WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

اینٹ بھٹے پر ایڈوانس رقم جمع کر کے اینٹ لینے کا شرعی حکم،، از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمة الله وبركاته
حضرت ایک مسئلہ پوچھنا تھا کہ
آج سے چھ سال پہلے ایک بھٹے میں پانچ ہزار اینٹوں کیلئے پیسے دیا گیا تھا
اس وقت ایک ہزار اینٹ کی قیمت چھ ہزار تھی تو پورے تیس ہزار ہوئے لیکن انہوں نے اب تک اینٹیں نہیں دی
اب اس اینٹ کی قیمت بڑھ گئی ہے اور اب اگر بھٹے والا پیسے لوٹائے گا تو تیس ہزار لوٹا ئیگا يا جو قیمت اب چل رہی ہے وہ قیمت دیگا ؟ المستفتی۔محمد سباحت رضوی۔متعلم ۔دارالفکر بہرائچ شریف۔
👇👆
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب۔واضح رہے کہ خرید و فروخت میں جو قیمت معاملہ  کے وقت طے ہوتی ہے وہی اصل قیمت ہوتی ہے، معاملہ طے ہوجانےکے بعد مارکیٹ ریٹ میں کمی یا زیادتی کا اعتبار نہیں ہوتا،  لہٰذا  اس پر وہی قیمت لوٹانا واجب ہے جو معاملہ کے وقت طے کی گئی تھی،  اگر اینٹ دینا چاہے تو اسی قیمت پر دینا اس پر لازم ہے جو معاملہ کے وقت طے ہوئ تھی ۔جیسا کہ
مجلۃالاحکام العدلیہ میں ہے:
“(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي، سواء كان مطابقا للقيمة الحقيقية أو ناقصا عنها أو زائدا عليها.”
(الكتاب الأول في البيوع، ‌‌المقدمة: في بيان الاصطلاحات الفقهية المتعلقة بالبيوع، ص:33، )
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
28/ جمادی الآخرۃ 1444ھ

جب اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور وہ لفظ کن سے ہر چیز کر سکتا ہے تو پھر فرشتوں کو کیوں لگایا؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے مسئلہ ذیل میں کہ جب اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور وہ لفظ کن سے ہر چیز کر سکتا ہے تو پھر فرشتوں کو کیوں لگایا، کسی کو پانی برسانے پر، کسی کو بندوں کے اعمال لکھنے پر اور بھی امور پر بھی فرشتوں کو لگا دیا
ایسا کیوں تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں

سائل محمد الطاف
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے اور وہ لفظ کن سے ہر چیز کرسکتا ہے۔اللہ تعالی ان فرشتوں کے توسط سے کائنات کی تدبیر فرماتا ہے اور فرشتوں کو جو حکم دیتا ہے فرشتے اسی کے مطابق عمل انجام دیتے ہیں اور کسی صورت اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتے۔ اور جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُون‌؛ وہ اللہ کی معصیت و نافرمانی نہیں کرتے اور وہی انجام دیتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔لہذا معلوم ہوا کہ فرشتے جو کام کرتے ہیں وہ لفظ کن میں داخل ہے۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
28/12/22,

گھر میں بچہ پیدا ہو تو کیا پورا گھر ناپاک ہو جاتا ہے؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں
کے گاؤں میں کئی جگہ یہ رواج ہے کہ اگر کسی عورت کو بچا ہو تو وہ جس کمرے میں ہو اس جگہ کو اس کمرے کو ناپاک مانا جاتا ہے اور اس عورت یا بچّے کو چھونا بھی ناپاک مانتے ہیں تو

کیا حکم ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔المستفتی۔حافظ۔محمد وسیم ۔جھاڑکھنڈ۔☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔یہ سب جھالت ہے غیر مسلم کی رسمیں ہیں۔جیساکہ بہارے شریعت حصہ دوم ص ٧٩ پر ہے کہ نفاس میں عورت کو زچہ خانے سے نکلنا جاٸز اسکو ساتھ کھلانے یا اس کا جھوٹا کھانے میں حرج نہیں ۔ہندوستان میں عورتیں جو بعض جگہ ان کے برتن تک الگ کردیتی ہیں بلکہ ان برتنوں کو مثل نجس جانتی ہیں یہ ہندوں کی رسمیں ہیں ایسی بے ہودہ رسموں سے احتیات لازم ۔اھ۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ۔احمدرضا قادری۔مدرس۔المرکزالاسلامی دارالفکر۔بہراٸچ شریف۔٢٧\١\١٩۔

غزل‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

خواہشوں کو وہ مری خوب جگانے آیے
دن‌ ہو یا رات یہی خواب سہانے آئے

بادہ ، دیدار ، جنوں ، حوصلہ و جوش و خروش
“پھر مرے ہاتھ محبت کے خزانے آئے”

ان کی آمد ہے مرے دل میں بہت کار آمد
کعبہء دل کو وہ شفاف بنانے آئے

آئے بادل تو ہے امکان بھی ہمدردی کا
یہ نہ سمجھو کہ فقط بجلی گرانے آئے

سیکھیے گھونسلوں سے آپ پرندوں کے ذرا
اجنبی شہر میں بھی گھر وہ بسانے آئے

پہلے حالات جو تھے اس سے ہیں بد تر حالات
کیسے کہتے ہو کہ پھر اچھے زمانے آئے

زندگی پر جو مری ظلم کے توڑے تھے پہاڑ
بیچ کر قبر مری اب وہ کمانے آئے

ان کا در منبع انوار ہے سورج جیسا
بارش نور میں ہم “عینی” نہانے آئے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

دو لوگ ایک ساتھ کھڑے ہو گئے امام با ئیں مقتدی داہنے کیا ان کو مکمّل جماعت کا ثواب ملےگا؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام عليكم و رحمت اللہ و برکاتہ کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام و مفتیانے کرام مسلہ ذیل کے بارے میں کی دو لوگ ہیں اور نماز کا وقت ہوگیا دونو حضرات نے کہا نماز پڑھ لیا جائے ظہر کا وقت تھا سنّت ادا کیا اور تکبیر کہکے جماعت قائم کی اب بتانا یہ ہے کی دو لوگوں پے ایک ساتھ دونوں کھڑے ہو گئے امام با یں مقتدی دہنے کیا ان کو مکمّل جماعت کا ثواب ملیگا کی نہیں اور نیت کس طرح مقتدی کریگا پیچھے اس امام کے کہیگا کی نہیں مکمّل جواب دیکر عنداللہ مشکور ہوں 🌹 المستفتی🌹 محمّد اسلم قادری حنفی ارکاپور پیاگپور بہرائچ شریف یو پی الھند 🌴بتا ریخ 25 جنوری 2019🌹 مطابق🌷 18 جمادی الا ول 1440ہجری بروز جمعہ 🌴
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔
باجماعت نماز کی فضیلت بہت زیادہ ہے حتی کہ اگر دو آدمی بھی ہو۔ں تو جماعت قائم کی جائے، ان میں ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی نیت میں پیچھے امام ہی کے کہے گا؛ جیسا کہ حضرت ابوموسيٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ.
(سنن ابن ماجة، کتاب اِقامة الصلاة والسنة فيها، باب الاثنان جماعة، 1: 522، رقم: 972)
’دو یا دو کے اوپر جماعت ہے۔‘‘
دو آدمیوں کی جماعت ہو سکتی ہے اس کی صورت یہ ہوگی کہ ایک امام بنے اور دوسرا مقتدی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ.

ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب الاثنان جماعة، 1 : 522، رقم : 972

’’دو یا دو سے زیادہ (مردوں) پر جماعت ہے۔‘‘
اس صورت میں امام، مقتدی کو اپنے دائیں جانب کھڑا کرے گا، جیسا کہ حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے :
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھی۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر کو پیچھے کی طرف سے پکڑ کر مجھے دائیں طرف کر دیا۔
بخاری، الصحيح، کتاب الجماعة والإمامة، باب اذ قام الرجل عن يسار الإمام، 1 : 255، رقم : 693۔اھ۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ احمدرضا۔قادری۔دارالفکر۔بہراٸچ۔٢٦۔١۔١٩۔

دورانِ حمل الٹرا ساؤنڈ کروانا درست ہے یا نہیں؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ الٹرا ساونڈ جو بچے کی پیدائش سے پہلے ایک جانچ کی جاتی ہے بچے کی ماں پر تو یہ جانچ کروانا سہی ہے یا نہیں تفصیل کے ساتھ اسکا جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی؟
المستفتی محمد شیر علی قادری
☝🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔ الٹراساوٴنڈ یا سونو گرافی کرانا کہ جس میں عورت کے ناف کے نیچے کا حصہ کھولنا یا چھونا پڑے، شرعا ناجائز ہے، الٹرا ساوٴنڈ کی اجازت مجبوری میں دی گئی ہے، اس لیے کہ اس میں عورت کے ستر کو کھولنا ہا چھونا لازم آتاہے۔جیساکہ الاشباہ والنظاٸر میں الضرورات تبیح المحظورات۔اھ۔لہذا بلاضرورت شرعیہ حرام ہے۔واللہ تعالی اعلم۔کتبہ۔احمدرضا منظری۔دارالفکر۔بہراٸچ۔

نعت سرکار کونین صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی


عرب کے ماہ کی شہرت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے
نبی کی خوبیء رفعت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

زمیں میں ہے محمد نام ان کا عرش پر احمد
مرے سرکار کی عظمت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

پڑھو قرآں ، پڑھو توریت ، انجیل و زبور نور
شہ کونین کی مدحت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

قیادت کی ہے غزووں میں ، شفاعت ہوگی محشر میں
کہ محفوظ آپ سے امت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

زمیں میں وحی اتری ، دید رب ہوتی ہے اسریٰ میں
خدا سے آپ کی قربت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

زمیں والے نثار ان پر فلک والے بھی ہیں قربان
ہر اک کو شاہ سے الفت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

ہیں غاروں میں بھی غزووں میں بھی صدیق آپ ہی کے ساتھ
کہ ان کا جذبہء خدمت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے

زمیں پر کنکری بولے ، فلک میں چاند ہو ٹکڑے
اے عینی شاہ کی قدرت یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

علامہ مفتی شیر محمد خانصاحب رضوی کی 53 سالہ خدمات کے سلسلے میں خصوصی نششت کا انعقاد و امام احمد رضا ایوارڈ تتفویض… رپورٹ :جمشیدخان قادری

جودھپور/مرکزی دینی درسگاہ ازہر راجستھان الجامعۃ الاسحاقیہ جودھپور کے وسیع وعریض احاطے میں آج صبح ہی صبح علماء وفضلاء کا ہجوم رواں دواں تھا شہر کی سیاسی سماجی کارکنان بھی رفتہ رفتہ جامعہ کی طرف قدم بڑھارہے تھے قریب 11.45 پہ ہمارا چھوٹا سا قافلہ جامعہ کےاندرونی واقع (اسحاقیہ اسکول)چوک میں وارد ہوا چاروں طرف سے بہترین سجاوٹ اور بیچوبیچ خالی اور کچھ علماء بیٹھے, کرسیاں اور سامنے چھوٹا مگر انتہائی خوبصورت اور دلآویز اسٹیج اپنے معزز مہمانوں کا منتظر تھا رفتہ رفتہ ضیوفِ باوقار اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ تشریف لارہے تھے اسٹیج کے پاس مندوبین خاص کی چند کرسیاں رکھی ہوئیں، یکایک مائیک اسٹارٹ ہوتا ہے اپنے معمول کے مطابق جامعہ کے شعبۂ حفظ کے استاذ حافظ وقاری مسیح الزماں صاحب اشفاقی کی آواز میں نظامت شروع ہوئی موقع تھا جانشین مفتئِ اعظم راجستھان علامہ شیرمحمد خان رضوی شیخ الحدیث الجامعۃ الاسحاقیہ جودھپور کی 53سالہ خدمات جلیلہ کے اعتراف واحترام میں ایک اعزاز واستقبالیہ پروگرام کا،
الغرض پروگرام شروع ہوا اور حمد ونعت مصطفی علیہ التحیۃ والثنا کے بعد جامعہ کے ایک مؤقر استاذ مصباح الفقہاء علامہ مفتی محمدعالمگیر صاحب قبلہ رضوی مصباحی نے شیر راجستھان کی ٥٣سالہ خدمات پر روشنی ڈالی، مصباحی صاحب نے فرمایا کہ حضرت شیر راجستھان نے گزشتہ نصف صدی سے زائد خطابت وتدریس وسیاسی سماجی خدمات انجام دی ہیں جنکوکبھی فراموش نہیں کیا سکتا مزید فرمایا کہ حضرت شیر راجستھان جیسی شخصیت زمانوں بعد تشریف لاتی ہے اور ایک عہد کو روشن وتابناک بنادیتی ہے بقول شاعر
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
خطابت کے نیرتاباں علامہ سید نور اشرف اشرفی نے حضرت جانشین مفتئی اعظم راجستھان کی خدمات پہ شاندارخطاب فرمایا جسے برسہا برس یاد رکھا جائیگا سید صاحب قبلہ نے فرمایا مفتی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا ہے جن میں صرف چندکا یہاں ذکر کرنا مناسب ہی نہیں ضروری سمجھتا ہوں
خطابت ۔ہندوستان کے طول وعرض میں جس کی تقریر کا سلسلہ لمبا چلا ہے اور آج بھی چل رہا ہے الحمدللہ وہ ذات شیر راجستھان کی ہے جیسلمیر کے دھوروں سے لیکر کنیا کماری کی وادیوں تک اور باڑمیرکے ریگزاروں سے لےکر لکھنؤ کی علمی جولانیوں تک مفتی صاحب کے خطابت کا سکہ رائج الوقت ہے گجرات میں چند سال قبل
خطیب الہند کی موجودگی میں جو تقریر ہوئی وہ اگر بغدادکا راشٹر پتی بھی سنتا تو کلیجہ پھٹ جاتا
مصالحت ۔راجستھان میں کہیں افتراق وانتشار کے گرم جھونکے کہیں بھی سننے میں آتے ہیں تو مفتی شیر محمد خان صاحب قبلہ کی ذات مظہر اشفاق بن کر پہونچ جاتی ہے فریقین کی آپس میں صلح کراتی ہے 1968سے لےکر آج تک قال اللہ وقال الرسول وخطابت وفتوی نویسی جیسی خدمات انجام دی ہیں آنے والا مؤرخ سنہرے لفظوں میں آپ کو جگہ دےگا-
مولانا برکت صاحب اشرفی مدرس الجامعۃ الاسحاقیہ نے حضرت کی جودھپور میں کی گئی سماجی وقومی خدمات کا بحسن وخوبی تذکرہ کیا آپ نےدوران گفتگو کہا کہ جب کبھی بھی جودھپورمیں طوفان بداماں کی چنگاری لگی شیر راجستھان قبلہ نےسیاسی رہنماؤں کے ساتھ مل کر اس کو سرد کیا کئی ایک حوادث کا ذکر کرکے بتایا کہ مفتی شیر محمد صاحب قبلہ کی ذات راجستھان کے لئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے حال ہی میں باڑمیر کے سیڑوا میں جماعت غوثیہ وجیلانیہ کی طرف سے مفتی صاحب کو ان کے ہم وزن سکوں میں تولا اور اس سے پہلے باڑمیر کے سانولور گاؤں میں حضرت مولانا علیم الدین اشفاقی کی سربراہی میں اسی طرح آپکی عزت افزائی کی گئی جس پر مولانا برکت صاحب نے شکریہ ادا کیا
باسنی سے تشریف لائے مفتئی اعظم باسنی مفتی ولی محمد صاحب ،قاری عبدالوحیدصاحب بانی و مہتمم فیضان اشفاق ناگور۔ حضرت سید محی الدین اشرفی جیلانی ناظم دارالعلوم فیاضیہ اور دارالعلوم کے علما وطلبہ ودیگر علماء وشہر کے ائمہ کے علاوہ سابق iGافسرجناب مراد علی ابڑا صاحب، صدر سندھی الحاج ابراہیم صاحب، سماجی کارکن اقبال بینڈ باکس، جناب خورشید صاحب، سابق کونسلر وسماجی کارکن جناب عبدالکریم جونی صاحب اور چھوٹو استاد کے علاوہ درجنوں علماء ومشائخ نے شرکت کی
اخیر میں عوام الناس نے ہار پھول پیش کرکے مفتی صاحب سے اپنی عقیدتوں کے خراج پیش کئے، غلامان اشرف سوسائٹی جودھپور کی جانب سے مفتئی اعظم راجستھان علامہ شیر محمدصاحب کو امام احمد رضا ایوارڈوسپاس نامہ پیش کیا گیا-

نعت مصطفی’ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

جو بشر ان کی سیرت میں ڈھل جائےگا
سوۓ خُلدِ بریں وہ نکل جائےگا

جب رخ شاہ کی ہوگی ہم پر نظر
رخ مخالف ہوا کا بدل جائےگا

ان کی چشم شفاعت میں ہے یوں تپش
ہر گنہ میرا محشر میں جل جائےگا

ان کے فیضان کے کوہ کو دیکھ کر
کرب کا سارا لشکر دہل جائےگا

لائینگے دل میں تشریف جان جہاں
جب بھی شوق ملاقات ابل جائےگا

جس طرف ہے ادائے حبیب خدا
اس طرف ہی خیال غزل جائیگا

جس کے دل میں ہے پیوست ذوق سلیم
وہ سلام رضا سے مچل جائےگا

تو نے چھینا ہے حق تو ادا کر اسے
مت سمجھ توبہ سے ہی نکل جائےگا

جام عشق نبی عینی ہے جام وہ
جس کے پینے سے انساں سنبھل جائےگا
۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی

قرآن مقدس کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟از:محمّد شمیم احمد نوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف،باڑمیر (راجستھان)

قرآن مقدس اللہ ربّ العزّت کا کلام ہے، اس کی حفاظت کا ذمّہ خود خالقِ کائنات نے اپنے ذمّۂ کرم پر لے رکھا ہے، یہ وہ کتابِ ہدایت ہے جس میں لوگوں کی رہ نمائی اور دنیا کے تمام علوم کا ذکر موجود ہے-

    حضور نبی رحمت ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ “میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم نے ان کو مضبوطی سے تھامے رکھا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ان میں سے ایک اللہ کی کتاب [قرآن مقدس] اور دوسری اس کے نبی کی سنت ہے-
  پوری دنیا کے مسلمانوں کا ایمان ہے کہ قرآن اللّٰہ عزّوجلّ کا لاریب اور بے مثل کلام ہے ،عرب کے فصحا و بلغا جن کو اپنی زبان دانی پر فخر تھا وہ قرآن کی ایک چھوٹی سی چھوٹی سورت کے مثل بھی کلام پیش کرنے سے قاصر وعاجز رہے، اور یہ صرف عرب کے فصحا و بلغا کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیامت تک کے تمام جناتوں و انسانوں کو قرآن کا یہ چیلنج ہے جیسا کہ خود اللہ رب العزت ارشاد فرماتاہے کہ ترجمہ:”اے محبوب: فرما دیجئے کہ اگر سب انسان اور تمام جن مجتمع[ اکٹھے ]ہو جائیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں اور پھر وہ اس قرآن مجید جیسی کوئی کتاب بنانا چاہیں تو ہرگز ایسا نہ کرسکیں گے!(سورۂ بنی اسرائیل )۔

قرآن کا یہ دعویٰ [ چیلنج ]صدیوں سے قائم ہے، اور اس دعویٰ کی موجودگی میں مخالفینِ اسلام چاہے جتنا زور کیوں نہ لگالیں وہ قرآن کے دعویٰ کے سامنےبے بس ہیں اور رہیں گے-

ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زبان نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

   یہ کتاب جہاں فصاحت و بلاغت میں بے مثال ہے وہیں اس کتاب کو امت کے عروج وزوال کا پیمانہ بھی قرار دیا گیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب پر عمل کے ذریعہ لوگوں کو عروج عطا کرے گا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ذلت و رسوائی کے کھائی میں ڈھکیل دے گا، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کتاب الہی کے پیغامات و احکامات کو آسان انداز اور پیرائے میں عام کیا جائے، اور اس کی روشنی سے پوری دنیاکو منور کیا جائے، کیوں کہ ایک مسلمان کی زندگی میں قرآن مقدس کی بڑی اہمیت ہے، یہ اس کی امراض روحانی کی شفا ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ایمان کے لیے ہدایت و رحمت کا نسخہ اور ہمیشہ باقی رہنے والی ایک ایسی جامع آسمانی والہامی کتاب ہے جو سب کے لیے رہنما اور رہبر اور ایسا نور ہے جس کی روشنی قیامت تک مدھم نہیں ہوسکتی-

    اللّٰہ عزّوجلّ قیامت تک آنے والی نسل انسانی کی رہ نمائی کے لیے قرآن مقدس اور اسوۂ رسول ﷺ کو نمونۂ عمل قرار دیا ہے-

قرآن مجید کو اللّٰہ تعالیٰ نےانسانی زندگی کے لیے اصلاحی نظام کے طور پر نازل فرمایا اور اس کو ایسا جامع و کامل بنایا کہ اس نظام میں اب کسی طرح کے تبدیلی کی ضرورت باقی نہ رہے اور نزول کے وقت سے لے کر قیامت تک خیر و شر کے تمام معاملات میں کتابِ الٰہی اور حدیث نبوی سے رہنمائی حاصل کی جاتی رہے!۔

    حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ قرآن مقدس کی عملی شکل اور اس کا پرتو ہے ،حضور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم کے اقوال، فرمودات، افعال و اعمال حدیث ہے، اور حدیث قرآن مقدس کے اجمال کی تفصیل ہے، لہٰذا جب تک انسانیت کا تعلق دونوں سرچشموں سے گہرا نہیں ہوگا وہ صراط مستقیم (سیدھی اورحق راستے)پر ہرگز گامزن نہیں ہوسکتی!۔ 

قرآن پر عمل کرنا دونوں جہان میں کام یابی کی ضمانت: قرآن مقدّس دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جس پر عمل کرنا یقیناً دنیا و آخرت کی فلاح اور کامیابی کی ضمانت ہے ہی مگر اس کا پڑھنا [تلاوت کرنا]پڑھانا یہاں تک کہ سننا بھی باعثِ خیر و برکت اور موجبِ ثواب ہے-
اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے” اور پھر ظاہر سی بات ہے کہ قرآن مجید جو جتنا زیادہ پڑھے گا اور اس کی تعلیم حاصل کرے گا وہ اتناہی بڑااور قابل قدر ہوتا چلا جائے گا- مطلب یہ ہے کہ جو قرآن مقدس کے الفاظ کو پڑھے یا پڑھائے وہ دوسرے علوم یا کتابوں کے الفاظ کے پڑھنے یا پڑھانے والے سے بہتر و افضل ہے-
یہ ہمارےجومدارسِ اسلامیہ ہیں یہ دراصل قرآن وحدیث اور ان کے ضمن میں دیگر علوم و فنون پڑھنے اور پڑھانے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں اس لیے ان کا مقام سبھی تعلیمی اداروں میں اعلیٰ و ارفع ہے-

    دنیا کے اندر قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے کلام کا آغاز اس عظیم دعویٰ سے کرتا ہے کہ ” اس کا ایک ایک لفظ شک و شبہ سے پاک ہے اور “لاریب فیه” اس کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جو دنیا کی کسی بھی دوسری کتاب کو حاصل نہیں ہے، اور ایک دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ پوری دنیا میں اس کتاب سے زیادہ کوئی کتاب نہیں پڑھی جاتی, اس بات کا اعتراف و اقرار ہمارے دوسرے برادران وطن بھی کرتے رہتے ہیں-

قرآن کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟: قرآن احکم الحٰکمین کا کلام، مسلمانانِ عالَم کے لیےکام یابی کاسرچشمہ ہے، علم و حکمت،عقل مندی ودانائی کا خزینہ ہے، یہ کسی ایک علم و فن کی کتاب نہیں، بلکہ یہ علم و فن کے تمام شعبوں میں رہ نمائی کرتا ہے، یہ علم و حکمت کے لیے منبع و مآخذ کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کے تمام گوشے چاہے تحقیق ہو یا جستجو، علم فلکیات ہو یا ارضیات، سائنس و ٹیکنالوجی ہو یا طب وجراحت، اقتصادیات ہو یامعاشیات، سب کے لیے نورِ بصیرت فراہم کرتاہے-

       قرآن نے ہر موضوع کو اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے، یہ صرف معلومات مہیا کرنے والی کتاب نہیں بلکہ یہ کتاب ہدایت ہے یہ اس حکیم کا کلام ہے جس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا، قرآن بتوں کے سامنے جھکی ہوئی انسانیت کو خدائے واحد کے سامنے جھکانا چاہتا ہے

وہ اخلاقی بیماریوں کاقلع قمع کرکے حسنِ اخلاق کے گلشن کھلانا چاہتاہے وہ انتشار وافتراق[ لڑائی جھگڑا اورآپسی پھوٹ] کی بھٹی میں سلگتی ہوئی نسل آدم [انسانوں] کو وحدت واخوّت[بھائی چارگی]کی لڑی میں پرونا چاہتا ہے یہ عقل کو روشن اور دل کوآزادی کی نعمت عطا کرناچاہتاہے-
وہ امیر و غریب،شاہ وگدا،آقا ومولیٰ اورگورے اور کالے کے امتیازات [فرق/ بھید بھاؤ] کومٹاکر نسلِ آدم میں مساوات [برابری] قائم کرنا چاہتا ہے ،وہ عورتوں کی زبوں حالی اور غلاموں کی بے بسی کو ختم کرکے انہیں دوسرے انسانوں کے برابر مقام عطا کرنا چاہتا ہے-
قرآن مقدس کے سامنے مقاصدکی ایک لمبی فہرست ہے جس قرآن کے مقاصد اتنے اہم اوراعلیٰ ہوں، اگر اس کے احکامات و فرمودات پر مسلمان کماحقہٗ عمل کرے تو کیوں نہ وہ فائز المرام[کام یاب] ہو-
مگر ہائے افسوس : آج کے مسلمانوں نے قرآن کے احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیا، موجودہ دور میں مسلمانوں پر جو افتاد[پریشانیاں و مصیبتیں] واقع ہوئی ہیں اور عالمی سطح پر جو حالات درپیش ہیں وہ کتاب مبین [قرآن] سے دوری کی وجہ سے ہے-

اے کاش: مسلمان قرآن کی جامع احکامات کو اپنے لیے مفید سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرتا ،اور قرآنی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرتا،قرآن ہی کو اپنا حقیقی مشیر،خیر خواہ اور مخلص رہنما جانتا!

 اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اپنے حبیب ﷺ کے صدقہ و طفیل ہم سبھی مسلمانوں کو قرآن وسنت کا عامل بنائے-آمین