WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

تبصرہ۔۔از قلم : حضرت علامہ کلیم رضوی مصباحی

رحمت و نور کی برکھا

شاعر جدت طراز سید خادم رسول عینی زید مجدہ کا اولین نعتیہ مجموعہ ہے_ سید صاحب قبلہ کی مہربانی کہ نور و نکہت اور عشق و عرفان میں ڈوبا ہوا نعتوں کا یہ حسین گلدستہ فقیر کے لیے سامان راحت ہوا فقیر نے بالاستیعاب ہر شعر کی قرات کی خوب محظوظ ہوا _ اس مبارک مجموعے میں ذات ممدوح علیہ السلام کے محاسن و فضائل ، اوصاف و کمالات اور خصائص و معجزات کے بیان کی جو چاندنی چھٹکی ہوئی ہے ان کے جلوؤں سے دل کی آنکھیں منور ہوئیں اچھی اور دلکش شاعری سحر سے کم نہیں، خوبصورت الفاظ دلکش و دلاویز تراکیب گلستان خیالات کے لیے اساسی عنصر ہیں تو استعارات و تشبیہات کا جمال اس چمنِ کے لیے بہار کی نوید ہیں جب گلستان خیالات پر بہار چھا جائے تو اس کا ہر منظر سحر خیز ہوتا ہے بحمداللہ ایسی دلفریب سحر خیزیاں اس حسین مجموعۂ نعت کے امتیازات میں سے ہیں_

روایت پسندی ہماری نظر میں معیوب نہیں _ ہاں! اگر قدِ فکر پر وہی فرسودہ اور کہنہ پیراہنِ الفاظ رکھے جائیں جس کے نظارے ہم تقریباً ایک صدی سے دیکھتے آرہے ہیں تو یہ یقیناً معیوب ہے زبان و بیان پر اگر قدرت نہ ہو تب ایسی بے چارگی نظر آتی ہے بحمداللہ عینی صاحب کی زبان و بیان پر قدرت مسل٘م ہے آپ زمینِ سخن پر فکرِ مدحت کی کاشت کا اعلیٰ شعور رکھتے ہیں شعر کیا ہے اسی شعور کا نتیجہ ہے شعور کے بغیر شعر کی اپج ممکن نہیں_ روایتی مضامین کو بھی سید صاحب قبلہ نے اس قدر دلکش و دلاویز پیرائے میں باندھا ہے کہ جواب نہیں یہاں روایت جدت کے رنگ سے مزین ہوکر جیسے شعریات کا ایک نیا در وا کر رہی ہو جیسے نئے آفاق کی جستجو منزل رسا ہوگئی ہو_

ہر شجر ان کی یادوں کا ہے پرکشش
جس میں راحت کی ہیں ٹہنیاں لاجواب

بشر اپنے جیسا جو ان کو کہے
ہے عقل اس میں مفقود لاریب فیہ

رحمت رسول کے سبب
حشر ساز گار ہوگیا

دے گئے آب جود سے اپنے
نخل ہستی کو تازگی آقا

ان کے صدقے امن کا ہے سائباں
زیست میں اب دھوپ کا جنگل نہیں

عجب کشمکش میں ہیں زائر کی آنکھیں
زمین حرم ہے کہ خلد بریں ہے

نبی کے اسم گرامی میں ہے شفا ایسی
ہماری زیست کے سب زخم بھرنے لگتے ہیں

دیکھ کر ان کو چرخ کے تارے
بھول جاتے ہیں روشنی اپنی

ان کی چشم کرم رہے جب تک
پھول کھوۓ نہ تازگی اپنی

لیے دید شاہ دوعالم کی خواہش
کھڑی ہیں دلوں میں کسک کی قطاریں

سورۂ حمد سے سورۂ ناس تک
ان پہ نازل ہوئے سلسلے نور کے

دیکھ رہے ہیں آپ! کیا سلاست ہے کیسی روانی ہے جیسے صاف و شفاف چشمے رواں ہو جیسے کو ثر الفاظ اور سلسبیل معانی مکمل جوش پر ہو بندش کا اسلوب کس قدر دیدہ زیب ہے کہ اس کے حسن و جمال کے جلوؤں سے جیسے آنکھیں خیرہ ہورہی ہوں روایتی مضامین کو اتنی آسانی کے ساتھ پیراہن سحر اور لباس جدت عطا کرنا سید صاحب کے لیے مشکل نہیں

سیدی اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
اس شعر سے واضح ہے کہ جب بات مدحت رسول ﷺ کی آۓ تو موضوعات کی کمی نہیں نئے آفاق کی کمی نہیں احتیاط حد کا متقاضی ہے ادب و احترام رسول ﷺ کا تقاضا ہے کہ ناعت عظمت ممدوح کے پیش نظر بے جا غلو سے کام نہ لے اس حد کے باوصف بھی نعت کے لیے کوئی حد نہیں کہ فضائل و خصائص مصطفی کا شمار نہیں اگر ہر درخت قلم ہوجاۓ اور ہر سمندر کا پانی روشنائی تب بھی مظہر باری تعالیٰ کے اوصاف و کمالات کا بیان ختم نہیں ہوسکتا جس کا مطالعۂ سیرت ناقص ہو اس کے لیے موضوعات مدحت محدود ہوسکتے ہیں مگر جس کا مطالعہ وسیع ہو اس کے لیے موضوعات مدحت کی کوئی حد نہیں رحمت و نور کی برکھا میں مضامین کا تنوع اور خیالات کی رنگا رنگی سید صاحب قبلہ کی وسعت مطالعہ کا حسین ترین اشاریہ یے بات تشنۂ دلیل نہ رہ جائے اس لیے یہ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں

آمد مصطفی__
ان کے دم سے جہاں میں بہار آگئی
بے مثال ان کا فیض قدم بولیے

آمد سرکار کا دیکھو اثر
بن میں بھی گل کا بچھونا آگیا

مولد مصطفی_
جان کعبہ کی جس میں ولادت ہوئی
ہے وہ مکہ میں عینی مکاں لاجواب

جمال مصطفی__
عارضی ہے اجالا سورج کا
ہے رخ مصطفی سدا روشن

گفتار مصطفی_
پڑھ کے دیکھو بخاری و مسلم
عینی ان کا ہے ہر کہا روشن

ان کی باتیں رہیں پر اثر اس قدر
موم بنتا گیا خود بشر سنگ دل

کردار مصطفی_
ان کی اخلاق کی تلوار کے آگے ہردم
مات کھاتا ہوا پندار نظر آتا ہے

کرم و سخاوت مصطفی_
لا نہیں کہتے ہیں سائل کو کبھی
شاہ بطحا کی نوازش کیا کہیں

اختیار مصطفی__
کردیں تبدیل حرمت کو حلت میں آپ
یوں شریعت میں با اختیار آپ ہیں

اک گواہی خزیمہ کی دو ہوگئی
اختیار شہ دوسرا بے مثال

علم مصطفی__
ماکان، مایکون کا رکھتے ہیں علم وہ
واضح یہ ہوگیا ہے خدا کی کتاب سے

رحمت مصطفی_
وہ جہاں کی اصل ہیں بنیاد ہیں عالم کی وہ
ملتی ہے ہر ایک کو رحمت رسول اللہ کی

رحمت بنا کے بھیجا ہے پروردگار نے
سارا جہاں رسول زمن کی اماں میں ہے

شفاعت مصطفی_
باذن خدا وہ کریں گے شفاعت
نجات امم کی یہ صورت رہے گی

بے مثالیِ مصطفی_
دانائے سبل ختم رسل قاسم کوثر
القاب ہیں بے مثل، کوئی ان سا ہوا ہے؟

نورانیت مصطفی__
نور سے ان کے بنی ہر ایک شئی کونین کی
سب خواص ان کے لیے ہیں سب عوام ان کے لیے

ان کے سوا رزم و بزم نبی، معجزات نبی، معراج نبی، علو و شان نبی، شہر نبی اور اس کا تقدس اور وہ سب کچھ ہے جس کی امید ایک قادر الکلام ناعت سے کی جاسکتی ہے معجزات کے ذیل میں معراج النبی ﷺ کا الگ الگ رنگ میں بیان اپنی مثال آپ ہیں یہ بو قلمونی یہ تنوع آپ کی شاعری کا اختصاص ہے چمن کی دلربائی کے لیے لازمی ہے کہ اس میں ہر طرح اور ہر رنگ کے پھول کھلے ہوں ہر پھول کی خوشبو جداگانہ اور منفرد ہو بحمداللہ رحمت و نور کی برکھا ایک ایسا ہی چمنستان سخن ہے جس میں ہر طرح کے پھول کھلے ہوۓ ہیں جن کی خوشبوؤں سے مشام جان ایمان یقیناً معطر ہوگا__

اس مجموعے کو جہان ادبیات میں یقیناً ایک گراں قدر اضافہ کہا جائے گا کہ یہ مجموعہ محاسن شعری جواہر ادبی کا حسین مرقع بھی ہے اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ یہ مجموعہ فکر رضا کا مبلغ و ناشر بھی ہے بہت سے شعرا بدمذہبوں کے رد سے یہ کہہ کر مجتنب نظر آتے ہیں کہ یہ نعت کا حصہ نہیں _ حالانکہ ایسا نہیں ہے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شعری روایت یہی رہی کہ دشمنانِ مصطفی کا بہ بانگ دہل رد ہو امام احمد رضا خان رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی نعتیہ شاعری میں بد مذہبوں کا خوب خوب رد کیا ہے لہجے کا یہ تیکھا پن در اصل عشقیہ لہجے کی شناخت بھی ہے اور اس کا امتیاز بھی یہ سوچ کر کہ عقیدت و عقیدے میں یہ تصلب اور اس کا شعری اظہار ان ناقدین کے دربار نقد تک ہمارے ادبی شہ پارے کو پہونچنے نہیں دے گا جو مسلکاً اور عقیدتاً ہمارے مخالف ہیں رد کے اشعار کہنے سے بچنا ہماری نظر میں مداہنت ہے ادب کی پرکھ اس کی ادبیت کی بنیاد پر ہونی چاہیے خواہ ادیب نظریاتی اور فکری اعتبار سے ناقد کا مخالف کیوں نہ ہو اگر نقد کا پیمانہ ادب و ادبیت کی جگہ عقیدت و عقیدہ ہو جائے تو ایسے ناقد کی پرواہ بھی نہیں کی جانی چاہیے_ علامہ عینی کا جو عقیدہ ہے اس کو انہوں نے چھپایا نہیں ہے آپ مفتی اعظم اڑیسہ حضرت مفتی عبد القدوس علیہ الرحمہ کے فرزند جلیل ہیں خانقاہ قدوسیہ بھدرک سے آپ کا تعلق ہے اس طرح آپ پر رضویات کا رنگ غالب ہے _ آپ نے اپنے عقیدے کو بھی سلک نظم میں پرویا ہے اور کمال یہ ہے کہ ایسے مواقع پربیشتر شعرا کے یہاں سطحیت و ابتذال کا ناگفتہ بہ منظر نظر آتا ہے مگر علامہ عینی کے یہاں اس باب میں بھی نشان ترفع جگمگاتا ہوا دکھائی دیتا ہے__

اللہ نے مختار جہاں ان کو بنایا
اے باغیو سرکار کو مجبور نہ سمجھو

ان کے عدو کو کھل گیا، حاسد تھا جل گیا
بزم سلام سے وہ اچانک نکل گیا

عدوۓ سرور کونین کی تذمیم کرتے ہیں
نبی کے ہوگئے جو ان کی ہم تکریم کرتے ہیں

سرکار کی عظمت کے اے منکر یہ بتاؤ
کیوں معجزۂ شق قمر یاد نہ آیا

بشر اپنے جیسا جو ان کو کہے
ہے عقل اس میں مفقود لاریب فیہ

جہاں تک صنائع و بدائع کی بات ہے تو بحمداللہ یہ مجموعۂ نعت اس زاویے سے بھی قابل ستائش و پزیرائی ہے علامہ محمد حسین مشاہد رضوی فرماتے ہیں ” عینی نے اپنے کلام میں صنائع کے نجوم چمکاۓ ہیں بدائع کے مہر و ماہ جگمگاۓ ہیں ” اس مجموعۂ نعت میں صنعت اقتباس و تلمیح کی جلوہ گری عام ہے مضمون کی طوالت کا خوف اگر نہیں ہوتا تو اشہب قلم کی لگام چھوڑ دی جاتی پھر ہمیں فکر و خیال کے خوبصورت موتیوں سے مزید نور کشید کرنے کا موقع فراہم ہوتا_

علامہ قدسی نے حق فرمایا ہے کہ علامہ عینی کا یہ مجموعہ شرعی سقم سے منزہ ہے _ البتہ ایک جگہ سہو کتابت سے مفہوم کیا سے کیا ہوگیا ہے_
اصحاب نے نبی کا مقدر بنادیا
ان کو جہاں میں فضل کا اختر بنادیا
اول مصرعہ در اصل یوں تھا
اصحاب کا نبی نے مقدر بنادیا

دعا ہے کہ اللہ تعالی اس نعتیہ شعری مجموعہ کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور علامہ عینی کو مع الخیر سلامت رکھے

از قلم
کلیم احمد رضوی مصباحی
خلیفۂ حضور قائد ملت
خادم التدریس والافتا
جامعہ رحمانیہ حامدیہ
پوکھریرا شریف

نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم–از: سید خادم رسول عینی

صرف اک طبقے کے ہوں جو ، وہ ، نبی ایسے نہیں
امت شہ جو نہ ہوں ، ایسے کہیں بندے نہیں

وصف ایسا کس میں ہے اپنے پیمبر کے سوا
“مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں “

اس میں کیسے چمکیں ایماں کی شعاعیں بولیے
جس کے دل میں حب شاہ دین کے شیشے نہیں

سر کے اوپر گر رہے دست کرم سرکار کا
ہے یہ نا ممکن کہ پتھر ظلم کا سرکے نہیں

وہ پرندہ ہو کہ ہو گل ، جن ہو یا قدسی ، بشر
کس کے لب پر مصطفیٰ کی مدح کے نغمے نہیں

سوئے شہر یاد شاہ طیبہ جو ہر دم چلے
خوب چمکے وہ نصیبہ اور کبھی سوئے نہیں

نعتیہ اشعار کی تنویر سے شرمائے چاند
کون کہتا ہے کہ میرے پاس سرمائے نہیں

جس کنویں میں ڈال دیں اپنا لعاب پاک وہ
اس کا شیریں پن کبھی بھی دہر میں بگڑے نہیں

جس میں کلیاں الفت شاہ مدینہ کی کھلیں
کوئی پھول ایسے چمن کا “عینی” مرجھائے نہیں
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی

ایک دلچسپ مکالمہ۔۔۔از قلم: سید خادم رسول عینی۔۔

بزم تاج الشریعہ واٹس ایپ گروپ کے گزشتہ مشاعرے میں طرحی مصرع حضرت مفتیء اعظم ہند علامہ مصطفی’ رضا خان علیہ الرحمہ کے کلام سے دیا گیا تھا:
جان عیسیٰ تری دہائی ہے۔
اس مصرع پر میں نے بھی طبع آزمائی کی اور نعتیہ کلام کہا اور کلام سوشل میڈیا میں نشر بھی کیا تھا۔اس کلام کی پزیرائی ہوئی اور پیر طریقت حضرت علامہ سید اشرف حسین قادری نے اپنے ہفت روزہ اخبار “آواز نو ” دہرا دون میں اس کلام کو شائع بھی کیا۔بزم تاج الشریعہ کے ایڈمن حضرت مفتی کلیم احمد رضوی مصباحی صاحب نے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے حوصلہ افزا کلمات سے یوں نوازا تھا:

“مفتیِ اعظم اڑیسہ کا فیضان بن کر عالم پر برسنے والے ذوی القدر شاعر، شاعر خوش خیال و خوش اسلوب حضرت سیدی خادم رسول عینی میاں مد ظلہ العالی بحمداللہ عہد حاضر کے سرفہرست شعرا میں سے ایک ہیں۔نپی تلی اور معیاری شاعری آپ کی شناخت ہے آپ کا لہجۂ سخن بحمداللہ سب سے جدا اور سب سے منفرد ہے زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ بحر چاہے جیسی ہو ردیف خواہ کس قدر بھی مشکل ہو جب آپ کا خامۂ زر نگار آمادۂ شعر و سخن ہوتا ہے تو فکر کے گلستان لہلہا اٹھتے ہیں گلہائے خیالات کی خوشبوئیں مشام جان کو معطر کرنے لگتی ہیں۔ موجودہ کلام بھی بلاغت کا نایاب نمونہ ہے۔ کئی صنعتوں سے مزین یہ مبارک کلام اپنی مثال آپ ہے۔ ہر شعر رواں دواں ہے اور متنوع مضامین پر مشتمل ہے۔ مضامین پرکشش بھی ہیں اور دیدہ زیب بھی، پھر انداز بیان نے حسن شعریت کو دو چند کردیا ہے” “

بہر حال، اس کلام میں تضمین والا شعر یوں تھا:
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر
“جان عیسیٰ تری دہائ ہے”
اس شعر پر کسی واٹس ایپ گروپ میں ایک شاعر نے اعتراض کیا اور کہا:

“آپ نے نعتیہ شعر میں تری / تجھ کا استعمال کیا ہے۔یہ گستاخی ہے ۔اس قسم کے استعمال سے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے۔”

مجھے اس کمنٹ پر سخت تعجب ہوا ، کیونکہ میرا یہ شعر تضمین کا تھا اور طرحی مصرع” جان عیسیٰ تری دہائ ہے” کسی عام شاعر کا نہیں بلکہ ان کا ہے جو ہندوستان کے مفتیء اعظم بھی ہیں اور حضرت مفتیء اعظم ہند علیہ الرحمہ نے خود مصرع میں تری کا لفظ استعمال کیا ہے۔

بہر حال ، میں نے اپنے شعر کے ڈیفینس/ دفاع میں سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ، ڈاکٹر اقبال اور علامہ قدسی کے مندرجہ ذیل اشعار پیش کیے اور میں نے معترض سے پوچھا کہ ان اشعار پر آپ کا فتویٰ کیا ہے :

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
فرش والے تری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس‌ کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
غم ہوگئے بےشمار آقا
بندہ تیرے نثار آقا
ہلکا ہے اگر ہمارا پلہ
بھاری ہے تیرا وقار آقا
شور مہ نو سن کر تجھ تک میں رواں آیا
ساقی میں ترے صدقے مے دے رمضاں آیا
تیری مرضی پاگیا سورج پھرا الٹے قدم
تیری انگلی اٹھ گئی مہ کا کلیجا چر گیا
بڑھ چلی تیری ضیا اندھیر عالم سے گھٹا
کھل گیا گیسو ترا رحمت کا بادل گھر گیا
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھرا تھرا کر گرگیا
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ
جس سے اتنے کافروں کا دفعتاً منھ پھر گیا
لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا
میرے مولیٰ مرے آقا ترے قربان گیا
دل ہے وہ دل جو تری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب
میٹھی باتیں تری دین عجم ایمان عرب
نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب
ظاہر و باطن اول و آخر زیب فروع و زین اصول
باغ رسالت میں ہے تو ہی گل غنچہ جڑ پتی شاخ
مجرم کو بارگاہ عدالت میں لائے ہیں
تکتا ہے بے کسی میں تری راہ لے خبر
اہل عمل کو ان کے عمل کام آئینگے
میرا ہے کون تیرے سوا آہ لے خبر
مانا کہ سخت مجرم و ناکارہ ہے رضا
تیرا ہی تو ہے بندہء درگاہ لے خبر
ہے یہ امید رضا کو تری رحمت سے شہا
نہ ہو زندانیء دوزخ ترا بندہ ہوکر
ترے خلق کو حق نے عظیم کہا تری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا ترے خالق حسن ادا کی قسم
ترا مسند ناز ہے عرش بریں ترا محرم راز ہے روح امیں
تو ہی سرور ہر دوجہاں ہے شہا ترا مثل نہیں ہے خدا کی قسم
سر عرش پر ہے تری گزر دل فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شیء نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
تو ہے خورشید رسالت پیارے چھپ گیے تیری ضیا میں تارے
دانبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں
رفعت ذکر ہے تیرا حصہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا
مرغ فردوس پس از حمد خدا تیری ہی حمد و ثنا کرتے ہیں
تو ہے وہ بادشہ کون و مکاں کہ ملک ہفت فلک کے ہر آں
تیرے مولی’ سے شہ عرش ایواں تیری دولت کی دعا کرتے ہیں
کیوں نہ زیبا ہو تجھے تاج وری تیرے ہی دم کی ہے سب جلوہ گری
ملک و جن و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں
کیا اس کو گرائے دہر جس پر تو نظر رکھے
خاک اس کو اٹھائے شہر جو تیرے گرے دل سے
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
(امام احمد رضا علیہ الرحمہ)

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام‌ بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پاگیے
عقل و غیاب و جستجو عشق حضور اضطراب
(ڈاکٹر اقبال)

دہر میں ماحیء ظلمت ہے اجالا تیرا
رہبر منزل مقصود ہے رستہ تیرا
ماہ و انجم سے بھی ضوبار ہے روضہ تیرا
زینت عرش علی’ گنبد خضریٰ تیرا
نص قرآں ورفعنالک ذکرک ہے گواہ
دشت میں ذکر ترا شہر میں چرچا تیرا
(علامہ قدسی)

معترض نے جواب دیا ، ” میں تو غالب ، اقبال اور چاہے کسی بھی بڑے سے بڑے شاعر نے یہ انداز اختیار کیا ہو اس کو غلط ہی سمجھتا ہوں”۔

میں نے اس معاملے پر حضرت مفتی عطا مشاہدی صاحب کا فتوی’ پوسٹ کیا ۔وہ فتوی’ یوں ہے :

“الجواب بعون الملک الوھاب
عرف میں لفظ تو کے ذریعہ خطاب بے ادبی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ قاعدہ فقط نثر سے متعلق ہے ۔رہا نظم تو اس کا معاملہ نثر سے جدا ہے اور نظم میں اس کا استعمال بے ادبی نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ شعر وسخن کے تاجور اردو ادب کے ماہر شعراء حضرات نے لفظ تو/ تیرا کا استعمال فرمایا ہے. اسی میں عاشق المصطفی ناصر الاولیاء مجدد دین وملت سرکار اعلی حضرت فاضل بریلوی و سند الازکیا والاصفیا تاجدار اہلسنت حضور مفتئی اعؓظم ھند علیہما الرحمہ نے بھی استعمال فرمایا ہے۔ لہذا نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے ناواقفی ہے۔فقیر نے چند سال پہلے اس پر تفصیلی جواب لکھا ہے اس کے ساتھ اسکو بھی بھیجتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔
واللہ تعالی اعلم وصلی اللہ تعالی علی رسولہ الاکرم وعلی آلہ واصحابہ وبارک وسلم
فقیر عطامحمدمشاہدی عفی عنہ”

میں نے مفتی عطا مشاہدی صاحب کے فتوے کی تشریح کرتے ہوئے گروپ میں یوں لکھا:

مفتی صاحب نے اپنے فتوے میں دو اہم باتیں کہی ہیں ۔
نمبر ون: نظم کا معاملہ نثر سے جدا ہے۔
نمبر ٹو: نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے نا واقفی ہے

نظم کا‌ معاملہ نثر سے جدا ہے ۔

تفہیم :
نثر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ آداب و القاب لگائے جاتے ہیں:
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم،
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ،
محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم۔
لیکن نظم کی صورت الگ ہوتی ہے۔
نظم کی زبان الگ ہوتی ہے ۔
فقط نام یا فقط لقب لکھنا کافی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ایک مصرع/ شعر محدود اسباب و اوتاد میں کہا جاتا ہے۔جیسے:
زہے عزت و اعتلائے محمد۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں ۔
بڑی دل کشی ہے نبی کی گلی میں ۔
(صلی اللہ علیہ وسلم)
اور بھی کئی مثالیں ہیں ۔

نظم میں تو کے استعمال کو بے ادبی کہنا اصول نظم سے ناواقفی ہے۔

تفہیم :
قرآن پاک میں کئی الفاظ ایسے ہیں جن کے معنی مختلف مقامات پر مختلف ہیں ۔
یہ سب چیزیں علم بلاغت میں سکھائی جاتی ہیں ۔
مثال کے طور پر درود۔
قرآن میں ہے :

بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو

اللہ تعالیٰ کی طرف سے درود کے معنی رحمت کے ہیں ، ملائکہ کی طرف سے درود کے معنی تعظیم کا اظہار کرنا اور مومنوں کی طرف سے درود کے معنی ہیں شفاعت طلب کرنا۔
ایسے ہی کئی مثالیں ہیں ۔
علم تفسیر کا مطالعہ کریں ۔سمجھ میں آئےگا۔

تو کا استعمال جب ہم کسی شخص کے لیے کرتے ہیں جو ہم سے عمر میں چھوٹا ہے ، اس مقام پر تو کا معنی کچھ اور ہے ۔
لیکن جب ہم تو کا استعمال خدا یا رسول کے لیے ‌کرتے ہیں وہاں تو کا معنی حرف خطاب تعظیمی ہے۔

تیرا یا تیری کا استعمال کبھی ضرورت شعری یا اوزان وغیرہ میں فٹ کرنے کے لیے/ جوڑنے کے لیے کیا جاتا ہے اور بعض اوقات اس لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ ان لفظوں میں زیادہ محبت اور اپنائیت ہوتی ہے۔ اس لیے اس کو بے ادبی سمجھنا خلاف حقیقت ہے ۔

تو کا استعمال کبھی اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ تضمین میں مصرع طرح سے مطابقت لانا ضروری ہوتا ہے ۔جس شعر پر معترض نے اعتراض کیا تھا وہ شعر تضمین کا تھا اور مصرع ” جان عیسیٰ تری دہائی ہے” میں تری کا لفظ استعمال ہوا ہے۔میں نے گرہ لگایا تھا :
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر۔
اگر تجھ کے عوض تم کا استعمال ہوتا تو شعر میں شترگربہ کا عیب در آتا۔ ایک شاعر حتی الامکان یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کا نعتیہ کلام فنی خامیوں سے پاک رہے۔اس لیے میں نے کہا:
میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر۔
لہذا شعر میں کسی قسم کی بےادبی تصور کرنا سراسر ناسمجھی اور نا انصافی ہے۔ ‌

تو صرف ایک لفظ نہیں بلکہ وجوب وحدانیت کی شہادت ہے۔ بندگی میں لفظ تو اقرار وحدانیت کا درجہ رکھتا ہے۔

مخلوق میں اول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔سارے خلائق میں آپ بے مثال ہیں ۔خدا کے بعد اگر کوئی بلندی کا واحد مالک ہے تو وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے۔
سرکار اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کردیا
خالق کا بندہ خلق کا مولی’ کہوں تجھے
لہذا نعتیہ نظم نگاری میں تو کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔اور اس میں کوئی بے ادبی نہیں ہے ، بلکہ اقرار بے مثلیت ذات محمدی ہے۔صلی اللہ علیہ وسلم

لہذا ایک نقاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ لفظ کے انر میننگ / اندرونی معانی کو سمجھے، گہرائی و گیرائی تک جائے، وہ نظم کی زبان کو سمجھے،اردو ادب کے اصول کو سمجھے،علم بلاغت کے قواعد پڑھے ۔محبت کے الفاظ کو سمجھے۔اپنائیت کے انداز کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ الفاظ کی گہرایوں تک پہنچے اور پھر فیصلہ کرے کہ حق کیا ہے، سچائی کیا ہے۔

ہم نے گروپ میں مزید یہ لکھا :

محسن کاکوری صاحب کا ایک زمانہ معترف ہے ۔
ان کے اشعار میں بھی تو اور تیرا کا استعمال ہے۔جیسے:

صف محشر میں ترے ساتھ ہو تیرا مداح
ہاتھ میں ہو یہی مستانہ قصیدہ یہ غزل
رخ انور کا ترے دھیان رہے بعد فنا
میرے ہمراہ چلے راہ عدم میں مشعل
دم مردن یہ اشارہ ہو شفاعت کا تری
فکر فردا تو نہ کر دیکھ لیا جائےگا کل

امام احمد رضا علیہ الرحمہ کو امام نعت گویاں اور امام عشق و محبت کہا جاتا ہے۔
بیدم وارثی صاحب صوفی شاعر ہیں ۔
ان سبھوں نے تو اور تیرا کا استعمال کیا ہے۔
آپ کے نزدیک یہ سب غلط ہیں ؟
گستاخ ہیں ؟
استغفر اللہ

تو پھر معترض نے جواب دیا :
چلئے میں ناسمجھ ہوں۔

پھر میں نے کہا:
شکریہ
اعتراف تو کیا آپ نے اپنی ناسمجھی کا ۔

حاصل مقالہ یہ ہے کہ بلا سمجھے کسی شعر پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔اعتراض کرنے سے پہلے اچھی طرح‌ غور و فکر کرلیں۔اگر سمجھ میں نہیں آئے تو علم عروض ، علم بلاغت ، علم معانی ، علم لغات کا مطالعہ کریں ۔ اگر شرعی مسءلہ ہے تو مستند مفتیء شرع متین سے رائے لیں ، خود ساختہ اور جاہلانہ رائے کو دوسروں پر مسلط نہ کریں ، شرعی معاملات میں خود کو علمائے اسلام سے زیادہ قابل نہ سمجھیں۔

بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک–از:- محمد کہف الوری مصباحی

گلوں میں آج آ گئی ہے رنگت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

رتوں میں بھی آ گئی ہے زینت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

لبوں پہ ان کا ہی تذکرہ ہے ہر ایک خوش دل یہ کہ رہا ہے

دلوں میں آج آ گئی ہے راحت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

زمیں یہ شاداب ہو گئی ہے سما کی رونق بھی بڑھ گئی ہے

فضاؤں میں آ گئی ہے فرحت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

انہیں سے گلزار نور مہکے انہیں سے مہتاب و خور چمکے

ستاروں میں آ گئی ہے طلعت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

رضائے مولی کے در کھلے ہیں عطا و بخشش کے سلسلے ہیں

جہاں کو ملتی ہے جن سے نعمت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

مسرتوں میں ہیں لاکھوں لذت ہر ایک لذت میں ان کی جلوت

ہے جلوتوں میں بھی جن کی لمعت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

یگانہ گلشن یگانہ گل ہیں حسیں چمن میں حسین کل ہیں

ہر ایک نے جن سے پائی نکہت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

اسیر ان کا ہر اک یہاں پر خلوص کی ڈالیاں سجا کر

چلا ہے جن کی وہ کرنے مدحت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

نہ ثانی ان کا نہ کوئی ہم سر بیان کیا کیا کرے یہ ازہر

ہے جن کے قدموں میں شان و شوکت یہ ان کی آمد کی شادیاں ہیں

محمد کہف الوری مصباحی

نائب صدر: لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل نیپال

نگران اعلی: فروغ اردو زبان، تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، وارڈ نمبر 2، ضلع بانکے، نیپال

نعت محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔از: سید خادم رسول عینی

ان کے روضے کی دید پائی ہے

بدلی خوش قسمتی کی چھائی ہے

میں ہوں بیمار ناز ہے تجھ پر

“جان عیسیٰ تری دہائی ہے”

فخر کرتے نہیں نبی ، گرچہ

منسلک ان سے ہر بڑائی ہے

لائے تشریف جان امن‌ و اماں

اب کہاں ظلم کی رہائی ہے؟

اپنے محسن کو بھول جاتے ہیں

کس قدر عام بے حیائی ہے

یا نبی کیجیے کرم کی سحر

رات پھر زندگی میں آئی ہے

ان کی یادوں میں رہتا ہوں مسرور

اک عجب لذت جدائی ہے

یہ ہے دربار شاہ ، اور یہاں

بھید بھاؤ کی کب رسائی ہے؟

نور سے ہوگئی فضا معمور

نعت ” عینی ” نے جب سنائی ہے

از: سید خادم رسول عینی

حبیب خدا کی ثنا لکھ رہا ہوں–محمد کہف الوری مصباحی،

حبیب خدا کی ثنا لکھ رہا ہوں

وہی جو خدا نے کہا لکھ رہا ہوں

عقیدے لکھے ہیں جو قرآن میں میں

انہیں کو یہاں باخدا لکھ رہا ہوں

وہی رحمت کل جہاں ہیں یقیناً

بفضل خدا باخدا لکھ رہا ہوں

وہی غیب داں ہیں خدا کی عطا سے

خدا بھی نہ ان سے چھپا لکھ رہا ہوں

خدا نے کہا ہے سلام ان پہ بھیجو

فرشتوں کی ہے یہ ادا لکھ رہا ہوں

خدا نے بنایا انہیں نور عالم

بشر ان کو نوری کیا لکھ رہا ہوں

خدا نے کیا ان کا چرچا جہاں میں

انہیں ارفع اعلی کیا لکھ رہا ہوں

خدا ان کی مرضی عطا یوں کرے کہ

فترضی کو اس کی رضا لکھ رہا ہوں

انہیں کی رضا سے ہوا کعبہ قبلہ

زہے کعبہ تجھ پہ فدا لکھ رہا ہوں

وہی یٰسیں طٰہٰ وہی والضحٰی ہیں

انہیں نجم اسریٰ پڑھا لکھ رہا ہوں

کریں کیوں نہ تعظیم ہم مصطفٰی کی

یہی حکم رب نے دیا لکھ رہا ہوں

شفاعت کرے جو قیامت میں سب کی

اسے شافع کل وریٰ لکھ رہا ہوں

وسیلہ گناہوں کی بخشش کا ان کو

خدا نے کیا ہے کیا لکھ رہا ہوں

مقام ستائش پہ تم جلوہ گر ہو

تمہیں حمد کا سلسلہ لکھ رہا ہوں

عنایت ہوئی کثرت خیر تم کو

تمہیں کو میں خیرالوری لکھ رہا ہوں

وہ روکیں تو رکنا وہ دیں کچھ تو لینا

خدا کا اسے فیصلہ لکھ رہا ہوں

کرو نہ کبھی ان سے آواز اونچی

یہ لاترفعوا میں ملا لکھ رہا ہوں

پکارو نبی کو نہ تم اپنے جیسا

منع رب نے اس سے کیا لکھ رہا ہوں

کلام الہی سے جلوہ نبی کا

بیاں مجھ سے جو ہو سکا لکھ رہا ہوں

کمال نبی اب حدیثوں میں دیکھو

سنو ان کا میں معجزہ لکھ رہا ہوں

بہے چشمے انگلی سے، آب دہن سے

کنواں کھارا میٹھا ہوا لکھ رہا ہوں

کمال لعاب دہن ان کا دیکھو

جڑا پیر ٹوٹا ہوا لکھ رہا ہوں

لٹکتی ہوئی آنکھ کو مصطفی نے

دوبارہ دیا ہے جلا لکھ رہا ہوں

نمازوں میں یاد ان کی ہے شرک کیسے

نمازوں کو ان کی ادا لکھ رہا ہوں

نمازی کو گر وہ بلائیں کہ آجا

تو فوراً حضوری کو جا لکھ رہا ہوں

نمازی ہی کیا جب شجر کو بلایا

تو فوراً وہ حاضر ہوا لکھ رہا ہوں

شجر کیا انہوں نے کہا جو قمر کو

تو ٹکڑے ہوا برملا لکھ رہا ہوں

قمر ہی نہیں بلکہ سورج بھی ان کے

اشارے پہ الٹا چلا لکھ رہا ہوں

زمیں کیا فلک کیا،زماں کیا ملک کیا

سبھی کو میں ان کا گدا لکھ رہا ہوں

مریضوں کو کر دو ہوا کے رخوں پر

ہوا پہ درود شفا لکھ رہا ہوں

جو پوچھو کہ نعت نبی کس سے سیکھی

سنو! نام احمد رضا لکھ رہا ہوں

خموش ہو گیا ان کو یہ کہ کے ازہر

بڑا سب سے بعد خدا لکھ رہا ہوں

*محمد کہف الوری مصباحی، نائب صدر لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل، نیپال،نگران اعلی: فروغ اردو زبان تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، وارڈ نمبر 2، ضلع بانکے، نیپال،موبائل نمبر:-9779814516787+

شب برات۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

میرے خدا کی خوب ہے نعمت شب برات

دیتی ہے سب کو راہ ہدایت شب برات

کرتے رہو عبادت رب اجتماعی بھی

مومن کو دے رہی ہے یہ دعوت شب برات

تشریف لے گئے تھے نبی جنت البقیع

ہم کو دکھاتی ہے رہ سنت شب برات

اے میرے بندے مانگ تو کیا مانگتا ہے آج

کہتا ہے رب بطور عنایت شب برات

بچنا ہے تم کو بغض و حسد اور عناد سے

تم پر کرے گی ہر گھڑی نصرت شب برات

تقدیس والی راتوں میں ہے ایک رات یہ

رب کی قسم ہے حامل عظمت شب برات

یارب بنادے زندگی تابندہ “عینی” کی

نوری ہے تیری شب مہ نکہت شب برات

شب برأت°°°°°°از فریدی صدیقی مصباحی باره بنکوی مسقط عمان0096899633908

(1) بندےکی التجائیں

یارب ترے کرم کی دُہائی شبِ برات
بَھر دے مرا بھی دستِ گدائی شبِ برات

سوکھا ہوا ہے باغِ عمل اے مرے کریم
اس کو ملے بَہارِ عطائی شبِ برات

مجھ کو بھی اپنی چادرِ رحمت میں ڈهانپ لے
کتنوں کی لاج تو نے بچائی شب برات

شرمندہ ہوں گناہوں کی آلودگی سے میں
عِصیاں کی ہو جگر سے صفائ ، شب برات

ہموار ہوں مرے لیے نیکی کے راستے
پَٹ جائے ہر گناه کی “کھائی” شب برات

ٹوٹا ہے بارِ غم سے مرا پیکرِ وجود
یارب تو کردے رنج کُشائی شب برات

سارے فریب ، نفس پرستی کے دور ہوں
دل سے دُهلے ، ہر ایک بُرائی شب برات

ہوں سارے خوش عقیده مسلمان متّحد
مل جائے ہر ” اِکائی دَہائی ” شب برات

تو اپنی رحمتوں سے ، بنادے اِنھیں گُہر
ہم نے جو بزمِ اشک سجائی شب برات

تیرے کرم سے پایا ہے نیکوں نے جو مقام
اُس درپہ ہو مری بھی رَسائی شب برات
°°°°°°°°
(2) رب کی عطائیں

فرمایا رب نے ، اے مرے بندے بغور سُن !
مقبول ہوگی، عرض نوائی شب برات

اپنی خطا پہ نادم و شرمنده ہو کے آ
تائب کو نار سے ہے رِہائی شب برات

ظاہر کو تو نے خوب سجایا سنوارا ہے
باطن کی کر رَنگائ پُتائ ، شب برات

جو سچّی توبہ کرتے ہیں، اُن سب کے واسطے
پیغام مغفرت کا ہے لائی شب برات

سب سے “کَہے سُنے” کی معافی طلب کریں
غصہ رہے نہ بھائی سے بھائی شب برات

ہستی کے آئینے میں کرم جگمگائے گا
زخمِ گناه کی ہے دوائی شب برات

ہوں گے نصیب ، اس کو اُجالے بہشت کے
جس نے بھی شمعِ توبہ جلائی شب برات

دنیا بھلے ہی دے کہ نہ دے اُن کو اہمیت
ہے بھاؤ خاکساروں کا “ہائی” شب برات

رو رو کے ، گِڑگڑا کے جو مجھ کو مناتے ہیں
پاتے ہیں خلد کی وه بَدهائی شب برات

تو بھی فریدی ! اپنی جبینِ نیاز رکھ
کر نیکیوں کی خوب کمائی شب برات

رنگائ پُتائ ، رنگنا، کَلَرکرنا

نعت رسول ﷺ،، جانِ عیسٰی تری دہائی ہے،، از قلم :-قسمت سکندرپوری یو پی 9565140742

نعت شریف

جن کی اللہ تک رسائی ہے

بسترا ان کا اک چٹائی ہے

سچ کی تصویر میں بھلائی ہے

جھوٹ کی شکل میں برائی ہے

مر تبہ سر و رِ دو عالم کا

بعدِ رب سب سے ہائی فائی ہے

روئے والشمس سے نظر نہ ملا

پیرہن تیرا مومیائی ہے

سب طبیبوں نےدےدیاہے جواب

جان عیسٰی تری دہائی ہے

ہر دَہائی جسے سلام کرے

دین ِ اسلام کی اکائی ہے

ان کےقبضے میں سارے عالم کا

آنہ آنہ ہے پائی پائی ہے

بادشاہی کی سب سےپہلی اینٹ

شاہ ِ کونین کی گدائی ہے

ہاتھ, دل, اشک ِ غم, برائے ثناء

خامہ , قرطاس , روشنائی ہے

نعت گوئی ہے دولتِ دارین

اور اپنی یہی کمائی ہے

جس پہ کردیں حضور چشمِ کرم

اس کا کوہِ گناہ رائی ہے

جوش نےان کے درپہ جاکے کہا

اب کہاں ہوشِ لب کشائی ہے

ہے خدا تک مرے نبی کی پہنچ

اور نبی تک مری رسائی ہے

طے شدہ امر ہے ازل سے ہی

اصطفاء شان مصطفائی ہے

ہر مرض کے لئے درودِ پاک

مختصر, معتبر , دوائی ہے

ان کے دستور کا جو ہے قیدی

بس اسی کے لئے رہائی ہے

قادری چشتی اشرفی رضوی

اور کوئی ابو العلائی ہے

متحد ہو تو قوم ہو کیسے

سب کوجب شوقِ رہنمائی ہے

رحمت ِ کائنات کی آغوش

بہرِ حسنین چارپائی ہے

جو کہےان کو اپنے جیسا بشر

وہ بشر بو لہب کا بھائی ہے

نجدیت اورسنیت میں جناب

کفر و ایمان کی لڑائی ہے

سجدۂ شکر, کر, اگر حاصل

تجھ کو توفیق ِپارسائی ہے

رونے والا یہ جانتا ہی نہیں

ہنسنے والا بھی کربلائی ہے

میرے مرشد اویسِ ملت ہیں

رہنما جن کی رہنمائی ہے

چھو کےقسمت کوکرگیا سونا

نعت کا شعر کیمیائی ہے

نعتِ رسول ﷺ:-از آفتاب عالم صفدر کیموری صاحب قبلہ

ذکر کیجے حضور کا پل پل

برسےگی رحمتِ خدا پل پل

نعت سرکار گنگنا پل پل

بارش نور میں نہا پل پل

جس کےدل میں ہےعشق ان کا، اسے

یاد آتے ہیں مصطفے پل پل

دیکھتا رہتا ہوں میں حسرت سے

شہر طیبہ کا راستہ پل پل

طیبہ اک دن بلائیں گےآقا.

کہتا رہتاہے دل مرا پل پل

ہوگی جب حاضری مدینے میں،،

زیست کا ہوگا خوشنما پل پل

نعت کی مجھ پہ ایسی برکت ہے

زیست کا ہے ہرا بھرا پل پل

عالمِ نفسی نفسی میں صفدر!

ہوگا ان کا ہی آسرا پل پل

از ـ ابوسارہ محمد آفتاب عالم صفدر کیموری بہار