امام اہل سنّت قاطع بدعات و منکرات فقیہ اسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں ۔آپ کی عبقری شخصیت اور غیر معمولی شہرت کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج ساری دُنیا میں آپ کے علوم و فنون پرتحقیق و ریسرچ کر کے ڈاکٹریٹ (Ph.D.) اور ایم ۔ فل (M.Phil.) کی ڈگریاں حاصل کی جارہی ہیں ۔ بلا مبالغہ امام اہل سنّت نے تقریباً تمام علوم و فنون پر تصانیف بہ طور یادگار چھوڑی ہیں ۔ کچھ علوم و فنون کتابی شکل میں محفوظ ہو گئے ۔ کچھ علوم و فنون شائع نہ ہو سکے اور کچھ علوم و فنون اپنوں کی بے اعتنائی اور لاپرواہی سے دیمک کی نذر ہو کر ضائع ہو گئے ۔ امام اہل سنّت نے قرآن ، تفسیر ، حدیث ، فقہ پر جو کام کیا ہے اس کا لوہا مخالفین نے بھی مانا ہے ، اس کے علاوہ درجنوں علوم و فنون پر آپ کی بیش تر تصانیف یادگار ہیں ۔
اللہ رب العزت نے اپنے حبیب سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے میں اعلیٰ حضرت کو ایک ایسا فن عطا کیا تھا جس کی نظیر نہیں ملتی اور وہ فن ہے کسی مسئلہ کو ثابت کرنے کے لیے علماے متقدمین و متاخرین کی اتباع کرتے ہوئے اس کثرت سے حدیث و فقہ سے دلائل قائم کرنا کہ مخالفین کو اعتراض کی گنجائش ہی نہ رہے۔ یوں معلوم ہوتا کہ امام اہل سنّت صرف کاغذ پر لکھے ہوئے سوالات کو مد نظر رکھ کر جواب نہیں دیتے تھے بلکہ سائل کے دل کی گہرائی کو سمجھ کر جواب دیتے کہ سائل کس مقصد سے سوال پوچھ رہا ہے۔ اور اس کے ذہن میںکیا کیا اشکال وارد ہیں۔ اور جواب دیتے وقت اس بات کو بھی مد نظر رکھتے کہ جوابات پر کیا کیا اعتراضات ہو سکتے ہیں ، ان کا بھی شافی و وافی جواب عنایت فرماتے ۔ امام اہل سنّت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے یہ فن روحانی طور پر حاصل کیا تھا ۔ اسے ہی علم لدنی سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
بے مثل محدث ، اعلیٰ پایہ کے فقیہ ، استاذ المجتہدین حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق حضرت امام حافظ الدین کردری صاحب فتاویٰ بزازیہ(متوفی ۸۲۷ھ)علیہ الرحمہ اپنی تصنیف ’’مقامات امام اعظم ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ: ’’ امام اعظم ابو حنیفہ ولایت کی نظر سے سائل کے قلب پر روشنی ڈالتے کہ یہ کس مقصد سے سوال پوچھ رہا ہے۔ اور پھر اس کو اطمینان بخش جواب عنایت فرماتے ۔‘‘ امام اہل سنّت کی تصانیف خصوصاً فتاویٰ رضویہ کے مطالعہ سے یہ بات آفتاب کی طرح روشن ہوجاتی ہے کہ آپ مخالفین کو دنداں شکن جواب دینے کے لیے کس طرح دلائل کے انبار لگاتے چلے جاتے ہیں ۔ اس کی چند مثالیںقارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔
(۱) علم غیب مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جب سرور کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے علم شریف کو ثابت کرنے کے لیے ترمذی شریف کی یہ حدیث بیان کی کہ ’’ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ : اللہ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا اور اس کی ٹھنڈک مَیں نے اپنے سینے میں محسوس کی …پس جان لیا مَیں نے وہ سب کچھ جو زمین و آسمان میں تھا …‘‘(سبحان اللہ )تو مخالفین کے خیمہ میں انتشار برپا ہو گیا اور مخالفین اس حدیث کی طرح طرح سے تاویلیں کرنے لگے اور اعلیٰ حضرت سے مزید حوالے طلب کرنے لگے ، امام اہل سنّت مجد د اسلام اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ا س کی سند یوں بیان کرتے ہیں :
l رواہ امام الائمۃ ابو حنیفۃ والام احمد و عبدالرزاق فی مصنفہ والترمذی و الطبرانی عن ابن عباس۔
l و احمد و الطبرانی و ابن مردویہ عن معاذ بن جبل۔
l وابن خزیمۃ والدارمی والبغوی وابن السکن وابونعیم و ابن بسطۃ عن عبدالرحمٰن بن عایش و الطبرانی عنہ عن صحابی۔
l والبزاز عن ابن عمر و عن ثوبان۔
l والطبرانی عن ابی امامۃ۔
l وابن قانع عن ابی عبیدۃ بن الجراح۔
l والدار قطنی و ابوبکر النیسا پوری فی الزیادات عن انس۔
l وابو الفرج تعلیقا عن ابی ہریرۃ۔
l وابن ابی شیبۃ مرسلا عن عبدالرحمٰن بن سابط۔ (رضی اﷲ تعالٰی عنہم )۔
آخر میں فرماتے ہیں کہ ہم نے اس حدیث کے طرق کی تفصیلات اور کلمات کا اختلاف اپنی بابرکت کتاب سلطنۃ المصطفیٰ فی ملکوت کل الوریٰ میں بیان کیا ہے ۔ قلم برداشتہ کسی حدیث کے اتنے مآخذ کا بیان کردینا معمولی بات نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم، ج ۱، ص ۱۰ )
(۲) سفر وحضر میں دو نمازوں کو ملا کر پڑھنا کیسا ہے ؟
۱۳۱۳ ھ میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے سوال کیاگیا کہ سفر وحضر میں دو نمازوں کو ملا کر پڑھ لینا جائزہے یا نہیں ؟ چوں کہ غیر مقلدین اس کے قائل اور عامل ہیں نیز میاں نذیر حسین صاحب (دہلوی ) نے اپنی کتاب ’’معیار حق ‘‘ میں بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ اس مسئلہ پر بحث کی اور حنفی مسلک کو احادیث کے برخلاف قرار دیا تھا ، لہٰذاا علیٰ حضرت محدث بریلوی نے محدث کہلانے والے میاں صاحب کے دلائل کا جواب دینا ضروری سمجھا اور ایسا عالمانہ ومجددانہ رد کیا کہ میاں صاحب اور ان کے تلامذہ سے آج تک کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ ان روشن وواضح دلائل کا جواب دے ۔ فتاویٰ رضویہ جلد دوم میں ص ۲۰۷؍ سے ص ۳۰۵ ؍ تک ۹۸ ؍صفحات پر مشتمل اور فتاویٰ رضویہ مترجم جلد ۵؍ میںص ۱۵۹ سے ص ۳۱۳؍ تک ۱۵۴؍ صفحات پر مشتمل یہ مبارک فتویٰ ’’ حاجز البحرین الواقی عن جمع الصلاتین ‘‘کے نام سے موجود ہے جو امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی حدیث دانی کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ امام احمد رضا نے میاں نذیر حسین دہلوی کے اس فتویٰ پر سخت تنقید کی اور ان کے ایک ایک شبہے کا جواب اتنے مضبوط حوالوں سے دیا ہے کہ مخالفین حدیث دانی کے دعوے کے باوجود آج تک اس کا جواب دینے کی ہمت نہ کر سکے ۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں :
اللہ عزو جل نے اپنے نبی کریم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم کے ارشادات سے نماز فرض کا ایک خاص وقت جداگانہ مقرر فرمایا ہے کہ نہ اس سے پہلے نماز کی صحت نہ اس کے بعد تاخیر کی اجازت، ظہر ین عرفہ و عشائین مزدلفہ کے سوادو نمازوں کا قصداً ایک وقت میں جمع کرنا سفراً حضراً ہرگز کسی طرح جائز نہیں۔ قرآن عظیم و احادیث صحاح سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کی ممانعت پر شاہد عدل ہیں۔ یہی مذہب ہے حضرت ناطق بالحق والصواب موافق الراے بالوحی والکتاب امیر المومنین عمر فاروق اعظم و حضرت سیّدنا سعد بن ابی وقاص احد العشرۃ المبشرۃ و حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود من اجل فقہاء الصحابۃ البررۃ و حضرت سیّدنا و ابن سیّدنا عبداللہ بن عمر فاروق و حضرت سیّد تناامّ المو منین صدیقہ بنت الصدیق اعاظم صحابۂ کرام و خلیفہ راشد امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز و امام سالم بن عبداللہ بن عمر و امام علقمہ بن قیس و امام اسود بن یزید نخعی و امام حسن بصری و امام ابن سیرین و امام ابراہیم نخعی و امام مکحول شامی و امام جابر بن زید و امام عمرو بن دینار و امام حماد بن ابی سلیمان و امام اجل ابو حنیفہ اجلۂ ائمہ تابعین و امام سفیان ثوری و امام لیث بن سعد و امام قاضی الشرق و الغرب ابو یوسف و امام ابو عبداللہ محمد الشیبانی و امام زفر بن الہذیل و امام حسن بن زیاد و امام دار الہجرۃ عالم المدینۃ مالک بن انس فی روایۃ ابن قاسم اکابر تبع تابعین و امام عبدالرحمن بن قاسم عتقی تلمیذ امام مالک و امام عیسیٰ بن ابان و امام ابو جعفر احمد بن سلامہ مصری و غیرہم ائمۂ دین کا ، رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم ، ج ۵، ص ۱۶۰ )
یہاں تو امام اہل سنّت علیہ الرحمہ نے صحابۂ کرام ، تابعین و تبع تابعین ، اکابر تبع تابعین اور ائمۂ دین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے قول و فعل کو بیان کیا ہے ۔ تخریج حدیث کے نمونے ملاحظہ فرمائیں ۔چند صفحات کے بعد فرماتے ہیں :
حضور پر نور سیّد یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے جمع صوری کا ثبوت اصلاً محل کلام نہیں اور وہی مذہب مہذب ائمۂ حنفیہ ہے اس میں صاف صریح جلیل وصحیح احادیث مروی مگر ملاّ جی تو انکارِ آفتاب کے عادی ، بکمال شوخ چشمی بے نقط سُنادی کہ کوئی حدیث صحیح ایسی نہیں جس سے ثابت ہو کہ آں حضرت جمع صوری سفر میں کیا کرتے تھے بہت اچھا ذرا نگاہ رو بہ رو۔
حدیث : جلیل وعظیم حدیث سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہ اس جناب سے مشہور و مستفیض ہے جسے امام بخاری و ابودائود و نسائی نے اپنی صحاح اور امام عیسیٰ بن ابان نے کتاب الحجج علیٰ اہلِ مدینہ اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثار اور ذہلی نے زہریات اور اسمٰعیلی نے مستخرج صحیح بخاری میں بطرق عدیدہ کثیرہ روایت کیا :
فالبخاری والاسمعیلی والذہلی من طریق اللیث بن سعد عن یونس عن الزہری ، والنسائی من طریقی یزید بن زریع و النضربن شمیل عن کثیر بن قارونداکلاہماعن سالم۔ والنسائی عن قتیبۃ والطحاوی عن ابی عامر العقدی والفقیہ فی الحجج ثلثتہم عن العطاف، وابوداؤد عن فضیل بن غزوان، وعن عبداﷲ بن العلاء، وایضاھو عن عیسٰی والنسائی عن الولیدوالطحاوی عن بشر بن بکر، ھؤلاء الثلثۃ عن ابن جابر، والطحاوی عن اسامۃ بن زید، خمستہم اعنی العطاف وفضیلا و ابن العلاء و جابر واسامۃ عن نافع ۔ و ابوداؤد عن عبداﷲ بن واقد۔ والطحاوی عن اسمعیل بن عبدالرحمٰن۔ اربعتھم عن عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما۔
بخاری ،اسمٰعیلی او رذہلی نے لیث ابن سعد کے طریقے سے یونس سے ، انھوں نے زہری سے روایت کی ہے ۔ اور نسائی نے یزید ابن زریع اور نضر ابن شمیل کے دو طریقوں سے کثیر ابن قاروندا سے روایت کی ہے ۔ دونوں (زہری اورکثیر ) سالم سے راوی ہیں ۔ نسائی نے قتیبہ سے، طحاوی نے ابوعامرعقدی سے اور فقیہ نے حجج میں یہ تینوں عطاف سے روایت کرتے ہیں ، اور ابودائود نے فضیل ابن غزوان سے اور عبداللہ ابن علا سے روایت کی ہے اور ابودائود نے ہی عیسیٰ سے ، نسائی نے ولید سے ، طحاوی نے بشر ابن بکر سے ، یہ تینوں (عیسیٰ ، ولید ، بشر ) جابر سے روایت کرتے ہیں ۔ اور طحاوی نے اسامہ ابن زید سے روایت کی ہے ۔ یہ پانچوں یعنی عطاف ، فضیل ، عبداللہ، جابر اور اسامہ نافع سے راوی ہیں ، نیز ابودائود عبداللہ ابن واقد سے راوی ہیں اور طحاوی اسمٰعیل ابن عبدالرحمن سے راوی ہیں ۔ چاروں (سالم ، نافع ، عبداللہ ابن واقد ، اسمٰعیل ) عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے (ناقل ہیں ) (ت) (فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ۵ ، ص ۱۶۷ )
اللہ اکبر … علم و فن کا امام … اُمنڈتے ہوئے سیلاب کی طرح دلائل پر دلائل قائم کرتاچلا جارہا ہے جس سے مخالفین و حاسدین پشیماں و پریشاںنظر آتے ہیں۔ ان کے خود ساختہ نظریات کی دھجیاں بکھرتی چلی جارہی ہیں …امام اہل سنّت کاایک حوالہ اور ملاحظہ فرمایے … آگے چند صفحات کے بعد فرماتے ہیں :
الحمدللہ جب کہ احادیث جمع صور ی کی صحت مہر نیم روز ماہ نیم ماہ کی طرح روشن ہو گئی تو اب جس قدر حدیثوں میں مطلق جمع بین الصلاتین وارد ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ظہر و عصر یا مغرب و عشا کو جمع فرمایا عصر و عشا سے ملا نے کو ظہر و مغرب میں تاخیر فرمائی وا مثال ذلک کسی میں مخالف کے لیے اصلاً حجت نہ رہی سب اسی جمع صوری پر محمول ہوں گی او ر استدلال مخالف احتمالِ موافق سے مطرود ومخذول مثل حدیث بخاری و مسلم ودارمی و نسائی و طحاوی و بیہقی بطریق سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم و مسلم و مالک و نسائی وطحاوی بطریق نافع :
عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما، کان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یجمع بین المغرب والعشاء اذا جدبہ السیر ، وفی لفظ مسلم والنسائی من طریق سالم ، رأیت رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اذااعجلہ السیر فی السفریؤخر صلاۃ المغرب حتی یجمع بینھا وبین صلاۃ العشاء ۔
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب چلنے میں تیزی ہوتی تھی تو آپ مغرب و عشا کو جمع کرتے تھے اور مسلم کی ایک روایت اور نسائی کی بطریقہ سالم روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر کے دوران چلنے میں جلدی ہوتی تو مغرب کی نماز کو اتنا مؤخر کردیتے تھے کہ عشا کے ساتھ ملا لیتے تھے ۔ (ت)
یہ معنی مجمل بروایات سالم و نافع مستفیض ہیں ۔
فرواہ البخاری عن ابی الیمان ، والنسائی عن بقیۃ و عثمٰن، کلھم عن شعیب بن ابی حمزہ ۔ ومسلم عن ابن وھب عن یونس۔ والبخاری عن علی بن المدینی، ومسلم عن یحییٰ بن یحییٰ وقتیبۃ بن سعید وابی بکربن ابی شیبۃ وعمر والناقد، والدارمی عن محمد بن یوسف، والنسائی عن محمد بن منصور، والطحاوی عن الحمانی، ثمانیتھم عن سفیٰن بن عیینۃ، ثلثتھم اعنی شعیبا ویونس وسفین عن الزہری عن سالم، ومسلم عن یحییٰ بن یحییٰ، والنسائی عن قتیبۃ، والطحاوی عن ابن وھب، کلھم عن مالک، والنسائی بطریق عبدالرزاق ثنا معمر عن موسیٰ بن عقبۃ، والطحاوی عن لیث، والبیھقی فی الخلافیات من طریق یزید بن ھارون عن یحییٰ بن سعید، اربعتھم عن نافع ، کلاھما عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما ۔
چناں چہ بخاری ابوالیمان سے ، نسائی بقیہ اورعثمان سے ، یہ سب ( ابوالیمان ، بقیہ ، عثمان ) شعیب ابن ابی حمزہ سے روایت کرتے ہیں ۔ اور مسلم ، ابن وہب سے ، وہ یونس سے روایت کرتے ہیں۔ اور بخاری ، علی ابن مدینی سے۔ اور مسلم ، یحییٰ ابن یحییٰ ، قتیبہ ابن سعید ، ابوبکر ابن ابی شیبہ اور عمر والناقد سے ۔ اور دارمی ، محمد ابن یوسف سے ، اور نسائی محمد ابن منصور سے ، اور طحاوی ، حمانی سے ۔ یہ آٹھوں ( یعنی علی ، یحییٰ ، قتیبہ ، ابوبکر ، عمرو ، ابن یوسف ، ابن منصور ،حمانی ) سفیان ابن عیینہ سے روایت کرتے ہیں ۔ پھر تینوں (سلسلوں کے تین آخری راوی ) یعنی شعیب ، یونس اور سفیان ، زہری کے واسطے سے ، سالم سے راوی ہیں ۔ اور مسلم یحییٰ ابن یحییٰ سے ۔ اور نسائی قتیبہ سے ۔ اور طحاوی ابن وہب سے ۔ یہ تینوں مالک سے روایت کرتے ہیں ۔ اور نسائی بطریقہ عبدالرزاق ، وہ معمر سے ، وہ موسیٰ ابن عقبہ سے روایت کرتے ہیں ۔اور طحاوی لیث سے روایت کرتے ہیں۔ اور بیہقی خلافیات میں بطریقہ یزید ابن ہارون ، یحییٰ ابن سعید سے روایت کرتے ہیں ۔ یہ چاروں (آخری راوی یعنی مالک ، موسیٰ ، لیث ، یحییٰ ) نافع سے راوی ہیں ۔ (سالم اور نافع) دونوں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے حدیث بیان کرتے ہیں ۔ (ت)
(فتاویٰ رضویہ مترجم، ج ۵، ص ۱۹۶۔۱۹۷)
جوتیاں پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
۴؍ محرم الحرام ۱۳۲۳ ھ کو مارہرہ مطہرہ سے جناب چودھری محمد طیب صاحب نے ایک سوال ارسال کیا کہ جوتیاں پہن کر نما زپڑھنا کیسا ہے ۔ سوال کی نوعیت سے ہی سائل کے علم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اس کا مختصر مگر مدلل جواب عنایت فرمایا اس کی ایک جھلک مع سوال و جواب ملاحظہ فرمائیں ۔
مسئلہ : جوتیوں سمیت نماز پڑھنا ہم سے آدم ابن ابی ایاس نے بیان کیا کہا ہم سے شعبہ نے کہاہم کو ابو سلمہ سعید بن یزید ازدی نے خبر دی کہا مَیں نے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جوتیاں پہنے پہنے نماز پڑھتے تھے ؟ انھو ں نے کہا :
حدثنا اٰدم ابن ابی ایاس قال انا ابو مسلمۃ سعید بن یزید الازدی قال سألت انس بن مالک اکان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یصلی فی نعلیہ قال نعم (حاشیہ)
آدم ابن ابی ایاس بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابو مسلمہ سعیدبن یزید الازدی نے بتایا کہ مَیں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نعلین میں نماز اد ا کی ہے ؟انھوں نے فرمایا ،ہاں (حاشیہ ) ۔ (ت)
ابن بطال نے کہا جب جوتے پاک ہوں تو اُن میں نما زپڑھنا جائز ہے ، مَیں کہتا ہوں مستحب ہے کیوں کہ ابودائود اور حاکم کی حدیث میں ہے کہ یہودیوں کا خلاف کرو ، وہ جوتوں اور موزوں میں نمازنہیں پڑھتے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز میں جوتے اتارنا مکروہ جانتے تھے اور ابو عمرو شیبانی کوئی نماز میں جوتا اتارے تو اُس کو مارتے تھے اور ابراہیم سے جو امام ابو حنیفہ کے استاذ ہیں ایسا ہی منقول ہے ۔ شوکانی نے کہا صحیح او رقوی مذہب یہی ہے کہ جوتیاں پہن کر نما زپڑھنا مستحب ہے اور جوتوں میں اگر نجاست ہو تو وہ زمین پر رگڑدینے سے پاک ہوجاتے ہیں ۔ خواہ وہ کسی قسم کی نجاست ہو ، تریا خشک ، جرم والا یا بے جرم ۔
الجواب :
اللھم ھدایۃ الحق والصواب اقول وباﷲ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق ۔
(اے اللہ ! حق اور صواب کی ہدایت دے اقول: اور اللہ ہی توفیق دینے والا اور وہ ہے جو تحقیق کی منزل پر پہنچانے والا ۔ ت ) سخت اور تنگ پنجے کا جوتا جو سجدہ میں انگلیوں کا پیٹ زمین پر بچھانے اور اس پر اعتماد کرنے زور دینے سے مانع ہو ایسا جوتا پہن کر نماز پڑھنی صرف کراہت و اساء ت درکنار مذہب مشہور و مفتی بہ کی رو سے راساً مفسد نماز ہے کہ جب پائوں کی انگلی پر اعتماد نہ ہو ا سجدہ نہ ہوا اور جب سجدہ نہ ہوا نماز نہ ہوئی ، امام ابوبکر جصاص وامام کرخی و امام قدوری و امام برہان الدین صاحب ہدایہ وغیرہم اجلہ ائمہ نے اس کی تصریح فرمائی۔ محیط و خلاصہ و بزازیہ و کافی و فتح القدیر و سراج و کفایہ و مجتبیٰ و شرح المجمع للمصنف و منیہ و غنیہ شرح منیہ و فیض المولی الکریم و جوہرۂ نیرہ و نور الایضاح ومراقی الفلاح و در منتقی و در مختار و عالم گیر یہ و فتح المعین علامہ ابو السعود ازہری و حواشی علامہ نوح آفندی وغیرہا کتب معتمدہ میں اسی پر جزم فرمایا اسی پر فتویٰ ہے ۔ جامع الرموز میں قنیہ سے نقل کیا یہی صحیح ہے ، رد المحتار میں لکھا کتب مذہب میں یہی مشہور ہے ، در مختار میں ہے :
فیہ ( ای فی شرح الملتقی ) یفترض وضع اصابع القدم ولوواحدۃ نحوالقبلۃ والا لم تجزو الناس عنہ غافلون وشرط طہارۃ المکان وان یجد حجم الارض والناس عنہ غافلون اھ ملخصاً ۔
اس ( شراح الملتقی) میں ہے قدم کی انگلیوں کا زمین پر جانبِ قبلہ رکھنا فرض ہے خواہ وہ ایک ہی کیوں نہ ہو ورنہ جائز نہیں اور لوگ اس سے غافل ہیں اور مکان کا پاک ہونا بھی شرط ہے اور حجم زمین کو پانا اور لوگ اس سے بھی غافل ہیں، اھ تلخیصاً ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم، ج ۷، ص ۳۶۲ ۔ ۳۶۳)
(۴) قصداً نماز ترک کرنے کا گناہ :
قصداً نماز ترک کرنے کا گناہ، ستر مرتبہ بیت اللہ میں اپنی ماں سے زنا کرنا … یہ قول صحیح ہے یا غلط … َ اور اس کا شرعی حکم … ؟
۲۰؍ رجب المرجب ۱۳۱۶ھ میں جونا گڑھ سرکل مدا ر المہام سے جناب مولوی امیر الدین صاحب نے امام اہل سنّت علیہ الرحمہ سے ایک استفتا کیا ۔
مسئلہ : ایک واعظ برسر مجلس بیان کرتا ہے کہ جس شخص نے ایک وقت کی نماز قصداً ترک کی اس نے ستّر مرتبہ بیت اللہ میں اپنی ماں سے زنا کیا ، مستفتی خوب جانتا ہے کہ بے نمازی سے بُرا اللہ کے نزدیک کوئی نہیں اور شرع شریف میں اس کے لیے وعید بھی سخت آئی ہے مگر دریافت طلب یہ امر ہے کہ الفاظ مذکورہ کتاب و سنّت و اختلافِ ائمہ سے ثابت ہیں یا نہیں ، بر تقدیر ثبوت نہ ہونے کے قائل کی نسبت شریعت کا کیا حکم ہے ؟
الجواب :
معاذاللہ کسی وقت کی نما زقصداً ترک کرنا سخت کبیرہ شدیدہ و جریمۂ عظیمہ ہے جس پر سخت ہول ناک جاں گزا و عیدیں قرآنِ عظیم و احادیث صحیحہ میں وارد ، مگر بد مذہب اگرچہ کیسا ہی نمازی ہو، اللہ عزو جل کے نزدیک سنّی بے نماز سے بدرجہا برا ہے کہ فسقِ عقیدہ فسقِ عمل سے سخت ترہے اور صرف گناہانِ جوارح میں کلام کیجیے تو مسلمان کو عمداً ناحق قتل کرنا ترکِ نماز سے سخت تر ہے اس پر اگر احادیث میں حکم کفرہے اس پر خود قرآن عظیم میں حکم خلود فی النار ہے ۔ والعیاذ باﷲ تعالٰی ۔ واعظ نے جو مضمون بیان کیا اس کے قریب قریب دربارۂ سود خوار احادیث مرفوعہ حضرت ابوہریرہ و حضرت اسود زہری خال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و حضرت براء بن عازب و حضرت عبداللہ بن سلام و حضرت عبداللہ بن مسعود و حضرت عبداللہ بن عباس و آثار موقوفہ حضرت امیر المومنین عثمان غنی و حضرت عبداللہ بن مسعود و حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ابن ماجہ و ابن ابی الدنیا و ابن جریر و بیہقی و ابن مندہ وابو نعیم و طبرانی و حاکم وابن عساکر و بغوی و عبدالرزاق کے یہاں مروی وقد ذکرنا ھا بتخاریجھا فی کتاب البیوع من فتاوانا( اس کو ہم نے تمام تخریجوں کے ساتھ اپنے فتاویٰ کی کتاب البیوع میں بیان کیا ہے ۔ ت ) مگر ان میں سے کسی میں بیت اللہ کا ذکر نہیں ، البتہ ایک حدیث صحیح میں حطیم کعبہ کا ذکر ہے کہ ظناً زمینِ کعبہ ہے نہ یقینا، اس میں ماں کا لفظ نہیں ۔ امام احمد وطبرانی عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بہ سند صحیح راوی ،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
درھم ربایا کلہ الرجل ، وھویعلم ، اشد عنداﷲ من ستۃ وثلثین زنیۃ فی الحطیم ۔
ایک درم سود کا کہ آدمی دانستہ کھالے اللہ تعالیٰ کے نزدیک حطیم کعبہ میں چھتیس بار زنا کرنے سے سخت تر ہے ۔ (م )
اور دربارۂ ترک نماز اگرچہ اس سے سخت تر مذمت ارشاد ہوئی یہاں تک کہ احادیث مرفوعہ حضرت جابر بن عبداللہ و حضرت بریدہ اسلمی و حضرت عبادہ بن صامت و حضرت ثوبان و حضرت ابوہریرہ و حضرت عبداللہ بن عمرو حضرت انس بن مالک و حضرت عبداللہ بن عباس و آثار موقوفہ حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ و حضرت عبداللہ بن عباس و حضرت عبداللہ بن مسعود و حضرت جابر بن عبداللہ و حضرت ابودردا و غیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں احمد و مسلم و ابودائود و نسائی و ابن ماجہ و ابن حبان و حاکم و طبرانی و محمد بن نصر مروزی و ہروی و بزاز وابو یعلی و ابوبکر بن ابی شیبہ و تاریخ بخاری و ابن عبدالبر وغیرہم کے یہاں ترک نماز پر صراحۃً حکم کفر و بے دینی مروی کما فصلہ الامام المنذری فی الترغیب (جیسا کہ امام منذری نے ترغیب میں مفصل بیان کیا ہے ۔ت ) مگر اس بارہ میں وہ الفاظ کہ واعظ نے ذکر کیے اصلاً نظر سے نہ گزرے ،واعظ سے سند مانگی جائے اگر سند معتبر پیش نہ کر سکے تو بے ثبوت ایسے ادعا جہل فاضح ہیں اور گناہ واضح والعیاذ باﷲ رب العٰلمین واﷲ سبحٰنہ و تعالٰی اعلم ۔
(فتاویٰ رضویہ مترجم، ج۵ ، ص ۱۰۹ ۔ ۱۱۰)
نجدی پیشوائوں کے کفریات پر لٹکتی ہوئی ہندی تلواریں :
۲۲؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۱۲ھ میں مولانا مولوی محمد فضل المجید صاحب قادری نے امام اہل سنّت سے غیر مقلدین وہابیہ کے بارے میں ایک استفتاکیا جس میں وہابیوں کے کلمہ کفر کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی درخواست کی ،مع سوال اعلیٰ حضرت کے دلائل کثیرہ ملاحظہ فرمائیں :
مسئلہ : کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلہ میں کہ وہابیہ غیر مقلدین جو تقلید ائمۂ اربعہ کو شرک کہتے ہیں اور جس مسلمان کو مقلد دیکھیں مشرک بتاتے ہیں ، دہلی والے اسمٰعیل مصنفِ تقویۃ الایمان و صراط مستقیم وایضاح الحق و یک روزی و تنویر العینین کو اپنا پیشوا بتاتے اور اس کے اقوال کو حق و ہدایت جانتے او ر اس کے مطابق اعتقاد رکھتے ہیں ہمارے فقہاے کرام پیشوایانِ مذہب کے نزدیک ان پر اور ان کے پیشوا پر کلمۂ کفر لازم ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا …
( سائل کے سوال کے بعد اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ چند سطر لکھنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں ۔)
کتابیں جن سے ہم نے ان کے اقوال کا کلماتِ کفر ہونا ثابت کیا یہ ہیں :
(۱) قرآن عظیم (۲) صحیح بخاری شریف (۳) صحیح مسلم شریف (۴) فقہ اکبر تصنیف حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۵) در مختار (۶) عالم گیری (۷) فتاویٰ قاضی خان (۸) بحرالرائق (۹) نہرا لفائق (۱۰) اشباہ والنظائر (۱۱) جامع الرموز (۱۲) برجندی شرح نقایہ (۱۳) مجمع الانہر (۱۴ ) شرح وہبانیہ (۱۵) رد المحتار (۱۶) شرح الدرروالغرر للعلامۃ اسمٰعیل النابلسی (۱۷) حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمد یہ للعلامہ عبدالغنی النابلسی (۱۸) نوازل امام فقیہ ابو اللیث (۱۹) فتاویٰ ذخیرہ امام برہان محمود (۲۰) فتاویٰ خلاصہ (۲۱) فتاویٰ بزازیہ (۲۲) فتاویٰ تاتار خانیہ (۲۳) مجمع الفتاویٰ (۲۴) معین الحکام علامہ طرابلسی (۲۵) فصول عمادی (۲۶)خزانۃ المفتیین (۲۷) جامع الفصولین (۲۸) جواہر اخلاطی (۲۹) تکملۂ لسان الحکام (۳۰) الاعلام بقواطع الاسلام للامام ابن حجر المکی الشافعی (۳۱)شفا شریف للامام القاضی عیاض المالکی (۳۲) شرح الشفا للملاّعلی قاری (۳۳) نسیم الریاض للعلامۃ شہاب الدین الخفاجی (۳۴) شرح المواہب للعلامۃ الزرقانی المالکی (۳۵) شرح فقہ اکبر للعلامۃ القاری (۳۶) شرح العقائد العضدیہ للمحقق الدوانی الشافعی (۳۷) الدرر السنیہ للعلامۃ السید الشریف مولانا احمد زینی دحلان المکی الشافعی (۳۸) الدرالثمین للشاہ ولی اللہ دہلوی (۳۹) تحفہ اثناء عشریہ شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی (۴۰)تفسیر عزیزی شاہ صاحب موصوف (۴۱) موضح القرآن شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی برادر شاہ صاحب ممدوح ، یہاں تک کہ خود تقویۃ الایمان اور اس کا دوسرا حصہ تذکیر الاخوان وغیرہا ، اور نیز اس میں مدد لی گئی احیاء العلوم امام حجۃ الاسلام غزالی و شرح عقائد النسفی علامہ سعد تفتازانی و میزان الشریعۃ الکبریٰ امام عبدالوہاب شعرانی ومکتوبات جناب شیخ مجدد الف ثانی و حجۃ اللہ البالغہ و انتباہ فی سلاسل اولیا ہر دو تصنیف شاہ ولی اللہ صاحب ، یہاں تک کہ مسک الختام شرح بلوغ المرام تصنیف نواب صدیق حسن خاں بھوپالی ظاہری آنجہانی وغیرہا سے ، یہاں صرف سات (کفریہ ) قول پر اکتفا کروں ،
(فتاویٰ رضویہ مترجم ، ج ۱۴، ص ۲۴۰)
(رسالہ سل السیوف الہندیۃ علٰی کفریات بابا النجدیۃ)
اللہ اکبر … یہ کیساعظیم فن … کہ پڑھنے والا اور سننے والا حیرت زدہ رہ کر صرف اعلیٰ حضرت کے دلائل کثیرہ کو تکتارہے ۔علاوہ ازیں امام اہل سنّت نے مندرجہ بالا تصانیف کثیر ہ کے صرف نام لکھ کر نہیں چھوڑے بلکہ اپنی اس تصنیف میں لکھی ہوئی کتابوں کی عبارتوں کو بھی نقل کیا اور اُن سے وہابیہ کے کلمۂ کفر کو ثابت کیا،استاذ العلما جلالۃ العلم علامہ شاہ عبدالعزیز قد س سرہ بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور فرماتے ہیں :
’’ علامہ شامی کے بعد اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا دوسرافقیہ نہیں پیدا ہوا ۔ ‘‘
(ملفوظات حافظ ملت ، ص ۱۹ ، مقدمہ از علامہ محمد عبدالمبین نعمانی مصباحی )
شیخ ابوالفتاح ابوغدہ(پروفیسر کلیۃ الشریعہ محمد بن سعود یونیورسٹی، ریاض )نے فتاویٰ رضویہ کا صرف ایک عربی فتویٰ مطالعہ کیا تو وہ حیران رہ گئے ، خود فرماتے ہیں :
’’ عبارت کی روانی اور کتب و سنّت و احوالِ سلف سے دلائل کے انبار دیکھ کر مَیں حیران ہو گیا اور ششدر رہ گیا اور اس ایک فتوے کے مطالعہ کے بعد مَیں نے یہ رائے قائم کر لی کہ یہ شخص کوئی عالم اور اپنے وقت کا زبردست فقیہ ہے ۔‘‘ ( امام احمد رضا ارباب علم و دانش کی نظر میں ، از علامہ یٰس ٓ اختر مصباحی ، ص ۱۹۴ )
تحقیقات رضویہ میں دلائل وبراہین کی کثرت کا جلوہ دیکھنے کے لیے قارئین تصانیف رضا بالخصوص ’’فتاویٰ رضویہ ‘‘ کامطالعہ کریں اور فکر و نظر کی جلا کا سامان کریں۔
(مطبوعہ سالنامہ یادگار رضا ۲۰۰۸ء مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)