WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

کم سن ام حبیبہ خان نے مسلسل 20 واں روزہ رکھا،

سن ام حبیبہ خان نے مسلسل 20 واں روزہ رکھا……گھر کے بزرگوں ورشتہ داروں نے بچی کی لمبی عمر کی دعا کی!ماہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ [جسے “جہنم سے آزادی” کا عشرہ کہا گیا ہے] چل رہا ہے، احادیث کی روشنی میں اس عشرہ کے عبادت وریاضت کی بہت ہی فضیلت ہے- الحمدللّٰہ! القادری کیپ کے مالک حضرت مولانا اعجاز احمد قادری کی کم سن بھتیجی عزیزہ ام حبیبہ خان بنت جناب ریاض احمد خان سینانگر سیوڑی،ویسٹ ممبئ مہاراشٹر [ساکن:دھنوری،بڑھنی،سدھارتھ نگر] جو ابھی صرف 7 سال کی ہے اس نے آج مسلسل 20 واں روزہ مکمل کیا، مزید آخری عشرہ کے مابقیہ مکمل روزے رکھنے اور اس میں خوب خوب عبادت وتلاوت کے لیے پر عزم بھی ہے-اس کم سن بچی کے مسلسل روزہ رکھنے پر اس کے رشتہ داروں، اور آس پاس کے لوگوں نے بچی کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ اس کو دعاؤں سے نوازا-اور اہل خانہ بالخصوص بچی کے والدین کو مبارکباد پیش کی-خصوصیت کے ساتھ ان حضرات نے مبارکباد پیش کی، جناب امراللّٰہ خان،جناب امتیازاحمد خان اور سراج احمد خان- اللّٰہ تعالیٰ اس بچی کو طویل زندگی بخشے اور عمدہ واحسن تعلیم وتربیت کے حصول کی توفیق مرحمت فرمائے اور والدین کےلیے ذریعۂ نجات ومغفرت بنائے-قارئین سے گذارش ہے کہ اس کم سن بچی کی بہترین مستقبل اور عمدہ تعلیم وتربیت کے لیے خصوصی دعا کریں،اور ہمارے وہ مسلمان بھائی جو بلاعذرشرعی روزہ نہیں رکھتے اور کھلم کھلا کھاتے پیتے ہیں اور بلاخوف الٰہی دھڑلے کے ساتھ اسلامی شعار کی دھجیاں اڑاتے ہیں وہ اس کم سن خوش قسمت بچی ام حبیبہ کی روزہ داری سے عبرت حاصل کریں-

اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک یا انکھ میں دوا ڈال لیا تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہے

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کسی نے روزہ کی حالت میں ناک یا انکھ میں دوا ڈال لیا تو اس کے روزہ کا کیا حکم ہےالمستفتی۔مولانا انیس۔مٹیرا بہرائچ۔👇

👆الجواب بعون الملک الوھاب۔روزہ کی حالت میں آنکھ میں قطرے ڈالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، اگرچہ روزہ دار اس دوا یا قطروں کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔کان میں دوا ڈالی اور پردے سے اندر چلی گئی تو  روزہ فاسد ہوجاتاہے، فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق کان میں ڈالی ہوئی دوا دماغ میں براہِ راست یا بابواسطہ معدہ میں پہنچ جاتی ہے، جس سے روزہ فاسد ہوجاتاہے۔اسی طرح ناک میں اسپرے کرنے سے اور تردوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجاتاہے، البتہ اگر اتنی کم مقدار میں دوا لگائی جائے جس سے یقینی طور پر دوا اندر جانے کا خدشہ نہ ہو، بلکہ دوا ناک میں ہی رہ جاتی ہے تو ایسی صورت میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔البتہ کان اور ناک میں دوا ڈالنے کی صورت میں اگر روزہ فاسد ہوجاتاہے تو صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں۔فتاوی تاتارخانیہ میں ہے “وإذا اکتحل أو أقطر بشيءٍ من الدواء في عینیه لایفسد الصوم عندنا”. (فتاویٰ تاتارخانیة، ج:۲، ص:۳۶۶، ط: إدارة القرآن)فتاویٰ شامی ‘‘ میں ہے:”أو احتقن أو استعط في أنفه شیئًا … قضی فقط  …”.اھ۔

والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم بالصــــــــواب

کتبـــــــــــــہ

احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس

المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف 20 رمضان المبارک 1443

محمدتوصیف رضا برکاتی نے ۸ سال کی عمر میں روزہ رکھا

رمضان المبارک کا مبارک مہینہ شدید دھوپ اور گرمی کی تپش میں آخری عشرہ میں داخل ہوچکا ہے،گرم ہواؤں کی تمازت،صبح اٹھتے ہی پیاس کا احساس،۱۴،ا۴ گھنٹہ بغیر دانہ پانی کے گذارنا یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ یہ تو توفیق الٰہی کی بات ہے کہ جس طرح بالغ مسلمان مردو وخواتین عبادت کی لذت سے سرشار ذوق وشوق سے اس گرمی و دھوپ کو مات دے کر اپنے ایمانی جذبے کو قائم رکھے ہوئے ہیں،وہیں کچھ ننھے اور کم عمر بچے وبچیاں بھی اپنے جذبۂ ایمانی کے اظہار میں بڑوں سے پیچھے نہیں ہیں اور روزہ فرض نہ ہونے کے باوجود روزہ رکھ رہے ہیں،انہیں خوش نصیب اور باحوصلہ بچوں میں حضرت مولانا محمدشمیم احمدصاحب نوری مصباحی ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (ساکن:بھوانی پور،اسکابازار،ضلع: سدھارتھ نگر) کے صاحبزادے ۸ سالہ محمدتوصیف رضا برکاتی بھی ہیں،جنہوں نے ۸ سال کی مختصر عمر میں روزہ رکھ کر ہمت وحوصلہ اور شوق عبادت کا زبردست ثبوت پیش کیا ہے، جب کہ عزیزہ ترنم پروین [عمر:۹ سال] بنت حضرت مولانا سراج احمد صاحب قادری علیمی نے بھی بھوک وپیاس کی شدت کی پرواہ کیے بغیر اس سال کئی روزے رکھ کر اپنے ایمان ویقین کو جلا بخشا-قابل صد رشک ہیں ایسے والدین اور ان کی اولادیں جن کو دین اور اس سے محبت کی ایسی تعلیم وتربیت مل رہی ہے کہ انشاء اللّٰہ وہ آگے چل کر دین کے مضبوط علمبردار بنیں گے- ان ننھے بچوں کے اس پرعزم عمل پر ان کے بزرگوں ورشتہ داروں نے بچوں اور ان کے والدین کو مبارکباد پیش کر نے کے ساتھ ان بچوں کو دعاؤں سے نوازا اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کی -بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس طرح کے سبھی بچوں کو روزہ رکھنے کے صدقے صحت وتندرستی عطا فرمائے،اور ان کے روزے کو شرف قبولیت بخشے اور انہیں دارین میں کامیابی عطا فرمائے،اور نیکی کے جذبے میں اضافہ کرے اور ہرطرح سے ان کو اور ان کے والدین کو اپنے حفظ وامان میں رکھے-آمین

رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی اہمیت وفضیلت از: (مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحی!ناظم تعلیمات: دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،گرڈیا، ضلع:باڑمیر (راجستھان)

رمضان المبارک کی بابرکت ساعتیں تیزی سے گذررہی ہیں،آخری عشرہ جسے حدیث میں”جہنّم سے آزادی وخالصی کاعشرہ”کہا گیا ہے،اس کی چند راتیں اورباقی رہ گئی ہیں-کتنے خوش نصیب ہوں گے اللّٰہ کے وہ بندے جو موجودہ ُپرآشوب حالت میں بھی رمضان المبارک کے ایک ایک لمحہ کی قدر کرکے اپنی آخرت کو بنانے کی فکر میں۔ روزوں، فرض اور نفلی عبادتوں اور دیگر امور خیر میں نمایاں حصہ لئے ہوں گے اور اب وہ آخری عشرہ کی دہلیز پر پہنچ کر اپنے رب کی بارگاہ میں خالصی و مغفرت کے امیدوار ہوں گے۔ یوں تو رمضان المبارک کا پورا مہینہ عبادت و ریاضت اوراجروثواب کے اعتبار سے دیگر تمام مہینوں سے افضل واعلیٰ ہے اور رمضان شریف کے آخری دس دن کے فضائل، برکات اور خصوصیات اور بھی زیادہ ہیں۔ نبی رحمت صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے تیس شعبان کو رمضان کی آمد پر جو تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا تھا اس میں آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے یہ بھی کہا تھا کہ “یہ وہ مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت ہے، درمیانی عشرہ مغفرت ہے اور آخری عشرہ جہنم کی آگ سے آزادی کے ساتھ خاص ہے۔” اس حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ رمضان المبارک اپنے تینوں عشروں میں کچھ مخصوص کیفیتیں رکھتا ہے لیکن آخری عشرہ کو پہلے دو عشروں کے مقابلے میں زیادہ فضیلت اور اہمیت حاصل ہے-چونکہ آخری عشرے کو حضور نبِئ کریم صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم نے جہنم کی آگ سے آزادی کاوقفہ قرار دیا ہے،اسی عشرہ میں قرآن مقدّس نازل ہوا، شب قدر کی مبارک گھڑیاں اسی عشرہ میں پائی جاتی ہیں، جس کےمتعلق بتایا گیا ہے کہ یہ رات انتہائی قیمتی اور بے حد بابرکت ہے، اس رات کو ہزار مہینوں سے زیادہ افضل اور باعث خیروبرکت فرمایا گیا ہے، ان راتوں میں حضرت جبرئیل امین سمیت بڑی تعداد میں فرشتے زمین پر اترتے ہیں ،اور انہیں راتوں میں سال بھر کے امور کے فیصلے کئے جاتے ہیں، لوگوں کی رزق، ان کے اعمال اور ان کی موت و حیات کی تعین کی جاتی ہےاس لئے یہ عشرہ علمائے امت کے نزدیک بہت خاص اہمیت و فضیلت رکھتا ہےاور اس میں اظہار عبودیت اور تقرّب الی اللّٰہ کی زیادہ سے زیادہ کوش کرنے کی ترغیب دلائی جاتی ہے! اعتکاف بھی اسی عشرۂ اخیر کی خصوصیت ہے، جس میں بندہ سراسر اپنے رب کے حضور پیش ہو کر پورے دس دن سرگوشیاں کرتا ہے اور ہر وہ طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے بندگی کا اظہار ہو اور اللّٰہ وحد ٗہ لاشریک کی الوہیت، اس کی ربوبیت اور کبریائی کے سامنے وہ اپنے آپ کو بالکل بے قیمت اور بے حقیقت کرکے پیش کر سکے، یہاں تک کہ رمضان کا آخری دن اس کے لئے رحمت ومغفرت اور سب سے بڑھ کر جہنم کی آگ سے آزادی کی بشارت کا دن ہوتا ہے۔ حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلّم رمضان المبارک کے پورے مہینے میں خوب خوب عبادت و ریاضت کیا کرتے تھے لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں دیگر امور سے اپنی توجہ ہٹا کر خصوصی طور پر عبادت میں لگ جاتے جیسا کہ حضرت عائشہ صدّ یقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں ” کان رسول اللّٰه صلّی اللّٰه تعالیٰ علیه وسلّم یجتھدفی العشر الاواخر مالایجتھدفی غیرھا” نبی کریم صلی اللّٰه علیہ وسلم رمضان المبارک کے عشرۂ اخیرہ میں اتنی محنت فرماتے تھے کہ دوسرے ایّام میں اتنی محنت نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح ایک اور حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی الہ تعالیٰ عنہا سےمروی ہے “کان رسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه وسلّم اذادخل العشراالخیرہ شدّ میزرہ و احی لیله وایقظ اھله” جب ماہ رمضان کا آخری عشرہ آتا تھا تو حضور اقدس صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لیتے تھے، اور رات بھر عبادت کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی عبادت کے لیے جگاتے تھے-( بخاری جلد /۱، صفحہ ۲۷۱،مشکوٰة صفحہ/۱۸۲ )) جب حضور نبئ کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کا معمول رمضان کے عشرۂ اخیرہ میں یہ تھا کہ آپ عبادت و ریاضت کے معاملے میں اس عشرہ کو بڑی اہمیت دیتے تھے جب کہ آپ معصوم عن الخطاء ہیں تو کیا وجہ ہے کہ حضور کی امت کے دلوں میں اس عشرہ کی اہمیت کم ہو؟ اور اس مبارک مہینے کے اس آخری حصے کو ہر حیثیت سے مہتم بالشان نہ سمجھیں؟ اس آخری عشرے میں نہ صرف یہ کہ حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اس کا اہتمام فرماتے تھے بلکہ اپنے ساتھ اپنےاہل وعیال اور متعلّقین کوبھی اس کار خیر میں شریک فرماتے تھے، اور ان کو شب بیداری اور نوافل و عبادات کے اہتمام کے سلسلے میں راتوں کو جگا دیا کرتے تھے -اس عشرہ کے شروع ہوتے ہی آپ تیار ہو جاتے اور مزید محنت و جانفشانی کا سلسلہ شروع ہوجاتا، پوری پوری رات بیداری میں گزارتے، مناجات و استغفار اور دعا ونوافل کی کثرت فرماتے اور صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو بھی اس کی ترغیب دلاتے۔ لہٰذا ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ ہم حضور نبئ کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے رمضان المبارک کے قیمتی لمحات اور اس کی بیش بہاگھڑیوں کوبےکار ضائع نہ ہونے دیں اور خصوصیت کے ساتھ عشرۂ اخیرہ کی اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی رحمتوں وبرکتوں سے بہرہ ور ہونے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو فیضانِ رمضان سے مالامال فرمائے !…آمین-

مسجد پر بھگوا جھنڈا اور ہاتھوں میں دھار دار ہتھیار-از، حسن نوری گونڈوی

*مسجد پر بھگوا جھنڈا اور ہاتھوں میں دھار دار ہتھیار*

میرے پیارے ملک میں آئے دن کچھ شرپسند عناصر نفرت پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم علاقوں میں ریلی نکالنا، مسلح ہو کر نکلنا، گندی گندی گالیاں دینا، مسجدوں پر بھگوا جھنڈے لگانا، مزارات کو منہدم کرنا، مسلم عورتوں کی عصمت دری کی دھمکی دینا، بھڑکاؤ نعرے لگانا شرپسندوں کا محبوب مشغلہ ہے

سوال یہ ہے کہ مسلم علاقوں کی پرمیشن انہیں کیوں دی جاتی ہے؟

دھار دار ہتھیار لے کر ریلی نکالنے کی اجازت کیا پرشاشن دیتی ہے اگر نہیں تو انہیں گرفتار کیوں نہیں کرتی؟

کیا مسلم علاقوں میں بھڑکاؤ نعرے لگانے کی اجازت انہیں دی جاتی ہے اگر نہیں تو لگانے والوں پر اب تک کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟

جب پولیس ریلی میں ساتھ ہوتی ہے پھر بھی جھڑپ کیوں ہوتی ہے؟

مسجدوں پر بھگوا جھنڈا لہرانے پر اب تک پورے ملک میں سیکولر لوگوں نے آواز کیوں نہیں اٹھائ؟

پولس جھنڈا لہرانے والوں کو کیوں گرفتار نہیں کرتی؟؟

اس وقت پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ یہ سوال اٹھائیں👇

کیا ہندو دھرم دوسروں کی عبادت گاہ پر اپنے مخصوص جھنڈے لہرانے کی اجازت دیتا ہے؟

کیا ہندو دھرم مسلح ہو کر دوسرے دھرم والوں کی گلیوں میں جاکر انہیں ہراساں کرنے کی اجازت دیتا ہے؟

کیا ہندو دھرم اجازت دیتا ہے کہ مسلم بہن بیٹیوں کی عصمت دری کی جائے؟

کیا ہندو دھرم کے مطابق بھڑکاؤ نعرے لگانا درست ہے؟

جو لوگ پورے ملک میں دہشت گردی پھیلائے ہوئے ہیں کیا ہندو دھرم کی بنیادی کتابیں اس کی اجازت دیتی ہیں؟

کیا یہ سب دھرم کے مطابق ہو رہا ہے؟؟

ان *سوالات کو معمولی نہ سمجھیں اس کے “ہاں” اور “نا” میں ہزاروں سوالوں کے جوابات موجود ہیں اہل علم اپنے قلم کا رخ اس طرف کریں

*📝حسن نوری گونڈوی

نظم_•°ماں°•_✍️آصف جمیل امجدی انٹینا تھوک، گونڈہ

مجھے معلوم ہی کیا تھا
میں جب مسکراتا تھا تو تو
دکھ اپنا،بھول جاتی تھی
میرا فدکنا آنگن میں
تجھے
خوب بھاتا تھا

مجھے معلوم ہی کیا تھا
مجھے جو جان سے اپنی،
زیادہ
پیار کرتی تھی
میری ضد میری خواہش پر
سبھی قربان کرتی تھی

مجھے معلوم ہی کیا تھا
کہ بچپن میں میں روتا رہتا تھا
تو تو
بے چین ہو جاتی تھی
میری خاطر
مجھ کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا کر پیار کرتی تھی
میری ماں
مجھے بے حد پیار کرتی تھی
مجھے مسکراتا دیکھ کر
دکھ اپنا بھول جاتی تھی

مجھے معلوم ہی کیا تھا
کہ اس کی چوڑیاں
جب ہاتھ میں آنے لگیں میرے
ہاں!
اس کی زلفیں
بھی
جب ہاتھ میں آنے لگیں میرے
تو میں
اسی میں مدہوش
بہلا پھسلا رہتا تھا
جب وہ اک رہنما کی طرح باتیں سننے اور راہ دکھلانے لگی
تو فلک سے
اچانک
فیصلہ کچھ اور آیا
سہارا ٹوٹ گیا
مجھے تنہا سفر پر
زندگی کے چھوڑ گئ
میں اپنا حال دل کس کو سناؤ
کس کے کاندھے پر رکھوں سر کو
میں رونا چاہتا ہوں
ماں کے مجھ سے روٹھ جانے پر
میں رونا چاہتا ہوں
آج اپنی بے بسی پر
بے مروت اس مقدر پر
ہاں!
میں رونا چاہتا ہوں
اور
خوب
رونا چاہتا ہوں

نتیجۂ فکر
✍️آصف جمیل امجدی
انٹینا تھوک، گونڈہ

رحمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام۔۔تبصرہ۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

ابو الشعرا علامہ سید اولاد رسول قدسی کا کلام بعنوان ماہ صیام تبصرے کی میز پر ہے۔آپ کا یہ کلام بہت ہی دیدہ زیب اور پسندیدہ ہے۔ کلام معنویت، پیکر تراشی ،سرشاری و شیفتگی ،فصاحت و بلاغت ،حلاوت و ملاحت ،جذب و کیف ، سوز و گداز ، سلاست و روانی ، حسن کلام ، طرز ادا کا بانکپن ، تشبیہات و استعارات، صنایع لفظی و معنوی اور سہل ممتنع کا نادر نمونہ ہے۔

کلام کا مطلع یوں ہے:

رحمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام
فرحتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

گویا ردیف لمبی ہے:
لیکے آیا ہے ماہ صیام
لمبی ردیف میں شعر کہنا بہت مشکل امر ہے۔
اس کلام میں ردیف کے علاوہ ہر شعر کے ثانی میں صرف قافیہ رہ جاتا ہے ، کسی دوسرے سبب یا وتد کے لیے جگہ نہیں رہتی۔اس کے باوجود علامہ قدسی نے ہر شعر کو بہت عمدگی سے نبھایا ہے اور کلام میں مقناطیسیت پیدا کردی ہے۔

علم عروض
‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلام جس بحر میں کہا گیا ہے اس کے افاعیل ہیں:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
چونکہ مصرع کے آخر میں لفظ صیام ہے اس لیے آخری رکن فاعلان ہوجاتا ہے۔گویا آپ نے کلام میں زحاف ازالہ کا استعمال کیا ہے۔
جیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت کے مشہور زمانہ کلام سلام میں یہ زحاف پایا جاتا ہے۔

مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

ان کے افاعیل یوں ہوئے:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلان

علم قافیہ
۔۔۔۔۔۔۔
علامہ قدسی کے اس کلام میں قوافی یوں ہیں :
رحمتیں، فرحتیں،وسعتیں،برکتیں،رفعتیں وغیرہ۔
ہر قافیہ کے آخر میں یں زائد ہیں ۔لہذا حرف روی بنا ت ۔
اگر کسی بھی شعر میں قافیہ کے طور پر کاغذیں ، کروٹیں قسم کا لفظ لایا گیا ہوتا تو انحراف حرف روی کا عیب در آتا۔
الحمد لللہ شاعر محترم نے ایسے قوافی کا استعمال نہیں کیا ہے، گویا آپ کا کلام عیب در قافیہ سے پاک ہے۔

بلاغت
۔۔۔۔۔۔۔
ہر شعر جملہء خبریہ ہے اور صدق پر مبنی ہے۔ ہر خبر کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت کیا جاسکتا ہے۔
غرض خبر یہ ہے کہ مسلمانوں کو نصیحت کی جائے اور ان کو ماہ رمضان کے روزے ( جو فرض عظیم ہیں) کی اہمیت و افادیت بتا کر روزے رکھنے پر آمادہ کیا جائے۔

بدیع
۔۔۔۔۔۔۔

صنعت تضاد کا حسن ان اشعار میں پایا جاتا ہے:

نفل پڑھ کر ثواب آپ لیں فرض کا
نعمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

بھوک اور پیاس میں نفس سے جنگ کی
قوتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

صنعت تجنیس تام کی رعنائی اس شعر میں جلوہ گر ہے:

قدر اس کی کریں جس قدر ہوسکے
رفعتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر پڑھ کر مجھے اپنا ایک شعر اس صنعت کے قبیل کا یاد آرہا ہے:

ان کے عدو کا حشر برا ہوگا حشر میں
عاشق وہاں اٹھیگا بڑی آب و تاب سے

صنعت اقتباس سے مزین یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:

مژدہ الصوم لی کا سناتا ہوا
حکمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر ایک حدیث قدسی کی روشنی میں کہا گیا ہے۔وہ حدیث یوں ہے:
الصوم لی وانا اجزی بہ
یعنی روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دونگا ۔

صنعت تلمیح سے مزین یہ دو اشعار ملاحظہ فرمائیں:

نفل پڑھ کر ثواب آپ لیں فرض کا
نعمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

فرض کا اجر ستر گنا لیجیے
کثرتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

ان دو اشعار میں ایک مشہور حدیث رسول کے طرف اشارہ ہے اور ان کا مفہوم حدیث سے مستعار ہے۔

کلام میں بصری و شامی پیکر تراشی کا حسن بھی ملاحظہ فرمائیں:

عشق شاہ دوعالم کے گلزار کی
نکہتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

تفہیم
۔۔۔۔۔۔

قرب رب دوعالم کی تحصیل کی
حسرتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

جب ایک روزہ دار شام کو افطار کرتا ہے تو اس کو دو خوشیاں ملتی ہیں ۔ایک روزہ کھولنے کی اور دوسرا قرب خدا کی۔افطار کے وقت اور افطار کی بڑی فضیلت ہے۔افطار کے وقت روزہ دار کی مغفرت ہوجاتی ہے اور اس وقت روزہ داروں کی دعا خصوصیت کے ساتھ قبول کی جاتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
سحری کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ۔

حضرت عمرو بن العاص کہتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق ہے سحری کا کھانا۔اس لیے علامہ قدسی نے کہا:
صرف پانی سہی پھر بھی سحری کرو
رغبتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

اس میں نازل ہوئی قدسی قرآن پاک
عظمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر قرآن کی آیت کی طرف اشارہ کررہا ہے:
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن
یعنی رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔

اس آیت میں قران کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے۔مکمل قرآن کریم شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا اور یہاں سے وقتاً فوقتاً حکمت کے مطابق حضرت جبریل علیہ السلام ، اللہ کے حکم سے زمین تک لاتے رہے اور یہ نزول تئیس سال کے عرصے میں پورا ہوا۔

گویا ہر شعر قابل تعریف ہے۔
خاص طور پر یہ شعر پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا:

سخت گرمی کے موسم میں روزوں کی یہ
لذتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام۔

ایک قوم ایسی بھی تھی کہ اس قوم پر تیس روزے فرض کئے گئے تھے ، لیکن ان لوگوں نے موسم کے اعتبار سے روزے کے مہینے کو تبدیل کیا ۔یعنی اگر روزہ کا مہینہ سردی میں نمودار ہوا تو پورا مہینہ روزہ رکھا ، لیکن اگر گرمی کے موسم میں آیا تو روزوں کو ملتوی کردیا اس وقت تک جب تک کہ سردی کا موسم نہ آجاتا۔

امت محمدیہ کی یہ خاصیت ہے کہ ماہ رمضان کسی بھی موسم میں آئے اسی مہینے میں مسلمان روزہ رکھتا ہے اور مسلمانوں نے پچاس / پچپن ڈگری تمازت میں بھی روزہ رکھا ہے ۔
الحمد لللہ
تبھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں روزہ دار کو خود اجر دونگا ۔گویا اس اجر کی مقدار کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔

اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے :

صائموں کی افضلیت” عینی” اس سے جان لو
اجر ان کو دیتا ہے خود کبریا ماہ صیام

منقبت در شان حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ۔۔از: سید خادم رسول عینی

حیدر کے بعد کس کی خلافت؟ حسن کی ہے
بعد علی ہے کس کی امامت؟ حسن کی ہے

خوشیاں منا کے زیست کو پرنور کیجیے
چاروں طرف ہے نور ، ولادت حسن کی ہے

شفقت ، عطا تھے منسلک ان کی صفات سے
تاریخ میں رقم یوں سخاوت حسن کی ہے

سرکار دوجہاں نے رکھا نام‌ ان کا خود
کس طرح معتبر یہ سعادت حسن کی ہے

ظاہر ہوا یہ چشم محبت پہ دیکھیے
ہر سمت روشنیء ولایت حسن کی ہے

کرتے ہیں ایک پل میں وہ حل مشکلات کا
کس طرح خوب تر یہ ذہانت حسن کی ہے

صلح مبین آپ نے کی قوم کے لیے
دنیا نے دیکھی، دینی سیاست حسن کی ہے

راضی ہیں اس سے شاہ زمن ، راضی ہے خدا
حاصل اگر کسی کو حمایت حسن کی ہے

اصلاح کر رہے ہیں بہت عمدگی کے ساتھ
کس طرح” عینی “نیک یہ عادت حسن کی ہے
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

نعت شہِ عالمین ﷺاز قلم کلیم َرضوی مصباحی پوکھریروی

نعت شہِ عالمین ﷺ

جس کے دل میں آپ کا کلمہ نہیں

اس کا فطرت سے کوئی ناتا نہیں

جو ترا عاشق نہیں شیدا نہیں

آشنائے لذتِ سجدہ نہیں

خوشبوؤں کی بارشیں ہونے لگیں

لب پہ ان کا نام تو آیا نہیں؟

خواب ہے قوسینِ رفعَت پر قیام

ان کے قدموں تک اگر پہونچا نہیں

وہ جو بولیں تو رواں ہو سلسبیل

ایسا پاکیزہ کوئی لہجہ نہیں

مالکِ کُل نے انہیں مالک کیا

ان کے خالی ہاتھ میں پھر کیا نہیں

ان کی باتوں میں ہے نورِ آگہی

رہنما کوئی چراغ ایسا نہیں

دیکھ لو پہلے مدینہ پھر کہو

کیا زمیں پر خلد کا نقشَہ نہیں

کیوں کہیں آنکھوں کوہم روشن چراغ

آنکھوں میں جب گنبدِ خضریٰ نہی

ںہے تصور میں رخِ بدر الدجیٰ

ظلمتِ شَب کا کوئی کھٹکا نہیں

کیوں ہے ہر شامِ تمنَ٘ا دل فریب

ان کی زلفوں کا اگر صدقہ نہیں

زلفِ جاناں کو کرو عنوانِ نعت

فکر کا گلشن ابھی مہکا نہیں

جن کی چوکھٹ سجدہ گاہِ دل ہوئی

کیا وہ میری روح کا قبلہ نہیں؟

تو ہے بے سَایہ مگر میرے رحیم

آخرش کس پر ترا سَایہ نہیں

سائلو ! جو مانگنا ہو مانگ لو

ان کے لَبْہَاۓ کرم پر لَا نہیں

اس کے حصے میں نہیں بلقیسِ خلد

جو سلیمانِ مدینہ کا نہیں

ذرَ٘ہ کیسے ہو گیا انجم مثال

فیضِ صحبت کا اگر جلوہ نہیں

حلَ٘ت و حرمت ہوئی ان کی عیاں

جن کو آقا نے کہا “اچھا، نہیں”

یہ ہے دربارِ کرم ان کا ، یہاں

کوئی بے گانہ بھی بے گانہ نہیں

ان کے زندانِ محبَ٘ت پر نثار

قید میں بھی قیدی یہ بندہ نہیں

لازمی ہے وہ پڑھے قرآن پاک

آئنہ جس نے ترا دیکھا نہیں

علم سے آرائشیں ممکن ہیں کب

تن پہ جب پیراہنِ تقویٰ نہیں

وہ کرم فرمائیں تو میں بھی کہوں “

میرا حصہ دور کا جلوہ نہیں

رہتی ہے “یوحیٰ” پہ بھی میری نظر

اپنے جیسا ان کو میں کہتا نہیں

پی رہے ہیں ان کے عاشق واہ واہ

ہاتھ میں مینا نہیں بادہ نہیں

جنتِ یاد نبی ہے ! کیوں کہوں

دل مدینہ طیبہ میرا نہیں

تشنگی تیرا نصیبہ نجدیا

زمزمِ مدحت ترا حصہ نہیں

ہےمعجزہ ہے ان کے فضلِ خاص کا

“بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں”

“زندگی، ان کی محبت، ہے کلیم

جو محِب ان کا نہیں ، زندہ نہیں

از قلم کلیم َرضوی مصباحی پوکھریروی

لفظ رمضان کی تحقیق۔۔از: سید خادم رسول عینی

لفظ رمضان کی تحقیق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الحمد للہ ماہ رمضان بحسن و خوبی رواں دواں ہے۔اسی اثنا میں ماہ رمضان کی اہمیت اور روزے کی افادیت پر کئی مقالے نظر نواز ہوئے، جنھیں پڑھ کر ہماری معلومات میں اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی ساتھ بہت سارے شعرائے کرام کی نظمیں بعنوان ماہ رمضان/ ماہ صیام دستیاب ہوئیں اور ان کے مطالعہ کا شرف حاصل ہوا، روح کو تسکین ملی۔ماہ نامہ فیض الرسول براؤن شریف کے ماہ رمضان خصوصی شمارے میں حضرت علامہ علی احمد رضوی بلرام پوری کی نظم بعنوان” رمضان آگیا ہے” پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔اس کلام کے چند اشعار نذر قارئین ہیں :
ہوئے مشک بو گلستاں رمضان آگیا ہے
کہ مہک رہی ہیں کلیاں رمضان آگیا ہے

چھٹے ظلمتوں کے بادل ہوئی رحمتوں کی بارش
ہوئے خوش سبھی مسلماں رمضان آگیا ہے۔

اس کلام کے افاعیل یوں ہیں:
فعلات فاعلاتن فَعِلات فاعلاتن
مصرع تقطیع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر محترم نے رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے اور یہی درست ہے۔
جب کہ چند شعرا نے رمضان کے میم کو ساکن باندھا ۔
کیا ساکن باندھنا بھی درست ہے ؟اس کا جواب جاننے کے لیے آئیے پہلے لفظ رمضان پر صرفی نگاہ ڈالتے ہیں۔

کسی لفظ کا درست تلفظ جاننے کے لیے پہلے سمجھنا ہے کہ لفظ کا مادہ کیا ہے۔

“عربی زبان میں رمضان کا مادہ رَمَضٌ ہے، جس کا معنی سخت گرمی ہے۔رمضان کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس ماہ میں سورج کی گرمی کے سبب پتھر وغیرہ سخت گرم ہوجاتے ہیں جس سے اونٹوں کے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔چونکہ اس مہینہ میں سورج کی گرمی کی شدت کی وجہ سے ریت اور پتھر وغیرہ اس قدر سخت گرم ہوجاتے تھے کہ ان پر چلنے والوں کے پاؤں جلنے لگتے تھے اس وجہ سے عربوں نے لغت قدیمہ میں اس مہینہ کا نام رمضان رکھ دیا، یعنی پاؤں جلادینے والا مہینہ۔
رمضان کی اک اور وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ مہینہ، اللہ تعالیٰ کی رحمت، بخشش اور مغفرت کی کثرت کی وجہ سے (مسلمانوں کے) گناہوں کو جلا کر ختم کر دیتاہے۔

لفظ “رمضان”بروزن۔ “فَعِلان” رمض کا مصدر ہے اور یہ باب ‘سمع’ کے ثلاثی مجرد سے ماخوذ ہے۔
لفظ “رمضان” گرچہ مصدر ہے تاہم اسم علم کے طور پر مستعمل ہوتا ہے۔

رمضان کے مادہ رَمَضٌ پر غور کریں ۔میم مفتوح ہے یعنی علم عروض کی زبان میں میم متحرک ھے۔اگر رمض کا میم متحرک ہے تو رمضان کا میم بھی متحرک ہونا چاہیے۔

اب آئیے قرآن کی طرف رخ کرتے ہیں ۔
رمضان تنہا وہ مہینہ ہے جس کا نام قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے۔سورہء بقرہ میں ہے:
“شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ

ترجمہ: ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔
مندرجہ بالا قرآنی آیت میں رمضان کا میم متحرک ہے۔
تو پھر شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے کیوں کہ قرآن صریح طور پر ہماری رہنمائی کررہا ہے کہ رمضان کا میم متحرک ہے۔

اب آئیے کلام رضا میں لفظ رمضان کو ڈھونڈتے ہیں۔ شاید اعلیٰ حضرت نے اپنے کسی شعر میں لفظ رمضان کا استعمال کیا ہو ۔اعلی’ حضرت کے ایک نعتیہ کلام میں مطلع یوں نظر آیا :

شور مہ نو سن کر تجھ تک میں دواں آیا
ساقی میں ترے صدقے مے دے رمضاں آیا

اس کلام کے افاعیل یوں ہیں:
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
مصرع کی تقطیع کرنے پر یہ پتہ چلتا ہے کہ سرکار اعلیٰ حضرت نے بھی رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے۔تو پھر دور حاضر کے شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے۔ اردو شاعری میں سرکار اعلیٰ حضرت سے بڑھ کر استاد کون ہوسکتا ہے؟ حدائق بخشش سے بہتر رہنمائی کون کرسکتا ہے؟

صرف لفظ رمضان نہیں ، بلکہ سرکار اعلیٰ حضرت نے جہاں بھی صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے وہاں قرآن کے الفاظ کو اسی وزن پر باندھا ہے جس وزن پر قرآن میں مرقوم ہے۔مثلا”:
لیلۃالقدر میں مطلع الفجر حق
مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام

فاذا فرغت فانصب یہ ملا ہے تم‌ کو منصب
جو گدا بنا چکے اب‌اٹھو وقت بخشش آیا کرو قسمت عطایا

والی الالہ فارغب کرو عرض سب کے مطلب
کہ تمھی کو تکتے ہیں سب کرو ان پہ اپنا سایہ بنو شافع خطایا

ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا

انت فیہم نے عدو کو بھی لیا دامن‌‌میں
عیش جاوید مبارک تجھے شیدایی دوست

غنچے ما اوحی’ کے جو چٹکے دنی’ کے باغ میں
بلبل سدرہ تک ان کی بو سے بھی محرم نہیں

ایسا امی کس لیے منت کش استاد ہو
کیا کفایت اس کو اقرأ ربک الاکرم نہیں ؟

مجرم بلائے آئے ہیں جاءوک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

مومن‌ ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

ان پر کتاب اتری بیانا لکل شیء
تفصیل جس میں ما عبر و ما غبر کی ہے

ک گیسو ہ دہن ی’ ابرو آنکھیں ع ص
کھیعص ان کا ہے چہرہ نور کا

اب آئیے دیکھتے ہیں اردو کے دیگر اساتذہ نے لفظ رمضان کا کس انداز سے استعمال کیا ہے۔

اسماعیل میرٹھی کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
جمعہء آخر ماہ رمضاں ہے افضل
یوں تو جس وقت میں ہو بذل و نوال اچھا ہے
اس شعر میں اسماعیل میرٹھی نے بھی لفظ رمضان کو میم متحرک باندھا ہے۔

ریاض شفیق کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
اے ہلال رمضاں توڑ غریبوں کی نہ آس
بھوکے پیاسوں کی بجھاتا ہے کوءی بھوک نہ پیاس
اس میں بھی رمضان کا میم متحرک ہے۔

رشک کا شعر دیکھیں:
عید ہر روز مناتے جو بگڑتا ہو فلک
ایک روزے سے ہیں ماہ رمضان میں ہم تم
اس شعر میں بھی رمضان کا میم متحرک ہے۔

اردو شاعری کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ نے بھی رمضان کے میم کو متحرک باندھا ہے۔ان کی مشہور نظم عید رمضان سے ماخوذ یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
خوشی شب رات کی ہور عید رمضاں کا خوش نت نت
اے دونوں عیدا کیاں خوشیاں خدا تج کوں سدا دیتا

اتنے سارے حوالہ جات دیکھ کے بھی کیا آپ کو یہ نہیں لگتا کہ دور حاضر کے شاعر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شعر میں لفظ رمضان کے میم کو متحرک باندھے؟

اب آئیے لغت کی طرف چلتے ہیں۔فرہنگ آصفیہ میں رمضان کے میم کو مفتوح لکھا ہے۔فیروز اللغات میں بھی رمضان کے میم‌ کو مفتوح لکھا ہے۔پھر بھی آپ کہیں گے کہ رمضان کا میم ساکن درست ہے ؟

اب آئیے علم عروض کی طرف رخ کرتے ہیں۔
لفظ رمضان دو اسباب کا مجموعہ ہے۔رمَ اور ضان۔
رمَ ، سببِ ثقیل ہے ، ضان سبب متوسط ہے ، اور یہ بات جائز نہیں کہ سببِ ثقیل کا کوئی حرف ساکن کردیں۔

بعض لفظوں کے تلفظ میں اساتذہ نے چھوٹ دی ہے جیسا کہ کلمہ کی لام کو ساکن کرنا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ کلمہ کی ہ کو جب ساقط کرتے ہیں تو تین حرف پے در پے متحرک آتے ہیں جسے ثقل سمجھا گیا ہے ، اس لیے کلمہ میں لام کی تسکین روا سمجھی گئی ہے ۔
جبکہ رمضان میں کوئی حرف ساقط نہیں ہوتا کہ جس کے سبب بقیہ کلمہ کو ثقل سمجھا جاے ۔
اس لیے اساتذہ نے رمضان کے م کو ساکن نہیں باندھا۔

مندرجہ بالا پوائنٹس سے یہ نتیجہ نکلا کہ رمضان کا میم متحرک ہی درست ہے۔

کسی کی بات مانیں یا نہ مانیں قرآن کی تو مانیں۔
مثال کے طور پر:
لفظ قرآن کا درست وزن کیا ہے ؟
مفعول۔
کیونکہ یہ قرآن نے سکھایا ہے۔
الرحمان
علم القرآن
لیکن میر تقی میر نے قرآن کو ایک شعر میں فعول کے وزن پر باندھا ، مثلا”:
مت مانیو کہ ہوگا یہ بے درد اہل دیں
گر آوے شیخ پہن کے جامہ قرآن کا

لیکن ہم نے میر کو نہیں مانا ۔
قرآن کو مانا ۔
لفظ قرآن کو مفعول کے وزن پر باندھا ۔

یہی کیفیت لفظ رمضان کے ساتھ ہے۔
ہم قرآن کو مانیں گے۔ کسی اور کی متضاد رائے کو قبول نہیں کریں گے۔