WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Shabe baraat……By: Sayed khadime Rasul Aini

A night of making fortune is shabe baraat,

The cause of celebration is shabe baraat.

This night was revealed the ayah of the darood,

The time of salutation is shabe baraat.

Prophet was given power of recommendation,

Time of rejuvenation is shabe baraat.

Beg before The Almighty whatever you want,

Night of great invitation is shabe baraat.

Let us go to the masjid and pray together,

A night of congregation is shabe baraat.

Let us meet the people and rebuild the friendship,

Time of reconciliation is shabe baraat.

The Prophet termed this month O Aini as His month,

Great beyond imagination is shabe baraat.

”بڑی خوبیاں تھیں جانے والے میں “ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

محب گرامی حضرت علامہ محبوب البرکاتی استاذ دار العلوم حشمتیہ معراج العلوم بھدوکھر ضلع سدھارتھ نگر یوپی کے برادر کبیر قاری نظام الدین رضوی متوطن موضع حورا حجرا ،سوناپور،کٹیہار، کی رحلت سے گہرا دکھ ہوا۔یکایک کلمات ترجیع زبان پر جاری ہوگۓ۔قارئ موصوف نیک باطن وخوش خصال وصالح مزاج انسان تھے ۔تدریس کے ابتدا ئ کچھ سال مختلف مدارس کے شعبئہ قرأت کےخادم کی حیثیت سےوقف کر رکھے تھے۔پھر سرکاری اساتذہ کی ٹریننگ لینے کے بعد بہار اسکول میں سرکاری معلم بن گۓ۔اور طویل خدمت انجام دینے کے بعد غالبا گذشتہ سال میڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے منصب پر رہتے ہوۓ ملازمت سے سبکدوش {ریٹائر} ہوۓ ۔ملازمت کے آخر کے کچھ ماہ وسال خوف ناک مرض میں گزارے ۔اسی کرب میں ممبئ سے اپنے علاج کا رشتہ تسلسل کے ساتھ جاری رکھا ۔تقریبا ڈھائ سال قبل مرض سے افاقہ کے بعد حضور نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ شغف کا اظہار جلسئہ عید میلادالنبی صلی الہ علیہ وسلم کے اہتمام کی شکل میں کیا اور اس افاقئہ مرض کو اپنے آقا کی نظر رحمت کا صدقہ بتایا۔اور مجھ حقیر کے عنوان خطابت”اسلام اور عیادت“کو مجلس کا برمحل حسین خطاب بتا کر پر مسرت تحسین فرمائ،مذکورہ خیالات کا اظہار دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی کے استاذ مفتی قاضی فضل رسول مصباحی نے ایک پریس ریلیز میں کیا۔مفتی صاحب نے یہ بھی کہ ابھی تقریبا تین ماہ پہلے قاری صاحب کے صاحبزادہ کی تقریب شادی میں میری آمد پر، پر مسرت اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ اب مجھے احساس ہوا”سب مہمان آگۓ اور ان کی میز بانی سے محظوظ ہولۓ“ ۔بہرحال بڑی خوبی تھی اس جانے والے میں۔جنہوں نے بھری بزم کو سونا کر دیااور اپنی یادو ں کے سہارے ہی جینے کا موقع فراہم کر گیا۔آپ کی کن کن خوبیوں کا شما رکیا جاۓ؟ ۔آپ کی یہ خوبی نمایاں تھی کہ آپ علماۓ کرام کا غایت درجہ احترا م اوران سے حد درجہ محبت رکھتے تھے۔تا حیات قاری کے باوصف صفت ، اسی لباس میں ملبوس رھتے رہے۔درجنوں علماۓکرام ودانشوران نےتعزیت پیش کی ہے۔بقیة السلف مفتی قاضی نور پرویز رشیدی شہجنہ ، مفتی شیر محمد قادری پرنسپل دار العلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم بر گدہی مہراج گنج، مفتی قاضی فضل احمد مصباحی قاضئ شرع ضلع کٹیہار،مفی قاضی شہید عالم رضوی استاذ ومفتی جامعہ نوریہ بریلی شریف، مفتی شمیم احمد نوری سہلاؤ شریف راجستھان،مولانا قاضی خطیب عالم استاذ جامعہ وارثیہ لکھنؤ، مفتی مبشر رضا ازہر ممبئ،مولانا عسجد رضا بائسی پورنیہ، لانا مولانا فضیل صدر الاساتذہ دار العلوم حمیدیہ بھؤ نگر بالو گنج کٹیہار،مولانا فیاض عالم مصباحی استاذ دارالعلوم محبوب سبحانی کچھوچھا شریف،مولانا عرفان احمد مصباحی ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی مولانا قاضی فضیل احمد سراجی خطیب وامام جامع مسجد قاضی ٹولہ شہجنہ،مولانا کاتب ذوالقرنین، مکھیا حسین اشرف اعظم نگر،ماسٹر قاضی محب الرسول،قاضی ہدایت رسول شہجنہ، مفتی رضاء المصطفے شہجنہ ،مولوی حبیب الرحمن اشرفی،ماسٹر عمران احمد اشرفی اعظم نگر،ماسٹر شاکر علی اعظم نگر،مولانا منظر الاسلام مہتمم دار العلوم معینیہ رضویہ ملک پور،قاضی عنایت رسول، مولانا چراغ عالم سراجی رسول پور،مولانا راغب حسین سراجی،مولانا قاضی مدثر علی شہجنہ،قاری توصیف رضا استاذ شعبئہ حفظ ، محمد ضیا ء المصطفےوغیرھم نے کہا کہ ہم سب غم کی اس گھڑی میں پورے کنبہ کےساتھ کھڑے ہیں اور مرحوم کی مغفرت اور پس ماندگان با لخصوص علامہ محبوب البرکاتی کے صبر واجر کی دعا کرتے ہیں۔

شب برأت۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

مسرتوں میں مسلمان آج کی شب ہے

اہم تریں شب شعبان آج کی شب ہے

جزا کے باغ کا ریحان آج کی شب ہے

یہ نفس دیکھ کے حیران آج کی شب ہے

حسد ، عناد کو بالائے طاق رکھیں آپ

نزول رحمت رحمان آج کی شب ہے

درود پاک کی آیت کا ہوگیا ہے نزول

نہ کیوں میں کہہ دوں کہ ذیشان آج کی شب ہے

گنہ معاف ہوئے اور مل گیا مژدہ

سبھی کے ہونٹ پہ مسکان آج کی شب ہے

شفاعتوں کا ملا اختیار آقا کو

خدا کا خوب یہ فیضان آج کی شب ہے

اے بندے مانگ ، تجھے جو بھی مانگنا ہے اب

خدائے پاک کا اعلان آج کی شب ہے

خدا کریگا نمازی کی حاجتیں پوری

نماز خیر کا اعلان آج کی شب ہے

ملک کے واسطے ہے عید “عینی ” آج کی رات

زمین کا بھی خوش انسان آج کی شب ہے

کورٹ کا فیصلہ۔۔از: سید خادم رسول عینی۔۔l

کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ حجاب کے خلاف آیا۔یہ خبر پڑھ کر افسوس ہوا کیونکہ یہ فیصلہ صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے ، بلکہ مڈل کلاس کے خلاف بھی ہے۔اکثر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ ایلایٹ فیمیلی کی مستورات نقاب یا برقع استعمال نہیں کرتیں ،البتہ جو مستورات مڈل کلاس یا لوور کلاس سے وابسطہ ہیں وہ کالجوں میں برقع یا نقاب کا استعمال کرتی ہیں ۔ یہ ان کا پرسنل چوائس ہے۔انھیں علمائے کرام نے مجبور نہیں کیا کہ آپ لوگ نقاب / حجاب میں ہی رہو۔نقاب پہننا ان کا پرسنل ڈیسیزن/ فیصلہ ہے کیونکہ وہ موڈیسٹی / حیا پسند کرتی ہیں اور ان کے گھر میں ان کی تربیت بھی ایسی رہی ہوگی۔نقاب پہننا شریعت اسلامی میں لازم ہے کہ نہیں یہ ایک الگ مسءلہ ہے ۔کورٹ کا حجاب کے خلاف فیصلہ دینا انسان کی آزادی کے خلاف ہے، مستورات کے رائیٹس کے خلاف ہے ۔ہمیں کورٹ سے ایسے فیصلے کی قطعاً امید نہیں تھی۔ آج سے تقریباً پچیس سال پہلے کیرلا کے ایک اسکول میں ایک عیسائی طالب علم مورننگ پرئیر کے وقت نیشنل اینتھم پڑھنے سے انکار کردیا اس وجہ سے کہ اس گیت کے پڑھنے کی اجازت اس کا مذہب نہیں دیتا۔یہ معاملہ کورٹ تک پہنچا اور کورٹ نے یہ فیصلہ صادر کیا کہ انڈین کانسٹیچیوشن کے مطابق سب کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے ، لہذا طالب علم کے لیے نیشنل اینتھم کا پڑھنا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اس عمل کو ملک سے غداری سے تعبیر کیا جائےگا۔لیکن افسوس کہ آج کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ نہ صرف مذہبی آزادی کے خلاف رہا بلکہ انسانی آزادی کے بھی خلاف ہوا۔لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے‌۔ایوری کلاؤڈ ہیز اے سلور لاءننگ ٹھو۔اگر کرناٹک کے ہائی کورٹ نے حجاب کے خلاف فیصلہ دیا ہے تو اُدھر مہاراشٹرا کے ہائی کورٹ نے حجاب کی حمایت میں فیصلہ صادر کیا۔اگر کرناٹک کے ہائی کورٹ نے حجاب کے خلاف فیصلہ دیا ہے تو اُدھر اقوام متحدہ نے یہ فیصلہ لیا ہے کہ ہر سال مارچ ١٥ کو عالمی کامبیٹ اسلامو پھوبیا ڈے کے طور پر منایا جائیگا۔اسلامو پھوبیا کسے‌ کہتے ہیں ؟ عوام کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کا خوف پیوست کرنا اسلامو پھوبیا ہے۔سماج میں یہ احساس دلانا کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اسلامو پھوبیا ہے۔لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانا کہ ہر مسلمان دہشت گرد ہے اسلامو پھوبیا ہے۔جارج برنارڈ شا نے کبھی کہا تھا کہ اسلام از دی بیسٹ ریلیزین اینڈ مسلمز آر دی ورسٹ کامیونیٹی۔اس قسم کے کئی کوٹس غیر مسلم دانشوروں کی جانب سے تاریخ میں رقم ہیں ۔ان کوٹس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمو پھوبیا پہلے بھی تھا ، لیکن اسلامو پھوبیا نہیں تھا ۔مذہب اسلام کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔اسلامو پھوبیا ایک نئی اصطلاح ہے۔غالبا” سن ٢٠٠٠ ء سے اس لفظ کا استعمال ہورہا ہے اور اسلام کے خلاف ، اسلام کے قوانین کے خلاف سازشیں چل رہی ہیں۔ بھارت میں میڈیا نے اسلام کے خلاف منافرت پھیلانے کے لئے اس لفظ کی خوب تشہیر کی۔ انڈین جرنلسٹ برکھا دت نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ بھی اسلامو پھوبیا کی شکار ہے اور ڈرتی ہے کہ شاید اس کے پڑوسی فلیٹ میں رہتا ہوا مسلم شخص بھی اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر دہشت گرد بن گیا ہو ۔اسلامو پھوبیا کے خلاف اس سے پہلے بھی آوازیں اٹھی ہیں ۔ ٢٦ ستمبر ٢٠١٨ میں بروسیلس کے پارلیمنٹ میں ایک قرار داد پاس ہوا تھا جس کے ذریعہ یہ کوشش کی گئی تھی کہ پورے یوروپ میں اسلامو پھوبیا کے خلاف ایک مہم چلائی جاۓ اور لوگوں کو سمجھایا جاۓ کہ اسلام ایک پر امن مذہب کا نام ہے،اسلام اپنے ماننے والوں کو دہشت گردی نہیں سکھاتا ۔لیکن بروسیلس کا یہ قرار داد یوروپ کے لیے تھا ، اس‌کا دائرء عمل یوروپی ممالک تک محدود تھا ۔پورے کرہء ارض کے لیے اس قسم کی تحریک کبھی چلائی نہیں گئی تھی ۔پہلی بار ایسا ہوا جیسا کہ اقوام متحدہ نے ١٦ مارچ ٢٠٢٢ میں یہ فیصلہ لیا کہ ہر سال ١٥ مارچ ٢٠٢٢ عالمی کامبیٹ اسلامو پھوبیا ڈے کے طور پر منایا جائیگا تاکہ عوام کا نظریہ اسلام اور اسلام کے ماننے والوں کے تعلق سے صاف ہوجائے اور عوام کو یہ احساس دلایا جائے کہ اسلام ایک پر امن مذہب ہے اور مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ شانتی کے پرتیک ہیں ۔ہم اقوام متحدہ کے اس فیصلہ کا خیر مقدم ڈاکٹر اقبال کے اس شعر کے ساتھ کرتے ہیں :جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیںاِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۔

اعمال شب برات ،ان میں ہے امت محمدیہ کے لیے پروانہ نجات–مفتی قاضی فضل رسول مصباحی دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم بر گدھی مہراج گنج یوپی۔ورکن مرکزی اصلاحی رویت ہلال کمیٹی دفتر سالماری کٹیہار ، بہار

۔ اسلامی کیلنڈر کے اعتبار سے شعبان المعظم سال کا آٹھواں مہینہ ہے اور پندرہویں شعبان کی رات مخصوص فضیلت و اہمیت کی حامل ہے ۔ کیوں کہ رب کریم کا فرمان عالی شان ہے “وذکرھم بایام اللہ” اور انہیں اللہ کے دن یا دلاؤ۔ اس آیت میں چند مخصوص دنوں کو اللہ نے یاد کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اور ان مخصوص دنوں کے تعلق سے مفسرین صحابہ کرام حضرت عبداللہ ابن عباس ، حضرت ابی ابن کعب اور حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنھم اور دیگر مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ایام اللہ سے مراد وہ ایام و دن ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر انعامات و احسانات فرمایا ۔ یہ ظاہر و باہر ہے کہ شب قدر اور شب ولادت کی طرح شب برات بھی اللہ کے مخصوص ایام میں سے ایک خاص دن ہے ۔ اس کا مخصوص دنوں میں شمار ہونا احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ” جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔ کیوں کہ اس رات میں اللہ تعالی کی تجلی آفتاب غروب ہونے کے وقت سے آسمان دنیا پر نازل ہوتی ہے ۔ اور اللہ تعالی فرماتا ہے کیا کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے کہ اسے بخش دوں۔ کیا کوئی رزق مانگنے والا ہے کہ اسے عطا کردوں ۔ کیا کوئی مصیبت زدہ ہے کہ اسے چھٹکارادلاؤں ۔کیا کوئی ایسی ایسی حاجت والا ہے کہ میں حاجت کو پوری کردوں ۔ یہاں تک کہ صبح ہو لے ” اس ارشاد رسول سے اس امر کی تاکید مترشح ہوتی ہے کہ اس مبارک رات میں بندہ کثرت عبادت کے ذریعہ اپنے معبود کی رضا و خوشنودی حاصل کرکے قرب خداوندی کا حقدار بن جائے ۔ جو ایک صالح انسان کا منزل مقصود بھی ہے ۔ رب کریم کی رضا کے متلاشی کے لیے یہ رات ایسی پر مسرت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کے رحم و کرم کا دریا جوش پر ہوتا ہے ۔ اور بے شمار گناہ گاروں کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔حدیث پاک میں ہے ” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ گنہ گاروں کو بخشتا ہے ” سرکار علیہ السلام کے مذکورہ فرمان سے واضح ہوگیا کہ یہ رات ہم گنہ گاروں کے لیے عبادات نافلہ کرکے پروانہ نجات حاصل کرنے کی رات ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ” بے شک اللہ تعالی اس رات تمام مسلمانوں کی مغفرت فرماتا ہے ۔ اسی حدیث میں آقانے فرمایا کہ اور کچھ لوگوں کو یہ نجات کا پروانہ نہیں ملتا وہ یہ ہیں ” کاہن ، جادو گر ، ہمیشہ کا شرابی ، ماں باپ کا نافرمان اور زنا کے خوگر یعنی زنا جن کی عادت بن گئی ہو ” ۔ اعمال شب برات کے فائدے بہت ہیں ان میں سے چند یہ ہیں نماز: اس رات حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بھی نماز پڑھی اور دوسروں کو بھی پڑھنے کا حکم دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کی اے علی جس نے پندرہویں شعبان کی شب میں سو رکعت نمازپڑھی اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد گیارہ گیارہ بار قل اللہ پڑھی ، کاتبین کو حکم ہوگا میرے اس بندے کے گناہ مت لکھو اور اس کے حسنات آئندہ سال تک برابر لکھتے رہو ۔ جو کوئی یہ نماز پڑھے تو اللہ تعالی اس کے لیے اس رات کے عابدوں میں حصہ مقرر کردیتا ہے ۔صالحین امت سے یہ طریقہ بھی معروف ہے کہ شب برات میں دورکعت نماز اس طرح پڑھنی چاہئے کہ ہر رکعت سورئہ فاتحہ کے بعد آیتہ الکرسی ایک مرتبہ سورئہ اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھیں تو خالق کائنات اس کو دوزخ سے آزاد کردے گا اور بہشت میں بہترین محل عطا فرمائےگا علمائے کرام ایک طریقہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جو شخص شب برات میں چار رکعت نفل نماز اس طرح پڑھے کہ ہررکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد سورئہ اخلاص پچاس مرتبہ پڑھے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالی اس کے پچاس برس کے گناہ معاف فرما دے گا۔نماز شب برات کی فضیلت ”نزھة المجالس“میں بایں مفہوم موجودہے ،ایک مرتبہ سیدنا عیسی علیہ الصلوة والسلام ایک پہاڑ کی سیر میں مصروف تھے کہ آپ کو اس جگہ ایک خوب صورت اور صاف وشفاف چٹان نظر آئ ۔جس کی خوب صورتی آپ کو اتنی پسند آئ کہ آپ اس کو بغور دیکھنے لگے۔خالق کائنات نے دریافت فرمایا،اے عیسی! کیا یہ چٹان بہت بھلی معلوم ہوتی ہے، عرض کیا ۔ہاں۔ ارشاد ربانی ہواکہ تم اس کے اندر کی چیز کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہو،عرض کیا ضرور،رب کائنات کے حکم سے وہ چٹان بیچ میں پھٹ گئ، حضرت عیسی علیہ السلام نے دیکھاکہ چٹان کے اندر ایک نورانی شخص نماز پڑھ رہاے۔اس کےقریب ہی پانی کا چشمہ بہہ رہا ہےاور ایک طرف انگور کی بیل بھی ہے جس میں انگور کے ترو تازہ خوشے لگے ہیں،جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوا ،تو آپ نے اس کو سلام کیااور مصافحہ فرمایا۔حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا تم کون ہو؟اور کب سے ہو اور کیا کرتے ہو؟ اس شخص نے جواب دیامیں حضرت موسی علیہ الصلوة والسلام کی امت کاایک شخص ہوں ،میں نے اللہ تعالی سے دعا مانگی تھی کہ مجھے عبادت کرنے کےلۓسب سےالگ جگہ عنایت فرما۔چنانچہ اس نے مجھے یہ تنہائ کی جگہ عطا فرمائ ۔یہاں میں چارسو سال سےعبادت میں مصروف ہوں،پیاس لگتی ہےتواس چشمہ سے پانی پی لیتاہوں۔اور بھوک محسوس ہوتی ہے تو اس بیل سے انگور توڑ کر کھا لیتا ہوں۔ حضرت عسی علیہ السلام بہت مسرور و شاداں ہوۓ اور عرض کیا ،یا اللہ اس سے بڑھ کر کون عبادت گذار ہوگااور اس سے زیادہ ثواب کس نے جمع کیا ہوگا۔ ارشاد باری ہوا ،اے عیسی!” من صلی لیلة النصف من شعبان من امة محمد صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین فھو افضل من عبادة اربع ماءة سنة“ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سےجو شخص شعبان کی پندرہویں شب کو دورکعت نماز پڑھےگا وہ چار سو سال کی عبادت سے زیادہ ثواب پاۓ گا۔اللہ تعالی اس طرز کی کسی بھی نماز کی ادائے گی سے ہماری جبینوں کو آشنا فرمادے ، اس رات اور اس شب کی عبادت کےطفیل ہمارے ملک کو امن وآشتی کا گہوارہ بنا دے اور اسلامیات پر عمل پیرا رہنے کے مواقع عطا فرما آمین

شب برات۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

میرے خدا کی خوب ہے نعمت شب برات

دیتی ہے سب کو راہ ہدایت شب برات

کرتے رہو عبادت رب اجتماعی بھی

مومن کو دے رہی ہے یہ دعوت شب برات

تشریف لے گئے تھے نبی جنت البقیع

ہم کو دکھاتی ہے رہ سنت شب برات

اے میرے بندے مانگ تو کیا مانگتا ہے آج

کہتا ہے رب بطور عنایت شب برات

بچنا ہے تم کو بغض و حسد اور عناد سے

تم پر کرے گی ہر گھڑی نصرت شب برات

تقدیس والی راتوں میں ہے ایک رات یہ

رب کی قسم ہے حامل عظمت شب برات

یارب بنادے زندگی تابندہ “عینی” کی

نوری ہے تیری شب مہ نکہت شب برات

شب برأت°°°°°°از فریدی صدیقی مصباحی باره بنکوی مسقط عمان0096899633908

(1) بندےکی التجائیں

یارب ترے کرم کی دُہائی شبِ برات
بَھر دے مرا بھی دستِ گدائی شبِ برات

سوکھا ہوا ہے باغِ عمل اے مرے کریم
اس کو ملے بَہارِ عطائی شبِ برات

مجھ کو بھی اپنی چادرِ رحمت میں ڈهانپ لے
کتنوں کی لاج تو نے بچائی شب برات

شرمندہ ہوں گناہوں کی آلودگی سے میں
عِصیاں کی ہو جگر سے صفائ ، شب برات

ہموار ہوں مرے لیے نیکی کے راستے
پَٹ جائے ہر گناه کی “کھائی” شب برات

ٹوٹا ہے بارِ غم سے مرا پیکرِ وجود
یارب تو کردے رنج کُشائی شب برات

سارے فریب ، نفس پرستی کے دور ہوں
دل سے دُهلے ، ہر ایک بُرائی شب برات

ہوں سارے خوش عقیده مسلمان متّحد
مل جائے ہر ” اِکائی دَہائی ” شب برات

تو اپنی رحمتوں سے ، بنادے اِنھیں گُہر
ہم نے جو بزمِ اشک سجائی شب برات

تیرے کرم سے پایا ہے نیکوں نے جو مقام
اُس درپہ ہو مری بھی رَسائی شب برات
°°°°°°°°
(2) رب کی عطائیں

فرمایا رب نے ، اے مرے بندے بغور سُن !
مقبول ہوگی، عرض نوائی شب برات

اپنی خطا پہ نادم و شرمنده ہو کے آ
تائب کو نار سے ہے رِہائی شب برات

ظاہر کو تو نے خوب سجایا سنوارا ہے
باطن کی کر رَنگائ پُتائ ، شب برات

جو سچّی توبہ کرتے ہیں، اُن سب کے واسطے
پیغام مغفرت کا ہے لائی شب برات

سب سے “کَہے سُنے” کی معافی طلب کریں
غصہ رہے نہ بھائی سے بھائی شب برات

ہستی کے آئینے میں کرم جگمگائے گا
زخمِ گناه کی ہے دوائی شب برات

ہوں گے نصیب ، اس کو اُجالے بہشت کے
جس نے بھی شمعِ توبہ جلائی شب برات

دنیا بھلے ہی دے کہ نہ دے اُن کو اہمیت
ہے بھاؤ خاکساروں کا “ہائی” شب برات

رو رو کے ، گِڑگڑا کے جو مجھ کو مناتے ہیں
پاتے ہیں خلد کی وه بَدهائی شب برات

تو بھی فریدی ! اپنی جبینِ نیاز رکھ
کر نیکیوں کی خوب کمائی شب برات

رنگائ پُتائ ، رنگنا، کَلَرکرنا

شعبان اور شب برات۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

ایک مَثَل مشہور ہے

تمھارا ہر دن عید ہو اور تمھاری ہر رات شب برأت۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کو دعاؤں سے نوازتا ہے تو یہ کہتا ہے:تمھارا ہر دن عید ہو اور تمھاری ہر رات شب برات، عید سے مراد عید الفطر یعنی شوال کی پہلی تاریخ ہے اور شب برآت سے مراد پندرہویں شعبان المعظم کی رات۔ شوال کی پہلی تاریخ عید کے طور پر اس لیے منائی جاتی ہے کہ مسلمان رمضان کے تیس روزے مکمل کرتا ہے اور تکمیل روزہ کی خوشی میں وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور مسرت سے سرشار ہوکر شوال کی پہلی تاریخ کو وہ عید مناتا ہے۔

تو پھر شب برات کس خوشی میں منائی جاتی ہے ؟ ہر رات شب برات جیسی ہو ، یہ دعا کیوں دی جاتی ہے؟ آئیے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ تاریخ اپنی قوم اور دیگر اقوام میں کیوں اہمیت رکھتی ہے۔پندرہ شعبان کو فارس کے لوگ خوشیاں مناتے آئے ہیں اور اسے وہ جشن مھر کا نام دیتے ہیں اور اس جشن میں وہ اپنے یزتھا مترا کی تعظیم بجالاتے ہیں ۔اہل تشیع پندرہویں شعبان میں خوشیاں اس لیے مناتے ہیں کہ ان کے عقیدے کے مطابق پندرہ شعبان ٢٥٦ ہجری کو بارھویں امام محمد بن الحسن المھدی پیدا ہوئے تھے۔اور ہر گھر میں اس رات امام محمد الحسن المھدی کے نام فاتحہ خوانی ہوتی ہے۔یہ منظر ہم نے دبئی میں دیکھا تھا کیونکہ ہمارے کچھ کسٹومرز اہل تشیع تھے جو اپنے گھروں میں بہت دھوم دھام سے یوم ولادت امام محمد الحسن المھدی کے طور پر پندرھویں شعبان کی خوشیاں مناتے تھے۔لیکن ہم اہل سنت کے لیے کون سی خوشی کی بات ہے کہ ہم اس قدر اہتمام سے شب برات مناتے ہیں۔ غسل کرتے ہیں ۔خوشبو لگاتے ہیں، نئے کپڑے/ صاف ستھرے پہنتے ہیں، ، رات میں مسجدوں کو آباد کرتے ہیں اور رات بھر مسجدوں میں خدا کی عبادات کرتے ہیں ۔ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ دنیا کی زندگی عارضی ہے۔اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔ہم زندگی ایسی گزاریں کہ آخرت میں خدا و رسول کے سامنے اپنے کیے پر شرمندہ نہ ہوں ۔اگر مسلمان شریعت مطہرہ کے بتائےہوئے ہوئے طریقوں پر چلے تو اس کے لیے دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت میں بھی۔لیکن مسلمان آخر ایک انسان ہی تو ہے ، ایک بشر ہی تو ہے۔انسان کے اندر جہاں نفس مطمئنہ و نفس لوامہ ہیں وہیں نفس امارہ بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں غلطیاں کر بیٹھتا ہے ۔ان غلطیوں کی مغفرت کیسے ہو؟ ان غلطیوں کی معافی کی راہ ہموار کیسے ہو ؟ کیا کوئی راستہ ہے جس سے انسان کی غلطیاں دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے سے پہلے معاف ہوجائیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔خدا غفور الرحیم ہے، خدا کریم ہے،خدا غفار ہے ، خدا رحمان ہے۔خدا قادر مطلق ہے ۔ وہ جب چاہے ہماری توبہ قبول فرمالے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ اللہ کا ہم پر بے پایاں احسان ہے کہ رب کریم نے کچھ خاص راتیں مقرر کی ہیں جن میں خصوصی رحمت باری کا نزول ہوتا ہے ۔ان راتوں میں اگر مسلمان اخلاص کے ساتھ توبہ و استغفار کرے تو خدا مسلمان پر خصوصی کرم فرماتے ہوئے معاف فرمادیتا ہے۔ انھی راتوں میں سے ایک رات ہے جس کا نام ہے شب برات یعنی پندرہویں شعبان کی رات۔ چونکہ اس رات میں گناہ بخشے جاتے ہیں اور گناہ کی معافی ایک مسلمان کے لیے سب سے زیادہ باعث مسرت و شادمانی ، وجہ کیف و سرور ہوتی ہے ، اس لیے مسلمان اس رات کو خوشیاں مناتا ہے کہ شب برات گناہ بخشوانے کی رات ہے ، شب برات مغفرت کی رات ہے ،شب برات رحمتوں کے نزول ہونے کی رات ہے ۔شب برات کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ اس مہینے میں آتی ہے جس مہینے کے بارے میں رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شعبان میرا مہینہ ہے۔جس مہینے کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنا مہینہ کہیں اس مہینے کی عظمت کا کیا کہنا۔ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ شعبان کو اپنا مہینہ کیوں فرمایا؟ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے :١.شعبان وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل اختیار شفاعت عطا فرمایا ۔٢.شعبان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دلی خواہش کی تکمیل رب کریم نے فرمائی یعنی تحویل قبلہ کا واقعہ پیش آیا اور ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس کے عوض کعبہء معظمہ بن گیا ۔ ٣.شعبان میں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم روزوں کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔شب برات وہ رات ہے جس کو فرشتوں کے لیے عید سے تعبیر کیا گیا ۔شب برآت اسلامی تاریخ کی اہم ترین رات ہے۔شب برأت جود و عطا کی رات ہے شب برأت اس مہینے میں آتی ہے جس مہینے میں درود و سلام کی آیت نازل ہوئی تھیشب برات وہ رات ہے جس رات کے بارے میں مشہور روایت ہے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے۔ شب برات برکتوں والی رات ہے شب برات دوزخ سے بری ہونے اور آزادی ملنے کی رات ہے شب برات دستاویز والی رات ہے شب برأت اللہ تعالیٰ کی رحمت ‌خاصہ کے نزول کی رات ہے شب برأت وہ رات ہے جس کا نام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا کیونکہ اس رات رحمت خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں شب برات وہ رات ہے جس رات میں ایک سال کا حال لکھ دیا جاتا ہے۔شب برأت وہ رات ہے جس میں دعا رد نہیں ہوتی بلکہ قبول ہوتی ہے ۔شب برأت تقدیس والی رات ہے ۔اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:تقدیس والی راتوں میں ہے ایک رات یہ رب کی قسم ہے حامل عظمت شب برآتجس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں اسی طرح ماہ شعبان تمام مہینوں سے افضل ہے ۔لہذا ہمارے لیے یہ بہتر ہے کہ ماہ شعبان میں خصوصاً پندرہویں شعبان میں روزے رکھیں اور پندرہویں شعبان کی رات میں رب کی عبادت کریں ، نبی پر درود بھیجنے کا اہتمام کریں اور خوب توبہ و استغفار کریں ۔ابو نصر نے اپنے والد سے نقل کی ہے جو انھوں نے بالاسناد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نصف شعبان کی رات میں اللہ تعالیٰ قریب ترین آسمان کی طرف نزول فرماتا ہے اور مشرک، دل میں کینہ رکھنے والے اور رشتہ داریوں کو منقطع کرنے والے اور بدکار عورت کے سوا تمام لوگوں کو بخش دیتا ہے۔لہذا اگر ہمیں شب ‌برات کی حقیقی خوشی حاصل کرنی ہے تو ہمیں چاہیے کہ اپنی بخشش کا سامان کریں ۔الحمد لللہ ہم مسلمان ہیں ، شرک نہیں کرتے ۔آپس میں اگر دل کے اندر بغض و کینہ رکھے ہوئے ہیں تو بغض و کینہ کو دل سے نکال دیں ، رشتہ داروں سے اگر قطع تعلق ہے تو رشتہ داری کو استوار/ بحال کریں ، اگر کوئی شخص رشتہ داری کو استوار/ بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے تو اسے نہ روکیں ، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کریں اور اس کا ساتھ دیں ۔حقوق العباد کا خیال رکھیں ، کسی کا دل نہ توڑیں ، کسی کی امانت میں خیانت نہ کریں ، کسی کی زمین کو ناجائز طور پر ہڑپنے کی کوشش نہ کریں ، دل کو صاف و شفاف رکھیں اور دل سے حسد،بغض ، کینہ ، عناد کے کیڑے مکوڑوں کو نکال کر باہر پھینک دیں ۔اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:بچنا ہے تم کو بغض و حسد اور عناد سےتم پر کرےگی ہر گھڑی نصرت شب برآت شب برأت میں مسجد کو آباد کریں ، قرآن کی تلاوت کریں ، درود کا ورد کریں ۔نفل نمازوں کا اہتمام کریں ، لیکن یہ نہ بھولیں کہ آپ کو عشاء اور فجر کی نمازیں جو فرض ہیں انھیں بھی ادا کرنی ہیں اور باجماعت ادا کرنی ہیں ۔ایسا ہر گز نہ کریں کہ رات بھر نفل پڑھیں اور فجر کی نماز کے وقت سوجائیں۔مستحبات کو فرض پر ترجیح نہ دیں ۔پنج وقتہ نمازیں فرض ہیں اور ان کا ادا کرنا ہر حال میں ضروری ہے ۔سفر ہو کہ حضر، گھر ہو کہ باہر ، حالت امن ہو یا حالت مصیبت، ہر حال میں ایک مسلمان کو پنج وقتہ نمازوں کا قائم کرنا ضروری ہے۔صحابہء کرام کی سیرت کا مطالعہ کریں، صحابہء کرام کے دور کو یاد کریں ۔صحابہء کرام دوران جنگ بھی فرض نمازوں کا اہتمام کرتے تھے ۔قرآن کا مطالعہ کریں ۔قرآن میں ہے :اور اے محبوب جب تم ان میں تشریف فرماہو پھر نماز میں ان کی امامت کرو تو چاہیے کہ تم میں ایک جماعت تمھارے ساتھ ہو اور وہ اپنے ہتھیار لیے رہیں پھر جب وہ سجدہ کرلیں تو ہٹ کر تم سے پیچھے ہوجائیں اور اب دوسری جماعت آئے جو اس وقت تک نماز میں شریک نہ تھی اب وہ تمہارے مقتدی ہوں اور چاہیے کہ اپنی پناہ اور اپنے ہتھیار لیے رہیں کافروں کی تمنا ہے کہ کہیں تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے اسباب سے غافل ہوجاؤ تو ایک دفعہ تم پر جھک پڑیں اور تم پر مضائقہ نہیں مینھ کے سبب تکلیف ہو یا بیمار ہو کہ اپنے ہتھیار کھول رکھو اور اپنی پناہ لیے رہو بیشک اللہ نے کافروں کے لئے خواری کا عذاب تیار کر رکھا ہے پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کی یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے پھر جب مطمئن ہوجاؤ تو پھر حسب دستور نماز قائم کرو بیشک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔ مندرجہ بالا ترجمہء آیت قرآن میں نماز خوف کا بیان ہے۔جہاد میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین نے دیکھا کہ آپ نے مع تمام اصحاب کے نماز ظہر باجماعت ادا فرمائی تو انھیں افسوس ہوا انھوں نے اس وقت کیوں نہ حملہ کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ کیا ہی اچھا موقع تھا جب بعضوں نے ان سے کہا اس کے بعد ایک اور نماز ہے جو مسلمانوں کو اپنے ماں باپ سے زیادہ پیاری ہے یعنی نماز عصر جب مسلمان نماز کے لیے کھڑے ہوں تو پوری طاقت سے حملہ کرکے انھیں قتل کردو اس وقت جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور انھوں نے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ یہ نماز خوف ہے اور اللہ عز و جل فرماتا ہے واذا کنت فیھم ۔۔۔۔۔۔۔حاضرین کو دو جماعتوں میں تقسیم کردیا جائے ایک ان میں سے آپ کے ساتھ رہے آپ انھیں نماز پڑھائیں اور ایک جماعت دشمن کے مقابلہ میں قائم رہے ۔نماز خوف کا مختصر طریقہ یہ ہے کہ پہلی جماعت امام کے ساتھ ایک رکعت پوری کرکے دشمن کے مقابل جائے اور دوسری جماعت جو دشمن کے مقابل کھڑی تھی وہ آکر امام کے ساتھ دوسرے رکعت پڑھے فقط امام سلام پھیرے اور پہلی جماعت آکر دوسری رکعت بغیر قرآت کے پڑھے اور سلام پھیر دے اور دشمن کے مقابل چلی جائے پھر دوسری جماعت اپنی جگہ آکر ایک رکعت جو باقی رہی تھی اس کو قرآت کے ساتھ پورا کرکے سلام پھیرے ۔حالت خوف میں دشمن کے مقابل اس اہتمام کے ساتھ نماز ادا کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت کس قدر ضروری ہے ۔کیا ایسا کبھی ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان شب معراج یا شب برآت کا روزہ رکھے اور رمضان کے فرض روزے ترک کردے؟ اگر ایسا کوئی کرے تو کیا وہ گنہگار نہیں ؟ اسی طرح اگر کوئی شب معراج یا شب برآت میں نفل نمازیں ادا کرے مگر عشاء اور فجر کی نماز چھوڑ دے یا فرض نمازیں جماعت سے نہ پڑھے تو وہ بھی گنہگار ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز با جماعت پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے،ماہ شعبان و شب برآت کی قدر کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے ، شب برآت میں عبادت کے لیے قیام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور شعبان کے پندرہویں دن میں روزہ رکھنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

तंज़ीम फारग़ीन -ए- अमजदिया ने की हिजाब फैसले की निंदा__ रिपोर्ट _आसिफ जमील अमजदी

__तंज़ीम फारग़ीन-ए- अमजदिया 2010 के उलेमा ने हिजाब मामले में कर्नाटक उच्च न्यायालय के फैसले पर प्रतिक्रिया व्यक्त की और निर्णय को खेदजनक बताया कि यह पूरी तरह से इस्लाम के खिलाफ है और यह इस्लामी शिक्षाओं और शरयी नियमों में हस्तक्षेप है जो हमें स्वीकार्य नहीं है . ऐसे में हमें कानूनी विशेषज्ञों और बड़ों के प्रयासों का इंतजार है जो इस मामले में कोर्ट का दरवाजा जरूर खटखटाएंगे. क्योंकि अगर ऐसा नहीं किया गया और फैसले पर खामोश रहे तो इसके कई नकारात्मक प्रभाव पड़ सकते हैं, खासकर मुस्लिम लड़कियों की शिक्षा पर. फैसला सुनाने से पहले सरकार को यह विचार करना चाहिए कि सभी धर्मों के छात्रों के लिए शिक्षण संस्थानों में उनके धार्मिक प्रतीकों के साथ अध्ययन करने की प्रथा रही है, लेकिन हमेशा की तरह, मुसलमानों को अभी भी निशाना बनाया जा रहा है। इस संगठन के एक युवा सक्रिय धार्मिक विद्वान हज़रत मौलाना आसिफ जमील अमजदी गोंडवी ने अपने बयान में कहा कि निर्णय आने की देरी थी सो हमने कर्नाटक उच्च न्यायालय को भी देखा लिया। मुस्लिम छात्र-छात्राएं नाराज न हों। धैर्य रखें, अपनी परीक्षा ऑनलाइन लें यदि संभव हो तो ,यह बहुत महत्वपूर्ण है। अदालत के इस फैसले के आधार पर बदमाशों के लिए समाज में अशांति फैलाना संभव है, इसलिए मुस्लिम छात्राओं को बहुत समझदारी से काम लेने की जरूरत है, ऐसे में कभी भी भावुक न हों.

حجاب فیصلہ پر تنظیم فارغین امجدیہ کا اظہار مذمت_ رپورٹ :- آصف جمیل امجدی

حجاب معاملہ میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ پر تنظیم فارغین امجدیہ 2010؁ء کے علماۓ کرام نے رد عمل ظاہر کیا اور اس فیصلے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے علماء نے اپنا ایک بیان رلیز کیا کہ عدالت کا یہ فیصلہ دستور ہند کے دفعہ 15/ کے سراسر خلاف ہے اور یہ اسلامی تعلیمات نیز شرعی احکام میں مداخلت ہے جو ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔ ایسی صورت حال میں ہمیں انتظار ہے ماہرین قانون اور عمائدین کی کوششوں کا کہ وہ اس معاملہ میں ضرور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ کیوں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا بل فیصلہ پر چپی سادھے رہے تو اس کے کئی منفی اثرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں بالخصوص مسلم بچیوں کی تعلیم پر برا اثر پڑے گا۔ فیصلہ سے قبل حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ تعلیمی اداروں کا یہ رواج رہا ہے کہ بلاتفریق مذہب کے طلبہ و طالبات ادارے میں اپنی مذہبی علامتوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں لیکن ہمیشہ کی طرح آج بھی مسلمانوں کو نشان زد پر لیا گیا۔تنظیم ھذا کے متحرک فعال نوجوان عالم دین حضرت مولانا آصف جمیل امجدی گونڈوی نے اپنے بیان میں کہا کہ فیصلہ آنے کی دیری تھی سو وہ بھی ہم نے کرناٹک کے ہائی کورٹ کو دیکھ لیا، لہذا اس سے مسلم طلبہ و طالبات مشتعل نہ ہوں بل کہ صبر سے کام لیں، آن لائن ممکن ہو سکے تو اپنا امتحان دیں یہ بہت ضروری ہے۔ کورٹ کے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر ممکن ہے کہ شر پسند کی طرف سے سماج میں بدامنی پھیلائی جاۓ ، لہذا مسلم طالبات کو ایسی صورت میں بہت ہی دانشمندی اور مصلحت سے کام لینے کی ضرورت ہے، جذباتی ہرگز نہ بنیں۔