنے اونٹ کے گھٹنے باندھتے ،اپنے اونٹ کو چارہ ڈالتے،خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ،بازار سے اپنا سودا اور ضروری سامان خود اٹھالاتے(ضیاء النبی ج/۵ص/۳۴۲،۳۴۶)۔
حضور یہ سارے کام خود اس لیے کرتے تاکہ اپنے صحابہ و امتیوں کو تواضع و انکساری کا طریقہ سکھائیں اور تکبر و غرور سے باز رہنے کی تلقین کریں ۔
اس لیے ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ حضور کی سنت پر عمل کرتے ہوئے تواضع و انکساری اختیار کریں اور ساری برائیوں خصوصاً تکبر و گھمنڈ ،جھوٹ و غیبت اور اس جیسی برائیوں سے خود بھی بچیں اور حتی الامکان لوگوں کو بھی بچانے کی کوشش کریں-