WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

معاملات میں سچائی اکل حلال اورحقوق العباد کی اہمیت وو فضیلت. ✒ از: محمّد شمیم احمد نوری مصباحی خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر (راجستھان)

معاملات میں سچائی اور ایمان داری کی تعلیم بھی اسلام کی اصولی اور بنیادی تعلیمات میں سے ہے، قرآن سے اور رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلی مسلمان وہی ہے جو اپنے معاملات میں اور کاروبارمیں سچا اور ایمان دارہو،عہد کا پکا اور وعدہ کا سچاہو
یعنی دھوکہ دہی و فریب سے دور اور امانت میں خیانت نہ کرتا ہو،کسی کاحق نہ مارتا ہو،ناپ تول میں کمی نہ کرتا ہو،جھوٹے مقدمے نہ لڑتا ہو اور نہ جھوٹی گواہی دیتا ہو،سود اور رشوت جیسی تمام حرام کمائیوں سے بچتاہو اور جس میں یہ برائیاں موجود ہوں قرآن وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خالص مومن اور اصلی مسلمان نہیں ہے بلکہ ایک طرح کا منافق ہے اور سخت درجہ کا فاسق ہے،اللہ تعالی ہم سب کو ان تمام بری باتوں سے بچائے، اس بارے میں قرآن وحدیث میں جو سخت تاکیدیں آئی ہیں ان میں سے چند ہم یہاں درج کرتے ہیں،قرآن شریف کی مختصر سی آیت ہے
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ (النساء:۲۹)۔
اے ایمان والو!تم کسی غلط اورناجائز طریقے سے دوسروں کا مال نہ کھاؤ۔
اس آیت نے کمائی کے ان تمام طریقوں کو مسلمانوں کے لیے حرام کردیا ہے جو غلط اور باطل ہیں جیسے دھوکہ، فریب کی تجارت ،امانت میں خیانت ،جوا،سٹہ اورسود،رشوت وغیرہ،پھر دوسری آیتوں میں الگ الگ تفصیل بھی کی گئی ہے،مثلا جودکانداراورسوداگرناپ تول میں دھوکہ بازی اوربے ایمانی کرتے ہیں ان کے متعلق خصوصیت سے ارشاد ہے
وَیْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِیْن الَّذِیْنَ اِذَااکْتَالُوْاعَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَوَاِذَاکَالُوْہُمْ اَوْوَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ اَلَا یَظُنُّ اُولئِکَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (المطففین:۱۔۶)۔
ان کم دینے والوں کے لیے بڑی تباہی (اور بڑاعذاب ہے) جو دوسرے لوگوں سے جب ناپ کرلیتے ہیں تو پورالیتے ہیں اور جب دوسروں کے لیے ناپتے یا تولتے ہیں تو کم دیتے ہیں کیا ان کو یہ خیال نہیں ہے کہ وہ ایک بہت بڑے دن اٹھائے جائیں گے جس دن کہ سارے لوگ جزا وسزا کے لیے رب العالمین کے حضور میں حاضر ہوں گے۔

دوسروں کے حق اوردوسروں کی امانتیں اداکرنے کے لیے خاص طور سے حکم ملاہے

اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا (النساء:۵۸)۔

اللہ تعالی تم کو حکم دیتا ہے کہ جن لوگوں کی جو امانتیں (اورجوحق) تم پر ہوں وہ ان کو ٹھیک ٹھیک اداکرو۔

اور قرآن شریف ہی میں دو جگہ اصلی مسلمانوں کی یہ صفت اورپہچان بتلائی گئی ہے وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ (المؤمنون:۸)۔
وہ جو امانتوں کے اداکرنے والے اور وعدوں کا پاس رکھنے والے ہیں۔

اورحدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ اپنے اکثر خطبوں اوروعظوں میں فرمایا کرتے تھے کہ “یادرکھو،جس میں امانت کا وصف نہیں، اس میں ایمان بھی نہیں اور جس کو اپنے عہد اور وعدے کا پاس نہیں، اس کا دین میں کچھ حصہ نہیں” (مسند احمد،مسند انس بن مالک رضی اللہ عنہ،)۔

ایک اور حدیث میں ہے حضورنبی کریم ﷺ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں:جھوٹ بولنا،امانت میں خیانت کرنااوروعدہ پورا نہ کرنا (بخاری،باب علامۃ المنافق،)۔

تجارت اورسوداگری میں دھوکا و فریب کرنے والوں کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا جودھوکا بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں (مسند احمد،مسند ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ،)۔

جودھوکا بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں اور مکر وفریب دوزخ میں لے جانے والی چیز ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،عن عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ،)۔

یہ بات حضور نبی رحمت ﷺ نے اس وقت ارشاد فرمائی جب کہ ایک دفعہ مدینے کے بازار میں آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ بیچنے کے لیے اس نے غلے کا ڈھیر لگارکھا ہے لیکن اوپر سوکھا غلہ ڈال رکھا ہے اور اندر کچھ تری ہے اس پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ:ایسے دھوکا باز ہماری جماعت سے خارج ہیں۔

لہٰذا جودکان دار گاہکوں کو مال کا اچھا نمونہ دکھائیں اور جو عیب ہو اس کو ظاہر نہ کریں توحضور کی اس حدیث کے مطابق وہ سچے مسلمانوں میں سے نہیں ہیں اورخدا نہ کرے وہ دوزخ میں جانے والے ہیں-

ایک اور حدیث میں ہے سرکارمدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو کوئی ایسی چیز کسی کے ہاتھ بیچے جس میں کوئی عیب اورخرابی ہو اور گاہک پر وہ اس کو ظاہر نہ کرے ،تو ایسا آدمی ہمیشہ اللہ کے غضب میں گرفتار رہے گا(اور ایک روایت میں ہے) کہ ہمیشہ اس پر اللہ کے فرشتے لعنت کرتےرہیں گے۔ (ابن ماجہ،باب من باع عیبا فلیبینہ ،)۔

بہرحال اسلامی تعلیم کی رو سے تجارت اور کاروبار میں ہر قسم کی دغابازی اور جعلسازی حرام اور لعنتی کام ہے اور رسول اللہﷺ نے ایسا کرنے والوں سے اپنی بے تعلقی کا اعلان واظہار
فرمایا ہے اور ان کو اپنی جماعت سے خارج بتایا ہے۔

اسی طرح سود اور رشوت کا لین دین بھی(اگرچہ دونوں طرف کی رضا مندی سے ہو)قطعا حرام ہے اور ان کے لینے دینے والوں پر حدیثوں میں صاف صاف لعنت آئی ہے،سود کے متعلق تو مشہور حدیث ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ کی لعنت ہوسود کے لینے والے پر اور دینے والے پر اور سودی دستاویز لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر (نسائی،جز:۵،)۔

اور اسی طرح رشوت کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے لعنت فرمائی رشوت کے لینے والے پر اور دینے والے پر (ترمذی،باب ماجاء فی الراشی والمرتشی،)۔

ایک حدیث میں یہاں تک ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی آدمی کے لیے کسی معاملے میں(جائز) سفارش کی،پھر اس آدمی نے اس سفارش کرنے والے کو کوئی تحفہ دیا اور اس نے یہ تحفہ قبول کرلیا تو وہ سود کی ایک بڑی خراب قسم کے گناہ کا مرتکب ہوا۔ (ابو داؤد،باب فی الھدیۃ لقضاء الحاجۃ،)۔

بہرحال رشوت اورسود کا لین دین اور تجارت میں دھوکا بازی اوربے ایمانی اسلام میں یہ سب یکساں طورپرحرام ہیں اور ان سب سے بڑھ کر حرام یہ ہے کہ جھوٹی مقدمہ بازی کے ذریعہ یا محض جبراً[زبردستی] کسی دوسرے کی کسی چیز پر ناجائز قبضہ کرلیا جائے، ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جس شخص نے کسی کی زمین کے کچھ بھی حصے پر ناجائز قبضہ کیا تو قیامت کے دن اس زمین کی وجہ سے(اور اس کی سزامیں)زمین کے ساتوں طبق تک دھنسایا جائے گا” (بخاری،اثم من ظلم شیئا من الارض،)۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ جس شخص نے (حاکم کے سامنے)جھوٹی قسم کھاکر کسی مسلمان کی کسی چیز کوناجائز طریقے سے حاصل کرلیا تو اللہ نے اس کے لیے دوزخ کی آگ واجب کردی اورجنت اس کے لیے حرام کردی ہے ،یہ سن کر کسی شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ وہ کوئی معمولی ہی چیز ہو؟تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:ہاں اگرچہ وہ پیلو کے درخت کی ایک ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔ (مسلم،باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین،)۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک مقدمہ باز کو آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
دیکھو !جو شخص جھوٹی قسم کھاکر کسی دوسرے کا کوئی بھی مال ناجائز طریقے سے حاصل کرے گا وہ قیامت میں اللہ کے سامنے کوڑھی ہوکر پیش ہوگا (ابو داؤد، باب فِيمَنْ حَلَفَ يَمِينًا لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالًا لِأَحَدٍ،)۔

ایک اورحدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کسی نے کسی ایسی چیز پردعویٰ کیاجو حقیقت میں اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور اسے چاہییے کہ دوزخ میں اپنی جگہ بنالے (مسلم،بَاب بَيَانِ حَالِ إِيمَانِ مَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَم،)۔

اورجھوٹی گواہی کے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کی نماز سے فارغ ہوکر کھڑے ہوگئے اور آپ نے ایک خاص انداز میں تین دفعہ فرمایا کہ جھوٹی گواہی شرک کے برابر کردی گئی ہے۔ (ابو داؤو،باب شہادۃ الزور،)۔

حرام مال کی نجاست اورنحوست: مال حاصل کرنے کے جن ناجائز اورحرام ذریعوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہےان کے ذریعے جومال بھی حاصل ہوگا وہ حرام اورناپاک ہوگااور جوشخص اس کو اپنے کھانے پہننے میں استعمال کرے گا رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس کی نمازیں قبول نہ ہوں گی،دعائیں قبول نہ ہوں گی ،حتی کہ اگر وہ اس سے کوئی نیک کام کرے گا تو وہ بھی اللہ کے یہاں قبول نہ ہوگا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں سے وہ محروم رہے گا-
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جوشخص(کسی ناجائز طریقے سے)کوئی حرام مال حاصل کرے گا اور اس سے صدقہ کرے گا تواس کا یہ صدقہ قبول نہ ہوگا اور اس میں سے جو کچھ (اپنی ضرورتوں اور مصلحتوں میں)خرچ کرےگا اس میں برکت نہ ہوگی اور اگر اس کو ترکہ میں چھوڑ کر مرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کا توشہ ہوگا-
یقین کرو کہ اللہ تعالی بدی کو بدی سے نہیں مٹاتا (یعنی حرام مال صدقہ اور گناہوں کی بخشش کا ذریعہ نہیں بن سکتا) بلکہ بدی کونیکی سے مٹاتا ہے کوئی ناپاکی دوسری ناپاکی کو ختم کرکے اس کو پاک نہیں کر سکتی (مسند احمد ، مسند عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ،)۔

ایک دوسری حدیث میں ہے ،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی خودپاک ہے اور وہ پاک اورحلال مال ہی کو قبول کرتا ہے، پھر آخرحدیث میں آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکرفرمایا،جودور دراز کا سفرکرکے (کسی خاص متبرک مقام پر دعاکرنے کے لیے) اس حال میں آئے کہ اس کے بال پراگندہ ہوں اور سر سے پاؤں تک وہ غبار میں اٹا ہواہواور آسمان کی طرف دونوں ہاتھ اٹھااٹھاکے وہ خوب الحاح کے ساتھ دعا کرے اور کہے ،اے میرے رب !اے میرے رب! اے میرے پروردگار!لیکن اس کا کھانا پینا مال حرام سے ہو اور اس کا لباس بھی حرام ہو اورحرام مال ہی سے اس کی پرورش ہوئی ہو تو اس حالت میں اس کی یہ دعاکیوں کر قبول ہوگی؟ (مسلم،باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب،)۔
مطلب یہ ہے کہ جب کھانا پہننا سب حرام مال سے ہو تو دعاکی قبولیت کا کوئی استحقاق نہیں رہتا ،ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اگرکوئی شخص ایک کپڑا دس درہم میں خریدےاور ان دس میں سے ایک درہم حرام ذریعے سے آیا ہواہو تو جب تک وہ کپڑا جسم پر رہےگا اس شخص کی کوئی نماز بھی اللہ کے ہاں قبول نہ ہوگی (مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ،)۔
ایک اورحدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو جسم حرام مال سے پلاہو،وہ جنت میں نہ جاسکے گا (مسند احمد،مسند جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ،)۔

قارئین کرام ! اگرہمارے دلوں میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے تو رسول اللہ ﷺ
کے ان ارشادات کے سننے اور پڑھنےکے بعد ہم کو قطعی طورسے طے کرلینا چاہییے کہ خواہ ہمیں دنیا میں کیسی ہی تنگ دستی اور تکلیف سے گزارا کرنا پڑے ہم کسی ناجائز اور حرام ذریعہ سے کبھی کوئی پیسہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اور بس حلال آمدنی ہی پر قناعت کریں گے-

پاک کمائی اورایمان دارانہ کاروبار: اسلام میں جس طرح کمائی کے ناجائز طریقوں کو حرام اور ان سے حاصل ہونے والے مال کو خبیث اور ناپاک قراردیا گیا ہے اسی طرح حلال طریقوں سے روزی حاصل کرنے اور ایمانداری کے ساتھ تجارت اورکاروبار کرنے کی بڑی فضیلت بتائی گئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
حلال کمائی کی تلاش بھی دین کے مقررہ فرائض کے بعد ایک فریضہ ہی ہے (بیہقی،الستون من شعب الایمان،)۔

ایک دوسری حدیث میں اپنی محنت سے روزی کمانے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ نے ارشاد فرمایا کہ کسی نے اپنی روزی اس سے بہتر طریقے سے حاصل نہیں کی کہ خود اپنے دست وبازو سے اس کے لیے اس نے کام کیا ہو، اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کا طریقہ یہی تھا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کچھ کام کرکے اپنی روزی حاصل کرتےتھے۔ (بخاری،کسب الرجل وعملہ بیدہ،)۔

ایک اور حدیث میں ہے سرورکائنات ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ سچائی اورایمانداری کے ساتھ کاروبارکرنے والاتاجر(قیامت میں) نبیوں،صدیقوں اورشہیدوں کے ساتھ ہوگا- (ترمذی،باب ماجاء فی التجارہ،)۔

معاملات میں نرمی اوررحم دلی:
مالی معاملات اورکاروبار میں جس طرح سچائی اور ایمانداری پر اسلام میں بہت زیادہ زوردیا گیا ہے اور اس کو اعلیٰ درجہ کی نیکی اور قرب خداوندی کا اہم ذریعہ قراردیاگیا ہے،اسی طرح اس کی بھی بڑی ترغیب دی گئی ہے اور بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ معاملہ اور لین دین میں نرمی کا رویہ اختیار کیا جائے اور سخت گیری سے کام نہ لیا جائے، ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ کی رحمت ہو اس بندے پر جو خریدوفروخت میں اور دوسروں سے اپنا حق وصول کرنے میں نرم ہو(بخاری،باب السہولۃ والسماحۃ فی الشراء،)۔
ایک دوسری حدیث میں ہے،آپ نے ارشاد فرمایا:جو آدمی اللہ کے کسی غریب اورتنگدست بندے کو(قرض کی ادائیگی میں)مہلت دے دیا(کلی یاجزئی طورپراپنامطالبہ) معاف کردے تو اللہ تعالی اس کو قیامت کے دن کی پریشانیوں سے نجات عطافرمادے گا۔ (مسلم،باب فضل انظار المعسر،)۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دے گا۔ (مسلم،باب حدیث جابر الطویل،)۔

حضور نبی مکرم ﷺ کے ان ارشادات کا تعلق تو تاجروں اور ان دولت مندوں سے ہے جن سے تنگ حال لوگ اپنی ضرورتوں کے لیے قرض لے لیتے ہیں،لیکن جو لوگ کسی سے قرض لیں،خود ان کو رسول اللہ ﷺ اس کی انتہائی تاکید فرماتے تھے کہ
جہاں تک ہوسکے وہ جلد سے جلد قرض ادا کرنے کی کوشش کریں،
اور ایسا نہ ہوکہ قرض دار ہونے کی حالت میں دنیا سے چلے جائیں اور اللہ کے کسی بندے کا حق ان کے ذمہ باقی رہ جائے، اس بارے میں آپ جتنی سختی فرماتے تھے اس کا اندازہ حضور کے ان ارشادات سے ہوسکتا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اگر آدمی راہ خدا میں شہید ہوجائے تو شہادت کے طفیل اس کے سارے گناہ بخش دییے جائیں گے،لیکن اگرکسی کا قرض اس کے ذمہ ہے تو اس سے اس کی گردن شہید ہونےکےبعد بھی نہ چھوٹے گی (مسلم،باب مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كُفِّرَتْ خَطَايَاهُ إِلَّا الدَّيْن،)۔
ایک اور حدیث میں ہے،نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس پروردگار کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے؛اگر کوئی شخص راہ خدا میں شہید ہو،پھر زندہ ہو اور پھر شہید ہواورپھرزندہ ہواور پھرشہید ہو اور پھر اس کے ذمے کسی کا قرض باقی ہو،تو(اس قرض کے فیصلے کے بغیر)وہ بھی جنت میں نہیں جاسکے گا۔ (مسند احمد،محمد بن عبداللہ بن جحش)۔
مالی معاملات اورحقوق العباد کی نزاکت کا اندازہ کرنے کے لیے بس یہی دوحدیثیں کافی ہیں،اللہ تعالی توفیق دے کہ ہم بھی ان کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھیں اورہمیشہ اس کی کوشش کرتے رہیں کہ کسی بندے کا کوئی حق ہماری گردن پر نہ رہ جائے۔

اللّٰہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو اپنے آپسی معاملات کو صاف ستھرارکھنے، رزق حلال کھانے اور حقوق اللّٰہ کے ساتھ صحیح معنوں میں حقوق العباد کی ادائیگی کی بھی توفیق مرحمت فرمائے-آمین

حضرت حافظ ملت شاہ عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کا عشق رسول ازقلم: شیرمہاراشٹرامفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی


حضور حافظ ملت قدس سرہ کی مقدس حیات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے سینے کی ہر سانس اور دھڑکن امت مسلمہ کی ہمدردی اور غم خواری میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ آپ ہمیشہ اپنی قوم کو عروج و ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے حتی کہ آپ کے قول و فعل اور تحریر و تقریر کے ہر گوشے سے اصلاح امت کے سوتے پھوٹتے تھے ۔ چونکہ حافظ ملت اسم با مسمیٰ تھے ، اس لئے قوم کی اصلاح کا درد و غم ہمیشہ آپ کے سینے میں موجود تھا ۔ آئیے اس سلسلے میں حا فظ ملت کی ایک اصلاح کن اور درد و غم میں ڈوبی ہوئی تحریر ملاحظہ کریں جو آپ کی ملی ہمدردی اور قومی غم گساری کا بین ثبوت ہے ۔
’’برادران اسلام ! پیارے بھائیو ! دنیا چند روزہ ہے ، اس کی راحت و مصیبت سب فنا ہونے والی ہے ، یہاں کی رفیق و شفیق بھی کام آنے والا نہیں ، بعد مرنے کے صرف اور صرف خدا اور اس کے رسول جناب محمد رسول اللہ علیہ وسلم ہی کام آنے والے ہیں ۔ سفر آخرت کی پہلی منزل قبر ہے ، اس میں منکر نکیر آکر سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ، اور تیرا دین کیاہے ، اسی کے ساتھ نبی کر یم رؤف الرحیم جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مردے سے دریافت کرتے ہیں ’’ ما تقول فی ھذا الرجل ‘‘ یعنی حضور کی طرف اشارہ کر کے پوچھتے ہیں کہ ان کی شان میں کیا کہتا ہے ؟اگر اس شخص کو نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے عقیدت ومحبت ہے تو جواب دیتا ہے کہ یہ تو ہمارے آقا و مولا اللہ کے محبوب جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ان پر تو ہماری عزت و آبرو ، جان و مال سب قربان ، اس شخص کے لئے نجات ہے اور اگر حضور سے ذرہ برابر کدورت ہے ، دل میں آپ کی عظمت و محبت نہیں ہے ، تو جواب نہیں دے سکے گا ، یہی کہے گا میں نہیں جانتا ، لوگ جو کہتے تھے میں بھی کہتا تھا۔ اس پر سخت عذاب اور ذلت کی مار ہے ۔العیاذ باللہ ۔
معلوم ہوا کہ حضور کی محبت مدار ایمان اور مدار نجات ہے ، مگر یہ تو ہر مسلمان بڑے زور سے بڑے دعوے کے ساتھ کہتا ہے کہ ہم حضور سے محبت رکھتے ہیں ۔ آپ کی محبت ہمارے دل میں ہے ۔ لیکن ہر دعوے کے لئے دلیل چاہیے اور ہر کامیابی کے لئے امتحان ہو تا ہے ۔ نبی کر یم علیہ الصلا ۃ والتسلیم کی شان اقدس میں گستاخیاں اور بےادبیاں کی ہیں ، ان سے اپنا تعلق قطع کریں ، ایسے لوگوں سے نفرت اور بیزاری ظاہر کریں ، اگرچہ وہ ماں باپ اور اولاد ہی کیوں نہ ہو ۔ بڑے بڑے مولانا پیر و استاذ ہی کیوں نہ ہوں ، لیکن جب انہوں نے حضور کی شان میں بے ادبی کی تو ایمان والے کا ان سے کو تعلق با قی نہیں رہا ۔اگر کوئی شخص ان کی بے ادبیوں پر مطلع ہو جانے کے بعد پھر بھی ان کی عزت ان کا احترام کرے اور اپنی رشتہ داری یا ان کی شخصیت اور مولوبیت کے لحاظ سے نفرت و بیزا ری ظاہر نہ کرے وہ شخص اس امتحان میں نا کامیاب ہے ۔ اس شخص کو حقیقۃً حضور کی محبت نہیں صرف زبانی دعویٰ ہے ، اگر حضور کی محبت اور آپ کی سچی عظمت ہوتی تو ایسے لوگوں کی عزت و عظمت ، ان سے میل محبت کے کیا معنی ؟خوب یاد رکھو ! پیر اور استاذ ، مولوی اور عالم کی جو عزت و عظمت کی جاتی ہے اس کی محض یہی وجہ ہے کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور نسبت رکھنے والا ہے مگر جب اس نے حضور کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کی پھر اس کی کیسی عزت ؟اور اس سے کیا تعلق ؟ اس نے تو خود حضور سے اپنا تعلق قطع کرلیا پھر مسلمان اس سے اپنا تعلق کیوں کر باقی رکھے گا ۔
اے مسلمان! تیرا فرض ہے کہ اپنے آقا و مولا محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت پر مرمٹنے ، ان کی محبت میں اپنا جان و مال عزت و آبر و قربان کرنے کو اپنا ایمانی فرض سمجھے اور ان کے چاہنے والوں سے محبت ، ان کے دشمنوں سے عداوت لازمی اور ضروری جانے ، غور کرو ! کسی کے باپ کو گالی دی جائے اور بیٹے کو سن کر حرارت نہ آئے تو صحیح معنی میں وہ اپنے باپ کا بیٹا نہیں ۔ اسی طرح اگر نبی کی شان میں گستاخی ہو اور اور امتی سن کر خاموش ہوجائے اس گستاخ سے نفرت و بیزاری ظاہر نہ کرے تو یہ امتی بھی یقینا صحیح معنی میں امتی نہیں ہے ، بلکہ ایک زبانی دعا کرتاہے جو ہرگز قابل قبول نہیں ۔ مسلمان ٹھنڈا دل سے غور کریں اور اپنی صداقت ایمانی کے ساتھ انصاف کریں کہ ایسے لوگوں سے مسلمانوں کو کیا تعلق رکھنا چاہیے ؟بلا رعایت اور بغیر طرف داری کے کہنا اور یہ بھی یاد رکھنا کہ اگر کسی کی شخصیت و مولویت کا لحاظ کرتے ہوئے اس کی رعایت کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ ہے ۔ نبی کے مقابلہ میں نبی کے گستاخ کی طر ف داری اور رعایت تمہارے کام نہیں آسکتی ؟ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم علیٰ خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یاارحم الراحمین ۔
(حیات حافظ ملت ، ص ۲۵)
اس اقتباس سے حضور حافظ ملت قدس سرہ کے دھڑ کتے دل کے جذبات کو پورے طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ کس والہانہ انداز میں آپ نے قوم مسلم کو صحیح سمت سفر کی طرف رہنمائی کی ہے اور اطاعت رسول کی دعوت پیش کی ہے کہ پڑھنے والے پر بھی ایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔
مسلمانوں ! تمہاری ہوا کا رخ وہی گنبد خضرا ہے ، تمہارا مقصود ہی تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، تمہاری مشکلات کا حل انہیں کی نظر کرم اور اشارۂ ابرو پر موقوف ہے ۔ تمہارے مقاصد کا حصول انہیں کی تعلیم پر عمل ہے ، جس کو مسلمان اپنی بدنصیبی سے فراموش کرچکے ہیں ۔
(ماہنامہ اشرفیہ ، نومبر ۲۰۰۹ ء ص ، ۱۲؍۲۲ مضمون محمد شاہد علی رضوی )
ترسیل: محمد مستجاب رضا قادری رضوی پپرادادنوی
رکن اعلیٰ: افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی
یکم/ جمادی الآخر 1444ھ
25/ دسمبر 2022 ء

حضرت محدث اعظم ہند و پاک محمد سردار احمد رضوی چودہری کا عشق رسول.. ازقلم: شیرمہاراشٹرا مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی

حضرت محدث اعظم ہند وپاک مکمل تیس سال سے زائد عرصہ تک درس حدیث کی خدمت انجام دی اور مسند حدیث کو اپنی خدمت سے زینت بخشتے رہیں ، آپ محض محدث نہ تھے بلکہ آپ بیک وقت علم تفسیر ، علم حدیث ، علم فقہ ، علم کلام ، علم اصول ، علم معانی ، علم منطق و فلسفہ کے متبحر عالم دین تھے اور تمام علوم و فنون پر آپ کو ملکہ حاصل تھا ، آپ کی ذات اخلاص کا سراپا مجسم تھی جس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا سکتے ہیں ۔
ایک مرتبہ حضرت علیہ الرحمہ فیصل آباد ہی میں تقریر کے لئے ایک جگہ تشریف لے گئے ، انتظامیہ کے افراد جلسہ کے اختتام پر سامان و غیرہ محفوظ کر نے میں مصروف ہوگئے حضرت ان کا انتظار کیے بغیر پیدل ہی جامعہ رضویہ کی طرف چلنے لگے ۔ راستہ میں کسی نے کہہ دیا حضرت ! یہ کیسے لوگ ہیں ، تانگے کا بھی انہوں نے انتظام نہیں کیا ۔ حضرت نے خفگی کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا ، بندۂ خدا کیا کہا ؟ انہوں نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے کا انتظام کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر خیر کے لئے اس فقیر کو بلایا ۔ یہ ان کا تھوڑا احسان ہے ؟ اگر وہ چاہتے تو آپ کے ذکر خیر کے لئے کسی اور کو بلالیتے ۔‘‘
(حیات محدث اعظم پا کستان ، ص۵۲۲ بحوالہ : قلمی یاداشت مولانا علی احمد سندیلوی ، لا ہور محررہ ۳۰ نومبر ۱۹۵۸ء )
پرائمری کی تعلیم کے بعد آپ اسلامیہ ہائی اسکول بٹالہ ضلع گورداسپوری میں داخل ہوئے بٹالہ ہائی اسکول کے صدر معلم جناب پیر محمد تھے ۔ حاجی صاحب کا بیان ہے کہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سردار احمد کو بچپن ہی سے بزرگان کرام اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بےحد عقیدت و محبت تھی ، چنا نچہ آپ فرمایا کرتے تھے ۔” ماسٹرجی ! ہمیں بزرگوں کی باتیں سنائیے اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر تو ضرور روشنی ڈالا کیجیے ۔
(حیات محدث اعظم پاکستان ، ص ۳۸ بحوالہ : مضمون ’’ایک عالم ایک عارف ‘‘مرتبہ رانا محمد کرام چشتی مشمولہ ماہنامہ معارف رضا ، لاہور ، فروری ۱۹۶۳ء بحوالہ ہفت روزہ محبوب حق ۔ لائل پور ، ۳۱ جنوری ۱۹۶۴ء ، ص ۶ )
دوران درس حدیث پاک ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’ضحک مبارک ‘‘یعنی تبسم فرمانے کا ذکر آتا تو آپ بھی محض حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسم کی ادا کو اپنانے کے لئے تبسم فرماتے اور طلبا کو بھی تبسم کی ہدایت فرماتے ، اور اس کے باوجود جن حضرات کے لبوں پر تبسم نہ دیکھتے تو انہیں آپ شخصی طور پر مخاطب کرکے فرماتے مولانا ! شاہ صاحب ! آپ کے لبوں پر تبسم کیوں نہیں ہے ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبسم فرمانے پر اگر آپ نے تبسم نہیں فرمایا تو تبسم کا اور کون سا موقع ہوگا؟۔
( ابوداؤد محمد صادق ، مولانا محدث اعظم پاکستان کی مختصر سوانح حیات ، ص ۱۰ )

سوز و ساز عشق
جن احادیث میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبسم فرمانے کا ذکر ہے ان کا درس دیتے ہوئے آپ اتباع سنت کی نیت سے مسکراتے یونہی جن احادیث میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گریہ فرمانے کا ذکر ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کا بیان ہے ۔ تو آپ بھی روتے ۔
۱۳۷۴ھ ؍۱۹۵۵ء میں دوران تدریس مشکوٰۃ شریف کی وہ حدیث پاک پڑھی گئی جس میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے سر انور میں درد اور کپڑا با ندھنے کا ذکر ہے ، آپ نے اس حدیث پاک پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا :’’جب سرکار کے سر انور میں درد تھا اور آپ نے کپڑے سے سر مبارک کو باندھا ہوا تھا آپ اس وقت منبر پر تشریف فرما تھے ۔ سر انور میں درد کی شدت کی بناء پر آپ کا کپڑے سے باندھنا جب یار غار حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دیکھا ہوگا تو ان کا کیا حال ہواہوگا ؟جس سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ملاحظہ کیا ہوگا تو ان پر کیا گزری ہوگی ، سیدنا بلال ر مضی اللہ عنہ نے بھی جب یہ منظر دیکھا ہوگا تو انہوں نے کیا محسوس کیا ہوگا ۔۔؟
اسی طرح شدت درد میں صحابۂ کرام پر وارد ہونے والے احوال بیان فرمارہے تھے محسوس ہوتا تھا کہ سرکار کے سر انور میں درد کی کلفت آپ بھی محسوس فرمارہے ہیں ۔ دوران بیان آپ پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور آپ حلقۂ درس سے اٹھ کر اندر تشریف لےگئے ، اس کے بعد نہ معلوم یہ کیفیت کتنی دیر آپ پرطاری رہی ۔

اسی نوعیت کا ایک واقعہ جامعہ رضویہ مظہر اسلام بریلی شریف میں پیش آیا حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ابتدائی سالوں کا بیان فرما رہے تھے کہ خا ندان کے افراد کو جب تبلیغ کرنے کا حکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلے کو جمع کرنے کے لئے بلند آواز سے پکارا ۔ حدیث شریف کا جملہ یاصباحاہ !آپ کے بلانے کی کیفیت کا بیان ہے یعنی حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے قریش کو بلند آواز سے پکارا جسے پنجابی محارہ میں ’’کو ک ‘‘مارنا کہتے ہیں ۔ حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ نے طلبا سے فرمایا ‘‘بھلا کوک کیسے مارتے ہیں ؟‘‘آپ نے بھی آواز بلند فرمائی اور طلبا سے بھی ایسا کروایا ۔
(حیات محدث اعظم پاکستان ، ص ۳۱۳)
حدیث پر عمل کی نادر مثال حافظ ملت مولانا عبد العزیز محدث مبارک پوری علیہ الرحمتہ کا بیان ہے کہ ’’ترمذی شریف کی حدیث ہے :
طعام الواحد یکفی الا ثنین و طعام الا ثنین یکفی الثلثۃ۔
ایک شخص کا کھانا دو کے لئے کافی ہوسکتا ہے اور دو کا تین کےلئے کافی ہوسکتا ہے ۔ اس حدیث پر حضرت علامہ مو صوف نے پورا عمل کیا ۔ واقعہ یہ ہے کہ جب آپ دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف کے شیخ الحدیث تھے تو میں نے آپ کی خدمت میں ایک طالب علم حافظ محمد صدیق مرادآبادی کو تحصیل علم کے لئے روانہ کیا ۔ حضرت موصوف نے اسے دارالعلوم منظر اسلام میں داخل کرلیا ۔ مگر اس کےکھانے کا انتظام نہ ہوسکا ۔ حضرت کو جو کھانا معمولا آیا کرتا تھا اسی کھانے میں اپنے ساتھ کھلانا شروع کردیا ۔ دو چار ، دس ، بیس روز نہیں بلکہ جب تک حافظ صدیق بر یلی شریف رہے برابر ان کو اپنے ساتھ اسی ایک کھانے میں شریک رکھا ، ان سے فرمایا کرتے تھے ۔’’کھاؤ بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ ان شاءاللہ دونوں کو کافی ہوگا ۔‘‘حا فظ صدیق کا بیان ہے کہ میرا پیٹ تو بھرجاتا تھا حضرت مولانا کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ حضرت موصوف علیہ الرحمہ کا یہ وہ عمل ہے جو فی زمانہ اپنی نظیر آپ ہے ۔ حدیث پر اسی بے مثال عمل کی برکت سے آپ کے درس حدیث میں غیر معمولی تاثیر تھی ۔
(حادثہ جانکاہ مشمولہ نوری کرن محدث اعظم پاکستان نمبر ، ص ۲۷، حافظ عبد العزیز مبارک پوری )
حلقۂ درس میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اثر انگیزی صرف درس حدیث پر ہی موقوف نہ تھی بلکہ دیگر فنون کی تدریس میں جب بھی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان جاری ہوجاتا ۔
۱۳۶۹ھ؍۱۹۴۹ء میں اولین دارالحدیث میں میراث کی مشہور کتاب ’’سراجی ‘‘کاسبق پڑھارہے تھے ۔ میراث کے ایک مسئلہ پر تقریر کے دوران سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اقدس آیا ۔ اس پر آپ حضور کے فضائل و محامد بیان فرمانے لگے اور جو مسئلہ میراث شروع تھا اس سے توجہ ہٹ گئی ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب احساس ہوا ، تو فرمایا :
’’مسئلہ تو میراث کا بیان ہورہا تھا ، لیکن توجہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کی طرف ہوگئی ۔ الحمد للہ ! ‘‘
یہ کہنا تھا کہ آنکھوں میں آنسو آگئے ، رقت طاری ہوگئی اور حسب معمول طلبا سے فرمایا ‘‘پڑھو ؎
بو درد جہاں ہر کسے راخیالے مزار ہمہ خوش خیال محمد
آپ کے چشمان اقدس سے آنسو جاری تھے اور دارالحدیث عارف جامی علیہ الرحمہ کے اس نعتیہ کلام سے گونج رہاتھا ۔
بارگاہ رسالت میں درس حدیث کی مقبولیت
یہ نورانی واقعہ مولانا معین الدین شافعی کا بیان کردہ ہے ۔ فرماتے ہیں :
’’مولانا حامد بخاری ، بخارا شہر کے فاضل اور مدرس تھے ان کو مشکوٰۃ شریف پڑھانے میں ایک مقام پر کچھ وقت محسوس ہوئی ۔ ان کو خواب میں جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ، آپ کی مجلس میں تشریف فرما حضرات میں مولانا سردار احمد صاحب بھی شامل تھے ۔ مولانا حامد بخاری نے حدیث کی وہ مشکل سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مولانا سردار احمد صاحب کی طرف اشارہ کیا چنانچہ انہوں نے حدیث پاک کی وہ علمی مشکل حل فرمائی اور انہیں اطمینان نصیب ہوا۔ جب صبح ہوئی تو مولانا حامدنے بخارا سے بریلی کا قصد کیا اور آپ کی خدمت میں آکر فیض حاصل کیا ۔
(حیات محدث اعظم پاکستان ، ص ۶۳)
صدرالعلما علامہ مفتی محمد تحسین رضا خاں بریلوی اپنے مشفق استاذ محدث اعظم پاک و ہند کی سیرت و کردار اور عشق مصطفیٰ کو یوں بیان فرماتے ہیں : حدیث کا احترام اس درجہ تھا کہ دوران درس کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی معزز و محترم ہو ، آتا سلام کرتا تو سلام کا جواب تو ضرور دے دیتے اور ہاتھ سے بیٹھنے کےلئے اشارہ فرماتے مگر اس وقت تک کلام نہ فرماتے جب تک کہ سبق پورانہ ہوجائے ۔ پھر آنے والے کے پاس اتنا وقت ہو تو وہ بیٹھا رہے ، ورنہ اٹھ کر چلاجائے ۔ آپ ملطقاً پرواہ نہ فرماتے ، دوسرے وقت ملاقات ہوتی ، تو فرما دیتے کہ آپ فلاں وقت تشریف لائے تھے ، میں حدیث شریف پڑھارہا تھا ، اس لئے بات نہ کرسکا ۔ جو طالب علم عبارت پڑھتا اسے تاکید ہوتی کہ حضور کے نام نامی کے ساتھ ’’صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ضرور کہے اور صحابی کے نام کے ساتھ ’’رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘‘ضرورکہے اور خود بھی اس کا التزام رکھتے تھے ، جیسے ہی نام نامی سنتے بآواز بلند صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کہتے تاکہ دوسرے طلبہ جو غافل ہوں ، انہیں سن کر یاد ہوجائے ۔اگر کہیں حدیث میں آجاتا کہ ضحک النبی صلی اللہ علیہ وسلم تو خو دبھی مسکراتے اور طلبہ سے بھی کہتے کہ ہنسو ۔ ہسنا بھی ہمارے نبی پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔ضرورت زمانہ کے لحاظ سے رد وہابیہ پر زیادہ زور دیتے تھے ورنہ عام طور پر سب ہی باطل فرقوں کا رد فرماتے تھے ۔ (سالنامہ تجلیات رضا ، شمارہ ۶ ، صدرالعلما محدث بریلوی نمبر ، ص ۹۱؍۹۲)

مسرت کے وقت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رخ انور پر صرف تبسم اور مسکراہٹ آجاتی تھی ، آپ کا تبسم کھلکھلاکر ہنسنے کی طرح نہ ہوتا تھا صرف دندان مبارک کی چمک ظاہر ہوتی تھی۔ حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ بھی اسی موقع پر صرف تبسم اور مسکراہٹ کی تاکید فرماتے تھے ۔
(ایضاً ، ص۹۷)

ع
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار گھڑی کی بات نہیں الارواح جنود مجندہ کے حدیث ارشاد کے مطابق اس جہان میں تو اس کا مشاہدہ ہورہا ہے اور رفیق مذکور کی اتباع یک گیر محکم گیر سے یہی امید ہے کہ دوسرے جہاں میں بھی ایساہی ہو گا ۔

یہ کیفیت اسے ملتی ہے ، ہو جس کے مقدر میں
مئے الفت نہ خم میں ہے ، نہ شیشے میں نہ ساغر میں
(ایضاً ، ص ۹۳)

ترسیل: محمد شاھدرضا ثنائی بچھارپوری
رکن اعلیٰ : افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی
23/ جمادی الاول 1444ھ
18/ دسمبر 2022 ء

ضرورت مندوں کی مدد ضرورکریں لیکن انہیں کیمرے کے سامنے ذلیل نہ کریں..تحریر ، محمد جمال اختر صدف گونڈوی

مذہب اسلا م میں ضرورت مندوں، غریبوں، محتاجوں و کمزوروں کی مدد کرنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے-
پھر وہ چاہے بھوکوں کو کھانا کھلانا ہو یا پیاسوں کو پانی پلانا-
اسلام کی اسی خوبصورتی کو دیکھ کر اغیار یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ جتنی اخوت و انسانیت اسلام میں پائی جاتی ہے دنیا کے کسی مذہب میں دیکھنے کو نہیں ملتی،
کیوں کہ پیغمبر اسلام ساری کائنات کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے،
انہوں نے بلا تفریق قبیلہ و نسل تمام انسانوں کے ساتھ ہمدردی و بھائی چارہ کا درس دیا،
انسان ہی نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی زیادتی کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ،
اس ماڈرن دور میں مسلمانوں نے عبادات سے لےکر صدقات و خیرات تک سب ڈیجیٹل کر دیا ہے،
حاجی صاحبان جب حج کرنے کے لئے مکہ مکرمہ میں پہنچتے ہیں تو حج کے اغراض و مقاصد کو بھول کر پہلے کعبہ کو پیٹھ ایک مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ سیلفی ضرور لیں گے اور وہیں سے تمام رشتہ داروں کو بھیجنا شروع کر دیں گے کہ دیکھ لو ہم نے کعبے کو بھی پیٹھ کے پیچھے کر دیا،
صرف اتنا ہی نہیں اس کے بعد جا بجا فوٹو بازی اور ویڈیو گرافی کرتے ہوئے اسی کیمرے کے ساتھ سارے ارکان حج مکمل کریں گے،
کچھ حاجی تو طواف کے دوران لائیو پروگرام دکھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں،
ایسے ہی جب کوئی کسی مجبور کی مدد کرنے جاتا ہے تو سب سے پہلے اسے کیمرے کے سامنے کھڑا کرتا ہے اس کے بعد اسے راشن،کمبل، وغیرہ دیتے ہوئے فوٹو کھنچواتا ہے اور تمام سوشل میڈیا پر عام کرتا ہے،
ذرا سوچیں اس غریب کے رشتے داروں تک جب یہ فوٹو پہنچتی ہوگی تو ان کے دلوں پہ کیا گزرتی ہوگی، اور وہ غریب بیزاری قسطوں میں ذلیل ہوتا ہوگا، جب جب لوگوں کی نظروں سے وہ تصویر گزرتی ہوگی لوگ اس بیچارے کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے،
ایسے ہی مسجد و مدرسے میں کوئی صاحب جب کچھ چندہ دیتے ہیں تو بار بار اپنے نام کا مائک سے اعلان کرواکر پورے معاشرے کو بتاتے ہیں کہ ہاں ہم نے آج حاتم طائی کا رکارڈ توڑ دیا ہے،
بلکہ سخاوتوں کے سلسلے میں میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد حاتم طائی سے بڑی میری ہی مزار بننی چاہئے،
کسی غریب کی عزت نفس کو ذلیل کرکے خود کو سخی سمجھنے کی بے وقوفی کرنے والوں کی سوشل میڈیا پر تعریف کرنے والے بھی کم نہیں ہیں ، انہیں اس مذموم کام سے روکنا چاہئے تھا لیکن
ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی،
درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے،

سارے کے سارے ماشاءاللہ ،سبحان اللہ، واہ واہ، بہت خوب، لا جواب، لکھ کر انہیں ان کی غلطیوں سے روکنا اپنی زمہ داری نہیں سمجھتے،
دور عمر رضی اللہ عنہ میں یہ لوگ ہوتے تو انہیں سخاوت کا صحیح سبق مل گیا ہوتا،
ایسے لوگ ہسپتالوں میں اکثر دیکھنے کو مل جائیں گے، جہاں کسی مریض کے پاس دو چار لوگ ایک کیلے کو پکڑ کر باری باری فوٹو کھنچوا رہے ہوتے ہیں،
کچھ تو ایسے ہیں کہ سڑک پر حادثے میں زخمی افراد کی مدد کے بجائے ان کی ویڈیو بناکر شئیر کرنے میں مصروف ہوتے ہیں اور زخمی کراہ رہے ہوتے ہیں، اگر بر وقت ان کی مدد کر دی جائے تو زخمیوں کے لئے اتنی دشواری نہ ہو جتنی سارا خون بہ جانے کے بعد ہوتی ہے،
ایک مسلمان کو دیکھ کر لوگ ذہن میں ایک خیال ضرور لاتے ہیں کہ یہ اسلام کا ماننے والا ہے ضرور یہ اسلامی طریقے کا پابند ہوگا،
مگر افسوس کہ اکثر انڈین مسلم اور انکا کردار دونوں اسلام کے خلاف ہی نظر آتا ہے،
شادیوں کا سارا سسٹم سنت کے خلاف ریاکاری سے بھر پور چل رہا ہے،
وہاں بھی شروع سے آخر تک کیمرے کی پہرے داری میں سارا کام ہوتا ہے،
آج کل تو کوئی غریب دس بار ایسی شادیوں میں جانے کے بارے میں سوچتا ہے کہ وہاں مغلیہ سلطنت کے واثین کے شہزادوں والے لباس و جوتے کہاں سے لاؤں ، کسی ہسپتال میں عیادت کے لئے جاتے وقت کوئ بھی لفافہ نہیں لے جاتا ہے جب کہ وہاں مریض کو پیسوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے ،
لیکن شادیوں میں موٹے موٹے لفافے کا زبردست چلن پڑ گیا ہے،
وہاں لفافہ لے جانا نہیں بھولتے ہیں،
کیا یہی ہمارا کلچر تھا؟
افسوس کہ ہر جگہ ریاکاریوں میں ہماری زندگی پھنسی ہوئی ہے اور ہم اس گھناؤنے ماحول سے باہر نکلنا بھی نہیں چاہتے ہیں،
تحفہ تحائف دینا بھی سنت ہے لیکن جب کوئی بھوک سے مر رہا ہو تو سب سے پہلے اس کے کھانے کا انتظام کرنا ایک مسلمان کی زمہ داری ہے کسی کی مدد کرنا، کسی کا سہارا بننا ، یا کسی بیمار کے علاج کے لئے روپئے پیسے کا بند و بست کرنا بہت بڑا کام ہے اگر خالص اللہ کے لئے کیا جائے، جب لوگ آپکو مخلص پائیں گے توآپ کے قریب آنا شروع کر دیں گے ،
بلکہ وہ بھی آپ کے اس نیک کام کا حصہ بننا پسند کریں گے اور آہستہ آہستہ آپکے پاس ایک جماعت موجود ہو جائےگی جو دوسروں کی مدد کرنے اور اسلام کا آفاقی پیغام عام کرنے میں آپ کی مددگار ہوگی،
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اچھے وقتوں میں کسی کے ساتھ بھلائی کا کام بہت یاد رکھی جاتی ہے لیکن کسی کے برے وقت میں جب کوئی سہارا بنتا ہے تو وہ انسان تا دم مرگ اپنے اس محسن کو نہیں بھول پاتا ہے، آج کے دور میں لوگ غریب رشتے داروں سے نظریں چراتے ہیں اور بڑے لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، کچھ لوگ تو اپنی تقریبات میں غریب رشتے داروں کے لئے الگ انتظام کرنا شروع کر دئیے ہیں یہ چیزیں فقیر کے مشاہدے میں بہت بار آ چکی ہیں،
اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی دل سے عزت کریں تو آپکو مخلص بننا بہت ضروری ہے ،
لوگ اس وقت تک آپ کی بات نہیں مانتے جب تک کہ آپ کو نہ مان لیں
اس لئے ضروری ہے کہ پہلے خود کو منوائیں، اسلام کے قریب لانے کے لئے اسلام کو منوائیں، عزت و ذلت رب کے ہاتھ میں ہے اس لئے خود کی کوشش سے کوئی عزت دار نہیں ہوتا جب تک کہ اسے رب عزتیں نہ عطا کرے،
اگر آپ کے افعال میں خلوص و للہیت شامل ہے تو ہر حال میں رب آپ کو عزت عطا کرے گا،
سر بلندیوں، نوازشوں کے دروازے آپ پر کھول دےگا،
اگر ایسا نہیں ہے تو ساری زندگی آپ خیرات کرتے رہیں فوٹو کھنچواتے رہیں اس کا کوئ فائدہ نہیں،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بستی میں رات رات گشت کرتے تاکہ پتہ چل سکے کہ کوئی بھوکا تو نہیں سویا ہے، اور ضرورت مندوں تک ضروری اشیاء خود اپنے کندھوں پہ لاد کر اس کے گھر چپکے سے پہنچاتے تھے،
یہی کام تمام خلفاء کا رہا اور صحابہ کرام نے اسی روش پہ زندگیاں گزار دیں،
بحیثیت امت رسول [صلی اللہ علیہ وسلم] ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اسی طریقے پر چلیں جس پر چل کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللہ کی رضا حاصل کی-

بنے دو جہاں تمہارے لئےازقلم : محمد علاؤ الدین قادری رضوی صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتا والقضا میراروڈ ممبئی

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عطا سے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو شان و عظمت ہے ا س کامکمل بیا ن خلق خدا کی زبان سے ممکن نہیں سرکار علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی مدح و ثنا صاحب قرآن کو ہی زیب ہے کہ وہ خالق حقیقی ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے حضرت سیدنا آدم علیہ السلام اور ساری مخلوق کو آپ ہی کے لئے پیدا کیا ہے ۔            (مواھب لدنیہ ،۲؍۲۷۱؍سیر ت حلبیہ ، ۳؍۴۲۲) 

    اے رضا خو د صاحب قرآں ہے مداح حضور 
    تجھ سے کب ممکن ہے  پھرمد حت رسول اللہ کی 
امام شر ف الدین محمد بن سعید بو صیری ر حمتہ اللہ علیہ اپنے مشہو ر زما نہ قصیدہ بر دہ شر یف میں فر ما تے ہیں :
        وکیف تدعوا لیٰ الد نیا ضرورۃ من 
        لو لا ہ لم تخرج  الد نیا من     العدم 

اور دنیا کی ضرورت اس مبا رک ہستی کو اپنی طر ف کیسے بلا سکتی ہیں کہ اگر وہ نہ وہو تے تو دنیا عد م سے وجود میں آتی ہی نہیں ۔
احناف کے جید عالم دین حضرت علامہ سید عمر بن احمد آفندی حنفی علیہ الر حمہ مذکورہ شعر کی شر ح میں لکھتے ہیں :کہ شعر میں اس حد یث قدسی کی طر ف اشارہ ہے :لو لا ک لما خلقت الافلاک ۔یعنی اگر آپ نہ ہو تے تو میں آسمانو ں کو پید ا نہ فر ما تا ۔ یہا ں آسمانو ں سے مراد دنیا کی ہر وہ چیز ہے جو دنیا میں مو جو د ہے یہا ں جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے ۔ محدثین میں سے بعض نے رواۃ حد یث کو ضعف سے تعبیر کیا ہے لیکن اس کے معنی کو صحیح قرار دیتے ہیں یعنی مذکورہ حد یث معنا صحیح ہے ۔ شب معراج جب سر کا ر دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر پہنچے تو اللہ سبحا نہ وتعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے اس وقت محبوب ومحب میں جو با ت ہو ئی وہ گفتگو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے ملا حظہ فر ما ئیں ارشاد رب ہوا :انا وانت وما سویٰ ذالک خلقتہ لاجلک ۔ یعنی اے میرے محبوب !میں ہو ں اور تم ہو ،  اس کے سواجو کچھ ہے وہ سب میں نے تمہا رے لئے پیدا کیا ہے ۔جواب میں اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خالق کی بارگاہ میں عرض کیا :انا وانت وما سویٰ ذالک ترکتہ لاجلک ۔یعنی اے میرے مالک ! میں ہوں اور تیری ذات پاک ہے ، اور اس کے سوا جو کچھ ہے وہ سب میں نے تیرے لئے چھوڑ دیا ۔
امام بو صیری ر حمتہ اللہ علیہ کے اس شعر سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ دنیا ر حمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے تا بع ہے ،یہ دنیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب ر ضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے لئے بنا ئی گئی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ مبا رک ہستیاں دنیا کے مطیع ہو جا ئیں یا دنیاوی خواہشات ان پر غا لب آجا ئیں ۔    
                            (عصیدۃالشہدۃ شر ح قصیدۃ البر دۃ ، ۱۱۸)
مذکورہ بالا حد یث لولاک کی مختصر تو ضیح اور محد ثین عظام کی روایت کر نے میں جو الفا ظ کے فر ق آئے ہیں وہ یہا ں در ج کئے جا رہے ہیں تا کہ آپ ان تمام مر ویا ت کو بآسانی سمجھ سکیں ،حدیث لو لاک کے اصلی الفا ظ ملا حظہ ہو ں !
حد یث آدم علیہ السلام کے الفا ظ یو ں ہیں :لولا محمد ما خلقتک ۔
تر جمہ :اے آدم ! اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہ کر تا تو میں تمہیں پیدا نہ کر تا ۔
حد یث عیسیٰ علیہ السلام کے الفا ظ یو ں ہیں :لو لا محمد ما خلقت الجنۃ ولا لنار۔
تر جمہ :اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہ کر تا تو میں جنت و دوزخ کو پیدا نہ کر تا۔
حد یث جبر ئیل علیہ السلام کے الفا ظ یو ں ہیں : لو لا ک ما خلقت الدنیا ۔
تر جمہ :اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اگر آپ کو پیدا کر نا مقصود نہ ہو تا تو میں دنیا کو پیدا نہ کر تا ۔
حد یث ابن عبا س ر ضی اللہ عنہ کے الفاظ یو ں ہیں :لو لا ک ما خلقت الجنۃ ولولاک ما خلقت الدنیا والنار ۔
تر جمہ : اے محبوب ! اگر آپ کو پیدا نہ کر تا تو میں جنت کو پید نہ کر تا اور اگر آپ کو پیدا کر نا مقصود نہ ہو تا تو میں دنیا اور دوزخ کو پیدا نہ کر تا ۔
حدیث علی رضی اللہ عنہ کے الفا ظ یو ں ہیں :لولا ک ما خلقت ارضی ولا سمائی ، ولا رفعت ھذہ الخضراء ،بسطت ھذہ الغبراء ۔
تر جمہ: اے محبوب ! اگر آپ کو پیدا کر نا مقصود نہ ہو تا تو میں اپنی زمین وآسمان کوپیدا نہ کر تا اور نہ میں آسمان کو بلند کر تا اور نہ زمین کو پھیلا تا ۔
و ضا حت : متن حدیث میں کہیں بھی افلاک کا لفظ نہیں ہے اسی لئے بعض محد ثین نے اسے مو ضو ع کہا ہے لیکن محد ثین کی ایک بڑی جما عت نے اس حد یث کے معانی کو صحیح قرار دیا ہے گو معلوم ہوا کہ حد یث کا مفہو م ومقصود اپنے صحیح معنیٰ پر ہے ۔
ذیل میں حد یث لو لاک کے قائلین محد ثین اور علما کے نو ر اعلی نور اقوال نقل کئے جا رہے ہیں جسے پڑ ھ کر آپ شاد کام ضرور ہوں گے ۔
امام اعظم سیدنا ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمتہ اللہ علیہ اپنے قصیدہ نعتیہ میں حضور کی مدح سرائی ان الفاظ میں کرتے ہیں :
    انت الذی لولاک ماخلق امرء   
کلا ولا خلق الوریٰ لو لاک 

ترجمہ : اے محبوب !آپ کی ذات وہ ذات ہے کہ اگر آپ نہ ہو تے کو ئی شخص پیدا نہ کیا جاتا ،ہاں ہاں ! اگر آپ نہ ہو تے تو تمام مخلوق پیدا نہ ہوتی ۔ (شعر نمبر:۴ )
امام ابن جوزی اپنی کتا ب مولدالعروس میں لکھتے ہیں :فقال اللہ تعالیٰ :تأدب یا قلم او عزتی وجلالی لا لو محمد ما خلقت احدا من خلقی
تر جمہ : اللہ تعالیٰ نے فر ما یا :اے قلم ! ادب کر ، مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم اگر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نہ ہو تے تو میں اپنی مخلوق سے کسی کو پیدا نہ کر تا ۔
(مولد العروس ،ص۱۶)
مو لا نا روم علیہ الرحمۃ حدیث لو لاک کی تشریح میں لکھتے ہیں :
با محمد بودعشق پاک جفت
بہر عشق اورا خدا لولاک گفت
منتہی در عشق چوں اوبود فرد
پس مراوراازانبیا تخصیص کرد
گر نبود ے بہر عشق پاک را
کے وجود ے دادمے افلاک را
تر جمہ :یہ محمد سے مقدس عشق ہی ہے کہ اللہ نے آپ کے بار ے میں لولاک فر مایا ۔
آپ منتہائے عشق اور یکتہ تھے تو جماعت انبیا میں سے آپ کو خا ص کر لیا گیا۔
اگر آپ پاک عشق کے لئے نہ ہو تے تو میں آسمان کو وجود کب عطا کر تا ۔
(مثنوی شریف ، دفتر پنجم ، ص ۲۷۷)
امام ربا نی مجدد الف ثانی حضر ت شیخ احمد سر ہندی رحمتہ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :
لو لا ہ لما خلق اللہ سبحا نہ الخلق ولما اظہر الر بوبیۃ ۔
تر جمہ :اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نہ ہو تی تو حق سبحانہ وتعالیٰ خلقت کو کبھی پیدا نہ فر ما تا اور اپنی ربو بیت کو ظاہر نہ فر ما تا ۔ (مکتوب ،۴۴:دفتر اول )
شیخ اکمل بہقی وقت قاضی محمد ثنا ء اللہ عثمانی حنفی لکھتے ہیں :
لو لا ک لما خلقت الافلاک ولما اظہر ت الربوبیۃ خص النبی صلی اللہ علیہ وسلم
تر جمہ : حد یث قد سی میں ہے کہ اے محبوب ! اگر تم کو پیدا کر نا نہ ہو تا تو میں افلاک کو پیدا نہ کر تا اپنے ربوبیت کا اظہار نہ کر تا ۔
(التفسیر المظہری ، ج ۱۰، ۳۰۳)
حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
تو اصل وجود آمدی از نہ نخست
دیگر ہر چہ مو جو د شد فر ع تست
ندانم کدا مے سخن گویمت
کہ والا تری زانچہ من گویمت
ترا عز لولاک تمکین بس است
نثائے تو طہٰ و یسین بس است
ترجمہ : تو سب سے پہلے مخلوق کی جڑ تھی ، اور دوسرا جو کچھ موجود ہے وہ تیری شاخ ہے ،میں نہیں جانتا کہ آپ کی شان میں کیا کہوں،کیونکہ جو کچھ میں کہوں آپ اس سے بالا تر ہیں ، آپ کے واسطے لولاک کی عزت و قعت ، اور آپ کی تعریف طہٰ و یاسین کافی ہے ۔ (بوستا ن، در نعت سر کا ر علیہ افضل الصلوٰۃ ، ص۷)
حضرت شاہ محد ث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ حدیث لولاک کے بارے میں تئیسواں مشاہدہ میں فرماتے ہیں :
میں دیکھا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طر ف اللہ تعالیٰ کی ایک خا ص نظر ہے ، اور گو یا یہی وہ نظر جو حاصل مقصود ہے ، آپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کا فرمانا ’’لو لاک لما خلقت الافلاک ‘‘ (اگر آپ نہ ہو تے تو میں افلاک کو پید اہی نہ کر تا )یہ معلوم کر نے کے لئے میر ے دل میں اس نظر کے لئے بڑا شتیاق پیدا ہوا ، اور مجھے اس نظر سے محبت ہو گئی ، چنا نچہ اس سے یہ ہوا کہ میں آپ کی ذات اقدس سے متصل ہوا ، اور آپ کا اس طرح سے طفیلی بن گیا جیسے جو ہر کا عرض طفیلی ہو تا ہے ، غر ضیکہ میں اس نظر کی طرف متو جہ ہوا ، اور میں نے اس کی حقیقت معلوم کرنی چاہی ، اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں خو د اس نظر کا محل توجہ اور مرکز بن گیا ، اس کے بعد میں نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نظر خا ص اس کے ارادۂ ظہور سے عبارت ہے ، اور اس سلسلے میں ہو تا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی شان کو ظاہر کر نے کا ارادہ کر تا ہے وہ اس شان کو پسند کر تا ہے اور اس پر اپنی نظر ڈالتا ہے ۔ اب صورت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ایک فر د واحد کی شان نہیں ، بلکہ آپ کی شان عبارت ہے ایک عام مبد أ ظہور سے جو عام بنی نوع انسان کے قوالب پر پھیلا ہوا ہے، اور اس طر ح بنی نوع کی حیثیت ایک اور مبدأ ظہور کی ہے جو تمام موجودات پر حاوی ہے ، اس سے ثا بت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کل مو جودات کی غا یت الغایت اور ظہور وجود کے نقاط کا آخری نقطہ ہیں ، چنا نچہ سمند رکی ہر مو ج کی حر کت اسی لئے ہے کہ آپ تک پہنچے ، اور ہر سیلا ب کو یہی شو ق سمایا ہوا ہے کہ آپ تک اس کی رسائی ہو ، تمہیں چا ہئے کہ اس مسئلہ میں خو ب غورو تدبر کرو ، واقعہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ بڑا ہی دقیق ہے ۔
(فیوض الحرمین اردو ، تئیسواں مشاہدہ ، ص ۱۸۷؍۱۸۸)
قا طع شر ک وبد عت رئیس الاسلام والمسلمین اما م اہل سنت اعلیٰ حضرت الحا ج الشاہ مفتی احمد ر ضا خا ں فا ضل بر یلو ی ر حمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :یہ ضرور صحیح ہے کہ اللہ عز وجل نے تما م جہا ن حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے بنا یا اگر حضور نہ ہو تے تو کچھ نہ ہو تا ۔یہ مضمون احا دیث کثیر ہ سے ثا بت ہے جن کا بیا ن ہما رے رسالہ ’’ تلأ لؤالافلاک بجلال احادیث لو لاک ‘‘ میں ہے ۔خدائی (یعنی مخلوق)کی پیدا ئش بطفیل حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ہے ۔حضور نہ ہو تے تو کچھ نہ ہو تا ، حضور تخم وجو د و اصل مو جو د ہیں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ۔حضرت حق عزجلالہ نے تمام جہا ن کو حضور پر نو ر محبوب اکر م صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے واسطے ، حضور کے صدقے ، حضور کے طفیل میں ہا ں ہا ں لا واللہ ثم باللہ ایک دفع بلا و حصول عطا کیا تما م جہا ن اور اس کا قیا م سب انہیں کے دم قدم سے ہے ۔عالم جس طر ح ابتدائے آفرینش میں ان کا محتا ج تھا ، یو نہی بقا میں بھی ان کا محتا ج ہے ۔آج اگر ان کاقدم درمیان سے نکال لے ابھی ابھی فنا ئے مطلق ہو جا ئے ۔
اس میں اہل ایما ن کو ہر گز ہر گز ترددنہیں کہ حضور نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وجہہ تخلیق کا ئنا ت ہیں جن لو گو ں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ’’قلم‘‘ کو تخلیق اول قرار دیتے ہیں اور حدیث قلم و عر ش پر صحیح اسناد کو دلیل بناتے ہیں انہیں محد ثین سے اگر پو چھ لیا جا ئے کہ خلق خدا میں سب سے افضل و اعلیٰ ذات کو ن ہے ۔؟تو یقین جا نے وہ بغلیں جھانکنا شر وع کر دیں گے ۔وہ بعض علما جو قلم اور عر ش کو خلق خدا میں اول مانتے ہیں وہ شاید اس با ت کو بھو ل جا تے ہیں کہ’’ انوار‘‘ میں سب سے پہلے اگر کسی کے نو ر کا ظہور ہوا ہے تو وہ نو ر محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے یہ با ت ہر کس و ناکس پر واضح ہے کہ جسماً نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام انبیا ئے کرام علیہم السلام کے بعد عالم فانی میں حضرت عبد اللہ کے گھر پید ا ہو ئے لیکن نو ر محمدی کا ظہور تما م خلق سے پہلے ہے ۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولیت پر اگر سب سے زیادہ کسی کے پیٹ میں درد ہو تا ہے تو وہ علما ئے اہل حد یث (غیر مقلد ین)کی جما عت ہے اور وہ اس مسئلہ میں تنہا نہیں ہے بلکہ ان کے ہم نوا علما ئے دیوبند بھی کم نہیں کہ ان حضرات کا منشا ہی یہ ہو تا ہے کہ کسی طر ح نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی کما لا ت و صفات میں تنقیص کا کو ئی پہلو ڈھو نڈ نکالا جا ئے اور وہ اس کو شش میں کبھی تو فرنگیو ں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن میں یہا ں انہیں کے علما کی کتا بو ں سے ثا بت
کروں گا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق خلق میں سب سے پہلے اور مقدم ہے ۔
غیر مقلد کے بڑے عالم مو لوی سید ممتاز علی ولد سید محمد اعجاز علی صا حب بھو پالی سر رشتدار محکمہ مجسٹریٹی ر یاست بھو پا ل لکھتے ہیں :
زمین و زما ں ، میکن و مکا ں شمس وقمر و اختر و شام و سحر ،کو ہ کاہ از ما ہی تاماہ بطفیل وجود با وجود حضور طہٰ و یس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظہور میں آئے ۔وللہ الحمد
(معجزۂ راز تحفہ ممتاز ، ص ۱۶)
یہی صا حب نظم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلقت اول کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وہ ہے کون، یعنی رسول کریم
اشارے سے جس کے ہوامہ دونیم
اگر اس کو پیدا نہ کرتا خدا
نہ ہوتا وجود زمین وسما
اس کے لئے ہے نزول قرآن
اسی کے سبب خلقت انس و جان
(معجزۂ راز تحفہ ممتاز ، ص ۱۴)
غیر مقلد کے مشہور مولوی جناب وحیدالزماں صاحب کے بھی چند اشعار یہاں نقل کئے دیتا ہوں کہ آپ قارئین غیر مقلدوں کے بیان و تحریر میں کس طرح تضاد ہے اس سے بخوبی واقف ہو جائیں کہ ان کے اسناد کے امام اعظم مولوی ناصر الدین البانی ’’حد یث لو لا ک ‘‘کو ضعیف قرار دیتے ہیں لیکن ان کے متبع حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’شہ لولاک ‘‘سے یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
رات دن یہ التجا ہے اس دل غمناک کی
دے مجھے اپنی محبت اور شہ لو لاک کی
یا الہٰی مجھ کو پہنچادے مدینہ پاک میں
خاک ہوکے جاپڑوں کوئے شہ لولاک میں
(وظیفہ نبی با ورادالوحید ، ص ۹۴؍۹۵)
غیر مقلد کے بہت ہی مشہور عالم جسے دنیا نواب صدیق حسن خان بھو پالی کے نا م سے جانتی ہے انہیں بھی یہ اعتراف ہے کہ یوم میثاق سب سے پہلے ’’الست بربکم ‘‘کے جواب میں بلیٰ کہنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جمیع مخلوقات کی تخلیق آپ ہی کے لئے ہو ئی عر ش پر آپ ہی کانام کندہ ہے آسمان اور جنت میں جتنے ملائکہ ہیں وہ ہر ساعت آپ ہی کا ذکر کرتے ہیں مگر یہی وہ تمام با تیں مسلمانو ں کی عام مجلسوں میں بتاتے ہو ئے غیر مقلد کے مولویو ں کو شر م آتی ہے یہا ں ان کی ہی کتاب سے یہ عبا رت نقل کی جارہی ہے پڑ ھیں اور حضورکی اولیت کا نو ر ہر سو عام کریں ! وہ لکھتے ہیں :
سب سے پہلے آپ ہی سے میثا ق لیا گیا اور سب سے پہلے آپ ہی نے الست بر بکم کے جواب میں بلیٰ کہا اور آدم وہ جمیع مخلو قات آپ کے لئے پیداہوئے اور آپ کا نام عر ش پر لکھا گیا اور ہر آسمان و جنت میں بلکہ سائرے ملکوت میں اور ملا ئکہ ہر ساعت آپ کا ذکر کرتے ہیں ۔ (الشما مۃ العنبریہ ، ص ۴۰)
سلفی گروہ کے ایک بڑے اور نامور شاعرو ادیب مو لوی ظفر علی خان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے تما م مخلوقات کی تخلیق کا قائل ہیں جن کے یہا ں آج بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگنا شر ک اعظم ہے اب قارئین ہی فیصلہ کر یں کہ ’’واسطے اور وسیلے ‘‘میں کیا فر ق ہے جنا ب نے اپنے حواریو ں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔وہ لکھتے ہیں :
سب کچھ تمہا رے واسطے پیدا کیا گیا
سب غائتوں کی غائت اولیٰ تم ہی تو ہو
(کلیا ت ، حسیات ، ص ۱۰)
عقیدتاًسلفیو ں کے بڑے بھا ئی علما ئے دیوبند کے آرا بھی جا نتے ہیں کہ انہو ں نے ہما رے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مقصود کا ئنا ت اور خلق خد ا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق ہو نے میں اولیت کے قائل ہیں یا نہیں تو دیوبند کے کچھ علما حضور نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کو اول ، آخر ، ظاہر و با طن تسلیم کر تے ہیں بلکہ آپ کی اولیت کو تمام مخلوقات کی تخلیق سے پہلے لکھتے ہیں یہی نہیں لو ح و قلم کا وجود بھی تخلیق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہی مانتے ہیں دیوبند کے مشہو ر خطیب مو لوی منیر احمد معاویہ لکھتے ہیں :
ہما رے نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سید ولد آدم فخر رسل افضل الرسل امام الانبیا خا تم الانبیا حضر ت محمد ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقصود کا ئنا ت ہیں ۔ کیو ں ؟ لو لاک لما خلقت الافلاک ۔اس حد یث کا معنی صحیح ہے ۔(خیر الفتاویٰ)
اگر آپ کو پیدا کر نا مقصود نہ ہو تا تو کا ئنا ت کی کو ئی چیز نہ ہوتی ، نہ زمین ہو تی ، نہ آسما ن ہو تے ، نہ ستارے ہو تے ، ،نہ چاند ہو تا، نہ سورج ہو تا ، نہ ہوا ہو تی ، نہ فضا ہو تی ، نہ دریا ہو تے ، نہ سمندر ہو تے ، نہ پہاڑ ہو تے ، نہ پرندے ہو تے ، نہ چر ند ے ہو تے ، نہ درندے ہو تے ،نہ ذر ے ہوتے ، نہ قطر ے ہو تے ، نہ نبا تا ت ہو تے ، نہ جمادات ہو تے ، نہ عر ش ہو تا ، نہ کر سی ہو تی ،نہ لو ح ہو تا ، نہ قلم ہو تا ، نہ آدم ہو تے ، نہ شیش ہو تے ، نہ نو ح ہو تے ، نہ ہو د ہو تے ، نہ صالح ہو تے ، نہ یو نس ہو تے ، نہ ایوب ہو تے ، نہ یعقوب ہو تے ، نہ یو سف ہو تے ، نہ ادریس ہو تے ، نہ ابراہیم ہو تے ، نہ اسمعیل ہو تے ، نہ اسحا ق ہو تے ، نہ موسیٰ ہو تے ، اور نہ زمین و آسمان کی کوئی چیز ہو تی۔
کتاب فطرت کے سر ورق پر جو نا م احمد رقم نہ ہو تا
تو نقش ہستی ابھر نہ سکتا وجود لو ح و قلم نہ ہو تا
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات : ھوالاول والآخر والظاہر والباطن ۔(سورۃ الحدید ، ۳ )
جس طر ح اول ، آخر ، ظاہر و باطن ، یہ اللہ تعالیٰ کی صفتیں ہیں اسی طر ح اول آخر ظاہر ، با طن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی صفتیں ہیںاس لئے کہ حضور اول ہیں اور بعثت میں آخر ہیں ، حضور ظاہر ہیں کہ ہر چیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتی ہے ، حضور با طن ہیں کہ باطن میں کمالات رکھنے والے ہیں ۔ (مدراج النبوۃ )
(خطبات منیر ،ص۱۳۷؍۱۳۸)
کراچی پاکستان کے مشہو ر دیوبندی عالم مفتی محمد شفیع کے بیٹے جناب محمد زکی کیفی حدیث لولاک کا ذکر واقعہ معراج کے اشعار میں یوں کر تے ہیں :
سانس لینے کی فر شتوں کو جہاں تاب نہیں
کون یہ محو تکلم ہے وہاں آج کی رات
آج ہے مثردۂ لولاک لما کی تفسیر
قربت خاص میں ہیں سرور جہاں آج کی رات
(کیفیات ، ص ، ۴۷؍از محمد زکی کیفی، مطبوعہ ، ادارۂ اسلامیات نار کلی لاہور )
دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم قاری محمد طیب صاحب دیوبندی لکھتے ہیں :
طبعی طور پر آفتاب کے سلسلہ میں سب سے پہلے اس کا وجود اور خلقت ہے جس سے اسے اپنے سے متعلقہ مقاصد کی تکمیل کا موقع ملتا ہے ۔ اگر وہ پیدا نہ کیا جا تا تو عالم میں چاندنی اور روشنی کا وجود ہی نہ ہو تا اور کو ئی بھی دنیا کو نہ پہچانتا ، گو یا اس کے نہ آنے کی صورت میں نہ صرف یہی کہ وہ خو د ہی نہ پہچا نا جا تا بلکہ دنیا کی کو ئی چیز بھی نہ پہچانی جا تی ۔ ٹھیک اسی طر ح اس روحا نی آفتا ب (آفتاب نبو ت )کے سلسلہ میں بھی اولاً حضور کی پیدائش ہے اور آپ کا اس نا سوتی عالم میں تشریف لانا ہے ۔اس کو ہم اصطلاحاً ولادت با سعادت یا میلاد شر یف کہتے ہیں ۔اگر آپ دنیا میں تشریف نہ لا تے تو صرف یہی کہ آپ نہ پہچانے جا تے بلکہ عالم کی کو ئی چیز بھی اپنی غر ض و غایت کے لحا ظ سے نہ پہچانی جا تی ۔ محمد نہ ہو تے تو کچھ بھی نہ ہو تا ۔ پس جو در جہ علوی آفتا ب میں خلقت کہلاتا ہے اسی کو ہم نے رو حانی آفتاب میں ولادت کہا ہے ۔
(آفتاب نبوت ، ص ۴ ۱۲؍۱۲۵)
یہاں قاری محمد طیب صاحب اپنی بات کہنے میں تھوڑی لچک ، تردد اور خوف سے کام لیا ہے اور حدیث لو لاک کی توضیح و تشریح کر نے میں وہ تیزی نہ لاسکے جو ان کے بڑوں نے حد یث لولاک کی تشریح کر گئے کہا ں آفتا ب سماوی اور کہا ں آفتا ب نبوی ان دونو ں میں تمثیل کی گنجائش کہا ں گو دو نو ں نو ری ہیں لیکن آفتا ب سما وی کا جو نو ر ہے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے واسطے سے ہے ۔دیوبند کے ہی نا شر و مبلغ جناب حمید صدیقی لکھنوی حد یث لولاک پر معنی خیز شعر کہتے ہیں کہ :
شاہ لولاک و خواجہ کونین
محترم محتشم سلام علیک
(نعت نمبر :ص ۷۳۲، حصہ اول ، ماہنامہ الرشید لاہور )
فر قہ دیوبند کے بہت بڑے محد ث و مفتی مو لانا سید حسین احمد مدنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جملہ کمالات عالم عالمیان ، حدیث لولاک اور اول ما خلق اللہ نوری کا اعتراف ان الفاظ میں کر تے ہیں :
ہمارے حضرات اکابر کے اقوال عقائد کو ملاحظہ فر ما ئیے ۔ یہ جملہ حضرات ذات حضور پر نور علیہ السلام کو ہمیشہ سے اور ہمیشہ تک واسطہ فیو ضات الٰہیہ و میزاب ر حمت غیر متنا ہیہ اعتقاد کئے ہو ئے بیٹھے ہیں ، ان کا عقیدہ یہ ہے ازل سے ابد تک جو جورحمتیں عالم پر ہو ئی ہیں اور ہو ں گی عام ہے کہ وہ نعمت وجو د کی ہو یا اور کسی قسم کی ان سب میں آپ کی ذات پاک ایسی طر ح پر واقع ہو ئی ہے کہ جسیے آفتاب سے نو ر چاند میںآیا ہو اور چاند سے نو ر ہزاروں آئینوں میں ، غر ض کہ حقیقت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام والتحیتہ واسطہ جملہ کمالات عالم و عالمیان ہیں ۔ یہی معنی لولاک لما خلقت الافلاک اور اول ما خلق اللہ نوری اور انا نبی الانبیاء وغیرہ کے ہیں ۔ (الشہاب الثاقب ، ص ۲۳۶)
حدیث لولاک کی صحت پر سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں :
لولا ک ذرہ زجہاں محمد است
سبحان من یرا ہ چہ شا ن محمد است
سیپا رۂ کلا م الٰہی خدا گواہ !
آں ہم عبارتے ز زبان محمد است
تر جمہ : یہ حدیث ’’لولاک ‘‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جہا ن کا ایک ذرہ ہے ،اللہ ہی کی وہ ذات پا ک ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو جانتی ہے ،کہ آپ کی شان کیا ہے ۔
خدا گواہ ہے کہ کلام الٰہی کے تیسوں سپا رے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نطق اقدس سے ہی ظاہر ہر نے والی عبا رت ہیں ۔
(نعت نمبر : حصہ اول ، ص ۴۱۳، ماہنامہ الرشید لاہور )
دارالعلوم دیوبند کے بانی مو لا نا قاسم نا ناتوی لکھتے ہیں :
جو تو اسے نہ بناتا تو سارے عالم کو
نصیب ہو تی نہ دولت وجود کی زنہار
طفیل آپ کے ہیں کا ئنا ت کی ہستی
بجا ہے کہیے اگر تم کو مبد أ الآثا ر
لگاتا ہاتھ نہ پتلا کو ابو البشر کے خدا
اگر ظہور نہ ہوتا تمہارا آخر کار
(قصیدۂ بہاریہ ، ص ۱۲)
دوسری جگہ قصائد قاسمی میں مولانا محمد قاسم ناناتوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو’’ نور خدا ‘‘ لکھتے ہیں :
رہا جمال پہ تیرے حجاب بشریت
نجانا کو ن ہے کچھ بھی کسی نے بجز ستار
کہا ں وہ رتبہ کہا ں عقل نارسااپنی
کہا ں وہ نور خدا اور کہاں یہ دیدہ زار
(قصائد قاسمی ، بحوالہ تبلیغی نصاب ، فضائل درود شر یف ،ص۱۲۴)
آخرمیں اس پرنور موضوع پر دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ بھی ملاحظہ کرلیں !
یہ بات قر آن میں نہیں ہے ، البتہ حدیث قدسی میں اس طرح کی بات ملتی ہے کہ آپ نہ ہو تے تو زمین و آسمان کو اور اس پوری کائنات کو پیدا نہ کرتا ، ساری کائنات آپ ہی کی وجہ سے اللہ نے پیدا فرمائی ہے ، ظاہری الفاظ کے متعلق بعض حضرات نے حد یث کو موضوع بتایا ہے مگر بالمعنی یہ حدیث صحیح ہے ۔ (فتویٰ دارالعلوم دیوبند ،جواب نمبر :۱۵۹۸۰۸)
حضرت ابو ہریرہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فیصلہ کن خبر :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کنت اول النبیین فی الخق وآخرھم فی البعث
میں پیدا ئش کے اعتبار سے تمام نبیوں میں اول ہوں اور بعثت کے لحاظ سے تمام نبیوں میں آخر ہوں ۔
(ابن کثیر ، جلد ۸ ، ص، ۴۸)
اسی مفہوم کی ایک روایت حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرسلا مر وی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا:
انما بعثت فاتحا خا تما ۔یقینا میں دریا ئے رحمت واکر نے اور سلسلہ نبو ت و ر سالت کو ختم کر نے کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں ۔ (وروی احمد فی مسندہ ، ج ۳، ص ۳۸۷)
جہاں آپ خلقت و نبو ت کے اعتبار سے اول ہیں اسی طر ح سلسلہ نبوت و رسالت کے خاتم بھی ہیں مفصل بیان آگے آئے گا ۔
نبوت ختم ہے تجھ پر ، رسالت ختم ہے تجھ پر
تیرادیں ارفع و اعلیٰ ، شر یعت ختم ہے تجھ پر
(ارشاد عر شی)
ترسیل: صاحبزادہ محمد مستجاب رضا قادری رضوی پپرادادنوی
رکن : افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی

مجاہد ملت کون ؟از قلم۔ خلیفٸہ حضرت سید تفہیم الاسلام قادری شیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا مفتی منیر رضا جامعی قادری چشتی مجیدی مِدناپوری

بندوں کی ہدایت و رہنماٸ کے لۓ ہر زمانے میں انبیاۓ کرام مبعوث ہوتے رہے ، اسی سلسلۂ نور کی آخری کڑی بنکے ہمارے نبی سیدنا مُحَمَّد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تشریف لائے ان کے بعد اب کوئی نیا نبی نہیں آسکتا تولوگوں کی ہدایت ورہنماٸ کی عظیم ذمہ داری دو گرہوں کے سپرد کر دی گٸ ان میں سے ایک تو علماۓ کرام کی مقدس جماعت ہے اور ایک اولیاۓ کرام کا نورانی قافلہ ہے انہیں اولیاۓ کرام میں سے ایک مشہور و معروف نام حضرت مجاھد ملت کا ہے۔
اولیاۓ کرام کے تعلق سےاللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمادیا ہے کہ ” سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ ہی غم”۔(پ،11،سورہ یونس)
حضور مجاہد ملت کی ولادت 8/ محرم الحرام 1322ھ بمطابق 22/مارچ 1904ء میں ہوئی۔اور وصال مبارک 6/جمادی الاول 1401ھ بمطابق 13/مارچ 1981ء میں ہوا۔ آپ کی 78 سالہ زندگی میں سے 28/سالہ زندگی تعلیم و تربیت کے لیے نکال دیۓ جائیں تو 50/سال بچ جاتے ہیں۔یعنی آپ پورے پچاس سال تک پورے آب و تاب کے ساتھ مذہب و مسلک کی ترویج و اشاعت اور قوم وملت کی فلاح کامیابی کے لئے نمایاں خدمات انجام دیتے رہے، جب جہاں جیسی ضرورت پیش آئی آپ نے ملک وملت کے لئے خود کو پیش کیا۔ آپ کے وجود کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جو دینی، ملی، علمی اور سیاسی خدمات کے تابندہ نقوش سے خالی ہو۔ آپ کے دینی ملی اور جماعتی درد کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے آپ جس شہر میں جاتے تھے قیام کے لیے کسی مسجد کا انتخاب فرماتے۔ عقیدتمندوں کی جماعت یہ چاہتی کہ حضور کسی کے گھر پرقیام کریں ۔ عقیدتمندوں کو آپ جواب دیتے کہ گھر کے دروازے عموماً دس بجے رات میں بند ہوجاتے ہیں لیکن خدا کے گھر کے دروازہ ہر وقت کھلے رہتے ہیں۔ ہماری ضرورت قوم کو نہ جانے کس وقت پیش آجائے۔گھر میں قیام کرنے سے صاحب خانہ کو ہمارے لئے پوری پوری رات بیدار رہنا ہوگا اوریہ دقت طلب کام ہے۔ مسجد میں نہ آنے کی پابندی ،نہ جانے کی پابندی، مصلحین امت کی تاریخ میں ایسی مثال بہت کم ملے گی آپ کی اس طرزِ زندگی پر جس قدر غور کیجئے حیرانیاں بڑھتی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔آپ نے اپنی دینی، ملی، علمی اور سیاسی خدمات سےایک عالم کو متاثر کیا ہے
بلا شبہ آج عہدکے مصلحین امت کے لیے آپکی زندگی کا ہر لمحہ مشعل راہ ہے،
حضور مجاہد ملت علم و عمل،عشق وعرفان اور ایمان وایقان کی اس منزل رفیع پر فائز تھے جہاں تک رسائی کے لئے بڑے بڑے صاحبان فضل و کمال منتظر کرم ایستادہ رہتے ہیں
علوم و فنون کی کوئی ایسی شاخ نہیں،عشق وعرفان کی کوئی ایسی سرحد نہیں،جرات وہمت کی کوئی فصیل نہیں اور زہد و پارسائی کی کوئی ایسی منزل نہیں جہاں آپ نے اپنے وجود مسعود کا احساس نہ دلایا ہو۔اگر آپکی حیات کے سنہرے اوراق الٹے جائیں،تاریخ کے دفاتر کھنگالے جائیں اور زمین کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے ‌آپ کے نقوش یکجا کیے جائیں تو حکمت ودانائی کے درجنوں ابواب مرتب ہوسکتے ہیں، آپکی کتاب حیات کا ہر ورق چاند کی چاندنی سے زیادہ صاف وشفاف اور سورج کی طرح درخشاں و تابندہ ہے، حضورمجاہد ملت یقین محکم، عمل پیہم ،محبت فاتح عالم کی عملی تفسیر تھے، حوادث سے الجھتے ہوۓ مقاصد تک پہنچنا انکی فطرت تھی، انکی ذات معمار سنیت بھی تھی اور شعار سنیت بھی۔ زمین پر بیٹھ کر افلاک کی وسعتوں میں ٹہلنا آپ کے معمولات میں داخل تھا۔ آپ کی ذات جماعت اہلسنت کے لیے انعام الہی بھی تھی اوراسرار الہی بھی، آپ کو آپکے عہد نے نہیں سمجھا، آپکو آپکا عہد سمجھ لیتا تو بر صغیر میں آج مسلمانوں کی تاریخ مختلف ہوتی، جس طرح ماضی میں آپ کے نقوش پا مینارہ نور تھے،اسی طرح آج بھی ہیں اور انشاءاللہ قیامت تک مینارہ نور بنے رہیں گے، آج کی قیادت آپکے نقوش حیات کو رہنما بناکر جماعتی مسائل کی بہت ساری پیچیدہ گتھیاں سلجھا سکتی ہے۔آپکی زندگی کے تمام تر نقوش روشن ہیں لیکن ان نقوش کو اپنی حیات کا حصّہ بنانے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ آپکی ذات تاحیات فانوس عشق وعرفان کی صورت میں روشن رہی۔ آپ نے جماعت اہلسنت کو وقار و اعتبار بخشا ہے اسکی کوئی دوسری مثال پیش کرنا بہت مشکل ہے، باطل قوتیں آپ کے وجود سے ہراساں رہا کرتی تھیں۔ بلا ضرورت شرعیہ کسی بھی باطل قوت سے اشتراک کے آپ سخت مخالف تھے۔
مجاہد ملت کی بیشمار خصوصیات میں ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ نے مسند درس و تدریس پر بیٹھ کر نہایت قیمتی اور باصلاحیت علماء کی جماعت تیار کی۔ فرقہ باطلہ اور دوسرے مذاہب کے درمیان دین اسلام کی شوکتوں کو اجاگر کیا۔آپکی زندگی کے بیشتر لمحات حمایت حق اور اماتت باطل میں گزرے۔آپ نے قدم قدم پر قوم وملت کو بالغ شعور کا اجالا اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں زندگی گزارنے کا ہنر عطاکیا۔آپکی ذات میں درد ملت کو مجسم دیکھا جاسکتا ہے۔
گود سے گور تک کا کوئی لمحہ آپکا خدمت دین متین سے خالی نہیں ملتا۔آپکی زندگی کی ہر سانس سے اتباع شریعت کی خوشبو پھوٹتی ہے۔جبھی تو ڈاکٹر علامہ اقبال فرماتے ہیں؀
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کو ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
حضور مجاھد ملت نے کبھی ظلم کے خلاف مصلحت سے کام نہ لیا بلکہ حق کی اواز بن کر ہمیشہ گرجتے اور برستے رہے یہی وجہ ہے کہ آپ اکثر جیل میں ہوتے۔آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسی لئے اپنے حق کی آواز بلند کرنے کے لئے اور ظلم کا سر کچلنے کے لئے باضابطہ طور پر ایک محاذ کھڑا کررکھا تھا جسے وہ خاکساران حق کا نام دیا تھا
جو نہایت منظم طریقے سے اپنا کام انجام دے رہا تھا
سرکار مجاھد ملت تنہا یہ بوجھ قوم وملت کی سربلندی کے لئے اٹھاتے تھے اور اپنے جیب خاص سے اس صرفے کو انجام دیتے تھے۔
مجاہد ملت جس دور میں اپنے مجاھدانہ کردار وعمل سے ملک وملت کی عظیم خدمات انجام دے رہے تھے اس دور میں سواد اعظم اہلسنت وجماعت کے بڑے بڑے علماء وفضلاء صاحبان شریعت وطریقت موجود تھے مگر مجاہد ملت پیرانہ سالی کے باوجود نوجوانوں کی طرح ہر مسئلے کے حل کے لئے تن تنہا میدان میں پہاڑ بنکر کھڑے ہوجاتے۔
مجاھد ملت کے ہم عصر علماء وصاحبان بصیرت منھ بھر بھر کے دعائیں دیتے
اور من ہی من میں اعلیٰ حضرت کا شعر گنگنا اٹھتے۔
کیا دبے جس پہ حمایت کا ہو پنجہ تیرا
شیر کو خطرے میں لاتا نہیں کتا تیرا

محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا… ازقلم:محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی صدر افتا :محکمہ شر عیہ سنی دارالافتاوالقضا ، میراروڈ ممبئی


جو احادیث میں نقل کرنے جارہا ہوں ان احادیث کر یمہ کو صرف اہل عشق ، اہل وفا ، اہل محبت اور اہل ایمان پڑھیں وہ لوگ ہر گز نہ پڑ ھیں جو احادیث میں ضعف کا معنیٰ نکال کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں تنقیص کا پہلو ڈھو نڈ تے ہیں جب کہ محدثین کے نز دیک یہ قاعدہ مسلم ہے کہ رواۃ میں ضعف ممکن ہے لیکن متن احادیث میں اگر شرعا خلاف اسلا م باتیں یا حکم وارد نہیں تو معنا فضائل کے باب میں وہ احادیث قابل قبول ہیں ۔ 
سلفیوں کاایک بڑا گر وہ اس بات پر مصر ہے کہ اللہ سبحا نہ و تعالیٰ نے سب سے پہلے ’’قلم ‘‘ کی تخلیق فرمائی ہے اور اس پر وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں کہ تخلیق محمدی کا جو مرحلہ ہے وہ قلم کے بعد ہے ۔
الحمد للہ ! ہم اہل سنت ، اہل جنت اور اہل محبت متفقہ اس با ت کے قائل ہیں کہ تخلیق خلق میں تخلیق محمدی کو اولیت حاصل ہے ۔ سب سے پہلے جس چیز کی تخلیق عمل میں آئی وہ نور محمدی ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنے محبوب دانائے غیوب احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ 

صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق فرمائی اس کے بعد ہی لوح ، قلم ، عر ش و کرسی ،فرشتے ، جن و انس ، زمین و آسمان ، آب و ہوا و دیگر مخلوقات کو پیدا فرمایا اب مسرت و شادمانی میں غوطہ زن ہو کر وہ حدیثیں پڑ ھیں جن میں آپ کی تخلیق کو اولیت حاصل ہے ۔
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک نے حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فر ما ئی :یا عیسیٰ آمن بمحمد وأمر من ادرکہ من امتک ان یؤمنو ا بہ فلولا محمد ما خلقت آدم ولولا محمد ما خلقت الجنۃ ولاالنا ر ۔ یعنی اے عیسیٰ ! محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایما ن لاؤ اور اپنی امت میں سے ان کا زمانہ پا نے والو ں کو بھی ان پر ایمان لا نے کا حکم دو ۔اگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہو تے تو میں نہ آدم کو پیدا کرتا اور نہیں جنت و دوزخ بناتا ۔ (مواھب لدنیہ، ۲ ؍۲۷۱، سیر ت حلبیہ ، ۳؍۴۲۲)
حضرت امام بوصیری ر حمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی روشنی میں عشق محبت میں ڈوب کر یوں درودو سلام کا ہد یہ پیش کرتے ہیں :
مو لای صل وسلم دآئما ابدا
علیٰ حبیبک خیر الخلق کلھم
سید نا ومولا نا قد ما یا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یعنی ہما رے سر دار اور ہما رے آقا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے اول ہیں ۔
عاشق رسول ڈاکٹر اقبال عشق کی بولی میں یوں نغمہ سرا ہیں ۔
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فر قاں وہی یاسیں و ہی طہٰ
اہل سنت کے جلیل القدر عالم و مصنف محمد نعیم نگوروی اس حد یث کی نفیس ترجمانی کر تے ہو ئے یو ں رقم طراز ہیں :
ظہور نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کا ئنا ت میں کچھ نہ تھا ، نہ زمیں نہ ز ماں ، نہ مکیں نہ مکاں ، نہ چنیں نہ چناں، نہ عیاں نہ نہاں، نہ ایں نہ آں ، نہ زباں نہ بیاں ، نہ منزل نہ نشاں ، نہ بہار نہ خزاں ، نہ یہاں نہ وہاں ، نہ جدھر نہ کدھر ، نہ ادھر نہ ادھر ، نہ شجر نہ ثمر ، نہ ناز نہ گلزار ، نہ انکار نہ اقرار، نہ قافلہ نہ سالار ،نہ رنگ نہ روپ ، نہ سایہ نہ دھوپ ، نہ سوز نہ ساز ، نہ نشیب نہ فراز ، نہ گلشن نہ صحرا ، نہ ہوا نہ فضا ،نہ آہ نہ بکا ، نہ بلبل نہ چہک ، نہ پھو ل نہ مہک ، نہ غنچے نہ چٹک ، نہ پتے نہ کھڑک ، نہ عرش نہ فرش ، نہ کرسی نہ تخت ، نہ لو ح نہ قلم ۔
(رسول پا ک کے اسما ئے گرامی مع تشریح ، ص ۳۴۶)
امام عشق و محبت مجد د دین و ملت اعلیٰ حضرت فا ضل بر یلوی ر حمتہ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہو ں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
امام محمد بن یو سف صالحی شامی رحمتہ علیہ اپنی مایۂ ناز کتاب ’’سبل الھدیٰ والرشاد فی سیر ۃ خیر العبا د ‘‘میں جو سیر ت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مو ضوع پر نہا یت جامع ہے اس کتاب میں آپ ایک باب کا نام ہی یہ رکھا ہے ۔’’خلق آدم وجمیع المخلوقات لا جلہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘یعنی حضرت آدم علیہ السلام اور ساری مخلوق کا تخلیق کیا جا نا یہ سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ہے ۔یہ وہ باب ہے جس میں مذکورہ بالاروایت نقل کر نے کے بعد لکھتے ہیں کہ امام جمال ا لدین محمود بن جملہ رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فر ما یا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی اور نبی یا کسی فر شتے کو یہ فضیلت حا صل نہیں ہو ئی ۔
(سبل الھدیٰ والر شاد ،۱؍ ۷۴)
اس با ب میں میں آپ کو ایک ایسی حد یث پیش کر نے جا رہا ہوں جسے علما حد یث جبر ئل بھی کہتے ہیں ایک مر تبہ حضرت سید نا جبر ئل امین علیہ السلام با رگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حا ضری کا شر ف حا صل کیا اور یو ں عر ض گزار ہو ئے :آپ کا رب ارشاد فر ما تا ہے : ولقد خلقت الدینا واھلھا لا عر فھم کرامتک ومنزلتک عندی ولولاک ماخلقت الدینا ۔یعنی بے شک میں نے دنیااور اہل دنیا کو اس لئے پیدا فر ما یا ہے کہ اے محبوب ! آپ کی قدرو منزلت جو میرے نز دیک ہے وہ انہیں بتا ئو ں اور اگر آ پ نہ ہو تے تو میں دنیا کو پیدا نہ فر ما تا ۔
(خصائص کبریٰ ،ج۲،۳۳۰)
عاشق رسول امام اہل سنت قاطع شر ک و بد عت اعلیٰ حضرت فا ضل بر یلوی ر حمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی اپنے ایک شعر میں یو ں وضا حت کر تے ہیں کہ :
ہو تے کہاں خلیل و بنا کعبہ و منیٰ
لو لاک والے صاحبی سب تیرے در کی ہے
مواھب لدنیہ میں ہے کہ جب اللہ پا ک نے حضرت سید نا آدم علیہ السلام کو پید ا فر ما یا تو آپ نے عر ش پر نو ر محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملا حظہ فر ما کر با رگا ہ خداوندی میں عر ض کی :اے میرے رب ! یہ نو ر کیسا ہے ؟اللہ پا ک نے ارشاد فر ما یا :ھذا نور نبی من ذریتک اسمہ فی السماء احمد فی الارض محمد لولاہ ما خلقتک ولاخلقت سما ء ولا ارضا ۔یعنی یہ آپ کی اولاد میں سے ایک نبی کا نو ر ہے جن کا آسمان میں مشہو ر نا م احمد ہے جب کہ زمین میں محمد ہے اگر وہ نہ ہوتے تو میں نہ آپ کو پیدا کر تا اور نہ نہیں آسمان و زمین کو بنا تا ۔
(مواھب لدنیہ ، ج۱، ۳۵؍ زرقانی علی المواھب ، ج ۱ ، ص ۸۵)
نعت مقدس کی مشہور کتاب ’’شما ئم بخشش ‘‘کا ایک عشق سے معمور شعر ہے جو اس حدیث کی ترجمانی کرتا نظر آرہا ہے ہزار سلام ہے ایسے عاشق رسول پر جو حضور کی تعریف و تو صیف میں یو ں رطب اللسان ہیں :
زمیں آسماں کچھ بھی پیدا نہ ہو تا
نہ ہو تی جو منظور خلقت تمہا ری
کتاب ’’جواہر البحار ‘‘میں ایک حد یث قد سی نقل ہے کہ :لو لا ک ما خلقت سما ء ولا ارضا ولا جنا ولا ملکا ۔یعنی اے محبوب ! اگر آپ نہ ہو تے تو میں آسمان و زمین اور جنات و فر شتو ں کو پیدا نہ فر ما تا ۔گو زمین و آسمان جن و ملک سب کی تخلیق آپ کی تخلیق کا صد قہ ہے سب میں آپ ہی کا نو ر ہے ،آپ ہیں تو سب ہیں اور آپ نہ ہو تے تو کچھ بھی نہ ہو تا ۔اسی لئے امام اہل سنت قاطع شر ک و بد عت مجد د دین و ملت امام احمدر ضا خاں فر ما تے ہیں :
زمیں و زماں تمہارے لئے مکین و مکا ں تمہارے لئے
چنین و چنا ں تمہا رے لئے بنے دو جہا ں تمہا رے لئے
دہن میں زباں تمہا رے لئے بدن میں ہے جاں تمہارے لئے
ہم آئے یہاں تمہارے لئے اٹھیں گے وہا ں تمہارے لئے
فرشتے خدم رسول حشم تمام امم غلام کرم
وجو دو عدم حدوث و قدم جہا ں میں عیاں تمہارے لئے
مذکورہ بالا تما م احا دیث سے یہ علم ہو چلا کہ اگر آپ تشر یف نہ لا تے تو کا ئنا ت کی کوئی شئی وجو د میں نہ آتی ۔اگر آ پ نہ ہو تے تو گلو ں کی مہک نہ ہوتی ، نہ چا ند کی چا ندنی ہوتی ، نہ غنچوں کا تبسم ہوتا ، نہ بلبل کا ترنم ہو تا ،نہ سور ج کا جلال ہو تا نہ چا ند کا جمال ہوتا ۔اسی مضمون کو کسی شاعر نے یوں بیان کیا ہے ۔
محمد نہ ہو تے تو کچھ بھی نہ ہوتا
یہ چراغ بریں یہ قمر یہ ستارے
سمندر کی طغیانیاں یہ کنارے
یہ دریا کے بہتے ہوئے صاف دھارے
یہ آتش کی سوزش یہ اڑتے شرارے
محمد نہ ہو تے تو کچھ بھی نہ ہوتا
عنادل کی نغمہ سرائی نہ ہوتی
ہنسی گل کے ہو نٹوں پہ آئی نہ ہوتی
کبھی سطوت قیصرائی نہ ہوتی
خدا ہو تا لیکن خدائی نہ ہوتی
محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا
یہ راتوں کے منظر یہ تاروں کے سائے
خراماں خراماں قمر اس میں آئے
میرے قلب مخزوں کو آکر لبھا ئے
لٹا تا ہو ا دولت نور جائے
محمد نہ ہو تے تو کچھ بھی نہ ہوتا
نہ بطن صدف میں در خشندہ ہوتی
نہ سبزی قبا ئو ں میں ملبو س گیتی
فلک پہ حسیں کہکشاں بھی نہ ہو تی
زمیں کی یہ پر کیف سو تا نہ سوتی
محمد نہ ہو تے تو کچھ بھی نہ ہو تا

ترسیل فکر: محمد شاھدرضا ثنائی عفی عنہ
رکن اعلیٰ : افکار اہل سنت اکیڈمی ممبئی

علماء کرام و ائمہ مساجد کی زبوں حالی کا زمہ دار کون؟تحریر، جمال اختر صدف گونڈوی

ایک وقت وہ بھی تھا جب اس ملک کا پہلا وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد صاحب کو بنایا گیا تھا ، انقلاب زندہ باد کے نعرے کے ساتھ آزادی ہند کی مشعال ملک کے ہیرو مولانا حسرت موہانی نے سنبھالی تھی، انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیکر علامہ فضل حق خیرآبادی کالا پانی کی سزا کاٹ رہے تھے ، لیکن انکے فتویٰ کا اثر اتنا تھا کہ انگریزوں کی نیند حرام ہو گئ تھی، اٹھارہ ہزار حق گو علماء کو درختوں پر لٹکا دیا گیا تھا،
رہتی دنیا تک یہ سارا کچھ تاریخ کے پنوں میں محفوظ رہیگا،
مگر افسوس کہ موجودہ دور میں علمائے کرام کی علمی بساط و حیثیت دونوں کی قدر نہیں ہے،
اسکے پیچھے کوئ باطل قوت کار فرما نہیں بلکہ بعض علمائے کرام خود ہیں،
انکی صاف دلی اور حد سے زیادہ نرمی نے نا اہلوں کو انکی(علماء) جگہ حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوئ، مسجدوں میں صدر ،سکریٹری ،خزانچی، سب کے سب غاصب و فاسق ہی ہیں اور وہ لوگ اماموں کے سروں پہ غزاب بنے بیٹھے ہیں، ایسے ہی درگاہوں پر بھی غنڈوں کا قبضہ نظر آتا ہے جہاں چادر گاگر کے نام پر زائرین سے زبردستی پیسے وصول کئے جاتے ہیں، وہاں کسی میں ہمت نہیں کہ انکے خلاف آواز بلند کر سکے،
مسلمان یا تو مسجد یا پھر درگاہ ان دونوں جہگوں پر سب سے زیادہ جاتا ہے،
دین کا کام ان دونوں جہگوں سے بہت اچھا ہو سکتا تھا ، جہاں آمدنی بھی ہے اور وسائل بھی،
لیکن کروڑوں روپے درگاہوں پر ہر سال اکٹھے ہوتے ہیں اور ان پیسوں سے سے کچھ خاندان پلتے ہیں ، انکے بچے لگژری گاڑیوں عالیشان بنگلوں اور ملک بیرونی ممالک میں سیر سپاٹا کرتے نظر آتے ہیں،
بڑے شہروں میں بھی مسجد کی آمدنی کم نہیں ہوتی ،
وہاں بھی ٹرسٹی اپنی غنڈہ گردیوں سے اللہ کے گھر کا نظام خراب کئے ہوئے ہیں،
مسجد میں نہ تو لائبریری نظر آئیگی نہ ہی مہمان خانہ بلکہ اگر بھولا بھٹکا مسافر مسجد میں چلا جاتا ہے تو اسکو ایسے بھاگاتے ہیں جیسے کچھوچھہ سے بھوت بھگایا جاتا ہے،
اب مدرسوں کی طرف رخ کرتے ہیں، چند مدارس کو چھوڑ کر بقیہ مدسے تجارت ہی کے لئے کھولے گئے ہیں ، نہ تو طلبہ کی تعلیم کا صحیح انتظام ہے اور نہ ہی دعوت و تبلیغ کے شعبے ،
کسی طرح دستار بندی کرکے فارغین کو ٹائٹل دے دیا جاتا ہے کہ تم آج سے مولانا ،مفتی،حافظ قاری ہو گئے،
یہی لوگ جب مدرسے سے باہر نکلتے ہیں تب انہیں احساس ہوتا ہے کہ دنیا کتنی آگے جا چکی ہے، انکے لئے روزگار کا بڑا مسلہ در پیش ہوتا ہے،
مسجدیں پہلے سے پر ہیں مدرسوں میں جگہ نہیں اب کہاں جائیں کیا کریں،
نہ کوئ ہنر ہے اور نہ ہی کوئ ایسی ڈگری جس سے انہیں انکی حیثیت کے مطابق کام مل سکے،
ذریعہ معاش کے لئے چند مہینوں بھٹکنے کے بعد کوئ سعودی دبئ تو کوئ دیگر شہروں میں وہ کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جسکی اسے توقع نہیں تھی،
انہیں میں کچھ شاعر بن جاتے ہیں تو کچھ خطیب اور کچھ خانقاہوں کے جاروب کش،
ملک میں اب بھی اکثر مساجد خانقاہوں کے کنٹرول میں ہیں ، لیکن وہاں بھی اماموں کو قابل گزارا اجرت نہیں ملتی، خانقاہی مدرسوں کے اساتذہ کا بھی یہی حال ہے ،
جبکہ وہاں کی آمدنی دیگر مدارس سے گئ گنا زیادہ ہوتی ہے ،
لیکن افسوس کہ علمائے کرام کے بارے میں سوچنے والا کوئ نہیں، جبکہ مستری اپنی اجرت مانگنے میں نہیں ڈرتا، گاڑی والا کرایے میں کوئ کمی نہیں کرتا، ڈاکٹر دوا سے پہلے اپنی فیس لے لیتا ہے،
بے چارے ان علماء کو حق بھی نہیں کہ یہ قابل گزارا اجرت کی بات کر سکیں،
فوراً انہیں نکال کر اس سے کم تنخواہ میں امام رکھ لیا جاتا ہے،
اب ذرا ان سادہ دل بندوں کا بھی حال لے لیا جاے جنہیں علمائے کرام کہتے ہیں،
انہیں حضرات میں سے کچھ لوگوں نے مذہبی رہنماؤں کے بارے میں قوم کو عقیدہ دیا کہ انکے بغیر جنت نہیں مل سکتی، انکے چہرے کو دیکھ لینے سے ہزاروں سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، جسکا کوئ پیر نہیں اسکا پیر شیطان ہے، عرس سراپا قدس میں شرکت لازمی و باعث نجات ہے، جس نے اپنے شیخ کو خوش کر لیا گویا اس نے خدا کو خوش کر لیا، اس قسم کی غیر شرعی باتوں سے عوام کا ذہن بنایا گیا،
اب عوام نے سوچا کہ جب سب کچھ میاں ہی کرینگے تو علما کا کیا کام ؟
ان سے وہی کام لو جس میں یہ ماہر ہیں ، لہاذا انکو معمولی اجرت پہ مکتب میں ،مدرسوں میں، مسجدوں میں بطور ملازم رکھ لیا ، ساری عزت ساری نوازشات سب میاں کے لئے مختص ہو گئیں،
سال سال بھر محنت اساتذہ کریں لیکن سالانہ اجلاس میں صرف پگڑی باندھنے کے لئے خطیر رقم خرچ کرکے میاں کو بلایا جاتا ہے اور اسٹیج پر پہنچتے ہی سارا سسٹم چینج کر دیتے ہیں،
خطیب قرآن و حدیث کے لبریز مدلل خطاب کر رہا ہوتا ہے اچانک میاں کی انٹری ہوتے ہی آن واحد میں سارا موضوع تبدیل ہو جاتا ہے ،
اب یہاں سے وہ کام شروع ہوتا ہے جہاں سے انکی بربادی شروع ہوئ تھی،
وہی پرانا گھسا پٹا موضوع، انکا چہرہ دیکھو، انکا ہاتھ چومو، جنت انکی جاگیر ہے، یہ فلاں کی اولاد ہیں انکا شجرہ ہی بخشش کے لئے کافی ہے وغیرہ وغیرہ،
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلدی سے جلسے کو سمیٹ دیا جاتا ہے اور دستار بندی کی رسم شروع کر دی جاتی ہے،
طلبہ جنکو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ یہ ہار پھول چمک دمک صرف ایک رات کے لئے ہیں ،مستقبل بہت ہی تاریک ہے، دستار بندی ختم ہو جاتی ہے لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں،
اب صاحبان دستار باہر نکل کر دین کا کام کریں یا گھر کا خرچ دیکھیں،
کیونکہ انکے پاس کوئ ذریعہ معاش تو ہوتا نہیں، اور نہ ہی وہ ڈگری سماج مانتا ہے، یہ دنیا کی پہلی ڈگری ہوگی جو صرف مسجد مدرسوں میں ہی کام آتی ہے باقی سماج میں اسکی کوئ قیمت نہیں اور نہ ہی اسکے لئے کوئ جگہ ہے،
علماء کی زبوں حالی کو دیکھکر آج پڑھا لکھا طبقہ اپنے بچوں کو مدرسوں میں نہیں پڑھاتا، اور نہ ہی وہ خود جلسہ جلوس میں جانا پسند کرتا ہے،
ایک ننگے پاؤں پیدل آدمی سوار کو کیا نصیحت کر سکتا ہے، اور اسکی نصیحت کتنا اثر انداز ہوگی یہ اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں،
اب تو اکثر دولت مندوں نے ہمارے مدرسوں کو چندہ دینا بھی بند کر دیا ہے ، انکے سوسائٹی میں خود کوئ نہ کوئ چیریٹی تنظیم ہوتی ہے وہ وہیں تعاون کر دیتے ہیں،
اب تو شہروں میں جگہ جگہ عوام نے زکوٰۃ فاؤنڈیشن بنا لیا ہے اللہ جانے وہ لوگ اس رقم کا کہاں اور کیسے استعمال کرتے ہونگے،
ہمیں اپنے مدرسوں میں عصری تقاضوں کے تحت نصاب میں ترمیم کرنی ہوگی، یونیورسٹیوں سے مدرسوں کا تعلق مظبوط ہونا چاہئے تاکہ گاہے بگاہے مدرسوں کے پروگرام میں وہاں کے اسکالرز بچوں کو گائیڈ کرتے رہیں اور بعد فراغت آسانی سے یونیورسٹیوں میں داخلہ بھی ہو جایا کرے،
اسکے لئے بھی مدرسوں کو اضافی رقم کا انتظام کرنا ہوگا،
خانقاہوں سے علمائے کرام کا وفد مطالبہ کرے کہ وہ اس طرز پر مدرسوں کو چلائیں ،
افسوس کہ تعلیم میں وہ قوم ہے پیچھے،
جس قوم کا آغاز ہی اقرا سے ہوا تھا،
ٹرسٹیان مساجد و عمائدین شہر کے ساتھ علمائے کرام میٹنگ کریں اور ائمہ مساجد کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے دباؤ بنائیں،
جلسوں میں لبرل و کمیونل خطیبوں پر پابندی لگائیں، پیشہ وارانہ گویوں کو بھی سختی سے روکا جاے،
سوشل میڈیا پر آپسی اختلاف کو شیئر کرکے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مسلہ حل ہو جائے گا؟
نہیں بلکہ اس سے مزید مسائل کھڑے ہوتے جا رہے ہیں،
یہ سوشل میڈیا کی جنگ ہی کا نتیجہ ہے کہ لوگ سلسلوں میں بٹکر کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں،
اس پر علما کو بولنا چاہئے بلکہ میدانوں میں آکر اس کے لئے کام کرنا چاہئیے،
نہ سمجھوگے تو مِٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانوں،
تمھاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں،
مدرسوں کی کثرت اور تعلیم کی قلت پر بھی اگر بر وقت کچھ نہ کیا گیا تو اس کے بھی بہت خراب نتائج بھگتنے ہونگے،
کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ ہائ رڈار پر مدرسوں کو رکھا گیا ہے،
بنام مدرسہ ہماری گنتی دیکھی جا رہی ہے نہ کہ بنام تعلیم،
اسلئے غیر ضروری مدرسوں پر بھی روک لگانا ضروری ہے،

معاشرے کی اصلاح کیسے ہو؟از:محمد شمیم احمد نوری مصباحی خادم: دارالعلوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف، باڑمیر (راجستھان)

حدیث شریف میں ہے کہ “لوگوں میں بہتر وہ ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے” اور “دین ہر مسلمان بھائی کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کا نام ہے” لہٰذا ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کی نفع رسانی و خیر خواہی کے لیے کمر بستہ اور تیار رہنا چاہییے، معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہییے- اس سلسلے میں ہمارے علمائے کرام، قائدین دین و ملت موثر رول اور کردار ادا کرسکتے ہیں-

ویسے اگر معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کا احساس کرکے خود اوامر پر عمل پیرا اور منہیات سے پرہیز کرنے کے ساتھ لوگوں کی اصلاح کی ذمہ داری باقاعدہ نبھائے تو معاشرہ ہر طرح کی برائیوں سے محفوظ و مامون ہو جائے گا اور اگر ہمارے اور آپ کے اندر احساس ذمہ داری نہیں ہے تو اس بارے میں ہم سے مواخذہ ہوگا جیسا کہ حدیث رسول کا مفہوم ہے اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: “تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا، امام نگراں ہے اور اس سے اس کی رعایا (ماتحت) کے بارے میں باز پرس (پوچھ تاچھ) ہوگی، آدمی اپنے گھر کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا (گھر والوں) کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی اور عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا،خادم اپنے آقا(مالک) کے مال کا نگراں ہے اس سے اس کی نگرانی کے بارے میں پوچھا جائےگا، پس تم میں سے ہر ایک نگراں اور ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا” (متفق علیہ)

اس حدیث پاک میں اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے امت کے ہر شخص کو اپنے اپنے فرائض کی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جو اپنی ذمہ داریوں کے تئیں غفلت و لاپرواہی کرے گا وہ قیامت کے دن بارگاہ الٰہی میں جوابدہ ہوگا… اور جو ان ذمہ داریوں کی ادائیگی میں حساس اور کوشاں ہوں گے انہیں دوسری حدیثوں میں اللّٰہ کے رسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے دخولِ جنت اور ابدی سعادت کی بشارت وخوشخبری بھی دی ہے-

مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ایک مکمل دستور حیات عطا کیا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزارنے والا مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب و کامران اور دنیا و آخرت کی سعادتوں کا حقدار ہوتا ہے- اسلامی نظام زندگی کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے ہر گوشے اور انسانوں کے ہر طبقے کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں- کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے اور شادی بیاہ،تجارت و معیشت وغیرہ ہر طرح کے معاملات کے لیے دفعات و قوانین متعیّن ہیں- گویا انسانی ضرورتوں کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کے بارے میں اسلام نے کوئی رہنمائی نہ کی ہو، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اسلام سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ آمادہ ہو اور اپنا تعلق اپنے حقیقی خالق و مالک سے جوڑے اور اپنی ہر خواہش رب تبارک و تعالیٰ کے حکم کے سامنے قربان کر دے-

ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسلامی دستور حیات کا عملی نمونہ ہمارے لئے حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی حیات طیبہ اور آپ کا اسوۂ حسنہ ہے، صحابۂ کرام،تابعین عظام اور سلف وخلف نے سرکار دوعالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی سیرت طیبہ کو اپنے لیے آئیڈیل بنایا تو وہ زندگی کے ہر موڑ پر کامیاب و کامران رہے…آج اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمارا معاشرہ اسلامی طرز زندگی سے کوسوں دور نظر آتا ہے، اسلامی احکام و قوانین کا کوئی پاس ولحاظ نہیں، اور نہ ہی اپنے آقا و مولیٰ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی سیرت طیبہ کو زندگی کا نمونہ بنانے میں کوئی دلچسپی ہے، گویا شرمِ نبی اور خوفِ خدا دونوں ہم سے رخصت ہو چکا ہے… آج ہمارے معاشرے کی یہ بدلی ہوئی حالت کیوں ہے؟ ہمارے گھر کا ماحول غیر اسلامی کیوں ہے؟ ہمارے خاندان کا شیرازہ کیوں بکھر رہا ہے؟اور ہمارا معاشرہ اصلاح کی شاہراہ پر کیوں نہیں چل رہا ہے؟ اس کی وجہ صرف اور صرف دین اسلام سے دوری اور اصلاح معاشرہ کے پیغمبرانہ اصولوں سے انحراف اور بیزاری ہے-اصلاح معاشرہ کے لئے ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں اور ان کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کریں-

اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں حضور نبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے دو بنیادی اصولوں پر عمل فرمایا ایک تو یہ کہ آپ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس پر آپ خود عمل نہ فرماتے ہوں، آپ کے قول اور فعل میں تضاد نہ تھا، جو فرماتے تھے خود اس پر عمل فرماتے تھے، اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اصلاح معاشرہ کی کوئی بھی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اصلاح کرنے والا خود اس پر عمل نہ کرتا ہو، یہی وجہ ہے کہ حضورنبی اکرم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سے پہلے اور بعد بہت سے فلاسفہ اور حکما ومصلحین ایسے بھی گزرے جو وعظ و نصیحت کرتے رہے اور انہوں نے فلسفہ اور عقل و دانائی کی بنیاد پر اپنا لوہا منوایا، لیکن معاشرے پر ان کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا، ایسا صرف اس لئے ہوا کہ وہ دوسروں کو تو روشنی دیکھاتے رہے لیکن خود تاریکی سے باہر نہیں آئے، وہ لوگوں کو رحم و محبت کا سبق پڑھاتے رہے لیکن خود غریبوں کو ستاتے رہے-
اصلاح معاشرہ میں آپ کا دوسرا بنیادی اصول جھوٹ سے پرہیز کرتے ہوئے سچائی اور حق کے راستہ پر چلنا تھا، آپ ہمیشہ اپنے ماننے والوں کو جھوٹ سے بچنے کی تلقین فرماتے رہے اور خود بھی اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اپنے صحابہ کو بھی اس رزیل ترین فعل سے پرہیز کرنے کی تاکید فرماتے رہے- حضور نبی کریم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کا یہ وصف اس قدر نمایاں تھا کہ کفار و مشرکین بھی آپ کو صادق اور امین مانتے تھے… جھوٹ معاشرے کے بگاڑ کی ایک اہم ترین برائی ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں لعنت کے مستحقین میں جھوٹے کو بھی شامل کیا گیا ہے-
اب اصلاح معاشرہ کے تعلق سے ہم کچھ ایسے اہم امور اور اصول کو درج کریں گے کہ اگر ان پر عمل کر لیا گیا تو یقیناً ہمارے معاشرے کی سُدھار ہو جائے گی-

خود اپنی اصلاح کی فکر کرنا:-

اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر شخص پر خود اپنی اصلاح و سدھار کی ذمہ داری ہے، اگر معاشرے کا ہر شخص اس ذمہ داری کو محسوس کر لے اور اس کی ادائیگی کی فکر کرے تو معاشرے کی اصلاح اپنے آپ ہو جائے گی، کسی دوسرے کو تکلیف اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئے گی، اصل خرابی یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کے احساس سے بالکل خالی ہوچکے ہیں اور محض دوسروں کی اصلاح کی فکر میں رہتے ہیں، دوسروں کی اصلاح بھی یقیناً ایک اچھی بات ہے مگر اس سے پہلے خود کی اصلاح ضروری ہے، اس لیے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے انسان سے خود کی ذات کے متعلق سوال ہوگا، کسی دوسرے کے متعلق سوال کا مرحلہ بعد میں آئے گا،… حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کہ قیامت کے دن آدمی کے پاؤں اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ ہٹ سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے گا-

(1) اس کی عمر کے بارے میں کہ زندگی کے ماہ وسال اور اوقات کہاں گزارے؟…

(2) جوانی کے بارے میں کہ جوانی کس چیز میں کھوئی؟…

(3) مال کے سلسلے میں کہ مال کہاں سے کمایا؟…

(4) اور یہ کہ وہ مال کہاں خرچ کیا؟…

(5) اور یہ کہ جو باتیں وہ جانتا تھا ان پر کتنا عمل کیا؟… [ترمذی ج/2 ص/67]

جو لوگ دنیا میں اپنی اس انفرادی ذمہ داری سے سبکدوش ہوں گے ان کے لیے جنت کا وعدہ بھی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ سرکار دوعالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے صحابۂ کرام سےارشاد فرمایا: کہ اگر تم مجھ سے چھ باتوں کا وعدہ کر لو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں…

(1) جب بات کرو تو سچ بولو…

(2) جو وعدہ کرو اسے پورا کرو…

(3) اگر تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کرو…

(4) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو…(5) اپنی نگاہ نیچی رکھو…

(6) اپنے ہاتھوں کو ظلم سے روکو…

اسی طرح ایک روایت میں یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص مجھ سے اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے میں اس کے لئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں-

اپنے متعلقین اور اہل و عیال کے اصلاح کی کوشش کرنا:-

اپنی اصلاح کے بعد اب معاملہ اپنے متعلقین اور اہل و عیال کے اصلاح کا آتا ہے- عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مصلحین قوم و ملت اپنے گھر والوں اور اپنے متعلقین کی فکر تو کرتے نہیں اور پوری دنیا کی بد عملی پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں حالانکہ قرآن مقدس میں واضح انداز میں فرمایا گیا ہے [یاایھاالذین آمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا] ترجمہ: ائے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ- (سورۂ تحریم:6) اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی اصلاح کے بعد سب سے پہلے خود اپنے گھر والوں کے اصلاح کی ذمہ داری ہے، جو لوگ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں اور انہیں حسن اخلاق اور اعلیٰ عادات و اطوار سے آراستہ کرتے ہیں احادیث میں ان کی بڑی فضیلتیں آئی ہوئی ہیں-

اپنے ارد گرد،پاس پڑوس کے اصلاح کی فکر کرنا:-

اپنی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح کے بعد اب دوسروں کی اصلاح کا نمبر آتا ہے، سب سے پہلے اپنے پاس پڑوس کو دیکھیں کہ لوگ دین پر چل رہے ہیں یا نہیں؟ ان کے اخلاق و عادات کیسے ہیں؟ ان کے اعمال کس طرح کے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہوں- اس صورت میں ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ان کی صحیح رہنمائی کریں، دین کے اصولوں پر کاربند ہونے کے لیے ہم ان کی مدد کریں، اگر وہ تعلیم سے بے بہرہ اور کورے ہیں تو ہم انہیں تعلیم کی اہمیت بتا کر علم حاصل کرنے کی جانب رغبت دلائیں- اخلاق سے عاری ہوں تو ان کو اچھے اخلاق سکھائیں، ان کے معاملات زندگی خراب ہوں تو انہیں بتائیں کہ معاملات کے سلسلے میں شریعت کے کیا احکام ہیں؟- اور یہ ساری باتیں لعن طعن اور بےجا سختی کے انداز میں نہ کریں بلکہ یہ سارے کام الفت و محبّت اور نرمی و پیار کے میٹھے انداز میں کریں- صحابئ رسول حضرت ابزیٰ خزاعی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ “ایک دن سرکار دو عالم صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا نہیں کرتے، نہ ان کو علم سیکھاتے ہیں، نہ ان کو نصیحت کرتے ہیں، نہ اچھے کاموں کے لئے کہتے ہیں، اور نہ ہی ان کو برائی سے روکتے ہیں- اور لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے کچھ نہیں سیکھتے، نہ دین کی سوجھ بوجھ حاصل کرتے ہیں اور نہ ان سے عقل کی بات سیکھتے ہیں، اللّٰہ کی قسم لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو علم سیکھائیں، عقل کی باتیں بتائیں، ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں، اور لوگوں کو بھی چاہییے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے علم حاصل کریں اور اپنے اندر دین کی سمجھ پیدا کریں، اگر تم لوگوں نے ایسا نہ کیا تو میں عنقریب ہی تمہیں اس دنیا ہی میں سزا دوں گا”…(کنزالعمّال ج/3 ص/684)

سبھی مسلمانوں کی اصلاح کی کوشش کرنا:-

اپنی ذات، اپنے گھر والوں اور پاس پڑوس کے لوگوں کی اصلاح کے بعد عام مسلمانوں کے اصلاح کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے- اگر آپ مسلمانوں کو منکرات (برائیوں) میں مبتلا دیکھیں تو آپ کا فرض بنتا ہے کہ انہیں ان برائیوں سے(حتّی المقدور) روکیں، پھراس روکنے کے بھی مختلف درجے ہیں جیسا کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص خلافِ شرع کوئی بات دیکھے تو اسے اپنے ہاتھوں سے بدل دے، اگر ہاتھ سے نہ کر سکے تو زبان سے ہی اس امر منکر کے خلاف آواز بلند کرے اور اسے روکنے کی کوشش کرے، اور اگر زبان سے کہنے کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے ہی اس بات کو ناپسندیدہ سمجھے، اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے، گویا اگر دل سے بھی برا نہ سمجھے تو مسلمان یا صاحبِ ایمان کہلانے کا صحیح معنوں میں مستحق ہی نہیں ہے-

اب آئییے حضور سرور کائنات صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کی اصلاح معاشرہ کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ایک ایسا اصول ملاحظہ کریں کہ اس جانب اگر ہمارے مصلحین خصوصی دھیان دے کراصلاح کی کوشش کریں تو ان شاء اللّٰہ العزیز ہمارے معاشرے میں بہت حد تک بہتری آجائےگی-

ایمانِ محکم،عملِ صالح،خوفِ الٰہی اور فکر آخرت:-

ہمارے پیارے آقا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے کیسے اپنے معاشرے کی اصلاح فرمائی اور کن بنیادوں پر صحابۂ کرام کو کھڑا کیا کہ وہ زمانے کے مقتدا و پیشوا بن گئے- ایک ایسا معاشرہ جو جہالت اور گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، جہاں قتل و غارت گری کا رواج تھا، وہ لوگ راہِ راست سے اس حد تک بھٹکے ہوئے تھے کہ کوئی ان پر حکمرانی کرنے کے لیے تیار نہ تھا، ہمارے آقا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اس معاشرے کا نقشہ ہی بدل دیا- حضور نبی رحمت صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم نے اس معاشرے کو ایمان محکم، عمل صالح، خوف الٰہی اور فکر آخرت کی ایسی بنیادیں فراہم کیں جن کی وجہ سے پورا معاشرہ یکسر بدل گیا، وہ لوگ جو پہلے قاتل اور لٹیرے تھے وہ زمانے کے مقتدا اور پیشوا بن گئے ان کا معاشرہ جنت کا نمونہ بن گیا وہ قیصروکسریٰ جیسے عالمی طاقتوں سے ٹکرا کر فاتح رہے-
آج ہمارے حکمرانوں کا معاملہ ہو یا عوام کا،انفرادی زندگیاں ہوں یا اجتماعی نظم و نسق، یقین محکم کی قوت،کردار وعمل کی طاقت، خوفِ الٰہی کا زاد راہ اور آخرت کی فکر کی دولت سے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر محروم ہوگئے… جب ہمارے پاس ایمان و یقین کی بنیاد اور اخلاص پر مبنی جذبہ ہی نہیں، کردار و عمل کے اعتبار سے ہم کمزور ہوگیے، مرنے کے بعد کی زندگی کو بھول بیٹھے تو یہ وہ پہلی اینٹ ہے جو غلط رکھ دی گئی، اس اینٹ کو جب تک صحیح نہیں کیا جائے گا، اور ان چار بنیادوں پر اپنی اجتماعی و انفرادی زندگی کو لانے کی کوشش نہیں کی جائے گی، اس وقت تک اصلاح معاشرہ کا باضابطہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا- اس لیے ہمارے مصلحین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اصلاح معاشرہ کے وقت ان باتوں پر اپنی خصوصی توجہ رکھیں کہ سب سے پہلے ایمان کی مضبوطی پر دھیان دیں، اس کے ساتھ ہی ساتھ عمل صالح (نیک عمل) کی جانب لوگوں کو راغب کریں، اور لوگوں کے دل و دماغ میں خوف الٰہی و خشیّتِ ربّانی نیز فکرِ آخرت پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں- اس لیے کہ اگر کسی بھی مسلمان کے اندر یہ چیزیں پیدا ہوجائیں تو وہ از خود (اپنے آپ) اوامرِ شرعیہ کا عامل اور منہیات سے پرہیز کرنے کا خوگر ہو جائے گا-
دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے-آمین

برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر.. از:مولاناجمال اختر صدف گونڈوی

اس وقت ملک و بیرون ملک مخالفین اسلام باضابطہ خطرناک منصوبہ بندیوں میں منہمک ہیں اور انکی کوششیں کہیں نہ کہیں ہماری تخریب کاریوں کے اسباب بنتی نظر آئ ہیں،
اندرون ملک سب سے بڑی سازش یہ رچی گئ اور یہ پروپیگنڈہ پھیلایا گیا کہ مسلمان ہندوؤں سے نفرت کرتا ہے، جبکہ ہندوستان کا مسلمان ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ رہا، چاہے وہ ہندو ہو سکھ ہو عیسائی ہو چاہے جس مذہب سے تعلق رکھتا ہو بنام ہندوستانی سب کے ساتھ یکساں سلوک کا حامی رہا،
لیکن افسوس کہ خاص طور پر سوشل میڈیا ،الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے غلط استعمال کرواکر ایک خاص طبقے میں مسلمانوں کے خلاف زہر بھرا گیا، اور وہ زہر اتنا اثر پزیر ہوا کہ کبھی گاے کے نام پر تو کبھی بچہ چوری کے نام پر مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر مارا جانے لگا،
پچھلے دنوں حجاب پر خوب شور غوغا مچا کہ حجاب اسلام کا اشینشیل پریکٹس نہیں ہے تو پھر مسلم لڑکیوں کو حجاب کے لئے کیوں مجبور کیا جا رہا ہے ،
افسوس کہ ہم نے اسلام کی صحیح نمائندگی ہی نہیں کی،
ہم نے اسلام کو جسلہ جلوس چادر گاگر نیاز و فاتحہ تک محدود کر رکھا ،
اس سے پہلے بھی تین طلاق پر آواز اٹھی اور پارلیمنٹ سے ہوتے ہوے عدلیہ تک پہنچی ، جہاں طلاق پر باضابطہ قانون بنا دیا گیا، اب تین طلاق دینے والے مسلمان کو تین سال قید ہوگی،
جبکہ سات پھیرے لیکر شادی کرنے کے بعد اپنی بیوی کو چھور دینے والوں کے خلاف کوئ قانون نہیں بنا،
اتر پردیش میں مدرسوں کا سروے کرایا گیا اور امداد یافتہ مدارس کو احکام جاری کئے گئے کہ ہماری طے کردہ شرائط پر عمل درآمدگی کے بغیر کوئی چارہ نہیں،
سرکاری فرمان کے مطابق اب مدرسوں میں جن گن من کے ساتھ ساتھ وہ نصاب بھی شامل درس ہونگے جنکا ماضی میں دور دور تک تصور نہیں تھا،
حالانکہ میں شروع سے اس بات کی وکالت کرتا چلا آیا کہ مدرسوں میں عصری تقاضوں کے تحت اپنے نصاب میں ضروری ترمیم ضرور کرنی چاہئے ،
کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ زبوں حالی کے شکار مدرسوں سے فارغ التحصیل وہ لوگ ہیں جنکو صرف ایک زبان کی تعلیم دی گئ اور وہ اس زبان کو سیکھ کر جب باہر نکلے تو اس زبان کے جانکار و قدردان کی عدم موجودگی و ناقدری سے پریشان در بدری پر مجبور ہوئے اور مناسب کام نہ ملنے کی وجہ سے بے روزگاری کے شکار ہوتے نظر آ رہے ہیں،
صرف مسجد و مدرسہ کے لئے ہم نے تعلیم دی کی ہے ،
تو پھر مدارس و مساجد میں بھی اتنی جگہ نہیں کہ ہر سال پانچ ہزار سے زائد فارغین علماء و حفاظ کو ملازمت مل سکے ،
کیونکہ ہمارے یہاں دعوت و تبلیغ کا باضابطہ ادارہ نہیں جہاں سے قابل علماء کی ٹیم الگ الگ شہروں میں اس کام کو انجام دینے کے لئے نکلیں، اور اللہ و رسول کے فرامین پر لوگوں کی توجہ حاصل کریں،
جبکہ دعوت و تبلیغ کے ادارے نہ ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہم اسلام کو غیروں میں متعارف نہیں کروا سکے ، اور نہ ہی اسلام کی خواہش کے مطابق اللہ کے بندوں اسلام کی خوبصورتی سمجھا کر انہیں کلمے کی سے آراستہ کر سکے،
اس وقت سب سے زیادہ نو جوان جیلوں بند اپنی رہائی کے لئے پریشان ہیں ، انکا کیس لینے کے لئے ہمارے پاس کوئ ادارہ نہیں اور نہ ہی کوئ ایسی تنظیم ہے جہاں قانون کے جانکاروں کے ساتھ ساتھ سیاسی قائدین کا عمل دخل ہو ،
سیاست میں ہماری موجودگی کوئ معنی نہیں رکھتی ،کیونکہ ہم نے سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھ کر اس سے دوری اختیار کر لی اسکا یہ نتیجہ ہوا کہ ہماری آواز جگہ جگہ دبائ جانے لگی ،
حکومت میں ہمارے نمائندوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے من چاہا قانون پاس کر لیا گیا،
ہم دو چار احتاج کرکے سرد پڑ گئے ،
جس دن یکساں سول کوڈ نافذ ہوگا اس دن بھی ہم صرف تماشبین ہونگے اور کچھ نہیں ،
کیونکہ ہم نے ان چیزوں پر زور دیا جن کی اتنی ضرورت نہیں تھی کہ جتنی ضرورت سیاست میں ہمارے نمائندوں کی موجودگی کی،
علماء سیاست نہیں کر سکتے یہ مسلم عوام کی ذاتی رائے ہے،
جبکہ ماضی میں اپنی عالمانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر علمائے کرام نے سیاست کی تقدیر بدل کر رکھ دی ،
ملک کی آزادی میں علمائے کرام نے جو کلیدی کردار ادا کیا ہے تاریخ کبھی بلا نہیں سکتی ،
جب غیر پڑھے لکھے مسلم لیڈران قوم کی نمائندگی کا دم بھرتے ہوے سیاسی ایوان میں پہنچتے ہیں تو انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ تین طلاق کیا ہے، اسلام میں حجاب کی حیثیت کیا ہے ، ملک کی آزادی میں علمائے کرام کا کردار کیا رہا ، ملک سے محبت کا اسلام میں تصور کیا ہے،
مسلم دانشوروں کی خاموشی بھی شاید اسی وجہ سے ہے کہ جہاں بولنا غیر مفید ہو وہاں خاموش رہنا چاہیئے،
حجاب پر پابندی کی بات کرنے والوں کو جواب دینے کے لئے ہمارے پاس خود کی یونیورسٹی،اسکول ،کالج، ضرور ہونے چاہئیں،
خانقاہوں کے پاس اتنا پیسہ ہے، اور مسلسل آمدنی جاری بھی ہے ، کہ ملک کے ہر بڑے شہروں میں یونیورسٹی،کالج،اسکول بنا سکتے ہیں،
مگر افسوس کہ وہ ساری دولت پر چند خاندان عیش کر رہے ہیں ،
مسلمانوں کی حالات اس وقت تک نہیں درست ہو سکتے جب تک تعلیم میں دنیا کی کامیاب قوموں کے ساتھ کھڑے نہ ہوں ،
سیاست میں بھی جب تک ہم اپنی نمائندگی درج نہیں کروائیں گے تب تک ہماری آواز اٹھانے والا کوئ نہیں ہوگا،
اب تک بیس سے زیادہ مرتبہ ناموس رسالت پر حملے ہو چکے ہیں ، بعض اوقات لوگوں نے اپنے غم و غصّے کا اظہار کیا اور بعض اوقات خاموش تماشائی بنے رہے، ایک ڈری ہوئ قوم کی طرح یہ سب دیکھنا اور اس پر چپ رہنا بھی ایمان کی کمزور علامت ہے،
ملک میں جسکو بھی سستی شہرت چاہئے ہوتی ہے وہ براہ راست ناموس رسالت پر حملہ آور ہو جاتا ہے ، نتیجے میں ہم اپنے غم و غصّے کا اظہار کرکے بد دعائیں کرکے اپنے اپنے گھروں میں خاموش بیٹھ جاتے ہیں،
ٹی وی پر ہفتوں بحث چلتی ہے ،
چند بجے ہوئے نام نہاد اسلامک اسکالرز شریک بحث ہوتے ہیں اور بچی کچی عزت بھی لٹا کر چلے آتے ہیں،
کہیں نہ کہیں ہم بھی مجرم ہیں کہ ہم اپنے پیغمبر کے کردار کو قوم میں پیش کرنے میں ناکام رہے،
دنیا کام کے ذریعے متاثر ہوتی ہے ہم نے پیغمبر کی زندگی پر کام نہیں کیا جس سے لوگ متاثر ہوں،
اصلاح معاشرہ کے لئے ہم نے صرف رسمی جلسے کئے،
تعلیم کے میدان میں ہم نے صرف مدرسے کھولے ، جو کہ چند نادار مسکین اور کچھ غریب گھروں کے بچوں کو فائیدہ پہنچانے کے لئے پوری قوم کا فطرہ زکوٰۃ مدرسوں میں لگا دیئے ،
مدرسوں میں اگر عصری تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جاتی تو شاید مدرسے ہماری ترقی میں حد درجہ معاون ثابت ہوتے ، مگر افسوس کہ ہم نے مدرسوں کو صرف مولوی خانہ بنایا ،
ہماری یہاں کسی بھی کام میں اتحاد و باضابطگی نہ ہونے کی وجہ سے وہ کام مفید نتیجے تک بہت کم پہنچ پاتے ہیں ،
مثلاً شادیوں میں جہیز کی لعنت سے بچنے کے لئے بعض خانقاہوں نے اعلان کیا ،لین اس پر اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے یہ لعنت بہت بڑی لعنت بنکر غریب مسلمانوں کے لئے عزاب کی شکل اختیار کر چکی ہے،
ابھی حالیہ دنوں میں خانقاہ برکاتیہ مارہرہ شریف نے شادی کے حوالے سے اعلان کیا ہے کہ مسلمان ذات برادری سے اوپر اٹھکر شادی کریں،
یہ بہت اچھا اعلان ہے اس سے بہت فائدے ہونگے ذات برادری کی قید سے لوگ باہر آکر من پسند رشتے تلاش کریں گے اور جہیز پر کنٹرول بھی ہوگا،
مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی دیگر خانقاہوں نے اسکا استقبال نہیں کیا ،
جبکہ صرف اسی اعلان پر تمام خانقاہیں متحد ہو جائیں تو ایک انقلاب آ سکتا ہے،
مسلم بچیوں کے گھر فراری و ارتداد کی ایک وجہ جہیز بھی ہے ، کیونکہ جب غریب باپ جہیز کے لالچیوں کی فرمائشیں پوری کرنے میں ناکام ہو جاتےہیں، تو شادی ٹھکرا دی جاتی ہے اور وہ بچی جو کہ بالغ ہے کب تک گھروں میں بیٹھی رہے،
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس اپنے اسکول کالج یونیورسٹی نہیں ہیں جہاں لڑکوں سے علاحدگی کے ساتھ بچیوں کی تعلیم کا انتظام ہو ،
ہماری بچیاں غیروں کے بچوں کے ساتھ پڑھتی ہیں انکے ساتھ اٹھنا بیٹھنا یہ سب کہیں نہ کہیں واضح طور پر اشارہ کرتا ہے کہ ہم نے بکریوں کو بھیڑیوں کے جھنڈ میں خود ہی بھیجا ہوا ہے ،
انسان کتنی بھی کوشش کر لے فطرت نہیں بدل سکتا ،
فطرت ہمیشہ اپنے راستے کی مسافر رہی ہے،
ہر سال جلسہ جلوس کے نام پر کروڑوں روپے ہمارے معاشرے میں چندہ دے دیا جاتا ہے
اور اس پیسے سے چند گھنٹوں کے رسمی پروگرام جسکا تعلق نہ تو قرآن سے ہوتا ہے نہ حدیث سے ، برباد کر دیے جاتے ہے،
اغیار اس جلوس کے جواب میں اس سے بڑا جلوس نکال کر اسمیں نعرہ لگاتے ہیں اور بھی قابل اعتراض افعال انجام دیتے ہیں ،
جس سے جگہ جگہ فساد کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے،
ہمارا سارا عمل سادگی کے ساتھ ہونا چاہیے تھا لیکن ہم اپنے تمام کام بغیر ڈھول نگاڑا و ڈی جے کے کرتے ہی نہیں ،
اس پر ستم یہ کہ قوم کے نوجوان اس ڈی جے پر سر عام رقص کرتے ہوے مذہبی نعرہ بھی لگاتے ہے، لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ انکے مذہب میں ڈی جے ہے یا رقص و سرود یا پھر نعرے بازی،
الہی کیوں نہیں آتی قیامت ماجرہ کیا ہے،