WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

الوداع اے ماہ فرقاں الوداع، از: سید خادم رسول عینی

الوداع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الوداع اے ماہ فرقاں الوداع
تجھ سے ہم رہتے تھے فرحاں الوداع

رحمت باری رہی تیرے سبب
بھولنا تجھ کو نہ آساں الوداع

سحری و افطار کے وہ وقت نور
تھا تو برکت کا گلستاں الوداع

شاعری کرتے تھے ماہ نور پر
کہہ رہے ہیں سب سخن داں الوداع

قدر والی رات تیری خاصیت
تجھ میں تھی تقدیس چسپاں الوداع

عرس حیدر بھی منایا دہر نے
تو ہے پیارا از دل و جاں الوداع

یاد فتح مکہ کی آءی ہمیں
سب مہینوں کا تو سلطاں الوداع

جمعہ تیرا آخری بھی خوب تھا
سید الایام تاباں الوداع

ضابطے کے ساتھ جینا ہے ہمیں
تو نے دی تعلیم خوباں الوداع

تیری ہی اک رات میں اے ماہ نور
ہوگیا نازل تھا قرآں‌ الوداع

تجھ سے صحت مل گءی بیماروں کو
تجھ پہ ہے ہر شخص قرباں الوداع

جلد آنا “عینی” کی تو زیست میں
لیکے پھر رحمت کی باراں الوداع
۔۔۔۔۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

نعت رسول دوجہاں ﷺشبِ قدر کی عطا، ✒کلیم احمد رضوی مصباحی

نعت رسول دوجہاں ﷺشبِ قدر کی عطا

جب بیاں کرتا ہے آقا کی ثنا مرغِ خیال

کانوں میں رس گھولتا ہے خوش نوا مرغِ خیال

جلوہ گر ہوتی ہے بلقیسِ سخن میرے لیے

غیب سے لاتا ہے مضمونِ سبا مرغِ خیال

ہند سے دو گام ہے اس کے لیے طیبہ کا باغ

ہے مثالِ برق یا نازِ صبا مرغِ خیال

ہے ترا ممدوح، ممدوحِ خداۓ دوجہاں

بلبلِ سدرہ ہے تیرا ہمنوا مرغِ خیال

صاحبِ معراج چاہیں تو ہو معراجِ سخن

تا بہ قوسینِ ثنا پہونچے مرا مرغِ خیال

شانِ قمری جانِ بلبل رشکِ گلشن نازِ فن

سب لقب تیرے ہیں اے مدحت سرا مرغِ خیال

انکی چوکھٹ پرجو پہونچا، چہچہےگم ہوگئے

اللہ اللہ کس قدر ساکت رہا مرغِ خیال

فکر کے دریا میں جب غوطہ لگایا واہ واہ

گوہرِ توصیف لے کر آگیا مرغِ خیال

کس بلندی سے مضامینِ رفعنا لے لیا

آشیانہ ہے کہاں تیرا بتا مرغِ خیال

نغمہ ہاۓ نعت سے شاداب رکھتا ہے ہمیں

باعثِ ابر و بہارِ جاں فزا مرغِ خیال

تیرے لہجے مشکبو عنبر فشاں ہیں اس لیے

ان کی زلفوں پرہے تو دل سے فدا مرغِ خیال

گوش بر آواز ہوں وحش و طیورِ گلستاں

جب زبورِ رخ پڑھے شیریں نوا مرغِ خیال

شاخِ طوبیٰ پر یہ چہکے بلبلِ سدرہ کے ساتھ

ان کی رحمت سے ہو گر رفعت رسا مرغِ خیال

ظلمتِ شَب میں ہویدا ہوتا ہےنورِ سحر

لے کے جب آتا ہے تنویرِ حرا مرغِ خیال

شاخِ مدحت پر نجومِ عشق کھلتے ہیں کلیم

نورِ حق کے گیت گاتا ہے سدا مرغِ خیال

از ✒کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا سیتامڑھی بہار

ہماری روح ہمارا نشان ہے قرآن،،کلام، سید خادم رسول عینی

قرآن
۔۔۔۔۔۔

قرار قلب ہے مومن کی جان ہے قرآن
ہماری روح ہمارا نشان ہے قرآن

ہر ایک شئ کی حقیقت کا ذکر ہے اس میں
نہ سمجھو تم کہ فقط داستان ہے قرآن

ہے کائنات کا ہر علم اس میں ہی پنہاں
خدا کے فضل کا بین نشان ہے قرآن

ہر ایک دور میں ہر قوم کے لیے ہے مفید
ہدایتوں کا مکمل جہان ہے قرآن

عمر نے لایا تھا ایمان سن کے اک‌ آیت
یقین مانیے ایماں کی جان ہے قرآن

اسی کے تحت بناتے ہیں ملک میں قانون
جہاں میں آج بھی یوں حکمران ہے قرآن

تمھارے ذہن میں ترمیم کا نہ آئے خیال
ہے لازوال،‌ خدا کا بیان ہے قرآن

ضعیف ہو نہ سکے گی کبھی کوءی آیت
جواں رہیگا، جواں تھا، جوان ہے قرآن

بڑے‌ ہی شوق سے عثماں غنی نے دی ترتیب
وہ جانتے تھے کہ امت کی جان ہے قرآن

عبادت اس کی تلاوت ہے ، دیکھنا اس کا
یوں نیکیوں کا حسیں گلستان ہے قرآن

حروف ایسے ہیں اس میں کہ ہے شفا ان میں
کلام رب کا، نبی کی زبان ہے قرآن

وہ ہونگے معتزلہ جو کہیں اسے مخلوق
ہمارے واسطے رب کا بیان ہے قرآن

ہمیں ضلال کے خنجر بھی کاٹ سکتے نہیں
یقیں ہے “عینی” کہ حق کا نشان ہے قرآن
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

لیلۃالقدر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

برکتوں کا دیا لیلۃالقدر میں

خوب روشن ہوا لیلۃالقدر میں

رحمت عالمیں کا ہے یہ فیض خاص

گل فرحت ملا لیلۃالقدر میں

ہو مبارک مسلمان عالم تمھیں

قول رب آگیا لیلۃالقدر میں

ہوگیا ملک آزاد انگریز سے

رب کی ہے یہ عطا لیلۃالقدر میں

امت مسلمہ ہو سدا خیر سے

یا خدا دے جزا لیلۃالقدر میں

پھر سے ہندوستاں میں ہو اسلامی راج

مانگو ‌ایسی دعا لیلۃالقدر میں

شکر رب، “عینی” بخشش کا مژدہ حسیں

قدسیوں سے ملا لیلۃالقدر میں۔

۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

شبِ قدر.. از: سید خادم رسول عینی

شب قدر۔۔۔۔۔۔

براءے مسلماں ہے نعمت شب قدر

رضاءے خدا کی بشارت شب قدر

مسلمان کرتے ہیں مل کر عبادت

بڑھاتی ہے آپس میں ملت شب قدر

نزول کرم صبح تک ہورہا ہے

ہے اعلان امن و صیانت شب قدر

بڑے فخر اور ناز سے قدسیوں کو

دکھاتی ہے عابد کی عظمت شب قدر

کئی درجہ نیکی کا ہے اجر اس ‌رات

عبادت کو دیتی ہے برکت شب قدر

تری منزلت پر مکمل ہے سورہ

نہ کیوں پھر ہو تجھ سے عقیدت شب قدر

ہیں حامل تشکر کے احمد ضیاءی

کیا خوب قراں تلاوت شب قدر

اراکین مسجد کو بھی تہنیت ہو

کیا اہتمام جماعت شب قدر

کریں جستجو قدر کی رات “عینی “

ہے شان کریمی کی حکمت شب قدر۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

ماہ رمضان پر انگریزی نظم از: سید خادم رسول عینیMonth of Ramadan……

ماہ رمضان پر انگریزی نظم از: سید خادم رسول عینیMonth of Ramadan………………………….

For all of us benevolent month of Ramadan

, Full of divinity quotient month of Ramadan

Believer’s happiness and delight know no bounds

, To behold your moon the crescent month of Ramadan

This is one of the five pillars of great Islam,

To observe your fast incumbent month of Ramadan

The Spiritual rewards are getting multiplied,

In you sanctity is present month of Ramadan

The Quran was revealed on the day of Power,

In you this sacred day present month of Ramadan

You inculcate the discipline and self control,

You are truly an excellent month of Ramadan

The paradise is opened on your arrival,

“Aini” is also your adherent month of Ramadan…..

.By: Sayed khadime Rasul Aini

زکواۃدیتے رہو۔۔از: سید خادم رسول عینی

زکواۃ۔۔۔۔۔۔

کرو سماج کی خدمت زکواۃ دیتے رہو

ہے یہ اصول جماعت زکواۃ دیتے رہو

تمھیں غریب نوازیں گے سب دعاؤں سے

بڑھیگا نفع تجارت زکواۃ دیتے رہو

کتاب رب میں ملا حکم رب کا کتنی بار

ملےگی گھر میں بھی برکت زکواۃ دیتے رہو

جو مستحق ہیں انھیں ڈھونڈو اور مدد بھی کرو

گھٹےگی ملک سے غربت زکواۃ دیتے رہو

خدا نے ذکر کیا اس کا بھی نماز کے ساتھ

ہے ظاہر اس سے فضیلت زکواۃ دیتے رہو

مہ صیام میں نیکی میں ضرب ہوتا ہے

ہے وقت کتنا غنیمت زکواۃ دیتے رہو

نکالنا ہے تمھیں” عینی “ڈھاءی فیصد بس

کرم ہے رب کا نہایت زکواۃ دیتے رہو۔۔۔۔۔۔۔

از: سید خادم رسول عینی

رحمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام۔۔تبصرہ۔۔از: سید خادم رسول عینی۔

ابو الشعرا علامہ سید اولاد رسول قدسی کا کلام بعنوان ماہ صیام تبصرے کی میز پر ہے۔آپ کا یہ کلام بہت ہی دیدہ زیب اور پسندیدہ ہے۔ کلام معنویت، پیکر تراشی ،سرشاری و شیفتگی ،فصاحت و بلاغت ،حلاوت و ملاحت ،جذب و کیف ، سوز و گداز ، سلاست و روانی ، حسن کلام ، طرز ادا کا بانکپن ، تشبیہات و استعارات، صنایع لفظی و معنوی اور سہل ممتنع کا نادر نمونہ ہے۔

کلام کا مطلع یوں ہے:

رحمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام
فرحتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

گویا ردیف لمبی ہے:
لیکے آیا ہے ماہ صیام
لمبی ردیف میں شعر کہنا بہت مشکل امر ہے۔
اس کلام میں ردیف کے علاوہ ہر شعر کے ثانی میں صرف قافیہ رہ جاتا ہے ، کسی دوسرے سبب یا وتد کے لیے جگہ نہیں رہتی۔اس کے باوجود علامہ قدسی نے ہر شعر کو بہت عمدگی سے نبھایا ہے اور کلام میں مقناطیسیت پیدا کردی ہے۔

علم عروض
‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلام جس بحر میں کہا گیا ہے اس کے افاعیل ہیں:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
چونکہ مصرع کے آخر میں لفظ صیام ہے اس لیے آخری رکن فاعلان ہوجاتا ہے۔گویا آپ نے کلام میں زحاف ازالہ کا استعمال کیا ہے۔
جیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت کے مشہور زمانہ کلام سلام میں یہ زحاف پایا جاتا ہے۔

مصطفیٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

ان کے افاعیل یوں ہوئے:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلان

علم قافیہ
۔۔۔۔۔۔۔
علامہ قدسی کے اس کلام میں قوافی یوں ہیں :
رحمتیں، فرحتیں،وسعتیں،برکتیں،رفعتیں وغیرہ۔
ہر قافیہ کے آخر میں یں زائد ہیں ۔لہذا حرف روی بنا ت ۔
اگر کسی بھی شعر میں قافیہ کے طور پر کاغذیں ، کروٹیں قسم کا لفظ لایا گیا ہوتا تو انحراف حرف روی کا عیب در آتا۔
الحمد لللہ شاعر محترم نے ایسے قوافی کا استعمال نہیں کیا ہے، گویا آپ کا کلام عیب در قافیہ سے پاک ہے۔

بلاغت
۔۔۔۔۔۔۔
ہر شعر جملہء خبریہ ہے اور صدق پر مبنی ہے۔ ہر خبر کو قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت کیا جاسکتا ہے۔
غرض خبر یہ ہے کہ مسلمانوں کو نصیحت کی جائے اور ان کو ماہ رمضان کے روزے ( جو فرض عظیم ہیں) کی اہمیت و افادیت بتا کر روزے رکھنے پر آمادہ کیا جائے۔

بدیع
۔۔۔۔۔۔۔

صنعت تضاد کا حسن ان اشعار میں پایا جاتا ہے:

نفل پڑھ کر ثواب آپ لیں فرض کا
نعمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

بھوک اور پیاس میں نفس سے جنگ کی
قوتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

صنعت تجنیس تام کی رعنائی اس شعر میں جلوہ گر ہے:

قدر اس کی کریں جس قدر ہوسکے
رفعتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر پڑھ کر مجھے اپنا ایک شعر اس صنعت کے قبیل کا یاد آرہا ہے:

ان کے عدو کا حشر برا ہوگا حشر میں
عاشق وہاں اٹھیگا بڑی آب و تاب سے

صنعت اقتباس سے مزین یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:

مژدہ الصوم لی کا سناتا ہوا
حکمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر ایک حدیث قدسی کی روشنی میں کہا گیا ہے۔وہ حدیث یوں ہے:
الصوم لی وانا اجزی بہ
یعنی روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دونگا ۔

صنعت تلمیح سے مزین یہ دو اشعار ملاحظہ فرمائیں:

نفل پڑھ کر ثواب آپ لیں فرض کا
نعمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

فرض کا اجر ستر گنا لیجیے
کثرتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

ان دو اشعار میں ایک مشہور حدیث رسول کے طرف اشارہ ہے اور ان کا مفہوم حدیث سے مستعار ہے۔

کلام میں بصری و شامی پیکر تراشی کا حسن بھی ملاحظہ فرمائیں:

عشق شاہ دوعالم کے گلزار کی
نکہتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

تفہیم
۔۔۔۔۔۔

قرب رب دوعالم کی تحصیل کی
حسرتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

جب ایک روزہ دار شام کو افطار کرتا ہے تو اس کو دو خوشیاں ملتی ہیں ۔ایک روزہ کھولنے کی اور دوسرا قرب خدا کی۔افطار کے وقت اور افطار کی بڑی فضیلت ہے۔افطار کے وقت روزہ دار کی مغفرت ہوجاتی ہے اور اس وقت روزہ داروں کی دعا خصوصیت کے ساتھ قبول کی جاتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
سحری کرو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے ۔

حضرت عمرو بن العاص کہتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق ہے سحری کا کھانا۔اس لیے علامہ قدسی نے کہا:
صرف پانی سہی پھر بھی سحری کرو
رغبتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

اس میں نازل ہوئی قدسی قرآن پاک
عظمتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام

یہ شعر قرآن کی آیت کی طرف اشارہ کررہا ہے:
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن
یعنی رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔

اس آیت میں قران کی عظمت و فضیلت کا بیان ہے۔مکمل قرآن کریم شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا اور یہاں سے وقتاً فوقتاً حکمت کے مطابق حضرت جبریل علیہ السلام ، اللہ کے حکم سے زمین تک لاتے رہے اور یہ نزول تئیس سال کے عرصے میں پورا ہوا۔

گویا ہر شعر قابل تعریف ہے۔
خاص طور پر یہ شعر پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا:

سخت گرمی کے موسم میں روزوں کی یہ
لذتیں لیکے آیا ہے ماہ صیام۔

ایک قوم ایسی بھی تھی کہ اس قوم پر تیس روزے فرض کئے گئے تھے ، لیکن ان لوگوں نے موسم کے اعتبار سے روزے کے مہینے کو تبدیل کیا ۔یعنی اگر روزہ کا مہینہ سردی میں نمودار ہوا تو پورا مہینہ روزہ رکھا ، لیکن اگر گرمی کے موسم میں آیا تو روزوں کو ملتوی کردیا اس وقت تک جب تک کہ سردی کا موسم نہ آجاتا۔

امت محمدیہ کی یہ خاصیت ہے کہ ماہ رمضان کسی بھی موسم میں آئے اسی مہینے میں مسلمان روزہ رکھتا ہے اور مسلمانوں نے پچاس / پچپن ڈگری تمازت میں بھی روزہ رکھا ہے ۔
الحمد لللہ
تبھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں روزہ دار کو خود اجر دونگا ۔گویا اس اجر کی مقدار کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔

اسی لیے راقم الحروف نے کہا ہے :

صائموں کی افضلیت” عینی” اس سے جان لو
اجر ان کو دیتا ہے خود کبریا ماہ صیام

منقبت در شان حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ۔۔از: سید خادم رسول عینی

حیدر کے بعد کس کی خلافت؟ حسن کی ہے
بعد علی ہے کس کی امامت؟ حسن کی ہے

خوشیاں منا کے زیست کو پرنور کیجیے
چاروں طرف ہے نور ، ولادت حسن کی ہے

شفقت ، عطا تھے منسلک ان کی صفات سے
تاریخ میں رقم یوں سخاوت حسن کی ہے

سرکار دوجہاں نے رکھا نام‌ ان کا خود
کس طرح معتبر یہ سعادت حسن کی ہے

ظاہر ہوا یہ چشم محبت پہ دیکھیے
ہر سمت روشنیء ولایت حسن کی ہے

کرتے ہیں ایک پل میں وہ حل مشکلات کا
کس طرح خوب تر یہ ذہانت حسن کی ہے

صلح مبین آپ نے کی قوم کے لیے
دنیا نے دیکھی، دینی سیاست حسن کی ہے

راضی ہیں اس سے شاہ زمن ، راضی ہے خدا
حاصل اگر کسی کو حمایت حسن کی ہے

اصلاح کر رہے ہیں بہت عمدگی کے ساتھ
کس طرح” عینی “نیک یہ عادت حسن کی ہے
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

نعت شہِ عالمین ﷺاز قلم کلیم َرضوی مصباحی پوکھریروی

نعت شہِ عالمین ﷺ

جس کے دل میں آپ کا کلمہ نہیں

اس کا فطرت سے کوئی ناتا نہیں

جو ترا عاشق نہیں شیدا نہیں

آشنائے لذتِ سجدہ نہیں

خوشبوؤں کی بارشیں ہونے لگیں

لب پہ ان کا نام تو آیا نہیں؟

خواب ہے قوسینِ رفعَت پر قیام

ان کے قدموں تک اگر پہونچا نہیں

وہ جو بولیں تو رواں ہو سلسبیل

ایسا پاکیزہ کوئی لہجہ نہیں

مالکِ کُل نے انہیں مالک کیا

ان کے خالی ہاتھ میں پھر کیا نہیں

ان کی باتوں میں ہے نورِ آگہی

رہنما کوئی چراغ ایسا نہیں

دیکھ لو پہلے مدینہ پھر کہو

کیا زمیں پر خلد کا نقشَہ نہیں

کیوں کہیں آنکھوں کوہم روشن چراغ

آنکھوں میں جب گنبدِ خضریٰ نہی

ںہے تصور میں رخِ بدر الدجیٰ

ظلمتِ شَب کا کوئی کھٹکا نہیں

کیوں ہے ہر شامِ تمنَ٘ا دل فریب

ان کی زلفوں کا اگر صدقہ نہیں

زلفِ جاناں کو کرو عنوانِ نعت

فکر کا گلشن ابھی مہکا نہیں

جن کی چوکھٹ سجدہ گاہِ دل ہوئی

کیا وہ میری روح کا قبلہ نہیں؟

تو ہے بے سَایہ مگر میرے رحیم

آخرش کس پر ترا سَایہ نہیں

سائلو ! جو مانگنا ہو مانگ لو

ان کے لَبْہَاۓ کرم پر لَا نہیں

اس کے حصے میں نہیں بلقیسِ خلد

جو سلیمانِ مدینہ کا نہیں

ذرَ٘ہ کیسے ہو گیا انجم مثال

فیضِ صحبت کا اگر جلوہ نہیں

حلَ٘ت و حرمت ہوئی ان کی عیاں

جن کو آقا نے کہا “اچھا، نہیں”

یہ ہے دربارِ کرم ان کا ، یہاں

کوئی بے گانہ بھی بے گانہ نہیں

ان کے زندانِ محبَ٘ت پر نثار

قید میں بھی قیدی یہ بندہ نہیں

لازمی ہے وہ پڑھے قرآن پاک

آئنہ جس نے ترا دیکھا نہیں

علم سے آرائشیں ممکن ہیں کب

تن پہ جب پیراہنِ تقویٰ نہیں

وہ کرم فرمائیں تو میں بھی کہوں “

میرا حصہ دور کا جلوہ نہیں

رہتی ہے “یوحیٰ” پہ بھی میری نظر

اپنے جیسا ان کو میں کہتا نہیں

پی رہے ہیں ان کے عاشق واہ واہ

ہاتھ میں مینا نہیں بادہ نہیں

جنتِ یاد نبی ہے ! کیوں کہوں

دل مدینہ طیبہ میرا نہیں

تشنگی تیرا نصیبہ نجدیا

زمزمِ مدحت ترا حصہ نہیں

ہےمعجزہ ہے ان کے فضلِ خاص کا

“بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں”

“زندگی، ان کی محبت، ہے کلیم

جو محِب ان کا نہیں ، زندہ نہیں

از قلم کلیم َرضوی مصباحی پوکھریروی