WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

سید خادم رسول عینی ایک عظیم شاعر .. پیش کش :ڈاکٹر شفیق جے ایچ

سید خادم رسول عینی کی ولادت ٢٩ اپریل ١٩٦٨ میں بھدرک اڈیشا میں ہوئی۔ آپ امیر میناءی کے سلسلے کے مشہور شاعر علامہ سید اولاد رسول قدسی کے شاگرد رشید ہیں ۔آپ نعت ، غزل، منقبت، سلام، سہرا ، نظم وغیرہ اصناف میں شاعری کرتے ہیں ۔آپ کے دو مجموعہاءے کلام بنام رحمت و نور کی برکھا ، نور مناقب شاءع ہوچکے ہیں ۔اس کے علاوہ آپ کی ترتیب شدہ کتابیں نظر عمیق اور مناقب مفتیء اعظم بھی شاءع ہوءی ہیں ۔آپ کے کلام ہند اور بیرون ہند کے مختلف اخبار و رسائل میں شایع ہوتے رہتے ہیں ۔آپ نے اردو زبان کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی شاعری خوب کی ہے۔پیشے کے لحاظ سے آپ بینکر ہیں اور یونین بینک آف انڈیا کے چیف مینیجر کے اعلیٰ عہدے پر فاءز ہیں ۔کٹک ، اڑیسہ میں سعید رحمانی کی ادارت میں شائع ہونے والا سہ ماہی ادبی محاذ کے سرپرست ہیں۔علاوہ ازیں آپ علم عروض میں مہارت رکھتے ہیں اور اردو کے ایک بہترین نقاد و مقالہ نگار ہیں ۔آپ کے تبصرات و مضامین ملک کے مختلف اخبار و رسائل میں شاءع ہوتے رہتے ہیں ۔

آپ کے کلام میں سے چند غزلیں نذر قارءین ہیں :

تو پژمردہ پیڑوں کو یوں باثمر رکھ
توانائی دے شاخ کو بااثر رکھ

نہ کر فخر اجداد کے تو شجر پر
تو شاخوں پہ خود کاوشوں کا ثمر رکھ

ہے انکار کرنا بہت سہل و آساں
تو اقرار کا حوصلہ اے بشر رکھ

زمینی حقائق رہیں تیرے آگے
نظر اپنی چاہے سدا چرخ پر رکھ

نہ ہو جائے مانند آتش سراپا
مرے دل کی اے جان جاناں خبر رکھ

کر احقاق حق اور ابطال باطل
یہ جذبہ ہر ایک موڑ پر بے خطر رکھ

سبھی کی محبت سماجائے دل میں
تو اس میں ہمیشہ محبت کا گھر رکھ

گہر خود ہی آجائےگا پاس “عینی”
نہایت پہ منزل کی گہری نظر رکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
درد و غم سے وہ ہ بشر آزاد ہے
قلب میں جس کے خدا کی یاد ہے

حکمران وقت سب خاموش ہیں
بے اثر مظلوم کی فریاد ہے

حق پرستو ! رب کی نصرت آئیگی
جبر باطل کی بھی اک میعاد ہے

آگ نفرت کی بجھے بھی کس طرح
تلخیوں کا اک جہاں آباد ہے

دل ہے چھلنی اس کا سنگ بغض سے
جس کے ہونٹوں پر مبارکباد ہے

دیکھیے موجد کی آنکھوں سے ذرا
خوبصورت کس قدر ایجاد ہے

غالب آئے غم کا لشکر کس طرح
دل میں یاد یار جب آباد ہے

“عینی” رکھنا‌ رب پہ ہر دم‌ اعتماد
ورنہ تیری زندگی ناشاد ہے

۔۔۔۔۔۔۔

نخل نخوت کو ہمیشہ بے ثمر رکھا گیا
صبر کے ہر اک شجر کو بارور رکھا گیا

سلسلہ بڑھتا گیا ان کے ستم کا اس قدر
میرے ٹوٹے دل کے آنگن میں حجر رکھا گیا

لگ رہا تھا بھیڑ میں وہ ضوفشاں کچھ اس طرح
درمیان نجم جیسے اک قمر رکھا گیا

شک کی عینک جب اتاروگے تو مانوگے ضرور
منصب عالی پہ مجھ کو جانچ کر رکھا گیا

درد و غم کی آگ اسی سے ایک دن بجھ جائیگی
ان کے سوز عشق میں ایسا اثر رکھا گی

بحر سے دوری ھے مجھ کو کیسے سیرابی ملے
زیست میں میری سراب بے اثر رکھا گیا

روز و شب چوبیس گھنٹے کم پڑے اپنے لیے
اس قدر کیوں وقت “عینی” مختصر رکھا گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔
صحن دل کے سبھی پھولوں کو جواں رہنے دو
پر شباب اپنے چمن کا یہ سماں رہنے دو

پھر کبھی سر نہ اٹھا پائیں جہاں کے ظالم
سینہء ظلم پہ سیدھا سا نشاں رہنے دو

ہو نہ جائے کبھی احساس کا بلبل غمگیں
اس کو رکھو نہ نہاں بلکہ عیاں رہنے دو

تم کو رکھنا ہے تقدس کی فضا گر قائم
دل کی مسجد‌ میں محبت کی اذاں رہنے دو

آب عرفاں سے رہیں حق کے مسافر سیراب
اپنے اطراف ہدایت کا کنواں رہنے دو

دل کرو فتح تم‌ اخلاص کی تلواروں سے
نفرت و بغض کے تم تیغ و سناں رہنے دو

درد دروازہء دل پر نہ دے دستک ” عینی “
مدح محبوب سدا ورد زباں رہنے دو
۔۔۔۔۔۔

دیکھو جہاں بھی ، ایک ہی خاور ہے ہرطرف
تاروں کے قافلے کا یہ رہبر ہے ہرطرف

بھر آئی دیکھ دیکھ کے امن و اماں کی آنکھ
انسانیت کے خون کا منظر ہے ہرطرف

تنہا لڑینگے خنجر خلق و وفا سے ہم
گرچہ جہاں میں بغض کا لشکر ہے ہر طرف

ہے خوف کیسے زیست کی رہ پائے گی فضا
سانپوں کا سانپ دشت میں اجگر ہے ہرطرف

خالی ملیں گے سیپ سمندر کی گود میں
مت سوچیے کہ سیپ میں گوہر ہے ہر طرف

دریا کے ذہن میں یہ سسکتا سوال ہے
کیوں اس قدر ‌خموش سمندر ہے ہر طرف

دنیا میں اک فقیر سے ملتا گیا قرار
“عینی” اگرچہ شور سکندر ہے ہر طرف
۔۔۔۔۔۔۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔

شجر وہ سب کو جو اک بے دیار لگتا ہے
وہی کسی کے لیے سایہ دار لگتا ہے

سیاہ زلفوں کی جھرمٹ میں اس کا ہے چہرہ
شب سیہ میں وہ نصف النہار لگتا ہے

وفا کے بحر پہ پلنے لگی جفا کی آگ
صدف کے ذہن میں اب انتشار لگتا ہے

یہ مژدہ امن کا پھیلا ہے سارے جنگل میں
کہ سانپ نیولوں کا اب شکار لگتا ہے

گلوں کے بیج ہے خاروں کی بالادستی عجب
چمن یہ دیکھ کے اب اشکبار لگتا ہے

عبور کرنا تھا دشوار تر خزاں کا پہاڑ
تمھارے ساتھ سفر پر بہار لگتا ہے

چمک رہا ہے امیدوں کا ماہتاب حسیں
کہاں کٹھن ہمیں اب انتظار لگتا ہے

عجب معمہ ہے آلائشوں سے پانی کی
ہوا کے جسم میں عینی بخار لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
پیش کش:
ڈاکٹر شفیق جے ایچ

مصطفی’جان رحمت پہ لاکھوں سلام۔۔۔۔۔از قلم : سید خادم رسول عینی

مصطفی’جان رحمت پہ لاکھوں سلام
۔۔۔۔۔

وضو کے مستحبات کی حکمت پر جب حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا تھا :

کلی کرنے سے پانی کے ذائقے کا پتہ چلتا ہے ، ناک میں پانی ڈالنے سے اس کی بو کا پتہ چلے گا اور ہاتھ میں پانی ڈالنے سے پانی کے رنگ کا پتہ چلتا ہے ۔
اعلیٰ حضرت کی اس عقلی دلیل سے یہ واشگاف ہوا کہ
اسلام کے احکام میں کچھ نہ کچھ حکمت پنہاں رہتی ہے اور سائنٹیفک رزننگ ہوتی ہے۔

سرکار اعلی’حضرت کی سیرت کا اگر مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ آپ کے اقوال و افعال میں بھی حکمت عملی پوشیدہ رہتی تھی ۔مثال کے طور پر حدائق بخشش میں شامل مشہور کلام رضا ہے:

مصطفی’جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

آخر اس سلام کے لکھنے میں کیا حکمت عملی تھی؟ آئیے سب سے پہلے اس کلام کا مختصر عروضی تجزیہ کرتے ہیں:
اس کلام کے افاعیل ہیں :
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن/ فاعلات
اور بحر کا نام ہے:
بحر متدارک مثمن سالم ۔
ضرب/ عروض میں فاعلن کی جگہ فاعلات لاکے زحاف ازالہ کا استعمال کیا گیا ہے۔
جیسا کہ مرزا غالب نے مندرجہ ذیل شعر :

حسن اور اس پہ حسن ظن رہ گئی بو الہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمایے کیوں

کے اولی’میں ازالہ کا استعمال کیا ہے۔

اس کلام کا ایک شعر یوں ہے:

شب اسریٰ کے دولھا پہ دائم درود
نوشہء بزم جنت پہ لاکھوں سلام

اس شعر کے اولی’ کے افاعیل یوں ہیں :
فعلن فاعلن فاعلن فاعلات
اس مصرع کے صدر میں فاعلن کی جگہ فعلن کا استعمال کرکے امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے زحاف خبن کا استعمال فرمایا ہے۔
جیسا کہ مرزا غالب کے مشہور شعر :

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

کے اولی’میں خبن کا استعمال ہوا ہے۔

سرکار اعلی’حضرت کے اس کلام میں عروضی خوبیوں کے ساتھ ساتھ بہت ساری بدیعی خوبیاں بھی ہیں ۔اس کلام میں تشبیہات بھی ہیں استعارات بھی ، اس میں علامات بھی ہیں اور تلمیحات بھی ۔تشبیہ مفصل بھی ہے تشبیہ مجمل بھی ، تشبیہ حسی بھی ھے تشبیہ عقلی بھی ، تشبیہ مفرد بھی ہے تشبیہ مرکب بھی ۔ صنعت متلون بھی ہے اور صنعت تضاد بھی ۔معنویت کی فراوانی بھی ہے اور محاکات کی جلوہ گری بھی ۔صنعت تنسیق الکلمات بھی ہے صنعت تنسیق الصفات بھی ۔انسجام کا حسن بھی ہے اور تفویت کی تجلی بھی ۔تہذیب و تادیب بھی ہے اور حسن نزاکت بھی ۔فرائد کا حسن بھی ہے اور فصاحت و بلاغت کی بہاریں بھی۔اشارہ و کنایہ کا حسن بھی ہے اور سہل ممتنع کا جمال بھی۔صنعت طباق کا حسن بھی ہے اور تقابل تضاد کی رعنائی بھی ۔ سجع مماثلہ بھی ہے اور مجاز مرسل بھی ۔صنعت اشتقاق بھی ہے اور ترصیع کا حسن بھی ۔ صنعت مراعات النظیر کا حسن بھی ہے اور صنعت تکرار بھی ۔
وغیرہ وغیرہ ۔

ایک عرصے سے لوگ یہ سلام پڑھتے آرہے تھے:

یا نبی سلام علیک
یا رسول سلام علیک

اور اس کے ساتھ چار مصرعوں پر مشتمل مختلف بند پڑھے جاتے ہیں ، مثلا”:

قطرہ قطرہ دریا دریا
ذرہ ذرہ تارا تارا
جب ہوءے سرکار پیدا
سارا عالم کہہ رہا تھا

اس بند کے افاعیل مندرجہ ذیل ہیں:
فاعلاتن فاع فعلن
اور اس بحر کا نام ہے :
بحر رمل مسدس مزاعف مدروس مخبون محذوف

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا میزان فاعلاتن فاع فعلن کے مطابق یا نبی سلام علیک موزوں ہوتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔
گویا یہ مصرع ناموزوں ہے۔ثانیا” جب عوام میں سے اکثر لوگ یا نبی سلام علیک پڑھتے ہیں ، وہ ع گرا کے پڑھتے ہیں ، یعنی یا نبی سلاملیک پڑھتے ہیں جس کے سبب یہ ترکیب مہمل بن جاتی ہے۔

جب ہم کسی دوست کو سلام کہتے ہیں تو یوں کہتے ہیں: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ اور کہتے وقت علیکم کے عین کا درست تلفظ ادا کرنا نہیں بھولتے ۔تو پھر جب نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجیں تو یا نبی سلام علیک کی جگہ یانبی سلاملیک پڑھیں ؟ ہر گز نہیں ۔جب کوئی شخص ہم کو السلام علیکم کی جگہ السلاملیکم کہے تو ہم آگ بگولہ ہو جاتے ہیں کہ ہم کو یہ شخص سلام نہیں کہہ رہا ہے ، بلکہ مہمل لفظ استعمال کررہا ہے ۔ تو کیا یہ عجب نہیں لگتا کہ ہم نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سلام پڑھتے وقت مہمل لفظ کا استعمال کریں ؟

شاید یہی وجہ کہ سرکار اعلیٰ حضرت نے مصطفی’جان رحمت پہ لاکھوں سلام جیسا لا جواب کلام لکھا جو موزوں ہے، مہمل نہیں ہے ، عروضی حسن رکھتا ہے اور بدیعی جمال بھی وغیرہ وغیرہ ۔

شاید یہی وہ حکمت عملی ہے جس کی بنیاد پر ایک بہترین نعم البدل عطا فرماتے ہوئے سرکار اعلی’حضرت نے کلام مصطفی’ جان رحمت پہ لاکھوں سلام لکھا تاکہ جامع الکم (حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم) کی بارگاہ میں وہ منظوم ہدیہء سلام پیش کیا جائے جو فصیح بھی ہو اور بلیغ بھی ۔

لہذا جو یہ کہے کہ مصطفی’جان رحمت پہ لاکھوں سلام نہ پڑھ کے یا نبی سلام علیک پڑھو وہ شدید غلطی پر ہے اور علم عروض ، علم بیان ،علم معنی و علم بدیع سے نا واقفیت رکھتا ہے ۔اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے:

جس کے دل میں ہے پیوست ذوق سلیم
وہ سلام رضا سے مچل جائےگا

سلام و نعت رضا کوئی تو سنائے ذرا
کہ پھیکی لگتی ہے محفل شہ رضا کے بغیر

از قلم : سید خادم رسول عینی

“جماعت کے ائمہ سے چند تلخ باتیں “خلیل احمد فیضانی

مضمون پورا پڑھیں

سوشل میڈیا پر ابھی قاضی نیپال حضرت مولانا مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی کا ایک مضمون بشکل”پملفٹ” پڑھنے کو ملا- اس مضمون میں آپ نے ائمہ حضرات کی حقیقی پروبلمز کو طشت از بام کیا ہے
میرے خیال سے اماموں کی حد سے متجاوز حمایت بھی ٹھیک نہیں ہے اور ہر مسئلہ کا ذمہ دار امام ہی کو ٹھہرادینا, یہ بھی ٹھیک نہیں ہے بلکہ جادہ اعتدال پر قائم رہ کر ہمیں ہر فریق کے رویوں کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ کس مقام پر کمیٹیاں ظلم ڈھا رہی ہیں اور کہاں پر ائمہ حضرات اپنی من مانیاں کرکے تفویض شدہ ذمہ داریوں سے بھی عہدہ بر آ نہیں ہوپارہے ہیں-
میں چاہتا ہوں کہ مسطورہ بالا ان تمام باتوں کی پوائنٹ وائز تفصیل کروں تاکہ قارئین, بالخصوص ائمہ حضرات، قاضی صاحب کی ان باتوں کو بآسانی سمجھ سکیں –

پہلے آپ قاضی صاحب کے کلمات ہو بہو ملاحظہ فرمائیں پھر آگے بڑھتے ہیں-

لکھتے ہیں:
ائمہ کی تنخواہیں بڑھانے پر جتنا زور لگادیجیے کچھ نہیں ہوگا البتہ ائمہ حضرات اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرلیں تو کچھ امید کی جاسکتی ہے

اکثر اماموں میں امامت کی اہلیت کم ہوتی ہے یا نہیں ہوتی ہے جس سے مقدیوں میں محترم نہیں ہوپاتے ہیں
مثلاً 1/۔ کم عمر لڑکوں سے دوستی گانٹھنا
2/ کرکٹ میں دلچسپی رکھنا
3/۔ نمازوں کی پابندی نہیں کرنا
4/۔ اپنی منصبی ذمہ داری کا احساس نہیں کرنا
5/۔ جوکڑ جیسا لباس پہننا
6/ اپنی وضع قطع درست نہیں رکھنا
اپنے بیڈروم میں کتب مسائل کی بجائے صرف شبستان رضا اور نقش سلیمانی رکھنا
7 بغیر تربیت کے منصب امامت پہ بحال ہوجانا
مقتدیوں کے ساتھ وعظ و نصیحت کی بجائے مذاق مسخرہ کرنا وغیرہ وغیرہ بہت ساری کمی کمزوری ہیں آخری ساتویں نمبر کا تو بالکل فقدان ہے اسکول کالج میں بحالی کے لیے گورنمنٹ نے دوسالہ کورس تربیت کا رکھا ہے مدارسِ دینیہ سے نکلنے والوں کے لیے کوئی تربیت نہیں جبکہ قوم کی امامت کہیں زیادہ اہم ہے
عدم تربیت کا نتیجہ ہے کہ کم عمر کم علم ائمہ جگہ جگہ فتنہ فساد بھی پھیلاتے رہتے ہیں نہ درست مسائل بتاتے ہیں اور نہ ہی کسی بڑے عالم سے رابطے میں رہتے ہیں نہ ہی اپنے مقتدیوں کو کسی بڑے عالم سے جوڑتے ہیں جو مشکل وقت میں انکے کام آسکیں اپنے اپنے گاؤں کے خود ہی قطب بن بیٹھتے ہیں
یہ اکثر کی باتیں کیا ہوں سب کی نہیں.۔—
قاضی صاحب کا مضمون یہاں مکمل ہوتا ہے-
اب ہم ان پوانٹس کی قدرے تفصیل کرتے ہیں-
(1) اپنے بیڈ روم میں کتب مسائل کی بجاۓ صرف شبستان رضا اور نقش سلیمانی رکھنا-
یہاں قاضی صاحب نے گویا رستے زخم کے عین اوپر انگلی رکھ دی ہے
ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک امام جہاں رہے وہاں علم کی شمع روشن کرکے رکھے مگر آج کل اماموں نے العوام کا الانعام کی نقل کرنی شروع کردی ہے
لوگ اپنے گھروں میں کتابیں نہیں رکھتے تو اماموں نے بھی اپنے حجروں میں کتابیں رکھنی بند کردیں۔۔
یہی وجہ ہے کہ اماموں کے حجروں میں جہاں کتابیں ہونی چاہیے آج وہاں کرتوں پر کرتے،جبوں پر جبے اور دستاروں پر دستاریں لٹک رہی ہوتی ہیں۔

تعویذات کی دو تین کتابیں اورچند عدد کورے کاغذات کے بنڈل ہی ان کی لائبریری کا کل اثاثہ ہوتا ہے-
اور اگر کسی امام کے حجرے میں پانچ دس کتابیں رکھی رہتی بھی ہیں تو گرد و غبار میں اٹی ہوئیں اس قدر مظلومانہ انداز میں کہ چو طرف تار عنکبوت کا حصار رہتا ہے اور یہ حصار زبان حال سے گویا یوں گویا رہتا ہے کہ خبردار امام صاحب!
ہمارے پاس پھٹکنے کی ذرا سی ہمت بھی جو کی-
امام صاحب بھی اس حکم پر سختی سے عمل پیرا رہتے ہیں-
اور جب کبھی اپنے حجرہ خاص کی صفائی کرتے ہیں تو اسی بہانے سے ان پردہ نشینوں(کتابوں) کی بھی زیارت فرمالیتے ہیں-
سنجیدہ مذہبی طبقہ شاکی ہے اس بات کا کہ جمعہ کے بیانات افادہ و استفادہ سے خالی ہوتے ہیں
ہمارے ائمہ کو یہ توفیق بھی نہیں ہوتی ہے کہ ہفتہ بھر میں دس صفحات ہی کا مطالعہ کرلیں اور پھر حاصل مطالعہ کو مرتب کرکے عوام کے سامنے اس سلیقے سے پیش کریں کہ عوام دین سے قریب ہونے لگے –
مگر اس قدر انتظام کی زحمت ہمارے نازک بدن ائمہ کہاں کر پائیں!

بہر حال!ہمارے ائمہ حضرات کو سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ پر توجہ دینی چاہیے اور دینی کتابوں کے مطالعہ کے لیے وقت نکالنا چاہیے-

(2) کرکٹ میں دلچسپی رکھنا
ہلکی پھلکی جسمانی ورزش کے لیے کرکٹ کھیلا جاسکتا ہے مگر اس کھیل کے پیچھے لٹو ہوجانا اور ipl و دیگر ٹورنامنٹس میں حد سے زیادہ روچی لینا یا خود ہی شریک مقابلہ ہوجانا ایک امام کے لیے تو قطعی طور پر نا مناسب ہے لہذا اس سے اجتناب ہی اولی ہے-
کرکٹ سے عام طور مذہبی افراد کو
دو بڑے نقصانات ہوتے ہیں-:
ایک تو تضییع اوقات،کہ اگر اس وقت کو کسی دینی کتاب کے مطالعے میں صرف کیا جاۓ تو بشرط استقامت چند دنوں میں ڈھیر ساری دینی معلومات حاصل کی جا سکتی ہے-
اور دوسرا نقصان یہ کہ اس سے امام کی نوجوانوں کے ساتھ بلا کی بے تکلفی ہوجاتی ہے –
ظاہر ہے کہ جب سماج کی اساس کہا جانے والا طبقہ یعنی کہ نوجوان، ہی اگر امام صاحب سے بے تکلف ہوجائیں گے تو پھر امام صاحب کی مصلحانہ کاوشیں اور داعیانہ کوششیں کیسے ان پر اثر انداز ہوپائیں گی ۔لہذا احوط یہی ہے اور عافیت بھی اسی میں ہے کہ ایک امام کو اس کھیل سے دور ہی رہنا چاہیے تاکہ وقار مجروح بھی نا ہو اور تبلیغ دین کا فریضہ بھی احسن طریقے سے انجام دیا جاسکے –
3 کم عمر لڑکوں سے دوستی گانٹھنا
ہمارے دین نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ: “اتقوا مواضع التھم”
یعنی تہمت والی جگہوں سے بھی بچو-
کم عمر لڑکوں سے دوستی گانٹھنا اور موٹر سائیکل وغیرہ پر ان کے ساتھ سیر سپاٹے کے لیے نکل جانا امام کے لیے کسی زہر ہلاہل سے کم نہیں ہے-
کسی جنس کا اگر کوئی ایک فرد بدنام ہوتا ہے تو ساری برادری تشکیک کی زد میں آتی ہے
اور ویسے بھی ائمہ حضرات پر بعض علاقوں میں ناقابل بیان الزامات عائد بھی ہوۓ ہیں اور لوگ گھات میں رہتے ہیں کہ امام کب غلطی کرے کہ ہم اس پر چڑھ دوڑیں!
ایسے نازک حالات میں خاص کرکے ایک امام کو کتنا محتاط رہنے کی ضرورت ہے میرے خیال سے محتاج بیان نہیں ہے –
ایک شخص کی حیا شکن حرکتوں کے نتیجے میں لوگ اگر ساری مذہبی برادری سے بلکہ دین سے ہی دور ہوجاتے ہیں تو یہاں محتاط رہنے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے یہ سوچ کر کہ کہیں میری وجہ سے لوگ دین سے ہی برگشتہ نا ہوجائیں-
اس لیے امام صاحبان سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ کسی بھی صورت میں نامحرم بچی یا کم عمر لڑکے سے تعلقات استوار نہ کریں۔اور نا ہی انہیں اپنے آپ سے بے تکلف ہونے دیں-
بصورت دیگر فضیحت کے لیے تیار رہنا چاہیے-
(4) اپنی وضع قطع درست نہیں رکھنا
بڑی معذرت کے ساتھ یہ لکھنا پڑرہا ہے کہ آج کل اماموں نے اپنی وضع قطع کی کچھ اس انداز میں قطع و برید کی ہے کہ امام لوگ امام کم اور فیشن کے شیدائی زیادہ نظر آتے ہیں –
قمیص زرق برق اور آستینوں میں مختلف کلرز کا جال اس قدر کہ دیکھ کر آنکھیں چندھیا جائیں
اور پائجامہ چست و تنگ ایسا کہ دیکھنے والا دیکھ کر شرما جائے –

بعض نو خیز ائمہ ڈاڑھی رکھنے میں ایک طرح کی عار محسوس کرتے ہیں
اس لیے وہ خشخشی ڈاڑھی پر ہی اکتفا کرلیتے ہیں
اس غیر شرعی حرکت کی وجہ سے ان کے مقتدیوں میں گروہ بندی ہوجاتی ہے نتیجتا آدھے امام کی حمایت میں کود پڑتے ہیں تو بقیہ آدھے امام کی مخالفت شروع کردیتے ہیں
رژلٹ یہ نکلتا ہے کہ مقتدیوں کے باہمی مجادلوں کے سبب امام کو ہی مستعفی ہونا پڑتا ہے-
لہذا نہایت ضروری ہے کہ ائمہ حضرات نہایت ایمان داری کے ساتھ شرعی خطوط پر گامزن رہیں اور دائیں بائیں کی رنگینیوں سے قطعاً متاثر نا ہوں-
(5)نماز کی پابندی نہیں کرنا
امام جب تک امام ہے تب تک وہ نمازی ہے
تعطیل کے دن جیسے ہی گھر پہنچتا ہے نماز کا شیڈول تقریباً تقریباً اس کی ڈائری سے غائب جاتا ہے-
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نا سکا
یہ ایک بڑا المیہ ہے جو بدقسمتی سے اس گروہ کے اندر بھی در آیا ہے-
کیا ہماری حالت اتنی ابتر ہوچکی ہے کہ ہم نماز جیسی مخفم عبادت بھی چند پیسوں کی خاطر کرتے رہے؟

بعض حضرات (ائمہ)اپنے اوپر غیر ضروری کاموں کا بوجھ اتنا بڑھا لیتے ہیں کہ امام ہوتے ہوۓ بھی ساری نمازیں نہیں پڑھ پاتے ہیں-
کبھی فجر چھوڑدی تو کبھی مغرب میں دعوت اڑانے چلے گئے، اور ذرا تاخیر سے پہنچے تو عشا بھی گئی-.
نائب امام یا ناظرہ خواں مقتدی کب تک امام کی جگہ پر کرتے رہیں گے؟
اس لیے حزم و احتیاط اسی میں ہے کہ امام صاحب خود پہلے پکے نمازی بنیں-
کسی نے کہا کہ ایک کہاوت ہے کہ وہ کون سا امام ہے جو نماز نہیں پڑھتا
لوگ بتا نہیں پاۓ تو پیچھے سے مسجد کا ایک نحیف ونزار مقتدی عصا کے سہارے کھڑا ہوا اور کہا
یہ ہماری مسجد کا امام ہے جو امام ہونے کے باوجود بھی نمازوں کا پابند نہیں ہے
مذکورہ پہیلی مفروضہ زاویوں پر ہی ایستادہ سہی
مگر ہمارے معاشرے کی یہ وہ تلخ سچائی ہے جو
سنجیدہ مزاج اہل علم پر مخفی نہیں-

(6)اپنی منصبی ذمہ داری کا احساس نہیں کرنا
امامت ایک بہت بڑا منصب ہے اس لیے اس منصب کے کچھ تقاضے بھی ہیں
ائمہ حضرات ان تقاضوں کو پورا کرتے ہیں یا نہیں میں نہیں جانتا
مگر گہرائی کے ساتھ تجزیہ کرنے پر حقیقت یہی منکشف ہوتی ہے کہ امام صاحبان اکثر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ نہیں ہوپاتے ہیں
صرف نماز،نکاح اور جنازہ پڑھانے سے ایک امام بری الذمہ نہیں ہوسکتا
بلکہ ایک کام یاب امام وہ ہے کہ جس کے انڈر میں آنے والے سارے گھر علم و عمل کے گہوارے بن جائیں-
اورامام کو کسی پنچ پٹیل کا ذرا بھی باک نہیں ہونا چاہیے
اس لیے اسے چاہیے کہ لومہ لائم کی پرواہ کیے بغیر حکمت عملی کے ساتھ وہ اپنی بات(مسائل) کو رکھے اور پھر اس کے حل کے لیے کوشاں ہوجاۓ
ایک امام کا انداز خطاب اوراسلوب تخاطب مصلحانہ ہونا چاہیے جارحانہ نہیں
جرح سے معاملات بگڑتے ہیں جب کہ نرمی سے سنگ بھی موم ہوجاتے ہیں-
امام کی ایک منصبی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ پہلے وہ اپنے بیانات کو سنجیدگی کے سانچے میں ڈھالےاور پھر بیان کرے
ذاتی مشاہدہ ہے کہ بعض ائمہ جمعہ کے بیان میں اس قدر چیختے چلاتے ہیں کہ سامعین اوبنےلگتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بیان سننے کا پابند مقتدی بھی ناغہ کرنے لگتا ہے-
بہت سارے ائمہ وہی سنے سناۓ قصے
بیان کررہے ہوتے ہیں ۔ان کی تقریروں میں نا تو کوئی علمیت ہوتی ہے نہ ہی کوئی خاص پیغام اور نا ہی قابل اعتنا مواد-
صد بار معذرت کے ساتھ!
یہ مذکورہ سطحیت بڑی اونچی اونچی پگڑیوں والے حضرات کے ہاں بھی دیکھنے کو ملتی ہے
کہ جنہیں ہمہ دانی کا بڑا زعم ہے

(7) بغیر تربیت کے منصب امامت پہ بحال ہوجانا
بہت ساری مسجدوں میں امام صرف حافظ ہوتے ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ حافظ صاحب کہیں سے تربیت یافتہ بھی نہیں ہوتے ہیں
اب عوام کے مسائل کون حل کرے گا؟ ان کی صحیح رہنمائی کا فریضہ کون انجام دے گا؟

امامت ایک عظیم منصب ہے
اس لیے ہر ایرے غیرے کو یہ منصب تفویض نہیں کیا جاسکتا
مگر المیہ دیکھیے کہ
جو لوگ مدرسوں میں محنت سے جی چراتے ہیں اور
بالکل کورے ہی نکل جاتے ہیں
ان کی زبانی سننے کو ملتا ہے کہ :کیا ٹینشن! امامت تو مل ہی جاۓ گی-
ایسے لوگ جب عہدہ امامت پر براجمان ہوں گے تو اپنے منصب سے کیا انصاف کریں گے؟
ظاہر ہے اس سراپا مذہبی امانت کا جو مس یوز کریں گے وہ بھلانے کی چیز نہیں ہوگی –
بنا اہلیت اور بغیر تربیت کسی کو امامت یا کوئی بھی عہدہ سپرد کردینا بذات خود قیامت کی نشانی ہے
جس کی نشاندہی حدیث رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں واضح طور پر کر دی گئی ہے-
مصلحین ملت اور ارب علم کے پاس اب دو ہی آپشن بچتے ہیں
یا تو ان غیر تربیت یافتہ لوگوں کا متبادل تلاش کریں اور قوم کو پیش کریں
یاپھر ہچکولے کھاتی قوم کا یہ سفینہ نا اہل ملاحوں کو سپرد کردیا جاۓ تاکہ وہ اسے کسی جزیرے میں لے جاکر گرادے یا بیچ منجدھار میں ہی تہ نشیں کردے اور پھر ہمیں کچھ کرنا نا پڑے-

اخیر میں عرض ہے کہ یہ اکثر کی باتیں کیا ہوں سب کی نہیں-

” تحصیل گجرات کے خانقاہی نظام کے اثرات ” مختصر جائزہ : تحریر و تبصرہ : شیخ عبدالرشید

             کہتے ہیں کہ کسی بزرگ کے پاس  سے ایک جنازہ گذر رہا تھا ، بزرگ اس مرنے والے پر بہت افسوس کرکے رونے لگے کسی نے ان سے رونے کا سبب پو چھا تو انہوں نے ایک سرد آہ کھینچی اور فرمانے لگے کہ افسوس جیسا آیا تھا ویسا ہی چلا گیا ،مرنے والا اپنے اندر ایک بڑا خزانہ لایا تھا مگر زندگی میں اس کو کبھی کھول کر  نہ دیکھ سکا کہ اس میں کیا کچھ پوشیدہ رکھا ہوا ہے. یونہی اس پُرے کو کھولے بغیر جوں کا توں اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہے ۔اسکی حالت پر افسوس کر کے رورہا ہوں کہ خود شناسی کے بغیر ہی چلا گیا. اس کے برعکس  سالک ( خدا کی تلاش میں نکلا ہوا) کے لیے دل کی بند کلی کھِل کر پھول بن جاتی ہے اس کا دل ہی اس کے حق میں سدا بہار گلزار بن جاتا ہے اسی قدر بصارت نورِ فراست سے مشرف ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسم فرشی ہے اور خاک سے پیدا ہوا ہے اور خاک کے ذروں سے اس کی پرورش اور تندرستی کا انتظام ہے لیکن قلب عرشی ہے اس کی غذا بھی عرش ہی سے مل سکتی ہے اور وہ تعلق مع اللہ ( اللہ تعالیٰ کے ساتھ گہرا تعلق) اور ذکر وفکر سے ایک نور پیدا ہوتا ہے جس کو معرفتِ خداوندی کہتے ہیں۔اس نور کے چمکنے کا نام شرحِ صدر ہے یہ شیخ کی صحیح رہنمائی  و تربیت سے حاصل ہوتا ہے. اس تربیت گاہ کو خانقاہ کہتے ہیں کیونکہ یہ شیخ کی جائے قیام ہوتی ہے . 
         جس طرح تعلیم کیلئے مدرسہ ضروری ہے ،عمل کیلئے مسجد ضروری ہے اور اسی طرح باطنی تربیت کیلئے خانقاہ ضروری ہے  ۔اہل اللہ کی تربیت سے لوگوں کے پاس قلب قلبِ سلیم بنتا ہے ۔ مولانا رومؒ  نے فرمایا تھا کہ

قطرہ نوری سراپا نور با ش بگذار کود ائما مسرور باش

یعنی نور کا قطرہ ہے سراپا نور بن جا, اپنی ہستی کو مٹادے اور غیر اللہ کے وجود کا موہوم شائبہ تک نہ ہو اور ہمیشہ خوش رہ ۔
طریقت نام ہی ان طریقوں کا ہے جو شریعت کے ذریعے بندے کو خالق سے جوڑ دیں ۔بزرگوں نے شریعت ، طریقت اور حقیقت کی مثال یوں بیان کی ہے کہ بادام کے اندر تین چیزیں ہوتی ہیں پوست، مغز اور روغن یہ تینوں ایک دوسرے سے جدا نہیں بلکہ ایک دوسرے کا خلاصہ ہیں پوست کا خلاصہ مغز ہے اور مغز کا خلاصہ روغن اسی طرح شریعت کا خلاصہ طریقت اور طریقت کا خلاصہ حقیقت ہے ۔مولانا روم فرماتے ہیں ۔
آئینہ ہستی چہ باشد نیستی نیستی بگزیں گر ابلہ نیستی

    ایک آئینہ ہستی کا ہو تا ہے اور وہ کیا ہے نیستی۔ اگر تو بے وقوف نہیں ہے تو نیستی کو اختیار کر کہ مراد اس سے فنا ہے جب اپنے کو فنا کر ے تواپنی ہستی کو مٹا کر بقا حاصل کر نے کا درس صرف بزرگوں سے ہی حاصل ہو تا ہے ۔اگر مرض شدیدہو تا ہے تو شفا خانے میں داخل ہو نا پڑتا ہے ۔یہی حال روحانی امراض کا بھی ہے کہ اس کے لئے بھی شفا خانے ہیں اور وہ یہی بزرگوں کی خانقاہ ہے۔ خانقاہی نظام مسلمانوں کی تاریخ کا شاندار باب رہا  ہے. مولانا محمد ادریس کاندھلوی اپنی کتاب  ”سیرۃ المصطفیٰ“ میں لکھتے ہیں کہ  صفہ اصل میں سائبان اور سایہ دار جگہ کو کہتے ہیں۔ وہ ضعفاء مسلمین فقراء شاکرین جو اپنے فقر پر فقط صابر ہی نہ تھے بلکہ امراء و اغنیاء سے زیادہ شاکر و مسرور تھے جب احادیث قدسیہ اور کلمات نبویہ سننے کی غرض سے بارگاہ نبوت و رسالت میں حاضر ہوتے تو یہاں پڑے رہتے تھے ، لوگ ان حضرات کو اصحاب صفہ کے نام سے یاد کرتے تھے ۔ گویا یہ اس بشیر و نذیر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ”خانقاہ “تھی جس نے باہزار رضاء و رغبت فقر کو دنیا کی سلطنت پر ترجیح دی" اور پھر  خواجہ عبیداللہ احرار رحمہ اللہ ”طبقات صوفیاء“ میں لکھتے ہیں : دوسری صدی ہجری زمانہ تابعین میں حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کے ہم عصر شیخ ابو ہاشم رحمہ اللہ کےلیے ذکر و شغل اور تعلیم و تزکیہ و سلوک کے واسطے باقاعدہ ”خانقاہ “کے نام سے مکان کی بنیاد رکھی گئی۔" تاریخ سے عیاں ہے کہ خلفائے راشدین کے عہد میں مدارس کی تدریس تعلیم و تربیت دونوں پر مشتمل رہی لیکن آہستہ آہستہ یہ سلسلہ معدوم ہونے لگا تو صوفیاء نے خانقاہوں کے ذریعے باطنی تعلیم و تربیت دینا شروع کر دی . 
   برصغیر پاک و ہند میں بھی خانقاہی نظام نےیہاں کی تہذیبی ، سماجی ، سیاسی ،معاشی اور اخلاقی اقدار پر گہرے اثرات مرتب کیے.اپنی اصل صورت میں یہ نظام یہاں خوب پھلا پھولا۔ پھر وقت گذرنے کے ساتھ یہ نظامِ تعلیم و تربیت تنزل کا شکار ہوا بلکہ تاحال اس زوال کا شکار ہے. اندرونی خرافات سے شروع ہونے والی تباہی میں شدت انگریزوں نے اپنے عہد میں  خانقاہ کی سربراہی کو وراثت کے قانون سے جوڑ کر پیدا کی. انگریزوں نے کمال عیاری کے ساتھ وراثت کے قانون کے تحت خانقاہ کی سربراہی کو ولی اللہ کے وصال کے بعد اس کے اصل روحانی وارث  کسی اہل و کامل کی بجائے اس کے فرزند کے سپرد کر دیا خواہ و اس کا اہل ہو یا نہ ہو . اس موروثی سجادہ نشینی نے گدی نشینی کے جھگڑوں کو جنم دیا اور پھر روحانیت کاروبار میں بدلنے لگی ، جاہل مریدوں نے شخصیت پرستی اور اندھی تقلید سے موروثی طور پر مسلط  گدی نشینوں کے ہر فعل کو اپنے لیے ولی کی ایمانی ادا سمجھنا شروع کر دیا. چڑھاوے اور نذرانے غالب آئے تو خانقاہ سے وابستہ معاشی مفادات نے کاروباری حرکیات سے مستفید ہونا شروع کر دیا اور پھر روح سے محروم ہوتے  اس خانقاہی نظام پر سوال اور انگلیاں اٹھنے لگیں جنہوں  نے اس کے خلاف محآذ قائم کر لیا اور مبالغات و خرافات کی مذمت کی بجائے خانقاہی نظام کو ہی  غیر اسلامی ،غیر اخلاقی اور غیر انسانی قرار دیا جانے لگآ. قبر پرست عقیدتمندوں اور ناقدین میں کشمکش بڑھتی جا رہی ہے. حتیٰ کہ امن کے مبلغین کی خانقاہیں بھی شدت پسندوں کے نشانے پر آگئ ہیں ۔ 

وقت اور مناقشوں نے نئے تقاضوں کو جنم دیا تو مذکورہ بالا بدلتے تناظر میں دردمند دل رکھنے والے کئ مصلح مزاج علمائے دین نے خانقاہی نظام کی مٹتی حقیقتوں کا ناقدانہ جائزہ لینا شروع کیا. ایسے ہی اصلاحی مقاصد سے اس نظام کے مستقبل کے لیے تجاویز پیش کر کے بریلوی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے علامہ ڈاکٹر محمد رضا المصطفیٰ نے روحِ عصر کی ترجمانی کی اور خلوص نیت سے خانقاہی نظام کے اثرات کو اپنی تحقیق و تحریر کا موضوع بنایا اور اس طرح قلمی محاذ پر خانقاہی نظام کے عقیدے کے تحفظ بلکہ نشاۃِثانیہ کے لیے سرگرم ہوئے. خانقاہی نظام کے وسیع موضوع کے تحصیل گجرات کے دائرے کو محور تحقیق بنایا اس پر ایم فل کی ڈگری حاصل کی اور اب اس مقالے کو مفاد عامہ کے لیے کتابی صورت میں
” تحصیل گجرات کے خانقاہی نظام کے اثرات : (اایک تحقیقی ،تنقیدی و شماریاتی جائزہ” کے نام سے تزکیہ پبلی کیشنز کڑیانوالہ کی جانب سے شائع کیا ہے.
میری خوش بختی کہ مصنف نے کتاب کی تقریب رونمائ میں مجھے شریک کیا اور محبت سے کتاب پیش کی . ڈاکٹر محمد رضا المصطفیٰ متوازن خیال کے درویش منش مذہبی عالم ہیں اور درس و تدریس سے وابستہ ہیں. ایک مؤثر مقرر کی حیثیت سے ان کے بیان کا محور اصلاح معاشرہ اور حُسن معاشرت ہوتا ہے. انکی پہلی کتاب بھی اس فکر اور تاثر کی حامل ہے.
ان کی کتاب 260 صفحات پر محیط ہے جس کا انتساب انہوں نے اپنے والد مکرم ممتاز عالم دین علامہ حافظ مشتاق احمد جلالی اور والدہ محترمہ کے نام کیا ہے. ابتداء میں اظہار تشکر میں انہوں نے اپنے علمی و تحقیقی سفر میں اپنی رفیقہ حیات امِ طلحہ کے مالی ایثار کی روشن اور قابل تحسین مثال کا ذکر بڑے کھلے دل اور اعلیٰ ظرفی سے کر کے اپنی وسعت نظری و قلبی کا اظہار کیا ہے.پہلے 19 صفحات 11 اصحاب الرائے قلمکاروں کی تقاریظ و تاثرات پر مبنی ہیں. اس کے بعد کتاب کے موضوع کے تعارف ، تحقیقی اصولوں اور ناقدانہ جائزے کے اجمالی خاکے کی وضاحت و مقاصد کے لیے 6 صفحات پر مشتمل مقدمہ رقم کیا گیا ہے. صفحہ 36 سے شروع ہو کر صفحہ 151 تک پھیلے باب اوّل میں خانقاہی نظام کی لغوی و لسانی معنویت ، تاریخی ارتقاء اور خانقاہی نظام کی سرگرمیوں کا جامع تذکرہ ہے ، اسی باب کے آخری حصے میں بڑی مہارت سے امام احمد رضا خان بریلوی اور اصلاح خانقاہی نظام کے عنوان سے خانقاہی نظام میں پائ جانے والی خرافات کا ایکسرے پیش کیا ہے. ان سطور میں مصنف نے مدعائے تحقیق کو بین السطور پیش کر دیا ہے. باب دوئم جو صفحہ 152 سے 229 تک ہے جس میں مصنف نے تحصیل گجرات کی 46 خانقاہوں پر کیے جانے والے تحقیقی سروے کا ماحصل خانقاہی نظام کے روحانی ،تبلیغی ، علمی ، سماجی ، معاشی اور سیاسی اثرات کا شماریاتی تجزیہ پیش کیا ہے. اہم بات یہ ہے کہ سوالنامہ کے جوابوں پر مبنی سروے رپورٹ کو شمارتی جدول بنا کر واضح کیا گیا . قاری کی سہولت کے لیے اگلے 20 صفحات میں کتاب کا خلاصہ نتائج بحث کے عنوان سے بیان کیا ہے. جس میں اس نظام کے محاسن اور اصلاح طلب پہلووں پر روشنی ڈالی گئ ہے.آخر میں تجاویز و سفارشات کے عنوان کے تحت اقرار کیا گیا ہے کہ یہ خانقاہیں آج تربیت کے نصب العین سے دور نظر آتی ہیں جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے. مزارات پر لائبریوں کے قیام ، خانقاہوں پر موجود شیوخ کے قلمی نسخے اور مخظوطے پڑے ہیں جو وقت کے جبر کی وجہ سے خراب ہو کر معدوم ہوتے جا رہے ہیں ان مخطوطوں پر کام کرنے کی ترغیب دینے کی تجویز ہے.خانقاہوں کے بانیوں کی سیرت و ملفوظات پر کتب کی اشاعت کی کمی کو دور کرنے کی سعی کرنا ہو گی .مزارات اور گنبدوں کی جدید تعمیر پر اسراف کی بجائے خانقاہی نظام کی بقا کے لیے علمی و تحقیقی کام کی سرپرستی کی مثبت تجویز دی گئ ہے..ایسی بہت سی قابل عمل تجاویز پیش کی گئ ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر خانقاہی نظام کی برکات و فیوض کو عام کیا جا سکتا ہے. آخر میں تحقیق کے مصادر و مراجع کی فہرست بھی دی گئ ہے .
ڈاکٹر محمد رضا المصطفیٰ نے خانقاہی نظام کو تحقیق و تنقید کی سان پر چڑھا کر اس کی اصلاح و بہتری کے لیے کارِ خیر انجام دیا جس پر وہ مبارکباد اور تحسین کے مستحق ہیں. ان کی کتاب کی ورق گردانی شاہد ہے کہ صوفیاء کی خانقاہیں ہمیشہ سے ﷲ کے بندوں کی داد رسی ، تربیت ، تعلیم اور ذکر و فکر کا مرکز رہی ہیں جہاں سے لاتعداد تشنگان معرفت فیض یاب ہوئے اور بہت سے گم گشتہ راہیوں کو محبت الہٰی کی منزل کا سراغ ملا ، بدقسمتی یہ رہی کہ خانقاہیت قبر پرستی ، شخصیت پرستی اور موروثیت کی بھینٹ چڑھ گئ اور فیض رساں نظام خرافات کی بدولت دین و دانش سے وابستہ افراد کی تنقید کی نذر ہونے لگا ہے. اس نظام کو اصلاحات کی توانائ سے ہی پھر سے روحانی تربیت کا منبع بنایا جا سکتا .یہ کتاب اس حوالے سے جراتمندانہ تحیقیق اور خیال افروز تحریر کا قابل تحسین امتزاج ہے .

سید خادم رسول عینی کا قلم۔۔۔۔۔۔۔۔از : رفعت کنیز، حیدر آباد۔۔۔۔۔۔۔۔

ادب کی دنیا میں بے شمار ادبا ہیں ،کوئ مضمون نگار، کوئ صحافی، کوئ کہانی لکھنے والے ،کوئ نعتیہ کلام کہنے والے۔ مشہور شعرا کے قلم سے دنیا کی حقیقت بیاں ہوتی ہے، ان کے قلم سے روشنی کی کرنیں پھیلنے لگتی ہیں ، ان کے قلم سے دنیا کے راز بیاں ہوتے ہیں، ایسے حالات بیاں ہوتے ہیں کہ حق خود بہ خود ظاہر ہوتا ہے اور جھوٹ کو مات ملتی ہے ۔قلم ہے ہی وہ طاقت ہے جو حقیقت کو بیاں کرتا ہے۔

  قلم کا وجود نہ ہوتا تو شاید تقدیریں بھی نہیں لکھی جاتیں۔ اک قلم ہی ہے جو ساری دنیا کا بوجھ اٹھاۓ ہوے ہے ،ورنہ کسی میں اتنی ہمّت نہیں کہ سچ کو ظاہر کرے ،کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کبھی کبھی سچ بولنے کے لۓ زبان بھی ساتھ نہیں دیتی اور سچ بولنے سے کتراتی ہے ، لیکن قلم میں وہ طاقت ہے جو ساری دنیا کی تاریخ کو بیاں کرتا ہے ، یہ تاریخ کو بدل بھی سکتا ہے ۔

اسی قلم سے آج ایک حقیقت لکھ رہی ہوں اور وہ یہ ہے کہ اس قلم کا استعمال کر کے دور حاضر کے ایک مشہور و معروف شاعر “سید خادم رسول عینی” نے اپنے نعتیہ کلام ،اپنی غزلوں ،اپنی شاعری ،اپنے مضامین کے ذریعہ کئ لوگوں کے دلوں پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں ۔عینی کے قلم سے عینی کی سوچ ظاہر ہوتی ہے۔ عینی پر اللہ ربّ العزّت کا بہت بڑا کرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خادم رسول عینی کو قلم کے سنبھالنے کی طاقت دی ہے اور اس قلم سے اس حقیقت کو بیاں کرنے کی طاقت دی ہے جس کو بیاں کرنے کے لیے کسی زمانے میں نہ جانے کتنے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ عینی اپنے قلم سے ، خوبصورت الفاظ کے ذریعہ بہترین انداز میں اتنے پیارے کلام لکھتے ہیں جس میں ایمان افرز باتیں ، عظمت مصطفیٰ،خدا کی وحدانیت ، حالات حاضرہ نمایاں طور پر ظاہر ہوتے ہیں ۔ عینی کے کلاموں کو پوری توجہ کے ساتھ پڑھا اور سنا جاتا ہے ۔ عینی نے اپنے ہر کلام کو اک نءی فکر ، اک نءے انداز، اک نئ سوچ میں پیش کیا ہے۔ تمام چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوے عینی نے بہت ہی شگفتگی کے ساتھ اپنے جذبات ، اپنی عقیدتوں،اور محبتوں کو ظاہر کیا ہے۔ عینی کے ہر کلام میں چاہے وہ غزل ہو، چاہے وہ نعت ہو، چاہے وہ نظم ہو عشق حقیقی کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ کے ہر کلام میں تفکّرات کی جھلکیاں نظر اتی ہیں جو عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوب کر اور حالات حاظرہ سے متاثر ہو کر انہوں نے کہا ہے ۔

  عینی کے کلام عشق حقیقی یعنی نبی ﷺ کے عشق پر مبنی ہوتے ہیں۔ ایک کلام میں عینی یوں  بیان‌ کرتے ہیں:

آئی ہے مدینہء اقدس سے کیا تازہ ہوا سبحان اللہ
قربان ہو جاتی ہے خود اس پر ہی صبا سبحان اللہ

جس محبت کے عالم میں عینی نے یہ کلام کہا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مدینے سے جو بھی فضا جس موڑ پر بھی چلنے لگے ہر دل کو خوشگوار کرتی ہے اور عاشق رسول ہی اس محبت کی فضا کو محسوس کرسکتے ہیں۔

اسی کلام کے ایک اور شعر میں انہوں نے کہا ہے :

پڑھتا ہوں جب نعت آقا جنّت سے مہک اجاتی ہے
کیا خوب ملی ہے خالق سے مجھ کو یہ جزا سبحان اللہ

آپ نے بلکل درست فرمایا کہ  جب نعت پاک پڑھی جاتی ہے تو ماحول میں وہ رنگینیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو فضا میں گھل مل جاتی ہیں ، سماں خوبصورت اور مقدس  بن جاتا ہے،  ہر کوئ نعت سننے میں اتنا مشغول ہو جاتا ہے کہ نبیﷺ کی محبّت کا احساس، آپ کی  عقیدت کا جذبہ   ابھرنے لگتا ہے۔ لوگ نعت پاک کو سننے میں اتنے مصروف ہوجاتے ہیں کہ  جنّت کے نظاروں کا تصوّر کرنےلگتے ہیں اور جس کو بھی نعت پڑھنے اور لکھنے  کا شرف حاصل ہوتا ہے، 

اس پر اللہ کا بہت بڑا کرم ہوتا ہے ۔یوں سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک خصوصی انعام ہے۔

خادم رسول عینی ایک اور نعت میں کہتے ہیں:

لایۓ تشریف جان امن واماں
اب کہاں ظلم کی رہائ ہے

عینی حالات حاظرہ کا جائزہ لیتے ہوے کہتے ہیں کہ اب اگر مومنوں کا کوئ سہارا ہے تو صرف سرور کائنات ﷺ ہی ہیں اور اپ ہی ہیں جو اس دنیا کو ظلم سے بچا سکتے ہیں اور نبیﷺ کی ہمیں ہر دور میں ضرورت ہے ۔

ایک اور شعر میں کہتے ہیں :

یا نبی کیجۓ کرم کی سحر
رات پھر زندگی میں آئی ہے

بے شک ساری دنیا تاریکیوں میں ڈوبی ہوئ ہے ، جس پر ظلم اپنا سایہ کیۓ ہوۓ ہے۔ صرف آپ ﷺ ہی اس اندھیرے کو دور کرسکتے ہیں کیونکہ آپ ﷺ کی آمد سے پہلے عرب میں شرک اور بد عملی پھیلے ہوءے تھے یعنی بتوں کو پوجا جاتا تھا اور ظلم حد سے زیادہ بڑھ گیا تھا ، آپ ﷺ کے آنے کے بعد بتوں کو توڑا گیا، بدعملی دور ہوگئ، ظلم مٹتا چلا گیا اور ظالم مجبور و معذور ہوگیا ، دشمن اسلام کمزور ہوگیا، ہر طرف امن وسکوں چھا گیا۔

عینی نے اپنی ایک غزل میں کہا ہے:

یہ کیسا ضابطہ ہے جرم ایک شخص کرے
لگے ہر ایک پہ الزام دیکھتے رہیۓ

خلوص اور محبّت کا گر رہے فقدان
تمام کام ہو ناکام دیکھتے رہیۓ

مقام عدل میں ہی جسم عدل کا عینی
ہوا ہے قتل سر عام دیکھتے رہیۓ

عینی کے ان اشعار پر غور کریں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے حقیقت کی عکاسی کی ہے۔آج کل ایسا ہو رہا ہے کہ جرم کی ابتدا کوئ اور کرتا ہے اور سزا کسی دوسرے کو ملتی ہے۔ آج کے دور میں خلوص و وفا کی کوئ قیمت نہںں ۔ یہاں صرف بےحیائی عام ہے ۔انسانیت کا اب کوئ رواج نہیں رہا ۔جہاں انصاف ہونا تھا اب اسی جگہ ناانصافی کی سر پرستی ہو رہی ہے ۔قانون اور انصاف ایک مزاق بن کر رہ گءے ہیں ۔اب انصاف کی امید نظر نہیں آتی۔ یہاں تو بے گناہگار کو گنہگار ثابت کیا جاتا ہے اور گناہ گار کو بے گناہ ۔

عینی کی ان تفکّرات سے ثابت ہوتا ہے کہ عینی کی سوچ کس قدر حساس ہے۔ اپنے اصول، اپنے حقوق اور اپنے وجود کو لیکر کس قدر عینی فکر مند ہیں۔
وہ کہتے ہیں:

کسی بھی غیر سے اب دل نہیں لگانا ہے
جو اپنے روٹھے ہوۓ ہیں انھیں منانا ہے

اس شعر میں عینی دنیا کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہتے ہیں کہ یہ دنیا غیر حقیقی ہے، یہاں دل لگانا نہیں ہے اصل مقام تو آخرت ہے جس کی فکر کرنی چاہیۓ ۔ رب کو منانا ہے کیوں کہ دنیا فنا ہونے والی چیز ہے اور مومن کا دائمی مقام صرف آخرت ہے اور آپﷺ اور اہل بیت اور صحابہ ہی ہمارے اپنے ہیں جو آخرت میں ہمسایہ کی طرح ہونگے۔

اگر ہے خواہش تحصیل منزل مقصود
تھکاوٹوں کا نشاں راہ سے ہٹانا ہے

اسی سے ملتی ہے تسکین دائمی ہم کو
لباس شرع کا گرچہ بہت پرانا ہے

انسان کو میں اپنی منزل مقصد تک پہنچنے کے لۓ ہمیشہ کو شش کرنی چاہے۔ جو تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے وہ منزل تک نہیں پہنچتا ۔

ہمارا سکوں ،ہماری خوشی اور ہماری آخرت سب کچھ یعنی ہماری زندگی کا اصل شریعت پر مبنی ہے ،شریعت ایک ایسا قانون ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ہم اپنی زندگی کو حق کے راستے پر ڈال سکتے ہیں، آخرت کا سامان تیار کرسکتے ہیں، شریعت کا قانون پرانا ہی سہی، ہمارے لیے نجات کا سبب ہے۔ اس لیے شریعت پر چلنا ہمیں دائمی سکون عطا کرتا ہے ۔ شریعت پر عمل پیرا ہونے سے دونوں جہاں میں راہ نجات حاصل ہوتی ہے جس سے ہم آخرت کی منزلوں کو آسانی کے ساتھ طے کر سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں نہ صرف دائمی سکون ملتا ہے بلکہ دائمی وجود بھی حاصل ہوتا ہے۔

عینی نے اپنے قلم کی مدد سے لوگوں کے دلوں میں عشق حقیقی کو جگایا ہے، لوگوں کو انسانیت کا درس دیا ہے اور انھیں آخرت کی یاد دہانی کروائ ہے۔ عینی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ انسانیت کا درس بھی لوگوں کو دیا ہے۔
اور ہم خادم رسول عینی کے بہت شکرگزار ہیں اور ہمیشہ رہینگے۔

دعا ہے ک اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے عینی پر ہمیشہ کرم فرماے تاکہ لوگ عینی کے توسل سے دنیا و آخرت میں فیض پاتے رہیں آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

سید شاہ مصطفیٰ علی سبز پوش علیہ الرحمہ خانقاہ رشیدیہ کے دینی افکار و خیالات کے مظہر۔از۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی

پریس ریليز (مہراج گنج)خانقاہ رشیدیہ ہندوستان کی قدیم روحانی اور عملی خانقاہ ہے ۔ یہاں کے مشائخ نے اپنے علمی و دعوتی دونوں حیثیتوں کو ثابت کیا،اور ان دونوں میدانوں میں بےلوث خدمات انجام دیں ۔اس سلسلے کے مشائخ نے اعتقادی’ فقہی اور سوانحی کتابیں بھی لکھی ہیں۔انہیں مشائخ کرام میں ایک نابغئہ روزگار ‘ صاحب تصوف شخصیت سید شاہ مصطفیٰ علی شہید سبز پوش علیہ الرحمہ کی ہے’جو سیدشاہ شاہد علی سبز پوش رحمہ اللہ کے بیٹےو جانشیں اور خانقاہ رشیدیہ کے نویں سجادہ نشیں تھے۔مدرسہ صولتیہ مکئہ معظمہ کےسند یافتہ عالم ‘صوفی گر وعارف ساز بزرگ تھے۔مذکورہ تاریخی خیالات کا اظہار معروف ماہر اسلامیات مفتی قاضی فضل رسول مصباحی نے ایک پریس ریلیز میں کیا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ظاہری وباطنی علوم سے فراغت کے بعد حضرت سید شاہ مصطفیٰ علی سبز پوش نے بہار کے ضلع چمپارن کو اپنی علمی واعتقادی تحریک و تبلیغ کے لئے منتخب فرمایااور غیروں کے زور باطل کا طلسم اپنےزبردست دعوت و تبلیغ سے پاش پاش کردیا ۔جس سےہزاروں بندگان خداکو ہدایات کی لازوال دولت نصیب ہوئ اور خلق خداحضرت کی شرعی رہنمائ سے نہال اور خوش حال ہوگئ۔
بالآخر خانقاہ رشیدیہ کے افکارو خیالات کے یہ مظہر ۱۸ /ذوقعدہ سن ۱۳۷۸ ھجری مطابق ۱۱ /جولائ سن ۱۹۵۸ کو شہر گورکھ پور کےاندر شہادت کی سعادت سے ہمکنار ہوکر واصل بہ حق ہوئے ۔جون پور رشیدآباد میں مدفون ہوئے۔مفتی صاحب نے یہ بھی فرمایا۔ اس سلسلہ کے مشائخ کی علمی اور روحانی حیثیتوں کو ملک العلما ء علامہ ظفرالدین بہاری اور افضل العلما مفتی قاضی سمیر الدین احمد رشیدی علیہما الرحمہ جیسی عبقری شخصیات نے بھی تسلیم کیا، اور ان کے ادبی اورشعری شہ پاروں کو دیکھ کر غالب اور ناسخ جیسے فن کاران شعر و سخن نے رشک کیا ہے۔خود بانئ خانقاہ رشیدیہ شیخ محمد رشید علیہ الرحمہ نےفن مناظرہ کی مشہور کتاب “شریفیہ” کی ”مناظرہ رشیدیہ “کےنام سے جو شرح کی ہےوہ آج تمام مدارس اسلامیہ میں داخل نصاب ہے۔گنج رشیدی’گنج ارشدی ‘گنج فیاضی’کرامات فیاضی ‘ مناقب العارفین ‘سمات الاخیار’ عین المعارف اور دیوان فانی جیسی کتابیں لائق مطالعہ ہیں ۔آج بھی اس سلسلہ کی خانقاہیں اور روحانی مراکز مرجع خلائق ہیں
اللہ سے دعاء ہے کہ حضرت سید شاہ مصطفیٰ علی شہید علیہ الرحمہ کے بتائےہوئے راستے پر ہمیں گامزن رکھے۔ آپ علیہ الرحمہ اور دیگر بزرگان دین کے فیوض وبرکات سے مالامال فرماۓ

کلام قدسی اور صنعت اقتباس۔۔تبصرہ۔۔از قلم : سید خادم رسول عینی

کلام قدسی اور صنعت اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم : سید خادم رسول عینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علماءے بلاغت نے کلام منظوم و منثور میں صنعت اقتباس کے استعمال کو بہت اہمیت دی ہے۔صنعت اقتباس کے استعمال سے کلام میں جاذبیت آجاتی ہے اور اشعار بہت ہی معتبر اور مستند ہوجاتے ہیں ۔۔صنعت اقتباس کیا ہے؟ اہل بلاغت نے صنعت اقتباس کا ڈیفینیشن یوں بیان کیا ھے:

اقتباس یہ ہے کہ کلام منظوم و منثور میں قرآنی الفاظ کو بغیر کسی بڑی تبدیلی کے لایا جایے۔

اقتباس یہ ہے کہ کلام کو قرآن یا حدیث کے کلمات سے مزین کیا جائے۔

اقتباس یہ ہے کہ متکلم اپنے کلام میں قرآن ، حدیث کا کوئی ٹکڑا یا دیگر علوم میں سے کسی علم کے قاعدے کو شامل کرے۔

اقتباس کی مثال میں حدائق بخشش سے حسان الہند سرکار اعلیٰ حضرت علامہ احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے اشعار لاجواب ملاحظہ فرمائیں:
لیلۃالقدر میں مطلع الفجر حق
مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام

فاذا فرغت فانصب یہ ملا ہے تم کو منصب
جو گدا بنا چکے اب اٹھو وقت بخشش آیا کرو قسمت عطایا

والی الالہ فارغب کرو عرض سب کے مطلب
کہ تمھی کو تکتے ہیں سب کروں ان پہ اپنا سایہ بنو شافع خطایا

ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا ذکر ہے اونچا تیرا

انت فیھم نے عدو کو بھی لیا دامن میں
عیش جاوید مبارک تجھے شیداییء دوست

غنچے ما اوحی’ کے جو چٹکے دنی’ کے باغ میں
بلبل سدرہ تک ان کی بو سے بھی محروم ہے

ایسا امی کس لیے منت کش استاد ہو
کیا کفایت اس کو اقرأ ربک الاکرم نہیں؟

مجرم بلائے آئے ہیں جاؤک ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

مومن ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو
سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

ان پر کتاب اتری بیانا لکل شیء
تفصیل جس میں ما عبر و ماغبر کی ہے

ک گیسو ہ دہن ی ابرو آنکھیں ع ص
کھیعص ان کا ہے چہرہ نور کا

من رانی قد رای الحق جو کہے
کیا بیاں اس کی حقیقت کیجیے

حضرت حجۃالاسلام علامہ حامد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے اشعار میں صنعت اقتباس کی خوبیاں ملاحظہ فرمائیں:
ھوا الاول ھوالآخر ھوالظاھر ھوالباطن
بکل شیء علیم لوح محفوظ خدا تم ہو

انا لھا کہہ کے عاصیوں کو وہ لینگے آغوش مرحمت میں
عزیز اکلوتا جیسے ماں کو انھیں ہر اک یوں غلام ہوگا

مرزا غالب کے مندرجہ ذیل شعر میں صنعت اقتباس کا جلوہ دیکھیں :

دھوپ کی تابش آگ کی گرمی
وقنا ربنا عذاب النار

ڈاکٹر اقبال کے اشعار میں صنعت اقتباس کے مناظر خوشنما دیکھیں:

رنگ او ادنی میں رنگیں ہوکے اے ذوق طلب
کوئی کہتا تھا کہ لطف ما خلقنا اور ہے

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ھو اللہ احد کہتے تھے

صنعت اقتباس کے استعمال سے فائدہ یہ ہے کہ شاعر شعر میں مفہوم، قرآن و حدیث کے حوالے سے پیش کردیتا ہے۔اس لیے شعر زیادہ معتبر و مستند ہوجاتا ہے۔ لیکن صنعت اقتباس کے استعمال کرنے میں احتیاط اور مہارت کی ضرورت پڑتی ہے۔عربی الفاظ کے تلفظ کو شعر میں بعینہٖ پیش کرنا ہے ، اگر حروف میں کمی یا بیشی کی گئی تو معنی میں فرق آجانے کا امکان رہتا ہے۔موجودہ دور میں ہم نے چند شعرا کو دیکھا ہے جو صنعت اقتباس کے استعمال میں احتیاط سے کام نہیں لیتے ، کبھی الف گرادیتے ہیں تو کبھی ی ، کبھی واؤ کو حذف کردیتے ہیں تو کبھی الف ، واو یا ی کو کھینچ دیتے ہیں ۔ایسی غلطی اس وقت سرزد ہوتی ہے جب شاعر کے اندر شعر کہنے کی مہارت نہیں ہوتی یا علم عروض میں شاعر کو پختگی حاصل نہیں ہوتی ۔ ایسی صورت میں شاعر ضرورت شعری کے نام پر بے احتیاطی کربیٹھتا ہے اور قرآنی الفاظ کے تعلق سے غلطی کر بیٹھتا ہے ۔ ایسے شعرا کو ہم نے کئی بار مختلف واٹس ایپ گروپس میں تنبیہ بھی کی ہے۔بہر حال، اب اصل موضوع کی طرف رخ کرتے ہیں ۔

حضرت علامہ سید اولاد رسول قدسی مصباحی کے مجموعہاءے کلام کے مطالعہ سے یہ عیاں ہوتاہے کہ دور حاضر میں صنعت اقتباس پر مبنی سب سے زیادہ اشعار کہنے والے شاعر کا نام ہے علامہ قدسی۔آپ کے تقریباً ہر کلام میں صنعت اقتباس پرمبنی کم سے کم ایک شعر مل ہی جاتا ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ آپ نے اپنے نعتیہ/ تقدیسی کلام کے ہر شعر میں قرآن کی آیت کا حوالہ پیش کیا ہے یعنی صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ آپ‌ نے قرآنی آیات کا استعمال مکمل احتیاط سے کیا ہے، کہیں بھی عروضی خامی نظر نہیں آتی، کسی بھی قرآنی لفظ یا حدیث کے کلمے کا کوئی حرف گرتا ہوا نظر نہیں آتا ، نہ ہی کہیں آپ نے کسی حرف کو بڑھا کر شعر کو آؤٹ آف وے جاکر موزوں کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس سے نہ صرف یہ کہ شعر گوئی میں آپ کی مہارت کا پتہ چلتا ہے ، بلکہ یہ بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ آپ دور حاضر کے ایک جید عالم دین ہیں ، علم قرآن و حدیث سے اپڈیٹیڈ ہیں اور حامل وسعت مطالعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علم قرآن و حدیث اور فن عروض کا بہترین استعمال تقدیسی شاعری میں بحسن و خوبی کرتے ہیں ۔

اب آئیے علامہ قدسی کے کلاموں میں سے چند اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں جن اشعار میں آپ نے صنعت اقتباس کا استعمال کیا ہے۔

حال ہی میں علامہ قدسی کا ایک تازہ ترین نعتیہ کلام نظر سے گزرا جس میں ردیف ہے:
محال است محال۔
اس ردیف میں بہت ساری خوبیاں ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اردو کلام میں آپ نے ایک طویل ردیف کا استعمال کیا ہے جو فارسی کلمات پر مشتمل ہے۔گویا یہ کلام دو زبانوں پر مبنی ہے، اردو اور فارسی۔لہذا اس کلام کو ذوالسانی کلاموں کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنی ردیف میں آپ نے محال کو دوبار استعمال کرکے مفہوم کی اہمیت کو فزوں تر بنادیا ہے اور مضمون کی وقعت کو دوبالا کردیا ہے۔

کسی لفظ یا کسی فقرے کا دوبار استعمال کلام میں حسن تاکید کے لیے کیا جاتا ہے۔مثلا” سرکار اعلیٰ حضرت کا شعر دیکھیں:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے
اس شعر میں اعلیٰ حضرت نے تو زندہ ہے واللہ فقرے کو دوبار استعمال کیا ہے تاکہ بیان میں فورس آجائے ۔ایسی تاکید سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ شاعر مکمل وثوق کے ساتھ مفہوم کو بیان کررہا ہے اور شاعر کے پاس اپنے مفہوم کو ثابت کرنے کے لئے دلائل موجود ہیں ۔تبھی تو علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے

اس قسم کے حسن تاکید سے مزین اعلیٰ حضرت کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
مطلع میں یہ شک کیا تھا واللہ رضا واللہ
صرف ان کی رسائی ہے صرف ان کی رسائی ہے
اس شعر میں اعلیٰ حضرت نے واللہ کو دوبار استعمال کیا ہے اور صرف ان کی رسائی ہے کو بھی شعر/ مصرع میں دوبار لایا ہے

علامہ قدسی نے اپنے کلام کے ہر شعر میں مفہوم پیش کرنے کے بعد کہتے ہیں : محال است محال۔
یعنی کہ آپ نے مکمل وثوق کے ساتھ مفاہیم‌ بیان کیے ہیں جن میں کسی قسم کے تردد کا شائبہ بھی نہیں ہے اور ان مفاہیم کو ثابت کرنے کے لئے آپ کے پاس دلائل بھی موجود ہیں۔
آپ کے اس کلام کے افاعیل ہیں:
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن/ فعلان۔
اور بحر کا نام ہے:
بحر رمل مثمن مزاحف مخبون محذوف مسبغ

اس کلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
شاہ کونین کی تمثیل محال است محال
مثل قرآن ہو تنزیل محال است محال
اس شعر میں آپ نے دعویٰ کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمثیل کونین میں کہیں بھی نہیں ہے اور قرآن جیسی کتاب کا بھی ملنا دنیا میں محال ہے۔ان دونوں دعووں کو ثابت کرنے کے لئے آپ کے پاس نقلی و عقلی دلائل موجود ہیں ، تبھی تو پورے وثوق کے ساتھ کہہ رہے ہیں :
شاہ کونین کی تمثیل محال است محال
مثل قرآن ہو تنزیل محال است محال

اسی کلام میں ایک شعر ہے :
جس کا دل ہے ختم اللہ کا مصدر اس میں
حق کے پیغام کی تقبیل محال است محال
یہ شعر صنعت اقتباس پر مبنی ہے۔اس شعر میں مفہوم بیان کرنے کے لیے علامہ قدسی نے قرآن کی آیت (سورہء بقرہ / آیت ٧) کا حوالہ دیا ہے اور قرآنی آیت کو کووٹ کرکے صنعت اقتباس کا استعمال بہت عمدہ اسلوب سے کیا ہے۔وہ آیت یوں ہے :
ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم غشاوۃ ولھم عذاب عظیم
ترجمہ:
اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر کردی اور ان کی آنکھوں پر گھٹا ٹوپ ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ۔
(کنز‌ الایمان)

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ان کافروں کا ایمان سے محروم رہنے کا سبب یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے جس کی بنا پر یہ حق سمجھ سکتے ہیں نہ حق سن سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتے ہیں اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ اللہ تعالی’ کی آیات اور اس کی وحدانیت کے دلائل دیکھ نہیں سکتے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔اسی مفہوم کو علامہ قدسی نے ایک شعر کے ذریعہ بہت ہی دلکشی کے ساتھ اور مکمل وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے ، کہتے ہیں:

جس کا دل ہے ختم اللہ کا مصدر اس میں
حق کے پیغام کی تقبیل محال است محال

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا ، شہر میں چرچا تیرا
اس شعر میں جس آیت کریمہ کا حوالہ دیا گیا ہے وہ یہ ہے:
ورفعنا لک ذکرک۔
سورہ الم نشرح ، آیت ٤
ترجمہ: اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کیا ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اللہ نے اذان میں ، قیامت میں ، نماز میں ، تشہد میں، خطبے میں اور کثیر مقامات پر اپنے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر کیا ھے۔یہی وجہ ہے کہ شہر شہر میں آپ کا چرچا ھے، نگر نگر آپ کا ذکر ہے۔جلوت میں بھی آپ کا ذکر ہے اور خلوت میں بھی ، عرب میں بھی آپ کا چرچا ہے اور عجم میں بھی ۔ آپ کا ذکر صرف خلیجی ممالک میں نہیں ہوتا بلکہ ہند و پاک اور یوروپ و اسٹریلیا میں بھی آپ کا ذکر جمیل ہوتا ہے ۔ زمین میں بھی آپ کا چرچا ہے اور آسمانوں میں‌ بھی ۔آبادی کے علاقے میں بھی آپ کا چرچا ہے اور غیر آباد‌ علاقوں میں بھی الحمد لللہ۔اسی لیے علامہ قدسی فرماتے ہیں:
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا ، شہر میں چرچا تیرا

صنعت اقتباس پر مبنی ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
صداءے فزت بربی بھلا نہ کیوں گونجے
کٹی زباں ہے رسالت مآب کی خاطر
یہ شعر تلمیحی بھی ہے۔جنگ بدر میں ایک صحابیء رسول کی شہادت ہوئی اور دشمن اسلام نے ان کی زبان کاٹ دی ۔زبان کٹنے کے بعد بھی ان کی زبان سے یہ آواز آرہی تھی :
فزت بربی یعنی میں رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا ، کل قیامت کے دن اگر مجھ سے پوچھا جائےگا کہ تمہاری زبان کہاں گئی تو میں فخر سے کہونگا کہ ناموس اسلام و رسالت کے لیے میں نے اپنی جان قربان کردی اور اپنی زبان بھی نذر کردی۔اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ قدسی فرماتے ہیں:
صداءے فزت بربی بھلا نہ کیوں گونجے
کٹی زباں ہے رسالت مآب کی خاطر

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
آیت من‌ شعاءر کا پیغام ہے
ہم کو کرنا ہے رب کی نشانی پہ ناز
اس شعر میں جس آیت کا حوالہ پیش کیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
ذالک ومن یعظم شعاءر اللہ فا نھا من تقوی القلوب۔
سورہء حج، آیت ٣٢
ترجمہ : بات یہ ہے اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیز گاری سے ہے۔

اس آیت سے یہ ہدایت ملی کہ ہم اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کریں ۔مثال کے طور پر مناسک حج پر اگر غور کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم حج کے دوران وہی کرتے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ نے کیا تھا ۔قربانی کرنا، جمرات پر کنکر مارنا، طواف کرنا، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا یہ سب ان کی سنتیں ہیں اور ہم بہت ہی احترام سے عمرہ/ حج کے دوران ان کی سنتوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں ۔
اور ہمیں ناز ہے کہ ہم سنت ابراہیمی پر عمل پیرا ہیں اور ان کی نشانیوں کی تعظیم دل سے کرتے ہیں۔اس لیے علامہ قدسی کہتے ہیں:
آیت من‌ شعائر کا پیغام ہے
ہم کو کرنا ہے رب کی نشانی پہ ناز

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
انصتوا فاستمعوا کا ہے یہی حکم جلی
جب ہو قرآں کی تلاوت تو سماعت ہے فرض

اس شعر میں قرآن کی جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:
واذا قری القرآن فاستمعو لہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔
سورہء اعراف ، آیت ٢٠٤
ترجمہ : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ جس وقت قرآن پڑھا جائے خواہ نماز میں ہو یا خارج نماز میں اس وقت سننا اور خاموش رہنا واجب ہے ۔اس مفہوم کو سہل ممتنع کے انداز میں علامہ قدسی نے کس حسین پیرائے سے شعر کے سانچے میں ڈھالا ہے، کہتے ہیں:
انصتوا فاستمعوا کا ہے یہی حکم جلی
جب ہو قرآں کی تلاوت تو سماعت ہے فرض

صنعت اقتباس پر مبنی ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں:
زار قبری پہ بصد شوق جو کرتا ہے عمل
ایسے حاجی کے لیے ان کی شفاعت ہے فرض

اس شعر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مشہور حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے اور وہ حدیث ہے:
من زار قبری وجبت لہ شفاعتی ۔
ترجمہ : جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی ۔
یعنی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہء مبارک کی زیارت کے لیے حاضر ہونے والوں کو شفاعت کی بشارت ملی ہے ۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ زائرِ روضہء مطہر کا خاتمہ ایمان پر ہوگا ۔اس حدیث مبارکہ کو علامہ قدسی نے بہت ہی دلکش انداز سے شعر کا جامہ پہنایا ہے، کہتے ہیں:
زار قبری پہ بصد شوق جو کرتا ہے عمل
ایسے حاجی کے لیے ان کی شفاعت ہے فرض

ایک اور کلام میں ارشاد فرماتے ہیں:
قدسی الحب فی اللہ کا کل متن
اصل ایماں کی تقیید سے کم نہیں
یہ شعر جس حدیث کی سمت اشارہ کررہا ہے وہ یوں ہے:
افضل الاعمال الحب فی اللہ والبغض فی اللہ ۔
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی سے محبت کرنا اور اللہ تعالیٰ ہی کی خاطر کسی سے نفرت کرنا سب سے زیادہ فضیلت والا عمل ہے۔
اس سے پتہ یہ چلا کہ ایسی محبت جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو ، نفسیاتی خواہشات کی آمیزش نہ ہو افضل اعمال سے ہے۔ نماز ، روزہ ، زکاۃ، حج بھی الحب فی اللہ کی شاخیں ہیں کہ مسلمان صرف اللہ کی رضا کی خاطر ان اعمال سے محبت کرتا ہے اور اللہ کا حکم بجالاتے ہوئے یہ اعمال صالحہ کرتا ہے جو عین ایمان و اصل ایماں کا تقاضہ ھے۔ اس لیے علامہ قدسی کہتے ہیں :
قدسی الحب فی اللہ کا کل متن
اصل ایماں کی تقیید سے کم نہیں

ماہ رمضان کے ایام میں علامہ قدسی کی ایک نظم سوشل میڈیا میں بہت مقبول خاص و عام ہوئی تھی جس کا عنوان ہے: اصحاب بدر ۔
اس نظم میں کل نو اشعار ہیں ۔ان نو اشعار میں سے چار اشعار صنعت اقتباس کا حسن لیے ہوئے ہیں ۔آپ بھی ان اشعار کو ملاحظہ فرماءیے اور علامہ قدسی کے وسعت مطالعہ ، علمی تبحر، عروض دانی اور قادر الکلامی کی داد دیجیے:
اعملوا ہے حدیث شہ دیں گواہ
نور تقریر غفران اصحاب بدر
کہہ رہا ہے لکم آیۃ قول رب
راہ حق کے نگہبان اصحاب بدر
اقتدیتم ہے ارشاد شاہ زمن
ہیں ہدایت کی میزان اصحاب بدر
قدسی انتم اذلہ کا اعلان ہے
مشک اظہار احسان اصحاب بدر

اسی طرح علامہ قدسی کے سیکڑوں اشعار ہیں جس میں قرآن و حدیث کے اقتباسات کو کووٹ کرکے مکمل وضاحت کے ساتھ ایمان افروز مفاہیم پیش کیے گئے ہیں۔ان شا ء اللہ پھر کبھی دیگر اشعار کی تشریح پر مبنی مقالہ پیش کیا جائےگا۔

مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ علامہ قدسی دور حاضر میں صنعت اقتباس کے بہت ہی عظیم شاعر ہیں جن کی تمثیل دور دور تک کہیں نظر نہیں آتی۔

ڈاکٹر سید وحید کوثر کرنولی ، منفرد لہجے کا شاعر۔۔۔۔۔۔از قلم: سید خادم رسول عینی

ڈاکٹر سید وحید کوثر دکن کے ایک کہنہ مشق شاعر ہیں ۔آپ کا مجموعہء کلام عکس شفق نظر نواز ہوا۔
عکس شفق کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر کوثر اردو شاعری کی کئی اصناف میں مہارت رکھتے ہیں۔حمد، نعت، غزل، آزاد نظم ، معری’ نظم وغیرہ ۔

تبصرہ کی ابتدا حمد سے کرتے ہیں ۔آپ کے مجموعۂ کلام کے شروع میں دو حمد الہی ہیں ۔پہلی حمد میں ردیف ہے: تیرا اور قوافی ہیں : جلوہ ، قصیدہ دعوی’ وغیرہ ۔
یہ حمدیہ کلام دیکھ کے مجھے حسان الہند حضرت علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کا نعتیہ کلام یاد آگیا :

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا

ڈاکٹر کوثر نے یہ حمدیہ کلام جس بحر میں کہا ہے اس بحر کا نام ہے:بحر کامل مثمن مزاحف مخبون محذوف اور اس کے افاعیل یوں ہیں : فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن۔
اس کلام میں ایک مصرع یوں ہے:

بخش دے اپنے کرم سے تو ہے رحمان و رحیم

اس کے افاعیل یوں ہیں :
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلان
گویا شاعر محترم نے اس مصرع میں زحاف تسبیغ کا استعمال کیا ہے۔
مقطع کا ثانی یوں ہے:

ترا کوثر ہے فقط چاہنے والا تیرا
اس کے افاعیل ہیں ۔۔۔فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
اس مصرع میں زحاف خبن کا استعمال ہوا ہے ۔

عکس شفق میں ایک اور حمدیہ کلام ہے جو بحر متقارب میں قلم بند کیا گیا ہے۔اس کلام میں کہیں زحاف قبض کا استعمال کیا گیا ہے تو کہیں زحاف حذف کا۔
مثلاً:

تجھی سے ہیں عالم میں سب رونقیں ۔۔۔فعولن فعولن فعولن فعل۔۔۔۔بحر متقارب مثمن مزاحف محذوف

تو اعلیٰ و ارفع میں ادنی’ صغیر

۔۔۔۔فعولن فعولن فعولن فعول
بحر متقارب مثمن مزاحف مقبوض

ان‌ حمدیہ کلاموں میں مختلف زحافات کے استعمال سے آشکارا ہے کہ شاعر محترم کو علم عروض میں اچھی خاصی مہارت حاصل ہے،کیوں نہ ہو ؟ آپ ایک استاد شاعر ہیں ۔آپ نے شاعری کے سمندر میں نہ جانے کتنے گوہر آبدار بنائے ہیں ۔ان گوہر آبدار میں سے ایک عطا کوثر بھی ہیں جو آپ کے نامور شہزادے ہیں اور اپنے والد اور اپنے اسلاف کی وراثت کو محفوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھانے کی سعیء کامل کر رہے ہیں ۔

خیر، اس حمدیہ کلام کا حاصل کلام شعر مجھے یہ لگا:

تجھ سے مانگیں ترے آگے ہی جھکائیں سر کو
اپنے بندوں سے ہے خاموش تقاضہ تیرا ۔

یہ شعر قرآن مجید کی آیت کا ترجمانی کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
قرآن میں ہے:
ایاک نعبد وایاک نستعین ۔
یعنی اے پرور دگار، ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد طلب کریں ۔
اللہ کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ۔کیونکہ سب اس کے مملوک ہیں اور مملوک ‌مستحق عبادت نہیں ہوسکتا۔
اس شعر میں رد شرک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کسی کے لیے نہیں ہوسکتی۔
استعانت خواہ بالواسطہ ہو یا بے واسطہ ہر طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔حقیقی مستعان وہی ہے۔
بندہ کو چاہیے کہ اس پر نظر رکھے اور ہر چیز میں دست قدرت کارکن دیکھے۔

کس قدر خوب صورتی سے ڈاکٹر کوثر نے قرآن کے ایک مضمون کو شعری سانچے میں ڈھالا ہے ۔ الطاف حسین حالی نے فرمایا تھا کہ شاعر کا بہترین شعر وہ جو قرانی مفہوم پیش کرتا ہو۔ حالی کے قول کے مطابق بھی یہ شعر بہترین اشعار کے زمرے میں آتا ہے۔

عکس شفق میں تقریباً بیس نعتیہ کلام شامل ہیں ۔
ان کلاموں کو پڑھنے کے بعد یہ احساس لطیف ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کوثر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہیں ۔بغیر عشق رسول کے نعت نگاری ممکن نہیں ۔عشق رسول پر مبنی ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

جھاڑوں میں گزرگاہ سرکار یہ پلکوں سے
اشکوں سے قلم دھودوں ارمان نرالا ہے

اک بار آکے خواب میں صورت دکھایئے
آنکھوں کو انتظار مری صبح و شام ہے

جذبہء عشق و محبت کو بڑھاکر دیکھیے
دل کے آءینے میں عکس رویے انور دیکھیے

کوثر کے درد و عشق کا درماں وہی تو ہیں
بیمار مصطفیٰ کو نہ حاجت شفا کی ہے

جذبات مچل اٹھے جب ان کا نگر آیا
سجدے میں گریں نظریں محبوب کا در آیا

ہجر میں ان کے روتی ہیں آنکھیں مری
دل میں طوفاں نہاں ہے خدا کی قسم

عشق میں تپ کے ہوگیا کندن
دل کی بھٹی میں غم محمد کا

سمجھنا جس کا نہیں ہے مشکل کرامتوں کا میں جس کی قائل
جو تجھ کو کوثر ولی بنا دے
وہ جذب عشق رسول ہی ہے

جادہء عشق نبی میں دل مرا مہجور ہے
لمحہ لمحہ ان پہ مٹنا عشق کا دستور

عشق رسول سے لبریز یہ اشعار وہی کہہ سکتا ہے جس کا دل عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور ہے ۔
الحمد لللہ ڈاکٹر کوثر عاشق رسول بھی ہیں اور آل رسول بھی ۔ایک آل رسول جب عشق رسول کے عنوانات کو شعر کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو اس کو پڑھنے کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے

ڈاکٹر کوثر کے نعتیہ کلاموں کو پڑھنے کے بعد یہ ادراک ہوتا ہے کہ سیرت رسول پر آپ کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔جابجا اشعار میں سیرت و کردار و عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں اور شاعر محترم کے علم و فضل کو داد و تحسین سے نوازیں :

دے کے دشمن کو بھی دنیا میں دعائیں آقا
ہم کو انداز محبت کے سکھانے آئے

تا حشر جن کی مل نہ سکے گی مثال بھی
لاریب بے مثال ہیں اطوار مصطفیٰ

حق کے اوصاف سے متصف آپ ہیں
شان حق یوں عیاں ہے خدا کی قسم

ہر سو تھی جہالت کی گھنگور گھٹا چھائی
خورشید عرب لےکر تنویر سحر آیا

استراحت کے لیے جز بوریا کچھ بھی نہیں
مالک کون و مکاں کا آپ بستر دیکہیے

آپ کے کردار اعلیٰ کی ضیا کے سامنے
کس قدر بے نور ہیں یہ ماہ و اختر دیکھیے

کفر غارت ہوگیا اور بجھ گئے آتش کدے
ہوگیا ہر ایک پر فضل خدا سرکار سے

یہ اشعار وہی کہہ سکتا ہے جو مطالعہ میں وسعت رکھتا ہو ۔
الحمد لللہ ڈاکٹر کوثر کے اشعار ان کی وسعت مطالعہ کے آءینہ دار ہیں

ڈاکٹر کوثر یقیناً ایک منفرد لہجے کے شاعر ہیں ۔آپ کا کلام میں لفظی خوبی بھی ہے اور معنوی حسن بھی، فصاحت بھی ہے اور بلاغت بھی، لفظی صنعتوں کا جمال ہے اور معنوی صنعتوں کی رعنائی بھی۔

صنعتوں کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
صنعت تضاد:یہ وہ صنعت ہے جس کے ذریعہ شعر میں ایسے الفاظ لاءے جاءیں جن میں بہ اعتبار معنی ضد پاءی جاءے۔اس کو طباق بھی کہتے ہیں۔ایسی خوبی ڈاکٹر کوثر کے کلاموں کے کءی اشعار میں ملتی ہے۔
جیسے:

اس سے پڑھ کر نہیں پھر کوءی تعارف میرا
تو میرا مولیٰ و آقا میں ہوں بندہ تیرا
اس شعر میں میرا ، تیرا اور آقا، بندہ کے استعمال کی وجہ سے صنعت تضاد کا حسن پیدا ہوگیا ہے ۔

تو حاکم ہے آقا ہے مخلوق کا
تو اعلیٰ و ارفع میں ادنی’ صغیر

اس شعر میں اعلی’ ، ادنی’ اور ارفع ، صغیر حسن صنعت تضاد کے باعث ہیں ۔

کلمہء طیب کو بھی رتبہ ملا سرکار سے
ابتدا سرکار سے اور انتہا سرکار سے

اس شعر میں ابتدا اور انتہا دو متضاد الفاظ کے استعمال سے شعر کے حسن میں‌ اضافہ ہوگیا ہے۔

اک بار آکے خواب میں صورت دکھایءے
آنکھوں کو انتظار مری صبح و شام ہے۔

ایک مصرع میں صبح اور شام کا اجتماع شعر کی خوب صورتی کا باعث ہے۔

کوثر کے درد و عشق کا درماں وہی تو ہیں
بیمار مصطفی’ کو نہ حاجت شفا کی ہے

اس شعر میں بیمار اور شفا ایک دوسرے کی ضد ہیں

ساری مخلوق پر آپ کا ہے کرم
کیا فلک کیا زمیں سید المرسلیں

اس شعر میں زمین اور فلک کی اجتماعیت بہت لطف دے گئی۔

ان کے در سے فاصلوں کو قربتیں حاصل ہوئیں
پھر مدینہ سے بتاؤ عرش کتنا دور ہے

اس شعر میں فاصوں ، قربتیں کے سبب صنعت تضاد کا حسن پیدا ہوا

صنعت تلمیح:
صنعت تلمیح اسے کہتے ہیں کہ مجموعہء الفاظ کے ذریعہ کسی تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کیا جاءے۔صنعت تلمیح کے استعمال سے شعر کے معنوں میں وسعت اور حسن پیدا ہوتا ہے ۔اس صنعت کے ذریعہ کسی مکمل واقعہ کو ایک شعر کے سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے ۔
جیسے:

آپ کا سایہ اور ثانی دونوں یہاں
ہم نے دیکھا نہیں سید المرسلیں

کل کائنات میں نہیں جس کی کوئی مثال
صناع دوجہاں کا وہ صناع ہیں حضور

تخلیق کائنات کا منشا حضور ہیں
عظمت عظیم تر مرے خیر الورا کی ہے

ہاں قربت نبی سے علی کیا سے کیا ہوا
یعنی ابو تراب سے شیر خدا ہوا

عکس شفق میں ڈاکٹر کوثر کا ایک نادر و نایاب کلام ، معنویت سے بھر پور، شعریت کے حسن سے مزین نظر سے گزرا۔
اس کلام کے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں :

حق بھی رطب اللساں ہے خدا کی قسم
تم سا کوئی کہاں ہے خدا کی قسم

حسن یوسف مقید فقط ذات تک
تم سے روشن جہاں ہے خدا کی قسم

حق کے اوصاف سے متصف آپ ہیں
شان حق یوں عیاں ہے خدا کی قسم

ان کے دامن کے سایے میں ڈھونڈو سدا
رحمت بیکراں ہے خدا کی قسم

کوثر بے نوا‌ ، فکر عقبی’ عبث
حامیء بےکساں ہے خدا کی قسم

پورا کلام مطلع سے مقطع تک صنعت تلمیح و صنعت اقتباس سے مزین ہے۔سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مختلف واقعات کو ایک ہی شعر کے اندر مکمل وضاحت کے ساتھ پیش کردینا ڈاکٹر کوثر کی خصوصیت ہے ۔اس کلام میں کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لاثانی ہونے کا ذکر ہے تو کسی شعر میں آپ کے سایہ نہ ہونے کا بیان ،کسی شعر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہا گیا ہے تو کہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے اوصاف سے متصف بتایا گیا ہے ۔کسی شعر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت عالمین کہا گیا ہے تو کہیں حامی ء بےکساں ۔

ڈاکٹر کوثر کا یہ کلام فصاحت و بلاغت کا گنجینہ ہے۔آپ کے اس کلام میں صنعتوں کے حسن و جمال کی فراوانی ہے ۔ صنعت اقتباس اور صنعت تلمیح کی جلوہ گری ہے۔

ڈاکٹر کوثر کے‌ اس کلام کا ہر مصرع / شعر جملہء خبریہ پر مبنی ہے ۔آپ نے ہر شعر میں خدا کی قسم کھائی ہے۔آخر خدا کی قسم کھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ آئیے اس موضوع پر کچھ بلاغتی گفتگو کرتے ہیں۔

فائدہ خبر کی تین صورتیں ہیں :

١.خبر ابتدائی
٢.خبر طلبی
٣.خبر انکاری

١.خبر ابتدائی وہ خبر ہے جس میں مضمون کسی بھی قسم کی تاکید کے بغیر پیش کیا جاتا ہے۔ایسی صورت میں اگر تاکید کا لفظ استعمال کیا جائے تو وہ حشو ہوگا اور اہل تنقید کے نزدیک عیب کلام کا باعث ہوگا ۔جیسے : کل نفس ذاءقۃ الموت یعنی ہر متنفس کے لیے موت ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ۔اس لیے اس جملے کے ساتھ کلمہء تاکید لگانے کی ضرورت نہیں۔

٢.خبر طلبی وہ خبر ہے جس میں مضمون ایک متردد شخص کے سامنے تاکیدی کلمات کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ۔ اردو میں تاکیدی کلمات یہ ہیں: بیشک، ضرور،ہر گز, قسم‌،زنہار،
اصلا” ،بالیقیں وغیرہ

قرآن میں کئی مقامات پر رب کریم نے قسم یاد فرمائی ہے ، جیسے والضحی’ ، والیل اذا سجی’ وغیرہ۔جب ہم ان قسم والی آیتوں کی تفسیر پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جن حالات میں یہ آیتیں نازل ہوئی تھیں ، ان حالات کا تقاضہ تھا کہ کلمہء تاکید کا استعمال کیا جائے۔اس لیے قرآن نے کبھی سرکار کی رہگزر کی قسم کھائی تو کبھی چڑھتے دن کی اور کبھی رات کی جب وہ ڈھانپ دے۔ مثال کے طور پر: سورہء والضحی’ کا شان نزول یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ چند روز وحی نہیں آئی تو کفار نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کے رب نے چھوڑ دیا ہے ۔اس کے جواب میں رب کی آیت نازل ہوئی کہ تمہارے رب نے نہ تمھیں چھوڑا نہ تمہیں ناپسند کیا ۔چونکہ کفار نے چیلنج کیا تھا اس لیے اس جملے سے پہلے کلمہء تاکید آیا؛
والضحی’ والیل اذا سجی’.

قرآن میں کلمہء تاکید کے استعمال کی چند اور مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
انا‌ انزلنہ فی لیلۃالقدر۔۔۔۔۔بیشک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا

لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔۔۔۔بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا

ولسوف یعطیک ربک فترضی۔۔۔۔اور بے شک قریب ہے کہ تمھارا رب تمھیں اتنا ‌دےگا کہ تم راضی ہوجاوگے۔

ان سعیکم لشتی۔۔۔۔بیشک تمھاری کوشش مختلف ہے

قد افلح من ذکھا۔۔۔۔۔بیشک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا

لقد خلقنا الانسان فی کبد۔۔۔۔۔بےشک ہم نے آدمی کو مشقت میں رہتا پیدا کیا

ھل اتک حدیث الغاشیۃ۔۔۔۔۔بیشک تمھارے پاس اس مصیبت کی خبر آئی جو چھا جائےگی

انہ یعلم الجھر وما یخفی۔۔۔۔۔بیشک وہ جانتا ہے ہر کھلے اور چھپے کو

٣.خبر انکاری وہ خبر ہے جس میں مضمون منکر حکم کے سامنے ایک مؤکد وجوبی یا چند موکدات کے ساتھ پیش کیا جائے۔
علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کا مشہور و معروف شعر ہے:
تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے
اس شعر میں تاکید کے لیے دو بار رب کی قسم کھائی گئی کیونکہ اعلیٰ حضرت کے دور میں حیات نبی کے منکرین پیدا ہوگئے تھے اور اعلیٰ حضرت نے ان منکرین کو جواب نثر میں بھی دیااور نظم میں بھی ۔اس قسم کے جوابوں کی ایک مثال یہ ہے:

تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
مرے چشم عالم سے چھپ جانے والے

قرآن میں بلاغت کے اس قرینے کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

والسماء والطارق۔۔۔۔آسمان کی قسم اور رات کے آنے والے کی

والفجر ولیال عشر والشفع والوتر والیل اذا یسر۔۔۔۔۔اس صبح کی قسم اور دس راتوں کی اور جفت اور طاق کی اور رات کی جب چل دے

لا اقسم بھذا البلد وانت حل بھذاالبلد ۔۔۔۔۔۔۔مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرماہو

والشمس وضحہا والقمر اذا تلہا والنھار اذا جلھا۔۔۔۔۔سورج اور اس کی روشنی کی قسم اور چاند کی جب اس کے پیچھے آئے اور دن کی جب اسے چمکائے۔

والیل اذا یغشی والنھار اذا تجلی وما خلق الذکر والانثی۔۔۔۔۔اور رات کی قسم جب چھاءے اور دن کی جب چمکے اور اس کی جس نے نر و مادہ بنائے۔

والتین والزیتون وطور سینین وھذاالبلد الا مین۔۔۔۔۔انجیر کی قسم اور زیتون اور طور سینا اور اس امان والے شہر کی

والعصر ۔۔۔۔ اس زمانہ محبوب کی قسم

زیر تبصرہ کلام میں ڈاکٹر کوثر نے جو مضامین پیش کیے ہیں وہ سب اہل سنت کے عقائد پر مبنی ہیں ۔آج کے دور میں ان عقائد حقہ کے منکرین جابجا منڈلا رہے ہیں ۔اور کئی افراد ایسے ہیں جو ان معاملات میں تردد کے شکار ہیں ۔
کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج جسمانی کا انکار کرتا ہے تو کسی کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمت عالمیں ہونے پر اعتراض ہے۔کسی کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات پر تردد ہے تو کسی کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے بے مثل ہونے پر شک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ان مخالفین کو معقول جواب دینے کی غرض سے ڈاکٹر کوثر نے اپنے اشعار میں اہل سنت کے عقاید کلمہء تاکید ،خدا کی قسم کے ساتھ پیش کیے تاکہ متردد کے تردد کا خاتمہ ہو اور منکر کو کرارا جواب ملے۔جب شاعر خدا کی قسم کھا کر کوئی جملہ باندھتا ہے تو وہ زیادہ پر اثر ہوتا ہے اور اس میں مزید مضبوطی اور مقناطیسیت ہوتی ہے اور شاعر کے پاس اشعار میں پیش کیے دعووں کے دلائل بھی موجود رہتے ہیں ۔تبھی تو رب کی قسم کھائی جارہی ہے:
رب کی قسم کہ آپ سا کوءی نہیں ہے ۔رب کی قسم کہ آپ سے روشن جہاں ہے ۔رب کی قسم کہ آپ نور ہیں ۔رب کی قسم کہ آپ کا سایہ نہیں تھا۔رب کی قسم آپ حق کے اوصاف سے متصف ہیں ۔رب کی قسم آپ رحمت عالمیں ہیں ۔رب کی قسم آپ شافع محشر ہیں ۔

عکس شفق کے ایک نعتیہ کلام میں ڈاکٹر کوثر کا ایک شعر یوں ہے:

نہ رضا ہیں نہ تو حسان ہیں حضرت کوثر
پھر بھی دربار میں اشعار سنانے آئے

اس شعر سے یہ آشکارا ہوا کہ
نعت نگاری میں ڈاکٹر کوثر اعلی’ حضرت علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ سے متاثر ہیں ۔

علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے دیوان حدائق بخشش میں ایک کلام ایسا بھی ہے جس کی ردیف ہے : کی قسم ۔اس کلام کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

ترے خلق کو حق نے عظیم کیا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن و ادا کی قسم

ترا مسند ناز ہے عرش بریں
ترا محرم راز ہے روح امیں
تو ہی سرور ہر دوجہاں ہے شہا ترا مثل نہیں ہے خدا کی قسم

ان اشعار میں اعلیٰ حضرت نے جن مضامین کو پیش کیا ہے انہیں ثابت کرنے کے لیے آپ نے قلمی جہاد کیا تھا ۔کچھ افراد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جیسا بشر کہا اور آپ کی بے مثلیت پر تردد کا اظہار کیا ۔اس لیے ان افراد کے باطل عقائد کی تردید کرتے ہوئی کلمہء تاکید کے ساتھ اعلی’ حضرت نے کہا:
ترے خلق کو حق نے عظیم کیا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن و ادا کی قسم

ترا مسند ناز ہے عرش بریں
ترا محرم راز ہے روح امیں
تو ہی سرور ہر دوجہاں ہے شہا ترا مثل نہیں ہے خدا کی قسم

مندرجہ بالا تجزیے سے یہ بات روز روشن کی طرح‌ عیاں ہوگئی کہ ڈاکٹر کوثر کے کلاموں میں فصاحت بھی ہے بلاغت بھی ، صنعت طباق بھی ہے اور صنعت ترصیع بھی ، صنعت تلمیح بھی ہے اور صنعت اقتباس بھی ، ندرت خیالی بھی ہے اور الفاظ کے تراکیب کی عمدگی بھی ، علامہ رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی پیروی بھی ہے اور سنت الٰہیہ کا اظہاریہ بھی۔

ڈاکٹر کوثر کی غزلوں کا مطالعہ کیا۔ اشعار سے بہت متاثر ہوا۔آپ کی غزلوں میں روایت کی پاسداری بھی ہے اور جدت انگیزی بھی۔غم ذات کا بیان بھی ہے اور غم کائنات کا بھی۔رنگ تغزل بھی ہے اور نعت رنگ بھی۔رومانیت بھی ہے اور رنگ تصوف بھی ۔ رجاءیت کی تلقین بھی ہے اور یاس و امید بھی ۔تشبیہات و استعارات بھی ہیں اور علامات بھی ۔حسن معنویت بھی ہے اور تراکیب الفاظ کی عمدگی بھی ۔

رومانیت پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

غرور حسن کو دینے کیا شکست مگر
ادا پہ ان کی اک اک دل کو ہار آیا ہے

ملا ہے پھر سے دوانے کو عشق کا ساماں
کلی کلی پہ چمن کا نکھار آیا ہے

جو نہ ان سے بتا سکا کوثر
اب بھی دل کی وہ بات باقی ہے

کیا حسیں ہے ان کی یادوں کا سلسلہ بھی
لگتا ہے مجھ کو ایسا دل سے برات نکلی

اس کا خیال دل سے مرے ہے لگا ہوا
کوثر نصیب مجھ کو یہ گلزار ہے تو بس

لیکے دل پھر گئے ہیں وہ ہم سے
سلسلہ آج بھی یہ جاری ہے

اک حسن پسندیدہ کو محبوب کہا ہے
ہر برگ گل تازہ کو مکتوب کہا ہے

رخسار شفق زار کو معتوب کہا ہے
لالے کو ترے حسن کا مغلوب کہا ہے

تمھیں خود پتہ چلے گا کہ تمھارا حسن کیا ہے
ذرا آکے آءینے کے کبھی روبرو تو دیکھو

آپ نے اپنے کلاموں میں اصلاحی مضامین خوب قلم بند کیے ہیں ۔کہیں ذکر ہے عزم و استقلال کا تو کہیں تدابیر کا۔

نمونہ کے طور پر شعر/ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

کبھی منزل نہیں مل پائیگی آسانی سے
عزم کی راہ میں جب ایک بھی پتھر ہوگا

وہ منزل کا پہلے تعین تو کرلیں
سفر یوں خلاؤں کا اچھا نہیں ہے

بدل سکا نہیں کوئی جہاں میں ان کو آج تک
اصول جن کا ٹھوس ہے ارادہ استوار ہے۔

ملک میں پیار کے اخوت کے
آج قحط الرجال آیا ہے

محبت مروت اخوت صداقت
بہت خوشنما ہیں یہ کہنے پرانے

آپ نے اشعار کے ذریعہ غم کائنات کا بھی بیان کیا ہے اور اپنے دل کی بات دل کے باہر لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔نمونہ کے طور پر شعر / چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

دھوپ میں نفرتوں کی اے کوثر
پاس کس کے وفا شعاری ہے

رجاءیت اور امید پر چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

پھر بھی ٹوٹی نہ تری آس ترے در سے حبیب
لاکھ امید کے جھانسوں کو ہے باطل باندھا

خوابوں کو اندھیروں کے سمندر میں نہ پھینکو
سورج نیا پھوٹےگا تمناءے سحر سے

ایک تم سا رقیب کیا چھوٹا
میرے کتنے رقیب جاگے ہیں

ڈاکٹر کوثر کے مجموعہء کلام کو پڑھنے سے اس کا ادراک ہوتا ہے کہ آپ غزل کے روایتی انداز سے کنارہ کشی اختیار کرکے جدت کی راہ پر گامزن ہیں ۔اس انداز کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

جوہر فکر دھنک بن کے نکھر آئیگا
تم روایات غزل گوئی سے ہٹ کر دیکھو

جیسے ہی نشہ اترا شراب کہن کا آج
میں نے نئے نظام کا ساغر اٹھا لیا

ہر نئی بات زمانے کے قلم سے نکلی
تو کہ فرسودہ روایات کی تحریر نہ دیکھ

ڈاکٹر کوثر ایک عاشق رسول ہیں ۔آپ نعت عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دریا میں ڈوب کر نعتیں کہتے ہیں ۔صرف یہی نہیں بلکہ جب آپ غزل کہتے ہیں غزل کے اشعار میں بھی نعت کا رنگ آجاتا ہے۔
نعت رنگ سے مزین غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

نظر ادھر بھی کیجیے حضور پیار سے کبھی
تمھارا کوثر حقیر کب سے اشک بار ہے

مشتاق دید کے لیے لازم ہے تاب دید
بے وجہ کیوں کرے کوئی ہنگامہ طور کا

جب سے ان کی متاع محبت ملی
یوں سمجھنے لگا ہوں حکومت ملی

اس کو کیا ہو ضرورت کسی چیز کی
جس کو دنیا میں اک تیری الفت ملی

جب تصور میں در یار نظر آتا ہے
ہم وہیں اپنا سر عجز جھکا لیتے ہیں

ہے میر کارواں سے وابستگی ضروری
راہوں میں لٹ گئے وہ بچھڑے جو کارواں سے

جب بھی محفل میں ترا نام لیا جاتا ہے
دل مرا اور بھی بے تاب ہوا جاتا ہے

کوثر نہ چھوڑ ان کی محبتوں کا راستہ
آنکھیں اگر چہ تجھ کو دکھلا رہی ہیں دھوپ
یہ ایک علامتی شعر ہے۔ دھوپ سے مراد ہے گمراہی، رکاوٹ، کفر، بد عقیدگی، بد نیتی، بری صحبت وغیرہ۔

غرض یہ کہ ڈاکٹر کوثر کے کلاموں میں خوبیء علامات بھی ہے اور تشبیہات و استعارات کا حسن و جمال بھی۔
روایت کی رعنائی بھی اور جدت کا اجالا بھی ۔

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

خدا کا انعام اور عید سعید۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

خاتم النبیین ، حبیب خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ کے predecessor تھے روح اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے just پہلے جو نبی تشریف لائے تھے ان کا نام ہے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت نے بھی عید منائی تھی۔ لیکن عید کیوں منائی تھی؟ کچھ تو سبب ہوگا ۔کوئی خاص وجہ تو ہوگی۔ ضرور خوشی کے کچھ اسباب ہونگے۔کیونکہ عید کے معنی ہی خوشی کے ہیں ۔ عید ، عوائد سے مشتق ہے اور عوائد کے معنی ہیں منافع کے۔ گویا انسان عید اس وقت مناتا ہے جب اس کو کوئی اہم نفع ملے یا فائدہ ملے۔
تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کی امت کو کون سے فائدے ملے کہ انھوں نے عید منائی؟

کتابوں میں مذکور واقعہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواریوں نے اپنے رسول عیسیٰ علیہ السلام سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ خدا سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لیے آسمان سے خوان نعمت نازل فرمائے تاکہ ہماری بھوک بھی مٹ جاۓ اور یہ ثابت بھی ہوجائے کہ آپ نبوت اور رسالت کے معاملے میں سچے ہیں اور ہم بنی اسرائیل کے لوگوں کے سامنے دلیل کے ساتھ خدا کی توحید اور آپ کی رسالت کی تبلیغ کر سکیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خدا سے دعا فرمائی:
اے اللہ ، اے ہمارے رب ، ہم پر آسمان سے ایک خوان نعمت اتار جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید ہوجائے۔

قادر مطلق رب تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معجزہ عطا فرمایا کہ جب بھوک لگتی تو زمین کی طرف ہاتھ بڑھادیتے ، اپنے اور اپنے حواریوں کے لئے روٹی نکال لیتے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک بار ایسا بھی ہوا کہ ان حواریوں کے ساتھ پانچ ہزار نوجوان چلے اور سب نے عیسیٰ علیہ السلام سے خوان نعمت کے نزول کی درخواست کی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ان سب کی یہ خواہش بھی پوری ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر خوان نعمت اتارا ۔سب نے مل کر کھایا یہاں تک کہ سب شکم سیر ہوگیے۔ عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ دیکھ کر سب کے سب ایمان لے آئے۔ اس طرح عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے عید ہوگئی۔ گویا عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے لیے اللہ کی طرف سے خوان نعمت کا اترنا عید / خوشی کا سبب بنا ۔

آنے والا یکم شوال بھی امت محمدی کے لیے عید ہے۔سارے ممالک میں ، سارے بر اعظموں میں بلکہ ساری دنیا میں یکم شوال کو مسلمان عید منائیں گے، نئے کپڑے پہنینگے، عطر لگائینگے، عید گاہ میں اجتماعی طور پر دو رکعات کی نماز پڑھیں گے، گلے مل مل‌ کر ایک دوسرے کو مبارکبادیاں اور تہنیتیں پیش کرینگے۔آخر کون سی خوشی ہے مسلمانوں کے لیے؟ کیا آسمان سے کوئی خوان نعمت اتارا گیا ہے؟ کیا مسلمانوں کو بے بہا دولتیں مل گئی ہیں ؟ کیا مسلمانوں کو کسی جنگ میں کامیابی مل گئی ہے؟ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔اس روز ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔پھر بھی مسلمان عید کیوں منارہے ہیں ؟ اس کا جواب جاننے کے لیے آئیے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کرتے ہیں ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کو جس نے ماہ رمضان میں روزے رکھے ، عید الفطر کی رات میں پورا پورا اجر عطا فرما دیتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ شب عید الفطر کا نام شب جائزہ / انعام کی رات رکھا گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث مروی ہے کہ حضور نے فرمایا جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے اور لوگ عید گاہ کی طرف جاتے ہیں تو حق تعالیٰ ان پر توجہ فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے اے میرے بندو ! تم نے میرے لیے روزے رکھے ، میرے لیے نمازیں پڑھیں اب تم اپنے گھروں کو اس حال میں جاؤ کہ تم بخش دیے گئے ہو۔

تو اب سوچیے ایک مسلمان کے لئے اس بڑھ کر مسرت و شادمانی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ روزے رکھنے کا پورا اجر عطا فرمائے،رب کریم مسلمانوں کے گناہوں کو بخش دے، بخشش کا پروانہ عطا فرمائے۔مسلمانون کے لیے سب سے بڑی نعمت تو یہی ہے کہ رب خود فرمائے کہ اے میرے بندو ! جاؤ تمھاری بخشش ہوگئی‌ ۔

مسلمانوں کے لیے آسمان سے کوئی خوان نعمت نہیں اترا بلکہ اللہ کی طرف بخشش کا مژدہء جانفزا آیا۔
مسلمانوں کے لیے کوئی materialistic چیز نہیں آئی، بلکہ روحانی سکون کا سامان نعمت لازوال بن کر آیا ۔کسی اور امت کے لیے خوان نعمت ایک بار آیا یا چند بار آیا ہوگا ، لیکن امت محمدی کے لیے شب جائزہ اور عید سعید کا دن ہر سال آتا ہے اور انعام بخشش گناہ لیکے آتا ہے۔اسی لیے اللہ فرماتا ہے:
فبای آلاء ربکما تکذبان
تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاوگے؟
اس سے یہ روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیکر رحمت ہیں اور اللہ تعالیٰ بہت بڑا رحمان و رحیم‌ ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے ایک جلیل القدر پیغمبر تشریف لائے تھے جن کا نام ہے کلیم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام۔آپ کا مقابلہ فرعون اور اس کے جادوگر کے ساتھ تھا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو مرعوب کرنے کے لیے فرعون کے ٧٣ ساحروں نے اپنی لاٹھیوں کو بظاھر سانپ بنا دیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ جادو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کی قوم مرعوب ہوجائے اور راہ حق سے بھٹک جائے ، موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنی لاٹھی زمین پر پھینک دی تو لاٹھی کی جگہ ایک اژدہا نمودار ہوا اور اس نے سارے سانپوں کو یکبارگی نگل لیا۔یہ دیکھ کر سارے جادوگر ایمان لے آئے۔موسی’ علیہ السلام کے سانپ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر فرعون کی قوم‌ میں بھگدڑ مچ گئی اور اس بھگدڑ کے نتیجے میں فرعون کی قوم کے پچاس ہزار آدمی مر گیے۔گویا حق کی جیت ہوئی اور باطل کو شکست فاش کا منھ دیکھنا پڑا ۔جس دن‌ یہ واقعہ رونما ہوا وہ دن امت موسیٰ کے لیے یوم زینت ہے، یوم عید ہے ۔

امت محمدی نے ماہ رمضان میں اپنے نفس کا قتل عام کیا ہے۔نفس امارہ کو مار مار کر یہ کہا ہے یا ایھا الذین ء آمنوا کتب علیکم الصیام ، رب کے حکم کے مطابق ، صرف رب کی رضا کے لیے ہمیں روزہ رکھنا ہے ، بھوکا بھی رہنا ہے اور پیاسا بھی رہنا ہے ۔ چاہے دھوپ کی تمازت پچاس یا ساٹھ ڈگری کیوں نہ ہوجائے ہمیں رب کی اطاعت میں صوم کی پابندی کرنی ہے۔ ہمیں نفس کو مار کر، نفس کو شکست فاش دےکر فتح و کامرانی سے سرفراز ہونا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماہ صیام میں مسلمانوں کے ایمان میں تازگی پیدا ہوجاتی ہے۔یوم عید الفطر میں باغ ایمان کو شگفتگی حاصل ہوتی ہے۔کیا ایسے major event میں مسلمان عید نہ منائیں ؟ سرور و انبساط سے سرشار نہ ہوں؟ ایک دوسرے کو مبارک بادیاں پیش نہ کریں ؟ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے عید گاہ میں اجتماعی طور پر دو رکعت نماز نہ پڑھیں ؟ ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ نہ کریں ؟

بیشک۔ رب کے انھی انعامات کی خوشی میں عید کے دن ہم عمدہ اور اچھے لباس پہنیں ، عطر سے خود کو معطر کریں ، عید گاہ میں دو رکعت نماز پڑھیں، خطبہ سنیں، نماز سے فارغ ہونے کے بعد ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ کریں ، ایک دوسرے کو تہنیتیں پیش کریں تاکہ عید مبارک کے کلمے سے فضا گونج اٹھے ۔ نماز سے فارغ ہوکر اجتماعی طور پر دعا مانگیں ، خاص طور پر ملک عزیز میں امن کی بحالی اور پوری دنیا میں مسلم قوم کے جان و مال و ایمان کی حفاظت کے لئے اپنے رب سے دعا کریں ۔خاص طور پر ان مواقع پر اللہ کسی دعا اور کسی حاجت کو رد نہیں فرماتا۔ ان شا ء اللہ آپ اپنے گھروں کو مغفور ہوکر لوٹینگے اور خود کو بامراد اور کامیاب و کامران پائینگے۔۔

حامل نور راحت ہے عید سعید
رب عالم کی نعمت ہے عید سعید
“عینی “اعلان کرتے ہیں ہر سو ملک
یوم انعام و رحمت ہے عید سعید
(سید عینی)

29 اپریل: سید خادم رسول عینی کا یومِ ولادت،از:_ڈاکٹر شفیق جے ایچ

29 اپریل: سید خادم رسول عینی کا یومِ ولادت 💐💐💐

سید خادم رسول عینی کی ولادت ٢٩ اپریل ١٩٦٨ میں بھدرک اڈیشا میں ہوئی۔ آپ امیر مینائی کے سلسلے کے مشہور شاعر علامہ سید اولاد رسول قدسی کے شاگرد رشید ہیں ۔آپ نعت ، غزل، منقبت، سلام، سہرا ، نظم وغیرہ اصناف میں شاعری کرتے ہیں ۔آپ کا ایک مجموعۂ نعتیہ کلام بنام “رحمت و نور کی برکھا” شائع ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ آپ کی ترتیب شدہ کتابیں نظر عمیق اور مناقب مفتیء اعظم اڑیسہ بھی شائع ہوئی ہیں ۔آپ کے کلام ہند اور بیرون ہند کے مختلف اخبار و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ آپ ہند اور بیرون ہند کے مختلف مشاعروں میں شرکت کر کے مقبول خاص و عام ہوئے ہیں ۔آپ نے اردو زبان کے علاوہ انگریزی زبان میں بھی شاعری خوب کی ہے۔پیشے کے لحاظ سے آپ بینکر ہیں اور یونین بینک آف انڈیا کے چیف مینیجر کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں ۔کٹک ، اڑیسہ میں سعید رحمانی کی ادارت میں شائع ہونے والا سہ ماہی ادبی محاذ کے سرپرست بھی ہیں۔

آپ کے کلام میں سے چند غزلیں نذر قارئین ہیں :

تو پژمردہ پیڑوں کو یوں باثمر رکھ
توانائی دے شاخ کو بااثر رکھ

نہ کر فخر اجداد کے تو شجر پر
تو شاخوں پہ خود کاوشوں کا ثمر رکھ

ہے انکار کرنا بہت سہل و آساں
تو اقرار کا حوصلہ اے بشر رکھ

زمینی حقائق رہیں تیرے آگے
نظر اپنی چاہے سدا چرخ پر رکھ

نہ ہو جائے مانند آتش سراپا
مرے دل کی اے جان جاناں خبر رکھ

کر احقاق حق اور ابطال باطل
یہ جذبہ ہر ایک موڑ پر بے خطر رکھ

سبھی کی محبت سماجائے دل میں
تو اس میں ہمیشہ محبت کا گھر رکھ

گہر خود ہی آجائےگا پاس عینی ؔ
نہایت پہ منزل کی گہری نظر رکھ

۔۔۔۔۔۔۔۔

درد و غم سے وہ ہ بشر آزاد ہے
قلب میں جس کے خدا کی یاد ہے

حکمران وقت سب خاموش ہیں
بے اثر مظلوم کی فریاد ہے

حق پرستو ! رب کی نصرت آئیگی
جبر باطل کی بھی اک میعاد ہے

آگ نفرت کی بجھے بھی کس طرح
تلخیوں کا اک جہاں آباد ہے

دل ہے چھلنی اس کا سنگ بغض سے
جس کے ہونٹوں پر مبارکباد ہے

دیکھیے موجد کی آنکھوں سے ذرا
خوبصورت کس قدر ایجاد ہے

غالب آئے غم کا لشکر کس طرح
دل میں یاد یار جب آباد ہے

عینی ؔ رکھنا‌ رب پہ ہر دم‌ اعتماد
ورنہ تیری زندگی ناشاد ہے

۔۔۔۔۔۔۔

نخل نخوت کو ہمیشہ بے ثمر رکھا گیا
صبر کے ہر اک شجر کو بارور رکھا گیا

سلسلہ بڑھتا گیا ان کے ستم کا اس قدر
میرے ٹوٹے دل کے آنگن میں حجر رکھا گیا

لگ رہا تھا بھیڑ میں وہ ضوفشاں کچھ اس طرح
درمیان نجم جیسے اک قمر رکھا گیا

شک کی عینک جب اتاروگے تو مانوگے ضرور
منصب عالی پہ مجھ کو جانچ کر رکھا گیا

درد و غم کی آگ اسی سے ایک دن بجھ جائیگی
ان کے سوز عشق میں ایسا اثر رکھا گی

بحر سے دوری ھے مجھ کو کیسے سیرابی ملے
زیست میں میری سراب بے اثر رکھا گیا

روز و شب چوبیس گھنٹے کم پڑے اپنے لیے
اس قدر کیوں وقت عینی ؔ مختصر رکھا گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔
صحن دل کے سبھی پھولوں کو جواں رہنے دو
پر شباب اپنے چمن کا یہ سماں رہنے دو

پھر کبھی سر نہ اٹھا پائیں جہاں کے ظالم
سینہء ظلم پہ سیدھا سا نشاں رہنے دو

ہو نہ جائے کبھی احساس کا بلبل غمگیں
اس کو رکھو نہ نہاں بلکہ عیاں رہنے دو

تم کو رکھنا ہے تقدس کی فضا گر قائم
دل کی مسجد‌ میں محبت کی اذاں رہنے دو

آب عرفاں سے رہیں حق کے مسافر سیراب
اپنے اطراف ہدایت کا کنواں رہنے دو

دل کرو فتح تم‌ اخلاص کی تلواروں سے
نفرت و بغض کے تم تیغ و سناں رہنے دو

درد دروازہء دل پر نہ دے دستک عینی ؔ
مدح محبوب سدا ورد زباں رہنے دو
۔۔۔۔۔۔

دیکھو جہاں بھی ، ایک ہی خاور ہے ہرطرف
تاروں کے قافلے کا یہ رہبر ہے ہرطرف

بھر آئی دیکھ دیکھ کے امن و اماں کی آنکھ
انسانیت کے خون کا منظر ہے ہرطرف

تنہا لڑیں گے خنجر خلق و وفا سے ہم
گرچہ جہاں میں بغض کا لشکر ہے ہر طرف

ہے خوف کیسے زیست کی رہ پائے گی فضا
سانپوں کا سانپ دشت میں اجگر ہے ہرطرف

خالی ملیں گے سیپ سمندر کی گود میں
مت سوچیے کہ سیپ میں گوہر ہے ہر طرف

دریا کے ذہن میں یہ سسکتا سوال ہے
کیوں اس قدر ‌خموش سمندر ہے ہر طرف

دنیا میں اک فقیر سے ملتا گیا قرار
عینی ؔ اگرچہ شور سکندر ہے ہر

پیش کش:

ڈاکٹر شفیق جے ایچ