WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

Category شعر و شاعری

Shabe baraat……By: Sayed khadime Rasul Aini

A night of making fortune is shabe baraat,

The cause of celebration is shabe baraat.

This night was revealed the ayah of the darood,

The time of salutation is shabe baraat.

Prophet was given power of recommendation,

Time of rejuvenation is shabe baraat.

Beg before The Almighty whatever you want,

Night of great invitation is shabe baraat.

Let us go to the masjid and pray together,

A night of congregation is shabe baraat.

Let us meet the people and rebuild the friendship,

Time of reconciliation is shabe baraat.

The Prophet termed this month O Aini as His month,

Great beyond imagination is shabe baraat.

شب برأت۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

مسرتوں میں مسلمان آج کی شب ہے

اہم تریں شب شعبان آج کی شب ہے

جزا کے باغ کا ریحان آج کی شب ہے

یہ نفس دیکھ کے حیران آج کی شب ہے

حسد ، عناد کو بالائے طاق رکھیں آپ

نزول رحمت رحمان آج کی شب ہے

درود پاک کی آیت کا ہوگیا ہے نزول

نہ کیوں میں کہہ دوں کہ ذیشان آج کی شب ہے

گنہ معاف ہوئے اور مل گیا مژدہ

سبھی کے ہونٹ پہ مسکان آج کی شب ہے

شفاعتوں کا ملا اختیار آقا کو

خدا کا خوب یہ فیضان آج کی شب ہے

اے بندے مانگ ، تجھے جو بھی مانگنا ہے اب

خدائے پاک کا اعلان آج کی شب ہے

خدا کریگا نمازی کی حاجتیں پوری

نماز خیر کا اعلان آج کی شب ہے

ملک کے واسطے ہے عید “عینی ” آج کی رات

زمین کا بھی خوش انسان آج کی شب ہے

شب برات۔۔۔از: سید خادم رسول عینی

میرے خدا کی خوب ہے نعمت شب برات

دیتی ہے سب کو راہ ہدایت شب برات

کرتے رہو عبادت رب اجتماعی بھی

مومن کو دے رہی ہے یہ دعوت شب برات

تشریف لے گئے تھے نبی جنت البقیع

ہم کو دکھاتی ہے رہ سنت شب برات

اے میرے بندے مانگ تو کیا مانگتا ہے آج

کہتا ہے رب بطور عنایت شب برات

بچنا ہے تم کو بغض و حسد اور عناد سے

تم پر کرے گی ہر گھڑی نصرت شب برات

تقدیس والی راتوں میں ہے ایک رات یہ

رب کی قسم ہے حامل عظمت شب برات

یارب بنادے زندگی تابندہ “عینی” کی

نوری ہے تیری شب مہ نکہت شب برات

شب برأت°°°°°°از فریدی صدیقی مصباحی باره بنکوی مسقط عمان0096899633908

(1) بندےکی التجائیں

یارب ترے کرم کی دُہائی شبِ برات
بَھر دے مرا بھی دستِ گدائی شبِ برات

سوکھا ہوا ہے باغِ عمل اے مرے کریم
اس کو ملے بَہارِ عطائی شبِ برات

مجھ کو بھی اپنی چادرِ رحمت میں ڈهانپ لے
کتنوں کی لاج تو نے بچائی شب برات

شرمندہ ہوں گناہوں کی آلودگی سے میں
عِصیاں کی ہو جگر سے صفائ ، شب برات

ہموار ہوں مرے لیے نیکی کے راستے
پَٹ جائے ہر گناه کی “کھائی” شب برات

ٹوٹا ہے بارِ غم سے مرا پیکرِ وجود
یارب تو کردے رنج کُشائی شب برات

سارے فریب ، نفس پرستی کے دور ہوں
دل سے دُهلے ، ہر ایک بُرائی شب برات

ہوں سارے خوش عقیده مسلمان متّحد
مل جائے ہر ” اِکائی دَہائی ” شب برات

تو اپنی رحمتوں سے ، بنادے اِنھیں گُہر
ہم نے جو بزمِ اشک سجائی شب برات

تیرے کرم سے پایا ہے نیکوں نے جو مقام
اُس درپہ ہو مری بھی رَسائی شب برات
°°°°°°°°
(2) رب کی عطائیں

فرمایا رب نے ، اے مرے بندے بغور سُن !
مقبول ہوگی، عرض نوائی شب برات

اپنی خطا پہ نادم و شرمنده ہو کے آ
تائب کو نار سے ہے رِہائی شب برات

ظاہر کو تو نے خوب سجایا سنوارا ہے
باطن کی کر رَنگائ پُتائ ، شب برات

جو سچّی توبہ کرتے ہیں، اُن سب کے واسطے
پیغام مغفرت کا ہے لائی شب برات

سب سے “کَہے سُنے” کی معافی طلب کریں
غصہ رہے نہ بھائی سے بھائی شب برات

ہستی کے آئینے میں کرم جگمگائے گا
زخمِ گناه کی ہے دوائی شب برات

ہوں گے نصیب ، اس کو اُجالے بہشت کے
جس نے بھی شمعِ توبہ جلائی شب برات

دنیا بھلے ہی دے کہ نہ دے اُن کو اہمیت
ہے بھاؤ خاکساروں کا “ہائی” شب برات

رو رو کے ، گِڑگڑا کے جو مجھ کو مناتے ہیں
پاتے ہیں خلد کی وه بَدهائی شب برات

تو بھی فریدی ! اپنی جبینِ نیاز رکھ
کر نیکیوں کی خوب کمائی شب برات

رنگائ پُتائ ، رنگنا، کَلَرکرنا

مرے لبوں پہ مقالہ شب برأت کا ہے:- از قلم قسمت سکندرپوری یو پی انڈیا

مرے لبوں پہ مقالہ شب برأت کا ہے

نگاہ و دل میں اجالا شب برأت کا ہے

درودپاک پڑھوں اور شب گزر جائے

یہ سب سےقیمتی تحفہ شب برأت کاہے

کریں گناہوں سےتوبہ پڑھیں درودوسلام

یہی صحیح طریقہ شب برأت کا ہے

خدا کرے کہ وہ مشہورِ عام ہو جائے

جوخاص خاص وظیفہ شب برأت کا ہے

دھلیں گے فردِ خطا ,روکے آب ِتوبہ سے

بڑا مفید یہ نسخہ شب برأت کا ہے

یہ خود بتانے نبی جنت البقیع گئے

اٹوٹ قبروں سے رشتہ شب ِبرأت کا ہے

شب ِبرأت لحاظ ان کاکم نہیں رکھتی

خیال جن کو زیادہ شب برأت کا ہے

غبار, دل میں نہ آئے فساد ِ نیت کا

یہ پاک صاف ارادہ شب برأت کا ہے

خدائےپاک کےلطف وکرم کی شبنم سے

ہر ایک گل تر و تازہ شب ِبرأت کا ہے

پلک جھپکنے نہ پائے,نجات کیلئےخاص

نہ جانے کون سا لمحہ شب ِبرأت کا ہے

,رجب,خدا کا تو,روزہ,نبی کی امت کا

حضور والا مہینہ شب ِ برأت کا ہے

خداکےگھر میں بلاؤ خدا کے بندوں کو

یہ کہہ ان سےکہ جلسہ شب برأت کاہے

پکائیں,کھائیں,پٹاخےجلائیں,سوجائیں

ہمارےدل میں یہ خاکہ شب برأت کاہے

وہابیوں کو قسمت,بچا کھچا دے دو

تمہارے پاس تو حلوہ شب برأت کاہے

نعت رسول ﷺ،، جانِ عیسٰی تری دہائی ہے،، از قلم :-قسمت سکندرپوری یو پی 9565140742

نعت شریف

جن کی اللہ تک رسائی ہے

بسترا ان کا اک چٹائی ہے

سچ کی تصویر میں بھلائی ہے

جھوٹ کی شکل میں برائی ہے

مر تبہ سر و رِ دو عالم کا

بعدِ رب سب سے ہائی فائی ہے

روئے والشمس سے نظر نہ ملا

پیرہن تیرا مومیائی ہے

سب طبیبوں نےدےدیاہے جواب

جان عیسٰی تری دہائی ہے

ہر دَہائی جسے سلام کرے

دین ِ اسلام کی اکائی ہے

ان کےقبضے میں سارے عالم کا

آنہ آنہ ہے پائی پائی ہے

بادشاہی کی سب سےپہلی اینٹ

شاہ ِ کونین کی گدائی ہے

ہاتھ, دل, اشک ِ غم, برائے ثناء

خامہ , قرطاس , روشنائی ہے

نعت گوئی ہے دولتِ دارین

اور اپنی یہی کمائی ہے

جس پہ کردیں حضور چشمِ کرم

اس کا کوہِ گناہ رائی ہے

جوش نےان کے درپہ جاکے کہا

اب کہاں ہوشِ لب کشائی ہے

ہے خدا تک مرے نبی کی پہنچ

اور نبی تک مری رسائی ہے

طے شدہ امر ہے ازل سے ہی

اصطفاء شان مصطفائی ہے

ہر مرض کے لئے درودِ پاک

مختصر, معتبر , دوائی ہے

ان کے دستور کا جو ہے قیدی

بس اسی کے لئے رہائی ہے

قادری چشتی اشرفی رضوی

اور کوئی ابو العلائی ہے

متحد ہو تو قوم ہو کیسے

سب کوجب شوقِ رہنمائی ہے

رحمت ِ کائنات کی آغوش

بہرِ حسنین چارپائی ہے

جو کہےان کو اپنے جیسا بشر

وہ بشر بو لہب کا بھائی ہے

نجدیت اورسنیت میں جناب

کفر و ایمان کی لڑائی ہے

سجدۂ شکر, کر, اگر حاصل

تجھ کو توفیق ِپارسائی ہے

رونے والا یہ جانتا ہی نہیں

ہنسنے والا بھی کربلائی ہے

میرے مرشد اویسِ ملت ہیں

رہنما جن کی رہنمائی ہے

چھو کےقسمت کوکرگیا سونا

نعت کا شعر کیمیائی ہے

لذت عیش میں عقبی کی سزا بھول گیا:- نتیجہ فکر:-محمد کہف الوری مصباحی، نائب صدر: لمبنی پردیس، راشٹریہ علما کونسل، نیپال، نگران اعلی: فروغ اردو زبان تعلیمی شاخ، ڈڈوا گاؤں پالکا، ضلع بانکے، موبائل نمبر:-9779814516787+

حسن دنیا میں شریعت کی ادا بھول گیا

شاخ تھا جس کی اسی سے تو وفا بھول گیا

مست دولت میں ہے عقبی کو بھُلا بیٹھا ہے

عشق دولت سے کیا ذکر خدا بھول گیا

ہر اک عنوان پہ چلتی ہے زباں خوب تری

ہائے افسوس کہ تو حق کی سدا بھول گیا

بے حیائی کو تو نے آج حیا سمجھا ہے

حیف صد حیف کہ تو طرز حیا بھول گیا

فکر امروز نہیں بھول گیا فردا کو

کیسی غفلت ہے تری رسم بقا بھول گیا

تیری نظروں میں بسا رنگ شعار اغیار

غیر کے پیچھے چلا اپنا پتہ بھول گیا

تیرے کردار پہ شرمائیں یہود و مشرک

جرم پہ جرم کیا نام خطا بھول گیا

راستے خوب گناہوں کے تجھے ہیں ازبر

نیک راہوں سے ہٹا راہ ہدی بھول گیا

اپنے اعمال سے اسلام کا باغی تو بنا

لذت عیش میں عقبی کی سزا بھول گیا

جنتی بننے کا دل میں ہے ترے شوق مگر

پیار شیطاں سے کیا حکم خدا بھول گیا

بے محل جوش بھی جذبہ بھی تجھے آتا ہے

دین کے واسطے تو ہونا خفا بھول گیا

اہل دنیا کی رضا کے لیے در در بھٹکا

خلق کے ڈر سے تو خالق کی رضا بھول گیا؟

قدرداں اپنا یہاں کوئی نہیں ہے ازہر

ورنہ کس بات پہ وہ میری ندا بھول گیا

سنو بات ازہر کی اے عقل والو! :- (مفتی) کہف الوریٰ صاحب مصباحی بانکے نیپال

نیادور آیا نیا رنگ لایا

نئی فکر آئی نیا ڈھنگ آیا

نیا ہے سفر منزلیں بھی نئی ہیں

انوکھے مسافر کی راہیں نئی ہیں

نہ کوئی مشن ہے نہ منصوبہ کوئی

نئی نسل کھیلوں کی دنیا میں کھوئی

نیا رنگ تہذیب اور یہ تمدن

نئے باب کا یہ نرالا تفنن

کوئی باہنر اب نہیں اپنی حد میں

ہر اک شخص ہے اختلافوں کی زد میں

اماموں کی جھولی میں خیراتی چندے

مدرسوں سے صدروں کے چلتے ہیں دھندے

کسی کو نہیں فکر اسلام ہے اب

شریعت نہ قرآن سے کوئی مطلب

نہ بد عملیوں پہ کبھی ان کو روکو

خلاف طبع ان کو ہرگز نہ ٹوکو

یہ چاہیں تو لمحوں میں کچھ بھی خریدیں

اماموں کو عالم کو گالی بھی دے دیں

بڑے مال ور دکھتے ہیں شادیوں میں

مگر مفلسی دین کی وادیوں میں

طوائف، مزارات، قوالیوں پر

لٹی دولتیں ان کی بدکاریوں پر

سیاست تجارت نہ اسکول ان کے

سکھائےبھلا کون اب رول ان کے

وہ غفلت کی چادر میں سوئے پڑے ہیں

تقاضوں سے رخ اپنا موڑے ہوئے ہیں

تدبرسے بوڑھوں کا خالی ذہن ہے

جوانوں نے بے کاری کو سمجھا فن ہے

خواتین چغلی میں غیبت میں ماہر

فسادات ہیں ان کی باتوں سے ظاہر

جو بچے ہیں ان کو بھلا فکر کیا ہو

وہ بھولیں سبق کیوں جو ماں نے دیا ہو

ہر اک فرد ہے رنگ دنیا کا عادی

کہے بھولا بن کے وہ سب کو فسادی

پڑھائی لکھائی سے کوسوں کی دوری

فقط گیم کو ہے سمجھتا ضروری

نہ فکر معیشت نہ ذوق ریاست

نہ پاس شریعت نہ دیں کی رعایت

نوابی میں ملتا نہیں کوئی ثانی

لکھوں کیا کیا میں ان کی جھوٹی کہانی

لباس ان کا ہے بےحیائی کا درپن

یہ پچپن کے ہو کے دکھاتے ہیں بچپن

سنو بات ازہر کی اے عقل والو

پڑھو اور بڑھو نسل نوکوسنبھالو

منقبت سلطان الہندخواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ☆☆ عقیدت کیش محمد فیض العارفین نوری علیمی شراوستی ۵/ رجب المرجب ۱۴۴۳ ہجری۷/ فروری ۲۰۲۲ عیسوی بروز: پیر

دل سے جب پہنچا ہے کوئی مدّعی اجمیر میں

اس کی حسرت لازماً پوری ہوئی اجمیر میں

زائرِ اجمیر کے لب پر مسلسل ہے یہی

“چار سو پھیلی ہوئی ہے روشنی اجمیر میں”

بالیقیں ہوتا ہے شب میں بھی گمانِ نیم روز

سر پٹکتی پھرتی ہے تیرہ شبی اجمیر میں

در پہ ہوتا ہے سدا مستانِ خواجہ کا ہجوم

میں نے جا کے دیکھی ہے دیوانگی اجمیر میں

ہے مئے میخانۂ خواجہ نشانِ معرفت

آئیے کرتے ہیں چل کے میکشی اجمیر میں

جس کو بھی مطلوب ہو خلدِ بریں کا راستہ

وہ پڑھے جا کر دروسِ راستی اجمیر میں

با ادب ، نظریں جھکائے حاضرِ دربار رہ

نا روا ہے نفس! تیری سرکشی اجمیر میں

فلسفہ نوری! سمجھنا ہو غلامی کا اگر

جا کے پڑھیے داستانِ بندگی اجمیر میں

منقبت حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ،،،، مجھے غوث اعظم کی نسبت ملی ہے،، از. قاری آفتاب عالم صفدر کیموری صاحب

خدا کی مجھے ایک نعمت ملی ہے
مجھے مصطفے کی عنایت ملی ہے
میں اپنے مقدر پہ قربان جاؤں
مجھے غوث اعظم کی نسبت ملی ہے

غم و رنج میں جب بھی ان کو پکارا
ملا پھر مجھے مشکلوں میں سہارا
پریشانیوں میں بھی میں مسکراؤں
مجھے غوث اعظم کی نسبت ملی ہے

سجی ہےمرےدل میں الفت انہیں کی
عقیدت انہیں کی ہے چاہت انہیں کی
شب و روز نغمہ یہ میں گنگناؤں
مجھے غوث اعظم کی نسبت ملی ہے

تصور میں بغداد جایا کروں میں
کلی دل کی یوں ہی کھلایاکروں میں
درغوث پر ایسے ہی جاؤں آؤں
مجھے غوث اعظم کی نسبت ملی ہے

کروں غوث اعظم کی مدح و ثنا اور
مراتب لکھوں ان کے صبح و مسا اور
نصیب اپنا سویا ہوا جگمگاؤں
مجھےغوث اعظم کی نسبت ملی ہے

خبر گیری کرتے ہیں وہ خوب میری
کہوں المدد تو کریں دستگیری
زمانے کو میں جھوم کر یہ بتاؤں
مجھےغوث اعظم کی نسبت ملی ہے

مجھے آفتاب ان کی نسبت ملی جب
مرے گھر سے ہر ایک آفت ٹلی تب
رسول خدا کا نہ کیوں فیض پاؤں
مجھےغوث اعظم کی نسبت ملی ہے

از ـ محمد آفتاب عالم صفدر کیموری