WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category شانِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ

کثرت دلائل اور امام احمد رضا علیہ الرحمہ.. از: ڈاکٹر غلام مرسلین رضوی.ناگپور (انڈیا)


امام اہل سنّت قاطع بدعات و منکرات فقیہ اسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کی ذات گرامی محتاج تعارف نہیں ۔آپ کی عبقری شخصیت اور غیر معمولی شہرت کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج ساری دُنیا میں آپ کے علوم و فنون پرتحقیق و ریسرچ کر کے ڈاکٹریٹ (Ph.D.) اور ایم ۔ فل (M.Phil.) کی ڈگریاں حاصل کی جارہی ہیں ۔ بلا مبالغہ امام اہل سنّت نے تقریباً تمام علوم و فنون پر تصانیف بہ طور یادگار چھوڑی ہیں ۔ کچھ علوم و فنون کتابی شکل میں محفوظ ہو گئے ۔ کچھ علوم و فنون شائع نہ ہو سکے اور کچھ علوم و فنون اپنوں کی بے اعتنائی اور لاپرواہی سے دیمک کی نذر ہو کر ضائع ہو گئے ۔ امام اہل سنّت نے قرآن ، تفسیر ، حدیث ، فقہ پر جو کام کیا ہے اس کا لوہا مخالفین نے بھی مانا ہے ، اس کے علاوہ درجنوں علوم و فنون پر آپ کی بیش تر تصانیف یادگار ہیں ۔
اللہ رب العزت نے اپنے حبیب سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقے میں اعلیٰ حضرت کو ایک ایسا فن عطا کیا تھا جس کی نظیر نہیں ملتی اور وہ فن ہے کسی مسئلہ کو ثابت کرنے کے لیے علماے متقدمین و متاخرین کی اتباع کرتے ہوئے اس کثرت سے حدیث و فقہ سے دلائل قائم کرنا کہ مخالفین کو اعتراض کی گنجائش ہی نہ رہے۔ یوں معلوم ہوتا کہ امام اہل سنّت صرف کاغذ پر لکھے ہوئے سوالات کو مد نظر رکھ کر جواب نہیں دیتے تھے بلکہ سائل کے دل کی گہرائی کو سمجھ کر جواب دیتے کہ سائل کس مقصد سے سوال پوچھ رہا ہے۔ اور اس کے ذہن میںکیا کیا اشکال وارد ہیں۔ اور جواب دیتے وقت اس بات کو بھی مد نظر رکھتے کہ جوابات پر کیا کیا اعتراضات ہو سکتے ہیں ، ان کا بھی شافی و وافی جواب عنایت فرماتے ۔ امام اہل سنّت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے یہ فن روحانی طور پر حاصل کیا تھا ۔ اسے ہی علم لدنی سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
بے مثل محدث ، اعلیٰ پایہ کے فقیہ ، استاذ المجتہدین حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق حضرت امام حافظ الدین کردری صاحب فتاویٰ بزازیہ(متوفی ۸۲۷ھ)علیہ الرحمہ اپنی تصنیف ’’مقامات امام اعظم ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ: ’’ امام اعظم ابو حنیفہ ولایت کی نظر سے سائل کے قلب پر روشنی ڈالتے کہ یہ کس مقصد سے سوال پوچھ رہا ہے۔ اور پھر اس کو اطمینان بخش جواب عنایت فرماتے ۔‘‘ امام اہل سنّت کی تصانیف خصوصاً فتاویٰ رضویہ کے مطالعہ سے یہ بات آفتاب کی طرح روشن ہوجاتی ہے کہ آپ مخالفین کو دنداں شکن جواب دینے کے لیے کس طرح دلائل کے انبار لگاتے چلے جاتے ہیں ۔ اس کی چند مثالیںقارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔
(۱) علم غیب مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جب سرور کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے علم شریف کو ثابت کرنے کے لیے ترمذی شریف کی یہ حدیث بیان کی کہ ’’ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ : اللہ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا اور اس کی ٹھنڈک مَیں نے اپنے سینے میں محسوس کی …پس جان لیا مَیں نے وہ سب کچھ جو زمین و آسمان میں تھا …‘‘(سبحان اللہ )تو مخالفین کے خیمہ میں انتشار برپا ہو گیا اور مخالفین اس حدیث کی طرح طرح سے تاویلیں کرنے لگے اور اعلیٰ حضرت سے مزید حوالے طلب کرنے لگے ، امام اہل سنّت مجد د اسلام اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ا س کی سند یوں بیان کرتے ہیں :
l رواہ امام الائمۃ ابو حنیفۃ والام احمد و عبدالرزاق فی مصنفہ والترمذی و الطبرانی عن ابن عباس۔
l و احمد و الطبرانی و ابن مردویہ عن معاذ بن جبل۔
l وابن خزیمۃ والدارمی والبغوی وابن السکن وابونعیم و ابن بسطۃ عن عبدالرحمٰن بن عایش و الطبرانی عنہ عن صحابی۔
l والبزاز عن ابن عمر و عن ثوبان۔
l والطبرانی عن ابی امامۃ۔
l وابن قانع عن ابی عبیدۃ بن الجراح۔
l والدار قطنی و ابوبکر النیسا پوری فی الزیادات عن انس۔
l وابو الفرج تعلیقا عن ابی ہریرۃ۔
l وابن ابی شیبۃ مرسلا عن عبدالرحمٰن بن سابط۔ (رضی اﷲ تعالٰی عنہم )۔
آخر میں فرماتے ہیں کہ ہم نے اس حدیث کے طرق کی تفصیلات اور کلمات کا اختلاف اپنی بابرکت کتاب سلطنۃ المصطفیٰ فی ملکوت کل الوریٰ میں بیان کیا ہے ۔ قلم برداشتہ کسی حدیث کے اتنے مآخذ کا بیان کردینا معمولی بات نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم، ج ۱، ص ۱۰ )
(۲) سفر وحضر میں دو نمازوں کو ملا کر پڑھنا کیسا ہے ؟
۱۳۱۳ ھ میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے سوال کیاگیا کہ سفر وحضر میں دو نمازوں کو ملا کر پڑھ لینا جائزہے یا نہیں ؟ چوں کہ غیر مقلدین اس کے قائل اور عامل ہیں نیز میاں نذیر حسین صاحب (دہلوی ) نے اپنی کتاب ’’معیار حق ‘‘ میں بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ اس مسئلہ پر بحث کی اور حنفی مسلک کو احادیث کے برخلاف قرار دیا تھا ، لہٰذاا علیٰ حضرت محدث بریلوی نے محدث کہلانے والے میاں صاحب کے دلائل کا جواب دینا ضروری سمجھا اور ایسا عالمانہ ومجددانہ رد کیا کہ میاں صاحب اور ان کے تلامذہ سے آج تک کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ ان روشن وواضح دلائل کا جواب دے ۔ فتاویٰ رضویہ جلد دوم میں ص ۲۰۷؍ سے ص ۳۰۵ ؍ تک ۹۸ ؍صفحات پر مشتمل اور فتاویٰ رضویہ مترجم جلد ۵؍ میںص ۱۵۹ سے ص ۳۱۳؍ تک ۱۵۴؍ صفحات پر مشتمل یہ مبارک فتویٰ ’’ حاجز البحرین الواقی عن جمع الصلاتین ‘‘کے نام سے موجود ہے جو امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی حدیث دانی کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ امام احمد رضا نے میاں نذیر حسین دہلوی کے اس فتویٰ پر سخت تنقید کی اور ان کے ایک ایک شبہے کا جواب اتنے مضبوط حوالوں سے دیا ہے کہ مخالفین حدیث دانی کے دعوے کے باوجود آج تک اس کا جواب دینے کی ہمت نہ کر سکے ۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں :
اللہ عزو جل نے اپنے نبی کریم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم کے ارشادات سے نماز فرض کا ایک خاص وقت جداگانہ مقرر فرمایا ہے کہ نہ اس سے پہلے نماز کی صحت نہ اس کے بعد تاخیر کی اجازت، ظہر ین عرفہ و عشائین مزدلفہ کے سوادو نمازوں کا قصداً ایک وقت میں جمع کرنا سفراً حضراً ہرگز کسی طرح جائز نہیں۔ قرآن عظیم و احادیث صحاح سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس کی ممانعت پر شاہد عدل ہیں۔ یہی مذہب ہے حضرت ناطق بالحق والصواب موافق الراے بالوحی والکتاب امیر المومنین عمر فاروق اعظم و حضرت سیّدنا سعد بن ابی وقاص احد العشرۃ المبشرۃ و حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود من اجل فقہاء الصحابۃ البررۃ و حضرت سیّدنا و ابن سیّدنا عبداللہ بن عمر فاروق و حضرت سیّد تناامّ المو منین صدیقہ بنت الصدیق اعاظم صحابۂ کرام و خلیفہ راشد امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز و امام سالم بن عبداللہ بن عمر و امام علقمہ بن قیس و امام اسود بن یزید نخعی و امام حسن بصری و امام ابن سیرین و امام ابراہیم نخعی و امام مکحول شامی و امام جابر بن زید و امام عمرو بن دینار و امام حماد بن ابی سلیمان و امام اجل ابو حنیفہ اجلۂ ائمہ تابعین و امام سفیان ثوری و امام لیث بن سعد و امام قاضی الشرق و الغرب ابو یوسف و امام ابو عبداللہ محمد الشیبانی و امام زفر بن الہذیل و امام حسن بن زیاد و امام دار الہجرۃ عالم المدینۃ مالک بن انس فی روایۃ ابن قاسم اکابر تبع تابعین و امام عبدالرحمن بن قاسم عتقی تلمیذ امام مالک و امام عیسیٰ بن ابان و امام ابو جعفر احمد بن سلامہ مصری و غیرہم ائمۂ دین کا ، رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم ، ج ۵، ص ۱۶۰ )
یہاں تو امام اہل سنّت علیہ الرحمہ نے صحابۂ کرام ، تابعین و تبع تابعین ، اکابر تبع تابعین اور ائمۂ دین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے قول و فعل کو بیان کیا ہے ۔ تخریج حدیث کے نمونے ملاحظہ فرمائیں ۔چند صفحات کے بعد فرماتے ہیں :
حضور پر نور سیّد یوم النشور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے جمع صوری کا ثبوت اصلاً محل کلام نہیں اور وہی مذہب مہذب ائمۂ حنفیہ ہے اس میں صاف صریح جلیل وصحیح احادیث مروی مگر ملاّ جی تو انکارِ آفتاب کے عادی ، بکمال شوخ چشمی بے نقط سُنادی کہ کوئی حدیث صحیح ایسی نہیں جس سے ثابت ہو کہ آں حضرت جمع صوری سفر میں کیا کرتے تھے بہت اچھا ذرا نگاہ رو بہ رو۔
حدیث : جلیل وعظیم حدیث سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہ اس جناب سے مشہور و مستفیض ہے جسے امام بخاری و ابودائود و نسائی نے اپنی صحاح اور امام عیسیٰ بن ابان نے کتاب الحجج علیٰ اہلِ مدینہ اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثار اور ذہلی نے زہریات اور اسمٰعیلی نے مستخرج صحیح بخاری میں بطرق عدیدہ کثیرہ روایت کیا :
فالبخاری والاسمعیلی والذہلی من طریق اللیث بن سعد عن یونس عن الزہری ، والنسائی من طریقی یزید بن زریع و النضربن شمیل عن کثیر بن قارونداکلاہماعن سالم۔ والنسائی عن قتیبۃ والطحاوی عن ابی عامر العقدی والفقیہ فی الحجج ثلثتہم عن العطاف، وابوداؤد عن فضیل بن غزوان، وعن عبداﷲ بن العلاء، وایضاھو عن عیسٰی والنسائی عن الولیدوالطحاوی عن بشر بن بکر، ھؤلاء الثلثۃ عن ابن جابر، والطحاوی عن اسامۃ بن زید، خمستہم اعنی العطاف وفضیلا و ابن العلاء و جابر واسامۃ عن نافع ۔ و ابوداؤد عن عبداﷲ بن واقد۔ والطحاوی عن اسمعیل بن عبدالرحمٰن۔ اربعتھم عن عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما۔
بخاری ،اسمٰعیلی او رذہلی نے لیث ابن سعد کے طریقے سے یونس سے ، انھوں نے زہری سے روایت کی ہے ۔ اور نسائی نے یزید ابن زریع اور نضر ابن شمیل کے دو طریقوں سے کثیر ابن قاروندا سے روایت کی ہے ۔ دونوں (زہری اورکثیر ) سالم سے راوی ہیں ۔ نسائی نے قتیبہ سے، طحاوی نے ابوعامرعقدی سے اور فقیہ نے حجج میں یہ تینوں عطاف سے روایت کرتے ہیں ، اور ابودائود نے فضیل ابن غزوان سے اور عبداللہ ابن علا سے روایت کی ہے اور ابودائود نے ہی عیسیٰ سے ، نسائی نے ولید سے ، طحاوی نے بشر ابن بکر سے ، یہ تینوں (عیسیٰ ، ولید ، بشر ) جابر سے روایت کرتے ہیں ۔ اور طحاوی نے اسامہ ابن زید سے روایت کی ہے ۔ یہ پانچوں یعنی عطاف ، فضیل ، عبداللہ، جابر اور اسامہ نافع سے راوی ہیں ، نیز ابودائود عبداللہ ابن واقد سے راوی ہیں اور طحاوی اسمٰعیل ابن عبدالرحمن سے راوی ہیں ۔ چاروں (سالم ، نافع ، عبداللہ ابن واقد ، اسمٰعیل ) عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے (ناقل ہیں ) (ت) (فتاویٰ رضویہ مترجم،ج ۵ ، ص ۱۶۷ )
اللہ اکبر … علم و فن کا امام … اُمنڈتے ہوئے سیلاب کی طرح دلائل پر دلائل قائم کرتاچلا جارہا ہے جس سے مخالفین و حاسدین پشیماں و پریشاںنظر آتے ہیں۔ ان کے خود ساختہ نظریات کی دھجیاں بکھرتی چلی جارہی ہیں …امام اہل سنّت کاایک حوالہ اور ملاحظہ فرمایے … آگے چند صفحات کے بعد فرماتے ہیں :
الحمدللہ جب کہ احادیث جمع صور ی کی صحت مہر نیم روز ماہ نیم ماہ کی طرح روشن ہو گئی تو اب جس قدر حدیثوں میں مطلق جمع بین الصلاتین وارد ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ظہر و عصر یا مغرب و عشا کو جمع فرمایا عصر و عشا سے ملا نے کو ظہر و مغرب میں تاخیر فرمائی وا مثال ذلک کسی میں مخالف کے لیے اصلاً حجت نہ رہی سب اسی جمع صوری پر محمول ہوں گی او ر استدلال مخالف احتمالِ موافق سے مطرود ومخذول مثل حدیث بخاری و مسلم ودارمی و نسائی و طحاوی و بیہقی بطریق سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم و مسلم و مالک و نسائی وطحاوی بطریق نافع :
عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما، کان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یجمع بین المغرب والعشاء اذا جدبہ السیر ، وفی لفظ مسلم والنسائی من طریق سالم ، رأیت رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اذااعجلہ السیر فی السفریؤخر صلاۃ المغرب حتی یجمع بینھا وبین صلاۃ العشاء ۔
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جب چلنے میں تیزی ہوتی تھی تو آپ مغرب و عشا کو جمع کرتے تھے اور مسلم کی ایک روایت اور نسائی کی بطریقہ سالم روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر کے دوران چلنے میں جلدی ہوتی تو مغرب کی نماز کو اتنا مؤخر کردیتے تھے کہ عشا کے ساتھ ملا لیتے تھے ۔ (ت)
یہ معنی مجمل بروایات سالم و نافع مستفیض ہیں ۔
فرواہ البخاری عن ابی الیمان ، والنسائی عن بقیۃ و عثمٰن، کلھم عن شعیب بن ابی حمزہ ۔ ومسلم عن ابن وھب عن یونس۔ والبخاری عن علی بن المدینی، ومسلم عن یحییٰ بن یحییٰ وقتیبۃ بن سعید وابی بکربن ابی شیبۃ وعمر والناقد، والدارمی عن محمد بن یوسف، والنسائی عن محمد بن منصور، والطحاوی عن الحمانی، ثمانیتھم عن سفیٰن بن عیینۃ، ثلثتھم اعنی شعیبا ویونس وسفین عن الزہری عن سالم، ومسلم عن یحییٰ بن یحییٰ، والنسائی عن قتیبۃ، والطحاوی عن ابن وھب، کلھم عن مالک، والنسائی بطریق عبدالرزاق ثنا معمر عن موسیٰ بن عقبۃ، والطحاوی عن لیث، والبیھقی فی الخلافیات من طریق یزید بن ھارون عن یحییٰ بن سعید، اربعتھم عن نافع ، کلاھما عن ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما ۔
چناں چہ بخاری ابوالیمان سے ، نسائی بقیہ اورعثمان سے ، یہ سب ( ابوالیمان ، بقیہ ، عثمان ) شعیب ابن ابی حمزہ سے روایت کرتے ہیں ۔ اور مسلم ، ابن وہب سے ، وہ یونس سے روایت کرتے ہیں۔ اور بخاری ، علی ابن مدینی سے۔ اور مسلم ، یحییٰ ابن یحییٰ ، قتیبہ ابن سعید ، ابوبکر ابن ابی شیبہ اور عمر والناقد سے ۔ اور دارمی ، محمد ابن یوسف سے ، اور نسائی محمد ابن منصور سے ، اور طحاوی ، حمانی سے ۔ یہ آٹھوں ( یعنی علی ، یحییٰ ، قتیبہ ، ابوبکر ، عمرو ، ابن یوسف ، ابن منصور ،حمانی ) سفیان ابن عیینہ سے روایت کرتے ہیں ۔ پھر تینوں (سلسلوں کے تین آخری راوی ) یعنی شعیب ، یونس اور سفیان ، زہری کے واسطے سے ، سالم سے راوی ہیں ۔ اور مسلم یحییٰ ابن یحییٰ سے ۔ اور نسائی قتیبہ سے ۔ اور طحاوی ابن وہب سے ۔ یہ تینوں مالک سے روایت کرتے ہیں ۔ اور نسائی بطریقہ عبدالرزاق ، وہ معمر سے ، وہ موسیٰ ابن عقبہ سے روایت کرتے ہیں ۔اور طحاوی لیث سے روایت کرتے ہیں۔ اور بیہقی خلافیات میں بطریقہ یزید ابن ہارون ، یحییٰ ابن سعید سے روایت کرتے ہیں ۔ یہ چاروں (آخری راوی یعنی مالک ، موسیٰ ، لیث ، یحییٰ ) نافع سے راوی ہیں ۔ (سالم اور نافع) دونوں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے حدیث بیان کرتے ہیں ۔ (ت)
(فتاویٰ رضویہ مترجم، ج ۵، ص ۱۹۶۔۱۹۷)
جوتیاں پہن کر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
۴؍ محرم الحرام ۱۳۲۳ ھ کو مارہرہ مطہرہ سے جناب چودھری محمد طیب صاحب نے ایک سوال ارسال کیا کہ جوتیاں پہن کر نما زپڑھنا کیسا ہے ۔ سوال کی نوعیت سے ہی سائل کے علم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اس کا مختصر مگر مدلل جواب عنایت فرمایا اس کی ایک جھلک مع سوال و جواب ملاحظہ فرمائیں ۔
مسئلہ : جوتیوں سمیت نماز پڑھنا ہم سے آدم ابن ابی ایاس نے بیان کیا کہا ہم سے شعبہ نے کہاہم کو ابو سلمہ سعید بن یزید ازدی نے خبر دی کہا مَیں نے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جوتیاں پہنے پہنے نماز پڑھتے تھے ؟ انھو ں نے کہا :
حدثنا اٰدم ابن ابی ایاس قال انا ابو مسلمۃ سعید بن یزید الازدی قال سألت انس بن مالک اکان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یصلی فی نعلیہ قال نعم (حاشیہ)
آدم ابن ابی ایاس بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابو مسلمہ سعیدبن یزید الازدی نے بتایا کہ مَیں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نعلین میں نماز اد ا کی ہے ؟انھوں نے فرمایا ،ہاں (حاشیہ ) ۔ (ت)
ابن بطال نے کہا جب جوتے پاک ہوں تو اُن میں نما زپڑھنا جائز ہے ، مَیں کہتا ہوں مستحب ہے کیوں کہ ابودائود اور حاکم کی حدیث میں ہے کہ یہودیوں کا خلاف کرو ، وہ جوتوں اور موزوں میں نمازنہیں پڑھتے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز میں جوتے اتارنا مکروہ جانتے تھے اور ابو عمرو شیبانی کوئی نماز میں جوتا اتارے تو اُس کو مارتے تھے اور ابراہیم سے جو امام ابو حنیفہ کے استاذ ہیں ایسا ہی منقول ہے ۔ شوکانی نے کہا صحیح او رقوی مذہب یہی ہے کہ جوتیاں پہن کر نما زپڑھنا مستحب ہے اور جوتوں میں اگر نجاست ہو تو وہ زمین پر رگڑدینے سے پاک ہوجاتے ہیں ۔ خواہ وہ کسی قسم کی نجاست ہو ، تریا خشک ، جرم والا یا بے جرم ۔
الجواب :
اللھم ھدایۃ الحق والصواب اقول وباﷲ التوفیق وبہ الوصول الی ذری التحقیق ۔
(اے اللہ ! حق اور صواب کی ہدایت دے اقول: اور اللہ ہی توفیق دینے والا اور وہ ہے جو تحقیق کی منزل پر پہنچانے والا ۔ ت ) سخت اور تنگ پنجے کا جوتا جو سجدہ میں انگلیوں کا پیٹ زمین پر بچھانے اور اس پر اعتماد کرنے زور دینے سے مانع ہو ایسا جوتا پہن کر نماز پڑھنی صرف کراہت و اساء ت درکنار مذہب مشہور و مفتی بہ کی رو سے راساً مفسد نماز ہے کہ جب پائوں کی انگلی پر اعتماد نہ ہو ا سجدہ نہ ہوا اور جب سجدہ نہ ہوا نماز نہ ہوئی ، امام ابوبکر جصاص وامام کرخی و امام قدوری و امام برہان الدین صاحب ہدایہ وغیرہم اجلہ ائمہ نے اس کی تصریح فرمائی۔ محیط و خلاصہ و بزازیہ و کافی و فتح القدیر و سراج و کفایہ و مجتبیٰ و شرح المجمع للمصنف و منیہ و غنیہ شرح منیہ و فیض المولی الکریم و جوہرۂ نیرہ و نور الایضاح ومراقی الفلاح و در منتقی و در مختار و عالم گیر یہ و فتح المعین علامہ ابو السعود ازہری و حواشی علامہ نوح آفندی وغیرہا کتب معتمدہ میں اسی پر جزم فرمایا اسی پر فتویٰ ہے ۔ جامع الرموز میں قنیہ سے نقل کیا یہی صحیح ہے ، رد المحتار میں لکھا کتب مذہب میں یہی مشہور ہے ، در مختار میں ہے :
فیہ ( ای فی شرح الملتقی ) یفترض وضع اصابع القدم ولوواحدۃ نحوالقبلۃ والا لم تجزو الناس عنہ غافلون وشرط طہارۃ المکان وان یجد حجم الارض والناس عنہ غافلون اھ ملخصاً ۔
اس ( شراح الملتقی) میں ہے قدم کی انگلیوں کا زمین پر جانبِ قبلہ رکھنا فرض ہے خواہ وہ ایک ہی کیوں نہ ہو ورنہ جائز نہیں اور لوگ اس سے غافل ہیں اور مکان کا پاک ہونا بھی شرط ہے اور حجم زمین کو پانا اور لوگ اس سے بھی غافل ہیں، اھ تلخیصاً ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم، ج ۷، ص ۳۶۲ ۔ ۳۶۳)
(۴) قصداً نماز ترک کرنے کا گناہ :
قصداً نماز ترک کرنے کا گناہ، ستر مرتبہ بیت اللہ میں اپنی ماں سے زنا کرنا … یہ قول صحیح ہے یا غلط … َ اور اس کا شرعی حکم … ؟
۲۰؍ رجب المرجب ۱۳۱۶ھ میں جونا گڑھ سرکل مدا ر المہام سے جناب مولوی امیر الدین صاحب نے امام اہل سنّت علیہ الرحمہ سے ایک استفتا کیا ۔
مسئلہ : ایک واعظ برسر مجلس بیان کرتا ہے کہ جس شخص نے ایک وقت کی نماز قصداً ترک کی اس نے ستّر مرتبہ بیت اللہ میں اپنی ماں سے زنا کیا ، مستفتی خوب جانتا ہے کہ بے نمازی سے بُرا اللہ کے نزدیک کوئی نہیں اور شرع شریف میں اس کے لیے وعید بھی سخت آئی ہے مگر دریافت طلب یہ امر ہے کہ الفاظ مذکورہ کتاب و سنّت و اختلافِ ائمہ سے ثابت ہیں یا نہیں ، بر تقدیر ثبوت نہ ہونے کے قائل کی نسبت شریعت کا کیا حکم ہے ؟
الجواب :
معاذاللہ کسی وقت کی نما زقصداً ترک کرنا سخت کبیرہ شدیدہ و جریمۂ عظیمہ ہے جس پر سخت ہول ناک جاں گزا و عیدیں قرآنِ عظیم و احادیث صحیحہ میں وارد ، مگر بد مذہب اگرچہ کیسا ہی نمازی ہو، اللہ عزو جل کے نزدیک سنّی بے نماز سے بدرجہا برا ہے کہ فسقِ عقیدہ فسقِ عمل سے سخت ترہے اور صرف گناہانِ جوارح میں کلام کیجیے تو مسلمان کو عمداً ناحق قتل کرنا ترکِ نماز سے سخت تر ہے اس پر اگر احادیث میں حکم کفرہے اس پر خود قرآن عظیم میں حکم خلود فی النار ہے ۔ والعیاذ باﷲ تعالٰی ۔ واعظ نے جو مضمون بیان کیا اس کے قریب قریب دربارۂ سود خوار احادیث مرفوعہ حضرت ابوہریرہ و حضرت اسود زہری خال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و حضرت براء بن عازب و حضرت عبداللہ بن سلام و حضرت عبداللہ بن مسعود و حضرت عبداللہ بن عباس و آثار موقوفہ حضرت امیر المومنین عثمان غنی و حضرت عبداللہ بن مسعود و حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ابن ماجہ و ابن ابی الدنیا و ابن جریر و بیہقی و ابن مندہ وابو نعیم و طبرانی و حاکم وابن عساکر و بغوی و عبدالرزاق کے یہاں مروی وقد ذکرنا ھا بتخاریجھا فی کتاب البیوع من فتاوانا( اس کو ہم نے تمام تخریجوں کے ساتھ اپنے فتاویٰ کی کتاب البیوع میں بیان کیا ہے ۔ ت ) مگر ان میں سے کسی میں بیت اللہ کا ذکر نہیں ، البتہ ایک حدیث صحیح میں حطیم کعبہ کا ذکر ہے کہ ظناً زمینِ کعبہ ہے نہ یقینا، اس میں ماں کا لفظ نہیں ۔ امام احمد وطبرانی عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بہ سند صحیح راوی ،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
درھم ربایا کلہ الرجل ، وھویعلم ، اشد عنداﷲ من ستۃ وثلثین زنیۃ فی الحطیم ۔
ایک درم سود کا کہ آدمی دانستہ کھالے اللہ تعالیٰ کے نزدیک حطیم کعبہ میں چھتیس بار زنا کرنے سے سخت تر ہے ۔ (م )
اور دربارۂ ترک نماز اگرچہ اس سے سخت تر مذمت ارشاد ہوئی یہاں تک کہ احادیث مرفوعہ حضرت جابر بن عبداللہ و حضرت بریدہ اسلمی و حضرت عبادہ بن صامت و حضرت ثوبان و حضرت ابوہریرہ و حضرت عبداللہ بن عمرو حضرت انس بن مالک و حضرت عبداللہ بن عباس و آثار موقوفہ حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ و حضرت عبداللہ بن عباس و حضرت عبداللہ بن مسعود و حضرت جابر بن عبداللہ و حضرت ابودردا و غیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں احمد و مسلم و ابودائود و نسائی و ابن ماجہ و ابن حبان و حاکم و طبرانی و محمد بن نصر مروزی و ہروی و بزاز وابو یعلی و ابوبکر بن ابی شیبہ و تاریخ بخاری و ابن عبدالبر وغیرہم کے یہاں ترک نماز پر صراحۃً حکم کفر و بے دینی مروی کما فصلہ الامام المنذری فی الترغیب (جیسا کہ امام منذری نے ترغیب میں مفصل بیان کیا ہے ۔ت ) مگر اس بارہ میں وہ الفاظ کہ واعظ نے ذکر کیے اصلاً نظر سے نہ گزرے ،واعظ سے سند مانگی جائے اگر سند معتبر پیش نہ کر سکے تو بے ثبوت ایسے ادعا جہل فاضح ہیں اور گناہ واضح والعیاذ باﷲ رب العٰلمین واﷲ سبحٰنہ و تعالٰی اعلم ۔
(فتاویٰ رضویہ مترجم، ج۵ ، ص ۱۰۹ ۔ ۱۱۰)
نجدی پیشوائوں کے کفریات پر لٹکتی ہوئی ہندی تلواریں :
۲۲؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۱۲ھ میں مولانا مولوی محمد فضل المجید صاحب قادری نے امام اہل سنّت سے غیر مقلدین وہابیہ کے بارے میں ایک استفتاکیا جس میں وہابیوں کے کلمہ کفر کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی درخواست کی ،مع سوال اعلیٰ حضرت کے دلائل کثیرہ ملاحظہ فرمائیں :
مسئلہ : کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلہ میں کہ وہابیہ غیر مقلدین جو تقلید ائمۂ اربعہ کو شرک کہتے ہیں اور جس مسلمان کو مقلد دیکھیں مشرک بتاتے ہیں ، دہلی والے اسمٰعیل مصنفِ تقویۃ الایمان و صراط مستقیم وایضاح الحق و یک روزی و تنویر العینین کو اپنا پیشوا بتاتے اور اس کے اقوال کو حق و ہدایت جانتے او ر اس کے مطابق اعتقاد رکھتے ہیں ہمارے فقہاے کرام پیشوایانِ مذہب کے نزدیک ان پر اور ان کے پیشوا پر کلمۂ کفر لازم ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا …
( سائل کے سوال کے بعد اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ چند سطر لکھنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں ۔)
کتابیں جن سے ہم نے ان کے اقوال کا کلماتِ کفر ہونا ثابت کیا یہ ہیں :
(۱) قرآن عظیم (۲) صحیح بخاری شریف (۳) صحیح مسلم شریف (۴) فقہ اکبر تصنیف حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۵) در مختار (۶) عالم گیری (۷) فتاویٰ قاضی خان (۸) بحرالرائق (۹) نہرا لفائق (۱۰) اشباہ والنظائر (۱۱) جامع الرموز (۱۲) برجندی شرح نقایہ (۱۳) مجمع الانہر (۱۴ ) شرح وہبانیہ (۱۵) رد المحتار (۱۶) شرح الدرروالغرر للعلامۃ اسمٰعیل النابلسی (۱۷) حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمد یہ للعلامہ عبدالغنی النابلسی (۱۸) نوازل امام فقیہ ابو اللیث (۱۹) فتاویٰ ذخیرہ امام برہان محمود (۲۰) فتاویٰ خلاصہ (۲۱) فتاویٰ بزازیہ (۲۲) فتاویٰ تاتار خانیہ (۲۳) مجمع الفتاویٰ (۲۴) معین الحکام علامہ طرابلسی (۲۵) فصول عمادی (۲۶)خزانۃ المفتیین (۲۷) جامع الفصولین (۲۸) جواہر اخلاطی (۲۹) تکملۂ لسان الحکام (۳۰) الاعلام بقواطع الاسلام للامام ابن حجر المکی الشافعی (۳۱)شفا شریف للامام القاضی عیاض المالکی (۳۲) شرح الشفا للملاّعلی قاری (۳۳) نسیم الریاض للعلامۃ شہاب الدین الخفاجی (۳۴) شرح المواہب للعلامۃ الزرقانی المالکی (۳۵) شرح فقہ اکبر للعلامۃ القاری (۳۶) شرح العقائد العضدیہ للمحقق الدوانی الشافعی (۳۷) الدرر السنیہ للعلامۃ السید الشریف مولانا احمد زینی دحلان المکی الشافعی (۳۸) الدرالثمین للشاہ ولی اللہ دہلوی (۳۹) تحفہ اثناء عشریہ شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی (۴۰)تفسیر عزیزی شاہ صاحب موصوف (۴۱) موضح القرآن شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی برادر شاہ صاحب ممدوح ، یہاں تک کہ خود تقویۃ الایمان اور اس کا دوسرا حصہ تذکیر الاخوان وغیرہا ، اور نیز اس میں مدد لی گئی احیاء العلوم امام حجۃ الاسلام غزالی و شرح عقائد النسفی علامہ سعد تفتازانی و میزان الشریعۃ الکبریٰ امام عبدالوہاب شعرانی ومکتوبات جناب شیخ مجدد الف ثانی و حجۃ اللہ البالغہ و انتباہ فی سلاسل اولیا ہر دو تصنیف شاہ ولی اللہ صاحب ، یہاں تک کہ مسک الختام شرح بلوغ المرام تصنیف نواب صدیق حسن خاں بھوپالی ظاہری آنجہانی وغیرہا سے ، یہاں صرف سات (کفریہ ) قول پر اکتفا کروں ،
(فتاویٰ رضویہ مترجم ، ج ۱۴، ص ۲۴۰)
(رسالہ سل السیوف الہندیۃ علٰی کفریات بابا النجدیۃ)
اللہ اکبر … یہ کیساعظیم فن … کہ پڑھنے والا اور سننے والا حیرت زدہ رہ کر صرف اعلیٰ حضرت کے دلائل کثیرہ کو تکتارہے ۔علاوہ ازیں امام اہل سنّت نے مندرجہ بالا تصانیف کثیر ہ کے صرف نام لکھ کر نہیں چھوڑے بلکہ اپنی اس تصنیف میں لکھی ہوئی کتابوں کی عبارتوں کو بھی نقل کیا اور اُن سے وہابیہ کے کلمۂ کفر کو ثابت کیا،استاذ العلما جلالۃ العلم علامہ شاہ عبدالعزیز قد س سرہ بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور فرماتے ہیں :
’’ علامہ شامی کے بعد اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا دوسرافقیہ نہیں پیدا ہوا ۔ ‘‘
(ملفوظات حافظ ملت ، ص ۱۹ ، مقدمہ از علامہ محمد عبدالمبین نعمانی مصباحی )
شیخ ابوالفتاح ابوغدہ(پروفیسر کلیۃ الشریعہ محمد بن سعود یونیورسٹی، ریاض )نے فتاویٰ رضویہ کا صرف ایک عربی فتویٰ مطالعہ کیا تو وہ حیران رہ گئے ، خود فرماتے ہیں :
’’ عبارت کی روانی اور کتب و سنّت و احوالِ سلف سے دلائل کے انبار دیکھ کر مَیں حیران ہو گیا اور ششدر رہ گیا اور اس ایک فتوے کے مطالعہ کے بعد مَیں نے یہ رائے قائم کر لی کہ یہ شخص کوئی عالم اور اپنے وقت کا زبردست فقیہ ہے ۔‘‘ ( امام احمد رضا ارباب علم و دانش کی نظر میں ، از علامہ یٰس ٓ اختر مصباحی ، ص ۱۹۴ )
تحقیقات رضویہ میں دلائل وبراہین کی کثرت کا جلوہ دیکھنے کے لیے قارئین تصانیف رضا بالخصوص ’’فتاویٰ رضویہ ‘‘ کامطالعہ کریں اور فکر و نظر کی جلا کا سامان کریں۔
(مطبوعہ سالنامہ یادگار رضا ۲۰۰۸ء مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)

منقبت در شان حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

ہوگیا سب پر عیاں ، کس جا چھُپا نام رضا
اشتہارات ‌فلک میں بھی چھپا نام رضا

اہل حق کو ، صوفیوں کو دے گیا نام رضا
معرفت کا اور حقیقت کا پتہ نام رضا

دیکھتے ہیں اہل دل اہل محبت جابجا
ہے فصیل شہر الفت پر لکھا نام رضا

داد دی ہے حاسدوں نے بھی ہمیں بے ساختہ
جب زباں پر آگیا شعر رضا نام رضا

ہوگیا تھا حق و باطل کا وہیں پر امتیاز
سنیوں نے ، رضویوں نے جب لیا نام رضا

ہوگئی میری رسائی معرفت کے شہر تک
میرے مرشد نے مجھے سکھلا دیا نام رضا

اس لیے ساری فضا مخمور ہے مسحور ہے
لے رہی ہے جھوم کر باد صبا نام رضا

جب مصیبت ‌میں پکارا ‌یا امام احمد رضا
سنتے ہی ، الٹے قدم بھاگی وبا ، نام رضا

درمیان حق و باطل کیوں تقابل ہم کریں
ہے کجا اشرف علی اور ہے کجا نام رضا

جب کسی نے مجھ سے پوچھا کون ہے حسان ہند
آگیا لب پر مرے بے ساختہ نام رضا

شر کے طوفانوں سے بچنے کے لیے” عینی” سدا
دے رہا ہے سنیوں کو حوصلہ نام رضا
۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

اعلی حضرت کا وعظ و بیان سے احتراز.. ✒️ تلمیذ محدث کبیر مفتی عبدالرشید امجدی اشرفی دیناجپوری خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت 7030786828


سیدی سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ وعظ و بیان سے بہت احتراز فرماتے تھے کبھی کوئی اہم موقع اور اہم دینی ضرورت و منفعت پیش نظر ہوتی تو وعظ و بیان فرماتے ورنہ عموماً سال بھر میں صرف مندرجہ ذیل تین تقریبات میں آپ کا نہایت عالمانہ و عارفانہ وعظ و بیان ہوا کرتا تھا
(1) جلسئہ دستار بندی (طلبئہ دارالعلوم منظر اسلام بمام مسجد بی بی محلہ بہاری پوری بریلی شریف)
(2) محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے آبائ مکان میں
(3) عرس حضرت خاتم الاکابر مارہروی اپنے مکان میں.
ان تینوں مواقع پر آپ کا مؤثر ایمان افروز روح پرور وعظ و بیان ہوا کرتا تھا
امام اہل سنت، سیدی اعلی حضرت رحمہ اللہ زیادہ وعظ نہ فرمایا کرتے- آپ کا معمول تھا کہ سال میں تین وعظ مستقلاً فرمایا کرتے تھے-
“ہر کسی کی تقریر نہیں سنتے تھے”حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اعلی حضرت کی عادت تھی کہ دو تین آدمیوں کے علاوہ کسی کی تقریر نہیں سنتے تھے؛ ان دو تین آدمیوں میں ایک میں بھی تھا- اعلی حضرت یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ “عموماً مقررین اور واعظین میں افراط و تفریط ہوتی ہے، احادیث کے بیان کرنے میں بہت سی باتیں اپنی طرف سے ملا دیا کرتے ہیں اور ان کو حدیث قرار دیا کرتے ہیں جو یقیناً حدیث نہیں ہیں- الفاظ حدیث کی تفسیر و تشریح اور اس میں بیان نکات امر آخر ہے اور یہ جائز ہے مگر نفس حدیث میں اضافہ اور جس شے کو حضور اکرم ﷺ نے نہ فرمایا ہو اس کو حضور ﷺ کی طرف نسبت کرنا یقیناً وضع حدیث ہے جس پر سخت وعید وارد ہے لہذا میں ایسی مجالس میں شرکت پسند نہیں کرتا جہاں اس قسم کی خلاف شرع بات ہو ” فتاوی رضویہ میں ہے
وعظ میں اور ہر بات میں سب سے مقدم اجازت اللہ و رسول ہے جل اللہ و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جو کافی علم نہ رکھتا ہو اسے واعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سننا جائز نہیں— ( فتاوی رضویہ جلد ٢٣ صفحہ ٣٧٩) منبر مسند نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جاہل اردو خواں اگر اپنی طرف سے کچھ نہ کہے بلکہ عالم کہ تصنیف پڑھ کر سنائے تو اس میں حرج نہیں جبکہ وہ جاہل فاسق مثلا داڑھی منڈہ وغیرہ نہ ہو کہ اس وقت وہ جاہل سفیر محض ہے اور حقیقت وعظ اس عالم کا جس کی کتاب پڑھی جائے اور اگر ایسا نہیں بلکہ جاہل خود بیان کرنے بیٹھے تو اسے وعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سننا حرام ہے اور مسلمانوں کو حق ہے بلکہ مسلمانوں پر حق ہے کہ اسے منبر سے اتار دیں کہ اس میں نہی منکر ہے اور نہی منکر واجب ہے — ( فتاوی رضویہ جلد ٢٣ صفحہ)
اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:واعظ(مقرر) کے لئے (چار شرائط ہیں)
پہلی شرط: یہ ہے کہ مسلمان ہو،
دوسری شرط۔ اہل سنت
تیسری شرط ۔۔عالم ہونا
چوتھی شرط۔ فاسق نہ ہونا

سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی نعت گوٸی پر مختلف دانشواران کے خیالات۔آصف جمیل امجدی [گونڈوی] نمائندہ روزنامہ شانِ سدھارتھ

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے روایتی خیالات و انداز بیان سے قطعِ نظر کرتے ہوۓ نعت کے میدان میں ایک نئی راہ نکالی اور اپنی تخیل کی ندرت اور اپنے بیان کی لطافت سے نعت کو جواب تک ایک مذہبی موضوع تھا ، ایک پروقار واہم صنف سخن بنا دیا ۔ ان کی نعت اپنے انفرادیت کی بنا پر اردوادب کا ایک مستقل سرمایہ بن گئی۔

پروفیسر محمد طاہر فاروقی ( صدرشعبۂ اردو پشاور یونیورسٹی ) کی راۓ ہے:
”اعلی حضرت عشق رسول میں ڈوبے ہوۓ تھے اور وہی جذبہ ان کی نعت گوئی کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے ۔اس لیے ان کے اشعار میں ”از دل خیزد بردل ریزد“ کا صحیح عکس نظر آ تا ہے۔“

مشہور محقق کالی داس گپتا رضا کہتے ہیں:
” اسلامی دنیا میں ان کے مقام بلند سے قطع نظر ان کی شاعری بھی اس درجہ کی ہے کہ انہیں انیسویں صدی کے اساتذہ میں برابر کا مقام دیا جاۓ۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے کامل صاحب فن اور مسلم الثبوت شاعر ہونے میں شبہ نہیں اور ان کی نعقیہ غزلیں تو مجتہدانہ درجہ رکھتی ہیں“

پروفیسر مجید اللہ قادری رقم طراز ہیں:
”امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہٗ فقیہ اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ بحیثیت شاعر بالکل منفرد مقام کے مالک ہیں۔“

پروفیسر خلیل الرحمن اعظمی کا خیال ہے
” امام احمد رضا محدث بریلوی کے کلام میں والہانہ سرشاری سپردگی اور سوز و گداز کی جو کیفیت ملتی ہے وہ اردو کے نعت گو شعرا میں اپنی مثال آپ ہے، وہ ہر ایک اعتبار سے بلند مرتبہ شاعر ہیں۔“

ڈاکٹر سراج احمد بستوی کی راۓ میں:
” حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی نے نعت کے فن میں عشق رسول کی سچی تڑپ اور کسک پیدا کر کے اس فن کو سرحد کمال سے آگے کا سفر کرادیا۔“

ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے خیال میں:
”ان کی شاعری کا محور حضورﷺ کی زندگی وسیرت تھی۔ مولانا صاحب شریعت بھی تھے اور صاحب طریقت بھی ۔ صرف نعت وسلام ومنقبت کہتے تھے اور بڑی دردمندی و دل سوزی کے ساتھ کہتے تھے۔“

سرکار اعلیٰ حضرت ایک شریف ، دیندار اور پڑھے لکھے خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ فطرت میں نیکی ، زہد وتقوی اور پاکیزگی جیسی خوبیاں رچی بسی تھیں۔ دل عشق رسول ﷺ سے سرشار اور ذہن و دماغ یادِ رسول سے معطر تھا ۔
لہذا ان کے قلم سے نکلا ہوا ہر شعر کیف و مستی اورسوز و گداز میں ڈوبا ہوا ہے۔

اصلاح معاشرہ میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری کا کردار.. از:محمّد شمیم احمد نوری مصباحی خادم: دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر (راجستھان)

بلاشبہ اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمة اللّٰہ تعالیٰ علیہ ایک انتہائی نابغۂ روزگار عالم دین اور عبقری شخصیت تھے، آپ کی پوری زندگی اسلام کے علمی اور روحانی اقدار کو زندہ کرنے اور لوگوں تک اسلام کا آفاقی پیغام پہنچانے اوراحقاق حق و ابطال باطل میں گزری – آپ کی دینی، علمی، فقہی، تحقیقی،تحریری وتصنیفی نیز اصلاحی خدمات کا اعتراف اپنےاور بیگانے سب نے کیا ہے ، اور آپ کی تحریروں، تصنیفات اور رشحات کو عالم اسلام تک پہنچانے میں مختلف جامعات کے اسکالرز اور بہت سی دینی تنظیموں اور ہمارے علمائے کرام نے بھرپور حصہ لیا- اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری محدث بریلوی علیہ الرحمہ چودہویں صدی کے مجدد اور امام تھے، ۱۰ شوال المکرم ۱۲۷۲ ہجری /۱۴ جون ۱۸۵۷ عیسوی کو بریلی شریف میں آپ کی ولادت ہوئی اور ۲۵ صفر ۱۳۴۰ ہجری/ ۱۹۲۱ عیسوی کو اس دنیائے فانی سے داربقاء کی طرف رحلت فرما گئے- اس ۶۸ سالہ مختصرعمر میں آپ نے احیا و تجدید دین کے حوالے سے جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ آب زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں- آپ کی عظیم الشان خدادادتصنیفی خدمات کو دیکھ کرآج بھی بڑے بڑے اصحاب علم و فضل انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں- آپ نے جہاں بہت سارے علوم و فنون پر تحقیق و تدقیق کا باضابطہ حق ادا کیا وہیں معاشرہ کی اصلاح اور قوم و ملت کے درمیان مروجہ خرابیوں کو دور کرنے کی جو کوششیں کی ہیں وہ بھی بے مثال ہیں- آپ نے اپنی تحریروں کے ذریعہ امت مسلمہ کی بے راہ روی، خرافاتی رسم ورواج،ہرطرح کے بدعات سئیہ وقبیحہ،اسلام کے نام پرغیرشرعی امورپر ترجیح اور جاھل صوفیوں کے بے جا طرز تکلم پر خوب قدغن لگائی ہے- اب آئیے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے دور میں پائی جانے والی جن بدعات و خرافات اور خلاف سنت روایات کا مقابلہ فرمایا اور اپنے دور میں جن اصلاحی اقدامات کو عملی جامہ پہنایا ان میں سے چند اصلاحی کوششوں کوہم یہاں بالاختصار درج کر رہے ہیں-

★نسب پر تفاخر: دور حاضر میں نسب پر فخر کرنے کی وبا عام ہے، ہر کوئی اپنے آپ کو نسب کے اعتبار سے بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس شرافت عرفی کو بنیاد بنا کر لوگ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو ذلیل سمجھتے ہیں- جب کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ اس سلسلے میں یہ ارشاد فرماتے ہیں “شرع شریف میں شرافت قوم پر منحصر نہیں- اللہ عزوجل فرماتاہے:انّ اکرمکم عنداللّٰه اتقٰکم[ تم میں زیادہ مرتبے والا اللّٰہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ تقویٰ رکھتا ہے] ہاں! دربارۂ نکاح اس کا ضرور اعتبار رکھا جائے گا”-( فتاویٰ رضویہ ج/۵ ص/۲۹۵)
“اگر کوئی چمار بھی مسلمان ہو تو مسلمان کے دین میں اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھنا حرام اور سخت حرام ہے- وہ ہمارا دینی بھائی ہوگا”(ایضاً ص/۲۹۴)
★کفار کے میلوں میں جانا: ہندوؤں کے میلوں مثلا دسہرہ اور دیوالی وغیرہ میں جانے کے بابت اعلیٰ حضرت سے سوال کیا گیا کہ ہنود کے میلوں میں جانا کیسا ہے؟ کیا تجارت پیشہ لوگوں کا بھی جانا ممنوع ہے؟ تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ “ان کا میلہ دیکھنے کے لیے جانا مطلقاً ناجائز ہے، اگر ان کا مذہبی میلہ ہے جس میں وہ اپنے مذہبی نقطۂ نظر سے کفر و شرک کریں گے، کفر کی آواز سے چلائیں گے تو ظاہر ہے ایسی صورت میں جانا سخت حرام ہے،اور اگر مذہبی میلہ نہیں ہے، لہو و لعب کا ہے جب بھی نا ممکن منکرات وقبائح سے خالی ہو،اور منکرات کاتماشہ بناناجائز نہیں- اور اگر تجارت کے لیے جائے تو اگر میلہ ان کے کفر و شرک کا ہے تو جانا ناجائز و ممنوع کہ اب وہ جگہ ان کا معبد ہے اور معبدکفار میں جانا گناہ ہے-اور اگر لہو ولعب کاہے تو خود اس سے بچے-ہاں! ایک صورت جواز مطلق کی وہ یہ کہ عالم انہیں ہدایت اور اسلام کی دعوت کے لیے جائے-جب کہ اس پر قادر ہو-یہ جانا حسن و محمود ہے- اگرچہ ان کا مذہبی میلہ ہو، ایسا تشریف لے جانا خود حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بارہا ثابت ہے”(عرفان شریعت حصہ/۱ ص/۲۶،۲۷ ملخصاً)
★محرم و صفر میں نکاح: کچھ مسلمانوں میں یہ بات مشہور ہے کہ محرم اور صفر کے مہینے میں شادی نہیں کرنا چاہیے اس تعلق سے اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں “نکاح کسی مہینے میں منع نہیں ہے، یہ غلط مشہور ہے” (الملفوظ حصہ اول ص/۳۶)
★طاقوں ودرختوں پر شہید مرد: بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں درخت پر شہید مرد رہتے ہیں اور اس درخت اور طاق کے پاس جا کر ہر جمعرات کو چاول، شیرینی وغیرہ فاتحہ دلاتے ہیں، ہار لگاتے ہیں، لوبان سلگاتے ہیں اور مرادیں مانگتے ہیں اس بابت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی نے ارشاد فرمایا کہ: “یہ سب واہیات خرافات اور جاہلانہ حماقت اور بطالت ہیں،ان کاازالہ لازم”(احکام شریعت حصہ اول،ص/۱۳)
★فرضی قبروں کا حکم: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی نے فرضی اور مصنوعی قبر کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا: “قبر بلا مقبور کی زیارت کی طرف بلانا اور اس کے لیے وہ افعال [چادریں چڑھانا وغیرہ] کرانا گناہ ہے”(فتاویٰ رضویہ ج/۴ ص/۵۱۱)
” فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا، ناجائز و بدعت ہے، اور خواب کی بات خلاف شرع امور میں مسموع نہیں ہوسکتی”(حوالۂ سابقہ)
اور ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں کہ “جس قبر کا یہ بھی حال معلوم نہ ہو کہ یہ مسلمان کی ہے یا کافر کی-اس کی زیارت کرنی، فاتحہ دینی ہرگز جائز نہیں کہ قبر مسلمان کی زیارت سنت ہے اور فاتحہ مستحب، اورقبر کافر کی زیارت حرام ہے اور اسے ایصال ثواب کاقصد کفر… توجوامرسنت وحرام یا مستحب وکفر میں متردد ہو وہ ضرور حرام و ممنوع ہے” (فتاویٰ رضویہ جلد /۴ ص/ ۱۴۱)
★مزار کی چادریں: عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ایک ہی مزار پر روزانہ بیسیوں چادریں چڑھا دیتے ہیں ،اعلیٰ حضرت نے نہ صرف یہ کہ ایسے لوگوں کو درست طریقہ بتایا بلکہ ان چادروں کا صحیح مصرف بھی یوں ارشاد فرمایا: “جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے، بلکہ جو دام اس میں صرف کریں، اللہ تعالی کے ولی کی روح کو ایصال ثواب کے لئے محتاج کودیں” (احکام شریعت حصہ اول ص/۶۲)
★عورتوں کامزارات اولیاء پر جانا: عورتوں کے مزارات اولیاء اور عام قبروں پر جانے کے بارے میں سوالات کے جواب میں ارقام فرمایا:”عورتوں کے مزارات اولیاء،مقابر عوام دونوں پر جانے کی ممانعت ہے”(احکام شریعت دوم ص/۱۸) …اصح[زیادہ صحیح] یہ ہے کہ عورتوں کو قبروں پر جانے کی اجازت نہیں” (فتاویٰ رضویہ جلد/۴ص/۱۶۵)
★شادی کی رسمیں آج کل شادیوں میں طرح طرح کی غلط رسم و رواج عام ہو گئی ہیں- وہ مسلمان جو مغربی تہذیب و تمدن کا دیوانہ ہو گیا ہے ان رسموں کو بجا لانا اپنے لئے فخر سمجھتا ہے جب کہ اعلیٰ حضرت اس بابت فرماتے ہیں کہ” آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب براءت میں رائج ہیں بے شک حرام اور پورا حرام ہے- اسی طرح یہ گانے باجے کہ ان بلاد میں معمول ورائج ہیں بلاشبہ ممنوع و ناجائز ہیں- جس شادی میں اس طرح کی حرکتیں ہوں مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس میں ہرگز شریک نہ ہوں- اگر نادانستہ شریک ہوگئے تو جس وقت اس قسم کی باتیں شروع ہوں یا ان لوگوں کا ارادہ معلوم ہو تو سب مسلمان مرد اور عورتوں پر لازم ہے فوراً اسی وقت [محفل سے] اٹھ جائیں ” (فتاویٰ رضویہ/ھادی الناس ص/۳)
★تاش وشطرنج کھیلنا: “یہ سب کھیل ممنوع اور ناجائز ہیں اور ان میں چوسر اور گنجفہ بدتر ہیں- گنجفہ میں تصاویر ہیں اور انہیں عظمت کے ساتھ رکھتے ہیں اور وقعت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یہ اس امر کے سبب سخت گناہ کا موجب ہے” (فتاوی رضویہ ج/۱۰ ص/۴۴)
★سیاہ خضاب: اعلیٰ حضرت سے سوال کیا گیا کہ سیاہ خضاب لگانا جائز ہے یا نہیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: “سرخ یا زرد خضاب اچھا ہے اور زرد بہتر، اور سیاہ خضاب کوحدیث میں فرمایا:”کافر کا خضاب ہے”… دوسری حدیث میں ہے اللّٰہ تعالیٰ روزقیامت اس کامنہ کالا کرے گا-یہ حرام ہے-جواز کافتویٰ باطل ومردود ہے”(احکام شریعت اول ص/۷۲)
★کھڑے ہوکر پیشاب کرنا: آج کل مغربی تہذیب سے متاثر موڈرن مزاج کے نوجوان لیڈر کہلانے والے نام نہاد مسلمان اونٹ کی طرح کھڑے ہو کر پیشاب کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جب کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کے بارے میں اعلیٰ حضرت سے جب استفسار کیاگیا توآپ نے فرمایا: “کھڑے ہو کر پیشاب کرنا مکروہ ہے اور طریقۂ نصاریٰ ہے- رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں: بے ادبی و بد تہذیبی یہ ہے کہ آدمی کھڑے ہو کر پیشاب کرے” (فتاویٰ افریقہ ص/۹)
★مردوں کاجٹادھاری چوٹی رکھنا: آج کل کچھ لوگ جو اپنے آپ کو صوفی اور فقیری لائن کا کہتے ہیں ان لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ لمبی لمبی چوٹی رکھ لیتے ہیں جب کہ اعلیٰ حضرت ایسے لوگوں کی اصلاح کی غرض سے فرماتے ہیں کہ “مرد کو چوٹی رکھنا حرام ہے اگرچہ بعض فقیر رکھتے ہیں – کیونکہ حدیث میں آیا ہے: اللّٰہ کی لعنت ہے ایسے مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت رکھتے ہیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت پیدا کریں” (الملفوظ حصہ دوم)
تندرست کابھیک مانگنا: دور حاضر میں میں بہت سے ایسے نام نہاد فقیر اور جوگی ہیں جو تندرست اور اعضاء وغیرہ صحیح سالم ہونے کے باوجود بھیک مانگتے نظر آتے ہیں جب کہ اگر وہ چاہیں تو محنت اور مزدوری کے ذریعہ اپنی ضروریات کی تکمیل کر سکتے ہیں، ایسے لوگوں کے تعلق سے اعلیٰ حضرت ارشاد فرماتے ہیں “قوی تندرست، قابل کسب جو بھیک مانگتے پھرتے ہیں ان کو دینا گناہ ہے اور ان کا بھیک مانگنا حرام،اور ان کو دینے میں حرام پر مدد- اگر لوگ نہ دیں تو جھک ماریں اور کوئی حلال پیشہ اختیار کریں”( الکشف شافیہ ص/۸۹)
اور تحریر فرماتے ہیں “بے ضرورت شرعی سوال کرنا حرام ہے اور جن لوگوں نے باوجود قدرت کسب بلاضرورت سوال اپنا پیشہ بنا لیا ہے وہ جو کچھ اس سے جمع کرتے ہیں سب ناپاک و خبیث ہے، اور ان کا یہ حال جان کر ان کے سوال پر کچھ دینا داخل ثواب نہیں بلکہ ناجائز و گناہ، اور گناہ میں مدد کرنا ہے- جب انہیں دینا ناجائز تو دلانے والا بھی داعی علی الخیر نہیں بلکہ داعی علی الشر ہے” (فتاویٰ رضویہ ج/۴ ص/۴۹۸)
★ضروریات دین کے منکر کا حکم: فی الواقع جو بدعتی [بدمذہب] ضروریات دین میں سے کسی شئے کا منکر ہو باجماع مسلمین قطعاً کافر ہے، اگرچہ کروڑ بار کلمہ پڑھے، پیشانی اس کی سجدے میں ایک ورق ہو جائے- بدن اس کا روزوں میں ایک خاکہ رہ جائے، عمر میں ہزار حج کرے، لاکھ پہاڑ سونے کے راہ خدا میں دے… لاواللّٰه، ہرگز ہرگز کچھ قبول نہیں، جب تک حضور پرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ان تمام ضروری باتوں میں جو وہ اپنے رب کے پاس سے لائے تصدیق نہ کرے”(اعلام الاعلام بانّ ہندوستان دارالاسلام مطبوعہ:بریلی ۱۳۴۵،ص/۱۵)
حاصل کلام یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت،مجدداعظم الشاہ امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی قدس سرہٗ نے فرد اور معاشرے میں پائی جانے والی ہر طرح کی برائیوں، خرابیوں، بدعتوں، فضول وبے جااور بے ہودہ رسموں اور خلاف شرع رواجوں کی اصلاح میں خوب خوب تگ ودو فرمائی جیسا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے مندرجہ بالا چند فرمودات، تحریرات وارشادات وفتاویٰ سے یہ بات بالکل آشکارا ہے-
بارگاہ مولیٰ تعالی میں دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بھی اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے اصلاح معاشرہ کی توفیق مرحمت فرمائے- آمین بجاہ سید المرسلین [صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم]

“چودہویں صدی کے عظیم مجدد”اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ.. تلمیذ محدث کبیر خلیفہ حضور شیخ الاسلام و المسلمین و ارشد ملت مفتی عبدالرشید امجدی‌اشرفی دیناجپوری خادم ۔۔ تنظیم پیغام سیرت مغربی بنگال مسکونہ کھوچہ باری رام گنج اسلام پور بنگال 7030786820


حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏ إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا (یقینًا اﷲ تعالٰی اس امت کے لیے ہرسو برس پر ایک مجدد بھیجتا رہے گا جو ان کا دین تازہ کرے گا
“مجدد”_ مجدد کا مطلب ہے دین میں تجدید کرنے والا دین کے مزاج نکھار نے والا امت کو بھولے ہوئے احکام شریعہ کی یاد دلانے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مردہ سنتوں کو زندہ کرنے والا۔ مجدد نائب نبی ہوتا ہے مجدد نائب رسالت ہوتا ہے اسلئے مجدد کی ذمہ داری وہی ہوتی ہے جن ذمہ داریاں کو انبیاء کرام پورا کرتے ہیں مجدد جس دور میں آتا ہے اس دور کے سارے حالات پر اسکی نظر ہوتی ہے اور جہاں سے گمراہی آپنا منھ کھولتی ہو وہی سے گمراہیاں کی آپریشن کرتا ہے مذکورہ بالا حدیث پاک کی رہنمائ کے مطابق جب ہم چودہویں صدی پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک ایسا مجدد نظر آتا جو چاند کی طرح اپنی شان میں و علم میں چمکتا ہےہر ایک علم و فن میں اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دین کے اس مجدد کو وہ بلند مقام عطا فرمایا جسکے سامنے بڑے بڑے علماء کرام سرخم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو جانتے ہیں اس مجدد کا نام کیا ہے ہم سے سنو اس مجدد کا نام اعلی حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، ولی نِعمت ، عظیمُ البَرَکت، عَظِیمُ المَرْتَبت، پروانہِ شمعِ رِسالت ، مُجَدِّدِ دِین ومِلَّت، حامیِ سُنّت، ماحِی بِدعت، عَالِمِ شَرِیْعَت، حضرتِ علامہ مولٰینا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے مَحَلّہ جَسولی میں ۱۰ شَوَّالُ الْمُکَرَّم ۱۲۷۲ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق ۱۴ جون ۱۸۵۶ کو ہوئی۔ سِنِ پیدائش کے اِعتبار سے آپ کا تاریخی نام اَلْمُختار (۱۲۷۲ھ) ہے آپ کا نامِ مبارَک محمد ہے، اور آپ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔امام جلالُ الدّین سیوطی شافعی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : کسی بزرگ کے مُجَدِّد ہونے کا فیصلہ ان کے ہم زمانہ عُلما کے بیان سے ہوتا ہے جو ان بزرگ کی دینی خدمات اور ان کے علم سے لوگوں کو پہنچنے والا فائدہ دیکھ کر اپنے غالب گمان کے مطابق انہیں مُجَدِّد قرار دیتے ہیں۔ حضور مفتی شریفُ الحق امجدی  رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں : کسی کے مُجَدِّد ہونے پر اب کوئی دلیلِ مَنصُوص نہیں ہوسکتی ، وحی کا سلسلہ مُنْقَطِع ہے۔ اب یہی دلیل ہے کہ اس عَہْد کے علما ، عوام ، خَواص جسے مُجَدِّد کہیں وہ مُجَدِّد ہے صرف غیر منقسم ہندوستان ہی نہیں بلکہ مکۂ مکرّمہ ، مدینۂ منوّرہ ، شام ، مصر اور یمن وغیرہ کئی ممالک کے اکابر علمائے کرام ، مفتیانِ عظام اور شُیُوخُ الحدیث نےامامِ اہلِ سنّت کی علمی و دینی خدمات کا اعتراف کیا اور آپ کو مُجَدِّد قراردیا۔ تفصیل جاننے کے لئے حُسَّام ُ الْحَرَمَین اور اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیَّۃ وغیرہ امامِ اہلِ سنّت کی کتابوں پر عرب دنیا کے عُلمائے کرام کی تَقریظات کا مطالعہ فرمائیں خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا ظفر الدین بہاری  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : یہ بات سورج سے زیادہ روشن ہے کہ امامِ اہلِ سنّت کے زمانے کے علما و مشہور شخصیات نے آپ کے عُلوم سے لوگوں کو پہنچنے والا فائدہ دیکھ کر آپ کو مُجَدِّد مانا۔ سب سے پہلے 1318ھ میں پٹنہ شہر میں منعقدہ ایک عظیم اجلاس جس میں اس وقت کے تمام اکابرِ اہلِ سنّت موجود تھے ، اسی اجلاس میں خانقاہِ قادریہ بدایوں شریف کے سجّادہ نشین مُطیعُ الرّسول مولانا شاہ عَبْدُ الْمُقْتَدِر صاحب قادری  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے امامِ اہلِ سنّت کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا : جناب عالمِ اہلِ سنّت ، مُجَدِّدِ مائۃ حاضرۃ (موجودہ صدی کے مُجَدِّد) مولانا احمد رضا خان صاحب۔ یہ ارشاد سُن کر تمام علما نے قبول فرمایا ، کسی نےرد و انکار نہیں فرمایا۔ یہ حقیقت میں ہندوستان کے علمائے اہلِ سنّت کا اس پر اجماع ہے کہ 14ویں صدی کےمُجَدِّداعلیٰ حضرت ہیں۔ علامہ اسماعیل حقی رحمتہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مجدد اسلامی صدی کے آخری حصے میں پیدا ہو اور صدی کے آغاز میں اس کا کام بطور مجدد شروع ہو چکا ہو۔ جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی ولادت تریسٹھ (63 ہجری)، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اسی (80 ہجری)، غوث الا عظم حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ (470 ہجری)، حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ (971 ہجری) اور امام اہلسنت سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (1272ہجری)۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قادری رحمۃ اللہ علیہ کے مجدد ہونے پر علمائے اہل السنہ والجماعت کا اجماع ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ چودہویں صدی کے مجدد ہیں _مجدد مجدد کو اپنی صداقت کا ثبوت اپنے عزم و استقلال اور کام کی انجام دہی سے دینا ہوتا ہے۔ مجدد کے لیے اپنی مجددیت کا اعلان کرنا لازم نہیں ہوتا بلکہ اس کے ہم عصر علما و صوفیا اس کے علم و فضل اور تجدیدی کام کو دیکھ کر اس کے مجدد ہونے کا حکم لگا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مجددین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی تجدیدی کوششوں کو ان کی زندگی میں معلوم نہ کیا جا سکا بلکہ بعد میں آنے والے علما نے ان کے مجدد ہونے کی تصدیق کی۔ دین میں بدعات کو ختم کر کے روشن سنت کو تازہ کر دینے کا نام تجدید ہے اور اس کام کو سر انجام دینے والی ہستی کو مجدد کہتے ہیں جو بالفاظ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیا جاتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ کوئی شخص اپنی ذاتی کوششوں یا اپنی جماعت کے پروپیگنڈے کے زور پر مجدد کے مرتبہ پر فائز نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ وہ علم و فضل ،فقاہت، علم اور کشف وکرامت میں اعلیٰ مقام کیوں نہ رکھتا ہو، مجدد کے فرائض میں سے ہے کہ وہ کتاب و سنت کے مطابق ان اعمال کو زندہ کرے جو متروک ہو چکے ہوں، افراط و تفریط، تحریفات و تاویلات اور بدعات سے دین کو پاک کرے، حق و باطل میں تمیز کرا کے دین کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور کے مطابق بنائے، اس کے ساتھ ساتھ اپنے روحانی فیضان سے لوگوں کو مستفیض کرے۔

مزارات اولیا اور تعلیمات اعلی حضرت، از: محمد مقصود عالم قادری اتر دیناجپور مغربی بنگال


اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسی ہمہ گیر،نابغئہ روزگار اور عبقری شخصیت کا نام ہے جس نے اپنی 65 سالہ مختصر سی زندگی میں امت مسلمہ کی رہنمائی کے لئے تقریبا 65 علوم و فون پر مشتمل ایک ہزار کتب و رسائل تصنیف فرمائی ،جس وقت چند ایمان فروش مولوی اللہ عزوجل اور اس کے پیارے حبیبﷺ کی شان و عظمت میں گستاخیاں کر کے طرح طرح کے فتنے برپا کرنے لگے اس وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دلائل و براہین کی روشنی میں درست عقائد و نظریات کی رہنمائی بھی فرمائی اور عشق رسالت کی ایسی شمع فروزاں کی کہ جس کی لو قیامت تک نہیں بجھے گی،
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے کنزالایمان اور فتاویٰ رضویہ جیسی عظیم الشان نعمت سے نواز کر امت پر احسان عظیم فرمایا، علاوہ ازیں آپ نے امت کو ایسے ایسے نایاب تحفے عطا کیے کہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جاۓ گا
جب لوگ سنتوں کی روشنی سے دور اور بدعتوں کے اندھیروں میں بھٹکنے لگے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام بدعتوں کو جڑ سے ختم کیا اور ترک شدہ سنتوں کو زندہ کیا یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ الرحمة کو ماحئ بدعت (بدعت کو مٹانے والا ) حامئ سنت (سنت کی حمایت کرنے والا )کے لقب سے موسوم کیا جاتا ہے
جب لوگ اپنی جہالت کی بنا پر مزارات اولیا پرخرافات و منکرات کا بازار گرم کرنے لگے تو اعلی حضرت علیہ الرحمة نے ایسے لوگوں کی انتہائی تردید فرمائی اور تمام تر خرافات کے خلاف قلمی جہاد فرمایا
مزارات اولیا اور اعراس کے متعلق اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی چند گراں قدر تحقیقات ہم قارئین کی نظر نواز کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں
مزارات کے آگے سجدہ کرنا
بعض نادان قسم کے لوگ مزارات اولیا کو چومنے میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں کہ سجدے کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ایسے لوگ اگر اعلی حضرت علیہ الرحمة کی تعلیمات سے آشنا ہوتے تو ہرگز یہ قبیح عمل انجام نہ دیتے ، اعلی حضرت علیہ الرحمة نے اس مسئلے کے متعلق ایک مستقل کتاب تصنیف فرمائی

اس میں فرماتے ہیں:
” مسلمان اے مسلمان! اے شریعت مصطفویﷺ کے تابع فرمان! جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزّ جلالہ کے سوا کسی کے لئے نہیں- اس کے غیر کو سجدۀ عبادت یقیناً اجماعاً شرک مبین اور کفر مبین اور سجدہ تحیت (ادب کے لئے سجدہ کرنا )حرام و گناہ کبیرہ بالیقین”
(الزبدة الزکیہ لتحریم سجود التحیة ص 5 مجلس آئ ٹی ،دعوت اسلامی)
مزارات پر عورتوں کا جانا
آج کل مزاروں میں عورتوں کی تعداد مردوں سے دگنی رہتی ہے، بعض عورتیں تو بےپردہ ہو کر چلی جاتی ہیں،مرد و عور ت کا اختلاط ہوتا ہے اور پھر وہاں کے خدام عورتوں کے سر اور بدن پر ہاتھ اور جھاڑو پھیر تے ہیں ،اور بھی طرح طرح کی برائیاں جنم لیتی ہیں ،
جب اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ علیہ الرحمة نے فرمایا: “عنیہ میں ہے” کہ یہ نہ پوچھ کہ عورتوں کا مزار میں جانا جائز ہے یا نہیں بلکہ یہ پوچھ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے اللہ عزو جل کی طرف سے اور صاحب قبر کی جانب سے -جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اور جب تک وہ واپس آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں ” سواۓ روضہ انورﷺکے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں “(ملفوظات اعلیٰ حضرت2 /315 مکتبة المدینہ)
مزارات میں چراغ وغیرہ جلانا کیسا ہے؟
اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:” کہ خاص قبر پر چراغ رکھنا تو مطلقاً ممنوع ہے اور اولیاۓ کرام کے مزارات میں اور زیادہ ناجائز ہے اس میں بے ادبی اور گستاخی اور حق میت میں تصرف و دست اندازی ہے “(احکام شریعت ۶۸/۱ جسیم بکڈپو جامع مسجد دھلی) اور اگر اس ارادے سے چراغ جلاتے ہیں کہ اس سے میت کو روشنی پہونچے گی ورنہ اندھیرے میں رہے گا تو فرماتے ہیں کہ “اب اسراف کے ساتھ اعتقاد بھی فاسد ہوا” (ایضاً ۶۹)
ایک جائز ہونے کی صورت یوں بیان کرتے ہیں کہ:” تالیان قرآن یا ذاکران رحمٰن کے لئے روشن کریں ،قبر سر راہ ہو اور نیت یہ کی جاۓ کہ گزرنے والے دیکھیں اور سلام و ایصال ثواب سے خود بھی نفع پائیں اور میت کو بھی فائیدہ پہونچائیں -یا وہ مزار ولی یا عالم دین کا ہے روشنی سے نگاہ عوام میں اس کا ادب و اجلال پیدا کرنا مقصود ہے تو ہرگز ممنوع نہیں
نوٹ:چونکہ آج کل مزارات میں روشنی اور لائٹ وغیرہ کا معقول انتظام رہتا ہے تو اب چراغ وغیرہ جلانا بے سود ،اسراف اور فضول خرچی ہے
فرضی مزار کے بارے میں حکم
کچھ لوگ محض ایک خواب کی بنیاد پر فرضی اور مصنوعی مزار بنا لیتے ہیں اور دھوم دھام کے ساتھ اس میں عرس،فاتحہ، نیاز اور چادروغیرہ چڑھانے لگتے ہیں،اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ ایسے مزار کے بارے میں حکم ارشاد فرماتے ہیں:”قبر بلا مقبور(فرضی قبر)کی زیارت کی طرف بلانا اور اس کے لیے وہ افعال( چادریں چڑھانا، نیاز فاتحہ اور عرس وغیرہ )کرنا گناہ ہے، فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے اور خواب کی بات خلاف شرع امور میں مسموع (سننے کے لائق )نہیں ہو سکتی، (امام احمد رضا اور ان کی تعلیمات ص 23)
طواف اور بوسئہ قبر
اس بارے میں جب آپ رحمتہ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا تو جواب میں ارشاد فرمایا :” بلاشبہ غیر کعبہ معظمہ کا طواف تعظیمی ناجائز ہے اور بوسئہ قبر میں علما کا اختلاف ہے اور احوط (زیادہ احتیاط)منع ہے خصوصاً مزارات طیبہ اولیائے کرام کے ہمارے علماءنے تصریح فرمائی ہے کہ کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے سے کھڑا ہو یہی ادب ہے”(احکام شریعت ۳/ ۲۳۴)
عرس وغیرہ میں مزامیر کے ساتھ قوالی گانا
آج بہت سے مزاروں میں سالانہ عرس وغیرہ کے موقع پر تلاوت قرآن،نعت خوانی اور علمائے کرام کے بیانات کے بجائے ڈھول اور سارنگی کے ساتھ قوالی کا اہتمام کرتے ہیں جس میں حمد، نعت و منقبت براہ نام،گانے کے طرز پر قوالی گاۓ جاتے ہیں بعض جگہوں پر تو لڑکیوں کو بھی قوالی گانے کے لئے بلایا جاتا ہے پھر دونوں فریقین کے درمیان گناہوں بھرا مقابلہ ہوتا ہے،
جب اعلی حضرت علیہ الرحمة سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ ایسے لوگوں کی مذمت کرتے یوۓ فرماتے ہیں کہ:”کہ ایسی قوالی حرام ہے -حاضرین سب گنہگار ہیں اور ان سب کا گناہ ایسا عرس کرنے والوں اور قوالوں پر ہے -اور قوالوں کا بھی گناہ عرس کرنے والے پر بغیر اس کے کہ عرس کرنے والے کے ماتھے قوالوں کا گناہ جانے سے قوالوں پر سے گناہ کی کچھ کمی آئے، یا اس کے اور قوالوں کے ذمہ حاضرین کا وبال پڑنے سے حاضرین کے گناہ میں کچھ تخفیف ہو-نہیں بلکہ حاضرین میں ہر ایک پر اپنا پورا گناہ ،اور قوالوں پر اپنا گناہ الگ،اور سب حاضرین کے برابر جدا ،اور ایسا عرس کرنے والے پر اپنا گناہ الگ اور قوالوں کے برابر جدا ،اور سب حاضرین کے برابرعلٰحیدہ،وجہ یہ ہی کہ حاضرین کو عرس کرنے والے نے بلایا،ان کے لئے اس گناہ کا سامان پھیلایا اور قوالوں نے انہیں سنایا،اگر وہ سامان نہ کرتا ،یہ ڈھول سارنگی نہ سناتے تو حاضرین اس گناہ میں کیوں پڑھتے-اس لئے ان سب کا گناہ ان دونوں پر ہوا -پھر قوالوں کے اس گناہ کا باعث وہ عرس کرنے والا ہوا- وہ نہ کرتا نہ بلاتا تو یہ کیوں کرآتے بجاتے- لہذا قوالوں کا بھی گناہ اس بلانے والے پر ہوا :”(احکام شریعت ۱ / ۲۳۴)
مزارات پر حاضری کا طریقہ
فی زمانہ لوگ تو مزرات میں ڈھیر ساری امیدیں لے کر حاضر ہوتے ہیں لیکن ان کو حاضری کا طریقہ اور آداب معلوم نہیں ہوتے ،یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ صاحب مزار کا روحانی فیضان سے محروم رہتے ہیں ،اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ مسنون طریقہ اور آداب یوں فرماتے ہیں کہ :”مزارات شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی کی طرف سے جائے اور کم از کم چارہاتھ کے فاصلہ پر مُواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسّط آواز بادب سلام عرض کرے:اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا سَیّدِی وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ پھر درودِ غوثیہ تین بار، الحمد شریف ایک بار ، آیۃُ الکرسی ایک بار ، سورۂ اخلاص سات بار ، پھر درودِ غوثیہ سات بار اور وقت فرصت دے تو سورۂ یٰسین اور سورۂ ملک بھی پڑھ کر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا کرے کہ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ! اس قراءت پر مجھے اتناثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے نہ اُتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اُسے میری طرف سے اس بندۂ خدامقبول کو نذر پہنچا پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو اُس کے لئے دعاکرے اور صاحبِ مزار کی روح کو اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قراردے ، پھر اُسی طرح سلام کرکے واپس آئے، مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ۔‘‘ (بنیادی عقائد اور معمولاتِ اہلسنت۱۰۶تا۱۰۸ مکتبة المدینہ)
یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوگئ کہ اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ مزارات اولیا میں ہونے والے خرافات کے سخت مخالف تھے،اس کے باوجود بھی اگر نادان عوام مزارات میں جاکر ایسے خرافات انجام دیں تو ان کا اعلی حضرت علیہ الرحمةاور ہمارے اکابرین سے کوئی تعلق نہیں ، افسوس صد افسوس !کہ آج کچھ دریدہ دہن اعلی حضرت کی تصنیفات کا مطالعہ کئے بغیر ان کے خلاف بلا کسی تحقیق کے اپنی کتابوں اور جلسوں میں یہ جملہ کہنے سے باز نہیں آتے کہ اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ نے بدعات اور خرافات و منکرات کو فروغ دیا ،،حالانکہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی ان خرافات کو ختم کرنے میں صرف کردی ،یا تو یہ لوگ اعلی حضرت کے فتاویٰ کا علم نہ ہونے یا معاذ اللہ جھوٹ یا بغض و حسد کی وجہ سے یہ جملہ بول کر اعلی حضرت پر الزام عائد کرتے ہیں لہذا ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ سچی توبہ کریں،
مذکورہ تعلیمات ان لوگوں کے لئے بھی درس عبرت ہے جو کہ اعلی حضرت سے خوب عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور مسلک اعلی حضرت کا نعرہ زور و شور سے لگاتے ہیں اور میدان عمل میں بہت پیچھے ہیں
اللہ تعالی ہم سب کو تعلیمات اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ پر مکمل عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ