WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

*ماہ رمضان میں عورتوں کےمخصوص مسائل===قسط دوم-منجانب-شرعی عدالت دارالفکر بہراٸچ۔از-احمدرضا قادری۔منظری ۔استاذ۔المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ۔۔۔یکم۔رمضان المبارک ١٤٤٢ھ

۔=== 👈حیض و نفاس کے دنوں میں عورت کے لیے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے‘البتہ ان روزوں کی قضا فرض ہے۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥۔)

===👈 اگر کسی عورت کو روزہ کے دورانmenses (حیض) شروع ہوجائے تو اس کا روزہ ختم ہوجاتا ہے اور اس کی قضا اس پر لازم ہے۔(بہارے شریعت۔ص ١١٠۔)

=== 👈حاملہ عورت کو روزہ رکھنے کی وجہ سے اپنی یا اپنے بچے کی جان کا خطرہ ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے ‘لیکن بعد میں ان روزوں کی قضا لازم ہےاھ۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥۔ص ١٠٩۔)

===…👈 اسی طرح اگردودھ پلانے والی عورت کا روزہ رکھنے کی وجہ سے دودھ کم ہوجاتا ہے اور بچے کا پیٹ نہیں بھرتا تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے‘لیکن بعد میں قضا لازم ہے۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥ ص ١٠٩۔)

===👈… اگر عورت مندرجہ بالاکسی عذر کی بنا پرروزہ نہیں رکھتی تب بھی اُس کے لیے مستحب ہے کہ وہ روزہ دار کی طرح رہے اور کسی کے سامنے کھانے پینے سے پرہیز کرے۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥۔ص ١١٠۔)

===👈 اگر عورت کو سالن چکھنے کی ضرورت پیش آئے تو وہ ایسا کرسکتی ہے، لیکن ایسا کرنا کسی مجبوری کی بنا پر جائز ہے اور بغیر کسی مجبوری کے ایسا کرنا مکروہ ہے، نیز صرف سالن چکھ سکتی ہے اگر سالن یا اس کا ذائقہ حلق میں چلا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔اھ۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥ ص ١٠٤۔)

===👈… اسی طرح مجبوری میں عورت اپنے بچے کو کھانے کی کوئی چیز چبا کر دے سکتی ہے‘لیکن اگر اس نے اتنا چبایا کہ اس چیز کا ذائقہ حلق میں محسوس ہوا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔(بہارے شریعت۔حصہ ٥۔ص ١٠٥۔)

===👈۔عورت اگر نفل روزہ رکھنا چاہتی ہے تو وہ اپنے خاوند سے اجازت لے اور اگر وہ بغیر اجازت کے نفل روزہ رکھتی ہے اور اس کاخاوند اعتراض کرتا ہے تو اس کو چاہیے کہ اس نفلی روزہ کو توڑ دے اور بعد میں اس کی اجازت سے قضا کرے،رمضان کے روزے چوں کہ فرض ہیں، اس لیے ان میں اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔(درمختار۔ج دوم ص ١٦٧۔بہارےشریعت۔حصہ پنجم ص ١١٢۔)

واللہ تعالی اعلم۔

رمضان المبارک کے مسائل:قسط اول-منجانب۔شرعی عدالت دارالفکر گروپ۔بہراٸچ شریف۔یو۔پی۔از :احمدرضا قادری۔منظری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر ۔درگاہ روڈ بہراٸچ شریف۔

مسئلہ: افطارکرنے کی دعا افطارکے بعدپڑھنا سنت ہے قبل افطار نہیں۔(فتاوی رضویہ ج۴ص۶۵۱)

مسئلہ: روزہ کی حالت میں انار اور بانس کی لکڑی کے علاوہ ہر کڑوی لکڑی کی ہی مسواک بہتر ہے۔(ردالمحتار ج ۱ص۲۳۵)

مسئلہ: گلوز کا ڈراپ یا طاقت کا انجکشن لگوانے سے روزہ فاسد نہ ہو گا اگر چہ بھوک پیاس ختم ہو جائے،ہاں اگر بھوک پیاس سے بچنے کے لئے ایسا کرے تو مکروہ ہے۔(مستفاداز فتاوی ہندیہ ج۱ص۲۰۳)

مسئلہ: روزہ کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔(مستفادازشامی ج۲ص۳۹۵)

مسئلہ: بغیرسحری کے روزہ رکھنا جائز ہے۔(فتاوی فیض الرسول ج۱ص۵۱۳)

مسئلہ: روزه کی حالت میں عطر لگانا،پھول سونگھنا،سرمہ لگانا، تیل لگانا،بال ترشوانا،موئے زیر ناف مونڈنا،بام لگانا،ویسلین یاکریم لگانا،تیل کی مالش کرنا یہ سب جائز ہیں ان سب چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔(فتاوی مرکزی دارالافتاء بریلی شریف ص۳۵۸)

مسئلہ: سورج ڈوبنے کے بعدبلا تاخیر فوراً افطار کریں،اذان کا انتظار نہ کریں۔(فتاوی فیض الرسول ج۱ص۵۱۴)

مسئلہ: ماہ رمضان کی راتوں میں بیوی سے ہمبستری کرنا جائز ہے۔(قرآن مجیدپ۲ رکوع۷)

مسئلہ: روزہ رکھنے کے لئے حائضہ عورت اگر ٹیبلیٹ کا استعمال کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے البتہ اس کا یہ فعل جائز نہیں کہ بہت ساری بیماریوں کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔(مستفاد از ہدایہ اولین ص۶۳)

مسئلہ: روزہ کی حالت میں غسل کرنے یا احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔(بہار شریعت وغیرہ)

مسئلہ: عید ،بقرعیداورایام تشریق۱۱،۱۲،۱۳، ذی الحجہ کو روزہ رکھناحرام ہے۔(بہار شریعت ح۵ص۱۴۲)

مسئلہ: جو شخص روزہ نہ رکھے اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے کیونکہ صدقہ فطر کے وجوب کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں۔(شامی ج۲ص۷۶)

مسئلہ: ادائے رمضان کا روزہ اور نذر معین ونفلی روزہ کی نیت رات سے کرناضروری نہیں اگر ضحوۂ کبری یعنی دوپہر سے پہلے نیت کرلی تب بھی یہ روزے ہو جائیں گے اور ان تینوں روزوں کے علاوہ قضائے رمضان نذر غیر معین اور نفل کی قضا وغیرہ روزوں کی نیت عین اجالا شروع ہونے کے وقت یارات میں کرنا ضروری ہے ان میں سے کسی روزہ کی نیت اگر دس بجے دن میں کی تو وہ روزہ نہ ہوا(عالمگیری ج۱ص۱۳۸)

مسئلہ: حالت جنابت میں روزہ درست ہے۔اس سے روزے میں کوئی نقص وخلل نہیں آئے گا کہ طہارت باجماع ائمہ اربعہ شرط صوم نہیں ہے البتہ وہ شخص نمازیں قصدا چھوڑنے کے سبب اشد گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو گا۔(فتاوی رضویہ ج۴ ص۶۱۵)

واللہ تعالی اعلم۔

اسلام کا مقدس مہینہ ہوا ہم سب پر سایہ فگن ۔۔۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

پریس ریلیز {مہراج گنج}آج ٢ \اپریل سن ٢٠٢٢ء ۔مطابق ٢٩ \شعبان المعظم سن١٤٤٣ ھ کی شام افق غربی پر ہلال رمضا ن کی رویت ہوتے ہی اسلام کا مقدس مہینہ ہم سب پر سایہ فگن ہوگیا۔مسرت وشادمانی کے نور سے ہر دل منور ہوگیا ۔لذت سجود کے پاکیزہ خیال سے جبین نیاز بارگاہ الہی میں خم ہونے لگے،بھوک وپیاس کی شدت برداشت کرنے میں تقوی شعاری،وپرہیز گاری کا ربانی وعدہ ذہن وفکر کے دروازے پر دستک دینے لگا۔یکا یک انتییس شعبان شریف کی وہ حدیث پاک زبا ں زد ہونے لگی جسے آقاۓ نعمت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابئہ کرام کی محفل میں بیان فرمائ اور رمضا ن شریف اور روزے کی مکمل فضیلت واہمیت جاگزین قلب وجگر فرمادی۔راوئ حدیث حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انتیسویں شعبان شریف کو فرمایا ،اے لوگو تم پر ایک ایساعظیم،بابرکت مہینہ سایہ فگن ہورہاہے ،جس میں ایک ایسی مبارک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے،اللہ تعالی نے اس ماہ کے روزے فرض ،اور رات کو تراویح کی نماز نفل{سنت}قرار دیۓ ۔جو اس ماہ میں کوئ نفل عبادت کرے تو وہ ایسی ہے گویا اس نے دوسرے ماہ میں فرض ادا کۓ۔اور جس نے اس ماہ میں فرض ادا کۓ تو وہ دوسرے ماہ کے ستر فرض کے برابر ہے۔ یہ{رمضان} ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق{روزی} بڑھا دیا جاتاہے، یہ صبر کا مہینہ ہے،اور صبر کا ثواب جنت ہے،صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہے ۔اور صبر کرنے والوں کو بے حساب دیا جاۓگا۔جو اس ماہ میں کسی روزے دار کو افطار کراۓتو یہ افطار کرانا ان کےلۓ گناہوں سےبخشش کاسامان اور جہنم سے آزادی کا پروانہ ہوجاۓ گا۔مگر روزہ دار کے ثواب میں کوئ کمی نہ کی جاۓگی۔اور افطار کرانے والے کو اس کے علاوہ ثواب دیا جاۓگا۔صحابئہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ !ہم میں سے ہر شخص اس کی استطاعت{طاقت} نہیں رکھتا ۔بوجہ غربت کسی کو افطار نہیں کراسکتا تو کیاوہ اس ثواب سے محروم رہے گا ،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالی اسے بھی یہ ثواب دےگا جو کسی روزہ دار کو ایک گھونٹ دودھ ۔یا ۔ایک چھوہارہ ۔یا۔پانی سےہی افطار کرادے۔جو اس ماہ میں کسی روزہ دار کو شکم سیر {پیٹ بھر}افطار کراۓ تواللہ تبارک و تعالی اسے میرے حوض سے ایک ایسا شربت پلاۓگا کہ کبھی پیاسانہ ہوگا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجاۓگا۔اس ماہ کا اول عشرہ رحمت ،درمیانی عشرہ مغفرت{بخشش}اورآخری عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے۔جو اس ماہ رمضان میں کسی ماتحت ملاز م پر کام میں تخفیف{نرمی}کرےگا تواللہ اسے بخش دےگااور اسے جہنم سے آزاد کردے گا۔رمضان کی فضیلت واہمیت سے متعلق مذکورہ باتیں دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی کے استاذ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی نے ایک پریس ریلیز میں کہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم سب اس ماہ مبار ک کا احترام بجا لاکر رضاۓ الہی کے طلب گار بنیں ۔اور دارین کی سعادتوں سے بہرہ مند ہوں۔

رمضان ریزولیوشن–ڈاکٹر محمد رضا المصطفی

1۔ جس طرح گھروں میں مہمانوں کی آمد سے قبل صفائی ستھرائی کا انتظام ہوتا ہے، اسی طرح رمضان المبارک جو اللہ تعالی کا خاص الخاص مہمان مہینہ ہے، اس کی آمد سے پہلے اپنے دل و دماغ کو صاف ستھرا کرلیں ۔دوسرے مسلمانوں کی کدورت، بغض، کینہ اور حسد سے اپنے دل کو صاف کرلیں۔اللہ تعالی سے عفو وبخشش حاصل کرنے کے لئے دوسروں کے قصور معاف کر دیں ،ان کی خطاؤں کو بخش دیں ۔اپنے دل کو اجلا، صاف ستھرا کرلیں ،تاکہ اس میں رمضان کا نور داخل ہو سکے۔ 2۔رمضان المبارک کی چیک لسٹ بنالیں ۔روزانہ کی بنیادوں پر اس کو چیک کرتے رہیں، کہ آج نماز پنجگانہ باجماعت ادا کی ،؟تلاوت قرآن کا مقررہ ہدف پورا کیا،؟درود پاک مقرر کردہ پڑھا ؟اللہ تعالی کی راہ میں صدقہ و خیرات کیا۔؟ مسنون دعائیں مانگیں؟ اپنی زبان نظر اور دیگر اعضاء کی حفاظت کی؟ وغیرہ وغیرہ۔اپنی شخصیت کا ناقدانہ جائزہ لینے سے آپ کے اعمال اور کردار میں سنوار اور نکھار پیدا ہوگا۔3۔ رمضان المبارک کی ہر گھڑی ہر ساعت ہی رحمت برکت سے مالا مال ہے مگر دو اوقات کی خصوصی طور پر حفاظت کریں۔ سحری اور افطاری ۔یہ دعاؤں کی قبولیت کے لمحات ہوتے ہیں ۔رحمتوں کی برکھا مسلسل برس رہی ہوتی ہے ،ان اوقات کو ٹی وی یا موبائل فون کی سکرینوں کے سامنے ضائع نہ کریں۔بد قسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت ڈیوائسز اور موبائل فون پر بابرکت اور مقدس گھڑیاں ضائع کر دیتی ہیں ۔ان اوقات میں اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں مناجات، دعائیں مانگ کر دنیا اور آخرت کی سعادتیں حاصل کریں ۔درود شریف کی کثرت کریں۔استغفار ،تسبحیات زیادہ سے زیادہ پڑھیں۔4. بوقت سحر و افطار آسمانوں کے دروازے کھلے ہوئے ہوتے ہیں اللہ تبارک و تعالی کی رحمت بندے کی طرف متوجہ ہوتی ہے وقت افطار مزدور کو اجرت ملنے کا وقت ہوتا ہے دعاؤں کی قبولیت کی گھڑیوں کو ہم کھانے پینے میں گزار دیتے ہیں، نہ دعاؤں کا ہوش نہ اللہ سے مانگنے کی طلب سارا سال کھاتے پیتے رہتے ہیں کوشش کریں جی بھر کے دعائیں مانگیں۔گھروں میں خواتین اسلام بھی اس وقت صفائی ستھرائی،برتنوں کی دھلائی کو مؤخر کر کے دعاؤں اور مناجات میں مصروف ہو جائیں ۔یہ بابرکت اوقات گزار کر بعد میں اپنے امور خانہ داری سرانجام دے لیں۔5. اپنی دعاؤں کی لسٹ بنا لیں . اپنے لیے اپنے والدین کے لیے ،بیوی بچوں کے لئے، دوست احباب عزیر و اقارب دنیا اور آخرت کے لئے جی بھر کے دعائیں مانگیں آپ کو جو ضرورت تمنا اور حاجت ہے اپنے رب سے کیا شرم؟ جو جو مسئلہ ہے جی بھر کے مانگیں اللہ کی بارگاہ میں آنسو بہائیں ،اپنے مالک و مولیٰ سے چھوٹی سے چھوٹی حاجت اور بڑے سے بڑا سوال کریں ۔کوئی شے نا ممکن ھے تو ھمارے لحاظ سے ہے اللہ تعالی کے لیے کوئی شے ناممکن نہیں۔اور نہ ہی معاذ اللہ اس پر کوئی اور خدا مسلط ہے جو اس کو دینے سے روک دے گا ۔اللہ تبارک و تعالی ایسا کریم ہے، جس سے نہ مانگو تو ناراض ہو جاتا ہے۔6۔مسلمانوں کے اکثریت رمضان المبارک کو کھانے کھابے اور چٹ پٹی، مرغن غذاؤں کا مہینہ بنا کے رکھتی ہے ۔روزہ رکھتے ہیں تو فورا افطاری کو یاد کرکے اس کے کھانے ،لذیذ ڈشوں کی دھن ذہن پر سوار ہوتی ہے، اور افطاری کے بعد سحری کا پروگرام ذہن میں سمایا ہوتا ہے ،کوشش کریں کہ رمضان المبارک میں سادہ غذا کھائیں۔تاکہ نفس کی کی امارگی کا زور ٹوٹے ۔ کھانے کا معیار اور مقدار کم کریں۔ ۔اپنی عبادت کا معیار اور اس کی مقدار کو بڑھائیں ۔7. صوفیہ صافیہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک بندہ زیادہ نفل اور دیگر اورادووظائف نہیں پڑھ سکتا ،تو اس کو چاہیے کہ رمضان المبارک میں زیادہ صدقہ و خیرات کرے ۔اپنے آپ کو مشقت اور جبر میں ڈال کر اللہ تعالی کی راہ میں مال خرچ کرے۔ زیادہ سخاوت کرنے کی کوشش کرے اس سے اس کی روح کو تزکیہ و طہارت کی وہ منازل نصیب ہوں گی جو بڑی بڑی عبادات کا ثمر ہوتی ہیں ۔ 8. جس طرح کمرے کا اے سی چلا ہوا ہو، ایئر کنڈیشنر کی ٹھنڈک اسی وقت محسوس ہوتی ہے ،جب تمام کھڑکیاں ،دروازے بند ہو ں، اگر آپ روزے کی لذت اور عبادت کا سرور اپنی روح میں محسوس کرنا چاہتے ہیں تو اپنی زبان ، نظر ، اور کانوں کی حفاظت کریں ۔سوشل میڈیا کو بالکل محدود یا استعمال ہی مت کریں۔غیر ضروری اور گناہ والے گروپوں سے ریموو ہو جائیں ۔ایسے پیج ان لائک کر دیں جس سے بندہ گناہوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔ غیر محرم عورتوں کو دیکھنا عبادت الٰہی کے چراغ کو بجھا دیتا ہے۔اپنے آپ کو جتنا پابند کریں گے انشاء اللہ تعالی عبادت کی اتنی ہی لذت اور برکت محسوس کریں گے۔9. ہمارے گھروں میں ایک بہت برا روا ج ہے کہ ،مہمان کے جانے کے بعد اس کی غیبت اور بدخوئی کرتے ہیں۔اس کے اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے پر تبصرے۔ ہم مہمان نوازی اور افطار پارٹی بھی کرتے ہیں، لیکن غیبت اور بدگوئی کر کے اپنی نیکی ضائع بھی کر دیتے ہیں ۔کوشش کریں کہ کسی مسلمان کی بھی غیبت نہ ہو اور بالخصوص مہمانوں کے چلے جانے کے بعد ان پر تبصرہ نہ نہ کیا جائے اگر ان کا ذکر کرنا ہے تو ان کی خوبیاں بیان کی جائیں ،ان کے عیبوں کی پردہ پوشی کی جائے، شاید اللہ تبارک و تعالی میدان محشر میں ہمارے عیبوں پر پردہ ڈال دے۔9. سحری اور افطاری میں بچوں کو اپنے ساتھ رکھیں ان کو مسنون دعائیں سکھائیں ،دعائیں مانگنا سکھائیں، نماز کیلئے مسجد میں لے جائیں ،کھانے کے دسترخوان پر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنتیں ،حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے واقعات قرآنی واقعات سنائیں ۔انشاء اللہ تعالی یہ عمل بڑا بابرکت ثابت ہوگا۔10۔مسلمانوں کی ایک خاطر خواہ تعداد رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھنے، تسبیحات پڑھنے اور قرآن کریم کے زیادہ سے زیادہ ختم پڑھنے میں مشغول ہوتی ہے۔قرآن کریم زیادہ پڑھیں لیکن حسن تلفظ، ترتیل اور تفکر و تدبر کی رعایت کے ساتھ ،نوافل اور ذکر و اذکار بھی دلجمعی اور ذوق و شوق کے ساتھ کریں۔اللہ تبارک و تعالی کو ہماری گنتی کی حاجت نہیں ۔اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں اخلاص و للہیت، نیت کی پاکیزگی اور ذوق شوق اور طلب حق دیکھی جاتی ہے۔11.قرآن پاک کو دو طرح سے پڑھا جا سکتا ہے ایک طریقہ بطور ذکر کے ۔جس میں قرآن کریم کو اللہ تعالی کا ذکر شمار کرتے ہوئے پڑھتے جائیں ۔اس تصور سے پڑھنا کہ یہ وہ الفاظ ہیں جو میرے آقا مصطفی کریم علیہ الصلاۃ و السلام کی زبان اقدس سے ادا ہوئے ہیں۔یہ تصور روح کو لطف دے گا ۔دوسرا طریقہ قرآن کریم کو غور و فکر اور تدبر سے پڑھنا یہ چیز بھی ایمان میں حلاوت و اضافے کا سبب بنتی ہے۔کوشش کریں دونوں طریقوں سے تلاوت قرآن مجید ہو۔اگر جاب یا نوکری کی نوعیت ایسی ہے کہ زیادہ تلاوت ممکن نہیں تو کوشش کریں تلاوت قرآن مجید سن لیں اپنی نوکری جاب پر جاتے ہوئے ہینڈ فری لگا کر قرآن مجید کے ترجمے کو سنتے جائیں اور اس کی برکتوں سے اپنا دامن سمیٹتے جائیں۔12. برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی ایک عجب روش ہے حج اور عمرہ پر جانے کا بڑا ذوق و شوق اور جوش و جذبہ ہوتا ہے بھرپور تیاری کرتے ہیں جب مکہ مدینہ پہنچ جاتے ہیں تو ایک عمرہ کے بعد وہاں پر سیروتفریح اور کھانے کھابے ،یاروں دوستوں کے محافل شروع ہو جاتی ہیں سارا جوش و جذبہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے یہی حال رمضان شریف کا ہوتا ہے لوگ شروع میں بڑی تیاری کرتے ہیں لیکن پہلے دو تین روزے کے رکھنے بعد سارا جوش و جذبہ ختم ہو جاتا ہے، اور سابقہ روٹین کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ رمضان المبارک پاک عادات و کردار میں انقلابی تبدیلی لانے کا مہینہ ہے ۔اللہ تعالی کرے کہ ہماری بد عادتیں، نیک خصلتوں میں تبدیل ہو جائیں، اور ہمیں رمضان المبارک کی حقیقی قدر اور برکت نصیب ہو جائے۔13. رمضان المبارک کا آخری عشرہ جو خصوصی انعام و اکرام اور جہنم سے ازادی کا عشرہ ہے یہ عشرہ بھی بازاروں کی شاپنگ کی نذر ہو جاتا ہے ۔کوشش فرمایا کریں کہ رمضان سے پہلے ہی شاپنگ کرلی جائے ،رمضان المبارک میں بازار کم سے کم جایا جائے تاکہ اس کی برکتیں اور رحمتیں زیادہ سے زیادہ سمیٹی جا سکیں ۔14۔رمضان المبارک میں کیے گئے اعمال کے پورے سال پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جس کا رمضان نیکی ،تقو ی اور باطنی طہارت میں گزرتا ہے، اس کے سال کے باقی گیارہ ماہ بھی خیر اور نیکی کے کاموں میں گزرتے ہیں ۔اور جو بدنصیب اس ماہ مکرم کوگناہوں اور غفلت میں گزارتا ہے سال کے باقی ایام میں بھی عبادت الہی سے محروم رہتا ہے ۔15. غریب دکاندار سے مہنگا سودا خرید لینا،اپنے ماتحت ملازم کو اس کی تنخواہ ذیادہ دے دینا ۔سفید پوش مسلمان کو عید کے لئے جوتے کپڑے لینا ،کسی کا قرض ادا کر دینا کسی کی دلجوئی کر دینا بلاشبہ اعلی درجہ کا صدقہ ہے ۔اپنے ملازمین سے حسن سلوک کرنا اور ان کے کام میں تخفیف کر دینا۔مغفرت دلانے کے اسباب میں سے ہے۔اللہ تعالی ہم کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ حقیقت یہ ہے کہ رمضان المبارک مہمان نہیں مہمان ہم ہیں کیونکہ رمضان المبارک نے قیامت تک آتے رہنا ہے مگر ہم کو نہیں پتا کہ اگلے سال ہم زندہ رہیں گے یا نہیں ؟ بے شمار ایسے لوگ تھے جو پچھلے رمضان میں ہمارے ساتھ تھے، اس سال ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ اس لئے اس رمضان کو اپنی زندگی کا آخری رمضان سمجھ کر اپنے رب کو راضی کرنے کی انتہائی حد تک کوشش کریں ۔ اللہ تبارک وتعالی ان باتوں پر مجھے اور تمام پڑھنے والوں کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔یہ ایک حقیر سی کوشش کی گئی ہے رمضان المبارک کو مؤثر اور زیادہ نفع بخش بنانے کی ۔اللہ تعالی میری اس تحریر کو میری آخرت کی نجات کا سبب بنائے ۔ڈاکٹر محمد رضا المصطفی قادری کڑیانوالہ گجرات۔02-04-2022۔ہفتہ 00923444650892واٹس اپ نمبر

ماہ رمضان خیروبرکت اور نیکیوں ورحمتوں کاموسم بہار– از:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحی–ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر(راجستھان

بلا شبہ ماہ رمضان المبارک اہل ایمان کے لیے بڑاہی بابرکت اور رحمتوں بھرا مہینہ ہے۔یہ ماہ عظیم نیکیوں کا موسم اور خیروبرکت سمیٹنے کا مہینہ ہے، اس ماہ معظم میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ نیکیوں کے ثواب میں اور دنوں کی بہ نسبت اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے پاپی بھی اس موسمِ رحمت میں خدا کی طرف رجوع کر کے اپنے دامنِ مراد کو بھرتے نظر آتے ہیں۔ نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے، مساجد کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔ قرآن پاک پڑھنے اور سننے کا ماحول بن جاتا ہے۔ سروں پر ٹوپیاں بھی نظر آنے لگتی ہیں۔ صدقہ و خیرات کا بھی دور دورہ ہو جاتا ہے۔ اپنے غریب و محتاج بھائیوں کے ساتھ غم گساری کا جذبہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اہلِ ثروت لوگ زکوٰۃ و صدقات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگتے ہیں۔اس ماہ مبارک کی عظمت و بزرگی کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مقدس کا نزول اسی پاک مہینے میں ہوا۔اسی ماہ میں شبِ قدر ہے، جس کا قیام (عبادت و ریاضت) ہزار مہینوں کے قیام سے بہتر ہے۔ ہر ماہ میں عبادت کے لئے وقت مقرر ہے مگر اس ماہ میں روزہ دار کا لمحہ لمحہ عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ اس ماہ میں نیکیوں کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ نفل کا ثواب فرض کے برابراور فرض کا ثواب ستر فرض کے برابر ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس ماہ میں اپنے بندوں پر خصوصی توجہ فرماتا ہے۔ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور بندوں کی جائز دعائیں بابِ اجابت تک بالکل آسانی کے ساتھ پہنچ جاتی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے اسی ماہ کی ایک تاریخ کو نازل ہوئے۔ توریت شریف اسی ماہ میں نازل ہوئی۔ انجیل شریف بھی اسی ماہ میں نازل ہوئی۔ فتح مکہ اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو ہوئی۔ رمضان المبارک کا مہینہ ایسا بابرکت ہے کہ اس کے ابتدا میں رحمت ہے،درمیان میں مغفرت ہے اور آخر میں آگ(جہنم)سے نجات ہے۔جوشخص اس ماہ مبارک میں اپنے غلام یا مزدور کے روزہ دار ہونے کے باعث اس کے کام میں تخفیف کرےگا تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائےگا اور اسے عذاب سے چھٹکارا عطافرمائےگا (مفہوم حدیث) ۔حدیث مبارک میں ہے’’رمضان اللّٰہ تعالیٰ کا مہینہ ہے‘‘اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مبارک ومسعود مہینے سے ربّ ذوالجلال کا خصوصی تعلق ہے جس کی وجہ سے یہ مبارک مہینہ دوسرے مہینوں سے ممتاز اور جداہے۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے کہ’’میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں۔ پہلی یہ کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف اللہ نظر رحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔ دوسرے یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو( جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے)اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔ تیسرے یہ کہ فرشتے ہر رات اور دن ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ جنت کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ ’’میرے (نیک) بندوں کے لیے مزین ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پا ئیں گے‘‘۔پانچواں یہ کہ جب ماہ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرما دیتا ہے،قوم میں سے ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلّم!کیاوہ لیلۃ القدر ہے؟ارشاد فرمایا:نہیں،کیا تم نہیں دیکھتے کہ مزدور جب اپنے کام سے فارغ ہوجاتے ہیں تو انہیں اجرت دی جاتی ہے‘‘(شعب الایمان ج/۳ ص/۳۰۳ حدیث:۳۶۰۳)۔رمضان کے اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادت وریاضت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی بھی لمحہ ضائع اور بے کار جانے نہیں دینا چاہیے۔مگرافسوس صدافسوس! اس موسم رحمت میں بھی کچھ لوگ ہمیں ایسے ضرور نظر آتے ہیں جو ماہ رمضان کی حرمت کوتارتار کرتے نظر آتے ہیں،نیکیوں کے اس موسم بہاراں میں بھی ان کے لبوں پر دینی وایمانی باتوں اور قرآن کی تلاوت کے بجائے فلمی نغمے ہوتے ہیں، رات بسر کرنے کے لیے وہ موبائل کا بیجا استعمال کرتے نظرآتے ہیں۔دن میں دنیابھر کے اطاعت گزار بندے حالت روزہ سے رہتے ہیں مگر کچھ شقی القلب لوگ بیڑی، سگریٹ کی کَش، چائے کی چْسکی اور بیماری کا بہانہ کرکے دن میں اعلانیہ کھاتے پیتے نظرآتے ہیں،گویاوہ پورا دن اللہ کے فرمان کی حکم عدولی کرتے ہوئے گزاردیتے ہیں۔نیکیوں کی امنگوں کایہ موسم اس لیے نہیں کہ بدمست ہاتھیوں کی طرح ہر طرف بہکتے پھریں۔اسی موسم جنوں انگیز میں تاریخ کے اوراق پر ایسے نوجوان ہمیں نظر آتے ہیں جنہوں نے جغرافیہ کے نقشے بدل دیئے۔عین کالی گھٹاؤں میں میخانوں کی بنیادیں الٹ دیں اور رات کی تنہائیوں میں نغمہائے طرب سے نہیں تلاوت قرآن اور ذکرمصطفیٰ کے زمزموں سے اپنے جگرکی آگ بجھائی ہے۔ہوش کے ناخن لینا چاہئے ہمارے ان مسلم بھائیوں کو جو ایک تو روزہ نہیں رکھتے دوسرے چوری اور سینہ زوری کا یہ عالَم کہ ہوٹلوں پر اعلانیہ کھا پی کراور روزہ داروں کے سامنے ہی بیڑی وسگریٹ کے کش لگاتے،پان چباتے ہیں بلکہ بعض تو اتنے بے مروّت،بے باک اور ڈھیٹ قسم کے لوگ ہوتے ہیں کہ وہ سرعام پانی پیتے اور کھانا کھاتے بھی نہیں شرماتے ہیں۔اس طرح وہ روزہ کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ ایسے ناہنجار لوگوں کے لیے فقہی کتابوں میں سخت سزا کا حکم ہے۔ہم سبھی لوگوں کواپنے اپنے اعمال وافعال،سیرت وکردار اور ایمان کا محاسبہ کرناچاہئے۔دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ:ہم سبھی مسلمانوں کو ماہ رمضان المبارک کا احترام کرنےکے ساتھ اس ماہ کی رحمتوں،برکتوں اور فیضان سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے – آمین

نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم–از: سید خادم رسول عینی

صرف اک طبقے کے ہوں جو ، وہ ، نبی ایسے نہیں
امت شہ جو نہ ہوں ، ایسے کہیں بندے نہیں

وصف ایسا کس میں ہے اپنے پیمبر کے سوا
“مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں “

اس میں کیسے چمکیں ایماں کی شعاعیں بولیے
جس کے دل میں حب شاہ دین کے شیشے نہیں

سر کے اوپر گر رہے دست کرم سرکار کا
ہے یہ نا ممکن کہ پتھر ظلم کا سرکے نہیں

وہ پرندہ ہو کہ ہو گل ، جن ہو یا قدسی ، بشر
کس کے لب پر مصطفیٰ کی مدح کے نغمے نہیں

سوئے شہر یاد شاہ طیبہ جو ہر دم چلے
خوب چمکے وہ نصیبہ اور کبھی سوئے نہیں

نعتیہ اشعار کی تنویر سے شرمائے چاند
کون کہتا ہے کہ میرے پاس سرمائے نہیں

جس کنویں میں ڈال دیں اپنا لعاب پاک وہ
اس کا شیریں پن کبھی بھی دہر میں بگڑے نہیں

جس میں کلیاں الفت شاہ مدینہ کی کھلیں
کوئی پھول ایسے چمن کا “عینی” مرجھائے نہیں
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

استقبال رمضان المبارک اور ہماری ذمہ داریاں__از:(مولانا)محمدشمیم احمدنوری مصباحی–ناظم تعلیمات:دارالعلوم انوارمصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

یقیناً ہم بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ ایک بار پھر ماہ رمضان المبارک کی سعادت نصیب ہونے والی ہے، ہمارے بہت سے دوست احباب، اعزاء واقرباء ایسے ہیں جو آج ہمارے درمیان نہیں ہیں اور بعض ایسے بھی ہوں گے جنہیں اگلا رمضان دیکھنا نصیب نہ ہوگا،اللّٰہ تعالیٰ اگلارمضان بھی ہمیں دیکھنا اور اس کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہونا نصیب کرے- دنیا کا یہ اصول ہے کہ اگر مہمان اپنے آنے سے قبل آمد کی اطلاع دے دے تو سنجیدہ معاشرہ اس کا دل وجان سے استقبال کرتا ہے،رمضان المبارک بھی اللّٰہ کامہمان ہے اور اپنے آمد کی خبر ماہ رجب سے ہی دیناشروع کردیتا ہے،ماہ رمضان اخروی مہمان ہے، دنیوی مہمان کی آمدپراگربروقت تیاری نہ کی جائے تو جس قدر سبکی وشرمندگی ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ رب کے مہمان کی آمد پر اگر کماحقہ تیاری نہ کی جائے تو کس قدر افسوس اور خسارے کی بات ہے،اس لیے ہمیں چاہییے کہ رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے ہی اس کے استقبال اور طلب کے لیے دل سے آمادہ ہوکر ذوق و شوق کے ساتھ رمضان کے احکام ومسائل کا علم حاصل کرنے کا اہتمام کریں-جس طرح ہم اپنے کسی محبوب ومحترم مہمان کی آمدپر اہتمام اور تگ ودو کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ رمضان کی آمدپر ہمارے لیے ظاہری وباطنی تیاری ضروری ہے تاکہ ہمارا روحانی رشتہ اپنے خالق ومالک [رب] سے جڑ جائے،کیونکہ یہ اشتیاق براہ راست رب کائنات کی رضامندیوں، رحمتوں اور مغفرتوں کے حصول کا ہی اشتیاق ہے-اور ویسے بھی مہمان کی آمدہر تیاری کی جاتی ہے اور مہمان جتنابڑااور اہم ہوتا ہے تیاری بھی اسی لحاظ سے کی جاتی ہے مثلا گھر صاف کیاجاتاہے، فرش کی صفائی کی جاتی ہے، دروازوں اور دریچوں کے پردے تبدیل کیے جاتے ہیں،گلدستوں سے گھر کو آراستہ کرکے گھر کی رونق بڑھا دی جاتی ہے،رمضان بھی ایک مہمان ہے اس کی بھی تیاری ہونی چاہییے، گھر کی صفائی کی طرح دل کی صفائی ہو،فرش کی صفائی کی طرح عقائد واعمال کی درستگی اور اصلاح ہو،گھر کو آراستہ کرنے کی طرح اخلاق وکردار کو سنوارناچاہییے، رمضان ہمارا انتہائی معزز مہمان ہے ہمیں اپنے اس معزز مہمان کی خوب خوب قدر کرنی چاہییے اور اپنے اعضاء وجوارح کو اللہ کی معصیت و نافرمانی سے محفوظ رکھ کر اس ماہ کاتقدس باقی رکھنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہییے-ماہ رمضان آنے سے پہلے اس کی تیاری اور استقبال خود حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی گرم جوشی سے اس ماہ کا استقبال کیا ہے بایں طور کہ دیگر مہینوں کے مقابل اس ماہ میں زیادہ عبادت وریاضت کے لیے مستعدی کا اظہار فرمایا ہے۔اور اپنےاہل خانہ کو بھی اس ماہ کے استقبال کے لیے تیار فرمایاکرتے تھے-جیسا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں (ترجمہ) جب رمضان المبارک شروع ہوتاتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کمربستہ ہوجاتے اور جب تک رمضان گزر نہ جاتا آپ بستر پر تشریف نہ لاتے (شعب الایمان)۔اس کے علاوہ اور بھی احادیث مبارکہ اس امر پردال ہے کہ مالک کونین آقا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان بلکہ رجب سے ہی رمضان کےاستقبال کےساتھ اس کے برکات و حسنات حاصل کرنے کےلیے تیار ہوجاتےاور شدت سےاس کی آمد کا انتظار فرماتے۔اوربارگاہ الہی میں دعائیں کرتے ”اَللّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَان“ اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اورہمیں رمضان کا مبارک مہینہ نصیب فرما۔( مجمع الزوائد وغیرہ)حاصل کلام یہ ہے کہ استقبالِ رمضان حدیث سے ثابت ہے اور اس کی حکمت بھی سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان المبارک کی برکات کو اپنے دامنِ ایمان وعمل میں سمیٹنے کا ایک مزاج اور ماحول پیدا ہو، کیونکہ جب دل ودماغ کی زمیں زر خیز ہوگی، قبولِ حق کے لیے اس میں نرمی اور لطافت پیدا ہوگی تو ایمان دل میں جڑ پکڑے گا‘ اعمالِ خیر کی طرف رغبت ہوگی اور شجرِ ایمان ثمر آور اور بار آور ہوگا ـویسے عام زندگی میں سفر شروع کرنے سے پہلے سفر کی تیاری کی جاتی ہے-چنانچہ رمضان المبارک بھی تقویٰ،تزکیۂ نفس اور اللہ کو راضی کرنے کے اہم ترین سفر پر مشتمل ایک بابرکت مہینہ ہے-لہٰذا رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے اس کی تیاری کریں-اپنے روزمرّہ مشاغل ابھی سے کم کرکے زیادہ وقت عبادت وریاضت، تلاوت قرآن،ذکر واذکار اور دعاؤں کے لیے فارغ کریں نیز عیدالفطر کی تیاری اور شاپنگ ابھی سے کرلیں تاکہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی قیمتی راتیں بازاروں کی نذر نہ ہوجائیں-رمضان المبارک یہ بڑا عجیب مہمان ہے۔ اس کی آمد کا طریقہ تو عجیب تر ہے۔ دبے پاﺅں تحفوں، نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں سے لدا پھندا چپ چاپ ہماری زندگی میں چند ساعتوں کے لیے آتا ہے۔ جس نے اس کو پہچان لیا اور آگے بڑھ کر اس کا پرجوش خیرمقدم کیا، اس پر تو وہ اتنی بے حساب نعمتیں برساتا اور تحفے نچھاور کرتا ہے کہ جل تھل کردیتا ہے اور جس نے تن آسانی، سستی اور غفلت سے اس کا نیم دلانہ استقبال کیا، تو یہ پیکرِ جود سخا، دو چار چھینٹیں اس پر بھی چھڑک ہی جاتا ہے۔ اسی لیے اس میخانے کا محروم بھی محروم نہیں کہلاتا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان کے مہینے میں میری امت کو پانچ ایسی نعمتیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں۔ اول: رمضان کی پہلی رات میں اللہ ان پر نظر کرم کرتا ہے اور جس پر اللہ نظر کرم کرتا ہے، اسے کبھی عذاب سے دوچار نہیں کرتا۔ دوم: فرشتے ہر رات اور اور ہر دن اس کے لیے مغفرت کی دُعا کرتے ہیں۔ سوم: اللہ اس کے لیے جنت واجب کردیتا ہے اور جنت کو حکم دیا جاتا ہے کہ روزہ دار بندے کی خاطر خوب آراستہ وپیراستہ ہوجاﺅ تاکہ دنیا کی مشکلات اور تھکاوٹ کے بعد میرے گھر اور میری مہمان نوازی میں آرام ملے۔ چہارم: روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ پنجم: رمضان کی آخری رات روزہ دار کے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔رمضان کی یہ ساری نعمتیں ان لوگوں کے لیے ہیں جو حقیقی معنوں میں روزے دار ہوں۔ حقیقی روزے دار کون ہوتا ہے؟ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، اللہ کو اس کے کھانے پینے چھوڑنے سے غرض نہیں۔ رمضان کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ انسان صبح سے شام تک کھانا پینا چھوڑدے اور باقی خرافات میں لگا رہے۔ روزہ اصل میں زبان کا بھی ہو، ہاتھ کابھی ہو اور پاﺅں کا بھی ہو۔ آپ نے فرمایا روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں، بلکہ گالی گلوچ اور فضول گوئی چھوڑنے کا نام ہے۔ اگر کوئی تمہیں گالی دے یا تمہارے ساتھ جھگڑنے لگے تو تم کہو میں روزے سے ہوں۔“ جھوٹ، چغل خوری، لغویات، غیبت، عیب جوئی، بدگوئی، بدکلامی اور جھگڑا وغیرہ سب چیزیں اس میں داخل ہیں۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے۔ روزہ دار کو چاہیے بے حیائی کے کاموں اور لڑائی جھگڑے سے بچے۔ روزہ معاشرے کے غربا اور فقرا سے تعلق پیدا کرنے اور ان کی ضروریات پوری کرکے معاشرے میں امیر وغریب کے درمیان بھائی چارہ پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں غریب امیر کے درمیان جو دوری پیدا ہوئی ہے، وہ معاشرے کے امن وامان اور بھائی چارے کے لیے زہر قاتل ہے۔ روزے کے احکام پر عملدرآمد کرتے ہوئے اجتماعی افطار وسحر اور مل جل کر کھانے پینے کی مجالس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ رمضان میں نمازوں کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔ نماز محمود وایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح زکوٰة کی ادائیگی پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ سحری، افطاری اور تراویح مسلمانوں پر اللہ کی ایسی خاص عنایات ہیں جو مسلمان معاشرے کو ایک الگ ممتاز حیثیت دلاتی ہے۔ اسلام مسلمانوں کو یہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ لوگوں کے مسائل اور مشکلات میں ان کا ساتھ دیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کا استحصال ہو۔*رمضان المبارک کے استقبال کے لیے کچھ اہم ہدایات:* (۱)رمضان المبارک میں راتوں کی عبادت (تراویح تہجد وغیرہ) کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے اس لیےان عبادات کو اچھے انداز میں بلا تھکاوٹ سر انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ ابھی سے شب بیداری اور نفلی عبادات کا اہتمام کریں اور اپنے بدن کو عبادات کی کثرت کا عادی بنائیں تاکہ رمضان کی راتوں میں مشکل پیش نہ آئے۔ (۲)رمضان المبارک میں اوقات کی قدردانی بڑی اہم ہے آج کل انٹرنیٹ و سوشل میڈیا وقت کے ضیاع کا بڑا سبب بن رہے ہیں لہذا رمضان المبارک سے قبل ان کے استعمال کو ختم یا محدود کرنے کی کوشش کریں۔ (۳)رمضان المبارک دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے لہذا ابھی سے اپنے آپ کو دعائیں مانگنے کا عادی بنائیں نیز یہ بھی ضروری ہے کہ رمضان المبارک سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعاؤں کو زبانی یاد کیا جائے کیونکہ مسنون الفاظ پر مشتمل دعاؤں میں تاثیر بھی زیادہ ہوتی ہے اور قبولیت کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ (۴)رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے، خوش نصیب لوگ اس ماہ میں تلاوت کی کثرت کا معمول بناتے ہیں لہٰذا ابھی سے تلاوت قرآن کو زیادہ وقت دینا شروع کردیں قرآن پاک صحیح مخارج کے ساتھ آرام آرام سے غنہ مد وغیرہ کو اچھی طرح ادا کرکے پڑھیں تاکہ رمضان المبارک کی آمد تک آپ کثرت سے اور اچھی طرح تلاوت کرنے کے عادی بن جائیں اگر آپ حافظ قرآن ہیں تو ابھی سے قرآن پاک دہرانا شروع کردیں۔(۵)چونکہ رمضان المبارک کا ایک اہم مقصد “گناہوں کی بخشش” ہے،اسی لیے اسے “شھرالمغفرة” کہا جاتاہے اور ایک مشہور حدیث میں اس انسان کے لیے بددعا کی گئی ہےجورمضان المبارک پائے اور اپنے گناہوں کی مغفرت نہ کراپائے-چونکہ رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے اور اس سے وہی انسان لطف اٹھا سکتا ہے جو گناہوں سے تائب ہو اور اس نے اپنے آپ کو موسم بہار سے لطف اندوز ہونے کے قابل بنایا ہو اس لیے رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے اپنے گناہوں کی مغفرت کرانی چاہییے اور اس کے لیے بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوکر بصدق دل توبہ واستغفار کرنی چاہییے-(۶)رمضان المبارک سے پہلے ایک اور اہم بلکہ سب سے اہم کام رمضان المبارک کے احکام ومسائل سیکھنا ہے-یعنی رمضان المبارک کی تمام عبادات کے فضائل واحکام،روزہ رکھنے کے لیے کون سی چیزیں ضروری ہیں؟روزہ کن چیزوں سے ٹوٹ جاتا ہے اور کن چیزوں سے مکروہ ہوجاتاہے؟تراویح کا کیا حکم ہے اور تراویح کی ادائیگی کاصحیح طریقہ کیا ہے،تراویح میں ختم قرآن کی کیا اہمیت وفضیلت ہے اور تراویح میں کل کتنی رکعتیں ہیں؟اعتکاف کا طریقہ کیا ہے اور اس کے احکام کیا ہیں؟اعتکاف کے دوران مسجد سے نکلنا کن حالات میں جائز ہے؟اعتکاف کب اور کیسے فاسد ہوجاتاہے؟ان کے علاوہ اور بھی رمضان المبارک کے بہت سے ایسے احکام ومسائل ہیں جن کا علم نہایت ہی ضروری ہے،کیونکہ بہت سارے حضرات وہ چیزیں کر گذرتے ہیں جن سے روزہ،تراویح یا اعتکاف فاسد ہوجاتاہے اور پھر مسئلہ معلوم کرتے ہیں حالانکہ اب اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں،عقلمندی تو یہ ہے کہ ان عبادات کے آنے سے پہلے ان کے احکام ومسائل سیکھیں-بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ: ہم سبھی مسلمانوں کو بار بار ماہ رمضان المبارک نصیب کرے، اور اس کے فیضان سے مستفیض فرمائے-

ایک دلچسپ مکالمہ۔۔۔از قلم: سید خادم رسول عینی۔۔

بزم تاج الشریعہ واٹس ایپ گروپ کے گزشتہ مشاعرے میں طرحی مصرع حضرت مفتیء اعظم ہند علامہ مصطفی’ رضا خان علیہ الرحمہ کے کلام سے دیا گیا تھا:
جان عیسیٰ تری دہائی ہے۔
اس مصرع پر میں نے بھی طبع آزمائی کی اور نعتیہ کلام کہا اور کلام سوشل میڈیا میں نشر بھی کیا تھا۔اس کلام کی پزیرائی ہوئی اور پیر طریقت حضرت علامہ سید اشرف حسین قادری نے اپنے ہفت روزہ اخبار “آواز نو ” دہرا دون میں اس کلام کو شائع بھی کیا۔بزم تاج الشریعہ کے ایڈمن حضرت مفتی کلیم احمد رضوی مصباحی صاحب نے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے حوصلہ افزا کلمات سے یوں نوازا تھا:

“مفتیِ اعظم اڑیسہ کا فیضان بن کر عالم پر برسنے والے ذوی القدر شاعر، شاعر خوش خیال و خوش اسلوب حضرت سیدی خادم رسول عینی میاں مد ظلہ العالی بحمداللہ عہد حاضر کے سرفہرست شعرا میں سے ایک ہیں۔نپی تلی اور معیاری شاعری آپ کی شناخت ہے آپ کا لہجۂ سخن بحمداللہ سب سے جدا اور سب سے منفرد ہے زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ بحر چاہے جیسی ہو ردیف خواہ کس قدر بھی مشکل ہو جب آپ کا خامۂ زر نگار آمادۂ شعر و سخن ہوتا ہے تو فکر کے گلستان لہلہا اٹھتے ہیں گلہائے خیالات کی خوشبوئیں مشام جان کو معطر کرنے لگتی ہیں۔ موجودہ کلام بھی بلاغت کا نایاب نمونہ ہے۔ کئی صنعتوں سے مزین یہ مبارک کلام اپنی مثال آپ ہے۔ ہر شعر رواں دواں ہے اور متنوع مضامین پر مشتمل ہے۔ مضامین پرکشش بھی ہیں اور دیدہ زیب بھی، پھر انداز بیان نے حسن شعریت کو دو چند کردیا ہے” “

بہر حال، اس کلام میں تضمین والا شعر یوں تھا:
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر
“جان عیسیٰ تری دہائ ہے”
اس شعر پر کسی واٹس ایپ گروپ میں ایک شاعر نے اعتراض کیا اور کہا:

“آپ نے نعتیہ شعر میں تری / تجھ کا استعمال کیا ہے۔یہ گستاخی ہے ۔اس قسم کے استعمال سے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے۔”

مجھے اس کمنٹ پر سخت تعجب ہوا ، کیونکہ میرا یہ شعر تضمین کا تھا اور طرحی مصرع” جان عیسیٰ تری دہائ ہے” کسی عام شاعر کا نہیں بلکہ ان کا ہے جو ہندوستان کے مفتیء اعظم بھی ہیں اور حضرت مفتیء اعظم ہند علیہ الرحمہ نے خود مصرع میں تری کا لفظ استعمال کیا ہے۔

بہر حال ، میں نے اپنے شعر کے ڈیفینس/ دفاع میں سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ، ڈاکٹر اقبال اور علامہ قدسی کے مندرجہ ذیل اشعار پیش کیے اور میں نے معترض سے پوچھا کہ ان اشعار پر آپ کا فتویٰ کیا ہے :

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
فرش والے تری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس‌ کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
غم ہوگئے بےشمار آقا
بندہ تیرے نثار آقا
ہلکا ہے اگر ہمارا پلہ
بھاری ہے تیرا وقار آقا
شور مہ نو سن کر تجھ تک میں رواں آیا
ساقی میں ترے صدقے مے دے رمضاں آیا
تیری مرضی پاگیا سورج پھرا الٹے قدم
تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجا چر گیا
بڑھ چلی تیری ضیا اندھیر عالم سے گھٹا
کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھرا تھرا کر گرگیا
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ
جس سے اتنے کافروں کا دفعتاً منھ پھر گیا
لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولیٰ مرے آقا ترے قربان گیا
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب
میٹھی باتیں تری دین عجم ایمان عرب
نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب
ظاہر و باطن اول و آخر زیب فروع و زین اصول
باغ رسالت میں ہے تو ہی گل غنچہ جڑ پتی شاخ
مجرم کو بارگاہ عدالت میں لائے ہیں
تکتا ہے بے کسی میں تری راہ لے خبر
اہل عمل کو ان کے عمل کام آئینگے
میرا ہے کون تیرے سوا آہ لے خبر
مانا کہ سخت مجرم و ناکارہ ہے رضا
تیرا ہی تو ہے بندہء درگاہ لے خبر
ہے یہ امید رضا کو تری رحمت سے شہا
نہ ہو زندانیء دوزخ ترا بندہ ہوکر
ترے خلق کو حق نے عظیم کہا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن ادا کی قسم
ترا مسند ناز ہے عرش بریں ترا محرم راز ہے روح امیں
تو ہی سرور ہر دوجہاں ہے شہا ترا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
سر عرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شیء نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
تو ہے خورشید رسالت پیارے چھپ گیے تیری ضیا میں تارے
دانبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں
رفعت ذکر ہے تیرا حصہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا
مرغ فردوس پس از حمد خدا تیری ہی حمد و ثنا کرتے ہیں
تو ہے وہ بادشہ کون و مکاں کہ ملک ہفت فلک کے ہر آں
تیرے مولی’ سے شہ عرش ایواں تیری دولت کی دعا کرتے ہیں
کیوں نہ زیبا ہو تجھے تاج وری تیرے ہی دم کی ہے سب جلوہ گری
ملک و جن و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں
کیا اس کو گرائے دہر جس پر تو نظر رکھے
خاک اس کو اٹھائے شہر جو تیرے گرے دل سے
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
(امام احمد رضا علیہ الرحمہ)

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام‌ بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پاگیے
عقل و غیاب و جستجو عشق حضور اضطراب
(ڈاکٹر اقبال)

دہر میں ماحیء ظلمت ہے اجالا تیرا
رہبر منزل مقصود ہے رستہ تیرا
ماہ و انجم سے بھی ضوبار ہے روضہ تیرا
زینت عرش علی’ گنبد خضریٰ تیرا
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا شہر میں چرچا تیرا
(علامہ قدسی)

معترض نے جواب دیا ، ” میں تو غالب ، اقبال اور چاہے کسی بھی بڑے سے بڑے شاعر نے یہ انداز اختیار کیا ہو اس کو غلط ہی سمجھتا ہوں”۔

میں نے اس معاملے پر حضرت مفتی عطا مشاہدی صاحب کا فتوی’ پوسٹ کیا ۔وہ فتوی’ یوں ہے :

“الجواب بعون الملک الوھاب
عرف میں لفظ تو کے ذریعہ خطاب بے ادبی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ قاعدہ فقط نثر سے متعلق ہے ۔رہا نظم تو اس کا معاملہ نثر سے جدا ہے اور نظم میں اس کا استعمال بے ادبی نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ شعر وسخن کے تاجور اردو ادب کے ماہر شعراء حضرات نے لفظ تو/ تیرا کا استعمال فرمایا ہے. اسی میں عاشق المصطفی ناصر الاولیاء مجدد دین وملت سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی و سند الازکیا والاصفیا تاجدار اہلسنت حضور مفتئی اعؓظم ھند علیہما الرحمہ نے بھی استعمال فرمایا ہے۔ لہذا نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے ناواقفی ہے۔فقیر نے چند سال پہلے اس پر تفصیلی جواب لکھا ہے اس کے ساتھ اسکو بھی بھیجتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔
واللہ تعالی اعلم وصلی اللہ تعالی علی رسولہ الاکرم وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم
فقیر عطامحمدمشاہدی عفی عنہ”

میں نے مفتی عطا مشاہدی صاحب کے فتوے کی تشریح کرتے ہوئے گروپ میں یوں لکھا:

مفتی صاحب نے اپنے فتوے میں دو اہم باتیں کہی ہیں ۔
نمبر ون: نظم کا معاملہ نثر سے جدا ہے۔
نمبر ٹو: نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے نا واقفی ہے

نظم کا‌ معاملہ نثر سے جدا ہے ۔

تفہیم :
نثر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ آداب و القاب لگائے جاتے ہیں:
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم،
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ،
محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم۔
لیکن نظم کی صورت الگ ہوتی ہے۔
نظم کی زبان الگ ہوتی ہے ۔
فقط نام یا فقط لقب لکھنا کافی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ایک مصرع/ شعر محدود اسباب و اوتاد میں کہا جاتا ہے۔جیسے:
زہے عزت و اعتلائے محمد۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں ۔
بڑی دل کشی ہے نبی کی گلی میں ۔
(صلی اللہ علیہ وسلم)
اور بھی کئی مثالیں ہیں ۔

نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے ناواقفی ہے۔

تفہیم :
قرآن پاک میں کئی الفاظ ایسے ہیں جن کے معنی مختلف مقامات پر مختلف ہیں ۔
یہ سب چیزیں علم بلاغت میں سکھائی جاتی ہیں ۔
مثال کے طور پر درود۔
قرآن میں ہے :

بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو

اللہ تعالیٰ کی طرف سے درود کے معنی رحمت کے ہیں ، ملائکہ کی طرف سے درود کے معنی تعظیم کا اظہار کرنا اور مومنوں کی طرف سے درود کے معنی ہیں شفاعت طلب کرنا۔
ایسے ہی کئی مثالیں ہیں ۔
علم تفسیر کا مطالعہ کریں ۔سمجھ میں آئےگا۔

تو کا استعمال جب ہم کسی شخص کے لیے کرتے ہیں جو ہم سے عمر میں چھوٹا ہے ، اس مقام پر تو کا معنی کچھ اور ہے ۔
لیکن جب ہم تو کا استعمال خدا یا رسول کے لیے ‌کرتے ہیں وہاں تو کا معنی حرف خطاب تعظیمی ہے۔

تیرا یا تیری کا استعمال کبھی ضرورت شعری یا اوزان وغیرہ میں فٹ کرنے کے لیے/ جوڑنے کے لیے کیا جاتا ہے اور بعض اوقات اس لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ ان لفظوں میں زیادہ محبت اور اپنائیت ہوتی ہے۔ اس لیے اس کو بے ادبی سمجھنا خلاف حقیقت ہے ۔

تو کا استعمال کبھی اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ تضمین میں مصرع طرح سے مطابقت لانا ضروری ہوتا ہے ۔جس شعر پر معترض نے اعتراض کیا تھا وہ شعر تضمین کا تھا اور مصرع ” جان عیسیٰ تری دہائی ہے” میں تری کا لفظ استعمال ہوا ہے۔میں نے گرہ لگایا تھا :
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر۔
اگر تجھ کے عوض تم کا استعمال ہوتا تو شعر میں شترگربہ کا عیب در آتا۔ ایک شاعر حتی الامکان یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کا نعتیہ کلام فنی خامیوں سے پاک رہے۔اس لیے میں نے کہا:
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر۔
لہذا شعر میں کسی قسم کی بےادبی تصور کرنا سراسر ناسمجھی اور نا انصافی ہے۔ ‌

تو صرف ایک لفظ نہیں بلکہ وجوب وحدانیت کی شہادت ہے۔ بندگی میں لفظ تو اقرار وحدانیت کا درجہ رکھتا ہے۔

مخلوق میں اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔سارے خلائق میں آپ بے مثال ہیں ۔خدا کے بعد اگر کوئی بلندی کا واحد مالک ہے تو وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے۔
سرکار اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کردیا
خالق کا بندہ خلق کا مولی’ کہوں تجھے
لہذا نعتیہ نظم نگاری میں تو کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔اور اس میں کوئی بے ادبی نہیں ہے ، بلکہ اقرار بے مثلیت ذات محمدی ہے۔صلی اللہ علیہ وسلم

لہذا ایک نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ لفظ کے انر میننگ / اندرونی معانی کو سمجھے، گہرائی و گیرائی تک جائے، وہ نظم کی زبان کو سمجھے،اردو ادب کے اصول کو سمجھے،علم بلاغت کے قواعد پڑھے ۔محبت کے الفاظ کو سمجھے۔اپنائیت کے انداز کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ الفاظ کی گہرایوں تک پہنچے اور پھر فیصلہ کرے کہ حق کیا ہے، سچائی کیا ہے۔

ہم نے گروپ میں مزید یہ لکھا :

محسن کاکوری صاحب کا ایک زمانہ معترف ہے ۔
ان کے اشعار میں بھی تو اور تیرا کا استعمال ہے۔جیسے:

صف محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مداح
ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ یہ غزل
رخ انور کا ترے دھیان رہے بعد فنا
میرے ہمراہ چلے راہ عدم میں مشعل
دم مردن یہ اشارہ ہو شفاعت کا تری
فکر فردا تو نہ کر دیکھ لیا جائےگا کل

امام احمد رضا علیہ الرحمہ کو امام نعت گویاں اور امام عشق و محبت کہا جاتا ہے۔
بیدم وارثی صاحب صوفی شاعر ہیں ۔
ان سبھوں نے تو اور تیرا کا استعمال کیا ہے۔
آپ کے نزدیک یہ سب غلط ہیں ؟
گستاخ ہیں ؟
استغفر اللہ

تو پھر معترض نے جواب دیا :
چلئے میں ناسمجھ ہوں۔

پھر میں نے کہا:
شکریہ
اعتراف تو کیا آپ نے اپنی ناسمجھی کا ۔

حاصل مقالہ یہ ہے کہ بلا سمجھے کسی شعر پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔اعتراض کرنے سے پہلے اچھی طرح‌ غور و فکر کرلیں۔اگر سمجھ میں نہیں آئے تو علم عروض ، علم بلاغت ، علم معانی ، علم لغات کا مطالعہ کریں ۔ اگر شرعی مسءلہ ہے تو مستند مفتیء شرع متین سے رائے لیں ، خود ساختہ اور جاہلانہ رائے کو دوسروں پر مسلط نہ کریں ، شرعی معاملات میں خود کو علمائے اسلام سے زیادہ قابل نہ سمجھیں۔

تواضع و انکساری احادیث کی روشنی میں!از:سید نور اللہ شاہ بخاری-

تواضع کا مطلب عاجزی اور انکساری ہے اپنی ذات اور حیثیت کو دوسروں سے کم درجہ سمجھتے ہوئے ان کی عزت اورتعظیم و تکریم کرنا اور اپنی ذات پر دوسرے کو ترجیح دینا تواضع و انکساری کہلاتا ہے،تواضع اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا وصف ہےکیونکہ اللہ عاجز اور متواضع طبیعت والے لوگوں کو پسند فرماتا ہے ۔ تواضع اخلاقی لحاظ سے بھی بہت اچھی خوبی ہے اس لئے کہ جو آدمی اپنی حیثیت کو دوسرے سے کم سمجھے گا وہ ہمیشہ تکبر ،غرور،فخراور گھمنڈسے بچا رہے گا ،اور عاجزی کی وجہ سے اسے عظمت و عزت حاصل ہوگی۔ تواضع کے پیکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم :حضور اکرم ﷺدین و دنیا کے بادشاہ ہونے کے با وجود نہایت متواضع اور سادہ مزاج تھے،مجلس میں کبھی پیر پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے ،چھوٹا ہویا بڑا سلام کرنے میں پہل کرتے تھے ،غلاموں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ،بازار سے خود سودا خرید کر لاتے ،اپنے جانوروں کو خود چارہ ڈالتے ،اور گھر کے دوسرے کام بھی اپنے ہاتھ سے کرنے میں خوشی محسوس فرماتے، ایک مرتبہ دوران سفر حضورنبی کریم ﷺکی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا آپ خود درست کرنے لگے تو ایک صحابی نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ لا ئیے میں ٹانک دوں اس پر حضور ﷺنے فرمایا :تشخص پسندی مجھے پسند نہیں چنانچہ خود ہی تِسمہ ٹانک دیا ۔ ایک مرتبہ حضورنبی رحمت ﷺمسجدِنبوی میں تشریف لے گئے دیکھا کہ کسی نے مسجد میں ناک صاف کی ہے تو آپ نے ایک کنکری لے کر خود اپنے مبارک ہاتھ سے کھروچ ڈالا ،پھر لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :مسجد خداکا گھر ہے اس میں غلاظت پھینکنے سے بچو ، یہ اور اس طرح کے بہت سے واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺحد درجہ تواضع و انکساری کے ساتھ زندگی گزار کر اور عاجزی و انکساری کے فضائل بیا ن فرماکر گویا اپنے امتیوں کو یہ درس دے دیا کہ وہ بھی عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔آئیے تواضع و انکساری کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں ! تواضع بلندی کا ذریعہ :حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:کہ جس شخص نے اللہ کی خاطرتواضع و انکساری اختیار کی اللہ نے اس کو بلند کر دیا اور جس نے تکبر کیا اس کو اللہ نے پست (ذلیل و خوار)کردیا اور جس نے میانہ روی (درمیانی چال)اختیار کی اللہ نے اس کو غنی (مالدار)کر دیا اور جس نے فضول خرچی کی اللہ نے اس کو محتاج کردیا ،اور جس نے اللہ کا ذکر کیا اللہ نے اس کو اپنا محبوب بنا لیا ۔(رواہ احمد ،ابو یعلیٰ،بزار)تواضع کی بنیاد:حضرت شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا :کہ تواضع کی بنیاد یہ ہے کہ جس سے ملو اس سے پہلے سلام کرو ،اور جو تمہیں سلام کرے اس کا جواب دو ،محفل میں کم درجہ کی نششت کو پسند کرو اور یہ نہ چاہو کہ کوئی تمہاری تعریف و توصیف کرے یا تم پر احسان کرے اور فرمایا:وہ شخص کیا ہی اچھا ہے جو اپنی کوتاہی یا برائی کے بغیر تواضع اختیار کرے اور محتاجی کےبغیر اپنے آپ کو عاجز سمجھے۔تواضع کی توفیق:حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو اسلام کی ہدایت عطا فرماتا ہے تو اس کی صورت اچھی بناتا ہے اور اس کو ایسے مقام پر رکھتا ہے جو اس کے لئے نازیبا نہیں ہوتی اور سب چیزوں کے ساتھ اس کو تواضع (فروتنی و انکساری )کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے تو وہ شخص اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے ہوجاتا ہے (طبرانی)تواضع و انکساری کا اجر:اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ میں اس شخص کی نماز قبول فرماتا ہوں جو میری عظمت کے سامنے انکساری کرتاہے ،میری مخلوق پر تکبر نہیں کرتا ،اور اس کا دل مجھ سے خوف زدہ رہتا ہے (احیاء العلوم ) اسی طرح ایک حدیث شریف ہے حضرت ابو سعید کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کےلئے ایک درجہ تواضع اختیار کرے گا اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور جو ایک درجہ تکبر کرے گا اللہ اس کو ایک درجہ گرائیگا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین (سب سے نچلے درجے )میں پہنچا دے گا (ابن ماجہ ) حضور نبی کریم کی شان ِتواضع :اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺکو بہت ہی اعلیٰ و ارفع (بلند)مقام پر فائز کیا اس کے با وجود حضور ﷺ میں غرورو تکبر کا شائبہ تک نہ تھا ،بلکہ حضور ﷺاپنے قول و فعل ،رہن سہن ،اور معمولات زندگی میں ہمیشہ عجزو انکسار کا اظہار فرمایا کرتے تھے ،جیسا کہ حضر ت انس حضور کی شان تواضع کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ زمین پر بیٹھ جایا کرتے، اس پر کھانا تناول فرماتے، اگر کوئی غلام دعوت دیتا تو قبول فرماتے ،مریض کی عیادت کرتے ،جناز ہ میں شمولیت فرماتے،بکری کا دودھ دوہتے ،جب کوئی آدمی ملاقات کرتا تو سب سے پہلے آپ اسے سلام کرتے اور امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺجب گھر تشریف لاتے تو بیکار نہ بیٹھتے، اگر کوئی کپڑا پھٹا ہوتا تو اسے سیتے، اپنے جوتے کی مرمت فرماتے، کنواں سے ڈول نکالتے اور اس کی مرمت کرتے، اپنی بکری خود دوہتے ،اپنا ذاتی کام خود انجام دیتے ،کبھی کاشانۂاقدس کی صفائی بھی فرماتے ،اپنے اونٹ کے گھٹنے باندھتے ،اپنے اونٹ کو چارہ ڈالتے،خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ،بازار سے اپنا سودا اور ضروری سامان خود اٹھالاتے(ضیاء النبی ج/۵ص/۳۴۲،۳۴۶) حضور یہ سارے کام خود اس لئے کرتے تاکہ اپنے صحابہ و امتیوں کو تواضع و انکساری کا طریقہ سکھائیں اور تکبر و غرور سے باز رہنے کی تلقین کریں ۔اس لئے ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ حضور کی سنت پر عمل کرتے ہوئے تواضع و انکساری اختیار کریں اور ساری برائیوں خصوصاً تکبر و گھمنڈ ،جھوٹ و غیبت اور اس جیسی برائیوں سے خود بھی بچیں اور حتی الامکان لوگوں کو بھی بچانے کی کوشش کریں ۔

بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک–از:- محمد کہف الوری مصباحی

گلوں میں آج آ گئی ہے رنگت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

رتوں میں بھی آ گئی ہے زینت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

لبوں پہ ان کا ہی تذکرہ ہے ہر ایک خوش دل یہ کہ رہا ہے

دلوں میں آج آ گئی ہے راحت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

زمیں یہ شاداب ہو گئی ہے سما کی رونق بھی بڑھ گئی ہے

فضاؤں میں آ گئی ہے فرحت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

انہیں سے گلزار نور مہکے انہیں سے مہتاب و خور چمکے

ستاروں میں آ گئی ہے طلعت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

رضائے مولی کے در کھلے ہیں عطا و بخشش کے سلسلے ہیں

جہاں کو ملتی ہے جن سے نعمت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

مسرتوں میں ہیں لاکھوں لذت ہر ایک لذت میں ان کی جلوت

ہے جلوتوں میں بھی جن کی لمعت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

یگانہ گلشن یگانہ گل ہیں حسیں چمن میں حسین کل ہیں

ہر ایک نے جن سے پائی نکہت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

اسیر ان کا ہر اک یہاں پر خلوص کی ڈالیاں سجا کر

چلا ہے جن کی وہ کرنے مدحت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

نہ ثانی ان کا نہ کوئی ہم سر بیان کیا کیا کرے یہ ازہر

ہے جن کے قدموں میں شان و شوکت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

محمد کہف الوری مصباحی

نائب صدر: لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل نیپال

نگران اعلی: فروغ اردو زبان، تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، وارڈ نمبر 2، ضلع بانکے، نیپال