WebHutt

Designing Your Digital Dreams.

قربانی کا عمل رضا ٕالٰہی کا سبب ہے۔۔

از۔۔مفتی قاضی فضل رسول مصباحی،استاذ دارالعلوم اہل سنت قادریہ سراج العلوم برگدہی ضلع مہراج گنج یوپی ۔

شریعت کے اعمال کسی نہ کسی واقعہ کی یاد تازہ کرنے کے لۓ مقرر کۓ گۓ ہیں جیسے اللہ کے مقدس نبی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ پہاڑ کے درمیان چکر لگاٸ تو یہ عملِ سعی، رب تعالی کو اتنی پسند آٸ کہ قیامت تک تمام حاجیوں کے لۓ ان دونوں پہاڑیو ں کے درمیان دوڑ لگانا لازم قرا ر دے دیا۔اسی طرح حکم خداوندی کی تعمیل میں حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے پوری خندہ روٸ کے ساتھ اپنے ہونہار ،نور نظر اور لخت جگر کے گلے پر چھری چلادی ،نبی ابن نبی علیہما السلام اس امتحان میں کامیاب ہوۓاور ذبح ہونے والا جنت سے لایا ہوا دنبہ ثابت ہوا ،تو یہ عمل
اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہوا کہ اس نے ان کی اس سنت کی یاد میں تا قیام قیامت تمام صاحب نصاب ،عاقل ،بالغ مسلمانوں کے لۓ مخصوص جانوروں کی قربانی کو واجب قرار دے دیا۔قربانی کے اس ظاہری مفہوم میں باطنی مفہوم بھی مضمر ہےاور وہ ہے ”قربانی سےمراد ہر وہ عمل ہے جسےاللّٰہ تعالی کی رضا کے حصول اجر و ثواب اور اس کی بار گاہ کاتقرب حاصل کرنے کے لۓ انجام دیا جا ۓ
عید الاضحیٰ ١٠ دس ذی الحجہ کو مناٸ جا تی ہے، اسے عید قرباں یا بقرعید بھی کہا جاتا ہے۔اسلام کی جتنی بھی عبادات،رسوم یا تہوار ہیں ان کے مقاصد دنیا کے تمام دیگر مذاہب اور اقوام سے منفرد اور اعلیٰ وارفع ہیں ۔نماز ہو یاروزہ،زکوٰة ہو یا حج،عید الفطر ہو یاعید قرباں سب کا مقصد رب کی رضااورتقویٰ کا حصول ہے۔
قربانی کرنا اللہ کے خلیل حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لۓ باقی رکھی گٸ ہے۔یہ قربانی اتنی اہم ہے کہ اس کا بیان قرآن مجید کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی آیا ہے ارشاد باری تعالی ہے

”فصلِّ لِرَبِّکَ وَانحَر“پس آپ اپنے رب کے لۓ نماز پڑھاکریں اور قربانی دیا کریں

الکوثر،١٠٨۔٢

ابن ماجہ نے حضرت سیدنا زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ صحابہ ٕ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی۔۔

یارسول اللہ ما ھٰذہ الاضاحی؟

”یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم“

یہ قربانیاں کیا ہیں ؟
فرمایا

”سنة ابیکم ابراھیم“

تمہارےباپ ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے۔

لوگوں نے عرض کی ۔یارسول اللہ ”صلّی اللہ علیہ وسلم“ ہمارے لۓ اس میں کیا ثواب ہے؟فرمایا ۔

”بکل شعرة حسنة٠٠“

ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔

عرض کیا گیا ٠۔اون کا کیا حکم ہے ؟فرمایا ۔

بکل شعرة من الصوف حسنة ۔

اون کے ہر بال کے بدلے نیکی ہے۔
”سنن ابن ماجہ“١٣٢٧“

ام المٶ منین حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہےکہ نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،قربانی کے دنوں میں کوٸ عمل اللہ کو خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور یہی قربانی کا جانور قیامت کے میدان میں اپنے سینگوں ،بالوں اور کھروں کے ساتھ آۓ گااورقربانی میں بہایا جانےوالا خون زمین پر گرنے سے پہلےہی اللہ تعالی کے دربارمیں قبولیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے ۔لھٰذاخوش دلی سےقربانی کرلیا کرو۔۔(ترمذی شریف حدیث نمبر١٤٩٣)

بارگاہ الٰہی میں اس فعل کے مقام قبولیت کی وجہ یہ ہےکہ انسان ایک ذی روح اور ذی شعور مخلوق ہے ۔اس کا دوسری ذی روح مخلوق کو اپنے ہاتھ سےذبح کرنازیادہ گراں ہے ۔یہی وجہ ہےقربانی کےایام میں دیگر عبادات کے مقابلہ میں قربانی کا عمل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہےاور اسی لۓ اللہ تعالی نےاس کی راہ میں اس مال کوقربان کرنے کےباوجود اس سے استفادہ کی اجازت دےدی ہے،انسان ذبح کرنے کےبعد خود اس کا گوشت کھاسکتاہے دوسرے کو کھلا سکتاہے ۔جب کہ دیگرمالی عبادات میں ایسی اجازت نہیں کہ خودگوشت کھاسکتاہے دوسرے کو بھی کھلا سکتاہے ۔جب کہ دیگرمالی عبادات میں ایسی اجازت نہیں ہے۔
قربانی نہ کرنے پر سخت تنبیہ کرتےہوۓ نبٸ اکرم نے فرمایا کہ،جوشخص قربانی کرسکتاہو پھر بھی قربانی نہ کرے،وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آۓ(رواہ الحاکم ج٢ ص٣٨٩)
اس سے قربانی کی اہمیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔

”قربانی کس پر واجب ہے“

قربانی ہرمسلمان مرد ،عورت،عاقل،بالغ اور مقیم پرواجب ہے۔جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجت اصلیہ سےزاٸد ہو۔یہ مال خواہ سونا،چاندی یا اس کےزیورات ہوں یا مال تجارت
قربانی کے واجب ہونے سلسلہ میں عامر بن رملہ سے روایت ہےکہ حضرت محنف بن سلیم رضی اللہ عنہ نے فرمایا،ہم رسول اللہ صلیٰ اللہ والہ وسلم کے ساتھ عر فات میں ٹہرے ہوے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےفرمایا،۔

”یاایھا الناس ان علیٰ کل بیت فی کل عام اضحیةوعتیرة اتدرون ماالعتیرة؟ھٰذہ التی یقول الناس الرجیبة۔”

اے لوگو!ہر گھروالوں پرسال میں ایک دفعہ قربانی اور عتیرہ ہے کیا تم جانتے ہوکہ عتیرہ کیا چیز ہے؟عتیرہ وہی ہے جس کو لوگ رجیبہ کہتے ہیں
(سنن ابو داٶد،رقم١٠١٥)

حضرت امام ابن الاثیر نے لکھا ہے کہ حضرت امام خطابی فرماتے ہیں ۔”عتیرہ سےمرادوہ جانور ہےجسے جاہلیت میں لوگ اپنےبتوں کےنام پر ذبح کرتےاور اس کا خون بت کےسر پر بہا دیتے تھے۔

قربانی صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے ۔دوسرے دنوں میں قربانی نہیں ہوتی۔قربانی کےدن ذی الحجہ کی دسویں،گیارھویں اور بارھویں تاریخ ہے ۔ان ایام میں جب چاہے قربانی کر سکتا ہے۔البتہ پہلے دن قربانی افضل ہے۔

”قربانی کا وقت“

قربانی نماز عید پڑھ کر کی جانی چاہۓ۔نماز عید سے پہلے قربانی کرنا جاٸز نہیں ۔حضرت جندب رضی اللہ عنہ سےروایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر قربانی کی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

”من ذبح قبل ان یصلی فلیذبح اخری مکا نھاو من لم یذبح فلیذبح باسم اللہ “

جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیاہو تواسے دوسراجانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہۓ۔اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیاہو وہ اللہ کے نام ذبح کرے۔(متفق علیہ)

اسی طرح برا ٕبن عاذب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبٸ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔نماز عید پڑھنے سے پہلے کوٸ شخص(قربانی کاجانور) ذبح نہ کرے۔فرماتے ہیں میرے ماموں نے اٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم۔آج کے دن گوشت کھانا پسند ہوتا ہے۔اور میں نے قربانی میں جلدی کی تاکہ اپنے گھروالوں اور ہم سایوں کو کھلاٶں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

”فاعد ذبحک باخر“

دوسرا جانور ذبح کرنے کا اہتمام کرو۔

”جامع ترمذی،ابواب الاضاحی رقم ١٥٥٠“

”کس جانور کی قربانی مستحب ہے“

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےسینگوں والے موٹے تازے نر دُنبے کی قربانی دی،وہ سیاہی میں کھاتا،سیاہی میں چلتا اورسیاہی میں دیکھتا تھا۔

جامع ترمذی،ابواب الاضاحی رقم۔١٥٢٥

اسی طرح عروہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عاٸشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےسینگوں والے مینڈھےکےلۓ حکم فرمایا۔جس کے سینگ سیاہ ،آنکھیں سیاہ اور جسمانی اعضا ٕسیاہ ہوں پس وہ لایا گیا تو اس کی قر بانی دینے لگے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا۔اے عاٸشہ رضی اللہ عنہا،چھری تو لاٶ،پھر فرمایا ۔اسے پتھر پر تیز کرلینا ۔پس میں نے ایساہی کیاتو مجھ سے لےلی اور مینڈھے کو پکڑ کر لٹایااور ذبح فرمانے لگے تو کہا۔

”بسم اللہ اللھم تقبل من محمد وال محمد وامة محمد ثم ضحیٰ بہ“

سنن ابو داٶد۔رقم۔١٠١٩

نبٸ کریم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور ذبح کرتے وقت بھی ال محمد کی جانب منسوب فرما دیا کرتے تھے اور اللہ کا نام لے کر ذبح کرتے ۔معلوم ہوا جو جانور اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جاۓ تو اس ثواب میں شریک کرنے یا ایصال ثواب کی غرض سے اللہ والوں کی جانب منسوب کر دینے سے”ما اھل بہ لغیر اللہ “میں شمار نہیں ہوتا۔جو جانور بزرگوں کی جانب منسوب کیاجاۓ کہ ان کے لۓ ایصال ثواب کرنا ہےاور اسے اللہ کانام لےکر ذبح کیا جاۓ تو اسے حرام اورمردار ٹہرانے والے شریعت مطہرہ پر ظلم کرتے،اور بزرگوں سے دشمنی رکھنے کا ثبوت دیتے ہیں ۔ ”قربانی کرنے کا طریقہ“

بہتر یہ ہے کہ قربانی خود کرے، اگر خود نہ جانتا ہو تو کسی دوسرے مسلمان کو اپنی طرف سے ذبح کرنے کے لئے کہے۔ بوقت ذبح خود بھی موجود ہو۔ قربانی کے جانور کو بائیں پہلو پر قبلہ رخ لٹائیں اور بسم اللہ اللہ اکبر پڑھتے ہوئے تیز چھری سے ذبح کردیں۔ جانور کے سامنے چھری تیز نہ کریں اور نہ ہی ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیا جائے۔ ذبح کرنے والے کیلئے یہ کلمات کہنا مسنون ہے:

إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ. قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ. لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ. اللهم لک ومنا بسم الله، الله اکبر.

جب ذبح کرچکے تو یہ دعا پڑھے:

اللهم تقبله منی کما تقبلت من حبيبک محمد صلیٰ الله عليه وآله وسلم وخليلک ابراهيم (عليه السلام)

قربانی اللہ کی رضا کیلئے کی جائے

قرآن مجید میں ہے:

لَنْ يَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.

’’ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔

(الحج، 22: 37)

یعنی قربانی کرنے والے صرف نیت کے اخلاص اور شروط تقویٰ کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرسکتے ہیں۔

مسائل و احکام قربانی

جس طرح قربانی مرد پر واجب ہے اسی طرح عورت پر بھی واجب ہے۔مسافر پر قربانی واجب نہیں لیکن اگر نفل کے طور پر کرے تو کرسکتا ہے ثواب پائے گا۔قربانی کے دن گزر جانے کے بعد قربانی فوت ہوگئی۔ اب نہیں ہوسکتی۔ لہذا اگر کوئی جانور قربانی کے لئے خرید رکھا ہے تو اس کو صدقہ کرے ورنہ ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے۔اگر میت کی طرف سے قربانی کی تو اس کے گوشت کا بھی یہی حکم ہے۔ البتہ اگر میت نے کہا تھا کہ میری طرف سے قربانی کردینا تو اس صورت میں کل گوشت صدقہ کرے۔قربانی کرنے والا بقر عید کے دن سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھائے یہ مستحب ہے۔آج کل اکثر لوگ کھال دینی مدرسہ میں دیتے ہیں یہ جائز ہے۔ اگر مدرسہ میں دینے کی نیت سے کھال بیچ کر قیمت مدرسہ میں دے دیں تو یہ بھی جائز ہے۔قربانی کا گوشت یا کھال قصاب یا ذبح کرنے والے کو مزدوری میں نہیں دے سکتا۔قربانی کی اور قربانی کے جانور کے پیٹ میں زندہ بچہ ہو تو اسے بھی ذبح کردے اور کام میں لاسکتا ہے اور مرا ہوا ہو تو پھینک دے۔خصی جانور کی قربانی افضل ہے کیونکہ اس کا گوشت اچھا ہوتا ہے۔قربانی کا گوشت تول کر برابر برابر تقسیم کرنا چاہئے۔

(قانون شريعت، حضرت مولانا شمس الدین)

شب عید کی فضیلت

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے دونوں عیدوں کی راتوں کو ثواب کا یقین رکھتے ہوئے زندہ رکھا (یعنی عبادت میں مصروف رہا) اس کا دل اس دن نہ مرے گا، جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوں گے (یعنی قیامت کے دن خوف و گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا)‘‘

(الترغيب والترهيب)

نویں ذی الحج کا روزہ

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بقر عید کی نویں تاریخ کے روزے کے بارے میں فرمایا:

’’میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ وہ اس (روزہ) کی وجہ سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ کردے گا‘‘

(صحيح مسلم)

یوم عید کی سنتیں

صبح سویرے اٹھنامسواک کرناخوشبو لگاناغسل کرنانئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہنناسرمہ لگاناایک راستہ سے آنا اور دوسرے راستے سے جاناعید کے بعد مصافحہ کرناعید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیرات کہناعیدالاضحی کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا اور نماز کے بعد قربانی کا گوشت کھانا مستحب ہے ۔

تواضع:قرب الٰہی،عزت وعظمت اور بلندی کے حصول کا اہم ذریعہ.. ازقلم:(علامہ)سید نور اللہ شاہ بخاری..(مہتمم و شیخ الحدیث) دار العلوم انوار مصطفیٰ(سجادہ نشین :خانقاہ عالیہ بخاریہ)سہلاؤ شریف، باڑمیر (راجستھان)

تواضع کا مطلب عاجزی اور انکساری ہے، اپنی ذات اور حیثیت کو دوسروں سے کم درجہ سمجھتے ہوئے ان کی عزت اور تعظیم و تکریم کرنا اور اپنی ذات پر دوسرے کو ترجیح دینا تواضع و انکساری کہلاتا ہے،تواضع اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا وصف ہےکیوں کہ اللہ عاجز اور متواضع طبیعت والے لوگوں کو پسند فرماتا ہے-
تواضع اخلاقی لحاظ سے بھی بہت اچھی خوبی ہے اس لئے کہ جو آدمی اپنی حیثیت کو دوسرے سے کم سمجھے گا وہ ہمیشہ تکبر ،غرور، فخراور گھمنڈسے بچا رہے گا ،اور عاجزی کی وجہ سے اسے عظمت و عزت حاصل ہوگی۔

تواضع کے پیکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم:

حضور اکرم ﷺ دین و دنیا کے بادشاہ ہونے کے با وجود نہایت متواضع اور سادہ مزاج تھے،مجلس میں کبھی پیر پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے ،چھوٹا ہویا بڑا سلام کرنے میں پہل کرتے تھے ،غلاموں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے،بازار سے خود سودا خرید کر لاتے ،اپنے جانوروں کو خود چارہ ڈالتے ،اور گھر کے دوسرے کام بھی اپنے ہاتھ سے کرنے میں خوشی محسوس فرماتے، ایک مرتبہ دوران سفر حضورنبی کریم ﷺ کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا آپ خود درست کرنے لگے تو ایک صحابی نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ لا ئیے میں ٹانک دوں اس پر حضور ﷺ نے فرمایا: تشخص پسندی مجھے پسند نہیں چناں چہ خود ہی تِسمہ ٹانک دیا –
ایک مرتبہ حضورنبی رحمت ﷺ مسجدِ نبوی میں تشریف لے گیے دیکھا کہ کسی نے مسجد میں ناک صاف کی ہے تو آپ نے ایک کنکری لے کر خود اپنے مبارک ہاتھ سے کھروچ ڈالا ،پھر لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :مسجد خداکا گھر ہے اس میں غلاظت پھینکنے سے بچو-
یہ اور اس طرح کے بہت سے واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ حد درجہ تواضع و انکساری کے ساتھ زندگی گزار کر اور عاجزی و انکساری کے فضائل بیا ن فرماکر گویا اپنے امتیوں کو یہ درس دے دیا کہ وہ بھی عاجزی و انکساری کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔
آئیے تواضع و انکساری کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں!

تواضع بلندی کا ذریعہ:

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:کہ جس شخص نے اللہ کی خاطرتواضع و انکساری اختیار کی اللہ نے اس کو بلند کر دیا اور جس نے تکبر کیا اس کو اللہ نے پست (ذلیل و خوار)کردیا اور جس نے میانہ روی (درمیانی چال)اختیار کی اللہ نے اس کو غنی (مال دار)کر دیا اور جس نے فضول خرچی کی اللہ نے اس کو محتاج کردیا ،اور جس نے اللہ کا ذکر کیا اللہ نے اس کو اپنا محبوب بنا لیا ۔(رواہ احمد ،ابو یعلیٰ،بزار)۔

:تواضع کی بنیاد:

حضرت شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :کہ تواضع کی بنیاد یہ ہے کہ جس سے ملو اس سے پہلے سلام کرو ،اور جو تمہیں سلام کرے اس کا جواب دو،محفل میں کم درجہ کی نششت کو پسند کرو اور یہ نہ چاہو کہ کوئی تمہاری تعریف و توصیف کرے یا تم پر احسان کرے اور فرمایا:وہ شخص کیا ہی اچھا ہے جو اپنی کوتاہی یا برائی کے بغیر تواضع اختیار کرے اور محتاجی کے بغیر اپنے آپ کو عاجز سمجھے۔

تواضع کی توفیق:

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو اسلام کی ہدایت عطا فرماتا ہے تو اس کی صورت اچھی بناتا ہے اور اس کو ایسے مقام پر رکھتا ہے جو اس کے لیے نازیبا نہیں ہوتی اور سب چیزوں کے ساتھ اس کو تواضع (فروتنی و انکساری )کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے تو وہ شخص اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے ہوجاتا ہے (طبرانی)۔

تواضع و انکساری کا اجر:

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ میں اس شخص کی نماز قبول فرماتا ہوں جو میری عظمت کے سامنے انکساری کرتاہے ،میری مخلوق پر تکبر نہیں کرتا ،اور اس کا دل مجھ سے خوف زدہ رہتا ہے (احیاء العلوم )۔
اسی طرح ایک حدیث شریف ہے حضرت ابو سعید کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کے لیے ایک درجہ تواضع اختیار کرے گا اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور جو ایک درجہ تکبر کرے گا اللہ اس کو ایک درجہ گرائیگا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین (سب سے نچلے درجے )میں پہنچا دے گا (ابن ماجہ )۔

حضور نبی کریم کی شان ِتواضع:

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو بہت ہی اعلیٰ و ارفع (بلند)مقام پر فائز کیا اس کے با وجود حضور ﷺ میں غرورو تکبر کا شائبہ تک نہ تھا ،بلکہ حضور ﷺ اپنے قول و فعل ،رہن سہن ،اور معمولات زندگی میں ہمیشہ عجزو انکسار کا اظہار فرمایا کرتے تھےجیسا کہ حضر ت انس حضور کی شان تواضع کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ زمین پر بیٹھ جایا کرتے، اس پر کھانا تناول فرماتے، اگر کوئی غلام دعوت دیتا تو قبول فرماتے ،مریض کی عیادت کرتے ،جناز ہ میں شمولیت فرماتے،بکری کا دودھ دوہتے ،جب کوئی آدمی ملاقات کرتا تو سب سے پہلے آپ اسے سلام کرتے-
اور امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ جب گھر تشریف لاتے تو بیکار نہ بیٹھتے، اگر کوئی کپڑا پھٹا ہوتا تو اسے سیتے،اپنے جوتے کی مرمت فرماتے، کنواں سے ڈول نکالتے اور اس کی مرمت کرتے، اپنی بکری خود دوہتے ،اپنا ذاتی کام خود انجام دیتے ،کبھی کاشانۂ اقدس کی صفائی بھی فرماتے،اپنے اونٹ کے گھٹنے باندھتے ،اپنے اونٹ کو چارہ ڈالتے،خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ،بازار سے اپنا سودا اور ضروری سامان خود اٹھالاتے(ضیاء النبی ج/۵ص/۳۴۲،۳۴۶)۔
حضور یہ سارے کام خود اس لیے کرتے تاکہ اپنے صحابہ و امتیوں کو تواضع و انکساری کا طریقہ سکھائیں اور تکبر و غرور سے باز رہنے کی تلقین کریں ۔
اس لیے ہم سبھی مسلمانوں کو چاہیئے کہ حضور کی سنت پر عمل کرتے ہوئے تواضع و انکساری اختیار کریں اور ساری برائیوں خصوصاً تکبر و گھمنڈ ،جھوٹ و غیبت اور اس جیسی برائیوں سے خود بھی بچیں اور حتی الامکان لوگوں کو بھی بچانے کی کوشش کریں-

میں مدینے میں جو ہوتا یہ مسلسل ہوتا.. از ✒کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا سیتامڑھی9430555134

کئی مہینے بعد توفیق کی ارزانی

نذر احباب

بھیگ کر بارشِ انوَار میں جل تھل ہوتا
میں مدینے میں جو ہوتا یہ مسلسل ہوتا

شان میں عید و شبِ قدر سے افضل ہوتا
دن جو میلادِ پیمبر کا یہ منگل ہوتا

حسنِ سرکار نہ پھیکا کبھی پڑتا کہ مدام
آپ کے سر پہ کڑی دھوپ میں بادل ہوتا

ایسی گفتار کہ سیراب ہوں رندانِ وفا
وہ تبسم کہ عنایات کی چھاگل ہوتا

ہم بھی پڑھتے ہوۓ جاتے شہِ عالَم پہ درود
نام پر ان کے جو برپا کہیں مقتل ہوتا

اور محبوبِ نظر ہو یہ عروسِ رفتار
اس کے پاؤں میں ترے پیار کا پایل ہوتا

تاکہ پھر خلد میں دُہرَاؤں کرم سے ان کے
قصۂ زیست مدینے میں مکمل ہوتا

ایک بے رنگ شجر ہوں یہ تمنا ہے مری
ان کی رحمت مجھے چھو لیتی میں صندل ہوتا

گریہ سے گالوں پہ تصویرِ مدینہ ابھرے
کاش کچھ ایسا مری آنکھ کا کاجل ہوتا

قریۂ جان میں آباد مرا دل ہی نہیں
ان کی چوکھٹ پہ میں ہوتا تو یوں بے کل ہوتا

شاہیاں ہوتیں مرے در کی کنیزوں میں کلیم
بس یہ ہوتا، میں گداۓ درِ مرسل ہوتا

از ✒
کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا سیتامڑھی
9430555134

منظوم سوانح اعلیٰ حضرت محبوب گوہر کا عظیم کارنامہ….تبصرہ نگارمحمد کلیم احمد رضوی مصباحی پوکھریرا شریف

سانحہ اور حادثہ ہم معنی الفاظ ہیں مگر سوانح نگاری کو حوادث نگاری سمجھنا زبان سے نا آشنائی بلکہ بے خبری کا اشاریہ ہے، سوانح نگاری ایک بیانیہ فن ہے کسی عظیم المرتبت شخصیت کی حیات کے خدو خال کو روشن کرنا سوانح نگاری ہے ، کسی کی زندگی اور اس کی زندگی کے روشن واقعات پھر اس کی سیاسی سماجی ادبی شعری مذہبی اور ملی خدمات کو ترتیب اور تاریخ کی رعایت کے ساتھ اس طرح حیطۂ تحریر میں لانا کہ شخص و شخصیت کی تصویر ابھر آۓ اس کا باطن بھی اس کے ظاہر کی طرح آئنہ ہوجاۓ سوانح نگاری ہے کارلائل کے لفظوں میں افراد کی داستان حیات سوانح نگاری ہے اس سے ظاہر ہے کہ یہ فن پیکر تراشی اور مصوری کا فن ہے یہ تاریخ نویسی کا فن ہے اگر سوانح نگار قادر الکلام و ساحر البیان نہ ہو تو وہ گرد سے آٹے دبے کسی آئنے کو کبھی چمکا نہ سکے سوانح نگار کو آئنہ گر کہیں نہ کہیں مگر یہ بات تو تسلیم کرنا ہوگی کہ اس کے کام آئنہ گری کے ہیں _
سیرت سوانح عمری ہی کی ایک شکل ہے رسول خدا ﷺ اور ان کی روشن حیات کے جمیل تذکرے سیرت کہلاتے ہیں۔ سیرۃ النبی ﷺ کے عنوان پر کتابوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے کائنات میں صاحب رفعنا لک ذکرک کے سوا ایسا دوسرا کوئی فرد نہیں جس کی مکمل سوانح عمری ہر زمانے ہر ملک اور ہر زبان میں تسلسل کے ساتھ لکھی گئی ہو یہ اختصاص و شرف آپ کے حصے میں آیا کہ آپ کا تذکرہ ہر دور میں ہر زبان میں ہوا ، ہورہا ہے اور ان شاء اللہ ہوتا رہے گا، تذکرے کے ذکر پر یاد آیا کہ یہ تذکرہ بھی سوانح عمری کی ایک صورت ہے بس لطیف فرق یہ ہے کہ تذکرہ میں زندگی کا تذکرہ مجملاً مگر مراد و مقصود کی وضاحت کے ساتھ ہوتا ہے اور سوانح عمری میں زندگی کی تفصیل مکمل وضاحت کے ساتھ مذکور ہوتی ہے، گاہ گاہ اس فرق سے صرف نظر کرلیا جاتا ہے سیرۃ النعمان، سیرت امام احمد رضا اور تذکرۃ الرشید سوانح عمریاں ہںں، سیرت و تذکرہ کے علاوہ آپ بیتی، رپورتاژ، سفر نامے اور روداد یہ سب سوانح نگاری کی مختلف شکلیں ہیں اور اپنی علیحدہ خصوصیات کی بدولت باہم ایک دوسرے سے ممتاز و منفرد، اب یہ سب علیحدہ صنف ہیں یہ جملہ اصناف اردو ادب کے ماتھے کا جھومر ہیں، اردو ادب کی حسن آرائی میں ہر صنف کا اپنا ایک حصہ ہے _
شعرائے دکن نصرتی، رومی، ذوقی اور دیگر شعرا کی مثنویوں میں گاہ گاہ شخصیات کی سیرت و سوانح منظوم ہیں ہم ان کو چاہیں تو سوانح کے اولین نقوش سے تعبیر کرلیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو سوانح نگاری کو بہ طور فن مولانا الطاف حسین حالی نے متعارف کیا، حیات سعدی (سال اشاعت 1884) اردو کی با اصول سوانح نگاری کی پہلی اہم کتاب تصور کی جاتی ہے، یادگار غالب (1897) اور حیات جاوید (1901) نے سوانح نگاری کے اصول کو مزید انضباط بخشا ہے مولانا شبلی کی سوانح عمریاں المامون (1887)، سیرۃ النعمان (1890), الفاروق (1899) اور الغزالی (1902) اسی عہد کی یادگار ہیں یہ سوانح عمریاں اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں_
وسیع الالقاب امام احمد رضا خان برکاتی بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا بر صغیر ہند و پاک بلکہ عالم اسلام کی نابغۂ روزگار عبقری شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے آپ چودہویں صدی ہجری کے مجدد، نامور فقیہ، عظیم القدر محدث و اصولی معروف مفسر، بلند پایہ نعت گو شاعر اور بے مثال عاشق رسول کی حیثیت سے متعارف ہیں، جملہ مروجہ علوم و فنون میں ید طولی رکھتے ہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر سر ضیاء الدین نے علوم ریاضی میں امام احمد رضا سے استفادہ کیا ہزار سے زائد کتب کے مصنف ہیں آپ کی تصنیف فتاویٰ رضویہ فقہ حنفی کا انسائیکلوپیڈیا ہے قرآن مجید کا اردو ترجمہ کنزالایمان واقعتاً ایمان کا خزانہ ہے حدائق بخشش اردو ادب کا بیش بہا خزانہ اور آپ کی شگفتگیِ فکر کا خوبصورت اظہاریہ ہے آپ کی ذات و شخصیت، آپ کی دینی مذہبی خدمات اور آپ کی تحقیقات و تصنیفات ایک زمانے سے عصری جامعات میں موضوع تحقیق ہیں بر صغیر کی عصری جامعات میں جس قدر رضویات سے متعلق تحقیقی مقالے لکھے گئے اور اس کے نتیجے میں جس قدر ڈاکٹریٹ تفویض کی گئی اس کی مثال کہیں اور نظر نہیں آتی_
ملک العلما علامہ ظفر الدین بہاری رحمہ اللہ امام احمد رضا سے از حد قریب تھے آپ امام احمد رضا کے تلمیذ رشید بھی ہیں مرید وفا شعار بھی اور خلیفۂ اجل بھی ، امام احمد رضا نے آپ کو ولد اعز کہا عزیز از جان کہا یوں وہ اہل بیت رضا سے نہ ہو کر بھی اہل بیت رضا سے تھے آپ نے چار ضخیم جلدوں میں امام احمد رضا کی سوانح عمری لکھی اس کا تاریخی نام مظہر المناقب (1369) تجویز کیا یہ مبارک کتاب علمی حلقوں میں حیات اعلی حضرت سے معروف ہے مولانا حالی کی سوانح عمریوں نے سوانح نگاری کے لیے جو اصول وضع کیے جو ضوابط مرتب کیے بحمداللہ حیات اعلی حضرت کی ترتیب و تدوین میں ان اصول و ضوابط کی رعایت کے جلوے جگمگ جگمگ ہیں_ علامہ ظفر الدین کی حیات اعلی حضرت کے ساتھ علامہ بدر الدین کی سوانح اعلی حضرت تفہیم رضویات کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں نو واردان رہِ تحقیق کے لیے یہی کتابیں مآخذ و مراجع ہیں تب سے اب تک رضویات سے متعلق جس قدر تحقیقی مقالے لکھے گئے ان کا اہم حوالہ یہی کتابیں رہیں_ مولانا محبوب گوہر اسلام پوری جہان شعریات میں اب کسی کے لیے محتاج تعارف نہیں ہیں خوش مزاج نقیب خوش خیال شاعر اور خوش اطوار شخص کے طور پر وہ بہت دور تک متعارف ہیں ان کی شخصیت جیسی پرکشش ہے ویسے ہی ان کی شاعری پرکشش ہے ہم نے بہت سے زود گو شاعر دیکھے ہیں مگر محبوب گوہر کا کمال یہ ہے کہ زود گوئی کے با وصف ان کے یہاں سخن کا معیار گرتا بھی نہیں اور گھٹتا بھی نہیں مقدار کا شاعر بسا اوقات قدر کا لحاظ نہیں رکھ پاتا محبوب گوہر کے یہاں مقدار کے باوجود قدر کے جلوے ہیں تخییل کی ایسی خوش آئند کہکشاں آرائی ہے کہ حسن شعریات سے آئنۂ سخن مجموعۂ حیرت نظر آۓ
تضمین گوہر اور ثنائے سرکار ہے وظیفہ کی اشاعت و مقبولیت کے بعد اب ان کا ایک اور نیا شاہکار منظوم سوانح اعلی حضرت منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوا ہے اس کی ہر سطر یعنی ہر مصرع نیا آب نئی تاب کا مظہر ہے سوانح نگار کے خامۂ زر نگار نے ادب کی زمین پر عقیدت و محبت کی روشنائی سے رضویاتی فکر کی وہ فصل اگائی ہے کہ بس دیکھا کیجیے سراہا کیجیے- مغربی مفکر ایمرسن نے کہا تھا کہ جب کوئی عظیم انسان عظیم تر انسان کی زندگی کی تشریح کرتا ہے تو سوانح عمری وجود میں آتی ہے اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی جو یہ منظوم سوانح عمری وجود میں آئی ہے اس کی وجہ سے اب محبوب گوہر ہمیشہ زندہ رہیں گے اس عظیم کارنامے نے ان کو ایسا عظیم کردیا کہ اب جب کبھی رضویات کے تعلق سے کوئی بات کہی جاۓ گی تو علامہ ظفر الدین بہاری، علامہ بدر الدین، علامہ شمس بریلوی اور پروفیسر مسعود رحمہم اللہ تعالیٰ جیسی عظیم القدر شخصیات کے ساتھ محبوب گوہر کا تذکرہ بھی عزت و احترام کے ساتھ ہوگا _ سوانح نگار گرد سے اٹے دبے شیشے کو چمکاتا ہے وہ غیر متعارف شخص کا تعارف بن جاتا ہے اس کی عظمتیں روشن کرتا ہے داغ عظیم شاعر تھے ان کے روبرو غالب کا چراغ مدھم تھا یہ یادگار غالب تھی جس نے غالب کی عظمتوں سے عالم کو روشناس کیا حالی نے سمجھایا کہ داغ اگر عظیم ہیں تو غالب عظیم تر ہیں مگر یاد رہے کہ یہ کلیہ کلی نہیں ہے ابن ہشام، ابن خلدون اور ابن اسحاق ذرے سے آفتاب ہوگئے سیرت پر ان کی خدمات نے انہیں پائدار زندگی بخش دی الغزالی لکھ کر شبلی نے امام غزالی کو روشن نہیں کیا بلکہ وہ خود روشن ہوگئے سیرۃ النعمان نے نعمان کو نہیں چمکایا شبلی نعمانی کو سیرۃ النعمان نے چمکا دیا البتہ یہ حقیقت بھی ناقابل فراموش ہے کہ آج بھی اگر ہم سیرت کے حوالے سے خلجان میں مبتلا ہوں تو اطمینان بخش روشنی انہی بزرگوں کی کتب سیر سے ملتی ہے، امام غزالی اور امام اعظم کے حوالے سے الغزالی اور سیرۃ النعمان کا حوالہ ہمیں ایمان افروز روشنی عطا کرتا ہے، اعلی حضرت علیہ الرحمہ چودہویں صدی ہجری میں افق علوم و فنون پر آفتاب کی طرح روشن تھے انہیں مدینے والے نے چمکایا تھا انہوں نے اپنے انوار علم سے عالم کو روشن کیا پھر رضویات پر جنہوں نے کام کیا وہ بھی روشن ہوگئے ذرے سے ماہتاب ہوگئے مولانا محبوب گوہر سے جو آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ محبوب گوہر بہ ہزار جلالت انتہائی متواضع و منکسر ہیں انہوں نے یقیناً ایک بڑا کام کیا ہے مگر وہ جانتے ہیں کہ یہ بڑا کام بھی بڑے حضرت کا فیضان ہے ان کی منظوم سوانح سے اعلی حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی متنوع الجہات شخصیت کے مختلف گوشے ہم سے ناواقفوں کے لیے روشن ہوۓ یہ عظیم کارنامہ محبوب گوہر کے قلم سے وجود پذیر ہوا اور اب ان شاء اللہ اس عظیم کارنامے کی بدولت محبوب گوہر بھی ہمیشہ چمکتے دمکتے رہیں گے_ سوانح نگار کے لیے کئی طرح کی مشکلیں ہوتی ہیں عقیدت چاہتی ہے کہ ذروں کو آفتاب بنا کر پیش کیا جائے خامۂ حقیقت نگار چاہتا ہے کہ زہر کو زہر کہا جائے اور قند کو قند یہ راہ صداقتوں کی راہ ہے اس راہ کا راہی اگر اولو العزم نہ ہو تو ہمت ہار جاۓ پھر یہ کہ جب مسافر اس سنگلاخ وادی کو طے کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے تو وہ اس کشمکش میں رہتا ہے کہ ہر طرف کھلے ہوۓ خوش رنگ پھولوں میں سے وہ کس کا انتخاب کرے اور کس کو چھوڑ دے، مولانا محبوب گوہر نے منظوم سوانح اعلی حضرت کی تصنیف سے قبل کئی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوگا عنوان کی وسعتوں کو دیکھیں مضامین کے بے کراں پھیلاؤ کو دیکھیں تب آپ کو محبوب گوہر کا کمال سمجھ میں آۓ گا اور تب آپ کی زبان بے ساختہ کہے گی کہ کوزے میں سمندر ہم نے محاورتاً سنا تھا دیکھا نہیں تھا منظوم سوانح اعلی حضرت کی صورت میں ہم نے کوزے میں ایک بے کراں سمندر دیکھا ہے منتخب واقعات نے کتاب کی قدر و قیمت بڑھا دی ہے حسن زبان نے شراب ذوق کو دو آتشہ کردیا ہے_

             منظوم سوانح اعلی حضرت مولانا محبوب گوہر کی شائستگیِ زبان، شگفتگیِ فکر  کے ساتھ ان کی قدرت کلامی کا خوبصورت اعلانیہ ہے ہر شعر ان کی کہنہ مشقی پر دلیل ہے  یہ غزل نہیں ہے کہ مضمون کھوج کر لائیں پھر اسے تخییل کا جمال بخشیں یہ سوانح نگاری ہے یہاں مضمون پہلے سے موجود ہے ایسے میں اسے حسن شعری اور جوہر ادبی سے آراستہ کرنا یقیناً فن کاری ہے  لسانی نفاست ، فکری طہارت ، اظہاریے کی فصاحت اور ابلاغ کی بلاغت نے منظوم سوانح اعلیٰ حضرت کو ادب کا شاہکار بنا دیا ہے__ راقم چھوٹا موٹا شاعر بھی ہے اور کچھ حد تک شعری نزاکتوں سے آگاہ بھی، یہاں ایسے اشعار بھی ہیں جن میں کسی کی ولادت یا وصال کی تاریخ بیان کی گئی اور بحمداللہ ایسے کسی شعر میں سلاست و روانی متاثر نظر نہیں آئی بہ حیثیت شاعر میں جانتا ہوں کہ یہاں سوانح نگار کو کیسی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا مگر محبوب گوہر کی قدرت کلامی کو سلام کہ وہ اس پر خار وادی سے بھی سلامتی کے ساتھ گزر گئے  ہم بطور نمونہ ایسے چند اشعار پیش کرتے ہیں__

اعلی حضرت کی ولادت_
ہجری بارہ سو بہتر دن تھا دس شوال کا
چودہ جون اٹھارہ سو چھپن تھا شمسی سال کا

بیعت کی تاریخ_
بارہ سو چورانوے ہجری کا ہے یہ واقعہ
دیکھیے کیسے درِ مرشد پہ پہنچے ہیں رضا

بارہ سو چورانوے ہجری میں مارہرہ گئے
اور بیعت کا شرف آل نبی سے پاگئے

اعلیٰ حضرت کا وصال_ تیرہ سو چالیس ہجری تھی صفر کا ماہ تھا دار فانی سے ہوۓ جب راہی ملک بقا استاد زمن کی پیدائش_
عیسوی اٹھارہ سو انسٹھ میں تھے پیدا ہوۓ
گلشنِ علم و ادب میں خوب تر پھولے پھلے

حجۃ الاسلام کی پیدائش_
ہے اٹھارہ سو پچھتر ان کی پیدائش کا سال
عہد طفلی سے ہی تھے یہ خوش خصال و خوش خیال

حجۃ الاسلام کا وصال__
عمر اڑسٹھ سال کی تھی جب ہوا ان کا وصال
تیرہ سو باسٹھ ہے ہجری ان کا سال انتقال

مفتی اعظم ہند کی پیدائش__
ان کی ہجری تیرہ سو دس میں ولادت تھی ہوئی
آمد والا سے سارے شہر میں آئی خوشی

مفتی اعظم کا وصال_
اپنے علم و فضل سے کرکے جہاں کو مالا مال
چودہ سو دو ہجری میں حضرت نے فرمایا وصال

    منظوم سوانح اعلیٰ حضرت  پچیس سو سے زیادہ اشعار پر مشتمل ہے  تاریخیات کے باب میں اشعار کی روانی کا جب یہ عالم ہے تو دیگر اشعار کی سلاست، روانی اور برجستگی کا عالم کیا ہوگا ہم نے ابھی کچھ دیر پہلے کہا تھا کہ یہاں مضمون متعین ہے اس کے باوصف حسن شعری کمال کا ہے یہ دعویٰ فقط دعویٰ نہ رہے اس لیے ہم چند اشعار کا انتخاب کیا ہے آپ بھی ان اشعار کو دیکھیں پڑھیں اور حظ اٹھائیں__

ہے سراپاۓ نبی کا تذکرہ اس طور پر
جیسے ہوں قرطاس پر تفسیر کے پھیلے گہر

ہے چمکتے موتیوں جیسے تمام الفاظِ نعت
دعوت نظارہ دیتی ہے سخن کی کائنات

چاشنی ہے نغمگی ہے کیف ہے تاثیر ہے
شعر کیا ہے آیت قرآن کی تفسیر ہے

انتہائی علمی نکتہ آفرینی کے سبب
صفحۂ قرطاس پر بکھری ہوئی تھی تاب و تب

شعر میں برجستگی ہے صاف ستھری ہے زباں
آبشاروں کے شکم سے جیسے موجیں ہوں رواں

عظمت فکر و تخیل کا امیں کہیے انہیں
خانقاہ نعت کا گدی نشیں کہیے انہیں

اس شعر کو پڑھتے ہی معا مجھے اپنا ایک شعر یاد آیا اور فکری توارد نے خوشگوار حیرت سے ہمکنار کیا وہ شعر یوں ہے

شہرت ناعت چلی ہے دعوت بیعت لیے
خانقاہ فکر کے گدی نشینوں کی طرف

مضمون کے پھیل جانے کا اندیشہ لاحق ہے ورنہ اس طرح کے متعدد اشعار ہیں جن سے مولانا محبوب گوہر کی تازہ کاریاں واضح ہیں منظوم سوانح اعلی حضرت کسی مقتدر سیمینار کا عنوان ہونا چاہیے اہل علم و فضل و کمال یکجا ہوں اور یہ کتاب موضوع بحث ہو اس کتاب کے مختلف ایسے ادبی پہلو ہیں جو آشکار ہونا چاہتے ہیں اس کے لیے سیمینار سے بہتر پلیٹ فارم اور کیا ہوسکتا ہے

ہم نے اسی مضمون میں بہت پہلے کہا تھا کہ علامہ ظفر الدین کی مصنفہ سوانح عمری حیات اعلیٰ حضرت میں ان اصول و ضوابط کی پاسداری نظر آتی ہے جو سوانح نگاری کا لازمہ ہیں، ہم نے یہ بات ایک خاص مقصد کے تحت کہی تھی ان اصول و ضوابط کی رعایت کی وجہ سے اگر حالی کی سوانح عمریاں ادب ہیں تو حیات اعلی حضرت کی ادبیت سے انکار کی صورت کہاں باقی رہی ، حیات اعلی حضرت کی زبان بھی بحمداللہ صاف ستھری، شگفتہ اور انتہائی پاکیزہ ہے، ایجاز ہے تو مراد میں مخل نہیں اطناب ہے تو اکتاہٹ کا باعث نہیں لہجہ ایسا جیسے سلسبیل رواں ہو ادب کی ادبیت کے لیے جس قدر جواہر مطلوب ، یہاں بدرجۂ اتم موجود ، ان کے جوت کی جل تھل سے ہر سطر بسا ہوا ، مستزاد یہ کہ ہر سطر غلبۂ محبت کے باوجود صداقت کا امین ، اصل میں ایک ٹرینڈ چل چکا ہے کہ کتاب اور صاحب کتاب اگر ہمارے مسلک کا ہمنوا نہیں تو وہ لائقِ اعتنا نہیں برا ہو ایسی مسلکی عصبیت کا کہ تقویۃ الایمان جیسی پھوہڑ کتاب کو ادب کا اعلی نمونہ کہا جاۓ اور حدائق بخشش کے محاسن شعری و جواہر ادبی سے آنکھیں موند لی جائیں ہمیں خدشہ لاحق ہے کہ منظوم سوانح اعلی حضرت کے ساتھ ادب کے اجارہ داروں کا رویہ بھی بے نظری و بے اعتنائی کا نہ رہے_ ایک کمی اپنی طرف سے بھی رہ جاتی ہے کہ ہماری کتابیں ہمارے حلقوں تک پہونچ پاتی ہیں بلکہ ہم خود دوسروں تک پہنچانا نہیں چاہتے کاش ہماری کتابیں دیگر کتب خانوں تک بھی پہونچ سکیں مگر صاحبِ منظوم سوانح اعلیٰ حضرت کو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے آج بھی اعلی حضرت کے چاہنے والے کم نہیں ہیں اعلی حضرت کے فدائیوں کے درمیان یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی یہ پہلا ایڈیشن ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ کتاب اس قدر مقبول ہوگی کہ اس کے مزید کئی ایڈیشن شائع ہوں گے سب سے بڑی بات ان اللہ لا یضیع اجر المحسنین اجر ثابت ہوچکا ان شاء اللہ یہ کتاب حضرت گوہر کے لیے توشۂ آخرت ہوگی__

       حضرت محبوب گوہر کو اللہ تعالیٰ صحت و عافیت کے ساتھ عمر خضر عطا فرمائے ایک بڑا کام ہوا اب احباب سوچتے ہوں گے کہ اس سے بڑا کیا کام ہوسکتا ہے  مگر زندگی ہے تو کام بھی ہے یہ سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں حضرت گوہر صاحب قلم ہیں  اور ان کے قلم کو اللہ تعالیٰ نے زور کلامی عطا فرمایا ہے اب اس کے بعد اگر سیرت پر ان کا قلم چل نکلے تو کم از کم ہمارے لیے باعث حیرت نہیں ہوگا اللہ تعالی مزید توفیق ارزانی فرماۓ

تبصرہ نگار
محمد کلیم احمد رضوی مصباحی
پوکھریرا شریف

تراویح کے دوران دو جہگوں پر حملہ.. تحریر:جمال اختر صدف گونڈوی

تراویح کی نماز گھروں میں قائم کرنے والے حضرات کیا علمائے کرام سے مشورہ کئے تھے؟

مذہب اسلام میں مشورے کو خاص اہمیت حاصل ہے،
غیب دان پیغمبر خود کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کرتے تھے،
دنیا کے تمام مسلمانوں کا اس بات سے کلی طور پر اتفاق ہے کہ اللہ کے بعد سب سے زیادہ بزرگ و برتر اگر کوئی ذات ہے تو وہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے
اس کے بعد بھی مشورہ اپنے چھوٹوں کے ساتھ یقیناً یہ تعلیم امت کے لئے تھا،
مگر مسلمانوں کی اکثریت علماء سے بیزاری کا ثبوت دے رہی ہے،
بلکہ اب تو دینی معاملات میں بھی خود فیصلے کرنے لگی ہے،
حالیہ دنوں میں مرادآباد ہلدوانی میں جس طرح گھروں میں تراویح کو لےکر ہنگامہ ہوا اور مسلمانوں پر یکطرفہ پولیسیہ کارروائی ہوئی جو کہ بہت افسوسناک ہے،
اسلام میں مصلحت و دور اندیشی کا بڑا دخل ہے،
یہ مصلحت ہی کا نتیجہ تھا کہ کفار کے حملے کا جب خطرہ بڑھ جاتا تو صحابہ چھپ چھپ کر نماز پڑھتے تھے

دعوتِ حق کا آغاز:
مدینہ تاریخ اسلام کا عظیم ورق ہے۔ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کے چھوٹے بھائی عمیر بھی اپنے بھائی کے ساتھ چھوٹی عمر میں ہی ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ ہجرت کے وقت ان کی عمر بمشکل چودہ پندرہ سال تھی۔ الاستیعاب کے مطابق جنگ بدر میں شرکت کا شوق تھا، مگر آنحضورﷺنے منع فرمایا کہ تم بہت چھوٹے ہو۔ جب حضرت سعد نے ان کے جذبۂ جہاد کو دیکھا تو حضورﷺسے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! میرے بھائی کو جہاد پر جانے کی اجازت دے دیجیے۔ چنانچہ بدر کے میدان میں شریک ہوئے اور دشمن سے خوب لڑے۔ سولہ سال کی عمر میں شہادت پالی۔ انھیں قریش کے طاقت ور ترین جنگ جو عمرو بن عبدِودّ نے شہید کیا تھا۔
نبی اکرم ﷺنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علہیم اجمعین کو نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا تو آغاز میں کافروں کی اذیت کے خوف سے مسلمان نمازیں چھپ چھپ کر پڑھتے تھے۔ پہاڑوں کی گھاٹیوں میں جا کر نماز پڑھنا بھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علہیم اجمعین کا معمول تھا۔ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہاڑ کی ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے، کچھ مشرکین مکہ وہاں آنکلے انھوں نے مسلمانوں اور ان کے دین کو گالیاں دینا شروع کردی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بری طرح مذاق اڑایا۔ جب حضرت سعد نماز سے فارغ ہوئے تو ان کافروں کو للکارا۔ اس وقت ان کے ہاتھ میں مرے ہوئے اونٹ کے شانے کی ایک بڑی ہڈی تھی۔ انھوں نے جب ان کافروں پر حملہ کیا تو یہ وہاں سے کھسک گئے تاہم عبداللہ بن خطل لعنتی کے سر پہ انھوں نے ضرب لگائی تو وہ زخمی ہوگیا، مگر ان لوگوں میں ہمت نہیں ہوئی کہ واپس پلٹ کر سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقابلہ کریں۔ یہ تاریخ اسلام میں کفار کا پہلا خون تھا جو کسی مسلمان کے ہاتھ سے بہایا گیا تھا۔ ۔ جب حضور نبی کریم ﷺکو اس واقعہ کا پتا چلا تو آپ ﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا کہ اے سعد! اللہ نے ہمیں ہاتھ روکے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ پس آیندہ ہاتھ نہ اٹھانا۔
عوام کو چاہئے کہ وہ کوئ بھی کام جو دین سے منصوب ہو اجتماعی طور پر کرنے سے پہلے علماء سے مشورہ ضرور کر لیں،
یہ من مانی اور جلد تراویح ختم کرنے کا نتیجہ تھا کہ دو دو بڑے حادثے پیش آئے ہیں،
اس وقت ہمارا مخالف ہماری غلطیوں کا شدت سے انتظار کر رہا ہے ، ہمارے عمل کے بعد ان کا رد عمل بہت بھیانک اور تخریب کارانہ ہوتا ہے،
پھر ہم چلا چلا کر کہتے ہیں ہم پر ظلم ہوا ہے ہمیں انصاف چاہئے،
جو قوم اپنے اسلاف کی سیرت بھلا دیتی وہ ایسے ہی خسارے و بربادی کا شکار ہو جاتی ہے،
تیس دن کی تراویح کو کم کرنے اور جلد چھٹکارا پانے کے لئے جس طرح پانچ دن دس دن کی تراویح کا انتظام کارخانوں میں، گراؤنڈ میں،حال میں، اور گھروں میں کیا جانے لگا ہے اس سے علماء متفق نہیں ہیں،
جمعہ کی نماز چاہے جتنی بھیڑ کے ساتھ آپ مسجد میں پڑھیں کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن تراویح کو لےکر سیاسی اعتراض کسی بڑے خطرے کا دستک دے رہی ہے،
یہ تو بس شروعات ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا،
اگر اب بھی ہم ہوش کے ناخن نہیں لیں گے تو ملک بھر میں بڑے جانی مالی نقصان کے لئے ہمیں تیار رہنا ہوگا،
بہار میں مدرسے کو جلا دیا گیا وہاں سیکولر حکومت ہے لیکن سب خاموش ہیں،
کیونکہ انہیں صرف آپکے ووٹ سے مطلب ہے نہ کی آپکی حفاظت سے،
دوسری طرف ہماری قیادتیں بھی کچھ کم نہیں ہیں،
مذہبی قیادت تو کہیں نظر نہیں آ رہی ہے سیاسی قیادت ایسے ہاتھوں میں ہے جہاں صرف دنیا داری ہے دین داری کا کوئی تصور نہیں،
عوام نے علماء کو بہت پہلے سیاست سے الگ کر دیا ہے اور صاف کہ دیا ہے کہ علما امامت کریں مدرسے میں بچوں کو پڑھائیں اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں،
سیاست وہ لوگ کر رہے ہیں جنہیں اسلام کی سیاست کا کچھ پتہ تک نہیں،
اسلام کے دو بازو ہیں ایک کا نام مذہب ہے دوسرے بازو کا نام سیاست ہے،
ایک بازو پر علما کام کر رہے ہیں لیکن دوسرے بازو کو نا اہلوں نے اپاہج بنا دیا ہے،
ایسے میں تمام خانقاہوں کو چاہئے کہ سب سے پہلے وہ خود متحد ہوں اس کے بعد بنام مسلمان تمام فرقوں کے ساتھ ملت کی تحفظ کے لئے اتحاد کریں
اسکے بعد عوامی سطح پر اتحاد پر کام شروع کیا جائے ،
اگر یہ کام کرنے میں ہم کامیاب ہو گئے تو یقیناً مذہب و سیاست دونوں میں ہم مضبوط ہوں گے،
دعوت کے طریقوں میں ہمیں نرمی برتنی ہوگی اور سماجی طور پر اسلام کی خوبصورتی کو عملی طور پر پیش کرنا ہوگا،
قوم کے اہل ثروت حضرات کو کچھ عصری ادارے بنانے چاہییے جہاں قوم کے بچے تعلیم حاصل کرکے اعلی عہدوں پر فائز ہو سکیں،
ایک جائزے کے مطابق پچاسی فیصد مسلمان صرف مالی بحران کی وجہ کے اعلی تعلیم نہیں حاصل کر پا رہے ہیں اور وہ بیچ میں تعلیم روک کر مزدوری کرنے لگتے ہیں،
جب تک تعلیم کو فروغ نہیں دیا جائے گا لوگ اپنے حقوق اور دین کو نہیں سمجھ پائیں گے،
اسلام میں علم کی بڑی اہمت ہے چنانچہ علم حاصل کرنے کے لئے چین جانا پڑے تو وہاں بھی جاؤ،
آج ہمارے بچے گھروں سے نکل کر مسجد و مدرسے تک جانے کے لئے تیار نہیں ہیں،
کچھ مغربی مزاج مسلمان اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں تعلیم دلا رہے ہیں تو انہیں بچوں کو دینی تعلیم سے دور بھی کر رہے ہیں
کیونکہ ان بچوں پر اسکول کی طرف سے اتنا زیادہ کام دے دیا جاتا ہے کہ انہیں دوسرے کاموں کی فرصت ہی نہیں مل پاتی،
اگر ہمارے پاس اس طرح ادارے ہوں جہاں ہندی ،انگریزی ، عربی، وغیرہ سب ایک ساتھ پڑھائ جائے تو بچوں کے لئے بہت آسانی ہو جائے گی،
سوشل میڈیا پر مسلم نوجوانوں کو بہت سوچ سمجھ کر لکھنا چاہئیے کیونکہ انکی ایک پوسٹ نہ جانے کتنوں کے لئے نفرت کا سبب بنتی ہے اور اسی پوسٹ کو دکھاکر جاہل بے روزگار لڑکوں کو جنونی بناکر ہمارا مخالف ہمارے گھروں پہ مسجدوں مدرسے پہ حملہ کروا سکتا ہے،
نوجوانوں کو صرف دینی پوسٹ ہی کرنی چاہیے اور اپنے منصوبے سفر کی تفصیلات کب کہاں آنا جانا ہے یہ سب بالکل پوسٹ نہیں کرنی چاہئے
مذہبی معاملات کو سوشل میڈیا پر ہرگز بحث کا حصہ نہ بنائیں
نہ سمجھوگے تو مِٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانوں
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

عالم اسلام سفر حج سے متعلق سعودی حکومت کےمن مانے فیصلوں سے پریشان و مضطرب: مفتی محمد سلیم مصباحی بریلوی

پریس ریلیز
درگاہ ترجمان
۱۸۔۲۔۲۳

درگاہ اعلیحضرت کے ترجمان ناصر قریشی نے بتایا کہ سعودی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے نئے قوانین جن میں والدین کے ذریعہ 12 سال سے کم عمر کے بچوں کو سفر حج کے لئے ساتھ میں لے جانے پر نئی پابندی عائد کی گئی ہے اور حالیہ برسوں میں سعودی حکومت نے حاجیوں پر طرح طرح کے ٹیکس لگا کر حج کو جو بہت زیادہ مہنگا کر دیا ہے اس پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے مرکز اہلسنت خانقاہ رضویہ درگاہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف کے مفتی محمد سلیم بریلوی نے کہا کہ حج دین اسلام کے پانچ بنیادی ارکان و فرائض میں سے ایک رکن اور فرض ہے جودین اسلام کیاہم اور بنیادی عبادات میں آتا ہے۔ یہ ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو حج کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔ ایک مسلمان اللہ کے گھر اور اس کے رسول اور اپنے آقا سے منسوب مقامات کی زیارت، ان کی یادگاروں اور ان کے آثار و تبرکات کی زیارت اور ان کی آخری آرام گاہ روضہ رسول گنبد خضری کو دیکھنا اپنی زندگی کا سب سے قیمتی مقصد سمجھتا ہے۔ مسلمانوں کے ان مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے دنیا کا ہر ملک اپنے شہریوں کے حج کے لیے خصوصی سہولیات فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کی حکومت کا فرض ہے کہ وہ دنیا بھر کی مسلم کمیونٹی کے لیے اپنے مذہبی فریضے کی ادائیگی میں آسانی پیدا کرے اور اس کے لیے آسان قوانین بنائے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب کی نجدی اور وہابی حکومت حج کے ایسے قوانین لاتی ہے اور ہر سال ایسے نئے ٹیکس لگاتی ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے لئے اپنے اس اہم مذہبی فریضہ کی ادائیگی مہنگی ہو رہی ہے۔ اگر ہم اب کی بات کریں تو سعودی حکومت نے ایک اور من مانا فیصلہ جاری کر کے پوری دنیا کے مسلمانوں کے سامنے ایک پیچیدہ مسئلہ کھڑا کر دیا ہے کہ والدین اپنے 12 سال سے کم عمر کے بچے کو اپنے ساتھ حج پر نہیں لے جا سکتے۔ اس ظالمانہ قانون کی وجہ سے وہ مسلمان کہ جن پر شرعا حج فرض ہو چکا ہے، جن کے بچوں کی عمریں 12 سال سے کم ہیں اور وہ ان کم سن بچوں کو اتنی لمبی مدت تک تنہا اور اکیلا نہیں چھوڑ سکتے تو وہ لوگ حج جیسے فریضہ کی ادائیگی سے محروم ہو جائیں گے۔
چونکہ حج کرنے کے قابل ہونے کی وجہ سے ان پر حج فرض ہو گیا ہے اور وہ اپنے 12 سال کے بچے کو 45 دن کی اتنی طویل مدت تک کسی کے پاس نہیں چھوڑ سکتے اور ادھر سعودی حکومت نے پابندی عائد کردی تو اب ایسے بہت سے لوگوں کے سامنے ایک نہایت پیچیدہ اور دشوار کن مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔سعودی حکومت کو یہ من مانا فیصلہ مسلط کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا اور عالم اسلام سے مشورہ کرنا چاہیے تھا کہ ایسے بچوں والے لوگ حج کیسے کریں گے؟ یہ ان پر بہت بڑا ظلم ہوگا اور انہیں زبردستی اور جان بوجھ کر فریضہ حج سے روکنا ہوگا جس کی مذمت قرآن نے پہلے پارہ کی سورۂ بقرہ کی ایک آیت میں یہ کہہ کر کی ہے جس کا مفہوم ہےکہ ’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں (کعبہ شریف، حرم شریف وغیرہ) کو روکےان میں نام خدا لئے جانے سے۔”
حکومت ہند سے اپیل کرتے ہوئے مفتی محمد سلیم بریلوی صاحب نے کہا کہ حکومت سے اپیل ہے کہ وہ اپنی سطح سے سعودی حکومت کو ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کرائےاور 12 سال سے کم عمر کے بچوں پر عائد پابندی پر نظر ثانی کرکے اسے ہٹانے کی کوشش کرے اور یہ دباؤ ڈالے کہ سعودی حکومت حج کو سستا بنائے۔

Republic Day……Written by: Sayed khadime Rasul Aini

Oh my friend and mate, today is republic day ,
Let us celebrate, today is republic day

Let us gather and sing in praise of our nation ,
Let’s deliberate, today is republic day

Let us strive hard for achieving our aims and goals
And accelerate, today is republic day

Let us respect democratic views sincerely,
Let us tolerate ,today is republic day

Let us uphold unity in diversity
And not separate, today is republic day

The ideas how our great nation will progress
Let us generate, today is republic day

To find out the mystery of life , every corner
Let us penetrate, today is republic day

To help our fellow citizens in our country
Let us elevate ,today is republic day

Our sacred constitution came into effect ,
Let us decorate ,today is republic day

Let us pay homage to the martyrs of nation
And commemorate ,today is republic day

Motto of life should be to respect each other
And not denigrate, today is republic day

Aini let’s unfurl our flag and for our nation
Let us supplicate, today is republic day
۔۔۔۔……………………………………………
Written by: Sayed khadime Rasul Aini

خانقاہ برکاتیہ میں یومِ جمہوریہ نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا… از قلم:::– محمد مجتدیٰ رضا خان احسنی متعلم::- جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف26 جنوری 2023 عیسوی

     *سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا*
     *ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا*

یومِ جمہوریہ ایک قومی و ملّی دن ہے جسے ملک بھر میں، ہر صوبہ، تمام ضلعے اور تمام اسکول و کالج حتی کہ مدارس اسلامیہ میں بھی یہ تقریبات بہت محبت و لگن سے مناںٔی جاتی ہے۔
اس دن کی اہمیت یہ ہے کہ حکومت ہند ایکٹ جو 1935ء سے نافذ تھا، منسوخ ہوکر باضابطہ دستور ہند کا نفاذ عمل میں آیا، 24 جنوری 1950ء کو ایک مختصر اجلاس میں تمام ارکان نںٔے دستور پر دستخط کیے اور 26 جنوری 1950ء کو اس نںٔے قانون کو لاگو کرکے پہلا یومِ جمہوریہ منایا گیا، اب ہر سال تمام باشندگان ہند 26 جنوری کو یومِ جمہوریہ کے طور پر پورے جوش و خروش اور دھوم دھام کے ساتھ مناتے ہیں ۔
قارئین کرام! آج خانقاہ برکاتیہ کے تحت چلنے والا ادارہ جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف کے وسیع وعریض گراؤنڈ میں ابا حضور حضور رفیق ملت دام ظلہ العالی کی سرپرستی اور حضرت علامہ مولانا عرفان ازہری صاحب قبلہ پرنسپل جامعہ ہٰذا کی صدارت میں یومِ جمہوریہ نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا۔
اخیر میں ابا حضور حضور رفیق ملت دام ظلہ العالی نے یومِ جمہوریہ کی مناسبت سے کچھ دیر تقریر فرمائی اور اپنے ملفوظات سے تمام حاضرین مجلس کے قلوب کو منور و مجلیٰ فرمایا۔ حضرت نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ “بزرگوں کا قول ہے کہ ملک کی محبت ایمان کا حصہ ہوتی ہے” اپنے ملک سے محبت کیجیے۔ ساتھی ہی ساتھ حضرت نے یہ بھی فرمایا کہ ہندوستان ہمارا ملک ہے اللّٰه تعالیٰ کا کرم ہے ہم نے اپنے آباؤاجداد سے وہ سبق لیا ہے کہ اگر ہمارے ملک کی طرف کوئی آنکھ اٹھاکر دیکھے تو ہم اس کی آنکھ نکالنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ ہم جب تک زندہ رہتے ہیں اس ملک میں رہتے ہیں اور جب دنیا سے چلے جاتے ہیں تو اس ملک کی مٹی ہمیں اپنے اندر جگہ دیتی ہے ہمیں اپنے آغوش میں سلا لیتی ہے۔ پروگرام کے اختتام پر حضور رفیق ملت حفظہ اللّٰه ورعاہ نے اس ملکِ ہندوستان و تمام حاضرین مجلس بالخصوص ہم تمام طالبان علوم نبویہ کے روشن مستقبل کے لیے خوب دعائیں کیں۔ اور ایک زور دار نعرے کے ساتھ پروگرام کا اختتام فرمایا۔

از قلم:::– محمد مجتدیٰ رضا خان احسنی
متعلم::- جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف
26 جنوری 2023 عیسوی

علامہ مفتی شیر محمد خانصاحب رضوی کی 53 سالہ خدمات کے سلسلے میں خصوصی نششت کا انعقاد و امام احمد رضا ایوارڈ تتفویض… رپورٹ :جمشیدخان قادری

جودھپور/مرکزی دینی درسگاہ ازہر راجستھان الجامعۃ الاسحاقیہ جودھپور کے وسیع وعریض احاطے میں آج صبح ہی صبح علماء وفضلاء کا ہجوم رواں دواں تھا شہر کی سیاسی سماجی کارکنان بھی رفتہ رفتہ جامعہ کی طرف قدم بڑھارہے تھے قریب 11.45 پہ ہمارا چھوٹا سا قافلہ جامعہ کےاندرونی واقع (اسحاقیہ اسکول)چوک میں وارد ہوا چاروں طرف سے بہترین سجاوٹ اور بیچوبیچ خالی اور کچھ علماء بیٹھے, کرسیاں اور سامنے چھوٹا مگر انتہائی خوبصورت اور دلآویز اسٹیج اپنے معزز مہمانوں کا منتظر تھا رفتہ رفتہ ضیوفِ باوقار اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ تشریف لارہے تھے اسٹیج کے پاس مندوبین خاص کی چند کرسیاں رکھی ہوئیں، یکایک مائیک اسٹارٹ ہوتا ہے اپنے معمول کے مطابق جامعہ کے شعبۂ حفظ کے استاذ حافظ وقاری مسیح الزماں صاحب اشفاقی کی آواز میں نظامت شروع ہوئی موقع تھا جانشین مفتئِ اعظم راجستھان علامہ شیرمحمد خان رضوی شیخ الحدیث الجامعۃ الاسحاقیہ جودھپور کی 53سالہ خدمات جلیلہ کے اعتراف واحترام میں ایک اعزاز واستقبالیہ پروگرام کا،
الغرض پروگرام شروع ہوا اور حمد ونعت مصطفی علیہ التحیۃ والثنا کے بعد جامعہ کے ایک مؤقر استاذ مصباح الفقہاء علامہ مفتی محمدعالمگیر صاحب قبلہ رضوی مصباحی نے شیر راجستھان کی ٥٣سالہ خدمات پر روشنی ڈالی، مصباحی صاحب نے فرمایا کہ حضرت شیر راجستھان نے گزشتہ نصف صدی سے زائد خطابت وتدریس وسیاسی سماجی خدمات انجام دی ہیں جنکوکبھی فراموش نہیں کیا سکتا مزید فرمایا کہ حضرت شیر راجستھان جیسی شخصیت زمانوں بعد تشریف لاتی ہے اور ایک عہد کو روشن وتابناک بنادیتی ہے بقول شاعر
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
خطابت کے نیرتاباں علامہ سید نور اشرف اشرفی نے حضرت جانشین مفتئی اعظم راجستھان کی خدمات پہ شاندارخطاب فرمایا جسے برسہا برس یاد رکھا جائیگا سید صاحب قبلہ نے فرمایا مفتی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت ساری خوبیوں سے نوازا ہے جن میں صرف چندکا یہاں ذکر کرنا مناسب ہی نہیں ضروری سمجھتا ہوں
خطابت ۔ہندوستان کے طول وعرض میں جس کی تقریر کا سلسلہ لمبا چلا ہے اور آج بھی چل رہا ہے الحمدللہ وہ ذات شیر راجستھان کی ہے جیسلمیر کے دھوروں سے لیکر کنیا کماری کی وادیوں تک اور باڑمیرکے ریگزاروں سے لےکر لکھنؤ کی علمی جولانیوں تک مفتی صاحب کے خطابت کا سکہ رائج الوقت ہے گجرات میں چند سال قبل
خطیب الہند کی موجودگی میں جو تقریر ہوئی وہ اگر بغدادکا راشٹر پتی بھی سنتا تو کلیجہ پھٹ جاتا
مصالحت ۔راجستھان میں کہیں افتراق وانتشار کے گرم جھونکے کہیں بھی سننے میں آتے ہیں تو مفتی شیر محمد خان صاحب قبلہ کی ذات مظہر اشفاق بن کر پہونچ جاتی ہے فریقین کی آپس میں صلح کراتی ہے 1968سے لےکر آج تک قال اللہ وقال الرسول وخطابت وفتوی نویسی جیسی خدمات انجام دی ہیں آنے والا مؤرخ سنہرے لفظوں میں آپ کو جگہ دےگا-
مولانا برکت صاحب اشرفی مدرس الجامعۃ الاسحاقیہ نے حضرت کی جودھپور میں کی گئی سماجی وقومی خدمات کا بحسن وخوبی تذکرہ کیا آپ نےدوران گفتگو کہا کہ جب کبھی بھی جودھپورمیں طوفان بداماں کی چنگاری لگی شیر راجستھان قبلہ نےسیاسی رہنماؤں کے ساتھ مل کر اس کو سرد کیا کئی ایک حوادث کا ذکر کرکے بتایا کہ مفتی شیر محمد صاحب قبلہ کی ذات راجستھان کے لئے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے حال ہی میں باڑمیر کے سیڑوا میں جماعت غوثیہ وجیلانیہ کی طرف سے مفتی صاحب کو ان کے ہم وزن سکوں میں تولا اور اس سے پہلے باڑمیر کے سانولور گاؤں میں حضرت مولانا علیم الدین اشفاقی کی سربراہی میں اسی طرح آپکی عزت افزائی کی گئی جس پر مولانا برکت صاحب نے شکریہ ادا کیا
باسنی سے تشریف لائے مفتئی اعظم باسنی مفتی ولی محمد صاحب ،قاری عبدالوحیدصاحب بانی و مہتمم فیضان اشفاق ناگور۔ حضرت سید محی الدین اشرفی جیلانی ناظم دارالعلوم فیاضیہ اور دارالعلوم کے علما وطلبہ ودیگر علماء وشہر کے ائمہ کے علاوہ سابق iGافسرجناب مراد علی ابڑا صاحب، صدر سندھی الحاج ابراہیم صاحب، سماجی کارکن اقبال بینڈ باکس، جناب خورشید صاحب، سابق کونسلر وسماجی کارکن جناب عبدالکریم جونی صاحب اور چھوٹو استاد کے علاوہ درجنوں علماء ومشائخ نے شرکت کی
اخیر میں عوام الناس نے ہار پھول پیش کرکے مفتی صاحب سے اپنی عقیدتوں کے خراج پیش کئے، غلامان اشرف سوسائٹی جودھپور کی جانب سے مفتئی اعظم راجستھان علامہ شیر محمدصاحب کو امام احمد رضا ایوارڈوسپاس نامہ پیش کیا گیا-

نیا سال گناہوں کا اانبار..تحریر: محمد مقصود عالم قادری اتر دیناجپور مغربی بنگال

ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ جیسے ہی پہلے مہینے کی پہلی تاریخ آتی ہے ہم جہاں ایک پرانے سال کو رخصت کر رہے ہوتے ہیں وہیں ایک نئے سال میں بھی قدم رنجہ ہوتے ہیں_ماضی میں نئے سال کی آمد پر مبارکبادی دینایا جشن منانے کاکوئی خاص تصور نہ تھا ،لیکن دور جدید میں یہ رجحان بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے اور جنگل میں آگ کی طرح مارڈن ذہنیت کے مالک افراد کو اپنی چپیٹ میں لے رہا ہے ،اسلامی نقطۂ نظر سے تونئے سال کی آمد پر خوشیاں منانا یا مبارکبادی دینا جائز ہے، کیوں کہ اس کے متعلق شریعت میں کوئی حکم امتناع صادر نہیں ہوا ہے لہذا جس چیز کی شریعت میں ممانعت نہ ہو وہ مطلقاً مباح اور جائز ہے ،
لیکن فی زمانہ نئے سال کی آمد پر جو مبارکبادی دینے اور جشن منانے کا جو رواج بد نہاد راہ پا چکا ہے یہ قطعاً جائز نہیں ہے ، بلکہ حرام اور سخت حرام ہے، کیونکہ ایسے موقعوں پر جشن اور خوشی کے نام پر گناہوں کا بازار گرم کیا جاتا ہے،
31 دسمبر کی رات جیسے ہی گھڑی میں 12:00بجتے ہیں توہر چہار جانب شوروغوغا،ہنگامہ میوزک ،گانا اور چیخ و پکار سے پورا علاقہ گونج اٹھتا ہے ،پھر سب کے سب ناچ گانے ،شراب نوشی اور مذاق مستی میں منہمک ہو جاتے ہیں ،اسی موقع پر جشن کے بہانے اجنبی لڑکے اور لڑکیاں ہوٹلوں اور پارکوں میں Haapy new year کہنے کے لیے ملتے ہیں، پھر بے حیائیوں کی کی تمام تر حدوں کو توڑ کر بدکاریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جس کے نتیجے میں طرح طرح کے گناہ خوشی خوشی انجام دئیے جاتے بے حیائی کی حدیں پار کی جاتی ہیں عورتوں کی عصمتیں تارتار کی جاتی ہیں
شعر:-ایک ہنگامۂ محشر ہو تو اس کو بھولوں
رہ رہ کے سیکڑوں باتوں کا خیال آتاہے
یہ سب کام پہلے یہود و نصارٰی، اور دیگر مذاہب کے لوگ کیا کرتے تھے لیکن افسوس!کہ آہستہ آہستہ مسلمان بھی اور خاص کراسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں انجام دینے نےلگے ہیں۔

مسلمانوں سے ایک سوال ہے کہ کیا ایسی خوشی بھی کوئی خوشی ہے جو اللہ تعالی کو ناراض کرنے والی اور جہنم میں لے جانے والی ہو؟
مسلمانوں کو تو چاہیئے کہ پچھلے سال کا محاسبہ کر کے اپنے گناہوں پر نادم ہوں اور آئندہ سال گناہوں کو ترک کرنے اور نیکی کرنے کا عزم مصمم کریں،اور اچھی اچھی دعائیں کریں، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے،نیے سال کے آنے کی خوشی میں اس طرح مشغول ہو جاتے ہیں کہ یہ بات بھول ہی جاتے ہیں کہ ایک سال ہماری زندگی کا کم ہوگیا، اب ہمیں نیکیاں کر کے آخرت کی تیاری کر لینی چاہیئے

شعر:-
دیوار زندگی سے ایک اور اینٹ گر گئی
نادان کہ رہاہے نیا سال مبارک

مسلمانوں نے یہود و نصاریٰ کی سازش سے بھرے ہوئے رسومات کو اپنا لیا، جبکہ ان میں نقصان وخسارہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، مسلمانوں کا تو نیا سال محرم الحرام ہے ،لیکن افسوس !کہ بہت سے مسلمان اسلامی نئے سال سے
آشنا بھی نہیں
اللہ عزوجل ہم سب کو امسال خوب خوب نیکیاں کر کے اپنے رب کو راضی کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم