WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category شرعی مسائل

زید نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ اگر شادی میں نکاح کے وقت لڑکی لڑکے سے کہے کہ آپکو جو تین طلاق دینے کا حق ہے اس میں ایک مجھے دےدو یا لڑکی دو مانگ لے اب کبھی بھی اگر شوہر نے بیوی کو طلاق دیا تو طلاق نہیں ہوگا، کیا یہ درست ہے؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

اسلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ

زید نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ اگر شادی میں نکاح کے وقت لڑکی لڑکے سے کہے کہ آپکو جو تین طلاق دینے کا حق ہے اس میں ایک مجھے دےدو یا لڑکی دو مانگ لے اب کبھی بھی اگر شوہر نے بیوی کو طلاق دیا تو طلاق نہیں ہوگا اگرچہ دس بار کہے کہ طلاق طلاق طلاق،جب تک کہ اسکی بیوی کے پاس جتنے طلاق ہے وہ خود نہ دے دے پھر آگے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ اسی طرح ایک بیوی طلاق لے لے اور ایک شوہر اور ایک قاضی امام پڑھانے والے کو شوہر دے دے اب کبھی طلاق اگر دینا ہوا تو ایک بیوی دیگی ایک شوہر اور جو ایک امام صاحب کے پاس ہے جب تک وہ نہیں دیں گے طلاق نہیں ہوگا، یہ بات کہاں تک درست ہے قرآن حدیث کی روشنی میں جواب عنایت کریں۔ علما کرام مدلل و تفصیلی جواب سے نوازیں

شہر عالم گجرات
👇☝🏻
الجواب بعون الملک الوھاب۔
نکاح کے وقت شوہر اپنی بیوی کو مشروط و غیر مشروط ،مؤقت و غیر مؤقت طلاق واقع کرنے کا حق دے دسکتا ہے ۔
ایسی صورت میں بیوی اپنے اوپر ایک طلاق ِرجعی واقع کرسکے گی ۔ مثال کے طور پر کسی اسٹامپ پیپر پر شرائط تحریر کردی جائیں اور پھر عقد ِ نکاح کے وقت اسکا تذکرہ کردیا جائے کہ مذکورہ شرائط کی خلاف ورزی کی صورت میں یا مطلقاً بیوی کو اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کا حق ہوگا البتہ بیوی کو طلاق کا حق دینے سے شوہر کا حق ِطلاق بدستور برقرار رہتا ہے اگر اسنے طلاق دیدی تو وہ واقع ہوجائیگی ۔
چنانچہ ہدایہ میں ہے :
الهداية في شرح بداية المبتدي – (1 / 240)
” ومن قال لامرأته طلقي نفسك ولا نية له أو نوى واحدة فقالت طلقت نفسي فهي واحدة رجعية…… ولو قامت عن مجلسها بطل…… وإن قال لها طلقي نفسك متى شئت فلها أن تطلق نفسها في المجلس وبعده (ص:۳۸۰ ج:۲)۔۔
التخريج
الدر المختار – (3 / 315)
قال لها اختاري أو أمرك بيدك ينوي تفويض الطلاق لأنها كناية فلا يعملان بلا نية أو طلقي نفسك فلها أن تطلق في مجلس علمها به مشافهة أو إخبارا.
الدر المختار – (3 / 331)
قال لها طلقي نفسك ولم ينو أو نوى واحدةأو اثنتين في الحرة فطلقت وقعت رجعية اھ۔اور فتاوی امجدیہ جلد دوم ص ٢٤٢۔پر ہے کہ معاہدہ تو معاہدہ اگر قسم بھی کھالیتا کہ طلاق نہ دونگا پھر طلاق دے دی تو واقع ہوگی۔اھ لہذا زید کی بات درست نہی بلکہ زید پر فرض ہے کہ اپنی بات سے رجوع و توبہ کرے۔۔واللہ تعالی اعلم۔
کتبہ۔احمدرضامنظری۔مدرس ۔المرکزالاسلامی دارالفکر بہراٸچ۔شریف۔١۔١۔١٩۔

کسی مسجد کے امام کے علاج کے لئے کیا گیا چندہ دوسری مسجد کے امام کے علاج میں خرچ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

سوال ایک امام صاحب جو کافی بیمار ہیں ان کے علاج ومعالجہ کے لئے اجتماعی رقم اکٹھا کی گئی. انکے علاج کے لیے رقم کافی ہوگئی اور بچ بھی گئی
اسی دوران دوسرے امام کے بیماری کی اطلاع ملی اب سوال یہ ہے کہ بچی ہوئی رقم امام ثانی کے علاج میں خرچ کرسکتے ہیں یا نہیں جبکہ امام ثانی امام اول سے زیادہ تعاون کے مستحق ہیں. جواب عنایت فرمائیں
محمد رضوان الرضوی بہرائچی
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔ جس نیک کام کے لۓ چندہ کیا گیا ہے دیانت کے ساتھ اسی میں صرف کیا جاۓ اگر کام کرنے کے بعد بھی کچھ رقم بچ گئ تو چندہ دینے والوں کو واپس کردے یا پھر جس نیک کام کی اجازت چندہ دہنگان دیں اس میں خرچ کرے بلا اجازت چندہ دہندگا اس رقم کو دوسرے کام میں صرف کرنا اگرچہ وہ بھی کار قربت ہو جائز نہیں
۔سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”چندہ کا روپیہ چندہ دینے والوں کی ملک رہتا ہے جس کام کے لئے وہ دیں جب اس میں صرف نہ ہو تو فرض ہے کہ انھیں کو واپس دیا جائے یا کسی دوسرے کام کے لئے وہ اجازت دیں ان میں جو نہ رہا ہو ان کے وارثوں کو دیا جائے یا ان کے عاقل بالغ جس کام میں اجازت دیں،ہاں جو ان میں نہ رہا اور ان کے وارث بھی نہ رہے یا پتا نہیں چلتا یا معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس کس سے لیا تھا ،کیا کیا تھا،وہ مثل مال لقطہ ہے،مصارف خیر مثل مسجد اور مدرسہ اہل سنت و مطبع اہل سنت وغیرہ میں صرف ہو سکتا ہے۔ (فتاوی رضویہ ج 16 ص247. مطبوعہ رفاونڈیشن۔)
(فتاوی امجدیہ ج 3 ص 42.) لہذا اگر چند دہنگان اجازت دے دیں تو امام ثانی کو دینا جائز ہے ۔
واللہ تعالی اعلم
۔کتبہ احمد رضا قادری منظری۔

کیا زید اپنی فوت شدہ بیوی کے بہن کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے؟؟ از قلم احمد رضا قادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ

بعدہٗ سوال عرض یہ ہے کہ

کیا زید اپنی فوت شدہ بیوی کے بہن کی بیٹی سے نکاح کر سکتا ہے

قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرما کر مشکور ہوں

سائل
محمدشاہدرضابرکاتی بہرائچی
ساکن سالارپورباباگنج تحصیل نانپارہ ضلع بہرائچ شریف یو پی
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب۔بیوی کے انتقال کے بعد ان کی بھانجی یا بھتیجی کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے ، شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ مستفاد: ماتت امرأتہ لہ التزوج بأختہا بعد یوم من موتہا کما فی الخلاصة عن الأصل الخ (درمختار مع الشامی: ۴/۱۱۶، ط:(فصل فی المحرمات) ۔واللہ تعالی اعلم
کتبہ۔احمدرضا قادری منظری۔
17.9.21

ہر فرض نماز کے سلام پھیر نے کے بعد سر پر ہاتھ رکھ کر ۔یاقوی یاقوی۔ جو پڑھتے ہیں کیا یہ حدیث یا کوٸی معتبر کتاب سے ثابت ہے؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے مفتیان عظام مسٸلہ ذیل میں کہ ہر فرض نماز کے سلام پھیر نے کے بعد سر پر ہاتھ رکھ کر ۔یاقوی یاقوی۔ جو پڑھتے ہیں کیا یہ حدیث یا کوٸی معتبر کتاب سے ثابت ہے اور اس کا پڑھنا کیا ہے اور آیتہ الکرسی کا پڑھنا کیا ہے واجب ہے یا سنت ہے یا مستحب ہے دونوں میں سے کونسا پڑھنا زیادہ معتبر ہے

محمداختررضا مدھےپورہ بہار
👌🏻👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔ قويٌّ اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اور اسمائے حسنیٰ کی تاثیر اور ان کے ذریعہ قبولیتِ دعاء احادیث سے ثابت ہے۔ أسماء اللہ الحسنیٰ التي أمرنا بالدعاء بھا (بخاری ومسلم) وفي لفظ ابن مردویة وأبي نعیم: من دعا بھا استجاب اللہ دعاءہ۔ اور بوقت دعا و ذکر سر پر ہاتھ رکھنا بھی حدیث سے ثابت ہے اور نماز کے بعد بھی وروینا في کتاب ابن السني عن أنس -رضي اللہ عنہ- قال: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا قضی صلاتہ مسح جبھتہ بیدہ الیُمنی ثم قال: أشھد أن لا إلٰہ إلا اللہ الرحمن الرحیم اللھم أذھب عني الھمّ والحزن (کتاب الأذکار للنووي:ص63)
نیز آیت الکرسی بعدنماز پڑھنے کے تعلق سے احادیث میں مذکور ہے کہ جس نے فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لی وہ مرتے ہی جنت میں داخل ہوگا، مزید کہ دوسری نماز تک اللہ رب العزت کے حفظ امان میں رہےگا، اللہ عزوجل ایسے بندے کی روح اپنے دست قدرت سے قبض فرماےگا،
فرض نماز کے بعد آیت الکرسی، کلمہ، تسبیح اور استغفار پڑھنا احادیث پاک سےثابت ہے
” عن ابی امامۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، من قراء آیۃ الکرسی فی دبر کل صلاۃ مکتوبۃ لم یمنعہ من دخول الجنۃ الا ان یموت “
(السنن الکبری للنسائی:44/9 )
عن عبداللہ ابن حسن بن حسن عن ابیہ عن جدہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، من قراء آیۃ الکرسی فی دبر الصلاۃ المکتوبۃ کان فی ذمۃ اللہ الی الصلاۃ الاخری “
(المعجم الکبیر للطبرانی :83/3 )

عن ثوبان، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا انصرف من صلاته استغفر ثلاثاً وقال: «اللهم أنت السلام ومنك السلام، تباركت ذا الجلال والإكرام» قال الوليد: فقلت للأوزاعي: ” كيف الاستغفار؟ قال: تقول: أستغفر الله، أستغفر الله
(مسلم شریف :414/1) *والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
21/ ذی الحجہ /1443 ھ

جانور کی کھال کے پیسے مسجد کے خاص ذمہ دار کو دیں اگر وہ اس پیسے سے امام یا مؤذن کی کسی ذاتی ضرورت کو پورا کر دیں تو کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب کی بارگاہ میں عرض ہے کہ جانور کی کھال کے پیسے مسجد کے خاص ذمہ دار کو دیں اگر وہ اس پیسے سے امام یا مؤذن کی کسی ذاتی ضرورت کو پورا کر دیں تو کیا یہ طریقہ صحیح ہے کیونکہ لوگ مسجد کے ذمہ دار کو پیسے اس لیے دیتے ہیں کہ یہ مسجد کے اخراجات کو پورا کریں

پوچھنا یہ ہے کیا اس پیسے سے امام یا مؤذن کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں یا نہیں؟
مفتی صاحب جواب عنایت فرما دیں آپکی عین نوازش ہوگی۔(محمد یاسر)
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔واضح رہے کہ امامِ مسجد کو تنخواہ یا وظیفے کے طور پر کھال دینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر تنخواہ یا وظیفہ علیحدہ سے مقرر ہو، اور محض اس کو عالم یا حافظ سمجھ کر کھال ہدیہ کی جائے، تو یہ جائز ہے، بلکہ ایسے علماء اور حفاظ اگر محتاج ہوں، تو ان کی امداد کرنا باعث فضیلت ہے۔جیسا کہ فتاوی فیض الرسول ج دوم 478 ص میں کہ مسجد کے اماموں کو بطور نزرانہ چرم قربانی دینا جائز چاہے امیر ہو یا غریب۔اھ۔
اور صحیح البخاری: (کتاب المناسک، رقم الحدیث: 686)
عن علي رضی اﷲ عنہ أن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم: أمرہ أن یقوم علی بدنہ، وأن یقسم بدنہ کلہا لحومہا وجلودہا وجلالہا، ولا یعطي في جزارتہا شیئا۔

اعلاء السنن: (باب التصدق بلحوم الأضاحي، 29/17، ط: دار الکتب العلمیۃ)
ولأن ما یدفعہ إلی الجزار أجرۃ عوض عن عملہ وجزارتہ، ولا تجوز المعاوضۃ بشيء منہا، فأما إن دفع إلیہ لفقرہ أو علی سبیل الہدیۃ، فلا بأس بہ؛ لأنہ مستحق للأخذ۔۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
14/ ذی الحجہ /1443 ھ

قربانی یا عقیقہ کے جانور کا سر، ذبح کرنے والے کو دینا کیسا؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

سوال،کیاامام،صاحب،جو
قربانی،کےجانورکوذبح،کر
تےہیں،اوس،کامونڈایعنی،سر،مانگ،کرلیناکیساہے
براےءکرم،شریعت،کےداءیرےمیں،
جواب،عنایت،فرماءے
محمد رضا ( نویڈا )
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔
ذبح پر اجرت لینے میں حرج نہیں البتہ قربانی کا جانور ذبح کرنے کے بدلے میں اجرت کے طور پر گوشت لینا یا سری وغیرہ لینا یہ جائز نہیں ۔
” لانہ لیس بمعصیۃ ولاواجب متعین علیہ “
ہاں ! یہ ٹھہراناکہ اسے ذبح کرتاہوں اس میں سے اتناگوشت اجرت میں لوں گا یہ ناجائز ہے
(احکام شریعت حصہ اول صفحہ نمبر 152)ہاں اگر کسی کو اجرت کے طور پر کچھ گوشت دیدیا تو اتنے گوشت کی قیمت صدقہ کرے اس لیے کہ اجرت پر دینا گویا بیچ کر اپنے مصرف میں لانا ہے ۔ اگر اپنے مصرف کے لۓ قربانی کا کھال بیچے تو اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے ۔

(ھکذافی فتاوی فیض الرسول جلددوم صفحہ ٤٧٦)
اور اگر اجرت دینے کے بعد محبتا واخلاقا ومروتا ذبح کرنے والے یا دعاء پڑھنے والے کو سرا، پایہ گوشت ، چمڑا وغیرہ کچھ بھی دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں اس میں کوئی کراہت نہیں ۔ اھ۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
11 / ذی الحجہ /1443 ھ

کتنے بیگہےزمین ہو تو قربانی واجب ہے؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

asslamu alaikum wa rahmatullahi wa barakatuh mufti sahab qiblah ap ke bargah me arz ye hai ki zed ke paas itna paisa nahi ki qurbani kar sake lekin zameen hai ghar hai gadi hai sab kuchh hai magar paisa nahi to zed qurbani kare ki na kare aur kitne bigha zameen hai to qurbani wajib hai huzor nazre inayet farmayen badi maher bani hogi asslamu alaikum wa rahmatullahi wa barakatuh
👇👆
الجواب بعون الملک الوھاب
صورت مسؤلہ میں زید پر قربانی واجب ہوگی اور نقد روپے نہ تو قرض لیکر یا کوسامان بیچ کر قربانی کریں جیساکہ میرے آقااعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت مجدددین وملت مولانا شاہ امام احمد رضاخان علیہِ رَحْمۃ الرّحْمٰن سے سُوال کیا گیا کہ ’’ اگر زید کے پاس مکانِ سُکُونت ( یعنی رہائشی مکان ) کے علاوہ دو ایک اور (یعنی مزید) ہوں تو اس پر قربانی واجب ہو گی یا نہیں ؟ ‘‘الجواب:واجب ہے ، جب کہ وہ مکان تنہا یا اس کے اور مال سے حاجتِ اصلِیہ سے زائد ہو ، مل کر چھپَّن روپے (یعنی اتنی مالیَّت کہ جو ساڑھے باوَن تولے چاندی کے برابر ہو ) کی قیمت کو پہنچے ، اگرچِہ ان مکانوں کو کرائے پر چلاتا ہو یا خالی پڑے ہوں یا سادی زمین ہو بلکہ ( اگر ) مکانِ سُکُونت اتنا بڑا ہے کہ اس کا ایک حصّہ اس( شخص ) کے جاڑ ے (یعنی سردی اور) گرمی (دونوں ) کی سُکُونت (رہائش)کے لئے کافی ہو اور دوسرا حصّہ حاجت سے زیادہ ہو اور اس ( دوسرے حصّے ) کی قیمت تنہا یا اِسی قسم کے( حاجتِ اَصلِیَّہ )سے زائد مال سے مل کر نصاب تک پہنچے ، جب بھی قربانی واجب ہے۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۰ ص ۳۶۱)
اور فتاوی رضویہ ج 20 ص 370,میں ہے کہ
جس پر قربانی واجب ہے اور نقد رقم اس کے پاس نہیں تو وہ قرض لیکر قربانی کرے یا اپنا کچھ سامان جیسے چاندی ، سونا وغیرہ بیچ کر حاصل شدہ رقم سے قربانی کرے اسے قربانی معاف نہیں۔اھ
اور حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ ” اگر کسی پر قربانی واجِب ہے اور اُس وقت اس کے پاس روپے نہیں ہیں تو قَرض لے کر یا کوئی چیز فروخت کر کے قربانی کرے “( فتاوی امجدیہ ج 3 ص 315 )

*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
7 / ذی الحجہ /1443 ھ

اگر کسی مقتدی کے دل میں امام صاحب کے لیے کینہ ہے تو امام صاحب کے پیچھے مقتدی کی نماز نہیں ہوتی ہے’اور اگر امام کے دل میں مقتدی کے لیے کینہ ہو تو پھر کیا حکم ہے؟؟ از قلم احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسلہ ذیل میں اگر کسی مقتدی کے دل میں امام صاحب کے لیے کینہ ہے تو امام صاحب کے پیچھے مقتدی کی نماز نہیں ہوتی ہے’اور اگر امام کے دل میں مقتدی کے لیے کینہ ہو تو پھر کیا حکم ہے ، محمد رضا قادری نوءیڈا یو پی
👆👇
وعلیکم السلام
الجـــــــــــــــــــــــــواب بعون الملک الوہاب
سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا زید سے خالد ظاہراً وباطناً کدورت رکھتا ہے حتّی کہ زید جس وقت مسجد میں داخل ہو کر سلام علیک کہتا ہے خالد جواب سلام بھی نہیں دیتا اور خالد ہی امامت کرتا ہے، ایسی حالت میں زید کی نماز خالد کے پیچھے ہوگی یا نہیں اور زید جماعت ترک کرکے قبل یا بعد جماعت علیحدہ نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں جبکہ خالد دل میں کدورت رکھتا ہے، اس کے واسطے کیا حکم ہوتا ہے؟تو آپ جوا ب میں تحریر فرماتے ہیں محض دنیوی کدورت کے سبب اس کے پیچھے نماز میں حرج نہیں اور اس کے واسطے جماعت ترک کرنا حرام، خالد کی زید سے کدورت اور ترک سلام اگر کسی دنیوی سبب سے ہے تو تین دن سے زائد حرم، اور کسی دینی سبب سے ہے اور قصور خالد کا ہے تو سخت تر حرام، اور قصور زید کا ہے تو خالد کے ذمے الزام نہیں زید خود مجرم ہے۔
(فتاوی رضویہ مترجم جلد ۶؍ص ۵۵۹)
اور الفتاوى الهندية (1/ 87):
“رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط”.
لہذا محض دنیوی کدورت چاہۓ مقتدی کو امام سے ہو یاامام کو مقتدی سے نماز ہوجاتی ہے۔جیساکہ ذکر ہوا۔البتہ یہ فعل بہت برا ہے۔اھ۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف
6 / ذی الحجہ /1443 ھ

گھر میں سواے شوہر کے کوئی بھی موجود نہیں ایسی صورت میں عورت کلایئاں کھول کر نماز ادا کر سکتی ہے یا نہیں؟ کتبہ احمد رضاقادری منظری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

ایک مسئلہ بیان کریں . . . . .
اگر عورت کے گھر میں سواے شوہر کے کوئی بھی موجود نہیں ایسی صورت میں عورت کلایئاں کھول کر نماز ادا کر سکتی ہے یا نہیں . . . . . حوالہ بھی عنایت کریں
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔ صورت مسؤلہ میں عورت کلائیاں کھول کر نماز ادا نہیں کرسکتی چند اعضاء کو مستثنی کرکے آزاد عورت کا پورا بدن عورت ہے ۔یعنی مثلاً نماز میں ان کا چھپانا ضروری ہے  ۔
وہ اعضاء جو مستثنی ہیں درج ذیل ہیں:
(١) : : آزاد عورتوں اورخنثیٰ مشکل کے ليے سارا بدن عورت ہے، سوا مونھ کی ٹکلی اور ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلووں کے، سر کے لٹکتے ہوئے بال اور گردن اور کلائیاں بھی عورت ہیں، ان کا چھپانا بھی فرض ہے۔ (درمختارالدرالمختار” و ”ردالمحتار”، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج۲، ص۹۳،۱۰۷۔جن اعضا کا ستر فرض ہے، ان میں کوئی عضو چوتھائی سے کم کھل گیا، نماز ہوگئی اور اگر چوتھائی عضو کھل گیا اور فوراً چھپا لیا، جب بھی ہوگئی اور اگر بقدر ایک رکن یعنی تین مرتبہ سبحان اﷲ کہنے کے کھلا رہا یا بالقصد کھولا، اگرچہ فوراً چھپا لیا، نماز جاتی رہی۔ ](عالمگیری، ردالمحتار)
اگر نماز شروع کرتے وقت عضو کی چوتھائی کھلی ہے، یعنی اسی حالت پر اﷲ اکبر کہہ لیا، تو نماز منعقد ہی نہ ہوئی۔۔
مزید تفصل کے لۓ فتاوی رضویہ ج 3 ,وبہارے شریعت دیکھیں۔
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

تجدید نکاح میں مہر کا کیا حکم ہے؟ کتبہ احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری مدرس المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف

حضور کی بارگاہ میں ایک سوال
تجدید نکاح میں مہر کا کیا حکم ہے؟
صرف نکاح اول کا دینا ہے یا دونوں کا؟
👆👇
الجواب بعون الملک الوھاب۔تجدید نکاح اگر بغیر کسی علت (طلا ق یا ردّت )کے ہو تو چو نکہ اس صورت میں حرمت پہلے سے نہیں(کیو نکہ بیوی تو پہلے سےحلال ہے) لہذا اس صورت میں مہر لازم نہیں آئے گا لیکن اگر اضافہ کی غرض سے ہی نکا ح کرے اور پچھلے دس ہزار مہر پر یہ دس ہزار اضا فہ کرنا مقصود ہو تو پھر اس اضا فے کا اعتبار ہے اور بیس ہزار مہر دینا ہو گا۔ اگر اضافہ نہ ہو تو صرف احتیا طا تجدید میں کوئی مہر لا زم نہیں آتاالبتہ تجدید نکاح میں گوا ہوں کا ہو نا ضروری ہے کیو نکہ نکاح میں گوا ہو ں کا ہو نا شرط ہے۔ بغیر گوا ہو ں کے نکاح منعقد نہیں ہوتا لہذا اگر کوئی تجدید نکا ح احتیا طا کرنا چاہتا ہو تو اس صورت میں نیا مہر لا زم نہیں ہو گا بلکہ پہلے والا مہر ہی وا جب ہو گا البتہ گوا ہوں کا ہو نا ضروری ہے ۔
لمافی الدر المختار(۱۱۲/۳) وفي الكافي جدد النكاح بزيادة ألف لزمه ألفان على الظاهر۔
وفی الردّ تحتہ: ثم ذكر أن قاضيخان أفتى بأنه لا يجب بالعقد الثاني شيء ما لم يقصد به الزيادة في المهر۔۔۔أقول بقي ما إذا جدد بمثل المهر الأول ومقتضى ما مر من القول باعتبار تغيير الأول إلى الثاني أنه لا يجب بالثاني شيء هنا إذ لا زيادة فيه وعلى القول الثاني يجب المهران ۔
(تنبيه) في القنية جدد للحلال نكاحا بمهر يلزم إن جدده لأجل الزيادة لا احتياطا اھ أي لو جدده لأجل الاحتياط لا تلزمه الزيادة بلا نزاع كما في البزازية۔
وفی الشا میہ (۲۱/۳):قوله ( وشرط حضور شاهدين ) أي يشهدان على العقد۔)۵۶۲)
*والــــــلــــــہ تعالـــــــــے اعلـــــــــم *بالصــــــــواب*
کتبـــــــــــــہ
احمـــــــــــــد رضـــــــاقادری منظــــــری
مدرس
المرکزالاسلامی دارالفکر درگاہ روڈ بہراٸچ شریف